QuoteIndian institutions should give different literary awards of international stature : PM
QuoteGiving something positive to the society is not only necessary as a journalist but also as an individual : PM
QuoteKnowledge of Upanishads and contemplation of Vedas, is not only an area of spiritual attraction but also a view of science : PM

نمسکار،

راجستھان کے گورنر کلراج مشر جی، وزیراعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، راجستھان  پتریکا کے گلاب کوٹھاری جی، پتریکا گروپ کے دیگر معزز اراکین، میڈیا کے ساتھی، خواتین و حضرات !!!

گلاب کوٹھاری جی اور پتریکا گروپ کو سنواد اُپنیشد اور اکشر یاترا کتابوں کے لئے دلی مبارکباد۔

یہ کتابیں ادب اور ثقافت، دونوں کیلئے  بےمثال تحفہ ہیں۔ آج مجھے راجستھان کی ثقافت کی جھلک پیش کرنے والےپتریکا گیٹ کو بھی وقف کرنے کا موقع  ملا ہے۔ یہ مقامی  افراد کے ساتھ ہی، وہاں آنے والے سیاحوں کے لئے بھی جاذبیت کا مرکز بنے گا۔

اس کوشش کیلئے بھی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔

|

ساتھیو،

کسی بھی سماج میں سماج کا باشعور طبقہ، سماج کے مصنفین یا ادیب ، یہ مشعل راہ ہوتے ہیں، سماج کے معلم ہوتے ہیں۔ اسکولی تعلیم تو ختم ہو جاتی ہے، لیکن ہمارے سیکھنے کا عمل  تا عمر چلتارہتا  ہے، ہر دن جاری رہتا ہے۔ اس میں انتہائی اہم رول کتابوں اور مصنفین کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں تو تصنیف و تالیف کا مسلسل فروغ  ہندوستانیت اور قومیت کے ساتھ ہوا ہے۔

جدجہد آزادی کے دوران  تقریباً ہر نام، کہیں نہ کہیں سے تصنیف و تالیف سے بھی جڑاتھا۔ ہمارے یہاں عظیم سنت، ماہر سائنسداں بھی، مصنف اور ادیب رہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس روایت کی بقا کی خاطر آپ سب مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ راجستھان پتریکا گروپ اس بات کو خود کہنے کی جرأت  رکھتا ہے کہ ہم دنیا کی اندھی تقلید کی دوڑ میں شامل نہیں ، بلکہ  بھارتی ثقافت، بھارتی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کوآگے بڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

گلاب کوٹھاری جی کی یہ کتابیں، سنواد اپنیشد اور اکشر یاترا بھی، اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ گلاب کوٹھاری جی آج جس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں، پتریکا کی تو شروعات ہی کہیں نہ کہیں انہیں  تہذیبوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ جناب کرپور چندر کولِش جی نے ہندوستانیت اور بھارت کی خدمت کے عزم کے تئیں پتریکا روایت کو شروع کیا تھا۔ صحافت میں ان کے تعاون کو تو ہم سب یاد کرتے ہی ہیں، لیکن کولش جی نے ویدوں کی تعلیم کو جس طرح سے سماج تک پہنچانے کی کوشش کی، وہ حقیقت میں انوکھا تھا۔ مجھے بھی ذاتی طورپر آنجہانی کولش جی سے ملنے کا کئی بار موقع ملا،وہ مجھ سے بہت لگاؤ رکھتے تھے ۔

وہ اکثر کہتے تھے، صحافت کو  مثبت رکھنے سے ہی وہ با معنی بن سکتی ہے۔

ساتھیو،

معاشرے کو کچھ مثبت دینے کی یہ سوچ صرف ایک صحافی یا مصنف کی حیثیت سے ضروری ہو، ایسا نہیں ہے۔ یہ اثبات، یہ سوچ،  ایک فرد کی حیثیت سے بھی  ہماری شخصیت کے لئے بہت ضروری ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ کولش جی کی اس فکر کو، ان کے عزم کو، پتریکا گروپ اور گلاب کوٹھاری جی مستقل طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ گلاب کوٹھاری جی، آپ کو یاد ہوگا، جب کورونا کے بارے میں پرنٹ میڈیا کے ساتھیوں سے  میں نے ملاقات کی تھی، تب بھی آپ کے مشورے، آپ کی صلاح پر، میں نے کہا تھا کہ آپ کے الفاظ مجھے آپ کے والد کی یاد دلاتے ہیں۔ سنمواد اپنیشد اور اکشر یاترا کو دیکھ کر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے والد کی ویدک وراثت کو کس حد تک مضبوطی سے آگے لے جارہے ہیں۔

ساتھیو،

جب میں گلاب جی کی کتابیں دیکھ رہا تھا، تو مجھے ان کا ایک اداریہ یاد آگیا۔ 2019 میں انتخابی نتائج کے بعد جب میں نے پہلی بار ملک کے لوگوں  سے بات کی تھی، تو کوٹھاری جی نے اس پر ‘استوتیہ سنکلپ’ لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا تھاکہ، میری باتوں کو سن کر انہیں ایسا لگا، جیسے ان کی ہی بات کو میں نے 130 کروڑ اہل وطن کے سامنے کہہ دیا ہو۔ کوٹھاری جی، آپ کی  کتابوں میں جب جب اپنشدیئے  علم اور ویدک بحث ملتا ہے، تواسے پڑھ کر کہیں کہیں مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے اپنے ہی جذبات کو پڑھ رہا ہوں۔

