نئی دہلی،  14/مئی2021 ۔آپ سبھی کسان ساتھیوں سے یہ تبادلہ خیال اپنے آپ میں ایک نئی امید جگاتی ہے، نیا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ آج جیسا ابھی ہمارے وزیر موصوف جناب نریندر سنگھ تومر بتارہے تھے، آج بھگوان بسویشور جینتی ہے، پرشورام جینتی بھی ہے۔ آج اکشے ترتیا کا بھی مبارک تہوار ہے اور میری طرف سے اہل وطن کو عید کی بھی مبارک باد۔

کورونا کے اس دور میں سبھی اہل وطن کی حوصلہ افزائی ہو، اس وبا کو شکست دینے کا عزم مزید مضبوط ہو، اس دعا کے ساتھ آپ سب کسان بھائیوں سے جو میری بات چیت ہوئی ہے اب میں اس کو آگے بڑھاؤں گا۔ اس پروگرام میں موجود زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر  نریندر شریمان سنگھ تومر جی، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر رفقاء، سبھی وزرائے اعلیٰ، ریاستی حکومتوں کے قابل احترام وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور ملک بھر کے میرے کسان بھائیوں اور بہنوں۔

آج بہت ہی چیلنجنگ وقت میں ہم یہ بات چیت کررہے ہیں۔ اس کورونا کے دور میں بھی ملک کے کسانوں، ہمارے زرعی شعبے میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے، اناج کی ریکارڈ پیداوار کی ہے۔ آپ زراعت میں نئے نئے طریقے آزمارہے ہیں۔ آپ کی کوششوں کو پی ایم کسان سمان ندھی کی ایک اور قسط مزید مدد کرنے والی ہے۔ آج اکشے ترتیا کا مقدس تہوار ہے، زراعت کے نئے ٹائیٹل کی شروعات کا وقت ہے اور آج ہی تقریباً 19 ہزار کروڑ روپئے کسانوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست منتقل کئے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ تقریباً 10 کروڑ کسانوں کو ہوگا۔ بنگال کے کسانوں کو پہلی مرتبہ اس سہولت کا فائدہ ملنا شروع ہوا ہے۔ آج بنگال کے لاکھوں کسانوں کو پہلی قسط پہنچی ہے۔ جیسے جیسے ریاستوں سے کسانوں کے نام مرکزی حکومت کو ملیں گے، ویسے ویسے مستفید کسانوں کی تعداد مزید بڑھتی جائے گی۔

ساتھیو،

پی ایم کسان سمان ندھی سے خاص طور پر چھوٹے اور مجھولے کسانوں کو زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ آج کے مشکل دور میں یہ رقم ان کسان کنبوں کے بہت کام آرہی ہے۔ ابھی تک اس اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 11 کروڑ کسانوں کے پاس تقریباً ایک لاکھ پینتیس ہزار کروڑ روپئے پہنچ چکے ہیں۔ مطلب یہ کہ سوا لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی رقم براہ راست کسانوں کے کھاتے میں، کوئی بچولیا نہیں۔ ان میں سے صرف کورونا کے دور میں ہی 60 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ پہنچے ہیں۔ ضرورت کے وقت اہل وطن تک براہ راست مدد پہنچے، تیزی سے پہنچے، جس کو ضرورت ہے اس تک پوری شفافیت کے ساتھ پہنچے، ہی حکومت کی مسلسل کوشش ہے۔

 

بھائیو اور بہنو،

تیزی سے براہ راست کسانوں تک فائدہ پہنچانے کا یہ کام پیداوار کی سرکاری خرید میں بھی بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔ کورونا کے مشکل چیلنجوں کے درمیان جہاں کسانوں نے زراعت اور باغبانی کے شعبوں میں ریکارڈ پیداوار کی ہے، وہیں حکومت بھی ہر سال ایم ایس پی پرخرید کے نئے نئے ریکارڈ بنارہی ہے۔  پہلے دھان کی اور اب گیہوں کی بھی ریکارڈ خرید ہورہی ہے۔ اس سال ابھی تک گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 10 فیصد زیادہ گیہوں ایم ایس پی پر خریدا جاچکا ہے۔ ابھی تک گیہوں کی خرید کا تقریباً 58 ہزار کروڑ روپئے براہ راست کسانوں کے کھاتے میں پہنچ چکا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اب کسان جو پیداوار منڈی میں فروخت کررہے ہیں، ان کو اب اپنے پیسے کے لئے طویل انتظار نہیں کرنا پڑتا، پریشان نہیں ہونا پڑتا۔ کسان کے حق کا پیسہ براہ راست اس کے بینک کھاتے میں جمع ہورہا ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے لاکھوں کسان پہلی بار فوائد کی راست منتقلی کی اس سہولت سے جڑے ہیں۔ ابھی تک پنجاب کے کسانوں کے بینک کھاتے میں تقریباً 18 ہزار کروڑ روپئے اور ہریانہ کے کسانوں کے بینک کھاتے میں 9 ہزار کروڑ روپئے سیدھے ان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوچکے ہیں۔ اپنا پورا پیسہ اپنے بینک کھاتے میں پانے کا اطمینان کیا ہوتا ہے یہ پنجاب اور ہریانہ کے کسان بھی محسوس کررہے ہیں اور کھل کر بول بھی رہے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا میں اتنے ویڈیو دیکھے ہیں کسانوں کے، بالخصوص پنجاب کے کسانوں کے، کہ اس طرح سے ان کو پیسہ پہنچانا اور وہ بھی پورا پورا پیسہ پہنچانا اس کا اطمینان اتنے امنگ کے ساتھ وہ بتارہے ہیں۔

