ماں

Published By : Admin | June 18, 2022 | 07:30 IST

ماں، یہ صرف ایک لفظ نہیں ہے۔ زندگی کا یہ وہ جذبہ ہوتا ہے، جس میں پیار، صبر، یقین، کتنا کچھ سمایا ہوتا ہے۔دنیا کا کوئی بھی کونہ ہو، کوئی بھی ملک ہو، ہر اولاد کے دل میں سب سے انمول پیار ماں کے لئے ہوتا ہے۔ماں صرف ہمارا جسم ہی نہیں گڑھتی، بلکہ ہمارا من، ہماری شخصیت، ہماری خود اعتمادی بھی گڑھتی ہے اور اپنی اولاد کے لئے ایسا کرتے ہوئے وہ خود کو کھپا دیتی ہے، خود کو فراموش کردیتی ہے۔
آج میں اپنی خوشی، اپنی خوش بختی، آپ سب سے ساجھا کرنا چاہتاہوں۔میری ماں، ہیرا باآج 18جون کو اپنے 100ویں سال میں داخل ہورہی ہیں۔یعنی ان کی پیدائش کا صدی سال شروع ہورہا ہے۔پتا جی آج ہوتے،تو پچھلے ہفتے وہ بھی 100 سال کے ہو گئے ہوتے۔ یعنی 2022 ایک ایسا سال ہے، جب میری ماں کی پیدائش کا صدی سال شروع ہورہا ہے اور اسی سال میرے پتاجی کی پیدائش کا صدی سال مکمل ہوا ہے۔

پچھلے ہی ہفتے میرے بھتیجے نے گاندھی نگر سے ماں کے ویڈیو بھیجے ہیں۔ گھر پر سوسائٹی کے کچھ نوجوان لڑکے آئے ہیں، پتاجی کی تصویر کرسی پر رکھی ہے، بھجن کیرتن چل رہا ہےاور ماں مگن ہوکر بھجن گارہی ہیں، منجیرا بجا رہی ہیں۔ ماں آج بھی ویسی ہی ہیں۔ جسم کی توانائی بھلے ہی کم ہوگئی ہے، لیکن دل کی توانائی پہلے ہی جیسی ہے۔

ویسے ہمارے یہاں یوم پیدائش منانے کی کوئی روایت نہیں رہی ہے، لیکن خاندان میں جو نئی نسل کے بچے ہیں، انہوں نے پتاجی کی پیدائش کے صدی سال میں اس بار 100پیڑ لگائے ہیں۔

آج میری زندگی میں جو کچھ بھی اچھا ہے، میری شخصیت میں جو کچھ بھی اچھا ہے، وہ ماں اور پتاجی کی ہی دین ہے۔آج میں جب یہاں دہلی میں بیٹھا ہوں، تو کتنا کچھ پرانا یاد آرہا ہے۔
میری ماں جتنی عام ہیں، اتنی ہی غیر معمولی بھی۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے ہر ماں ہوتی ہے۔ آج جب میں اپنی ماں کے بارے میں لکھ رہاں ہوں تو پڑھتے ہوئے آپ کو بھی یہ لگ سکتا ہے کہ ارے، میری ماں بھی تو ایسی ہی ہیں، میری ماں بھی تو ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ یہ پڑھتے ہوئے آپ کے من میں اپنی ماں کا عکس ابھرے گا۔
ماں کی تپسیا، اس کی اولاد کو صحیح انسان بناتی ہے۔ماں کی ممتا، اس کی اولاد کو انسانی احساسات سے بھرتی ہے۔ ماں ایک فرد نہیں ہے، ایک شخصیت نہیں ہے، ماں ایک شکل ہے۔ ہمارے یہاں کہتے ہیں،جیسا بھکت ویسا بھگوان۔ ویسے ہی اپنے من کے جذبے کے مطابق ہم ماں کی شکل کو محسوس کرسکتے ہیں۔
میری ماں کا جنم، مہسانا ضلع کے وِس نگر میں ہوا تھا۔وڈنگر سے یہ بہت دور نہیں ہے۔ میری ماں کو اپنی ماں ، یعنی میری نانی کا پیار نصیب نہیں ہواتھا۔ ایک صدی پہلے آئی عالمی وباء کا اثر تب بہت سالوں تک رہا تھا، اسی وباء نے میری نانی کو بھی میری ماں سے چھین لیا تھا۔ماں تب کچھ ہی دنوں کی رہی ہوں گی۔انہیں میری نانی کا چہرہ، ان کی گود کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ آپ سوچئے میری ماں کا بچپن ماں کے بغیر ہی گزرا۔ وہ اپنی ماں سے ضد نہیں کرپائیں، ان کے آنچل میں سر نہیں چھپا سکیں۔ ماں کو حرف کا علم بھی نصیب نہیں ہوا، انہوں نے اسکول کا دروازہ بھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے دیکھی تو صرف غربت اورگھر میں ہر طرف محرومی۔
ہم آج کے وقت میں ان حالات کو جوڑ کر دیکھیں، تو تصور کرسکتے ہیں کہ میری ماں کا بچپن کتنی مشکلات سے بھرا تھا۔شاید ایشور نے ان کی زندگی کو اسی طرح سے گڑھنے کی سوچی تھی۔آج ان حالات کے بارے میں ماں سوچتی ہیں، تو کہتی ہیں کہ یہ ایشور کی ہی مرضی رہی ہوگی۔ لیکن اپنی ماں کو کھونے کا۔ ان کا چہرہ تک نہ
دیکھ پانے کا درد انہیں آج بھی ہے۔

