وزیر اعظم نے ورلڈ فوڈ انڈیا 2023 کا افتتاح کیا

Published By : Admin | November 3, 2023 | 10:14 IST
Quoteایک لاکھ سے زیادہ خود امدادی گروپوں کے اراکین کو ابتدائی مالی امداد فراہم کرتا ہے
Quoteانہوں نے ورلڈ فوڈ انڈیا 2023 کے حصے کے طور پر فوڈ اسٹریٹ کا افتتاح کیا
Quote’’ٹیکنالوجی اور ذائقہ کا امتزاج مستقبل کی معیشت کی راہ ہموار کرے گا‘‘
Quote’’حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسیاں خوراک کے شعبے کو نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہیں‘‘
Quote’’ہندوستان نے خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت کے ہر شعبے میں شاندار ترقی حاصل کی ہے‘‘
Quote’’خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے میں ہندوستان کی ترقی کی کہانی کے تین ستون چھوٹے کسان، چھوٹی صنعتیں اور خواتین ہیں‘‘
Quote’’ایک ضلع ایک پروڈکٹ‘‘ جیسی اسکیمیں چھوٹے کسانوں اور چھوٹی صنعتوں کو نئی شناخت دے رہی ہیں
Quote’’ہندوستانی خواتین میں خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت کی قیادت کرنے کی فطری صلاحیت ہے‘‘
Quote’’ ہندوستان کا غذائی تنوع عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک فائدہ مند ہے‘‘
Quote’’ہندوستان کی پائیدار خوراک کی ثقافت ہزاروں سالوں میں تیار ہوئی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے کھانے کی عادات و اطوار کو آیوروید سے جوڑا‘‘
Quote’’موٹے اناج ہندوستان کی ’سپر فوڈ بکیٹ‘ کا ایک حصہ ہیں اور حکومت نے اس کی شناخت شری اَنّ کے طور پر کی ہے‘‘
Quote’’کھانے کی بربادی کو کم کرنا پائیدار طرز زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے میں ایک اہم کوشش ہے‘‘

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے پرگتی میدان کے بھارت منڈپم میں میگا فوڈ ایونٹ ’ورلڈ فوڈ انڈیا 2023‘ کے دوسرے ایڈیشن کا افتتاح کیا۔ انہوں نے خود امدادی گروپوں کو مضبوط کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ ا خود امدادی گروپوں کےاراکین کے لیے ابتدائی مالیاتی امداد  تقسیم کی۔ جناب مودی نے اس موقع پر منعقدہ  نمائش کا معائنہ بھی کیا۔ اس پروگرام  کا مقصد ہندوستان کو ’دنیا کی فوڈ باسکٹ‘ کے طور پر ظاہر کرنا اور 2023 کو موٹے اناج کے بین الاقوامی سال کے طور پر منانا ہے۔

 

|

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس موقع پر ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ پویلین اور فوڈ اسٹریٹ کی نمائش کی تعریف کی اور کہا کہ ٹیکنالوجی اور ذائقے کا امتزاج مستقبل کی معیشت کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں، وزیر اعظم نے غذائی تحفظ کے اہم چیلنجوں میں سے ایک کو اجاگر کیا اور ورلڈ فوڈ انڈیا 2023 کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

وزیر اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ورلڈ فوڈ انڈیا کے نتائج ہندوستان کے خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے کو ’ابھرتا ہوا  سیکٹر‘ کے طور پر پہچانے جانے کی ایک بڑی مثال ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ پچھلے 9 سال میں حکومت کی صنعت اور کسان نواز پالیسیوں کے نتیجے میں اس شعبے نے 50,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے میں پیداوار سے منسلک ترغیبات(پی ایل آئی)  اسکیم پر روشنی ڈالتے ہوئے  وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صنعت میں نئے لوگوں کو بڑی مدد فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زرعی بنیادی ڈھانچے کے تحت ہزاروں پروجیکٹوں پر کام جاری ہے جس میں فصلوں کی کٹائی کے بعد کے بنیادی ڈھانچے  کے لیے تقریباً 50,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ ماہی پروری اور مویشی پالن کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی پروسیسنگ کے لیے بھی ہزاروں کروڑ  روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

 

|

جناب مودی نے کہا کہ ’’سرکار کی سرمایہ کار دوست پالیسیاں خوراک کے شعبے کو نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہیں‘‘۔وزیر اعظم نے بتایا کہ پچھلے 9 سال میں  ہندوستان کی زرعی برآمدات میں ڈبہ بند خوراک  کا حصہ 13 فیصد سے بڑھ کر 23 فیصد ہو گیا ہے، جس سے برآمد شدہ ڈبہ بند خوراک  میں  مجموعی طور پر 150 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔  انہوں نے بتایا کہ ‘‘آج، ہندوستان زرعی پیداوار میں 50,000 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی مجموعی برآمدی مالیت کے ساتھ 7ویں مقام  پر کھڑا ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں ہندوستان نے بے مثال ترقی نہ کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت سے وابستہ ہر کمپنی اور اسٹارٹ اپ کے لئے یہ  ایک سنہری موقع ہے۔

