اگلے برس لوک سبھا انتخابات میں مہا گٹھ بندھن اور اس کی چہرہ کاری پر جہاں مبینہ حلیف پارٹیوں نے ہی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے، وہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسے ’تیل اور پانی کا ایسا آمیزہ قرار دیا ہے جس میں نہ تو تیل کام کا رہ جاتا ہے، اور نہ پانی قابل استعمال رہ جاتا ہے۔‘
گذشتہ چار سال کا ریکارڈ پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ لوگوں نے ترقی اور آرزؤں کی تکمیل کے لئے ریاست در ریاست بی جے پی پر بھروسہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی ہماری مقبولیت پر اتنا اعتماد ہے کہ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ وہ تنہا ہمارے خلاف نہیں لڑ سکتے ہیں۔
اگلے تین مہینوں میں چار اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کرائے جانے ہیں۔ جنہیں بی جے پی کے لئے لٹمس ٹیسٹ مانا جا رہا ہے۔ لنچنگ، ریزرویشن، ترقی اور روزگار جیسے متعدد امور کو اپوزیشن نمایاں کرکے پیش کر رہی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مہا گٹھ بندھن سرکار کے پیر باندھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی دوران روزنامہ دینک جاگرن کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہر سوال کا جواب دیا۔ مہا گٹھ بندھن پر پوچھے گئے سوال کا جواب وہ کچھ شاعرانہ انداز میں دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
’مہا گٹھ بندھن تیل اور پانی کے میل جیسا ہے،
اس کے بعد نہ تو پانی کام کا رہتا ہے،
اور نہ ہی تیل کام کا ہوتا ہے،
اور نہ ہی یہ میل،
اور یہ میل پوری طری ناکام ہو جاتا ہے۔‘
ایک طویل انٹرویو میں وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ ان پارٹیوں کے پاس عوام میں خود کو ثابت کرنے کے لئے خاصا وقت تھا لیکن یہ بدعنوانی، کنبہ پرستی اور بدانتظامی سے کبھی باہر نہیں آئے۔ آج لوگ جان گئے ہیں کہ ذات پات، ذمرے، قبیلے اور مذہب پر مبنی ان کا انتخابی حساب کتاب، ہماری ترقی کی کیمسٹری کا سامنا نہیں کر سکتا ہے۔ وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عوام بھی دیکھ رہی ہےکہ وہ خوف زدہ ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ لے کر صرف کھڑے ہونے کی کثرت کر رہے ہیں۔ ایسی پارٹیوں پر کوئی بھروسہ کرے بھی تو کیسے کرے جو خود ہی نڈر نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کو کیا طاقت دے سکتی ہیں۔ دوسری طرف این ڈی اے ایک مضبوط اتحاد ہے۔ یہ مجبوری کا اتحاد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو بھروسہ ہے۔
واضح ہو کہ وزیر اعظم پہلے بھی ایوان میں اپوزیشن کے اس خوف پر حملہ کر چکے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران بھی انہوں نے خاص طور سے کانگریس کو نشانے پر لیتے ہوئے بالواسطہ طور پر دوسری پارٹیوں کو خبردار کیا تھا۔ انہوں نے بابا صاحب امبیڈکر سے لے کر پرنب مکھرجی تک کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔ صرف اعتماد شکنی کی ہے۔ انہوں نے تیل اور پانی کے آمیزے کا حوالہ دیتے ہوئے بھی اسی پہلو کا نقشہ کھینچا ہے۔
وزیر اعظم نے 2019 میں بڑی جیت کا بھروسہ دلاتے ہوئے کہا کہ عوام کو ترقی چاہئے۔ ان کے خواب ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ خواب بی جے پی اور این ڈی اے سرکار ہی پورے کر سکتی ہے۔ ایسے کروڑوں کنبے ہیں جو مثبت تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں۔ عوام نے دیکھا ہے ہماری سرکار ایماندار ہے اور سخت محنت کر رہی ہے۔ اسی لئے مودی بنام مہا گٹھ بندھن بنانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اس تجربے کا بھی فیل ہو جانا طے ہے۔
آئندہ انتخابات میں دلتوں اور پسماندہ طبقات پر سیاست پوری طرح گرم ہوگی۔ پچھلے کچھ ضمنی انتخابات کے نتیجوں سے جوش میں آئی اپوزیشن نے جہاں دلت اور پسماندہ طبقات پر مرکوز ہوتے ہوئے بی جے پی کو گھیرنے کی حکمت عملی وضع کی ہے، جبکہ وزیر اعظم مودی کانگریس کو سرے سے ہی دلت اور پسماندہ طبقات کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں، ’آنجہانی راجیو گاندھی نے بھری پارلیمنٹ میں منڈل کمیشن کے خلاف تقریر کی تھی۔ یہ سب ریکارڈ میں موجود ہے۔ انہوں نے پسماندہ طبقات کو انصاف سے محروم رکھنے کے لئے بڑی بڑی دلیلیں پیش کی تھیں۔‘
