نئی دہلی۔ 30 مئی میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ کووڈ – 19 سے لڑ رہا ہے ۔ یہ پچھلے 100 سال میں اب تک کی سب سے بڑی وباء ہے اور اس عالمی وباء کے دوران بھارت کو کئی قدرتی آفات سے بھی نمٹنا پڑا ہے ۔ اس دوران سمندری طوفان ‘ امفن ’ اور نسرگ آیا ، کئی ریاستوں میں سیلاب آئے اور کئی چھوٹے بڑے زلزلے بھی آئے اور مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بھی پیش آئے ۔ ابھی حال ہی میں ، پچھلے 10 دنوں میں ملک کو دو بڑے سمندری طوفانوں - مغربی ساحل پر سمندری طوفان تاوتے اور مشرقی ساحل پر سمندری طوفان یاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان دونوں طوفانوں سے کئی ریاستیں متاثر ہوئی ہیں ۔ ملک اور اس کے عوام نے کم سے کم نقصان کو یقینی بنانے کے لئے ، ان کے ساتھ پوری قوت سے لڑائی لڑی ۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے وقت کےمقابلے ، اب ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان بچانے کے قابل ہوئے ہیں ۔ اس مشکل اور غیر معمولی قدرتی آفات کے دوران ، اِن طوفانوں سے متاثر ہونے والی ریاستوں کے تمام لوگوں نے بہت جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے - - انہوں نے انتہائی تحمل اور ڈسپلن کے ساتھ ، اِس بحران کا سامنا کیا ۔ میں ، پورے خلوص کے ساتھ تمام شہریوں کی احترام کےساتھ ستائش کرتا ہوں ۔ جن لوگوں نے راحت اور بچاؤ کارروائیوں کی قیادت کی ، وہ اتنی ستائش کے حقدار ہیں ، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں ، اُن سب کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ مرکز ، ریاستی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کو ، اِس قدرتی آفات کا مل کر سامنا کرنا ہے ۔ میرے تمام جذبات ، اُن لوگوں کے ساتھ ہیں ، جنہوں نے اپنے قریبی عزیزوں کو کھویا ہے ۔ آیئے ، ہم اُن سب کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہوں ، جنہیں ، اِن آفات سےنقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔

میرے پیارے ہم وطنو ،

چیلنج کتنا ہی بڑا ہو ، بھارت کی جیت کا عزم بھی ہمیشہ اتنا ہی بڑا رہا ہے ۔ ملک کی مجموعی قوت اور خدمت کے ہمارے جذبے نے ملک کو ہر طوفان سے باہر نکالا ہے ۔ حال کے دنوں میں ، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے ہمارے ڈاکٹروں ، نرسوں اور صف اول کے جانبازوں نے خود کی فکر چھوڑ کر دن رات کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ اس سب کے بیچ کئی لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کی کورونا کی دوسری لہر سے لڑنے میں بہت بڑا رول رہا ہے ۔ مجھ سے من کی بات کے کئی سامعین نے نمو ایپ پر اور خط کے ذریعے ، ان جانبازوں کے بارے میں بات کرنے کا اصرار کیا ہے ۔

ساتھیو ،

جب دوسری لہر آئی ، اچانک آکسیجن کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ملک کے دور دراز علاقوں تک میڈیکل آکسیجن پہنچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ آکسیجن ٹینکر زیادہ تیز چلے، چھوٹی چھوٹی سی غلطی بھی ہو تو اس میں ایک بہت ہی بڑے دھماکے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ملک کے مشرقی حصوں میں صنعتی آکسیجن تیار کرنے والے بہت سے پلانٹ ہیں ، وہاں سے آکسیجن کو دوسری ریاستوں میں لے جانے میں بھی کئی دن لگتے ہیں۔ ملک کے سامنے آئے ، اِس چیلنج نے ملک کی مدد کرایوجینک ٹینکر چلانے والے ڈرائیوروں نے کی ، آکسیجن ایکسپریس نے کی ، ایئر فورس کے پائلٹس نے کی ۔ ایسے بہت سے لوگوں نے جنگی پیمانے پر کام کیا اور ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔ آج ، من کی بات میں ، ایسا ہی ایک ساتھی ہمارے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔ یو پی کے جونپور کے رہنے والے ، جناب دنیش اپادھیائے جی ،

مودی جی- دنیش جی ، نمسکار !

دنیش اپادھیائے جی۔ سر جی پرنام ۔

مودی جی۔ سب سے پہلے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنے بارے میں بتائیں۔

دنیش اپادھیائے جی۔ سر ہمارا نام دنیش بابل ناتھ اپادھیائے ہے۔ میں گاؤں حسن پور ، پوسٹ جموا ، ضلع جونپور کا رہنے والا ہوں۔

مودی جی۔ کیا آپ اتر پردیش سے ہیں؟

دنیش۔ ہاں! جی ہاں ! سر

مودی جی ۔

دنیش۔ ہمارا ایک لڑکا ، دو لڑکیاں اور ایک بیوی اور والدین ہیں۔

مودی جی - اور ، آپ کیا کرتے ہیں؟

دنیش۔ سر ، میں آکسیجن ٹینکر چلاتا ہوں ، رقیق آکسیجن ۔

مودی جی - کیا بچے مناسب طریقے سے پڑھ رہے ہیں؟

دنیش۔ ہاں صاحب! بچے پڑھ رہے ہیں۔ دونوں لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں ، اور میرا لڑکا بھی پڑھ رہا ہے ، جناب۔

مودی جی - کیا یہ آن لائن پڑھائی بھی ٹھیک طرح سے چلتی ہیں؟

دنیش۔ جی ہاں جناب ، اچھے ڈھنگ سے کر رہے ہیں ، ابھی لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں۔ آن لائن میں ہی پڑھ رہی ہیں سر ۔ سر 15 سے 17 سال ہوچکے ہیں ، میں آکسیجن کا ٹینکر چلا رہا ہوں ۔