وزیر اعظم مودی نے ہندوستان کی خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت میں تیز رفتار ترقی کا سہرا حکومت کی مسلسل اور  ٹھوس کوششوں کو دیا۔ انہوں نے ہندوستان میں پہلی بار زرعی برآمداتی پالیسی کی تشکیل، ملک گیر لاجسٹکس اور انفراسٹرکچر کی ترقی، ضلع کو عالمی منڈیوں سے جوڑنے والے 100 سے زیادہ ضلعی سطح کے مرکزوں کی تشکیل، میگا فوڈ پارکس کی تعداد میں اضافہ کا ذکر کیا اور کہا کہ میوگا فوڈ پارک کی تعداد 2 سے بڑھ کر 20 سے زیادہ ہوگئی ہے اور ہندوستان کی خوراک کی ڈبہ بندی  کی صلاحیت 12 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 200 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ہوگئی ہے، جو کہ پچھلے 9 سال میں 15 گنا کا اضافہ ہے۔ وزیر اعظم نے ایسی زرعی پیداوار کی مثالیں دیں جو پہلی بار ہندوستان سے برآمد کی جا رہی ہیں اور ہماچل پردیش سے کالے لہسن، جموں و کشمیر سے ڈریگن فروٹ، مدھیہ پردیش سے سویا ملک پاؤڈر، لداخ سے کارکیچو سیب، پنجاب سے کیونڈش کیلے، جموں سے گچی مشروم اور کرناٹک سے کچا شہد کا ذکر کیا۔

 

|

ہندوستان میں تیزی سے شہری کاری کا ذکرکرتے ہوئے وزیر اعظم نے ڈبہ بند خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ کی طرف توجہ مبذول کرائی جس سے کسانوں، اسٹارٹ اپس اور چھوٹے کاروباریوں کے لیے غیر دریافت شدہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جناب مودی نے ان امکانات کا بھرپور استعمال کرنے کے لیے ولولہ انگیزمنصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیر اعظم نے خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت میں ہندوستان کی ترقی کی کہانی کے تین اہم ستونوں - چھوٹے کسانوں، چھوٹی صنعتوں اور خواتین پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے چھوٹے کسانوں کی شرکت اور منافع کو بڑھانے کے لیےزرعی پیداوار کرنے والے کسانوں کی تنظیم یا ایف پی او کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر موثر استعمال پر روشنی ڈالی۔انہوں نے  کہا کہ ’’ہم ہندوستان میں 10 ہزار نئے ایف پی او بنا رہے ہیں، جن میں سے 7 ہزار پہلے ہی بن چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے کسانوں کے لیے مارکیٹ تک بڑھتی ہوئی رسائی اور پروسیسنگ کی سہولیات کی دستیابی کاذکرکیا اور یہ بھی بتایا کہ خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت میں  چھوٹی سطح کی صنعتوں کی شرکت کو بڑھانے کے لیے تقریباً 2 لاکھ  بہت چھوٹی صنعتوں  کو منظم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک ضلع ایک پروڈکٹ‘‘ جیسی اسکیمیں – او ڈی او پی  بھی چھوٹے کسانوں اور چھوٹی صنعتوں کو ایک نئی شناخت دے رہی ہیں۔

ہندوستان میں خواتین کی قیادت میں ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے معیشت میں خواتین کے بڑھتے ہوئے تعاون کو اجاگر کیا جس سے خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج ہندوستان میں 9 کروڑ سے زیادہ خواتین خود امدادی گروپوں  سے وابستہ ہیں۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ خواتین نے ہزاروں سال سے ہندوستان میں فوڈ سائنس میں برتری حاصل کی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان میں کھانے کی اقسام اور کھانے کا تنوع ہندوستانی خواتین کی مہارت اور معلومات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین اپنے گھروں سے بہت سی مصنوعات جیسے اچار، پاپڑ، چپس، مربہ وغیرہ کا بازار چلا رہی ہیں۔ جناب مودی نے کہا کہ ’’ہندوستانی خواتین میں خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت کی قیادت کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کے لیے کاٹیج انڈسٹریز اور خود امدادی گروپوں  کو ہر سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم مودی نے آج کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ خواتین کو کروڑوں روپے کی ابتدائی  سرمایہ تقسیم کرنے کا ذکر کیا۔

 

|

وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ہندوستان میں کھانے کا اتنا ہی تنوع ہے جتنا ثقافتی تنوع ہے۔ ہندوستان کا غذائی تنوع دنیا کے ہر سرمایہ کار کے لیے فائدہ مند ہے۔‘‘ ہندوستان کے تئیں تجسس میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو بیاں کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر کی فوڈ انڈسٹری کو ہندوستان کی کھانے کی روایات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا پائیدار فوڈ کلچر اس کے ہزاروں سال کے ترقی کے سفر کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں سال میں ہندوستان کے پائیدار فوڈ کلچر کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کے آباؤ اجداد نے کھانے کی عادات و اطوار کو آیوروید سے جوڑا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’’آیور وید میں، اسے ’رت-بھوک‘کہا جاتا ہے یعنی موسم کے مطابق کھانا،’مت بھوک‘ یعنی متوازن غذا، اور ’ہت بھوک‘ یعنی صحت مند غذا، یہ ہندوستان کی سائنسی سمجھ کے اہم اجزاء ہیں۔‘‘ انہوں نے دنیا پر غذائی اجناس، خاص طور پر ہندوستان سے مسالوں کی تجارت کے دائمی اثرات کا بھی ذکر کیا۔عالمی خوراک کی یقینی فراہمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت  کو پائیدار اور صحت مند کھانے کی عادات کے قدیم علم کو سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جناب مودی نے کہا کہ دنیا 2023 کو موٹے اناج کے بین الاقوامی سال کے طور پر منا رہی ہے۔ ’’ جناب مودی نے کہا کہ موٹے اناج ہندوستان کی ’سپر فوڈ بکیٹ‘ کا حصہ ہیں اور حکومت نے اس کی شناخت شری انّ کے طور پر کی ہے۔‘‘ اگرچہ صدیوں سے زیادہ تر تہذیبوں میں موٹے اناج  کو بڑی ترجیح دی جاتی رہی ہے، وزیر اعظم نے اجاگر کیا کہ اس نے پچھلی چند دہائیوں میں ہندوستان سمیت کئی ممالک میں کھانے کی عادات سے باہر نکلنے کا راستہ اختیار کیا ہے، جس سے عالمی صحت، پائیدار  کاشتکاری کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پائیدار معیشت کو بھی کافی نقصان پہنچا۔وزیر اعظم نے اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹے اناج دنیا کے کونے کونے تک پہنچتا ہے جیسا کہ یوگ کے بین الاقوامی دن کے اثرات ہیں، کہا کہ’’ہندوستان کی پہل پر، دنیا میں موٹے اناج  کے بارے میں ایک بیداری مہم شروع ہوئی ہے‘‘۔ انہوں نے حالیہ جی- 20 سربراہ اجلاس کے دوران ہندوستان کا دورہ کرنے والے معززین کے لئے موٹے اناج سے تیار کردہ پکوانوں کے ساتھ ساتھ بازار میں موٹے اناج سے  تیار شدہ ڈبہ بند کھانے کی اشیاء کی دستیابی کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر معززین پر زور دیا کہ وہ شری ان کا حصہ بڑھانے کے طور طریقوں پر تبادلہ خیال کریں اور صنعت اور کسانوں کے فائدے کے لیے ایک اجتماعی روڈ میپ تیار کریں۔

