A task force has been formed, which will monitor the cheetahs and see how they are adapting to the environment: PM Modi
Deendayal ji's 'Ekatma Manavdarshan' is such an idea, which in the realm of ideology gives freedom from conflict and prejudice: PM Modi
It has been decided that the Chandigarh airport will now be named after Shaheed Bhagat Singh: PM Modi
A lot of emphasis has been given in the National Education Policy to maintain a fixed standard for Sign Language: PM Modi
The world has accepted that yoga is very effective for physical and mental wellness: PM Modi
Litter on our beaches is disturbing, our responsibility to keep coastal areas clean: PM Modi
Break all records this time to buy Khadi, handloom products: PM Modi
Use locally made non-plastic bags; trend of jute, cotton, banana fibre bags is on the rise once again: PM Modi

میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !

پچھلے کچھ دنوں میں ، جس چیز نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی ہے ، وہ ہے چیتا۔ چیتوں کے بارے میں بات کرنے کے بہت سے پیغامات آئے ہیں، چاہے وہ اتر پردیش کے ارون کمار گپتا ہوں یا پھر تلنگانہ کے این رام چندرن رگھورام جی؛ گجرات کے راجن جی ہوں یا دلّی کے سبرت جی۔ بھارت میں چیتوں کی واپسی پر ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ 130 کروڑ بھارتی خوش ہیں، فخر سے بھرے ہیں - یہ بھارت کی فطرت سے محبت ہے۔ اس بارے میں لوگوں کا ایک عام سوال ہے کہ مودی جی، ہمیں چیتا دیکھنے کا موقع کب ملے گا؟

ساتھیو ،  ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔ یہ ٹاسک فورس چیتوں کی نگرانی کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ یہاں کے ماحول میں کتنا گھل مل جانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس بنیاد پر کچھ مہینوں کے بعد فیصلہ کیا جائے گا اور پھر آپ چیتا دیکھ سکیں گے لیکن تب تک میں آپ سب کو کچھ کام سونپ رہا ہوں۔  اس کے لئے مئی گوو  پلیٹ فارم پر ایک مقابلہ منعقد کیا جائے گا، جس میں ، میں لوگوں سے کچھ چیزیں شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔  چیتوں کے لئے ، جو مہم چلا رہے ہیں ، آخر اس مہم کا کیا نام ہونا چاہیئے! کیا ہم ان تمام چیتوں کے نام رکھنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو کس نام سے پکارا جائے! ویسے اگر یہ نام روایتی ہو  تو کافی اچھا رہے گا کیونکہ ہمارے معاشرے اور ثقافت، روایت اور ورثے سے جڑی کوئی بھی چیز ہمیں فطری طور پر اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ یہ بھی بتائیں کہ آخر انسانوں کو جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے! ہمارے بنیادی فرائض میں بھی جانوروں کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ میری  آپ سبھی سے اپیل ہے کہ آپ اس مقابلے میں ضرور شرکت کریں - کیا پتہ انعام کے طور پر چیتے دیکھنے کا پہلا موقع آپ کو ہی مل جائے !

میرے پیارے ہم وطنو، آج 25 ستمبر کو  ملک کے  عظیم انسان دوست، مفکر اور ملک کے عظیم فرزند دین دیال اپادھیائے جی کایوم پیدائش منایا جاتا  ہے۔ کسی بھی ملک کے نوجوان اپنی شناخت اور  عظمت پر جتنا زیادہ فخر کرتے ہیں، ان کے اصل نظریات اور فلسفے انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ دین دیال جی کے افکار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دنیا کے بڑے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ وہ نظریات کے تصادم کے گواہ بنے تھے۔ اس لئے انہوں نے  ’ ایک آتما مانو درشن‘ اور  ’ انتودیا ‘ کا ایک نظریہ ملک کے سامنے رکھا  ، جو  پوری طرح بھارتیہ تھا۔ دین دیال جی کا  ’ ایک آتما مانو درشن ‘ ایک ایسا نظریہ ہے، جو نظریے کے نام پر تنازعات اور تعصب سے آزادی دیتا ہے۔  انہوں نے انسان کو یکساں سمجھنے والے بھارتی درشن کو پھر سے  دنیا کے سامنے رکھنا ۔  ہمارے  شاستروں کہا گیا ہے ۔ ’  आत्मवत् सर्वभूतेषु‘ ( آتم وَت سرو بھوتیشو ) یعنی ہم ہر نفس کو اپنی طرح سمجھیں ، اپنے جیسا سلوک کریں ، جدید معاشرتی اور سیاسی تناظر میں بھی  بھارتی درشن ، کس طرح دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے ، یہ دین دیال جی نے ہمیں سکھایا ۔ ایک طرح سے انہوں نے آزادی کے بعد ملک میں پھیلنے والے احساس کمتری سے آزاد کر کے ہمارے اپنے فکری شعور کو بیدار کیا۔وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ’’ہماری آزادی اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے ، جب یہ ہماری ثقافت اور شناخت کا اظہار کرے‘‘۔ اسی خیال کی بنیاد پر انہوں نے ملک کی ترقی کا ویژن تیار کیا تھا۔ دین دیال اپادھیائے جی کہا کرتے تھے کہ ملک کی ترقی کا پیمانہ آخری  پائیدان پر موجود شخص ہوتا ہے۔ آزادی کے امرت  کال میں، ہم دین دیال جی کو جتنا  سمجھیں گے ،  ان سے جتنا سیکھیں گے، ملک کو  اتنا ہی آگے لے  کر جانے کی  ہم سب کو تحریک ملے گی ۔

