نئی دہلی،24 فروری / میرے پیارے اہل وطن ، آداب! من کی بات شروع کرتے ہوئے آج من بھرا ہوا ہے۔ 10 دن قبل بھارت ماتا نے اپنے بہادر سپوتوں کو کھو دیا۔ ان بلند اقبال بہادروں نے ہم سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی حفاظت میں خود کو کھپا دیا۔ اہل وطن چین کی نیند سو سکیں اس لئے ہمارے ان بہادروں سپوتوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں بہادر جوانوں کی شہادت کے بعد ملک بھر میں لوگوں کو اور لوگوں کے من میں زخم اور غصہ ہے۔ شہیدوں اور ان کے کنبوں کے تئیں چاروں طرف احساسات امڈ پڑے ہیں۔ اس دہشت گردانہ تشدد کی مخالفت میں جو غصہ آپ کے اور میرے من میں ہے وہی جذبہ ہر اہل وطن کے من میں ہے۔ اور انسانیت میں یقین کرنے والی دنیا کے بھی انسانیت نواز برادریوں میں ہے۔ بھارت کی حفاظت کرنے میں اپنے جان نچھاور کرنے والے ملک کے سبھی بہادر سپوتوں کو میں سلام کرتا ہوں۔ یہ شہادت دہشت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہمیں مسلسل ترغیب دیتی رہے گی، ہمارے عزم کو اور مضبوط کرے گی۔ ملک کے سامنے آئے اس چیلنج کا سامنا ہم سب کو ذات پات ، فرقہ پرستی ، علاقائیت اور دیگر سبھی طرح کے اختلافات کو بھولا کر کرنا ہے۔ تاکہ دہشت کے خلاف ہمارے قدم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوں، طاقت ور ہوں اور فیصلہ کن ہوں ۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ ہی غیر معمولی حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ امن کے قیام کے لئے جہاں انہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہیں حملہ آوروں کو بھی ان ہی کی زبان میں جواب دینے کا کام کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حملے کے سو گھنٹے کے اندر ہی کس قدر سے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ فوج نے دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔ بہادر فوجیوں کی شہادت کے بعد میڈیا کے ذریعے سے ان کے رشتے داروں کی جو حوصلہ افزا باتیں سامنے آئی ہیں اس نے پورے ملک کےحوصلے کو مزید تقویت دی ہے۔ بہار کے بھاگل پور کے شہید رتن ٹھاکر کے والد رام نرنجن جی نے دکھ کی اس گھڑی میں بھی جس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھیجیں گے اور ضرورت پڑی تو خود بھی لڑنے جائیں گے۔ اڈیشہ کے جگت سنگھ پور کے شہید پرسنہ ساہو کی بیوی مینا جی کے غیر معمولی حوصلے کو پورا ملک سلام کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی سی آر پی ایف جوائن کرانے کا عہد کیا ہے۔ جب ترنگے میں لپٹے شہید وجے شورین کی لاش جھارکھنڈ کے گملا پہنچی تو معصوم بیٹے نے یہی کہا کہ میں بھی فوج میں جاؤں گا۔ اس معصوم کا جذبہ آج بھارت کے بچے بچے کی جذبے کو ظاہر کرتا ہے ۔ایسے ہی جذبات ہمارے بہادر ، حوصلہ مند ، شہیدوں کے گھر گھر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارا ایک بھی بہادر شہید اس کا استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے وہ دیوریا کے شہید وجے موریہ کا خاندان ہو ، کانگڑا کے شہید تلک راج کے والدین ہوں یا پھر کوٹہ کے شہید ہیمراج کا 6 سالہ بیٹا ہو ، شہیدوں کے ہر خاندان کی کہانی ترغیب سے بھری ہوئی ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کنبوں نے جو جذبہ دکھایا ہے جن جذبات کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کو جانیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ، وطن سے محبت کیا ہوتی ہے، ایثار وقربانی کیا ہوتی ہے ، اس کے لئے ہمیں تاریخ کے پرانے واقعات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جیتی جاگتی مثالیں ہیں اور یہی روشن بھارت کے مستقبل کے لئے باعث تحریک ہے۔
