ایمس بی بی نگر کا سنگ بنیاد رکھا
سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کی تعمیر نو کا سنگ بنیاد رکھا
’’سکندرآباد-تروپتی وندے بھارت ایکسپریس کامیابی کے ساتھ آستھا، جدیدیت، ٹیکنالوجی اور سیاحت کو جوڑے گی‘‘
’’تلنگانہ کی ترقی سے متعلق ریاست کے شہریوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا مرکز کی حکومت کا فرض ہے‘‘
اس سال کے بجٹ میں ہندوستان میں جدید انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے 10 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں
’’تلنگانہ میں قومی شاہراہوں کی لمبائی 2014 میں ریاست کی تشکیل کے وقت کے 2500 کلومیٹر سے دوگنی ہوکر آج 5000 کلومیٹر سے زیادہ ہو گئی ہے‘‘
’’مرکزی حکومت تلنگانہ میں صنعت اور زراعت دونوں کی ترقی پر زور دے رہی ہے‘‘
’’اقربا پروری اور بدعنوانی کو پروان چڑھانے والوں کا ملک کے مفاد اور معاشرے کی بہتری سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘
’’آج مودی نے بدعنوانی کی اصل جڑ پر حملہ کیا ہے‘‘
’’آئین کی اصل روح کا احساس تب ہوتا ہے جب سب کا وکاس کے جذبے کے ساتھ کام کیا جائے‘‘
’’حقیقی سماجی انصاف کا جنم تب ہوتا ہے جب ملک ’تشٹی کرن‘ سے ہٹ کر ’سنتشٹی کرن‘ کی طرف جاتا ہے‘‘

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج، تلنگانہ میں حیدرآباد کے پریڈ گراؤنڈ میں 11,300 کروڑ روپے سے زیادہ کے مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انھیں قوم کے نام وقف کیا۔  ان پروجیکٹوں میں ایمس بی بی نگر، حیدرآباد کا سنگ بنیاد رکھنا، پانچ نیشنل ہائی وے پروجیکٹوں اور سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کی از سر نو تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے ریلوے سے متعلق دیگر ترقیاتی منصوبوں کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ اس سے پہلے دن میں، وزیر اعظم نے حیدرآباد کے سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر سکندرآباد-تروپتی وندے بھارت ایکسپریس کو بھی ہری جھنڈی دکھائی۔

 

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ریاست تلنگانہ کی ترقی کی رفتار کو بڑھانے کا موقع ملنے پر اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے اس سے قبل آج دن میں سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پرسکندرآباد -تروپتی وندے بھارت ایکسپریس کو بھی جھنڈی دکھا کر روانہ کیا جو حیدرآباد کے آئی ٹی سٹی کو بھگوان وینکٹیشور کے گھر تروپتی سے جوڑے گی۔ جناب مودی نے کہا، ’’سکندرآباد-تروپتی وندے بھارت ایکسپریس کامیابی سے آستھا، جدیدیت، ٹیکنالوجی اور سیاحت کو جوڑنے کا کام کرے گی۔ وزیر اعظم نے تلنگانہ کے شہریوں کو آج ریلوے اور سڑک رابطہ اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے متعلق   11,300 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کے لیے مبارکباد دی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست تلنگانہ تقریباً اسی وقت وجود میں آئی جب مرکز میں موجودہ حکومت کا قیام عمل میں آیا اور وہ ریاست کی تشکیل میں تعاون کرنے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔جناب مودی نے کہا کہ ’’یہ مرکزی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے شہریوں کے تلنگانہ کی ترقی سے متعلق خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرے‘‘۔ جناب مودی نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ کے جذبے کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پر خصوصی زور دیا گیا ہے تاکہ تلنگانہ پچھلے نو سالوں میں وضع کردہ ہندوستان کے ترقیاتی ماڈل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ شہروں میں ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے وزیر اعظم نے پچھلے نو سالوں میں بچھائے گئے 70 کلومیٹر میٹرو نیٹ ورک اور حیدرآباد ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ سسٹم (ایم ایم ٹی ایس) کی ترقی میں ہوئی پیش رفت کا ذکر کیا۔ آج 13 ایم ایم ٹی ایس خدمات کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر اعظم نے بتایا کہ ریاست میں اس کی توسیع کے لیے تلنگانہ کے لیے  600 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے حیدرآباد، سکندرآباد اور قریبی اضلاع کے لاکھوں شہریوں کو فائدہ پہنچے گا اور نئے کاروباری مراکز اور سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا۔

 