ساتھیو،

کھیتی میں نئے حل، نئے متبادل دینے کے لئے حکومت مسلسل کوشش کررہی ہے۔ نامیاتی کاشت کاری کو فروغ دینا ایسی ہی کوشش ہے۔ اس طرح کی فصلوں میں لاگت بھی کم ہے، یہ مٹی اور انسان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہیں اور ان کی قیمت بھی زیادہ ملتی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے اس طرح کی کھیتی میں مصروف ملک بھر کے کچھ کسانوں سے میری بات چیت ہوئی ہے، ان کے حوصلے، ان کے تجربات جان کر میں بہت پرجوش ہوں۔ آج گنگاجی کے دونوں جانب تقریباً 5 کلومیٹر کے دائرے میں نامیاتی کاشت کاری کی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، تاکہ وہ جو کھیت میں استعمال کیا گیا کیمیکل ہے، بارش کے وقت جو پانی بہہ کر گنگا جی میں نہ چلا جائے اور گنگاجی آلودہ نہ ہوں، اس لئے گنگا جی کے دونوں ساحل کے پانچ پانچ کلومیٹر کے قریب قریب اس نامیاتی پیداوار پر خصوصی زور دیا جاتا ہے۔ یہ نامیاتی پیداوار نمامی گنگے کے برانڈ کے ساتھ بازار میں دستیاب کرائے جارہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی قدرتی زرعی طریقے کو، اس کی بھی بڑے پیمانے پر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ چھوٹے اور حاشیائی کسانوں کو بینکوں سے سستا اور آسان قرض ملے۔ اس کے لئے گزشتہ ڈیڑھ سال سے کسان کریڈٹ کارڈ دستیاب کرانے کی ایک خصوصی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس دوران دو کروڑ سے زیادہ کسان کریڈٹ کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ ان کارڈوں پر کسانوں نے دو لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا قرض بینکوں سےلیا ہے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ مویشی پروری، ڈیری اور ماہی پروری سے وابستہ کسانوں کو ملنا شروع ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے ایک اور اہم فیصلہ کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ میرے کسان بھائیوں – بہنوں کو حکومت کے اس فیصلے سے خوشی ہوگی۔ ان کے لئے یہ بہت فائدہ مند ہوگا۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا کے دور کے پیش نظر کے سی سی قرض کی ادائیگی یا پھر تجدید کی مدت کو بڑھا دیا گیا ہے۔ ایسے سبھی کسان جن کا قرض بقایا ہے، وہ اب 30 جون تک قرض کی تجدید کرسکتے ہیں۔ اس بڑھی ہوئی مدت میں کسانوں کو 4 فیصد شرح سود پر جو قرض ملتا ہے، جو فائدہ ملتا ہے، وہ فائدہ بھی جاری رہے گا، ملتا رہے گا۔

ساتھیو،

گاؤں کا، کسان کا کورونا کے خلاف بھارت کی لڑائی میں بہت بڑا رول رہا ہے۔ یہ آپ کی ہی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج اس کورونا کے دور میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی مفت راشن کی اسکیم چلارہا ہے۔ پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے توسط سے گزشتہ برس آٹھ مہینے تک غریبوں کو مفت راشن دیا گیا تھا۔ اس بار مئی اور جون مہینے میں ملک کے 80 کروڑ سے زیادہ ساتھیوں کو راشن ملے، اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس پر بھی مرکزی حکومت 26 ہزار کروڑ روپئے، ہمارے غریب کے گھر میں چولھا جلے، اس کے لئے خرچ کررہی ہے۔ میں ریاستی حکوتوں سے درخواست کروں گا کہ غریبوں کے مابین اس راشن کی تقسیم میں کوئی پریشانی نہ آئے، اس بات کو یقینی بنائیں۔

