نمسکار !
اس بار بجٹ سے پہلے آپ میں سےکئی ساتھیوں سے تفصیل سے بات ہوئی تھی۔اس بجٹ میں بھارت کو پھر سے اعلیٰ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے واضح روڈ میپ سامنے رکھا ہے۔ بجٹ میں بھارت کی ترقی میں پرائیویٹ سیکٹر کی مضبوط پارٹنرشپ پر بھی فوکس ہے۔ بجٹ میں پبلک پرائیویٹ حصے داری کے امکان اور اہداف کو وضاحت کے ساتھ سامنے رکھا گیا ہے۔ غیر سرمایہ کاری اور اثاثے کا مونیٹائزیشن اس کا ایک اہم پہلو ہے۔
ساتھیو!
جب ملک میں پبلک سیکٹر انٹر پرائزز شروع کئے گئے تھے تو دور الگ تھا اور ملک کی ضرورتیں بھی الگ تھیں۔ جو پالیسی 60-50سال پہلے کے لئے صحیح تھی، اس میں اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ آج جب ہم یہ اصلاحات کرر ہے ہیں تو ہمارا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ عوامی پیسے کا صحیح استعمال ہو۔
کئی ایسے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ہیں، جو خسارے کا سبب ہے ۔ ان میں سے کئی کو ٹیکس دہندہ کے پیسے کے ذریعے سپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرح سے جو غریب کے حق کا ہے، جذبے سے بھرے نوجوانوں کے حق کا ہے، اِن پیسوں کو ان انٹرپرائزز کے کاموں میں لگانا پڑتا ہے اور اس وجہ سے اقتصادیات پر بھی کئی قسم کا بوجھ پڑتا ہے۔پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو صرف اس لئے ہی نہیں چلاتے رہنا ہے، کیونکہ وہ اتنے برسوں سے چل رہے ہیں، کسی کے پیٹ پروجیکٹ رہے ہیں۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کسی خاص سیکٹر کی ضرورت کو پورا کررہے ہوں، کسی اسٹریٹیجک اہمیت سے وابستہ ہوں تو میں بات سمجھ سکتا ہوں اور اس کی ضرورت بھی سمجھ سکتا ہوں۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے انٹر پرائزز کو ، بزنسز کو پوری حمایت دے، لیکن سرکار خود انٹرپرائزز چلائیں ، اس کی مالک بنی رہیں، آج کے دور میں نہ یہ ضروری ہے ، نہ یہ ممکن رہا ہے۔ اس لئے میں کہتاہوں کہ بزنس میں رہنے کا حکومت کا کوئی بزنس نہیں ہے۔سرکار کا فوکس لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقی سے جڑے پروجیکٹوں پر ہی رہنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ سرکار کی طاقت ، وسائل ، استطاعت فلاحی کام کے لئے لگنی چاہئے۔وہیں سرکار جب بزنس کرنے لگتی ہے تو بہت طریقے سے نقصان بھی ہوتا ہے۔
فیصلہ سازی کے عمل میں سرکار کے سامنے کئی رُکاوٹیں ہوتی ہیں۔ سرکار میں معاشی فیصلے لینے کی ہمت کی کمی ہوتی ہے۔ ہر ایک کو الگ الگ قسم کے الزامات اور کورٹ کچہری کا بھی ڈر رہتا ہے اور اس لئے ایک سوچ رہتی ہے کہ جو چل رہا ہے ، اُسے چلنے دو، میری تو ذمہ داری بہت لمٹیڈ ٹائم کی ہے۔ میرے بعد جو آئے گا وہ دیکھے گا۔اس لئے یہ فیصلہ لیتا ہی نہیں ہے، جیسا چلتا ہے چلنے دیتا ہے۔
ایسی سوچ کے ساتھ بزنس نہیں ہوسکتا، آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جب سرکار بزنس کرنے لگتی ہے، تو اس کے وسائل کا دائرہ سمٹ جاتا ہے۔ سرکار کے پاس بہترین افسروں کی کمی نہیں ہوتی، لیکن ان کی ٹریننگ انتظامی امور کو چلانا ، پالیسی سے متعلق ضابطوں کی پیروی کرنا، عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر زور دینا، ان کے لئے ضروری پالیسیاں تیار کرنے اور اِ ن باتوں میں اُن کی ٹریننگ بھی ہوتی ہے اور اِس میں اُن کی مہارت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ زندگی کے لمبے عرصے تک لوگوں کے درمیان اس قسم کے کام کرتے کرتے وہ آگے آئے ہیں۔ یہ کام اتنے بڑے ملک میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔
لیکن جب سرکار بزنس کرنے لگتی ہے تو اسے ان کاموں سے نکال کرکے، ایسے ہونہارافسروں کو نکال کرکے اس طرف لے جانا پڑتا ہے۔ ایک طرح سے ہم اس کے ٹیلنٹ کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں، اس پبلک سیکٹر انٹرپرائز کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ نتیجتاً اس آدمی کا نقصان ہوتا ہے، اس انٹر پرائز کا نقصان ہوتا ہے اور اس لئے یہ ایک طرح سے ملک کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچاتا ہے۔ ہماری حکومت کی کوشش لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ہی لوگوں کی زندگی میں حکومت کے بے وجہ کے دخل کو بھی کم کرنا ہے۔ یعنی زندگی میں نہ سرکار کی کمی ہو، نہ سرکار کا اثر ہو۔
ساتھیو!
