جاپان میں رہنے والے بھارت کے دوستو، اور بڑی تعداد میں یہاں آئے ہوئے بھارتی برادری کے میرے تمام ساتھیو، آپ سب کو نمسکار۔
میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کوبے کیوں لے جارہے ہیں، کتنی بار آیا ہوں، اتنے سارے چہرے ہیں، میں نے کہا آپ مجھے کیوں لے جارہے ہو کون آئے گا؟ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ پہلے سے آپ کا جوش بڑھ ہی رہا ہے۔ اس محبت کیلئے میں آپ کا بہت بہت مشکور ہوں۔
قریب سات مہینے بعد ایک مرتبہ پھر مجھے جاپان کی سرزمین پر آنے کا فخر حاصل ہوا ہے ۔ پچھلی مرتبہ بھی یہاں بسے آپ سبھی ساتھیوں سے اور جاپانی دوستوں سے گفت وشنید کا موقع حاصل ہوا تھا۔ یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ گزشتہ سال جب میں یہاں آیا تھا، تب میرے عزیز دوست شنزوآبے کے انتخابی نتائج آچکے تھے اور آپ سبھی نے ان کے تئیں اعتماد جتایا تھا اور آج جب میں آپ کے درمیان ہوں تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت نے، اس پردھان سیوک کے تئیں پہلے سے بھی زیادہ اعتماد ، افزوں محبت جتائی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کوبے ، جاپان میں بھارتی برادری کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے۔
میرے علم میں ہے کہ آپ میں سے بھی متعدد حضرات کا اس عوامی رائے دہندگی میں تعاون رہا ہے۔ کسی نے بھارت آکر کے براہ راست کام کیا ، محنت کی ، 45-40 ڈگری درجہ حرارت میں کام کرتے تھے، کچھ افراد نے سوشل میڈیا کے توسط سے ٹوئیٹر ، فیس بک ، نریندر مودی ایپ ، جو بھی جگہ سے جو بھی بات کہہ سکتے ہیں ، پہنچانے کی کوشش کی ، کچھ لوگوں نے اپنے گاؤں میں اپنے پرانے دوستوں کو خطوط ارسال کئے، ای میل ارسال کئے یعنی آپ نے بھی ایک طرح سے کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی اس جمہوریت کے جشن کو مزید طاقتور بنایا اور زیادہ جاندار بنایا اور اس کے لئے بھی آپ سبھی کا میں بہت بہت شکریہ اداکرتا ہوں۔
ساتھیو، 130 کروڑ ہندوستانیوں نے پہلے سے بھی مضبوط حکومت قائم کی ہے اور یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور تین دہائی بعد پہلی مرتبہ لگاتار دوسری بار مکمل اکثریت کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ بھارت جیسا وسیع رقبے والا ملک اس میں یہ کامیابی معمولی بات نہیں ہے اور ویسے تو 1948 میں بھی لگاتار دوسری بار ایک پارٹی کی سرکار بنی تھی لیکن اس وقت کے حالات آپ کو معلوم ہے۔ وجوہات کیا تھیں، وہ بھی پتہ ہے۔ لوگ ووٹ کیوں ڈالنے گئے تھے وہ بھی پتہ ہے، اور اس لئے میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہوں اور اس کا میں بیان نہیں کرتا ہوں۔ لیکن یہ بات صحیح ہے کہ 1971 کے بعد ملک نے پہلی مرتبہ ایک حکومت کو پورے اعتماد کے اظہار کے ساتھ رائے دہندگی سے نوازا ہے۔