در حقیقت،انسان کی فلاح و بہبود کے لئے،عام آدمی کی خدمت کے لئے الفاظ چاہے کسی کے بھی ہوں، ان کا  ربط ہر کسی کے دل سے ہوتا ہے۔ اسی لئے تو ہمارے ویدوں کو، ویدوں کے نظریات کو ابدیت سے تعبیرکیا گیا ہے۔ وید منتروں کا پس منظر کچھ بھی ہو، لیکن ان کی روح، ان کا فلسفہ انسانیت کے لئے ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے وید، ہماری ثقافت،  پوری دنیا کے لئے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ اپنیشدسنواد اور اکشر یاترا بھی اسی ہندوستانی فکر کی ایک کڑی کے طور پر لوگوں تک پہنچیں گے۔  ٹیکسٹ اور ٹوئیٹ کےآج کے دور میں، یہ زیادہ ضروری ہے کہ ہماری نئی نسل سنجیدہ علم سے دور نہ ہو۔

|

ساتھیو،

ہمارے اپنشدوں کا یہ علم، ویدوں کا یہ تفکر، یہ محض روحانی  یا فلسفیانہ جاذبیت کا  ہی شعبہ نہیں ہے۔ وید اور ویدانت میں کائنات اور سائنس کا بھی نظارہ ہے، کتنے ہی سائنس دانوں کو اس نے اپنی جانب متوجہ کیا ہے، کتنے ہی سائنسدانوں نے اس میں سنجیدہ دلچسپی لی ہے۔ ہم سبھی نے نکولا ٹیسلا کا نام سنا ہی ہوگا۔ ٹیسلا کے بغیر آج کی یہ نئی دنیا ایسی نہیں ہوتی، جیسا ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے جب سوامی وویکانند امریکہ گئے تھے، تو نکولا ٹیسلا سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ سوامی وویکانند نے ٹیسلا کو جب اپنشدوں کے علم، ویدانت کی کائناتی تشریح کے تعلق  سے بتایا، تو وہ  حیرت زدہ ر ہ گئے تھے۔

آکاش اور پران جیسے سنسکرت الفاظ سے کائنات کی طرح گہری بحث ، اپنشدوں میں کی گئی ہے، ٹیسلا نے کہا کہ وہ اسے جدید سائنس کی زبان میں،علم ریاضی کے دائرے میں لائیں گے۔۔ انہیں لگا تھا کہ وہ اس علم سے سائنس کی پیچیدہ ترین پہیلیوں کو حل کرسکتے ہیں۔ تاہم، بعد میں اور بھی بہت سی تحقیقات ہوئیں، جس پر سوامی ویویکانند اور نکولا ٹیسلا نے  غوروخوض کیا تھا، الگ طریقے سے وہ چیزیں ہمارے سامنے آئیں۔ آج بھی کافی  تحقیق کی جارہی ہے،  لیکن کہیں نہ کہیں یہ ایک واقعہ ہمیں اپنے علم پر نظر ثانی کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ آج، ہمارے نوجوانوں کو اس نقطہ نظر سے بھی  جاننے، سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے، سمواد اپنیشد جیسی کتاب، اکشر یاترا پر اتنا گہر اغوروخوض ، یہ  ہمارے نوجوانوں کوایک نئی جہت عطا کرے گی اوران کی فکرو نظر میں گہرائی و گیرائی پیدا کرے گی۔

ساتھیو،

الفاظ ہماری زبان کی،ہماری  اظہار کی پہلی اکائی ہیں۔ سنسکرت میں، اکشر کا مطلب ہےابدیت، یعنی جو ہمیشہ رہے۔ یہ سوچنے کی طاقت ہے۔ یہی صلاحیت ہے۔ ہزاروں سال پہلے،جو خیالات ، جو ایک علم، کسی رشی،مہا رشی،  سائنسداں،فلسفی نے ہمیں دیا، وہ آج بھی دنیا کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اسی لئے، ہمارے اپنشدوں میں،ہمارے صحیفوں میں  اکشر برہم کی بات کہی گئی ہے، ‘ اکشرم برہم  پرمم’ کا اصول دیا گیا ہے۔

ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے۔ ‘‘ شبد برہمنی نشنات: پرم برہمادھی گچ چھتی’’ یعنی  لفظ ہی برہم ہے، جو اس لفظ برہم کو پوری طرح جان لیتا ہے، وہ برہمتو کو، ایشورتو کو پا لیتا ہے۔

لفظ کی شان، لفظ کو خدا کہنے کی ایسی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ لہذا، الفاظ  سے  سچ بولنے کی ہمت، الفاظ کے ذریعہ اثبات پیدا کرنے کی طاقت، الفاظ سے تخلیق کرنے کی فکر،یہ  ہندوستانی نفسیات کی فطرت ہے۔ ہماری فطرت ہے۔ جب ہم اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، تب ایک ادیب کی حیثیت سے، ہم ایک مصنف کی حیثیت سے اپنی اہمیت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں، معاشرے  کے تئیں ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔

آپ دیکھئے ، غریبوں کو بیت الخلاء مہیا کرانےوالا، ان کو بہت ساری بیماریوں سے بچانے والا، سووچھ بھارت ابھیان ہو، ماتاؤں ،  بہنوں کو لکڑی کے دھوئیں  سے بچانے والی  اجولا گیس اسکیم ہو، ہر گھر تک  پانی پہنچانے کے لئے چل رہا جل جیون مشن ہو، سبھی میں میڈیا نے بیداری پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ عالمی  وبا کے اس دور میں،  کورونا کے خلاف آگاہی مہم میں  بھی  بھارتی میڈیا نے عوام کی بے مثال خدمات  کی ہیں ۔ حکومت کے کاموں کی تفصیلات، حکومت کی اسکیموں میں زمینی سطح پر  جو خامیاں ہیں، اُسے بتانا، اس کی مذمت کرنا، یہ بھی ہمارا میڈیا بخوبی کرتا رہا ہے۔

ہاں،ایسے وقت بھی آتے ہیں، جب میڈیا پر  بھی تنقید ہوتی ہے، سوشل میڈیا کے دور میں، تو  یہ اور بھی زیادہ فطری ہوگیا ہے۔ لیکن، تنقید سے سیکھنا بھی ، ہم سب کے لئے اتنا ہی فطری ہے۔ اسی لئے ہی آج کی ہماری جمہوریت طاقتوراور مضبوط ترین  ہوئی ہے۔

|

ساتھیو،

جس طرح آج ہم اپنی وراثت، سائنس، ثقافت اوراپنی صلاحیتوں کے ساتھ  آگے بڑھ رہے ہیں، ہم اسے قبول کر رہے ہیں، ہمیں اپنے اس خوداعتمادی کو آگے لے جانا ہے۔ آج جب، ہم ایک خود کفیل بھارت  کی بات کر رہے ہیں ، آج جب لوکل کے لئے ووکل ہونے کی بات کر رہے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ ہمارا میڈیا اس عہد کو ایک  بڑی مہم کی شکل دے رہا ہے۔  ساتھیو، ہمیں اس وژن کو اور  وسعت دینے  کی ضرورت ہے۔

ملک  کی مقامی مصنوعات عالمی سطح پر پہنچ  ہی رہی ہیں، لیکن بھارت کی آواز بھی زیادہ گلوبل ہوتی جارہی ہے۔ دنیا اب ہندوستان کو زیادہ غور سے سنتی ہے۔ آج،تقریبا ہر بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی  ہے۔ ایسے میں  ہندوستانی میڈیا کو بھی گلوبل ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اخبارات و رسائل کی عالمی سطح پر ساکھ بننی چاہئے، ڈیجیٹل عہد میں ہم  ڈیجیٹل طور پر ہی پوری دنیا تک پہنچیں، دنیا میں جو مختلف ادبی ایوارڈز دیئے جاتے ہیں، ہندوستانی ادارے بھی ویسے ہی ایوارڈ دیں،  یہ بھی آج،  وقت کا تقاضا ہے۔ یہ بھی ملک کے لئے ضروری ہے۔

میں واقف ہوں کہ جناب کرپورچندر کولش جی کی یاد میں پتریکا گروپ نے انٹرنیشنل جرنلزم ایوارڈ شروع کیا ہے۔میں  اس کے لئے گروپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی کاوشوں سے بھارت کو  عالمی میڈیا پلیٹ فارم پر ایک نئی شناخت ملے گی۔ کورونا کے اس دور میں جس طرح پتریکا گروپ نے عوامی بیداری کے کام کئے ہیں،اس کے لئے میں آپ کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس مہم کو ابھی مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اہل وطن بھی صحت مند رہیں، اور معیشت کو بھی رفتار ملے، آج ملک کی یہی ترجیح ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ملک یہ لڑائی جیت جائے گا  اور ملک کا یہ سفر بھی اکشریاترا بن جائے گا۔

انہیں  نیک خواہشات کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!

  • Laxman singh Rana June 11, 2022

    नमो नमो 🇮🇳🌷
  • Laxman singh Rana June 11, 2022

    नमो नमो 🇮🇳
Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
‘India slashed GHG emissions by 7.93% in 2020’

Media Coverage

‘India slashed GHG emissions by 7.93% in 2020’
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
India is driving global growth today: PM Modi at Republic Plenary Summit
March 06, 2025
QuoteIndia's achievements and successes have sparked a new wave of hope across the globe: PM
QuoteIndia is driving global growth today: PM
QuoteToday's India thinks big, sets ambitious targets and delivers remarkable results: PM
QuoteWe launched the SVAMITVA Scheme to grant property rights to rural households in India: PM
QuoteYouth is the X-Factor of today's India, where X stands for Experimentation, Excellence, and Expansion: PM
QuoteIn the past decade, we have transformed impact-less administration into impactful governance: PM
QuoteEarlier, construction of houses was government-driven, but we have transformed it into an owner-driven approach: PM

नमस्कार!