آج ملک میں سرکار کے کنٹرول میں بہت سارے کم استعمال شدہ اور غیر استعمال شدہ اثاثے ہیں۔اسی سوچ کے ساتھ ہم نے نیشنل ایسیٹ مونیٹائزیشن پائپ لائن کا اعلان کیا ہے۔تیل، گیس ، بندر گاہ، ایئرپورٹ، بجلی ایسے تقریباً 100 اثاثوں کو مونیٹائز کرنے کا ہدف ہم نے رکھا ہے۔ ان میں 2.5ٹریلین روپے کی سرمایہ کاری کا موقع ملنے کی امید ہے۔اورمیں یہ بھی کہوں گا کہ یہ کارروائی آگے بھی جاری رہے گی۔ سرکار جس منتر کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے، وہ ہے مونیٹائز اور ماڈرنائز۔
جب سرکار مونیٹائز کرتی ہے تو اس جگہ کو ملک کا پرائیویٹ سیکٹر بھرتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اپنے ساتھ سرمایہ کاری بھی لاتا ہے، گلوبل بیسٹ پریکٹسزبھی لاتا ہے۔ٹاپ کوالٹی کا مین پاور لاتا ہے ،مینجمنٹ میں بدلاؤ لاتا ہے، اس سے چیزیں اور ماڈرنائز ہوتی ہے۔ پورے سیکٹر میں جدیدیت آتی ہے۔ سیکٹر کا تیزی سے پھیلاؤ ہوتا ہے اور نوکری کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ پور اعمل شفاف رہے، ضابطوں کے تحت رہے، اس کے لئے مانیٹر کرنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ یعنی مونیٹائز اور ماڈرنائز کے ساتھ ہم پوری اقتصادیات کی اثر انگیزی کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔
ساتھیو!
سرکار کے فیصلوں کی وجہ سے جو رقم ملے گی، اس کا استعمال عوامی فلاح وبہبود کی اسکیموں میں کیا جاسکے گا۔ اثاثوں کے مونیٹائزیشن اور پرائیویٹائزیشن سے جو پیسہ آتا ہے، اس سے غریب کا گھر بنتا ہے، وہ پیسہ گاؤں میں سڑک بنانے کے کام آتا ہے، وہ پیسہ اسکول کھولنے میں کام آتا ہے، وہ پیسہ غریب تک صاف پانی پہنچانے کے کام آتا ہے۔ عام انسانوں سے جڑے ایسے کتنے ہی کام ہوتے ہیں۔ آزادی کے اتنے سال بعد بھی ہمارے ملک میں اس طرح کی کمیاں ہیں۔اب ملک اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرسکتا ۔
ہماری ترجیح ہے ملک کا عام شہری، اس کی ضروریات، وہ رہنی چاہئے۔سرکار اس سمت میں تیزی سے کام کررہی ہے، اس لئے اثاثوں کی مونیٹائزیشن اور پرائیویٹائزیشن سے جڑا ہر فیصلہ ملک میں شہریوں کےلئے چاہے وہ غریب ہو، متوسط طبقے کا ہو، نوجوان ہو، عورت ہو، کسان ہو، مزدور ہو ان کو بااختیار بنانے میں مدد کرے گا۔ پرائیویٹائزیشن سے باصلاحیت نوجوانوں کے لئے بہتر مواقع بھی دستیاب ہوتے ہیں۔نوجوانوں کو اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کےلئے زیادہ موقع ملتے ہیں۔
ساتھیو!
