Received numerous letters and messages primarily focused on two topics: Chandrayaan-3's successful landing and the successful hosting of the G-20 in Delhi: PM
Bharat Mandapam has turned out to be a celebrity in itself. People are taking selfies with it and also posting them with pride: PM Modi
India-Middle East-Europe Economic Corridor is going to become the basis of world trade for hundreds of years to come: PM Modi
The fascination towards India has risen a lot in the last few years and after the successful organisation of G20: PM Modi
Santiniketan and the Hoysala temples of Karnataka have been declared world heritage sites: PM Modi
During the last few years, in the country, a commendable rise has been observed in the numbers of lions, tigers, leopards and elephants: PM Modi

میرے پیارے اہلِ خانہ، نمسکار۔ من کی بات کی ایک اور قسط میں مجھے آپ کے ساتھ ملک کی تمام کام یابیوں، ہم وطنوں کی کام یابیوں، ان کی متاثر کن زندگی کے سفر کو شیئر کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان دنوں مجھے جو خطوط اور پیغامات موصول ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر دو موضوعات پر ہیں۔ پہلا موضوع چندریان-3 کی کام یاب لینڈنگ اور دوسرا موضوع دہلی میں جی-20 کا کام یاب انعقاد ہے۔ مجھے ملک کے ہر حصے سے، سماج کے ہر طبقے سے، ہر عمر کے لوگوں کی طرف سے بے شمار خطوط موصول ہوئے ہیں۔ جب چندریان 3 چاند پر اترنے والا تھا تو کروڑوں لوگ مختلف ذرائع سے ایک ساتھ اس لمحے کے گواہ بن رہے تھے۔ اسرو کے یوٹیوب لائیو چینل پر 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اس تقریب کو دیکھا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چندریان -3 سے لاکھوں بھارتی کتنے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ چندریان کی اس کام یابی پر ان دنوں ملک میں ایک بہت بڑا کوئز مقابلہ بھی چل رہا ہے- اسے چندریان مہا کوئز نام دیا گیا ہے۔ اب تک 15 لاکھ سے زیادہ لوگ مائی گوو پورٹل پر اس مقابلے میں حصہ لے چکے ہیں۔ مائی گوو کے آغاز کے بعد سے کسی بھی کوئز میں یہ سب سے بڑی شرکت ہے۔ میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ اگر آپ نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا ہے تو ابھی تاخیر نہ کریں، اس میں ابھی چھ دن باقی ہیں۔ براہ مہربانی اس کوئز میں حصہ لیں۔

میرے پیارے اہلِ خانہ ، چندریان-3 کی کام یابی کے بعد عظیم الشان جی 20 ایونٹ نے ہر بھارتی کی خوشی کو دوگنا کر دیا۔ بھارت منڈپم اپنے آپ میں ایک مشہور شخصیت کی طرح بن گیا ہے۔ لوگ ان کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں اور فخر سے پوسٹ بھی کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس سربراہ اجلاس میں افریقی یونین کو جی 20کا مکمل رکن بنا کر اپنی قیادت ثابت کی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب بھارت بہت خوشحال تھا، اس وقت ہمارے ملک میں اور دنیا میں شاہراہ ریشم کے بارے میں کافی بحث ہوتی تھی۔ یہ شاہراہ ریشم تجارت اور کاروبار کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ اب جدید دور میں بھارت نے جی 20 میں ایک اور اقتصادی راہداری کی تجویز دی ہے۔ یہ انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور ہے۔ یہ راہداری آنے والے سینکڑوں برسوں تک عالمی تجارت کی بنیاد بننے جا رہی ہے اور تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ یہ راہداری بھارت کی سرزمین پر شروع کی گئی تھی۔

