قوم کے نام وزیراعظم کے خطاب کا متن

Published By : Admin | August 8, 2019 | 20:06 IST

نئی دہلی،  8 اگست 2019،   

میرے عزیز ہم وطنو!

ایک ملک ایک قوم کے طور پر،ایک کنبے کے طور پر،آپ نے، ہم نے،پورے ملک نے،ایک تاریخی فیصلہ لیا ہے۔

ایک ایسا نظام جس کی وجہ سے جموں و کشمیر اور لداخ کے ہمارے بھائی بہن متعدد حقوق سے محروم تھے،  جو ان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ تھی وہ اب دور ہوگئی ہے۔جو خواب سردار پٹیل کا تھا،بابا صاحب امبیڈکر کا تھا،ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا تھا،اٹل جی اور کروڑوں محبین وطن  کا تھا،وہ اب پورا ہوا ہے۔

جموں و کشمیر اور لداخ میں ایک نئے عہد کاآغاز ہوا ہے۔اب ملک کے تمام شہریوں کے حق بھی یکساں ہیں، ذمہ داریاں بھی یکساں ہیں۔میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو، لداخ کے لوگوں کو ہر ایک اہل وطن کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

معاشرے کچھ باتیں وقت کے ساتھ کتنی گھل مل جاتی ہیں کہ کئی مرتبہ ان چیزوں کو دائمی تسلیم کرلیا جاتا ہے۔یہ جذبہ آجاتا ہے کہ کچھ بدلے گا، نہیں، ایسے ہی چلے گا۔

آرٹیکل 370 کے ساتھ بھی ایسا ہی تاثر تھا۔ اس سے جموں و کشمیر اور لداخ کے ہمارے بھائی بہنوں، ہمارے بچوں کا جو خسارہ ہورہا تھا اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ آپ کسی سے بھی بات کریں، تو کوئی یہ بھی نہیں بتا پاتا تھا کہ آرٹیکل 370 سے جموں کشمیر کے عوام کی زندگی کو کیا فائدہ   تھا۔

بھائیو اور بہنو،

آرٹیکل 370 اور 35 اے نے جموں کشمیر کو علیحدگی پسندی، دہشت گردی، کنبہ پرستی اور نظام میں بڑے پیمانے پر پھیلی بدعنوانی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

ان دونوں آرٹیکلز کا ملک کے خلاف کچھ لوگوں کے جذبات بھڑکانے کےلئے پاکستان کے ذریعہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہا تھا۔

اس کی وجہ سے  گزشتہ تین دہائیوں میں تقریباً 42000 بے گناہ افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی اس رفتار سے نہیں ہوپائی جس کا وہ حقدارتھا۔ اب نظام کا یہ سقم دور ہونے سے جموں وکشمیر اور لداخ کے لوگوں کا حال تو سدھرےگا ہی ان کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں کوئی بھی حکومت ہو، وہ پارلیمنٹ میں قانون بناکر ملک کی بھلائی کے لئے کام کرتی ہے، کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، کسی بھی محاذ کی حکومت ہو، یہ کام لگاتار چلتا رہتا ہے۔

قانون وضع کرتے وقت کافی بحث ہوتی ہے، غور و خوض ہوتا ہے، اس کی ضرورت ، اس کے اثر کو لیکر سنجیدہ موقف پیش کئے جاتے ہیں۔ اس عمل سے گزر کر جو قانون وضع ہوتا ہے، وہ پورے ملک کے لوگوں کا بھلا کرتا ہے۔ لیکن کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ پارلیمنٹ اتنی بڑی تعداد میں قانون بنائے اور وہ ملک کے ایک حصے میں نافذ ہی نہیں ہوں۔

یہاں تک کہ پہلے کی جو حکومتیں ایک قانون بناکر واہ واہی لوٹتی تھیں، وہ بھی یہ دعوی نہیں کرپاتی تھیں کہ ان کا وضع کردہ قانون جموں و کشمیر میں بھی نافذ ہوگا۔ جو قانون ملک کی پوری آبادی کے لئے وضع ہوتا تھا، اس کے فوائد سے جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ عوام محروم رہ جاتے تھے۔

