نئی دہلی،21 ستمبر، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج بہار میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 9 قومی شاہراہ پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا جن کی مالیت 14000 کروڑ روپئے ہے اور ریاست میں آپٹیکل فائبر کے ذریعے انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے کے پروجیکٹ کی شروعات کی۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ شاہراہوں کے ان پروجیکٹوں سے بہار میں کنیکٹیویٹی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ شاہراہ کے پروجیکٹوں میں تین بڑے پلوں کی تعمیر، شاہراہوں کو 4 لینوں اور 6 لینوں میں بدلنا بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہار میں تمام دریاؤوں پر پل بنیں گے جو 21ویں صدی کے معیار کے مطابق ہوں گے اور تمام قومی شاہراہوں کو چوڑا کیا جائے گا اور مستحکم بنایا جائے گا۔
وزیر اعظم نے آج کے دن کو نہ صرف بہار کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا کیونکہ حکومت اپنے گاؤوں کو آتم نربھر بھارت کا اصل سہارا بنانے کے لیے بڑے اقدامات کر رہی ہے اور یہ سلسلہ آج بہار سے شروع ہو رہاہے۔ انھوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے تحت 6 لاکھ گاؤوں کو 1000 دن میں آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعے انٹرنیٹ خدمات فراہم کردی جائیں گی۔ ان میں 45945 گاوں بہار کے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چند سال پہلے تک یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد شہری علاقوں کے لوگوں سے زیادہ ہوجائے گی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت ڈیجیٹل لین دین کے معاملے میں دنیا کے سرکردہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ صرف اگست 2020 میں یوپی آئی کے ذریعے تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپئے کی مالیت کا لین دین کیا گیا۔ انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ ملک کے گاؤوں میں اچھے معیار کا اور تیز رفتار انٹرنیٹ ہو۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوششوں کی بدولت آپٹیکل فائبر تقریباً 1.5 لاکھ گاوں پنچایتوں تک اور 3 لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹروں تک پہلے ہی پہنچ گیا ہے۔
تیز رفتار کنیکٹی ویٹی سے وابستہ فائدوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے پڑھائی کے بہترین مٹیریل تک طلبا کی راسائی ہوسکے گی، ٹیلی میڈیسن تک پہنچایا جاسکے گا اور بیجوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکے گی، کسانوں کی رسائی نئی تکنیکوں کے ذریعے پورے ملک میں پھیلی ہوئی منڈیوں تک ہوسکے گی اور موسم کے بارے میں بروقت معلومات فراہم ہوسکے گی۔ انھوں نے کہا کہ کسان اپنی مصنوعات پورے ملک اور دنیا میں آسانی سے پہنچا سکیں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کا مقصد ملک میں شہری سہولتوں کو دیہی علاقوں تک پہنچانا ہے۔
جناب مودی نے کہا کہ پہلے بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی غیر متوازن تھی اور اس کی ترقی پر مناسب زور اسی وقت دیا گیا جب جناب اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم بنے جنھوں نے بنیادی ڈھانچے کو سیاست پر ترجیح دی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت توجہ ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو فروغ دینے پر ہے جہاں ٹرانسپورٹ کے ہر موڈ کو دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ بنیادی ڈھانچے سے متعلق پروجیکٹوں پر جس رفتار سے کام ہو رہا ہے وہ اُس رفتار سے اب تک کام نہیں ہوا تھا۔ آج قومی شاہراہیں اُس رفتار سے دوگنی رفتار سے بنائی جارہی ہیں جس رفتار سے 2014 سے پہلے تعمیر ہو رہی تھیں۔ 2014 سے پہلے کے وقت کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو شاہراہوں کی تعمیر کے آنے والے خرچ میں 5 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے اگلے چار-پانچ برسوں میں بنیادی ڈھانچے پر 110 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کرنے کا اعلان کیاہے۔ ان پروجیکٹوں میں سے 19 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹ اکیلے شاہراہوں کی ترقی کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سڑک اور کنیکٹیویٹی سے وابستہ بنیادی ڈھانچے کی توسیع کی ان کوششوں سے بہار بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔2015 میں اعلان کردہ وزیر اعظم کے پیکیج کے تحت 3000 کلو میٹر سے زیادہ قومی شاہراہوں کی تعمیر کی تجویز تھی۔اس کے علاوہ، بھرت مالاپروجیکٹ کے تحت ساڑھے چھ کلو میٹر قومی شاہراہ بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ آج بہارمیں، قومی شاہراہ گرڈ پر بہت تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے۔ مشرقی اور مغربی بہار کو چار لین سے منسلک کرنے کے لیے پانچ پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ اور 6 پروجیکٹ شمالی بھارت کا سلسلہ جنوبی بھارت کے ساتھ جوڑنے کے لیے زیر عمل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بہار کی کنیکٹیویٹی میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑے دریاؤں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم کے پیکیج کا اعلان کیا گیا تو پلوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وزیر اعظم کے پیکیج کے تحت گنگا پر 17 پل تعمیر کیے جارہے ہیں جن میں سے بیشتر مکمل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح گنڈک اور کوسی ندیوں پر بھی پل تعمیر کیے جارہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پٹنہ رنگ روڈ اور مہاتما گاندھی سیتو اور پٹنہ اور بھاگلپور میں وکرما شیلا سیتو سے متوازی پل سے کنیکٹیویٹی کی رفتار تیز ہوگی۔
کل پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے گئے زرعی بلوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کسانوں کو مختلف زنجیروں سے آزاد کرنے کے لیے اس طرح کی اصلاحات ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تاریخی قوانین سے کسانوں کو نئے حقوق حاصل ہوں گے اور انھیں اپنی مصنوعات کسی کو بھی ، کسی بھی جگہ اور کسی بھی قیمت پر کسی بھی شرط پر جو وہ خود طے کریں گے بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے نظام سے مفاد پرستوں کی پرورش ہوتی تھی جو بے یارو مددگار کسانوں کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ جناب مودی نے کہا کہ نئی اصلاحات کے تحت کسانوں کے پاس زرعی منڈیوں (کرشی منڈیوں) کے علاوہ مختلف متبادل موجودہوں گے۔ کسان اب اپنی مصنوعات کسی بھی جگہ فروخت کرسکتا ہے جہاں سے اسے زیادہ منافع ہو۔
ایک ریاست میں آلو اُگانے والے کسانوں اور مدھیہ پردیش نیز راجستھان میں تلہن اگانے والے کسانوں کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کسان اصلاح شدہ نظام کے 15 سے 30 فیصد تک زیادہ کٹائی حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تیل ملوں کے مالکان ان ریاستوں میں تلہن کسانوں سے براہ راست خرید رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش، اترپردیش، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں جہاں فاضل دانے پیدا ہوتی ہیں ، کسانوں کو 15 سے 25 فیصد زیادہ قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں مل رہی ہے چونکہ دال ملوں نے کسانوں سے براہ راست دالیں خریدی ہیں۔
مدھیہ پردیش، اترپردیش ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں جہاں فاضل دالیں پیدا ہوتی ہیں، کسانوں کو پچھلے سال کے مقابلے میں 15 سے 25 فیصد زیادہ قیمتیں حاصل ہوئی ہیں کیونکہ دالوں کی ملوں نے کسانوں سے ان کی مصنوعات براہ راست خریدی ہیں۔
وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ کرشی منڈیوں کو بند نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ پہلے کی طرح کام کرتی رہیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ این ڈی اے حکومت ہی ہے جو پچھلے 6 برسوں سے منڈیوں کی جدید کاری اور انھیں کمپیوٹر سے آراستہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
