Hunar Haat has given wings to the aspirations of artisans: PM Modi
Our biodiversity is a unique treasure, must preserve it: PM Modi
Good to see that many more youngsters are developing keen interest in science and technology: PM Modi
New India does not want to follow the old approach, says PM Modi
Women are leading from the front and driving change in society: PM Modi
Our country's geography is such that it offers varied landscape for adventure sports: PM Modi

  میرے پیارے ہم وطنوں، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ  ‘من کی بات’ کے توسط سے مجھے کَچھ سے لے کر کوہیما ، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ، ملک بھر کے سبھی شہریوں کو ایک بار پھر نمسکار کا موقع ملا ہے۔ آپ سب کو نمسکار! ہمارے ملک کی عظمت اور تنوع اس کو یاد کرنا، اس کو نمن کرنا ، ہر ہندوستانی کو فخر سے معمور کر دیتا ہے ۔ اور اسی تنوع کے احساس کا موقع تو ہمیشہ ہی مغلوب کر دینا والا ، لطف انگیز ، ایک طرح سے ترغیب کا پھول  ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے میں نے دہلی کے ہنر ہاٹ میں ایک چھوٹی سی جگہ میں ، اپنے ملک کی عظمت، ثقافت، روایات، کھانا پینا اور جذبات کی رنگارنگی کا مشاہدہ کیا۔ روایتی ملبوسات، دستکاری، قالین ، برتن، بانس اور پیپل کی پیداوار، پنجاب کی پھلکاری، آندھر پردیش کا شاندار چمڑے کا کام، تمل ناڈو کی خوبصورت پینٹنگ، اتر پردیش کے پیتل کی مصنوعات، بھدوہی کی قالین ، کَچھ کے تانبے کی مصنوعات، متعدد آلات موسیقی، بے شمار باتیں، پورے ہندوستان کی فنکاری اور ثقافت کی جھلک، واقعی انوکھی ہی تھی اور ان کے پیچھے دستکاروں کی لگن اور اپنے ہنر کے تئیں پریم کی کہانیاں بھی ، بہت ہی تحریک کا باعث ہوتی ہیں۔ ہنر ہاٹ میں  ایک معذور خاتون کی باتیں سن کر بڑا اطمینان ہوا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پہلے وہ فٹ پاتھ پر اپنی پینٹنگ بیچتی تھی ۔ لیکن ہنر ہاٹ سے جڑنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی۔ آج وہ نہ صرف خود انحصار ہے بلکہ انہوں نے خود کا ایک گھر بھی خرید لیا ہے۔ ہنر ہاٹ میں مجھے کئی اور دستکاروں سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ  ہنر ہاٹ میں حصہ لینے والے کاریگروں میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ اور گذشتہ تین برسوں میں ہنر ہاٹ کے توسط سے تقریباً تین لاکھ کاریگروں، دستکاروں کو روزگار کے متعدد مواقع ملے ہیں۔ ہنر ہاٹ ، فنکاری کی نمائش کے لیے پلیٹ فارم تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ یہ لوگوں کے خوابوں کو بھی پَر دے رہا ہے۔ایک جگہ ہے جہاں اس ملک کے تنوع کو نظر انداز کرنا ناممکن ہی ہے۔ دستکاری تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ ہمارے کھانے پینے کا تنوع بھی ہے۔ وہاں ایک ہی قطار میں اِڈلی ڈوسا، چھولے بٹورے، دال باٹی، کھمن کھانڈوی نہ جانے کیا کیا تھا۔ میں نے خود بھی بہار کے ذائقہ دار لِٹّی چوکھا کا لطف اٹھایا، بھرپور لطف اٹھایا۔ ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے میلے ، نمائشوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ ہندوستان کو جاننے کے لیے ، ہندوستان کو محسوس  کرنے کے لیے جب بھی موقع ملے ، ضرور جانا چاہیے۔ ‘ایک بھارت –شریشٹھ بھارت’ کو جی بھر جینے کا یہ موقع بن جاتا ہے۔ آپ نہ صرف ملک کی فنکاری اور ثقافت سے جڑیں گے بلکہ آپ ملک کے محنتی کاریگروں کی خاص طور پر خواتین کی خوشحالی میں اپنا حصہ دے سکیں گے – ضرور جائیے۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے ملک کی عظیم روایات ہیں ۔ ہمارے اجداد نے ہمیں جو وراثت میں دیا ہے ، جو تعلیم اور شعور ہمیں ملا ہے ، جس میں جانداروں کے تئیں رحم کا جذبہ، فطرت کے تئیں  بے پناہ محبت، یہ ساری باتیں، ہماری ثقافتی وراثت ہیں اور ہندوستان کے اس ماحول میں مہمان نوازی کا لطف لینے کے لیےپوری دنیا سے مختلف نسلوں کے پرندے بھی ، ہر سال ہندوستان آتے ہیں۔ ہندوستان پورے سال نقل مکانی کرکے آنے والے کئی پرندوں  کا آشیانہ بنا رہتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتےہیں کہ یہ جو پرندے آتے ہیں، پانچ سو سے بھی زیادہ، مختلف قسم کے اور  مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں گاندھی نگر میں ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ جس میں اس موضوع پر کافی غور و خوض بھی ہوا اور ہندوستان کی کوششوں کی بہت ستائش بھی ہوئی ۔ ساتھیو، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ آنے والے تین سالوں تک نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں پر ہونے والے  ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ کی صدارت کرے گا۔ اس موقع کو کیسے مفید بنائیں ، اس کے لیے آپ اپنے آراء ضرور بھیجیں۔