ساتھیو، یہ جو زبردست رائے دہندگی بھارت کی جانب سے ظاہر کی گئی ہے ، آپ کو خوشی ہوئی کہ نہیں ہوئی؟ تو یہ فتح کس کی ہے، کس کی جیت ہے۔جب میں آپ سے یہ جواب سنتا ہوں ،اتنا لطف آتا ہے کہ سچائی کی جیت ہے۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کی فتح ہے۔ بھارت کے د ل کو آپ جاپان میں بیٹھ کر کے بھی بخوبی سمجھ پاتے ہیں ، محسوس کرپاتے ہیں، ان کی توقعات اور ان کی امنگوں کے درمیان میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ہے تب جاکر یہ جواب آپ کے منہ سے سننے کا موقع ملتا ہے اور تب دل کو بڑی تسلی ہوتی ہے کہ ہم صحیح سمت میں ہیں۔
کبھی کبھی اسٹیڈیم میں ہم کرکٹ میچ دیکھتے ہیں تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ آؤٹ کیسے ہوا، بال کہا ں سے کہاں گیا تھا لیکن جو گھر میں ٹی وی پر دیکھتا ہے ، دور سے دیکھتا ہے اس کو فوراًپتہ چلتا ہے کہ ویولینتھ میں گڑبڑ ہے اسی لئے آؤٹ ہوا ہے اور اس لئے آپ اتنی دور بیٹھ کر ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو حقیقت کو پکڑنے کی طاقت آپ کی زیادہ ہے اور اس لئے بھی آپ کا یہ جواب سچائی کی جیت ، جمہوریت کی جیت، اہل وطن کی جیت، میرے لئے یہ جواب بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے ایک نئی طاقت دیتے ہیں، نئی ترغیب دیتے ہیں اور اس کے لئے میں آپ سب کا بہت بہت احسان مند ہوں۔
جمہوری اقدار کے تئیں وقف رہتے ہوئے امیدوں اور توقعات کے تئیں اعتماد اس جیت کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ آپ تصور کیجئے 61 کروڑ ووٹ دہندگان نے 45-40 ڈگری درجہ حرارت میں اپنے گھر سے کہیں دور جاکر کے ووٹ کیا ہے، 61 کروڑ اگر چین کو چھوڑ دیں تو دنیا کے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ ووٹ دہندگان ہیں یہ ۔ اور بھارت میں جمہوریت کی وسعت، اس کا عوامی ہونا اس کا بھی انداز دس لاکھ پولنگ اسٹیشن، 40 لاکھ سے زائد ای وی ایم مشین ، 600 سے زیادہ سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں ، انتخابات میں شراکت دار تھیں اور آٹھ ہزار سے زائد امیدواران کتنا بڑا جشن ہوگا جمہوریت کا۔ بنی نوع انسان کی تاریخ میں اس سے بڑا جمہوری انتخاب نہیں ہوا ہے اور ہر ہندوستانی کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے۔
مستقبل میں بھی اس ریکارڈ کو اگر کوئی توڑے گا، اس ریکارڈ کو اگر کوئی بہتر بنائے گا، تو وہ حق بھی ہندوستان کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ایک طرح سے اس کا کاپی رائٹ بھارت کے پاس ہے۔ ہندوستانی ہونے کے ناطے ہم سبھی کو بھارت کے بہی خواہوں کو تو اس پر فخر ہے ہی پوری دنیا کو بھی یہ ترغیب دینے والا ہے۔ اس سے پھر ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت کے تئیں بھارت کے عوام الناس کااعتماد غیر متزلزل ہے۔ ہمارے جمہوری ادارے اور جمہوری نظام دنیا میں سرفہرست ہیں۔