جناب مودی - اچھا! آپ یہ 15 – 17 سال سے صرف آکسیجن لے کر جات ہیں ، پھر آپ صرف ٹرک ڈرائیور نہیں ہیں ! آپ ایک طرح سے لاکھوں جانیں بچانے میں مصروف ہیں۔

دنیش۔ سر ، ہمارا کام ہی ایسا ہے ، آکسیجن ٹینکر کی ، جو ہماری کمپنی ہے ، آئینوکس کمپنی ، وہ بھی ہم لوگوں کا بہت خیال رکھتی ہےاور اگر ہم کہیں بھی جاتے ہیں اور آکسیجن خالی کرتے ہیں تو ہمیں بہت خوش ملتی ہے ۔

مودی جی۔ لیکن اب آپ کی ذمہ داری کورونا کے وقت میں بہت بڑھ گئی ہے؟

دنیش۔ ہاں سر ، اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

مودی جی - جب آپ اپنے ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں تو ، آپ کے دل میں کیا جذبہ ہوتا ہے؟ پہلے سے مختلف تجربات کیا ہیں؟ کافی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ ذہنی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ خاندان کی فکر ، کورونا کا ماحول ، لوگوں کی طرف سے دباؤ ، مانگ ، کیا کچھ ہوتا ہوگا؟

دنیش۔ سر ، ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ ہمیں صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ ہم جو اپنا کام کر رہے ہیں ، وہ ٹائم پر لے کر اگر اپنی آکسیجن سے کسی کو زندگی ملتی ہے ، تو یہ ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔

مودی جی - آپ اپنے جذبات کا اظہار بہت اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔ اچھا بتایئے ، آج جب لوگ اس وبائی مرض کے وقت آپ کے کام کی اہمیت کو دیکھ رہے ہیں ، جسے شاید پہلے سمجھا نہیں گیا تھا ، اب وہ سمجھ رہے ہیں ، تو کیا آپ اور آپ کے کام کے بارے میں ان کا رویہ تبدیل ہوا ہے؟

دنیش۔ ہاں سر ! پہلے ، ہم آکسیجن کے ڈرائیور کہیں بھی ادھر ادھر جام میں پھنسے رہتے تھے ، لیکن آج کی تاریخ میں ، انتظامیہ نے بھی ہم لوگوں کی بہت مدد کی ہے اور جہاں بھی ہم جاتے ہیں تو ہمارے اندر بھی تجسس پیدا ہوتا ہے ، کہ ہم کتنی جلدی پہنچ کر لوگوں کی جان بچائیں ۔ چاہے کھانا ملے یا نہ ملے ۔ کچھ بھی پریشانی ہو لیکن ہم اسپتال پہنچتے ہیں ، جب ٹینکر لے کر اور دیکھتے ہیں کہ اسپتال والے ہم لوگوں کو دیکھ کر وی کا اشارہ کرتے ہیں ، اُس خاندان کے لوگ بھی ، جن کے گھر والے اسپتال میں داخل ہیں۔

مودی جی – اچھا ، وکٹری کا وی بناتے ہیں؟

دنیش۔ ہاں سر ! وی بناتے ہیں ، کوئی انگوٹھا دکھاتا ہے۔ ہم کو بہت سکون ملتا ہے ۔ ہماری زندگی میں کہ کہ ہم نے اچھا کام ضرور کیا ہے ، جو مجھے ایسی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔

مودی جی - ساری تھکن اتر جاتی ہوگی؟

دنیش۔ ہاں سر ! ہاں سر !

مودی جی - تو آپ گھر آکر بچوں سے باتیں بتاتے ہوں گے؟

دنیش۔ نہیں سر ۔ بچے تو ہمارے گاؤں میں رہتے ہیں۔ ہم تو یہاں آئینوکس ایئر پروڈکٹ میں ڈرائیوری کرتا ہوں ۔ 8 – 9 مہینوں کے بعد تب گھر جاتا ہوں ۔

مودی جی - تو کبھی فون پر بچوں سے بات کرتے ہوں گے ؟

دنیش۔ ہاں سر ! برابر کرتا ہوں ۔

مودی جی - تو اُن کے دل میں رہتا ہوگا کہ پتاجی ذرا سنبھلیئے ایسے وقت ۔

دنیش۔ سر ، وہ لوگ کہتے ہیں ، پاپا کام کرو ، لیکن اپنی حفاظت سے کرو اور سر ہم لوگ سیفٹی سے کام کرتے ہیں ۔ ہمارا مانگ گاؤں پلانٹ بھی ہے۔ آئینوکس ہم لوگوں کی بہت مدد کرتا ہے ۔

مودی جی - چلیں! دنیش جی ، مجھے بہت اچھا لگا ۔ آپ کی باتیں سن کر اور ملک کے لوگوں کو بھی لگے گا کہ اس کورونا کی لڑائی میں کیسے کیسے ، کس طرح سے لوگ کام کر رہے ہیں ۔ آپ 9-9 مہینوں تک اپنے بچوں سے نہیں مل رہےہیں ۔ خاندان سے نہیں مل رہے ہیں ، صرف لوگوں کی جان بچ جائے ۔ جب یہ ملک سنے گا تو ملک کو فخر ہو گا کہ یہ لڑائی ہم جیتیں گے کیونکہ دنیش اپادھیائے جیسے لاکھوں لوگ ایسے ہیں ، جو جی جان سے لگے ہوئے ہیں ۔ مودی جی چلیئے ،دنیش جی ، آپ کا یہ جذبہ ہی تو ملک کی طاقت ہے ۔ بہت بہت شکریہ دنیش جی اور اپنےبچوں کو میرا آشیرواد دییجئے گا ۔

دنیش۔ ٹھیک ہے سر! پرنام ۔

مودی جی۔ دھنیہ واد ۔

دنیش۔ پرنام پرنام سر ۔

مودی جی ۔ دھنیہ واد

ساتھیو ، جیسا کہ دنیش جی بتا رہے تھے ، جب ایک ٹینکر کا ڈرائیور آکسیجن لے کر اسپتال پہنچتا ہے تو بھگوان کابھیجا ہوا دوت لگتا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنی ذمہ داری کا ہوتا ہے اور اس میں کتنا ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے ۔

