ہندوستان کی مضوبط خارجہ پالیسی نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک اگر قدرتی آفات کا شکار ہوں تو ہندوستان وہاں سب سے پہلے مدد کے لئے پہنچے۔ ہندوستان ٹائمز سے بات چیت کے دوران وزیر اعظم مودی نے ہندوستان کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی، حکومت کی اسکیموں اور حصولیابیوں اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی منظر نامے پر روشنی ڈالی۔وسیع تر مسائل پر وزیر اعظم کے ذریعہ دیے گئے انٹرویو کا مکمل متن درج ذیل ہے:

پچھلے چار سالوں میں ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے اہم بات یہ رہی ہے کہ ہم ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو خود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ہم متحدہ عرب امارات ۔ اسرائیل بائنری سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے؛ امریکہ اور روس دونوں ممالک سے تعلقات استوار کیے؛ اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات پر بھی کام کیا۔ آپ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ملک کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کس طرح کریں گے؟

ملک کی ترقی، ہندوستانیوں کی فلاح اور ساجھا ترقی، اور پوری دنیا میں خوشحالی، میری حکومت کی خارجہ پالیسی کا مرکزی موضوع ہے۔

 ’ترقی کے لئے ڈپلومیسی‘ نے بھارت کی تبدیلی میں بہت بڑا تعاون دیا ہے۔ دنیا کی سردہ معیشتوں اور کاروباریوں سے فعال رابطہ کاری کے نتیجے میں پچھلے چار برسوں میں ملک میں 200 بلین امریکی ڈالر سے زائد کے بقدر کی سرمایہ کاری عمل میں آچکی ہے۔  ملک کی اقتصادی نمو میں تیزی لانے کے علاوہ، اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں نئی فیکٹریاں وجود میں آئی ہیں، اضافی خدمات میں اضافہ ہوا اور نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ حکومت کی بے مثال سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ہم نے میک ان انڈیا، اسکل انڈیا، اسمارٹ سٹیز، ڈجیٹل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور دیگر قومی پروگراموں کے لئے جو 2022 تک نیا بھارت بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے، کے لئے شراکت داریاں تشکیل دی ہیں ۔

میں بالخصوص خوش ہوں کہ خارجی جدت طرازی اور سائنس پر مبنی شراکت داریاں راست طور پر ہمارے نوجوانوں کو خودمختار بنا رہی ہیں اور کاروبار کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔

عالمی توانائی شراکت داری کے توسط سے، ہم غیر مستحکم عالمی منڈی کے باوجود اشیاء کی یقینی فراہمی اور ذخیرے کے نئے اور محفوظ وسائل پیدا کر رہےہیں۔ روس، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے طاقت ور ممالک ہندوستان میں توانائی کے شعبے میں تقریباً 35 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔اسی دوران ہندوستانی کمپنیوں نے مشرق وسطی کے تیل کے میدانوں اور دنیا کی مسابقتی منڈیوں میں حصہ داری حاصل کر لی ہے۔یورینیم کے حصول کے لئے عمل میں آئی مختلف ممالک سے ہماری شراکت داریاں، بھارت میں، ملک کے سول نیوکلیئر پروگرام کو برقرار رکھنے، سائنس، تکنالوجی اور صنعت کے فروغ کے لئے مددگار ثابت ہوگی۔

ہماری فعال خارجہ پالیسی کا ایک انسانی چہرہ ہے۔ ہندوستان کی مدد دنیا بھر میں جنگ سے متاثرہ علاقوں اور شدید قسم کی قدرتی آفت میں پھنسے ہزاروں مصیبت زدہ ہندوستانی افراد تک پہنچ چکی ہے۔  یمن میں جاری شدید جنگ کے دوران، 4,700 سے زائد ہندوستانیوں اور 48 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 1,900 سے زائد افراد کو حفاظت کے ساتھ نکالا گیا۔ حکومت نے خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں سمیت ہزاروں ہندوستانی کارکنوں کی زندگیوں کو راست طور پر متاثر کرنے والے مسائل کو سلجھانے کے لئے فعال اور اثر انداز طریقے سے مداخلت کی۔ آج، دنیا بھر میں موجود ہندوستانی افراد پراعتماد ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ ان کے دوست کی شکل میں ہندوستانی سفارتخانے ہیں۔

چاہے وہ نیپال میں آیا زلزلہ ہو، سری لنکا کا سیلاب ہو یا مالدیپ کا آبی بحران ہو، ہندوستان قدرتی آفات اور انسانی بحران میں سب سے پہلے مدد کے لئے پہنچا ہے۔

شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) میں ہندستان کی رکنیت کے ساتھ ساتھ تین برآمداتی کنٹرول رجیمس — ایم ٹی سی آر، آسٹریلیا گروپ اور واسینار انتظام —  پربرسوں کے انتظار کے بعد عمل آوری ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جیسے بین الاقوامی اداروں میں ہندوستانی امیدواران کی کامیابی، عالمی اسٹیج پر قومی مفاد کی حصولیابی کے لئے سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔

ہندوستان کے بڑھتے ہوئے رتبے  اور وقار نے دنیا بھر میں موجود ہندوستانیوں میں فخر کا احساس پیدا کیا ہے۔ ہندوستان اور اس کے نایاب اور سدابہار ورثے سے جڑے ہونے کی خوشی اس وقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جب ہزاروں افراد یوگا کا عالمی دن،  مشہور و معروف ایفل ٹاور پر مناتے ہیں، جب دیوالی واشنگٹن میں واقع وہائٹ ہاؤس میں، یوگانڈا کے اسٹیٹ ہاؤس میں، یا کینبرا میں واقع آسٹریلین پارلیمنٹ میں منائی جاتی ہے، اور جب ہندی اور سنسکرت جیسی زبانوں کو سری نام، ماریشیس یا تھائی لینڈ جیسے دور دراز کے ممالک میں اعزاز بخشا جاتا ہے۔ میری حکومت ہند نژاد افراد، بالخصوص نوجوانوں کے لئے شروع کیے گئے نئے پروگرام ’بھارت کو جانئے‘ اور پرواسی بھارتیہ دیوس کو نئی اونچائیوں پر لے جانے کے لئے کی گئی پہل قدمیوں کے ذریعہ، دنیا بھر میں پھیلے اور متحرک ہند نژاد افراد سے اس طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح پہلے کبھی نہیں جڑی تھی۔

میری حکومت بہت سے نایاب نمونوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئی ہے جنہیں ہندوستان سے چرایا گیا تھا۔ ہمارے ملک کے عظیم ورثے کے لئے ہماری عزت ہمیں قدیم ہندوستانی حکمت کی مدد سے بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے کی جانے والی کوششوں کو فعال بناتی ہے۔مثال کے طور پر، قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کی ہندوستانی روایت، بین الاقوامی شمسی اتحاد کے قیام کی پہل قدمی کی روح ہے۔ اس کے توسط سے، ہم ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے نئی شراکت داریاں پیدا کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا سے لے کر افریقہ تک، جنوب مشرقی ایشیا سے لاطینی امریکہ تک ہماری ترقیاتی شراکت داریاں، ہندوستان کے قدیم تصور ’واسودھیوا کٹمبکم‘  کا ثبوت دیتی ہیں۔  چابہار جیسے رابطہ کاری پر مبنی ہمارے منصوبے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تجارتی راستوں کا آغاز نو ہیں۔

انڈو۔ پیسفک اور ایس۔ اے۔ جی۔ اے۔ آر(خطے میں سب کے لئے تحفظ اور نمو) کا ہندوستانی تصور اور جی۔ 20 جیسے فورم میں بدعنوانی، کالے دھن، سائبر جرائم اور دہشت گردی سے متعلق ہماری مضبوط وکالت ، اثرانگیز بین الاقوامی شراکت داریوں کے توسط سے جدید عالمی مسائل سے نمٹنے کے ہمارے پائیدار عزم مصمم کو ظاہر کرتے ہیں۔

بھارت شمولیت، سبب اور توازن کی آواز کے ایک مضبوط حمایتی  اور تکثیریت کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اثر انگیزی کے ساتھ ایک دوسرے پر بڑھتی ہوئی انحصاری، رابطہ کاری اور کثیر قطبی دنیا کی ضرورتوں کا جواب دے سکتا ہے۔ اسی لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان عالمی پیمانے پر ترجیحی شراکت دار اور ایک قابل اعتماد دوست کے طور پر  دیکھا جاتا ہے، ان ممالک کے لئے بھی جن کے درمیان باہمی اختلافات ہیں۔

آپ تنازعات سے کیسے نمٹتے ہیں؟ مثال کے طور پر، بھارت کے روس سے فوجی اسلحہ خریدنے کے معاملے کو امریکہ سے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیا گیا؟ ہم یہ اس لئے پوچھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے اپنے ایکٹ میں ہندوستان کو ایسا کرنے کی چھوٹ دی۔

آپ نے بہت جامع سوال کیا ہے۔ آپ نے جن ترقیات کا حوالہ دیا ہے وہ ہندوستان پر اعتماد اور اپنی اکثریت کی بنیاد پر ایک مضبوط اور مستحکم سرکار کی پالیسیوں کے اعتماد کی عکاس ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہندوستان میں تین دہائیوں کے بعد ہو سکی ہے۔