1997 میں کانگریس اور تیسرے محاذ کی سرکار نے پرموشن میں ریزرویشن بند کر دیا تھا۔ وہ تو اٹل جی کی سرکار تھی جس نے پھر سے ایس سی ۔ ایس ٹی سماج کو انصاف دلایا۔ پچھلے دنوں ماب لنچنگ سے لے کر ایس سی ۔ ایس ٹی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے تک پر خاصی سیاست ہوئی ہے۔ مبینہ مہا گٹھ بندھن کا خاکہ بھی اسی انداز سے تیار کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو ان ذمروں سے ملے ووٹ کو کیسے روکا جائے۔ دوسری طرف برسر اقتدار پارٹی ان پارٹیوں کی پرانی تاریخ کو کھنگال چکی ہے اور عوام کے سامنے اسے پیش کیا جائے گا۔
دینک جاگرن کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم مودی بغیر کسی قسم کے پس و پیش کے کہتے ہیں کہ جب بھی چناؤ آتا ہے، ان پارٹیوں کو دلت اور پچھڑے زمروں کی یاد آتی ہے۔ الہام پھیلایا جاتا ہے۔ لیکن عوام جانتے ہیں کہ بی جے پی سرکار ان کے مفادات کے لئے عہد بستہ ہے۔ وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں انتخابات کے نتائج کے تجزیے پر تبصرہ کیا۔
دینک جاگرن نے جب ان سے پوچھا کہ کیا چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا کا لٹمس ٹیسٹ مانا جائے گا تو وہ طنز کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ ہمارے لیے کون سا چناؤ لٹمس ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت اور یہاں تک کہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات تک مودی کے لئے لٹمس ٹیسٹ بتائے جاتے ہیں۔ لیکن مزے دار بات یہ ہے کہ جب ہم لٹمس ٹیسٹ پاس کر لیتے ہیں، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، اس وقت چناؤ کی اور اس جیت کی اہمیت اچانک کم محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن، اگر کسی چناؤ میں اپوزیشن تھوڑا بہت چیلنج بھی دیتا ہے تو وہ ان کی اخلاقی جیت ہو جاتی ہے۔
مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں خوش حکمرانی کے دم پر چناؤ جیتے جائیں گے۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ جہاں تک مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کی بات ہے، کانگریس نے ان تینوں ریاستوں میں اپنی شکست پہلے سے ہی قبول کر لی ہے اور وہ ترقی کے نام پر چناؤ لڑنے سے دور بھاگ رہی ہے۔ ہمارے پاس تینوں ریاستوں کے مقبول عام وزرائے اعلیٰ ہیں۔ ان ریاستوں کی عوام وہاں کی ریاستوں کی خوش حکمرانی کی بنیاد پر بی جے پی کو اپنا ووٹ دیں گے۔
ریزرویشن ہمیشہ جاری رہے گا
ریزرویشن کے سوال پر صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ریزرویشن کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہمارے آئین اور بابا صاحب کے خواب ابھی ادھورے ہیں اور ریزرویشن انہیں پورا کرنے کا ایک اہم جزو ہے۔ ریزرویشن جاری رہے گا، ہمیشہ رہے گا اور ریزرویشن کے ذریعہ دلت سماج کو بااختیار بنانے کا کام جاری رہے گا۔
2019 میں بڑی جیت کا راستہ صاف
سوال جواب کے دور میں جناب نریندر مودی کہتے ہیں کہ پچھلے ساڑھے چار سال میں ملک نے ترقی کی شاہراہ پر سفر شروع کیا ہے۔ سرکار میں سوچ دکھائی دی ہے اور کام مکمل کرنے کا عزم زمین پر مجسم ہوا ہے۔ عوام بھی اسے مانتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن دلتوں کے حقوق سے جڑے ایس سی ۔ ایس ٹی، او بی سی کمیشن سمیت سبھی مسئلوں پر بے نقاب ہو چکی ہے۔ ایسے میں 2019 میں پھر بڑی جیت کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔
ہر گلی ہر نکڑ پر یہ بحث ہے کہ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں مودی لہر تھی، اس بار کیا ہوگا؟ کیا اپوزیشن کوئی توڑ ڈھونڈھ پائے گی۔ بی جے پی پچھلی بار سے بھی بڑی جیت کا دعویٰ کر رہی ہے تو بڑی لہر پیدا کرنے کا وسیلہ کیا ہوگا۔ وزیر اعظم مودی کا فارمولہ ایک ہی ہے، ترقی۔ دینک جاگرن کے سوالوں میں وہ بار بار کہتے ہیں کہ عوام جو چاہتے ہیں سرکار وہی کر رہی ہے۔ جو امیدیں تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں۔ بدعنوانی پر شکنجہ کسا جا چکا ہے۔ عوام کا پیسہ عوام کی ترقی میں خرچ ہو رہا ہے۔ وہیں وہ اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کی بنیاد اور اس کی اہمیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آئندہ انتخابات اپوزیشن کو پھر یہ سوچنے پر مجبور کریں گے کہ وہ ملک اور سماج کے دل اور احساس کو سمجھ بھی پائے ہیں یا نہیں۔