سوچئے،

 ملک کی دیگر ریاستوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن جموں و کشمیر کے بچے اس سے محروم تھے۔ ملک کی ریاستوں میں بیٹیوں کو جو سارے حق ملتے ہیں، وہ سارے حق جموں و کشمیر کی بیٹیوں کو نہیں ملتے تھے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں صفائی کارکنان کےلئے صفائی کارکنان ایکٹ نافذ ہے لیکن جموں کشمیر کے صفائی کارکنان اس سے محروم تھے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں دلتوں پر ظلم و زیادتی روکنے کے لئے سخت قانون نافذ ہے لیکن جموں کشمیر میں ایسا نہیں تھا۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں اقلیتوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے مائناریٹی ایکٹ نافذ ہے لیکن جموں و کشمیر میں ایسا نہیں تھا۔

ملک کی دیگر ریاستوں میں مزدوروں کے مفاد کے تحفط کے لئے کم از کم اجرت ایکٹ نافذ ہے لیکن جموں و کشمیر میں کام کرنے والے مزدوروں کو یہ صرف کاغذوں پر ہی ملتا تھا۔ ملک کی دیگر ریاستوں  میں انتخابات لڑتے وقت  درج فہرست قبائل کے بھائی بہنوں کو ریزرویشن کا فائدہ ملتا تھا لیکن جموں و کشمیر میں ایسا نہیں تھا۔

ساتھیو،

اب آرٹیکل 370 اور 35 اے تاریخ کی بات ہوجانے کے بعد، اس کے منفی اثرات سے بھی جموں و کشمیر بہ سرعت باہر نکلے گا، اس کا مجھے  پورا یقین ہے۔

بھائیو اور بہنو،

 نئے نظام میں مرکزی حکومت کی یہ ترجیح رہے گی کہ ریاست کے ملازمین کو، جموں و کشمیر پولیس کو،  دیگر مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ملازمین اور وہاں کی پولیس کے مساوی سہولتیں حاصل ہوں۔ ابھی مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں متعدد ایسی مالی سہولتیں  ، جیسے ایل ٹی سی، ہاؤس رینٹ الاؤنس، بچوں کی تعلیم کے لئے تعلیمی بھتہ، ہیلتھ اسکیم جیسی متعدد سہولتیں دی جاتی ہیں، جن میں سے بیشتر جموں و کشمیر کے ملازمین کو نہیں ملتیں۔ ایسی سہولتوں پر نظر ثانی کرکے  جلد ہی جموں و کشمیر کے ملازمین اور  وہاں کی پولیس کو بھی یہ سہولتیں مہیا کرائی جائیں گی۔

ساتھیو،

بہت جلد ہی جموں و کشمیر اور لداخ میں تمام مرکزی اور ریاستی خالی اسامیوں کو پُر کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ اس سے مقامی نوجوانوں کو روزگار کے وافر مواقع دستیاب ہوں گے۔ساتھ ہی  مرکزی حکومت کی سرکاری دائرہ کار کی اکائیاں اور نجی شعبے کی بڑی کمپنیوں کو بھی روزگار کے نئے مواقع فراہم کرانے کےلئے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

اس کے علاوہ فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ مقامی نوجوانوں کی بھرتی کے لئے ریلیوں کا اہتمام  کیا جائے گا۔

حکومت کی پردھان منتری اسکالر شپ اسکیم میں توسیع کی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء کو اس کا فائدہ مل سکے۔

 جموں وکشمیر میں مالیہ خسارہ بھی بہت زیادہ ہے۔

مرکزی حکومت یہ بھی یقینی بنائے گی کہ اس کے اثرات کو کم کیا جائے۔

بھائیوں اور بہنوں! مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 ہٹانے کے ساتھ ہی  فی الحال کچھ وقت کے لئے  جموں وکشمیر کو براہ راست  مرکزی حکومت کے کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ  کرلیا ہے۔

 اس کے پیچھے کی وجہ کو سمجھنا بھی آپ کے لئے اہم ہے۔

جب سے وہاں  گورنر رول  کا نفاذ ہوا ہے، جموں وکشمیر کا ایڈمنسٹریشن براہ راست  مرکزی حکومت کے رابطے میں ہے۔

اس کی وجہ سے  گزشتہ کچھ مہینوں میں وہاں گوڈ گورننس اور  ڈولپمنٹ کا بہتر  اثر  زمین  پر دکھائی دینے لگا ہے۔