دوستو آج جی 20 کے دوران اس پروگرام سے بھارت کی نوجوان طاقت کس طرح جڑی ہوئی ہے اس کے خصوصی تذکرے کی ضرورت ہے۔ سال بھر ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں جی 20 سے متعلق پروگرام منعقد ہوتے رہے۔ اب اسی سلسلے میں دہلی میں ایک اور دل چسپ پروگرام ہونے جا رہا ہے جس کا نام ہے جی 20 یونیورسٹی کنیکٹ پروگرام۔ اس پروگرام کے ذریعے ملک بھر میں یونیورسٹی کے لاکھوں طلبہ ایک دوسرے سے جڑیں گے۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، این آئی ٹی اور میڈیکل کالج جیسے کئی نامور ادارے بھی اس میں حصہ لیں گے۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ کالج کے طالب علم ہیں تو 26 ستمبر کو یہ پروگرام ضرور دیکھیں، اس میں ضرور شامل ہوں۔ بھارت کے مستقبل میں، نوجوانوں کے مستقبل پر بہت سی دل چسپ چیزیں ہونے والی ہیں۔ میں خود بھی اس پروگرام میں شامل رہوں گا۔ میں اپنے کالج کے طالب علموں کے ساتھ گفت و شنید کرنے کا بھی منتظر ہوں۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، اب سے دو دن بعد، 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن ہے۔ کچھ لوگ سیاحت کو صرف سیر سپاٹے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن سیاحت کا ایک بہت بڑا پہلو روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے کم سرمایہ کاری میں اگر کسی شعبے میں سب سے زیادہ روزگار پیدا ہوتا ہے تو وہ سیاحت کا شعبہ ہے۔ سیاحت کے شعبے کو بڑھانے میں کسی بھی ملک کے لیے خیر سگالی، اس کی طرف کشش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں بھارت کی طرف کشش بہت بڑھی ہے اور جی 20 کے کام یاب انعقاد کے بعد دنیا بھر کے لوگوں کی دل چسپی بھارت میں مزید بڑھ گئی ہے۔

دوستو جی 20 میں ایک لاکھ سے زیادہ مندوبین بھارت آئے تھے۔ وہ یہاں کے تنوع، مختلف روایات، مختلف قسم کے کھانوں اور ہمارے ورثے سے واقف ہوئے۔ یہاں آنے والے مندوبین جو حیرت انگیز تجربہ اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں اس سے سیاحت کو مزید وسعت ملے گی۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں ایک سے زیادہ عالمی ثقافتی ورثہ ہیں اور ان کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کرناٹک کے شانتی نکیتن اور مقدس ہوئساڈا مندروں کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو اس شاندار کام یابی کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے 2018میں شانتی نکیتن کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور شانتی نکیتن سے جڑے رہے ہیں۔ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک قدیم سنسکرت شعر سے شانتی نکیتن کا نعرہ لیا تھا۔ یہ شلوک ہے :

یاترا وشوم بھاوتیک نیڈم

یعنی جہاں پوری دنیا ایک چھوٹے سے گھونسلے میں سماسکتی ہے۔

کرناٹک میں ہوئسلا مندر یونیسکو نے انھیں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے، یہ 13 ویں صدی کے بہترین فن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے. یونیسکو کے ذریعے ان مندروں کو تسلیم کرنا بھی مندر کی تعمیر کی بھارتی روایت کو خراج تحسین ہے۔ بھارت میں عالمی ثقافتی ورثے کی جائیدادوں کی کل تعداد اب 42ہے۔ بھارت اپنے زیادہ سے زیادہ تاریخی اور ثقافتی مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں آپ سبھی سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کہیں جانے کا ارادہ کریں تو بھارت کے تنوع کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ مختلف ریاستوں کی ثقافت کو سمجھتے ہیں، ثقافتی ورثے کو دیکھیں۔ اس سے آپ نہ صرف اپنے ملک کی شاندار تاریخ سے واقف ہوں گے بلکہ آپ مقامی لوگوں کی آمدنی بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بھی بن جائیں گے۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، بھارتی ثقافت اور بھارتی موسیقی اب گلوبل بن گئی ہے. دنیا بھر کے لوگوں کا ان سے لگاؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ میں آپ کو ایک خوب صورت چھوٹی سی لڑکی کی طرف سے پیش کردہ پریزنٹیشن کا ایک چھوٹا سا آڈیو سناتا ہوں ...