سی او پی کنونشن پر ہو رہی اس مباحثے کے درمیان میرا دھیان میگھالیہ سے جڑی ایک اہم جانکاری کی طرف بھی گیا۔ حال ہی میں حیاتیات کے ماہرین نے مچھلی کی ایک ایسی نئی نسل کی دریافت کی ہے جو صرف میگھالیہ میں غاروں کے اندر پائی جاتی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ مچھلی غاروں میں زمین کے اندر رہنے والے آبی جانداروں کی نسلوں میں سے سب سے بڑی ہیں۔ یہ مچھلی ایسے گہرے اور اندھیرے زیر زمین غاروں میں رہتی ہے، جہاں روشنی بھی شاید ہی پہنچ پاتی ہے۔ سائنس داں بھی اس بات سے حیران ہیں کہ اتنی بڑی مچھلی اتنے گہرے غاروں میں کیسے زندہ رہتی ہے؟ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ہندوستان اور خاص طور پر میگھالیہ ایک نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہ ہندوستانی کی حیاتیاتی تنوع کو نئی منزل عطا کرنے والا ہے۔ ہمارے اِرد گرد ایسے بہت سے عجوبے ہیں جن کی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہے۔ ان عجائب کا پتہ لگانے کے لیے تلاش کرنے کا جنون ضرور ہوتا ہے۔

   عظیم تمل شاعرہ اوویّار نے لکھا ہے ،

‘‘کٹّت کماووں کلّا درو اڈگڑوو، کڈّت کییمن اڑوا کلّادر اولاآڈو’’

اس کا مطلب ہے کہ ہم جو جانتے ہیں ، وہ محض مٹھی بھر ایک ریت ہے لیکن جو ہم نہیں جانتے ہیں ، وہ اپنے آپ میں پوری کائنات کے برابر ہے۔ اس ملک کی تنوع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے جتنا جانیں اتنا کم ہے۔  ہماری حیاتیاتی تنوع بھی پوری انسانیت کے لیے انوکھا خزانہ ہے جسے ہمیں سنوارنا ہے، حفاظت کرنی ہے اور تلاش بھی کرنی ہے۔