  میرے پیارے ہم وطنو، آج سے تین دن بعد یعنی 28 ستمبر کو امرت مہوتسو کا ایک خاص دن آ رہا ہے۔ اس دن ہم بھارت ماتا کے بہادر بیٹے بھگت سنگھ جی کا یوم پیدائش منائیں گے۔ بھگت سنگھ  جی کے یوم پیدائش سے عین قبل انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چندی گڑھ کے ہوائی اڈے کا نام اب شہید بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس کا کافی عرصے سے انتظار تھا۔ میں اس فیصلے کے لئے چندی گڑھ، پنجاب، ہریانہ اور ملک کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو ، ہم اپنے  مجاہدینِ آزادی سے تحریک لیں، ان کے  اصولوں پر چلتے ہوئے  ، ان کے خوابوں کے بھارت کی تعمیر کریں، یہی  ان کے لئے ہمارا خراج عقیدت  ہو گا ۔ شہیدوں کی یادگاریں، جگہوں کے نام اور ان کے نام سے منسوب ادارے ہمیں  فرائض کے لئے  تحریک دیتے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے  ہی ملک نے  کرتوویہ پَتھ پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ  نصب کرکے ایسی ہی  ایک کوشش کی ہے اور اب شہید بھگت سنگھ کے نام سے چنڈی گڑھ ہوائی اڈے کا نام اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ میں چاہوں گا کہ جس طرح ہم امرت مہوتسو میں  مجاہدینِ آزادی سے متعلق خصوصی مواقع پر جشن منا رہے ہیں، اسی طرح ہر نوجوان کو 28 ستمبر کو کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