ساتھیو ، چیلنج کے اس وقت میں ، آکسیجن کی نقل و حمل کو آسان کرنے کے لئے بھارتی ریلوے بھی آگے آئی ہے ۔ آکسیجن ایکسپریس ، آکسیجن ریل نے سڑک پر چلنے والے آکسیجن ٹینکر سے کہیں زیادہ تیزی سے ، کہیں زیادہ مقدار میں آکسیجن ملک کے کونے کونے میں پہنچائی ہے ۔ ماؤں – بہنوں کو یہ سن کر فخر ہوگا کہ ایک آکسیجن ایکسپریس تو پوری طرح مہیلائیں ہی چلا رہی ہیں ۔ ملک کی ہر خواتین کو اس بات پر فخر ہوگا ۔ اتنا ہی نہیں ، ہر بھارتی کو فخر ہو گا ۔ میں نے آکسیجن ایکسپریس کی ایک لوکو پائلٹ شریشا گجنی جی کو ‘ من کی بات ’ میں مدعو کیا ہے ۔

مودی جی ۔شریشا جی نمستے!

شریشا۔ نمستے سر ! کیسے ہیں سر ؟

مودی جی۔ میں بہت ٹھیک ہوں شریشا جی ، میں نے سنا ہے کہ آپ ریلوے پائلٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی پوری خواتین ٹیم یہ آکسیجن ایکسپریس چلا رہی ہے۔ شریشا جی ، آپ بہت ہی شاندار کام کررہی ہیں۔ کرونا کے دور میں ، آپ کی طرح بہت سی خواتین نے ، آگے آکر کورونا سے لڑائی میں ملک کو قوت دی ہے ۔ آپ بھی ناری شکتی کی ایک بہت بڑی مثال ہیں ۔ لیکن ملک جاننا چاہے گا ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ حوصلہ کہاں سے ملتی ہے ؟

شریشا۔ سر ، مجھے یہ حوصلہ میرے والد ، والدہ سے ملتا ہے سر ۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں سر ۔ دراصل ، میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ، ہم تین ممبران ہیں ۔ صرف خواتین لیکن میرے والد کام کرنے کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔میری پہلی بہن بینک میں سرکاری ملازمت کرتی ہے اور میں ریلوے میں ملازم ہوں۔ میرے والدین میری ہمت افزائی کرتے ہیں ۔

مودی جی - اچھا شریشا جی ، آپ نے عام دنوں میں بھی ریلوے کو اپنی خدمات دی ہیں۔ ٹرین کو چلایا ہے لیکن جب یہ ایک طرف آکسیجن کی اتنی بڑی مانگ اور جب آپ آکسیجن کو لے جارہی ہیں تو تھوڑا زیادہ ذمہ داری والا کام ہو گا ، تھوڑی زیادہ ذمہ داریاں ہوں گی؟ عام سامان کو لے جانا الگ بات ہے ، آکسیجن تو بہت نازک بھی ہوتی ہے ، یہ چیز ، تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں ؟

شریشا ۔ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کام کرنے کے لئے ۔ آکسیجن اسپیشل دینے کے وقت میں بھی سبھی دیکھ رہے تھے ۔ سیفٹی کے لئے پرمیشن کے لئے ، کوئی رساؤ ہو ۔ اس کے بعد ، بھارتی ریلوے بھی مدد کرنی ہے ، سر ۔ یہ آکسیجن چلانے کے لئے مجھ کو گرین پاتھ دیا گیا ، یہ گاڑی چلانے کے لئے 125 کلو میٹر ، ڈیڑھ گھنٹہ میں پہنچنا ہوتا ہے ۔ اتنی ریلوے نے بھی ذمہ داری لی اور میں نے بھی یہ ذمہ داری لے لی سر ۔

مودی جی - واہ! ... چلیئے شیرشا جی ، میں آپ کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے والد ، والدہ کو ،خاص طور سے پرنام کرتا ہوں ، جنہوں نے تینوں بیٹیوں کو اتنی تحریک دی اور ان کواتنا آگے بڑھایا اور اس طرح کا حوصلہ دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے والدین کو بھی پرنام اور آپ سبھی بہنوں کو بھی پرنام ، جنہوں نے اس طرح سے ملک کی خدمت کی اور جذبہ بھی دکھایا ہے ۔ بہت بہت شکریہ! شریشا جی ۔

شریشا۔ شکریہ سر۔ شکریہ سر ۔ آپ کی دعائیں چاہئیں سر مجھے ۔

مودی جی۔ بس ، پرماتما کا آشیرواد آپ پر بنا رہے ، آپ کے والد ، والدہ کا آشیرواد بنا رہے ۔ شکریہ جی!

شریشا۔ شکریہ سر۔

ساتھیو ، ہم نے ابھی شریشا جی کی بات سنی۔ ان کے تجربات ، تحریک بھی دیتے ہیں اور جذباتی بھی بناتے ہیں ۔ حقیقت میں ، یہ لڑائی اتنی بڑی ہے کہ اس میں ریلوے کی ہی طرح ہمارا ملک بحری ، بری اور فضائی ، تینوں راستوں سے کام کر رہا ہے ۔ ایک طرف، خالی ٹینکروں کو ایئر فورس کے طیاروں کے ذریعے آکسیجن پلانٹس تک پہنچانے کا کام ہو رہا ہے تو دوسری طرف آکسیجن پلانٹس بنانا کا بھی کام پورا کیا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی بیرونی ملکوں سے آکسیجن ، آکسیجن کنسنٹریٹرس اور کرائیوجینک ٹینکر بھی ملک میں لائے جارہے ہیں ۔اس لئے ، اس میں بحریہ بھی لگی ہوئی ہے ، ایئرفورس بھی لگی ہوئی ہے ، آرمی بھی اور ڈی آر ڈی او جیسی ہماری تنظیمیں بھی جٹی ہیں ۔ ہمارے کتنےہی سائنسداں ، صنعت کے ماہرین اور تکنیکی ماہرین بھی جنگی پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ان سب کے کام کو جاننے کا ، سمجھنے کا تجسس سبھی ہم وطنوں کے دلوں میں ہے ۔ اس لئے ہمارے ساتھ ، ہماری فضائیہ کے گروپ کیپٹن پٹنائک جی جڑ رہے ہیں ۔