جناب مودی نے کہا کہ جی- 20 گروپ نے دہلی اعلامیہ میں پائیدار زراعت، خوراک کی حفاظت اور خوراک کی یقینی فراہمی  پر زور دیا ہے  اور  خوراک کی ڈبہ بندی  سے وابستہ تمام شراکت داروں کے کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے خوراک کی تقسیم کے پروگرام کو متنوع فوڈ باسکٹ کی طرف لے جانے اور آخرکار فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال سے خوراک کی بربادی  کو کم کرنے پر بھی زور دیا۔ انہوں نے  خوراک کی بربادی کو کم کرنے کے لیے خراب ہونے والی مصنوعات کی  ڈبہ بندی میں اضافہ کرنے پر زور دیا، جس سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے گا۔ اپنے  خطاب کے اختتام پر  وزیر اعظم نے کسانوں کے مفادات اور صارفین کے اطمینان کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ یہاں پر اخذ کردہ نتائج دنیا کے لیے ایک پائیدار اور خوراک  کی یقینی فراہمی والے  مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔

 

|

اس موقع پر امور صارفین، خوراک اور سرکاری نظام تقسیم کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل، خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعتوں کے مرکزی وزیر جناب پشوپتی کمار پارس، دیہی ترقیات کے مرکزی وزیر جناب گری راج سنگھ، مویشی پروری، ڈیری اور ماہی پروری کے مرکزی وزیر مملکت، جناب پرشوتم روپالا اور خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت کے مرکزی وزیر مملکت جناب پرہلاد سنگھ پٹیل  کے علاوہ دیگر معززین  موجود تھے۔

پس منظر

خود امدادی گروپوں  کو مضبوط کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ایک لاکھ سے زیادہ خود امدادی گروپوں کے اراکین کے لیے ابتدائی مالی امداد  تقسیم کی۔ یہ  مالی امداد  خود امدادی گروپوں  کو بہتر پیکیجنگ اور معیاری مینوفیکچرنگ کے ذریعے مارکیٹ میں بہتر  قیمت حاصل کرنے میں مدد کرے گا۔ وزیر اعظم نے ورلڈ فوڈ انڈیا 2023 کے حصے کے طور پر فوڈ اسٹریٹ کا بھی افتتاح کیا۔ اس میں علاقائی کھانوں اور شاہی کھانوں کی  شاندار وراثت پیش کی جائے گی، جس میں 200 سے زیادہ باورچی شرکت کریں گے اور روایتی ہندوستانی کھانوں کو پیش کریں گے، جس سے کھانا پکانے کا یہ ایک منفرد تجربہ ہوگا۔

اس پروگرام  کا مقصد ہندوستان کو ’دنیا کی فوڈ باسکٹ‘ کے طور پر ظاہر کرنا اور 2023 کو موٹے اناج کے بین الاقوامی سال کے طور پر منانا ہے۔ یہ حکومتی اداروں، صنعت کے پیشہ ور افراد، کسانوں، کاروباری افراد اور دیگر متعلقہ فریقوں  کو بات چیت میں شامل ہونے، باہمی شراکت داری قائم کرنے اور زرعی خوراک کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے نیٹ ورکنگ اور کاروباری پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔ چیف ایگزیکیٹیو آفیسروں ( سی ای او) کی گول میز کانفرنسز سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے میں آسانی پر توجہ مرکوز کریں گی۔

 

|

خوراک کی ڈبہ بندی  کی ہندوستانی صنعت کی اختراع اور طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے مختلف پویلین قائم کیے جائیں گے۔ یہ پروگرام 48 اجلاس کی میزبانی کرے گا جس میں خوراک کی ڈبہ بندی  کی صنعت کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جس میں مالیاتی طور پر بااختیار بنانے، کوالٹی ایشورنس اور مشینری اور ٹیکنالوجی میں اختراعات پر زور دیا جائے گا۔

یہ پروگرام 80 سے زائد ممالک کے شرکاءبشمول خوراک کی ڈبہ بندی  کی ممتاز کمپنیوں کے سی ای اوز کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ اس میں 80 سے زائد ممالک کے 1200 سے زائد غیر ملکی خریداروں کے ساتھ  ساتھ ریورس بائر سیلر میٹ  کی بھی سہولت  ہو گی۔ ہالینڈ  شراکت دار  ملک کے طور پر کام کرے گا، جبکہ جاپان پروگرام کا  مرکزی توجہ کا حامل ملک  ہوگا۔