امریکہ اور روس دونوں ہندوستان کے دیرینہ حکمتی شراکت دار رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری شراکت داری کا انحصاران کی اپنی انفرادی لیاقتوں پر ہے۔ ہر شعبے میں روس سے ہمارے تعلقات وقت کی کسوٹی پر کھرے اترے ہیں۔ یہ تعلقات عوامی سطح پر دوستی اور خیر سگالی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات زبردست تبدیلیوں سے گزرے ہیں جن میں دفاع اور سلامتی کے میدانوں میں تعاون شامل ہے۔یہ دونوں ممالک ہمارے سلامتی مفادات سمیت تمام جائز مفادات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔


امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں مزید اضافے کی امید ہے۔ جہاں ہم نے پابندیوں کے مسئلے پر کامیاب مذاکرات کیے ہیں، وہیں امریکہ تجارت سے متعلق مسائل کے تدارک پر اصرار کرتا رہا ہے جن کے سدباب کے اقدامات جاری ہیں۔ خاص طور سے طبی مشینوں (پرائسنگ)، ڈیری (رسائی) اور انفارمیشن تکنالوجی کی مصنوعات کے کاروبار کو درپیش مسائل کے حل پر امریکہ اصرار کرتا رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ مسائل انتہائی حساس نوعیت کے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، انہیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟

ہندوستان اور امریکہ کی حکمتی شراکت داری جمہوریت اور ترقی کی مشترکہ قدروں کے تئیں عہد بستگی پر مبنی ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ان میں انتہائی تیزی کے ساتھ گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے اس قدر وسیع اور مختلف النوع تعلقات میں وقتاً فوقتاً نئے مسائل کا ابھر کر سامنے آنا لازمی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے مسائل اور مفادات کے تئیں حساس ہیں اور انہیں سمجھتے ہیں جس سے تمام میدانوں میں ہماری ٹھوس حکمتی شراکت داری کے مشترکہ عزم محکم کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑی اور وسیع و عریض تصویر ہے۔

آج ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ایسے میدانوں میں اشتراک کر رہے ہیں جیسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔  ہمارے دونوں ملکوں کے وزرائے  خارجہ اور وزرائے دفاع کے 2+2 مذاکرات اگلے ماہ ہونے والے ہیں۔ 2017 میں میرے سفر کے دوران ان مذاکرات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔ ہم دہشت گردی اور ہمارے درمیان بڑھتے دفاعی تعاون کی درجہ بندی پر تعاون کر رہے ہیں۔

ہماری باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں پائیدار نمو جاری ہے۔ امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہی نہیں بلکہ ہمیں توانائی فراہم کرنے والے ایک بڑے فراہم کار ملک کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ہمارے یہ دونوں ممالک اپنی جدت طرازی اور کاروباریت کے لئے جانے جاتے ہیں۔

ہندوستانی معیشت جس طرح نمو کر رہی ہے، اس کے اعتبار سے نئی مانگوں کا پیدا ہونا فطری ہے اور اس سے ہمارے شراکت داروں کے ساتھ اضافہ شدہ معاشی تعاون کے نئے امکانات روشن ہوں گے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔ ہمیں عالمی معیشت میں زیادہ سے زیادہ نمو کے لئے معاونت کرنی چاہئے۔ ہم صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے قریبی طور پر کام کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ ہماری مجموعی حکمتی شراکت داری کے جزو کے طور پر معاشی تعلقات کو وسعت دی جا سکے۔

پاکستان کے نئے وزیر اعظم جناب عمران خان نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے تعلق سے درست باتیں کہی ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کی سرکار اس سلسلے میں سنجیدہ ہے اور اس مسئلے پر آپ کے ساتھ مل کر کام کرے گی؟

میں نے عمران خان سے بات کی اور انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنے پر انہیں اور ان کی پارٹی کو مبارکباد دی۔ میرے خیال سے اب پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ میری سرکار نے شروع سے ہی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی ترجیح کاری کی ہے۔ امن اور ہمارے پورے پڑوسی خطے کی ترقی ہمارا تصور ہے اور اسی سے ہماری خارجہ پالیسی کے اہم عنصر ’پڑوسی پہلے‘ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ ہمارے خطے میں امن و سلامتی کی فضا بحال رہے، ہمیں امید ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور تشدد سے پاک اور ترقی سے مشروط، محفوظ اور مستحکم جنوبی ایشیا  کی تشکیل کے لئے تعمیری انداز میں کام کرے گا۔

افغانستان میں آپ ہندوستان کے کردار کو کس حیثیت سے دیکھتے ہیں، خاص طور سے اس ملک میں قیام امن اس پورے خطے کے لئے لازمی ہے؟

ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات صدیوں پرانے اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان باہمی خیر سگالی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ تشدد اور دہشت گردی نے افغانستان کے عوام کو زبردست تکلیفیں اور نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہم اپنے پڑوسی ملک کے ایسے عظیم عوام کی ہمت اور شجاعت کو سلام کرتے ہیں۔

ہندوستان افغانستان کو درپیش چیلنجوں کے حل کے لئے ہمیشہ افغانستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہا ہے۔ ہم نے افغانستان میں اہلیت سازی، ڈھانچہ جاتی سہولتوں کے فروغ، رابطہ کاری، تجارت اور سرمایہ کاری کے تئیں عہد بستگی کے طور پر کام کیا ہے۔ اسی عہد بستگی کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں ترقیاتی سرگرمیوں میں تعاون کا پروگرام جاری ہے اور  وہاں رابطہ کاری کے ٹھوس منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، بلکہ چابہار سے ہوائی بازبرداری کے گلیارے کی تعمیر کا کام بھی کیا جا رہا ہے۔

ہم ایک متحدہ پر امن اور مستحکم ملک کی حیثیت سے افغانستان کے ابھرنے کی تمام ممکنہ کوششیں جاری رکھیں گے۔


اہر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈوکلام کے نشیبی نقطہ نظر سے ہندوستان اور چین کے مراسم شاید پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہوگئے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو سکا۔ وہ کون کون سے میدان ہیں جن میں آپ کے خیال سے ہندوستان اور چین کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور آپ کے خیال سے یہ دونوں ممالک عالمی سطح پر کس طرح قائد کی حیثیت حاصل کر سکیں گے؟

حقیقی کنٹرول لائن کے بارے میں مختلف النوع تصورات کے نتیجے میں سرحدی علاقوں میں اکثر واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم، دونوں ممالک نے زمینی سطح پر پر امن مذاکرات کے ذریعہ ان واقعات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں سے ہند ۔ چین سرحد پر ایک بھی گولی نہیں داغی گئی ہے اور سرحدی علاقوں میں امن و آشتی کی فضا کو بحال رکھا گیا ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہےکہ ہم دو ایسے بالغ ممالک ہیں جو اپنے اختلافات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہندوستان اور چین دونوں ممالک ایسٹ ایشیا سمٹ، برکس، شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن، جی۔ 20 اور متعدد دیگر  بین الاقوامی تنظیموں میں شامل ہیں۔ ماحولیات سے تجارت تک، عالمی حکمرانی کے اداروں میں اصلاحاتی اقدامات تک، عالمی نوعیت کے متعدد ایسے مسائل موجود ہیں جہاں ہندوستان اور چین کی باہمی تعاون اور قیادت کی تاریخ رہی ہے۔

میں نے گذشتہ چار برسوں کے دوران صدر ژی جن پنگ سے متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران ہم نے اپریل 2018 میں وہان غیر رسمی سربراہ اجلاس کی شکل میں اپنے تعلقات کو ایک نئی سمت دی ہے۔ جس سے بغیر جبر و زبردستی کے سفارتی طریقے سے آزاد اور پرامن ماحول میں ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے کا موقع فراہم ہوگا۔ مختلف ہمہ جہت سربراہ اجتماعات کے مواقع پر ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ وقتاً فوقتاً ایسی ملاقاتیں اور قریبی مواصلت قائدانہ سطح پر باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے میں فائدے مند ثابت ہوئی ہیں جن سے دیگر سطحوں پر توجہ مرکوز کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔ ہم اپنے آئندہ غیر رسمی سربراہ اجلاس کے موقع پر ہندوستان میں صدر ژی جن پنگ کا استقبال کرنے کے منتظر ہیں۔

آپ کے خیال سے ہند۔ بحر اوقیانوس کے خطے میں ہندوستان کا کردار کیا  ہونا چاہئے اور چار بڑے ملکوں کے گروپ (گواڈ گروپنگ) میں اس کی کیا حیثیت ہونی چاہئے؟

میں نے جولائی 2018 میں سنگاپور میں منعقد شانگریلا ڈائیلاگ سے اپنے خطاب کے دوران ہند۔ بحر اوقیانوس خطے سے متعلق ہندوستان کے تصور کا تفصیل سے تذکرہ کیا تھا۔ میں نے اس میں ہندی میں ’’پانچ ایس ‘‘ کا فارمولہ پیش کیا تھا جن کا مطلب ہےہند ۔ بحر اوقیانوس کے تناظر میں ’’سمان (احترام)‘‘، ’’سمواد (گفتگو)‘‘، ’’سہیوگ (تعاون)‘‘، ’’شانتی (امن)‘‘ اور ’’سمردھی (خوشحالی)‘‘ ہے۔