مودی جی۔ پٹنائک جی ، جے ہند۔

گروپ کیپٹن - سر جے ہند ۔ سر میں گروپ کیپٹن اے کے پٹنائک ہوں ۔ فضائیہ کے اسٹیشن ہنڈن سے بات کر رہا ہوں ۔

مودی جی۔ پٹنائک جی ، کورونا سے لڑائی کے دوران ، آپ بہت بڑی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں جاکر ٹینکر لانا ، ٹینکر یہاں پہنچانا ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایک فوجی کی حیثیت سے ایک مختلف قسم کا کام آپ نے کیا۔ مرنے مارنے کے لئے دوڑنا ہوتا ہے ۔ آج آپ زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہےہیں ۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟

گروپ کیپٹن ۔ سر ، اس بحران کے دور میں ،ہمارے ہم وطنوں کو مدد کر سکتے ہیں ، یہ ہمارے لئے بہت ہی خوش قسمتی کا کام ہے ۔ سر اور یہ جو بھی ہمیں مشن ملے ہیں ، ہم بخوبی اُس کو نبھا رہے ہیں ۔ ہماری ٹریننگ اور امدادی خدمات ، جو ہیں ، ہماری پوری مدد کر رہے ہیں اور سب سے بڑی چیز یہ ہے سر ، اس میں جو ہمیں جوب پر اطمینان مل رہا ہے ، وہ بہت ہی اعلیٰ درجے کا ہے اور اسی کی وجہ سے ہم مسلسل آپریشن کر پا رہے ہیں ۔

مودی جی ۔ کیپٹن ، آپ نے ان دنوں جو جو کوششیں کی ہیں ، اور وہ بھی کم سے کم وقت میں ، سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں اب ان دنوں کیا رہا آپ کا؟

گروپ کیپٹن ۔ سر پچھلے ایک مہینے سے ہم مسلسل آکسیجن ٹینکر ، رقیق آکسیجن کنٹینر ، گھریلو مقامات سے اور بین الاقوامی مقامات سے ، دونوں جگہ سے اٹھا رہے ہیں ۔ سر تقریباً 1600 پروازوں سے زیادہ ایئر فورس کر چکی ہے اور 3000 سے زیادہ گھنٹے ہم اُڑ چکے ہیں ۔ تقریباً 160 بین الاقوامی مشن کر چکے ہیں ۔ اس وجہ سے ہم ہر جگہ سے آکسیجن ٹینکر ، جو پہلے اگر ملک میں 2 سے 3 دن لگتے تھے ، ہم اُس کو 2 سے 3 گھنٹے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتے ہیں ، سر اور بین الاقوامی مشنوں میں بھی 24 گھنٹے کے اندر اندر مسلسل ، ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے آپریشن کرکے پوری فضائیہ اس میں لگی ہوئی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہم زیادہ سے زیادہ ٹینکر لائیں اور ملک کی مدد کریں۔

مودی جی۔ کیپٹن آپ کو بین الاقوامی ملکوں میں ابھی کہاں تک جانے کا اتفاق ہوا ؟

گروپ کیپٹن ۔ سر مختصر نوٹس کے ساتھ ہمیں ، سنگا پور ، دوبئی ، بیلجیم ، جرمنی اور یو کے ، ان سب مقامات پر انڈین ایئر فورس کی مختلف پروازیں ، آئی ایل – 76 ، سی – 17 ، جو بہت ہی چھوٹے سے نوٹس پر مشن پلان کرکے ہماری ٹریننگ اور جوش کی وجہ سے ، ہم وقت پر ان مشنوں کو مکمل کر سکیں گے ۔

مودی جی – دیکھیئے ، اس بار ملک اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ بحری ہو ،بری ہو یا فضائیہ ہو ، ہمارے سارے جوان ، اس کورونا کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں اور کیپٹن آپ نے بھی بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ہے تو میں آپ کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

گروپ کیپٹن ۔ سر ، تھینک یو سو مچ سر ، ہم اپنی پوری کوشش میں ، جی جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور میری بیٹی بھی آدیتی بھی میرے ساتھ ہے سر۔

مودی جی - ارے واہ !

آدیتی ۔ نمستے مودی جی ۔

مودی جی۔ نمستے بیٹی نمستے ، آدیتی ، آپ کتنے سال کی ہیں ؟

آدیتی – میں 12 سال کی ہوں اور آٹھویں کلاس میں پڑھتی ہوں ۔

مودی جی۔ تو یہ پتاجی باہر جاتے ہیں ، یونیفارم میں رہتے ہیں ۔

آدیتی - ہاں! اُن کے لئے مجھے بہت پراؤڈ لگتا ہے ، بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتنا اہم کام کر رہے ہیں ، جو سارے کورونا سے متاثرہ لوگ ہیں ، اُن کی مدد اتنی زیادہ کر رہے ہیں اور اتنے سارے ملکوں سے آکسیجن ٹینکر لا رہے ہیں ، کنٹینرس لا رہے ہیں ۔

مودی جی - لیکن بیٹی تو پاپا کو بہت مِس کرتی ہو نا ؟

آدیتی - ہاں ، بہت مِس کرتی ہوں ، انہیں ۔وہ آج کل زیادہ گھر پر نہیں رہ پا رہے ہیں کیونکہ اتنی ساری بین الاقوامی پروازوں میں جا رہے ہیں اور کنٹینر اور ٹینکر ، اُن کے پروڈکشن پلانٹ تک پہنچا رہے ہیں تاکہ جو لوگ کورونا سے متاثر ہیں ، اُن کو وقت پر آکسیجن مل سکے اور اُن کی جان بچ سکے ۔

