میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ’من کی بات‘ کے اس 98ویں ایپی سوڈ میں آپ سبھی کے ساتھ جڑ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ سینچری کی طرف بڑھتے اس سفر میں، ’من کی بات‘ کو، آپ سبھی نے، عوامی حصہ داری کے اظہار کا شاندار پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ ہر مہینے، لاکھوں پیغامات میں، کتنے ہی لوگوں کے ’من کی بات‘ مجھ تک پہنچتی ہے۔ آپ، اپنے من کی طاقت تو جانتے ہی ہیں، ویسے ہی، سماج کی طاقت سے کیسے ملک کی طاقت بڑھتی ہے، یہ ہم نے ’من کی بات‘ کے الگ الگ ایپی سوڈ میں دیکھا ہے، سمجھا ہے، اور میں نے محسوس کیا ہے – تسلیم بھی کیا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہے، جب ہم نے ’من کی بات‘ میں ہندوستان کے روایتی کھیلوں کو ترغیب دینے کی بات کی تھی۔ فوراً اس وقت ملک میں ایک لہر سی اٹھ گئی ہندوستانی کھیلوں سے جڑنے کی، ان میں مشغول ہونے کی، انہیں سیکھنے کی۔ ’من کی بات‘ میں، جب ہندوستانی کھلونوں کی بات ہوئی، تو ملک کے لوگوں نے اسے بھی ہاتھوں ہاتھ فروغ دیا۔ اب تو ہندوستانی کھلونوں کا اتنا کریز ہو گیا ہے کہ ملک کے باہر بھی ان کی ڈیمانڈ بہت بڑھ رہی ہے۔ جب ’من کی بات‘ میں ہم نے اسٹوری ٹیلنگ کی ہندوستانی مہارت پر بات کی، تو ان کی شہرت بھی دور دور تک پہنچ گئی۔ لوگ، زیادہ سے زیادہ ہندوستانی اسٹوری ٹیلنگ کی مہارت کی طرف متوجہ ہونے لگے۔
ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا سردار پٹیل کی جینتی یعنی ’ایکتا دیوس‘ کے موقع پر ’من کی بات‘ میں ہم نے تین کمپٹیشنز کی بات کی تھی۔ یہ مقابلے حب الوطنی پر ’گیت‘، ’لوری‘ اور ’رنگولی‘ اس سے جڑی تھیں۔ مجھے، یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے، ملک بھر کے 700 سے زیادہ ضلعوں کے 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا ہے۔ بچے، بڑے، بزرگ، سبھی نے، اس میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور 20 سے زیادہ زبانوں میں اپنی اینٹٹیز بھیجی ہیں۔ ان کمپٹیشنز میں حصہ لینے والے سبھی امیدواروں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی، اپنے آپ میں، ایک چمپئن ہے، فن کا ماہر ہے۔ آپ سبھی نے یہ دکھایا ہے کہ اپنے ملک کی تکثیریت اور ثقافت کے لیے آپ کے دل میں کتنا پیار ہے۔
ساتھیو، آج اس موقع پر مجھے لتا منگیشکر جی، لتا دیدی کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کیوں کہ جب یہ مقابلہ شروع ہوا تھا، اس دن لتا دیدی نے ٹوئٹ کرکے ملک کے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس روایت سے ضرور جڑیں۔
ساتھیو، لوری رائٹنگ کمپٹیشن میں، پہلا انعام، کرناٹک کے چامراج نگر ضلع کے بی ایم منجو ناتھ جی نے جیتا ہے۔ انہیں یہ انعام کنڑ میں لکھی ان کی لوری ’ملگو کندا‘ کے لیے ملا ہے۔ اسے لکھنے کی ترغیب انہیں اپنی ماں اور دادی کے گائے لوری گیتوں سے ملی۔ آپ اسے سنیں گے تو آپ کو بھی مزہ آئے گا۔
(کنڑ ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
’’سو جاؤ، سو جاؤ، بیبی،
میرے سمجھدار لاڈلے، سو جاؤ،
دن چلا گیا ہے اور اندھیرا ہے،
نیند کی دیوی آ جائے گی،
ستاروں کے باغ سے،
خواب کاٹ لائے گی،
سو جاؤ، سو جاؤ،
جو جو…جو…جو
جو جو…جو…جو‘‘
آسام میں کامروپ ضلع کے رہنے والے دنیش گووالا جی نے اس مقابلہ میں سیکنڈ پرائز جیتا ہے۔ انہوں نے جو لوری لکھی ہے، اس میں مقامی مٹی اور میٹل کے برتن بنانے والے کاریگروں کے پاپولر کرافٹ کی چھاپ ہے۔
(آسامی ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
کمہار دادا جھولا لے کر آئے ہیں،
جھولے میں بھلا کیا ہے؟
کھول کر دیکھا کمہار کے جھولے کو تو،
جھولے میں تھی پیاری سی کٹوری!