جناب نریندر مودی نے ملک کے ہر کسان کو یقین دلایا کہ کم از کم امدادی قیمت کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری رہے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جو مفاد پرست عناصر کسانوں کا استحصال کر رہے تھے انھوں نے ہی کم از کم امدادی قیمت کے بارے میں سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات کو برسوں دبائے رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہر موسم میں حکومت ہمیشہ کی طرح کم از کم امدادی قیمت کا اعلان کرے گی۔
کسانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے یہاں 81 فیصد سے زیادہ کسان یا تو چھوٹے ہیں یا برائے نام زمین رکھنے والے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی فصل اُگانے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ کم پیداوار کی وجہ منافع نہیں کما سکتے۔ وزیر اعظم نے کہا اگر کسان ایک یونین بنالیں تو ا ن کی لاگت میں بہتری آسکتی ہے اور انھیں بہتر منافع مل سکتاہے۔ یہ کسان خریداروں کے ساتھ بڑے کنٹریکٹ بھی کرسکتے ہیں۔ ان اصلاحات سے زراعت میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی حاصل ہوگی، کسانوں کی مصنوعات زیادہ آسانی کے ساتھ بین الاقوامی بازار تک پہنچیں گی۔
جناب مودی نے اس بات کا حوالہ دیا کہ کس طرح بہار میں کسانوں کی پانچ پروڈیوسر تنظیموں نے چاول کی ایک مشہور تجارتی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیاہے۔ اس معاہدے کے تحت 4000 ٹن دھان ایف پی اوز سے خریدا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اسی طرح ڈیریاں اور دودھ پیدا کرنے والے بھی اصلاحات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اصلاحات ضروری اشیا کے قانون میں بھی شامل کی گئی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ قانون کے بعض ضابطوں کی وجہ سے کسانوں کی آزادی میں رکاوٹ پڑ رہی تھی۔ جناب مودی نے کہا کہ دالوں، تلہن، آلو، پیاز وغیرہ کو قانون کی پابندی سے ختم کردیا گیا ہے۔ اب ملک کے کسان اپنی مصنوعات بڑی مقدار میں کولڈ ا سٹوریج میں جمع کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں، جب اسٹوریج سے متعلق قانونی مسائل ختم ہوجائیں گے، تو کولڈ اسٹوریج کے نیٹ ورک میں بھی مزید ترقی اور توسیع ہوگی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بعض مفاد پرست عناصر زراعت میں تاریخی اصلاحات کے بارے میں کسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے پچھلے پانچ برسوں میں جو دالیں اور تلہن خریدا ہے وہ 2014 کے پہلے کے پانچ برسوں کے مقابلے میں 24 گنا زیادہ ہے۔اس سال کورونا کی مدت کے دوران ربیع کی فصل میں کسانوں سے گیہوں کی ریکارڈ خریداری کی گئی ہے۔
اس سال ربیع کے موسم میں کسانوں کو گیہوں، چنا، دالوں اور تلہن کی خریداری کے سلسلے میں 1 لاکھ 13 ہزار کروڑ روپئے کم از کم امدادی شکل کی صورت میں دیئے گئے۔ یہ رقم بھی پچھلے سال 30 فیصد سے زیادہ ہے۔
یعنی یہ کہ کورونا کی مدت کی دوران نہ صرف سرکاری طور پر ریکارڈخریداری کی گئی بلکہ کسانوں کو ریکارڈ ادائیگی بھی کی گئی۔ یہ 21ویں صدی کے بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جدید سوچ کے ساتھ ملک کے کسانوں کے لیے ایک نیا نظام قائم کریں۔
कनेक्टिविटी देश के हर गांव तक पहुंचाने के लक्ष्य साथ देश आगे बढ़ रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
जब गांव-गांव में तेज़ इंटरनेट पहुंचेगा तो गांव में पढ़ाई आसान होगी।
गांव के बच्चे, युवा भी एक क्लिक पर दुनिया की किताबों तक, तकनीक तक आसानी से पहुंच पाएंगे: PM
बिहार की लाइफलाइन के रूप में मशहूर महात्मा गांधी सेतु आज नए रंगरूप में सेवाएं दे रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
लेकिन बढ़ती आबादी और भविष्य की ज़रूरतों को देखते हुए, अब महात्मा गांधी सेतु के समानांतर चार लेन का एक नया पुल बनाया जा रहा है।