آسام میں قومی شہری رجسٹر پر سیاست گرم ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ این آر سی سیاسی سے زیادہ قومی مسئلہ ہے؟
این آر سی پر بہت سے وعدے کیے جا چکے ہیں، لیکن ہم نے پہلی بار اسے زمین پر اتارنے کی ہمت کی ہے جن کی عوامی بنیاد ختم ہو چکی ہے، جو خوداعتمادی سے محروم ہو چکے ہیں، جنہیں ملک کے آئین پر یقین نہیں ہے، وہی یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سول وار ہو جائے گی، خون خرابہ ہو جائے گا، ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ان کی ایسی زبان فطری ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملک کے عوام سے اور ان کے احساسات سے پوری طرح کٹ چکے ہیں۔ عوام کی ناراضگی اور دباؤ کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے آسام معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بعد میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ ہمارا یقین ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں شہریوں کے حقوق ان کی تمنائیں اور آرزؤیں بہت ہی اہم ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل ہی جمہوریت کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ جہاں تک ممتا جی کی بات ہے، انہیں وہ دن یاد ہونا چاہئے جب وہ پارلیمنٹ میں مغربی بنگال کے ناجائز ووٹروں کے مسئلے پر مشتعل ہو گئی تھیں۔ انہیں بتایا جانا چاہئے کہ اس وقت کی ممتا جی صحیح تھیں یا آج کی صحیح ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے این آر سی پر الگ الگ زبانیں بول رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ووٹر لسٹ سے لوگوں کا نام نکالنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ لوگ بالا صاحب ٹھاکرے کے حق رائے دہندگی چھینا جانے پر جشن مناتے ہیں اور آج این آر سی پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر ماتم کر رہے ہیں۔
این آر سی کو کچھ پارٹیوں کی جا نب سے اقلیتوں کا مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ ان کی سوچ ہے اور یہی ان کا دائرہ ہے، میں نے اپنی بات تفصیل سے رکھ دی ہے۔ ہماے لئے قومی سلامتی کو اول ترین اہمیت حاصل ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں کے دوران سماج میں الگ الگ وجوہات سے بہت زیادہ کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لنچنگ جیسے واقعات میں یکبارگی اچھال پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں کی جانب سے ہندو طالبان جیسے بیان دیے گئے۔ آپ اس کی کیا وجہ مانتے ہیں؟
بدعنوانی پر لگام کسی گئی ہے۔ عوام کا پیسہ عوام کی ترقی میں خرچ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کا فارمولہ ایک ہے ہی، وکاس یعنی ترقی۔ نئی دہلی : جے این این ۔ ہر گلی ہر نکڑ پر یہ بحث ہے کہ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں مودی لہر تھی، اس بار کیا ہوگا؟ کیا اپوزیشن کوئی توڑ ڈھونڈھ پائے گی۔ بی جے پی پچھلی بار سے بھی بڑی جیت کا دعویٰ کر رہی ہے تو بڑی لہر پیدا کرنے کا وسیلہ کیا ہوگا۔ وزیر اعظم مودی کا فارمولہ ایک ہی ہے، ترقی۔ دینک جاگرن کے سوالوں میں وہ بار بار کہتے ہیں کہ عوام جو چاہتے ہیں سرکار وہی کر رہی ہے۔ جو امیدیں تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں۔ بدعنوانی پر شکنجہ کسا جا چکا ہے۔ عوام کا پیسہ عوام کی ترقی میں خرچ ہو رہا ہے۔ وہیں وہ اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کی بنیاد اور اس کی اہمیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آئندہ انتخابات اپوزیشن کو پھر یہ سوچنے پر مجبور کریں گے کہ وہ ملک اور سماج کے دل اور احساس کو سمجھ بھی پائے ہیں یا نہیں۔
اترپردیش میں کوئی ایسی پہل جو آپ کو لگتا ہے کہ ریاست کی حالت اور سمت بدل دے گی اور اگلے لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو 73 سیٹوں جیسے عوامی فیصلے کی بنیاد قائم کرے گی؟