بچپن کی جدوجہد نے میری ماں کو عمر سے بہت پہلے بڑا کردیا تھا۔وہ اپنے خاندان میں سب سے بڑی تھیں اور جب شادی ہوئی تو بھی سب سے بڑی بہو بنیں۔ بچپن میں جس طرح وہ اپنے گھر میں سب کی فکر کرتی تھیں، سب کا خیال رکھتی تھیں، سارے کام کاج کی ذمہ داری اٹھاتی تھیں،ویسے ہی ذمہ داریاں انہیں سسرال میں اٹھانی پڑیں۔ان ذمہ داریوں کے درمیان،ان پریشانیوں کے درمیان ماں ہمیشہ پرسکون دل سے، ہر حالت میں خاندان کو سنبھالے رہیں۔
وڈنگر کے جس گھر میں ہم لوگ رہا کرتے تھے، وہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس گھر میں کوئی کھڑکی نہیں تھی،کوئی باتھ روم نہیں تھا، کوئی بیت الخلاء نہیں تھا۔ کل ملاکر مٹی کی دیواروں اور کھپریل کی چھت سے بنا وہ ایک ڈیڑھ کمرے کا ڈھانچہ ہی ہمارا گھر تھا، اسی میں ماں-پتاجی، ہم سب بھائی بہن رہا کرتے تھے۔
اس چھوٹے سے گھر میں ماں کو کھانا بنانے میں کچھ سہولت رہے اس لئے پتا جی نے گھر میں بانس کی پھٹی اور لکڑکی کے پٹروں کی مدد سے ایک مچان جیسا بنوا دیا تھا۔ وہی مچان ہمارے گھر کی رسوئی تھی۔ ماں اسی پر چڑھ کر کھاناپکایاکرتی تھیں اور ہم اسی پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔عام طور سے جہاں محرومی رہتی ہے، وہاں تناؤ بھی رہتا ہے۔میرے ماتا –پتا کی خصوصیت رہی کہ محرومی کے درمیان بھی انہوں نے گھر میں کبھی تناؤ کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ دونوں نے ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں ساجھا کی ہوئی تھیں۔
کوئی بھی موسم ہو،گرمی ہو، بارش ہو، پتا جی چار بجے صبح گھر سے نکل جایا کرتے تھے۔آس پاس کے لوگ پتاجی کے قدموں کی آواز سے جان جاتے تھے کہ 4بج گئے ہیں، دامودر کاکا جارہے ہیں۔ گھر سے نکل کا مندر جانا ، پربھو درشن کرنا اور پھر چائے کی دکان پر پہنچ جاناان کا روز کا کام رہتا تھا۔

ماں بھی وقت کی اتنی ہی پابند تھیں۔ انہیں بھی صبح 4بجے اٹھنے کی عادت تھی۔ صبح صبح ہی بہت سارے کام نمٹا لیا کرتی تھیں۔ گیہوں پیسنا ہو، باجرہ پیسنا ہو، چاول یا دل بیننا ہو، سارے کام وہ خود کرتی تھیں۔ کام کرتے ہوئے ماں اپنے کچھ پسندیدہ بھجن یا پربھاتیاں گنگناتی رہتی تھیں۔ نرسی مہتا جی ایک مشہور بھجن ہے ’’جل کمل چھانڈی جانے بالا، سوامی امارو جاگشے‘‘ یہ انہیں بہت پسندہے۔ایک لوری بھی ہے، ’’شواجی نو ہالرڈو‘‘ماں یہ بھی بہت گنگناتی تھیں۔
ماں کبھی توقع نہیں کرتی تھیں کہ ہم بھائی بہن اپنی پڑھائی چھوڑ کر ان کی مدد کریں۔ وہ کبھی مدد کے لئے، ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے نہیں کہتی تھیں۔ ماں کو لگاتار کام کرتے دیکھ کر ہم بھائی بہنوں کو خود ہی لگتا تھا کہ کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔مجھے تالاب میں نہانے کا، تالاب میں تیرنے کا بڑا شوق تھا اس لئے میں بھی گھر کے کپڑے لے کر انہیں تالات میں دھونے کے لئے نکل جاتا تھا۔ کپڑے بھی دھل جاتے تھے اور میرا کھیل بھی ہوجاتاتھا۔
گھرچلانے کے لئے دوچار پیسے زیادہ مل جائیں، اس کے لئے ماں دوسروں کے گھر کے برتن بھی مانجھا کرتی تھیں۔ وقت نکال کر چرکھا بھی چلایا کرتی تھیں۔ کیونکہ اس سے بھی کچھ پیسے جمع ہوجاتے تھے۔کپاس کے چھلکے سے روئی نکالنے کا کام، روئی سے دھاگے بنانے کا کام، یہ سب کچھ ماں خود ہی کرتی تھیں۔انہیں ڈر رہتا تھا کہ کپاس کے چھلکوں کے کانٹے ہمیں چبھ نہ جائیں۔
اپنے کام کے لئے کسی دوسرے پر منحصر رہنا، اپنا کام کسی دوسرے سے کروانا، انہیں کبھی پسند نہیں آیا۔مجھے یاد ہے، وڈنگر والے مٹی کے گھر میں بارش کے موسم سے کتنی دقتیں ہوتی تھیں۔لیکن ماں کی کوشش رہتی تھی کہ پریشانی کم سے کم ہو۔اس لیے جون کے مہینے میں کڑی دھوپ میں ماں گھر کی چھت کی کھپریل کو ٹھیک کرنے کے لئے اوپر چڑھ جایا کرتی تھیں۔ وہ اپنی طرف سے تو کوشش کرتی ہی تھیں، لیکن ہمارا گھر اتنا پرانا ہوگیا تھا کہ اس کی چھت تیز بارش سہہ نہیں پاتی تھی۔

بارش میں ہمارے گھر میں کبھی پانی یہاں سے ٹپکتا تھا، کبھی وہاں سے۔ پورے گھر میں پانی نہ بھر جائے، گھر کی دیواروں کو نقصان نہ پہنچے اس لئے ماں زمین پر برتن رکھ دیا کرتی تھیں۔چھت سے ٹپکتا ہوا پانی اس میں جمع ہوتا رہتا تھا۔ ان پلوں میں بھی میں نے ماں کو پریشان نہیں دیکھا۔ خود کوستے نہیں دیکھا۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گےکہ بعد میں اسی پانی کو ماں گھر کے کام کے لئے اگلے دو تین دن تک استعمال کرتی تھیں۔ آبی تحفظ کی اس سے اچھی مثال کیا ہوسکتی ہے۔