 

تقریر کا مکمل متن پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • Dr Anand Kumar Gond Bahraich January 07, 2024

    जय हो
  • Lalruatsanga January 06, 2024

    wow
  • SADHU KIRANKUMAR SRIKAKULAM DISTRICT BJP VICE PRESIDENT December 15, 2023

    JAYAHO MODIJI 🙏🙏 JAI BJP...🚩🚩🚩 From: SADHU KIRANKUMAR SRIKAKULAM DISTRICT BJP ViCE - PRESIDENT SRIKAKULAM. A.P
  • Mahesh Chandra joshi November 10, 2023

    Organisation desh ki reed ka kaam karega.
  • Meera Tripathi November 09, 2023

    jay ho 👏🙏🙏🙏👏
  • NEELA Ben Soni Rathod November 08, 2023

    भारतीय भोजन में प्रोटीन युक्त स्वास्थ्यप्रद आहार का महत्व है जो संसार में कहीं भी नहीं
  • Daktar Sahoo November 06, 2023

    Jay Sitaram कौन-कौन Daktar Sahu
  • Daktar Sahoo November 06, 2023

    Good morning 🌅 hollo
  • Subhash Kumar November 04, 2023

    Jai shree ram
  • Atul kumar dwivedi November 04, 2023

    जय श्री राम
Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Laying the digital path to a developed India

Media Coverage

Laying the digital path to a developed India
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
India is driving global growth today: PM Modi at Republic Plenary Summit
March 06, 2025
QuoteIndia's achievements and successes have sparked a new wave of hope across the globe: PM
QuoteIndia is driving global growth today: PM
QuoteToday's India thinks big, sets ambitious targets and delivers remarkable results: PM
QuoteWe launched the SVAMITVA Scheme to grant property rights to rural households in India: PM
QuoteYouth is the X-Factor of today's India, where X stands for Experimentation, Excellence, and Expansion: PM
QuoteIn the past decade, we have transformed impact-less administration into impactful governance: PM
QuoteEarlier, construction of houses was government-driven, but we have transformed it into an owner-driven approach: PM

नमस्कार!

आप लोग सब थक गए होंगे, अर्णब की ऊंची आवाज से कान तो जरूर थक गए होंगे, बैठिये अर्णब, अभी चुनाव का मौसम नहीं है। सबसे पहले तो मैं रिपब्लिक टीवी को उसके इस अभिनव प्रयोग के लिए बहुत बधाई देता हूं। आप लोग युवाओं को ग्रासरूट लेवल पर इन्वॉल्व करके, इतना बड़ा कंपटीशन कराकर यहां लाए हैं। जब देश का युवा नेशनल डिस्कोर्स में इन्वॉल्व होता है, तो विचारों में नवीनता आती है, वो पूरे वातावरण में एक नई ऊर्जा भर देता है और यही ऊर्जा इस समय हम यहां महसूस भी कर रहे हैं। एक तरह से युवाओं के इन्वॉल्वमेंट से हम हर बंधन को तोड़ पाते हैं, सीमाओं के परे जा पाते हैं, फिर भी कोई भी लक्ष्य ऐसा नहीं रहता, जिसे पाया ना जा सके। कोई मंजिल ऐसी नहीं रहती जिस तक पहुंचा ना जा सके। रिपब्लिक टीवी ने इस समिट के लिए एक नए कॉन्सेप्ट पर काम किया है। मैं इस समिट की सफलता के लिए आप सभी को बहुत-बहुत बधाई देता हूं, आपका अभिनंदन करता हूं। अच्छा मेरा भी इसमें थोड़ा स्वार्थ है, एक तो मैं पिछले दिनों से लगा हूं, कि मुझे एक लाख नौजवानों को राजनीति में लाना है और वो एक लाख ऐसे, जो उनकी फैमिली में फर्स्ट टाइमर हो, तो एक प्रकार से ऐसे इवेंट मेरा जो यह मेरा मकसद है उसका ग्राउंड बना रहे हैं। दूसरा मेरा व्यक्तिगत लाभ है, व्यक्तिगत लाभ यह है कि 2029 में जो वोट करने जाएंगे उनको पता ही नहीं है कि 2014 के पहले अखबारों की हेडलाइन क्या हुआ करती थी, उसे पता नहीं है, 10-10, 12-12 लाख करोड़ के घोटाले होते थे, उसे पता नहीं है और वो जब 2029 में वोट करने जाएगा, तो उसके सामने कंपैरिजन के लिए कुछ नहीं होगा और इसलिए मुझे उस कसौटी से पार होना है और मुझे पक्का विश्वास है, यह जो ग्राउंड बन रहा है ना, वो उस काम को पक्का कर देगा।

साथियों,

आज पूरी दुनिया कह रही है कि ये भारत की सदी है, ये आपने नहीं सुना है। भारत की उपलब्धियों ने, भारत की सफलताओं ने पूरे विश्व में एक नई उम्मीद जगाई है। जिस भारत के बारे में कहा जाता था, ये खुद भी डूबेगा और हमें भी ले डूबेगा, वो भारत आज दुनिया की ग्रोथ को ड्राइव कर रहा है। मैं भारत के फ्यूचर की दिशा क्या है, ये हमें आज के हमारे काम और सिद्धियों से पता चलता है। आज़ादी के 65 साल बाद भी भारत दुनिया की ग्यारहवें नंबर की इकॉनॉमी था। बीते दशक में हम दुनिया की पांचवें नंबर की इकॉनॉमी बने, और अब उतनी ही तेजी से दुनिया की तीसरी सबसे बड़ी अर्थव्यवस्था बनने जा रहे हैं।