आप लोग सब थक गए होंगे, अर्णब की ऊंची आवाज से कान तो जरूर थक गए होंगे, बैठिये अर्णब, अभी चुनाव का मौसम नहीं है। सबसे पहले तो मैं रिपब्लिक टीवी को उसके इस अभिनव प्रयोग के लिए बहुत बधाई देता हूं। आप लोग युवाओं को ग्रासरूट लेवल पर इन्वॉल्व करके, इतना बड़ा कंपटीशन कराकर यहां लाए हैं। जब देश का युवा नेशनल डिस्कोर्स में इन्वॉल्व होता है, तो विचारों में नवीनता आती है, वो पूरे वातावरण में एक नई ऊर्जा भर देता है और यही ऊर्जा इस समय हम यहां महसूस भी कर रहे हैं। एक तरह से युवाओं के इन्वॉल्वमेंट से हम हर बंधन को तोड़ पाते हैं, सीमाओं के परे जा पाते हैं, फिर भी कोई भी लक्ष्य ऐसा नहीं रहता, जिसे पाया ना जा सके। कोई मंजिल ऐसी नहीं रहती जिस तक पहुंचा ना जा सके। रिपब्लिक टीवी ने इस समिट के लिए एक नए कॉन्सेप्ट पर काम किया है। मैं इस समिट की सफलता के लिए आप सभी को बहुत-बहुत बधाई देता हूं, आपका अभिनंदन करता हूं। अच्छा मेरा भी इसमें थोड़ा स्वार्थ है, एक तो मैं पिछले दिनों से लगा हूं, कि मुझे एक लाख नौजवानों को राजनीति में लाना है और वो एक लाख ऐसे, जो उनकी फैमिली में फर्स्ट टाइमर हो, तो एक प्रकार से ऐसे इवेंट मेरा जो यह मेरा मकसद है उसका ग्राउंड बना रहे हैं। दूसरा मेरा व्यक्तिगत लाभ है, व्यक्तिगत लाभ यह है कि 2029 में जो वोट करने जाएंगे उनको पता ही नहीं है कि 2014 के पहले अखबारों की हेडलाइन क्या हुआ करती थी, उसे पता नहीं है, 10-10, 12-12 लाख करोड़ के घोटाले होते थे, उसे पता नहीं है और वो जब 2029 में वोट करने जाएगा, तो उसके सामने कंपैरिजन के लिए कुछ नहीं होगा और इसलिए मुझे उस कसौटी से पार होना है और मुझे पक्का विश्वास है, यह जो ग्राउंड बन रहा है ना, वो उस काम को पक्का कर देगा।

साथियों,

आज पूरी दुनिया कह रही है कि ये भारत की सदी है, ये आपने नहीं सुना है। भारत की उपलब्धियों ने, भारत की सफलताओं ने पूरे विश्व में एक नई उम्मीद जगाई है। जिस भारत के बारे में कहा जाता था, ये खुद भी डूबेगा और हमें भी ले डूबेगा, वो भारत आज दुनिया की ग्रोथ को ड्राइव कर रहा है। मैं भारत के फ्यूचर की दिशा क्या है, ये हमें आज के हमारे काम और सिद्धियों से पता चलता है। आज़ादी के 65 साल बाद भी भारत दुनिया की ग्यारहवें नंबर की इकॉनॉमी था। बीते दशक में हम दुनिया की पांचवें नंबर की इकॉनॉमी बने, और अब उतनी ही तेजी से दुनिया की तीसरी सबसे बड़ी अर्थव्यवस्था बनने जा रहे हैं।

|

साथियों,

मैं आपको 18 साल पहले की भी बात याद दिलाता हूं। ये 18 साल का खास कारण है, क्योंकि जो लोग 18 साल की उम्र के हुए हैं, जो पहली बार वोटर बन रहे हैं, उनको 18 साल के पहले का पता नहीं है, इसलिए मैंने वो आंकड़ा लिया है। 18 साल पहले यानि 2007 में भारत की annual GDP, एक लाख करोड़ डॉलर तक पहुंची थी। यानि आसान शब्दों में कहें तो ये वो समय था, जब एक साल में भारत में एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी होती थी। अब आज देखिए क्या हो रहा है? अब एक क्वार्टर में ही लगभग एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही है। इसका क्या मतलब हुआ? 18 साल पहले के भारत में साल भर में जितनी इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही थी, उतनी अब सिर्फ तीन महीने में होने लगी है। ये दिखाता है कि आज का भारत कितनी तेजी से आगे बढ़ रहा है। मैं आपको कुछ उदाहरण दूंगा, जो दिखाते हैं कि बीते एक दशक में कैसे बड़े बदलाव भी आए और नतीजे भी आए। बीते 10 सालों में, हम 25 करोड़ लोगों को गरीबी से बाहर निकालने में सफल हुए हैं। ये संख्या कई देशों की कुल जनसंख्या से भी ज्यादा है। आप वो दौर भी याद करिए, जब सरकार खुद स्वीकार करती थी, प्रधानमंत्री खुद कहते थे, कि एक रूपया भेजते थे, तो 15 पैसा गरीब तक पहुंचता था, वो 85 पैसा कौन पंजा खा जाता था और एक आज का दौर है। बीते दशक में गरीबों के खाते में, DBT के जरिए, Direct Benefit Transfer, DBT के जरिए 42 लाख करोड़ रुपए से ज्यादा ट्रांसफर किए गए हैं, 42 लाख करोड़ रुपए। अगर आप वो हिसाब लगा दें, रुपये में से 15 पैसे वाला, तो 42 लाख करोड़ का क्या हिसाब निकलेगा? साथियों, आज दिल्ली से एक रुपया निकलता है, तो 100 पैसे आखिरी जगह तक पहुंचते हैं।

