بھارت نے ایک اہم مشن شروع کیا ہے یعنی ۰۰۰؍۱۸ دیہاتوں کو بجلی فراہم کر نے کامشن ۔ یہ دیہات آزادی کے تقریباً ۷ دہائیوں بعد بھی اندھیرے میں ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یو م آزادی کی اپنی تقریب میں اعلان کیا ہے کہ باقی بچے تمام گاؤں/دیہاتوں میں ۱۰۰۰ دن کے اندر اندر بجلی پہنچا دی جا ئے گی ۔ دیہاتوں میں بجلی پہنچانے کا کام تیز رفتاری سے کیا جا رہا ہے اور یہ انتہائی شفاف طریقے سے پورا کیا جا رہا ہے ۔ ایسے دیہاتوں کے بارے میں جن میں بجلی پہنچائی گئی ہے، اعداد و شمار موبائل ایپ کے ذریعے اور ایک ویب ڈیش بورڈ پر عوام کے لئے دستیاب ہیں ۔ اگرچہ ہم صرف دیہاتوں میں بجلی پہنچنے کا مشاہدہ کر تے ہیں لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ بجلی کے ساتھ ساتھ ان گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے لئے خوابوں کی تعبیر، ان کے جذبات اور ان کی زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش بھی ساتھ ہوتی ہے ۔
From the ramparts of the Red Fort last year, I had called for the electrification of all remaining villages in 1000 days (18,452 villages).
— Narendra Modi (@narendramodi) February 11, 2016
Happy to share that Team India has done exceedingly well. Within about 6 months only (around 200 days), we have crossed the 5000 mark.
— Narendra Modi (@narendramodi) February 11, 2016
Already 5279 villages have been electrified. Excellent work has been done by the Power Ministry in Bihar, UP, Odisha, Assam & Jharkhand.
— Narendra Modi (@narendramodi) February 11, 2016
Power Ministry shares real time updates on rural electrification. Their dashboard is worth a look. https://t.co/5BoqVm7hJA @PiyushGoyal
— Narendra Modi (@narendramodi) February 11, 2016
یہ بات بھلانا مشکل ہے کہ بھارت کی تاریخ میں بجلی کی سب سے بڑی کٹوتی جولائی ۲۰۱۲ میں ہو ئی تھی جس میں ۶۲ کروڑ لوگوں کو اندھیرے میں رہنا پڑا تھا۔اس اندھیرے نے ملک کو ایسے وقت میں اپنی لپیٹ میں لیا تھا جب کہ ۲۴۰۰۰ میگا واٹ بجلی پید ا کر نے کی صلاحیت کو ئلے اور گیس جیسے ایندھن کی کمی کی وجہ سے بیکار ہو گئی تھی ۔ پورا سیکٹر عدم سرگرمی اور پالیسی کے مفلوج ہونے کے ایک مسلسل چکر میں پھنس چکا تھا جس میں بجلی پید ا کر نے کی صلاحیت اور استعمال کے زمرے میں وسیع سرمایہ کاری کی گئی لیکن دوسری جا نب صارفین کو بجلی کی بڑی کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
جب این ڈی اے حکومت اقتدار میں آ ئی تو کو ئلے سے چلنے والے بجلی کے دو تہائی پلا نٹوں کے پاس (۱۰۰ کوئلہ پلانٹس میں ۶۶ کے پاس) کو ئلے کا ذخیرہ بہت کم یعنی سات دن سے بھی کم کے لئے رہ گیا تھا ۔ ایسی سنگین صورت حال سے ابھرتے ہو ئے آج ملک میں ایک بھی بجلی کا پلانٹ ایسا نہیں ہے جسے کو ئلے کے ذخیرہ میں کمی کا سامنا ہو ۔
سب کو بجلی فراہم کر نے کےلئے سخت محنت کر تے ہو ئے حکومت نے شفاف توانائی کو ایک ترجیح بنا یا ہے ۔ حکومت نے ۱۷۵ گیگا واٹ توانائی کو قابل تجدید توانائی کے وسائل سے حاصل کر نے کا نشانہ مقرر کیا ہے جس میں ۱۰۰ میگا واٹ شمسی توانائی شامل ہے ۔