|

साथियों,

मैं आपको 18 साल पहले की भी बात याद दिलाता हूं। ये 18 साल का खास कारण है, क्योंकि जो लोग 18 साल की उम्र के हुए हैं, जो पहली बार वोटर बन रहे हैं, उनको 18 साल के पहले का पता नहीं है, इसलिए मैंने वो आंकड़ा लिया है। 18 साल पहले यानि 2007 में भारत की annual GDP, एक लाख करोड़ डॉलर तक पहुंची थी। यानि आसान शब्दों में कहें तो ये वो समय था, जब एक साल में भारत में एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी होती थी। अब आज देखिए क्या हो रहा है? अब एक क्वार्टर में ही लगभग एक लाख करोड़ डॉलर की इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही है। इसका क्या मतलब हुआ? 18 साल पहले के भारत में साल भर में जितनी इकॉनॉमिक एक्टिविटी हो रही थी, उतनी अब सिर्फ तीन महीने में होने लगी है। ये दिखाता है कि आज का भारत कितनी तेजी से आगे बढ़ रहा है। मैं आपको कुछ उदाहरण दूंगा, जो दिखाते हैं कि बीते एक दशक में कैसे बड़े बदलाव भी आए और नतीजे भी आए। बीते 10 सालों में, हम 25 करोड़ लोगों को गरीबी से बाहर निकालने में सफल हुए हैं। ये संख्या कई देशों की कुल जनसंख्या से भी ज्यादा है। आप वो दौर भी याद करिए, जब सरकार खुद स्वीकार करती थी, प्रधानमंत्री खुद कहते थे, कि एक रूपया भेजते थे, तो 15 पैसा गरीब तक पहुंचता था, वो 85 पैसा कौन पंजा खा जाता था और एक आज का दौर है। बीते दशक में गरीबों के खाते में, DBT के जरिए, Direct Benefit Transfer, DBT के जरिए 42 लाख करोड़ रुपए से ज्यादा ट्रांसफर किए गए हैं, 42 लाख करोड़ रुपए। अगर आप वो हिसाब लगा दें, रुपये में से 15 पैसे वाला, तो 42 लाख करोड़ का क्या हिसाब निकलेगा? साथियों, आज दिल्ली से एक रुपया निकलता है, तो 100 पैसे आखिरी जगह तक पहुंचते हैं।

साथियों,

10 साल पहले सोलर एनर्जी के मामले में भारत दुनिया में कहीं गिनती नहीं होती थी। लेकिन आज भारत सोलर एनर्जी कैपेसिटी के मामले में दुनिया के टॉप-5 countries में से है। हमने सोलर एनर्जी कैपेसिटी को 30 गुना बढ़ाया है। Solar module manufacturing में भी 30 गुना वृद्धि हुई है। 10 साल पहले तो हम होली की पिचकारी भी, बच्चों के खिलौने भी विदेशों से मंगाते थे। आज हमारे Toys Exports तीन गुना हो चुके हैं। 10 साल पहले तक हम अपनी सेना के लिए राइफल तक विदेशों से इंपोर्ट करते थे और बीते 10 वर्षों में हमारा डिफेंस एक्सपोर्ट 20 गुना बढ़ गया है।

|

साथियों,

इन 10 वर्षों में, हम दुनिया के दूसरे सबसे बड़े स्टील प्रोड्यूसर हैं, दुनिया के दूसरे सबसे बड़े मोबाइल फोन मैन्युफैक्चरर हैं और दुनिया का तीसरा सबसे बड़ा स्टार्टअप इकोसिस्टम बने हैं। इन्हीं 10 सालों में हमने इंफ्रास्ट्रक्चर पर अपने Capital Expenditure को, पांच गुना बढ़ाया है। देश में एयरपोर्ट्स की संख्या दोगुनी हो गई है। इन दस सालों में ही, देश में ऑपरेशनल एम्स की संख्या तीन गुना हो गई है। और इन्हीं 10 सालों में मेडिकल कॉलेजों और मेडिकल सीट्स की संख्या भी करीब-करीब दोगुनी हो गई है।

साथियों,

आज के भारत का मिजाज़ कुछ और ही है। आज का भारत बड़ा सोचता है, बड़े टार्गेट तय करता है और आज का भारत बड़े नतीजे लाकर के दिखाता है। और ये इसलिए हो रहा है, क्योंकि देश की सोच बदल गई है, भारत बड़ी Aspirations के साथ आगे बढ़ रहा है। पहले हमारी सोच ये बन गई थी, चलता है, होता है, अरे चलने दो यार, जो करेगा करेगा, अपन अपना चला लो। पहले सोच कितनी छोटी हो गई थी, मैं इसका एक उदाहरण देता हूं। एक समय था, अगर कहीं सूखा हो जाए, सूखाग्रस्त इलाका हो, तो लोग उस समय कांग्रेस का शासन हुआ करता था, तो मेमोरेंडम देते थे गांव के लोग और क्या मांग करते थे, कि साहब अकाल होता रहता है, तो इस समय अकाल के समय अकाल के राहत के काम रिलीफ के वर्क शुरू हो जाए, गड्ढे खोदेंगे, मिट्टी उठाएंगे, दूसरे गड्डे में भर देंगे, यही मांग किया करते थे लोग, कोई कहता था क्या मांग करता था, कि साहब मेरे इलाके में एक हैंड पंप लगवा दो ना, पानी के लिए हैंड पंप की मांग करते थे, कभी कभी सांसद क्या मांग करते थे, गैस सिलेंडर इसको जरा जल्दी देना, सांसद ये काम करते थे, उनको 25 कूपन मिला करती थी और उस 25 कूपन को पार्लियामेंट का मेंबर अपने पूरे क्षेत्र में गैस सिलेंडर के लिए oblige करने के लिए उपयोग करता था। एक साल में एक एमपी 25 सिलेंडर और यह सारा 2014 तक था। एमपी क्या मांग करते थे, साहब ये जो ट्रेन जा रही है ना, मेरे इलाके में एक स्टॉपेज दे देना, स्टॉपेज की मांग हो रही थी। यह सारी बातें मैं 2014 के पहले की कर रहा हूं, बहुत पुरानी नहीं कर रहा हूं। कांग्रेस ने देश के लोगों की Aspirations को कुचल दिया था। इसलिए देश के लोगों ने उम्मीद लगानी भी छोड़ दी थी, मान लिया था यार इनसे कुछ होना नहीं है, क्या कर रहा है।। लोग कहते थे कि भई ठीक है तुम इतना ही कर सकते हो तो इतना ही कर दो। और आज आप देखिए, हालात और सोच कितनी तेजी से बदल रही है। अब लोग जानते हैं कि कौन काम कर सकता है, कौन नतीजे ला सकता है, और यह सामान्य नागरिक नहीं, आप सदन के भाषण सुनोगे, तो विपक्ष भी यही भाषण करता है, मोदी जी ये क्यों नहीं कर रहे हो, इसका मतलब उनको लगता है कि यही करेगा।