اترپردیش سرکار آج قانون کا راج قائم کرتے ہوئے ریاست کو ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ ریاستی سرکار کی کوششوں سے ہی منصوبوں اور علاقوں میں اترپردیش سرفہرست ہو گیا ہے۔ مرکزی سرکار کی طرح گاؤں غریب اور کسان کی ترقی اترپردیش سرکار کی بھی ترجیح ہے۔ مرکزی سرکار کی اسکیموں کی عمل آوری کی بات کی جائے تو پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت اٹھارہ لاکھ مکانات کی تعمیر، پردھان منتری اجوولا یوجنا سے 87 لاکھ غریب خواتین کو مفت رسوئی گیس کنکشن، سوبھاگیہ یوجنا اور دین دیال اپادھیائے گرام جیوتی یوجنا کے تحت 46 لاکھ سے زائد گھروں کو بجلی کا کنکشن دستیاب کراکے اترپردیش نے پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ مدرا یوجنا کے تحت ایک کروڑ سے زائد لون دیے گئے ہیں۔ صرف ایک روپیہ مہینہ اور 90 پیسے یومیہ کے پریمئم پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ غریب لوگوں کو تحفظاتی حصار فراہم کرایا جا چکا ہے۔ یہ تو کچھ ہی مثالیں ہیں۔ ایسے متعدد اقدامات کی پیش رفت کی گئی ہے جس سے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ میں کسی ایک پیش رفت کے انتخاب کا کام آپ پر چھوڑتا ہوں۔ جہاں تک اگلے چناؤ کی بات ہے تو میری سرکار نے آج تک کوئی کام چناؤ کو پیش نظر رکھ کر نیہں کیا۔
کیا سرکار محسوس کرتی ہے کہ گنا بقایا جات سرکار کے لئے پھانس بنتے جا رہے ہیں؟
یہ مئسلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ جب ہماری سرکار آئی اس وقت گنے کے بقایا جات ایک بڑا مسئلہ تھے اور لوگوں میں زبردست ناراضی اور بے چینی تھی۔ پچھلی سرکاروں کی بدنظمی کی وجہ سے جو کام اٹکے رہے انہیں ہم پٹری پر لا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ گنا کسانوں کے تمام بقایا جات ان تک پہنچائے جائیں۔ ہم نے اس بار گنے کی منفعت بخش امدادی قیمت 20 روپئے بڑھا کر 275 روپئے فی کیونٹل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چینی کی پیداوار میں اضافے کو دیکھتے ہوئے یہ قیمت دس فیصد ریکوری پر طے کی گئی ہے۔ گنے کی فی کیونٹل پیداوار پر 155 روپئے لاگت آتی ہے۔ اب جو قیمت طے کی گئی ہے وہ پیداواری لاگت کے تقریباً پونے دو گنے کے بقدر ہے۔ اس سے اگر چینی کی ریکوری فی کیونٹل کم بھی رہتی ہے، تب بھی کسانوں کو جب کم بھی رہتی ہے تب بھی کسانوں کو 261 روپئے کا بھاؤ ملے گا جو پہلے سے زائد ہے۔ کسانوں کو گنے کے بقایا جات کی جلد از جلد دینے کے لئے ہم کئی کوششیں کر رہے ہیں۔ چینی کی درآمد پر ہم سو فیصد ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ بیس لاکھ ٹن چینی برآماد کی جانے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ چینی کی کم از کم قیمت بھی طے کی جا چکی ہے اور فی کیونٹل ساڑھے پانچ روپئے کی اضافی مدد کسا بھائیوں کے بینک کھاتوں میں پہنچانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے۔ ان کوششوں کے اثرات بھی دکھائے دینے لگے ہیں اور پچھلے بقایا جات مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ آئندہ دنوں میں بقایا جات کی رقم کی ادائیگی کی رفتار اور تیز ہوگی۔ ہم گنے سے صرف چینی ہی نہیں ایندھن بھی بنا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ چینی کی ضرورت سے زیادہ پیداوار ہونے پر ہمارے کسان بھائیوں کو مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گنے سے ایتھنول بنائے جانے کے لئے چینی ملوں کو نئی تکنالوجی اور نئی مشینوں کے لئے مزید مدد بھی دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ چار برس پہلے یعنی ہماری سرکار آنے سے پہلے تک ہندوستان میں 40 کروڑ ایتھنول پیدا ہوتا تھا جس کی پیداوار اس سال اب تک 140 کروڑ لیٹر تک پہنچ چکی ہے۔ ایتھنول کے منافع بخش قیمتوں میں بھی سرکار نے اضافہ کیا ہے۔
پچھلے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی نے این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کا ایک بڑا کنبہ بنایا تھا۔ ٹی ڈی پی اور شیو سینا جیسی پارٹیوں نے سوال کھڑا کر دیا، کیا کچھ نئی پارٹیاں این ڈی اے سے جڑ سکتی ہیں؟
