People of Maldives ensured that democracy survives in the country: PM Modi
It is a grave misfortune that people distinguish between the so-called “good” and “bad” terrorists: PM
India will contribute to the conservation of Maldives' Friday Mosque: PM Modi

مالدیپ کے مجلس کے معزز صدر،

مالدیپ کے سابق صدر اور میرے دوست محمد نشید جی،

مجلس کے معزز ارکان

ایکسی لنسیز،

مدعو کیے گئے معزز مہمانو،

نمسکار!

آپ سب کو میں اپنی اور 130 کروڑ ہندوستانی کی جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ عیدالفطر کے مبارک موقعے کی خوشی اور ولولہ ابھی بھی ہمارے ساتھ ہے۔ آپ سب کو اور مالدیپ کے سبھی لوگوں کو میں اس موقع پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

صدر محترم،

مالدیپ یعنی ہزار سے زیادہ جزائر کی مالا۔ بحراعظم ہند کا ہی  نہیں پوری دنیا کا ایک نایاب نگینہ ہے۔اس کی لامحدود خوبصورتی اور قدرتی مناظر ہزاروں سال سے باعث کشش رہے ہیں۔ قدرت کی طاقت کے سامنے  انسان کے  ہمت واستقلال کی یہ ملک  ایک لاثانی مثال ہے۔تجارت، لوگوں اور ثقافت کی مسلسل روانی کا مالدیپ شاہد رہا ہے اور یہ راجدھانی مالے ، عظیم نیلے سمندر  میں داخلے کا راستہ ہی نہیں ہے  مستقل پرامن اور خوشحال بحر ہند  علاقے کی ایک کلید بھی ہے۔

صدر محترم،

آج مالدیپ میں اور اس مجلس میں ، آپ سب کے درمیان حاضر ہوکر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ مجلس نےاتحاق رائے سے مجھے دعوت دینے کا فیصلہ محترم نشید جی کے اسپیکر بننے کے بعد اپنی پہلی ہی بیٹھک میں لیا۔ آپ کے اس  رویے نے ہر ہندوستانی کے دل کو چھو لیا ہے اور ان کے احترام اور شان میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے لیے محترم صدر، میں آپ کو اور اس  باوقار ایوان کے تمام معزز ارکان کا اپنی جانب سے اور پورے ہندوستان کی جانب سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

صدر محترم،

آج میں دوسری بار مالدیپ آیا ہوں اور ایک طرح سے دوسری بار مجلس کی تاریخی کارروائی کا گواہ ہوں۔ پچھلے برس میں بہت خوشی اور فخر کے ساتھ صدر صالح کے  حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوا تھا۔ جمہوریت کی فتح کا وہ جشن کھلے اسٹیڈیم میں منعقد کیا گیا تھا۔ چاروں طرف ہزاروں پرجوش لوگ موجود تھے۔ انھیں کی طاقت اور  یقین، ہمت اور عزم اس فتح کی بنیاد تھی۔ اس دن مالدیپ میں جمہوریت کی توانائی کو محسوس کرکے مجھے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی تھی۔ اس دن میں نے مالدیپ میں جمہوریت کے تئیں عام شہریوں  کے جذبے کو اور صدر محترم آپ جیسے لیڈروں کے تئیں ان کی محبت اور احترام کو بھی دیکھا اور آج اس پُروقار ایوان میں ، میں جمہوریت کے آپ سب محافظوں کو ہاتھ جوڑ کر سلام  پیش کرتا ہوں۔

صدر محترم،

یہ ایوان، یہ مجلس اینٹ پتھر سے بنی صرف ایک عمارت ہی نہیں ہے ، یہ لوگوں کا محض مجمع نہیں ہے، یہ جمہوریت کی  توانائی کا وہ مقام ہے جہاں  ملک کی دھڑکنیں آپ کے خیالات اور آواز میں گونجتی ہیں۔ یہاں آپ کے ذریعے سے لوگوں کے خواب اور امیدیں حقیقت بنتی ہیں۔

