صرف ٹھوس بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں، بلکہ اپنے کردار کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ آج ہمارا ہدف ہے: وزیر اعظم
بھارت کی اکیسویں صدی کی ضروریات کو بیسویں صدی کے طور طریقے سے پورا نہیں کیا جا سکتا: وزیر اعظم
سائنس سٹی میں تفریحی سرگرمیاں موجود ہیں جو بچوں کو تخلیقی رویے کی جانب مائل کرتی ہیں: وزیر اعظم
ہم نے ریلوے کی تعمیر صرف سروس کے طور پر نہیں بلکہ اثاثہ کے طور پر بھی کی ہے: وزیر اعظم
ٹائر 2 اور ٹائر 3 شہروں کے ریلوے اسٹیشن بھی جدید ترین سہولیات سے لیس ہیں: وزیر اعظم

نمسکار،

کابینہ کے میرے ساتھی اور گاندھی نگر کے رکن پارلیمنٹ جناب امت شاہ جی، ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی جی، نائب وزیر اعلیٰ نتن بھائی، ریلوے کی مرکزی وزیر مملکت محترمہ درشنا زردوش جی، حکومت گجرات کے دیگر وزراء، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور گجرات ریاستی بی جے پی کے صدر جناب سی آر پاٹل جی، دیگر اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور میرے عزیز بھائیو اور بہنو، آپ سب کو نمسکار۔

آج کا دن، اکیسویں صدی کے بھارت کی تواقعات کا، نوجوان بھارت کے جذبات اور امکانات کی بہت بڑی علامت ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ہو، بہتر شہری لینڈ اسکیپ ہو یا پھر کنیکٹیوٹی کا جدید بنیادی ڈھانچہ، نئے بھارت کی نئی پہچان میں آج ایک اور کڑی جڑ رہی ہے۔ میں نے یہاں دہلی سے تمام پروجیکٹوں کی رونمائی تو کی ہے، لیکن ان کو بالمشافہ دیکھنے کی خواہش کا میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں موقع دیکھتے ہی خود بھی اسے دیکھنے کے لئے آؤں گا۔

بھائیو اور بہنو،

آج ملک کا ہدف صرف کنکریٹ کے ڈھانچے کھڑا کرنا نہیں ہے، بلکہ آج ملک میں ایسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہورہی ہے جن کی اپنی ایک خصوصیت ہو۔ بہتر پبلک اسپیس ہماری لازمی ضرورت ہے۔ اس طرح سے کبھی پہلے سوچا نہیں جاتا تھا۔ ہماری ماضی کی شہری منصوبہ میں اس کو بھی ایک طرح سے عیش و عشرت کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کمپنیوں کی تشہیر کا فوکس کیا ہوتا ہے۔ پارک کے روبرو گھر یا پھر سوسائٹی کے مخصوص پبلک اسپیس کے اردگرد ہوتا ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ہمارے شہروں کی ایک بڑی آبادی معیاری پبلک اسپیس اور معیاری عوامی زندگی سے محروم رہی ہے۔ اب شہری ترقیات کی پرانی سوچ کو درکنار کرتے ہوئے ملک جدیدیت کی سمت میں گامزن ہے۔

ساتھیو،

احمدآباد میں سابرمتی کا کیا حال تھا، یہ کون بھول سکتا ہے؟ آج وہاں پانی کی دھار کے ساتھ ساتھ ریور فرنٹ، پارک، اوپن جم، سی پلین، یہ سب ہماری خدمت میں دستیاب ہے۔ یعنی ایک طرح سے پورا ماحولیاتی نظام بدل چکا ہے۔ یہی بدلاؤ کانکریا میں کیا گیا ہے۔ پرانے احمدآباد کی ایک جھیل اتنی چہل پہل کا مرکز بن جائے گی، یہ پہلے کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔

ساتھیو،

بچوں کی فطری نشوونما کے لئے تفریح کے ساتھ ساتھ ان کے سیکھنے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی موقع ملنا چاہئے۔ سائنس سٹی ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو ری کریئیشن اور کریئیٹیوٹی یعنی تفریح اور تخلیقی صلاحیت کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس میں ایسی تفریحی سرگرمیاں ہیں جو بچوں میں تخلیقیت کو فروغ دیتی ہیں۔ اس میں کھیل کود ہے، موج مستی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بچوں کو کچھ نیا سکھانے کا پلیٹ فارم بھی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے، بچے اکثر ماں باپ سے روبوٹس اور جانوروں کے بڑے کھلونوں کی مانگ کرتے ہیں۔ کچھ بچے کہتے ہیں کہ گھر میں ڈائناسور لے آؤ، کوئی شیر پالنے کی زد کرنے لگتا ہے۔ اب والدین یہ سب کہاں سے لائیں؟ بچوں کو یہ متبادل ملتا ہے سائنس سٹی میں۔ جو یہ نیا نیچر پارک بنا ہے، یہ خاص طور سے میرے ننھے ساتھیوں کو بہت پسند آنے والا ہے۔ اتنا ہی نہیں، سائنس سٹی میں بنی ایکویٹکس گیلری، وہ تو اور بھی لطف دینے والی ہے۔ یہ ملک کے ہی نہیں بلکہ ایشیا کے چوٹی کے ایکویریم میں سے ایک ہے۔ ایک ہی جگہ پر دنیا بھر کے سمندری حیاتیاتی تنوع کا دیدار اپنے آپ میں انوکھا احساس دینے والا ہے۔

वहींRobotics Galleryमें रोबोट्स के साथ बातचीत आकर्षण का केंद्र तो है ही, साथ ही येRoboticsके क्षेत्र में काम करने के लिए हमारे युवाओं को प्रेरित भी करेगा, बाल मन में जिज्ञासा जगाएगा। मेडिसिन, खेती, स्पेस, डिफेंस, ऐसे अनेक क्षेत्रों में रोबोट्स कैसे काम आ सकते हैं, इसका अनुभव यहां हमारे युवा साथी ले पाएंगे। और हां, रोबो कैफे में रोबोटिक शैफ का बनाया और रोबोट वेटर्स का परोसा खाना खाने का आनंदशायद ही वहां गया हुआ कोई व्‍यक्ति वहां जाए बिना रहेगा।कल जब सोशल मीडिया पर मैंने इनकी तस्वीरें पोस्ट कीं, तो ऐसी टिप्पणियां भी पढ़ने को मिलीं की- ऐसी तस्वीरें तो हम विदेशों में ही देखते थे। लोगों को यकीन ही नहीं हो रहा कि ये तस्वीरें भारत की हैं, गुजरात की हैं। आज इस कार्यक्रम में, मेरा आग्रह है कि साइंस सिटी में ज्यादा से ज्यादा बच्चे आएं, विद्यार्थी आएं, स्कूलों के रेग्यूलर टूर्स हों, साइंस सिटी बच्चों से चह्कता रहे, दमकता रहे, तो इसकी सार्थकता और भव्यता और बढ़ेगी।

साथियों,

मेरे लिए ये बहुत खुशी की बात है कि गुजरात और गुजरात के लोगों का गौरव और बढ़ाने वाले ऐसे अनेक कार्यों का आज शुभारंभ हुआ है। आज अहमदाबाद शहर के साथ-साथ गुजरात की रेल कनेक्टिविटी भी, और आधुनिक, और ज्यादा सशक्त हुई है। गांधीनगर और वडनगर स्टेशन का नवीनीकरण हो, मेहसाणा-वरेठा लाइन का चौड़ीकरण और बिजलीकरण हो, सुरेंद्रनगर-पीपावाव सेक्शन का बिजलीकरण हो, गांधीनगर कैपिटल-वरेठा मेमू सेवा की शुरुआत हो, या फिर गांधीनगर कैपिटल-वाराणसी सुपरफास्ट एक्सप्रेस का शुभारंभ हो, इन सभी सुविधाओं के लिए गुजरात वासियों को बहुत-बहुत बधाई। गांधीनगर से बनारस के बीच ट्रेन, एक तरह से सोमनाथकी धरतीको विश्वनाथकी धरती से जोड़ने का बड़ा काम है।