##Audio-Song

یہ سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے! کتنی پیاری آواز اور جذبات جو ہر لفظ میں جھلکتے ہیں، ہم خدا کے ساتھ اس کی وابستگی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ یہ سریلی آواز جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک بیٹی کی ہے تو شاید آپ کو اس سے بھی زیادہ حیرت ہوگی۔ اس بیٹی کا نام کسمی ہے۔ 21 سالہ کسمی ان دنوں انسٹاگرام پر بہت زیادہ وائرل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والی کسمی کبھی بھارت نہیں آئی لیکن وہ بھارتی موسیقی کی مداح ہے جس نے کبھی بھارت نہیں دیکھا، بھارتی موسیقی میں اس کی دل چسپی بہت متاثر کن ہے۔ کسمی پیدائش کے بعد سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس مشکل چیلنج نے اسے غیر معمولی کام یابیوں کے حصول سے نہیں روکا۔ موسیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کے تئیں اس کا جنون ایسا تھا کہ اس نے بچپن سے ہی گانا شروع کر دیا تھا۔ اس نے 3 سال کی عمر میں افریقی ڈھول بجانا شروع کیا۔ اسے بھارتی موسیقی سے صرف 5-6 سال پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔ بھارت کی موسیقی نے اسے اتنا متاثر کیا - اتنا کہ وہ اس میں پوری طرح ڈوب گئی۔ اس نے طبلہ بجانا بھی سیکھا ہے۔ سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ اس نے کئی بھارتی زبانوں میں گانے میں مہارت حاصل کی ہے۔ سنسکرت ہو، ہندی ہو، ملیالم ہو، تمل ہو، کنڑ ہو یا آسامی، بنگالی ہو، مراٹھی ہو، اردو ہو، ان سب میں اس نے اپنا لہجہ بنایا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی اور نامعلوم زبان کی دو یا تین لائنیں بولنی ہوں تو یہ کتنا مشکل ہے، لیکن کسمی کے لیے، یہ بائیں ہاتھ کے کھیل کی طرح ہے۔ آپ سبھی کے لیے، میں یہاں کنڑا میں گایا گیا اس کا ایک گانا شیئر کر رہا ہوں۔

##Audio - Song

میں بھارتی ثقافت اور موسیقی کے لیے جرمنی کی کسمی کے اس جذبے کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ اس کی یہ کوشش ہر بھارتی کو مغلوب کرنے والی ہے۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے ملک میں تعلیم کو ہمیشہ ایک خدمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مجھے اتراکھنڈ کے کچھ ایسے نوجوانوں کے بارے میں پتہ چلا ہے جو اسی جذبے کے ساتھ بچوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ نینی تال ضلع کے کچھ نوجوانوں نے بچوں کے لیے ایک انوکھی گھوڑا  لائبریری شروع کی ہے۔ اس لائبریری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی ناقابل رسائی علاقوں میں بھی اس کے ذریعے بچوں تک کتابیں پہنچ رہی ہیں اور یہی نہیں یہ سروس بالکل مفت ہے۔ نینی تال کے 12 گاؤوں کو اب تک اس کے ذریعے کور کیا جا چکا ہے۔ بچوں کی تعلیم سے متعلق اس نیک کام میں مدد کے لیے مقامی لوگ بھی آگے آرہے ہیں۔ اس گھوڑا لائبریری کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کو اسکول کی کتابوں کے علاوہ نظمیں، کہانیاں اور اخلاقی تعلیم پر مبنی کتابیں پڑھنے کا پورا موقع ملے۔ اس انوکھی لائبریری کو بچوں بھی بے حد پسند کر رہے ہیں۔