   ویسے، میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کے پاس 28 ستمبر کو  جشن منانے کی ایک اور وجہ  بھی ہے۔ جانتے ہیں یہ کیا ہےمیں صرف دو لفظ کہوں گا لیکن مجھے معلوم ہے، آپ کا جوش چار گنا بڑھ جائے گا۔ یہ دو الفاظ ہیں - سرجیکل اسٹرائیک۔  بڑھ گیا نا جوش  ہمارے ملک میں امرت مہوتسو کی  ، جو مہم  چل رہی ہے ، اس کا  ہم پوری دل جمعی سے جشن  منائیں ، اپنی خوشیوں کو سب کے ساتھ ساجھا کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، کہتے ہیں -  زندگی کی کشمکش  سے تپے ہوئے شخص کے سامنے کوئی  بھی رکاوٹ  ٹک نہیں  سکتی۔اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہم کچھ ایسے ساتھی بھی دیکھتے ہیں، جو کسی نہ کسی جسمانی چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یا تو سننے سے قاصر ہیں، یا بول کر اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے  ساتھیوں  کا سب سے بڑا سہارا اشاروں کی زبان ہے لیکن بھارت میں برسوں سے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اشاروں کی زبان کے لئے کوئی واضح اشارے، کوئی معیار طے نہیں تھا۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے  ہی سال 2015  ء میں انڈین سائن لینگویج ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے اب تک دس ہزار الفاظ اور محاورات کی لغت تیار  کرلی ہے۔ دو دن پہلے یعنی 23 ستمبر کو اشاروں کی زبان کے دن کے موقع پر بہت سے اسکولی کورسز بھی اشاروں کی زبان میں شروع کئے گئے ہیں، قومی تعلیمی پالیسی میں بھی اشارے کی زبان کے مقررہ معیار کو برقرار رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اشاروں کی زبان  کی ، جو لغت بنی ہے ، اس کی ویڈیوز بنا کر اسے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے، بہت سے اداروں نے یوٹیوب پر بھارتی اشاروں کی زبان میں اپنے چینل شروع کئے ہیں یعنی ملک میں  7  - 8 سال پہلے اشارے کی زبان کے بارے میں ، جو مہم  شروع کی گئی تھی،اب میرے لاکھوں معذور بھائی اور بہنیں اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پوجا جی، جن کا تعلق ہریانہ سے ہے، بھارتی اشاروں کی زبان سے بہت خوش ہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنے بیٹے سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں لیکن 2018  ء میں اشاروں کی زبان کی تربیت لینے کے بعد ماں - بیٹے دونوں کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ پوجا جی کے بیٹے نے بھی اشاروں کی زبان سیکھی اور اپنے اسکول میں اس نے کہانی سنانے میں انعام جیت کر بھی دکھایا۔ اسی طرح ٹنِکا جی کی ایک چھ سال کی بیٹی ہے  ، جو سن نہیں سکتی۔ ٹنکا جی نے اپنی بیٹی کو اشاروں کی زبان کا کورس کرایا تھا لیکن وہ خود اشاروں کی زبان نہیں جانتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں۔ اب ٹنِکا جی نے اشاروں کی زبان کی تربیت بھی لے لی ہے اور ماں بیٹی دونوں اب آپس میں خوب باتیں کرتی ہیں۔ کیرالہ کی منجو جی کو بھی ان کوششوں سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ منجو جی، پیدائش سے ہی سن نہیں پا تی  ہیں، یہی نہیں، ان کے والدین کی زندگی میں بھی یہی حال رہا ہے۔ ایسے میں اشاروں کی زبان پورے خاندان کے لئے رابطے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اب منجو جی نے خود بھی اشاروں کی زبان کی ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ساتھیو ، میں اس بارے میں ’ من کی بات ‘  میں  ، اس لئے   بھی بات کر رہا ہوں تاکہ بھارتی اشاروں کی زبان کے بارے میں آگاہی بڑھے، اس سے ہم اپنے معذور ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں گے۔ بھائیو اور بہنو، کچھ دن پہلے مجھے بریل میں لکھی ہیمکوش کی ایک کاپی بھی ملی ہے۔ ہیمکوش آسامی زبان کی  سب سے پرانی لغت میں سے ایک ہے۔ یہ 19ویں صدی میں تیار کی گئی  تھا۔ اس کی تدوین ممتاز ماہر لسانیات ہیم چندر بروا جی نے کی تھی۔ ہیمکوش کا بریل ایڈیشن تقریباً 10000 صفحات پر مشتمل ہے اور  یہ  15 سے  بھی زیادہ جلدوں میں شائع  ہونے جا رہا ہے ۔ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ الفاظ کا ترجمہ ہونا ہے۔ میں اس حساس کوشش کی بہت  ستائش  کرتا ہوں۔ اس طرح کی ہر کوشش مختلف طور پر معذور ساتھیوں کی مہارت اور صلاحیت کو بڑھانے میں  بہت مدد کرتی ہے۔ آج بھارت  پیرا اسپورٹس میں  بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ ہم سب کئی ٹورنامنٹس میں اس کے گواہ رہے ہیں۔ آج بہت سے لوگ ہیں ، جو  بنیادی سطح پر معذور افراد میں فٹنس کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ اس سے معذور افراد کی خود اعتمادی کو کافی تقویت ملتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، میری ملاقات کچھ دن پہلے سورت کی ایک بیٹی انوی سے ہوئی۔ انوی اور انوی کے یوگ سے میری ملاقات اتنی یادگار رہی کہ میں  اس کے بارے میں ’ من کی بات ‘ کے  سبھی سامعین  کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔  ساتھیو ، انوی پیدائش سے ہی ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے اور وہ بچپن سے ہی دل کی سنگین بیماری سے بھی لڑ رہی ہے۔ جب وہ صرف تین مہینے  کی تھی تبھی اسے  اوپن ہارٹ سرجری سے بھی گزرنا پڑا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود نہ تو انوی نے اور نہ ہی اس کے والدین نے کبھی ہمت ہاری۔ انوی کے والدین نے ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کیں اور پھر فیصلہ کیا کہ انوی کا دوسروں پر انحصار کیسے کم کیا جائے۔  انہوں نے انوی کو پانی کا گلاس کیسے اٹھانا ہے، جوتوں کے فیتے کیسے باندھنے ہیں ، کپڑوں کے بٹن کیسے لگانے ہیں ، ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھانا شروع کیں۔  کون سی چیز کی جگہ کہاں ہے ، کون سی اچھی عادتیں ہوتی ہیں ، یہ سب  کچھ بہت تحمل  کے ساتھ انہوں نے اپنی انوی کو سکھانے کی کوشش کی ۔ بٹیا انوی نے  ، جس طرح سیکھنے کی  اپنی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ، اس سے  اس کے والدین کو بھی بہت حوصلہ  ملا ۔  انہوں نے انوی کو یوگ سیکھنے کی تحریک دی۔مسئلہ  بہت سنجیدہ تھا کیونکہ انوی اپنے دو پیروں پر بھی کھڑی نہیں ہو پاتی تھی ۔ ایسی صورت میں  ، اس کے والدین نے انوی کو یوگ  سیکھنے  کے لئے آمادہ کیا ۔پہلی  مرتبہ، جب وہ یوگ  سکھانے والی کوچ کے پاس گئی ، تو  وہ بھی  بہت ششپنج میں تھے کہ کیا یہ معصوم  بچی  یوگ کر سکے گیلیکن کوچ کو بھی شاید اندازہ نہیں تھا کہ انوی کس مٹی سے بنی ہے۔ اس نے اپنی والدہ کے ساتھ یوگا کی مشق شروع کی اور اب وہ یوگا کی ماہر بن چکی ہیں۔ آج انوی ملک بھر کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہے اور تمغے جیتتی ہے۔ یوگا نے انوی کو نئی زندگی دی۔ انوی نے یوگ کو اپنایا اور زندگی کو اپنایا۔ انوی کے والدین نے مجھے بتایا کہ یوگا سے انوی کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو ملی  ہیں، اب اس کی خود اعتمادی حیرت انگیز ہو گئی  ہے۔ یوگا سے انوی کی جسمانی صحت میں بھی بہتری آئی ہے اور ادویات کی ضرورت بھی کم ہو رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ملک اور بیرون ملک  میں موجود  ’ من کی بات ‘ کے سامعین  انوی کو  یوگ سے ہوئے فائدے کا سائنسی مطالعہ کریں، میرے خیال میں انوی ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے، ان لوگوں کے لئے ، جو یوگا کی  قوت  کو جانچنا چاہتے ہیں۔ ایسے سائنسدانوں کو آگے آنا چاہیئے اور انوی کی اس کامیابی کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور دنیا کو یوگا کی طاقت سے متعارف کرانا چاہیئے۔ ایسی کوئی بھی تحقیق دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا بچوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ یوگا جسمانی اور ذہنی تندرستی کے لئے بہت موثر ہے، خاص طور پر ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے متعلق مسائل میں یوگا بہت مدد کرتا ہے۔ یوگا کی  ایسی ہی قوت  کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 21  جون کو بین الاقوامی یوگا  کا دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اقوام متحدہ نے بھارت کی ایک اور کوشش کو تسلیم کیا ہے، اس کا احترام کیا ہے۔ یہ کوشش ہے، جو سال 2017 ء میں شروع کی گئی  ’’ انڈیا ہائیپر ٹنشن  کنٹرول انیشیٹو ‘‘ ۔  اس کے تحت بلڈ پریشر کے مسائل سے دوچار لاکھوں لوگوں کا  علاج سرکاری  سیوا کیندروں  میں کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام نے  ، جس طرح بین الاقوامی اداروں کی توجہ  اپنی  جانب مبذول کی ہے  ، وہ بے مثال ہے۔ یہ بات ہم سب کے لئے حوصلہ افزا ہے کہ جن لوگوں کا علاج کیا گیا ہے  ، ان میں سے تقریباً  آدھے کا  بلڈ پریشر  اب کنٹرول میں  ہے ۔ میں اس اقدام کے لئے کام کرنے والے تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے اسے کامیاب بنایا۔