وہیں روبوٹکس گیلری میں روبوٹس کے ساتھ بات چیت دلچسپی کا مرکز تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ روبوٹکس کے شعبے میں کام کرنے کے لئے ہمارے نوجوانوں کو ترغیب بھی دے گی۔ بچوں کے من میں تجسس پیدا کرے گی۔ طب، زراعت، خلا، دفاع، ایسے متعدد شعبوں میں روبوٹس کیسے کام آسکتے ہیں، اس کا تجربہ یہاں ہمارے نوجوان ساتھی کرپائیں گے۔اور ہاں، روبو کیفے میں روبوٹک شیف کا بنایا اور روبوٹ ویٹرس کا پیش کیا ہوا کھانا کھانے کا لطف شاید ہی وہاں گیا ہوا کوئی شخص وہاں جائے بغیر رہے گا۔ کل جب سوشل میڈیا پر میں نے ان کی تصویریں پوسٹ کیں تو ایسے تبصرے بھی پڑھنے کو ملے کہ ایسی تصویریں تو ہم بیرونی ممالک میں ہی دیکھتے تھے۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں ہورہا ہے کہ یہ تصویریں بھارت کی ہیں، گجرات کی ہیں۔ آج اس پروگرام میں، میری درخواست ہے کہ سائنس سٹی میں زیادہ سے زیادہ بچے آئیں، طلباء آئیں، اسکولوں کے ریگولر ٹورس ہوں، سائنس سٹی بچوں سے چہکتا رہے، دمکتا رہے، تو اس کی معنویت اور شان و شوکت اور بڑھے گی۔

ساتھیو،

میرے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ گجرات اور گجرات کے لوگوں کے وقار میں مزید اضافہ کرنے والے ایسے متعدد کاموں کا آج افتتاح ہوا ہے۔ آج احمدآباد شہر کے ساتھ ساتھ گجرات کی ریل کنیکٹیوٹی بھی اور زیادہ جدید، اور زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ گاندھی نگر اور وڈنگر اسٹیشن کی جدید کاری ہو، مہسانا – وریٹھا لائن کو چوڑا کیا جانا اور برق کاری ہو، سریندر نگر – پیپاواو سیکشن کی برق کاری ہو، گاندھی نگر کیپٹل – وریٹھا ایم ای ایم یو سروس کی شروعات ہو یا پھر گاندھی نگر کیپیٹل – وارانسی سپرفاسٹ ایکسپریس کا افتتاح ہو، ان سبھی سہولتوں کے لئے باشندان گجرات کو بہت بہت مبارک باد۔ گاندھی  نگر سے بنارس کے درمیان ٹرین، ایک طرح سے سومناتھ کی دھرتی کو وشوناتھ کی دھرتی سے جوڑنے کا بڑا کام ہے۔

بھائیو اور بہنو،

اکیسویں صدی کے بھارت کی ضرورت بیسویں صدی کے طور طریقوں سے پوری نہیں ہوسکتی تھی، لہٰذا ریلوے میں نئے سرے سے اصلاحات کی ضرورت تھی۔ ہم نے ریلوے کو صرف ایک سروس کے طور پر نہیں بلکہ ایک اسیٹ (اثاثہ) کے طور پر فروغ دینے کے لئے کام شروع کیا۔ آج اس کے نتائج نظر آنے لگے ہیں۔ آج بھارتی ریلوے کی پہچان، اس کی ساکھ بدلنے لگی ہے۔ آج بھارتی ریل میں سہولیات بھی بڑھی ہیں، صفائی ستھرائی بھی بڑھی ہے، سکیورٹی بھی بڑھی ہے اور رفتار بھی بڑھی ہے۔ چاہے وہ بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری یا نئی جدید ٹرینیں ہوں، اس طرح کی کتنی کوششیں ٹرینوں کی رفتار کو بڑھانے کے لئے کی جارہی  ہیں۔ آنے والے دنوں میں جیسے ہی ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور شروع ہوجائیں گے، ٹرینوں کی رفتار اور بڑھے گی۔ تیجس اور وندے بھارت جیسی جدید ٹرینیں تو ہمارے ٹریک پر چلنے بھی لگی ہیں۔ آج یہ ٹرینیں مسافروں کو ایک نیا اور انوکھا احساس دے رہی ہیں۔ وسٹاڈوم کوچیزکا ویڈیو بھی آپ نے سوشل میڈیا پر ضرور دیکھا ہوگا۔