साथियों,

10 साल पहले सोलर एनर्जी के मामले में भारत दुनिया में कहीं गिनती नहीं होती थी। लेकिन आज भारत सोलर एनर्जी कैपेसिटी के मामले में दुनिया के टॉप-5 countries में से है। हमने सोलर एनर्जी कैपेसिटी को 30 गुना बढ़ाया है। Solar module manufacturing में भी 30 गुना वृद्धि हुई है। 10 साल पहले तो हम होली की पिचकारी भी, बच्चों के खिलौने भी विदेशों से मंगाते थे। आज हमारे Toys Exports तीन गुना हो चुके हैं। 10 साल पहले तक हम अपनी सेना के लिए राइफल तक विदेशों से इंपोर्ट करते थे और बीते 10 वर्षों में हमारा डिफेंस एक्सपोर्ट 20 गुना बढ़ गया है।

|

साथियों,

इन 10 वर्षों में, हम दुनिया के दूसरे सबसे बड़े स्टील प्रोड्यूसर हैं, दुनिया के दूसरे सबसे बड़े मोबाइल फोन मैन्युफैक्चरर हैं और दुनिया का तीसरा सबसे बड़ा स्टार्टअप इकोसिस्टम बने हैं। इन्हीं 10 सालों में हमने इंफ्रास्ट्रक्चर पर अपने Capital Expenditure को, पांच गुना बढ़ाया है। देश में एयरपोर्ट्स की संख्या दोगुनी हो गई है। इन दस सालों में ही, देश में ऑपरेशनल एम्स की संख्या तीन गुना हो गई है। और इन्हीं 10 सालों में मेडिकल कॉलेजों और मेडिकल सीट्स की संख्या भी करीब-करीब दोगुनी हो गई है।

साथियों,

आज के भारत का मिजाज़ कुछ और ही है। आज का भारत बड़ा सोचता है, बड़े टार्गेट तय करता है और आज का भारत बड़े नतीजे लाकर के दिखाता है। और ये इसलिए हो रहा है, क्योंकि देश की सोच बदल गई है, भारत बड़ी Aspirations के साथ आगे बढ़ रहा है। पहले हमारी सोच ये बन गई थी, चलता है, होता है, अरे चलने दो यार, जो करेगा करेगा, अपन अपना चला लो। पहले सोच कितनी छोटी हो गई थी, मैं इसका एक उदाहरण देता हूं। एक समय था, अगर कहीं सूखा हो जाए, सूखाग्रस्त इलाका हो, तो लोग उस समय कांग्रेस का शासन हुआ करता था, तो मेमोरेंडम देते थे गांव के लोग और क्या मांग करते थे, कि साहब अकाल होता रहता है, तो इस समय अकाल के समय अकाल के राहत के काम रिलीफ के वर्क शुरू हो जाए, गड्ढे खोदेंगे, मिट्टी उठाएंगे, दूसरे गड्डे में भर देंगे, यही मांग किया करते थे लोग, कोई कहता था क्या मांग करता था, कि साहब मेरे इलाके में एक हैंड पंप लगवा दो ना, पानी के लिए हैंड पंप की मांग करते थे, कभी कभी सांसद क्या मांग करते थे, गैस सिलेंडर इसको जरा जल्दी देना, सांसद ये काम करते थे, उनको 25 कूपन मिला करती थी और उस 25 कूपन को पार्लियामेंट का मेंबर अपने पूरे क्षेत्र में गैस सिलेंडर के लिए oblige करने के लिए उपयोग करता था। एक साल में एक एमपी 25 सिलेंडर और यह सारा 2014 तक था। एमपी क्या मांग करते थे, साहब ये जो ट्रेन जा रही है ना, मेरे इलाके में एक स्टॉपेज दे देना, स्टॉपेज की मांग हो रही थी। यह सारी बातें मैं 2014 के पहले की कर रहा हूं, बहुत पुरानी नहीं कर रहा हूं। कांग्रेस ने देश के लोगों की Aspirations को कुचल दिया था। इसलिए देश के लोगों ने उम्मीद लगानी भी छोड़ दी थी, मान लिया था यार इनसे कुछ होना नहीं है, क्या कर रहा है।। लोग कहते थे कि भई ठीक है तुम इतना ही कर सकते हो तो इतना ही कर दो। और आज आप देखिए, हालात और सोच कितनी तेजी से बदल रही है। अब लोग जानते हैं कि कौन काम कर सकता है, कौन नतीजे ला सकता है, और यह सामान्य नागरिक नहीं, आप सदन के भाषण सुनोगे, तो विपक्ष भी यही भाषण करता है, मोदी जी ये क्यों नहीं कर रहे हो, इसका मतलब उनको लगता है कि यही करेगा।