ساتھیو ، انسانی زندگی کی ترقی کا سفر مسلسل  پانی سے جڑا ہوا  ہے ۔ چاہے وہ سمندر ہو، دریا ہو یا تالاب ہو  ، بھارت  کی یہ خوش قسمتی ہے کہ  تقریباٍ ساڑھے سات ہزار کلومیٹر ( 7500 ) کلومیٹر طویل  ساحلی پٹی کی وجہ سے  سمندر سے ہمارا  ناطا  سمندر اٹوٹ  رہا ہے۔ یہ ساحلی سرحد کئی ریاستوں اور جزیروں سے گزرتی ہے۔ مختلف برادریوں اور تنوع سے بھری بھارت کی ثقافت کو یہاں پھلتا پھولتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، ان ساحلی علاقوں کے کھانے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ان مزیدار باتوں کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک پہلو بھی ہے۔ ہمارے یہ ساحلی علاقے بہت سے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، آب و ہوا میں تبدیلی  ، سمندری ماحولیاتی نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہمارے ساحلوں پر موجود گندگی پریشان کن ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان چیلنجز کے لئے سنجیدہ اور مستقل کوششیں کریں۔ یہاں میں ملک کے ساحلی علاقوں میں ساحلی صفائی کی ایک کوشش  ’ سووچھ ساگر - سرکشت ساگر ‘  کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ 5 جولائی کو شروع ہونے والی یہ مہم 17 ستمبر کو وشوکرما جینتی کے دن ختم ہوئی۔ اس دن کوسٹل کلین اپ ڈے بھی تھا۔ آزادی کے امرت  مہوتسو  میں شروع ہونے والی یہ مہم 75 دن تک جاری رہی۔ اس میں عوام کی بھر پور شرکت دیکھی جا رہی تھی۔ اس کوشش کے دوران پورے ڈھائی ماہ تک صفائی کے کئی پروگرام دیکھے گئے۔ گوا میں ایک لمبی انسانی زنجیر بنائی گئی۔ کاکی ناڈا میں گنپتی وسرجن کے دوران لوگوں کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتایا گیا۔ این ایس ایس  کے تقریباً 5000 نوجوانوں نے 30 ٹن سے زیادہ پلاسٹک جمع کیا۔ اڈیشہ میں، تین دنوں کے اندر 20 ہزار سے زیادہ اسکولی طلباء نے عہد لیا کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے  آس پاس  کے لوگوں کو  بھی ’ سووچھ ساگر – شرکشت ساگر ‘  کے لئے  تحریک دلائیں  گے۔ میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا  ، جنہوں نے اس مہم میں حصہ لیا۔

