میں تمام ممالک کے معززین کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں، اور اس دو روزہ سربراہی اجلاس میں آپ نے اس شعبے سے متعلق بہت سے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ایک طرح سے شہری ہوا بازی کے شعبے میں روشن دماغ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جو ہم سب کے عزم اور ایشیا پیسفک خطے کی صلاحیت دونوں کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اس تنظیم کے 80 سال کا سفر مکمل ہو چکا ہے، اور 80 ہزار درخت لگانے کی ایک بڑی پہل اور وہ بھی ماں کے نام پر، ہمارے وزیر جناب نائیڈو جی کی رہنمائی اور قیادت میں کی گئی۔ لیکن میں آپ کی توجہ ایک اور موضوع کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا، ہمارے ملک میں جب کوئی شخص 80 سال کا ہو جاتا ہے تو یہ جشن منانے کا الگ ہی انداز ہوتا ہے۔ اور ہمارے بزرگوں نے جو کچھ بھی شمار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی 80 سال کا ہو جاتا ہے تو اسےایک ہزار پورے چاند دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعبے میں ہماری تنظیم نے ایک ہزار پورے چاند بھی دیکھے ہیں اور ایک طرح سے اسے پرواز کرکے قریب سے دیکھنے کا تجربہ بھی حاصل کیا ہے۔ لہٰذا اس زمینی لہر میں بھی 80 سال کا یہ سفر ایک یادگار سفر ہے، ایک کامیاب سفر مبارکباد کے لائق ہے۔

 

ساتھیوں،

اس ترقی میں شہری ہوا بازی  کا بڑا کردار ہے۔ ہمارا ہوا بازی کا شعبہ ان شعبوں میں سے ایک ہے جو ہندوستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بن گیا ہے۔ ہم اس شعبے کے ذریعے لوگوں، ثقافت اور خوشحالی کو جوڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ 4 بلین افراد، تیزی سے بڑھتا ہوا متوسط ​​طبقہ اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مانگ، اس شعبے کی ترقی کے لیے ایک بڑا محرک ہے۔ ہم اس خطے میں مواقع کا نیٹ ورک بنانے کے مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ایک ایسا نیٹ ورک جو معاشی ترقی کو آگے بڑھائے گا،جدت کو فروغ دے گا،امن اور خوشحالی کو مضبوط کرے گا۔ ہوا بازی کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہمارا مشترکہ عزم ہے۔ یہاں آپ سب نے شہری ہوا بازی سے متعلق مواقع پر سنجیدگی سے غورو خوض کیا ہے۔ آپ سب کی کوششوں سے آج دہلی اعلامیہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ اعلان علاقائی رابطے، اختراع اور ہوا بازی میں پائیدار ترقی کے لیے ہمارے عزم کو مزید تقویت دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہر نکتے پر فوری عمل کیا جائے گا۔ ہم اس اعلان کو زمین پر نافذ کرنے میں کامیاب ہوں گے اور اجتماعی طاقت سے ہم نئی بلندیوں کو عبور کریں گے۔ ایشیا پیسفک ریجن نے ہمیں ایوی ایشن کنیکٹیویٹی بڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے اور ہم سب کے درمیان علم، مہارت اور وسائل کو مشترک کرنے سے شاید ہماری طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔ ہمیں انفراسٹرکچر میں مزید سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہوگی اور وہ بھی تمام متعلقہ ممالک میں فطری ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن بات صرف انفراسٹرکچر کی نہیں ہے، ہنر مند افرادی قوت اور اپ گریڈ ٹیکنالوجی کا یہ مسلسل عمل اس کی ترقی کے لیے اہم ہے اور میرے خیال میں یہ بھی ہماری دوسری قسم کی سرمایہ کاری ہوگی۔ ہمارا مقصد ہوائی سفر کو عام شہری تک لے جانا ہے۔ ہمیں ہوائی سفر کو محفوظ، سستا اور سب کے لیے قابل رسائی بنانا ہے۔ اور اس کے لیے مجھے یقین ہے کہ ہمارا اور ہماری اجتماعی کوششوں کا یہ اعلان اور اتنے طویل عرصے کا ہمارا تجربہ ہمارے لیے بہت کام آئے گا۔

 