ماں کو گھر سجانے کا ، گھرکو خوبصورت بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ گھر خوبصورت دکھے، صاف دکھے، اس کے لئے وہ دن بھر لگی رہتی تھیں۔ وہ گھر کے اندر کی زمین کو گوبر سے لیپتی تھیں۔ آپ لوگوں کو پتہ ہوگا کہ جب اُپلے یا گوبر کے کنڈے میں آگ لگاؤ تو کئی بار شروع بہت دھواں ہوتا ہے۔ ماں تو بغیر کھڑکی والے اس گھر میں اُپلے پر ہی کھانا پکاتی تھیں۔ دھواں نکل نہیں پاتا تھا اس لئے گھر کے اندر کی دیواریں بہت جلدی کالی ہوجایا کرتی تھیں۔ہر کچھ ہفتوں میں ان دیواروں کی بھی پتائی کردیا کرتی تھیں۔ اس سے گھر میں ایک نیا پن سا آجاتا تھا۔ماں مٹی کی بہت خوبصورت کٹوریاں بناکر بھی انہیں سجایا کرتی تھیں۔ پرانی چیزوں کو ری سائیکل کرنے کی ہم ہندوستانیوں میں جو عادت ہے، ماں اس کی بھی چمپئن رہیں ہیں۔

ان کا اور بڑا ہی نرالا اور انوکھا طریقہ مجھے یاد ہے۔ وہ اکثر پرانے کاغذوں کو بھگوکر اس کے ساتھ املی کے بیج پیس کر ایک پیسٹ جیسا بنا لیتی تھیں۔ بالکل گوند کی طرح۔ پھر اس پیسٹ کی مدد سے وہ دیواروں پر شیشے کے ٹکڑے چپکاکر بہت خوبصورت تصویر بنایا کرتی تھیں۔ بازار سے کچھ کچھ سامان لے کر وہ گھر کے دوروازے کو بھی سجایا کرتی تھیں۔

ماں اس بات کو لے کر ہمیشہ بہت اصول سے چلتی تھیں کہ بستر بالکل صاف ستھرا ہوں، بہت اچھے سے بچھا ہوا ہو۔ دھول کا ایک بھی ذرہ انہیں چادر پر برداشت نہیں تھا۔تھوڑی سی سلوٹ دیکھتے ہی وہ پوری چادر پھر سے جھاڑ کر قرینے سے بچھاتی تھیں۔ہم لوگ بھی ماں کی اس عادت کا بہت دھیان رکھتے تھے۔ آج اتنے سالوں بعد بھی ماں جس گھر میں رہتی ہیں، وہاں اس بات پر بہت زور دیتی ہیں کہ ان کا بستر ذرا بھی سکوڑا ہوا نہ ہو۔
ہر کام میں پرفیکشن کا ان کا جذبہ اس عمر میں بھی ویسے کا ویسا ہی ہے اورگاندھی نگر میں اب تو بھیا خاندان ہے، میرے بھتیجے کا خاندان ہے، وہ کوشش کرتی ہیں کہ آج بھی اپنا سارا کام خود ہی کریں۔

صاف صفائی کو لے کر بھی وہ کتنی محتاط رہتی ہیں، یہ تو میں آج بھی دیکھتا ہوں۔ دہلی سے میں جب بھی گاندھی نگر جاتا ہوں، ان سے ملنے پہنچتا ہوں، تو مجھے اپنے ہاتھ سے مٹھائی ضرور کھلاتی ہیں اور جیسے ایک ماں کسی چھوٹے بچے کو کچھ کھلاکر اس کا منہ پونچھتی ہے، ویسے ہی میری ماں آج بھی مجھے کچھ کھلانے کے بعد کسی رومال سے میرا منہ ضرور پونچھتی ہیں۔وہ اپنی ساڑی میں ہمیشہ ایک رومال یا چھوٹا تولیہ کھونس کررکھتی ہیں۔

ماں کی صاف صفائی سے محبت کے تو اتنے قصے ہیں کہ لکھنے میں بہت صرف ہوگا۔ ماں میں ایک اور خاص بات رہی ہے، جو صاف صفائی کے کام کرتا ہے، اسے بھی ماں بہت عزت دیتی ہیں۔ وڈنگر میں ہمارے گھر کے پاس جو نالی تھی، جب اس کی صفائی کے لئے کوئی آتا تھا، تو ماں چائے پلائے بغیر اسے جانے نہیں دیتی تھیں۔

بعد میں صفائی والے بھی سمجھ گئے تھے کہ کام کے بعد اگر چائے پینی ہے، تو وہ ہمارے گھر میں میں مل سکتی ہے۔
میری ماں کی ایک اور اچھی عادت رہی ہے، جو مجھے ہمیشہ یاد رہی۔ جانوروں پر رحم کرنا ان کے رویے میں جھلکتا رہا ہے۔ گرمی کے دنوں میں پرندوں کے لئے وہ مٹی کے برتنوں میں دانہ اور پانی ضرور رکھا کرتی تھیں، جو ہمارے گھر کے آس پاس اسٹریٹ ڈاگس رہتے تھے، وہ بھوکے نہ رہیں، ماں اس کا بھی خیال رکھتی تھیں۔


پتاجی اپنی چائے کی دکان سے جو ملائی لاتے تھے، ماں اس سے بڑا اچھا گھی بناتی تھیں اور گھی پر صرف ہم لوگوں کا ہی حق ہو، ایسا نہیں تھا۔ گھر پر ہمارے محلوں کی گایوں کا بھی حق تھا۔ماں ہر روز، مستقل گو ماتا کو روٹی کھلاتی تھی، لیکن خشک روٹی نہیں، ہمیشہ اس پر گھی لگاکر ہی دیتی تھیں۔
کھانے کو لے کر ماں کا ہمیشہ سے یہ بھی زور رہا ہے کہ اناج کا ایک بھی دانہ برباد نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے قصبے میں جب کسی کے شادی بیاہ میں اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا تھاتو وہاں جانے سے پہلے ماں سب کو یہ بات ضرور یاد دلاتی تھیں کہ کھانا کھاتے وقت اناج مت برباد کرنا۔گھر میں بھی انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا تھا کہ اتنا ہی کھانا پلیٹ میں لو جتنی بھوک ہو۔

ماں آج بھی جتنا کھانا ہو، اتنا ہی کھانا اپنی تھالی میں لیتی ہیں۔ آج بھی اپنی تھالی میں وہ اناج کا ایک دانہ نہیں چھوڑتیں۔ اصول سے کھانا، طے وقت پر کھانا، بہت چبا چبا کے کھانا اس عمر میں بھی ان کی عادت میں شامل ہیں۔