ساتھیو، بھارت کی یہی قوت اکیسویں صدی کی دنیا کو نئی امید دینے والی ہے۔ یہ انتخاب ، اس کے اثرات صرف بھارت تک محدود رہنے والے نہیں ہیں، ملک کے جمہوری طرز فکر کو یہ ترغیب دینے والا واقعہ ہے۔ نیو انڈیا کی توقعات اور امیدوں کو پورا کرنے کیلئے یہ رائے دہندگی حاصل ہوئی ہے اور یہ رائے دہندگی پوری دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بھی نئی توانائی فراہم کرے گی۔ اب دنیا بھار ت کے ساتھ جب بات کرے گی تو اس کو یقین ہے ، ہاں بھئی عوا م الناس ، انہوں نے حکومت کو منتخب کیا ہے ، پوری اکثریت کےساتھ منتخب کیا ہے اور ان کے ساتھ جو کچھ بھی طے کریں گے ، یہ آگے لے جائیں گے ، اعتماد اپنے آپ پیدا ہوتا ہے۔
وزیراعظم جناب نریندر مودی ، کوبے ، جاپان میں، بھارتی برادری کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس ، او راس میں لوگوں نے آب حیات ملایا ، سب کا اعتماد ۔ اسی اصول پر ہم چل رہے ہیں جو بھارت پر دنیا کے اعتماد کو بھی اور مضبوط کرے گا اور دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کرائے گا ۔ یہی میں محسوس کررہا ہوں یہ دنیا کو یقین دلائے گا۔
ساتھیو جب دنیا کے ساتھ بھارت کے رشتوں کی بات آتی ہے توجاپان کااس میں ایک اہم مقام ہے۔ یہ رشتے آج کے نہیں ہیں، بلکہ صدیوں کے ہیں، ان کی بنیاد میں اپنا پن ہے خیرسگالی ہے، ایک دوسرے کی ثقافت اور تہذیب کیلئے احترام ہے، ان رشتوں کی ایک کڑی مہاتما گاندھی جی سے بھی مربوط ہوتی ہے۔ حسن اتفاق سے یہ محترم باپو کی 150ویں پیدائش کی سالگرہ کا بھی سال ہے۔ گاندھی جی کی ایک سیکھ بچپن سے ہم لوگ سنتے آئے ہیں، سمجھتے آئے ہیں اور وہ سیکھ تھی ۔ برا مت دیکھو، برا مت سنو، برا مت کہو۔ بھارت کا بچہ بچہ اس سے بخوبی واقف ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ جن تین بندروں کو اس پیغام کیلئے باپو نے منتخب کیا ان کا جنم داتا سترہویں صدی کا جاپان ہے۔ میزارو ، کیکجارو اور ایواجارو۔ جاپان کی دھروہر ہیں، جن کو محترم باپو نے ایک عظیم سماجی پیغام کیلئے علامت کے طور پر منتخب کیا اور اس کی تبلیغ واشاعت کی۔
ساتھیو، ہمارے رہن سہن ، برتاؤ اور عادات کی یہ کڑی جاپان میں بدھ مذہب کے آنے سے بھی پہلے کی بتائی جاتی ہے۔ ابھی اگلے مہینے کیوٹو میں گیون تیوہار آنے والا ہے اور اس گیون تیوہار میں آج جس رتھ کااستعما ل ہوتا ہے اس کی آرائش بھارتی ریشم کے دھاگوں سے ہوتی ہے۔ اور یہ روایت آج کی نہیں ہے بے شمار سالوں سے چلی آرہی ہے۔
اسی طرح سے شیشی فوکوجین۔ مقدر کے سات دیوتا۔ ان سات دیوتاؤں میں سے چار کا تعلق سیدھا سیدھا بھارت سے ہے۔ ماں سرسوتی کے بنزائیٹن ، مہالکشمی کی کیچیجوٹین ، بھگوان کبیر کی وشامون اور مہاکال کی دائکوکوتین کی شکل میں جاپان میں قبولیت ہے۔
ساتھیو، ملبوثات پرنٹنگ کے جوشوبوری آرٹ بھار ت اور جاپان کے رشتوں کا ایک بہت قدیم ایک طرح سے تانا بانا ہے، اصول ہے۔ گجرات کے کچھ اور جام نگر میں صدیوں سے باندھنی جس کو کہتے ہیں ، بندھانی کوئی بولتے ہیں، کوئی بندانی بولتا ہے، اس کے فنکار اس فن میں اسی مزاحمتی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں جو یہاں بھی صدیوں سے استعمال ہوتی ہے یعنی جاپان میں اس کام کو کرنے والے لوگ اور کچھ میں جام نگر میں کرنے والے آپ کو ایسا ہی لگے گا آپ جاپان میں ہیں اور جاپان والے جہاں جائیں گے تو لگے گا کہ گجرات میں ہیں، اتنی مماثلت ہے۔ اتنا ہی نہیں ہماری بات چیت کے بھی کچھ اصول ہیں جو ہم جوڑتے ہیں جسے بھارت میں دھیان کہا جاتا ہے اسے جاپان میں زین کہا جاتا ہے اور جسے بھارت میں سیوا کہا جاتا ہے اسے جاپان میں بھی سیوا ہی کہا جاتا ہے۔ سیوا پرمو دھرما ، یعنی بے لوث خدمت کو بھارتی فلسفے میں سب سے بڑا مذہب تسلیم کیا گیا ہے وہیں جاپان کے معاشرے نے اس کو عملی جامہ پہناکر بھی دکھایا ہے۔
ساتھیو، سوامی وویکانند ، گرودیو روندرناتھ ٹیگو، مہاتما گاندھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس، جسٹس رادھاونود پال سمیت، متعدد ہندوستانیوں نے جاپان کے ساتھ ہمارے رشتوں کو مضبوط کیا ہے ، جاپان میں بھی بھارت اور بھارتیوں کیلئے محبت اور احترام کاجذبہ رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ہی بھارت۔ جاپا ن کے مابین رشتے اور مضبوط ہونے لگے ہیں ۔ تقریباً دو دہائی قبل وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی جی اور وزیراعظم یوشیروموری جی نے مل کر ہمارے رشتوں کو عالمی شراکت داری کی شکل دی تھی۔
2014 میں وزیراعظم بننے کے بعد مجھے میرے دوست وزیراعظم شنزوآبے کے ساتھ ملکر اس دوستی کو مضبوط کرنے کا موقع ملا ، ہم اپنے سفارتی تعلقات کو دارالحکومتوں اور سفیروں کی رسمی کارروائیوں کے دائرے سے باہر نکال کر سیدھے عوام کے درمیان لے گئے ۔ وزیراعظم آبے کے ساتھ میں نے ٹوکیو کے علاوہ کیوٹو، اوساکا، کوبے، یماناسی کے سفر بھی کیے۔ یہاں کوبے تو میں کبھی کبھی غلطی ہوجاتی ہے، کبھی کہتا ہوں چار بار، کبھی کہتا ہوں پانچ بار، کبھی کہتا ہوں تین بار، یعنی بار بار آیا ہوں او رپی ایم نہیں تھا تب بھی آتا تھا ،آپ کے ساتھ بیٹھتا تھا ۔ وزیراعظم آبے جی نے گزشتہ برس یماناسی میں اپنے گھر میں میرا خیرمقدم کیا ۔ ان کی یہ خصوصی کرم فرمائی ہر ہندوستانی کے دل کو چھونے والی بات تھی ورنہ سفارتی تعلقات میں اس طرح کی ذاتی وابستگی بہت کم ہوتی ہے۔
دلّی کے علاوہ احمد آباد اور وارانسی وزیراعظم آبے جی کو میرے دوست کو لے جانے کی خوش قسمتی مجھے حاصل ہوئی۔ وزیراعظم آبے میرے پارلیمانی حلقے اور دنیا کی سب سے پرانی تہذیب اور روحانی بستی میں سے ایک۔ کاشی میں گنگا آرتی میں بھی شامل ہوئے۔ اور صرف شامل نہیں ہوئے ان کو جب بھی جہاں پر کچھ بولنے کا موقع آیا ، اس آرتی کے وقت انہوں نے جس روحانیت کااحساس کیا ، اس کا ذکر کیے بغیر وہ رہے نہیں، آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں ، ان کی یہ تصویریں بھی ہر ہندوستانی کے دل میں بس گئی ہیں۔
ساتھیو، گزشتہ چھ دہائیوں سے بھی زیادہ وقت میں بھارت کی ترقی کے سفر میں جاپان کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے نیو انڈیا میں یہ کردار اور مضبو ط ہونے والا ہے، 1958 میں جاپان نے اپنا پہلا ین قرض بھارت کو ہی منظور کیا تھا 1958 میں۔ اس کے بعد سے ہی جاپانی کمپنیاں بھارت میں کام کررہی ہے اور انہوں نے اعلیٰ کوالیٹی کے لئے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم کار بنانے میں تعاون کررہے تھے اور آج ہم بلیٹ ٹرین بنانے میں تعاون کررہے ہیں۔ آج مشرق سے مغرب تک ، شمال سے جنوب تک بھارت کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جہاں جاپان کے پروجیکٹ یا سرمایہ کاری نے اپنا نشان نہ چھوڑا ہو۔ اسی طریقے سے بھارت کی صلاحیت اور افرادی قوت یہاں جاپان کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا تعاون دے رہی ہے۔