دوستو، میں حیدرآباد میں ہوں۔ لائبریری سے متعلق ایسی ہی ایک انوکھی کوشش سامنے آئی ہے۔ یہاں ساتویں جماعت میں پڑھنے والی ایک لڑکی آکارشنا ستیش نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف 11 سال کی عمر میں وہ بچوں کے لیے ایک یا دو نہیں بلکہ سات سات لائبریریاں چلا رہی ہے۔ آکارشنا کو دو سال پہلے اس وقت تحریک ملی جب وہ اپنے والدین کے ساتھ کینسر اسپتال گئیں۔ اس کے والد ضرورت مندوں کی مدد کے لیے وہاں گئے تھے۔ وہاں کے بچوں نے اس سے رنگین کتابیں مانگیں اور اس بات سے یہ پیاری گڑیا سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے مختلف قسم کی کتابیں جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے پڑوس کے گھروں، رشتہ داروں اور ساتھیوں سے کتابیں جمع کرنا شروع کیں اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اسی کینسر اسپتال میں بچوں کے لیے پہلی لائبریری کھولی گئی تھی۔ اس لڑکی نے اب تک ضرورت مند بچوں کے لیے مختلف مقامات پر جو سات لائبریریاں کھولی ہیں ان میں اب تقریباً 6 ہزار کتابیں دستیاب ہیں۔ جس طرح چھوٹی سی کشش بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کا بہت اچھا کام کر رہی ہے، وہ سب کو متاثر کرنے والی ہے۔

دوستو، یہ سچ ہے کہ آج کا دور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ای بکس، لیکن پھر بھی کتابیں، ہمیشہ ہماری زندگی میں ایک اچھے دوست کا کردار ادا کرتی ہیں. لہٰذا ہمیں بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے –

جیوشو کرونا چاپی میتری تیشو ودھیتیم

یعنی مخلوق پر رحم کرو اور انھیں اپنا دوست بنا لو۔ ہمارے زیادہ تر دیوی دیوتا جانوروں اور پرندوں کی سواری کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مندروں میں جاتے ہیں، خدا کی زیارت کرتے ہیں، لیکن ان جانوروں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ان پر سوار ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کو ہمارے عقیدے کا مرکز رہنا چاہیے، ہمیں بھی ہر ممکن طریقے سے ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک میں شیروں، شیروں، چیتوں اور ہاتھیوں کی تعداد میں حوصلہ افزا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اور بھی کئی کوششیں مسلسل جاری ہیں، تاکہ اس زمین پر رہنے والے دیگر جانوروں کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح کی انوکھی کوشش راجستھان کے پشکر میں کی جا رہی ہے۔ یہاں سکھدیو بھٹ جی اور ان کی ٹیم جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، اور جانتے ہیں ان کی ٹیم کا نام کیا ہے؟ ان کی ٹیم کا نام کوبرا ہے۔ یہ خطرناک نام اس لیے ہے کیوں کہ ان کی ٹیم بھی اس علاقے میں خطرناک سانپوں کو بچانے کا کام کرتی ہے۔ اس ٹیم سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ ہیں جو صرف ایک کال پر موقع پر پہنچ تے ہیں اور اپنے مشن میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سکھدیو جی کی اس ٹیم نے اب تک 30 ہزار سے زیادہ زہریلے سانپوں کی جان بچائی ہے۔ اس کوشش سے جہاں لوگوں کا خطرہ دور ہوا ہے وہیں فطرت کا بھی تحفظ کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیم دوسرے بیمار جانوروں کی خدمت کے کام میں بھی شامل ہے۔