جو اسکیمیں پہلے  صرف کاغذوں میں رہ گئی تھیں، انہیں اب زمین پر اتارا جارہا ہے۔

 دہائیوں سے لٹکے ہوئے پروجیکٹوں کو نئی رفتار ملی ہے۔

ہم نے  جموں وکشمیر انتظامیہ میں  کام کاج  کا ایک نیا طریقہ شروع کرنے، شفافیت لانے کی کوشش کی ہے۔

 اسی کا نتیجہ ہے کہ  آئی آئی ٹی ، آئی آئی ایم ، ایمس ہوں، آب پاشی کے تمام  پروجیکٹ ہوں یا پھر  این ٹی کرپشن بیورو ہو  ان سب کے کاموں میں تیزی آئی ہے ۔

اس کے علاوہ  وہاں  کنکٹی وٹی سے  متعلق پروجیکٹ ہوں، سڑکوں اور نئی ریل لائنوں کا کام ہو، ہوائی اڈوں کی جدید کاری ہو، سبھی کو تیز رفتار سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔

دوستو!

 ہمارے ملک کی جمہوریت مستحکم  ہے لیکن آپ یہ جان  کر چونک جائیں گے کہ جموں وکشمیر میں دہائیوں سے ہزارو ں کی تعداد میں ایسے بھائی بہن رہتے ہیں جنہیں لوک سبھا  کے انتخاب میں  ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل تھا لیکن وہ اسمبلی  اور  بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو  1947 میں  تقسیم کے بعد  پاکستان سے ہندوستان آئے تھے۔ کیا ان لوگون کے ساتھ  نا انصافی اسی طرح ہوتی رہے گی۔

دوستو!

 جموں وکشمیر کے اپنے بھائی بہنوں کو میں  ایک اہم بات  اور وضاحت کرنا چاہتا ہوں ، آپ کی نمائندگی ، آپ کے ذریعے ہونی چاہئے ، نمائندہ آپ کے ہی درمیان سے آئے گا، جیسے پہلے ایم ایل اے ہوتے تھے، ویسے ہی ایم ایل اے  آگے بھی ہوں گے، جیسے پہلے وزرا کی کونسل ہوتی تھی، ویسے ہی  وزرا کی کونسل آگے بھی ہوگی۔ جیسے پہلے آپ کے  سی ایم  ہوتے تھے ، ویسے ہی  آئندہ بھی  آپ کے سی ایم ہوں گے۔

دوستو!

مجھے پورا یقین ہے کہ اس نئے  انتظام کے تحت ہم سب مل کر  دہشت گردی – علیحدگی پسندی سے  جموں وکشمیر کو  آزاد کرائیں گے۔ جب زمین کی جنت  ، ہمارا جموں وکشمیر  ایک بار پھر ترقی کی نئی بلندیوں کو  عبور کرکے  پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگے گا ، تو  شہریوں کی زندگی میں  ایزآف لیونگ بڑھے گی، شہریوں کو جو ان کا حق ملنا چاہئے، وہ بلا روک ٹوک ملنے لگے گا۔ انتظام اور انصرام کا سارا نظام  مفاد عامہ کے کاموں کو  تیزی سے آگے بڑھائے گا ، تو میں نہیں مانتا کہ مرکز کے زیر انتظام  صوبے کا نظام جموں وکشمیر کے   اندر چلائے رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔

بھائی اور بہنو!

 ہم سبھی چاہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں  جموں وکشمیر  اسمبلی کے انتخابات ہوں ، نئی حکومت بنے، وزیراعلیٰ بنے۔ میں جموں وکشمیر کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو  بہت ایمانداری کے ساتھ  پورے صاف  وشفاف  ماحول میں  اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا موقع ملے گا، جیسے گزشتہ دنوں میں پنچایت کا انتخاب شفافیت کے ساتھ  کرایا گیا تھا، اسی طرح جموں وکشمیر  اسمبلی کے بھی انتخاب ہوں گے۔

میں ریاست کے گورنر سے  یہ اپیل کروں گا کہ  بلاک ڈولپمنٹ  کونسل کا  قیام ہو، جو پچھلی  دو تین دہائیوں سے زیر التوا ہے۔ اسے پورا کرنے کا کام  بھی جلد از جلد کیا جائے۔

ساتھیو!