ماں ہمیشہ دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش رہا کرتی ہیں۔گھر میں جگہ بھلے کم ہو، لیکن ان کا دل بہت بڑا ہے۔ ہمارے گھر سے تھوڑی دور پر ایک گاؤں تھا، جس میں میرے پتا جی کے بہت قریبی دوست رہا کرتے تھے۔ ان کا بیٹا تھا عباس۔ دوست کی ناوقت موت کے بعد پتاجی عباس کو ہمارے گھر ہی لے آئے تھے۔ اس طرح سے عباس ہمارے گھر میں ہی رہ کر پڑھائی کی۔ہم سب بچوں کی طرح عباس کی بہت دیکھ بھال کرتی تھیں۔ عید پر ماں، عباس کے لئے اس کی پسند کے پکوان بناتی تھیں۔ تہواروں کے وقت آس پاس کے کچھ ہمارے یہاں ہی آکر کھانا کھاتے تھے۔ انہیں بھی میری ماں کے ہاتھ کا بنایا کھانا بہت پسند تھا۔
ہمارے گھر کے آس پاس جب بھی کوئی سادھو سنت آتے تھے تو ماں انہیں گھر بلاکر کھانا ضرور کھلاتی تھیں۔ جب وہ جانے لگتے، تو ماں اپنے لیے نہیں، بلکہ ہم بھائیوں بہنوں کے لئے آشیرواد مانگتی تھی۔ان سے کہتی تھیں کہ ’’میری بچوں کو آشیرواد دیجئے کہ وہ دوسروں کے سکھ میں سکھ دیکھیں اور دوسروں کے دکھ میں دکھی ہوں۔میرے بچوں میں بھکتی اور خدمت کا جذبہ پیدا ہو انہیں ایسا آشیرواد دیجئے۔‘‘


میری ماں کا مجھ پر اٹوٹ بھروسہ رہا ہے۔انہیں اپنے دیئے سنسکاروں پر پورا بھروسہ رہا ہے۔ مجھے دہائیوں پرانا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ تب تک میں تنظیم میں رہتے ہوئے جن سیوا کے کام میں جٹ چکا تھا۔ گھروالوں سے ربط نہ کہ برابر ہی رہ گیا تھا۔ اسی دور میں ایک بار میرے بڑے بھائی ماں کو بدری ناتھ جی، کیدار ناتھ جی کے درشن کرانے کے لئے لے گئے تھے۔بدری ناتھ میں ماں نے جب درشن کئے تو کیدار ناتھ میں بھی لوگوں کو خبر لگ گئی کہ میری آرہی ہیں۔
اسی وقت اچانک موسم بھی بہت خراب ہوگیا تھا۔ یہ دیکھ کچھ لوگ کیدار گھاٹی سے نیچے کی طرف چل پڑے۔ وہ اپنے ساتھ میں کمبل بھی لے گئے۔ وہ راستے میں برزگ خواتین سے پوچھتے جارہے تھے کہ کیا آپ نریندر مودی کی ماں ہیں؟ ایسے ہی پوچھتے ہوئے وہ لوگ ماں تک پہنچے۔ انہوں نے ماں کو کمبل دیا، چائے پلائی ، پھر تو وہ لوگ پوری یاترا بھر ماں کے ساتھ ہی رہے۔ کیدار ناتھ پہنچنے پر ان لوگوں نے ماں کے رہنے کے لئے اچھا انتظام کیا۔ اس واقعے کا ماں کے دل پر بڑا اثرا پڑا۔ تیرتھ یاترا سے لوٹ کر جب ماں مجھ سے ملیں تو کہا کہ ’’کچھ تو اچھا کام کررہے ہو، لوگ تمہیں پہچانتے ہیں۔‘‘
اب اس واقعے کے اتنے برسوں بعد جب آج لوگ ماں کے پاس جاکر پوچھتے ہیں کہ آپ کا بیٹا پی ایم ہے، آپ کو فخر ہوتا ہوگا،تو ماں کا جواب بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ماں انہیں کہتی ہیں کہ جتنا آپ کو فخر ہوتا ہے، اتنا ہی مجھے بھی ہوتا ہے۔ ویسے بھی میرا کچھ نہیں ہے۔ میں تو محض ذریعہ ہوں، وہ تو بھگوان کا ہے۔
آپ نے بھی دیکھا ہوگا، میری ماں کبھی سرکاری یا عوامی پروگرام میں میرے ساتھ نہیں جاتی ہیں۔ اب تک دو بار ہی ایسا ہوا ہے، جب وہ کسی عوامی پروگرام میں میرے ساتھ آئی ہیں۔
ایک بار جب میں ایکتا یاترا کے بعد سری نگر کے لال چوک پر ترنگا لہرا کرلوٹا تھا، تو احمد آباد میں ہوئے شہری اعزاز کے پروگرام میں ماں نے ڈائس پر آکر میرا ٹیکہ کیا تھا۔
ماں کے لئے وہ بہت جذباتی پل اس لئے بھی تھا کیونکہ ایکتا یاترا کے دوران بھگواڑا میں ایک حملہ ہواتھا، اس میں کچھ لوگ مارے بھی گئے تھے۔اس وقت ماں مجھے لے کر بہت فکر مند تھیں۔ تب میرے پاس دو لوگوں کا فون آیا تھا۔ ایک اکشر دھام مندر کے قابل احترام سربراہ سوامی جی کا اور دوسرا فون میری ماں کا تھا۔ماں کو میرا حال جان کر کچھ تسلی ہوئی تھی۔

