We will send you 4 digit OTP to confirm your number
میرے پیارے دیس واسیو ! نمسکار، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کی اجتماعی کوششوں، ملک کی کامیابیوں، لوگوں کی صلاحیتوں کی بات، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کے نوجوانوں کے خوابوں اور ملک کے شہریوں کی امنگوں کی بات۔ میں پورا مہینہ 'من کی بات' کا انتظار کرتا رہتا ہوں تاکہ میں آپ سے براہ راست بات کر سکوں۔ بہت سارے پیغامات، بہت سارے میسیجز! میں اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ پیغامات کو پڑھوں اور آپ کی تجاویز پر غور و خوض کروں۔
دوستو، آج کا دن بہت خاص ہے – آج این سی سی ڈے ہے۔ این سی سی کا نام آتے ہی ہمیں اپنے اسکول اور کالج کے دن یاد آجاتے ہیں۔ میں خود ایک این سی سی کیڈٹ رہا ہوں، اس لیے میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے حاصل ہونے والا تجربہ میرے لیے انمول ہے۔ 'این سی سی' نوجوانوں میں نظم و ضبط، ڈسپلن ،قیادت اور خدمت کا جذبہ ابھارتا ہے۔ آپ نے اپنے آس پاس دیکھا ہوگا، جب بھی کوئی مصیبت وآفات آتی ہے، سیلاب کی صورتحال ہو، زلزلہ ہو، کوئی بھی حادثہ ہو، این سی سی کیڈٹس مدد کے لیے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ آج ملک میں این سی سی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ 2014 میں تقریباً 14 (چودہ) لاکھ نوجوانوں نے این سی سی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب 2024 میں 20 لاکھ سے زیادہ نوجوان این سی سی میں شامل ہو چکے ہیں۔ پہلے کے مقابلے اب پانچ ہزار نئے اسکولوں اور کالجوں میں این سی سی کی سہولت موجود ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے این سی سی میں گرلز کیڈٹس کی تعداد صرف 25 فیصد کے قریب تھی۔ اب این سی سی میں لڑکیوں کی کیڈٹس کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو گئی ہے۔ سرحد پر رہنے والے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کی مہم بھی مسلسل جاری ہے۔ میں نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں این سی سی میں شامل ہوں۔ آپ دیکھیں اور محسوس کریں گے کہ آپ جس بھی کریئر میں جائیں گے، این سی سی آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
دوستو، ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں نوجوانوں کا رول بہت بڑا ہے۔ جب نوجوان ذہن اکٹھے ہوتے ہیں اور ملک کے مستقبل کے سفر کے بارے میں سوچتے ہیں تو ٹھوس راستے ضرور سامنے آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک سوامی وویکانند کی یوم پیدائش 12 جنوری کو 'یوتھ ڈے' مناتا ہے۔ اگلے سال سوامی وویکانند کا 162 واں یوم پیدائش ہے۔ اس بار اسے بہت ہی خاص انداز میں منایا جائے گا۔ اس موقع پر 11-12 جنوری کو دہلی کے بھارت منڈپم میں نوجوانوں کے خیالات کا ایک مہاکمبھ منعقد ہونے جا رہا ہے، اور اس اقدام کا نام 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ' ہے۔ اس میں ہندوستان بھر سے کروڑوں نوجوان حصہ لیں گے۔ گاؤں، بلاک، ضلع، ریاست اور وہاں سے منتخب کیے گئے ایسے دو ہزار نوجوان 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ' کے لیے ہندوستان منڈپم میں جمع ہوں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لال قلعہ کی فصیل سے میں نے ایسے نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، جن کا کوئی بھی خاندان یا پورا خاندان سیاسی پس منظر نہیں رکھتا، ایسے لاکھوں نئے نوجوانوں کو سیاست سے جوڑتا ہوں اوراس کے لیے ملک بھر میں خصوصی مہم چلائی جائے گی۔ 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ'بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اس میں ہندوستان اور بیرون ملک سے ماہرین آئیں گے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی نامور شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ میں بھی اس میں ہر ممکن حد تک حاضر رہوں گا۔ نوجوانوں کو اپنے خیالات آئیڈیاز براہ راست ہمارے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ ملک ان خیالات کو کیسے آگے لے جا سکتا ہے؟ ایک ٹھوس روڈ میپ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا جائے گا، تو تیار ہو جائیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بڑا موقع ہے جو ہندوستان کا مستقبل بنانے جا رہے ہیں، جو ملک کی آنے والی نسل ہیں۔ ان کے لئے ایک بڑا موقع ہے۔ آئیں مل کر ملک بنائیں اور ملک کو ترقی یافتہ بنائیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ’من کی بات‘ میں ہم اکثر ایسے نوجوانوں پر بات کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو معاشرے کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی مدد یا معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کچھ نوجوانوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گروپ بنائے ہیں، جیسے کہ لکھنؤ کے رہنے والے ویرندر، جو ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ کے کام میں بزرگوں کی مدد کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ قاعدے کے مطابق تمام پنشنرز کو سال میں ایک بار لائف سرٹیفکیٹ جمع کروانا پڑتا ہے۔ 2014 تک اس کا عمل یہ تھا کہ بزرگوں کو خود بینکوں میں جا کر جمع کروانا پڑتا تھا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے ہمارے بزرگوں کو کتنی تکلیف اور پریشانی ہوتی تھی۔ اب یہ نظام بدل چکا ہے۔ اب ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ دینے سے چیزیں بہت آسان ہو گئی ہیں۔بزرگوں کواب بینک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویرندر جیسے نوجوانوں کا اس بات کو یقینی بنانے میں بڑا کردار ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے بزرگوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ اپنے علاقے کے بزرگوں کو اس بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ بزرگوں کو بھی 'ٹیک سیوی'بھی بنا رہے ہیں، اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے آج ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 80 (اسی)لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے دو لاکھ سے زیادہ ایسے بزرگ ہیں جو 80 (اسی) سال کی عمر کو عبور کر چکے ہیں۔
دوستو، کئی شہروں میں 'نوجوان' بھی ڈجیٹل انقلاب میں بزرگوں کو شراکت دار بنانے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ بھوپال کے مہیش نے اپنے علاقے کے کئی بزرگوں کو موبائل کے ذریعے ادائیگی کرنا سکھایا ہے۔ ان بزرگوں کے پاس اسمارٹ فون تھا لیکن اس کا صحیح استعمال بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ بزرگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے بچانے کے لیے نوجوان بھی آگے آئے ہیں۔ احمد آباد سے راجیو نے لوگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے خبردار کیا۔ میں نے ’من کی بات‘ کے گزشتہ ایپی سوڈ میں ڈجیٹل اریسٹ پر بات کی تھی۔ اس قسم کے جرائم کا سب سے بڑا شکار بوڑھے اور بزرگ ہی بنتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آگاہ کریں اور سائبر فراڈ سے بچنے میں ان کی مدد کریں۔ ہمیں بار بار لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ حکومت میں ڈجیٹل اریسٹ نام کی کوئی گنجائش نہیں ہے - یہ ایک کھلا جھوٹ ہے، لوگوں کو پھنسانے کی سازش ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان دوست اس کام میں پوری سنجیدگی اور انتہائی پانمردی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک دے رہے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ان دنوں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے طرح طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھیں اور کتابوں سے ان کی محبت میں اضافہ ہو- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 'کتابیں' انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ اور اب اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے لائبریری سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ چنئی کی ایک مثال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں بچوں کے لیے ایک لائبریری تیار کی گئی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں اور سیکھنے کا مرکز بن چکی ہے۔ اسے 'پرکرت اریوگم'کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لائبریری کی بنیاد جناب رام گوپالن جی نے رکھا ہے، جو ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ بیرون ملک کام کے دوران وہ جدید ٹیکنالوجی کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن، وہ بچوں میں پڑھنے اور سیکھنے کی عادت پیدا کرنے کے بارے میں بھی غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے 'پرکرت اریوگم' تیار کیا۔ اس میں تین ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جنہیں پڑھنے کے لیے بچے مقابلہ آرائی کرتے رہتے ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ کئی طرح کی سرگرمیاں بھی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ کہانی سنانے کے سیشنز ہوں، آرٹ ورکشاپس ہوں، میموری ٹریننگ کلاسز ہوں، روبوٹکس کے اسباق ہوں یا پبلک اسپیکنگ- ہر ایک کے لیے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے، جو بچوں کو پسند آتا ہے۔
دوستو، ’فوڈ فار تھاٹ‘ فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے حیدرآباد میں کئی شاندار لائبریریاں بنائی ہیں۔ ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ موضوعات پر ٹھوس معلومات کے ساتھ کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ بہار کے ضلع گوپال گنج کی 'پریوگ لائبریری' آس پاس کے کئی شہروں میں زیر بحث آنے لگی ہے۔ اس لائبریری سے تقریباً 12 دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولت ملنا شروع ہو گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ لائبریری مطالعہ میں مدد کے لیے دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔ کچھ لائبریریاں ایسی ہیں جو طلبا و طالبات کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بہت مفید و فائدہ مند ہیں۔ یہ دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہوئی کہ آج لائبریری معاشرے کو بااختیار بنانے میں بہت اچھے طریقے سے استعمال ہو رہی ہے۔ آپ بھی کتابوں سے دوستی پیدا کریں، اور دیکھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، میں کل رات جنوبی امریکہ کے ملک گیانا سے واپس آیا ہوں۔ ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور گیانا میں ایک 'منی انڈیا' بھی آبادہے۔ تقریباً 180 (ایک سو اسی) سال پہلے ہندوستان سے لوگوں کو کھیتوں میں اور دیگر کاموں کے لیے گیانا لے جایا گیا تھا۔ آج گیانا میں ہندوستانی نژاد لوگ سیاست، کاروبار، تعلیم اور ثقافت کے ہر میدان میں گیانا کی قیادت کر رہے ہیں۔ گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی بھی ہندوستانی نژاد ہیں اور انہیں اپنے ہندوستانی ورثے پر فخر ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا جسے میں آپ کے ساتھ ’من کی بات‘ میں شیئر کر رہا ہوں۔ گیانا کی طرح دنیا کے درجنوں ممالک میں لاکھوں ہندوستانی آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد کی دہائیوں سے یعنی 200-300 سال پہلے کی اپنی کہانیاں ہیں۔ کیا آپ ان کی کہانیاں تلاش کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی تارکین وطن نے مختلف ممالک میں اپنی شناخت کیسے بنائی! وہاں انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں کیسے حصہ لیا! انہوں نے اپنے ہندوستانی ورثے کو کیسے زندہ رکھا؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ ایسی سچی کہانیاں تلاش کریں، اور انہیں میرے ساتھ شیئر کریں۔ آپ ان کہانیوں کو نمو ایپ یامائی گو پر #IndianDiasporaStories کے ساتھ بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