دیکھئے جب صورت حال تبدیل ہوتی ہے تو اسی طرح ہر شخص اپنی معلومات کے ساتھ اپنے سوالات کی بھی تازہ کاری کرتا ہے۔ ہندوستان کی سیاست میں 1990 کی دہائی کے بعد سے بہت کچھ بدل چکا ہے ہے لیکن دیکھئے کہ سوالات ویسے کے ویسے ہی رہ گئے ہیں۔ اس وقت یہ پوچھا جاتا تھا کہ کیا بی جے پی کو حلیف مل پائیں گے۔ تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ کس طرح اٹل جی نے بی جے پی کے تئیں منفی رائے کا اظہار کرنے والے سبھی سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ اٹل جی نے گٹھ بندھن کی سرکار کو جس طرح کامیابی کے ساتھ لے کر چلایا وہ ایک بڑی مثال ہے۔ 2014 کے چناؤ کے دوران بھی سوالات نہیں بدلے۔ اس وقت سیاسی پنڈت یہ سوال اٹھاتے تھے کہ کیا مودی کا ساتھ دینے والا کوئی ملے گا۔ لیکن دیکھئے آج بھی 20 سے زائد پارٹیوں کا ہمارا گٹھ بندھن آپ کے سامنے ہے۔ این ڈی اے ہماری مجبوری نہیں ہماری طاقت ہے۔ 2014 کے چناؤ نتائج کے بعد بی جے پی کے پاس اکیلے سرکار بنانے کی تعداد موجود تھی۔ لیکن ہم نے اتحادی سرکار بنائی اور اپنے حلیفوں کو سرکار کا حصہ بنایا۔ یہ این ڈی اے کے لئے بی جے پی کے عزم کا مظہر ہے اور بتاتا ہے کہ ہمارے لئے حلیف کتنے اہم یہں۔ گٹھ بندھن کو لے کر ہمارا شروع سے ہی یہی نظریہ رہا ہے۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں الگ الگ علاقوں کی الگ الگ توقعات اور آرزوئیں ہوتی ہیں۔ ان کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کئی ریاستو ں میں آج ہماری گٹھ بندھن سرکاریں ہیں اور سبھی اچھا کام کر رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں این ڈی اے اب گوڈ گورنینس کا متبادل بن چکا ہے۔ کیاآپ کسی اور ایسے گٹھ بندھن کا نام لے سکتے ہیں جس میں اتنی پارٹیاں شامل ہوں۔ جس کی اتنی ریاستوں میں سرکاریں ہوں۔
آپ ون نیشن ون الیکشن کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے یہ اٹکلیں بھی لگائی جا رہی ہیں کہ تین ریاستوں کے ساتھ ساتھ لوک سبھا چناؤ بھی کرا دیے جائیں ۔ یہ کتنا سچ ہے؟
ایک ساتھ چناؤ کرایے جانے پر ملک بھر میں با معنی بحث کی ضرورت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ بحث شروع ہو چکی ہے۔ اس سمت میں قانونی کمشین نے بھی کچھ کوششیں کی ہیں۔ دراصل بار بار چناؤ کی وجہ سے ملک کے محدود وسائل پر زبردست بوجھ پڑتا ہے اور انتخابات کے دوران نافذ کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ترقیاتی کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ملک کی وسعت اور تنوع کو دیکھتے ہوئے ایک ساتھ چناؤ کرایے جانے زیادہ ضروری ہیں۔ چناؤ کافی خرچیلا ہو گیا ہے۔ اس پر سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میں سرکاری وسائل بھی صرف ہوتے ہیں۔ بار بار چناؤ ہونے سے اسی تناسب میں اس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ اکیلے 2014 کے ہی چناؤ کو لے لیں۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن کو نیم فوجی دستوں کی 400 کمپنیاں طعینات کرنی پڑیں۔ ملک بھر کے نو لاکھ تیس ہزار بوتھوں پر چناؤ کرانے کے لئے تقریباً ایک کروڑ افراد کی نفری لگائی گئی۔ اس کے بعد بھی پچھلے چار برسوں میں 19 ریاستوں میں چناؤ ہوئے ہیں۔ ان چناؤں میں نیم فوجی دستوں کی 6000 کمپنیاں طعینات کی گئیں اور 32 لاکھ ملازمین کو لگایا گیا۔ یہی نہیں، بار بار چناؤ ہونے سے عام لوگوں میں اس کے تئیں بیزاری پنپتی ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں۔
بالواسطہ ٹیکسوں کے مورچے پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سرکار نے اب براہ راست ٹیکسوں میں بہتری کی سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ کیا آنے والے وقت میں درمیانہ درجے کے ذمرے اور کاروباریوں کو ٹیکس میں بڑی راحت کی امید کی جائے؟
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جی ایس ٹی کونسل کے پچھلے کئی اجلاسوں میں عوام الناس کو راحت دینے والے کئی فیصلے لئے گئے۔ حال ہی میں راکھی اور گنپتی کی مورتیوں پر جی ایس ٹی ختم کر دیا گیا۔ آزادی کے بعد اب تک ملک میں تقریباً 66لاکھ کاروباروں کا اندراج کیا گیا تھا۔ لیکن جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد محض ایک سال کی مدت کے اندر 48 لاکھ نئے کاروباروں کا اندراج کیا گیا۔ جی ایس ٹی کے تحت ایک سال میں تقریباً 350 کروڑ بل پروسیس کیے گئے اور گیارہ کروڑ ریٹرن فائل ہوئے جو اس بات کا مظہر ہے کہ لوگوں نے کھلے دل سے جی ایس ٹی کو قبول کیا ہے۔ ملک بھر میں چیک پوسٹ ختم کر دیے گئے۔ ریاستوں کی سرحدوں پر اب کوئی قطار نہیں لگتی۔ اس سے نہ صرف ٹرک ڈرائیوروں کا وقت بچا بلکہ اس سے لاجسٹک سیکٹر کو بھی بہت بڑھاوا مل رہا ہے۔ اور اس سے ملک کی یپدواری اہلیت بھی بڑھنے لگی ہے۔ اگر شرحوں کی بات کی جائے تو پہلے کئی ٹیکس چھپے ہوئے تھے، اب آپ کے سامنے جو دکھائی دیتا ہے اسی کی ادائیگی کی جانی ہے۔ سرکار نے تقریباً 400 گروپوں کی اشیاء کی ٹیکس کی شرح کم کر دی ہے۔ قریب 150 اشیاء کے گروپوں پر کوئی ٹیکس نہیں رہ گیا ہے۔ اگر آپ ٹیکس کی شرح دیکھیں تو روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر بوجھ میں واقعی کمی آئی ہے۔ جیسے چاول، گیہوں، چینی، مصالے جیسی چیزوں پر ٹیکس گھٹا دیے گئے یہں۔ روزمرہ کے استعمال کی زیادہ تر اشیا پر یا تو کوئی ٹیکس نہیں رہ گیا ہے یا وہ پانچ فیصد کے سلیب میں آچکے ہیں۔ تقریباً 95 فیصد چیزیں اٹھارہ فیصد سے کم ٹیکس سلیب میں ہیں۔