|

साथियों,

आज जो एस्पिरेशन है, उसका प्रतिबिंब उनकी बातों में झलकता है, कहने का तरीका बदल गया , अब लोगों की डिमांड क्या आती है? लोग पहले स्टॉपेज मांगते थे, अब आकर के कहते जी, मेरे यहां भी तो एक वंदे भारत शुरू कर दो। अभी मैं कुछ समय पहले कुवैत गया था, तो मैं वहां लेबर कैंप में नॉर्मली मैं बाहर जाता हूं तो अपने देशवासी जहां काम करते हैं तो उनके पास जाने का प्रयास करता हूं। तो मैं वहां लेबर कॉलोनी में गया था, तो हमारे जो श्रमिक भाई बहन हैं, जो वहां कुवैत में काम करते हैं, उनसे कोई 10 साल से कोई 15 साल से काम, मैं उनसे बात कर रहा था, अब देखिए एक श्रमिक बिहार के गांव का जो 9 साल से कुवैत में काम कर रहा है, बीच-बीच में आता है, मैं जब उससे बातें कर रहा था, तो उसने कहा साहब मुझे एक सवाल पूछना है, मैंने कहा पूछिए, उसने कहा साहब मेरे गांव के पास डिस्ट्रिक्ट हेड क्वार्टर पर इंटरनेशनल एयरपोर्ट बना दीजिए ना, जी मैं इतना प्रसन्न हो गया, कि मेरे देश के बिहार के गांव का श्रमिक जो 9 साल से कुवैत में मजदूरी करता है, वह भी सोचता है, अब मेरे डिस्ट्रिक्ट में इंटरनेशनल एयरपोर्ट बनेगा। ये है, आज भारत के एक सामान्य नागरिक की एस्पिरेशन, जो विकसित भारत के लक्ष्य की ओर पूरे देश को ड्राइव कर रही है।

साथियों,

किसी भी समाज की, राष्ट्र की ताकत तभी बढ़ती है, जब उसके नागरिकों के सामने से बंदिशें हटती हैं, बाधाएं हटती हैं, रुकावटों की दीवारें गिरती है। तभी उस देश के नागरिकों का सामर्थ्य बढ़ता है, आसमान की ऊंचाई भी उनके लिए छोटी पड़ जाती है। इसलिए, हम निरंतर उन रुकावटों को हटा रहे हैं, जो पहले की सरकारों ने नागरिकों के सामने लगा रखी थी। अब मैं उदाहरण देता हूं स्पेस सेक्टर। स्पेस सेक्टर में पहले सबकुछ ISRO के ही जिम्मे था। ISRO ने निश्चित तौर पर शानदार काम किया, लेकिन स्पेस साइंस और आंत्रप्रन्योरशिप को लेकर देश में जो बाकी सामर्थ्य था, उसका उपयोग नहीं हो पा रहा था, सब कुछ इसरो में सिमट गया था। हमने हिम्मत करके स्पेस सेक्टर को युवा इनोवेटर्स के लिए खोल दिया। और जब मैंने निर्णय किया था, किसी अखबार की हेडलाइन नहीं बना था, क्योंकि समझ भी नहीं है। रिपब्लिक टीवी के दर्शकों को जानकर खुशी होगी, कि आज ढाई सौ से ज्यादा स्पेस स्टार्टअप्स देश में बन गए हैं, ये मेरे देश के युवाओं का कमाल है। यही स्टार्टअप्स आज, विक्रम-एस और अग्निबाण जैसे रॉकेट्स बना रहे हैं। ऐसे ही mapping के सेक्टर में हुआ, इतने बंधन थे, आप एक एटलस नहीं बना सकते थे, टेक्नॉलाजी बदल चुकी है। पहले अगर भारत में कोई मैप बनाना होता था, तो उसके लिए सरकारी दरवाजों पर सालों तक आपको चक्कर काटने पड़ते थे। हमने इस बंदिश को भी हटाया। आज Geo-spatial mapping से जुडा डेटा, नए स्टार्टअप्स का रास्ता बना रहा है।

|

साथियों,

न्यूक्लियर एनर्जी, न्यूक्लियर एनर्जी से जुड़े सेक्टर को भी पहले सरकारी कंट्रोल में रखा गया था। बंदिशें थीं, बंधन थे, दीवारें खड़ी कर दी गई थीं। अब इस साल के बजट में सरकार ने इसको भी प्राइवेट सेक्टर के लिए ओपन करने की घोषणा की है। और इससे 2047 तक 100 गीगावॉट न्यूक्लियर एनर्जी कैपेसिटी जोड़ने का रास्ता मजबूत हुआ है।