|

साथियों,

आज जो एस्पिरेशन है, उसका प्रतिबिंब उनकी बातों में झलकता है, कहने का तरीका बदल गया , अब लोगों की डिमांड क्या आती है? लोग पहले स्टॉपेज मांगते थे, अब आकर के कहते जी, मेरे यहां भी तो एक वंदे भारत शुरू कर दो। अभी मैं कुछ समय पहले कुवैत गया था, तो मैं वहां लेबर कैंप में नॉर्मली मैं बाहर जाता हूं तो अपने देशवासी जहां काम करते हैं तो उनके पास जाने का प्रयास करता हूं। तो मैं वहां लेबर कॉलोनी में गया था, तो हमारे जो श्रमिक भाई बहन हैं, जो वहां कुवैत में काम करते हैं, उनसे कोई 10 साल से कोई 15 साल से काम, मैं उनसे बात कर रहा था, अब देखिए एक श्रमिक बिहार के गांव का जो 9 साल से कुवैत में काम कर रहा है, बीच-बीच में आता है, मैं जब उससे बातें कर रहा था, तो उसने कहा साहब मुझे एक सवाल पूछना है, मैंने कहा पूछिए, उसने कहा साहब मेरे गांव के पास डिस्ट्रिक्ट हेड क्वार्टर पर इंटरनेशनल एयरपोर्ट बना दीजिए ना, जी मैं इतना प्रसन्न हो गया, कि मेरे देश के बिहार के गांव का श्रमिक जो 9 साल से कुवैत में मजदूरी करता है, वह भी सोचता है, अब मेरे डिस्ट्रिक्ट में इंटरनेशनल एयरपोर्ट बनेगा। ये है, आज भारत के एक सामान्य नागरिक की एस्पिरेशन, जो विकसित भारत के लक्ष्य की ओर पूरे देश को ड्राइव कर रही है।

साथियों,

किसी भी समाज की, राष्ट्र की ताकत तभी बढ़ती है, जब उसके नागरिकों के सामने से बंदिशें हटती हैं, बाधाएं हटती हैं, रुकावटों की दीवारें गिरती है। तभी उस देश के नागरिकों का सामर्थ्य बढ़ता है, आसमान की ऊंचाई भी उनके लिए छोटी पड़ जाती है। इसलिए, हम निरंतर उन रुकावटों को हटा रहे हैं, जो पहले की सरकारों ने नागरिकों के सामने लगा रखी थी। अब मैं उदाहरण देता हूं स्पेस सेक्टर। स्पेस सेक्टर में पहले सबकुछ ISRO के ही जिम्मे था। ISRO ने निश्चित तौर पर शानदार काम किया, लेकिन स्पेस साइंस और आंत्रप्रन्योरशिप को लेकर देश में जो बाकी सामर्थ्य था, उसका उपयोग नहीं हो पा रहा था, सब कुछ इसरो में सिमट गया था। हमने हिम्मत करके स्पेस सेक्टर को युवा इनोवेटर्स के लिए खोल दिया। और जब मैंने निर्णय किया था, किसी अखबार की हेडलाइन नहीं बना था, क्योंकि समझ भी नहीं है। रिपब्लिक टीवी के दर्शकों को जानकर खुशी होगी, कि आज ढाई सौ से ज्यादा स्पेस स्टार्टअप्स देश में बन गए हैं, ये मेरे देश के युवाओं का कमाल है। यही स्टार्टअप्स आज, विक्रम-एस और अग्निबाण जैसे रॉकेट्स बना रहे हैं। ऐसे ही mapping के सेक्टर में हुआ, इतने बंधन थे, आप एक एटलस नहीं बना सकते थे, टेक्नॉलाजी बदल चुकी है। पहले अगर भारत में कोई मैप बनाना होता था, तो उसके लिए सरकारी दरवाजों पर सालों तक आपको चक्कर काटने पड़ते थे। हमने इस बंदिश को भी हटाया। आज Geo-spatial mapping से जुडा डेटा, नए स्टार्टअप्स का रास्ता बना रहा है।

|

साथियों,

न्यूक्लियर एनर्जी, न्यूक्लियर एनर्जी से जुड़े सेक्टर को भी पहले सरकारी कंट्रोल में रखा गया था। बंदिशें थीं, बंधन थे, दीवारें खड़ी कर दी गई थीं। अब इस साल के बजट में सरकार ने इसको भी प्राइवेट सेक्टर के लिए ओपन करने की घोषणा की है। और इससे 2047 तक 100 गीगावॉट न्यूक्लियर एनर्जी कैपेसिटी जोड़ने का रास्ता मजबूत हुआ है।