دوستو، آپ کو عمان میں جاری ایک غیر معمولی پروجیکٹ بھی بہت دلچسپ لگے گا۔ کئی ہندوستانی خاندان صدیوں سے عمان میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گجرات کے ضلع کچھ سے جاکر آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تجارت کے اہم روابط بنائے تھے۔ آج بھی ان کے پاس عمانی شہریت ہے، لیکن ہندوستانیت ان کی رگوں میں ہے۔ عمان میں ہندوستانی سفارت خانہ اور ہندوستان کے نیشنل آرکائیوز کے تعاون سے ایک ٹیم نے ان خاندانوں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس مہم کے تحت اب تک ہزاروں دستاویزات جمع کی جا چکی ہیں۔ ان میں ڈائری، اکاؤنٹ بک، لیجر، خطوط اور ٹیلی گرام شامل ہیں۔ ان دستاویزات میں سے کچھ سن 1838 کے بھی ہیں۔ یہ دستاویزات جذبات سے بھری ہوئی ہیں۔ برسوں پہلے جب وہ عمان پہنچے تو انہوں نے کس قسم کی زندگی گزاری، کس طرح کی خوشیوں اور غموں کا سامنا کیا اور عمان کے لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے پروان چڑھے، یہ سب ان دستاویزات کا حصہ ہے۔ ’اورل ہسٹری پروجیکٹ‘ بھی اس مشن کی ایک اہم بنیاد ہے۔ وہاں کے سینئر لوگوں نے اس مشن میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ لوگوں نے اپنے وہاں رہنے سے متعلق باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں۔
دوستو، اسی طرح کا 'اورل ہسٹری پروجیکٹ' ہندوستان میں بھی چل رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تاریخ سے محبت کرنے والے ملک کی تقسیم کے دوران متاثرین کے تجربات کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ اب ملک میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے تقسیم کی ہولناکی دیکھی ہے۔ ایسے میں یہ کوشش مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
دوستو، جو ملک، جومقام، اورجو اپنی تاریخ کو سنوارتا ہے، اس کا مستقبل بھی محفوظ رہتا ہے۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک کوشش کی گئی ہے جس میں دیہات کی تاریخ کو محفوظ کرنے والی ایک ڈائرکٹری بنائی گئی ہے۔ ہندوستان کی سمندری سفر کی قدیم صلاحیت سے متعلق شواہد کو بچانے کی مہم بھی ملک میں چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں لوتھل میں ایک بہت بڑا عجائب گھر-میوزیم بھی بنایا جا رہا ہے، اگر آپ کے پاس کوئی مخطوطہ، کوئی تاریخی دستاویز، کوئی ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے تو آپ اسے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا(این اے آئی) کی مدد سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
دوستو، مجھے سلوواکیہ میں ہونے والی ایسی ہی ایک اور کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے جس کا تعلق ہماری ثقافت کے تحفظ اور فروغ سے ہے۔ یہاں پہلی بار ہمارے اپنشدوں کا سلوواک زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ کوششیں ہندوستانی ثقافت کے عالمی اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ہم سب ہندوستانیوں کے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہیں جن کے دلوں میں ہندوستان بستا ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، اب میں آپ کے ساتھ ملک کا ایک ایسا کارنامہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جسے سن کر آپ خوشی اور فخرو انبساط محسوس کریں گے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو شاید آپ کو پچھتا نا بھی پڑے۔ کچھ مہینے پہلے ہم نے 'ایک پیڑ ماں کے نام' سے مہم شروع کی تھی۔ اس مہم میں ملک بھر سے لوگوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس مہم نے 100 کروڑ درخت لگانے کا اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ایک سو کروڑ درخت، وہ بھی صرف پانچ مہینوں میں - یہ ہمارے ہم وطنوں کی انتھک جدو جہد اورکوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس سے متعلق ایک اور بات جان کر آپ کو فخر ہو گاکہ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم اب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میں نے وہاں بھی اس مہم کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہاں میں گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی، ان کی اہلیہ کی والدہ اور باقی خاندان کے ساتھ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم میں شامل ہوا۔
دوستو، یہ مہم ملک کے مختلف حصوں میں مسلسل جاری ہے۔ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم کے تحت مدھیہ پردیش کے اندور میں درخت لگانے کا ریکارڈ بنایا گیا ہے - یہاں 24 گھنٹے میں 12 (بارہ) لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے۔ اس مہم کی وجہ سے اندور کی ریوتی پہاڑیوں کے بنجر علاقے اب گرین زون میں تبدیل ہو جائیں گے۔ راجستھان کے جیسلمیر میں اس مہم کے ذریعے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا گیا- یہاں خواتین کی ٹیم نے ایک گھنٹے میں 25 (پچیس) ہزار درخت لگائے۔ ماؤں نے اپنی ماں کے نام پر درخت لگائے اور دوسروں کو بھی متاثر کیا اور تحریک دی۔ یہاں پانچ ہزار(5000) سے زائد لوگوں نے مل کر ایک جگہ درخت لگائے - یہ بھی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ' ایک پیڑ ماں کے نام ' مہم کے تحت کئی سماجی تنظیمیں مقامی ضروریات کے مطابق درخت لگا رہی ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ جہاں درخت لگائے جائیں وہاں پورا ایکو سسٹم ماحول دوست انداز میں فروغ پاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں کچھ مقامات پر دواؤں کے پودے لگا رہی ہیں اور دوسری جگہ پر پرندوں کے گھونسلے بنانے کے لیے درخت لگا رہی ہیں۔ بہار میں ’جیویکا سیلف ہیلپ گروپ‘ کی خواتین 75 (پچھہتر) لاکھ درخت لگانے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان خواتین کی توجہ پھل دار درختوں پر ہے، تاکہ وہ مستقبل میں آمدنی حاصل کر سکیں۔
دوستو، اس مہم میں شامل ہو کر کوئی بھی شخص اپنی ماں کے نام پر درخت لگا سکتا ہے۔ اگر آپ کی والدہ آپ کے ساتھ ہیں تو آپ انہیں ساتھ لے کر درخت لگا سکتے ہیں، ورنہ آپ ان کی تصویر اپنے ساتھ لے کر اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ درخت کے ساتھ اپنی سیلفی مائی گو ڈاٹ ان پر بھی پوسٹ کر سکتے ہیں۔ ہم ماں کا قرض کبھی نہیں ادا کرسکتے جو وہ ہمارے لیے کرتی ہیں، لیکن ان کے نام پر درخت لگا کر ہم ان کی یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ سب نے بچپن میں اپنے گھر کی چھت پر یا درختوں پر چڑیوں کو چہچہاتے دیکھا ہوگا۔ چڑیا کو تمل اور ملیالم میں 'کرووی'، تیلگو میں 'پچوکا' اور کنڑ میں 'گوبی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر زبان اور ثقافت میں چڑیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ چڑیاں ہمارے اردگرد حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن آج کل شہروں میں چڑیاں کم ہی نظر آتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی شہری کاری کی وجہ سے چڑیا ہم سے دور ہو گئی ہے۔ آج کی نسل کے بہت سے ایسے بچے ہیں جنہوں نے چڑیوں کو صرف تصویروں یا ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ ایسے بچوں کی زندگی میں اس خوبصورت پرندے کو واپس لانے کے لیے کچھ انوکھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چنئی کے کوڈوگل ٹرسٹ نے چڑیوں کی آبادی بڑھانے کے لیے اپنی مہم میں اسکول کے بچوں کو شامل کیا ہے۔ اس ادارے کے لوگ اسکول جا کر بچوں کو بتاتے ہیں کہ چڑیا روزمرہ کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ یہ ادارے بچوں کو چڑیوں کا گھونسلہ بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے لیے ادارے کے لوگوں نے بچوں کو لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنانا سکھایا۔ اس میں چڑیوں کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ وہ گھر ہیں جو کسی بھی عمارت کی بیرونی دیوار یا درخت پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بچوں نے اس مہم میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور بڑی تعداد میں چڑیوں کے گھونسلے بنانا شروع کر دیئے۔ گزشتہ چار برسوں میں تنظیم نے چڑیوں کے لیے ایسے دس ہزار گھونسلے تیار کیے ہیں۔ کوڈوگل ٹرسٹ کے اس اقدام کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں چڑیوں کی آبادی بڑھنے لگی ہے۔ اگر آپ بھی اپنے اردگرد ایسی کوششیں اور اقدام کریں تو چڑیاں ضرور دوبارہ ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔
دوستو، کرناٹک کے میسورمیں ایک تنظیم نے بچوں کے لیے ’ارلی برڈ‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔ یہ تنظیم بچوں کو پرندوں کے بارے میں بتانے کے لیے ایک خاص قسم کی لائبریری چلاتی ہے۔ یہی نہیں بچوں میں فطرت کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے 'نیچر ایجوکیشن کٹ' تیار کی گئی ہے۔ اس کٹ میں بچوں کے لیے کہانی کی کتاب، گیمز، ایکٹی وٹی شیٹس اور جگ-سا- پزلز(پہیلیاں) شامل ہیں۔ یہ تنظیم شہر کے بچوں کو دیہات میں لے جاتی ہے اور انہیں پرندوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ اس تنظیم کی کوششوں سے بچوں نے پرندوں کی کئی اقسام کو پہچاننا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے ذریعے ’من کی بات‘ کے سننے والے بچوں میں اپنے اردگرد کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک مختلف انداز بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جیسے ہی کوئی 'سرکاری دفتر' کہتا ہے، آپ کے ذہن میں فائلوں کے ڈھیر کی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ آپ نے فلموں میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھا ہوگا۔ سرکاری دفاتر میں ان فائلوں کے ڈھیروں پر بہت سے لطیفے گڑھے گئے اور کتنی ہی کہانیاں لکھی گئیں۔ برسوں سے یہ فائلیں دفتر میں پڑی تھیں اور دھول سے اٹی ہوئی تھیں، وہیں گندی ہونے لگیں- ایسی دہائیوں پرانی فائلوں اور اسکریپ کو ہٹانے کے لیے خصوصی صفائی مہم چلائی گئی۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس مہم کے سرکاری محکموں میں حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ صفائی کی وجہ سے دفاتر میں کافی جگہ خالی ہو گئی ہے۔ اس سے دفتر میں کام کرنے والوں میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے کام کی جگہ کو صاف ستھرا رکھنے کی سنجیدگی بھی پیدا کی ہے۔
دوستو، آپ نے اکثر بزرگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ جہاں صفائی ہوتی ہے، وہاں لکشمی دیوی رہتی ہے۔ یہاں 'کچرے سے کچن' کا خیال بہت پرانا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں 'نوجوان' فضول سمجھی جانے والی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے کچرے سے 'کنچن' بنا رہے ہیں۔ طرح طرح کی اختراعات کی جا رہی ہیں۔ اس سے وہ پیسہ کما رہے ہیں اور روزگار کے ذرائع تیار کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی کوششوں سے پائیدار طرز زندگی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ممبئی کی دو بیٹیوں کی یہ کوشش واقعی بہت متاثر کن ہے۔ اکشرا اور پرکرتی نام کی یہ دونوں بیٹیاں کلپنگ سے فیشن آئٹمز بنا رہی ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کپڑوں کی کٹائی اور سلائی کے دوران جو تراشیں نکلتی ہیں وہ بیکار سمجھ کر پھینک دی جاتی ہیں۔ اکشرا اور پرکرتی کی ٹیم اسی لباس کے فضلے کو فیشن کی مصنوعات میں تبدیل کرتی ہے۔ تراشوں سے بنی ٹوپیاں اور تھیلے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
دوستو، اترپردیش کے کانپور میں بھی صفائی کے حوالے سے اچھے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ ہر صبح مارننگ واک پر نکلتے ہیں اور گنگا کے گھاٹوں پر پھیلا ہوا پلاسٹک اور دیگر فضلہ جمع کرتے ہیں۔ اس گروپ کا نام 'کانپور پلاگرس گروپ' رکھا گیا ہے۔ یہ مہم کچھ دوستوں نے مل کر شروع کی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ عوامی شرکت کی ایک بڑی مہم بن گئی ہے اور شہر کے بہت سے لوگ اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے ارکان نے اب دکانوں اور گھروں سے بھی کچرا اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اس کچرے سے ری سائیکل پلانٹ میں ٹری گارڈز تیار کیے جاتے ہیں، یعنی اس گروپ کے لوگ کچرے سے بنائے گئے ٹری گارڈز سے پودوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
دوستو، آسام کی اتیشا اس بات کی ایک مثال ہے کہ چھوٹی چھوٹی کوششوں سے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتیشا کی تعلیم دہلی اور پونے میں ہوئی تھی۔ اتیشا نے کارپوریٹ دنیا کی چمک دمک اور گلیمر کو خیر باد کہہ دیا اور اروناچل پردیش کی سانگتی وادی کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔ سیاحوں کی وجہ سے وہاں پلاسٹک کا بہت سا کچرا جمع ہونے لگاتھا۔ وہاں کا دریا جو کبھی بہت صاف ستھرا تھا پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے آلودہ ہو چکا تھا۔ اتیشا مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اسے صاف کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کے گروپ کے لوگ وہاں آنے والے سیاحوں کو آگاہ کرتے ہیں اور پوری وادی میں پلاسٹک کا کچرا جمع کرنے کے لیے بانس سے بنے ڈسٹ بن لگاتے ہیں۔
