وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج دہلی کے ہوٹل تاج پیلس میں اکنامک ٹائمز کی عالمی تجارتی کانفرنس سے خطاب کیا۔
وزیر اعظم نے اجتماع سے اپنے خطاب میں ان تبدیلیوں کا ادراک کیا جو تین سال قبل اکنامک ٹائمز کی عالمی تجارتی کانفرنس میں ان کی آخری حاضری کے بعد سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آخری سربراہی اجلاس کے صرف تین دن بعد صحت کی عالمی تنظیم نے کوویڈ کو ایک عالمی وبا قرار دیا تھا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سیاق و سباق نے ’اینٹی فریجائل‘ کے تصور پر بحث یعنی ایک ایسے نظام کو وجود بخشا جو نہ صرف مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے لیس ہے بلکہ درپیش مشکلات کا استعمال کرتے ہوئے مضبوط ہوتا ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی فریجائل کا تصور ان کے ذہن میں 140 کروڑ ہندوستانیوں کے اجتماعی عزم کی وجہ سے آیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ اور قدرتی آفات کے ان تین برسوں کے دوران ہندوستان اور ہندوستانیوں نے زبردست عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہندوستان نے دنیا کو دکھایا ہے کہ ضد شکستہ ہونے کا مطلب کیا ہے۔ جہاں پہلے فریجائل فائیو کا چرچا ہوا کرتا تھا، اب ہندوستان کی شناخت اینٹی فریجائل سے کی جارہی ہے۔ ہندوستان نے دنیا کو دکھایا ہے کہ کس طرح آفات کو مواقع میں بدلتے ہیں۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ 100 برسوں کے سب سے بڑے بحران کے دوران ہندوستان کی طرف سے دکھائی گئی صلاحیت کا مطالعہ کرکے 100 سال بعد انسانیت بھی اپنے آپ پر فخر کرے گی۔
اس سال کے سربراہی اجلاس کے تھیم ’’کاروبار کا دوبارہ تصور کریں، دنیا کا دوبارہ تصور کریں‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ جب ملک نے 2014 میں موجودہ حکومت کو خدمت کا موقع دیا تو کس طرح دوبارہ تصور عمل میں آیا۔ انہوں نے گھپلوں کی وجہ سے ملک کی ساکھ کے لیے آنے والے مشکل وقتوں، کرپشن کی وجہ سے غریبوں کا محروم ہونا، خاندان کی قربان گاہ پر نوجوانوں کے مفادات کی قربانی، اور اقربا پروری اور پالیسی فالج کے منصوبوں میں تاخیر کو یاد کیا۔ اسی لیے ہم نے حکمرانی کے ہر ایک عنصر کو دوبارہ تصور کرنے، دوبارہ سامنے لانے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے دوبارہ سوچا کہ حکومت کس طرح غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے فلاح و بہبود کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ہم نے دوبارہ تصور کیا کہ حکومت کس طرح زیادہ موثر طریقے سے انفراسٹرکچر بنا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے دوبارہ سوچا کہ حکومت کا ملک کے شہریوں کے ساتھ کس قسم کا رشتہ ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم نے فلاح و بہبود کی فراہمی کا از سر نو تصور کرنے کی وضاحت کی اور بینک کھاتوں، قرضوں، مکانات، جائیداد کے حقوق، بیت الخلا، بجلی اور صاف کھانا پکانے کے ایندھن کی فراہمی کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ کا رُخ غریبوں کو بااختیار بنانے کی طرف تھا تاکہ وہ اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ ملک کی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ براہ راست بینیفٹ ٹرانسفر کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے سابق وزیر اعظم جناب راجیو گاندھی کے لیکیج پر ریمارک کو یاد کیا کہ ایک روپے میں سے 15 پیسے مطلوبہ مستفیدین تک پہنچے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے اب تک مختلف اسکیموں کے تحت ڈی بی ٹی کے ذریعے 28 لاکھ کروڑ روپے منتقل کیے ہیں۔ اگر راجیو گاندھی کا بیان آج بھی سچ ہوتا تو اس کا 85 فیصدیعنی 24 لاکھ کروڑ روپے لُٹ چکے ہوتے۔ لیکن آج یہ غریبوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ نہرو جی بھی جانتے تھے کہ جب ہر ہندوستانی کے پاس بیت الخلا کی سہولت ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان ترقی کی نئی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔
