اے این آئی : آپ نے اپنے سابقہ انٹرویوز میں بتایا ہے کہ ملازمتوں کی تعداد کی کمپیوٹر کاری کا طریقہ فرسودہ ہو چکا ہے اور حقائق موجودہ دستیاب اعداد و شمار سے مختلف ہیں۔ آپ کے خیال سے ہندوستان میں ملازمتوں کا موجودہ منظرنامہ کیا ہے اور آپ کس طرح ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ کریں گے؟
وزیر اعظم : میں اس موضوع پر پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے دوران تفصیلی جواب دے چکا ہوں۔ مختصراً یہ سمجھئے کہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب معیشت میں تیز رفتاری سے نمو ہو رہی ہے جو دنیا کی بڑی معیشتوں کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے تو ملازمتوں کے بازار میں کیوں توسیع نہیں ہو سکے گی۔ جب ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور سڑکوں کی تعمیر، ریل پٹریاں بچھائے جانے، سولر پارکوں سمیت بجلی پیدا کرنے اور ٹرانسمیشن لائنیں ڈالے جانے کے کام کی رفتار اب تک کی سب سے زیادہ تیز رفتار ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مزید ملازمتوں کے مواقع نہ پیدا ہوں۔ اگر کاروباری گاڑیوں اور مسافر گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جا رہے۔آج جبکہ ملک میں راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو کیا اس کے نتیجے میں سازوسامان کی تیاری (مینوفیکچرنگ)اور روزگار اور ملازمت کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوگا؟
2014 میں جہاں ملک میں موبائل بنانے والے محض دو کارخانے تھے، آج ملک میں موبائل بنانے والے 120 کارخانے موجود ہیں۔ جب الیکٹرانکس کے سامان کی تیاری میں اس طرح کی ترقی ہو رہی ہے تو کیا اس سے ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے۔آج ہندوستان اسٹارٹ اپس کے اعلیٰ ترین مراکز میں شامل ہو چکاہے۔ کیا اس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں؟ ہندوستان میں فوڈ، لاجسٹکس، ای۔ کامرس، موبلٹی سولوشن اور دیگر متعدد شعبوں میں ایپ پر مبنی ایگری گیٹرس زبردست ترقی کر رہے ہیں۔ کیا یہ شعبے ملازمتیں پیدا نہیں کر رہے ہیں؟ یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ ملک کے، وافر امکانات سے مالامال شعبے سیاحت میں ملازمتوں کے مواقع میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے سال ملک میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں 14 فیصد اضافہ درج ہوا۔ اس کے علاوہ گھریلو سیاحت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کیا ان سب سے ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے؟
آج ہندوستان کے شہری ہوابازی کے میدان میں زبردست اچھال پیدا ہوا ہے۔ پچھلے سال 10 کروڑ سے زائد افراد نے فضائی سفر کیا۔ ہم نے اڑان اسکیم کے تحت متعدد مقامات بالخصوص درجہ دو اور تین کے شہروں کو شہری ہوابازی کے نقشے میں اہم جگہ دی ہے۔ کیا اس سے ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے؟ ہمارے جفاکش اور محنتی کاروباریوں کو 13 کروڑ سے زائد مدرا لون دیے گئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 3.5 کروڑ قرض نئے صنعت کاروں کو دیے گئے ہیں۔کیا اس سے ملازمتوں کے اضافی مواقع نہیں پیدا ہوں گے؟
یہ محض کچھ مثالیں ہیں۔ علاوہ ازیں ایمپلائز پراوڈینٹ فنڈ میں 45 لاکھ صارفین کے اندراج سے بھی ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ گذشتہ نو مہینوں کے دوران نئی پینشن اسکیموں میں 5.68 لاکھ اندراج سے بھی ملازمتوں کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان تمام کاموں سے پچھلے ایک سال کی مدت میں ہی ایک کروڑ سے زائد ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ اس لئے اب ملازمتوں کے مواقع نہ پیدا ہونے کی مہم کو بند ہو جانا چاہئے۔ اب لوگ اس پر زیادہ یقین نہیں کرتے۔