ہماری گڑیا نے کمہار سے پوچھا،
کیسی ہے یہ چھوٹی سی کٹوری!
گیتوں اور لوری کی طرح ہی رنگولی کمپٹیشن بھی کافی مقبول رہا۔ اس میں حصہ لینے والوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت رنگولی بنا کر بھیجی۔ اس میں وِننگ انٹری، پنجاب کے، کمل کمار جی کی رہی۔ انہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس اور امر شہید ویر بھگت سنگھ کی بہت ہی خوبصورت رنگولی بنائی۔ مہاراشٹر کے سانگلی کے سچن نریندر اوساری جی نے اپنی رنگولی میں جلیاں والا باغ، اس کا قتل عام اور شہید اودھم سندھ کی بہادری کو پیش کیا۔ گوا کے رہنے والے گرودت وانٹیکر جی نے گاندھی جی کی رنگولی بنائی، جب کہ پڈوچیری کے مالا تلیسوم جی نے بھی آزادی کے کئی عظیم سپاہیوں پر اپنا فوکس رکھا۔ حب الوطنی کے گیت کے مقابلہ میں جیت حاصل کرنے والی ٹی وجے درگا جی آندھرا پردیش کی ہیں۔ انہوں نے تیلگو میں اپنی انٹری بھیجی تھی۔ وہ اپنے علاقے کے مشہور مجاہد آزادی نرسمہا ریڈی گارو جی سے کافی متاثر رہی ہیں۔ آپ بھی سنئے وجے درگا جی کی انٹری کا یہ حصہ
(تیلگو ساؤنڈ کلپ (27 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
ہندوستانی جدوجہد آزادی کے تخم ہو، لگام ہو!
انگریزوں کے انصاف سے عاری بے لگام جبرو استحصال کو دیکھ
خون تیرا کھولا اور آگ اُگلا!
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
تیلگو کے بعد، اب میں آپ کو میتھلی میں ایک کلپ سناتا ہوں۔ اسے دیپک وتس جی نے بھیجا ہے۔ انہوں نے بھی اس مقابلہ میں انعام جیتا ہے۔
(میتھلی ساؤنڈ کلپ (30 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ہندوستان دنیا کی شان ہے بھیا،
اپنا ملک عظیم ہے،
تین جانب سمندر سے گھرا،
شمال میں کیلاش طاقتور ہے،
گنگا، یمنا، کرشنا، کاویری،
کوشی، کملا بلان ہے،
اپنا ملک عظیم ہے بھیا،
ترنگے میں بس جان ہے
ساتھیو، مجھے امید ہے، آپ کو یہ پسند آئی ہوگی۔ مقابلہ میں آئی اس طرح کی اینٹٹیز کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ آپ، وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر جا کر انہیں اپنی فیملی کے ساتھ دیکھیں اور سنیں – آپ کو بہت ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، بات بنارس کی ہو، شہنائی کی ہو، استاد بسم اللہ خاں جی کی ہو تو ظاہر ہے کہ میرا ذہن اس طرف جائے گا ہی۔ کچھ دن پہلے ’استاد بسم اللہ خاں یوا پرسکار‘ دیے گئے۔ یہ ایوارڈ میوزک اور پرفارمنگ آرٹس کے شعبے میں ابھر رہے باصلاحیت فنکاروں کو دیے جاتے ہیں۔ یہ فن و موسیقی کی دنیا کی مقبولیت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ہی اسے تقویت بخشنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ان میں، وہ فنکار بھی شامل ہیں جنہوں نے ان انسٹرومنٹ میں نئی جان پھونکی ہے، جن کی مقبولیت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی۔ اب، آپ سبھی اس ٹیون کو غور سے سنئے…
(ساؤنڈ کلپ (21 سیکنڈ) انسٹرومنٹ – ’سُر سنگار‘، آرٹسٹ – جوائے دیپ مکھرجی)
کیا آپ جانتے ہیں یہ کون سا انسٹرومنٹ ہے؟ ممکن ہے آپ کو پتہ نہ بھی ہو! اس ساز کا نام ’سُر سنگار‘ ہے اور اس دُھن کو تیار کیا ہے جوائے دیپ مکھرجی نے۔ جوائے دیپ جی، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے نوجوانوں میں شامل ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کی دُھنوں کو سننا پچھلی 50 اور 60 کی دہائی سے ہی نایاب ہو چکا تھا، لیکن، جوائے دیپ، سرسنگار کو پھر سے پاپولر بنانے میں جی جان سے مصروف ہیں۔ اسی طرح، بہن اُپّلو ناگ منی جی کی کوشش بھی بہت ہی متاثرکن ہے، جنہیں مینڈولن میں کارنیٹک انسٹرومینٹل کے لیے یہ انعام دیا گیا ہے۔ وہیں، سنگرام سنگھ سہاس بھنڈارے جی کو وارکری کیرتن کے لیے یہ انعام ملا ہے۔ اس لسٹ میں صرف موسیقی سے جڑے فنکار ہی نہیں ہیں – وی درگا دیوی جی نے رقص کی ایک قدیم شکل ’کرکٹم‘ کے لیے یہ انعام جیتا ہے۔ اس انعام کے ایک اور فاتح، راج کمار نائک جی نے تلنگانہ کے 31 ضلعوں میں، 101 دن تک چلنے والی پیرنی اوڈیسی کا اہتام کیا تھا۔ آج، لوگ انہیں پیرنی راج کمار کے نام سے جاننے لگے ہیں۔ پیرنی ناٹیم، بھگوان شیو کو پیش کیا گیا ایک رقص ہے، جو کاکتیہ سلطنت کے دور میں کافی مقبول تھا۔ اس سلطنت کی جڑیں آج کے تلنگانہ سے جڑی ہیں۔ ایک دوسرے انعام یافتہ سائیکھم سرچندر سنگھ جی ہیں۔ یہ میتیئی پُنگ انسٹرومنٹ بنانے میں اپنی مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کا منی پور سے ناطہ ہے۔ پورن سنگھ ایک دویانگ فنکار ہیں، جو راجولا- ملوشاہی، نیولی، ہڑکا بول، جاگر جیسی موسیقی کی مختلف شکلوں کو مقبول بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ان سے جڑی کئی آڈیو ریکارڈنگ بھی تیار کی ہیں۔ اتراکھنڈ کے فوک میوزک میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے پورن سنگھ جی نے کئی انعامات بھی جیتے ہیں۔ وقت محدود ہونے کی وجہ سے، میں یہاں سبھی انعام یافتگان کی باتیں بھلے ہی نہ کر پاؤں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے بارے میں ضرور پڑھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سبھی فنکار، پرفارمنگ آرٹس کو مزید مقبول بنانے کے لیے گراس روٹس پر سبھی کو ترغیب دیتے رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، تیزی سے آگے بڑھتے ہمارے ملک میں ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کونے کونے میں دکھائی دے رہی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کو گھر گھر پہنچانے میں الگ الگ ایپس کا بڑا رول ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک ایپ ہے، ای سنجیونی۔ اس ایپ سے ٹیلی کنسلٹیشن، یعنی دور بیٹھے، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ڈاکٹر سے، اپنی بیماری کے بارے میں صلاح کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کا استعمال کرکے اب تک ٹیلی کنسلٹیشن کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ کی عدد کو پار کر گئی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے 10 کروڑ کنسلٹیشنز! مریض اور ڈاکٹر کے ساتھ شاندار ناطہ – یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔ اس حصولیابیکے لیے، میں سبھی ڈاکٹروں اور اس سہولت کا فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہندوستان کے لوگوں نے، ٹیکنالوجی کو کیسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے، یہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کورونا کے دور میں ای سنجیونی ایپ اس کے ذریعے ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے۔ میرا بھی من ہوا کہ کیوں نہ اس کے بارے میں ’من کی بات‘ میں ہم ایک ڈاکٹر اور ایک مریض سے بات کریں، مذاکرہ کریں اور آپ تک بات کو پہنچائیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے آخر کتنا مؤثر رہا ہے۔ ہمارے ساتھ سکم سے ڈاکٹر مدن منی جی ہیں۔ ڈاکٹر مدن منی جی رہنے والے سکم کے ہی ہیں، لیکن انہوں نے ایم بی بی ایس دھنباد سے کیا اور پھر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم ڈی کیا۔ وہ دیہی علاقوں کے سینکڑوں لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن دے چکے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار… نمسکار مدن جی۔