साथियों,

आप हैरान रह जाएंगे, कि हमारे गांवों में 100 लाख करोड़ रुपए, Hundred lakh crore rupees, उससे भी ज्यादा untapped आर्थिक सामर्थ्य पड़ा हुआ है। मैं आपके सामने फिर ये आंकड़ा दोहरा रहा हूं- 100 लाख करोड़ रुपए, ये छोटा आंकड़ा नहीं है, ये आर्थिक सामर्थ्य, गांव में जो घर होते हैं, उनके रूप में उपस्थित है। मैं आपको और आसान तरीके से समझाता हूं। अब जैसे यहां दिल्ली जैसे शहर में आपके घर 50 लाख, एक करोड़, 2 करोड़ के होते हैं, आपकी प्रॉपर्टी की वैल्यू पर आपको बैंक लोन भी मिल जाता है। अगर आपका दिल्ली में घर है, तो आप बैंक से करोड़ों रुपये का लोन ले सकते हैं। अब सवाल यह है, कि घर दिल्ली में थोड़े है, गांव में भी तो घर है, वहां भी तो घरों का मालिक है, वहां ऐसा क्यों नहीं होता? गांवों में घरों पर लोन इसलिए नहीं मिलता, क्योंकि भारत में गांव के घरों के लीगल डॉक्यूमेंट्स नहीं होते थे, प्रॉपर मैपिंग ही नहीं हो पाई थी। इसलिए गांव की इस ताकत का उचित लाभ देश को, देशवासियों को नहीं मिल पाया। और ये सिर्फ भारत की समस्या है ऐसा नहीं है, दुनिया के बड़े-बड़े देशों में लोगों के पास प्रॉपर्टी के राइट्स नहीं हैं। बड़ी-बड़ी अंतरराष्ट्रीय संस्थाएं कहती हैं, कि जो देश अपने यहां लोगों को प्रॉपर्टी राइट्स देता है, वहां की GDP में उछाल आ जाता है।

|

साथियों,

भारत में गांव के घरों के प्रॉपर्टी राइट्स देने के लिए हमने एक स्वामित्व स्कीम शुरु की। इसके लिए हम गांव-गांव में ड्रोन से सर्वे करा रहे हैं, गांव के एक-एक घर की मैपिंग करा रहे हैं। आज देशभर में गांव के घरों के प्रॉपर्टी कार्ड लोगों को दिए जा रहे हैं। दो करोड़ से अधिक प्रॉपर्टी कार्ड सरकार ने बांटे हैं और ये काम लगातार चल रहा है। प्रॉपर्टी कार्ड ना होने के कारण पहले गांवों में बहुत सारे विवाद भी होते थे, लोगों को अदालतों के चक्कर लगाने पड़ते थे, ये सब भी अब खत्म हुआ है। इन प्रॉपर्टी कार्ड्स पर अब गांव के लोगों को बैंकों से लोन मिल रहे हैं, इससे गांव के लोग अपना व्यवसाय शुरू कर रहे हैं, स्वरोजगार कर रहे हैं। अभी मैं एक दिन ये स्वामित्व योजना के तहत वीडियो कॉन्फ्रेंस पर उसके लाभार्थियों से बात कर रहा था, मुझे राजस्थान की एक बहन मिली, उसने कहा कि मैंने मेरा प्रॉपर्टी कार्ड मिलने के बाद मैंने 9 लाख रुपये का लोन लिया गांव में और बोली मैंने बिजनेस शुरू किया और मैं आधा लोन वापस कर चुकी हूं और अब मुझे पूरा लोन वापस करने में समय नहीं लगेगा और मुझे अधिक लोन की संभावना बन गई है कितना कॉन्फिडेंस लेवल है।

साथियों,

ये जितने भी उदाहरण मैंने दिए हैं, इनका सबसे बड़ा बेनिफिशरी मेरे देश का नौजवान है। वो यूथ, जो विकसित भारत का सबसे बड़ा स्टेकहोल्डर है। जो यूथ, आज के भारत का X-Factor है। इस X का अर्थ है, Experimentation Excellence और Expansion, Experimentation यानि हमारे युवाओं ने पुराने तौर तरीकों से आगे बढ़कर नए रास्ते बनाए हैं। Excellence यानी नौजवानों ने Global Benchmark सेट किए हैं। और Expansion यानी इनोवेशन को हमारे य़ुवाओं ने 140 करोड़ देशवासियों के लिए स्केल-अप किया है। हमारा यूथ, देश की बड़ी समस्याओं का समाधान दे सकता है, लेकिन इस सामर्थ्य का सदुपयोग भी पहले नहीं किया गया। हैकाथॉन के ज़रिए युवा, देश की समस्याओं का समाधान भी दे सकते हैं, इसको लेकर पहले सरकारों ने सोचा तक नहीं। आज हम हर वर्ष स्मार्ट इंडिया हैकाथॉन आयोजित करते हैं। अभी तक 10 लाख युवा इसका हिस्सा बन चुके हैं, सरकार की अनेकों मिनिस्ट्रीज और डिपार्टमेंट ने गवर्नेंस से जुड़े कई प्रॉब्लम और उनके सामने रखें, समस्याएं बताई कि भई बताइये आप खोजिये क्या सॉल्यूशन हो सकता है। हैकाथॉन में हमारे युवाओं ने लगभग ढाई हज़ार सोल्यूशन डेवलप करके देश को दिए हैं। मुझे खुशी है कि आपने भी हैकाथॉन के इस कल्चर को आगे बढ़ाया है। और जिन नौजवानों ने विजय प्राप्त की है, मैं उन नौजवानों को बधाई देता हूं और मुझे खुशी है कि मुझे उन नौजवानों से मिलने का मौका मिला।