آپ کی سرکار سرکاری شعبے کے بینکوں کی بہتری کے لئے مسلسل کوششیں کر رہی ہے، لیکن حالات میں سدھار ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔
بینکنگ سیکٹر معیشت کی ایک اہم اکائی ہوتی ہے جو پچھلی سرکار کے کچھ اشخاص کے سیاسی مفاد کی تکمیل کا مرکز بن گئی تھی۔ این پی اے (بینکوں کے پھنسے قرض) کی بنیاد سمجھنی ضروری ہے۔ اسے نہ صرف بینکنگ کے سیکٹر میں بلکہ پچھلی یو پی اے سرکاروں نے بھی دانستہ طور سے چھپائے رکھا۔ بینکنگ سیکٹر کی بدحالی 2008 میں شروع ہوئی تھی اور 2014 میں جب تک کانگریس اقتدار میں رہی بینکوں میں انڈر گراؤنڈ لوٹ جاری رہی۔ میں آپ کو ایک آنکڑا دیتا ہوں۔ 2008 تک یعنی آزادی کے ساٹھ سال میں بینکوں نے کل ملا کر تقریباً 18 لاکھ کروڑ کی رقم قرض کے روپ میں دی لیکن 2008 سے 2014 کے درمیان محض چھ برسوں میں یہ رقم 52 لاکھ کروڑ ہوگئی۔ یعنی جتنا لون 60 سال میں دیا گیا، اس سے دوگنا سے زائد لون صرف چھ برسوں میں دیے گئے۔ یہ سب ہوا کانگریس کے فون بینکنگ سسٹم سے۔ یہ وہ نظام تھا جس میں صرف ایک فون کال پر ایک موٹا قرض دے دیا جاتا تھا۔ اور جب اس کی ادائیگی کا وقت آتا تھا۔ تو دوسرے فون سے دوسرا لون مل جاتا تھا تاکہ پہلے لون کی ادائیگی ہو سکے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ ایسا اس لئے بھی ممکن ہو پا رہا تھا کہ بینکوں کے سربراہ خاص طور سے چنے ہوئے تھے۔ اس طرح ملک میں این پی اے کا ایک زبردست جنجال تیار ہو گیا۔ یہ فون بینکنگ کی سہولت ملک کے غریبوں، درمیانہ درجے کے لوگوں اور کسانوں کے لئے نہیں تھی۔ یہ صرف کچھ چنندہ بڑے لوگوں کے لئے تھی۔ این پی اے جنجال ایک طرح سے لینڈ مائنس کی طرح تھا۔ ہم نے سرکار میں آتے ہی اس کے خلاف چوطرفہ حملے کیے۔ کسی کو چھوڑا نہیں جا رہا ہے۔
بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں کسان تحریک تیز ہو رہی ہے۔ امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو لے کر اختلاف ہے۔ سوال کھڑا ہو رہا ہے کہ جب نفاذ ہی نہیں کرایا جا سکتا تو پھر ایم ایس کے تعین کا کیا فائدہ؟
آپ کا یہ خیال ہمارے ٹریک ریکارڈ کے بر عکس ہے۔ آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ پچھلی یو پی اے سرکار کے دس سال کی مدت کار میں جہاں 2,65,164 ٹن دالیں ایم سی پی پر خریدی گئی تھیں، اس سے تقریباً بیس گنا زیادہ ہماری سرکار نے پچھلے چار برسوں میں خریدی۔ ہم نے سال 2014-2015 میں آج تک 52,50,724 دالیں خریدی ہیں۔ ایم ایس پی کی پیداواری لاگت کے مقابلے کم سے کم 150 فیصد رکھنے کے سرکار کے تاریخی فیصلے سے ملک کے کروڑوں جفاکش اَن داتاؤں کو فائدہ ملے گا۔ میں جاگرن سے اپیل کرتا ہوں کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن نے کسان کلیان کی سرکار کی پالیسیاں اور سمتوں پر جو مضمون لکھا ہے، اسے اپنے قارئین تک ضرور پہنچائے۔
آپ کی سرکارکی تشکیل کے ساتھ ہی گنگا کی صفائی کی امید جاگی تھی۔ وقت کی حد بھی طے کی گئی تھی۔ لیکن حالات بہت نہیں بدلے ہیں۔
گنگا ندی ہماری عقیدت کی علامت ہے۔ گذشتہ دہائیوں میں جو حالت گنگا کی ہوئی وہ سب نے دیکھی ہے۔ 2014 سے پہلے کسی بھی سرکار نے گنگا کی صفائی کے لئے مجموعی پالیسی نہیں وضع کی۔ ہماری سرکار نے محض چار سال میں ہی گنگا کو صاف اور نرمل بنانے کے لئے ایک مضبوط ادارہ جاتی نظام وضع کیا ہے۔ نمامی گنگا کے روپ میں اسکیمیں بنائی گئی ہیں اور بیس ہزار کروڑ روپئے سے زائد سرمایہ مختص کیا گیا ہے۔ ماضی میں کسی بھی سرکار نے ایسا نہیں کیا تھا۔ نمامی گنگا کے ساتھ نمامی گنگا کے کام شروع ہو چکے ہیں۔ ہم نے مختصر وقت میں ہی گنگا کے ساحل پر آباد گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک بنانے، وادی کی صفائی کرنے، شہری سیویج کو صاف کرنے کے لئے سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے اور صنعتوں اور ٹینریوں سے آلودگی کی روک تھام کے لئے نگرانی کا نظام بنانے اور عام لوگوں کو بیدار بنانے کے طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ ان کوششوں کے شروع ہونے کے نتائج دکھائی دینے لگے ہیں۔