ملک کے ہر انٹر پرائز کو اثر انگیز بنانے کےلئے شفافیت ، جواب دہی، قانون کی بالادستی، پارلیمانی دور اندیشی اور مضبوط سیاسی قوت ارادی آج آپ واضح طورپر محسوس کرتے ہوں گے۔ اس بجٹ میں پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے لئے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے، اس میں بھی ہمارا یہ ارادہ صاف صاف نظر آتا ہے۔
چار اسٹریٹیجک سیکٹرز کے علاوہ باقی سارے پی ایس ای کے پرائیویٹائزیشن کو لے کر سرکار پابند عہد ہے۔ اسٹریٹیجک سیکٹر میں بھی کم از کم پی ایس ای رہے، جتنی ضرورت ہو اتنے رہیں، یہ بھی ہم نے صاف کیا ہے۔ یہ پالیسی سالانہ غیر سرمایہ کاری اہداف سے آگے بڑھ کر وسط مدتی اسٹریٹیجک اَپروچ رکھتے ہوئے انفرادی کمپنیوں کے انتخاب میں مدد کرے گی۔
اس سرمایہ کاری کا بھی ایک واضح روڈ میپ بنے گا، اس سے ہر سیکٹر میں آپ کےلئے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور بھارت میں روز گار کے بھی بے پناہ امکانات بنیں گے۔ اور میں یہ بھی کہوں گا کہ یہ سب قیمتی اثاثے ہیں۔ ان چیزوں نے ملک کی بہت خدمت کی ہے اور آگے بھی بہت سے امکانات سے بھری پڑی ہیں۔ ہم کئی بار دیکھا ہے کہ جب مینجمنٹ بدلتا ہے تو اکائیاں نئی اونچائیاں چھوتی ہیں۔ آپ سب لوگ دور حاضر سے نہیں، بلکہ مستقبل کے جو امکانات پوشیدہ ہیں، اس سے اس کا تجزیہ کریں۔ اورمیں ان کے تابناک مستقبل کو بہتر طورسے دیکھ پاتا ہوں۔
ساتھیو!
آج جب ہماری سرکار پوری ایمانداری کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے تو اس سے جڑی پالیسیوں کا نفاذ اُتنا ہی اہم ہے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کےلئے ، مقابلہ آرائی کو یقینی بنانے کےلئے ، ہمارے طور طریقے صحیح رہیں، پالیسیاں مستحکم رہیں، یہ بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے ایک تفصیلی روڈ میپ کے ساتھ ہی مناسب قیمت کی دریافت اور اسٹیک ہولڈر میپنگ کے لئے ہمیں دنیا کی بیسٹ پریکٹسز سے سیکھنا ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جو فیصلے لیے جارہے ہیں، وہ لوگوں کے لئے تو فائدہ مند ہوں ہی، اس سیکٹر کی ترقی میں بھی مدد کریں۔
ساتھیو!
دسمبر میں ورچوئل گلوبل انویسٹر سمٹ میں آپ میں سے کئی لوگوں نے خود مختار اور انفراسٹرکچر فنڈز کے لئے ٹیکس میں بہتری جیسی کچھ باتیں میرے سامنے رکھی تھیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ اس بجٹ میں اس کا حل نکالاجاچکا ہے۔ ملک کے کام کرنے کی رفتار کو آج آپ محسوس کرتے ہوں گے۔عمل کاریوں کو تیز کرنے کےلئے ہم نے ایک سیکریٹریوں کا بااختیار گروپ بنایا ہے، جو انویسٹر کے سسٹم سے جڑے مسائل کو تیزی سے دور کرتا ہے۔ اسی طرح متعدد مشوروں کی بنیاد پر ہم نے بڑے سرمایہ کاروں کو قدم قدم پر مدد کرنے کےلئے ایک سنگل پوائنٹ آف کانٹیکٹ کا سسٹم بھی بنایا ہے۔
ساتھیو!
گزشتہ برسوں میں ہماری سرکار نے بھارت کو بزنس کے لئے ایک اہم منزل بنانے کےلئے لگاتار اصلاحات کی ہیں۔ آج بھارت ون مارکیٹ-ون ٹیکس سسٹم سے لیس ہے۔ آج بھارت میں کمپنیوں کےلئے داخل اور خارج ہونے کےلئے بہترین ذرائع دستیاب ہیں۔ بھارت میں تعمیل سے دوری پیچیدگیوں کو لگاتار درست کیا جارہا ہے۔ لاجسٹکس کو لے کر آنے والے مسائل کو تیز رفتار سے دور کیا جارہا ہے۔ آج بھارت میں ٹیکس سسٹم کو آسان کیا جارہا ہے، شفافیت پر زور دیا جارہا ہے۔ بھارت ان ممالک میں ہے، جہاں ٹیکس ادا کرنے والوں کے حقوق کو کوڈیفائی کیا گیا ہے۔ لیبر قوانین کو بھی اب آسان کیا جاچکا ہے۔
ساتھیو!