ڈاکٹر مدن منی: جی نمسکار سر۔
جناب وزیر اعظم: میں نریندر مودی بول رہا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ تو بنارس میں پڑھے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی میں بنارس میں پڑھا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ کا میڈیکل ایجوکیشن وہیں ہوا۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: تو جب آپ بنارس میں تھے تب کا بنارس اور آج بدلا ہوا بنارس کبھی دیکھنے گئے کہ نہیں گئے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی وزیر اعظم صاحب میں جا نہیں پایا ہوں جب سے میں واپس سکم آیا ہوں، لیکن میں نے سنا ہے کہ کافی بدل گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم: تو کتنے سال ہو گئے آپ کو بنارس چھوڑے؟
ڈاکٹر مدن منی: بنارس 2006 سے چھوڑا ہوا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… پھر تو آپ کو ضرور جانا چاہیے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، میں نے فون تو اس لیے کیا کہ آپ سکم کے اندر دور افتادہ پہاڑوں میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن کی بہت بڑی خدمات دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو آپ کا تجربہ سنانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ذرا مجھے بتائیے، کیسا تجربہ رہا؟
ڈاکٹر مدن منی: تجربہ، بہت اچھا رہا وزیر اعظم صاحب۔ کیا ہے کہ سکم میں بہت نزدیک کا جو پی ایچ سی ہے، وہاں جانے کے لیے بھی لوگوں کو گاڑی میں چڑھ کر کم از کم ایک دو سو روپے لے کر جانا پڑتا ہے۔ اور ڈاکٹر ملے، نہیں ملے یہ بھی ایک پرابلم ہے۔ تو ٹیلی کنسلٹیشن کے ذریعے لوگ ہم لوگ سے سیدھے جڑ جاتے ہیں، دور دراز کے لوگ۔ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کے جو سی ایچ اوز ہوتے ہیں، وہ لوگ، ہم لوگ سے، کنیکٹ کروا دیتے ہیں۔ اور ہم لوگ کا جو پرانی ان کی بیماری ہے ان کی رپورٹس، ان کا ابھی کا پریزنٹ کنڈیشن ساری چیزیں وہ ہم لوگ کو بتا دیتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: یعنی ڈاکیومنٹ ٹرانسفر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔ ڈاکیومنٹ ٹرانسفر بھی کرتے ہیں اور اگر ٹرانسفر نہیں کر سکے تو وہ پڑھ کے ہم لوگوں کو بتاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: وہاں کا ویلنس سینٹر کا ڈاکٹر بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویلنس سینٹر میں جو سی ایچ او رہتا ہے، کمیونٹی ہیلتھ آفیسر۔
جناب وزیر اعظم: اور جو پیشنٹ ہے وہ اپنی پریشانیاں آپ کو سیدھے بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، پیشنٹ بھی پریشانی ہم کو بتاتا ہے۔ پھر پرانے ریکارڈز دیکھ کے پھر اگر کوئی نئی چیزیں ہم لوگوں کو جاننا ہے۔ جیسے کسی کا چیسٹ آسلٹیٹ کرنا ہے، اگر ان کو پیر سوجا ہے کہ نہیں؟ اگر سی ایچ او نے نہیں دیکھا ہے تو ہم لوگ اس کو بولتے ہیں کہ جا کر دیکھو سوجن ہے، نہیں ہے، آنکھ دیکھو، اینیمیا ہے کہ نہیں ہے، اس کا اگر کھانسی ہے تو چیسٹ کو آسلٹیٹ کرو اور پتہ کرو کہ وہاں پہ ساؤنڈ ہے کہ نہیں۔
جناب وزیر اعظم: آپ وائس کال سے بات کرتے ہیں یا ویڈیو کال کا بھی استعمال کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویڈیو کال کا استعمال کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: تو آپ پیشنٹ کو بھی، آپ بھی دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو بھی دیکھ پاتے ہیں، جی۔