میرے پیارے اہل وطن ! آزادی کے اتنے طویل عرصے تک ہم سب کو جس وار میموریل کا انتظار تھا وہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں اہل وطن کا تجسس ، ان کا شوق انتہائی فطری ہے۔ نریندر مودی ایپ پر اُڈوپی ، کرناٹک کے جناب اونکار شیٹی جی نے نیشنل وار میموریل تیار ہونے پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی تھی اور درد بھی کہ ہندوستان میں کوئی نیشنل وار میموریل (قومی جنگی یادگار) نہیں تھا۔ ایک ایسا میموریل جہاں قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والے بہادر جوانوں کی بہادری کی کہانیوں کو سنبھال کر رکھا جا سکے ۔ میں طے کیا کہ ملک میں ایک ایسی یادگار ضرور ہونی چاہئے ۔
ہم نے نیشنل وار میموریل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ یادگار اتنے کم وقت میں بن کر تیار ہو چکی ہے۔ کل یعنی 25 فروری ہو ہم کروڑوں اہل وطن اس قومی فوجی یادگار کو ، اپنی فوج کے سپرد کریں گے۔ ملک اپنا قرض ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرے گا۔
دلی کے دل یعنی وہ جگہ جہاں پر انڈیا گیٹ اور امر جوان جیوتی موجود ہے ، بس اس کے بالکل قریب یہ ایک نئی یادگار بنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہل وطن کے لئے قومی فوجی یادگار جانا کسی تیرتھ استھل جانے کے برابر ہوگا۔ قومی فوجی یادگار آزادی کے بعد عظیم ترین قربانی دینے والے جوانوں کے تئیں قوم کی احسان مندی کی علامت ہے۔ یادگار کا ڈیزائن ، ہمارے لافانی فوجیوں کے غیر معمولی حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی فوجی یادگار کا تصور چار کنسنٹرک سرکل یعنی چار چکروں پر مرکوز ہے۔ جہاں ایک فوجی کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے سفر کا بیان ہے۔ اگر چکر کی لو ، شہید فوجی کے امر ہونےکی علامت ہے۔ دوسرا سرکل ویرتا چکر کا ہے جو فوجیوں کے حوصلے اور بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی گیلری ہے جہاں دیواروں پر فوجیوں کی بہادری کے کارناموں کو ابھارا گیا ہے ۔ اس کے بعد تیاگ چکر ہے۔ یہ سرکل فوجیوں کی قربانی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس میں ملک کے لئے عظیم ترین قربانی دینے والے فوجیوں کے نام سنہرے الفاظ میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد رکشک چکر ہے جو سیکورٹی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس سرکل میں گھنے پیڑوں کی قطار ہے۔ یہ پیڑ فوجیوں کی علامت ہیں اور ملک کے شہریوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے پیغام دے رہےہیں کہ ہر پہر فوجی سرحد پر تعینات ہے اور اہل وطن محفوظ ہیں۔ کل ملاکر دیکھیں تو قومی فوجی یادگار کی پہچان ایک ایسے مقام کے طور پر بنے گی جہاں لوگ ملک کے عظیم شہیدوں کے بارے میں جانکاری لینے ، اپنے احسان مندی ظاہر کرنے ، اس پر ریسرچ کرنے کے مقصد سے آئیں گے۔ یہاں ان بلیدانیوں (قربانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں ) کی کہانی ہے جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی ، تاکہ ہم زندہ رہ سکیں ، تاکہ ملک محفوظ رہے اور ترقی کر سکے۔ ملک کی ترقی میں ہماری مسلح افواج ، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے عظیم تعاون کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں مجھے نیشنل پولیس میموریل ، (قومی پولیس یادگار ) کو بھی ملک کے نام وقف کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔ وہ بھی ہمارے اس خیال کا عکس تھا جس کے تحت ہم مانتے ہیں کہ ملک کو ان مرد اور خاتون پولیس اہلکاروں کا احسان مند ہونا چاہئے جو مسلسل ہماری حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ قومی فوجی یادگار اور نیشنل پولیس میموریل کو دیکھنے ضرور جائیں گے۔ آپ جب بھی جائیں وہاں لی گئی اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے ترغیب ملے اور وہ بھی اس مقدس مقام ، اس یادگار کو دیکھنے کے آرزور مند بنیں ۔
میرے پیارے اہل وطن! من کی بات کے لئے آپ کے ہزاروں خطوط اور کمنٹ مجھے الگ الگ ذرائع سے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں اس بار جب میں آپ کے کمنٹ پڑھ رہا تھا تب مجھے آتش مکھو پادھیائے جی کاایک بہت ہی دلچسپ کمنٹ میرے دھیان میں آیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سال 1900 میں 3 مارچ کو انگریزوں نے برسا منڈا کو گرفتار کیا تھا تب ان کی عمر صرف 25 سال کی تھی ۔ اتفاق ہی ہے کہ 3 مارچ کو ہی جمشید جی ٹاٹا کی جینتی ہوئی ہے اور وہ آگے لکھتے ہیں کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ خاندانی پیس منظر سے ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ کی وراثت اور تعریف کو خوشحال بنایا۔ من کی بات میں برسا منڈا اور جمشید جی ٹاٹا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب ایک طرح سے جھارکھنڈ کی قابل فخر تاریخ اور وراثت کو سلام کرنے جیسا ہے۔ آتش جی میں آپ سے متفق ہوں ان دو عظیم شخصیات نے جھارکھنڈ کا ہی نہیں پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پورا ملک ان کے تعاون کے لئے ان کا احسان مند ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو رہنمائی کے لئے کسی باعث تحریک شخصیت کی ضرورت ہے تو وہ ہیں بھگوان برسا منڈا ۔ انگریزوں نے چھپ کر بڑی ہی چالاکی سے انہیں اُس وقت پکڑا تھا جب وہ سو رہے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بزدلانہ کارروائی کا سہارا کیوں لیا؟ کیوں کہ اتنی بڑی سلطنت کھڑی کرنے والے انگریز بھی ان سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بھگوان برسا منڈا نے نہ صرف اپنے روایتی تیر کمان سے ہی بندوقوں اور توپوں سے لیس انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ در اصل جب لوگوں کو ایک تحریک افزا قیادت ملتی ہے تو پھر ہتھیاروں کی طاقت پر لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی بھاری پڑتی ہے۔ بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں سے نہ صرف سیاسی آزادی کے لئے جدو جہد کی بلکہ آدیواسیوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑی۔
اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے یہ سب کر دکھایا ۔ محروموں اور استحصال زدہ لوگوں کی تاریکی سے پُر زندگی میں سورج کی طرح روشنی بکھیری۔ بھگوان برسا منڈا نے 25 سال کی مختصر عمر میں ہی اپنی قربانی دے دی ۔ برسا منڈا جیسے بھارت ماں کے سپوت ملک کے ہر حصے میں ہوئے ہیں ۔ شاید ہندوستان کا کوئی کونا ایسا ہو گا جہاں صدیوں تک چلی ہوئی آزادی کی اس جنگ میں کسی نے تعاون نہ دیا ہو۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے ایثار ، بہادری اور قربانی کی کہانیاں نئی نسل تک پہنچی ہی نہیں ۔ اگر بھگوان برسا منڈا جیسی شخصیت نے ہمیں اپنے وجود کا احساس کرایا تو جمشید جی ٹاٹا جیسی شخصیت نے ملک کو بڑے بڑے ادارے دیئے۔ جمشید جی ٹاٹا صحیح معنوں میں ایک دور اندیش شخص تھے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا بلکہ اس کی مضبوط بنیاد بھی رکھی۔ وہ اچھی طرح واقف تھے کہ ہندوستان کو سائنس ، ٹیکنالوجی اور صنعتی مرکز بنانا مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ یہ ان کا ہی ویژن تھا جس کے نتیجے میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا قیام عمل میں آیا جسے اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے ٹاٹا اسٹیل جیسے کئی عالمی معیار کے ادارےاور صنعتیں بھی قائم کیں۔ جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکا نند جی کی ملاقات دورۂ امریکہ کے دوران جہاز میں ہوئی تھی تب ان دونوں کی گفتگو میں ایک اہم موضوع ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی نشر و اشاعت تھی۔ کہتے ہیں اسی گفتگو سے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی بنیاد پڑی۔
میرے پیارے اہل وطن! ہمارے ملک کے سابق وزیراعظم جناب مرار جی دیسائی کی پیدائش 29 فروری کو ہوئی تھی ۔جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دن چار سال میں ایک بار ہی آتا ہے۔ سادہ، پر امن شخصیت کے دھنی ، مرار جی دیسائی ملک کے سب سے ڈسپلنڈ لیڈروں میں سے تھے ۔ آزاد ہندوستان میں پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ مرار جی بھائی دیسائی کے ہی نام ہے ۔ مرار جی دیسائی نے اس مشکل وقت میں ہندوستان کی صلاحیت مندی کے ساتھ قیادت کی جب ملک کے جمہوری تانے بانے کو خطرہ لاحق تھا۔ اس کے لئے ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ مرار جی بھائی دیسائی نے جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایمرجنسی کے خلاف تحریک میں خود کو جھونک دیا۔ اس کے لئے انہیں ضعیفی میں بھی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ اس وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن 1977 میں جب جنتا پارٹی نے انتخاب جیتا تب وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ان کی مدت کار کے دوران ہی 44 واں آئینی ترمیمی بل لایا گیا ۔یہ اہم اس لئے ہے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران جو 42 ویں ترمیم لائی گئی تھی ، جس میں سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنے اور دوسرے ایسے التزامات تھے ، جو ہماری جمہوری قدروں کے منافی تھے، ان کو واپس لیا گیا۔ جیسے 44 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کارگزاری کو اخبارات میں شائع کرنے کا التزام کیا گیا۔ اسی کے تحت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو بحال کیا گیا۔ اسی ترمیم میں یہ بھی التزام کیا گیا کہ آئین کی دفعی 20 اور 21 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں کی جاسکتی۔ پہلی مرتبہ ایسا نظم کیا گیا کہ کابینہ کی تحریری سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ ایمرجنسی کی مدت کو ایک بار میں چھ مہینے سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے مرار جی بھائی نے یہ یقینی بنایا کہ ایمرجنسی نافذ کرکے 1975 میں جس طرح جمہوریت کا قتل کیا گیا تھا ۔ مستقبل میں اس کا اعادہ پھر نہ ہوسکے۔ ہندستانی جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنے میں ان کے گراں قدر تعاون کو آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ایک بار پھر ایسے عظیم لیڈر کو میں خراج عقید ت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو!