دوستوں،

آج میں یہاں ہندوستان کے بارے میں اپنا تجربہ آپ کے ساتھ مشترک کرنا چاہوں گا۔ آج ہندوستان دنیا کے اعلیٰ شہری ہوابازی کے ماحولیاتی نظام کا ایک مضبوط ستون بنا ہوا ہے۔یہاں شہری ہوا بازی کے شعبے کی ترقی بے مثال ہے۔ ہندوستان نے صرف ایک دہائی میں بہت بڑی تبدیلی دکھائی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران، ہندوستان  ایوی ایشن  ایکسکلوسیو سےایوی ایشن انکلوسیووالا ملک بن گیا ہے۔کیونکہ ایک وقت تھا ہندوستان میں ہوائی سفر صرف چند لوگوں کے لیے مخصوص تھا۔ کچھ بڑے شہروں میں اچھا ہوائی رابطہ تھا۔ کچھ بڑے لوگوں نے مسلسل ہوائی سفر کا فائدہ اٹھایا۔ کمزور اور متوسط ​​طبقے کو کبھی کبھی مجبوری میں سفر کرنا پڑتا تو وہ سفر کرتے تھے لیکن ان کی زندگی میں یہ معمول نہیں تھا۔ لیکن آج ہندوستان کے حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ آج ہمارے 2 -ٹائراور3 -ٹائر شہروں کے شہری بھی وہاں سے پرواز کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے بہت سے اقدامات کیے ہیں، پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں اور نظام تیار کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہندوستان کی اڑان اسکیم کا ضرور مطالعہ کریں گے، علاقائی رابطے کی اس شاندار اسکیم نے ہندوستان میں ہوا بازی کو شامل کیا ہے۔ یہ اسکیم ہندوستان کے چھوٹے شہروں اور نچلے متوسط ​​طبقے تک ہوائی سفر لے گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت اب تک 14 ملین مسافر سفر کر چکے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پہلی بار ہوائی جہاز کو اندر سے دیکھا ہے۔اڑان اسکیم کے ذریعہ پیدا ہونے والی مانگ کی وجہ سے کئی چھوٹے شہروں میں نئے ہوائی اڈے بنائے گئے ہیں اور سینکڑوں نئے راستے بنائے گئے ہیں۔ آپ جان کر حیران ہوں گے اور جیسا کہ نائیڈو جی نے بتایا، 10 سالوں میں ہندوستان میں ہوائی اڈوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ہم دوسرے کاموں میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف ہم چھوٹے شہروں میں ہوائی اڈے بنا رہے ہیں تو دوسری طرف بڑے شہروں کے ہوائی اڈوں کو مزید جدید بنانے کی طرف تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

 

مستقبل میں ہندوستان ہوائی رابطے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ  کنیکٹیڈ خطوں میں سے ایک ہونے والا ہے۔ ہماری ایئر لائنز کو بھی اس کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی فضائی کمپنیوں نے 12 سو سے زائد نئے طیاروں کا آرڈر دیا ہے۔ سول ایوی ایشن کی ترقی صرف طیاروں اور ہوائی اڈوں تک محدود نہیں ہے۔ ہوابازی کا شعبہ بھی ہندوستان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی حوصلہ  افزائی کررہا ہے۔ ہنر مند پائلٹ، عملے کے ارکان، انجینئر جیسی کئی نوکریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ بحالی کی مرمت اور مجموعی طور پر ایم آر او خدمات کو مضبوط بنانے کے لیے، ہم فیصلہ لینے کے بعد اس سمت میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اعلیٰ ہنر مند ملازمتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہندوستان اس دہائی کے آخر تک ہوا بازی کا ایک اہم مرکز بننے کے مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ جہاں 4 ارب ڈالر کی صرف ایم آر او انڈسٹری ہوگی، اس کے لیے ہم نے ایم آر او پالیسیاں بھی بنائی ہیں۔2-ٹائر اور3-ٹائر شہروں میں فضائی رابطے کے ساتھ، ہندوستان کے سینکڑوں نئے شہر ترقی کے نئے مراکز بن جائیں گے۔

آپ سب ملٹی پورٹ جیسی اختراعات سے بھی واقف ہیں۔ یہ ہوائی نقل و حمل کا ایک ماڈل ہے جس نے شہروں میں سفر کی آسانی کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ ہم ہندوستان کو جدید فضائی نقل و حرکت کے لیے بھی تیار کر رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ایئر ٹیکسی میں سفر کرنا ایک حقیقت بن جائے گا، اور عام ہونے کا بھی امکان ہے۔ خواتین کی قیادت میں ترقی ہمارا عزم ہے، اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ جی-20 سربراہ اجلاس میں لیے گئے اہم فیصلوں میں سے ایک ،خواتین کی قیادت میں ترقی سے متعلق تھا۔ ہمارا ہوا بازی کا شعبہ خواتین کی قیادت میں ترقی کے ہمارے مشن میں بہت مدد کر رہا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً 15فیصد پائلٹ خواتین ہیں۔ اور یہ عالمی اوسط صرف 5فیصد ہے، جب کہ ہندوستان کا 15فیصد ہے۔ بھارت نے اس شعبے کو مزید خواتین دوست بنانے کے لیے ضروری ایڈوائزری  بھی جاری کی ہے ۔ خواتین کے لیے کام کی طرف واپسی کی پالیسیاں بھی ہیں، ہم نے خواتین کے لیے خصوصی قیادت اور رہنمائی کے پروگراموں پر بھی زور دیا ہے۔

 