مودی جی۔ تو بیٹایہ جو آکسیجن کی وجہ سے لوگوں کی جان بچانے والا کام ، تو اب گھر گھر میں لوگوں کو پتہ چل گیا ہے ۔

آدیتی - ہاں۔

مودی جی۔ جب آپ کےدوستوں کا حلقہ ، تمہارے ساتھی طلباء جانتے ہوں گے کہ تمہارے والد آکسیجن کی خدمت میں لگے ہیں تو تمہیں وہ بہت احترام سے دیکھتے ہو ں گے ؟

آدیتی - جی ہاں ، میرے تمام دوست بھی کہتے ہیں کہ تمہارے پاپا اتنا زیادہ اہم کام کر رہے ہیں اور تمہیں بھی بہت فخر ہوتا ہوگا اور تب مجھے اتنا زیادہ فخر محسوس ہوتاہے اور میری جو ساری فیملی ہے ، میرے نانا نانی ، دادی ، سب لوگ ہی میرے پاپا کے لئے بہت فخر محسوس کرتے ہیں ۔ میری ممی اور وہ لوگ بھی ، ڈاکٹر ہیں ، وہ لوگ بھی دن رات کام کر رہے ہیں اور ساری مسلح افواج ، میرے پاپا کے سارے اسکواڈرن کے انکل اور ساری جو فورس ہے ، سب لوگ ، ساری سینا بہت کام کر رہی ہے اور مجھے یقین ہےکہ سب کی کوششوں کے ساتھ ہم لوگ کورونا سے یہ لڑائی ضروری جیتیں گے ۔

مودی جی ۔ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ بیٹی جب بولتی ہے نا تو اس کےالفاظ میں سرسوتی وراجمان ہوتی ہے ، اور جب آدیتی بول رہی ہے کہ ہم ضرور جیتیں گے تو ایک طرح سے یہ ایشور کی آواز بن جاتی ہے ۔ اچھا آدیتی ، ابھی تو آن لائن پڑھتی ہوں گے ۔

آدیتی - ہاں ، ابھی تو ہماری تمام آن لائن کلاسز چل رہی ہیں اور ابھی ہم لوگ گھر میں بھی پوری احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں اور اگر کہیں اگر باہر جانا ہے تو پھر ڈبل ماسک پہن کر ، اور سب کچھ ، ساری احتیاط اور ذاتی صفائی ستھرائی کر رہے ہیں ، سب چیزوں کا دھیان رکھ رہے ہیں ۔

مودی جی - اچھا بیٹا ، تمہاری کیا ہوبیز ہیں ، کیا پسند ہیں ؟

آدیتی – میری ہوبیز ہیں کہ میں سوئمنگ کرتی ہوں اورباسکٹ بال کھیلتی ہوں لیکن ابھی تو وہ تھوڑا بند ہو گیا ہے اور اس لاک ڈاؤن اور کورونا وارئس کے دوران میں نے بیکنگ اور کوکنگ کا مجھے بہت زیادہ شوق ہے اور میں ابھی سارے بیکنگ اور کوکنگ کرکے ، جب پاپا اتنا سارا کام کرکے آتے ہیں تو میں ان کے لئے کوکیز اور کیک بناتی ہوں ۔

مودی جی - واہ ، واہ ، واہ! چلیئے بیٹا ، بہت دنوں کے بعد تمہیں پاپا کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے ۔ بہت اچھا لگا اور کیپٹن آپ کو بھی میں بہت مبارکباد دیتا ہوں لیکن جب میں کیپٹن کو مبارکباد دیتا ہوں تو اس کا مطلب صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ یہ ہماری فضائیہ، بحریہ اور بری افواج کے لئے بھی ہے ، جو اس طرح مصروف ہیں ۔ میں سب کو سلام کرتا ہوں ، شکریہ بھائیوں ۔

گروپ کیپٹن – شکریہ سر

ساتھیو، ہمارے ان جوانوں نے، ان واریئرز نے جو کام کیا ہے، اسکے لیے ملک انہیں سلام کرتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں لوگ دن رات مصروف ہیں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں، وہ انکے معمول کے کام کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح کی آفت تو دنیا میں سو سال بعد آئی ہے ، ایک صدی کے بعد اتنا بڑا بحران! اسلئے، اس طرح کے کام کا کسی کے پاس کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔ اسکے پیچھے ملک کی خدمت کا جذبہ ہے اور ایک عزم کی طاقت ہے۔ اسی سے ملک نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، عام دنوں میں ہمارے یہاں ایک دن میں 900 میٹرک ٹن، مائع طبی آکسیجن کی پیداوار ہوتی تھی ۔ اب 10 گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر،اس کی پیداوار تقریبا 9500 میٹرک ٹن ہو رہی ہے۔ اس آکسیجن کو ہمارے واریئرزملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچا رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، آکسیجن پہنچانے کے لیے ملک میں اتنی کوشش ہوئی ، اتنے لوگ مصروف ہوئے ، ایک شہری کے طور پر یہ سارے کام تحریک دیتے ہیں۔ ایک ٹیم بن کر ہر کسی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ مجھے بینگلورو سے ارملا جی نے کہا ہے کہ انکے خاوند لیب ٹیکنیشین ہیں، اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے اتنے چیلنجوں کے درمیان وہ مسلسل ٹیسٹنگ کا کام کرتے رہے ہیں۔