اے این آئی : آپ کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ آپ نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے تو جی ایس ٹی کی مخالفت کی تھی لیکن اب آپ نے موقف میں تبدیلی کرکے جی ایس ٹی کی حمایت کی ہے۔ اپوزیشن جی ایس ٹی کو گبر سنگھ ٹیکس قرار دیتی ہے جبکہ آپ اسے اچھا اور سہل ٹیکس کا نام دیتے ہیں۔ آج ایک سال بعد کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جی ایس ٹی کے کیا فائدے رہے ہیں؟
وزیر اعظم : میں چاہوں گا کہ آپ میرے موقف میں تبدیلی کے معاملے پر کچھ تحقیقی کام کریں۔ متحدہ ترقی پسند اتحاد کے دور اقتدار میں جی ایس ٹی کی مخالفت کیوں کی گئی؟ تمام امور کے عالم و ماہر وزیر مالیات نے اس سلسلے میں مختلف ریاستی سرکاروں کے خدشات کو سننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے، ’میرا راستہ سب سے صحیح راستہ‘ کا نظریہ اختیار کر لیا تھا۔ اس معاملے میں گجرات ہی نہیں بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ متحدہ ترقی پسند اتحاد سرکار ان کے ساتھ معقول رویہ روا نہیں رکھے گی۔ انہیں وعدیٰ کرکے بھی جی ایس ٹی کا معاوضہ نہیں دیا گیا تھا۔ یہ لوگ جی ایس ٹی کا معاوضہ دینے کے لئے تیار نہیں تھے، خواہ ابتدائی پانچ سالوں میں انہیں نقصانات ہی کیوں نہ برداشت کرنے پڑے ہوں۔ یہ وقت تھا جب قومی جمہوری اتحاد سرکار نے جی ایس ٹی معاوضوں کے سابقہ بقایا جات ادا کرکے انہیں ختم کرنے کا عمل شروع کیا اور یہ وعدیٰ بھی کیا جی ایس ٹی کے نفاذ کے ابتدائی پانچ سالوں میں ہونے والے نقصان کا معاوضے کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔
ہمارا جی ایس ٹی کا نمونہ ریاستوں کو صرف اس لئے قابل قبول تھا کیونکہ ہمیں ان کے مسائل اور تشویش کا احساس تھا۔ لیکن موقف کی تبدیلی کے راستے میں ان حقائق کو کیوں نہیں قبول کیا جانا چاہئے۔ جی ایس ٹی کی مخالفت تمام اپوزیشن پارٹیاں نہیں کر رہی ہیں۔ عوام کے ذریعہ خارج کی جانے والی محض کچھ ریاستیں ہی بے بنیاد سوالات پیش کر رہی ہیں۔ یہ لوگ صرف گمراہ ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ خواہ یوگا ہو، آیوشمان بھارت ہو، سووَچھ بھارت ہو، این آر سی ہو، یا سرجیکل اسٹرائکس ہوں۔ ان اقدامات کے لئے ان مخالفین کا رویہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک گبر سنگھ ٹیکس کا تعلق ہے، تمام لوگوں نے دیکھا ہے کہ ان کے آس پاس کے ڈاکو ہی اس ٹیکس کو ڈاکو ٹیکس کا نام دے سکیں گے۔
کیا ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ عوام الناس نے جی ایس ٹی کو کھلے دل سے کیوں قبول کیا؟ کانگریس کے صدر نے پارلیمنٹ میں سورت کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ انہوں نے گجرات انتخابات کے دوران لوگوں کو جی ایس ٹی کے خلاف مشتعل کرنے کی اپنی حتی المقدور کوششیں کیں۔ انہیں عوام الناس نے کیوں خارج کر دیا۔ ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ اس ملک کے لوگ خاص طور سے کاروباری برادری نے جی ایس ٹی کی حمایت کی ہے اور اسے کھلے دل سے اپنایا ہے۔ ان کی کھلے دل سے ستائش کی جانی چاہئے۔ ہم ایک حساس سرکار کی حیثیت سے لوگوں سے حاصل ہونے والے ردعمل پر گہرائی سے عمل کرتے ہیں اور جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں وہاں درشتی بھی کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے جی ایس ٹی کو عوام کا اعتماد حاصل ہو سکا ہے اور ہم میں سے بیشتر لوگوں کی زندگی آسان ہو سکی ہے۔ لوگوں نے اس پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس سے انہیں اور ہماری معیشت کو بے شمار فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