ہمارا تصور مثبت اور شمولیت پر مبنی ہے۔ یہ کسی کے خلاف نہیں ہے، نہ ہی ہم اس خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہند ۔ بحر اوقیانوس کے خطے کے لئے آسیان کو ایک مرکزی تنظیم کی حیثیت حاصل ہے۔

اس خطے میں مشترکہ خوشحالی، نمو، ترقی اور سلامتی کے لئے ہم نے اس خطے کے تمام ممالک کو مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی  ہے تاکہ  ایک مشترکہ اور اصولوں پر مبنی نظام مرتب کیا جا سکے۔

ہم ایسے باہمی اور ہمہ فریقی تعلقات  کو اجتماعی طریقے سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ہم نے ہند۔ بحر اوقیانوس خطے میں میں متعدد دعویدار ملکوں کی شمولیت کے ساتھ ایک سہ فریقی نظام مرتب کیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک چہار فریقی اور چو رخی نظام بھی موجود ہے۔ یہ سبھی نظام ہند۔ بحر اوقیانوس خطے کے لئے ہمارے وسیع تر تصورات سے مطابقت رکھتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری معیشت اپنی پٹری پر لوٹ گئی ہےاور اب اسکی نمو 7 فیصد تک ہو گئی ہے۔ آپ کے خیال سے اسے 8فیصد تک پہنچا نے کے لئے کیا کیا جانا ضروری ہے؟

ہم سبھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمیں سابقہ سرکار سے کیسے بدحال معیشت وراثت میں ملی تھی۔ دو عددی شرح افراط زر، زبردست مالیاتی خسارہ، بدحال بینکنگ نظام اور رکے ہوئے منصوبوں کی شکل میں ایک کمزور معیشت ہمیں وراثت میں ملی تھی۔ ہم نے اصلاحات کے ذریعہ معیشت کو واپس لانے کے لئے فوری اقدامات کیے۔ ہماری تمام تر اصلاحات تمام اہم میدانوں پر مرکوز رہیں۔

اصلاحات کے اس عمل کے بعد ہماری مالیاتی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں کی گئیں۔ سال 2013-14 میں جو مالیاتی خسارہ 4.4 فیصد تھا، اب مالی سال 2018-19 میں اسے 3.3 فیصد تک لانے کا نشانہ معین کیا گیا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی ٹھوس مالیا پالیسی کے ساتھ افراط زر کی شرح بھی 2017 میں 3.3 فیصد ہی رہ گئی ہے۔

بالواسطہ ٹیکسوں کے محاذ پر گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی عرصہ طویل سے معرض التوا میں پڑی اصلاحات پر ہماری سرکار نے عمل آوری کی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں  اور ریاستی سرکاروں سے مشورے کے ساتھ ایک جی ایس ٹی قانون کا نفاذ کیا ہے۔ ہم نے اپنی معیشت کو بغیر کسی قسم کی خامی کے ان کی عمل آوری کی ہے اور اب اس میں استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ریاستی سرکاروں اور صنعتی دنیا سے مشورے کے عمل کے دوران اس پر عمل آوری اور صارفین کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے جی ایس ٹی میں بہتری پیدا کرنے کا عمل ہنوز جاری رکھا ہے۔

مثال کے طور پر کاروبار کے لئے ممکنہ ٹیکس کاری کے فوائد کے حصول کے لئے کاروبار کی حد بڑھا کر دو کروڑ روپئے کر دی گئی؛ ڈجیٹل سودوں کے ذریعہ ہونے والے کاروبار کے پیشگی ٹیکس کی شرح آٹھ فیصد سے کم کرکے چھ فیصد کر دی گئی؛ متعدد ضروری اشیاء پر ٹیکس میں کمی کر دی گئی۔ ہمارے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ جہاں بالواسطہ ٹیکسوں کے لئے اندراج شدہ ڈیلر کی تعداد محض سات ملین تھی، وہیں جی ایس ٹی کے نفاذ سے اس میں پانچ ملین کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر سازگار فضا فراہم کرائی جائے تو عوام ٹیکس کاری کے نظام میں شامل ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

ہماری سرکار نے متعدد دیگر اصلاحات بھی کی ہیں۔ ہم نے فراموش شدہ بینامی ایکٹ کا اعادہ کیا، ہم نے انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ، فیوجٹو اکونومک آفینڈرس ایکٹ، انشیورینس لاز امینڈ منٹ ایک اور ریئل اسٹیٹ (ریگولیشن اند ڈیولپمنٹ) ایکٹ جیسے قوانین کا نفاذ کیا۔ یہ ان ان گنت اقدامات اور قوانین میں شامل محض چند اقدامات کا ذکر ہے۔ میں معاشیات کے میدان میں حکومت کے متعدد اصلاحی اقدامات گنوا سکتا ہوں۔

ہم نے متعدد دیگر شعبوں میں بھی اصلاحات کی ہیں جس سے معیشت کی نمو میں اضافہ کرنے میں مدد ملی ہے۔ میں نے پرگتی کے تحت خود بھی 11.5 لاکھ کروڑ کی مالیت کے بند پڑے 250 پروجیکٹس کا جائزہ لیا جس سے ریلوے ، سڑک، بجلی، جہاز رانی اور ہاؤسنگ کے انفراسٹرکچر پروجیکٹس کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

ہم مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں ملازمت اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جانے کے عمل میں ترغیبات دینے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔  ہم تکنالوجی کے استعمال سے پیداواریت اور مؤثریت میں اضافہ کر رہے ہیں؛  ہم وسائل کے رساؤ کو روکنے اور پروگراموں اور منصوبوں کی بروقت تکمیل کے ذریعہ موجودہ مالی وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال کر رہے ہیں۔ ہم ہندوستان کو مقابلہ جاتی ملک بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے سامان کی درآمدات پر انحصار کو بھی کم کر رہے ہیں جہاں گھریلو پیداوار کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعہ ہم میک اِن انڈیا کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔

ہم آیوشمان بھارت کے ذریعہ بہتر صحت اور طبی سہولیات کی فراہمی، بہتر تعلیم اور ہنر مندی اور سبھی کے لئے مکان کے تحت سبھی کے لئے رہائشی یونٹوں کے ذریعہ مستقبل کی نسلوں کے لئے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

ہم سبھی جانتے ہیں کہ بڑے شہروں کو نمو کے انجنوں کی حیثیت حاصل ہے۔ ہم نے اس میں توسیع کی ہے۔ ہم دوسرے درجے اور تیسرے درجے کے شہروں کی ڈھانچہ جاتی سہولیات میں بہتری پیدا کر رہے ہیں اور انہیں اُڑان اسکیم کے تحت فضائی رابطہ کاری فراہم کرا رہے ہیں۔ ہم انہیں نمو کے نئے انجن بنا رہے ہیں۔ 13 کروڑ سے زائد مدرا قرض، اور ایسے اسٹارٹ ۔ اپس جنہوں نے اپنی تشکیل کے بعد ترقی کا عمل جاری رکھا ہے، یہ سب ہماری نمو کی داستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان سے لوگوں کو ملازمتیں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں ہماری معیشت نمو کے بلند راستوں پر پہنچ چکی ہے۔ ہم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور خاص طور سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی جہاں تک معاشی نمو کا تعلق ہے ہندوستان کو رخشندہ ستارہ یعنی برائٹ اسٹار قرار دیا ہے۔

مختلف النوع تناظر سے جی ایس ٹی اور آئی بی سی دو سب سے بڑے اصلاحی اقدامات ہیں۔ آئندہ آپ کیا بڑا قدم اٹھانے جا رہے ہیں؟

مجھے خوشی ہے کہ آپ نے ان دونو اقدامات کو ’’بڑے اصلاحی اقدامات‘‘ کہا ہے۔ لیکن مجھے اس میں یہ اضافہ کرنے دیجئے کہ ہم نے متعدد دیگر ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جو ہماری معیشت کے لئے انتہائی فائدے مند ثابت ہوئے ہیں۔ سرکار نے پبلک سیکٹر کے مرکزی کاروباری اداروں (سی پی ایس ای) کے تئیں اپنے نظریے میں تبدیلی کے بڑے فیصلے لیے ہیں۔ اس کا مقصد عوامی اثاثہ جات کا مؤثر استعمال، دولت تک حصہ داروں کی رسائی اور عوام الناس کے لئے دولت پیدا کرنا ہے۔ سرمایے کے اخراج کی حکمت عملی میں بھی زبردست تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

نتیجہ گذشتہ چار برس کی کارکردگی سے ظاہر ہے، سرکار نے پبلک سیکٹر کے کاروباری اداروں سے دو لاکھ کروڑ روپئے کی نکاسی کی ہے جو تقریباً 48,500 کروڑ روپئے ماہانہ بنتی ہے۔ پچھلے سال 2017-18 میں حکومت نے سب سے زیادہ ریکارڈ ایک لاکھ کروڑ روپئے کا سرمایہ حاصل کیا۔.