جناب مودی نے کہا کہ 2014 کے بعد دیہی علاقوں میں 40 فیصد سے کم سے 100 فیصد تک صفائی کا احاطہ کرتے ہوئے 10 کروڑ بیت الخلا بنائے گئے۔
خواہش مند اضلاع کی مثالیں دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2014 میں 100 سے زیادہ اضلاع بہت پسماندہ تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے پسماندگی کے اس تصور کو دوبارہ تصور کیا اور ان اضلاع کو خواہش مند اضلاع بنایا۔ وزیر اعظم نے کئی مثالیں دیں جیسے کہ یوپی کے خواہش مند ضلع فتح پور میں ادارہ جاتی ترسیل 47 فیصد سے بڑھ کر 91 فیصد ہو گئی ہے۔ مدھیہ پردیش کے خواہش مند ضلع بروانی میں مکمل حفاظتی ٹیکے لگوانے والے بچوں کی تعداد اب 40 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصد ہو گئی ہے۔ مہاراشٹر کے خواہش مند ضلع واشیم میں 2015 میں ٹی بی کے علاج کی کامیابی کی شرح 48 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 90 فیصد ہوگئی ہے۔ اب براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی والی گرام پنچایتوں کی تعداد کرناٹک کے یادگیر ضلع میں 20 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایسے بہت سے پیمانے ہیں جن میں امنگوں بھرے اضلاع کی کوریج پورے ملک کی اوسط سے بہتر ہو رہی ہے۔ صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ 2014 میں صرف 3 کروڑ نل کے کنکشن تھے۔ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں 8 کروڑ نئے نل کنکشن جوڑے گئے ہیں۔
اسی طرح انفراسٹرکچر میں سیاسی خواہشات کو ملکی ضروریات پر فوقیت دی گئی اور انفراسٹرکچر کی طاقت کو سراہا نہیں گیا۔ ہم نے بنیادی ڈھانچے کو الگ الگ دیکھنے کی مشق کو روک دیا اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ایک عظیم حکمت عملی کے طور پر دوبارہ تصور کیا۔ آج ہندوستان میں 38 کلومیٹر فی دن کی رفتار سے ہائی ویز بن رہی ہیں اور روزانہ 5 کلومیٹر سے زیادہ ریل لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔ ہماری بندرگاہ کی گنجائش آنے والے 2 برسوں میں 3000 ایم ٹی پی اے تک پہنچنے والی ہے۔ 2014 کے مقابلے میں آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 74 سے بڑھ کر 147 ہو گئی ہے۔ ان 9 سالوں میں تقریباً 3.5 لاکھ کلومیٹر دیہی سڑکیں اور 80 ہزار کلومیٹر قومی شاہراہیں بنی ہیں۔ ان 9 برسوں میں 3 کروڑ غریبوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان میں میٹرو کی مہارت 1984 سے تھی لیکن 2014 تک ہر ماہ صرف آدھا کلومیٹر میٹرو لائن بچھائی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ماہانہ 6 کلومیٹر تک بڑھ گیا ہے۔ آج ہندوستان میٹرو روٹ کی لمبائی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے اور جلد ہی ہندوستان تیسرے نمبر پر آ جائے گا۔
پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان نہ صرف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو آگے بڑھا رہا ہے بلکہ علاقے کی ترقی اور لوگوں کی ترقی پر بھی زور دے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے گتی شکتی پلیٹ فارم پر دستیاب انفراسٹرکچر میپنگ کی 1600 سے زیادہ ڈیٹا لیئرز کو اجاگر کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ہندوستان کے ایکسپریس ویزیا دیگر انفراسٹرکچر کو بھی اے ون سے جوڑا گیا ہے تاکہ مختصر اور موثر ترین راستے کا فیصلہ کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آبادی کی کثافت اور کسی ایک علاقے میں اسکولوں کی دستیابی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹکنالوجی کے استعمال سے اسکولوں کو ان علاقوں میں تعمیر کیا جاسکتا ہے جہاں ضرورت ہو۔ انہیں مطالبات یا سیاسی بنیادوں پر الاٹ نہیں کیا جائے۔