नए पुल के साथ 8-लेन का ‘पहुंच पथ’ भी होगा: PM
21वीं सदी का भारत, 21वीं सदी का बिहार, अब पुरानी कमियों को पीछे छोड़कर आगे बढ़ रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
आज देश में Multimodal Connectivity पर बल दिया जा रहा है।
अब हाईवे इस तरह बन रहे हैं कि वो रेल रूट को, एयर रूट को सपोर्ट करें।
रेल रूट इस तरह बन रहे हैं कि वो पोर्ट से इंटर-कनेक्टेड हों: PM
हमारे देश में अब तक उपज बिक्री की जो व्यवस्था चली आ रही थी, जो कानून थे, उसने किसानों के हाथ-पांव बांधे हुए थे।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
इन कानूनों की आड़ में देश में ऐसे ताकतवर गिरोह पैदा हो गए थे जो किसानों की मजबूरी का फायदा उठा रहे थे।
आखिर ये कब तक चलता रहता?: PM
नए कृषि सुधारों ने देश के हर किसान को आजादी दे दी है कि वो किसी को भी, कहीं पर भी अपनी फसल, अपने फल-सब्जियां बेच सकता है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
अब उसे अगर मंडी में ज्यादा लाभ मिलेगा, तो वहां अपनी फसल बेचेगा।
मंडी के अलावा कहीं और से ज्यादा लाभ मिल रहा होगा, तो वहां बेचने पर भी मनाही नहीं होगी: PM
मैं यहां स्पष्ट कर देना चाहता हूं कि ये कानून, ये बदलाव कृषि मंडियों के खिलाफ नहीं हैं।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
कृषि मंडियों में जैसे काम पहले होता था, वैसे ही अब भी होगा।
बल्कि ये हमारी ही एनडीए सरकार है जिसने देश की कृषि मंडियों को आधुनिक बनाने के लिए निरंतर काम किया है: PM
कृषि मंडियों के कार्यालयों को ठीक करने के लिए, वहां का कंप्यूटराइजेशन कराने के लिए, पिछले 5-6 साल से देश में बहुत बड़ा अभियान चल रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
इसलिए जो ये कहता है कि नए कृषि सुधारों के बाद कृषि मंडियां समाप्त हो जाएंगी, तो वो किसानों से सरासर झूठ बोल रहा है: PM
बहुत पुरानी कहावत है कि संगठन में शक्ति होती है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
आज हमारे यहां ज्यादा किसान ऐसे हैं जो बहुत थोड़ी सी जमीन पर खेती करते हैं।
जब किसी क्षेत्र के ऐसे किसान अगर एक संगठन बनाकर यही काम करते हैं, तो उनका खर्च भी कम होता है और सही कीमत भी सुनिश्चित होती है: PM
जहां डेयरी होती हैं, वहां आसपास के पशुपालकों को दूध बेचने में आसानी तो होती है,
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
डेयरियां भी पशुपालकों का, उनके पशुओं का ध्यान रखती हैं।
इन सबके बाद भी दूध भले ही डेयरी खरीद लेती है, लेकिन पशु तो किसान का ही रहता है।
ऐसे ही बदलाव अब खेती में भी होने का मार्ग खुल गया है: PM
कृषि क्षेत्र में इन ऐतिहासिक बदलावों के बाद, कुछ लोगों को अपने हाथ से नियंत्रण जाता हुआ दिखाई दे रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
इसलिए अब ये लोग MSP पर किसानों को गुमराह करने में जुटे हैं।
ये वही लोग हैं, जो बरसों तक MSP पर स्वामीनाथन कमेटी की सिफारिशों को अपने पैरों की नीचे दबाकर बैठे रहे: PM
मैं देश के प्रत्येक किसान को इस बात का भरोसा देता हूं कि MSP की व्यवस्था जैसे पहले चली आ रही थी, वैसे ही चलती रहेगी।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
इसी तरह हर सीजन में सरकारी खरीद के लिए जिस तरह अभियान चलाया जाता है, वो भी पहले की तरह चलते रहेंगे: PM
बीते 5 साल में जितनी सरकारी खरीद हुई है और 2014 से पहले के 5 साल में जितनी सरकारी खरीद हुई है, उसके आंकड़े इसकी गवाही देते हैं।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
मैं अगर दलहन और तिलहन की ही बात करूं तो पहले की तुलना में, दलहन और तिलहन की सरकारी खरीद करीब 24 गुणा अधिक की गई है: PM
इस साल कोरोना संक्रमण के दौरान भी रबी सीज़न में किसानों से गेहूं की रिकॉर्ड खरीद की गई है।
— PMO India (@PMOIndia) September 21, 2020
इस साल रबी में गेहूं, धान, दलहन और तिलहन को मिलाकर, किसानों को 1 लाख 13 हजार करोड़ रुपए MSP पर दिया गया है।
ये राशि भी पिछले साल के मुकाबले 30 प्रतिशत से ज्यादा है: PM