2004-05 سے 2013-14 تک کے پچھلے دس برس کی کارکردگی کا موازنہ کیجئے، جس کے دوران مجموعی وصولیابی 1.08 لاکھ کروڑ روپئے تھی۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے پچھلے ساڑھے چار برس سے بھی کم کی مدت میں اس رقم کو دوگنا کر دیا ہے۔ یہ عوامی اثاثہ جات کے مؤثر انتظامات کے تئیں ہماری سرکار کی عہد بستگی کا ثبوت ہے۔ اس سے سرکار اور عوام دونوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔

اسی طرح ہم نے راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی اصلاحی اقدامات کیے ہیں تاکہ ملک میں زیادہ مقدار میں راست غیر ملکی سرمایہ کاری  ہوسکے۔ بیمے کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات نے مزید بیمہ کمپنیوں کے لئے راستہ ہموار کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دوبارہ بیمہ کرنے والی کمپنیاں بھی ملک میں آگئی ہیں۔ جہاں 2014 میں ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کی مقدار تقریباً 320 ارب ڈالر تھی وہیں آج  ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کی مالیت 400 ارب امریکی ڈالر کے بقدر ہوگئی ہے۔ ہمارے دور میں مالیاتی شمولیت سے نقدی کی راست منتقلی جیسے اقدامات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے سرمایے کے درمیانی رساؤ کو روکا جا سکا ہے اور اس رقم کو استفادہ کنندگان تک پہنچائے جانے کو یقینی بنایا جا چکا ہے۔ آئندہ کچھ دنوں میں ہم اپنا پوسٹ آفس بینک بھی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اس سے زبردست تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ اس  سے دور دراز کے گاوؤں کے افراد کو ا ن کے دروازے پر بینکنگ کی سہولت مہیا ہوگی۔

ہم نے صحت  کے شعبے میں بھی زبردست پالیسی فیصلے لیے ہیں؛ آیوشمان بھارت کے ذریعہ طبی سہولیات کو سب کے لئے خاص طور سے غریبوں کے لئے کفایتی بنایا جا سکے گا۔ اسی طرح کے فیصلے تعلیم کے شعبےمیں بھی کیے گئے ہیں۔ ان پر بہت زیادہ گفتگو تو نہیں کی گئی ہے، لیکن ان سے ایسی تبدیلیاں پیدا ہوں گی جو اس شعبے میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کریں گی۔ نئے آئی آئی ایم ایکٹ سے آئی آئی ایم اداروں کی مالیاتی خودمختاری فعال ہو سکے گی۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی یونیورسٹیوں اور اداروں کو بھی خود مختاری تفویض کر دی گئی ہے۔ مہارت کے ادارے قائم کرنے کی ہماری کوششوں سے ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیاری تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔

ہم سبھی کے لئے مکان ، سبھی کے لئے بجلی، سبھی کے لئے سووَچھ بھارت، دور دراز کے علاقوں میں سڑکیں، آپٹکل فائبر نیٹ ورک اور ملک کے تمام مواضعات میں ای۔ خدمات کی فراہمی کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں حفظانِ صحت کے دائرے میں توسیع اور ہمارے کسانوں کے لئے تکمیل شدہ آبپاشی منصوبوں کی پیش کش کی سمت میں بھی کام جاری ہے۔ ہماری اصلاحات بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں اور یہ اصلاحات آج بھی جاری ہیں۔ آپ ان اصلاحات کو یک وقتی عظیم قدم سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیے کی جانے والی تمام اصلاحات اور جو مستقبل میں بھی کی جائیں گی، یکساں طور سے اہمیت کی حامل ہیں۔

غیر کارکردہ اثاثوں (این پی اے)اور ناقص قرضوں کے پس منظر میں آپ بینکنگ کے شعبے کے مجموعی مسائل کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں؟

غیر کارکردہ اثاثوں کے مسئلے کو حل کرنے کے متعلق کچھ کہنے سے قبل غیر کارکردہ اثاثوں (این پی اے) کے فیصد میں ہونے والے اضافے کے اصل وجوہات پر غور کرنا بہتر ہوگا۔ یو پی اے کے دوسرے دور میں بڑے پیمانے پر قرض تقسیم کیے گئے تھے۔ یہ اس دور میں رائج ’’ٹیلی فون بینکنگ‘‘ کے نتیجے میں کیے گئے تھے۔ یہ ٹیلی فونی ہدایات راست طور سے بینکوں کو دی جاتی تھیں، اور بیشتر معاملات میں بغیر کسی قسم کی جانچ یا اثاثوں وغیرہ کی تفتیش کے قرض منظور کر دیے جاتے تھے۔ اعداد و شمار شاہد ہیں کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں کی مجموعی پیشگی رقوم میں 2008 سے 2014 تک مدت میں  تین گنا اضافہ ہو گیا۔ قرضوں کی اس  طرح کی منظوری ہی آج غیر کارکردہ اثاثوں کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔

علاوہ ازیں ایک اہم بات یہ ہے کہ سابقہ سرکاروں کے دور میں ان غیر کارکردہ اثاثہ جات کی تعداد کم کرکے دکھائی گئی، جس کے نتیجے میں اس مسئلے کا صحیح حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔

ہمیں ان حقائق کا علم اسی وقت ہوا جب ہماری سرکار اقتدار میں آئی۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو محض اپنے سیاسی فائدے کے لئے ان تمام معاملات کی عوامی تشہیر کرتا اور ہماری معیشت پر سابقہ سرکاروں کے اقدامات سے پڑنے والے بوجھ کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالتا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ہماری معیشت میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھتی اور حالات میں عدم استحکام پیدا ہو جاتاہے۔ اس لیے ہم نے بینک کاری کے نظام کو دوبارہ صحت مند بنانے کے لئے سکون اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ساتھ کام کیا۔ اس کے ساتھ ہم نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ بینک تمام درست اور دور اندیش اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کریں۔

سال 2015 میں ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعہ اہتمام کیے جانے والے اسیٹ کوالٹی ریویو (اے کیو آر) سے غیر کارکردہ اثاثہ جات کی اتنی بڑی تعداد کے بارے میں پتہ چلا۔ بہت سے بڑی رقم والے اہم قرضوں کو این پی اے قرار دے دیا گیا۔ 2015 میں آر بی آئی کے ذریعہ اہتمام کیے جانے والے اے کیو آر کے نتیجے میں پتہ چلا کہ پبلک سیکٹر بینکوں کے مجموعی غیر کارکردہ اثاثوں کی تعداد تقریباً 6.17 لاکھ کروڑ روپئے ہوگئی ہے۔ نمایاں کارکردگی — شفاف منظوری کے لئے پبلک سیکٹر کے بینکوں کے لئے 5.12 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض کی درخواستوں کی جانچ کی۔

این پی اے کے مسئلے کے تدارک اور وصولیابی کے مؤثر اور صاف ستھرے نظام کی تشکیل کی غرض سے سرکار نے انسالوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ مرتب کیا۔ اس کے ساتھ ہی سرکار نے بینکنگ ریگولیشن ایکٹ 1949 میں بھی تبدیلیاں کرکے ریزرو بینک آف انڈیا کو مجاز کیا کہ وہ بینکوں کو آئی بی سی کا طریقہ کار اپنانے کی ہدایت دے سکیں۔ دراصل 39 بڑے نادہندگان کے معاملے کی مالیت2.69 لاکھ کروڑ روپئے ہے، اتنی خطیر رقوم کے معاملے اس وقت سامنے آئے جب نیشنل کمپنی لا ٹریبونل (این سی ایل ٹی) میں ان معاملات کے فیصلوں کے لئے درخواستیں گزاری گئیں۔ اس عمل کے نتیجے میں قرض دہندہ ادارے 40,000 کروڑ روپئے سے زائد رقوم کی کامیابی سے وصولی کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مصروف عمل کمپنیوں میں خاطر خواہ سدھار کے ساتھ تبدیلی کے نظام کی بھی کامیاب عمل آوری کی ہے۔

سرکاری دائرہ کار کے شعبے کے بینکوں کو مستحکم بنانے کے لئے یہاں اب سے پہلے اندرا دھنش منصوبےنے ان بینکوں میں 70,000 کروڑ روپئے کی پونجی داخل کیے جانے کی بات کہی تھی۔ ہم نے اکتوبر 2017 میں 2.11 لاکھ کروڑ روپئے کی باز پونجی کاری کا اعلان کیا ہے۔ ہم نے مفرور معاشی مجرموں پر شکنجہ کسنے کی غرض  سے مفرور اقتصادی خطاکاران قانون وضع کیا اور فرار مجرموں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا۔ سرکار اور ریزرو بینک کے ان اقدامات کے نتیجے میں بند پڑے کھاتوں کی شفافیت، بہتر فراہمی، بینکوں کے لئے باز پونجی کاری اور بینکوں میں بہتری کا جامع نظام فراہم ہوا، قرض اور وصولیابی کے نظام کی صفائی  کے ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں آج ایک مضبوط بینک کاری نظام قائم ہو سکا ہے۔

یہ بہتری 20.7.2018 کو درج فہرست کاروباری بینکوں (ایس سی بی)میں قرضوں میں 12.4 فیصد کی نمو درج ہوئی ہے۔ قرض میں یہ نمو 114.38 لاکھ کروڑ روپئے کی مضبوط ڈیپازٹ بنیاد پر ہوئی ہے جو صارفین کے اعتماد اور سرمائے کی مضبوط بنیاد میں بھی نظر آتی ہے۔ہمارے بینک اس لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہیں  اور مجموعی اقتصادی نمو میں اپنا بہتر تعاون دے سکتے ہیں۔


