Working Session 9: Toward a Peaceful, Stable and Prosperous World

معززین ،

 آج ہم صدر  زیلنسکی  کو سنا۔  کل میری اُن سے ملاقات بھی ہوئی تھی ۔  میں موجودہ حالات کو سیاسی یا معیشت کا معاملہ نہیں سمجھتا ۔ میرا ماننا ہے کہ یہ انسانیت کا معاملہ ہے ، انسانی اقدار کا معاملہ ہے ۔  ہم نے شروع  سے کہا ہے کہ ڈائیلاگ اور  ڈپلومیسی  ہی  واحد راستہ ہے اور اس صورت ِحال کے حل کے لیے بھارت سے جو کچھ بھی  ممکن ہوگا ، ہم یقیناً پوری کوشش کریں  گے ۔

محترم ،

عالمی امن، استحکام اور خوشحالی ہم سب کا مشترکہ مقصد ہے۔ آج کی باہم جڑی ہوئی دنیا میں، کسی ایک خطے میں کشیدگی تمام ممالک کو متاثر کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک  ، جن کے پاس وسائل محدود ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ موجودہ عالمی  صورتِ حال کی وجہ سے خوراک، ایندھن اور کھاد کے بحران کے سب سے زیادہ اور گہرے اثرات  ، ان ہی  ملکوں کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

محترم ،

یہ سوچنے کی بات ہے کہ  بھلا ہمیں  امن واستحکام کی باتیں الگ الگ فورم میں  کیوں کرنی پڑ رہی ہیں ؟  اقوامِ متحدہ  ، جس کی شروعات ہی امن  قائم کرنے کے تصور سے کی گئی تھی ، بھلا آج تنازعات کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں  ہوتی؟ آخر کیوں،   یو این میں  دہشت گردی  کی تعریف تک قبول نہیں ہو پائی ہے ؟ اگر کوئی خود کا جائزہ لے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ گزشتہ صدی میں جو ادارے بنائے گئے وہ اکیسویں صدی کے نظام کے مطابق نہیں ہیں۔ وہ دور حاضر کے حقائق کی عکاسی نہیں کرتے   ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ جیسے بڑے اداروں میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔  ان کو گلوبل ساؤتھ کی آواز   بھی بننا ہو گا۔ بصورت دیگر ہم صرف تنازعات کو ختم کرنے  پر تبادلۂ خیال ہی کرتے رہ جائیں گے ۔اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل صرف باتوں کی دکان بن کر رہ جائیں گے۔

محترم ،

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں، موجودہ صورتِ حال  کو  بدلنے کی یکطرفہ کوششوں کے خلاف مل کر آواز اٹھائیں  ۔    بھارت کی ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ کسی بھی کشیدگی، کسی بھی تنازعہ  کو  پُر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور اگر قانون کے ذریعے کوئی حل نکلتا ہے تو اسے  ماننا چاہیے۔  اسی جذبے کے تحت  بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے زمینی اور سمندری حدود کے تنازعہ  کو حل کیا تھا ۔

محترم ،

بھارت میں اور یہاں جاپان میں بھی بھگوان بدھ کی پیروی ہزاروں سالوں سے کی جاتی ہے ۔  جدید دور میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس کا حل ہمیں بدھ کی تعلیمات میں نہ ملے۔ آج دنیا  ، جس جنگ، بدامنی اور عدم استحکام سے دوچار ہے، اس کا حل مہاتما بدھ نے صدیوں پہلے ہی  دے دیا تھا۔

بھگوان بدھ نے کہا ہے:

नहि वेरेन् वेरानी,
सम्मन तीध उदासन्,
अवेरेन च सम्मन्ति,
एस धम्मो सन्नतन।

یعنی  دشمنی سے  دشمنی ختم نہیں ہوتی۔  دشمنی وابستگی سے ختم ہوتی ہے۔

 

اسی جذبے کے  ساتھ ہمیں سب کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔

شکریہ ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait

Media Coverage

Snacks, Laughter And More, PM Modi's Candid Moments With Indian Workers In Kuwait
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to attend Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 22, 2024
PM to interact with prominent leaders from the Christian community including Cardinals and Bishops
First such instance that a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India

Prime Minister Shri Narendra Modi will attend the Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) at the CBCI Centre premises, New Delhi at 6:30 PM on 23rd December.

Prime Minister will interact with key leaders from the Christian community, including Cardinals, Bishops and prominent lay leaders of the Church.

This is the first time a Prime Minister will attend such a programme at the Headquarters of the Catholic Church in India.

Catholic Bishops' Conference of India (CBCI) was established in 1944 and is the body which works closest with all the Catholics across India.