جناب وزیر اعظم: پیشنٹ کو کیا فیلنگ آتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو اچھا لگتا ہے کیوں کہ ڈاکٹر کو نزدیک سے وہ دیکھ پاتا ہے۔ اس کو کنفیوزن رہتا ہے کہ اس کا دوا گھٹانا ہے، بڑھانا ہے، کیوں کہ سکم میں زیادہ تر جو پیشنٹ ہوتے ہیں، وہ ڈائبٹیز، ہائپر ٹینشن کے آتے ہیں اور ایک ڈائبٹیز اور ہائپر ٹینشن کے دوا کو چینج کرنے کے لیے اس کو ڈاکٹر سے ملنے کے لیے کتنا دور جانا پڑتا ہے۔ لیکن ٹیلی کنسلٹیشن کے تھرو وہیں مل جاتا ہے اور دوا بھی ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر میں فری ڈرگز انیشیٹو کے تھرو مل جاتا ہے۔ تو وہیں سے دوا بھی لے کر جاتا ہے وہ۔
جناب وزیر اعظم: اچھا مدن منی جی، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پیشنٹ کا ایک مزاج رہتا ہے کہ جب تک وہ ڈاکٹر آتا نہیں ہے، ڈاکٹر دیکھتا نہیں ہے، اس کو اطمینان نہیں ہوتا ہے اور ڈاکٹر کو بھی لگتا ہے ذرا مریض کو دیکھنا پڑے گا، اب وہاں سارا ہی ٹیلی کام میں کنسلٹیشن ہوتاہ ے تو ڈاکٹر کو کیا فیل ہوتاہ ے، پیشنٹ کو کیا فیل ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، وہ ہم لوگ کو بھی لگتا ہے کہ اگر پیشنٹ کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر کو دیکھنا چاہیے، تو ہم لوگ کو، جو جو چیزیں دیکھنا ہے وہ ہم لوگ سی ایچ او کو بول کے، ویڈیو میں ہی ہم لوگ دیکھنے کے لیے بولتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو پیشنٹ کو ویڈیو میں ہی نزدیک میں آ کے اس کی جو پریشانیاں ہیں اگر کسی کو جلد کا پرابلم ہے، اسکن کا پرابلم ہے، تو وہ ہم لوگ کو ویڈیو سے ہی دکھا دیتے ہیں۔ تو اطمینان رہتا ہے ان لوگوں کو۔
جناب وزیر اعظم: اور بعد میں اس کا علاج کرنے کے بعد اس کو اطمینان ملتا ہے، کیا تجربہ آتا ہے؟ پیشنٹ ٹھیک ہو رہے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، بہت اطمینان ملتا ہے۔ ہم کو بھی اطمینان ملتا ہے سر۔ کیوں کہ میں ابھی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ہوں اور ساتھ ساتھ میں ٹیلی کنسلٹیشن بھی کرتا ہوں تو فائل کے ساتھ ساتھ پیشنٹ کو بھی دیکھنا میرے لیے بہت اچھا، خوشگوار تجربہ رہتاہ ے۔
جناب وزیر اعظم: اوسطاً کتنے پیشنٹ آپ کو ٹیلی کنسلٹیشن کیس آتے ہوں گے؟
ڈاکٹر مدن منی: ابھی تک میں نے 536 پیشنٹ دیکھے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… یعنی آپ کو کافی اس میں مہارت آ گئی ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، اچھا لگتا ہے دیکھنے میں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آپ سکم کے دور افتادہ جنگلوں میں، پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی اتنی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اور خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے دور دراز علاقے میں بھی ٹیکنالوجی کا اتنا بہتر استعمال ہو رہا ہے۔ چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
ڈاکٹر مدن منی: تھینک یو۔
ساتھیو، ڈاکٹر مدن منی جی کی باتوں سے صاف ہے کہ ای سنجیونی ایپ کس طرح ان کی مدد کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مدن جی کے بعد اب ہم ایک اور مدن جی سے جڑتے ہیں۔ یہ اتر پردیش کے چندولی ضلع کے رہنے والے مدن موہن لال جی ہیں۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ چندولی بھی بنارس سے سٹا ہوا ہے۔ آئیے، مدن موہن جی سے جانتے ہیں کہ ای سنجیونی کو لے کر ایک مریض کے طور پر ان کا تجربہ کیا رہا ہے؟
جناب وزیر اعظم: مدن موہن جی، پرنام!