ہر سال کی طرح اس بار بھی پدم ایوارڈ کے تعلق سے لوگوں میں بڑا اشتیاق تھا۔ آج ہم ایک نیو انڈیا کی طرف مائل ہیں۔ اس میں ہم ان لوگوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں جو زمینی سطح پر اپنا کام بے لوث جذبے سے کررہے ہیں۔ اپنی محنت کی دم پر الگ الگ طریقے سے دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لارہے ہیں۔ دراصل وہ سچے کرم یوگی ہیں جو عوامی خدمت ، سماج کی خدمت اور ان سب سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں بے لوث جذبے کے ساتھ مصروف رہتےہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب پدم ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ ایک طرح سے اسے میں بہت بڑی کامیابی مانتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی، میگزین یا اخباروں کے فرنٹ پیج پر نہیں ہیں۔یہ چکاچوند کی دنیا سے دور ہیں لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے نام کی پروا ہ نہیں کرتے بس زمینی سطح پر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ‘یوگہ کرم سو کوشلم ’ گیتا کے پیغام کو وہ ایک طرح سے جیتے ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اڈیشہ کے دیتاری نائیک کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ انہیں کینال مین آف دی اڈیشہ یونہی نہیں کہا جاتا۔ دیتاری نائیک نے اپنے گاؤں میں اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کاٹ کر تین کلو میٹر تک نہر کا راستہ بنادیا۔ اپنی محنت سے سنچائی اور پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دور کردیا۔ گجرات کے عبدالغفور کھتری جی کو ہی لیجیئے، انہوں نے کچھ کے روایتی روغن پیٹنگ کے احیا کا بے مثال کام کیا۔ وہ اس نایاب پیٹنگ کو نئی نسل تک پہچانے کا بڑا کام کررہے ہیں۔ عبدالغفور کے ذریعہ بنائی گئی ‘ٹری آف لائف، فن پارے ’’ کو ہی میں نے امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کو تحفہ میں دیا تھا۔ پدم ایوارڈ پانے والوں میں مراٹھواڑہ کے شبیر سید گئو ماتا کے سیوک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح اپنی پوری زندگی گئو ماتا کی خدمت میں کھپا دی ، یہ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ مدورے چنا پلئی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے تمل ناڈو میں کلن جیئم تحریک کے ذریعہ مصیبت زدوں اور استحصال زدوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی کمیونٹی چھوٹے مالی نظام کی شروعات کی ۔ امریکہ کی ٹاؤپورچون ۔ لینچ کے بارے میں سن کرآپ حیرت سے بھر جائیں گے لینچ آج یوگ کا جیتا جاگتا ادارہ بن گیا ہے۔ سو برس کی عمر میں بھی وہ دنیا بھر کے لوگوں کو یوگ کی ٹریننگ دے رہی ہیں اور اب تک ڈیڑھ ہزار لوگوں کو یوگ ٹیچر بناچکی ہیں۔جھاڑکھنڈ میں لیڈی ٹارزن کے نام سے مشہور جمنا ٹوڈو نے ٹمبر مافیا اور نکسلیوں سے لوہا لینے کا جرات مندانہ کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف پچاس ہیکٹر جنگل کو اجڑنے سے بچایا بلکہ دس ہزار خواتین کو متحد کرکے پیڑوں اور جاندار وں کے تحفظ کے لئے آمادہ کیا۔ یہ جمنا جی کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج گاؤں والے ہر بچے کی پیدائش پر 18 پیڑ اور لڑکی کی شادی پر دس پیڑ لگاتے ہیں۔ گجرات کی مکتا بین پنکج کمار دگلی کہانی آپ کو تحریک سے بھر دے گی۔ خود دیویانگ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دیویانگ خواتین کی ترقی کے لئے جو کام کئے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ چکشو مہیلا سیوا گنج نام کا ادارہ قائم کرکے وہ بینائی سے محروم بچوں کو خود کفیل بنانے کے مقدس کام میں مصروف ہیں۔ بہار کے مظفر پور کی کسان چاچی یینی راج کماری دیو کی کہانی بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ خواتین امپاورمنٹ اور زراعت کو نفع بخش بنانے کی سمت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی ہے۔ کسان چاچی نے اپنے علاقے کی تین سو خواتین کو خود امدادی گروپ سے جوڑا اور اقتصادی اعتبار سے خودکفیل بنانے کے لئے راغب کیا۔ انہوں نے گاؤں کی خواتین کو کھیتی کے ساتھ ہی روزگار کے دیگر وسائل کی ٹریننگ دی۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کھیتی کے ساتھ ٹکنالوجی کوجوڑنے کا کام کیا اور میرے ہم وطنو ، شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس سال جو پدم ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان میں سے بارہ کسانوں کو پدم ایوارڈ ملے ہیں۔ عام طو رپر زرعی شعبے سے وابستہ بہت ہی کم لوگ اور براہ راست زراعت کا کام کرنے والے بہت ہی کم لوگ پدم شری کی فہرست میں آئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلتے ہوئے ہندستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں آج آپ سب کے ساتھ ایک ایسے دل کو چھو لینے والے تجربے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ چند دنوں سے میں محسوس کررہا ہوں۔ آج کل ملک میں جہاں بھی جارہا ہوں ، میری کوشش رہتی ہے کہ ‘ آیوشمان بھارت’ کی اسکیم پی ایم ۔جے اے وائی یعنی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے کچھ مستفدین سے ملاقات کروں۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ اکیلی ماں اس کے چھوٹے بچے ، پیسوں کی کمی کی سبب علاج نہیں کراپارہی تھی۔ اسکیم سے اس کا علاج ہوا اور وہ صحت مند ہوگئی ۔ گھر کا سربراہ ، محتنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے والا حادثہ کا شکا ہوگیا، کام نہیں کرپارہا تھا، اس اسکیم سے اس کو فائدہ ملا اور وہ دوبارہ صحت مند ہوگیا، نئی زندگی جینے لگا۔
بھائیوں-بہنوں! گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران تقریباً 12 لاکھ کنبے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ غریب کی زندگی میں اس سے کتنی تبدیلی آرہی ہے۔ آپ سب بھی اگر کسی بھی ایسے غریب شخص کو جانتے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے علاج نہیں کرا پارہا ہے تو ، اسے اس اسکیم کے بارے میں ضرور بتائیں۔ یہ اسکیم ہر ایسے غریب شخص کے لئے ہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! اسکولوں میں امتحانات کا وقت شروع ہونے والا ہے۔ پورے ملک میں علیحدہ علیحدہ ایجوکیشن بورڈ آئندہ کچھ ہفتوں میں دسویں اور بارہویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کا عمل شروع کردیں گے۔ امتحانات میں شامل ہونے والے تمام طلباء کو ان کے گارجین کو تمام اساتذہ کو میری جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
کچھ قبل دہلی میں ‘پریکشا پہ چرچا ’ کا ایک بہت بڑا انعقاد ٹاؤن ہال کے فارمیٹ میں ہوا ۔ اس ٹاؤن ہال کے پروگرام میں مجھے ٹیکنالوجی کی وساطت سے اندرون اور بیرون ملک کے کروڑوں طلباء کے ساتھ ان کے گارجین، اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ‘پریکشا پہ چرچا’ ، اس کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ امتحان سے متعلق مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی۔کئی ایسے پہلو سامنے آئے کہ یقینی طورپر طلباء کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ تمام طلباء ، ان کے اساتذہ ، والدین یوٹیوب پر اس پروگرام کی پوری ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں تو آنے والے امتحان کے لئے میرے سبھی ایگزام ویریئرز کو ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنوں! بھارت کی بات ہو تو تیوہار کی بات نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید ہی ہمارے ملک میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس کی اہمیت نہ ہو، جس کا کوئی تیوہار نہ ، کیونکہ ہزار وں سال پرانی تہذیب و ثقافت کی وراثت ہمارے پاس ہے۔ کچھ ہی دن بعد مہاشیو راتری کا تیوہار آنے والا اور اس بار تو شیو راتری تو سوموار کو ہے اور جب شیو راتری سوموار کو ہوتو اس کی ایک خاص اہمیت ہمارے دل و ماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اس شیوراتری کے مبارک تیوہار پر میری آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ دن قبل میں کاشی گیا تھا۔ وہاں مجھے دِویانگ بھائی -بہنوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ ان سے کئی موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ان کا اعتماد واقعی متاثر کرنے والا اور تحریک دینے والا تھا۔بات چیت کے دوران ان میں سے ایک نوجوان کے ساتھ جب میں بات کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو ایک اسٹیج آرٹسٹ ہوں۔ میں تفریحی پروگراموں میں می میکری کرتا ہوں، تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کس کی می میکری کرتی ہو تو اس نے بتایا کہ میں پردھان منتری کی می میکری کرتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ذرا کر کے دیکھائیے۔ میرے لیے یہ بڑا خوشگوار اور حیرت انگیز واقع تھا۔ انہوں نے‘ من کی بات’ میں جس طرح میں بات کرتاہوں اسی کی پوری می میکری کی اور من کی بات کی ہی می میکری کی۔ مجھے یہ سن کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ لوگ نہ صرف من کی بات سنتے ہیں، بلکہ اسے کئی موقع پر یاد بھی کرتے ہیں۔ میں سچ مچ اس دویانگ نوجوان کی صلاحیت سے بہت ہی متاثر ہوا۔
میرے پیارے ہم وطنوں! من کی بات پروگرام کے ذریعے میں آپ سب کے ساتھ جڑنا میرے لئے ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے سے میں ایک طرح سے کروڑوں کنبوں کے ساتھ ہر مہینے روبرو ہوتا ہوں۔ کئی بارتو آپ سب سے بات کرتے ، آپ کے خطوط پڑھتے یا آپ کے ذریعے فون پر بھیجے گئے خیالات کو سنتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مان لیا ہے۔ یہ میرے لئے ایک انتہائی خوشگوار تجربہ رہا ہے۔
دوستوں!انتخابات جمہوریت کا سب سے بڑا جشن ہوتا ہے۔ آئندہ دو ماہ ہم سب الیکشن کی گہما گہمی میں مصروف عمل رہیں گے۔ میں خود بھی اس الیکشن میں امیدوار رہوں گا۔ صحت مند جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے اگلا من کی بات مئی مہینے کے آخری اتوار کو ہوگا ۔یعنی مارچ ، اپریل اور مئی کا مہینہ ، ان تینوں مہینے ہمارے جو جذبات ہیں ان سب کو انتخابات کے بعد ایک بار نئے اعتماد کے ساتھ ، آپ کی دعاؤں کی طاقت کے ساتھ پھر ایک بار من کی بات کے ذریعے اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کروں گا اور برسوں تک آپ سے بات چیت کرتا رہوں گا۔ پھر ایک بار آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
पुलवामा के आतंकी हमले में, वीर जवानों की शहादत के बाद देश-भर में लोगों को, और लोगों के मन में, आघात और आक्रोश है: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/72l5s74OuO
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
वीर सैनिकों की शहादत के बाद, उनके परिजनों की जो प्रेरणादायी बातें सामने आयी हैं उसने पूरे देश के हौंसले को और बल दिया है | बिहार के भागलपुर के शहीद रतन ठाकुर के पिता रामनिरंजन जी ने, दुःख की इस घड़ी में भी जिस ज़ज्बे का परिचय दिया है, वह हम सबको प्रेरित करता है : PM
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
जब तिरंगे में लिपटे शहीद विजय शोरेन का शव झारखण्ड के गुमला पहुँचा तो मासूम बेटे ने यही कहा कि मैं भी फौज़ में जाऊँगा | इस मासूम का जज़्बा आज भारतवर्ष के बच्चे-बच्चे की भावना को व्यक्त करता है | ऐसी ही भावनाएँ, हमारे वीर, पराक्रमी शहीदों के घर-घर में देखने को मिल रही हैं : PM
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
हमारा एक भी वीर शहीद इसमें अपवाद नहीं है, उनका परिवार अपवाद नहीं है | चाहे वो देवरिया के शहीद विजय मौर्य का परिवार हो, कांगड़ा के शहीद तिलकराज के माता-पिता हों या फिर कोटा के शहीद हेमराज का छः साल का बेटा हो – शहीदों के हर परिवार की कहानी, प्रेरणा से भरी हुई हैं: PM