ساتھیو، نیو انڈیا میں ہمارا یہ تعاون اور زیادہ بڑھنے والا ہے، ہم آنے والے پانچ برسوں میں بھارت کو پانچ ٹریلن ڈالر کی معیشت بنانے کے لئے نصب العین کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سوشل سیکٹر ہماری ترجیح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے میں وسیع سرمایہ کاری ، اس پر بھی ہمارا زور ہے۔ بطور خاص ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ ، بھارت کو آج پوری دنیا میں سرمایہ کاری کیلئے ایک پُرکشش موقع کی شکل میں سامنے رکھتا ہے، بھارت میں ڈیجیٹل خواندگی آج بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ڈیجیٹل لین دین ریکارڈ کی سطح پر ہے،اختراع اور نشونما کیلئے ایک بہت بڑا بنیادی ڈھانچہ تیار ہورہا ہے۔ ایک نیا ماحول محسوس ہورہا ہے اسی کے بل پر آنے والے پانچ برسوں میں پچا س ہزار اسٹارٹ اپس کا ایکو نظام بھارت کو بنانے کا نصب العین ہم نے رکھا ہے۔
ساتھیو،اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آسمان آخری حد ہے، کسی زمانے میں ٹھیک تھا، لیکن بھارت اس حد سےآگے ، آگے جاکر خلا کو سنجیدگی سے تلاش کررہا ہے ۔ بھارت کی 130 کروڑ آبادی کی زندگی کو آسان اور محفوظ بنانے کیلئے سستی اور مؤثر خلائی ٹیکنالوجی کا حصول ہمارا نصب العین ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم اس کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ پارہے ہیں۔
حال میں فونی سائیکلو ن سمیت متعدد چنوتیوں کو بھارت کم سے کم نقصان کے ساتھ جھیل پایا اور دنیا نے اس کی بڑی ستائش کی کہ کس طر ح سے سرکاری مشینری ، انسانی وسائل ،خلائی ٹیکنالوجی ، ان سب کو ملاکر کے کیسے کارکردگی انجام دی جاسکتی ہے، وہ بھار ت نے کرکے دکھایا ہے اور وہ ایک طرف پورا ملک انتخابات کی افراتفری میں مشغول تھا تب بھی اس کام کو عمدہ طریقے سے پورا کیا اور دنیا نے اس کی ستائش کی اور اس سے ہمیں حوصلہ مل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مہینوں میں ہی ہم ہمارے مون مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے چندریان۔ 2 لانچ کرنے والے ہیں۔ سال 2022 تک اپنا پہلا مین مشن ، گگن یان بھیجنے کی تیاری میں ہم ہیں اور کوئی ہندوستانی ترنگا جھنڈا وہاں لہرائے ، یہ خواب لیکر کے کام کررہے ہیں۔
خلا میں ہمارا اپنا اسٹیشن ہو،اس کے لئے امکانات کو تلاشا جارہا ہے۔ یہ جتنے بھی کام ہم کررہے ہیں، آج ہندوستان میں توقعات سے لبریز ایک نیا متوسط طبقہ ایک بہت بڑی تعداد میں ، سوسائٹی میں جن کے خواب بہت ہیں ، جس کی توقعات بہت ہیں، جس کو تیز رفتار سے نتائج کاانتظار ہے ، ان کے مطابق ہم ترقی کے نئے نئے راستے نکال رہے ہیں۔
