وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ’سول سروسز کا دن‘ کے موقع پر آج نئی دہلی کے وگیان بھون میں، عوامی انتظامیہ میں بہترین کارکردگی کے لیے وزیر اعظم کے ایوارڈز تقسیم کیے۔ اس موقع پر مرکزی وزیر جناب جتیندر سنگھ، وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری جناب پی کے مشرا، کابینہ سکریٹری جناب راجیو گوبا وغیرہ بھی موجود تھے۔
اس موقع پر بولتے ہوئے، وزیر اعظم نے سول سروسز کا دن پر تمام ’کرم یوگیوں‘ کو مبارکباد دی۔ انہوں نے نظام حکومت کو بہتر کرنے اور علم شیئر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام ٹریننگ اکیڈمیز ہفتہ واری بنیاد پر، ورچوئل طریقے سے اس پروسیس اور ایوارڈ جیتنے والوں کے تجربات شیئر کر سکتی ہیں۔ دوسرے، انعام حاصل کرنے والے پروجیکٹوں سے، ایک اسکیم کو چند ضلعوں میں نافذ کرنے کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے اور اس سے متعلق تجربہ پر اگلے سال ’سول سروسز کا دن‘ کے موقع پر بات ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 22-20 سالوں سے نوکرشاہوں کے ساتھ بات چیت کرتے آ رہے ہیں، پہلے وزیر اعلیٰ کے طور پر اور اس کے بعد، وزیر اعظم کے طور پر۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک دوسرے سے سیکھنے کا تجربہ رہا ہے۔ جناب مودی نے اس سال کی تقریب کی اہمیت کو اجاگر کیا، کیوں کہ یہ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے موقع پر منعقد کی جا رہی ہے۔ انہوں نے منتظمین (ایڈمنسٹریٹرز) سے کہا کہ وہ اس خصوصی سال میں ضلع کے سابق منتظمین کو بلائیں۔ اس سے ضلع کے اندر ایک نئی توانائی پیدا ہوگی اور ماضی کے تجربے سے لیس ضلع کی انتظامیہ کے تناظر میں استقبال کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اسی طرح، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اس تاریخی سال کو منانے اور آزاد ہندوستان کے سفر میں اپنا بیش بہا تعاون فراہم کرنے والی ایڈمنسٹریٹو مشینری کے علم برداروں سے مستفید ہونے کے لیے، ریاست سے سابق چیف سکریٹریز، کابینہ سکریٹریز کو بلا سکتے ہیں۔ آزادی کا امرت مہوتسو کے سال میں سول سروس کی عزت افزائی کے لیے یہ سب سے مناسب طریقہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ امرت کال صرف ماضی کا جشن منانے اور اس کی تعریف کرنے کا ہی موقع نہیں ہے، اور 75 سے 100 سال کا سفر بس ایک معمول نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے کہا، ’’ بھارت @100 صرف ایک معمول نہیں ہو سکتا۔ اس 25 سال کی مدت کو ایک اکائی کے طور پر دیکھاجانا چاہیے اور ہمارے پاس آج سے ہی آگے کا ایک لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ اس جشن کو بنیاد سمجھا جانا چاہیے۔ ہر ضلع کو اسی جذبے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے اور یہی وہ وقت ہے جب ہمیں 1947 میں آج کے دن سردار پٹیل کے ذریعے کیے گئے عہد و پیمان اور بتائی گئی سمتوں پر خود کو دوبارہ عمل پیرا کرنا چاہیے۔‘‘