دوستو، چنئی، تمل ناڈو میں آٹو ڈرائیور ایم راجندر پرساد جی بھی انوکھا کام کر رہے ہیں۔ وہ پچھلے 25-30 برسوں سے کبوتروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کے گھر میں 200 سے زیادہ کبوتر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پرندوں کی خوراک، پانی، صحت جیسی ہر ضرورت کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اس پر کافی پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن وہ اپنے کام میں مستقل مزاج ہیں۔ دوستو، لوگوں کو نیک نیتی سے اس طرح کے کام کرتے ہوئے دیکھنا واقعی مسرت آگیں ہوتا ہے، بہت خوشی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو بھی ایسی ہی کچھ انوکھی کوششوں کے بارے میں معلومات ملتی ہے تو انھیں ضرور شیئر کریں۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، آزادی کا یہ امرت بھی ملک کے لیے ہر شہری کا فرض ہے۔ صرف اپنا فرض ادا کرکے ہی ہم اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں، اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ فرض کا احساس ہم سب کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یوپی کے سنبھل میں ملک نے احساس ذمہ داری کی ایسی مثال دیکھی ہے، جسے میں آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ذرا تصور کریں، اگر 70 سے زیادہ گاؤں ہوں، ہزاروں کی آبادی ہو اور تمام لوگ ایک مقصد، ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوں، تو یہ ایک نادر واقعہ ہے، لیکن سنبھل کے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ ان لوگوں نے مل کر عوامی شرکت اور اجتماعیت کی ایک بہت عمدہ مثال قائم کی ہے۔ دراصل کئی دہائیاں پہلے اس علاقے میں سوت نامی ایک ندی ہوا کرتی تھی۔ امروہہ سے شروع ہوکر سنبھل کے راستے بدایوں تک بہنے والی یہ ندی کبھی اس علاقے میں لائف لائن کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس ندی میں پانی کا مسلسل بہاؤ ہوتا تھا، جو یہاں کے کسانوں کے لیے کھیتی کی بنیادی بنیاد تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ندی کا بہاؤ کم ہوتا گیا، جن راستوں سے دریا بہہ رہا تھا ان پر قبضہ کر لیا گیا اور ندی معدوم ہو گئی۔ ہمارے ملک میں جو دریا کو ماں مانتا ہے، سنبھل کے لوگوں نے اس سوت ندی کو بھی بحال کرنے کا عہد کیا تھا۔ پچھلے سال دسمبر میں 70 سے زیادہ گرام پنچایتوں نے سوت ندی کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ گرام پنچایتوں کے لوگ سرکاری محکموں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ سال کے پہلے 6 مہینوں میں ان لوگوں نے 100 کلومیٹر سے زیادہ ندی کی تزئین و آرائش کی تھی۔ جب برسات کا موسم شروع ہوا تو یہاں کے لوگوں کی محنت رنگ لائی اور سوت ندی پانی سے بھر گئی۔ یہ یہاں کے کسانوں کے لیے خوشی کا ایک بڑا موقع کے طور پر آیا ہے۔ لوگوں نے ندی کے کنارے 10 ہزار سے زیادہ بانس کے پودے بھی لگائے ہیں تاکہ اس کے کنارے مکمل طور پر محفوظ رہیں۔ مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے 30 ہزار سے زائد گیمبوسیا مچھلیوں کو بھی دریا کے پانی میں چھوڑا گیا ہے۔ دوستو، دریائے سوت کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم عزم بستہ ہوں تو ہم بڑے سے بڑے چیلنجوں پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ فرض کی راہ پر چلتے ہوئے آپ بھی اپنے ارد گرد ایسی بہت سی تبدیلیوں کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، جب ارادے پختہ ہوتے ہیں اور کچھ سیکھنے کا جذبہ ہوتا ہے، تو کوئی بھی کام مشکل نہیں رہتا۔ مغربی بنگال کی مسز شکنتلا سردار نے اس بات کو بالکل درست ثابت کیا ہے۔ آج وہ بہت سی دوسری خواتین کے لیے ایک تحریک بن گئی ہیں۔ شکنتلا جی جنگل محل کے شتنالا گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ لمبے عرصے تک ان کی فیملی یومیہ مزدور کے طور پر کام کرکے اپنا پیٹ پالتی تھی۔ ان کی فیملی کا زندہ رہنا بھی مشکل تھا۔ پھر انھوں نے ایک نئے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا اور کام یابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ انھوں نے یہ کیسے کیا! اس کا جواب ہے - ایک سلائی مشینسے۔ ایک سلائی مشین کے ذریعے انھوں نے سال کے پتوں پر خوب صورت ڈیزائن بنانا شروع کیے۔ ان کی قابلیت نے پورے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ان کے ذریعے بنائے گئے اس حیرت انگیز ہنر کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شکنتلا جی کے اس ہنر نے نہ صرف ان کی بلکہ سال کے پتے جمع کرنے والے بہت سے لوگوں کی زندگی اں بدل دی ہیں۔ اب، وہ کئی عورتوں کو تربیت دینے کا کام بھی کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں، ایک خاندان، جو کبھی مزدوری پر منحصر تھا، اب دوسروں کو روزگار دے رہا ہے۔ انھوں نے اپنی فیملی کو، جو یومیہ مزدوری پر منحصر ہے، اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس سے ان کے خاندان کو دیگر چیزوں پر بھی توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایک اور بات ہوئی ہے، جیسے ہی شکنتلا جی کی حالت بہتر ہوئی ہے، انھوں نے بچت بھی شروع کر دی ہے۔ اب انھوں نے لائف انشورنس اسکیموں میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، تاکہ ان کے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہو۔ شکنتلا جی کے جذبے کو ان کے مقابلے میں کم سراہا جاتا ہے بھارت کے لوگ اس طرح کے ٹیلنٹ سے بھرے ہوئے ہیں – آپ انھیں مواقع دیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔

میرے پیارے اہلِ خانہ ، دہلی میں  جی 20 سمٹ کے اس منظر کو کون بھول سکتا ہے، جب کئی عالمی رہ نما باپو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ باپو کے خیالات آج بھی پوری دنیا میں کتنے اہم ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ گاندھی جینتی پر ملک بھر میں صفائی ستھرائی سے متعلق کئی پروگراموں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے تمام دفاتر میں سوچھتا ہی سیوا مہم پورے زور و شور سے چل رہی ہے۔ انڈین سووچھتا لیگ میں بھی بہت اچھی شرکت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آج میں من کی بات کے ذریعے بھی تمام ہم وطنوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یکم اکتوبر یعنی اتوار کی صبح 10 بجے صفائی ستھرائی پر ایک بڑا پروگرام منعقد ہونے جا رہا ہے۔ آپ بھی اپنا وقت نکالیں اور صفائی ستھرائی سے متعلق اس مہم میں اپنا ہاتھ بٹائیں۔ آپ اپنی گلی، محلے، پارک، ندی، جھیل یا کسی اور عوامی مقام پر اس صفائی مہم میں شامل ہوسکتے ہیں اور جہاں بھی امرت سروور بنایا گیا ہے، وہاں صفائی ضرور کی جائے۔ صفائی ستھرائی کا یہ کام گاندھی جی کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گاندھی جینتی کے موقع پر آپ کو کھادی کی کوئی مصنوعات ضرور خریدنی چاہیے۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے ملک میں تہواروں کا موسم بھی شروع ہو گیا ہے۔ آپ سب اپنے گھر میں کچھ نیا خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے۔ نوراتری کے وقت کوئی اس مبارک کام کو شروع کرنے کا انتظار کر رہا ہوگا۔ جوش و خروش کے اس ماحول میں آپ کو ووکل فار لوکل کا منتر بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو، آپ کو بھارت میں تیار کردہ سامان خریدنا چاہیے، بھارتی مصنوعات کا استعمال کرنا چاہیے اور میڈ ان انڈیا سامان تحفے میں دینا چاہیے۔ آپ کی چھوٹی سی خوشی کسی اور کے خاندان میں بڑی خوشی کا باعث بنے گی۔ ہمارے مزدوروں، محنت کشوں، کاریگروں اور دیگر وشوکرما بھائیوں اور بہنوں کو آپ کی طرف سے خریدی جانے والی بھارتی اشیا کا براہ راست فائدہ ملے گا۔ آج کل، بہت سے اسٹارٹ اپ بھی مقامی مصنوعات کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر آپ مقامی چیزیں خریدیں گے تو اسٹارٹ اپس کے ان نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

میرے پیارے اہلِ خانہ، آج من کی بات میں میرے پاس کہنے کو بس یہی ہے۔ اگلی بار جب میں آپ سے من کی بات میں ملوں گا تو نوراتری اور دسہرہ ختم ہو جائیں گے۔ اس تہوار کے موسم میں، آپ بھی ہر تہوار پورے جوش و خروش کے ساتھ منائیں، آپ کے خاندان میں خوشیاں آئیں- یہ میری تمنا ہے۔ ان تہواروں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ میں آپ سے ایک بار پھر ملوں گا، نت نئے موضوعات کے ساتھ، ہم وطنوں کی نئی کام یابیوں کے ساتھ۔ مجھے اپنے پیغامات بھیجتے رہیں، اپنے تجربات شیئر کرنا نہ بھولیں۔ میں انتظار کروں گا۔

آپ کا بہت شکریہ۔

نمسکار

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!