دوستو، ایسی کوششوں سے ہندوستان کی صفائی مہم کو تقویت ملتی ہے۔ یہ ایک جاری رہنے والی مہم ہے۔ یہ آپ کے ارد گرد بھی ہو رہا ہوگا۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔
دوستو، 'من کی بات' کے اس ایپی سوڈ میں ابھی کے لیے اتنا ہی ہے۔ میں پورے مہینے آپ کے جوابات، خطوط اور تجاویز کا منتظر رہتاہوں۔ ہر ماہ آنے والے آپ کے پیغامات مجھے بہتر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم اگلے ماہ 'من کی بات' کے ایک اور شمارے میں دوبارہ ملیں گے - ملک اور ہم وطنوں کی نئی کامیابیوں کے ساتھ، تب تک آپ تمام ہم وطنوں کے لیے میری نیک خواہشات۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے دیس واسیو ! نمسکار، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کی اجتماعی کوششوں، ملک کی کامیابیوں، لوگوں کی صلاحیتوں کی بات، ’من کی بات‘ کا مطلب ہے ملک کے نوجوانوں کے خوابوں اور ملک کے شہریوں کی امنگوں کی بات۔ میں پورا مہینہ 'من کی بات' کا انتظار کرتا رہتا ہوں تاکہ میں آپ سے براہ راست بات کر سکوں۔ بہت سارے پیغامات، بہت سارے میسیجز! میں اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ پیغامات کو پڑھوں اور آپ کی تجاویز پر غور و خوض کروں۔
دوستو، آج کا دن بہت خاص ہے – آج این سی سی ڈے ہے۔ این سی سی کا نام آتے ہی ہمیں اپنے اسکول اور کالج کے دن یاد آجاتے ہیں۔ میں خود ایک این سی سی کیڈٹ رہا ہوں، اس لیے میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سے حاصل ہونے والا تجربہ میرے لیے انمول ہے۔ 'این سی سی' نوجوانوں میں نظم و ضبط، ڈسپلن ،قیادت اور خدمت کا جذبہ ابھارتا ہے۔ آپ نے اپنے آس پاس دیکھا ہوگا، جب بھی کوئی مصیبت وآفات آتی ہے، سیلاب کی صورتحال ہو، زلزلہ ہو، کوئی بھی حادثہ ہو، این سی سی کیڈٹس مدد کے لیے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ آج ملک میں این سی سی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ 2014 میں تقریباً 14 (چودہ) لاکھ نوجوانوں نے این سی سی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب 2024 میں 20 لاکھ سے زیادہ نوجوان این سی سی میں شامل ہو چکے ہیں۔ پہلے کے مقابلے اب پانچ ہزار نئے اسکولوں اور کالجوں میں این سی سی کی سہولت موجود ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پہلے این سی سی میں گرلز کیڈٹس کی تعداد صرف 25 فیصد کے قریب تھی۔ اب این سی سی میں لڑکیوں کی کیڈٹس کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو گئی ہے۔ سرحد پر رہنے والے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کی مہم بھی مسلسل جاری ہے۔ میں نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں این سی سی میں شامل ہوں۔ آپ دیکھیں اور محسوس کریں گے کہ آپ جس بھی کریئر میں جائیں گے، این سی سی آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
دوستو، ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں نوجوانوں کا رول بہت بڑا ہے۔ جب نوجوان ذہن اکٹھے ہوتے ہیں اور ملک کے مستقبل کے سفر کے بارے میں سوچتے ہیں تو ٹھوس راستے ضرور سامنے آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک سوامی وویکانند کی یوم پیدائش 12 جنوری کو 'یوتھ ڈے' مناتا ہے۔ اگلے سال سوامی وویکانند کا 162 واں یوم پیدائش ہے۔ اس بار اسے بہت ہی خاص انداز میں منایا جائے گا۔ اس موقع پر 11-12 جنوری کو دہلی کے بھارت منڈپم میں نوجوانوں کے خیالات کا ایک مہاکمبھ منعقد ہونے جا رہا ہے، اور اس اقدام کا نام 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ' ہے۔ اس میں ہندوستان بھر سے کروڑوں نوجوان حصہ لیں گے۔ گاؤں، بلاک، ضلع، ریاست اور وہاں سے منتخب کیے گئے ایسے دو ہزار نوجوان 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ' کے لیے ہندوستان منڈپم میں جمع ہوں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لال قلعہ کی فصیل سے میں نے ایسے نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، جن کا کوئی بھی خاندان یا پورا خاندان سیاسی پس منظر نہیں رکھتا، ایسے لاکھوں نئے نوجوانوں کو سیاست سے جوڑتا ہوں اوراس کے لیے ملک بھر میں خصوصی مہم چلائی جائے گی۔ 'ترقی یافتہ انڈیا ینگ لیڈرز ڈائیلاگ'بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ اس میں ہندوستان اور بیرون ملک سے ماہرین آئیں گے۔ کئی ملکی اور بین الاقوامی نامور شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ میں بھی اس میں ہر ممکن حد تک حاضر رہوں گا۔ نوجوانوں کو اپنے خیالات آئیڈیاز براہ راست ہمارے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ ملک ان خیالات کو کیسے آگے لے جا سکتا ہے؟ ایک ٹھوس روڈ میپ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا جائے گا، تو تیار ہو جائیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بڑا موقع ہے جو ہندوستان کا مستقبل بنانے جا رہے ہیں، جو ملک کی آنے والی نسل ہیں۔ ان کے لئے ایک بڑا موقع ہے۔ آئیں مل کر ملک بنائیں اور ملک کو ترقی یافتہ بنائیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ’من کی بات‘ میں ہم اکثر ایسے نوجوانوں پر بات کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو معاشرے کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی طرح کی مدد یا معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کچھ نوجوانوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گروپ بنائے ہیں، جیسے کہ لکھنؤ کے رہنے والے ویرندر، جو ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ کے کام میں بزرگوں کی مدد کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ قاعدے کے مطابق تمام پنشنرز کو سال میں ایک بار لائف سرٹیفکیٹ جمع کروانا پڑتا ہے۔ 2014 تک اس کا عمل یہ تھا کہ بزرگوں کو خود بینکوں میں جا کر جمع کروانا پڑتا تھا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے ہمارے بزرگوں کو کتنی تکلیف اور پریشانی ہوتی تھی۔ اب یہ نظام بدل چکا ہے۔ اب ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ دینے سے چیزیں بہت آسان ہو گئی ہیں۔بزرگوں کواب بینک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویرندر جیسے نوجوانوں کا اس بات کو یقینی بنانے میں بڑا کردار ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے بزرگوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ اپنے علاقے کے بزرگوں کو اس بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ بزرگوں کو بھی 'ٹیک سیوی'بھی بنا رہے ہیں، اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے آج ڈجیٹل لائف سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں کی تعداد 80 (اسی)لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے دو لاکھ سے زیادہ ایسے بزرگ ہیں جو 80 (اسی) سال کی عمر کو عبور کر چکے ہیں۔
دوستو، کئی شہروں میں 'نوجوان' بھی ڈجیٹل انقلاب میں بزرگوں کو شراکت دار بنانے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ بھوپال کے مہیش نے اپنے علاقے کے کئی بزرگوں کو موبائل کے ذریعے ادائیگی کرنا سکھایا ہے۔ ان بزرگوں کے پاس اسمارٹ فون تھا لیکن اس کا صحیح استعمال بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ بزرگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے بچانے کے لیے نوجوان بھی آگے آئے ہیں۔ احمد آباد سے راجیو نے لوگوں کو ڈجیٹل اریسٹ کے خطرے سے خبردار کیا۔ میں نے ’من کی بات‘ کے گزشتہ ایپی سوڈ میں ڈجیٹل اریسٹ پر بات کی تھی۔ اس قسم کے جرائم کا سب سے بڑا شکار بوڑھے اور بزرگ ہی بنتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آگاہ کریں اور سائبر فراڈ سے بچنے میں ان کی مدد کریں۔ ہمیں بار بار لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ حکومت میں ڈجیٹل اریسٹ نام کی کوئی گنجائش نہیں ہے - یہ ایک کھلا جھوٹ ہے، لوگوں کو پھنسانے کی سازش ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نوجوان دوست اس کام میں پوری سنجیدگی اور انتہائی پانمردی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک دے رہے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، ان دنوں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے طرح طرح کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھیں اور کتابوں سے ان کی محبت میں اضافہ ہو- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 'کتابیں' انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں۔ اور اب اس دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے لائبریری سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ چنئی کی ایک مثال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں بچوں کے لیے ایک لائبریری تیار کی گئی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں اور سیکھنے کا مرکز بن چکی ہے۔ اسے 'پرکرت اریوگم'کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لائبریری کی بنیاد جناب رام گوپالن جی نے رکھا ہے، جو ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ بیرون ملک کام کے دوران وہ جدید ٹیکنالوجی کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن، وہ بچوں میں پڑھنے اور سیکھنے کی عادت پیدا کرنے کے بارے میں بھی غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے 'پرکرت اریوگم' تیار کیا۔ اس میں تین ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جنہیں پڑھنے کے لیے بچے مقابلہ آرائی کرتے رہتے ہیں۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ کئی طرح کی سرگرمیاں بھی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ کہانی سنانے کے سیشنز ہوں، آرٹ ورکشاپس ہوں، میموری ٹریننگ کلاسز ہوں، روبوٹکس کے اسباق ہوں یا پبلک اسپیکنگ- ہر ایک کے لیے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے، جو بچوں کو پسند آتا ہے۔
دوستو، ’فوڈ فار تھاٹ‘ فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے حیدرآباد میں کئی شاندار لائبریریاں بنائی ہیں۔ ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ موضوعات پر ٹھوس معلومات کے ساتھ کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ بہار کے ضلع گوپال گنج کی 'پریوگ لائبریری' آس پاس کے کئی شہروں میں زیر بحث آنے لگی ہے۔ اس لائبریری سے تقریباً 12 دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولت ملنا شروع ہو گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ لائبریری مطالعہ میں مدد کے لیے دیگر ضروری سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔ کچھ لائبریریاں ایسی ہیں جو طلبا و طالبات کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بہت مفید و فائدہ مند ہیں۔ یہ دیکھ کر واقعی بہت خوشی ہوئی کہ آج لائبریری معاشرے کو بااختیار بنانے میں بہت اچھے طریقے سے استعمال ہو رہی ہے۔ آپ بھی کتابوں سے دوستی پیدا کریں، اور دیکھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بدلتی ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، میں کل رات جنوبی امریکہ کے ملک گیانا سے واپس آیا ہوں۔ ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور گیانا میں ایک 'منی انڈیا' بھی آبادہے۔ تقریباً 180 (ایک سو اسی) سال پہلے ہندوستان سے لوگوں کو کھیتوں میں اور دیگر کاموں کے لیے گیانا لے جایا گیا تھا۔ آج گیانا میں ہندوستانی نژاد لوگ سیاست، کاروبار، تعلیم اور ثقافت کے ہر میدان میں گیانا کی قیادت کر رہے ہیں۔ گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی بھی ہندوستانی نژاد ہیں اور انہیں اپنے ہندوستانی ورثے پر فخر ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا جسے میں آپ کے ساتھ ’من کی بات‘ میں شیئر کر رہا ہوں۔ گیانا کی طرح دنیا کے درجنوں ممالک میں لاکھوں ہندوستانی آباد ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد کی دہائیوں سے یعنی 200-300 سال پہلے کی اپنی کہانیاں ہیں۔ کیا آپ ان کی کہانیاں تلاش کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی تارکین وطن نے مختلف ممالک میں اپنی شناخت کیسے بنائی! وہاں انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں کیسے حصہ لیا! انہوں نے اپنے ہندوستانی ورثے کو کیسے زندہ رکھا؟ میں چاہتا ہوں کہ آپ ایسی سچی کہانیاں تلاش کریں، اور انہیں میرے ساتھ شیئر کریں۔ آپ ان کہانیوں کو نمو ایپ یامائی گو پر #IndianDiasporaStories کے ساتھ بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