یہاں الگ الگ نظریات اور پارٹیوں کے ارکان ملک میں جمہوریت ، ترقی او رامن کے لیے مجموعی طور پر عزم کو حقیقت میں بدلتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح جیسے کچھ ماہ قبل مالدیپ کے لوگوں نے متحد ہوکر دنیا کے سامنے جمہوریت کی ایک مثال قائم کی۔ آپ کا وہ سفر چیلنجوں سے بھرا تھا۔

لیکن مالدیپ نے دکھایا، آپ نے دکھادیا کہ جیت آخر کار عوام کی ہی ہوتی ہے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی آپ کی یہ کامیابی دنیا بھر کے لیے ایک مثال اور ترغیب ہے۔ اور مالدیپ کی اس کامیابی پر سب سے  فخر اور خوشی کسے ہوسکتی تھی؟  جواب  فطری ہے۔ آپ کے سب سے قریبی دوست آپ کے سب سے نزدیکی پڑوسی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ۔ ہندوستان کو۔آج آپ کے بیچ میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ مالدیپ میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ہندوستان اور ہر ہندوستانی آپ کے ساتھ تھا اور ساتھ رہے گا۔

صدر محترم،

ہندوستان نے بھی حال ہی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوری عمل مکمل کیا ہے۔130 کروڑ ہندوستانیوں کے لیے یہ صرف چناؤ نہیں جمہوریت کا جشن یعنی میگا فیسٹیول تھا۔ دو تہائی سے زیادہ یعنی 60 کروڑ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے۔ انھوں نے ترقی اور استحکام کے حق میں زبردست ووٹ دیا۔

صدر محترم،

میری حکومت کا بنیادی اصول ۔ ‘سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس’ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اور خاص طور سے اپنے پڑوس میں میری حکومت کی خارجہ پالیسی کی بھی بنیاد ہے۔

‘نیبرہڈ فرسٹ’ ہماری ترجیح ہے  اور نیبرہڈ میں مالدیپ کی اولیت بہت فطری ہے اس لیے آپ کے درمیان آج میری موجودگی محض اتفاق نہیں ہے پچھلے دسمبر میں صدر صالح نے سب سے ہندوستان کا دورہ کرنے کی بات کہی تھی اور اب مالدیپ  کا پرخلوص دعوت نامہ مجھے میری اس مدت کار میں پہلے غیر ملکی دورے میں مالدیپ لے آیا ہے۔ اس دورے میں غیر ملکیوں کے لیے اپنے ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے بھی مجھے نوازا گیا ہے۔ میرے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔

صدر محترم،

 ہندوستان اور مالدیپ کے تعلقات تاریخ سے بھی پرانے ہیں۔زمانہ قدیم سے سمندر کی لہریں ہم دونوں ملکوں کے ساحلوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ یہ لہریں ہمارے لوگوں کے درمیان دوستی کی پیغامبر رہی ہیں۔ ہماری تہذیب اور ثقافت ان ترنگوں کی طاقت لے کر پھلی پھولی ہے۔ ہمارے رشتوں کو سمندر کی گہرائی اور وسعت کا آشیرواد ملا ہے۔ دنیا کے سب سے پرانے بندرگاہوں میں سے ایک لوتھل میری آبائی ریاست گجرات میں تھا، ڈھائی ہزار سال سے بھی پہلے لوتھل اور بعد کے زمانے میں سورت جیسے شہروں کے ساتھ مالدیپ کے تجارتی تعلقات رہے ہیں۔

مالدیپ کی کوڑیاں ہندوستان کے بچوں تک  کو پیاری رہی ہیں۔موسیقی ، آلات موسیقی، رسم ورواج۔ یہ سب ہماری مشترکہ وراثت کی شاندار مثالیں ہیں۔ دویہی زبان کو لیں۔ ویک کو ہندوستان میں ہفتہ کہتے ہیں، دویہی میں بھی۔ دنوں کے نام دیکھیں۔سنڈے دویہی زبان میں آدی تھا، یہ آدتیہ یعنی سورج سے جڑا ہے۔ سوموار یعنی منڈے دویہی میں ہے ہومائے جو سوم سے یعنی چاند سے مماثلت رکھتا ہے۔