ساتھیو، ایسے وقت میں جب پوری دنیا بھارت کو امکانات کے داخلی دروازے کی شکل میں دیکھ رہی ہے تب جاپان کے ساتھ ہمارا تال میل بھی نئی بلندیاں طے کرنے والا ہے۔ میں تو یہ مانتاہوں کہ جاپان کی کائیزن فلاسفی، بھارت جاپان تعلقات کی پیش رفت پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ جب میں گجرات میں وزیراعلیٰ تھا تو میں میرے وزیراعلیٰ کے عملے کو ایک کائیزن کی تربیت دلاتا تھا ،لگاتار کیوں کہ کائیزن کا عمل ایک ایسا عمل ہے جو کبھی موقوف نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے تعلقات لگاتار نمو پذیر رہیں گے ، بلند ہوتے رہیں گے۔
ساتھیو، وزیراعظم کے طور پر یہ میرا جاپان کا چوتھا سفر ہے، وزیراعظم کے طور پر سبھی سفروں میں ، میں نے جاپان میں بھارت کے تئیں ایک اپنا پن ، ایک یگانگت محسوس کی ہے۔ اپنی تہذیب اور اپنے اقدار پر فخر کرنا ، صلاحیت اور ٹیکنالوجی کو قومی تعمیر کاحصہ بنانا اور روایات کے دائرے میں بنانا ۔ یہ میں نےجاپان میں براہ راست محسوس کیا ہے۔ اور ایسا محسوس کرنے والا میں اکیلا شخص نہیں ہوں۔
سوامی وویکانند جی نے بھی ایک صدی پہلے جب جاپان کا سفر کیا تھا ، تو وہ بھی یہاں کی تہذیب اور عوام الناس کے فرائض کے تئیں وابستگی اور کام کاج کے اخلاقیات سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ تب سوامی وویکانند جی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ہر ہندوستانی کو جاپان کا سفر کرناچاہئے۔ لیکن اس وقت ذرا آبادی کم تھی، اب یہ تو ممکن نہیں ہوپائے گا ، ملک کے 30 کروڑ عوام، خیر ۔ ہم بھی جانتے ہیں لیکن 130 کروڑ ہندوستانیوں کے نمائندہ، آپ سب یہاں پر ہیں۔ آپ جاپان کی باتوں کو یہاں کے طرز عمل کو ، کام کاج کی اخلاقیات کو، یہاں کی صلاحیت کو، یہاں کی روایت کو، یہاں کی ٹیکنالوجی کو بھارت پہنچاتے رہیں اور بھارت کی باتیں یہاں کے عوام الناس کو سناتے رہیں۔ یہ پُل ہمیں نئی قوت دیتا ہے ، روز بروز بدلتے ہوئے نظام میں بھی تبدیلی لاتا ہے ، تعلقات کو جاندار بناتا ہے، یہ رواج نہیں ہے ایک جاندار نظام ہے اور جاندار نظام عوام الناس کے ساتھ مربوط ہونے سے قائم ہوتاہے۔
آخر میں ، میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے آپ سبھی کا ، جاپان کے باشندوں کا ، ہندوستانیوں کا اور اپنے سبھی جاپانی بہنو اور بھائیوں کیلئے میں خواہش کرتا ہوں نئے ریوا ایرا۔ ریوا۔ یُگ میں آپ سب کی زندگی اس عہد کے نام کے مطابق خوبصورت ہم آہنگی ہمیشہ رہے۔ جاپان میں ۔ بطور خاص کوبے میں ہر بار آپ نے جس اپنے پن سے میرا خیرمقدم ، خاطر داری اور احترام کیا ہے اس کے لئے میں دل سے آپ کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں۔