میرے پیارے نوجوان ساتھیو، اِن دنوں ہمارے ملک کے بچوں میں ، نوجوانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خلاء میں ریکارڈ سٹیلائٹ کا بھیجا جانا، نئے نئے ریکارڈ، نئے نئے مشن ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کر دیتے ہیں۔ جب میں چندریان-2 کے وقت بنگلورو میں تھا، تو میں نے دیکھا تھا کہ وہاں موجود بچوں  کا جوش  دیکھنے کے قابل تھا۔ نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایک طرح سے پوری رات وہ جاگتے رہے ۔ ان میں سائنس، ٹکنالوجی اور اختراعات کو لے کر جو تجسس تھا وہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں۔ بچوں کے ، نوجوانوں کے ، اسی جوش کو فروغ دینے کے لیے ، ان میں سائنسی رجحان کو بڑھانے کے لیے ایک اور انتظام شروع ہوا ہے۔ اب آپ شری ہری کوٹا سے ہونے والے راکٹ لانچنگ کو سامنے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ حال ہی میں ، اسے سب کے لیے کھول دیا گیا ہے۔وزیٹر گیلری بنائی گئی ہے جس میں 10 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہے ۔ اسرو کی ویب سائٹ پر دیے گئے لنک کے ذریعہ آن لائن بکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی اسکول اپنے طالب علموں کو راکٹ لانچنگ دکھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے  لیے ٹور پر بھی لے جارہے ہیں۔ میں سبھی اسکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ سے درخواست کروں گا کہ آنے والے دنوں میں وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔

ساتھیو،  میں آپ کو ایک اور دلچسپ جانکاری دینا چاہتا ہوں ۔ میں نمو ایپ پر جھارکھنڈ کے دھنباد کے رہنے والے پارس کا کمنٹ پڑھا ۔ پارس چاہتے ہیں کہ میں اسرو کے ‘یوویکا’ پروگرام کے بارے میں نوجوان ساتھیوں کو بتاؤں۔ نوجوانوں کو سائنس سے جوڑنے کے لیے ‘یوویکا’ اسرو کی بہت ہی قابل ستائش کوشش ہے۔  2019 میں یہ پروگرام اسکول کے طالب علموں کے لیے شروع کیا گیا تھا ۔ ‘یوویکا’ کا مطلب ہے  –  ‘‘نوجوان سائنس داں پروگرام’’ ۔ یہ پروگرام ہمارے تصور ‘‘جے جوان  ، جے کسان ، جے وگیان، جے انو سندھان’’ کے مطابق ہے۔ اس پروگرام میں اپنے امتحان کے بعد، چھٹیوں میں طلباء اسرو کے مختلف مراکز میں جا کر خلائی ٹکنالوجی ، خلائی سائنس اور خلائی اپلی کیشنز کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ آپ  کو اگر یہ جاننا ہے ٹریننگ کیسی ہے؟ کس طرح کی ہے؟ کتنی دلچسپ ہے؟ پچھلی بار جنہوں نے اس میں شرکت کی ہے ، ان کے تجربات ضرور پڑھیں۔ آپ کو خود شرکت کرنا ہے تو اسرو سے منسلک ‘یوویکا’ کی ویب سائٹ پر جا کر اپنا رجسٹریشن بھی کرا سکتے ہیں ۔ میرے نوجوان ساتھیوں ، میں آپ کے لیے بتاتاہوں ،   ویب سائٹ کا نام لکھ لیجیئے اور ضرور آج ہی وزٹ کیجئے – www.yuvika.isro.gov.in ۔ لکھ لیا نا؟