دوسری بار وہ عوامی طورپر میرے ساتھ تب آئیں تھی، جب میں نے پہلی بار وزیر اعلیٰ کے طورپر عہد لیا تھا۔20 سال پہلے کی یہ عہدے کی حلف لینے کی تقریب ہی آخری تقریب ہے ، جب ماں عوامی طورپر میرے ساتھ کہیں موجود رہی ہیں۔ اس کے بعد وہ کبھی کسی پروگرام میں میرے ساتھ نہیں آئیں۔
مجھے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے، جب میں سی ایم بنا تھا تو میرے من میں یہ خواہش تھی کہ اپنے تمام اساتذہ کا عوامی طورپر استقبال کروں۔ میرے من میں یہ بھی تھاکہ ماں تو میری سب سے بڑی استاد رہی ہیں، ان کی بھی اعزاز ہونا چاہئے۔ ہمارے شاستروں میں بھی کہا گیا ہے کہ ماں سے بڑا کوئی گرو نہیں ہے-’’ناستی ماتر سمو گرو‘۔ اس لئے میں نے ماں سے بھی کہا تھاکہ آپ بھی ڈائس پر آیئے گا۔لیک انہوں نے کہا کہ ’’دیکھ بھائی، میں تو ذریعہ محض ہوں، تمہارا میری کوکھ سے جنم لینا لکھا ہوا تھا۔تمہیں میں نے نہیں بھگوان نے گڑھا ہے۔‘‘یہ کہہ کر ماں اس پروگرام میں نہیں آئی تھیں۔ میرے تمام اساتذہ آئے تھے، لیکن ماں اس پروگرام سے دور ہی رہیں۔
لیکن مجھے یاد ہے،انہوں نے اس تقریب سے پہلے مجھ سے یہ ضرور پوچھا تھا کہ ہمارے قصبے میں جو استاد جیٹھا بھائی جوشی جی تھے،کیا ان کے خاندان سے کوئی اس پروگرام میں آئے گا؟بچپن میں میری ابتدائی پڑھائی لکھائی، مجھے حروف کا علم گرو جی جیٹھا بھائی جوشی جی نے دیا تھا۔ ماں کو اس کا دھیان تھا۔یہ بھی پتہ تھا کہ جوشی جی اب ہمارے بیچ نہیں ہیں۔وہ خود نہیں آئیں، لیکن جیٹھا بھائی جوشی کے خاندان کو ضرور بلانے کو کہا۔

حروف کے علم کے بغیر بھی کوئی واقعی میں تعلیم یافتہ کیسے ہوتا ہے، یہ میں نے ہمیشہ اپنی ماں دیکھا۔ ان کے سوچنے کا نظریہ، ان کی دور اندیشی، مجھے کئی بار حیران کردیتی ہے۔
اپنے شہری فرائض کے تئیں ماں ہمیشہ سے بہت حساس رہی ہیں۔ جب سے چناؤہونے شروع ہوئے پنچایت سے پارلیمنٹ کے الیکشن میں انہوں نے ووٹ دینے کا فرض ادا کیا۔کچھ وقت پہلے ہوئے گاندھی نگر میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں ماں ووٹ ڈالنے گئی تھیں۔
کئی بات مجھے وہ کہتی ہیں کہ دیکھو بھائی، پبلک کا آشیرواد تمہارے ساتھ ہے، ایشور کا آشیرواد تمہارے ساتھ ہے، تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ وہ بولتی ہیں کہ اپنا جسم ہمیشہ اچھا رکھنا، خود کو صحت مند رکھنا کیونکہ جسم اچھا رہے گا تبھی تم اچھا کام بھی کرپاؤگے۔
ایک وقت تھا جب ماں بہت پابندی سے چترماس کیا کرتی تھیں۔ ماں کو پتا ہے کہ نوراترکے وقت میرے اصول کیا ہیں۔ پہلے تو نہیں کہتی تھیں، لیکن ادھردرمیان وہ کہنے لگی ہیں کہ اتنے سال تو کر لیا اب نوراتر کے وقت جو مشکل ورت-تپسیا کرتے ہو، اسے تھوڑا آسان کرلو۔
میں نے اپنی زندگی میں آج تک ماں سے کبھی کسی سے کوئی شکایت نہیں سنی۔ نہ ہی وہ کسی کی شکایت کرتی ہیں اور نہ ہی کسی سے کچھ توقع رکھتی ہیں۔

ماں کے نام آج بھی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ میں نے ان کے جسم پر کبھی سونا نہیں دیکھا۔ انہیں سونے-گہنے کا کوئی موہ نہیں ہے۔ وہ پہلے بھی سادگی سے رہتی تھیں اور آج بھی ویسے ہی اپنے چھوٹے سے کمرے میں پوری سادگی سے رہتی ہیں۔
ایشور پر ماں کا زبردست اعتقاد ہے، لیکن وہ بد اعتقادی سے کوسوں دور رہتی ہیں۔ہمارے گھر کو انہوں ہمیشہ بد اعتقادی سے بچا کر رکھا۔ وہ شروع سے کبیر پنتھی رہی ہیں اور آج بھی اسی روایت سے اپنا پوجا –پاٹھ کرتی ہیں۔ہاں! مالا جپنے کی عادت سے پڑ گئی ہے انہیں۔ دن بھر بھجن اور مالا جپنا اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ نیند بھی بھول جاتی ہیں۔گھر کے لوگوں کو مالا چھپانی پڑتی ہے، تب جاکر وہ سوتی ہیں، انہیں نیند آتی ہے۔


اتنے برس کی ہونے کے باوجود، ماں کی یادداشت اب بھی بہت اچھی ہے۔ انہیں دہائیوں پہلے کی بھی باتیں اچھی طرح سے یاد ہیں۔ آج بھی کبھی کوئی رشتے دار ان سے ملنے آتا ہے اور اپنا نام بتاتا ہے ،تو وہ فوراً اس کے دادا دادی یا نانا نانی کا نام لے کر بولتی ہیں کہ اچھا تم ان کے گھر سے ہو۔
دنیا میں کیا چل رہا ہے، آج بھی ماں کی اس پر نظر رہتی ہے۔حال فی الحال میں، میں نے ماں سے پوچھا کہ آج کل ٹی وی کتنا دیکھتی ہو؟ماں نے کہا کہ ٹی وی پر تو جب دیکھو تب سب آپس میں جھگڑا کررہے ہوتے ہیں۔ ہاں! کچھ ہیں جو سکون سے سمجھاتے ہیں اور میں انہیں دیکھتی ہوں۔ماں اتنا کچھ غور کرہی رہی ہیں، یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔

ان کی تیز یادداشت سے جڑی ایک اور بات مجھے یاد آرہی ہے۔ یہ2017کی بات ہے جب میں یوپی الیکشن کے آخری دنوں میں کاشی میں تھا۔ وہاں سے میں احمد آباد گیاتو ماں کے لئے کاشی سے پرساد لے کر بھی گیا تھا۔ ماں سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کاشی وشوناتھ مہادیو کے درشن بھی کئے تھے؟ ماں پورا ہی نام لیتی ہیں- کاشی وشوناتھ مہادیو۔ پھر بات چیت میں ماں نے پوچھا کیا کاشی وشوناتھ مہادیو کے مندر تک جانے کا راستہ اب بھی ویسا ہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کسی کے گھر میں مندر بنا ہوا ہے۔ میں نے حیران ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ کب گئی تھیں؟ ماں نے بتایا کہ بہت سال پہلے گئیں تھیں۔ ماں کو اتنے سال پہلے کی گئی تیرتھ یاترا بھی اچھی طرح یاد ہے۔

ماں میں جتنی زیادہ حساسیت ہے، خدمت کا جذبہ ہے، اتنی ہی زیادہ ان کی نظر بھی پارکھ رہی ہے۔ ماں چھوٹے بچوں کے علاج کے کئی دیسی طریقے جانتی ہیں۔ وڈنگروالے گھر میں تو اکثر ہمارے یہاں صبح سے ہی قطار لگ جاتی تھی۔ لوگ اپنے 8-6ماہ کے بچوں کو دکھانے کے لئے ماں کے پاس لاتے تھے۔
علاج کرنے کے لئے ماں کو کئی بار بہت باریک پاؤڈر کی ضرورت ہوتی تھی۔یہ پاؤڈر جٹانے کا انتظام گھر کے ہم بچوں کا تھا۔ ماں ہمیں چولہے سے نکلی راکھ، ایک کٹوری اور ایک مہین سا کپڑا دے دیتی تھیں۔ پھر ہم لوگ اس کٹوری کے منہ پر وہ کپڑا کس کے باندھ کر 6-5چٹکی راکھ اس پر رکھ دیتے تھے۔پھر دھیرے دھیرے ہم کپڑے پر رکھی اس راکھ کو رگڑتے تھے۔ ایسا کرنے پر راکھ کے جو سب سے مہین ذریعے ہوتے تھے، وہ کٹوری میں نیچے جمع ہوجاتے تھے۔ ماں ہم لوگوں سے ہمیشہ کہتی تھیں کہ’’اپنا کام اچھے سے کرنا۔ راکھ کے موٹے دانوں کی وجہ سے بچوں کو کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔‘‘


ایسے ہی مجھے ایک بات ایک اور بات یاد آرہی ہے، جس میں ماں کی ممتا بھی تھی اور سوجھ بوجھ بھی۔ دراصل ایک بار پتا جی کو ایک مذہبی پروگرام کروانا تھا۔ اس کے لئے ہم سب کو نرمدا جی کے کنارے کسی مقام پر جانا تھا۔ زبردست گرمی کے دن تھے، اس لیے وہاں جانے کے لئے ہم لوگ صبح صبح ہی گھر سے نکل لئے تھے۔تقریباً تین-ساڑھے تین گھنٹے کا سفر رہا ہوگا ، ہم جہاں بس سے اترے وہاں سے آگے کا راستہ پیدل ہی جانا تھا،لیکن گرمی اتنی زیادہ تھی کہ زمین سے جیسے آگ نکل رہی ہو۔ اس لئے ہم لوگ نرمدا جی کے کنارے پر پانی میں پیر رکھ کر چلنے لگے تھے۔ندی میں اس طرح چلنا آسان نہیں ہوتا۔کچھ ہی دیر میں بچے بری طرح تھک گئے۔زور کی بھوک بھی لگی تھی، ماں ہم سب کی حالت دیکھ رہی تھیں، سمجھ رہی تھیں۔ ماں نے پتا جی کو کہا کہ تھوڑی دیر کے لئے درمیان میں یہیں ٹھہر جاتے ہیں۔ماں نے پتا جی کو فوراً کہیں آس پاس سے گڑ خرید کر لانے کو کہا۔ پتا جی دورے ہوئے گئےاور گڑ خرید کر لائے۔ میں تب بچہ تھا، لیکن گڑ کھانے کے بعد پانی پیتے ہی جیسے جسم میں نئی توانائی آگئی۔ ہم سارے لوگ پھر چل پڑیں۔اس گرمی میں پوجا کے لئے اس طرح نکلنا، ماں کی وہ سمجھداری ، پتا جی کا فوراً گڑ خرید کر لانا،مجھے آج بھی ایک ایک پل اچھی طرح یاد ہے۔

دوسروں کی خواہش کا احترام کرنے کا جذبہ، دوسروں پر اپنی خواہش نہیں تھوپنے کا جذبہ، میں نے ماں بچپن سے ہی دیکھا ہے۔ خاص طورپر مجھے لے کر وہ بہت دھیان رکھتی تھیں کہ وہ میرے اور میرے فیصلوں کے درمیان کبھی دیوار نہ بنیں۔ انہوں نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ بچپن سے ہی میرے من میں ایک الگ ہی طرح کا رویہ پنپتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ میں اپنے تمام بھائی بہوں سے الگ سا رہتا تھا۔

میرے روزانہ کے معمول کی وجہ سے، میرے طرح طرح کے تجربوں کی وجہ سے، کئی بار ماں کو میرے لئے الگ سے انتظامات بھی کرنے پڑتے تھے،لیکن ان کے چہرے پر کبھی شکن نہیں آئی، ماں نے کبھی اسے بوجھ نہیں مانا۔ جیسے میں مہینوں-مہینوں کے لئے کھانے میں نمک چھوڑ دیتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ میں ہفتوں –ہفتوں اناج ترک کردیتا تھا، صرف دودھ ہی پیا کرتا تھا۔ کبھی طے کرلیتا تھا کہ اب 6ماہ تک میٹھا نہیں کھاؤں گا۔ سردی کے دنوں میں کھلے میں سوتا تھا، نہانے کے لئے مٹکے کے ٹھنڈے سے پانی سے نہایا کرتا تھا۔ میں اپنا امتحان خود ہی سے لے رہا تھا۔ ماں میرے احساسات کو سمجھ رہی تھیں۔ وہ کوئی ضد نہیں کرتی تھیں۔ وہ کوئی یہی کہتی تھیں-ٹھیک ہے بھائی، جیسا تمہارامن کرے۔