اپوزیشن معیشت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ الزام ہے کہ مودی سرکارکے مدتِ کار میں شرح نمو کی رفتار کم ہوگئی ہے؟
ہمارا توجہ متوازن ترقی پر ہے۔ ایسی ترقی جس میں گاؤوں، غریب کسان اور نوجوانوں کی مجموعی شراکت داری ہو۔ 2014 میں ہماری سرکار سے پہلے معیشت کی صورت حال کیا تھی، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مہنگائی بے لگام تھی، روزگار کا فقدان تھا۔ بدعنوانی اور غیر شفاف طریقہ کار سے ملک کے قدرتی وسائل کی لوٹ ہو رہی تھی۔ اور سرکاری مالیہ کی بدنظمی اور بدعنوانی عروج پر تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مالی سال 2013-14 میں ملک کی شرح ترقی کم ہو کر پانچ فیصد سے بھی نیچے ہو کر آگئی۔ ہمیں متحدہ ترقی پسند اتحاد سرکار سے ایسی معیشت وراثت میں ملی جس میں بینکوں کے این پی اے کو چھپا کر رکھا گیا تھا۔ گذشتہ چار برس میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئی اصلاحی اقدامات کرکے خوش انتظام اور شفاف پالیسیوں سے معیشت کو صاف ستھرا اور متوازن بنانے کا کام کیا ہے۔ ہم نے برسوں سے زیر التوا پڑے جی ایس ٹی کا نفاذ کیا۔ بینکوں کے این پی اے کے وصولنے کے لئے دیوالیہ پن پر قانون بنایا۔ سال بہ سال سرکار کے مالیہ نظام کے نظم کو قائم رکھا جس سے مہنگائی اور ہر قسم کا گھاٹا قابو میں رہے۔ غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے باقاعدہ ادارہ جاتی نظام بنایا۔ ہماری انہی کوششو ں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا بھروسہ ہندوستانی معیشت پر بحال ہوا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی اہم معیشت بن گیا ہے۔ بین الاقوامی مانیٹری فنڈ اور بینک جیسے باوقار بین الاقوامی ادارے بھارتی معیشت کی خصوصیات کی تعریف کر رہے ہیں۔
سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا نشانہ ہے جبکہ زراعت کی شرح نمو 4.9 فیصد سے کم ہوکر 2.1 فیصد پر آگئی ہے۔ اس شرح ترقی سے سرکار آمدنی بڑھانے کے نشانے کو کس طرح حاصل کر سکے گی؟
زراعت کی ترقی اور کسانوں کی فلاح کے لئے پہلی بار ہماری سرکار نے مجموعی کوششیں کی ہیں۔ بات صرف زراعت کو نقصان سے ابھارنے کی نہیں ہے بلکہ سرکار نے کسانوں کی آمدنی کو سال 2022 تک دوگنا کرنے کا نشانہ معین کیا ہے۔ اس سمت میں سرکار نے مؤثر کوششیں بھی شروع کر دی ہیں جس کے نتیجے سامنے آنے لگے ہیں۔ پچھلے تین برسوں سے ملک میں اناجوں کی آل ٹائم ہائی یعنی ریکارڈ توڑ پیداوار ہوئی ہے۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے سب سے پہلے کھیتی کی لاگت کم کرکے پیداوار بڑھانے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ ہر کسان کو سوائل ہیلتھ کارڈ دینے کا بنیادی کام مقررہ مدت میں پورا کر لیا گیا ہے۔ مٹی کے تجزیے سے کھاد کی بربادی رکی اور زمین کی صحت میں سدھار ہوا۔ ہر کھیت کو پانی پہنچا کر ’پر ڈراپ مور کراپ‘ کا نعرہ کامیاب ہوا۔ روایتی حیاتیاتی زراعت سے شمال مشرقی ریاستوں کو پیداوار کی زیادہ قیمت ملنے لگی ہے۔ کھیتی کے ساتھ باغبانی ، ڈیری، ماہی پروری، پولٹری، شہد کی مکھیوں کے پالنے جیسے کاروبار نے کسانوں کی مالی حالت میں سدھار کیا ہے۔ سرکار نے زراعت کے شعبے کے بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا ہے جہاں پچھلی سرکار کے چار سالوں کا بجٹ 1.21 لاکھ کروڑ روپئے تھا، اسے ہماری سرکار نے 2.11 لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچا دیا ہے۔ زرعی شعبے کی وسعت کو دیکھا گیا۔ پیداوار بڑھانے کے ساتھ کسانوں کی پیداوار کی بہتر اور منفعت بخش قیمتیں دینا ہماری سرکار کی اولیت رہی ہے جسے پورا کیا گیا۔ بائیس ہزار اضافی نئ منڈیا قائم کی جا رہی ہیں جنہیں ای۔ نام سے جوڑا جا رہا ہے۔ جس میں پردھان منتری سمپدا یوجنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے جہاں زرعی پیداوار کی مقامی سطح پر وقت رہتے کھپت ہوگی، وہیں دیہی جوانوں کو روزگار بھی مہیا ہو پائیں گے۔
سووَچھ بھارت مشن کی رفتار سے آپ مطمئن ہیں؟ اکتوبر 2019 تک پورے ملک کو صاف ستھرا بنانے کا نشانہ کیسے پورا ہوگا؟