نئی حکومت نے اس سیکٹر میں طویل مدتی ڈھا نچہ جاتی اور جا مع ترقی پر توجہ مرکوز کی ہے جس میں سبھی کے لئے ہفتے کے ساتوں دن ۲۴ گھنٹے بجلی کی فراہمی حاصل کرنا شامل ہے ۔ بجلی کے سیکٹر کی صحت تعداد میں اضافے کے ساتھ بہتر ہو ئی ہے ۔ صنعتی پیداوار کے عد د اشاریے، آئی آئی پی کے مطابق اکتوبر میں بجلی کی پیداوار میں ۹ فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ اپریل سے نومبر کے عرصے میں کول انڈیا لمیٹیڈ کی پیداوار میں ۹ فیصد کا اضافہ ہوا ۔ ۱۵–۲۰۱۴میں کول انڈیا لمیٹید کی کوئلے کی پیداوار پچھلے ۴ برسوں کی اجتماعی پیداوار سے زیا دہ ہو ئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں پچھلے سال نومبر میں کوئلے کی درآمد میں۴۹فیصد کی کمی آ ئی ۔ ۱۵–۲۰۱۴ کے دوران کو ئلے سے بجلی کی پیداوار میں ۱۲–۱۲فیصد کا اضافہ ہوا جو اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے ۔ قابل احترام سپریم کورٹ کے ذریعہ ۲۱۴ کو ئلہ بلاکوں کا الا ٹمنٹ منسوخ کئے جا نے سے پید ا ہونے والے بحران کو ای ۔ نیلامی (e-auction)کے ذریعہ ایک بہتر ین موقعہ فراہم کیا گیا اور یہ تمام ریا ستوں خاص طور پر مشرقی بھا رت کے کم ترقی یا فتہ ریاستوں کو اس کا فائدہ پہنچا۔
پچھلے سال۵۶۶؍۲۲ ایم۔ڈبلیو کی صلاحیت کا اضافہ ہوا جو اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ تھا ۔ بجلی کی مانگ نے عروج کے وقت کمی کوجو، ۹–۲۰۰۸میں ۹ء۱۱ فیصد تھی، ۲ء۳ تک پہنچایا جو سب سے کم ہے ۔رواں سال میں توانائی کا خسارہ بھی ، جو ۹۔۲۰۰۸میں ۱ء۱۱ فیصد تھا، وہ ۳ء۲رہ گیا ہے جو بھارت کی تاریخ میں سب سے کم ہے ۔
ٹرانسمشن کے محاذ پر بھی پہلے زیا دہ بجلی والی ریا ستوں سے کم بجلی والی ریا ستوں کو بجلی سپلائی کر نے میں بہت سی دشواریوں کا سا منا ہو تا تھا ۔ بعد میں جنو بی گرڈ کو جلد از جلد منظم کر نے کی کوششیں کی گئی تھیں تاکہ ایک ملک ایک گرڈ اور ایک فریکیونسی حاصل ہو سکے ۔ ۱۴۔۲۰۱۳میں دستیاب ٹرانسفر صلاحیت (اے۔ ٹی۔ سی) صرف ۳۴۵۰ایم ڈبلیو کی جو اس مہینے ۷۱ فیصد بڑھ کر ۵۹۰۰ ایم ڈبلیو ہو گئی ہے ۔
بجلی کے سیکٹر میں موجودہ، ماضی کی اور بنیا دی مستقبل کے مسا ئل کو حل کر نے کے لئے اودے (اجول ڈسکوم ایشو رینس یوجنا) شروع کی گئی ۔ اودے کو نچلی سطح سے چلنے والی ایک اسکیم کے طور پر فروغ دیا گیا جس میں اعلیٰ ترین سطح پر ریا ستوں (سی۔ ایم،چیف سکریٹری، پرنسپل سکریٹری، ڈسکوم ایم ڈی وغیرہ) بینکروں اور ریگولیٹروں وغیرہ کے ساتھ جا مع صلح مشورہ کیا گیا۔ اودے اسکیم ڈسکوم کے قرضوں کے مسئلے کو حل کر تے ہو ئے ڈسکومس کے لئے ایک پا ئیدار آپریشنل ترقی کی راہ ہموار کر تی ہے ۔ حکومت بھی بجلی کی لا گت کو کم کر نے کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے ۔امید ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام ڈسکوم ۱۹–۲۰۱۸ تک منا فع بخش ہو جا ئیں گی ۔ ادے اسکیم کے تحت بجٹ پر سختی سے پابندی / ڈسکوم کے معا ملات کامستقل حل فراہم کرتی ہے اور مشترکہ طریقہ کار کے ساتھ ڈسکوم کے معاملات حل کر تی ہے ۔ یہ صلاحیت میں اضافے اور بجلی کی لا گت میں کمی کے علاوہ ادے سیکٹر کے اصلاحات کی پچھلی کو ششوں سے علیحدہ کر تی ہے ۔
توانائی کے موثر استعمال سے شعبوں میں زبردست فروغ حاصل ہوا ہے اور ایل ای ڈی بلب کی قیمتیں ۷۵ فیصد سے زیادہ کم ہوئی ہیں اور ایک سال کے دوران ۴ کروڑ سے زیادہ ایل ای ڈی بلب تقسیم کئے گئے ہیں ۔ ہر ایک بلب کو ایل ای ڈی بلب میں تبدیل کر نے کا ہدف حاصل کر نے کے لئے ۲۰۱۸ تک ۷۷ کروڑ بلب تقسیم کئے جا نے کی ضرورت ہے ۔ گھروں اور سڑکوں پر ایل ای ڈی بلب لگا نے کے پروگرام سے بجلی کی ما نگ میں عروج کے وقت تقریباً ۲۲ جی۔ ڈبلیو کم کرنے اور سالانہ ۱۱۴۰۰ کروڑ یونٹ بجلی بچا نے کے ساتھ ساتھ ہر سال ۵ء۸ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آ کسائیڈ کا اخراج کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ۲۲ جی ڈبلیو صلاحیت کا قیام ایک اہم کا میا بی سمجھی جا سکتی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو ما حولیات کے تحفظ کی خاطر اس طرح کی سر مایہ کاری سے گریز کر نے کی ستائش کرنا ہے ۔