آزادی کے بعد سے اب تک نئے کاروباری اداروں کے اندراج کی تعداد 66 لاکھ رہی ہے لیکن جی ایس ٹی کے نفاذ کے ایک سال کی مدت کے اندر 48 لاکھ نئے کاروباری اداروں کا اندراج کیا گیا۔ تقریباً 350 کروڑ بیجکوں پر کاروائی کی گئی اور محض ایک سال کی مدت میں گیارہ کروڑ ریٹرنس داخل کی گئیں۔ کیا اس سے وسیع تر عوامی قبولیت کا اظہار نہیں ہوتا؟
اے این آئی: عزت مآب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق این آر سی کے حالیہ نفاذ سے متعدد تضادات پیدا ہوگئے ہیں اور ممتا بنرجی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس سے خانی جنگی کی نوبت آسکتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
وزیر اعظم: خود اعتمادی سے محروم لوگوں کو ہی عوامی حمایت سے محرومی کا خوف ہو سکتا ہے اور ہمارے اداروں پر اعتبار نہ رکھنے والے لوگ ہی ’خانہ جنگی‘، ’خون خرابہ‘ اور ’دیش کے ٹکڑے ٹکڑے‘ جیسی باتیں کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ ملک کے عوام کی نبض سے ناواقف ہیں۔ جہاں تک ممتا جی کے موقف کا تعلق ہے انہیں یہ بات یاد کرنی چاہئے کہ 2005 میں انہوں نے ایوان پارلیمان میں کیا کہا تھا۔ کیا اس وقت ممتا جی درست تھیں یا آج کی ممتا جی درست ہیں؟
کانگریس بھی این آر سی پر سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔ این آر سی کی جڑی پچھلی تین دہائیوں کے عرصے میں پیوست ہیں جب آنجہانی راجیو گاندھی نے عوامی دباؤ میں آکر آسام معاہدے پر دستخط کیے تھے اس وقت سے آسام میں متعدد مرتبہ کانگریس کو جیت کی سرخروئی سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن پارٹی نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور عوام الناس کو گمراہ کرتی رہی۔ کانگریس اس بات سے واقف تھی کہ ایک مسئلہ موجود ہے۔ لیکن اس نے اسے کئی دہائیوں تک اس لئے ٹالے رکھا کیونکہ وہ ووٹ بینک کی سیاست کرتی تھی۔ میں عوام الناس کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے کسی بھی شہری کو ملک چھوڑنے کے لئے مجبور نہیں ہونا پڑے گا۔متعلقہ کاروائی کے مطابق انہیں تمام ممکنہ مواقع فراہم کرائے جائیں گے اور ان کے خدشات کا ازالہ کیا جائے گا۔ این آر سی دراصل ہمارا وعدیٰ تھا جسے ہم عزت مآب سپریم کورٹ کی رہنمائی میں پورا کر رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں ہے بلکہ ہمارے عوام کے تئیں ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر کچھ لوگ اسے راجنیتی یا سیاست کہہ رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ سیاست میں ہمارا کام عوامی خواہشات کے مطابق کام کرنا ہے اور ہمیں وہ کام کرنے ہیں جن کے لئے ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔
اے این آئی : اپوزیشن نے خواتین کے خلاف جرائم اور لنچنگ کے واقعات پر زبردست ہنگامہ کیا ہے۔ آپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اس پر آپ کا تبصرہ کیا ہے؟
وزیر اعظم: ان واقعات کو محض اعداد و شمار تک محدود کرکے ان پر سیاست کرنا انہیں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا صریحی ثبوت ہے۔ یہ دراصل ایک قسم کا ایک ایسا ذہنی رویہ ہے جو تشدد اور جرائم کی مخالفت کرنے کی بجائے اسے پروان چڑھانے پر یقین رکھتا ہے۔ ایسا خواہ ایک واقعہ ہو یا بہت سارے ہوں، اپنے آپ میں افسوسناک ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے سماج میں امن اور اتحاد قائم رکھنے کی غرض سے سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہئے۔ میں نے اور میری پارٹی نے ایسے واقعات اور ایسی ذہنیت کے خلاف متعدد مرتبہ اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جو محض الفاظ ہی نہیں دیکھتے بلکہ ہماری وزارتِ داخلہ کے اقدامات دیکھتے ہیں کہ ہم نے تشدد کے خلاف کیا رویہ اختیار کیا ہے۔