اور ورلڈ کو دویہی میں کہتے ہیں دُھنیے اور ہندوستان میں‘دنیا’۔ مالدیپ میں دنیا ایک مشہور نام بھی ہے۔ دنیا کی تو بات ہی کیا زبان کی یہ یکسانیت یہاں سے دور ‘سورگ’ اور  ‘نرک’ تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ان کے لیے دویہی میں ‘سورُگے’ اور ‘نرکا’ الفاظ ہیں۔ فہرست بہت لمبی ہے۔ بولتا گیا تو پوری لغات بن جائےگی لیکن اختصار کے ساتھ کہوں تو ہر قدم پر واضح ہے کہ ہم ایک ہی گلشن کے پھول ہیں۔ اس لیے مالدیپ کی ثقافتی وراثت کے فروغ، مینیو اسکرپٹس کے تحفظ اور دویہی زبان کی لغات کی ترقی جیسے پروجیکٹوں میں مالدیپ کا تعاون  کرنا ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

اور اسی لئے فرائیڈے ماسک کے تحفظ میں  ہندوستان کے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے آج مجھے بیحد خوشی ہوئی۔کورل سے بنی اس تاریخی مسجد جیسی دوسری مالدیپ کے باہر دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ مالدیپ کے باشندوں نے سیکڑوں سال پہلے سمندر کی نعمت سے مسجد کے بے مثال آرکیٹیکچر کی تخلیق کی۔ اس سے قدرت کے تئیں ان کے احترام اور ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آج  سمندری دولت پر آلودگی کے بادل چھا رہے ہیں۔ ایسے میں اس لاثانی مسجد کا تحفظ تاریخ ہی نہیں ہماری ماحولیات کے تحفظ کا پیغام دنیا کو دے گا۔

صدر محترم،

مالدیپ میں آزادی، جمہوریت، خوشحالی اور امن کی حمایت میں ہندوستان، مالدیپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا رہا ہے۔ چاہے وہ  1988 کا واقعہ ہو یا 2004 کی سونامی جیسی قدرتی آفات یا پھر حال ہی کا پانی کا بحران۔ ہمیں فخر ہے کہ ہندوستان ہر مشکل میں  آپ کی ہر کوشش میں ہر گھڑی، ہر قدم آپ کے ساتھ کھڑا ہے، آپ کے ساتھ چلا ہے۔ اور اب ہمارے دونوں ملکوں نے ترقی ، خوشحالی اور استحکام کے حق میں زبردست ووٹنگ نے آپ کے تعاون کے لیے نئے راستے کھولے ہیں۔

صدر صالح کے پچھلے دورے میں 1.4 بلین ڈالر کے اقتصادی پیکیج پر اتفاق ہوا تھا اس کے نفاذ میں  حوصلہ افزا پیشرفت ہوئی ہے۔ مالدیپ کی ترقی کے لیے ہندوستان کا تعاون کااٹل فوکس ہے۔ مالدیپ کے لوگوں کی سماجی- معاشی ترقی۔ چاہے جزائر میں پانی اور صفائی کا معاملہ ہو یا بنیاد ڈھانچے کی تعمیر۔ چاہے صحت خدمات ہو یا تعلیم۔ ہندوستان کے تعاون کی بنیاد ہوگا عوام کی فلاح، اور مالدیپ کی ضرورتیں اور ترجیحات۔

ہمارے درجنوں سوشل امپیکٹ پروجیکٹس اور دیگر تعاون کے پروگرام مالدیپ کے لوگوں کی زندگی کو نزدیک سے چھو رہے ہیں۔ اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی آپ کی تمام کوششوں  کو پورا کر رہے ہیں۔ مالدیپ میں جمہوریت اور خوشحالی کے لیے ہندوستان ایک بھروسے مند، مضبوط اور اہم ترین معاون بنا رہے گا۔ اور ہمارا یہ تعاون آپ تمام عوامی نمائندوں کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔

صدر محترم،

ملکوں کے تعلقات صرف حکومتوں کے درمیان نہیں ہوتے، عوام کے درمیان رابطے ان کی جان ہوتے ہیں۔ اس لیے میں ان سبھی طریقوں کو خصوصی اہمیت دیتا ہوں جن سے عوام سے عوام کے رابطوں کو فروغ ملے۔ اس لیے مجھے خاص خوشی ہے کہ ہم نے آج دونوں ملکوں کے درمیان فیری سروس پر معاہدہ کیا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ  تعلیم، صحت، بزنس وغیرہ کے لیے ہندوستان آنے والے مالدیپ کے باشندوں کو ویزا سہولت معاہدے سے مزید سہولت ملی ہے ۔

صدر محترم،

آپسی تعاون کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیں آج کی دنیا  کی پیچیدہ غیر یقینی صورتحال اور گمبھیر چیلنجوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی سے پیدا ‘رکاوٹیں ’، ملٹی پولر دنیا میں اقتصادی اور جنگی محوروں میں تبدیلی، مسابقت اور مقابلے، سائبر اسپیس وغیرہ سے متعلق یوں تو بہت سے موضوعات ہیں لیکن میں ان کی تین چیلنجوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو ہم دونوں ملکوں کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔

صدر محترم،

دہشت گردی ہمارے دور کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ  خطرہ ایک ملک یا علاقے کے لیے نہیں، پوری انسانیت کے لیے ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب دہشت گردی کسی جگہ اپنی خوفناک شکل دکھا کر کسی بے قصور کی جان نہ لیتی ہو۔ دہشت گردوں کے نہ تو اپنے بینک ہوتے ہیں نہ ٹیکسال اور نہ ہی ہتھیاروں کی فیکٹری۔ پھر بھی انھیں دولت اور ہتھیاروں کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔

کہاں سے پاتے ہیں وہ یہ سب ؟ کون دیتا ہے انھیں یہ سہولتیں؟ دہشت گردی  کی اسٹیٹ اسپانسر شپ سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ لوگ ابھی بھی اچھا دہشت گرد اور برا دہشت گرد کی تفریق کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ غیر حقیقی اختلافات میں پڑ کر ہم نے بہت وقت گنوا دیا ہے۔ پانی اب سر سے اونچا نکل رہا ہے۔ دہشت گردی کے چیلنج سے اچھی طرح نمٹنے کے لیے تمام انسانیت دوست طاقتوں کامتحد ہونا ضروری ہے۔ دہشت گردی اور ریڈیکلائیزیشن سے نمٹنا دنیا کی قیادت کی سب سے کھری کسوٹی ہے۔

جس طرح عالمی برادری نے آب وہوا کی تبدیلی کے خطرے پر سرگرمی کے ساتھ عالمی سطح کے کنوینشن اور  کانفرنس کیے ہیں۔ ویسے دہشت گردی کے موضوع پر کیوں نہیں ہوسکتے؟

میں عالمی تنظیموں اور تمام اہم ممالک سے توقع کروں گا کہ ایک معینہ مدت کے اندر دہشت گردی پر عالمی کانفرنس منعقد کریں تاکہ دہشت گرد اور ان کے حامی جن لوپ ہولس کا فائدہ اٹھاتے ہیں انھیں بند کرنے پر بامعنی غور وفکر کیا جاسکے۔ اگر ہم نے اب اور تاخیر کی تو آج اور آج کے بعد آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔

صدر محترم،

میں آب وہوا کی تبدیلی کا ذکر کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس حقیقت کو ہم روز جی رہے ہیں۔ خشک ہوتے ہوئے دریا اور موسم کی غیر یقینی صورتحال ہمارے کسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ پگھلتے برف کے تودے اور سمندری کی بڑھتی سطح مالدیپ جیسے ملکوں کے لیے وجود کا خطرہ بن گئے ہیں۔ کورل جزائر اور سمندر سے جڑے روزگار پر آلودگی  قہر برپا کر رہی ہے۔

صدر محترم، آپ نے سمندر کی گہرائی میں دنیا کی پہلی کابینہ میٹنگ کرکے ان خطروں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ اسے کون بھول سکتا ہے؟