ہندوستان کے ہوا بازی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کا از سر نو تصور کرنے پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ اس سے قبل فضائی حدود کا ایک بڑا حصہ دفاع کے لیے محدود تھا جس کی وجہ سے ہوائی جہازوں کو اپنی منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا تھا۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ حکومت مسلح افواج کے ساتھ مصروف عمل ہے جس کے نتیجے میں آج سویلین طیاروں کی نقل و حرکت کے لیے128 فضائی راستے کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے پرواز کے راستے چھوٹے ہو گئے جس سے وقت اور ایندھن دونوں کی بچت ہورہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے سے تقریباً 1 لاکھ ٹن کو2 کے اخراج میں بھی کمی آئی ہے۔
وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان نے جسمانی اور سماجی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا ایک نیا ماڈل دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جہاں ہندوستان کا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اس کی ایک مشترکہ مثال ہے۔ گزشتہ 9 برسوں میں حاصل کردہ کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم نے بتایا کہ ملک میں 6 لاکھ کلومیٹر سے زائد آپٹیکل فائبر بچھایا جا چکا ہے۔ موبائل مینوفیکچرنگیونٹس کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ملک میں انٹرنیٹ ڈیٹا کی شرح 25 گنا کم ہوئی ہے، جو دنیا میں سب سے سستی ہے۔ انہوں نے 2012 میں عالمی موبائل ڈیٹا ٹریفکمیں ہندوستان کے 2 فیصد شراکت کو نوٹ کیا، اس کے مقابلے میں مغربی مارکیٹ کا حصہ 75 فیصد تھا۔ لیکن 2022 میں ندوستان کے پاس عالمی موبائل ڈیٹا ٹریفک کا 21 فی صد حصہ رہا۔ جبکہ شمالی امریکہ اور یورپ صرف ایک چوتھائی حصہ تک محدود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیاکی 40 فیصد رئیل ٹائم ڈیجیٹل ادائیگیاں ہندوستان میں ہوتی ہیں۔
ماضی کی حکومتوں کے مروجہ 'مائی باپ' کلچر کا مشاہدہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ حکمرانی کرنے والوں نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کے ساتھ آقا جیسا برتاؤ کیا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اسے ’پریوار واد‘ اور ’بھائی بھتیجاواد‘ (اقربا پروری) سے الجھنا نہیں ہے۔ اُس وقت کے عجیب و غریب ماحول پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ صورتحال ایسی تھی کہ حکومت اپنے شہریوں کو خواہ وہ کچھ بھی کریں، شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو کچھ بھی کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا پڑتی تھی۔
وزیر اعظم نے نشاندہی کی کہ اس سے حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد اور شکوک کی فضا پیدا ہوئی۔ انہوں نے اس موقع پر موجود سینئر صحافیوں کو ان قابل تجدید لائسنسوں کے بارے میںیاد دلایا جو ٹی وی اور ریڈیویا کسی اور شعبے کو چلانے کے لیے درکار ہوا کرتے تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگرچہ نوے کی دہائی کی پرانی غلطیوں کو مجبوری کی وجہ سے سدھار لیا گیا لیکن پرانی ’مائی باپ‘ والی ذہنیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ 2014 کے بعد 'گورنمنٹ فرسٹ' ذہنیت کو 'عوام پہلے' نقطہ نظر کے طور پر دوبارہ تصور کیا گیا اور حکومت نے اپنے شہریوں پر اعتماد کرنے کے اصول پر کام کیا۔ وزیر اعظم نے اپنی شناخت خود تصدیق کرنے، نچلے درجے کی ملازمتوں سے انٹرویو کو ختم کرنے، چھوٹے معاشی جرائم کو غیر مجرمانہ قرار دینے، جن وشواس بل لانے، ضمانت سے پاک مدرا قرضوں اور حکومت کی جانب سے بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے ضامن بننے کی مثالیں دیں اور کہا کہ ہر پروگرام اور پالیسی میں لوگوں پر بھروسہ کرنا ہمارا منتر رہا۔