 یہ میرا اپنا تجربہ ہے کہ چار پانچ ماہ قبل جموں وکشمیر اور لداخ میں پنچایت کے انتخابات میں جو لوگ منتخب ہوکر آئے وہ بہت  بہتر کام کررہے ہیں۔ کچھ ماہ  قبل  جب میں شری نگر گیا تھا تو وہاں میری ان سے طویل ملاقات ہوئی تھی، جب وہ یہاں دہلی آئے تھے تب بھی میں نے اپنے  گھر پر  ان سے کافی دیر تک بات کی تھی۔

پنچایت کے ان ساتھیوں کی وجہ سے  جموں وکشمیر میں گزشتہ دنوں گاؤں کی سطح پر بہت تیزی سے کام ہوا ہے۔ ہر گھر  بجلی پہنچانے کاکام ہو یا پھر ریاست کو او ڈی ایف بنانا ہو، اس میں پنچایت کے نمائندوں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اب آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد جب پنچایت کے ان اراکین کو  نئے  نظام میں کام کرنے کا موقع ملے گا تو وہ  کام  کردیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جموں وکشمیر  کے عوام  علیحدگی پسندی کو شکست  دے کر  نئی امیدوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام  گوڈ گورننس اور  شفافیت کے ماحول میں نئے جوش  وخروش کے ساتھ  اپنے اہداف  کو حاصل کریں گے۔

ساتھیو!

دہائیوں کے پریوار واد نے جموں وکشمیر کے میرے نوجوانوں کو قیادت کا موقع نہیں دیا ہے۔ اب میرے یہ نوجوان  جموں وکشمیر کی ترقی کی قیادت کریں گے اور اسے نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔ میں جموں وکشمیر اور لداخ کے نوجوانوں، وہاں کی بہنوں اور بیٹیوں سے خصوصی طور پر اپیل کروں گا کہ  اپنے علاقے کی ترقی  کی کمان خود سنبھالیں۔

ساتھیو!

 جموں و کشمیر اور لداخ میں دنیا کا  سب سے بڑا ٹورسٹ ڈسٹینیشن بننے کی صلاحیت ہے۔ اس کے لئے جو ماحول چاہئے، انتظام وانصرام میں جو تبدیلی چاہئے، وہ کی جارہی ہیں۔ لیکن مجھے  اس میں  ہر  شہری کا  ساتھ چاہئے۔ ایک زمانہ تھا جب بالی ووڈ کی فلموں کی شوٹنگ کے لئے پسندیدہ جگہ تھی، اس دوران شاید ہی کوئی فلم بنتی ہو، جس کی کشمیر میں شوٹنگ نہ ہوتی ہو۔ اب جموں وکشمیر میں حالات معمول پر آئیں گے تو  ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ وہاں فلموں کی شوٹنگ کرنے آئیں گے۔ ہر فلم اپنے ساتھ  کشمیر کے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی لے کر آئے گی۔

میں ہندی فلم انڈسٹری ، تیلگو اور تمل فلم انڈسٹری اور اس سے متعلق لوگوں سے اپیل کروں گا کہ  جموں وکشمیر اور لداخ میں سرمایہ کاری کے بارے میں، فلم کی شوٹنگ سے لے کر تھیٹر اور دوسرے  وسائل کے قیام  کے بارے میں ضرور غور کریں۔

جب وہاں ڈیجیٹل کمیونی کیشن کو طاقت ملے گی تو وہاں  بی پی او سینٹر ، کامن سروس سینٹر  کی تعداد بڑھے گی، جتنا زیادہ  ٹیکنالوجی کی توسیع ہوگی اتنے ہی  جموں وکشمیر کے  ہمارے بھائی بہنوں کی زندگی آسان ہوگی اور انہیں ذریعہ معاش  اور روزی روٹی کمانے کے مواقع بڑھیں گے۔

دوستو!

 حکومت نے جو فیصلہ لیا ہے، وہ جموں وکشمیر اور لداخ کے ان نوجوانوں کی بھی مدد کرے گا جو اسپورٹ کی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، نئی اسپورٹ اکیڈمی، نئے اسپورٹس اسٹیڈیم ، سائنسی ماحول میں ٹریننگ، انہیں دنیا میں اپنا ٹیلنٹ دکھانے میں مدد کرے گی۔

دوستو!

