نئی دہلی،27؍اکتوبر، وزیر اعظم نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعے نگرانی اور انسداد بدعنوانی سے متعلق قومی کانفرنس کا افتتاح کیا۔ یہ تقریب سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے زیر اہتمام منعقد کی گئی جس کا مقصد نگرانی کے امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، شہریوں کی شرکت سے عوامی زندگی میں دیانت داری اور ایمان داری کے فروغ کی خاطر بھارت کی عہد بستگی کے سلسلے میں بیداری اور اس عہد کی تجدید کرنا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سردار پٹیل متحدہ بھارت کے ساتھ ساتھ ملک کے نظم و نسق کے نظاموں کے معمار بھی ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر داخلہ کی حیثیت سے انھوں نے ایسا نظام تعمیر کرنے کی کوشش کی جو ملک کے عام آدمی کے لیے ہو اور جہاں پالیسیوں کی بنیاد دیانت داری پر ہو۔ جناب مودی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ گذشتہ دہائیوں میں ایک بالکل مختلف صورت حال دیکھنے میں آئی ہے، جو ہزاروں کروڑوں روپے کے گھپلوں، جعلی کمپنیوں کی تشکیل، ٹیکسوں کی ہراسانی اور ٹیکس چوری کا باعث بنی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 میں، جب ملک نے ایک بڑی تبدیلی لانے اور ایک نئی سمت میں گام زن ہونے کا فیصلہ کیا تھا تب اس وقت اس ماحول میں تبدیلی برپا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کالے دھن کے خلاف کمیٹی کی تشکیل تعطل کا شکار رہی۔ اِس حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد مذکورہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس سے بدعنوانی کے خلاف حکومت کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2014 کے بعد سے ملک میں بینک کاری شعبے، صحت کے شعبے، تعلیم کے شعبے، مزدوری، زراعت وغیرہ سمیت بہت سے شعبوں میں اصلاحات دیکھنے میں آئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان اصلاحات کی بنیاد پر ملک اب آتم نربھر بھارت مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے بھارت کو دنیا کے اہم ممالک میں سے ایک بنانے کا خیال پیش کیا۔
وزیر اعظم نے انتظامی نظاموں کے شفاف، ذمہ دار، قابلِ بازپرس اور عوام کے تئیں جواب دہ ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس مہم کی سب سے بڑی دشمن ہر قسم کی بدعنوانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف بدعنوانی سے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچتا ہے اور دوسری طرف اس سے سماجی توازن اور ساتھ ہی عوام کا اس نظام پر جو اعتماد ہونا چاہیے وہ بھی باقی نہیں رہتا۔ انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی سے نمٹنا محض کسی ایک ایجنسی یا ادارے کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدعنوانی کے ساتھ اکہری اپروچ کے ذریعے نمٹا نہیں جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ جب ملک کا سوال ہو تو پھر نگرانی کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ خواہ یہ بدعنوانی ہو، معاشی جرائم ہوں، منشیات کے نیٹ ورک ہوں، کالے دھن کو جائز بنانے کے حربے ہوں، دہشت گردی ہو، یا دہشت گردی کی مالی اعانت ہو، اکثر پایا گیا ہے کہ یہ سب باہمی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
انھوں نے کہا اسی لیے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے منظم جانچ پڑتال، موثر آڈٹ اور صلاحیتوں کی تشکیل اور تربیت کی جامع اپروچ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ یہی وقت کا تقاضا ہے کہ تمام ایجنسیاں ہم آہنگی اور باہمی اشتراک کے جذبے کے ساتھ کام کریں۔
انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ کانفرنس سترک بھارت، سمردھ بھارت (چوکس بھارت، خوش حال بھارت) بنانے نئے طریقوں کی تجاویز پیش کرنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم کی حیثیت سے ابھرے۔
وزیر اعظم نے 2016 کے وجلینس آگاہی پروگرام کے دوران جو کچھ کہا تھا اسے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں، جو غریبی سے لڑ رہا ہے، بدعنوانی کے لیے ذرہ برابر بھی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے غریبوں کو ان کے حقوق نہیں ملے لیکن اب راست فائدہ منتقلی (ڈی بی ٹی) کی وجہ سے غریب براہ راست سرکاری اسکیموں سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف ڈی بی ٹی کی وجہ سے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپے سے زائد غلط ہاتھوں میں جانے سے بچائے جارہے ہیں۔
انھوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ عوام کا اداروں پر اعتماد پھر سے بحال ہو رہا ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت نہ تو کوئی سخت مداخلت کرے اور نہ ہی وہ عدم موجود رہے۔ حکومت کا کردار اسی حد تک محدود رہے جتنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت غیر ضروری طور پر مداخلت کررہی ہے یا حکومت ضرورت پڑںے پر کام نہیں کررہی ہے۔
جناب مودی نے کہا کہ پچھلے کچھ برسوں میں 1500 سے زیادہ قوانین ختم کردیئے گئے ہیں اور بہت سے ضابطوں کو آسان بنایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عام لوگوں کی پریشانی کو کم کرنے کے لیے پنشن، اسکالرشپ، پاسپورٹ، اسٹارٹ اپ وغیرہ کی بہت ساری درخواستیں آن لائن کی گئی ہیں۔
وزیر اعظم نے ایک مقولہ کوٹ کیا:
प्रक्षालनाद्धि पंकस्य
दूरात् स्पर्शनम् वरम्'।
یعنی بعد میں صاف کرنے کی کوشش کرنے سے بہتر یہ ہے کہ گندگی سے آلودہ نہ ہوا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اسی طرح احتیاطی نگرانی بھی تعزیراتی نگرانی سے بہتر ہے۔ انھوں نے بدعنوانی کا باعث بننے والے حالات کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نےکوٹلیہ کے اس قول کا حوالہ دیا:
न भक्षयन्ति ये
त्वर्थान् न्यायतो वर्धयन्ति च ।
नित्याधिकाराः कार्यास्ते राज्ञः प्रियहिते रताः ॥
یعنی، جو لوگ جو سرکاری پیسہ خرد برد نہیں کرتے بلکہ اسے عوامی مفاد کے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں ریاست کے مفاد میں اہم عہدوں پر فائز کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے لیے ایک لابنگ کرنے کی ایک مذموم صنعت موجود تھی۔ اب حکومت نے بہت سے پالیسی کے فیصلے کیے ہیں، اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اعلی عہدوں پر تقرریوں کی لابنگ ختم ہوگئی ہے۔ گروپ بی اور سی کے عہدوں کے لیے حکومت نے انٹرویو ختم کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینک بورڈ بیورو کی تشکیل سے بینکوں میں سینئر عہدوں پر تقرریوں میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بہت سی قانونی اصلاحات کی گئیں اور ملک کے چوکسی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے گئے۔ انھوں نے کالے دھن، بینامی املاک کے خلاف قوانین، مفرور اقتصادی مجرموں کے قانون، جیسے نگرانی کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے وضع کردہ نئے قوانین کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ بھارت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں فرد کی شناخت کے بغیر ٹیکس کے تعین کا نظام نافذ کیا گیا ہے۔ بھارت ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں بدعنوانی کے سدباب کے لیے ٹکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی ترجیح نگرانی سے متعلق ایجنسیوں کو بہتر ٹکنالوجی، صلاحیت سازی، جدید انفراسٹرکچر اور آلات کی فراہمی کرنا ہے تاکہ وہ زیادہ موثر انداز میں کام کرسکیں اور بہتر نتائج پیش کرسکیں۔
وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ بدعنوانی کے خلاف یہ مہم صرف ایک دن یا صرف ایک ہفتے کا معاملہ نہیں ہے۔
انھوں نے نسل در نسل بدعنوانی کا ایک بڑے چیلنج کے طور پر ذکر کیا جو گذشتہ دہائیوں میں آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور ملک میں ایک بھیانک شکل اختیار کرچکا ہے۔ انھوں نے نسل در نسل بدعنوانی کی اس بدعنوانی کے طور پر کی جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب بدعنوان لوگوں کی نسل کو قرار واقعی سزا نہیں ملتی تو دوسری نسل بدعنوانی کا ارتکاب اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ کرتی ہے۔ جناب مودی نے کہا کہ اس وجہ سے یہ کئی ریاستوں میں سیاسی روایت کا حصہ بن گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدعنوانی اور نسل در نسل بدعنوانی ملک کو کھوکھلا بنا دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خوش حال بھارت اور خود مکتفی بھارت کے لیے یہ صورت حال ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قومی کانفرنس میں اس موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے۔
