میرے پیارے ہم وطنوں کو نمسکار ! ایک بار پھر، 'من کی بات' میں آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے ۔ اس بار 'من کی بات' کا یہ ایپیسوڈ دوسری صدی کا آغاز ہے۔ پچھلے مہینے ہم سب نے اس کی خصوصی صدی منائی تھی ۔ آپ کی شرکت اس پروگرام کی سب سے بڑی قوت ہے، 100ویں ایپیسوڈ کے نشر ہونے کے وقت ایک طرح سے پورا ملک ایک دھاگے میں بندھ گیا تھا۔ہمارے صفائی ورکر بھائی بہن ہوں یا الگ الگ شعبوں کی اہم شخصیات ، ’ من کی بات ‘ نے سب کو ساتھ لانے کا کام کیا ہے۔ آپ سب نے 'من کی بات' کے لیے جو قربت اور پیار دکھایا ہے وہ بے مثال ہے اور جذباتی کر دینے والا ہے۔ جب 'من کی بات' نشر ہوئی تو اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ٹائم زونز میں کہیں شام ہو رہی تھی اور کہیں رات ہو چکی تھی، اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے 100ویں ایپیسوڈ کو سننے کے لیے وقت نکالا ۔ میں نے ہزاروں میل دور نیوزی لینڈ کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ، جس میں ایک سو سال کی بزرگ ماتا جی اپنا آشیرواد دے رہی ہیں ۔ 'من کی بات' پر ملک اور بیرون ملک سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے تعمیری تجزیہ بھی کیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ 'من کی بات' میں صرف ملک اور اہل وطن کی کامیابیوں کی ہی بات کی جاتی ہے۔ میں ایک بار پھر اس آشیرواد کے لیے پورے احترام کے ساتھ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، گذشتہ دنوں میں ہم نے 'من کی بات' میں کاشی-تمل سنگم، سوراشٹر-تمل سنگم کے بارے میں بات کی۔ کچھ وقت پہلے ہی وارانسی میں کاشی-تیلگو سنگمم بھی ہوا تھا۔ ایسی ہی ایک انوکھی کوشش ملک میں ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کو تقویت دینے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ کوشش ہے ، یووا سنگم کی ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بارے میں ان لوگوں سے تفصیل سے پوچھا جائے ، جو اس انوکھی کوشش کا حصہ رہے ہیں۔ اس لیے ابھی میرے ساتھ فون پر دو نوجوان جڑے ہوئے ہیں - ایک اروناچل پردیش سے گیامر نیوکُم جی اور دوسری بیٹی ہے ، بہار کی بٹیا کی وشاکھا سنگھ جی ۔ آئیے پہلے گیامر نیوکُم سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: گیامر جی، نمستے!
گیامر جی: نمستے مودی جی!
وزیر اعظم: اچھا گیامر جی، سب سے پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔
گیامر جی – مودی جی، سب سے پہلے میں آپ کا اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنا بہت قیمتی وقت نکالا اور مجھے بات کرنے کا موقع دیا، میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، اروناچل پردیش میں مکینیکل انجینئرنگ کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: اور والد وغیرہ خاندان میں کیا کرتے ہیں ؟
گیامر جی: جی ، میرے والد چھوٹے موٹے بزنس اور اس کے بعد فارمنگ میں سب کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: آپ کو یووا سنگم کے بارے میں کیسے پتہ چلا، آپ یووا سنگم کہاں گئے، کیسے گئے، کیا ہوا؟
گیامر جی: مودی جی، مجھے یووا سنگم کے بارے میں ، ہمارا جو انسٹی ٹیوٹ ہے ، جو این آئی ٹی ہیں ، انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ اس میں شرکت کر سکتے ہیں تو میں نے تھوڑا انٹرنیٹ میں سرچ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام ہے، جو میرے ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے ویژن میں بہت زیادہ تعاون کر سکتا ہے اور مجھے فوراً کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے گا، پھر میں نے ویب سائٹ پر جا کر اس میں اینرول کرا ۔ میرا تجربہ بہت ہی مزیدار رہا ، بہت ہی اچھا تھا ۔
وزیراعظم: کیا آپ کو کوئی سلیکشن کرنا تھا؟
گیامر جی: مودی جی ، جب ویب سائٹ کھولا تھا تو اروناچل کے لوگوں کے لیے دو آپشن تھے۔ پہلا تھا ، آندھرا پردیش ، جس میں آئی آئی ٹی تروپتی تھا اور دوسرا تھا ، سنٹرل یونیورسٹی، راجستھان ۔ تو میں نے راجستھان میں کیا تھا ، اپنا فرسٹ پریفرینس ۔ دوسری ترجیح میں نے آئی آئی ٹی تروپتی کو دی تھی تو میں راجستھان کے لیے سلیکٹ ہوا اور میں راجستھان گیا تھا ۔
وزیر اعظم: آپ کا راجستھان دورہ کیسا رہا؟ آپ پہلی بار راجستھان گئے تھے!