ساتھیو، کو رونا کی شروعات میں ملک میں صرف ایک ہی ٹیسٹنگ لیب تھا ، لیکن آج ڈھائی ہزار سے زیادہ لیب کام کر رہے ہیں۔ شروع میں کچھ سو ٹیسٹ ایک دن میں ہو پاتے تھے، اب 20 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ ایک دن میں ہونے لگے ہیں۔ اب تک ملک میں 33 کروڑ سے زیادہ نمونوں کی جانچ کی جا چکی ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ان ساتھیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ کتنے ہی فرنٹ لائن کارکنان نمونے اکٹھے کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ متاثرہ مریضوں کے درمیان جانا، انکا سمپل لینا، یہ کتنی بڑی خدمت ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے ان ساتھیوں کو اتنی گرمی میں بھی لگاتار پی پی ای کٹ پہن کے ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسکے بعد یہ سمپل لیب میں پہنچتا ہے۔ اسلئے، جب میں آپ سب کے مشورے اور سوال پڑھ رہا تھا تو میں نے طے کیا کہ اپنے ان ساتھیوں کا بھی ذکر ضرور ہونا چاہیئے۔ انکے تجربات سے ہمیں بھی بہت کچھ جاننے کو ملےگا۔ تو آئیے دلی میں ایک لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کرنے والے اپنے ساتھی پرکاش کانڈپال جی سے بات کرتے ہیں۔

مودی جی – پرکاش جی نمسکار۔

پرکاش جی – نمسکار معزز وزیر اعظم صاحب۔

مودی جی – پرکاش جی، سب سے پہلے تو آپ ‘من کی بات’ کے ہمارے سبھی سامعین کو اپنے بارے میں بتائیے۔ آپ کتنے وقت سے یہ کام کر رہے ہیں اور کو رونا کے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے کیونکہ ملک کے لوگوں کو اس طرح سے نہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، نہ اخبار میں دیکھتے ہیں۔ پھر بھی ایک رشی کی طرح لیب میں رہ کرکے کام کر رہے ہیں۔ تو میں چاہونگا کہ آپ جب بتائیں گے تو ہم وطنوں کو بھی جانکاری ملے گی کہ ملک میں کام کیسے ہو رہا ہے ؟

پرکاش جی – میں دلی سرکار کے خود مختار ادارے انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بلیئری سائنسز(آئی ایل بی ایس) نام کے ہاسپٹل میں پچھلے 10 سالوں سے لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میرا صحت کے شعبہ میں کام کرنے کا تجربہ 22 سالوں پر محیط ہے۔ آئی ایل بی ایس سے پہلے بھی میں دلی کے اپولوہاسپٹل، راجیو گاندھیؔ کینسر ہاسپٹل، روٹری بلڈ بینک جیسے معروف اداروں میں کام کر چکا ہوں۔ سر، اگرچہ سبھی جگہ میں نےبلڈ بینک کے شعبہ میں اپنی خدمات انجام دیں تاہم گذشتہ سال یکم اپریل، 2020 سے میں آئی ایل بی ایس کے ویرولوجی ڈیپارٹمنٹ کے کووڈ ٹیسٹنگ لیب میں کام کر رہا ہوں۔ بلاشبہ، کووڈ وبا میں صحت اور صحت سے متعلق سبھی وسائل پر بہت دباؤ پڑا، لیکن میں اس جنگ کے دور کو ذاتی طور پر ایک ایسا موقع مانتا ہوں، جب ملک، انسانیت ، سماج ہم سے زیادہ فرض کی ادائیگی، تعاون ، ہم سے زیادہ ، ہم سے زیادہ اچھی کارکردگی اور ہم سے زیادہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی توقع کرتا ہے اور امید کرتا ہے۔ اور سر، جب ہم ملک کے ، انسانیت کے ، معاشرہ کے توقعات اور امیدوں کے مطابق اپنی سطح پر جو کہ ایک قطرے کے برابر ہے ، ہم اس پر کام کرتے ہیں،کھرا اترتے ہے تو ایک فخر کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی جب ہمارے گھر والے بھی خوفزدہ ہوتے ہے یا تھوڑا انہیں ڈر لگتا ہے تو ایسے موقعوں پر ان کو یاد دلاتا ہوں، کہ ہمارے ملک کے جوان جو کہ ہمیشہ ہی اپنے کنبے سے دور سرحدوں پر سخت اور غیر معمولی صورتحال میں ملک کی حفاظت کر رہے ہیں، ان کے مقابلے میں تو ہمارا خطرہ جو ہے کم ہے، بہت کم ہے۔ تو وہ بھی اس چیز کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ایک طرح سے وہ بھی معاونت کرتے ہیں اور وہ بھی اس مصیبت میں عام طور سے جو بھی تعاون ہے اس میں اپنی حصہ داری پیش کرتے ہیں۔

مودی جی – پرکاش جی ایک طرف حکومت سب کو کہہ رہی ہے کہ دوری رکھو - دوری رکھو،کو رونا میں ایک دوسرے سے دور رہو۔ اور آپ کو تو سامنے سے ہوکر، کو رونا وائرس کے بیچ میں رہنا ہی پڑتا ہے ، سامنے سے جانا پڑتا ہے۔ تو، یہ اپنے آپ میں ایک زندگی کو مشکل میں ڈالنے والا معاملہ رہتا ہے تو کنبے کو فکر لاحق ہونا بہت فطری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ لیب ٹیکنیشین کا کام عام کاموں میں سے ایک ہے۔ اور ایسی عالمی وباء کی صورت میں دوسرا ہے اور وہ آپ کر رہے ہیں۔تو کام کے گھنٹے بھی بہت بڑھ گئے ہوں گے ؟ رات رات لیب میں گذارنا پڑتا ہوگا ؟ کیونکہ کروڑوں لوگوں کی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے تو بوجھ بھی بڑھا ہوگا ؟ لیکن اپنی حفاظت کے لیے بھی یہ احتیاط رکھتے ہیں کہ نہیں رکھتے ہیں ؟

پرکاش جی – بالکل رکھتے ہیں سر۔ ہمارے آئی ایل بی ایس کا جو لیب ہے ، وہ ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ ہے۔ تو جو سارےپروٹوکول ہیں وہ بین الاقوامی معیار کے ہیں،یہ جو ہماری تین سطحی پوشاک ہے اسے پہن کر ہم جاتے ہیں لیب میں، اور اسی میں ہم کام کرتے ہیں۔ اور اسکا پورا ڈسکارڈنگ کا، لیبلنگ کا اور ان کی ٹیسٹنگ کا ایک پورا پروٹوکول ہے تو اس پروٹوکول کے تحت کام کرتے ہیں۔ تو سر یہ بھی ایشور کی مہربانی ہے کہ میرا اور میرے جاننے والے زیادہ تر جو ابھی تک اس وباء سے بچے ہوئے ہیں۔ تو ایک چیز ہے کہ، اگر آپ احتیاط برتتے ہیں اور حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ تھوڑا بہت اس سے بچے رہ سکتے ہیں۔