جو لوگ اسٹیچو آف یونیٹی گئے ہوں گے انھوں نے اس کا فائدہ بھی اٹھایا ہوگا۔ یہ کوچیز ایز اینڈ فیل آف جرنی کو ایک نئی جہت پر پہنچاتے ہیں۔ ٹرین میں چلنے والے سبھی لوگ اب یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ ہماری ٹرینیں، ہمارے پلیٹ فارم اور ہمارے ٹریک پہلے کے مقابلے کتنے صاف رہنے لگے ہیں۔ اس میں بہت بڑا تعاون ان دو لاکھ سے زیادہ بایو ٹوائلٹ کا بھی ہے جو کوچوں میں لگائے گئے ہیں۔

اسی طرح آج ملک بھر میں اہم ریلوے اسٹیشنوں کی جدید کاری کی جارہی ہے۔ ٹیئر 2 اور ٹیئر 3 شہروں کے ریلوے اسٹیشن بھی اب وائی فائی کی سہولت سے لیس ہورہے ہیں۔ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو براڈ گیج پر بغیر چوکیدار والے ریلوے کراسنگ کو پوری طرح سے ختم کردیا گیا ہے۔ کبھی سنگین حادثات اور بدنظمی کی شکایات کے لئے میڈیا میں چھایا رہنے والا بھارتی ریل آج پوزیٹیوٹی لے کر آتا ہے۔ آج بھارتی ریل کو دنیا کے جدید ترین نیٹورک اور میگا پروجیکٹس سے متعلق گفت و شنید میں جگہ ملتی ہے۔ آج بھارتی ریلوے کو دیکھنے کا احساس  اور نظریہ دونوں بدل رہے ہیں اور میں فخر سے کہوں گا کہ آج کے یہ پروجیکٹ بھارتی ریلوے کی اسی نوعیت کی جھانکی ہے۔

ساتھیو،

میری یہ واضح رائے رہی ہے کہ ریلوے ملک کے کونے کونے تک پہنچے، اس کے لئے ریلوے کی افقی توسیع ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریلوے میں صلاحیت سازی، وسائل سازی، نئی ٹیکنالوجی اور بہتر خدمات کے لئے عمودی توسیع بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ بہترین ٹریک، جدید ریلوے اسٹیشن اور ریل ٹریک کے اوپر عالی شان  ہوٹل، گاندھی نگر ریلوے اسٹیشن کا یہ تجربہ بھارتی ریلوے میں ایک مثبت تبدیلی کا آغاز ہے۔ ریل سے سفر کرنے والے عام شہریوں کو بھی ہوائی اڈے جیسی سہولتیں ملیں، خواتین اور چھوٹے بچوں کی خصوصی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ان کے لئے اچھا انتظام ہو، ایسا جدید اور آرام دہ اسٹیشن آج ملک کو، گاندھی نگر کو مل رہا ہے۔

ساتھیو،

گاندھی نگر کا نیا ریلوے اسٹیشن ملک میں بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے موجود ذہنیت میں آرہی تبدیلی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ طویل عرصے تک بھارت میں بنیادی ڈھانچے کو لے کر بھی طبقاتی تفریق کی حوصلہ افزائی کی گئی اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا، آپ کو گجرات کے لوگ تو اچھی طرح جانتے ہیں، ہم لوگوں نے ایک تجربہ کیا تھا جب گجرات میں مجھے خدمت کا موقع ملا تھا۔ ہمارے جو بس اڈے ہیں، ان بس اڈوں کو جدید بنانے کی سمت میں کام کیا۔ سرکاری – نجی شراکت ماڈل پر کام کیا اور جو کبھی بس اڈے کی کیسی حالت رہتی تھی، آج ہمارے گجرات میں کئی بس اڈے جدید بن چکے ہیں۔ ہوائی اڈے جیسی سہولتیں بس اڈوں پر نظر آرہی ہیں۔