ماں کو محسوس ہورہا تھا کہ میں کچھ الگ ہی سمت میں جارہا ہوں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار ہمارے گھر کے پاس گری مہادیو مندر میں ایک مہاتما جی آئے ہوئے تھے۔ وہ ہاتھ میں جوار اُگا کر تپسیا کررہے تھے۔ میں بڑے من سے ان کی خدمت میں لگا ہوا تھا۔ اسی دوران میری موسی کی شادی پڑ گئی تھی۔خاندان میں سب کو وہاں جانے کا بہت من تھا۔ ماما کے گھر جانا تھا، ماں کی بہن کی شادی تھی، اس لئے ماں بھی بہت حوصلے میں تھیں۔ سب اپنی تیاری میں مصروف تھے، لیکن میں نے ماں کے پاس جاکر کہا کہ میں موسی کی شادی میں نہیں جانا چاہتا۔ ماں نے وجہ پوچھی تو میں انہیں مہاتما جی والی بات بتائی۔


ماں کو دکھ ضرور ہوا کہ میں ان کی بہن کی شادی میں نہیں جارہا، لیکن انہوں نے میرے دل کی بات رکھ لی۔ وہ یہی بولیں کہ ٹھیک ہے، جیسا تمہارا دل کرے، ویسا ہی کرو۔ لیکن انہیں اس بات کی فکر تھی کہ میں تنہا گھر میں رہوں گا کیسے؟ مجھے تکلیف نہ ہو اس لئے وہ میرے لئے 5-4دن کا خشک کھانا گھرمیں بناکر رکھ گئی تھیں۔
میں نے جب گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، تو اسےبھی ماں کئی دن پہلے سمجھ گئی تھیں۔ میں ماں-پتا جی سے بات بات میں کہتا ہی رہتا تھا کہ میرا من کرتا ہے کہ باہر جاکر دیکھوں ، دنیا کیا ہے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ رام کرشن مشن کے مٹھ میں جانا ہے۔ سوامی وویکا نند جی کے بارے میں بھی ان سے خوب باتیں کرتا تھا۔ماں –پتاجی یہ سب سنتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک لگاتار چلا۔

ایک دن آخر کار میں نے ماں-پتا جی سے گھر چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا اوران سے آشیرواد مانگا۔ میری بات سن کر پتا جی بہت دکھی ہوئے۔وہ تھوڑا ناراج ہوکر بولے-تم جانو، تمہارا کام جانے۔لیکن میں نے کہا کہ میں ایسے بغیر آشیرواد لئے گھرچھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ماں کو میرے بارے میں سب کچھ پتہ تھا ہی۔ انہوں نے پھر میرے من کا احترام کیا ۔ وہ بولیں کہ جو تمہارا من کرے، وہی کرو۔ہاں، پتا جی کی تسلی کے لئے انہوں نے ان سے کہاکہ وہ چاہیں تو میری جنم پتری کسی کو دکھالیں۔ ہمارے ایک رشتہ دار کو جیوتش کا بھی علم تھا۔ پتا جی میری جنم پتری کے ساتھ ان سے ملے۔ جنم پتری دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ’’اس کی تو راہ ہی کچھ الگ ہے، ایشور نے جہاں طے کیا ہے، وہ وہیں جائے گا۔‘‘

اس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی میں نے گھر چھوڑ دیا تھا۔تب تک پتاجی بھی کچھ مطمئن ہوچکے تھے۔ پتا جی بھی مجھے آشیرواد دیا۔ گھر سے نکلنے سے پہلے ماں نے مجھے دہی اور گڑ بھی کھلایا۔ وہ جانتی تھیں کہ اب میری آگے کی زندگی کیا ہونے جارہی ہے۔ ماں کی ممتا کتنا ہی سخت ہونے کی کوشش کرے، جب اس کی اولاد گھر سے دور جارہی ہو، تو پگھل ہی جاتی ہے۔ ماں کی آنکھ میں آنسو تھے، لیکن میرے لئے خوب سارا آشیرواد بھی تھا۔

گھر چھوڑنے کے بعد کے برسوں میں، میں جہاں رہا، جس حال میں رہا، ماں کے آشیرواد کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ ماں مجھ سے گجراتی میں ہی بات کرتی ہیں۔ گجراتی میں تم کے لئے تُو اور آپ کے لئے تمے کہا جاتا ہے۔ میں جتنے دن گھر میں رہا، ماں مجھ سے تُو کہہ کر ہی بات کرتی تھیں، لیکن جب میں گھر چھوڑا، اپنی راہ بدلی، اس کے بعد کبھی بھی ماں نے مجھ سے تُو کہہ کر بات نہیں کی۔ وہ آج بھی مجھے آپ یا تمے کہہ کر بات کرتی ہیں۔

میری ماں نے ہمیشہ مجھے اپنے اصول پر ڈٹے رہنے ، غریب کے لئے کام کرتے رہنے کےلئے تحریک دی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب میرا وزیر اعلیٰ بننا طے ہوا تو میں گجرات میں نہیں تھا۔ ایرپورٹ سے میں سیدھے ماں سے ملنے گیا تھا۔ خوشی سے بھری ہوئی ماں کا پہلا سوال یہی تھا کہ کیا تم اب یہیں رہا کروگے؟ماں میرا جواب جانتی تھیں۔ پھر مجھ سے بولیں-’’مجھے سرکار میں تمہارا کام تو سمجھ نہیں آتا، لیکن میں بس یہی چاہتی ہوں کہ تم کبھی رشوت مت لینا۔‘‘

یہاں دہلی آنے کے بعد ماں سے ملنا جلنا اور بھی کم ہوگیا ہے۔ جب گاندھی نگر جاتا ہوں تو کبھی کبھار ماں کے گھر جانا ہوتا ہے،ماں سے ملنا ہوتاہے، بس کچھ پلوں کے لئے۔ لیکن ماں کے من میں اسے لے کر کوئی ناراضگی یا دُکھ جذبہ میں نے آج تک محسوس نہیں کیا۔ماں کا پیار میرے لئے ویسا ہی ہے، ماں کا آشیرواد ویسا ہی ہی ہے۔ ماں اکثر پوچھتی ہیں-دہلی میں اچھا لگتا ہے؟دل لگتا ہے؟