|

साथियों,

बीते 10 वर्षों में देश ने एक new age governance को फील किया है। बीते दशक में हमने, impact less administration को Impactful Governance में बदला है। आप जब फील्ड में जाते हैं, तो अक्सर लोग कहते हैं, कि हमें फलां सरकारी स्कीम का बेनिफिट पहली बार मिला। ऐसा नहीं है कि वो सरकारी स्कीम्स पहले नहीं थीं। स्कीम्स पहले भी थीं, लेकिन इस लेवल की last mile delivery पहली बार सुनिश्चित हो रही है। आप अक्सर पीएम आवास स्कीम के बेनिफिशरीज़ के इंटरव्यूज़ चलाते हैं। पहले कागज़ पर गरीबों के मकान सेंक्शन होते थे। आज हम जमीन पर गरीबों के घर बनाते हैं। पहले मकान बनाने की पूरी प्रक्रिया, govt driven होती थी। कैसा मकान बनेगा, कौन सा सामान लगेगा, ये सरकार ही तय करती थी। हमने इसको owner driven बनाया। सरकार, लाभार्थी के अकाउंट में पैसा डालती है, बाकी कैसा घर बनेगा, ये लाभार्थी खुद डिसाइड करता है। और घर के डिजाइन के लिए भी हमने देशभर में कंपीटिशन किया, घरों के मॉडल सामने रखे, डिजाइन के लिए भी लोगों को जोड़ा, जनभागीदारी से चीज़ें तय कीं। इससे घरों की क्वालिटी भी अच्छी हुई है और घर तेज़ गति से कंप्लीट भी होने लगे हैं। पहले ईंट-पत्थर जोड़कर आधे-अधूरे मकान बनाकर दिए जाते थे, हमने गरीब को उसके सपनों का घर बनाकर दिया है। इन घरों में नल से जल आता है, उज्ज्वला योजना का गैस कनेक्शन होता है, सौभाग्य योजना का बिजली कनेक्शन होता है, हमने सिर्फ चार दीवारें खड़ी नहीं कीं है, हमने उन घरों में ज़िंदगी खड़ी की है।

साथियों,

किसी भी देश के विकास के लिए बहुत जरूरी पक्ष है उस देश की सुरक्षा, नेशनल सिक्योरिटी। बीते दशक में हमने सिक्योरिटी पर भी बहुत अधिक काम किया है। आप याद करिए, पहले टीवी पर अक्सर, सीरियल बम ब्लास्ट की ब्रेकिंग न्यूज चला करती थी, स्लीपर सेल्स के नेटवर्क पर स्पेशल प्रोग्राम हुआ करते थे। आज ये सब, टीवी स्क्रीन और भारत की ज़मीन दोनों जगह से गायब हो चुका है। वरना पहले आप ट्रेन में जाते थे, हवाई अड्डे पर जाते थे, लावारिस कोई बैग पड़ा है तो छूना मत ऐसी सूचनाएं आती थी, आज वो जो 18-20 साल के नौजवान हैं, उन्होंने वो सूचना सुनी नहीं होगी। आज देश में नक्सलवाद भी अंतिम सांसें गिन रहा है। पहले जहां सौ से अधिक जिले, नक्सलवाद की चपेट में थे, आज ये दो दर्जन से भी कम जिलों में ही सीमित रह गया है। ये तभी संभव हुआ, जब हमने nation first की भावना से काम किया। हमने इन क्षेत्रों में Governance को Grassroot Level तक पहुंचाया। देखते ही देखते इन जिलों मे हज़ारों किलोमीटर लंबी सड़कें बनीं, स्कूल-अस्पताल बने, 4G मोबाइल नेटवर्क पहुंचा और परिणाम आज देश देख रहा है।

साथियों,

सरकार के निर्णायक फैसलों से आज नक्सलवाद जंगल से तो साफ हो रहा है, लेकिन अब वो Urban सेंटर्स में पैर पसार रहा है। Urban नक्सलियों ने अपना जाल इतनी तेज़ी से फैलाया है कि जो राजनीतिक दल, अर्बन नक्सल के विरोधी थे, जिनकी विचारधारा कभी गांधी जी से प्रेरित थी, जो भारत की ज़ड़ों से जुड़ी थी, ऐसे राजनीतिक दलों में आज Urban नक्सल पैठ जमा चुके हैं। आज वहां Urban नक्सलियों की आवाज, उनकी ही भाषा सुनाई देती है। इसी से हम समझ सकते हैं कि इनकी जड़ें कितनी गहरी हैं। हमें याद रखना है कि Urban नक्सली, भारत के विकास और हमारी विरासत, इन दोनों के घोर विरोधी हैं। वैसे अर्नब ने भी Urban नक्सलियों को एक्सपोज करने का जिम्मा उठाया हुआ है। विकसित भारत के लिए विकास भी ज़रूरी है और विरासत को मज़बूत करना भी आवश्यक है। और इसलिए हमें Urban नक्सलियों से सावधान रहना है।

साथियों,

आज का भारत, हर चुनौती से टकराते हुए नई ऊंचाइयों को छू रहा है। मुझे भरोसा है कि रिपब्लिक टीवी नेटवर्क के आप सभी लोग हमेशा नेशन फर्स्ट के भाव से पत्रकारिता को नया आयाम देते रहेंगे। आप विकसित भारत की एस्पिरेशन को अपनी पत्रकारिता से catalyse करते रहें, इसी विश्वास के साथ, आप सभी का बहुत-बहुत आभार, बहुत-बहुत शुभकामनाएं।

धन्यवाद!