دوستو، آپ کو عمان میں جاری ایک غیر معمولی پروجیکٹ بھی بہت دلچسپ لگے گا۔ کئی ہندوستانی خاندان صدیوں سے عمان میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گجرات کے ضلع کچھ سے جاکر آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے تجارت کے اہم روابط بنائے تھے۔ آج بھی ان کے پاس عمانی شہریت ہے، لیکن ہندوستانیت ان کی رگوں میں ہے۔ عمان میں ہندوستانی سفارت خانہ اور ہندوستان کے نیشنل آرکائیوز کے تعاون سے ایک ٹیم نے ان خاندانوں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس مہم کے تحت اب تک ہزاروں دستاویزات جمع کی جا چکی ہیں۔ ان میں ڈائری، اکاؤنٹ بک، لیجر، خطوط اور ٹیلی گرام شامل ہیں۔ ان دستاویزات میں سے کچھ سن 1838 کے بھی ہیں۔ یہ دستاویزات جذبات سے بھری ہوئی ہیں۔ برسوں پہلے جب وہ عمان پہنچے تو انہوں نے کس قسم کی زندگی گزاری، کس طرح کی خوشیوں اور غموں کا سامنا کیا اور عمان کے لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے پروان چڑھے، یہ سب ان دستاویزات کا حصہ ہے۔ ’اورل ہسٹری پروجیکٹ‘ بھی اس مشن کی ایک اہم بنیاد ہے۔ وہاں کے سینئر لوگوں نے اس مشن میں اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ لوگوں نے اپنے وہاں رہنے سے متعلق باتیں تفصیل سے بیان کی ہیں۔
دوستو، اسی طرح کا 'اورل ہسٹری پروجیکٹ' ہندوستان میں بھی چل رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تاریخ سے محبت کرنے والے ملک کی تقسیم کے دوران متاثرین کے تجربات کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ اب ملک میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے تقسیم کی ہولناکی دیکھی ہے۔ ایسے میں یہ کوشش مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
دوستو، جو ملک، جومقام، اورجو اپنی تاریخ کو سنوارتا ہے، اس کا مستقبل بھی محفوظ رہتا ہے۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک کوشش کی گئی ہے جس میں دیہات کی تاریخ کو محفوظ کرنے والی ایک ڈائرکٹری بنائی گئی ہے۔ ہندوستان کی سمندری سفر کی قدیم صلاحیت سے متعلق شواہد کو بچانے کی مہم بھی ملک میں چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں لوتھل میں ایک بہت بڑا عجائب گھر-میوزیم بھی بنایا جا رہا ہے، اگر آپ کے پاس کوئی مخطوطہ، کوئی تاریخی دستاویز، کوئی ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے تو آپ اسے نیشنل آرکائیوز آف انڈیا(این اے آئی) کی مدد سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
دوستو، مجھے سلوواکیہ میں ہونے والی ایسی ہی ایک اور کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے جس کا تعلق ہماری ثقافت کے تحفظ اور فروغ سے ہے۔ یہاں پہلی بار ہمارے اپنشدوں کا سلوواک زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ کوششیں ہندوستانی ثقافت کے عالمی اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ یہ ہم سب ہندوستانیوں کے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہیں جن کے دلوں میں ہندوستان بستا ہے۔
میرے پیارے دیس واسیو، اب میں آپ کے ساتھ ملک کا ایک ایسا کارنامہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جسے سن کر آپ خوشی اور فخرو انبساط محسوس کریں گے اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو شاید آپ کو پچھتا نا بھی پڑے۔ کچھ مہینے پہلے ہم نے 'ایک پیڑ ماں کے نام' سے مہم شروع کی تھی۔ اس مہم میں ملک بھر سے لوگوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس مہم نے 100 کروڑ درخت لگانے کا اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ایک سو کروڑ درخت، وہ بھی صرف پانچ مہینوں میں - یہ ہمارے ہم وطنوں کی انتھک جدو جہد اورکوششوں سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس سے متعلق ایک اور بات جان کر آپ کو فخر ہو گاکہ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم اب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے۔ جب میں گیانا میں تھا تو میں نے وہاں بھی اس مہم کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہاں میں گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی، ان کی اہلیہ کی والدہ اور باقی خاندان کے ساتھ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم میں شامل ہوا۔
دوستو، یہ مہم ملک کے مختلف حصوں میں مسلسل جاری ہے۔ 'ایک پیڑ ماں کے نام' مہم کے تحت مدھیہ پردیش کے اندور میں درخت لگانے کا ریکارڈ بنایا گیا ہے - یہاں 24 گھنٹے میں 12 (بارہ) لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے۔ اس مہم کی وجہ سے اندور کی ریوتی پہاڑیوں کے بنجر علاقے اب گرین زون میں تبدیل ہو جائیں گے۔ راجستھان کے جیسلمیر میں اس مہم کے ذریعے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا گیا- یہاں خواتین کی ٹیم نے ایک گھنٹے میں 25 (پچیس) ہزار درخت لگائے۔ ماؤں نے اپنی ماں کے نام پر درخت لگائے اور دوسروں کو بھی متاثر کیا اور تحریک دی۔ یہاں پانچ ہزار(5000) سے زائد لوگوں نے مل کر ایک جگہ درخت لگائے - یہ بھی اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ' ایک پیڑ ماں کے نام ' مہم کے تحت کئی سماجی تنظیمیں مقامی ضروریات کے مطابق درخت لگا رہی ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ جہاں درخت لگائے جائیں وہاں پورا ایکو سسٹم ماحول دوست انداز میں فروغ پاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیمیں کچھ مقامات پر دواؤں کے پودے لگا رہی ہیں اور دوسری جگہ پر پرندوں کے گھونسلے بنانے کے لیے درخت لگا رہی ہیں۔ بہار میں ’جیویکا سیلف ہیلپ گروپ‘ کی خواتین 75 (پچھہتر) لاکھ درخت لگانے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان خواتین کی توجہ پھل دار درختوں پر ہے، تاکہ وہ مستقبل میں آمدنی حاصل کر سکیں۔
دوستو، اس مہم میں شامل ہو کر کوئی بھی شخص اپنی ماں کے نام پر درخت لگا سکتا ہے۔ اگر آپ کی والدہ آپ کے ساتھ ہیں تو آپ انہیں ساتھ لے کر درخت لگا سکتے ہیں، ورنہ آپ ان کی تصویر اپنے ساتھ لے کر اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ درخت کے ساتھ اپنی سیلفی مائی گو ڈاٹ ان پر بھی پوسٹ کر سکتے ہیں۔ ہم ماں کا قرض کبھی نہیں ادا کرسکتے جو وہ ہمارے لیے کرتی ہیں، لیکن ان کے نام پر درخت لگا کر ہم ان کی یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھ سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ سب نے بچپن میں اپنے گھر کی چھت پر یا درختوں پر چڑیوں کو چہچہاتے دیکھا ہوگا۔ چڑیا کو تمل اور ملیالم میں 'کرووی'، تیلگو میں 'پچوکا' اور کنڑ میں 'گوبی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر زبان اور ثقافت میں چڑیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ چڑیاں ہمارے اردگرد حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن آج کل شہروں میں چڑیاں کم ہی نظر آتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی شہری کاری کی وجہ سے چڑیا ہم سے دور ہو گئی ہے۔ آج کی نسل کے بہت سے ایسے بچے ہیں جنہوں نے چڑیوں کو صرف تصویروں یا ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ ایسے بچوں کی زندگی میں اس خوبصورت پرندے کو واپس لانے کے لیے کچھ انوکھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چنئی کے کوڈوگل ٹرسٹ نے چڑیوں کی آبادی بڑھانے کے لیے اپنی مہم میں اسکول کے بچوں کو شامل کیا ہے۔ اس ادارے کے لوگ اسکول جا کر بچوں کو بتاتے ہیں کہ چڑیا روزمرہ کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ یہ ادارے بچوں کو چڑیوں کا گھونسلہ بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کے لیے ادارے کے لوگوں نے بچوں کو لکڑی کا چھوٹا سا گھر بنانا سکھایا۔ اس میں چڑیوں کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ وہ گھر ہیں جو کسی بھی عمارت کی بیرونی دیوار یا درخت پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بچوں نے اس مہم میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور بڑی تعداد میں چڑیوں کے گھونسلے بنانا شروع کر دیئے۔ گزشتہ چار برسوں میں تنظیم نے چڑیوں کے لیے ایسے دس ہزار گھونسلے تیار کیے ہیں۔ کوڈوگل ٹرسٹ کے اس اقدام کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں چڑیوں کی آبادی بڑھنے لگی ہے۔ اگر آپ بھی اپنے اردگرد ایسی کوششیں اور اقدام کریں تو چڑیاں ضرور دوبارہ ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔
دوستو، کرناٹک کے میسورمیں ایک تنظیم نے بچوں کے لیے ’ارلی برڈ‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔ یہ تنظیم بچوں کو پرندوں کے بارے میں بتانے کے لیے ایک خاص قسم کی لائبریری چلاتی ہے۔ یہی نہیں بچوں میں فطرت کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے 'نیچر ایجوکیشن کٹ' تیار کی گئی ہے۔ اس کٹ میں بچوں کے لیے کہانی کی کتاب، گیمز، ایکٹی وٹی شیٹس اور جگ-سا- پزلز(پہیلیاں) شامل ہیں۔ یہ تنظیم شہر کے بچوں کو دیہات میں لے جاتی ہے اور انہیں پرندوں کے بارے میں بتاتی ہے۔ اس تنظیم کی کوششوں سے بچوں نے پرندوں کی کئی اقسام کو پہچاننا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے ذریعے ’من کی بات‘ کے سننے والے بچوں میں اپنے اردگرد کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک مختلف انداز بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
میرے پیارے دیس واسیو، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جیسے ہی کوئی 'سرکاری دفتر' کہتا ہے، آپ کے ذہن میں فائلوں کے ڈھیر کی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ آپ نے فلموں میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھا ہوگا۔ سرکاری دفاتر میں ان فائلوں کے ڈھیروں پر بہت سے لطیفے گڑھے گئے اور کتنی ہی کہانیاں لکھی گئیں۔ برسوں سے یہ فائلیں دفتر میں پڑی تھیں اور دھول سے اٹی ہوئی تھیں، وہیں گندی ہونے لگیں- ایسی دہائیوں پرانی فائلوں اور اسکریپ کو ہٹانے کے لیے خصوصی صفائی مہم چلائی گئی۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس مہم کے سرکاری محکموں میں حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ صفائی کی وجہ سے دفاتر میں کافی جگہ خالی ہو گئی ہے۔ اس سے دفتر میں کام کرنے والوں میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے کام کی جگہ کو صاف ستھرا رکھنے کی سنجیدگی بھی پیدا کی ہے۔
دوستو، آپ نے اکثر بزرگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ جہاں صفائی ہوتی ہے، وہاں لکشمی دیوی رہتی ہے۔ یہاں 'کچرے سے کچن' کا خیال بہت پرانا ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں 'نوجوان' فضول سمجھی جانے والی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے کچرے سے 'کنچن' بنا رہے ہیں۔ طرح طرح کی اختراعات کی جا رہی ہیں۔ اس سے وہ پیسہ کما رہے ہیں اور روزگار کے ذرائع تیار کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی کوششوں سے پائیدار طرز زندگی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ممبئی کی دو بیٹیوں کی یہ کوشش واقعی بہت متاثر کن ہے۔ اکشرا اور پرکرتی نام کی یہ دونوں بیٹیاں کلپنگ سے فیشن آئٹمز بنا رہی ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کپڑوں کی کٹائی اور سلائی کے دوران جو تراشیں نکلتی ہیں وہ بیکار سمجھ کر پھینک دی جاتی ہیں۔ اکشرا اور پرکرتی کی ٹیم اسی لباس کے فضلے کو فیشن کی مصنوعات میں تبدیل کرتی ہے۔ تراشوں سے بنی ٹوپیاں اور تھیلے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
دوستو، اترپردیش کے کانپور میں بھی صفائی کے حوالے سے اچھے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ ہر صبح مارننگ واک پر نکلتے ہیں اور گنگا کے گھاٹوں پر پھیلا ہوا پلاسٹک اور دیگر فضلہ جمع کرتے ہیں۔ اس گروپ کا نام 'کانپور پلاگرس گروپ' رکھا گیا ہے۔ یہ مہم کچھ دوستوں نے مل کر شروع کی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ عوامی شرکت کی ایک بڑی مہم بن گئی ہے اور شہر کے بہت سے لوگ اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے ارکان نے اب دکانوں اور گھروں سے بھی کچرا اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اس کچرے سے ری سائیکل پلانٹ میں ٹری گارڈز تیار کیے جاتے ہیں، یعنی اس گروپ کے لوگ کچرے سے بنائے گئے ٹری گارڈز سے پودوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