جب میں منتخب عہدیداروں، خاص طور پر شہروں کے میئروں اور دیہاتوں کے سرپنچوں سے بات چیت کرتا ہوں، تو میں  ان سے یہ ضرور اپیل کرتا ہوں  کہ وہ  سووچھتا جیسی کوششون میں مقامی برادریوں اور مقامی تنظیموں کو  شامل کریں ،  اختراعی طریقے  اپنائیں۔

 

بنگلورو میں ایک ٹیم ہے -  ’’ یوتھ فار پریورتن ‘‘۔ پچھلے آٹھ سالوں سے یہ ٹیم صفائی اور دیگر کمیونٹی سرگرمیوں پر کام کر رہی ہے۔ اس کا نعرہ بہت واضح ہے – ’ شکایت کرنا بند کرو،  عمل کرنا شروع کرو ‘ ('Stop Complaining, Start Acting' )۔ اب تک یہ ٹیم شہر بھر میں 370 سے زائد مقامات کو خوبصورت بنا چکی ہے۔  ہر مقام پر یوتھ فار پریورتن کی مہم نے  100 سے 150 شہروں کو جوڑا ہے۔ ہر اتوار کو یہ پروگرام صبح شروع ہوتا ہے اور دوپہر تک چلتا ہے۔ اس کام میں نہ صرف کچرا ہٹایا جاتا ہے بلکہ دیواروں پر پینٹنگ اور آرٹسٹک اسکیچز بنانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر آپ مشہور لوگوں کے خاکے اور ان کے متاثر کن اقتباسات بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بنگلورو کے یوتھ فار پریورتن کی کوششوں کے بعد، میں آپ کو میرٹھ کی ’ کباڑ سے جگاڑ ‘ مہم کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس مہم کا تعلق ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ شہر کو خوبصورت  بنانے  سے بھی ہے۔ اس مہم کی خاص بات یہ ہے کہ اس مہم میں لوہے کا اسکریپ، پلاسٹک کا کچرا، پرانے ٹائر اور ڈرم استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ مہم اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ کم خرچ میں عوامی مقامات کو کیسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ میں اس مہم میں شامل تمام لوگوں کی تہہ دل سے  ستائش  کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت پورے ملک میں  چاروں طرف تہواروں  کی رونق  ہے۔ کل نوراتری کا پہلا دن ہے۔ اس میں ہم دیوی کی پہلی شکل  ’ ماں شیل پُتری ‘  کی پوجا کریں گے۔  یہاں سے نو دنوں کا نیم – سَیّم اور اُپواس پھر وجے دشمی کے پروو کا تہوار بھی ہو گا  یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو  ہم پائیں گے کہ ہمارے تہواروں میں  عقیدت اور  روحانیت کے ساتھ ساتھ کتنا گہرا پیغام بھی  چھپا ہے۔ نظم و ضبط اور تحمل کے ذریعے کامیابی کا حصول اور اس کے بعد فتح کا تہوار، زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ دسہرہ کے بعد دھنتیرس اور دیوالی کا تہوار بھی آنے والا ہے۔

