آپ سبھی کا متعدد اہم نکات اٹھانے کیلئے بہت بہت شکریہ۔ کورونا کے خلاف ملک کی لڑائی کو اب ایک سال سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اس دوران بھارت کے لوگوں نے کورونا کا جس طرح سے مقابلہ کیا ہے، اس کی دنیا میں مثال کے طور پر چرچا ہورہی ہے، لوگ اس کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آج بھارت میں 96فیصد سے زیادہ معاملات ٹھیک ہوچکے ہیں۔ اموات کی شرح میں بھی بھارت دنیا کے ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے، جہاں یہ شرح سب سے کم ہے۔
ملک اور دنیا میں کورونا کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جو پرزنٹیشن یہاں دیا گیا، اس سے بھی کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر کورونا سے متاثرہ ملک ایسے ہیں جنہیں کورونا کی کئی لہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ ریاستوں میں کیسز کم ہونے کے بعد اچانک سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ آپ سبھی ان پر دھیان دے رہے ہیں لیکن پھر بھی کچھ ریاستوں کا ذکر ہوا جیسے مہاراشٹر ہے، پنجاب ہے، آپ وزرائے اعلیٰ نے بھی تشویش ظاہر کی ہے، صرف میں کہہ رہا ہوں ایسا نہیں ہے۔ اورخاص فکر آپ کربھی رہے ہیں اور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں ٹیسٹ پازیٹیویٹی ریٹ بہت زیادہ ہے۔ اور کیسوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، بہت آرہے ہیں۔
اس بار کئی ایسے علاقوں، ایسے ضلعوں میں بھی یہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، جو ابھی تک خود کو بچائے ہوئے تھے۔ ایک طرح سے محفوظ علاقے تھے۔ اب وہاں پر ہمیں کچھ چیزیں نظر آرہی ہیں۔ ملک کے 70 اضلاع میں تو پچھلے کچھ ہفتوں میں یہ اضافہ 150 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہم اس بڑھتی ہوئی وبا کو یہیں نہیں روکیں گے تو ملک میں وسیع آؤٹ بریک کی صورتحال بن سکتی ہے۔ ہمیں کورونا کی اس اُبھرتی ہوئی ‘‘سیکنڈ پیک’’ کو فوراً روکنا ہی ہوگا۔ اور اس کے لئے ہمیں فوری اور فیصلہ کن قدم اٹھانے ہوں گے۔ کئی جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ماسک کو لیکر اب مقامی انتظامیہ کے ذریعے بھی اُتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی ہے۔ میری گزارش ہے کہ مقامی سطح پر گورننس کو لیکرجو بھی دقتیں ہیں، ان کی پڑتال، ان کا جائزہ لیا جانا، اور ان دقتوں کو دور کرنا یہ میں سمجھتا ہوں فی الحال بہت ضروری ہے۔
یہ غور وفکر کا موضوع ہے کہ آخر کچھ علاقوں میں ہی ٹیسٹ کم کیوں ہورہی ہے؟ کیوں ایسے ہی علاقوں میں ٹیکہ کاری بھی کم ہورہی ہے؟ میں سمجھتاہوں کہ یہ گڈ گورننس کے امتحان کا بھی وقت ہے۔ کورونا کی لڑائی میں آج ہم جہاں تک پہنچے ہیں، اس میں اور اس سے جو خود اعتمادی آئی ہے، یہ خود اعتمادی ہمارا کنفیڈنس-اوور کنفیڈنس بھی نہیں ہونا چاہے، ہماری یہ کامیابی لاپروائی میں بھی نہیں بدلنی چاہئے۔ ہمیں عوام کو پینک موڈ میں بھی نہیں لانا ہے۔ ایک خوف کا ماحول پھیل جائے، یہ بھی حالات نہیں لانے ہیں اور کچھ احتیاط برت کر، کچھ اقدامات کرکے ہمیں عوام کو پریشانی سے نجات بھی دلانا ہے۔