ساتھیو،

سو سال بعد آئی اتنی شدید قسم کی وبا قدم قدم پر دنیا کا امتحان لے رہی ہے۔ ہمارے سامنے ایک نادیدہ دشمن ہے اور یہ دشمن بہروپیا بھی ہے، اور اس دشمن کے سبب، اس کورونا وائرس کے سبب ہم اپنے بہت سے عزیزوں کو کھوچکے ہیں۔ گزشتہ کچھ وقت سے جو تکلیف اہل وطن نے برداشت کی ہے، متعدد لوگ اس درد سے گزرے ہیں، تکلیف سے گزرے ہیں وہ میں بھی محسوس کررہا ہوں۔ ملک کا پردھان سیوک ہونے کے ناطے، آپ کے ہر جذبے میں میں شریک ہوں۔ کورونا کی دوسری لہر کے مقابلے میں، وسائل سے متعلق جو بھی رکاوٹیں تھیں انھیں تیزی سے دور کیا جارہا ہے۔ جنگی سطح پر کام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت کے سبھی محکمے، سارے وسائل ہمارے ملک کے حفاظتی دستے، ہمارے سائنس داں، ہر کوئی دن رات کووڈ کے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں متحد ہے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں تیزی کے ساتھ کووڈ اسپتال بن رہے ہیں، نئی ٹیکنالوجی سے آکسیجن پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ ہماری تینوں افواج – فضائیہ، بحریہ اور بری فوج ۔ سبھی پوری قوت سے اس کام میں مصروف ہیں۔ آکسیجن ریل، اس نے کورونا کے خلاف اس جنگ کو بہت بڑی طاقت دی ہے۔ ملک کے دور دراز حصوں میں یہ اسپیشل ٹرینیں، یہ آکسیجن ریل آکسیجن پہنچانے میں مصروف ہیں۔ آکسیجن ٹینکر لے جانے والے ٹریک ڈرائیور بنا رکے کام کررہے ہیں۔ ملک کے ڈاکٹر ہوں، نرسنگ اسٹاف ہو، صفائی ملازم ہو، ایمبولینس کے ڈرائیور ہوں، لیب میں کام کرنے والے افراد ہوں، سیمپل کلیکٹ کرنے والے ہوں، ایک ایک زندگی کو بچانے کے لئے چوبیسوں گھنٹے مصروف عمل ہیں۔ آج ملک میں ضروری دواؤں کی سپلائی بڑھانے کے لئے جنگی سطح پر کام کیا جارہا ہے۔ حکومت اور ملک کے فارما شعبے نے گزشتہ کچھ دنوں میں ضروری دواؤں کی پیدوار کئی گنا بڑھا دی ہے۔ باہر سے بھی دوائیں منگائی جارہی ہیں۔ اس بحران کے وقت میں، دواؤں اور ضروری اشیاء کی جمع خوری اور کالابازاری میں بھی کچھ لوگ اپنے مفادات کے سبب لگے ہوئے ہیں۔ میں ریاستی حکومتوں سے درخواست کروں گا کہ ایسے لوگوں پر سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ یہ انسانیت کے خلاف کام ہے۔ بھارت ہمت ہارنے والا ملک نہیں ہے۔ نہ بھارت ہمت ہارے گا اور نہ کوئی بھارت کا باشندہ ہمت ہارے گا۔ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔

ساتھیو،

آج کے اس پروگرام میں، میں ملک کے سبھی کسانوں کو، گاؤں میں رہنے والے سبھی بھائیوں – بہنوں کو کورونا سے پھر محتاط کرنا چاہتا ہوں۔ یہ انفیکشن اب گاؤں میں بھی تیزی سے پہنچ رہا ہے۔ ملک کی ہر حکومت اس سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ اس میں گاؤں کے لوگوں کی بیداری، پنچایتی راج سے متعلق ہمارے جو بھی نظامات ہیں، ان کا تعاون، ان کی حصے داری اتنی ہی ضروری ہے۔ آپ نے ملک کو کبھی مایوس نہیں کیا ہے۔ اس بار بھی آپ سے یہی توقع ہے۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے آپ کو خود پر، اپنے کنبے پر، سماجی سطح پر جو بھی ضروری قدم ہیں، ضرورتیں ہیں، اسے ہمیں اٹھانے ہی ہیں۔ ماسک لگاتار پہننا بہت ضروری ہے، وہ بھی ایسے پہننا ہے کہ ناک اور منھ پوری طرح ڈھکے رہیں۔ دوسری بات آپ کو کسی بھی طرح کی کھانسی، سردی زکام، بخار، الٹی، دست جیسی علامات کو عام مان کر نہیں چلنا ہے۔ پہلے تو خود کو ممکنہ حد تک دوسروں سے الگ کرنا ہے، پھر جلد از جلد کورونا ٹیسٹ کرانا ہے۔ اور جب تک رپورٹ نہ آئے تب تک ڈاکٹروں نے جو دوا بتائی ہے وہ ضرور لیتے رہنا ہے۔

ساتھیو،

بچاؤ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے کورونا کا ٹیکہ۔ مرکزی حکومت اور سبھی ریاستی حکومتیں مل کر یہ مسلسل کوشش کررہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اہل وطن کو تیزی سے ٹیکہ لگ پائے۔ ملک بھر میں ابھی تک تقریباً 18 کروڑ ٹیکے کی خوراک دی جاچکی ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں میں مفت ٹیکہ کاری کی جارہی ہے، اس لئے جب بھی آپ کی باری آئے تو ٹیکہ ضرور لگائیں۔ یہ ٹیکہ ہمیں کورونا کے خلاف حفاظتی ڈھال فراہم کرے گا، سنگین بیماری کے اندیشے کو کم کرے گا۔ ہاں ٹیکہ لگانے کے بعد بھی ماسک اور دو گز کی دوری کے اصول کو ابھی ہمیں چھوڑنا نہیں ہے۔ ایک بار پھر سبھی کسان ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.