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے جمہوری نظام میں ہمارے پاس تین مقاصد ہونے چاہئیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ ملک کے عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئے، ان کی زندگی آسان ہو اور انہیں اس کا احساس بھی ہو۔ عام لوگوں کو سرکاری کام کاج میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے اور ہر سروس انہیں آسانی سے دستیاب ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’عام آدمی کے خواب کو تکمیل کی سطح تک پہنچانا نظام کی ذمہ داری ہے۔ اس سنکلپ (عہد) کو سدھی (تکمیل) تک پہنچایا جانا چاہیے اور ہم سبھی کا یہ مقصد ہونا چاہیے۔ ہمیں سپنا (خواب) سے سنکلپ اور سدھی (تکمیل) تک کے اس سفر میں ہر مرحلے پر ان کا ہاتھ تھامنے کے لیے موجود رہنا چاہیے۔‘‘ دوسرے، بھارت کے بڑھتے ہوئے رتبہ اور بدلتی ہوئی پروفائل کے مد نظر، یہ ضروری ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، اسے عالمی تناظر کے مطابق ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ہم عالمی سطح کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھیں گے، تو ہمیں اپنی ترجیحات اور فوک ایریا طے کرنے میں کافی مشکل ہوگی۔ ہمیں اسی تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی اسکیمیں اور نظام حکومت کے ماڈل تیار کرنے ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے سسٹم اور ماڈل کو مستقل رفتار سے اپ ڈیٹ ہوتے رہنا چاہیے، ہم پچھلی صدی کے نظاموں سے آج کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تیسرے، انہوں نے کہا، ’’نظام میں ہم کہیں پر ہوں، ہماری بنیادی ذمہ داری ملک کا اتحاد اور سالمیت ہے، اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ مقامی سطح کے فیصلے کی جانچ بھی اسی کسوٹی پر ہونی چاہیے۔ ہمارے ہر فیصلے کو ملک کے اتحاد اور سالمیت کو تقویت فراہم کرنے کی صلاحیت پر پرکھنا چاہیے۔ ہمارے ہر فیصلے میں ’ملک سب سے پہلے‘ ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک، ہندوستان کی عظیم ثقافت شاہی نظاموں اور شاہی تختوں سے نہیں بنی ہے۔ ہمارے ہاں ہزاروں سالوں سے جو روایت چلی آ رہی ہے، وہ عام آدمی کی طاقت پر چلنے کی روایت رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ہماری قدیم حکمت کو محفوظ رکھتے ہوئے تبدیلی اور جدیدیت کو قبول کرنے سے متعلق ملک کے جذبے کو بھی بیان کرتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ معاشرے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا، اسے آگے بڑھانا اور اس کی مدد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم اور زراعت میں ہونے والی اختراعات کی مثالیں پیش کیں اور منتظمین (ایڈمنسٹریٹرز) سے ان کی آبیاری کرنے اور امدادی رول نبھانے کے لیے کہا۔
ٹائپسٹ اور ستار بجانے والے کے درمیان فرق کو اجاگر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ایک پرکھی ہوئی زندگی، خوابوں اور جوش اور مقصد بھری زندگی جینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں ہر ایک لمحہ جینا چاہتا ہوں تاکہ میں دوسروں کی خدمت اور انہیں اچھی زندگی گزارنے میں مدد کر سکوں۔‘‘ جناب مودی نے افسروں کو تلقین کی کہ وہ شکست خوردہ راستے سے ہٹ کر زندگی گزاریں اور کچھ الگ سوچنے کی کوشش کریں۔ نظام حکومت میں اصلاح ہمارا قدرتی موقف ہونا چاہیے، نظام حکومت میں اصلاحات تجربے کی بنیاد پر اور وقت اور ملک کی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے فرسودہ قوانین اور تعمیل کی تعداد میں کمی کو اپنی بڑی ترجیحات میں سے ایک قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے اندر صرف دباؤ کی حالت میں ہی تبدیلی نہیں آنی چاہیے، بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ان ضابطوں اور ذہنیت کے تحت نہیں چلنا چاہیے جو قلت کے دور میں سامنے آئے، بلکہ ہمیں فراوانی کا رویہ اپنانا چاہیے۔ اسی طرح، ہمیں چیلنجز پر صرف ردِ عمل کرنے کی بجائے، اس کا اندازہ پہلے سے ہی لگا لینا چاہیے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’’گزشتہ 8 سالوں کے دوران، ملک میں کئی بڑی چیزیں ہوئی ہیں۔ کئی مہمات ایسی ہیں جس کی بنیاد میں عادت و اطوار کی تبدیلی شامل ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کا مزاج ’راج نیتی‘ (سیاست) والا نہیں ہے، بلکہ ’جن نیتی‘ (عوامی پالیسی) والا ہے۔
آخر میں انہوں نے افسران سے اپنی ذاتی زندگیوں میں کلیدی اصلاحات کو اپنانے کی درخواست کی۔ مثال کے طور پر کیا صفائی، جی ای ایم یا یو پی آئی استعمال خود ان کی زندگی میں شامل ہے یا نہیں۔
عوامی انتظامیہ (پبلک ایڈمنسٹریشن) میں بہتر کارکردگی کے لیے وزیر اعظم کے ایوارڈز کی شروعات ضلعوں/نفاذی اکائیوں اور مرکزی/ریاستی تنظیموں کی طرف سے عام شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے غیر معمولی اور اختراعی کام کو تسلیم کرنے کے مقصد سے کی گئی ہے۔ یہ ایوارڈ نشان زد ترجیحی پروگراموں اور اختراع کے مؤثر طریقے سے نفاذ کیے لیے بھی دیے جاتے ہیں۔
درج ذیل پانچ نشان زد ترجیحی پروگراموں میں کیے گئے مثالی کام کے لیے ایوارڈ دیے جائیں گے، جو سول سروسز کا دن 2022 کے موقع پر پیش کیے جائیں گے: (i)پوشن ابھیان میں عوام کی شرکت یا ’’جن بھاگیداری‘‘ کو فروغ دینا، (ii)کھیلو انڈیا اسکیم کے ذریعے کھیل اور تندرستی میں مہارت کو فروغ دینا، (iii)ڈیجیٹل ادائیگی اور پی ایم ایس وی اے ندھی یوجنا میں بہتر نظام حکومت، (iv)ایک ضلع ایک پروڈکٹ اسکیم کے ذریعے بہتر ترقی، (v)انسانی مداخلت کے بغیر سروس کی سہل، اینڈ ٹو اینڈ ڈیلیوری۔
اس سال عوامی انتظامیہ/سروسز کی ڈیلیوری وغیرہ کے شعبے میں 5 نشان زد ترجیحی پروگراموں اور اختراعات کے لیے کل 16 ایوارڈ دیے جائیں گے۔
मैं तीसरे लक्ष्य की बात करूं तो ये एक प्रकार से मैं दोहरा रहा हूँ... व्यवस्था में हम कहीं पर भी हों, लेकिन जिस व्यवस्था से हम निकले हैं, उसमें हमारी prime responsibility है देश की एकता और अखंडता: PM @narendramodi
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2022
मैं तीसरे लक्ष्य की बात करूं तो ये एक प्रकार से मैं दोहरा रहा हूँ... व्यवस्था में हम कहीं पर भी हों, लेकिन जिस व्यवस्था से हम निकले हैं, उसमें हमारी prime responsibility है देश की एकता और अखंडता: PM @narendramodi
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2022
हम एक लोकतांत्रिक व्यवस्था में है और हमारे सामने तीन लक्ष्य साफ-साफ होने चाहिए।
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2022
पहला लक्ष्य है कि देश में सामान्य से सामान्य मानवी के जीवन में बदलाव आए, उसके जीवन में सुगमता आए और उसे इसका एहसास भी हो: PM @narendramodi
भारत की महान संस्कृति की ये विशेषता है कि हमारा देश राज व्यवस्थाओं से नहीं बना है, हमारा देश राज सिंहासनों से नहीं बना है।
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2022
हमारी हजारों साल की जो परंपरा है वो जन सामान्य के सामर्थ्य को लेकर चलने की परंपरा रही है: PM @narendramodi
बीते 8 साल के दौरान देश में अनेक बड़े काम हुए हैं।
— PMO India (@PMOIndia) April 21, 2022
इनमें से अनेक अभियान ऐसे हैं जिनके मूल में behavioral change है: PM @narendramodi