کووڈ-19 کی وبا اور دو ملکوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے دنیا کی معیشتوں کی غیر متوقع صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے جدید بنیادی ڈھانچے میں ریکارڈ سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال کے بجٹ میں ہندوستان میں جدید انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے 10 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ گزشتہ نو برسوں میں تلنگانہ کے ریلوے بجٹ میں سترہ گنا اضافہ ہوا ہے اور نئی ریل لائنیں بچھانے، ریل لائن کو دوہرا کرنے اور برق کاری سمیت دیگر کام ریکارڈ مدت میں انجام پائے ہیں۔ ’’سکندرآباد-محبوب نگر پروجیکٹ کی برق کاری اس کی ایک اہم مثال ہے‘‘۔  انہوں نے کہا کہ اس سے حیدرآباد اور بنگلورو کے درمیان رابطے میں بہتری آئے گی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کی از سر نو ترقی ملک کے اہم ریلوے اسٹیشنوں کو جدید بنانے کی مہم کا حصہ ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ریلوے کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے ہائی وے نیٹ ورک کو بھی تیز رفتاری سے تیار کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے ان چار ہائی وے پروجیکٹوں کا ذکر کیا جن کا آج سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، جن میں 2300 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا اکل کوٹ-کرنول سیکشن،   1300 کروڑ روپے کی لاگت سے محبوب نگر-چنچولی سیکشن،  900 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا کلواکورتی-کولاپور سیکشن، اور 2700 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا کھمم-دیوراپلے سیکشن شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ مرکزی حکومت پوری طاقت کے ساتھ تلنگانہ میں جدید شاہراہوں کے ترقیاتی کاموں کی قیادت کر رہی ہے۔ جناب مودی نے بتایا کہ تلنگانہ میں قومی شاہراہوں کی لمبائی 2014 میں ریاست کی تشکیل کے وقت کے 2500 کلو میٹر سے دوگنی ہو کر آج 5000 کلومیٹر سے زیادہ ہو گئی ہے، جس پر مرکزی حکومت نے 35,000 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تلنگانہ میں 60,000 کروڑ روپے کے سڑک پروجیکٹوں پر کام جاری ہے، جس میں صورت حال کو تبدیل کردینے والا حیدرآباد رنگ روڈ بھی شامل ہے۔

 

جناب مودی نے کہا کہ ’’مرکزی حکومت تلنگانہ میں صنعت اور زراعت دونوں کی ترقی پر زور دے رہی ہے‘‘۔  اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ٹیکسٹائل ایک ایسی صنعت ہے جو کسان اور مزدور دونوں کو طاقت دیتی ہے، وزیر اعظم نے بتایا کہ حکومت نے ملک بھر میں 7 میگا ٹیکسٹائل پارکس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تلنگانہ ان میں سے ایک کا مسکن ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ آج ایمس بی بی نگر کا سنگ بنیاد رکھنے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت تلنگانہ میں تعلیم اور صحت میں بھی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج کے پروجیکٹ تلنگانہ میں سفر کی آسانی، زندگی میں آسانی اور کاروبار کرنے میں آسانی کو بڑھائیں گے‘‘۔تاہم، وزیر اعظم نے ریاستی حکومت کے تعاون کی کمی کی وجہ سے کئی مرکزی پروجیکٹوں کی تکمیل میں تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ تلنگانہ کے عوام ہی خسارے میں ہیں، جناب مودی نے ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ ترقی سے متعلق کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دے اور رفتار کو تیز کرے۔

ہم وطنوں کی امیدوں، امنگوں اور خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی حکومت کی ترجیح کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مٹھی بھر لوگ ترقی کی پیش رفت سے بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اقربا پروری اور کرپشن کو پروان چڑھانے والوں کا ملک کے مفاد اور معاشرے کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ ایمانداری سے کام کرنے والوں کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے تلنگانہ کے عوام کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر پروجیکٹ اور سرمایہ کاری میں صرف اپنے خاندان کا مفاد دیکھتے ہیں۔

بدعنوانی اور اقربا پروری کے درمیان مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جب اقربا پروری ہوتی ہے تو کرپشن پھلنا پھولنا شروع ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کنٹرول، اقربا پروری اور خاندان پرست سیاست کا بنیادی اصول ہے‘‘۔ اس طرح کے اصولوں پر اپنی تنقید کو آگے بڑھاتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ خاندان پرست ہر نظام پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں اور جب کوئی ان کے کنٹرول کو چیلنج کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتے ہیں۔ ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سسٹم اور ملک بھر میں ڈیجیٹل ادائیگی کے فروغ کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے ان خاندانی قوتوں پر انگلی اٹھائی جنہوں نے کنٹرول میں رکھا کہ کس فائدہ اٹھانے والے کو کیا فائدہ ملے گا اور اس صورت حال سے پیدا ہونے والے تین مفاہیم کی وضاحت کی۔ پہلی بات، وزیراعظم نے کہا کہ خاندان کی تعریف ہوتی رہے۔ دوم کرپشن کا پیسہ خاندان کو آتا رہے اور تیسرا یہ کہ غریبوں کے لیے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے وہ کرپٹ ایکو سسٹم کو ملتا رہے۔ ’’آج مودی نے بدعنوانی کی اصل جڑ پر حملہ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ہلے ہوئے ہیں اور جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے اس سے وہ غصے میں ہیں”۔ جناب مودی نے ان سیاسی جماعتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جو احتجاج کے طور پر عدالت میں گئیں لیکن انہیں ایک جھٹکے سے نمٹا دیا گیا۔