ٹیکس کی وصولی کی مثال پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کی مجموعی ٹیکس آمدنی 2014-2013 میں تقریباً 11 لاکھ کروڑ روپے تھی، لیکن 2024-2023 میں یہ 33 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے۔ وزیراعظم نے مجموعی ٹیکس محصولات میں اضافے کا سہرا ٹیکسوں میں کمی کو دیتے ہوئے کہا کہ 9 سال میں مجموعی ٹیکس آمدنی میں 3 گنا اضافہ ہوا اور یہ اس وقت ہوا جب ہم نے ٹیکس کی شرح میں کمی کی۔ وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ ٹیکس دہندگان اس وقت ترغیب پاتے کرتے ہیں جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ادا کردہ ٹیکس موثر طریقے سے خرچ کیا جا رہا ہے اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ لوگ آپ پر بھروسہ کرتے ہیں جب آپ ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انہوں نے بے چہرہ تشخیص پر بھی توجہ دی جہاں عمل کو آسان بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ پہلے انکم ٹیکس گوشواروں کی اوسطاً 90 دنوں میں کارروائی کی جاتی تھی وزیر اعظم نے بتایا کہ محکمہ انکم ٹیکس نے اس سال 6.5 کروڑ سے زائد گوشواروں پر کارروائی کی ہے جہاں 3 کروڑ ریٹرن 24 گھنٹوں میں پروسیس کیے گئے اور چند دنوں میں رقم واپس کر دی گئی۔ .
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کی خوشحالی دنیا کی خوشحالی ہے اور ہندوستان کی ترقی دنیا کی ترقی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جی-20 کے لیے ایک دنیا، ایک خاندان، ایک مستقبل کا موضوع دنیا کے بہت سے چیلنجوں کے حل پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ قراردادیں لے کر آگے بڑھنے اور سب کے مفادات کے تحفظ سے ہی دنیا بہتر بن سکتی ہے۔ یہ دہائی اور اگلے 25 سال ہندوستان میں بے مثال اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ خطبے کے اختتام پر وزیر اعظم نے کہتے ہوئے کہ ہندوستان کے نشانے صرف 'سب کا پریاس' (سب کی کوششوں) سے تیزی سے پورے کیے جاسکتے ہیں ہر موجود شخص سے ہندوستان کے ترقی کے سفر میں زیادہ سے زیادہ شامل ہونے کی اپیل کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب آپ ہندوستان کی ترقی کے سفر کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں تو ہندوستان آپ کو ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔
इन तीन वर्षों में पूरा विश्व बदल गया है, वैश्विक व्यवस्थाएं बदल गई हैं और भारत भी बदल गया है। pic.twitter.com/TqI0bp3eMe
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
भारत ने दुनिया को दिखाया है कि anti-fragile होने का असली मतलब क्या है। pic.twitter.com/MFo0iird8s
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
भारत ने दुनिया को दिखाया है कि आपदा को अवसरों में कैसे बदला जाता है। pic.twitter.com/lbPhux4UGT
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
हमने तय किया कि governance के हर single element को Reimagine करेंगे, Re-invent करेंगे। pic.twitter.com/fPPLjhc8de
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
हमारा focus गरीबों को empower करने पर है, ताकि वे देश की तेज़ growth में अपने पूरे potential के साथ contribute कर सकें। pic.twitter.com/yDwcHRirZu
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
वर्ष 2014 में देश में 100 से ज्यादा ऐसे districts थे जिन्हें बहुत ही backward माना जाता था।
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
हमने backward के इस concept को reimagine किया और इन जिलों को Aspirational districts बनाया। pic.twitter.com/2OntMP10Cv
हमने infrastructure के निर्माण को एक grand strategy के रूप में reimagine किया। pic.twitter.com/zyzVOjdOIk
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
आज भारत ने Physical औऱ Social Infrastructure के डवलपमेंट का एक नया मॉडल पूरे विश्व के सामने रखा है। pic.twitter.com/PCDPB4pb82
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023
हमने नागरिकों पर Trust के principle पर काम किया। pic.twitter.com/K8OEu06J9R
— PMO India (@PMOIndia) February 17, 2023