اور جب میں دہلی آیا تو میں نے اپنے افسروں کو گجرات کے بس اڈے دیکھنے کے لئے بھیجا تھا، ریلوے کے افسروں کو۔ اور میں نے ان کو سمجھایا تھا کہ ہمارے ریلوے اسٹیشن ایسے کیوں نہیں ہونے چاہئیں۔ لینڈ یوز کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو، ریلوے اسٹیشن پر بہت بڑی اقتصادی سرگرمی ہو۔ اور ریلوے اپنے آپ میں صرف ٹرین کی آمد و رفت نہیں ایک طرح سے معیشت کا مرکز توانائی بن سکتا ہے۔ جیسے ہوائی اڈے کا ڈیولپمنٹ ہوتا ہے، جیسے گجرات میں بس اڈوں کی ترقی کا کام ہوا ہے، ویسے ہی ریلوے اسٹیشنوں کا بھی سرکاری – نجی شراکت داری طرز پر ڈیولپمنٹ کرنے کی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج گاندھی نگر اس کی شروعات ہے۔ عوامی سہولتوں میں ایسی زمرہ بندی، یہ جو اس کے لئے، اُس کے لئے ، امیروں کے لئے ہورہا ہے یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ سماج کے ہر طبقے کو سہولتیں ملنی چاہئیں۔

ساتھیو،

گاندھی نگر کا جدید ریلوے اسٹیشن اس بات کا بھی بہت بڑا ثبوت ہے کہ ریلوے کے وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے، اس کو اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، ٹریک کے اوپر ایسا ہوٹل بنادیا ہے جہاں سے ریل چلتی ہوئی تو دکھائی دے سکتی ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتی۔ زمین اتنی ہی ہے، لیکن اس کا استعمال دوگنا ہوگیا ہے۔ سہولت بھی بہترین، سیاحت اور تجارتی کاروبار بھی عمدہ۔ جہاں سے ریل گزرتی ہے اس سے پرائم لوکیشن بھلا کیا ہوسکتا ہے۔

اس ریلوے اسٹیشن سے مہاتما مندر کا جو پرشکوہ نظارہ ہوتا ہے، دانڈی کٹیر دکھائی دیتی ہے وہ بھی انوکھا ہے۔ دانڈی کٹیر میوزیم آنے والے لوگ یا وائبرینٹ گجرات سمٹ میں آنے والے لوگ جب اسے دیکھیں گے تو ان کے لئے یہ ایک ٹورسٹ اسپاٹ بن جائے گا۔ اور آج ریلوے کی یہ جو کایاپلٹ ہوئی ہے، مہاتما مندر سے متصل ہوا ہے، اس کی وجہ سے مہاتما مندر کی عظمت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اب لوگ چھوٹی موٹی کانفرنس کرنے کے لئے اس ہوٹل کا بھی استعمال کریں گے۔ مہاتما مندر کا بھی استعمال کریں گے۔ یعنی ایک طرح سے سال بھر متعدد تقریبات کے لئے یہاں ایک عوامی طور پر ایک نظم قائم ہوگیا ہے۔ اور ہوائی اڈے سے ادھر 20 منٹ کے راستے پر، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ دیش بدیش کے لوگ اس کا کتنا استعمال کرسکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

تصور کیجئے، پورے ملک میں ریلوے کا اتنا بڑا نیٹ ورک ہے، اتنے زیادہ وسائل ہیں، اس طرح کے کتنے امکانات ان میں پوشیدہ ہیں۔ ساتھیو، بھارت جیسے عظیم ملک میں ریلوے کا رول ہمیشہ سے بہت بڑا رہا ہے۔ ریلوے اپنے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی جہات، سہولتوں کی نئی جہات لے کر بھی پہنچتا ہے۔ یہ گزشتہ کچھ برسوں کی کوشش ہے کہ آج شمال مشرق کی راجدھانیوں تک پہلی بار ریل پہنچ رہی ہے تو بہت جلد سری نگر بھی کنیاکماری سے ریل کے وسیلے سے جڑنے والا ہے۔ آج وڈنگر بھی اس توسیع کا حصہ بن چکا ہے۔ میری تو وڈنگر اسٹیشن سے کتنی ہی یادیں وابستہ ہیں۔ نیا اسٹیشن واقعی بہت دلکش نظر آرہا ہے۔ اس نئی براڈ گیج لائن کے بننے سے وڈنگر – موڈھیرا- پاٹن ہیریٹیج سرکٹ اب بہتر ریل خدمات سے جڑگیا ہے۔ اس سے احمدآباد – جے پور – دہلی مین لائن سے براہ راست کنیکٹیوٹی ہوگئی ہے۔ اس لائن کے شروع ہونے سے اس پورے خطے میں سہولتوں کے ساتھ ساتھ روزگار اور اپنا روزگار آپ کے نئے مواقع بھی کھل گئے ہیں۔