اپنی کوششوں میں ہمیں اپنے پرانے تجربات کو شامل کرکے حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ہر ریاست کے اپنے اپنے تجربات ہوتے ہیں، اچھے تجربات ہوتے ہیں، اچھے اقدامات ہوتے ہیں، کئی ریاست دوسری ریاستوں سے نئے نئے تجربات سیکھ بھی رہے ہیں۔ لیکن اب ایک سال میں ہماری سرکاری مشینری ان کو نیچے تک ایسے حالات میں کیسے کام کرنا، قریب-قریب ٹریننگ ہوچکی ہے۔ اب ہمیں پروا یکٹیو ہونا ضروری ہے۔ ہمیں جہاں ضروری ہو اور یہ میں گزارش کرکے کہتا ہوں، مائیکرو کنٹینمنٹ زون بنانے کا متبادل بھی کسی بھی حالت میں ڈھلائی نہیں لانی چاہئے، اس پر بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہئے۔ ضلعوں میں کام کررہی پینڈیمک رسپانس ٹیمس کو کنٹینمنٹ اور سرویلنس ایس او پی کی ری اورینٹیشن کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیا جانا چاہئے۔ پھر سے ایک بار چار گھنٹے، چھ گھنٹے کے لئے میٹنگ کرکے ایک چرچاہو، ہر سطح پر چرچاہو۔ سنسیٹائز بھی کریں گے، پرانی چیزیں یاد کرادیں گے اور رفتار بھی لاسکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی، ‘ٹیسٹ، ٹریک اور ٹریٹ’ اس کو لیکر بھی ہمیں اتنی ہی سنجیدگی کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم پچھلے ایک سال سے کرتے آرہے ہیں۔ ہر متاثرہ شخص کے رابطوں کو کم سے کم وقت میں ٹریک کرنا اور آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ ریٹ 70فیصد سے اوپر رکھنا بہت اہم ہے۔
ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کئی ریاستوں میں ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ پر ہی زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اسی بھروسے گاڑی چل رہی ہے۔ جیسے کیرل ہے، اڈیشہ ہے، چھتیس گڑھ ہے اور یوپی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں بہت تیزی سے بدلاؤ کی ضرورت ہے۔ ان سبھی ریاستوں میں، میں تو چاہتا ہوں ملک کے سبھی ریاستوں میں ہمیں آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ اور بڑھانے پر زور دینا ہوگا۔ ایک بات جو بہت دھیان دینے والی ہے وہ یہ کہ اس بار ہمارے ٹیئر-2، ٹیئر-3 شہر جو شروع میں متاثر نہیں ہوئے تھے، ان کے آس پاس کے علاقے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ دیکھئے اس لڑائی میں ہم کامیابی کے ساتھ بچ پائے ہیں، اس کا ایک سبب تھا کہ ہم گاؤں کو اس سے پاک رکھ پائے تھے۔ لیکن ٹیئر-2، ٹیئر-3 سٹی پہنچا تو اس کو گاؤں میں جانے میں دیر نہیں لگے گی اور گاؤں کو سنبھالنا ۔۔ہمارے انتظامات بہت کم پڑ جائیں گے۔ اور اس لئے ہمیں چھوٹے شہروں میں ٹیسٹنگ کو بڑھانا ہوگا۔
ہمیں چھوٹے شہروں میں ریفرل سسٹم اور ایمبولینس نیٹ ورک کے اوپر خصوصی دھیان دینا ہوگا۔ پرزنٹیشن میں یہ بات بھی سامنے رکھی گئی ہے کہ ابھی وائرس کا پھیلاؤ ڈسپرس مینر میں ہورہا ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب پورا ملک سفر کیلئے کھل چکا ہے، بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ اس لئے ، آج ہر ایک کیس کے ٹریول کی ، اس کے کنٹیکٹ کے ٹریول کی اطلاع سبھی ریاستوں کو آپس میں بھی ساجھا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ آپس میں جانکاری مشترک کرنے کیلئے کسی نئے مکینزم کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس پر بھی غور ہونا چاہئے۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے مسافروں اور ان کے رابطے میں آنے والے افراد کی نگرانی کیلئے معیاری طریقہ کار (ایس او پی) پر عمل آوری کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ ابھی ہمارے سامنے کورونا وائرس کے میوٹینٹس کو بھی پہچاننے اور ان کے اثرات کے تجزیہ کا بھی سوال ہے۔ آپ کے ریاستوں میں آپ کو وائرس کے ویرینٹ کا پتہ چلتا ہے، اس کے لئے بھی جینوم سمپل بھی ٹیسٹنگ کے لئے بھیجا جانا اتنا ہی اہم ہے۔
ساتھیو،
