نمسکار،
راجستھان کے گورنر کلراج مشر جی، وزیراعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، راجستھان پتریکا کے گلاب کوٹھاری جی، پتریکا گروپ کے دیگر معزز اراکین، میڈیا کے ساتھی، خواتین و حضرات !!!
گلاب کوٹھاری جی اور پتریکا گروپ کو سنواد اُپنیشد اور اکشر یاترا کتابوں کے لئے دلی مبارکباد۔
یہ کتابیں ادب اور ثقافت، دونوں کیلئے بےمثال تحفہ ہیں۔ آج مجھے راجستھان کی ثقافت کی جھلک پیش کرنے والےپتریکا گیٹ کو بھی وقف کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ مقامی افراد کے ساتھ ہی، وہاں آنے والے سیاحوں کے لئے بھی جاذبیت کا مرکز بنے گا۔
اس کوشش کیلئے بھی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو،
کسی بھی سماج میں سماج کا باشعور طبقہ، سماج کے مصنفین یا ادیب ، یہ مشعل راہ ہوتے ہیں، سماج کے معلم ہوتے ہیں۔ اسکولی تعلیم تو ختم ہو جاتی ہے، لیکن ہمارے سیکھنے کا عمل تا عمر چلتارہتا ہے، ہر دن جاری رہتا ہے۔ اس میں انتہائی اہم رول کتابوں اور مصنفین کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں تو تصنیف و تالیف کا مسلسل فروغ ہندوستانیت اور قومیت کے ساتھ ہوا ہے۔
جدجہد آزادی کے دوران تقریباً ہر نام، کہیں نہ کہیں سے تصنیف و تالیف سے بھی جڑاتھا۔ ہمارے یہاں عظیم سنت، ماہر سائنسداں بھی، مصنف اور ادیب رہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس روایت کی بقا کی خاطر آپ سب مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ راجستھان پتریکا گروپ اس بات کو خود کہنے کی جرأت رکھتا ہے کہ ہم دنیا کی اندھی تقلید کی دوڑ میں شامل نہیں ، بلکہ بھارتی ثقافت، بھارتی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کوآگے بڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
گلاب کوٹھاری جی کی یہ کتابیں، سنواد اپنیشد اور اکشر یاترا بھی، اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ گلاب کوٹھاری جی آج جس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں، پتریکا کی تو شروعات ہی کہیں نہ کہیں انہیں تہذیبوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ جناب کرپور چندر کولِش جی نے ہندوستانیت اور بھارت کی خدمت کے عزم کے تئیں پتریکا روایت کو شروع کیا تھا۔ صحافت میں ان کے تعاون کو تو ہم سب یاد کرتے ہی ہیں، لیکن کولش جی نے ویدوں کی تعلیم کو جس طرح سے سماج تک پہنچانے کی کوشش کی، وہ حقیقت میں انوکھا تھا۔ مجھے بھی ذاتی طورپر آنجہانی کولش جی سے ملنے کا کئی بار موقع ملا،وہ مجھ سے بہت لگاؤ رکھتے تھے ۔
وہ اکثر کہتے تھے، صحافت کو مثبت رکھنے سے ہی وہ با معنی بن سکتی ہے۔
ساتھیو،
معاشرے کو کچھ مثبت دینے کی یہ سوچ صرف ایک صحافی یا مصنف کی حیثیت سے ضروری ہو، ایسا نہیں ہے۔ یہ اثبات، یہ سوچ، ایک فرد کی حیثیت سے بھی ہماری شخصیت کے لئے بہت ضروری ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ کولش جی کی اس فکر کو، ان کے عزم کو، پتریکا گروپ اور گلاب کوٹھاری جی مستقل طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ گلاب کوٹھاری جی، آپ کو یاد ہوگا، جب کورونا کے بارے میں پرنٹ میڈیا کے ساتھیوں سے میں نے ملاقات کی تھی، تب بھی آپ کے مشورے، آپ کی صلاح پر، میں نے کہا تھا کہ آپ کے الفاظ مجھے آپ کے والد کی یاد دلاتے ہیں۔ سنمواد اپنیشد اور اکشر یاترا کو دیکھ کر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے والد کی ویدک وراثت کو کس حد تک مضبوطی سے آگے لے جارہے ہیں۔
ساتھیو،
