نمسکار
قابل احترام بابا صاحب پورندرےجی ، جو اس پروگرام میں ہمیں آشیرواد دے رہے ہیں ، باباصاحب ستکار سماروہ سمیتی کی صدر سمترا تائی اور شیو شاہی میں اعتقاد رکھنے والے بابا صاحب کے تمام پیروکار!
میں قابل احترام بابا صاحب پورندرےجی کو زندگی کے سوویں سال میں داخل ہونے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی رہنمائی ، ان کا آشیرواد ، جیسے ابھی تک ہم سب کو ملتا رہا ہے ، ویسے ہی آئندہ بھی طویل عرصے تک ملتا رہے ، یہ میری نیک خواہشات ہیں ۔ میں اس خاص تقریب کے لیے محترمہ سمترا تائی کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس خوشگوار تقریب میں مجھے باباصاحب کا آشیرواد حاصل کرنے ، ان سے عقیدت رکھنے والے آب سبھی دوستوں کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے ۔ میں اس مبارک موقع پر پورے ملک میں موجود بابا صاحب کے بے شمار پیروکاروں کو بھی مبارکبادپیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں ،
لمبی زندگی کی خواہش انسانیت کے سب سے بہتر اور مثبت خیالات میں سے ایک ہے۔ ہمارے یہاں ویدوں میں رشیوں نے تو طویل زندگی سے بھی آگے بڑھ کر کہا ہے، ہمارے رشیوں نے کہا ہے:
جیویم شرد شاتم
بودھیم شرد شاتم
روہیم شرد شاتم
یعنی ہم سو سال تک زندہ رہیں ، سو سال تک سوچ سمجھ کر چلیں ، اور سو سال تک آگے بڑھتے رہیں۔ بابا صاحب پورندرےکی زندگی ہمارے سنتوں کے اس عظیم جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ اپنی تپسیا سے جب کوئی زندگی میں ایسے یوگ ثابت کرتا ہے تو پھر کئی اتفاقات بھی خود کو ثابت ہونے لگتے ہیں ۔ یہ ایک خوشگوار اتفاق ہی ہے کہ جب بابا صاحب اپنی زندگی کے سوویں سال میں داخل ہو رہے ہیں ، اسی وقت ہمارا ملک بھی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بابا صاحب خود محسوس کر رہے ہوں گے کہ یہ اتفاق ان کے لیے ان کی تپسیا سے خوش ہوکر ماں بھارتی کا براہ راست آشیرواد ہی ہے۔
بھائیو اور بہنو ،
ایک اور اتفاق ہے جو ہمیں آزادی کے 75 ویں سال کے لیے ترغیب دیتا ہے۔ آپ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک نے مجاہدین آزادی کی لافانی روحوں کی تاریخ لکھنے کی مہم شروع کی ہے۔ بابا صاحب پورندرے یہی نیک کام کئی دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ اپنی پوری زندگی اسی ایک مشن کے لیے صرف کر دی ہے۔ انہوں نے شیواجی مہاراج کی زندگی اور ان کی تاریخ کو لوگوں تک پہنچانے میں جو خدمات انجام دی ہیں اس کے لیے ہم سبھی ان کے مقروض رہیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمیں ان کے خدمات کے بدلے ملک کو ان کے تئیں اظہار تشکر کرنے کا اعزاز حاصل ہواہے۔ 2019 میں ، ملک نے انہیں 'پدم وبھوشن' سے نوازا ، جبکہ 2015 میں اس وقت کی مہاراشٹر حکومت نے انہیں 'مہاراشٹر بھوشن ایوارڈ' بھی دیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں بھی ، شیوراج جی کی حکومت نے 'چھترپتی شیواجی' کے اس عظیم بھکت کو کالی داس ایوارڈ دے کر خراج تحسین پیش کیا تھا۔
ساتھیوں ،