گیامر جی: جی ، میں پہلی بار اروناچل سے باہر گیا تھا، میں نے راجستھان کے ان تمام قلعوں کو صرف فلموں میں اور فون پر دیکھا تھا، اس لیے جب میں پہلی بار گیا تو وہاں بہت سے لوگوں کا تجربہ ہوا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں اور جو ہمیں ٹریٹمنٹ دیا ، بہت ہی زیادہ اچھے تھے ۔ ہمیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں ۔ راجستھان کی بڑی بڑی جھیلیں اور وہاں کے لوگ کیسے رین واٹر ہارویسٹنگ کرتے ہیں ، بہت کچھ نیا نیا سیکھنے کو ملا ، جو مجھے بالکل ہی معلوم نہیں تھا تو یہ پروگرام میرے لیے بہت ہی اچھا تھا ، راجستھان کا دورہ ۔
وزیر اعظم: دیکھیں، آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اروناچل بھی بہادروں کی سرزمین ہے، راجستھان بھی بہادروں کی سرزمین ہے اور فوج میں راجستھان کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں اور اروناچل میں سرحد پر جو فوجی ہیں ، اُن میں جب بھی راجستھان کے لوگ ملیں گے تو آپ ضرور ، اُن سے بات کریں گے کہ دیکھیے ، میں راجستھان گیا تھا، تو ایسا تجربہ تھا ، تو آپ کی قربت ایکدم سے بڑھ جائے گی۔ اچھا ، آپ کو وہاں کوئی یکسانیت بھی دھیان میں آئی ہوگی ، آپ کو لگا ہوگا کہ ہاں یار یہ تو اروناچل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
گیامر جی: مودی جی، مجھے ایک مماثلت یہ ملی کہ ملک سے محبت کا نعرہ اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا ویژن اور وہ احساس ، جو میں نے دیکھا کیونکہ اروناچل میں بھی لوگ اپنے آپ پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ ایک بھارتی ہیں اور اس لیے راجستھان میں بھی لوگ اپنی مادر وطن کے لیے بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ چیز مجھے بہت زیادہ نظر آئی اور خاص طور پر ، جو نوجوان نسل ہے ۔ میں نے وہاں کے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کی ، تو وہ چیز ، جو مجھے بہت یکسر نظر آئی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے لیے ، جو کچھ کرنے کا اور جو اپنے ملک کے لیے محبت ہے ، وہ چیز مجھے بہت ہی دونوں ریاستوں میں بہت ہی یکسانیت نظر آئی ۔
وزیر اعظم: تو وہاں ، جو دوست ملے ہیں ، اُن سے تعارف بڑھایا یا آکر کے بھول گئے ؟
گیامر جی: نہیں، ہم نے بڑھایا ، تعارف کیا ۔
وزیراعظم: جی ہاں...! تو کیا آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں؟
گیامر جی: ہاں مودی جی، میں ایکٹیو ہوں۔
وزیر اعظم: تو آپ کو ایک بلاگ لکھنا چاہیے، اس یووا سنگم کا آپ کا تجربہ کیسا رہا، آپ نے اس میں کیسے داخلہ لیا، راجستھان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا، تاکہ ملک کے نوجوانوں کو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عظمت کا پتہ چل سکے۔ یہ کیسی اسکیم ہے؟ نوجوان اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنے تجربے سے بھرپور بلاگ لکھیں، پھر بہت سے لوگوں کے لیے پڑھنا مفید ہوگا۔
گیامر جی: جی ، میں ضرور کروں گا۔