دوستو، آسام کی اتیشا اس بات کی ایک مثال ہے کہ چھوٹی چھوٹی کوششوں سے کتنی بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتیشا کی تعلیم دہلی اور پونے میں ہوئی تھی۔ اتیشا نے کارپوریٹ دنیا کی چمک دمک اور گلیمر کو خیر باد کہہ دیا اور اروناچل پردیش کی سانگتی وادی کی صفائی میں مصروف ہوگئی ۔ سیاحوں کی وجہ سے وہاں پلاسٹک کا بہت سا کچرا جمع ہونے لگاتھا۔ وہاں کا دریا جو کبھی بہت صاف ستھرا تھا پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے آلودہ ہو چکا تھا۔ اتیشا مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اسے صاف کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کے گروپ کے لوگ وہاں آنے والے سیاحوں کو آگاہ کرتے ہیں اور پوری وادی میں پلاسٹک کا کچرا جمع کرنے کے لیے بانس سے بنے ڈسٹ بن لگاتے ہیں۔
دوستو، ایسی کوششوں سے ہندوستان کی صفائی مہم کو تقویت ملتی ہے۔ یہ ایک جاری رہنے والی مہم ہے۔ یہ آپ کے ارد گرد بھی ہو رہا ہوگا۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔
دوستو، 'من کی بات' کے اس ایپی سوڈ میں ابھی کے لیے اتنا ہی ہے۔ میں پورے مہینے آپ کے جوابات، خطوط اور تجاویز کا منتظر رہتاہوں۔ ہر ماہ آنے والے آپ کے پیغامات مجھے بہتر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم اگلے ماہ 'من کی بات' کے ایک اور شمارے میں دوبارہ ملیں گے - ملک اور ہم وطنوں کی نئی کامیابیوں کے ساتھ، تب تک آپ تمام ہم وطنوں کے لیے میری نیک خواہشات۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ’من کی بات‘ میں خوش آمدید۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میری زندگی کے سب سے یادگار لمحات کون سے رہے ہیں تو مجھے بہت سے واقعات یاد ہیں لیکن ایک لمحہ ایسا ہے جو بہت خاص ہے۔ وہ لمحہ تھا جب پچھلے سال 15 نومبر کو، میں بھگوان برسا منڈا کی یوم پیدائش پر جھارکھنڈ کے گاؤں الیہاتو گیا تھا۔ اس دورے کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ میں ملک کا پہلا وزیر اعظم ہوں جسے اس پاک سرزمین کی مٹی کو اپنی پیشانی سے چھونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس وقت میں نے نہ صرف جدوجہد آزادی کی طاقت کو محسوس کیا بلکہ اس سرزمین کی طاقت سے جڑنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے احساس ہوا کہ کس طرح ایک عزم کو پورا کرنے کی ہمت ملک کے کروڑوں لوگوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ساتھیو، ہر دور میں ہندوستان کو کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا رہا ہے اور ہر دور میں غیر معمولی ہندوستانی پیدا ہوئے جنہوں نے ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ آج کی ’من کی بات‘ میں میں دو ایسے ہی عظیم جانبازوں کے بارے میں بات کروں گا جن کے پاس ہمت اور دور اندیشی تھی۔ ملک نے ان کی 150ویں سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سردار پٹیل کا 150 واں یوم پیدائش اس سال 31 اکتوبر سے شروع ہوگا۔ اس کے بعد بھگوان برسا منڈا کا 150 واں یوم پیدائش اس سال 15 نومبر سے شروع ہوگا۔ ان دونوں عظیم روحوں کو مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کا نقطۂ نظر ایک ہی تھا، صرف ایک ہی ’ملک کی وحدت‘۔
ساتھیو، پچھلے کچھ سالوں میں، ملک نے ایسے عظیم ہیروز، مرد اور خواتین کا یوم پیدائش نئی توانائی کے ساتھ منایا ہے جس سے نوجوان نسل کو نئی تحریک ملتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب ہم نے مہاتما گاندھی کی 150 ویں یوم پیدائش منائی تھی تو کس طرح خاص واقعات رونما ہوئے تھے۔
ٹائمز اسکوائر، نیویارک سے لے کر افریقہ کے سب سے چھوٹے گاؤں تک، پوری دنیا کے لوگوں نے ہندوستان کے سچائی اور عدم تشدد کے پیغام کو سمجھا، اسے دوبارہ دریافت کیا اور جینا شروع کیا۔ نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک، ہندوستانیوں سے لے کر غیر ملکیوں تک، سبھی نے ابھرتے ہوئے عالمی حالات میں گاندھی جی کی تعلیمات کو ایک نئے تناظر میں سمجھا۔ جب ہم نے سوامی وویکانند کا 150 ویں یوم پیدائش منایا تو ملک کے نوجوانوں نے نئی تعریفوں کے ذریعے ہندوستان کی روحانی اور ثقافتی طاقت کو سمجھا۔ ان اسکیموں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمارے روشن خیال ماضی میں گم نہیں ہوتے، بلکہ ان کی زندگیاں ہمارے حال کو مستقبل کی راہ دکھاتی ہیں۔
ساتھیو، اگرچہ حکومت نے ان عظیم ہستیوں کے 150ویں یوم پیدائش کو قومی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ آپ کی شمولیت ہی اس مہم میں زندگی کو متاثر کرے گی، اسے جاندار بنائے گی۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ اس مہم کا حصہ بنیں۔
ہندوستان کے مرد آہن سردار پٹیل سے متعلق اپنے خیالات اور کام کو150سردار# اور دھرتی-آبا برسا منڈا کی ترغیبات کو 150 برسا منڈا # کے ساتھ شیئر کریں، اس طرح اس تہوار کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ آئیے ہم مل کر اس تہوار کو تنوع میں ہندوستان کے اتحاد کا جشن بنائیں اور اسے وراثت کے ذریعے ترقی کا جشن بنائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو وہ دن یاد ہوں گے جب ٹی وی پر ’’چھوٹا بھیم‘‘ نشر ہونا شروع ہوا تھا۔ بچے اسے کبھی نہیں بھول سکتے۔ ’چھوٹا بھیم‘ کو لے کر بہت جوش و خروش تھا! آپ حیران ہوں گے کہ آج ’ڈھولک پور کا ڈھول‘ نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارے دوسرے اینی میٹڈ سیریلز جیسے ’کرشن‘، ’ہنومان‘، ’موٹو-پتلو‘ کی بھی پوری دنیا میں مداح ہے۔ ہندوستان کے اینی میشن کریکٹرز، اینی میشن موویز، مواد اور تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی جا رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسمارٹ فون سے لے کر سنیما اسکرین تک، گیمنگ کنسول سے لے کر ورچوئل رئیلٹی تک، اینیمیشن ہر جگہ موجود ہے۔ ہندوستان حرکت پذیری کی دنیا میں ایک نئے انقلاب کے آغاز کے راستے پر ہے۔
ہندوستان میں گیمنگ کی جگہ بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ان دنوں ہندوستانی گیمز بھی پوری دنیا میں مقبول ہو رہے ہیں۔ جب میں نے چند ماہ قبل ہندوستان کے سرکردہ کھلاڑیوں سے ملاقات کی... مجھے ہندوستانی کھیلوں کی حیرت انگیز تخلیقی صلاحیتوں اور معیار کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ درحقیقت، ملک میں، تخلیقی توانائی کی ایک مسلسل لہر ہے... حرکت پذیری کی دنیا میں،’میڈ اِن انڈیا‘ اور ’میڈ از انڈینز‘ کو ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج ہندوستان کا ٹیلنٹ بھی غیر ملکی پروڈکشنز کا اہم حصہ ہے۔
موجودہ دور کا اسپائیڈر مین ہو یا ٹرانسفارمرز، ان دونوں فلموں میں ہری نارائن راجیو کے تعاون کو لوگوں نے بے حد سراہا ہے۔ ہندوستان کے اینیمیشن اسٹوڈیوز، دنیا کی مشہور پروڈکشن کمپنیوں جیسے ڈسنی اور وارنر برادرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ساتھیو، آج ہمارے نوجوان اصلی ہندوستانی مواد تیار کر رہے ہیں، جو ہماری ثقافت کی جھلک کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ساری دنیا میں دیکھے جا رہے ہیں۔ آج اینی میشن سیکٹر نے ایک ایسی صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے جو دوسری صنعتوں کو طاقت دے رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج کل وی آر ٹورزم مشہور ہو رہا ہے۔ ورچوئل ٹور کے ذریعے آپ اجنتا غاروں کو دیکھ سکتے ہیں، کونارک مندر کی راہداری سے ٹہل سکتے ہیں یا وارانسی کے گھاٹوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ تمام وی آر اینیمیشن کے کمالات ہندوستانی تخلیق کاروں نے بنائے ہیں۔ وی آر کے ذریعے ان مقامات کو دیکھنے کے بعد بہت سے لوگ حقیقت میں ان سیاحتی مقامات کو دیکھنا چاہتے ہیں، یعنی کسی سیاحتی مقام کا ورچوئل ٹور لوگوں کے ذہنوں میں تجسس پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آج اس شعبے میں، اینی میٹرز کے ساتھ ساتھ، کہانی سنانے والوں، مصنفین، وائس اوور ماہرین، موسیقاروں، گیم ڈویلپرز، وی آر اور اے آر ماہرین کی مانگ بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میں ہندوستان کے نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا - اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو وسعت دیں۔ کون جانتا ہے، دنیا کی اگلی سپر ہٹ اینیمیشن آپ کے کمپیوٹر سے نکل سکتی ہے! اگلا وائرل گیم آپ کی تخلیق ہو سکتا ہے! تعلیمی اینیمیشنز میں آپ کی اختراع بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ 28 اکتوبر یعنی کل ’اینی میشن کا عالمی دن‘ بھی منایا جائے گا۔ آئیے ہم ہندوستان کو عالمی اینیمیشن پاور ہاؤس بنانے کا عزم کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، سوامی وویکانند نے ایک بار کامیابی کا منتر دیا تھا... ان کا منتر تھا- 'ایک آئیڈیا لے لو، اسی خیال کو اپنی زندگی بنا لو۔ اس کے بارے میں سوچو؛ اس کے بارے میں خواب؛ اسے جینا شروع کرو. اب اتم نربھر بھارت ابھیان بھی کامیابی کے اس منتر پر سوار ہے۔ یہ مہم ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ ہر قدم پر ہمارا حوصلہ بن گیا ہے۔ خود انحصاری ہماری پالیسی ہی نہیں بلکہ ہمارا جذبہ بھی بن گیا ہے۔ اتنا عرصہ نہیں... صرف 10 سال پہلے، اگر اس وقت کسی نے کہا ہوتا کہ ہندوستان میں کوئی پیچیدہ ٹیکنالوجی تیار ہونی ہے، تو بہت سے لوگ اس پر یقین نہیں کرتے اور بہت سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے- لیکن آج وہی لوگ اسے دیکھ کر ملک کی کامیابی سے حیران رہ جاتے ہیں۔ خود کفیل بن کر ہندوستان ہر شعبے میں کمال کر رہا ہے۔ ذرا سوچئے، ہندوستان جو کسی زمانے میں موبائل فون درآمد کرتا تھا، آج دنیا کا دوسرا بڑا صنعت کار ہے۔ ہندوستان جو کبھی دنیا میں دفاعی سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار تھا، اب 85 ممالک کو برآمد کر رہا ہے۔ آج خلائی ٹیکنالوجی میں ہندوستان چاند کے جنوبی قطب تک پہنچنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اور ایک چیز جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہ کہ خود کفالت کی یہ مہم اب صرف حکومتی مہم نہیں رہی۔ آتم نربھر بھارت ابھیان ایک عوامی مہم بن رہی ہے - ہم ہر میدان میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح اس ماہ، ہم نے لداخ کے ہینلے میں ایشیا کی سب سے بڑی ’امیجنگ ٹیلی اسکوپ ایم اے سی ای ‘ کا افتتاح کیا۔ یہ 4300 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس میں کیا خاص بات ہے؟ یہ ’میڈ ان انڈیا‘ ہے۔ ذرا تصور کریں، وہ جگہ جہاں سردی منفی 30 ڈگری تک گر جاتی ہے، جہاں آکسیجن کی بھی کمی ہوتی ہے، وہاں ہمارے سائنسدانوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو ایشیا کی کسی اور قوم نے نہیں کیا۔
اگرچہ ہینلے دوربین ایک دور کی دنیا کو دیکھ رہی ہے، لیکن یہ ہمیں کچھ اور بھی دکھا رہی ہے - اور وہ ہے - خود کفیل ہندوستان کی صلاحیتیں۔
ساتھیو، میں چاہتا ہوں کہ آپ کم از کم ایک کام کریں۔ ہندوستان کے خود کفیل ہونے کی زیادہ سے زیادہ مثالیں اور ایسی کوششوں کو شیئر کریں۔ آپ نے اپنے پڑوس میں کون سی نئی اختراع دیکھی ہے؟ کس مقامی اسٹارٹ اپ نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے؟ہیش ٹیگ آتم نربھر انوویشن کے ساتھ، سوشل میڈیا پر یہ معلومات لکھیں اور آتم نربھر بھارت کا جشن منائیں۔ اس تہوار کے موسم میں، ہم آتم نربھر بھارت کی اس مہم کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہم اپنی شاپنگ ووکل فار لوکل کے منتر کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ وہ نیا ہندوستان ہے جہاں ناممکن صرف ایک چیلنج ہے... جہاں میک ان انڈیا اب دنیا کے لیے میک میں بدل گیا ہے، جہاں ہر شہری ایک اختراع کار ہے، جہاں ہر چیلنج ایک موقع ہے۔ ہمیں نہ صرف ہندوستان کو خود کفیل بنانا ہے بلکہ اپنے ملک کو اختراع کے عالمی پاور ہاؤس کے طور پر مضبوط کرنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں آپ کے لیے ایک آڈیو چلا رہا ہوں۔
# (آڈیو) #
یہ آڈیو صرف معلومات کے لیے نہیں ہے، یہ کوئی تفریحی آڈیو نہیں ہے... یہ ایک گہری تشویش کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ آپ نے ابھی جو گفتگو سنی ہے وہ ڈیجیٹل گرفتاری کے فراڈ سے متعلق ہے۔ یہ گفتگو ایک شکار اور دھوکہ باز کے درمیان ہے۔
ڈیجیٹل اریسٹ۔ فون کالز کے دھوکے باز، بعض اوقات، پولیس، سی بی آئی، نارکوٹکس؛ بعض اوقات آر بی آئی... اس طرح کے مختلف لیبلز کا استعمال کرتے ہوئے، وہ بہت زیادہ اعتماد کے ساتھ جعلی افسران کے طور پر بات کرتے ہیں۔ ’من کی بات‘ کے بہت سے سامعین نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ فراڈ گینگ کیسے کام کرتے ہیں۔ یہ خطرناک گیم کیا ہے؟ آپ کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے اور دوسروں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