میرے پیارے ہم وطنوں، 31 جنوری 2020 کو لداخ کی خوبصورت وادیاں ، ایک تاریخی واقعہ کی گواہ بنی۔ لیہ کے کوشوک باکولا رمپوچی ایئر پورٹ سے ہندوستانی فضائیہ کے اے این – 32 جہاز نے جب اڑان بھری تو ایک نئی تاریک رقم ہوئی ۔ اس اڑان میں 10فیصد ہندوستانی بایو جیٹ ایندھن شامل کیا گیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا جب دونوں انجنوں میں محلول  کا استعمال کیا گیا ۔ یہی نہیں ، لیہ کے جس ہوائی اڈّے پر جہاز نے اڑان بھری، وہ نہ صرف ہندوستان میں  بلکہ دنیا میں سب سے بلندی پر واقع ایئر پورٹ میں سے ایک ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بایو –جیٹ ایندھن کو نان ایڈیبل ٹری بورن آئل سے تیار کیا گیا ہے ۔ اسے ہندوستان کے مختلف قبائلی علاقوں سے خریدا جاتا ہے۔ ان کوششوں سے نہ صرف کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ کچے تیل کی در آمدات پر بھی  ہندوستان کی انحصاریت کم ہو سکتی ہے۔ میں اس بڑے پروگرام سے وابستہ سبھی لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر سی ایس آئی آر، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پٹرولیم، دہرادون کے سائنس دانوں کو جنہوں نے بایو-ایندھن  سے جہاز اڑانے کی تکنیک کو ممکن کر دیا۔ ان کی یہ کوشش ‘میک اِن انڈیا’ کو بھی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا نیا ہندوستان، اب پرانے طریقۂ کار  کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ خاص طور پر، نیو انڈیا کی ہماری بہنیں اور مائیں تو آگے بڑھ کر ان چیلنجوں کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہیں جن سے پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل  رہی ہے۔ بہار کی پورنیہ کی کہانی پورے ملک کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو کئی دہائیوں سے سانحہ سیلاب سے لڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہاں، کاشتکاری اور دیگر آمدنی کے وسائل کو پیدا  کرنا بہت مشکل رہا ہے۔ لیکن ان حالات میں پورنیا کی کچھ خواتین نے ایک مختلف راستے کا انتخاب کیا۔ساتھیو، پہلے اس علاقے کی خواتین، شہتوت یا ملبری کے درختوں پر ریشم کے کیڑوں سے کوکون تیار کرتی تھیں، جس کی انہیں بہت ہی معمولی قیمت ملتی تھی۔ جب کہ اسے خریدنے والے لوگوں نے ان کوکونوں سے ریشمی سوت بنا کر ایک موٹا منافع کمایا۔ لیکن آج پورنیہ کی خواتین نے ایک نئی شروعات کی اور پوری تصویر کو بدل کر رکھ دیا ۔ان خواتین نے حکومت کے ساتھ مل کر شہتوت کی تیاری کی۔ اس کے بعد، انہوں نے کوکونوں سے ریشم کے دھاگے بنائے اور پھر ان سوتوں سے خودہی  ساڑیاں بنوانا بھی شروع کردیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پہلے جس  کوکون کو فروخت  کرکے معمولی رقسم ملتی تھی، وہی اب اس سے بنی ساڑیاں ہزاروں روپئے میں بک رہی ہیں۔ ‘آدرش جیویکا مہیلا ملبری پروڈکشن گروپ’ کی بڑی بہنوں نے جو کمال کئے ہیں، اس کا اثر اب کئی گاؤں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پورنیہ کے متعدد گاؤں کی کسان دیدیاں، اب نہ صرف ساڑیاں تیار کروا رہی ہیں بلکہ بڑے مالوں میں، اپنے اسٹال لگا کر فروخت بھی کر رہی ہیں۔ اس کی ایک  مثال آج کی خواتین کی نئی طاقت، نئی سوچ کے ساتھ کس طرح نئے مقاصدکو حاصل کررہی ہے