وزیر اعظم: گیامر جی، آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہوئی اور آپ سبھی نوجوانوں کو ملک کے لیے، ملک کے تابناک مستقبل کے لیے، کیونکہ یہ 25 سال بہت اہم ہیں - آپ کی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی زندگی میں بھی ، تو میری بہت بہت نیک خواہشات ، شکریہ ۔
گیامر جی: مودی جی آپ کا بھی شکریہ۔
وزیراعظم: نمسکار بھیاّ ۔
دوستو، اروناچل کے لوگ اتنے گرمجوش ہیں کہ مجھے ان سے بات کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یواا سنگم میں گیامر جی کا تجربہ شاندار رہا۔ آؤ، اب بات کرتے ہیں بہار کی بیٹی وشاکھا سنگھ جی سے۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، نمسکار۔
وشاکھا جی: سب سے پہلے، بھارت کے معزز وزیر اعظم کو میرا سلام اور میرے ساتھ تمام مندوبین کی طرف سے آپ کو بہت بہت سلام۔
وزیر اعظم: اچھا وشاکھا جی، پہلے اپنے بارے میں بتائیں۔ پھر میں یووا سنگم کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
وشاکھا جی: میں بہار کے ساسارام شہر کی رہنے والی ہوں اور مجھے یووا سنگم کے بارے میں سب سے پہلے اپنے کالج کے واٹس ایپ گروپ کے پیغام کے ذریعے معلوم ہوا۔ تو اس کے بعد مجھے اس کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم ہوئیں، یہ کیا ہے؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ وزیر اعظم کی اسکیم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے ذریعے نوجوانوں کا سنگم ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اپلائی کیا اور جب میں نے اپلائی کیا تو میں اس میں شامل ہونے کے لیے پرجوش تھی لیکن جب وہاں سے گھوم کر تمل ناڈو جاکر واپس آئی ۔ وہ جو ایکسپوژر ، میں نے گین کیا ، اس کے بعد مجھے ا بھی بہت زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں اس پروگرام کا حصہ رہی ہوں، اس لیے مجھے اس پروگرام میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی اور میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے اتنا شاندار پروگرام بنایا ، جس سے ہم بھارت کے مختلف حصوں کی ثقافت کو اپنا سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، آپ کیا پڑھتی ہیں؟
وشاکھا جی: میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی دوسرے سال کی طالبہ ہوں۔
وزیر اعظم: ٹھیک ہے وشاکھا جی، آپ کو کس ریاست میں جانا ہے، کہاں جانا ہے؟ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا؟
وشاکھا جی: جب میں نے اس یووا سنگم کے بارے میں گوگل پر سرچ کرنا شروع کیا، تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ بہار کے مندوبین کا تبادلہ تمل ناڈو کے مندوبین سے ہو رہا ہے۔ تمل ناڈو ہمارے ملک کی ثقافت سے مالا مال ایک ریاست ہے ، تو اس وقت بھی ، جب میں نے جانا ، یہ دیکھا کہ بہار سے لوگوں کو تمل ناڈو بھیجا جا رہا ہے، تو اس نے مجھے فیصلہ کرنے میں بہت مدد کی کہ مجھے فارم بھرنا چاہیئے ، وہاں جانا چاہیے یا نہیں اور سچ میں آج میں بہت زیادہ فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس میں حصہ لیا اور مجھے بہت خوشی ہے ۔