مودی جی – پرکاش جی، آپ جیسے ہزاروں لوگ پچھلے ایک سال سے لیب میں بیٹھے ہیں اور اتنی زحمت کر رہے ہیں۔ اتنے لوگوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔ جو ملک آج جان رہا ہے۔ لیکن پرکاش جی میں آپکے توسط سے آپکی برادری کے سبھی ساتھیوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم وطنوں کی طرف شکریہ ادا کرتا ہوںاور آپ صحت مند رہیں ۔ آپ کا کنبہ صحت مند رہے۔ میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔

پرکاش جی – شکریہ وزیر اعظم صاحب ۔ میں آپ کا بہت بہت ممنون ہوں، کہ آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا۔

مودی جی – شکریہ بھیا۔

ساتھیوں، ایک طرح سے بات تو میں نے بھائی پرکاش جی سے کی ہے، لیکن انکی باتوں میں ہزاروں لیب ٹیکنیشین کی خدمات کو خوشبو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ان باتوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کے خدمت کا جذبہ تو نظر آتا ہی ہے، ہم سبھی کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ جتنی محنت اور لگن سے بھائی پرکاش جی جیسے ہمارے ساتھی کام کر رہے ہیں، اتنی ہی ایمانداری سے ان کا تعاون ، کو رونا کو ہرانے میں بہت مدد کرے گا۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، ابھی ہم اپنے 'کورونا واریئر' کا ذکر کر رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ سالوں میں ہم نے ان کی لگن اور جانفشانی خوب دیکھی ہے۔ لیکن اس لڑائی میں بہت اہم کردار ملک کے کئی علاقوں کے متعدد واریئرز کی بھی ہے۔ آپ سوچئے، ہمارے ملک میں اتنا بڑا بحران آیا، اسکا اثر ملک کے ایک نظام پر پڑا۔ زرعی نظام نے خود کو اس حملے سے کافی حد تک محفوظ رکھا ۔ محفوظ ہی نہیں رکھا، بلکہ ترقی بھی کی، آگے بھی بڑھا! کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس وباء میں بھی ہمارے کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ہے ؟ کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ، تو اس مرتبہ ملک نے ریکارڈ فصل خریدی بھی ہے۔ اس بار کئی جگہوں پر تو سرسوں کے لیے کسانوں کو ایم ایس پی سے بھی زیادہ قیمت ملی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے ہی ہمارا ملک ہرشہری کو مدد فراہم کر پا رہا ہے۔آج اس بحران کی گھڑی میں 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن مہیا کرایا جا رہا ہے تاکہ غریب کے گھر میں بھی کبھی ایسا دن نہ آئے جب چولہا نہ جلے۔

ساتھیوں، آج ہمارے ملک کے کسان، کئی علاقوں میں نئے نظام کا فائدہ اٹھاکر کمال کر رہے ہیں۔ جیسے کہ اگرتلہ کے کسانوں کو ہی لیجئے ! یہ کسان بہت اچھے کٹہل کی پیداوار کرتے ہیں۔ انکی مانگ ملک و بیرون ملک میں ہو سکتی ہے، اسلئے اس بار اگرتلہ کے کسانوں کے کٹہل ریل کے ذریعہ گوہاٹی تک لائے گئے۔ گوہاٹی سے اب یہ کٹہل لندن بھیجے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی آپ نے بہار کی ‘شاہی لیچی’ کا نام بھی سنا ہوگا۔ 2018 میں حکومت نے شاہی لیچی کوجی آئی ٹیگ بھی دیا تھا تاکہ اسکی پہچان مستحکم ہو اور کسانوں کو زیادہ فائدہ ہو۔ اس بار بہار کی یہ ‘شاہی لیچی’ بھی فضائی راستے سے لندن بھیجی گئی ہے۔ مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب ہمارا ملک ایسے ہی انوکھے ذائقوں اور پیداوار سے بھر پور ہے۔ جنوبی ہند میں، وجے نگرم کے آم کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا ؟ اب بھلا یہ آم کون نہیں کھانا چاہے گا ! اسلئے، اب کسان -ریل، سیکڑوں ٹن وجے نگرم آم دلی پہنچا رہی ہے۔ دلی اور شمالی ہند کے لوگوں کو وجے نگرم کے آم کھانے کو ملے گا اور وجے نگرم کے کسانوں کی اچھی کمائی ہوگی۔ کسان ریل اب تک تقریبا 2 لاکھ ٹن پیداوار کا نقل و حمل کر چکی ہے۔ اب کسان بہت کم قیمت پر پھل، سبزیاں ، اناج، ملک کے دوسرے دور دراز علاقوں میں بھیج پا رہا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو ، آج 30 مئی کو ہم ‘من کی بات’ کر رہے ہیں اور اتفاق سے یہ حکومت کے 7 سال پورے ہونے کا بھی وقت ہے۔ ان سالوں میں ملک ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے منتر پر چلا ہے۔ ملک کی خدمت میں ہر لمحہ لگن کے ساتھ ہم سبھی نے کام کیا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے خط ارسال کیے ہیں اور کہا ہے کہ ‘من کی بات’ میں 7 سال کے ہمارے آپ کے اس مشترکہ سفر کا بھی ذکر کروں۔ ساتھیوں، ان 7 سالوں میں جو کچھ بھی حصولیابی رہی ہے، وہ ملک کی رہی ہے، ہم وطنوں کی رہی ہے۔ کتنے ہی قومی فخر کے لمحوں کا ہم نے ان سالوں میں ساتھ مل کر مشاہدہ کیا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان دوسرے ملکوں کی سوچ اور انکے دباؤ میں نہیں، اپنے عزم سے چلتا ہے، تو ہم سب کو فخر ہوتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان اپنے خلاف سازش کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیتا ہے تو ہماری خود اعتمادی اور بڑھتی ہے۔ جب ہندوستان قومی سلامتی کے امور پر سمجھوتہ نہیں کرتا، جب ہماری افواج کی طاقت بڑھتی ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہاں، ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں۔