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
मैं युवा-पीढ़ी से अनुरोध करूँगा कि वो, इन परिवारों ने जो जज़्बा दिखाया है, जो भावना दिखायी है उसको जानें, समझने का प्रयास करें | देशभक्ति क्या होती है, त्याग-तपस्या क्या होती है – उसके लिए हमें इतिहास की पुरानी घटनाओं की ओर जाने की जरुरत नहीं पड़ेगी : PM
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
मुझे आश्चर्य भी होता था और पीड़ा भी कि भारत में कोई National War Memorial नहीं था | एक ऐसा मेमोरियल, जहाँ राष्ट्र की रक्षा के लिए अपने प्राण न्योछावर करने वाले वीर जवानों की शौर्य-गाथाओं को संजो कर रखा जा सके | मैंने निश्चय किया कि देश में, एक ऐसा स्मारक अवश्य होना चाहिये: PM pic.twitter.com/03B3gs8iO8
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
आज, अगर हमारे नौजवानों को मार्गदर्शन के लिए किसी प्रेरणादायी व्यक्तित्व की जरुरत है तो वह है भगवान ‘बिरसा मुंडा’: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/mDQPW1RUaq
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
जमशेदजी टाटा सही मायने में एक दूरदृष्टा थे, जिन्होंने ना केवल भारत के भविष्य को देखा बल्कि उसकी मजबूत नींव भी रखी: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/Cmd0eAv8fY
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
हमारे देश के पूर्व प्रधानमंत्री मोरारजी भाई देसाई का जन्म 29 फरवरी को हुआ था | सहज, शांतिपूर्ण व्यक्तित्व के धनी, मोरारजी भाई देश के सबसे अनुशासित नेताओं में से थे: PM pic.twitter.com/9h7hMZOgbB
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
मोरारजी भाई देसाई के कार्यकाल के दौरान ही 44वाँ संविधान संशोधन लाया गया |
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
यह महत्वपूर्ण इसलिए है क्योंकि emergency के दौरान जो 42वाँ संशोधन लाया गया था, जिसमें सुप्रीमकोर्ट की शक्तियों को कम करने और दूसरे ऐसे प्रावधान थे, उनको वापिस किया गया: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/UvbjjIRtBz
हर साल की तरह इस बार भी पद्म अवार्ड को लेकर लोगों में बड़ी उत्सुकता थी | आज हम एक न्यू इंडिया की ओर अग्रसर हैं | इसमें हम उन लोगों का सम्मान करना चाहते हैं जो grass-root level पर अपना काम निष्काम भाव से कर रहे हैं: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/7rpJW0vngB
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
मैं आज आप सब के साथ एक ऐसे दिल को छूने वाले अनुभव के बारे में बात करना चाहता हूँ जो पिछले कुछ दिनों से मैं महसूस कर रहा हूँ: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/IuxZzz7MUl
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
मुझे ये सुनकर बहुत अच्छा लगा कि लोग न सिर्फ ‘मन की बात’ सुनते हैं बल्कि उसे कई अवसरों पर याद भी करते हैं: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/DOgBUtCM13
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
अगले दो महीने, हम सभी चुनाव की गहमा-गहमी में व्यस्त होगें | मैं स्वयं भी इस चुनाव में एक प्रत्याशी रहूँगा |
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019
स्वस्थ लोकतांत्रिक परंपरा का सम्मान करते हुए अगली ‘मन की बात’ मई महीने के आखरी रविवार को होगी: PM#MannKiBaat
मार्च, अप्रैल और पूरा मई; ये तीन महीने की सारी हमारी जो भावनाएँ हैं उन सबको मैं चुनाव के बाद एक नए विश्वास के साथ आपके आशीर्वाद की ताकत के साथ फिर एक बार ‘मन की बात’ के माध्यम से हमारी बातचीत के सिलसिले का आरम्भ करूँगा और सालों तक आपसे ‘मन की बात’ करता रहूँगा: PM#MannKiBaat
— PMO India (@PMOIndia) February 24, 2019