وزیر اعظم: آپ کا پہلی بار جانا ہوا تھا تمل ناڈو ؟
وشاکھا جی: جی ، میں پہلی بار گئی تھی۔
وزیراعظم: اچھا، اگر آپ کوئی خاص یادگار بات کہنا چاہتی ہیں، تو آپ کیا کہیں گی ؟ ملک کے نوجوان آپ کی بات سن رہے ہیں۔
وشاکھا جی: ہاں، اگر ہم پورے سفر پر غور کریں تو یہ میرے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ ہر مرحلے پر، ہم نے بہت اچھی چیزیں سیکھی ہیں۔ میں نے تمل ناڈو میں جاکر اچھے دوست بنائے ہیں۔ وہاں کے کلچر کو اپنایا ہے۔ میں وہاں کے لوگوں سے ملی ہوں لیکن سب سے اچھی چیز ، جو مجھے وہاں ملی وہ یہ ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اسرو جانے کا موقع نہیں ملتا اور ہم ڈیلیگیٹ تھے اس لیے ہمیں اسرو میں جانے کا موقع ملا، دوسری بات سب سے اچھی تھی کہ جب ہم راج بھون میں گئے اور ہم تمل ناڈو کے گورنر جی سے ملے تو وہ دو موقع تھے ، میرے لیے کافی اچھا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ جس عمر میں ہم ہیں، ہمیں وہ موقع نہیں ملتا ، جو ہمیں یووا سنگم کے ذریعے ملا۔ تو یہ میرے لیے بہترین اور یادگار لمحہ تھا۔
وزیر اعظم: بہار میں کھانے کا طریقہ الگ ہے، تمل ناڈو میں کھانے کا طریقہ الگ ہے۔
وشاکھا جی: جی ۔
وزیراعظم: تو وہ سیٹ ہو گیا تھا پوری طرح ؟
وشاکھا جی: جب ہم وہاں گئے تو تمل ناڈو میں جنوبی ہند کے کھانے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہم وہاں گئے ہمیں ڈوسا، اڈلی، سانبھر ، اُتپم، وڈا، اپما پیش کیا گیا۔ اس لیے جب ہم نے پہلی بار اسے ٹرائی کرا تو یہ بہت مزے کا تھا ! وہاں کا جو کھانا ہے ، وہ بہت صحت بخش ہے، حقیقت میں یہ ذائقے میں بہت اچھا ہے اور یہ ہمارے شمال کے کھانے سے بہت مختلف ہے، اس لیے مجھے وہاں کا کھانا بھی بہت اچھا لگا اور وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے لگے ۔
وزیر اعظم: تو اب تمل ناڈو میں بھی آپ کے دوست بن گئے ہوں گے؟
وشاکھا جی: جی ! جی! ہم وہاں پر رکے تھے ، این آئی ٹی تریچی میں ۔ اس کے بعد آئی آئی ٹی مدراس میں، ان دونوں جگہوں کے طلبا سے میری دوستی ہوگئی، اس کے علاوہ درمیان میں سی آئی آئی کی ایک استقبالیہ تقریب تھی، تو قریب کے کالجوں سے بھی کافی طلبا موجود تھے ، طالب علم آئے تھے تو وہاں ہم نے ان طلباء سے بھی بات چیت کی اور مجھے ان سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی، ان میں سے بہت سے میرے دوست بھی ہیں اور تمل ناڈو سے بہار آنے والے کچھ مندوبین سے بھی ملاقات کی، تو ہم نے ان کے ساتھ بھی بات چیت کی اور ہم اب بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، اس لیے میں بہت خوش ہوں۔
وزیر اعظم: تو وشاکھا جی، آپ ایک بلاگ لکھیں اور سوشل میڈیا پر اس یووا سنگم کا پورا تجربہ شیئر کریں، پھر 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کا اور پھر تمل ناڈو میں آپ کو جو اپنا پن ملا ، آپ کا استقبال اور مہمان نوازی ہوئی ، تمل لوگوں کا پیار ملا، یہ سب باتیں ملک کو بتائیں۔ تو آپ لکھیں گی ؟
وشاکھا جی: جی بالکل!
