نئی دہلی،03 اکتوبر ، 2020 / مرکزی وزرا کی کونسل کے میرے ساتھی جناب راج ناتھ سنگھ، ہماپل پردیش کے ہر دل عزیز وزیراعلیٰ بھائی جے رام ٹھاکر جی، ہماچل سے ہی رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر میرے ساتھی، ہماچل کا چھوکرا جناب انوراگ ٹھاکر جی، مقامی ایم ایل اے، ممبران پارلیمنٹ اور ہماچل سرکار میں وزیر بھائی گووند ٹھاکر جی، دیگر وزراء، دیگر ممبران، ممبران اسمبلی ، بہنوں اور بھائیوں۔
توسا سے بھی رے، اپنے پیارے اٹل بہاری باجپئی جی ری سوچا رے بدولت،
کلّو، لاہول ، لیہ – لداخ رے لوکا ری تیئیں اے سرنگ را تحفہ، توسا سے بھی وے میلو۔
توسا سے بھی وے بہت – بہت بدھائی ہور مبارک۔
ماں ہڈمبا کی، رشی – مُنیوں کی ریاضت کی جگہ جہاں 18 کروڑ یعنی گاؤں- گاؤں دیوتاؤں کی زندگی اور انوکھی روایت ہے، ایسی دیوتاں کی سرزمین کو میں سلام کرتا ہوں، نمن کرتا ہوں۔ اور کنچن ناگ کی یہ سرزمین، ابھی جے رام جی ہمارے وزیراعلیٰ جی بیان کر رہے تھے ، پیراگلائیڈنگ کے میرے اس شوق کا۔ اچھا تو لگتا تھا اڑنے کا لیکن جب پوری کٹ اٹھا کر کے اوپر تک جانا پڑتا تھا تو دم اکھڑ جاتا تھا۔ اور ایک بار شاید دنیا میں اور کسی نے کیا ہوگا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں۔ اٹل جی منالی آئے تھے، میں یہاں تنظیم کی انتظامات سنبھالنے والا شخص تھا تو ذرا پہلے آیا تھا۔ تو ہم نے ایک پروگرام بنایا۔ 11 پیراگلائیڈرس، پائلٹس ایک ساتھ منالی کے آسامان میں ، اور جب اٹل جی پہنچے تو سب نے پھولوں کی بارش کی تھی۔ شاید دنیا میں پیراگلائیڈنگ کا ایسا استعمال پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ لیکن جب شام کو میں اٹل جی سے ملنے گیا تو کہہ رہے تھے ، بھائی بہت ہمت کر رہے ہو، ایسا کیوں کرتے ہو۔ لیکن وہ دن میرے منالی کی زندگی میں بھی ایک بڑا صحیح موقع بن گیا تھا کی پیراگلائیڈنگ سے پھولوں کی بارش کر کے واجپئی جی کے استقبال کا تصور بہت دلچسپ تھا۔
ہماچل کے میرے پیارے بھائیوں، بہنوں، آپ سبھی کو اٹل سرنگ کو عوام کے لیے وقف کرنے کی بھی آج بہت بہت مبارکباد ۔ اور جیسا میں نے پہلے کہا اس جگہ پر بھلے ہی آج اجتماع ہو رہا ہو اور میں تو دیکھ رہا ہوں سوشل ڈسٹینسنگ کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ دور – دور تک سب برابر سوشل ڈسٹینسنگ کر کے اور اپنا ہاتھ اٹھا کر مجھے آج ان سب کو بھی سلام کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ جگہ میری جانی پہچانی جگہ ہے۔ ویسے میں ایک جگہ پر زیادہ وقت رکنے والا شخص نہیں ہوتا تھا بہت تیزی سے دورا کرتا تھا۔ لیکن جب اٹل جی آتے تھے تو جتنے دن رکتے تھے، میں بھی رک جاتا تھا، تو مجھے بھی یہاں کافی نزدیکی کا احساس آپ سب سے ہوتا تھا۔ اب، تب ان کے ساتھ ، تب ان کے ساتھ منالی کے ، ہماچل کی ترقی کے لیے کئی بار تبادلۂ خیال ہوتی تھی۔