وہ مجھے بار بار یاد دلاتی ہیں کہ میری فکر مت کیا کرو، تم پر بڑی ذمہ داری ہے۔ماں سے جب بھی فون پربات ہوتی ہے تو یہی کہتی ہیں کہ ’’دیکھ بھائی، کوئی غلط کام مت کرنا، برا کام مت کرنا، غریب کے لئے کام کرنا۔‘‘
آج اگر میں اپنی ماں اور اپنے پتا کی زندگی کو دیکھوں ، تو ان کی سب سے بڑی خصوصیات رہی ہیں ایمانداری اور خودداری۔ غریبی سے جوجھتے ہوئے حالات کیسے بھی رہے ہوں، میرے ماں باپ نے نہ کبھی ایمانداری کا راستہ چھوڑا ، نہ ہی اپنی خودداری سے سمجھوتہ کیا۔ان کے پاس ہر مشکل سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ تھا-محنت، دن رات محنت۔

پتاجی جب تک زندہ رہے انہوں نے اس بات پر عمل کیا کہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ میری ماں آج بھی اسی کوشش میں رہتی ہیں کہ کسی پر بوجھ نہ بنیں، جتنا ممکن ہو سکے، اپنے کام خود کریں۔
آج بھی جب میں ماں سے ملتا ہوں، تو وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ ’’میں مرتے وقت تک کسی کی خدمت نہیں لینا چاہتی، بس ایسے ہی چلتے پھرتے چلے جانے کی خواہش ہے۔‘‘

میں اپنے ماں کے اس زندگی کے سفر میں ملک کی تمام ماتر شکتی کے تپ،قربانی اور تعاون کے درشن کرتاہوں۔ میں جب اپنی ماں اور ان کے جیسی کروڑں خواتین کی طاقت کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ایسا کوئی بھی ہدف نہیں دکھائی دیتا ، جو ہندوستان کی بہن بیٹیوں کےلئے ناممکن ہو۔
محرومی کی ہر کہانی سے بہت اوپر، ایک ماں کی بہادری کی کہانی ہوتی ہے۔

جدوجہد کے ہر پل میں بہت اوپر، ایک ماں کی اِچھا شکتی ہوتی ہے۔

ماں آپ کو جنم دن کی بہت بہت مبارکباد۔

آپ کی پیدائش کی صدی کا سال شروع ہونے جارہا ہے۔

عوامی طور سے کبھی آپ کے لئے اتنا لکھنے کا ، اتنا کہنے کا حوصلہ نہیں کرپایا۔

آپ صحت مند رہیں، ہم سب پر آپ کا آشیرواد بنا رہے، ایشور سے یہی دعا ہے۔

نمن!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
شری رتن ٹاٹا کو خراج عقیدت
November 09, 2024

It has been a month since Shri Ratan Tata Ji left us. From bustling cities and towns to villages, his absence is deeply felt across every segment of society. Seasoned industrialists, budding entrepreneurs and hardworking professionals mourn his loss. Those passionate about the environment and devoted to philanthropy are equally saddened. His absence has been deeply felt not only across the nation but also around the world.

For the youth, Shri Ratan Tata was an inspiration, a reminder that dreams are worth pursuing and that success can coexist with compassion as well as humility. For others, he represented the finest traditions of Indian enterprise and a steadfast commitment to the values of integrity, excellence and service. Under his leadership, the Tata Group ascended to new heights, embodying respect, honesty and credibility worldwide. Despite this, he wore his achievements lightly, with humility and kindness.

Shri Ratan Tata’s unwavering support for the dreams of others was one of his most defining qualities. In recent years, he became known for mentoring India’s StartUp ecosystem, investing in many promising ventures. He understood the hopes and aspirations of young entrepreneurs and recognised the potential they had to shape India’s future. By backing their efforts, he empowered a generation of dreamers to take bold risks and push boundaries. This has gone a long way in creating a culture of innovation and entrepreneurship, which I am confident will continue to positively impact India for decades to come.

He constantly championed excellence, urging Indian enterprises to set global benchmarks. This vision, I hope, will inspire our future leaders to make India synonymous with world-class quality.

His greatness was not restricted to the boardroom or helping fellow humans. His compassion extended to all living beings. His deep love for animals was well-known and he supported every possible effort focused on animal welfare. He often shared photos of his dogs, who were as much a part of his life as any business venture. His life was a reminder to us all that true leadership is measured not just by one’s achievements, but by one’s ability to care for the most vulnerable.

For crores of Indians, Shri Ratan Tata’s patriotism shone brightest in times of crisis. His swift reopening of the iconic Taj Hotel in Mumbai after the 26/11 terror attacks was a rallying call to the nation—India stands united, refusing to yield to terrorism.

On a personal note, I had the privilege of knowing him very closely over the years. We worked closely in Gujarat, where he invested extensively, including in many of the projects he was very passionate about. Just a few weeks ago, I was in Vadodara with the President of the Government of Spain, Mr. Pedro Sánchez and we jointly inaugurated an aircraft complex where C-295 aircrafts would be made in India. It was Shri Ratan Tata who started working on this. Needless to say, Shri Ratan Tata’s presence was greatly missed.

I remember Shri Ratan Tata Ji as a man of letters—he would frequently write to me on various issues, be it matters of governance, expressing appreciation for government support, or sending congratulatory wishes after electoral victories.

Our close interactions continued when I moved to the Centre and he remained a committed partner in our nation-building efforts. Shri Ratan Tata’s support for the Swachh Bharat Mission was particularly close to my heart. He was a vocal advocate of this mass movement, understanding that cleanliness, hygiene and sanitation are vital for India’s progress. I still remember his heartfelt video message for the Swachh Bharat Mission’s tenth anniversary at the start of October. It was among his final public appearances.

Another cause close to his heart was healthcare and especially the fight against cancer. I recall the programme in Assam two years ago, where we had jointly inaugurated various cancer hospitals in the state. In his remarks that time, he had categorically stated that he wishes to dedicate his final years to healthcare. His efforts to make health and cancer care accessible and affordable were rooted in a profound empathy for those battling diseases, believing that a just society was one that stood by its most vulnerable.

As we remember him today, we are reminded of the society he envisioned—where business can serve as a force for good, where every individual’s potential is valued and where progress is measured in the well-being and happiness of all. He remains alive in the lives he touched and the dreams he nurtured. Generations will be grateful to him for making India a better, kinder and more hopeful place.