 

آئین کی اصل روح کا احساس تب ہوتا ہے جب جمہوریت کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے کے لیے سب کا وکاس کے جذبے کے ساتھ کام کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ 2014 میں مرکزی حکومت کی خاندانی سیاست کے زنجیروں سے آزاد ہونے کا نتیجہ پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 9 سالوں میں ملک کی 11 کروڑ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بیت الخلاء کی سہولت ملی ہے،  جس میں تلنگانہ کے 30 لاکھ سے زیادہ خاندان شامل تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں 9 کروڑ سے زیادہ بہنوں اور بیٹیوں کو مفت اجولا گیس کنکشن ملے ہیں جس میں گزشتہ 9 سالوں میں تلنگانہ کے 11 لاکھ سے زیادہ غریب خاندان شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آج ہماری حکومت میں 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن فراہم کیا جا رہا ہے، غریبوں کے لیے 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج، تلنگانہ کے 1 کروڑ خاندانوں کے جن دھن بینک اکاؤنٹس پہلی بار کھولے گئے ہیں، تلنگانہ کے ڈھائی لاکھ چھوٹے کاروباریوں کو بغیر گارنٹی کے مدرا قرض ملا ہے، 5 لاکھ اسٹریٹ وینڈرس کو پہلی بار بینک قرض ملا ہے، اور تلنگانہ کے 40 لاکھ سے زیادہ چھوٹے کسانوں کو پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت تقریباً 9 ہزار کروڑ روپے ملے ہیں۔

 

وزیر اعظم نے کہا کہ سچا سماجی انصاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ملک ’تشٹی کرن‘ (نازبرداری)  سے ہٹ کر ’سنتشٹی کرن‘  (اطمینان) کی طرف بڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ سمیت پورا ملک سنتشٹی کرن کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور سب کا پریاس کے ساتھ ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔ ’’آزادی کے امرت کال میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لئے تلنگانہ کی تیز رفتار ترقی بہت اہم ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے تلنگانہ کے ترقی کے سفر میں اگلے 25 سالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔

اس موقع پر تلنگانہ کے گورنر ڈاکٹر تمیلی سائی سندرراجن، مرکزی وزیر ریلوے جناب اشونی ویشنو، مرکزی وزیر سیاحت جناب جی کشن ریڈی، ملکاج گیری سے رکن پارلیمنٹ جناب اے ریونت ریڈی اور حکومت تلنگانہ کے وزراء بھی اس موقع پر موجود تھے۔

 

پس منظر

سکندرآباد ریلوے اسٹیشن کی از سر نو تعمیر،  720 کروڑ روپے کی لاگت سے کی جائے گی۔ اس طرح کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ اس میں عالمی معیار کی سہولیات اور ایک جمالیاتی طور پر ڈیزائن کردہ آئیکونک اسٹیشن عمارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر تبدیلی کی جاسکے۔ نئے سرے سے تیار کردہ اسٹیشن میں مسافروں کی تمام سہولیات کے ساتھ ایک جگہ پر ڈبل لیبل کشادہ چھت والا پلازہ ہوگا اور ساتھ ہی ملٹی موڈل کنکٹیوٹی کے ساتھ مسافروں کو ریل سے دوسرے طریقوں میں بغیر کسی رکاوٹ کی منتقلی فراہم کی جائے گی۔

پروگرام کے دوران، وزیر اعظم نے حیدرآباد - سکندرآباد جڑواں شہر کے مضافاتی علاقے میں 13 نئی ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ سروس (ایم ایم ٹی ایس) خدمات کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا، جو مسافروں کو تیز، آسان اور آرام دہ سفر کا متبادل فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے سکندرآباد-محبوب نگر پروجیکٹ کی دوہرا کاری اور برق کاری کے کام کو بھی قوم کے نام وقف کیا۔ 85 کلومیٹر سے زیادہ کی مسافت پر محیط اس منصوبے کو تقریبا ً 1410 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ بغیر کسی رکاوٹ کے رابطے کی سہولت فراہم کرے گا اور ٹرینوں کی اوسط رفتار میں اضافہ کرے گا۔

وزیر اعظم نے حیدرآباد میں ایمس بی بی نگر کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ یہ ملک بھر میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے وزیر اعظم کے وژن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایمس بی بی نگر کو 1350 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایمس بی بی نگر کا قیام تلنگانہ کے عوام کو ان کی دہلیز پر جامع، معیاری اور ٹرٹیئری صحت خدمات فراہم کرنے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

وزیراعظم نے قومی شاہراہوں کے منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس کی مالیت 7850 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔   اور جو تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں صوبوں کے سڑک رابطے کو مضبوط بنائے گا اور اس سے خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔

 

تقریر کا مکمل متن پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!