دوسرا سوال؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ مفرور اقتصادی خطاکاران سے متعلق بل خاطیوں کے ملک سے فرار ہونے کا راستہ بند کرنے کے لئے وافر بنیاد فراہم کرے گا؟

یہ ایسے اقتصادی خاطیوں کے لئے تدارک کا کام کرے گا جو ان برسوں میں نظام کی موجودہ کمیوں کا فائدہ اٹھا کر استحصال کرتے رہے ہیں اور قانون کی گرفت سے بچتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کلی میکنزم فراہم کرے گا جس کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ خطاکاران از خود ملک واپس آئیں اور اپنے جرائم کے لئے معقول عدالتی کاروائی کا سامنا کریں۔ دراصل اس قانون نے پہلے ہی اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ایک معاملے میں 800 کروڑ سے زائد کی منڈی قدر و قیمت والے اثاثےپی ایم ایل اے کے تحت قرق کیے جا چکے ہیں۔ ایک دوسرے معاملے میں 3,500 کروڑ روپئے سے زائد کے اثاثے قرق / ضبط کیے جا چکے ہیں۔ یہ قانون اس سے بہت قبل وضع کیا جا چکا ہوتا۔ اگر اس وقت کی حکومت نے اس طرح کے خطاکاران کے خلاف کاروائی کی ہوتی۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ کاروباری برادری میں ایک گونہ خوف پایا جاتا ہے  جو کسی نہ کسی طریقے سے یہاں سرمایہ کاری کے ان کے رجحان پر قدغن لگا رہا ہے؟ اور کیا آپ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ایک نامناسب رائے عامہ ایسی بن گئی ہے کہ تمام کاروباری بے ایمان ہیں؟

یہ حکومت کاروبار کو آسان بنانے کے تئیں پوری طرح سے عہد بند ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میری حکومت ایسی ہے جس نے بدعنوان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عہد بھی کر رکھا ہے۔ حکومت کا زور پورے عمل کو سہل بنانے پر ہے خواہ یہ کمپنی کا قیام ہو یا کسی ڈائرکٹر کی شمولیت یا پھر انکم ٹیکس یا جی ایس ٹی کی ادائیگی۔ بڑی حد تک ان تمام کاموں میں انسانی عمل دخل، مضبوط آئی ٹی عمل دخل کے ذریعہ ختم کر دیا گیا ہے۔ کاروبار آسان بنانے کے معاملے میں عالمی بینک کے تحت، جہاں بھارت کو 142 کی بجائے اب 100 واں درجہ حاصل ہوگیا ہے، واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنی کمپنیوں کے لئے ایک سازگار ماحول ہموار کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا شکایات اور قانون پر عمل آوری کرتے ہوئے ضوابط اور متعلقہ امور کو سہل اور شفاف بنایا جا رہا ہے۔ تمام بدعنوان عناصر کے لئے اب بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ شفافیت اور سہل کاری ان کے خفیہ ارادوں اور بدنیتی کو کامیاب نہیں ہو نے دے گی۔

اس کے علاوہ کالے دھن اور بدعنوانی کے خلاف ہمارے مشن کے ایک حصے کے طور پر میری حکومت نے 260,000 جعلی کمپنیوں اور 309,000 ڈائرکٹروں کے نام حذف کر دیے ہیں۔ ہم دیگر 55,000 کمپنیوں کے نام بھی اسی مہینے کے اندر حذف کر دیں گے اور بہت سی دیگر کمپنیوں کو بھی آنے والے مہینوں میں اسی طرح کی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹیکس کے محاذ پر ایسے پیشہ وران کے لئے جن کی مجموعی آمدنی سالانہ پچاس لاکھ روپئے سے تجاوز نہیں کرتی ایک پیشگی اندازے پر مبنی ٹیکسیشن نظام قائم کیا گیا ہے۔ پانچ لاکھ روپئے تک کی آمدنی کا اولین آمدنی ٹیکس سلیب پر عائد ہونے والا ٹیکس دس فیصد سے گھٹا کر غیر کارپوریٹ ٹیکس دہندگان کے لئے پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے کم داخلہ سطح کی شرح ہے۔ ایسی کمپنیوں کے لئے، جن کا سالانہ کاروبار  250 کروڑ روپئے تک ہو ، انکم ٹیکس کی شرح گھٹا کر 25 فیصد کر دی گئی ہے اور  اس کے تحت ملک میں تمام تر 99 فیصد کمپنیوں پر احاطہ کر لیا گیا ہے۔

اسی طریقے سے، جی ایس ٹی کے لئے ہم نے عمل درآمد اور عمل آوری کے لئے کوئی بہت طویل راستہ نہیں وضع کیا ہے۔ ہم نے تاجروں اور حصص داروں پر اعتماد کیا ہے اور وہ حکومت اور نظام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچتے کہ تمام تاجر بے ایمان ہیں تو ہم نے ان پر اس انداز میں اعتماد نہ کیا ہوتا۔

میں اپنی بات یہ کہتے ہوئے مختصر کرنا چاہوں گا کہ یہ تمام کاروائیاں ایماندار ٹیکس دہندگان کے مفادات کے تحفظ کے لئے کی جا رہی ہیں خواہ وہ کمپنیاں ہوں یا تاجر حضرات یا پھر انفرادی اشخاص۔ جن افراد کو ان اقدامات سے پریشانی ہے وہ ظاہر سی بات ہے کہ مذکورہ زمرے کے افراد نہیں ہوں گے۔ جہاں تک نتائج کا سوال ہے، ہم ملک میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھ رہے ہیں ۔ معیشت 7.5 فیصد کے مثبت انداز میں نمو سے ہمکنار ہے، تمام مجموعی اور بڑے اشاریے مثبت ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ 400 بلین امریکی ڈالر سے بھی زائد ہے۔ ہماری معیشت کو ایک ایسے ہاتھی سے تشبیہ دی جا رہی ہے جس نے دوڑنا شروع کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم صحیح راستے پر دوڑ رہے ہیں۔


روزگار اور روزگار سے متعلق اعدادو شمار کا موضوع کافی متنازعہ رہا ہے، چند افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران بے شمار روزگار فراہم کرائے گئے ہیں اور دیگر افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ کیا ہم نے وافر تعداد میں روزگار فراہم کرائے ہیں؟ اور آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم مزید روزگار فراہم کرانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ایک طرف طویل المدت لحاظ سے رسمی کاروائی ضروری ہے، مختصر مدت میں اس کی وجہ سے کچھ تکلیف ضرور لاحق ہوئی ہے اور کچھ سیاسی سرمایہ بھی برباد ہوا ہے۔  آپ اس سے کیسے نمٹے ہیں؟

ان لوگوں کے علاوہ جو درپردہ سیاسی مفادات کے تحت ایسا کر رہے ہیں، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ معیشت کے تحت کافی روزگار نہیں فراہم ہوئے وہ بنیادی طور پر ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ روزگار اور نوکریوں کا منظم ڈاٹا بیس موجود نہیں ہے۔فطری بات ہے کہ اطلاعات کی عدم موجودگی میں ہمارے مخالفین اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں گے اور ہمیں روزگار بہم نہ پہنچانے کے لئے موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔

اس پر قابو پانے کے لئے ہم اب روزگار کے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابتداً ہم نے فراہم کرائے گئے روزگاروں کے سلسلے میں ایک سرسری خاکہ پیش کرنے کی غرض سے ای پی ایف او / ای ایس آئی / این پی ایس اعدادو شمار کا استعمال کیا ہے۔ اگر ہم صرف ای پی ایف او ڈاٹا پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ستمبر 2017 سے اپریل 2018 کے دوران 4.5 ملین سے زائد رسمی روزگار فراہم کرائے گئے۔ ای پی ایف او ڈاٹا پر مبنی ہمارے ایک مطالعے کے مطابق صرف رشمی شعبے  میں گذشتہ برس سات ملین سے زائد روزگار فراہم کرائے گئے۔

جہاں رسمی صنعتیں موجود ہیں ، ہم سب جانتے ہیں کہ غیر رسمی شعبہ تمام روزگار میں 80 فیصد روزگار فراہم کرانے کا ذمہ دار ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسمی شعبے میں روزگار کی فراہمی سے غیر رسمی شعبے میں روزگار کی فراہمی پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرنے کی غرض سےکہنا چاہوں گا کہ 300,000 سے زائد گاؤں کی سطح کے صنعت کار ایسے ہیں جو ملک بھر میں کامن سروس مراکز چلا رہے ہیں اور روزگار فراہم کرا رہے ہیں۔ 15,000 سے زائد ایسے اسٹارٹ اپ ہیں جنہیں حکومت نے اپنی جانب سے مدد دی ہے اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں وہ روزگار بڑی تعداد میں فراہم کراتےہیں۔ مدرا اسکیم کے تحت 130 ملین سے زائد کے قرض فراہم کرائے گئے ہیں۔ یہ بات انصاف سے قطعی  بعید ہوگی کہ ہم یہ توقع کریں کہ ایک قرض نے صرف ایک روزگار یا کم از کم ایک اضافی فرد کے لئے روزگار فراہم کرایا ہوگا؟ گذشتہ چار برسوں کے دوران بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمی انجام دی گئی ہے۔ خواہ سڑکیں ہوں، ریلوے ہو، یا ہاؤسنگ کا شعبہ ہو۔ یہ تمام سرگرمیاں روزگار فراہم کرتی ہیں۔ تمام تر ایسی رپورٹیں خواہ وہ قومی ہوں یا بین الاقوامی، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بھارت میں ناداری یا غربت مائل بہ انحطاط ہے۔ کیا ہم لوگوں کے ذریعہ روزگار کے حصول کے بغیر اس طرح کے امکان کا تصور کر سکتے ہیں؟