جب میں گلاب جی کی کتابیں دیکھ رہا تھا، تو مجھے ان کا ایک اداریہ یاد آگیا۔ 2019 میں انتخابی نتائج کے بعد جب میں نے پہلی بار ملک کے لوگوں سے بات کی تھی، تو کوٹھاری جی نے اس پر ‘استوتیہ سنکلپ’ لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا تھاکہ، میری باتوں کو سن کر انہیں ایسا لگا، جیسے ان کی ہی بات کو میں نے 130 کروڑ اہل وطن کے سامنے کہہ دیا ہو۔ کوٹھاری جی، آپ کی کتابوں میں جب جب اپنشدیئے علم اور ویدک بحث ملتا ہے، تواسے پڑھ کر کہیں کہیں مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، جیسے اپنے ہی جذبات کو پڑھ رہا ہوں۔
در حقیقت،انسان کی فلاح و بہبود کے لئے،عام آدمی کی خدمت کے لئے الفاظ چاہے کسی کے بھی ہوں، ان کا ربط ہر کسی کے دل سے ہوتا ہے۔ اسی لئے تو ہمارے ویدوں کو، ویدوں کے نظریات کو ابدیت سے تعبیرکیا گیا ہے۔ وید منتروں کا پس منظر کچھ بھی ہو، لیکن ان کی روح، ان کا فلسفہ انسانیت کے لئے ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے وید، ہماری ثقافت، پوری دنیا کے لئے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ اپنیشدسنواد اور اکشر یاترا بھی اسی ہندوستانی فکر کی ایک کڑی کے طور پر لوگوں تک پہنچیں گے۔ ٹیکسٹ اور ٹوئیٹ کےآج کے دور میں، یہ زیادہ ضروری ہے کہ ہماری نئی نسل سنجیدہ علم سے دور نہ ہو۔
ساتھیو،
ہمارے اپنشدوں کا یہ علم، ویدوں کا یہ تفکر، یہ محض روحانی یا فلسفیانہ جاذبیت کا ہی شعبہ نہیں ہے۔ وید اور ویدانت میں کائنات اور سائنس کا بھی نظارہ ہے، کتنے ہی سائنس دانوں کو اس نے اپنی جانب متوجہ کیا ہے، کتنے ہی سائنسدانوں نے اس میں سنجیدہ دلچسپی لی ہے۔ ہم سبھی نے نکولا ٹیسلا کا نام سنا ہی ہوگا۔ ٹیسلا کے بغیر آج کی یہ نئی دنیا ایسی نہیں ہوتی، جیسا ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے جب سوامی وویکانند امریکہ گئے تھے، تو نکولا ٹیسلا سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ سوامی وویکانند نے ٹیسلا کو جب اپنشدوں کے علم، ویدانت کی کائناتی تشریح کے تعلق سے بتایا، تو وہ حیرت زدہ ر ہ گئے تھے۔
آکاش اور پران جیسے سنسکرت الفاظ سے کائنات کی طرح گہری بحث ، اپنشدوں میں کی گئی ہے، ٹیسلا نے کہا کہ وہ اسے جدید سائنس کی زبان میں،علم ریاضی کے دائرے میں لائیں گے۔۔ انہیں لگا تھا کہ وہ اس علم سے سائنس کی پیچیدہ ترین پہیلیوں کو حل کرسکتے ہیں۔ تاہم، بعد میں اور بھی بہت سی تحقیقات ہوئیں، جس پر سوامی ویویکانند اور نکولا ٹیسلا نے غوروخوض کیا تھا، الگ طریقے سے وہ چیزیں ہمارے سامنے آئیں۔ آج بھی کافی تحقیق کی جارہی ہے، لیکن کہیں نہ کہیں یہ ایک واقعہ ہمیں اپنے علم پر نظر ثانی کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ آج، ہمارے نوجوانوں کو اس نقطہ نظر سے بھی جاننے، سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے، سمواد اپنیشد جیسی کتاب، اکشر یاترا پر اتنا گہر اغوروخوض ، یہ ہمارے نوجوانوں کوایک نئی جہت عطا کرے گی اوران کی فکرو نظر میں گہرائی و گیرائی پیدا کرے گی۔
ساتھیو،
الفاظ ہماری زبان کی،ہماری اظہار کی پہلی اکائی ہیں۔ سنسکرت میں، اکشر کا مطلب ہےابدیت، یعنی جو ہمیشہ رہے۔ یہ سوچنے کی طاقت ہے۔ یہی صلاحیت ہے۔ ہزاروں سال پہلے،جو خیالات ، جو ایک علم، کسی رشی،مہا رشی، سائنسداں،فلسفی نے ہمیں دیا، وہ آج بھی دنیا کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اسی لئے، ہمارے اپنشدوں میں،ہمارے صحیفوں میں اکشر برہم کی بات کہی گئی ہے، ‘ اکشرم برہم پرمم’ کا اصول دیا گیا ہے۔
ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے۔ ‘‘ شبد برہمنی نشنات: پرم برہمادھی گچ چھتی’’ یعنی لفظ ہی برہم ہے، جو اس لفظ برہم کو پوری طرح جان لیتا ہے، وہ برہمتو کو، ایشورتو کو پا لیتا ہے۔