وزیر اعظم نے بدعنوانی سے متعلق خبروں پر توجہ دینے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا کہ جب بدعنوانی کے خلاف بروقت کارروائی کی مثالوں کو نمایاں طور پر دکھایا جائے گا تو اس سے لوگوں کا اعتماد بڑھ جائے گا اور یہ پیغام جائے گا کہ بدعنوان افراد کا بچ جانا مشکل ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ملک بدعنوانی کو شکست دے سکے اور بھارت کو خوش حال اور خود کفیل بناکر سردار پٹیل کے خواب کی تکمیل کرسکے تو یہ بہت مضبوط بن جائے گا۔
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اس قومی کانفرنس کا اہتمام وجلینس آگہی ہفتے’کے ساتھ کرتا ہے، جو بھارت میں ہر سال 27 اکتوبر سے 2 نومبر تک منایا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں سرگرمیاں وجیلنس کے امور پر مرکوز رکھی جائیں گی جن کا مقصد بیداری پیدا کرنا اور شہریوں کی شرکت کے ذریعہ عوامی زندگی میں دیانت داری اور ایمان داری کو فروغ دینے کے لیے بھارت کی عہد بستگی کی تجدید کرنا ہے۔
تین روزہ کانفرنس میں غیر ملکی دائرہ اختیارات میں تحقیقات کے چیلنج، بدعنوانی کے داخلی روک تھام کے طور پر احتیاطی نگرانی، بینک میں مالیاتی شمولیت میں داخلی بہتری اور بینک میں دھوکہ دہی کی روک تھام، ترقی کے انجن کے طور پر موثر آڈٹ، بدعنوانی کی روک تھام کے قانون میں تازہ ترین ترامیم، استعداد سازی اور تربیت، کثیر ادارہ جاتی تعاون و اشتراک بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کی تحریک میں معاون، معاشی جرائم میں ابھرتے ہوئے رجحانات، سائبر جرائم اور بین الاقوامی منظم جرائم سے متعلق اقدامات اور جرم کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں کے بہترین طرز عمل جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ کانفرنس پالیسی سازوں اور اس میدان میں کام کرنے والوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لائے گی اور داخلی اصلاحات اور احتیاطی نگرانی کے اقدامات کے ذریعے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے معاون ہوگی، جو اچھی حکمرانی اور قابل باز پرس انتظامیہ لانے میں مدد کرے گی۔ بھارت میں کاروبار کو آسان بنانے میں یہ ایک اہم کردار ادا کرنے والا عنصر ہے۔
کانفرنس کے شرکا میں انسداد بدعنوانی کے اداروں، نگرانی کے اداروں کے سربراہ نیز ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اقتصادی جرائم سے نمٹنے والے شعبے یا سی آئی ڈی، سی بی آئی کے اہل کار اور متعدد مرکزی ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہیں۔ افتتاحی اجلاس میں چیف سکریٹریوں اور ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام، علاقوں کے ڈی جی نے بھی شرکت کی۔
बीते वर्षों में देश corruption पर zero tolerance की approach के साथ आगे बढ़ा है: PM
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
Corruption हो, Economic Offences हों, Drugs हो, Money Laundering हों, या फिर Terrorism, Terror Funding हो, ये सब एक दूसरे से जुड़े होते हैं।
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
इसलिए, हमें Corruption के खिलाफ Systemic Checks, Effective Audits और Capacity Building and Training का काम मिलकर करना होगा: PM
अब DBT के माध्यम से गरीबों की मिलने वाला लाभ 100 प्रतिशत गरीबों तक सीधे पहुंच रहा है।
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
अकेले DBT की वजह से 1 लाख 70 हजार करोड़ रुपए से ज्यादा गलत हाथों में जाने से बच रहे हैं।
आज ये गर्व के साथ कहा जा सकता है कि घोटालों वाले उस दौर को देश पीछे छोड़ चुका है: PM
आज मैं आपके सामने एक और बड़ी चुनौती का जिक्र करने जा रहा हूं।
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
ये चुनौती बीते दशकों में धीरे-धीरे बढ़ते हुए अब देश के सामने एक विकराल रूप ले चुकी है।
ये चुनौती है- भ्रष्टाचार का वंशवाद
यानि एक पीढ़ी से दूसरी पीढ़ी में ट्रांसफर हुआ भ्रष्टाचार: PM
बीते दशकों में हमने देखा है कि जब भ्रष्टाचार करने वाली एक पीढ़ी को सही सजा नहीं मिलती, तो दूसरी पीढ़ी और ज्यादा ताकत के साथ भ्रष्टाचार करती है।
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
उसे दिखता है कि जब घर में ही, करोड़ों रुपए कालाधन कमाने वाले का कुछ नहीं हुआ, तो उसका हौसला और बढ़ जाता है: PM
इस वजह से कई राज्यों में तो ये राजनीतिक परंपरा का हिस्सा बन गया है।
— PMO India (@PMOIndia) October 27, 2020
पीढ़ी दर पीढ़ी चलने वाला भ्रष्टाचार, भ्रष्टाचार का ये वंशवाद, देश को दीमक की तरह खोखला कर देता है: PM