ملک میں سیاحت کا شعبہ 14 فیصد کی نمو سے ہمکنار ہوا ہے۔ سیاحت کے توسط سے حاصل ہونے والے غیر ملکی زر مبادلے نے 2016 کے مقابلے میں 2017  میں 19 فیصد کی صحت مند نمو درج کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاحت براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کا زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سیاحت نمو سے ہمکنار ہو رہی ہے تو کیا ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ بنیادی سطح پر کسی طرح کے روزگار کی فراہمی کے بغیر ہو رہا ہے؟

اسی طریقے سے ہمارے فضائی نقل و حمل میں بھی سال بہ سال 18 فیصد سے زائد کی نمو درج کی گئی ہے جو کسی بھی بڑی معیشت میں سب سے زیادہ ہے۔ مصروف عمل ہوائی اڈوں کی تعداد بڑھ کر تقریباً دوگنی ہوگئی ہے۔ ایئرلائنیں ماہانہ بنیادوں پر نئے طیاروں کا اضافہ کر رہی ہیں۔ یہ تمام تر امور زمین پر کام کرنے والے کارکنان کی تعداد میں اضافے کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے۔ ملک میں موبائل مینوفیکچرنگ اکائیوں کی تعداد، اس وقت جب میری حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا، مٹھی بھر تھی جو اب بڑھ کر 120 ہو گئی ہے۔  صرف اسی ایک شعبے نے 450,000 براہِ راست اور بالواسطہ روزگار فراہم کرائے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تمام تر امور بنیادی سطح پر کارکنان کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہو سکتے اور ان شعبوں میں رونما ہونے والی نمو کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ روزگار کو بھی فروغ ہوگا۔

اس گمراہ کن اطلاعات پر مبنی مباحثے کے علاوہ چند ریاستی حکومتوں کے ذریعہ یہ دعوے بھی کیے گئے ہیں ۔۔ مغربی بنگال کا کہنا ہے کہ اس نے 6.8 ملین روزگار بہم پہنچائے اور سابقہ کرناٹکا حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 5.3 ملین روزگار فراہم کرائے تھے۔ کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں تمام تر روزگار صرف چند ریاستوں میں ہی بہم پہنچائے جا رہے ہیں اور ملک کی دیگر ریاستیں مجموعی طور پر روزگار بہم نہیں پہنچا پا رہی ہیں؟ حزب اختلاف کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کچھ اور نہیں صرف ایک سیاسی ڈھونگ ہے۔


حال ہی میں خواتین کی سلامتی اور ان کی اختیار کاری پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت ان معاملات سے کیسے نمٹ رہی ہے؟

کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ خواتین ترقیاتی عمل میں پوری طرح سے شراکت دار نہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ خواتین کو کلی طور پر اختیار کاری سے ہمکنار کرنے کے لئے اندازِ فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے — ایک محفوظ، مبنی بر سلامتی اور سازگار ماحول کے ذریعہ ۔۔ ان کی کلی صلاحیتوں کو انفرادی طور پر، اقتصادی لحاظ سے اور سماجی سطح پر بروئے کا ر لانے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔

ہم نے اس روایتی انداز فکر کو بدلنے کی چنوتی کا احساس کر لیا جو خواتین کے خلاف پہلے تشدد کو یا تو برداشت کرنے کی بات کرتا تھا یا پھر ان کے خلاف ہونے والے تشدد کو جائز سمجھتا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ وہ پہلا پروگرام تھا جسے اس حکومت نے شروع کیا تھا۔ یہ گھٹتے ہوئے اطفال کے صنفی تناسب کے مسئلے کو زیر غور لاتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ ان کی پیدائش سے قبل ہی بچیوں کے خلا ف روا رکھے جانے والے تشدد کی روک تھام کی بات کرتا ہے اور بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی حمایت کرتا ہے۔

ہمارے آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی میں دو خواتین شامل ہیں۔۔ خارجی امور کی وزیر اور وزیر دفاع۔ پہلی مرتبہ خواتین کو بھارتی فضائیہ میں جنگجو پائلٹوں کے طور پر جنگی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ حکومت ہند اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے کہ پولیس فورس میں زیادہ تعداد میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین آگے آئیں اور زیادہ بہتر اور معاون ماحول میں اپنی شکایات درج کرا سکیں۔ بائیس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے پولیس فورس میں خواتین کو 30 فیصد اور اس سے بھی زائد کا ریزرویشن فراہم کیا ہے۔ مہیلا پولیس رضاکاران (ایم پی) بھی پولیس اور معاشرے کے مابین ایک کڑی کے طور پر کام کرتی ہیں اور مشکلات سے دوچار خواتین کو انصاف تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ غیر رسمی کردار میں زیادہ سے زیادہ بااختیار خواتین ایک مثال کے طور پر کام کریں گی اور اس اندازِ فکر کا سدباب کریں گی جو خواتین کے ہر طرز عمل پر معترض ہوتا ہے اور ان کی صلاحیتوں پر قدغن عائد کرتا ہے۔

خواتین کی اختیار کاری ایک ایسا مرکزی موضوع ہے جو سرکاری پروگراموں کے ذریعہ عمل آوری میں لایا جاتا ہے۔ اگرچہ پروگراموں کا نام خاص طور پر خواتین کے پروگرام کی حیثیت سے بھی نہیں متعارف کرایا جاتا۔ ہم اپنی عوامی پالیسی میں صنف کو دانستہ طور پر کلیدی حیثیت میں لا رہے ہیں۔ عوامی مقامات پر خواتین کی جسمانی سلامتی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لئے کیے جانے والے اقدامات اس میں شامل ہیں۔ انصاف تک رسائی اور زیادتیوں کے ازالے کے سلسلے میں ان کی صلاحیتوں میں اضافہ اور ان کی سماجی اور اقتصادی اختیارکاری بھی اس کا جزو ہیں۔

تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لئے وَن اسٹاپ مراکز اور تمام ریاستوں میں خواتین کے لئے ہیلپ لائنوں کا قیام جیسے اقدامات کی شکل میں ادارہ جاتی میکنزم فراہم کرایا گیا ہے۔ یہ تمام ادارے 24 گھنٹے کی ہنگامی اور غیر ہنگامی امداد فراہم کرتے ہیں۔ ان میں طبی امداد، پولیس امداد اور مشاورت، نفسیاتی  ۔ سماجی مشاورت اور تشدد سے متاثرہ خواتین کے لئے عارضی پناہ گاہوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔

حکومت نے ایک نابالغ بچی کی عصمت دری کرنے والے کے لئے سزائے موت دینے کا قانون وضع کیا ہے۔۔ اس طرح کے وحشیانہ عمل کے مرتکب ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے تدارکی اقدام کو مستحکم بنایا گیا ہے۔

خواتین کے خلا ف وحشیانہ تیزابی حملوں کے سلسلے میں تشویش کا احساس کرتے ہوئے حکومت اب انہیں ایک لاکھ روپئے کی مالی امداد (ایسے حملوں کا شکار ہونے والی خواتین کے معاوضے سے متعلق اسکیم کے تحت دی جانے والی رقم کے علاوہ) فراہم کرتی ہے اور یہ امداد تیزابی حملوں کے بعد بچ جانے والی خواتین کو عارضی راحت کے طور پر فراہم کی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ تیزابی حملوں کو اب معزور افرد کے حقوق سے متعلق ایکٹ 2016 کے تحت ایک معزوری کی حیثیت سے مشتہر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ تیزاب کے حملوں کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے طبی معالجے کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کی غرض سے پانچ لاکھ روپئے کی خصوصی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔

خواتین کو نربھیا فنڈ کے تحت سلامتی اور تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے سینٹرل وکٹم کمپن سیشن فنڈ نے پہلی مرتبہ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو 200 کروڑ روپئے کی رقم تقسیم کی ہے تاکہ وہ مختلف جرائم کا شکار ہونے والی خواتین کو مالی امداد فراہم کر سکیں۔

900 سے زائد ریلوے اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی پرمبنی تحفظ کے نظام کے توسط سے  خواتین مسافروں کو چوبیس گھنٹے کا تحفظ فراہم کرانے کی غرض سے ایک مربوط ہنگامی حالات رسپانس انتظام نظام 2019 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس قدم سے خواتین اور بچوں کی غیر قانونی نقل و حمل یا بردہ فروشی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

صنفی لحاظ سے منصفانہ اور مساویانہ معاشرے کی تخلیق کی غرض سے ہمیں اپنے نوجوانوں یعنی لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے رجحانات پر بھی قابو حاصل کرنا ہوگا۔ ’جینڈر چیمپئن‘ نام کا پروگرام نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو صنفی لحاظ سے حساس اور بیدار بناتا ہے اور ایسے مثبت سماجی اصول و ضوابط ترتیب دینے کی بات کرتا ہے جو لڑکیوں اور ان کے حقوق کو خاطر خواہ اہمیت دیں۔ اب تک، 100 یونیورسٹیاں اور 145 کالج اس پر عمل پیرا ہو چکے ہیں۔