اٹل جی یہاں کے بنیادی ڈھانچے ، یہاں کی کنیکٹیویٹی اور یہاں کی سیاحتی صنعت کی خاصی فکر بھی کرتے تھے۔
وہ اکثر اپنی ایک مشہور نظم سنایا کرتے تھے۔ منالی والوں نے تو ضرور بار – بار سنی ہے اور سوچیے، جنہیں یہ جگہ اپنے گھر جیسی لگتی ہو، جنہیں پرینی گاؤں میں وقت گزارنا اتنا اچھا لگتا ہو، جو یہاں کے لوگوں سے اتنی محبت کرتے ہوں، وہی اٹل جی کہتے تھے، اپنی نظم میں وہ کہتے تھے –
منالی مت جائیو،
راجا کے راج میں۔
جائیو تو جائیو،
اُڑیکے مت جائیو،
اَدھر میں لٹکی ہو،
وایو دوت کے جہاز میں۔
جائیو تو جائیو،
سندیسا نا پائیو،
ٹیلی فون بگڑے ہیں،
مردھا مہاراج میں۔
ساتھیوں،
منالی کو بہت زیادہ پسند کرنے والے اٹل جی کی یہ شدید خواہش تھی، کہ یہاں حالات بدلیں، یہاں کی کنیکٹیویٹی بہتر ہو۔ اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے روہتانگ میں سرنگ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
مجھے خوشی ہے کہ آج اٹل جی کا یہ عزم پورا ہو گیا ہے۔ یہ اٹل سرنگ اپنے اوپر بھلے ہی اتنے بڑے پہاڑ کا (یعنی تقریباً 2 کلو میٹر اونچا پہاڑ اس سرنگ کے اوپر ہے) بوجھ اٹھائے ہے۔ جو بوجھ کبھی لاہول – اسپیتی اور منالی کے لوگ اپنے کندھے پر اٹھاتے تھے، اتنا بڑا بوجھ آج اس سرنگ نے اٹھایا ہے اور اس سرنگ نے یہاں کے شہریوں کو ایک طرح سے بوجھ سے آزاد کر دیا ہے۔ عام لوگوں کا ایک بڑا بوجھ کم ہونا، ان کا لاہول – اسپیتی آنا جانا بہت آسان ہونا اپنے آپ میں اطمینان، فخر اور خوشی کی بات ہے۔
اب وہ دن بھی دور نہیں جب سیاح کلو – منالی سے خالص گھی کا ناشتہ کر کے نکلیں گے اور لاہول میں جاکر ’دو-مار’ اور ’چلڑے‘ کا لنچ کر پائیں گے۔ یہ پہلے ممکن نہیں تھا۔
ٹھک ہے، کورونا ہے، لیکن اب آہستہ – آہستہ ملک ان لاک بھی تو ہو رہا ہے۔ مجھے امید ہے، اب ملک کے دیگر شعبوں کی طرح سیاحت بھی آہستہ – آہستہ رفتار حاصل کر لے گا اور بڑے شان سے کلو کے دشہرے کی تیاری تو چلتی ہی چلتی ہوگی۔
ساتھیوں،
اٹل سرنگ کے ساتھ – ساتھ ہماچل کے لوگوں کے لیے ایک اور بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حمیر پور میں 66 میگا واٹ کے دھولا سِدھ ہائیڈرو پروجیکٹ کو منظوری دے دی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ سے ملک کو بجلی تو ملے گی ہی، ہماچل کے دیگر نوجوانوں کو روزگار بھی حاصل ہوگا۔
ساتھیوں،
جدید بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا جو مہم پورے ملک میں چل رہا ہے، اس میں بہت بڑی حصہ داری ہماچل پردیش کو بھی ہے۔ ہماچل میں دیہی سڑکیں ہوں، شاہراہ ہوں، بجلی پروجیکٹ ہوں، ریل کنکٹیویٹی ہو، ہوائی کنکٹیویٹی ہو، اس کے لیے متعدد منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔
چاہے کرتپور – کلو- منالی روڈ راہداری ہو، جیرک پور – پروانو- سولن- کیتھل گھاٹ راہداری ہو، ناگل ڈیم- تلواڑا ریل رابطہ ہو، بھانو پلّی- بلاس پور بیری ریل رابطہ ہو، سبھی پر تیز رفتار سے کام جاری ہے۔ کوشش یہی ہے کہ یہ پروجیکٹس جلد سے جلد مکمل ہوکر ہماچل کے لوگوں کی خدمت کرنا شروع کریں۔
ساتھیوں،
ہماچل پردیش کے لوگوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے سڑک، بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ – ساتھ موبائل اور انٹرنیٹ کنکٹیویٹی بھی بہت ضروری ہے۔ اور جو سیاحتی مقام ہوتے ہیں وہاں پر آج کل یہ بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہماچل کے مختلف جگہوں پر نیٹ ورک کی پریشانی ہوتی رہتی ہے۔ اس کا مستقل حل کرنے کے لیے حال ہی میں ملک کے 6 لاکھ گاوؤں میں آپٹیکل فائبر بچھانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ آنے والے 1 ہزار دنوں میں یہ کام مشن موڈ پر مکمل کیا جانا ہے۔ اس کے تحت گاؤں – گاؤں میں وائی فائی ہاٹ اسپاٹ بھی لگیں گے اور گھروں کو انٹرنیٹ کنکشن بھی دستیاب ہوگا۔ اس سے ہماچل پردیش کے بچوں کی تعلیم، مریضوں کی دوائی اور سیاحت سے کمائی ، ہر طرح سے فائدہ ہونے والا ہے۔
ساتھیوں،
حکومت کی یہ مستقل کوشش ہے کہ عام لوگوں کی پریشانی کس طرح کم ہو اور اسے، اس کے حق کا پورا فائدہ کیسے ملے اور اس کے لیے تقریباً سبھی سرکاری خدمات کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے۔ اب تنخواہ، پنشن جیسی متعدد سہولیات کے لیے بار بار دفتروں کے چکر نہیں کاٹنے پڑتے۔
پہلے ہماچل کے دور – دراز کے علاقوں سے صرف دستاویز کے تصدیق کے لیے ہمارے نوجوان ساتھی، ریٹائرڈ لوگ، افسروں اور لیڈروں کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔ اب دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت کو بھی ایک طرح سے ختم کر دیا ہے۔
آپ یاد کیجیے، پہلے بجلی اور ٹیلی فون کے بل کی ادائیگی کے لیے پورا دن لگ جاتا تھا۔ آج یہ کام آپ گھر بیٹھے ایک کلک پر انگلی دبا کر کر پا رہے ہیں۔ اب بینک سے وابستہ متعدد سہولیات ، جو بینک میں جاکر ہی ملتی تھیں، وہ بھی اب گھر بیٹھے ہی ملنے لگی ہیں۔
ساتھیوں،
ایسی بہت سی اصلاحات سے وقت کی بھی بچت ہورہی ہے، پیسہ بھی بچ رہا ہے اور بدعنوانی کی گنجائش ختم ہوئے ہیں۔ کورونا بحران ہی ہماچل پردیش کے 5 لاکھ سے زیادہ پنشنر اور تقریباً 6 لاکھ بہنوں کے جن دھن کھاتوں میں سینکڑوں کروڑ روپے ایک کلک میں جمع کیے گیے ہیں۔ سوا لاکھ سے زیادہ غریب بہنوں کو اجولا کا مفت سلینڈر مل پایا ہے۔
ساتھیوں،
ملک میں آج جو اصلاحات کی جا رہی ہیں، انہوں نے ایسے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے جنہوں نے ہمیشہ صرف اپنے سیاسی مفاد کے لیے کام کیا ہے۔ صدی بدل گئی لیکن ان کی سوچ نہیں بدلی۔ اب صدی بدل گئی ہے سو چ بھی بدلنی ہے اور نئی صدی کے حساب سے ملک کو بھی بدلنا ہے۔ آج جب ایسے لوگوں کے ذریعے بنائے گئے بچولیوں اور دلالوں کے نظام پر حملہ ہو رہا ہے تو وہ بوکھلا گئے ہیں ۔ بچولیوں کو بڑھاوا دینے والوں نے ملک کے کسانوں کی حالات کیا کر دی تھی، یہ ہماچل کے لوگ بھی اچحی طرح جانتے ہیں۔
یہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ ہماچل ملک کے سب سے بڑے پھل پیدا کرنے والی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے ٹماٹر، مشروم جیسی سبزیاں بھی دیگر شہروں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ لیکن حالات کیا رہے ہیں؟ کللو کا، شملہ کا یا کنّور کا جو سیب کسان کے باغ سے 50-40 روپئے کلو کے حساب سے نکلتا ہے، وہ دلی میں رہنے والوں کے گھروں میں تقریباً 150-100 روپئے تک پہنچتا ہے ۔ درمیان کا تقریباً 100 روپئے کا جو حساب ہے، نہ تو کبھی کسان کو ملا اور نہ کبھی وہ خریدنے والے کو ملا، تو وہ گیا کہاں؟ کسان کا بھی نقصان اور شہر میں لے کر کے خرید کرنے والے کا بھی نقصا۔ یہی نہیں، یہاں کے باغبان ساتھی جانتے ہیں کہ سیب کا سیزن جیسے – جیسے پیک پر جاتا ہے، تو قیمتیں دھڑام سے گر جاتی ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مار ایسے کسانوں پر پڑتی ہے، جن کے پاس چھوٹے باغیچے ہیں۔
ساتھیوں،
زرعی اصلاحات کے قوانین کی مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ صورتحال کو جوں کا توں رکھو، پچھلی صدی میں جینا ہے جینے دو، لیکن ملک آج تبدیلی کے لیے عہدبند ہے۔ اور اس لیے ہی زرعی شعبے کی ترقی کے لیے قوانین میں تاریخی اصلاح کی گئی ہے اور یہ جو اصلاحات ہیں وہ انہوں نے بھی پہلے سوچے تھے، وہ بھی جانتے تھے، سوچ تو ان کی بھی تھی، ہماری بھی، لیکن ان میں ہمت کی کمی تھی، ہمارے میں ہمت ہے۔ ان کے لیے انتخاب سامنے تھے، ہمارے لیے ملک سامنے ہے، ہمارے لیے ہمارے ملک کا کسان سامنے ہے، ہمارے لیے ہمارے ملک کے کسان کا روشن مستقبل سامنے ہے اور اس لیے ہم فیصلے کر کے آگے کسان کو لے جانا چاہتے ہیں۔
اب اگر ہماچل کے چھوٹے – چھوٹے باغبان، کسان گروپ بنا کر اپنے سیب دوسری ریاستوں میں جاکر براہ راست بیچنا چاہے، تو انہیں وہ آزادی مل گئی ہے۔ ہاں اگر ان کو مقامی منڈی میں فائدہ ملتا ہے، پہلے کے نظام سے فائدہ ملتا ہے تو وہ متبادل تو ہے ہی، اس کو کسی نے ختم نہیں کیا ہے۔ یعنی ہر طرح سے کسانوں – باغبانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ اصلاحات کی گئی ہیں۔
ساتھیوں،
مرکزی حکومت کسانوں کی آمدنی میں اضافہ، زراعت سے متعلق ان کی چھوٹی – چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عہدبند ہے۔ پی ایم کسان سمان نیدھی کے تحت ملک کے تقریباً سوا 10 کروڑ کسان، ان کنبوں کے کھاتے میں اب تک تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپئے جمع کیا جا چکا ہے۔ اس میں ہماچل کے سوا 9 لاکھ کسان کنبوں کے بینک کھاتوں میں بھی تقریباً 1000 کروڑ روپئے جمع کیے گیے ہیں۔