ساتھیو،

مہسانا – وریٹھا لائن جہاں ہماری وراثت سے ہمیں جوڑتی ہے تو سریندر نگر – پیپاواو لائن کی برق کاری ہمیں بھارتی ریل کے مستقبل سے جوڑتی ہے۔ یہ بھارتی ریل کی تاریخ میں کم وقت میں پورا ہونے والے پروجیکٹ میں سے ایک ہے۔ یہ ریل لائن ایک اہم پورٹ کنیکٹیوٹی روٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ویسٹرن ڈیڈیکیٹ فریٹ کوریڈوں کے لئے فیڈر روٹ بھی ہے۔ یہ ریل روٹ پیپاواو بندرگاہ سے ملک کے شمالی حصوں کے لئے ڈبل اسٹیک کنٹینروں والی مال گاڑی کی بلاروک ٹوک آمد و رفت کو یقینی بنانے والا ہے۔

ساتھیو،

ملک میں سفر ہو یا پھر اشیاء کا نقل و حمل، کم وقت، کم خرچ اور بہتر سہولت آج اکیسویں صدی کے بھارت کی ترجیح ہے۔ اس لئے آج ملک ملٹی ماڈل کنیکٹیوٹی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اس کے لئے ایک تفصیلی روڈمیپ پر کام چل رہا ہے۔ مجھے یقین ہے، ٹرانسپورٹ کے الگ الگ موڈ کو جوڑکر، لاسٹ مائل کنیکٹیوٹی، آتم نربھر بھارت کی مہم کو مزید رفتار دے گی۔

ساتھیو،

نئے بھارت کے ترقی کی گاڑی دو پٹریوں پر ایک ساتھ چلتے ہوئے ہی آگے بڑھے گی۔ ایک پٹری جدیدیت کی، دوسری پٹری غریب، کسان اور متوسط طبقے کی فلاح و بہبود کی۔ اس لئے آج بھارت میں ایک طرف نیکسٹ جنریشن انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر اتنا کام ہورہا ہے، وہیں دوسری طرف ان کا فائدہ غریب کو، کسان کو، متوسط طبقے کو ملے، یہ بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

گجرات اور ملک کی ترقی کے ان کاموں کے درمیان، ہمیں کورونا جیسی بیماری کا بھی خیال رکھنا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس میں 100 سال کی سب سے بڑی وبا نے ہم سبھی کی زندگی کو بہت متاثر کیا ہے۔ کورونا انفیکشن نے متعدد ساتھیوں کو بے وقت ہم سے چھینا ہے، لیکن ایک قوم کے طور پر ہم پوری صلاحیت سے اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ گجرات نے بھی بڑی محنت کے ساتھ انفیکشن کی رفتار کو بڑھنے سے روکا ہے۔

اب ہمیں اپنے برتاؤ سے اور ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور ٹریٹمنٹ اور ٹیکہ کے اصول سے کورونا انفیکشن کی شرح کو نیچے ہی رکھنا ہے، لہٰذا بہت محتاط اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ٹیکہ کاری کے عمل کو مسلسل تیز کرنا ضروری ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ گجرات 3 کروڑ ٹیکوں کے پڑاؤ پر پہنچنے والا ہے۔ مرکزی حکومت نے ٹیکوں کی دستیابی سے متعلق جو معلومات پہلے ہی مشترک کرنی شروع کی ہے، اس سے گجرات کو ویکسینیشن سینٹر سطح کی حکمت عملی بنانے میں مدد ملی ہے۔ سبھی کی کوششوں سے ٹیکہ کاری سے متعلق اپنے اہداف کو ہم تیزی سے حاصل کرپائیں گے، اسی اعتماد کے ساتھ ایک بار پھر سے نئے پروجیکٹوں کے لئے آپ سب کو بہت بہت مبارک باد۔

شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।