اس حکومت نے حساس طبقات کے تحفظ کے لئے سخت اقدامات کرنے میں کبھی پس و پیش  سے کام نہیں لیا ہے۔ طلاق ثلاثہ بل جو طلاقِ ثلاثہ اور نکاح حلالہ کو غیر قانونی قرار دیتا ہے، بھارت میں مسلمان خواتین کے خلاف روا رکھی جانے والی طویل ناانصافی کے خاتمے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ بردہ فروشی کے خلاف بل جسے ابھی ابھی لوک سبھا نے منظوری دی ہے، وہ ازحد حساس زمرے کی خواتین اور بچوں کے خلاف انجام دیے جانے والے از حد عام اور وسیع تاہم غیر محسوس جرائم کے انسداد کی ایک کوشش ہے۔

نئی حج پالیسی کے مطابق پہلی مرتبہ 45 برس سے زائد عمر کی خواتین ایک محرم یا مرد ساتھی کے بغیر حج پر جا سکتی ہیں، یہ قدم بھی تبدیلی کا نقیب ہے۔ خواتین کی ایجنسی کا اعتراف کرتا ہے اور اس طریقہ کار کا سدباب کرتا ہے جو صدیوں سے رائج تھا۔

دیہی اور نیم شہری دونوں طرح کے علاقوں میں سووَچھ بھارت ابھیان کے تحت لاکھوں کی تعداد میں بیت الخلاؤں کی تعمیر  نے خواتین کی سلامتی و تحفظ کو منظم بنایا ہے۔ کیونکہ تجربے سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ خواتین اکثر و بیشتر اس وقت جنسی تشدد کاشکار ہوتی ہیں جب وہ کھلے میں خصوصاً اندھیرے میں رفع حاجت کی غرض سے باہر جاتی ہیں۔  دیہی صفائی ستھرائی احاطہ 39 فیصد سے بڑھ کر 71 فیصد تک پہنچ گیا ہے  اور1,472 شہروں کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا شہر قرار دیا جا چکا ہے۔ تمام سرکاری اسکولوں میں مشن موڈ پر لڑکیوں کے لئے علیحدہ بیت الخلاؤں کی تعمیر عمل میں آئی ہے جو طالبات کے ذریعہ درمیان میں اسکولی تعلیم ترک کرنے کی تعداد میں تخفیف لائے گی۔

خواتین کی صحت اور اقتصادی اختیارکاری کے لئے کام کاجی فورس میں ان کی شمولیت اور ان کی موجودگی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

حال ہی میں ترمیم شدہ زچگی فوائد ایکٹ قانونی طور پر زچگی رخصت کو بڑھا کر 26 ہفتے کرے گا اور اس قانون نے ہر اس ادارے کے لئے یہ امر لازم قرار دیا ہے جہاں پچاس سے زائد ملازمین (خواہ افراد ہوں یا خواتین) مصروف عمل ہوں، کہ وہ ادارے اپنے یہاں بچوں کی نگہداشت کے لئے کریچ کی سہولتیں فراہم کرائیں۔ اس کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ کام کاجی خواتین اپنا کام حاملہ ہونے کی صورت میں ترک کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اس سے اس امر کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ بچوں کی نگہداشت کی سہولت فراہم کرکے ورک فورس میں ان کی موجودگی یقینی بنائی جا سکے گی اور ساتھ ہی ساتھ اس امر کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ بچوں کی نگہداشت میں باپ بھی مساوی طور پر ذمہ دار ہے۔

پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا کے تحت ہر حاملہ خاتون اور دودھ پلانے والی ماں (صرف ان کے علاوہ جو منظم شعبے میں مصروف عمل ہیں) پر دیگر زچگی فوائد کے ذریعہ احاطہ کیا جائے گا۔ اس کے تحت اس طرح کی خواتین کنبے میں پہلی زچگی کے لئے زچگی فوائد حاصل کرنے کی مستحق ہوں گی۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس سے زمانہ حمل کے دوران خواتین میں اپنی صحت کے تئیں ان کے برتاؤ میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حمل کے جلد سے جلد رجسٹریشن پر ترغیبات کی فراہمی کے ذریعہ ماں اور بچے کی صحت کو بھی بہتر بنایا جا سکےگا، ادارہ جاتی زچگیوں اور ٹیکہ کاری کے عمل کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مشن اندرا دھنش کے چار مراحل کے تحت 25.3 سے زائد بچوں اور 6.8 ملین خواتین پر زندگی بچانے والے ٹیکوں کے ذریعہ احاطہ کیا گیا ہے اور حاملہ خواتین اور بچوں کو مکمل طور پر بیماریوں سے محفوظ کرنے کی شرح میں پانچ گنا زیادہ کی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اُجووَلا اسکیم کے تحت مفت ایل پی جی کنکشنوں نے نادار خواتین کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس نے انہیں دھؤاں پھینکنے والے چولہوں،  ہمہ وقت لاحق رہنے والی کھانسی اور مشقت سے نجات دلائی ہے۔ اب تک نادار خواتین کو 51.4 ملین ایل پی جی کنکشن فراہم کرائے جا چکے ہیں۔

خواتین کی مالی  شمولیت میں خاطر خواہ نمو دیکھی جا رہی ہے۔ یہ وہ خواب ہے جو کئی دہائیوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ جن دھن یوجنا کے تحت خواتین کے 162.3 ملین کھاتے کھولے جا چکے ہیں جو پی ایم جے ڈی وائی کے تحت کھولے جانے والے کھاتوں کے 53 فیصد کے بقدر ہیں۔ ملک کے چالیس بڑے بینکوں اور ریزرو بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بچت کھاتوں میں خواتین کا حصہ 2014 کے 28 فیصد سے بڑھ کر 2017 میں 40 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پردھان منتری مُدرا یوجنا (پی ایم ایم وائی) کے تحت چھوٹے کاروباریوں کو ضمانتی یا واقف کار کے تعارف کی شرط کے بغیر قرض فراہم کرایا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت دیکھا گیا ہے کہ خواتین چھوٹے قرض لیتی ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ ہے۔ خواتین قرض خواہوں کی تعداد 73فیصد سے زائد ہے اور خواتین کاروباریوں کے لئے 2.95 لاکھ کروڑ روپئے کے قرض منظور کیے گئے ہیں۔ نیشنل رورل لیولی ہڈ مشن کے تحت خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کو بھی قرض تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ 2011 میں اس اسکیم کے آغاز سے اب تک تین کروڑ کنبوں کی خواتین کو 71,000کروڑ روپئے کے بقدر کے بینک قرض دیے جا چکے ہیں۔ اس قرض کی 73 فیصد مقدار یعنی 51,500 کروڑ روپئے کے قرض، محض دو برس کی مدت میں دیے گئے ہیں۔ پردھان منتری آواس یوجنا (شہری) کے تحت یا تو کنبے کی خاتون سربراہ کے نام یا خاتون اور اس کے شوہر کے نام سے مکان الاٹ کیے جاتے ہیں جس سے خواتین کے اثاثہ جات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریکارڈ خواتین کو بااختیار بنائے جانے کے مستقل عہد بستگی کا مظہر ہے۔ آنجہانی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے کہا تھا، ’’میں معاشرے کی ترقی کا تعین خواتین کی ترقی سے کرتا ہوں‘‘۔ ہمیں احساس ہے کہ انصاف اور مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل اور اندازِ فکر میں تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے اور ہم اس کے لئے پوری طرح عہد بستہ ہیں۔

ایک ساتھ الیکشن کرائے جانے کے ایک بڑے حامی رہے ہیں۔ لیکن سبھی ریاستوں نے اس کی حمایت نہیں کی ہے۔ آپ کے خیال سے ہم کب تک ایک ساتھ الیکشن کرائے جانے کے نظام تک رسائی حاصل کر سکیں گے؟

پچھلے کچھ مہینوں کے دوران اس موضوع پر مسلسل بحث و گفتگو کی جاتی رہی ہے۔ میں اس اہم موضوع پر ایک ملک گیر مباحثے کا خیر مقدم کروں گا۔

تجربات بتاتے ہیں کہ باربار الیکشن کرائے جانے سے حکمرانی اور ترقیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انتخابات کا عمل اب بہت مہنگا ہو چکا ہے اور بار بار الیکشن کرائے جانے سے محدود مالی وسائل کے حامل ملک پر زبردست بوجھ پڑ جاتا ہے۔علاوہ ازیں انتخاب کرانے کے لئے سرکاری عملے پر آنے والے اخراجات سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ انتخابات میں کیے جانے والے اخراجات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مزید برآں مثالی ضابطہ اخلاق کے بار بار نفاذ سے بھی فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں میں بھی رخنہ اندازی ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ افرادی قوت کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ چناؤ کے لئے بڑی تعداد میں طویل مدت تک عملے کو تعینات کرنا پڑتا ہے۔ 2014 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے تقریباً 1400 سی اے پی ایف کمپنیاں تعینات کی تھیں۔ علاوہ ازیں 930,000 پولنگ اسٹیشنوں میں ایک کروڑ کے قریب پولنگ کے عملے کی تعیناتی کرنی پڑی تھی۔ 2014 کے انتخابات کے بعد 19 ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ ان انتخابات میں سی اے پی ایف کی 6,000 کمپنیوں کے علاوہ 3.2 ملین سے زائد پولنگ عملے کی نفری چناؤ کی ڈیوٹی کے لئے تعینات کی گئی تھی۔