تصور کیجیے اگر پہلے کی حکومتوں کے وقت 1000 کروڑ روپے کا ہماچل کے لیے کوئی پیکیج کا اعلان ہوتا تو وہ پیسہ معلوم نہیں کہاں – کہاں، کس کس کی جیب میں پہنچ جاتا؟ اس پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کتنی کوششیں ہوتیں؟ لیکن یہاں چھوٹے کسانوں کے کھاتے میں یہ روپے چلے گئے اور کوئی شور نہیں ہوا۔
ساتھیوں،
حال ہی میں ایک اور بڑی اصلاح ملک میں ہماری محنت کی قوت کو، خاص طور سے بہنوں اور بیٹیوں کو اختیار دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ ہماچل کی بہنیں اور بیٹیاں تو ویسے بھی ہر شعبے میں ، مشکل سے مشکل کام کرنے میں آگے رہتی ہیں۔ لیکن ابھی تک حالات یہ تھی کہ ملک میں مختلف شعبے ایسے تھے، جن میں بہنوں کو کام کرنے کی ممانعت تھی۔ حال ہی میں جو مزدوری کے قوانین میں اصلاح کی گئی ہے، ان سے اب خواتین کو بھی تنخواہ سمیت کام تک کے وہ سبھی حق دے دیئے گئے ہیں، جو مردوں کے پاس پہلے سے ہیں۔
ساتھیوں،
ملک کے ہر شعبے، ہرشہری کی خود اعتمادی کو بیدار کرنے کے لیے، خود کفیل بھارت بنانے کے لیے، اصلاحات کا سلسلہ لگاتار چلتا رہے گا۔ پچھلی صدی کے اسالیب و قوانین سے اگلی صدی میں نہیں پہنچ سکتے۔ سماج اور انتظام میں معنی خیز تبدیلیوں کے مخالفین جتنی بھی اپنے مفاد کی سیاست کر لیں، یہ ملک رکنے والا نہیں ہے۔
ہماچل ، یہاں کے ہمارے نوجوان، ملک کے ہر نوجوان کے خواب اور آرزوئیں ہمارے نزدیک سب سے اہم ہیں۔ اور انہیں امکانات کے سلسلے میں ہم ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانے پر لگے رہیں گے۔
ساتھیوں،
میں آج پھر ایک بار اٹل سرنگ کے لیے ، اور آپ تصور کر سکتے ہیں اس سے کتنی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ کتنے امکانات کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اس کا جتنا فائدہ ہم اٹھائیں۔
میری آپ سب کو بہت – بہت مبارکباد ۔ بہت بہت نیک خواہشات۔
کورونا کا دور ہے، ہماچل نے حالات کو بہت بہتر طریقے سے سنبھالا ہے۔ لیکن پھر بھی اس انفیکشن سے خود کو محفوظ رکھیں۔
دیوتاؤں کی زمین کو سلام کرتے ہوئے، کنچن ناگ جی کی اس سرزمین کو سلام کرتے ہوئے، آپ سب سے پھر سے ایک بار ملنے کا ، دیدار کرنے کا موقع ملا۔ اچھا ہوتا کہ کورونا کا دور نہ ہوتا تو بڑی محبت سے آپ لوگوں سے ملتا، بہت سے متعارف چہرے میرے سامنے ہیں۔ لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ نہیں مل پا رہا ہوں، لیکن آپ کے دیدار کا مجھے موقع مل گیا، یہ بھی میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ مجھے یہاں سے فوراً نکلنا ہے، اس لیے آپ سب کی اجازت لیتے ہوئے، آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے بہت بہت شکریہ۔