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک کی خواتین، ہماری بیٹیوں کا کاروبار، ان کی ہمت، ہر کسی کے لئے باعث فخر ہے۔ اپنے اردگرد ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹیاں کس طرح پرانی بندشوں کو توڑ رہی ہیں، نئی بلندیوں کو حاصل کر رہی ہیں۔ میں آپ کے ساتھ بارہ سالہ بیٹی کامیا کارتکین کے کارنامے پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ کامیا نے، صرف بارہ سال کی عمر میں ہی، ماؤنٹ ایکونکاگو، اس کو  فتح کرنے کا کارنامہ کردکھایا ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے اینڈیس پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی ہے ، جو تقریبا 7000 میٹر اونچی ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس بات کا احساس ہو گا کہ جب اس مہینے کے شروع میں کامیا نے چوٹی کو فتح کیا اور سب سے پہلے وہاں، ہمارا ترنگا لہرایا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کا  سر فخر سے اونچا کرنے والی کامیا، ایک نئے مشن پر ہے، جس کا نام ‘مشن ہمت’ ہے۔ اس کے تحت وہ سبھی براعظموں کی سب سے اونچی چوٹیوں کو فتح کرنے میں مصروف ہے۔ اس مہم میں اسے شمالی اور جنوبی قطب پراسکائی بھی کرنا ہے۔ میں کامیا کو ‘مشن ہمت’ کے لئے اپنی مبارکباد دیتا ہوں ۔ ویسے، کامیا کا کارنامہ بھی ہر ایک کو فٹ رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اتنی کم عمری میں، کامیا جس بلندی پر پہنچی ہے اس میں فٹنس کا  بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو فٹ ہے، ایک ایسی قوم ہوگی جو ہِٹ رہے گی۔ یعنی، جو ملک فٹ ہے، وہ ہمیشہ ہِٹ بھی رہے گا۔ ویسے، آنے والے مہینے تو ایڈونچر اسپورٹس کے لئے بھی بہت موزوں ہیں۔ ہندوستان کا جغرافیہ ایسا ہے جو ہمارے ملک میں ایڈونچر کھیلوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف، جہاں اونچے ا ونچے پہاڑ ہیں، وہیں دوسری طرف، دور دور تک پھیلا ریگستان ہے۔ ایک طرف جہاں گھنے جنگلات کا بسیرا ہے، تو وہیں دوسری طرف سمندر کی لامحدو توسیع ہے۔ اس لئے میری آپ سب سے خصوصی التجا ہے کہ آپ بھی اپنی پسند کی جگہ کا انتخاب کریں، اپنی دلچسپی کی سرگرمی کا انتخاب کریں اور اپنی زندگی کو ضرور ایڈونچر کے ساتھ شامل کریں۔ زندگی میں ایڈونچر ضرور ہونا چاہئے، ویسے ساتھیو، بارہ سالہ بیٹی کامیا کی کامیابی کے بعد، جب آپ 105 سالہ بھاگیرتھی اماں کی کامیابی کی کہانی سنیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ دوستو، اگر ہم زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر  کے طالب علم کو کبھی مرنا نہیں چاہیے۔ ہماری 105 سالہ بھاگیرتھی اماں ہمیں یہی ترغیب دیتی ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھاگیرتھی اماں کون ہیں؟ بھاگیرتھی اماں کیرالہ کے کولم میں رہتی ہیں۔ بچپن میں ہی انھوں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ چھوٹی عمر میں شادی کے بعد شوہر کو بھی کھودیا۔ لیکن، بھاگیرتھی اماں نے ہمت نہیں ہاری، اپنا جذبہ نہیں کھویا۔ دس سال کی عمر میں، انھیں اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے 105 سال کی عمر میں دوبارہ اسکول کا آغاز کیا۔ پڑھنا شروع کیا۔ اتنی عمر ہونے کے باوجود بھاگیرتھی اماں نے لیول 4 کا امتحان دیا اور بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگیں۔  انھوں نے امتحان میں 75 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ صرف یہی نہیں، ریاضی میں 100 نمبر حاصل کیے ہیں۔ اماں اب مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مزید امتحانات دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے، بھاگیرتھی اماں جیسے لوگ اس ملک کی طاقت ہیں۔ تحریک کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ میں آج خاص طور پر بھاگیرتھی اماں کو سلام کرتا ہوں۔