साथियों,

आप हैरान रह जाएंगे, कि हमारे गांवों में 100 लाख करोड़ रुपए, Hundred lakh crore rupees, उससे भी ज्यादा untapped आर्थिक सामर्थ्य पड़ा हुआ है। मैं आपके सामने फिर ये आंकड़ा दोहरा रहा हूं- 100 लाख करोड़ रुपए, ये छोटा आंकड़ा नहीं है, ये आर्थिक सामर्थ्य, गांव में जो घर होते हैं, उनके रूप में उपस्थित है। मैं आपको और आसान तरीके से समझाता हूं। अब जैसे यहां दिल्ली जैसे शहर में आपके घर 50 लाख, एक करोड़, 2 करोड़ के होते हैं, आपकी प्रॉपर्टी की वैल्यू पर आपको बैंक लोन भी मिल जाता है। अगर आपका दिल्ली में घर है, तो आप बैंक से करोड़ों रुपये का लोन ले सकते हैं। अब सवाल यह है, कि घर दिल्ली में थोड़े है, गांव में भी तो घर है, वहां भी तो घरों का मालिक है, वहां ऐसा क्यों नहीं होता? गांवों में घरों पर लोन इसलिए नहीं मिलता, क्योंकि भारत में गांव के घरों के लीगल डॉक्यूमेंट्स नहीं होते थे, प्रॉपर मैपिंग ही नहीं हो पाई थी। इसलिए गांव की इस ताकत का उचित लाभ देश को, देशवासियों को नहीं मिल पाया। और ये सिर्फ भारत की समस्या है ऐसा नहीं है, दुनिया के बड़े-बड़े देशों में लोगों के पास प्रॉपर्टी के राइट्स नहीं हैं। बड़ी-बड़ी अंतरराष्ट्रीय संस्थाएं कहती हैं, कि जो देश अपने यहां लोगों को प्रॉपर्टी राइट्स देता है, वहां की GDP में उछाल आ जाता है।

|

साथियों,

भारत में गांव के घरों के प्रॉपर्टी राइट्स देने के लिए हमने एक स्वामित्व स्कीम शुरु की। इसके लिए हम गांव-गांव में ड्रोन से सर्वे करा रहे हैं, गांव के एक-एक घर की मैपिंग करा रहे हैं। आज देशभर में गांव के घरों के प्रॉपर्टी कार्ड लोगों को दिए जा रहे हैं। दो करोड़ से अधिक प्रॉपर्टी कार्ड सरकार ने बांटे हैं और ये काम लगातार चल रहा है। प्रॉपर्टी कार्ड ना होने के कारण पहले गांवों में बहुत सारे विवाद भी होते थे, लोगों को अदालतों के चक्कर लगाने पड़ते थे, ये सब भी अब खत्म हुआ है। इन प्रॉपर्टी कार्ड्स पर अब गांव के लोगों को बैंकों से लोन मिल रहे हैं, इससे गांव के लोग अपना व्यवसाय शुरू कर रहे हैं, स्वरोजगार कर रहे हैं। अभी मैं एक दिन ये स्वामित्व योजना के तहत वीडियो कॉन्फ्रेंस पर उसके लाभार्थियों से बात कर रहा था, मुझे राजस्थान की एक बहन मिली, उसने कहा कि मैंने मेरा प्रॉपर्टी कार्ड मिलने के बाद मैंने 9 लाख रुपये का लोन लिया गांव में और बोली मैंने बिजनेस शुरू किया और मैं आधा लोन वापस कर चुकी हूं और अब मुझे पूरा लोन वापस करने में समय नहीं लगेगा और मुझे अधिक लोन की संभावना बन गई है कितना कॉन्फिडेंस लेवल है।

साथियों,

ये जितने भी उदाहरण मैंने दिए हैं, इनका सबसे बड़ा बेनिफिशरी मेरे देश का नौजवान है। वो यूथ, जो विकसित भारत का सबसे बड़ा स्टेकहोल्डर है। जो यूथ, आज के भारत का X-Factor है। इस X का अर्थ है, Experimentation Excellence और Expansion, Experimentation यानि हमारे युवाओं ने पुराने तौर तरीकों से आगे बढ़कर नए रास्ते बनाए हैं। Excellence यानी नौजवानों ने Global Benchmark सेट किए हैं। और Expansion यानी इनोवेशन को हमारे य़ुवाओं ने 140 करोड़ देशवासियों के लिए स्केल-अप किया है। हमारा यूथ, देश की बड़ी समस्याओं का समाधान दे सकता है, लेकिन इस सामर्थ्य का सदुपयोग भी पहले नहीं किया गया। हैकाथॉन के ज़रिए युवा, देश की समस्याओं का समाधान भी दे सकते हैं, इसको लेकर पहले सरकारों ने सोचा तक नहीं। आज हम हर वर्ष स्मार्ट इंडिया हैकाथॉन आयोजित करते हैं। अभी तक 10 लाख युवा इसका हिस्सा बन चुके हैं, सरकार की अनेकों मिनिस्ट्रीज और डिपार्टमेंट ने गवर्नेंस से जुड़े कई प्रॉब्लम और उनके सामने रखें, समस्याएं बताई कि भई बताइये आप खोजिये क्या सॉल्यूशन हो सकता है। हैकाथॉन में हमारे युवाओं ने लगभग ढाई हज़ार सोल्यूशन डेवलप करके देश को दिए हैं। मुझे खुशी है कि आपने भी हैकाथॉन के इस कल्चर को आगे बढ़ाया है। और जिन नौजवानों ने विजय प्राप्त की है, मैं उन नौजवानों को बधाई देता हूं और मुझे खुशी है कि मुझे उन नौजवानों से मिलने का मौका मिला।