پہلا اقدام... وہ آپ کی تمام ذاتی معلومات اکٹھا کرتے ہیں... ’’آپ پچھلے مہینے گوا گئے تھے، ہے نا؟ آپ کی بیٹی دہلی میں پڑھتی ہے نا؟‘‘ وہ آپ کے بارے میں اتنی معلومات اکٹھا کرتے ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
دوسرا اقدام - خوف کا ماحول پیدا کرنا... یونیفارم، سرکاری دفتر کا سیٹ اپ، قانونی سیکشنز... وہ آپ کو فون پر اتنا ڈرا دیں گے... بات چیت کے دوران آپ کو یہ بھی نہیں ہو سکے گا سوچو اور پھر ان کا تیسرا اقدام شروع ہوتا ہے، تیسرا اقدام - وقت کا دباؤ۔ ’’آپ کو ابھی فیصلہ کرنا ہے ورنہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘ یہ لوگ شکار پر اتنا نفسیاتی دباؤ ڈالتے ہیں کہ آدمی خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ ہر طبقے اور عمر کے لوگ ڈیجیٹل گرفتاری کا شکار ہوتے ہیں۔ لوگوں نے سراسر خوف کے مارے اپنی محنت سے کمائے گئے لاکھوں روپے ضائع کر دیے۔ جب بھی آپ کو ایسی کال موصول ہو تو گھبرائیں نہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی تفتیشی ایجنسی کبھی بھی فون کال یا ویڈیو کال کے ذریعے اس طرح کی انکوائری نہیں کرتی ہے۔ میں ڈیجیٹل سیکورٹی کے تین مراحل کی گنتی کر رہا ہوں۔ یہ تین مراحل ہیں - 'روکیں - سوچیں - ایکشن لیں۔ جیسے ہی آپ کو کال آئے، رک جائیں... - گھبرائیں نہیں، پرسکون رہیں، جلد بازی میں کوئی قدم نہ اٹھائیں، اپنی ذاتی معلومات کسی کو نہ دیں۔ اگر ممکن ہو تو اسکرین شاٹ لیں اور یقینی طور پر ریکارڈ کریں۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ آتا ہے۔ پہلا قدم ’اسٹاپ‘ تھا اور دوسرا مرحلہ ’سوچنا‘ ہے۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ آپ کو فون پر اس طرح دھمکیاں نہیں دیتا، اس طرح کی ویڈیو کال پر نہ پوچھتا ہے اور نہ ہی پیسے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر آپ کو ڈر لگتا ہے، تو جان لیں کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ پہلا قدم، دوسرا مرحلہ اور اب میں تیسرا مرحلہ بتاتا ہوں۔ پہلے مرحلے میں میں نے کہا – ’روکیں‘... دوسرے مرحلے میں میں نے کہا – ’سوچیں‘، اور تیسرا مرحلہ آپ سے کہتا ہوں – ’ کارروائی کریں‘۔
نیشنل سائبر ہیلپ لائن 1930 ڈائل کریں، سائبر کرائم ڈاٹ جی او وی، ان پر رپورٹ کریں، خاندان اور پولیس کو مطلع کریں، ثبوت محفوظ کریں۔ ’روکیں‘، پھر ’سوچیں‘ اور پھر ’ایکشن‘ لیں، یہ تینوں اقدامات آپ کی ڈیجیٹل سکیورٹی کے محافظ بن جائیں گے۔
ساتھیو، میں اس بات کا اعادہ کروں گا کہ قانون میں ڈیجیٹل اریسٹ جیسا کوئی نظام نہیں ہے، یہ صرف ایک دھوکہ ہے، فریب ہے، یہ جھوٹ ہے، مجرموں کا ٹولہ ہے اور جو ایسا کر رہے ہیں وہ معاشرے کے دشمن ہیں۔ ڈیجیٹل گرفتاری کے نام پر جو دھوکہ دہی چل رہی ہے اس سے نمٹنے کے لیے تمام تفتیشی ایجنسیاں ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔
ان ایجنسیوں کے درمیان تال میل کے لیے ایک نیشنل سائبر کوآرڈینیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ ایسی ہزاروں جعلی ویڈیو کالنگ آئی ڈیز کو ایجنسیوں نے بلاک کر دیا ہے۔ لاکھوں سم کارڈز، موبائل فون اور بینک اکاؤنٹس بھی بلاک کر دیے گئے ہیں۔ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، لیکن ڈیجیٹل گرفتاری کے نام پر گھوٹالوں سے بچاؤ کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہر کوئی باخبر ہو، ہر شہری باخبر ہو۔ جو لوگ اس قسم کے سائبر فراڈ کا شکار ہیں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتائیں۔ آپ بیداری کے لیےسیف ڈیجیٹل انڈیا # استعمال کر سکتے ہیں۔
میں اسکولوں اور کالجوں پر بھی زور دینا چاہوں گا کہ وہ طلباء کو سائبر گھوٹالوں کے خلاف مہم میں شامل کریں۔ ہم معاشرے میں اجتماعی کوششوں سے ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اسکول کے بہت سے بچے خطاطی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہماری لکھاوٹ واضح، خوبصورت اور پرکشش رہتی ہے۔ ان دنوں اسے جموں و کشمیر میں مقامی ثقافت کو مقبول بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اننت ناگ سے فردوسہ بشیر جی جو خطاطی میں مہارت رکھتی ہیں، وہ اس کے ذریعے مقامی ثقافت کے بہت سے پہلوؤں کو سامنے لا رہی ہیں۔ فردوسہ جی کی خطاطی نے مقامی لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایسی ہی کوشش ادھم پور کے گوری ناتھ جی کر رہے ہیں۔ وہ ڈوگرہ ثقافت اور ورثے کی بے شمار شکلوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔ سارنگی بجاتے ہیں، جو ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے۔ سارنگی کی دھنوں پر وہ اپنی ثقافت سے متعلق قدیم کہانیوں اور تاریخی واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں آپ کو ایسے بہت سے غیر معمولی لوگ ملیں گے جو ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے آگے آئے ہیں۔ ڈی ویکنتھم تقریباً 50 سالوں سے چیریال لوک فن کو مقبول بنانے میں مصروف ہیں۔ تلنگانہ سے متعلق اس آرٹ فارم کو فروغ دینے کے لیے ان کی کوششیں حیرت انگیز ہیں۔ چیریال کی پینٹنگز بنانے کا عمل منفرد ہے۔ یہ ایک طومار کی شکل میں ہے... جو کہانیاں سامنے لاتی ہے۔ اس میں ہمیں اپنی تاریخ اور اساطیر کی مکمل جھلک ملتی ہے۔
چھتیس گڑھ کے نارائن پور کے بٹلورام مترا جی ابوجھمادیہ قبیلے کے لوک فن کو محفوظ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے اس مشن پر ہیں۔
ان کا فن لوگوں کو ’بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ‘ اور ’سووچھ بھارت‘ جیسی مہموں سے جوڑنے میں بہت کارآمد رہا ہے۔
ساتھیو، ہم ابھی بات کر رہے تھے کہ کس طرح ہمارا فن اور ثقافت کشمیر کی وادیوں سے لے کر چھتیس گڑھ کے جنگلات تک بے شمار رنگ پھیلا رہا ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے ان فنون کی خوشبو دور دور تک پھیل رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں لوگ ہندوستانی فن اور ثقافت سے مسحور ہو رہے ہیں۔
جب میں آپ کو اودھم پور میں گونجنے والی سارنگی کے بارے میں بتا رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ کس طرح ہزاروں میل دور روسی شہر یاکوتسک میں ہندوستانی فن کی میٹھی دھنیں گونج رہی ہیں۔ تصور کیجیے، سردیوں کے ایک یا دو دن، منفی 65 ڈگری، درجہ حرارت... چاروں طرف برف کی سفید چادر... اور وہاں ایک تھیٹر میں، سامعین دیکھ کر سحر زدہ ہو گئے - کالیداس کا ’’ابھیجنا شکنتلم‘‘۔ کیا آپ دنیا کے سرد ترین شہر یاکوتسک میں ہندوستانی ادب کی گرمجوشی کا تصور کر سکتے ہیں! یہ کوئی فنٹسی نہیں ہے، یہ سچ ہے - جو ہم سب کو فخر اور خوشی سے بھر دیتا ہے۔
ساتھیو، چند ہفتے پہلے، میں بھی لاؤس گیا تھا۔ یہ نوراتری کا وقت تھا اور وہاں میں نے کچھ حیرت انگیز دیکھا۔ مقامی فنکار ’’فلک پھلم‘‘ – ’لاوس کی رامائن‘ پیش کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں وہی عقیدت، ان کی آواز میں وہی لگن، بالکل وہی جو ہمارے پاس رامائن کے لیے ہے۔ اسی طرح کویت میں جناب عبداللہ البرون نے رامائن اور مہابھارت کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کام صرف ترجمہ نہیں بلکہ دو عظیم ثقافتوں کے درمیان ایک پل ہے۔ ان کی کوشش عرب دنیا میں ہندوستانی ادب کی ایک نئی تفہیم کو فروغ دے رہی ہے۔ پیرو سے ایک اور متاثر کن مثال ایرلینڈا گارسیا ہے۔ ایرلینڈا گارسیا وہاں کے نوجوانوں کو بھرت ناٹیم سکھا رہی ہیں اور (ماریا ویلڈیز) ماریا ویلڈیس اوڈیسی ڈانس کی تربیت دے رہی ہیں۔
ان فنون سے متاثر ہو کر ’انڈین کلاسیکل ڈانس‘جنوبی امریکہ کے کئی ممالک میں مقبولیت کی لہریں پیدا کر رہا ہے۔
ساتھیو، غیر ملکی سرزمین پر ہندوستان کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ ہندوستانی ثقافت کی طاقت کتنی حیرت انگیز ہے۔ یہ دنیا کو مسلسل اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
’’جہاں فن ہے وہاں ہندوستان ہے‘‘
’’جہاں ثقافت ہے وہاں ہندوستان ہے‘‘
آج دنیا بھر کے لوگ ہندوستان کو جاننا چاہتے ہیں... لوگوں کو جاننا چاہتے ہیں۔ اس لیے میری آپ سب سے ایک درخواست ہے... اپنے اردگرد ایسے ثقافتی اقدامات کو فروغ دینے کے لیے انہیں کلچرل برج# کے ساتھ شیئر کریں۔ ہم مستقبل میں بھی ’من کی بات‘ میں ایسی مثالوں پر بات کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے ایک بڑے حصے میں موسم سرما شروع ہو چکا ہے، لیکن فٹنس کا جذبہ، فٹ انڈیا کا جذبہ - کسی بھی موسم سے متاثر نہیں ہوا ہے۔ جو عادتاً فٹ رہتا ہے اسے سردی، گرمی یا بارش کی پرواہ نہیں ہوتی۔ مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان میں لوگ اب فٹنس کے بارے میں زیادہ بیدار ہو رہے ہیں۔ آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ آپ کے آس پاس کے پارکوں میں لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میں بوڑھوں، نوجوانوں اور خاندانوں کو پارکوں میں یوگا کرتے دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں یوگا ڈے پر سری نگر میں تھا، بارش کے باوجود، اتنے لوگ ’یوگا‘ کے لیے جمع ہوئے تھے۔
میں نے چند دن پہلے سری نگر میں ہونے والی میراتھن میں فٹ رہنے کا وہی جوش دیکھا۔ فٹ انڈیا کا یہ جذبہ اب ایک عوامی تحریک بن رہی ہے۔
ساتھیو، مجھے یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے اسکول اب بچوں کی فٹنس پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ فٹ انڈیا اسکول کے اوقات بھی ایک منفرد پہل ہے۔ اسکول اپنی پہلی مدت کو مختلف فٹنس سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بہت سے اسکولوں میں، کبھی کبھی بچوں کو ایک دن یوگا کرایا جاتا ہے اور کبھی دوسرے دن ایروبکس... دوسرے دن، کھیلوں کی مہارتوں پر کام کیا جاتا ہے، کچھ دن کھو کھو اور کبڈی جیسے روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں، اور اس کا اثر بھی شاندار ہے۔ حاضری میں اضافہ ہے؛ بچوں کا ارتکاز بہتر ہو رہا ہے اور بچے بھی اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ساتھیو، میں ہر جگہ تندرستی کی اس توانائی کو محسوس کرتا ہوں۔ 'من کی بات' کے بہت سے سامعین نے بھی مجھ سے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔ کچھ لوگ بہت دلچسپ تجربات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک مثال فیملی فٹنس آور کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایک خاندان ہر ہفتے کے آخر میں ایک گھنٹہ فیملی فٹنس سرگرمی کے لیے مختص کر رہا ہے۔ ایک اور مثال انڈیجنس گیم ریوائیول کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کچھ خاندان اپنے بچوں کو روایتی کھیل سکھا رہے ہیں۔فٹ انڈیا # کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنی فٹنس روٹین کے تجربات شیئر کریں۔ میں ملک کے لوگوں کے ساتھ ایک اہم معلومات بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس سال 31 اکتوبر کو سردار پٹیل کے یوم پیدائش دیوالی کے تہوار پر پڑ رہی ہے۔
ہر سال 31 اکتوبر کو ’’اتحاد کے قومی دن‘‘ کے موقع پر ہم ’رن فار یونٹی‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ آئیے اسے منظم کریں۔ دیوالی کی وجہ سے اس بار 29 اکتوبر یعنی منگل کو ’رن فار یونٹی‘ کا انعقاد کیا جائے گا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں۔ ملک کے اتحاد کے منتر کے ساتھ ساتھ فٹنس کے منتر کو ہر جگہ پھیلائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں بس اتنا ہی ہے۔ اپنی رائے بانٹتے رہیں۔ یہ تہواروں کا وقت ہے۔ دھنتیرس، دیوالی، چھٹھ پوجا، گرو نانک جینتی اور تمام تہواروں کے لیے ’من کی بات‘ کے سننے والوں کو نیک خواہشات۔ آپ سب کو تہواروں کو پورے جوش و خروش سے منانا چاہیے، ووکل فار لوکل کے منتر کو یاد رکھیں، اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ تہواروں کے دوران آپ کے گھروں تک پہنچنے والی مصنوعات مقامی دکانداروں سے خریدی جائیں۔ ایک بار پھر، آپ سب کو آنے والے تہواروں کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ شکریہ
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ایک بار پھر ہمیں ’من کی بات‘ سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔ آج کا ایپی سوڈ مجھے جذباتی کرنے والا ہے، یہ مجھے کئی پرانی یادوں سے گھیر رہا ہے- وجہ یہ ہے کہ ہمارے ’من کی بات‘ کے سفر کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ 10 سال پہلے 3 اکتوبر کو وجئے دشمی کے دن ’من کی بات‘ شروع کی گئی تھی اور یہ کتنا مقدس اتفاق ہے کہ جب ’من کی بات‘ کو اس سال 3 اکتوبر کو 10 سال مکمل ہوں گے، تب نوراتری کا پہلا دن ہوگا۔’من کی بات‘ کے اس طویل سفر میں کئی سنگ میل ہیں، جنہیں میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ’من کی بات‘ کے کروڑوں سننے والے ہمارے سفر کے ایسے ساتھی ہیں، جن سے مجھے مسلسل تعاون ملتا رہا۔ انہوں نے ملک کے کونے کونے سے معلومات فراہم کیں۔