ویکسین ابھیان کو لیکر کئی ساتھیوں نے اپنی بات رکھی۔ یقینی طور پر اس لڑائی میں ویکسین اب ایک سال کے بعد ہمارے ہاتھ میں ایک ہتھیار آیا ہے، یہ مؤثر ہتھیار ہے۔ ملک میں ٹیکہ کاری کی رفتار لگاتار بڑھ رہی ہے۔ ہم ایک دن میں 30 لاکھ لوگوں کو ٹیکہ لگانے کے اعداد وشمار کو بھی ایک بار تو پار کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں ویکسین ڈوزیز برباد ہونے کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں دس فیصد سے زیادہ ویکسین برباد ہوئے ہیں۔ یوپی میں بھی ویکسین کی برباد تقریباً ویسی ہی ہے۔ ویکسین کیوں برباد ہورہی ہے اس کا بھی جائزہ ریاستوں میں لیا جانا چاہئے اور میں مانتا ہوں کہ ہرروز شام کو اس کی مانیٹرنگ کا انتظام رہنا چاہئے اور ہمارے سسٹم کو پرو-ایکٹیو لوگوں کو کنٹریکٹ کرکے ایک ساتھ اتنے لوگ موجود رہیں تاکہ ویکسین برباد نہ ہو، اس کا انتظام ہونا چاہئے۔ کیوں کہ ایک طرح سے جتنا پرسنٹیج ویسٹ ہوتا ہے، ہم کسی کے حق کو برباد کررہے ہیں۔ ہمیں کسی کے حق کو برباد کرنے کا حق نہیں ہے۔
مقامی سطح پر پلاننگ اور گورننس کی جو بھی کمیاں ہیں انہیں فوری طور پر بہتر کرنا چاہئے۔ ویکسین کی برباد جتنی رکے گی، اور میں تو چاہوں گا ریاستوں کو تو صفر بربادی کے نشانے سے کام شروع کرنا چاہئے۔ اپنے یہاں برباد نہیں ہونے دیں گے۔ ایک بار کوشش کریں گے تو اصلاح ضرور ہوگی۔ اتنے ہی زیادہ صحت کارکنان، صف اول کے کارکنان اور دوسرے اہل لوگوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں پہنچانے کی ہماری کوشش کامیاب ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اِن اجتماعی کوششوں اور حکمت عملی کا اثر جلد ہی ہمیں دکھائی دیگا اور اس کے نتائج بھی نظر آئیں گے۔
آخر میں، میں کچھ نکات پھر ایک بار دوہرانا چاہتا ہوں، تاکہ ہم سبھی مسائل پر دھیان دیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ایک منتر جو ہمیں لگاتار سب کو کہنا ہوگا۔ ‘دوائی اور کڑائی بھی’۔ دیکھئے دوائی مطلب بیماری چلی گئی ہے ایسا نہیں۔ مان لیجئے کسی کو زکام ہوا۔ اس نے دوائی لے لی، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو ٹھنڈی جگہ پر بغیر تحفظ کے اونی کپڑے پہنے بغیر وہ چلا جائے، بارش میں کہیں بھیگنے کیلئے چلا جائے۔ بھئی ٹھیک ہے، تم نے دوائی لی ہےلیکن تمہیں باقی بھی سنبھالنا تو پڑے گا ہی پڑے گا۔ یہ صحت کا اصول ہے، یہ کوئی بیماری کیلئے نہیں ہے، یہ ہر بیماری کے لئے ہے جی۔ اگر ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا ہے، دوائی ہوگئی سب ہوگیا پھر بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ان ان چیزوں کو نہیں کھانا۔ یہ ویسا ہی ہے ۔ اور اس لئے میں سمجھتا ہوں اتنی عام سی بات لوگوں کو سمجھانی چاہئے۔اور اس لئے ‘دوائی بھی اور کڑائی بھی’، اس سلسلے میں ہم بار بار لوگوں کو خبردار کریں۔
دوسرا ، جو موضوع میں نے کہا۔ آر ٹی- پی سی آر ٹیسٹ کو تیز تر کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ نئے کیسز کی پہچان فوراً ہوسکے۔ مقامی انتظامیہ کو مائیکرو کنٹینمنٹ زون بنانے کی سمت میں بھی ہمیں گزارش کرنی چاہئے۔ وہ وہیں پر کام تیزی سے کریں، ہم بہت تیزی سے روک پائیں گے تاکہ انفیکشن کا دائرہ پھیلنے سے روکنے میں وہ مدد کریگا۔ ویکسین لگانے والے مراکز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، وہ پرائیویٹ ہو، سرکاری ہو، جیسا آپ نے میپ دیکھا ہوگا، وہ آپ کے لئے بھی ریاست وار بھی بنایا۔ وہ شروع میں جو گرین ڈاٹ والا بتایا تھا۔ اور دیکھنے سے ہی پتا چلتا ہے کہ بہت سارے علاقے ہیں کہ جہاں لائٹ گرین لگ رہا ہے، مطلب کہ ہمارے ویکسینیشن سینٹر اتنے نہیں ہیں یا ایکٹیو نہیں ہیں۔ دیکھئے ٹیکنالوجی ہماری بہت مدد کررہی ہے۔ ہم بہت آسانی سے ڈے ٹو ڈے چیزوں کو آرگنائز کرسکتے ہیں۔ اس کا ہمیں فائدہ تو لینا ہے لیکن اس کی بنیاد پر ہمیں بہتر کرنا ہے۔ ہمارے جتنے سینٹرس پرو ایکٹو ہونگے، مشن موڈ میں کام کریں گے، ویسٹیج بھی کم ہوگا، تعداد بھی بڑھے گی اور ایک اعتماد فوراً بڑھے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس پر زور دیا جائے۔