وزیر اعظم: تو میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔
وشاکھا جی: جی بہت شکریہ۔ نمسکار ۔
گیامر اور وشاکھا کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات ، جو کچھ آپ نے یووا سنگم میں سیکھا ہے وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔ یہ آپ سب کے لیے میری نیک خواہش ہے۔
دوستو، بھارت کی قوت اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ ہمارے ملک میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تعلیم نے 'یوواسنگم' کے نام سے ایک بہترین پہل کی ہے۔ اس اقدام کا مقصد پیپل ٹو پیپل کنیکٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مختلف ریاستوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ 'یوواسنگم' میں نوجوان دوسری ریاستوں کے شہروں اور گاؤوں کا دورہ کرتے ہیں، انہیں مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ یووا سنگم کے پہلے دور میں تقریباً 1200 نوجوانوں نے ملک کی 22 ریاستوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ تمام نوجوان ، جو اس کا حصہ رہے ہیں، ایسی یادیں لے کر لوٹ رہے ہیں، جو زندگی بھر ان کے دلوں میں رہیں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی بڑی کمپنیوں کے سی ای او، بزنس لیڈرز، انہوں نے بھارت میں بیگ پائپر کے طور پر وقت گزارا ہے۔ جب میں دوسرے ممالک کے لیڈروں سے ملتا ہوں تو کئی بار وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی میں بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے بھارت میں جاننے اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ آپ کا تجسس ہر بار بڑھتا ہی جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ ان دلچسپ تجربات کو جاننے کے بعد، آپ کو بھی یقیناً ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرنے کی ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں تھا، وہاں مجھے ہیروشیما پیس میموریل میوزیم دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ جب ہم تاریخ کی یادوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں تو اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بہت مدد ملتی ہے۔ کبھی ہمیں میوزیم میں نئے اسباق ملتے ہیں اور کبھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ چند روز قبل بھارت میں انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں دنیا کے 1200 سے زیادہ عجائب گھروں کی خصوصیات کو دکھایا گیا تھا ۔ ہمارے پاس بھارت میں بہت سے مختلف قسم کے عجائب گھر ہیں، جو ہمارے ماضی سے متعلق بہت سے پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے، گروگرام میں ایک انوکھا میوزیم ہے - موزیو کیمرہ، اس میں 1860 کے بعد کے 8 ہزار سے زیادہ کیمروں کا کلیکشن موجود ہے۔ اس طرح تمل ناڈو کے میوزیم آف پوسیبلٹیز کو ہمارے دِویانگ جنوں کو دھیان میں رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ ممبئی کا چھترپتی شیواجی مہاراج واستو سنگرہالیہ ایسا میوزیم ہے، جس میں 70 ہزار سے زیادہ چیزیں محفوظ کی گئی ہیں۔ سال 2010 ء میں قائم کیا گیا، انڈین میموری پروجیکٹ ایک قسم کا آن لائن میوزیم ہے۔ وہ جو دنیا بھر سے بھیجی گئی تصویروں اور کہانیوں کے ذریعے بھارت کی شاندار تاریخ کی کڑیوں کو جوڑنے میں مصروف ہے۔ تقسیم کی ہولناکیوں سے جڑی یادوں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے سالوں میں بھی ہم نے بھارت میں نئی قسم کے عجائب گھر اور یادگاریں بنتے دیکھی ہیں۔ جنگ آزادی میں قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے تعاون کے لیے دس نئے عجائب گھر قائم کیے جا رہے ہیں۔ کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں بپلوبی بھارت گیلری ہو یا جلیانوالہ باغ کی یادگار کی بحالی، ملک کے تمام سابق وزرائے اعظم کے لیے وقف پی ایم میوزیم بھی آج دلّی کی شان میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر روز بہت سے لوگ دلّی میں ہی نیشنل وار میموریل اور پولیس میموریل میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ چاہے وہ تاریخی ڈانڈی مارچ کے لیے وقف ڈانڈی کی یادگار ہو یا اسٹیچو آف یونٹی میوزیم۔ ویسے مجھے یہیں رکنا پڑے گا کیونکہ ملک بھر کے عجائب گھروں کی فہرست بہت طویل ہے اور پہلی بار ملک کے تمام عجائب گھروں کے بارے میں ضروری معلومات بھی مرتب کی گئی ہیں، یہ میوزیم کس موضوع پر مبنی ہے، کس قسم کا ہے؟ کیسی اشیاء وہاں رکھی جاتی ہیں رابطہ کی تفصیلات کیا ہیں - یہ سب ایک آن لائن ڈائریکٹری میں موجود ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو موقع ملے آپ اپنے ملک کے ان عجائب گھروں کو ضرور دیکھیں۔ وہاں کی دلکش تصاویر ’’# میوزیم میموریز ‘‘ پر شیئر کرنا نہ بھولیں۔ اس سے ہم بھارتیوں کا ہماری شاندار ثقافت سے تعلق مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب نے ایک کہاوت کئی بار سنی ہو گی، بار بار سنی ہو گی- پانی کے بغیر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی پر ہمیشہ بحران رہتا ہے، فرد اور ملک کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ مستقبل کے اس چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے ، آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا امرت سروور اس لیے خاص ہے کہ اسے آزادی کے امرت دور میں بنایا جا رہا ہے اور اس میں لوگوں کی امرت کاوشیں ڈالی گئی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اب تک 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
دوستو، ہم ہر موسم گرما میں پانی سے متعلق چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بار بھی ہم اس موضوع پر بات کریں گے لیکن اس بار ہم پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کریں گے۔ ایک اسٹارٹ اپ – فلکس جین ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ آئی او ٹی والی تکنیک کے ذریعے پانی کے بندوبست کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے استعمال کے نمونے بتائے گی اور پانی کے موثر استعمال میں مدد کرے گی۔ ایک اور اسٹارٹ اپ لائیو این سینس ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پر مبنی ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مدد سے پانی کی تقسیم کی موثر نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ کہاں اور کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ ' کُمبھی کاغذ' ہے۔ یہ کمبھی کاغذ ایک ایسا ہی موضوع ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ بہت پسند آئے گا۔ 'کُنبھی کاغذ' اسٹارٹ اپ نے ایک خاص کام شروع کیا ہے۔ وہ جل کمبھی سے کاغذ بنانے پر کام کر رہے ہیں، یعنی جل کمبھی جو کبھی آبی ذخائر کے لیے مسئلہ سمجھی جاتی تھی، اب کاغذ بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
دوستو، اگر بہت سے نوجوان اختراعات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کر رہے ہیں، تو بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو چھتیس گڑھ کے بلود ضلع کے نوجوانوں کی طرح سماج کو بیدار کرنے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے پانی بچانے کی مہم شروع کی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو پانی کے تحفظ سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہیں شادی جیسی تقریب ہوتی ہے تو نوجوانوں کا یہ گروپ وہاں جا کر معلومات دیتا ہے کہ پانی کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے کھنٹی ضلع میں بھی پانی کے موثر استعمال سے متعلق ایک متاثر کن کوشش ہو رہی ہے۔ کھنٹی کے لوگوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بوری ڈیم سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ بوری ڈیم سے پانی جمع ہونے سے یہاں ساگ سبزیاں بھی اگنا شروع ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور علاقے کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ کھنٹی اس بات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے کہ کس طرح عوامی شرکت کی کوئی بھی کوشش اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں لاتی ہے۔ میں اس کوشش کے لیے یہاں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 1965 ء کی جنگ کے دوران ہمارے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی نے جئے جوان، جئے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ بعد میں اٹل جی نے اس میں جئے وگیان کو بھی شامل کیا تھا۔ کچھ سال پہلے میں نے ملک کے سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے ، جئے انوسندھان کے بارے میں بات کی تھی۔ 'من کی بات' میں، آج ہم نے ایک ایسے شخص، ایسی تنظیم کے بارے میں بات کی، جو ان چاروں، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان اور جئے انوسندھان کے تئیں عہد بستہ ہیں ۔ یہ شخص ہیں ، مہاراشٹر کے جناب شیواجی شامراؤ ڈولے جی ۔ شیواجی ڈولے کا تعلق ناسک ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ ایک غریب قبائلی کسان خاندان سے آتے ہے اور ایک سابق فوجی بھی ہیں ۔ فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی ملک کے لیے وقف کر دی، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کچھ نیا سیکھنے کا فیصلہ کیا اور زراعت میں ڈپلومہ کیا یعنی وہ جئے جوان سے جئے کسان میں چلے گئے۔ اب ہر لمحہ ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ حصہ کیسے لیا جائے۔ اس مہم میں شیواجی ڈولے جی نے 20 لوگوں کی ایک چھوٹی ٹیم بنائی اور اس میں کچھ سابق فوجیوں کو شامل کیا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے وینکٹیشورا کوآپریٹو پاور اینڈ ایگرو پروسیسنگ لمیٹیڈ نام کی ایک کوآپریٹو تنظیم کا انتظام سنبھالا ، یہ کوآپریٹو تنظیم غیر فعال تھی، جسے انہو ں نے بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آج وینکٹیشورا کوآپریٹیو نے بہت سے اضلاع میں توسیع کی ہے۔ آج یہ ٹیم مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کام کر رہی ہے۔ تقریباً 18,000 لوگ اس سے وابستہ ہیں ، جن میں ہمارے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس ٹیم کے ارکان ناسک کے مالیگاؤں میں 500 ایکڑ سے زیادہ اراضی میں ایگرو فارمنگ کر رہے ہیں۔ یہ ٹیم پانی کے تحفظ کے لیے کئی تالاب بنانے میں بھی لگی ہوئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس نے آرگینک فارمنگ اور ڈیری بھی شروع کی ہے۔ اب اس کے اگائے ہوئے انگور یوروپ کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اس ٹیم کی دو بڑی خصوصیات، جنہوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی، یہ ہیں - جئے وگیان اور جئے انوسندھان۔ اس کے اراکین ٹیکنالوجی اور جدید زرعی طریقوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ برآمدات کے لیے ضروری مختلف سرٹیفیکیشنز پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ میں 'تعاون کے ذریعے خوشحالی' کے جذبے کے ساتھ کام کرنے والی اس ٹیم کی ستائش کرتا ہوں۔ اس کوشش نے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بااختیار بنایا ہے بلکہ روزی روٹی کے بہت سے ذرائع بھی پیدا کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کوشش 'من کی بات' کے ہر سننے والے کو متاثر کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 مئی عظیم مجاہد آزادی ویر ساورکر جی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی قربانی، ہمت اور عزم و استقلال سے جڑی کہانیاں آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا ، جب میں انڈمان کے اس سیل میں گیا ، جہاں ویر ساورکر نے کالاپانی کی سزا کاٹی تھی ۔ ویر ساورکر کی شخصیت پختگی اور عظمت سے پُر تھی۔ ان کی نڈر اور خوددار طبیعت کو غلامی کی ذہنیت بالکل پسند نہ تھی۔ نہ صرف تحریک آزادی بلکہ ویر ساورکر نے سماجی مساوات اور سماجی انصاف کے لیے جو کچھ بھی کیا اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
دوستو، کچھ دنوں بعد 4 جون کو سنت کبیر داس جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کبیرداس جی کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کبیرداس جی کہا کرتے تھے :
"کبیرا کنواں ایک ہے، پانی بھرے انیک ۔
برتن میں ہی بھید ہے ، پانی سب میں ایک ۔ ‘‘