ہندوستان نے دیہی علاقوں میں خاص طور پر زراعت کے شعبے میں ڈرون کا ایک بہت ہی پرجوش منصوبہ شروع کیا ہے۔ ہم نے گاؤں سے گاؤں ڈرون دیدی مہم سے تربیت یافتہ ڈرون پائلٹس کا ایک پول بنایا ہے۔ ہندوستان کے ہوا بازی کے شعبے کی ایک نئی اور منفرد خصوصیت ڈیجی یاتراانیشیٹو ہے ، یہ سہل اور ہموار ہوائی سفر کے لیے ایک ڈیجیٹل حل ہے۔ اس میں چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال مسافر کو ایئرپورٹ پر مختلف چیک پوائنٹس سے آزاد کراتا ہے اور اس کا وقت بچاتا ہے۔ ڈیجی یاترا نہ صرف موثر اور آسان ہے بلکہ اس میں سفر کے مستقبل کی جھلک بھی ہے۔ ہمارا خطہ بھرپور تاریخ، روایت اور تنوع کا حامل ہے، کیونکہ ہم ہزاروں سال پرانے ثقافتی ورثے سے مالا مال ہیں، ہم عظیم روایات سے مالا مال ہیں۔ ہماری ثقافت اور روایات ہزاروں سال پرانی ہیں۔ ایسی وجوہات کی بنا پر دنیا ہم تمام ممالک کی طرف متوجہ ہے۔ ہمیں سیاحت کو بڑھانے میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ کئی ممالک میں بھگوان بدھ کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندوستان نے بدھ مت سرکٹ تیار کیا ہے۔ کشی نگر میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی بنایا گیا ہے۔ اگر ہم پورے ایشیا میں بھگوان بدھ سے منسلک یاتریوں کو جوڑنے کے لیے ایک مہم چلاتے ہیں، تو ہمارے پاس ہوا بازی کے شعبے کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ بہت سے ممالک کے لیے اور عام طور پر مسافروں کے لیے ایک جیت کی صورت حال کا ماڈل ہوگا۔ اور ہمیں اس سمت میں بھی کوششیں کرنی چاہئیں۔ اور اگر ہم ایسے مسافروں کو ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے کے لیے اسی قسم کا جامع ماڈل تیار کرتے ہیں، تو تمام متعلقہ ممالک کو خصوصی فوائد حاصل ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بین الاقوامی بدھسٹ سرکٹ بناتے ہیں تو اس سے تمام متعلقہ ممالک کے مسافروں اور معیشتوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ ایشیا پیسفک کے ممالک ایک اور شعبے میں تعاون بڑھا سکتے ہیں۔

 

ایشیا پیسیفک خطہ بھی ایک کاروباری مرکز بن رہا ہے۔ دنیا کے ایگزیکٹوز یا ملازمین بڑی تعداد میں اس خطے میں آتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ جس طرح کچھ لوگوں نے اس علاقے میں اپنے دفاتر قائم کر لیے ہیں، ان کی  فریکوئنٹ  فائرمیں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کون سے عام راستے ہیں جن پر یہ پیشہ ور سفر کرتے ہیں اور اکثر آتے ہیں؟ کیا ہم، ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ، اس ایک انتظام کو پورا کرنے کے لیے اپنے راستوں کو دوبارہ روٹ کر سکتے ہیں؟ اور کیا ہم اسے آسان بنا سکتے ہیں؟ میں چاہوں گا کہ آپ سب اس سمت میں بھی کام کریں، کیونکہ اس شعبے کی ترقی یقینی ہے اور جیسے جیسے پیشہ ور افراد کے لیے سہولیات بڑھیں گی، کام کی رفتار بھی بڑھے گی۔ ہم انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن اور شکاگو کنونشن کی 18ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ پھر ہمیں ایک رہائشی اور جامع ہوا بازی کے شعبے سے اپنی وابستگی کی تجدید کرنی ہوگی۔ میں سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق آپ کے خدشات سے بھی واقف ہوں۔ اگر ٹیکنالوجی کے ساتھ چیلنجز ہیں تو ٹیکنالوجی کے ساتھ حل بھی آتے ہیں۔ ہمیں بین الاقوامی تعاون کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ ٹیکنالوجی اور معلومات کا اشتراک کرنا ہوگا، تب ہی ہم ان نظاموں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ دہلی کانفرنس اتحاد اور مشترکہ مقصد کے ساتھ آگے بڑھنے کے ہمارے عزم کو مضبوط کرے گی۔ آئیے ایک ایسے مستقبل کے لیے کام کریں جہاں آسمان سب کے لیے کھلا ہو، جہاں دنیا کے ہر فرد کا اڑنے کا خواب پورا ہو۔ میں ایک بار پھر تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس اہم سربراہ اجلاس کے لیے آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi

Media Coverage

Waqf Law Has No Place In The Constitution, Says PM Modi
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.