ساتھیو ،  گزشتہ برسوں سے ہمارے تہواروں سے ملک کا ایک نیا  عہد بھی جڑ گیا ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں، یہ  عہد ہے  - ’ ووکل فار لوکل ‘ کا ۔ اب ہم تہواروں کی خوشی میں اپنے مقامی کاریگروں ،   دست کاروں  اور تاجروں کے  بھی شامل کرتے  ہیں۔ 2 اکتوبر کو باپو کے یوم پیدائش کے موقع پر ہمیں اس مہم کو مزید تیز کرنے کا عہد کرنا ہے۔ کھادی، ہینڈلوم، دستکاری، ان تمام مصنوعات کے ساتھ ساتھ مقامی اشیا ضرور خریدیں۔ آخرکار  ، اس تہوار کی اصل خوشی تب ہوتی ہے  ، جب ہر کوئی اس تہوار کا حصہ بنتا ہے، اس لئے مقامی مصنوعات کے کام سے  جڑے لوگوں کی ، ہمیں مدد بھی کرنی ہے ۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم تہوار کے دوران  ، جو بھی تحفہ دیتے ہیں  ، اس میں اس قسم کی مصنوعات کو شامل کیا جائے۔

اس وقت یہ مہم اس لئے بھی خاص ہے کیونکہ آزادی کے امرت  مہوتسو  کے دوران ہم خود  کفیل بھارت کا ہدف بھی لے کر چل رہے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں آزادی کے متوالوں کو حقیقی خراج  عقیدت ہوگا۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بار کھادی، ہینڈلوم یا دستکاری میں اس پروڈکٹ کو خریدنے کے لئے تمام ریکارڈ توڑ دیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تہواروں کے دوران پولی تھین بیگز کو پیکنگ کے لئے بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ صفائی کے تہواروں پر پولی تھین کا نقصان دہ فضلہ ہمارے تہواروں کے جذبے کے  بھی خلاف ہے۔ لہٰذا، ہم صرف مقامی طور پر بنائے گئے غیر پلاسٹک کے تھیلے استعمال کریں۔  ہمارے یہاں جوٹ،  سوت ، کیلے  جیسی چیزوں  سے روایتی تھیلوں کا  چلن  ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تہواروں کے موقع پر ان کو بڑھاوا دیں  اور صفائی کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور ماحولیات کا بھی خیال رکھیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے  شاستروں میں کہا گیا ہے-

परहित सरिस धरम नहीं भाई ( پرہِت سَرِس دھرم نہیں بھائی )

یعنی دوسروں کا فائدہ کرنے کے برابر ، دوسروں کی خدمت کرنے کے برابر اور دوسروں کی بھلائی کرنے کے برابر اور کوئی دھرم نہیں ہے ۔ حال ہی میں ملک میں سماجی خدمت کے اس جذبے کی ایک اور جھلک دیکھنے کو ملی۔ آپ نے  بھی دیکھا ہوگا کہ لوگ آگے  آکر کسی نہ کسی ٹی بی سے متاثرہ مریض کو گود لے رہے ہیں ۔ غذائیت سے بھرپور خوراک  کا بیڑا اٹھا رہا ہیں ۔  دراصل، یہ ٹی بی  سے پاک بھارت مہم کا ایک حصہ ہے، جس کی بنیاد عوامی شرکت ہے ، فرائض  کا جذبہ  ہے۔ ٹی بی کا علاج صحیح خوراک، صحیح وقت پر صحیح ادویات سے ہی ممکن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عوامی شرکت کی اس  قوت  سے، بھارت یقینی طور پر سال 2025  ء تک ٹی بی سے  پاک ہو جائے گا۔