شاید آپ کو پتہ چلا ہوگا 21 جون بین الاقوامی یوم یوگ تھا اور حکومت ہند یوگ کی تبلیغ واشاعت اور ترقی اور پھیلاؤ کیلئے کام کرنےوالے اداروں کو ، افراد کو، ہندوستان میں بھی اور ہندوستان کے باہر بھی ان کو اعزاز سے نوازتی ہے، ان کو انعام دیتی ہے۔ آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ اس بار جاپان میں یوگ کے لئے کام کرنے والے ادارے کو حکومت ہند نے اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ لیا ہے، جو بہت بڑے فخر کی بات ہے۔ یعنی ہم طرح سے مربوط ہوچکے ہیں۔
اس عزت افزائی کے ساتھ کہ ایک بار پھر آپ کے درمیان آنے کاموقع ملا ، آپ کی دعا حاصل کرنے کاموقع ملا، میں بہت بہت دلی اظہار تشکر کرتاہوں۔
شکریہ۔
New India की आशाओं और आकांक्षाओं को पूरा करने के लिए मिला ये आदेश पूरे विश्व के साथ हमारे संबंधों को भी नई ऊर्जा देगा।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
सबका साथ, सबका विकास, सबका विश्वास के जिस मंत्र पर हम चल रहे हैं, वो भारत पर दुनिया के विश्वास को भी मजबूत करेगा: PM
जब दुनिया के साथ भारत के रिश्तों की बात आती है तो जापान का उसमें एक अहम स्थान है।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
ये रिश्ते आज के नहीं हैं, बल्कि सदियों के हैं। इनके मूल में आत्मीयता है, सद्भावना है, एक दूसरे की संस्कृति और सभ्यता के लिए सम्मान है: PM
हमारी बोलचाल के भी कुछ सूत्र हैं जो हमें जोड़ते हैं।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
जिसे भारत में 'ध्यान' कहा जाता है, उसे जापान में 'Zen' कहा जाता है। और जिसे भारत में 'सेवा' कहा जाता है, उसे जापान में भी 'सेवा' कहा जाता है: PM
लगभग 2 दशक पहले, प्रधानमंत्री अटल बिहारी वाजपेयी जी और प्रधानमंत्री योशिरो मोरी जी ने मिलकर हमारे रिश्तों को Global Partnership का रूप दिया था।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
2014 में प्रधानमंत्री बनने के बाद, मुझे मेरे मित्र प्रधानमंत्री शिंज़ो आबे के साथ मिलकर इस दोस्ती को मजबूत करने का मौका मिला: PM
दिल्ली के अलावा अहमदाबाद और वाराणसी प्रधानमंत्री आबे को ले जाने का सौभाग्य मुझे मिला।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
प्रधानमंत्री आबे मेरे संसदीय क्षेत्र और दुनिया की सबसे पुरानी सांस्कृतिक और आध्यात्मिक नगरी में से एक काशी में गंगा आरती में शामिल हुए।
उनकी ये तस्वीरें भी हर भारतीय के मन में बस गई हैं: PM
एक समय था जब हम कार बनाने में सहयोग कर रहे थे और आज हम बुलेट ट्रेन बनाने में सहयोग कर रहे हैं।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
आज भारत का ऐसा कोई भाग नहीं है जहां जापान के प्रोजेक्ट्स या इंवेस्टमेंट्स ने अपनी छाप न छोड़ी हो।
इसी प्रकार भारत का Talent और मैनपावर जापान को मजबूत करने में योगदान दे रहा है: PM
प्रधानमंत्री के रूप में यह मेरी जापान की चौथी यात्रा है। यात्राओं में जापान में भारत के प्रति एक आत्मीयता, एक अपनापन अनुभव किया।
— PMO India (@PMOIndia) June 27, 2019
अपनी सभ्यता और अपने मूल्यों पर गर्व करना, Talent और Technology को राष्ट्रनिर्माण का हिस्सा बनाना, ये मैंने जापान में प्रत्यक्ष अनुभव किया है: PM