سووَچھ بھارت مشن آج ایک عوامی تحریک بن چکا ہے۔ گاندھی کے سپنوں کا بھارت تبھی بنے گا جب پورا ملک پوری طرح صاف ہوگا۔ سووَچھتا مشن کی کامیابی تبھی ممکن ہوگی جب ملک کے 125 کروڑ لوگ اس مشن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنایا بھی ہے۔ صفائی کے تئیں لوگوں کو بیدار بنانے کے لئے میڈیا کا کردار اہم رہا ہے۔ اسکولی بچوں میں یہ قدروں کے روپ میں پیدا ہورہی ہے جہاں چار سال پہلے تک صفائی کا دائرہ محض 39 فیصد تھا، وہ اب بڑھ کر 85 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سماج کا ہر طبقہ اس مشن سے جڑ چکا ہے۔ اس مشن کو مسلسل عمل کے تحت چلاتے رہنا ہوگا۔ اس سے غریبی سوئے تغذیہ اور بیماری سے نجات ملے گی۔ اتنے کم وقت میں اس قدر عظیم و وسیع مشن پورا ہونے والا ہے جو دنیا میں ایک مثال بنے گا۔ ملک میں صفائی سھترائی کو لے کر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی ایک بڑی کامیابی ہے۔
بی جے پی کے صدر بار بار پہلی سے بھی بڑی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ان سے اتفاق رکھتے ہیں؟
ہم ترقی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے اور پچھلے چار سالوں میں بغیر رکے بغیر تھکے ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں، اور انہیں کاموں کے ساتھ ہم عوام الناس کے درمیان جائیں گے۔ جن لوگوں کے پاس دکھانے کے لئے کوئی کام نہیں ہے وہ عوام کو ورغلانے کے لئے نعرے گڑھنے کا کام کر ہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میری پارٹی کو عوام کا پیار اور ہمایت اسی طرح ملے گی جس طرح چار سالوں میں ملتی رہی ہے۔ بی جی پی کو بڑی جیت ملے گی۔ این ڈی اے نئے مقام پر پہنچے گا۔
پاکستان میں نئی حکومت بنی ہے۔ دیکھا جا رہا ہے عمران خان آپ کی پالیسیوں کے معترف ہیں۔ کیا دونوں ملکوں کے تعلقات میں اصلاح کی کوئی امید ہے؟
اس خطے میں امن اور خوشحالی کو بڑھاوا دینے کے لئے ہمسایوں سے اچھے تعلقات ہونا بہت ضروری ہے۔ میری حکومت کی ’ہمسایہ کو ترجیح کی پالیسی ‘ کا مقصد بھی یہی ہے۔ آپ کو علم ہے، اپنی مدت کار کے آغاز سے ہی ہم نے اس سمت میں کئی اہم پہل قدمیاں کی ہیں۔ حال میں پاکستان کے عام انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کو کامیابی ملی۔ میں نے عمران خان کو ان کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور تشدد سے مبرا، محفوظ، مستحکم اور خوشحال خطے کے لئے کام کرے گا۔
اب گھر کی بات کریں تو جموں کشمیر نے کیا آپ کو مایوس کیا؟ حکومت رہتے ہوئے بھی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی؟
جموں کشمیر کے عوام نے جو رائے عامہ دی تھی، وہ پی ڈی پی ۔ بی جے پی کو مخلوط حکومت بنانے کے لئے دی تھی۔ اس صورت میں دوسرا کوئی متبادل ہی نہیں تھا۔ اس اتحاد نے عوام کی توقعات اور خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن مفتی صاحب کی رحلت کے بعد عوام الناس کی توقعات کے مطابق جو رفتار ترقیاتی کاموں کی ہونی چاہئے تھی اس میں رکاوٹ آنے لگی۔ بی جے پی کے لئے ہمیشہ جموں و کشمیر کا مفاد اولین ترجیح رہی ہے۔ اس سے بغیر کسی الزام تراشی کے ہماری پارٹی نے اقتدار سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر کے عوام کی توقعات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بی جے پی عہد بند ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں پنچایت سطح پر جمہوریت کو تقویت حاصل ہو۔ گاؤوں میں بھی عوام کو فیصلہ لینے کا حق حاصل ہو۔ اس سے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ ہم حکومت میں تھے تب ہم نے اس سمت میں کافی کوششیں کیں۔ لیکن مخلوط حکومت میں رہ کر یہ نصب العین حاصل کرنا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ جموں، لداخ اور کشمیر ان تینوں خطوں کی متوازن ترقی ہو اس کے لئے حکومت ہند جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ ہے۔
آپ کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی اور وہاں راہل گاندھی اچانک آپ کے گلے لگ گئے تھے۔ کیا راہل نے آپ کو چونکایا تھا؟
نامداروں کے اپنے بنائے قواعد ہوتے ہیں۔ نفرت کب کرنی، کس سے اور کیسے کرنی ہے، ان کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ اور محبت کیسے ظاہر کرنی ہے اور اس کی حرکات و سکنات کیا ہوں گی، اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں مجھ جیسا ایک کامدار کیا کہہ سکتا ہے؟
ماخذ 1 : طبی شعبہ
ماخذ 2 : طبی شعبہ
ماخذ 3 : طبی شعبہ