مدن موہن جی: نمسکار، نمسکار صاحب۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار! اچھا، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ڈائبٹیز کے مریض ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: اور آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ٹیلی کنسلٹیشن کر کر کے اپنی بیماری کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ایک پیشنٹ کے ناطے، ایک دردی کے طور پر، میں آپ کے تجربات سننا چاہتا ہوں، تاکہ میں ملک کے شہریوں تک اس بات کو پہنچانا چاہوں کہ آج کی ٹیکنالوجی سے ہمارے گاؤں میں رہنے والے لوگ بھی کس طرح سے اس کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ ذرا بتائیے کیسے کرتے ہیں؟
مدن موہن جی: ایسا ہے سر جی، ہاسپٹیل دور ہیں اور جب ڈائبٹیز ہم کو ہوا تو ہم کو جو ہے 6-5 کلومیٹر دور جا کر کے علاج کروانا پڑتا تھا، دکھانا پڑتا تھا۔ اور جب سے سسٹم آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ اسیے ہے کہ ہم اب جاتا ہوں، ہمارا جانچ ہوتا ہے، ہم کو باہر کے ڈاکٹروں سے بات بھی کرا دیتی ہیں اور دوا بھی دے دیتی ہیں۔ اس سے ہم کو بڑا فائدہ ہے اور، اور لوگوں کو بھی فائدہ ہے اس سے۔
جناب وزیر اعظم: تو ایک ہی ڈاکٹر ہر بار آپ کو دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بدلتے جاتے ہیں؟
مدن موہن جی: جیسے ان کونہیں سمجھ، ڈاکٹر کو دکھا دیتی ہیں۔ وہ ہی بات کرکے دوسرے ڈاکٹر سے ہم سے بات کراتی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اور ڈاکٹر آپ کو جو گائیڈنس دیتے ہیں وہ آپ کو پورا فائدہ ہوتا ہے اس سے۔
مدن موہن جی: ہم کو فائدہ ہوتا ہے۔ ہم کو اس سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ اور گاؤں کے لوگوں کو بھی فائدہ اس سے ہے۔ سبھی لوگ وہاں پوچھتے ہیں کہ بھیا ہمارا بی پی ہے، ہمارا شوگر ہے، ٹیسٹ کرو، جانچ کرو، دوا بتاؤ۔ اور پہلے تو 6-5 کلومیٹر دور جاتے تھے، لمبی لائن لگی رہتی تھی، پیتھالوجی میں لائن لگی رہتی تھی۔ ایک ایک دن کا وقت نقصان ہوتا تھا۔
جناب وزیر اعظم: مطلب، آپ کا وقت بھی بچ جاتا ہے۔
مدن موہن جی: اور پیسہ بھی خرچ ہوتا تھا اور یہاں پر مفت خدمات سب ہو رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، جب آپ اپنے سامنے ڈاکٹر کو ملتے ہیں تو ایک اعتماد بنتا ہے۔ چلو بھائی، ڈاکٹر ہے، انہوں نے میری نبض دیکھ لی ہے، میری آنکھیں دیکھ لی ہیں، میری جیبھ کو بھی چیک کر لیا ہے۔ تو ایک الگ فیلنگ آتا ہے۔ اب یہ ٹیلی کنسلٹیشن کرتے ہیں تو ویسا ہی اطمینان ہوتا ہے آپ کو؟
مدن موہن جی: ہاں، اطمینان ہوتا ہے کہ وہ ہماری نبض پکڑ رہے ہیں، آلہ لگا رہے ہیں، ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے اور ہم کو بڑا طبیعت خوش ہوتا ہے کہ بھئی اتنا اچھا نظام آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے کہ جس سے کہ ہم کو یہاں پریشانی سے جانا پڑتا تھا، گاڑی کا کرایہ دینا پڑتا تھا، وہاں لائن لگانا پڑتا تھا۔ اور ساری سہولیات ہم کو گھر بیٹھے بیٹھے مل رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، مدن موہن جی میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔ عمر کے اس پڑاؤ پر بھی آپ ٹیکنالوجی کو سیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اوروں کو بھی بتائیے تاکہ لوگوں کا وقت بھی بچ جائے، پیسہ بھی بچ جائے اور ان کو جو بھی رہنمائی ملتی ہے، اس سے دوائیں بھی اچھے طریقے سے ہو سکتی ہیں۔
مدن موہن جی: ہاں، اور کیا۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات مدن موہن جی۔
مدن موہن جی: بنارس کو صاحب آپ نے کاشی وشوناتھ اسٹیشن بنا دیا، ڈیولپمنٹ کر دیا۔ یہ آپ کو مبارکباد ہے ہماری طرف سے۔
جناب وزیر اعظم: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے کیا بنایا جی، بنارس کے لوگوں نے بنارس کو بنایا ہے۔ نہیں تو، ہم تو ماں گنگا کی خدمت کے لیے، ماں گنگا نے بلایا ہے، بس، اور کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے جی، بہت بہت مبارکباد آپ کو۔ پرنام جی۔
مدن موہن جی: نمسکار سر!
جناب وزیر اعظم: نمسکار جی!