’من کی بات‘ کے سامعین ہی اس پروگرام کے حقیقی سہولت کار ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ جب تک چٹ پٹی یا منفی باتیں نہ ہوں اس کوزیادہ توجہ نہیں ملتی۔ لیکن 'من کی بات' نے ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے لوگ مثبت معلومات کے کتنے بھوکے ہیں۔ لوگ مثبت چیزیں، متاثر کن مثالیں، حوصلہ افزا کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'چکور' نامی ایک پرندہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف بارش کی بوندیں پیتا ہے۔ 'من کی بات' میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ 'چکور' پرندے کی طرح ملک کی کامیابیوں اور لوگوں کی اجتماعی کامیابیوں کو اتنے فخر سے سنتے ہیں۔ 'من کی بات' کے 10 سالہ سفر نے ایک ایسی سیریز بنائی ہے جس میں ہر قسط کے ساتھ نئی کہانیاں، نئے ریکارڈ اور نئی شخصیات شامل ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعیت کے جذبے سے جو بھی کام ہو رہا ہے، اسے 'من کی بات' کے ذریعے عزت ملتی ہے۔ میرا دل بھی اس وقت فخر سے لبریز ہوجاتا ہے جب میں 'من کی بات' کے لیے موصول ہونے والے خطوط کو پڑھتا ہوں۔
ہمارے ملک میں کتنے باصلاحیت لوگ ہیں، ان میں ملک اور معاشرے کی خدمت کا کتنا جذبہ ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی عوام کی بے لوث خدمت کیلئے وقف کردی۔ ان کے بارے میں جاننا مجھے توانائی سے بھر دیتا ہے۔ 'من کی بات' کا یہ پورا عمل میرے لیے مندر میں جانے اور بھگوان کو دیکھنے جیسا ہے۔ جب مجھے 'من کی بات' کی ہر بات، ہر واقعہ، ہر حرف یاد آتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں جنتا جناردن، جو میرے لیے بھگوان کا روپ ہیں، کا درشن کررہا ہوں۔
ساتھیو، آج میں دوردرشن، پرسار بھارتی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تمام لوگوں کی بھی تعریف کرنا چاہوں گا۔ ان کی انتھک کوششوں سے 'من کی بات' اس اہم مرحلے تک پہنچی ہے۔ میں علاقائی ٹی وی چینلوں سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اسے مسلسل دکھایا۔ کئی میڈیا ہاؤسز نے ان مسائل پر مہم بھی چلائی جو ہم نے 'من کی بات' کے ذریعے اٹھائے۔ میں پرنٹ میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اسے ہر گھر تک پہنچایا۔ میں ان یوٹیوبرز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے 'من کی بات' پر بہت سے پروگرام کیے ہیں۔ یہ پروگرام 12 غیر ملکی زبانوں کے ساتھ ملک کی 22 زبانوں میں سنا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مقامی زبان میں پروگرام 'من کی بات' سنی۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ پروگرام 'من کی بات' پر مبنی کوئز مقابلہ بھی جاری ہے، جس میں کوئی بھی شخص حصہ لے سکتا ہے۔ MyGov.in پر جا کر آپ اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور انعامات بھی جیت سکتے ہیں۔ آج اس اہم موڑ پر میں ایک بار پھر آپ سب سے دعاؤں کا طلب گار ہوں۔ صاف ستھرے من اور پوری لگن کے ساتھ، میں ہندوستان کے لوگوں کی عظمت کے گیت گاتا رہوں۔ ہم سب، ملک کی اجتماعی طاقت کا جشن اسی طرح مناتے رہیں – یہی میری ایشور سے پرارتھنا ہے، جنتا جناردن سے درخواست ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے مختلف حصوں میں موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ یہ برسات کا موسم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ'پانی کا تحفظ' کتنا ضروری ہے، پانی کو بچانا کتنا ضروری ہے۔ بارش کے دنوں میں بچایا جانے والا پانی، پانی کے بحران کے مہینوں میں بہت مدد کرتا ہے، اور یہی 'کیچ دی رین' جیسی مہموں کی روح ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بہت سے لوگ پانی کے تحفظ کے حوالے سے نئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش اتر پردیش کے جھانسی میں دیکھنے کو ملی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ 'جھانسی' بندیل کھنڈ میں ہے، جس کی شناخت پانی کی کمی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں جھانسی میں کچھ خواتین نے گھوراری ندی کو نئی زندگی دی ہے۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ سے وابستہ ہیں اور 'جل سہیلی' بن کر اس مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔ ان خواتین نے جس طرح مرتے ہوئے دریائے گھوراری کو بچایا ہے اس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ان جل سہیلیوں نے بوریوں میں ریت بھر کر چیک ڈیم تیار کیا، جس سے بارش کا پانی ضائع ہونے سے بچ گیا اور دریا کو پانی سے بھر دیا۔ ان خواتین نے سیکڑوں آبی ذخائر کی تعمیر اور بحالی میں بھی بڑے پیمانے پر تعاون کیا ہے۔ اس سے نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا پانی کا مسئلہ حل ہوا ہے، بلکہ ان کے چہروں پر خوشیاں بھی لوٹ آئی ہیں۔
ساتھیو، کہیں ناری شکتی (خواتین کی طاقت، جل شکتی (پانی کی طاقت) کو بڑھاتی ہے تو کہیں جل شکتی بھی ناری شکتی کو مضبوط کرتی ہے۔ مجھے مدھیہ پردیش کی دو بہت متاثر کن کوششوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں ڈنڈوری کے رَئے پورہ گاؤں میں ایک بڑا تالاب بننے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کافی بڑھ گئی ہے۔ اس کا فائدہ اس گاؤں کی خواتین کو ملا ۔ یہاں 'شاردا آجیویکا سیلف ہیلپ گروپ' سے وابستہ خواتین کو بھی ماہی پروری کا نیا کاروبار ملا۔ ان خواتین نے فش پارلر بھی شروع کیا ہے، جہاں مچھلی کی فروخت سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے چھترپور میں بھی خواتین کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ یہاں کے کھونپ گاؤں کا بڑا تالاب جب خشک ہونے لگا تو خواتین نے اسے بحال کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ 'ہری بگیا سیلف ہیلپ گروپ' کی ان خواتین نے تالاب سے بڑی مقدار میں گاد نکالا اور اسے بنجر زمین پر فروٹ فاریسٹ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ان خواتین کی محنت سے نہ صرف تالاب وافر پانی سے بھر گیا، بلکہ فصل کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ملک کے کونے کونے میں 'پانی کے تحفظ' کی اس طرح کی کوششیں پانی کے بحران سے نمٹنے میں بہت مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے اردگرد ہونے والی ایسی کوششوں میں ضرور شامل ہوں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اتراکھنڈ کے اترکاشی میں ایک سرحدی گاؤں 'جھالا' ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے اپنے گاؤں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے ایک خاص پہل شروع کی ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں 'دھنیہ واد پرکرتی' یا کہیں 'تھینک یو نیچر' مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے تحت گاؤں میں روزانہ دو گھنٹے صفائی کی جاتی ہے۔ گاؤں کی گلیوں میں بکھرے کوڑے کو اکٹھا کرکے، اسے گاؤں سے باہر مخصوص جگہ پر پھینک دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جھالا گاؤں بھی صاف ستھرا ہو رہا ہے اور لوگ بھی بیدار ہو رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہر گاؤں، ہر گلی، ہر محلہ اسی طرح کی تھینک یو مہم شروع کردے تو کتنی تبدیلی آ سکتی ہے۔
ساتھیو، پڈوچیری کے ساحلوں پر صفائی کے حوالے سے ایک زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہاں رمیا جی نامی کی ایک خاتون ماہے میونسپلٹی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے نوجوانوں کی ایک ٹیم کی قیادت کر رہی ہیں۔ اپنی کوششوں سے اس ٹیم کے لوگ ماہے کے علاقے اور خاص طور پر وہاں کے ساحلوں کو پوری طرح صاف ستھرا کر رہے ہیں۔
ساتھیو، میں نے یہاں صرف دو کوششوں پر بات کی ہے، لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ملک کے ہر حصے میں 'صفائی' کے حوالے سے کوئی نہ کوئی انوکھی کوشش ضرور جاری ہے۔ کچھ ہی دنوں میں 2 اکتوبر کو 'سوچھ بھارت مشن' کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ ان لوگوں کو مبارکباد دینے کا موقع ہے جنھوں نے اسے ہندوستانی تاریخ کی اتنی بڑی عوامی تحریک بنا دیا۔ یہ مہاتما گاندھی جی کو بھی ایک حقیقی خراج عقیدت ہے، جو زندگی بھر اس مقصد کے لیے وقف رہے۔
ساتھیو، آج یہ 'سوچھ بھارت مشن' کی کامیابی ہے کہ 'ویسٹ ٹو ویلتھ' کا منتر لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ لوگ ریڈیوز، ری یوز اور ری سائیکل کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں اور اس کی مثالیں دینے لگے ہیں۔ اب جیسے مجھے کیرالہ کے کوزی کوڈ میں ایک شاندار کوشش کے بارے میں معلوم ہوا۔ یہاں، 74 سالہ سبرامنیم جی نے 23 ہزار سے زیادہ کرسیوں کی مرمت کرکے انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا ہے۔ لوگ تو انھیں ریڈیوز، ری یوز اور ری سائیکل یعنی آر آر آر (ترپل آر) کےچیمپئن بھی کہتے ہیں۔ ان کی یہ منفرد کوششیں کوزی کوڈ سول اسٹیشن، پی ڈبلیو ڈی اور ایل آئی سی کے دفاتر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ساتھیو ، ہمیں صفائی کے حوالے سے جاری مہم میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا ہے، اور یہ مہم ایک دن یا ایک سال کی نہیں ہے، یہ عہد در عہد مسلسل کرنے والا کام ہے۔ یہ اس وقت تک کرنا ہے جب تک کہ 'صفائی' ہماری فطرت نہ بن جائے۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے خاندان، دوستوں، پڑوسیوں یا ساتھیوں کے ساتھ صفائی مہم میں حصہ لیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو 'سوچھ بھارت مشن' کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب کو اپنی وراثت پر بہت فخر ہے۔ اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ 'وکاس بھی وراثت بھی'۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے ایک خاص پہلو کے بارے میں بہت سارے پیغامات مل رہے ہیں۔ ایک بار پھر ہمارے قدیم نوادرات کی واپسی کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں اس بارے میں آپ کے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں اور 'من کی بات' کے سننے والوں کو بھی اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔
ساتھیو، میرے دورۂ امریکہ کے دوران امریکی حکومت نے تقریباً 300 قدیم نوادرات بھارت کو واپس کئے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے مکمل پیار کا اظہار کرتے ہوئے ڈیلاویئر (Delaware) میں اپنی نجی رہائش گاہ میں، ان میں سے کچھ نوادرات مجھے دکھائے ۔ واپس کیے گئے نوادرات ٹیراکوٹا، پتھر، ہاتھی دانت، لکڑی، تانبا اور کانسے جیسی چیزوں سے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی چار ہزار سال پرانے ہیں۔ امریکہ نے چار ہزار سال سے لے کر 19ویں صدی تک کے نوادرات واپس کیے ہیں - ان میں گلدان، دیوی دیوتاؤں کی ٹیراکوٹا (Terracotta) تختیاں، جین تیرتھنکروں کے مجسمے کے ساتھ ساتھ بھگوان بدھ اور بھگوان شری کرشن کے مجسمے بھی شامل ہیں۔ لوٹی گئی اشیاء میں جانوروں کی کئی شکلیں بھی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی شکلوں والے جموں و کشمیر کی ٹیراکوٹا ٹائلس تو بہت دلچسپ ہیں۔ ان میں کانسے سے بنے بھگوان شری گنیش کے مجسمے بھی ہیں، جو کہ جنوبی ہندوستان کے ہیں۔ واپس کی گئی اشیاء میں بھگوان وشنو کی بڑی تعداد میں تصویریں ہیں۔ یہ بنیادی طور پر شمالی اور جنوبی ہندوستان سے وابستہ ہیں۔ ان نوادرات کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف باریکیوں کا کتنا دھیان رکھتے تھے۔ فن کے حوالے سے وہ حیرت انگیز فہم رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے نوادرات کو اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر لے جایا گیا - یہ ایک سنگین جرم ہے، ایک طرح سے یہ اپنے ورثے کو ختم کرنے جیسا ہے، لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلی دہائی کے دوران ایسے بہت سے نوادرات اور ہمارے بہت سے قدیم ورثے گھر واپس آ گئے ہیں۔ اس سمت میں آج ہندوستان بھی کئی ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب ہمیں اپنے ورثے پر فخر ہوتا ہے تو دنیا بھی اس کا احترام کرتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے بہت سے ممالک ایسے نوادرات واپس دے رہے ہیں جو ہماری جگہ سے چلے گئے تھے ۔