بار بار الیکشن کرانے کے نتیجے میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب لوگ الیکشن سے اکتا جائیں۔ اس عظیم جمہوری عمل میں ووٹروں کی دلچسپی کم ہونی شروع ہو جائے جس کے نتیجے میں پولنگ کی فیصد میں زبردست کمی ہو سکتی ہے۔ الیکشن انتظامیہ اور سیاسی پارٹیاں بھی چناؤ کے عمل سے تھکی تھکی سی نظر آنے لگی ہیں جس کے آثار ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں۔

ں اس پر نظر رکھنی ہوگی۔ ہمیں ایک ساتھ چناؤ کرائے جانے پر غور کرنا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ کمیشن برائے قانون اس سلسلے میں کوششیں کر رہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر بحث کے بعد کوئی فیصلہ لیا جائے۔ مجھے خوشی ہے  کہ اس مسئلے پر بحث شروع ہو چکی ہے۔

 

2019 میں صرف اور صرف مودی کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی کے خلاف اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ کے خیال سے اس اتحاد کے کیا امکانات ہیں؟ کیا آپ کے خیال سے آج کی سیاست محض شخصیت اور صف بندی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے؟ ہم کس طرح اہم مسائل پر توجہ مرکوز کر سکیں گے؟

اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس سرکار کے برسراقتدا آنے کے بعد دنیا کی نظروں میں ہندوستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت مدت بعد ایک فعال، مضبوط اور مستحکم سرکار مرکز میں قائم ہوئی ہے۔ لوگوں نے ایسی سرکار کے فوائد محسوس کر لیے ہیں۔ ماضی میں لوگوں کو اتحادی سرکاروں کے تلخ تجربات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہ وہ اتحادی سرکاریں تھیں جو مجبوری کی سیاست پر مبنی سرکاریں تھیں۔ مہاگٹھ بندھن کے نام پر یا وہ جو بھی نام چاہیں دیں، یہ گروپ رائے دہندگان کے گٹھ بندھن کی حیثیت کبھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ہندوستان کے ووٹر نے ملک کے مفاد کو سب سے بالاتر رکھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارا رائے دہندہ ایسے بے جوڑ گٹھ بندھن کے لئے اپنے ووٹ کا سودا نہیں کرے گا کیونکہ اس کی توجہ کا مرکز ’’کوئی اور نہیں بلکہ مودی‘‘ ہے۔

 

باہم متصادم اور اقتدار کے حصول کے لئے بیتاب گروپوں کا آدرشوں سے محروم اتحاد ’مہاگٹھ بندھن‘ نہیں بلکہ سیاسی جوکھم بازی ہے۔ یہ ایک ناکام نظریہ ہے جو ماضی میں بھی کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ لوگ ایک ایسی مضبوط اور فیصلہ کن حکومت چاہتے ہیں جو ان کے مفادات کے تئیں حساس ہو اور مثبت نتائج دے سکتی ہوں۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 2014 میں سیاسی پنڈت پوری طرح غلط ثابت ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ پھر ہم اور اس ملک کے عوام انہیں غلط ثابت کریں گے۔ ان کے پاس ملک و قوم کو ترقی، نمو اور روشن اور مستحکم مستقبل پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ان کا مودی کو ہٹانے کا محدود تصور کا راز ہمارے دانش مند عوام پر بہت جلد کھل جائے گا۔ یہی بات ان کے لئے تباہی اور عذاب بن جائے گی۔


2019 کے لئے آپ کا پلیٹ فارم کیا ہوگا؟ آپ سرکار کی کن کن کامیابیوں پر توجہ مرکوز کریں گے؟

میرا پلیٹ فارم مجموعی ترقی، تیز رفتار ترقی اور سب کے لئے ترقی ہوگا۔ میری کامیابی شمال مشرقی خطے کے دور دراز کے مواضعات کی غریب خواتین کی وہ خوشی ہوگی جو انہیں اُجوولا اسکیم کے تحت فراہم کرائے جانے والے گیس اسٹوو پر کھانا بنانے سے ہوگی۔ میری کامیابی یہ ہوگی کہ یہ خواتین اپنا بچا ہوا وقت، معاشی اعتبار سے پیداواری سرگرمیوں میں لگائیں۔ آج اس گاؤں میں بجلی روشن ہو رہی ہے جسے 70 برس بعد بجلی دستیاب ہو سکی ہے۔ گاؤں جسے 70 برس بعد سڑکوں کی سہولت حاصل ہو سکی ہے، مدرا قرض کاروبار کی کامیابی، بچیوں کے لئے کھولے جانے والے سُکنیا سمردھی کھاتے، بینک کھاتے سے محروم فرد کو جن دھن یوجنا کے تحت بینک کھاتے کی سہولت اور ان کھاتوں میں نقدی کی راست منتقلی کے ذریعہ مالی فائدے، سووَچھ بھارت کے تحت پھلتے پھولتے اسٹارٹ اپ پروگرام ہی میری کامیابی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہ ایک بڑی طویل فہرست ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابھی متعدد مزید اسکیمیں آنی باقی ہیں۔ یہ ہمارے اس ملک کے لئے میرا اور سرکار کا کام ہے جو ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگا اور جسے سبھی لوگ صراحت کے ساتھ دیکھ سکیں گے۔

آپ عام طور سے یوم آزادی کو تصوراتی مہم کے آغاز کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان میں اہم ترین مشن سووَچھ بھارت ہے۔ کیا ہم اس سال بھی ایسے ہی کسی اقدام کی توقع کر سکتے ہیں؟

آپ ٹھیک کہتے ہیں 15 اگست اور 26 جنوری، دونوں بہت اہم دن ہیں اور ان دونوں دنوں کو بڑے اقدامات کے اعلان کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ اس دن کو مہم کے آغاز کا دن بنا دیا جائے۔یہ بات اپنے آپ میں بے بنیاد اور انتہائی لغو ہے۔ دراصل یوم آزادی ہماری آزادی کا تیوہار ہے۔ یہ ان لوگوں کو یاد کرنے کا دن ہے جنہوں نے ہماری آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ یہ دن وہ عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ ان کے شکر گزار ہونے اور اس آزادی کے لئے ان کے تئیں ممنونیت کے اظہار کا دن ہے جو آج ہمیں حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ دن اس احساس کو بھی پیش نظر رکھنے کا دن ہے کہ آزادی کو ذمہ داری کے ساتھ نبھایا جائے۔

جب میں یوم آزادی کے موقع پر لال قلع کی فصیل پر کھڑا ہوتا ہوں اور اپنے ملک کے عظیم قومی ترنگے پرچم کو اپنے سامنے لہراتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرے لئے میرا ملک ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہمارا آئین ہی اہم ہوتا ہے جس نے ہمیں جمہوریت سے نوازا ہے اور جس نے ہمارے 125 کروڑ اہالیان وطن کی فلاح اور روشن مستقبل کی ذمہ داری دی ہے۔ میں اسی میں کھو جاتا ہوں۔


آپ ہمیشہ دہلی میں خود کو باہری شخص کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں؟ کیا یہ بات اب بھی سچ ہے؟ چار برسوں کے بعد آپ نے دہلی کو تبدیل کر دیا ہے یا دہلی نے آپ کو؟

یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ میں ایک انتہائی غریب پس منظر سے آیا ہوں اور میرا عقیدہ رہا ہے کہ مادرِ وطن کے آشیرواد اور دعاؤں سے میں یہ کامیابیاں حاصل کر سکا ہوں۔ میں ہمیشہ اپنی مادرِ وطن اور اپنی قدروں کے لئے ٹھوس دھرتی پر کھڑا رہنا چاہتا ہوں۔ مجھے استحکام میری جڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔ میں ایک معمولی ’کامدار‘ ہوں، میں چاندی کا چمچہ منھ میں لے کر پیدا ہونے والا ’نامدار‘ نہیں ہوں۔ میرا رابطہ میرے خاندان اور میری جڑوں اور قدروں سے ایسا ہے جسے نہ تو کوئی باہری تبدیل کر سکتا ہے اور نہ اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔


پچھلے چار برسوں کے دوران آپ کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی ہے اور کس بات نے آپ کو مایوس کیا ہے؟

میں کامیابی کو اپنی کامیابی نہیں مانتا۔ سوا سو کروڑ اہالیان وطن نے مجھے اس عہدے سے ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع دیا۔ یہ میرے سوا سو کروڑ اہالیان وطن ہی ہیں جنہوں نے میری کوششوں اور میرے تصورات کو پرواز کے لئے پر عطا کیے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بے انتہا مسرت  اور تشفی کا احساس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ آج عالمی منظرنامے میں ہندوستانیوں کو ان کا مقام دیا جا رہا ہے۔ یہی وہ کامیابی ہے جو سب کامیابیوں پر حاوی ہے۔

Source : Hindustan Times

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.