بیرونی ممالک سے جو ساتھی ہمارے ساتھ آج جڑے ہیں، ان کے لئے تو ایک طرح سے بھارت میں نئے مواقع کا کھلا آسمان ہے۔ آپ بھی واقف ہیں کہ ایف ڈی آئی کو لے کر بھارت نے اپنی پالیسی میں کس قسم کی غیر معمولی اصلاحات کی ہیں۔ ایف ڈی آئی فرینڈلی ماحول اور پروڈکشن سے جڑی رعایتوں کے سبب آج سرمایہ کاروں میں بھارت کے تئیں جذبہ مزید بڑھا ہے۔ یہ پچھلے کچھ مہینوں میں ہوئے ریکارڈ ایف ڈی آئی اِن فلو میں واضح طورپر نظر بھی آتا ہے۔ آج کاروبار کرنے میں آسانی صرف مرکزی حکومت تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہماری ریاستوں میں بھی اس کے لئے صحت مند مقابلہ آرائی ہورہی ہے۔یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔
ساتھیو!
آتم نر بھر بھارت کے لئے ماڈرن انفراسٹرکچر پر، ملٹی ماڈل کنکٹی وٹی پر تیزی سے کام کیا جارہا ہے۔اپنے انفراسٹرکچر کو اَپ گریڈ کرنے کےلئے آنے والے پانچ سالوں میں 111ٹریلین روپے کی نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن پر ہم کام کررہے ہیں۔ اس میں بھی پرائیویٹ سیکٹر کےلئے تقریباً 25 ٹریلین روپے کی سرمایہ کاری کے امکانات ہیں۔ یہ انفراسٹرکچر پروجیکٹس ہمارے یہاں روزگار اور ڈیمانڈ میں بھی اضافہ کرنے والے ہیں۔ مجھے اس با ت کا بھی احساس ہے کہ کئی سرمایہ کار بھارت میں اپنا پہلا آفس کھولنے کی سوچ رہے ہیں۔
ایسے تمام ساتھیوں کا خیر مقدم ہے اور میرا مشورہ ہے گفٹ سٹی میں انٹرنیشنل فائنانشیل سینٹر سے بہت مدد ملے گی۔ اس سینٹر کو بین الاقوامی سطح پر قابل موازنہ ریگولیٹری فریم ورک کے تحت گورن کیا جائے گا۔ یہ آپ کےلئے کام کرنے کی ایک بہترین بنیاد ہو سکتا ہے۔ایسی ہی متعدد پلگ اینڈ پلے سہولیات بھارت میں دینے کے لئے ہم تیزی سے کام کررہے ہیں۔
ساتھیو!
یہ دور بھارت کی ترقی کی سفر میں نئے باب کی شروعات کرے گا۔ جو فیصلے اب لیے گئے ہیں، جن اہداف کی طرف ملک بڑھ رہا ہے، ان اہداف کی حصولیابی پورے پرائیویٹ سیکٹر پر بھروسہ کو مزید بڑھائے گی۔ دنیا کے سب سے بڑے نوجوان ملک کی یہ تمنا ئیں صرف سرکار سے ہی نہیں ہے، بلکہ پرائیویٹ سیکٹر سے بھی اتنی ہی ہیں۔ یہ جذبہ بزنس کا ایک بہت بڑا موقع لے کر آیا ہے۔
آئیے ہم سبھی ان مواقع کا استعمال کریں۔ ایک بہتر دنیا کے لئے آتم نربھربھارت کی تعمیر میں تعاون کریں اور اتنی بڑی تعداد میں آج آپ اس مذاکرے میں شامل ہوئے ہیں، اس لئے میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کے پاس گہرا تجربہ ہے، ملک اور دنیا کا تجربہ ہے، آپ کے بہتر مشورے ہم لوگوں کو ان چیزوں کو تیز رفتار سے آگے بڑھانے میں بہت مدد کریں گے۔ میری آپ سے گزارش ہوگی بجٹ میں جو باتیں آچکی ہیں، سرکار نے جوپالیسی طے کی ہے، جن باتوں کا میں نے آج ذکر کرنے کی کوشش کی ہے، مجھے آپ کی مدد چاہئے فوراً ، تیز رفتار سے نافذ کرنے کا روڈ میپ بنانے میں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب کا تجربہ ، آپ کا علم ، آپ کی صلاحیت بھارت کی اس امید اور تمنا دونوں مل کر ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنے کی طاقت پیدا کرتے ہیں۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں، آپ کے مشوروں کا انتظار کرتاہوں۔