سی بی آئی اور آر بی آئی جیسے اداروں پر اپوزیشن کے تبصرے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’کانگریس کو اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ دس طویل برسوں تک وزیر اعظم کے دفتر کو کمزور بنایا گیا اور ایک این اے سی کی تشکیل کی گئی۔ یہ دراصل اداروں کی بے حرمتی کرنا ہے۔ پی ایم او کو بااختیار بنائے جانے کا یہ کون سا عمل تھا؟ مرکزی کابینہ ایک بڑا فیصلہ لیتی ہے اور ایک بڑا لیڈر ایک کانفرنس میں اس فیصلے کی دستاویز کو پھاڑ دیتا ہے، ایک ادارے کے لئے یہ کس طرح کا احترام ہے؟
پلاننگ کمیشن کے بارے یں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ کس طرح پلاننگ کمیشن کے لوگوں کو جوکروں کی ٹولی کا نام دیا گیا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت پلاننگ کمیشن کا نائب چیئرمین کون تھا؟ وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر جناب راجیو گاندھی کے اس وقت کے بیان کا حوالہ دیا جب ڈاکٹر منموہن سنگھ پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین تھے۔
سی بی آئی کے نمبر ایک اور نمبر دو افسران کے درمیان رساکشی اور اختلاف کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جب سی بی آئی کے داخلی معاملات سامنے آئے تو ان سے کہا گیا کہ وہ قانونی طور سے چھٹی لے کر جائیں، ہمارے لئے یہ ادارہ سب سے زیادہ اہم ہے۔
جناب ارجیت پٹیل کے استعفی کے بارے میں سوال کیے جانے پر وزیر اعظم نے کہا کہ آر بی آئی کے گورنر نے خود ہی درخواست کی تھی کہ انہیں ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفی دینے کی اجازت دی جائے۔ وہ مستعفی ہونے سے چھ سات ماہ پہلے سے ہی یہ اصرار کر رہے تھے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ جناب ارجیت پٹیل نے آر بی آئی کے گورنر کے طور پر بہترین کام کیا۔