مالدیپ نے پائیدار ترقی کے لیے اور کئی پہلیں کی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ مالدیپ انٹرنیشنل سولرالائنس میں شامل ہوا ہے۔ ہندوستان کی اس مشترکہ پہل نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے دنیا کے ممالک کو  ایک عملی اسٹیج فراہم کیا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی کے کئی نتائج کا حل قابل تجدید توانائی کے  زبردست متبادل سے ممکن ہے۔

سن 2022 تک  175 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی کے لیے ہندوستان کے نشانے اور اسے حاصل کرنے میں ہوئی امید سے کہیں زیادہ پیشرفت سے یہ موقر ایوان  اچھی طرح واقت ہے اور ہندوستان کے تعاون سے مالے کی سڑکیں ڈھائی ہزار ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹس کی دودھیا روشنی میں نہا رہی ہیں۔ اور دو لاکھ ایل ای ڈی بلب مالدیپ کے باشندوں کے گھروں اور دوکانوں کو جگمگانے کے لیے آچکے ہیں۔

ان سے بجلی بچے گی اور خرچہ بھی۔ اور یہ ماحولیات کے موافق بھی رہیں گے۔ ماحولیات کے متعلق چھوٹے جزائر کی ہندوستان کو خاص فکر ہے۔ ان کے خصوصی مسائل کے حل کے لیے ہم نے تعاون ہی نہیں کیا بلکہ دنیا کے تمام منچوں پر آواز بھی اٹھائی ہے لیکن ملی جلی کوششوں اور بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن اگر یہ سوچے کہ صرف ٹیکنالوجی سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو صحیح نہیں ہوگا۔ آب وہوا کی تبدیلی کا بدلہ قدروں میں ، خیالات میں، زندگی گزارنے کے طریقے میں اور سماج میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ قدیم ہندوستانی فلسفے میں مانا گیا کہ ‘‘ماتا بھومیہ، پتروہم پرتھویہ’’۔ اگر ہم زمین کو اپنی ماں تسلیم کریں گے تو ہم اس کا احترام ہی کریں گے نقصان نہیں۔ ہمیں خیال رکھنا ہوگا کہ یہ زمین آنے والی نسلوں  کی وراثت ہے۔ ہم اس کے مالک نہیں صرف ٹرسٹی ہیں۔

صدر محترم،

تیسرا موضوع ہے ہند بحرالکاہل خطہ جو ہمارا مشترکہ علاقہ ہے۔ یہاں دنیا کی پچاس فیصد آبادی رہتی ہے۔ اور مذہبوں، ثقافتوں، زبانوں، تاریخ اور سیاست اور  اقتصادی نظاموں  کی گوناگونیت ہے۔ لیکن اس علاقے میں بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں ملا ہے اور بہت سے ایسے تنازعات ہیں جن کا حل نہیں نکالا گیا ہے۔

ہند بحرالکاہل خطہ ہماری لائف لائن ہے اور تجارت کی شاہراہ بھی ہے۔ یہ ہر معنی میں ہمارے مشترکہ مستقبل کی کلید ہے۔ اس لیے میں نے جون 2018 میں سنگاپور میں بولتے ہوئے ہند بحرالکاہل خطے میں کھلے پن ، یکجہتی اور توازن قائم کرنے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا تھا۔ ایسا کرنے سے ہی ملکوں کے درمیان اعتماد بنے گا۔ اور قانون کے مطابق نظام کثیر جہتی نظام قائم رہیں گے۔

صدر محترم،

چار برس قبل میں نے بحرہند علاقے کے لیے ساگر کے وژن اور  عہد بندی پر زور دیا تھا۔ اس لفظ ساگر کا ہندی میں مطلب ہے سمندر۔ ساگر یعنی سکیورٹی اینڈ گروتھ فار آل ان دی ریجن۔ ہمارے لیے ہند بحرالکاہل میں تعاون کا بلو پرنٹ ہے۔شمولیت کے اس اصول پر آج میں پھر زور دینا چاہوں گا۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان اپنی طاقت اور صلاحیتوں کا استعمال صرف اپنی خوشحالی اور حفاظت کے لیے نہیں کرے گا۔