ساتھیو، ملک کے عام انسانوں کے لیے، متوسط طبقہ کے لیے، پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، ای سنجیونی، زندگی کو بچانے والا ایپ بن رہا ہے۔ یہ ہے ہندوستان کے ڈیجیٹل انقلاب کی طاقت۔ اور اس کا اثر آج ہم ہر علاقے میں دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کے یو پی آئی کی طاقت بھی آپ جانتے ہی ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ملک، اس کی طرف راغب ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہندوستان اور سنگاپور کے درمیان یو پی آئی- پے ناؤ لنک لانچ کیا گیا۔ اب، سنگاپور اور ہندوستان کے لوگ اپنے موبائل فون سے اسی طرح پیسے ٹرانسفر کر رہے ہیں جیسے وہ اپنے اپنے ملک کے اندر کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ہندوستان کا ای سنجیونی ایپ ہو یا پھر یو پی آئی، یہ ایز آف لیونگ کو بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کسی ملک میں غائب ہو رہی کسی پرندے کی نسل کو، کسی جاندار کو بچا لیا جاتا ہے، تو اس کی پوری دنیا میں چرچہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی متعدد عظیم روایات بھی ہیں، جو غائب ہو چکی تھیں، لوگوں کے ذہن و دماغ سے ہٹ چکی تھیں، لیکن اب انہیں عوامی حصہ داری کی طاقت سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس کی چرچہ کے لیے ’من کی بات‘ سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوگا؟
اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، وہ جان کر واقعی آپ کو بہت خوشی ہوگی، وراثت پر ناز ہوگا۔ امریکہ میں رہنے والے جناب کنچن بنرجی نے وراثت کے تحفظ سے جڑی ایسی ہی ایک مہم کی طرف میری توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، مغربی بنگال میں ہگلی ضلع کے بانس بیریا میں اس مہینہ ’تربینی کمبھو مہوتشو‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں آٹھ لاکھ سے زیادہ عقیدت مند شامل ہوئے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اتنا خاص کیوں ہے؟ خاص اس لیے، کیوں کہ اس روایت کو 700 سال کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ روایت ہزاروں سال پرانی ہے لیکن بدقسمتی سے 700 سال پہلے بنگال کے تربینی میں ہونے والا یہ مہوتسو بند ہو گیا تھا۔ اسے آزادی کے بعد شروع کیا جانا چاہیے تھا، لیکن وہ بھی نہیں ہو پایا۔ دو سال پہلے، مقامی لوگ اور ’تربینی کمبھو پاریچالونا شامیتی‘ کے توسط سے، یہ مہوتسو پھر شروع ہوا ہے۔ میں اس کے انعقاد سے جڑے سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ صرف ایک روایت کو ہی زندہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ ہندوستان کی ثقافتی وراثت کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔
ساتھیو، مغربی بنگال میں تربینی کو صدیوں سے ایک مقدم مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کا ذکر مختلف منگل کاویہ، ویشنو ساہتیہ، شاک ادب اور دیگر بنگالی ادبی تخلیقات میں ملتا ہے۔ مختلف تاریخی دستاویزوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہ علاقہ سنسکرت، تعلیم اور ہندوستانی ثقافت کا مرکز تھا۔ کئی سنت اسے ماگھ سنکرانتی میں کمبھ کے اشنان کے لیے مقدس جگہ مانتے ہیں۔ تربینی میں آپ کو کئی گنگا گھاٹ، شیو مندر اور ٹیراکوٹا فن تعمیر سے سجی قدیم عمارتیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ تربینی کی وراثت کو دوبارہ قائم کرنے اور کمبھ کی روایت کے امتیاز کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے یہاں پچھلے سال کمبھ میلہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سات صدیوں بعد، تین دن کے کمبھ مہا اشنان اور میلہ نے، اس علاقے میں ایک نئی توانائی پھونکی ہے۔ تین دنوں تک ہر روز ہونے والی گنگا آرتی، رودرابھشیک اور یگیہ میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ اس بار ہوئے مہوتسو میں مختلف آشرم، مٹھ اور اکھاڑے بھی شامل تھے۔ بنگالی روایات سے جڑے مختلف فنون جیسے کیرتن، باؤل، گوڑیو نرتیہ، سری کھول، پوٹیر گان، چھوؤ ناچ، شام کے پروگراموں میں توجہ کا مرکز بنے تھے۔ ہمارے نوجوانوں کو ملک کے سنہرے ماضی سے جوڑنے کی یہ بہت ہی قابل تعریف کوشش ہے۔ ہندوستان میں ایسی کئی اور پریکٹسز ہیں جنہیں ریوائیو کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے بارے میں ہونے والی گفتگو لوگوں کو اس سمت میں ضرور متوجہ کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، سووچھ بھارت ابھیان نے ہمارے ملک میں عوامی حصہ داری کے معنی ہی بدل دیے ہیں۔ ملک میں کہیں پر بھی کچھ صفائی سے جڑا ہوا ہوتا ہے تو لوگ اس کی جانکاری مجھ تک ضرور پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی میرا دھیان گیا ہے، ہریانہ کے نوجوانوں کے ایک سووچھتا ابھیان پر۔ ہریانہ میں ایک گاؤں ہے دُلہیڑی۔ یہاں کے نوجوانوں نے طے کیا کہ ہمیں بھوانی شہر کو صفائی کے معاملے میں ایک مثال بنانا ہے۔ انہوں نے یوا سووچھتا ایوم جن سیوا سمیتی نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کمیٹی سے جڑے نوجوان صبح 4 بجے بھوانی پہنچ جاتے ہیں۔ شہر کے الگ الگ مقامات پر یہ مل کر صفائی مہم چلاتے ہیں۔ یہ لوگ اب تک شہر کے الگ الگ علاقوں سے کئی ٹن کوڑا صاف کر چکے ہیں۔
ساتھیو، سووچھ بھارت ابھیان کا ایک اہم گوشہ ویسٹ ٹو ویلتھ بھی ہے۔ اوڈیشہ کے کیندر پاڑہ ضلع کی ایک بہن کملا موہرانا ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں۔ اس گروپ کی عورتیں دودھ کی تھیلی اور دوسری پلاسٹک پیکنگ سے ٹوکری اور موبائل اسٹینڈ جیسی کئی چیزیں بناتی ہیں۔ یہ ان کے لیے صفائی کے ساتھ ہی آمدنی کا بھی ایک اچھا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم اگر ٹھان لیں تو سووچھ بھارت میں اپنا بہت بڑا تعاون دے سکتے ہیں۔ کم از کم پلاسٹک کے بیگ کی جگہ کپڑے کے بیگ کا عہد تو ہم سب کو ہی لینا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے، آپ کا یہ عہد آپ کو کتنا سکون دے گا، اور دوسرے لوگوں کو ضرور آمادہ کرے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے اور آپ نے ساتھ جڑ کر ایک بار پھر کئی حوصلہ افزا موضوعات پر بات کی۔ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کے اسے سنا اور اب اسے دن بھر گنگنائیں گے بھی۔ ہم ملک کی جفاکشی کی جتنی بھی بات کرتے ہیں، اتنی ہی ہمیں توانائی ملتی ہے۔ اسی توانائی کے ساتھ چلتے چلتے آج ہم ’من کی بات‘ کے 98ویں ایپی سوڈ کے مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ آج سے کچھ دن بعد ہی ہولی کا تہوار ہے۔ آپ سبھی کو ہولی کی مبارکباد۔ ہمیں، ہمارے تہوار ووکل فار لوکل کے عہد کے ساتھ ہی منانے ہیں۔ اپنے تجربات بھی میرے ساتھ شیئر کرنا نہ بھولئے گا۔ تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ اگلی بار ہم پھر نئے موضوعات پر ساتھ ملیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
Citizens have made #MannKiBaat a wonderful platform as an expression of public participation. pic.twitter.com/RcArvAjLZu
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
From sports to toys and story-telling, various topics have been discussed during #MannKiBaat episodes. pic.twitter.com/WCT5A1Z2MQ
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
A few days ago, 'Ustad Bismillah Khan Yuva Puraskar’ were conferred.
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
These awards were given away to emerging, talented artists in the field of music and performing arts. #MannKiBaat pic.twitter.com/WzFi2aLabI
The e-Sanjeevani App is a shining example of the power of Digital India. #MannKiBaat pic.twitter.com/bJ8XnFpNHM
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
Many countries of the world are drawn towards India's UPI.
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
Just a few days ago, UPI-PayNow Link has been launched between India and Singapore. #MannKiBaat pic.twitter.com/mD03tIOWxL
Protecting the cultural heritage of India. #MannKiBaat pic.twitter.com/ZAGSRVWtwV
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
Swachh Bharat has become a mass movement.
— PMO India (@PMOIndia) February 26, 2023
If we resolve, we can make a huge contribution towards a clean India. #MannKiBaat pic.twitter.com/dsreUll5om