|

साथियों,

बीते 10 वर्षों में देश ने एक new age governance को फील किया है। बीते दशक में हमने, impact less administration को Impactful Governance में बदला है। आप जब फील्ड में जाते हैं, तो अक्सर लोग कहते हैं, कि हमें फलां सरकारी स्कीम का बेनिफिट पहली बार मिला। ऐसा नहीं है कि वो सरकारी स्कीम्स पहले नहीं थीं। स्कीम्स पहले भी थीं, लेकिन इस लेवल की last mile delivery पहली बार सुनिश्चित हो रही है। आप अक्सर पीएम आवास स्कीम के बेनिफिशरीज़ के इंटरव्यूज़ चलाते हैं। पहले कागज़ पर गरीबों के मकान सेंक्शन होते थे। आज हम जमीन पर गरीबों के घर बनाते हैं। पहले मकान बनाने की पूरी प्रक्रिया, govt driven होती थी। कैसा मकान बनेगा, कौन सा सामान लगेगा, ये सरकार ही तय करती थी। हमने इसको owner driven बनाया। सरकार, लाभार्थी के अकाउंट में पैसा डालती है, बाकी कैसा घर बनेगा, ये लाभार्थी खुद डिसाइड करता है। और घर के डिजाइन के लिए भी हमने देशभर में कंपीटिशन किया, घरों के मॉडल सामने रखे, डिजाइन के लिए भी लोगों को जोड़ा, जनभागीदारी से चीज़ें तय कीं। इससे घरों की क्वालिटी भी अच्छी हुई है और घर तेज़ गति से कंप्लीट भी होने लगे हैं। पहले ईंट-पत्थर जोड़कर आधे-अधूरे मकान बनाकर दिए जाते थे, हमने गरीब को उसके सपनों का घर बनाकर दिया है। इन घरों में नल से जल आता है, उज्ज्वला योजना का गैस कनेक्शन होता है, सौभाग्य योजना का बिजली कनेक्शन होता है, हमने सिर्फ चार दीवारें खड़ी नहीं कीं है, हमने उन घरों में ज़िंदगी खड़ी की है।

साथियों,

किसी भी देश के विकास के लिए बहुत जरूरी पक्ष है उस देश की सुरक्षा, नेशनल सिक्योरिटी। बीते दशक में हमने सिक्योरिटी पर भी बहुत अधिक काम किया है। आप याद करिए, पहले टीवी पर अक्सर, सीरियल बम ब्लास्ट की ब्रेकिंग न्यूज चला करती थी, स्लीपर सेल्स के नेटवर्क पर स्पेशल प्रोग्राम हुआ करते थे। आज ये सब, टीवी स्क्रीन और भारत की ज़मीन दोनों जगह से गायब हो चुका है। वरना पहले आप ट्रेन में जाते थे, हवाई अड्डे पर जाते थे, लावारिस कोई बैग पड़ा है तो छूना मत ऐसी सूचनाएं आती थी, आज वो जो 18-20 साल के नौजवान हैं, उन्होंने वो सूचना सुनी नहीं होगी। आज देश में नक्सलवाद भी अंतिम सांसें गिन रहा है। पहले जहां सौ से अधिक जिले, नक्सलवाद की चपेट में थे, आज ये दो दर्जन से भी कम जिलों में ही सीमित रह गया है। ये तभी संभव हुआ, जब हमने nation first की भावना से काम किया। हमने इन क्षेत्रों में Governance को Grassroot Level तक पहुंचाया। देखते ही देखते इन जिलों मे हज़ारों किलोमीटर लंबी सड़कें बनीं, स्कूल-अस्पताल बने, 4G मोबाइल नेटवर्क पहुंचा और परिणाम आज देश देख रहा है।

साथियों,

सरकार के निर्णायक फैसलों से आज नक्सलवाद जंगल से तो साफ हो रहा है, लेकिन अब वो Urban सेंटर्स में पैर पसार रहा है। Urban नक्सलियों ने अपना जाल इतनी तेज़ी से फैलाया है कि जो राजनीतिक दल, अर्बन नक्सल के विरोधी थे, जिनकी विचारधारा कभी गांधी जी से प्रेरित थी, जो भारत की ज़ड़ों से जुड़ी थी, ऐसे राजनीतिक दलों में आज Urban नक्सल पैठ जमा चुके हैं। आज वहां Urban नक्सलियों की आवाज, उनकी ही भाषा सुनाई देती है। इसी से हम समझ सकते हैं कि इनकी जड़ें कितनी गहरी हैं। हमें याद रखना है कि Urban नक्सली, भारत के विकास और हमारी विरासत, इन दोनों के घोर विरोधी हैं। वैसे अर्नब ने भी Urban नक्सलियों को एक्सपोज करने का जिम्मा उठाया हुआ है। विकसित भारत के लिए विकास भी ज़रूरी है और विरासत को मज़बूत करना भी आवश्यक है। और इसलिए हमें Urban नक्सलियों से सावधान रहना है।

साथियों,

आज का भारत, हर चुनौती से टकराते हुए नई ऊंचाइयों को छू रहा है। मुझे भरोसा है कि रिपब्लिक टीवी नेटवर्क के आप सभी लोग हमेशा नेशन फर्स्ट के भाव से पत्रकारिता को नया आयाम देते रहेंगे। आप विकसित भारत की एस्पिरेशन को अपनी पत्रकारिता से catalyse करते रहें, इसी विश्वास के साथ, आप सभी का बहुत-बहुत आभार, बहुत-बहुत शुभकामनाएं।

धन्यवाद!