یعنی کنویں پر اگرچہ طرح طرح کے لوگ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں لیکن کنواں کسی میں فرق نہیں کرتا، پانی تو سبھی برتنوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ سنت کبیر نے سماج کو تقسیم کرنے والے ہر برے عمل کی مخالفت کی، سماج کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ آج جب ملک ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سنت کبیر سے تحریک لیتے ہوئے سماج کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں ، جنہوں نے سیاست اور فلم جگت میں اپنی شاندار شخصیت کے بل پر انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔ اس عظیم شخصیت کا نام ہے ، این ٹی راما راؤ ، جنہیں ہم سب این ٹی آر کے نام سے جانتے ہیں۔ آج این ٹی آر کی 100 ویں یوم پیدائش ہے۔ اپنی کثیر رخی شخصیت کی وجہ سے وہ نہ صرف تیلگو سنیما کے سپر اسٹار بن گئے بلکہ کروڑوں لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے بل بوتے پر کئی تاریخی کرداروں کو زندہ کیا۔ بھگوان کرشن، رام اور اس طرح کے دیگر کئی کرداروں میں لوگوں نے این ٹی آر کی اداکاری کو اتنا پسند کیا کہ لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ این ٹی آر نے سنیما کی دنیا کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔ یہاں بھی انہیں لوگوں کی طرف سے بے پناہ محبت اور آشیرواد ملا ۔ ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا کرنے والے این ٹی راما راؤ جی کے تئیں میں عاجزانہ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 'من کی بات' میں اتنا ہی ۔ اگلی بار کچھ نئے موضوعات لے کر آؤں گا، تب تک کچھ علاقوں میں گرمی بڑھ چکی ہوگی۔ کہیں بارش بھی شروع ہو جائے گی۔ آپ کو ہر موسم میں اپنی صحت کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہم 21 جون کو 'ورلڈ یوگا ڈے' بھی منائیں گے۔ اس کے لیے ملک اور بیرون ملک بھی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کے بارے میں بھی آپ مجھے اپنی 'من کی بات' لکھتے رہیں۔ اگر آپ کسی اور موضوع پر مزید معلومات حاصل کریں تو مجھے بھی بتائیں۔ میری کوشش ہوگی کہ 'من کی بات' میں زیادہ سے زیادہ تجاویز لے سکوں۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکریہ۔ اگلے مہینے ملتے ہیں، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔
نمسکار !
Affection that people have shown for #MannKiBaat is unprecedented. pic.twitter.com/zetexIGXTb
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
Ministry of Education has launched an excellent initiative - 'Yuva Sangam'. The objective of this initiative is to enhance people-to-people connect. #MannKiBaat pic.twitter.com/MZQ0Wu1imX
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
PM @narendramodi recalls his visit to Hiroshima Peace Memorial and Museum. #MannKiBaat pic.twitter.com/28wvsWWdJV
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
During #MannKiBaat, PM @narendramodi urges citizens to visit museums in our country as well as share the pictures taken there using #MuseumMemories. pic.twitter.com/qnmXPt73r1
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
75 Amrit Sarovars are being constructed in every district of the country. #MannKiBaat pic.twitter.com/Bh0dTqB0py
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
Innovative and inspiring measures are being seen across the country to conserve water. #MannKiBaat pic.twitter.com/cJwu2V9tXc
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
Meet Shivaji Shamrao Dole ji from Maharashtra, whose work is a reflection of 'Jai Jawan, Jai Kisan, Jai Vigyan and Jai Anusandhan.' #MannKiBaat pic.twitter.com/nU0pa6cL6g
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023
Tributes to the great Veer Savarkar on his Jayanti. #MannKiBaat pic.twitter.com/gsLg0OA3cv
— PMO India (@PMOIndia) May 28, 2023