میں نے وزارت عظمی کے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد لال قلعے کی فصیل سے کہا تھا کہ خواتین کا وقار قائم رکھنے کو یقینی بنانا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ خواہ سرکار ہو یا سماج، سبھی کو اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ خواہ کوئی کنبہ ہو یا کوئی فرد واحد ہو۔ یہ سبھی کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک سرکاری سطح کا تعلق ہے، ہم نے خواتین کے خلاف بعض جرائم کے لئے سزائے موت تک مقرر کی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے معاملات کے جلد از جلد فیصلے پانے کے نتیجے میں سزائے موت یا پھانسی کی سزا پر تیز رفتاری کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ قانون کی بحالی و بالادستی کی سچی عمل آوری اور نفاذ کے تعلق سے ہماری سرکار کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔
اے این آئی: کیا خواتین کو بااختیار بنایا جانا محض ایک نعرہ ہے یا اس پر کچھ حقیقی کام بھی کیا گیا ہے؟
وزیر اعظم: وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا جہاں خواتین کو ترقی کے عمل میں شراکت داری نہیں دی جاتی۔ ترقیٔ خواتین سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ہم خواتین کی قیادت میں ترقی کرنے کے عمل پر کام کر رہے ہیں۔ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ ایسا پہلا قدم تھا جسے سرکار نے بچوں کے جنسی تناسب میں کمی کے مسئلے کے تدارک اور بچیوں کو پڑھائے جانے کی غرض سے شروع کیا تھا۔ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بچوں کے جنسی تناسب اور تفریق میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ اس نے دراصل ایک ایسی فعال عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے جس نے عوامی ذہن کو تبدیل کرنے کی کامیابی حاصل کی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب سلامتی کے امور پر کابینی کمیٹی میں دو خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دو اکابر خواتین ہیں وزیر خارجہ اور وزیر دفاع۔ خواتین کو پہلی مرتبہ ہندوستانی فضائیہ میں فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔
دیہی اور نیم شہری علاقوں میں سووَچھ بھارت ابھیان کے تحت لاکھوں بیت الخلاؤں کی تعمیر سے خواتین کی حفاظت اور سلامتی میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام سرکاری اسکولوں میں مشن کی طرز پر بچیوں کے لئے الگ بیت الخلاء تعمیر کیے گئے ہیں تاکہ طالبات کو اسکول چھوڑنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ نئے ترمیم شدہ فوائد زچگی قانون کے تحت زچگی کی چھٹی 26 ہفتے کر دی گئی ہے اور 50 سے زائد ملازمین والے ہر ادارے پر اس قانون کی پابندی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ خواہ یہ 50 ملازمین مرد ہوں یا خواتین۔ ان اداروں کو خواتین کے لئے کریشے (دارالاتفال) قائم کرنا لازمی ہوگا۔ اس سے خاتون ملازمین کو کام چھوڑ کر جانے کے لئے مجبور نہیں ہونا پڑے گا۔ مشن اندرا دھنش اور پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کے تحت ماں اور بچے کی بہتر صحت کو یقینی بنائے جانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اجوولا اسکیم کے تحت مفت دستیاب کرائے جانے والے ایل پی جی کنکشنوں نے غریب خواتین کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں یپدا کردی ہیں۔ انہیں دھواں بھرے چولہوں اور مسلسل کھانسی کے مرض سے نجات حاصل ہو گئی ہے۔ اب تک پانچ کروڑ سے زائد غریب خواتین کو مفت ایل پی جی گیس کنکشن دستیاب کرائے جا چکے ہیں۔مالیاتی شمولیت میں خواتین کی نمو میں خاطر خواہ اضافہ درج ہوا ہے جس سے ناقابل واپسی ادارہ جاتی ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔ جن دھن یوجنا کے تحت خواتین کے 16 کروڑ سے زائد کھاتے کھولے گئے ہیں۔ ہم نے محض مالیاتی شمولیت پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی ہے۔ بلکہ خواتین کو مالیاتی اعتبار سے بااختیار بنانے پر بھی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ یہ بات اپنے آپ میں انتہائی لائق ستائش ہے کہ پردھان منتری مدرا یوجنا (پی ایم ایم وائی) کے تحت تیرہ کروڑ سے زائد لوگوں کو قرض دیے گئے ہیں۔ جن میں سے 70 فیصد سے زائد قرض خواتین قرض خواہوں کو دیے گئے ہیں۔ نیشنل لیولی ہوڈ مشن کے تحت خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کو قرض دیے جانے میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت خواتین کے نام الاٹمنٹ دیے جانے کو ترجیح دی ہے۔یہ خواتین کو بااختیار بنائے جانے اور ان کے وقار میں اضافہ کیے جانے کی سمت میں اہم اقدامات ہیں۔
سرکار نے جنسی تفریق سے کبھی آنکھیں نہیں چرائی ہے بلکہ اس کے تدارک کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ طلاق ثلاثہ بل ہندوستان میں مسلم خواتین کے ساتھ جاری نا انصافی کے جواب میں مرتب کیا گیا ہے۔ کمزور خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے وسیع تر جرائم کے تدارک کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
نئی حج پالیسی کے تحت، پہلی مرتبہ، 45 برس سے زائد عمر کی خواتین کو محرم یا کسی مرد رفیق کے بغیر فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دی گی ہے۔ اسے ایک خاطر خواہ تبدیلی کے سمت میں اٹھایا جانے والے قدم سے تعبیر کیا جانا چاہئے۔میرے خیال سے بیان کیے جانے والے تمام نکات خواتین کو بااختیاربنائے جانے کی خاطر سرکار کی پائیدار عہد بستگی کی علامت ہیں۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا یہ محض ایک نعرہ ہے یا ٹھوس اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔
اے این آئی : ذات پات پر مبنی ریزرویشن پر آپ کا موقف کیا ہے؟ کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ کی سرکار ریزرویشن کے خاتمے کے لئے صحیح وقت کا انتظار کر رہی ہے؟
وزیر اعظم: ہمارے آئین کے مقاصد اور آنجہانی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے خوابوں کی تعبیر ہنوز نامکمل ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس خواب کو عملی جامہ پہنایا جائے اور ریزرویشن اس مقصد کے حصول کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ ریزرویشن جاری رہے گا۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کیا جانا چاہئے۔ آنجہانی بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر کے خواب اس ملک کی طاقت ہیں اور ہم ان خوابوں کو عملی تعبیر دینے کے لئے عہد بستہ ہیں۔ ہمارا منتر ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اس کے حصول کے لئے یہ بات اپنے آپ میں انتہائی اہم ہے کہ غریبوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ حاشیے پر پڑے افراد، پسماندہ ذمروں، دلتوں، قبائلی عوام اور دیگر پسماندہ ذمروں کے حقوق کا تحفظ اس مقصد کے حصول انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
کسی بھی اہم چناؤ سے پہلے ایسے متعدد مفاد پرست گروپ بھارتی جنتا پارٹی کے بارے میں یہ غلط فہمیاں پھیلانے لگتے ہیں کہ بی جے پی ریزرویشن کو ختم کر دے گی۔ اس مسئلے پر افواہ پھیلانے والے اور اس پر سیاسی کھیل کھیلنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ بابا صاحب امبیڈکر کے خوابوں کو پامال کیا ہے۔ یہ لوگ سماج کے کمزور طبقوں میں شکوک و بدعنوانی کے بیج بونے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ہندوستان کے لوگ ذہین اور عقلمند ہیں۔ وہ اس پروپگنڈے پر یقین نہیں کریں گے۔