ساتھیو ، مجھے مرکز کے زیر انتظام علاقوں دادر-  نگر حویلی اور دمن  - دیو سے بھی ایسی مثال ملی ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے۔ یہاں کے قبائلی علاقے میں رہنے والی  جینو راوتیہ جی نے لکھا ہے کہ  وہاں چل رہے  گاؤں گود لینے کے پروگرام کے تحت میڈیکل کالج کے طلباء نے 50 گاؤں گود لئے ہیں۔ اس میں جینو جی کا گاؤں بھی شامل ہے۔یہ میڈیکل  طلباء  گاؤں کے لوگوں کو بیماری سے بچنے کے لئے آگاہ کرتے ہیں، بیماری میں مدد بھی کرتے ہیں اور سرکاری اسکیموں کے بارے میں بھی جانکاری دیتے ہیں۔ انسان دوستی کے اس جذبے سے  گاؤوں  میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں نئی ​​خوشیاں  آئی ہیں۔ میں اس کے لئے میڈیکل کالج کے تمام طلباء کو مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو ، ’من کی بات‘  میں نئے  نئے موضوعات پر بات ہوتی رہتی ہے۔ کئی بار اس پروگرام کے ذریعے ہمیں کچھ پرانے موضوعات کی گہرائی میں جانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پچھلے مہینے  ’من کی بات ‘  میں، میں نے موٹے اناج  اور سال 2023 ء کو انٹر نیشنل ملٹ ایئر کے طور پر منانے پر بات کی تھی ۔  اس موضوع کو لے کر  لوگوں میں بہت جوش ہے ۔ مجھے  ایسے بہت سے خطوط  ملے ہیں ، جس میں لوگ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے کیسے موٹے اناج کو اپنی یومیہ خوراک کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔  کچھ لوگوں نے  موٹے اناج  سے بننے والے روایتی پکوانوں کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کے آثار ہیں۔ لوگوں کے اس جوش و جذبے کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ ہمیں مل کر ایک ای بک تیار کرنی چاہیئے، جس میں لوگ موٹے اناج  سے بننے والے کھانوں  اور اپنے تجربات ساجھا کر سکیں  ۔ اس سے انٹر نیشنل ملٹ ایئر شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس ایک عوامی انسائیکلو پیڈیا بھی  تیار ہو گی  اور پھر اسے  مائی گوو پورٹل پر پبلش کر سکتے ہیں ۔

ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ میں  اس بار اتنا ہی ، لیکن چلتے  چلتے  ، میں آپ کو  قومی کھیلوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ گجرات میں 29 ستمبر سے قومی کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خاص موقع ہے کیونکہ کئی سالوں کے بعد نیشنل گیمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ کووڈ کی وباء کی وجہ سے پچھلے ایونٹس کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ اس کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لینے والے ہر کھلاڑی کے لئے میری نیک خواہشات ہیں ۔ اس دن کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے  ، میں ان کے درمیان رہوں گا۔ آپ سب بھی نیشنل گیمز کو ضرور فالو کریں اور اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اب میں آج  کے لئے  وداع  لیتا ہوں۔  اگلے مہینے ’ من کی بات ‘ میں نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے  پھر ملاقات ہو گی ۔ شکریہ ۔ نمسکار !

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM Modi visits the Indian Arrival Monument
November 21, 2024

Prime Minister visited the Indian Arrival monument at Monument Gardens in Georgetown today. He was accompanied by PM of Guyana Brig (Retd) Mark Phillips. An ensemble of Tassa Drums welcomed Prime Minister as he paid floral tribute at the Arrival Monument. Paying homage at the monument, Prime Minister recalled the struggle and sacrifices of Indian diaspora and their pivotal contribution to preserving and promoting Indian culture and tradition in Guyana. He planted a Bel Patra sapling at the monument.

The monument is a replica of the first ship which arrived in Guyana in 1838 bringing indentured migrants from India. It was gifted by India to the people of Guyana in 1991.