ساتھیوں، مجھے کتنے ہی ہم وطنوں کے پیغامات ، انکے خطوط، ملک کے گوشے گوشے سے ملتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ملک کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 70 سال بعد انکے گاؤں میں پہلی بار بجلی پہنچی ہے، انکے بیٹے بیٹیاں اجالے میں، پنکھے میں بیٹھ کرکے پڑھ رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا بھی گاؤں اب پکی سڑک سے، شہر سے مربوط ہو گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک قبائلی علاقے سے کچھ ساتھیوں نے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ سڑک بننے کے بعد پہلی بار انہیں ایسا لگا کہ وہ بھی باقی دنیا سے جڑ گئے ہیں۔ ایسے ہی کہیں کوئی بینک کھاتہ کھلنے کی خوشی شیئر کرتا ہے، تو کوئی الگ الگ منصوبوں کی مدد سے جب نیا روزگار شروع کرتا ہے تو اس خوشی میں مجھے بھی مدعو کرتا ہے۔ ‘پردھان منتری آواس یوجنا’ کے تحت گھر ملنے کے بعد گرہ پرویش کی تقریب میں کتنی ہی دعوت مجھے اپنے وطنوں کی جانب سے لگاتار ملتے رہتے ہیں۔ ان 7 سالوں میں آپ سب کی ایسی کروڑوں خوشیوں میں، میں شامل ہوا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے گاؤں سے ایک پریوار نے ‘جل جیون مشن’ کے تحت گھر میں لگے پانی کے نل کی ایک فوٹو بھیجی۔ انہوں نے اس فوٹو کی سرخی لگائی تھی–‘میرے گاؤں کی جیون دھارا’۔ ایسے کتنے ہی کنبے ہیں۔ آزادی کے بعد 7 عشروں میں ہمارے ملک کے صرف ساڑھے تین کروڑ دیہی گھروں میں ہی پانی کے کنکشن تھے۔ لیکن پچھلے 21 مہینوں میں ہی ساڑھے چار کروڑ گھروں کو صاف پانی کے کنکشن دیے گئے ہیں۔ ان میں سے 15 مہینے تو کوروناکے ہی تھے ! اسی طرح کا ایک اعتماد ملک میں ‘آیوشمان یوجنا’ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ جب کوئی غریب مفت علاج سے صحت مند ہوکر گھر آتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ ملک اسکے ساتھ ہے۔ ایسے کتنے ہی کنبوں کی برکت، کروڑوں ماؤں کی دعائیں لیکر ہمارا ملک مضبوطی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

ساتھیوں،ان 7 سالوں میں ہندوستان نے ڈیجیٹل 'لین دین’ میں دنیا کو نئی سمت کھانے کا کام کیا ہے۔ آج کسی بھی جگہ جتنی آسانی سے آپ چٹکیوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کر دیتے ہیں، وہ کو رونا کی اس گھڑی میں بھی بہت کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ آج صفائی کے تئیں ہم وطنوں کی سنجیدگی اور احتیاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ریکارڈ سیٹلائٹ بھی لانچ کر رہے ہیں اورریکارڈ سڑکیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہی ملک کے متعدد قدیم تنازعے بھی مکمل امن و ہم آہنگی کے ساتھ طے کیے گئے ہیں۔شمال مشرق سے لیکر کشمیر تک امن و ترقی کا ایک نیا بھروسہ جگا ہے۔ساتھیوں،کیا آپ نے سوچا ہے، یہ سب کام جو دہائیوں میں بھی نہیں ہو سکے، ان 7 سالوں میں کیسے ہوئے ؟ یہ سب اسی لئے ممکن ہوا کیونکہ ان 7 سالوں میں ہم نے حکومت اور عوام سے زیادہ ایک ملک کے طور پر کام کیا،ایک ٹیم کی شکل میں کام کیا،'ٹیم انڈیا' کی شکل میں کام کیا۔ ہرشہری نےملک کو آگے بڑھانے میں ایک آدھا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاں ! جہاں کامیابیاں ہوتی ہیں، وہاں آزمائشیں بھی ہوتی ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہم نے ساتھ ملکر ہی کئی مشکل آزمائشوں سے بھی گزرے ہیں اور ہر بار ہم سبھی مضبوط ہوکر نکلے ہیں۔ کو رونا وبائی مرض کی شکل میں، اتنی بڑی آزمائش تو لگاتار چل رہی ہے۔ یہ تو ایک ایسا بحران ہے جس نے پوری دنیا کو پریشان کیا ہے، کتنے ہی لوگوں نے اپنوں کو کھویا ہے۔ بڑے بڑے ملک بھی اسکی تباہی سے بچ نہیں سکے ہیں۔ اس عالمی وباء کے درمیان ہندوستان ، ‘خدمت اور تعاون’ کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے پہلی لہر میں بھی پورے حوصلے کے ساتھ لڑائی لڑی تھی، اس بار بھی وائرس کے خلاف چل رہی لڑائی میں ہندوستان کی فتح ہوگی۔ ‘دو گز کی دوری’، ماسک سے جڑے اصول ہو یا پھرویکسین ہمیں ڈھلائی نہیں کرنی ہے۔ یہی ہماری جیت کا راستہ ہے۔ اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے، تو ہم وطنوں کے کئی اور حوصلہ افزا مثالوں پر بات کریں گے اور نئے موضوعات پر بات چیت کریں گے۔ آپ اپنے مشورے مجھے ایسے ہی بھیجتے رہیں۔ آپ سبھی صحت مند رہیں، ملک کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہیں ۔بہت –بہت شکریہ ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।