بلکہ اس علاقے کے دیگر ممالک کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں آفات میں ان کی انسانی مدد کے لیے اور تمام ممالک کی مشترکہ حفاظت خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے کرے گا۔ باصلاحیت ، طاقتور  اور خوشحال ہندوستان ، جنوبی ایشیا اور ہند بحرالکاہل میں ہی نہیں پوری دنیا میں امن، ترقی اور حفاظت کا بنیادی ستون ہوگا۔

صدر محترم،

اس وژن کو  عملی جامہ پہنانے میں اور بلیو اکنامی  میں تعاون کے لیے ہندوستان کو مالدیپ سے بڑھ کر کوئی شراکت دار نہیں مل سکتا کیونکہ ہم سمندری پڑوسی ہیں۔ کیونکہ ہم دوست ہیں اور دوستوں میں کوئی چھوٹا اور بڑا، کمزور اور طاقت ور نہیں ہوتا۔ پرامن اور خوشحال پڑوس کی بنیاد بھروسے میں نیک نیتی اور تعاون پر ٹکی ہوتی ہے۔

اوریہ بھروسہ اس یقین سے آتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تشویشات اور مفادات کا خیال رکھیں۔ جس سے ہم دونوں ہی اور زیادہ خوشحال ہوں اور زیادہ محفوظ رہیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم اچھے وقت میں اور برے وقت میں بھی آپسی اعتماد کو اور پختہ کریں۔

صدر محترم،

ہمارا فلسفہ اور ہماری پالیسی ہے: وسودھیو، کٹنب کم۔ یعنی ساری دنیا ایک خاندان ہے۔عظیم شخصیت مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ  "There is no limit to extending our services to our neighbours.” ہندوستان نے اپنی حصولیابیوں کو ہمیشہ دنیا کے ساتھ اور خاص طور سے پڑوسیوں کے ساتھ ساجھا کیا ہے۔

اس لیے ہندوستان کی ترقی ساجھے داری لوگوں کو  طاقت ور  بنانے کی ہے، انھیں کمزور کرنے کی نہیں۔ اور نہ ہم پر ان کا انحصار بڑھانے کے لیے۔ یا آنے والے نسلوں کے کندھوں پر قرض کا ناممکن بوجھ ڈالنے کے لیے۔

صدر محترم،

یہ وقت چیلنجوں سے بھرا ایک پیچیدہ  تبدیلی کا دور ہے۔ لیکن چیلنج مواقع بھی لاتے ہیں۔ آج ہندوستان اور مالدیپ کے پاس مواقع ہیں:

  • پڑوسیوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی مثال بننے کا؛
  • باہمی تعاون سے ہم لوگوں کی اقتصادی، سماجی وسیاسی توقعات کو پورا کرنے کا؛
  • اپنے علاقے میں استحکام، امن اور حفاظت قائم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا؛
  • دنیا کی سب سے زیادہ اہم سمندری لین کو محفوظ رکھنے کا؛
  • دہشت گردی کو شکست دینے کا؛
  • دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پالنے والی طاقت کو دور رکھنے کا؛
  • اور صحت اور صاف ستھرے ماحول اور ماحولیات کے لیے ضروری تبدیلی لانے کا۔

تاریخ کو اور ہمارے شہریوں کو ہم سے توقع ہے کہ ہم یہ مواقع جانے نہیں دیں گے۔ اور ان کا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کوشش میں پورا پورا تعاون کرنے کے لیے اور مالدیپ کے ساتھ اپنی انمول دوستی کو اور گہرا کرنے کے لیے ہندوستان عہد بند ہے۔

یہ پاک عزم میں آج آپ کے درمیان دہراتا ہوں، مجھے آپ نے اپنے درمیان آنے کا موقع دیا۔

ایک بار پھر اس بڑے اعزاز کے لیے شکریہ۔

آپ کی دوستی کے لیے شکریہ۔

بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season

Media Coverage

Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21دسمبر 2024
December 21, 2024

Inclusive Progress: Bridging Development, Infrastructure, and Opportunity under the leadership of PM Modi