چھترپتی شیواجی مہاراج کے تئیں بابا صاحب پورندرےجی کی ایسی عقیدت یوں ہی نہیں ہے! شیواجی مہاراج ، نہ صرف ہندوستان کی تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں بلکہ ہندوستان کا موجودہ جغرافیہ بھی ان کی لازوال کہانی سے متاثر ہے۔ یہ ہمارے ماضی ، ہمارے حال کا اور ہمارے مستقبل کا بہت بڑا سوال ہے کہ اگر شیواجی مہاراج نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ چھترپتی شیواجی مہاراج کے بغیر ہندوستان کے رنگ و روپ اور ہندوستان کی عظمت کا تصور کرنا مشکل ہے۔ اس دور میں چھترپتی شیواجی نے جو کردار ادا کیا تھا ، وہی کردار ان کے بعد ان کی ترغیبات نے ، ان کی کہانیوں نے مسلسل ادا کی ہیں ۔ شیواجی مہاراج کی 'ہندوی سوراج' بہتر حکمرانی ، پسماندہ اورمحروم طبقات کے تئیں انصاف کا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ایک منفرد مثال ہے۔ ویر شیواجی کا انتظام ، ملک کی سمندری طاقت کا استعمال ، بحریہ کی افادیت ، پانی کا انتظام ، ایسے کئی موضوع آج بھی قابل تقلید ہیں۔ اور یہ بابا صاحب ہی ہیں جنہیں آزاد ہندوستان کی نئی نسل کو شیواجی مہاراج کے اس رخ کو متعارف کرانے کا سب سے زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔
ان کی تحریروں اور ان کی کتابوں میں شیواجی مہاراج کے لیے ان کی اٹوٹ شردھا واضح طور پر جھلکتی ہے۔
شیواجی مہاراج سے متعلق کہانیاں سنانے کابابا صاحب پرندارےکا اندازبیان اور ان کے الفاظ شیواجی مہاراج کو ہمارے دل ودماغ میں زندہ کردیتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تقریبا چار دہائی پہلے احمد آباد میں جب ان کے پروگرام منعقد ہوتے تھے ، میں ان میں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ایک بار جنتا راجا کے ابتدائی دنوں میں ، میں اسے دیکھنے کے لیے خاص طور پر پنے گیا تھا۔
بابا صاحب نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ نوجوانوں تک اپنی ترغیبات کے ساتھ پہنچے اور ساتھ ہی اپنی حقیقی شکل میں بھی پہنچے۔ آج ملکی تاریخ میں اسی توازن کی بہت ضرورت ہے۔ ان کی شردھا اور ان کے اندر کے ادیب نے کبھی بھی ان کی تاریخ کے احساس کو کبھی متاثر نہیں کیا۔ میں ملک کے نوجوان مورخین سے بھی کہوں گا ، جب آپ آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر آزادی کی تاریخ لکھیں ، تو آپ کی تحریروں میں ترغیب اور صداقت کی یہی کسوٹی ہونی چاہیے۔
ساتھیوں ،
بابا صاحب پورندرےکی کوششیں صرف تاریخ کو سمجھنے تک محدود نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شیواجی مہاراج کی زندگی جینے کی بھی اتنے ہی عقیدت کے ساتھ کوشش کی ہے۔انہیں تاریخ کے ساتھ ساتھ حال کی بھی فکر ہے۔
گوا کی آزادی کی جدوجہد سے لے کر دادرا نگر حویلی کی آزادی کی جدوجہد تک ، ان کا کردار ہم سب کے لیے رول ماڈل رہا ہے۔ ان کا خاندان بھی سماجی کام اور موسیقی کے فن کے لیے خود کو مسلسل وقف کرتا رہا ہے۔ آپ آج بھی 'شیو سرشٹی' کی تعمیر کے بے مثال عزم پر کام کر رہے ہیں۔ شیواجی مہاراج کے جن اصولوں کو آپ نے ملک کے سامنے رکھنے کے لیے تاعمر کوشش کی ، وہ اصول ہمیں صدیوں تک ترغیب دیتے رہیں گے۔
اس یقین کے ساتھ ، میں ما ں بھوانی کے قدموں میں جھک کر دعاکرتا ہوں ، آپ کی بہترصحت کے لیے دعا کرتا ہوں۔ آپ کا آشیرواد ہمیں اسی طرح ملتا رہے ۔ ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ ، میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