ساتھ ہی ایک بات ہمیں دھیان رکھنی ہوگی کیوں کہ یہ ویکسین کا لگاتار پروڈکشن ہورہا ہے اور جتنی جلدی ہم اس سے باہر نکلیں ہمیں نکلنا ہے۔ ورنہ یہ ایک سال، دو سال، تین سال تک کھنچتا چلا جائے گا۔ایک معاملہ ہے ویکسین کی ایکسپائری ڈیٹ ، ہمیں دھیان رکھنا چاہئے کہ جو پہلے آیا ہے اس کا پہلے استعمال ہو، جو بعد میں آیا ہے اس کا بعد میں استعمال ہو۔ اگر جو بعد میں آیا ہوا ہم پہلے استعمال کرلیں گے تو پھر ایکسپائری ڈیٹ اور ویسٹیج کی صورت بن جائے گی۔ اور اس لئے مجھے لگتا ہے کہ اوائیڈبل ویسٹیج سے تو ہمیں بچناہی چاہئے۔ ہمیں پتا ہونا چاہئے کہ یہ لاٹ ہمارے پاس جو ہے اس کی ایکسپائری ڈیٹ یہ ہے، ہم سب سے پہلے اس کا استعمال کرلیں یہ بہت ضروری ہے۔ اور ان سبھی باتوں کے ساتھ، اس انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے جو بنیادی اقدامات ہیں، جیسا میں کہتا ہوں‘‘دوائی بھی اور کڑائی بھی’’۔ ماسک پہننا ہے، دو گز کی دوری بنائے رکھنا ہے، صاف صفائی کا دھیان رکھنا ہے، پرسنل ہائیجین ہو یا سوشل ہائیجین ہو، پوری طرح اس پر زور دینا پڑیگا۔ ایسے کئی اقدامات جو پچھلے ایک سال سے ہم کرتے آئے ہیں پھر سے ایک بار ان پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ پھر سے ایک بار گزارش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہمیں سختی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔ جیسے ہمارے کیپٹن صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم کل سے بڑی کارروائی کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، اچھی بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس سلسلے میں ہمت کے ساتھ کرنا پڑے گا۔
مجھے یقین ہے کہ ان مسئلوں پر لوگوں کی بیداری بنائے رکھنے میں ہم کو کامیابی ملے گی۔ میں پھر ایک بار آپ کی تجاویز کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مزید جو تجاویز ہیں، آپ ضرور بھیجیں۔ ہاسپٹل کے بارے میں جو آج چرچا نکل کے آئی ہے، آپ دو چار گھنٹے میں ہی ساری جانکاری دے دیجئے تاکہ میں شام کو سات آٹھ بجے کے آس پاس اپنے ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کے ساتھ جائزہ لیکر اس میں سے اگر کوئی روکاوٹ ہے تو اس کو دور کرنے کیلئے کئی ضروری فیصلے کرنے ہوں گے تو وزارت صحت فوراً کرلے گی، اور میں بھی اس پر دھیان دوں گا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم اب تک جو لڑائی جیتتے آئے ہیں، ہم سب کا تعاون ہے، ایک ایک ہمارے کورونا جانباز کا تعاون ہے اس کے سبب ہوا ہے، عوام الناس نے بھی بہت تعاون دیا ہے جی۔ ہمیں عوام سے جوجھنا نہیں پڑا ہے۔ ہم جو بھی بات لیتے گئے عوام نے یقین کیا ہے، عوام نے ساتھ دیا ہے اور بھارت کامیاب ہورہا ۔ 130 کروڑ ہم وطنوں کی بیداری کے سبب ، 130 کروڑ ہم وطنوں کے تعاون کے سبب، 130 کروڑ ہم وطنوں کے کو-آپریشن کے سبب۔ ہم جتنا عوام کو اس سلسلے میں پھر سے جوڑ پائیں ، پھر سے اس مسئلے کے بارے میں بتائیں گے، مجھے پختہ یقین ہے کہ جو ابھی بدلاؤ نظر آرہا ہے ہم اس بدلاؤ کو پھر سے ایک بار روک پائیں گے۔ پھر سے ہم نیچے کی جانب لے جائیں گے۔ ایسا میرا پختہ یقین ہے۔ آپ سب نے بہت محنت کی ہے، آپ کے پاس اس کی ماہر ٹیم بن چکی ہے۔ تھوڑا روزانہ ایک بار- دو بار پوچھنا شروع کردیجئے ، ہفتہ میں ایک دو بار میٹنگ لینا شروع کردیجئے، چیزیں اپنے آپ رفتار پکڑ لیں گی۔
میں پھر ایک بار بہت مختصر نوٹس میں آپ سب کو آج کی میٹنگ میں نے آرگنائز کی، لیکن پھر بھی آپ نے وقت نکالا اور بہت تفصیل سے اپنی جانکاریاں دیں، میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ جی!