ہندوستان کے طول و ارض پر نظر ڈالیے، شڈیول کاسٹ ، شڈیول اور دیگر پسماندہ زمروں کے ممبران کی تعداد بی جے پی میں سب سے زیادہ ہے۔ ممبران اسمبلی میں شیڈیول کاسٹ، شیڈیول ٹرائب اور دیگر پسماندہ زمروں سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کی تعداد بی جے پی میں سب سے زیادہ ہے۔ میں آپ سب سے گذارش کروں گا کہ اس وقت پر غور کریں جب ہمارے سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے منڈل کمیشن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ایوان پارلیمان میں اس کی زبردست مخالفت کی تھی۔ آج بھی ان کی پارٹی کی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں ہے۔
اے این آئی : بی جے پی کی چھوٹی اتحادی پارٹیوں کا اعتماد اتحاد میں کیوں کم ہوتا جا رہا ہے؟ ان میں سے کچھ پارٹیاں اتحاد کو خیرباد کہہ چکی ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ وہ 2019 میں آپ کی پارٹی کے ساتھ چناؤ نہیں لڑیں گی، 2014 میں آپ کی زبردست جیت کے باوجود آج آپ ایک ایسی پارٹی تصور کیے جا رہے ہیں جو ایک ایسا مقناطیس ہے جو حلیف پارٹیوں کو اپنی طرف کھینچنے میں پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم: ماضی قریب کے دو واقعات آپ کے اس سوال کا جواب ہیں۔ لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد اور راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کا انتخاب۔ ان دونوں انتخابات کے نتائج یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ ہمارا اتحاد پوری طرح مضبوط ہے اور کون اسے خیرباد کہہ رہا ہے۔ دراصل ہمیں ان انتخابات میں ان پارٹیوں کی بھی حمایت حاصل ہوئی جو ہمارے حلیفوں میں شامل نہیں ہیں۔ حال کے برسوں میں بی جے پی نے عوام الناس کے درمیان اپنی بنیاد کو وسیع کرنے کی کامیابی حاصل کی ہے اور این ڈی اے کے کنبے میں نئے اتحادیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
اے این آئی : جموں و کشمیر میں برسراقتدار سرکار کے اقتدار سے دستبردار ہونے کے بعد ریاست میں گورنر کے نفاذ کے باوجود سیاسی بحران اب تک ختم نہیں ہو سکا ہے۔ آپ کے خیال سے کیا آپ کی پارٹی نے جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بناکر کوئی غلطی کی تھی؟ کیا معلق فیصلے کی صورت میں آپ دوبارہ یہ اتحاد کریں گے؟
وزیر اعظم : جموں و کشمیر میں چناؤ کے بعد عوام کا فیصلہ بی جے پی اور پی ڈی پی کے اتحاد سے سرکار بنانے کا تھا۔ اس صورتِ حال میں بھی کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی امیدوں اور توقعات کی تکمیل کے لئے ہم نے ریاست میں اتحادی سرکار بنائی تاہم مفتی سعید مرحوم کی افسوسناک موت کے بعد ان توقعات کی تکمیل کے راستے میں بڑی دشواریاں تھیں۔ بی جے پی کے لئے عوام کا مفاد سیاسی مفاد سے بالاتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی قسم کے شک و شبہ کے ہم نے اقتدار سے دست بردار ہونا بہتر سمجھا۔ بی جے پی ہمیشہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ رہی ہے اور ان کے خوابوں کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ خاص طور سے ریاست میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ہم نے پنچایت اور مواضعات کی سطح پر کام کیا۔ ہم نے گاؤں کی سطح پر مقامی خودمختار سرکار قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس اتحادی سرکار نے یہ کام روزبہ روز مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ مرکزی سرکار لداخ اور جموں سمیت جموں و کشمیر کے سبھی علاقوں میں ترقی کے تئیں عہد بستہ ہے۔
اے این آئی: ہم نے حال کے تحریک عدم اعتماد کے دوران کچھ عجیب نظارے دیکھے؟ راہل گاندھی آپ کے پاس آکر گلے ملتے ہیں۔۔۔ آپ کے ذہن میں اس وقت کیا خیالات پیدا ہوئے؟ کانگریس اسے اپنی فتح قرار دے رہی ہے، جبکہ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ راہل گاندھی کا بچپنا تھا؟ آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟
وزیر اعظم : یہ فیصلہ آپ کریں گے کہ یہ کوئی بچکانا فعل تھا یا نہیں۔ اور اگر آپ فیصلہ نہ کر سکیں تو ’اشارہ‘ دیکھیں، آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل جائے گا۔ میں ایک ناچیز کامدار ہوں۔ اور اس ملک کے ان نامداروں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوں جن کا اپنا طریقہ سلوک اور طرز برتاؤ ہوتا ہے۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس سے نفرت کرنی ہے، کب نفرت کرنی ہے، کس سے محبت کرنی ہے اور کس طرح اس کی نمائش کرنی ہے۔ ایسی صورت حال میں میرے جیسا نامدار کیا کہہ سکتا ہے۔۔۔
اے این آئی : کیا آپ اور آپ کی پارٹی مودی مقابلہ اپوزیشن کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں؟ 2019میں اس مہا گٹھ بندھن سے مقابلے کے لئے آپ کا منصوبہ کیا ہے؟
اپوزیشن پارٹیاں اس بات سے متفق ہیں کہ ہماری پارٹی مقبول عام پارٹی ہے اور وہ ہم سے فرداً فرداً مقابلے کے لئے خوداعتمادی سے محروم ہیں۔ ان پارٹیوں کو عوام میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کا بڑا وقت ملا تھا، لیکن یہ پارٹیاں بدعنوانی، کنبہ پرستی اور بدانتظامی میں ہی مبتلا رہ گئیں۔ اب وہ یہ جانتے ہیں کہ، ذات پات، زمرہ، برادری اور مذہب پر مبنی ان کا انتخابی حساب کتاب ترقی کی کیمسٹری کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ یہ بی جے پی کی ترقیاتی سیاست میں عوامی اعتماد کے نتیجے میں ہی ممکن ہو سکا ہے۔ ریاست در ریاست، چناؤ در چناؤ، عوام الناس نے اپنے عزائم اور آرزؤں کی تکمیل کے لئے بی جے پی کو منتخب کیا ہے۔ لوگوں نے مرکزی سرکار کی کوششوں کے ذریعہ اپنی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہماری سرکار نیک نیت، بدعنوانی مخالف اور محنتی سرکار ہے۔
لوگوں نے بی جے پی اور ان پارٹیوں کے درمیان فرق کو نہ صرف بخوبی محسوس کر لیا ہے بلکہ اس کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ اس لئے اپوزیشن کے پاس ایک کے مقابلے سب کے اتحاد کے ذریعہ مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی، وہ بھی اس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں جس نے بدعنوانی کو ادارہ جاتی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ بائیں بازو کے نظریات کی مخالف پارٹیاں اور بائیں بازو نواز پارٹیاں آج ایک دوسرے کے ساتھ ایک اسٹیج پر ہیں۔ جن پارٹیوں کا وجود ہی ایک دوسرے سے لڑنےپر قائم تھا اب وہ آپس میں دوست بن گئی ہیں۔
ہمیں مہاگٹھ بندھن کے حقیقی کردار کو سمجھنا چاہئے۔ مہاگٹھ بندھن دراصل اپنے وجود کی بقا کے لئے ہے نہ کہ نظریاتی حمایت کے لئے۔ مہاگٹھ بندھن ذاتی عزائم اور آرزؤں کے لئے ہے، عوامی امیدوں اور آرزؤں کے لئے نہیں۔ مہاگٹھ بندھن خالصتاً طاقت کی سیاست کا حامی ہے، نہ کہ عوامی فیصلے کا۔ مہاگٹھ بندھ مخصوص کنبوں کے لئے ہے، نہ کہ ملک و قوم کی ترقی کے لئے۔ دراصل مہاگٹھ بندھ اذہان اور نظریات کے اتحاد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ موقع پرستی کا حامی ہے۔ اب واحد سوال یہ ہےکہ کیا یہ لوگوں میں چناؤ کے بعد اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔
اے این آئی : عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی جلد ہی پاکستان کا اقتدار سنبھال لے گی، آپ نے عمران خان سے بات کی اور انہیں مبارکباد بھی دی۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش کی۔ کیا آپ پاکستان کی نئی سرکار کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں؟ کیا آپ سارک کے اجلاس میں ہندوستان کی شرکت کی کوئی امید ہے؟
وزیر اعظم: میں نے ہمیشہ کہا ہےکہ ہم اچھے پڑوسی تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ ہم نے اس سمت میں متعدد اقدامات بھی کیے ہیں۔ میں نے حال ہی میں عمران خان کو انتخابی فتح کے لئے مبارکباد بھی دی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کو محفوظ مستحکم، خوشحال اور دہشت و تشدد سے پاک ملک بنائے جانے کے لئے پاکستان کی سرکار کام کرے گی۔
ذریعہ : این آئی نیوز