نئی دہلی، 5 مارچ 2021، تعارف کرانے کے لئے شکریہ ڈاکٹر ڈین یرگن، یہاں پر آئے ہوئے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ۔
نمسکار!
میں بہت ہی عجز و انکسار کے ساتھ سیرا ویک عالمی توانائی اور ماحولیات کی قیادت کا ایوارڈ قبول کرتا ہوں۔ میں ایوارڈ اپنی عظیم مادر وطن ، بھارت کے نام وقف کرتا ہوں۔ میں یہ ایوارڈ اپنی سرزمین کی شاندار روایات کے نام وقف کرتا ہوں جنہوں نے ماحولیات کی دیکھ ریکھ کا معاملہ سامنے آنے پر رہنمائی کی ہے۔
دوستو،
یہ ایورڈ ماحولیات کی قیادت کو تسلیم کرتا ہے۔ قیادت کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کا اظہار اپنے کاموں کے ذریعہ ہی بہترین طریقے سے ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب ماحولیات کی دیکھ بھال کی بات آتی ہے تو بھارت کے عوام قیادت کرتے ہیں۔ صدیوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔ہمارے کلچر میں فطرت اور دیوی دیوتا ایک دوسرے کےبہت قریب ہیں۔ ہمارے دیوی دیوتا ؤں کا تعلق کسی نہ کسی درخت اور جانور سے ہوتا ہے۔ یہ درخت اور جانور پاکیزہ ہیں۔ آپ کسی بھی ریاست سے، کسی بھی زبان کا ادب اٹھالیجئے۔ آپ کو عوام اور فطرت کے درمیان قریبی رشتے کی بہت سے مثالیں ملیں گی۔
دوستو،
مہاتما گاندھی کی شکل میں ہمیں ماحولیات کا عظیم ترین علمبردار حاصل ہوا ۔ اگر نوع انسانی ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی تو آج ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میں آپ سبھی سے اپیل کروں گا کہ گجرات کے ساحلی شہر پوربندر میں مہاتما گاندھی کے گھر کو ضرور دیکھیں۔ان کے گھر کے قریب آپ کو پانی کے تحفظ کے بارے میں عملی رہنمائی حاصل ہوگی۔200 برس سے زیادہ عرصہ قبل انڈر گراؤنڈ ٹینک تعمیر کئے گئے۔ وہ بارش کے پانی کو بچانے کے لئے تعمیر کئے گئے تھے۔
دوستو،
مہاتما گاندھی کی شکل میں ہمیں ماحولیات کا عظیم ترین علمبردار حاصل ہوا۔ اگر نوع انسانی ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی تو آج ہمارے سامنے بہت مسائل نہ ہوتے۔ میں آپ سبھی سے اپیل کروں گا کہ گجرات کے ساحلی شہر پور بندر میں مہاتما گاندھی کے گھر کو ضرور دیکھیں۔ ان کے گھر کے قریب آپ کو پانی کے تحفظ کے بارے میں بہت ہی عملی رہنمائی حاصل ہوگی۔ وہاں پر 200 سال کے عرصے سے بھی پہلے انڈر گراؤنڈ ٹینک تعمیر کئے گئے تھے۔ وہ بارش کا پانی بچانے کے لئے تعمیر کئے گئے تھے۔
دوستو،
آب و ہوا کی تبدیلی اور آفات آج بہت بڑے چیلنج ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک تو پالیسی قوانین ، ضابطوں اور احکامات کے ذریعہ ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ان کی اپنی اہمیت ہے۔ میں آپ کے سامنے چند مثالیں پیش کرسکتا ہوں:بھارت کی بجلی کی صلاحیت میں غیر فوصل ذرائع کا حصہ اب بڑھ کر 38 فیصد ہوگیا ہے۔ اپریل 2020 سے ہی ہم نے بھارت 6 اخراج کے قوانین کو اختیار کیا ہے۔ یہ یورو ۔6 فیول کے برابر ہے۔ بھارت سال 2030 تک قدرتی گیس کے حصے کو موجودہ 6 فیصد سے بڑھاکر 15 فیصد کرنے کے لئے کام کررہا ہے۔ ایل این جی کو فیول کے طور پر فروغ دیا جارہا ہے۔ ہم نے فیول کے طور پر پائیڈروجن کے استعمال کے لئے گزشتہ ماہ ایک نیشنل ہائیڈروجن مشن شروع کیا ہے۔ حال ہی میں ایک اسکیم پی ایم کُسم کا اعلان کیا گیا۔ یہ شمسی توانائی پیدا کرنے کے منصفانہ اور ڈہ سنٹرا لائزڈ ماڈل کو فروغ دے گی۔ لیکن پالیسیوں ، قوانین، ضابطوں اور احکامات کی دنیا سے باہر بھی کچھ ہوتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ رویئے میں تبدیلی لانا ہے۔ آپ میں سے کئی معززین نے یہ مشہور کہانی سنی ہوگی، ایک چھوٹے بچے کو دنیا کا ایک پٹھا ہو ا دیا گیا تھا ۔ بچے سے کہا گیا کہ وہ اسے جوڑ دے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ وہ یہ کام کبھی نہیں کرسکے گا۔ لیکن بچے نے درحقیقت یہ کام بڑی کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔ جب پوچھا گیا کہ بچے نے یہ کام کس طرح کیا گیا تو بچے نے بتایا کہ دنیا کے نقشے کے پیچھے ایک آدمی کی شکل تھی۔ بچے نے آدمی کی شکل کو یکجا کردیا اور اس کی وجہ سے نقشہ بھی اسمیبل ہوگیا۔ پیغام واضح ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانا ہوگا اور دنیا اپنے آپ ایک بہتر مقام بن جائے گی۔
دوستو،
رویئے میں تبدیلی لانے کا یہ جذبہ ہماری روایتی عادتوں کا ایک کلیدی حصہ ہے جو ہمیں ہمدردی کے ساتھ اصراف کا سبق دیتی ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے چیزوں کو پھینک دینے کا کلچر اپنے اخلاقات کا حصہ نہیں ہیں۔ ہمارے ذراعت کے طریقوں کو دیکھیں یا ہمارے کھانے کے طریقوں کو دیکھیں، ہماری نقل و حرکت کے طریقوں کو دیکھیں یا ہمارے توانائی کی کھپت کے طریقوں کو دیکھیں۔ مجھے اپنے کسانوں پر فخر ہے جو آبپاشی کے لئے مسلسل جدید تکنیک استعمال کررہے ہیں۔ سوائل ہیلتھ کو بہتر بنانے اور جراثیم کش ادویات کے استعمال کو کم کرنے کے بارے میں بیداری میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج دنیا فٹنیس اور تندرستی پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ صحت مند اور آرگینک خوراک کی مانگ بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت اپنے مسالوں ، اپنی آیوروید کی مصنوعات اور دیگر چیزوں کے ذریعہ اس عالمی تبدیلی کے لئے تحریک دے سکتا ہے۔ اسی طرح ماحولیات کے موافق نقل و حمل کا معاملہ بھی لے سکتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت میں ہم 27 قصبوں اور شہروں میں میٹرو نیٹ ور کے لئے کام کررہے ہیں۔
دوستو،
بڑے پیمانے پر رویئے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمیں ایسے سولیوشنز لانے کی ضرورت ہے جو اختراعی، سستے اور عوامی شرکت والے ہوں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ بھارت کے عوام میں اتنے بڑے پیمانے پر ایل ای ڈی بلب اختیار کرنے کا فیصلہ جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔یکم مارچ 2021 تک تقریباً 37 ملین ایل ای ڈی بلب استعمال کئے جارہے ہیں ۔ اس سے لاگت اور توانائی کی بچت ہوئی۔ 38 ملین ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی سالانہ کمی آئی ہے۔ بھارت کے جذبہ ایثار کی تحریک کی ایک اور مثال ہے۔ عوام سے معمولی سی درخواست کی گئی کہ وہ زیادہ ضرورت مند لوگوں کے فائدے کے لئے اپنی ایل پی جی سبسڈی کی چھوڑ دیں۔ اس پر بھارت بھر میں بہت سے لوگوں نے اپنی سبسڈی چھوڑ دی۔ اس سے بھارت کو لاکھوں گھروں کو بغیر دھوئیں والی رسوئی فراہم کرانے میں بڑی مدد ملی۔ سال 2014 میں بھارت میں ایل پی جی کا کوریج 55 فیصد تھا وہ آج بڑھ کر 99.6 فیصد ہوگیا ہے۔ اس کا سب سےبڑا فائدہ خواتین کو ہوا ہے۔ان دنوں میں ایک بہت ہی مثبت تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ ردی سے دولت تیار کرنے کا کام بھارت میں زور پکڑ رہا ہے۔ مختلف شعبوں میں ہمارے شہری ری سائیکلنگ کے منفرد طریقے لے کر سامنے آرہے ہیں۔ اس سے سرکولر اکنومی کو فروغ ملے گا۔ ہمارا ملک سستے ٹرانسپورٹیشن کے لئے پائیدار متبادل اقدامات کے تحت ردی سے دولت تیار کئے جانے کو فروغ دے رہا ہے۔ اس کے تحت سال 2024 تک 15 ایم ایم ٹی پیداوار کے نشانے کے ساتھ 5000 کمپریسڈ بایو گیس پلانٹ قائم کئے جائیں گے۔ اس سے ماحولیات کو مدد ملے گی اور انسان کو مزید بااختیار بنایا جاسکے گا۔
دوستو،
بھارت بھر ت میں ایتھنول کی قبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔عوام کے ردعمل کی بنیاد پر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 2025 تک پٹرول میں ایتھنول کی بلینڈنگ کو 20 فیصد کرنے کا نشانہ سابقہ 2030 کی بجائے اب 2025 تک پورا کیا جائے گا۔
دوستو،
اس بات سے آپ سبھی کو خوشی ہوگی کہ گزشتہ 7 برسوں میں بھارت کے جنگلات کے کور میں کافی اضافہ ہوا۔شیروں، چیتوں، تیندوؤں، مرغابیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رویئے میں مثبت تبدیلیوں کے یہ بڑے اشاریئے ہیں۔ انہیں تبدیلیوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ بھارت 2030 کی نشانہ تاریخ بہت پہلے پیرس ایگریمنٹ کے اپنے نشانوں کو پورا کرنے کے لئے صحیح راستے پرہے۔
دوستو،
ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے بھارت کے وژن میں ہمخیال ممالک کے ساتھ کام کرنا شامل ہے۔ انٹرنیشنل سولر الائنس کی ابتدائی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کرہ ارض کی بہتری کے لئے کوششوں کی بات آتی ہے تو بھارت اس معاملے میں کتنا سنجیدہ ہو تا ہے۔ہم مستقبل میں بھی ایسی کوششیں جاری رکھیں گے۔ یہ مہاتما گاندھی کے ٹرسٹی شپ کے اصول کے مطابق ہے۔ ٹرسٹی شپ کی بنیاد میں اجتماعیت ، ہمدردی اور ذمہ داری کا جذبہ ہے۔ ٹرسٹی شپ کا مطلب وسائل کا ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنا بھی ہے۔ مہاتما گاندھی نے صحیح کہا تھا کہ ’’ہم قدرت کے تحائف کو جس طرح چاہیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس کے کھاتے میں ڈیبٹ ہمیشہ کریڈٹ کے برابر ہوتا ہے‘‘۔ قدرت ایک آسان بیلنس شیٹ برقرار رکتھی ہے۔ جو بھی دستیاب ہے یا کریڈت کیا گیا ہے اس کو استعمال یا ڈیبٹ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کو مناسب طریقے سے تقسیم کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر ہم وسائل کی زیادہ کھپت کریں گے تو ہم یہ کام کسی سے چھین کر کریں گے۔ اسی طرح بھارت آب و ہوا کی تبدیلی سے مقابلہ کرنے کے لئے آب و ہوا کے انصاف کی بات کررہا ہے۔
دوستو،
یہ وقت منطقی طریقے سے اور ماحولیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچنے کا ہے۔ معاملہ میرا اور آپ کا ہی نہیں ہے، یہ ہمارے کرہ ارض کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ہمیں یہ کام اپنی آنے والی نسلوں کےلئے کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر اس ایوارڈ کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نمستے،