لفظ کی شان، لفظ کو خدا کہنے کی ایسی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ لہذا، الفاظ سے سچ بولنے کی ہمت، الفاظ کے ذریعہ اثبات پیدا کرنے کی طاقت، الفاظ سے تخلیق کرنے کی فکر،یہ ہندوستانی نفسیات کی فطرت ہے۔ ہماری فطرت ہے۔ جب ہم اس طاقت کو محسوس کرتے ہیں، تب ایک ادیب کی حیثیت سے، ہم ایک مصنف کی حیثیت سے اپنی اہمیت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں، معاشرے کے تئیں ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔
آپ دیکھئے ، غریبوں کو بیت الخلاء مہیا کرانےوالا، ان کو بہت ساری بیماریوں سے بچانے والا، سووچھ بھارت ابھیان ہو، ماتاؤں ، بہنوں کو لکڑی کے دھوئیں سے بچانے والی اجولا گیس اسکیم ہو، ہر گھر تک پانی پہنچانے کے لئے چل رہا جل جیون مشن ہو، سبھی میں میڈیا نے بیداری پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ عالمی وبا کے اس دور میں، کورونا کے خلاف آگاہی مہم میں بھی بھارتی میڈیا نے عوام کی بے مثال خدمات کی ہیں ۔ حکومت کے کاموں کی تفصیلات، حکومت کی اسکیموں میں زمینی سطح پر جو خامیاں ہیں، اُسے بتانا، اس کی مذمت کرنا، یہ بھی ہمارا میڈیا بخوبی کرتا رہا ہے۔
ہاں،ایسے وقت بھی آتے ہیں، جب میڈیا پر بھی تنقید ہوتی ہے، سوشل میڈیا کے دور میں، تو یہ اور بھی زیادہ فطری ہوگیا ہے۔ لیکن، تنقید سے سیکھنا بھی ، ہم سب کے لئے اتنا ہی فطری ہے۔ اسی لئے ہی آج کی ہماری جمہوریت طاقتوراور مضبوط ترین ہوئی ہے۔
ساتھیو،
جس طرح آج ہم اپنی وراثت، سائنس، ثقافت اوراپنی صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہم اسے قبول کر رہے ہیں، ہمیں اپنے اس خوداعتمادی کو آگے لے جانا ہے۔ آج جب، ہم ایک خود کفیل بھارت کی بات کر رہے ہیں ، آج جب لوکل کے لئے ووکل ہونے کی بات کر رہے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ ہمارا میڈیا اس عہد کو ایک بڑی مہم کی شکل دے رہا ہے۔ ساتھیو، ہمیں اس وژن کو اور وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ملک کی مقامی مصنوعات عالمی سطح پر پہنچ ہی رہی ہیں، لیکن بھارت کی آواز بھی زیادہ گلوبل ہوتی جارہی ہے۔ دنیا اب ہندوستان کو زیادہ غور سے سنتی ہے۔ آج،تقریبا ہر بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ ایسے میں ہندوستانی میڈیا کو بھی گلوبل ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اخبارات و رسائل کی عالمی سطح پر ساکھ بننی چاہئے، ڈیجیٹل عہد میں ہم ڈیجیٹل طور پر ہی پوری دنیا تک پہنچیں، دنیا میں جو مختلف ادبی ایوارڈز دیئے جاتے ہیں، ہندوستانی ادارے بھی ویسے ہی ایوارڈ دیں، یہ بھی آج، وقت کا تقاضا ہے۔ یہ بھی ملک کے لئے ضروری ہے۔
میں واقف ہوں کہ جناب کرپورچندر کولش جی کی یاد میں پتریکا گروپ نے انٹرنیشنل جرنلزم ایوارڈ شروع کیا ہے۔میں اس کے لئے گروپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی کاوشوں سے بھارت کو عالمی میڈیا پلیٹ فارم پر ایک نئی شناخت ملے گی۔ کورونا کے اس دور میں جس طرح پتریکا گروپ نے عوامی بیداری کے کام کئے ہیں،اس کے لئے میں آپ کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اس مہم کو ابھی مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اہل وطن بھی صحت مند رہیں، اور معیشت کو بھی رفتار ملے، آج ملک کی یہی ترجیح ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ملک یہ لڑائی جیت جائے گا اور ملک کا یہ سفر بھی اکشریاترا بن جائے گا۔
انہیں نیک خواہشات کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!