 جموں وکشمیر کے زعفران کا رنگ ہو ، یا قہوا کا ذائقہ، سیب کی مٹھاس ہو ، یا  خو بانی کا رسیلہ پن، کشمیر شال ہو یا پھر کلاکرتیاں ہو، لداخ کے آرگینک پروڈکٹس ہوں یا پھر ہربل میڈیسین ، ان کی پوری دنیا میں تشہیر کی ضرورت ہے۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں، لداخ میں  سولو نام کا ایک پودا پایا جاتا ہے، جان کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پودا  ہائی الٹی چیوڈ  پر رہنے والے لوگوں کے لئے، برف پوش پہاڑیوں پر تعینات ، محافظوں کے لئے سنجیونی کا کام کرتا ہے۔ کم آکسیجن والی جگہ پر ، جسم کے امیون سسٹم  کو  سنبھالے رکھنے میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔

سوچئے ، ایسی انوکھی چیز دنیا بھر میں فروخت ہونی چاہئے یا نہیں؟ کون ہندوستانی نہیں چاہتا ہے ۔

اور  ساتھیو، میں نے صرف ایک کا نام لیا ہے،ایسے بے شمار پودے،ہربل پروڈکٹ جموں وکشمیر اور لداخ میں بکھرے پڑے ہیں۔ان کی پہچان ہوگی۔ان کی فروخت ہوگی تو اس کا بہت بڑا فائدہ وہاں کے لوگوں کو ملے گا، وہا ں کے کسانوں کو ملے گا۔اس لیے میں ملک کے صنعت کاروں سے، ایکسپورٹ سے جڑے لوگوں سے فوڈ پروسیسنگ سیکٹر سے جڑے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ جموں وکشمیر اور لداخ کی مقامی مصنوعات (پروڈکٹ) کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے آگے آئیں۔

ساتھیو،

یونین ٹریٹری یعنی (مرکز  کے زیر انتظام علاقہ) بن جانے کے بعد اب لداخ کے لوگوں کی  ترقی، ہندوستانی سرکار کی، فطری ذمہ داری بنتی ہے۔ مقامی نمائندوں، لداخ اور کارگل کی ترقی سے متعلق کونسل کے تعاون سے مرکزی سرکار ترقی کی تمام اسکیموں کا فائدہ اب اور تیزی سے پہنچائے گی۔لداخ میں اسپریچول (روحانی) ٹورزم، ایڈونچر ٹورزم اور ایکو ٹورزم کا سب سے بڑا مرکز بننے کی صلاحیت ہے۔سولر پاور جنریشن کا بھی لداخ بہت بڑا مرکز بن سکتا ہے۔اب وہاں کی صلاحیت کا مناسب استعمال ہوگا اور بغیر کسی امتیاز کے ترقی کے لئے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔اب لداخ کے نوجوانوں کی اختراعی جذبے کو بڑھاوا ملے گا، انہیں اچھی تعلیم کے لئے بہتر ادارے ملیں گے، وہاں کے لوگوں کو اچھے اسپتال  ملیں گے، بنیادی ڈھانچے کا اور تیزی سے جدید کاری ہوگی۔

ساتھیو،

جمہوریت میں یہ بھی بہت فطری بات ہے کہ کچھ لوگ اس فیصلے کے حق میں ہیں اور کچھ لوگ اس پر اختلاف رکھتے ہیں۔میں ان کے اختلافات کا بھی احترام کرتا ہوں اور ان کے اعتراضات کا بھی۔اس پر جو بحث ہورہی ہے، اس کا مرکزی سرکار جواب بھی دے رہی ہے اور حل کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کی ذمہ داری ہے۔لیکن میری ان سے اپیل ہے کہ وہ ملک کے مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اچھا برتاؤ کریں اور جموںوکشمیر لداخ کو نئی سمت دینے میں سرکار کی مدد کریں، ملک کی مدد کریں۔پارلیمنٹ میں کس نے ووٹ دیا، کس نے نہیں دیا، کس نے حق میں ووٹ دیا، کس نے نہیں دیا، اس سے آگے بڑھ کر اب ہمیں جموں وکشمیر کے مفاد میں مل کر ایک ہوکر کام کرنا ہے۔میں ہر شہری کو یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جموں وکشمیر اور لداخ کے لوگوں کی تشویش ہم سب کی تشویش ہے۔ 130 کروڑ شہریوں کی تشویش ہے۔ اس کے سکھ دکھ، ان کی تکلیف سے ہم الگ نہیں  ہیں۔دفعہ 370 سے چھٹکارا ایک سچائی ہے۔

لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ اس وقت تاریخی طور پر اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے جو بھی پریشانی ہورہی ہے، اس کا مقابلہ بھی وہی لوگ کررہے ہیں۔کچھ مٹھی بھر لوگ، جو وہاں حالات بگاڑنا چاہتے ہیں، انہیں تسلی بخش جواب بھی وہاں کے ہمارے بھائی بہن دے رہے ہیں۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے کی پاکستانی سازشوں کے خلاف جموں وکشمیر کے ہی وطن پرست لوگ ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ہندوستان کے آئین پر یقین کرنے والے ہمارے لئے سبھی بھائی بہن اچھی زندگی جینے کے حقدار ہیں۔ہمیں ان سب پر فخر ہے۔میں آج جموں وکشمیر کے ان ساتھیوں کو بھروسہ دلاتا ہوں کہ دھیرے دھیرے حالات معمول پر آجائیں گے اور ان کی پریشانی بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔

 ساتھیو،

عید کا مبارک تہوار بھی نزدیک ہی ہے۔عید کے لئے میری طرف سے سب کو بہت بہت نیک خواہشات اور مبارکباد۔حکومت اس بات کا دھیان رکھ رہی ہے کہ جموں وکشمیر میں عید منانے میں لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ہمارے جو ساتھی جموں وکشمیر سے باہر رہتے ہیں اور عید پر اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں، ان کو بھی سرکار ہر ممکن مدد کررہی ہے۔

ساتھیو،

 آج اس موقع پر،میں جموں وکشمیر کے لوگوں کی سلامتی اور تحفظ میں تعینات اپنے سیکورٹی فورسز کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔انتظامیہ سے جڑے سبھی لوگ،ریاست کے ملازمین اور جموں وکشمیر پولیس جس طرح سے حالات کو سنبھال رہی ہے، وہ بہت بہت قابل تعریف ہے۔آپ کی اس محنت نے،میرا یہ یقین اور بڑھا دیا ہے، تبدیلی آسکتی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

جموں وکشمیر ہمارے ملک کا تاج ہے، فخر کرتے ہیں۔اس کی حفاظت کے لئے جموں وکشمیر کے بے شمار بہادر بیٹے-بیٹیوں نے اپنی قربانی دی ہے۔ اپنی زندگی داؤ پر لگائی ہے۔پنچھ ضلع کے مولوی غلام دین،جنہوں نے 65 کی لڑائی میں پاکستانی گھس پیٹھیوں کے بارے میں ہندوستانی فوج کو بتایا تھا، انہیں اشوک چکر سے نوازا گیا تھا،لداخ کے کرنل سونم وان چک، جنہوں  نے کارگل کی لڑائی میں دشمن کو دھول چٹا دی تھی، انہیں مہاویر چکر عطا کیاگیا تھا۔راجوی کی رخسانہ کوثرجنہوں نے ایک بڑے دہشت گرد کو ہلاک کردیا تھا، انہیں کیرتی چکر سے نوازا گیا تھا۔پنچھ کے شہید اورنگ زیب، جن کو پچھلے سال دہشت گردوں نے ہلاک کردیا تھا، اور ان کے دونوں بھائی اب فوج میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کررہے ہیں۔اسے بہادر بیٹے-بیٹیوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے۔دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے جموں وکشمیر پولیس کے بہت سے جوان  اور افسر بھی شہید ہوئے ہیں۔ملک کے دیگر قطعہ آراضی سے بھی ہزاروں لوگوں کو ہم نے کھویا ہے۔

ان سبھی کا خواب رہا ہے۔ایک پرسکون،محفوظ، خوشحال جموں وکشمیر بنانے کا  ان کے خواب کو ہمیں مل کر پورا کرنا ہے۔

ساتھیو،

یہ فیصلہ،جموں وکشمیر اور لداخ کے ساتھ ہی پورے ہندوستان کی اقتصادی ترقی میں تعاون کرے گا۔جب دنیا کے اس اہم قطعہ آراضی میں امن اور خوشحالی آئے گی تو فطری طور سے دنیا میں امن کی کوششوں کو مضبوطی ملے گی۔میں جموں وکشمیر کے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے، لداخ کے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہوں ۔ آئیے ہم سب مل کر دنیا کو دکھا دیں کہ اس خطے کے لوگوں کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کا حوصلہ، ان کا جذبہ کتنا زیادہ ہے۔

آئیے، ہم سب مل کر نئے ہندوستان کے ساتھ ساتھ اب نئے جموں وکشمیر اور نئے لداخ کی بھی تعمیر کریں۔

بہت- بہت شکریہ!

جے ہند!!!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।