دوستو، زندگی کی مشکل گھڑی میں، ہماری ہمت، ہماری مرضی کی طاقت کسی بھی صورتحال کو بدل دیتی ہے۔ حال ہی میں، میں نے میڈیا میں ایک کہانی پڑھی جسے میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا  چاہتا ہوں۔ یہ سلمان کی کہانی ہے جو مراد آباد کے گاؤں حمیر پور میں رہتے ہیں۔ سلمان پیدائشی طور پر معذور ہے۔ ان کے پاؤں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس مشکل کے باوجود، اس نے ہمت نہیں ہاری اور فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی اپنا کام شروع کردے گا۔ ساتھ ہی، انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ، اب وہ، اپنے جیسے مختلف معذور افراد کی بھی مدد کریں گے۔ پھر کیا تھا، سلمان نے اپنے ہی گاؤں میں چپل اور ڈیٹرجنٹ بنانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ساتھ 30 معذور ساتھی اس میں شامل ہوگئے۔ آپ یہ بھی غور کیجیے کہ سلمان کو خود چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس نے ایسی چپلیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو دوسروں کے چلنے میں آسان بنائے۔ خاص بات یہ ہے کہ سلمان نے، معذور ساتھیوں خود ہی ٹریننگ دی۔ اب وہ سب مل کر مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں۔ اپنی محنت سے، ان لوگوں نے نہ صرف اپنے لئے روزگار کو یقینی بنایا بلکہ اپنی کمپنی کو بھی منافع میں پہنچا دیا۔  اب یہ لوگ ایک ساتھ مل کر ایک دن میں ڈیڑھ سو (150) جوڑی چپل تیار کرلیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، سلمان نے اس سال مزید 100 معذوروں کو روزگار دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ میں ان سب کے کاروبار کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ایسا ہی عزم گجرات کے علاقے کچھ میں ازرک گاؤں کے لوگوں نے بھی دکھایا ہے۔ 2001 میں تباہ کن زلزلے کے بعد ہر کوئی گاؤں چھوڑ رہا تھا، تبھی اسماعیل کھتری نامی شخص نے گاؤں میں ہی رہ کر ‘ازرک پرنٹ’ کی اپنی روایتی طرز دستکاری کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کیا تھا، قدرت کے رنگوں سے بنا ‘ازرک کالا’ ہر کسی کو پسند آنے لگا اور یہ سارا گاؤں اپنی روایتی طرز دستکاری سے وابستہ ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں نے، نہ صرف سیکڑوں سال پرانے اس فن کو بچایا بلکہ اسے جدید فیشن کے ساتھ بھی جوڑ دیا۔ اب بڑے ڈیزائنرز ، بڑے ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ، ازرک پرنٹ کا استعمال شروع کر چکے ہیں۔ گاؤں کے محنتی لوگوں کی وجہ سے آج ازرک پرنٹ ایک بڑا برانڈ بن رہا ہے۔ دنیا کے بڑے خریدار اس پرنٹ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں ملک بھر میں مہا شیوراتری کا تہوار منایا گیا ہے۔ بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی برکتوں سے ملک کا شعور بیدار ہوا ہے۔ مہا شیوراتری پر بھولے بابا کا آشیرواد آپ پر بنا رہے،  آپ کی تمام خواہشات شیو جی پوری کریں، آپ توانائی سے بھر پور رہیں، صحتمند رہیں، خوش رہیں اور ملک کی طرف اپنے فرائض سرانجام دیں۔

دوستو، مہا شیوارتری کے ساتھ ساتھ، بہار کی چمک میں بھی دن بدن اضافہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں ہولی بھی ایک تہوار ہے، جلد ہی اس کے بعد گڈی پڈوا بھی آنے والا ہے۔ اس کے ساتھ نوراتری کا تہوار بھی وابستہ ہے۔ رام-نومی کا تہوار بھی آئے گا۔ تہوار اور تہوار ہمارے ملک میں معاشرتی زندگی کا لازمی جزو رہے ہیں۔ کچھ معاشرتی پیغام ہر تہوار کے پیچھے پوشیدہ ہوتا ہے، جو نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو اتحاد کا پابند کرتا ہے۔ ہولی کے بعد، ہندوستانی وکرم نئے سال کا آغاز بھی چیترا شکلا-پرتی پڈا سے ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی، ہندوستانی نیا سال، میں آپ کو نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اگلے ‘من کی بات‘ تک، مجھے لگتا ہے کہ طلباء امتحان میں مصروف ہوں گے۔ جن کا امتحان مکمل ہوچکا ہوگا، وہ خوش ہوں گے۔ جو مصروف ہیں، جو خوش ہیں، ان کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے آیئے اگلی ‘من کی بات’ کے لئے بہت سی چیزوں کے ساتھ دوبارہ ملیں گے۔

بہت بہت شکریہ! نمسکار

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM Modi visits the Indian Arrival Monument
November 21, 2024

Prime Minister visited the Indian Arrival monument at Monument Gardens in Georgetown today. He was accompanied by PM of Guyana Brig (Retd) Mark Phillips. An ensemble of Tassa Drums welcomed Prime Minister as he paid floral tribute at the Arrival Monument. Paying homage at the monument, Prime Minister recalled the struggle and sacrifices of Indian diaspora and their pivotal contribution to preserving and promoting Indian culture and tradition in Guyana. He planted a Bel Patra sapling at the monument.

The monument is a replica of the first ship which arrived in Guyana in 1838 bringing indentured migrants from India. It was gifted by India to the people of Guyana in 1991.