میرے پیارے ساتھیو، اگر میں پوچھوں کہ بچہ کون سی زبان سب سے زیادہ آسانی اور جلدی سیکھتا ہے تو آپ کا جواب ہوگا 'مادری زبان'۔ ہمارے ملک میں تقریباً بیس ہزار زبانیں اور بولیاں ہیں اور یہ سب کسی نہ کسی کی مادری زبان ہیں۔ کچھ زبانیں ایسی بھی ہیں جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج ان زبانوں کے تحفظ کے لیے انوکھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک زبان ہماری 'سنتالی' زبان ہے۔ ڈیجیٹل اختراع کی مدد سے 'سنتھالی' کو ایک نئی شناخت دینے کے لیے ایک مہم شروع کی گئی ہے۔ 'سنتھالی' ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں رہنے والے سنتھال قبائلی برادری کے لوگ بولتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ، سنتھالی بولنے والی قبائلی برادریاں بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان میں بھی موجود ہیں۔ اڈیشہ کے میور بھنج کے رہنے والےجناب رامجیت توڈو، ، سنتھالی زبان کی آن لائن شناخت بنانے کے لیے ایک مہم چلا رہے ہیں۔ رامجیت جی نے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنایا ہے جہاں سنتھالی زبان سے متعلق ادب کو سنتھالی زبان میں پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت چند سال پہلے جب رامجیت جی نے موبائل فون استعمال کرنا شروع کیا تو انہیں اس بات کا دکھ ہوا کہ وہ اپنی مادری زبان میں پیغامات نہیں بھیج سکتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے 'سنتھالی زبان' کے رسم الخط'اول چکی' کو ٹائپ کرنے کے امکانات تلاش کرنا شروع کر دیے۔ انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے 'اول چکی ' میں ٹائپ کرنے کی تکنیک تیار کی۔ آج ان کی کوششوں سے 'سنتھالی' زبان میں لکھے گئے مضامین لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔
ساتھیو، جب اجتماعی شرکت کو ہمارے عزم کے ساتھ ملایا جائے تو پورے معاشرے کے لیے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال 'ایک پیڑ ما ںکے نام' ہے – یہ مہم ایک حیرت انگیز مہم رہی ، عوامی شرکت کی ایسی مثال واقعی بہت متاثر کن ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے شروع کی گئی اس مہم میں ملک کے کونے کونے میں لوگوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ اتر پردیش، گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور تلنگانہ نے ہدف سے زیادہ پیڑ لگا کر نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ اس مہم کے تحت اتر پردیش میں 26 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے گئے۔ گجرات کے لوگوں نے 15 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے۔ صرف اگست کے مہینے میں راجستھان میں 6 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے گئے ہیں۔ ملک کے ہزاروں اسکول بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں پیڑ لگانے کی مہم سے جڑی کئی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال تلنگانہ کے کے این راج شیکھر جی کی ہے۔ پیڑ لگانے کا ان کا عزم ہم سب کو حیران کر دیتا ہے۔ تقریباً چار سال قبل انہوں نے پیڑ لگانے کی مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر روز ایک پیڑ لگائیں گے ۔ انہوں نے سخت برت کی طرح اس مہم پر عمل کیا۔ انہوں نے 1500 سے زائد پودے لگائے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سال ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد بھی وہ اپنے عزم سے نہیں ڈگمگا ئے ۔ میں اس طرح کی تمام کوششوں کی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں۔ میں آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ اس مقدس مہم 'ایک پیڑ ماں کے نام'میں شامل ہو جائیں ۔
میرے پیارے ساتھیو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے اردگرد کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آفات میں صبر نہیں کھوتے بلکہ اس سے سبق سیکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون سباشری ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے نایاب اور انتہائی مفید جڑی بوٹیوں کا شاندار باغ تیار کیا ہے۔ وہ ، تمل ناڈو کے مدورئی کی رہنے والی ہیں ۔ اگرچہ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک استانی ہیں، لیکن انہیں دواؤں کی تیاری میں کام آنے والے پودوں سے گہرا لگاؤ ہے۔ ان کا شوق 80 کی دہائی میں شروع ہوا جب ایک بار ان کے والد کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا۔ تب روایتی جڑی بوٹیوں نے ان کے والد کی صحت کو بہتر بنانے میں بہت مدد کی تھی۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے روایتی ادویات اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق شروع کی۔ آج، مدورائی کے ویریچیور گاؤں میں ان کا ایک منفرد ہربل گارڈن ہے، جس میں 500 سے زیادہ نایاب دواؤں کی تیاری میں کام آنے والے پودے ہیں۔ انہوں نے اس باغ کو تیار کرنے میں بہت محنت کی ہے۔ ہر پودے کو تلاش کرنے کے لیے انہوں نے دور دور کا سفر کیا، معلومات اکٹھی کیں اور بعض اوقات دوسرے لوگوں سے بھی مدد لی۔ کووڈ کے دوران، انہوں نے لوگوں میں قوت مدافعت بڑھانے والی جڑی بوٹیاں تقسیم کیں۔ آج ان کے ہربل گارڈن کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ وہ ہربل پودوں اور ان کے استعمال کے بارے میں جانکاری دیتی ہیں۔ سباشری ہمارے روایتی ورثے کو آگے بڑھا رہی ہیں جو سینکڑوں سالوں سے ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ان کا ہربل گارڈن ہمارے ماضی کو مستقبل سے جوڑتا ہے۔ اس کے لیے ہماری نیک خواہشات۔
ساتھیو، اس بدلتے وقت میں ملازمتوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور نئے شعبے ابھر رہے ہیں۔ جیسے گیمنگ، اینیمیشن، ریل میکنگ، فلم میکنگ یا پوسٹر میکنگ۔ اگر آپ ان میں سے کسی بھی مہارت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، تو آپ کے ٹیلنٹ کو ایک بہت بڑا پلیٹ فارم مل سکتا ہے، اگر آپ کسی بینڈ سے وابستہ ہیں یا کمیونٹی ریڈیو کے لیے کام کر رہے ہیں، تو آپ کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ آپ کی لیاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات نے 'Create In India' کے تھیم کے تحت 25 چیلنجز شروع کیے ہیں۔ آپ کو یہ چیلنجز یقیناً دلچسپ لگیں گے۔ کچھ چیلنجز موسیقی، تعلیم اور یہاں تک کہ اینٹی پائریسی پر مرکوز ہیں۔ اس ایونٹ میں کئی پیشہ ور تنظیمیں بھی شامل ہیں، جو ان چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا بھرپور تعاون کر رہی ہیں۔ ان میں شامل ہونے کے لیے، آپ wavesindia.org پر لاگ ان کر سکتے ہیں۔ میری ملک بھر کے تخلیق کاروں سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس ماہ ایک اور اہم مہم کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس مہم کی کامیابی میں بڑی صنعتوں سے لے کر ملک کے چھوٹے دکانداروں تک کا تعاون شامل ہے۔ میں 'میک اِن انڈیا' کی بات کر رہا ہوں۔ آج مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ غریب، متوسط طبقے اور ایم ایس ایم ایز کو اس مہم سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ اس مہم نے ہر طبقہ کے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے۔ آج بھارت مینوفیکچرنگ کا پاور ہاؤس بن گیا ہے اور ملک کی نوجوان طاقت کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ آٹوموبائل ہو، ٹیکسٹائل ہو، ایوی ایشن ہو، الیکٹرانکس ہو یا دفاع، ہر شعبے میں ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں ایف ڈی آئی کا مسلسل اضافہ بھی ہمارے 'میک اِن انڈیا' مہم کی کامیابی کی کہانی بتا رہا ہے۔ اب ہم بنیادی طور پر دو چیزوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ پہلی چیز 'کوالٹی' ہے، یعنی ہمارے ملک میں بننے والی چیزیں عالمی معیار کی ہونی چاہئیں۔ دوسرا 'ووکل فار لوکل' ہے، یعنی مقامی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ 'من کی بات' میں ہم نے #MyProductMyPride پر بھی بات کی ہے۔ مقامی مصنوعات کو فروغ دینے سے ملک کے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔
مہاراشٹر کے بھنڈارا ضلع میں ٹیکسٹائل کی ایک پرانی روایت ہے – ’بھنڈارا ٹسر سلک ہینڈلوم‘ (Bhandara Tussar Silk Handloom)۔ ٹسر سلک اپنے ڈیزائن، رنگ اور مضبوطی کے لیے جانا جاتا ہے۔ بھنڈارا کے کچھ حصوں میں، 50 سے زیادہ 'سیلف ہیلپ گروپ' اسے محفوظ کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں خواتین کی بھر پور شراکت داری ہے۔ یہ ریشم تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور مقامی برادریوں کو بااختیار بنا رہا ہے، اور یہی ’میک ان انڈیا‘ کی روح ہے۔
ساتھیو، تہوار کے اس موسم میں، آپ پھر سے اپنے پرانے عزم کو بھی ضرور دہرائیے۔ آپ جو بھی خریدیں ، وہ ’میڈ ان انڈیا‘ ہی ہونا چاہیے، کچھ بھی تحفہ دیں ، وہ بھی ’میڈ ان انڈیا‘ ہی ہونا چاہیے۔ صرف مٹی کے دیئے خریدنا ہی ’ووکل فار لوکل‘ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے علاقے میں بننے والی مقامی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔ ایسی کوئی بھی چیز، جسے بنانے میں کسی ہندوستانی کاریگر کا پسینہ لگا ہو، جو بھارت کی مٹی میں بنا ہے، وہ ہمارا فخر ہے - ہمیں اس فخر کو ہمیشہ برقرار رکھنا ہے اور اس میں چار چاند لگانا ہے۔
ساتھیو، مجھے ’من کی بات‘ کے اس ایپی سوڈ میں آپ سے جڑ کر بہت اچھا لگا۔ اس پروگرام سے متعلق اپنے خیالات اور تجاویز ہمیں ضرور بھیجیں۔ میں آپ کے خطوط اور پیغامات کا منتظر ہوں۔ کچھ ہی دن بعد تہواروں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اس کا آغاز نوراتری سے ہوگا اور پھر اگلے دو ماہ تک پوجا پاٹھ، برت- تیوہار، جوش و خروش اور خوشی کا یہ ماحول چاروں طرف چھایا رہے گا۔ میں آپ سب کو آنے والے تہواروں کی مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سب، اپنے خاندان اور اپنے پیاروں کے ساتھ تہوار سے لطف اندوز ہوں اور دوسروں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ اگلے مہینے 'من کی بات' میں کچھ اور نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے جڑیں گے۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ من کی بات میں میرے پریوارجنوں کے تمام افراد کا ایک بار پھر خیر مقدم ہے۔
آج، ایک بار پھر، ہم ملک کی کامیابیوں اور اہل وطن کی اجتماعی کوششوں کی بات کریں گے۔ 21ویں صدی کےہندوستان میں بہت کچھ ہو رہا ہے جو وکست بھارت کی بنیاد کو مضبوط کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر 23 اگست کو ہم وطنوں نے پہلا قومی خلائی دن منایا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب نے یہ دن ضرور منایا ہوگا۔ ایک بار پھر چندریان -3 کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ گزشتہ سال اس دن چندریان -3 نے شیو شکتی پوائنٹ پر چاند کے جنوبی حصے پر کامیاب لینڈنگ کی تھی۔ ہندوستان اس قابل فخر کارنامے کو حاصل کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔
دوستو، قوم کے نوجوانوں کو بھی خلائی شعبے کی اصلاحات سے کافی فائدہ ہوا ہے، اسی لیے آج کی من کی بات میں میں نے سوچا... کیوں نہ خلائی شعبے سے وابستہ اپنے کچھ نوجوان دوستوں سے بات کی جائے۔اسپیچ اسٹارٹ-اپ آئی کی ایک ٹیم اب مجھ سے رابطہ کر رہی ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ آئی آئی ٹی-مدراس کے سابق طلباء نے شروع کیا تھا۔ یہ تمام نوجوان آج ہمارے ساتھ فون لائن پر موجود ہیں – سُویش، ڈینیل، رکشت، کشن اور پرنیت۔ آئیے ان نوجوانوں کے تجربات کو جانتے ہیں۔
وزیراعظم: ہیلو!
تمام نوجوان: ہیلو!
وزیراعظم: نمستے جی!
تمام نوجوان نمسکار سر!
وزیر اعظم: اچھا دوستو، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آئی آئی ٹی-مدراس کے دوران آپ کی دوستی اب بھی مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے گلیکس آئی کو ایک ساتھ شروع کرنے کا سوچا۔ میں بھی اس موضوع کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اس کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ آپ کی ٹیکنالوجی سے ملک کو کس طرح فائدہ پہنچے گا۔
سُویش: ہاں سر میرا نام سُویش ہے... جیسا کہ آپ نے کہا، ہم سب ملے، ہم سب آئی آئی ٹی-مدراس میں ملے۔ ہم سب نے وہاں مختلف برسوں میں تعلیم حاصل کی، اپنی انجینئرنگ کی۔ اور اس وقت ہم نے ہائیپر نامی پروجیکٹ کے بارے میں سوچا، یہی وہ کام ہے جو ہم مل کر کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران ہم نے اویشکار ہائیپر لوپ کے نام سے ایک ٹیم شروع کی، ہم اسے امریکہ بھی لے گئے۔ اس سال ایشیا کی واحد ٹیم ہماری تھی جو وہاں گئی اور وہاں اپنا قومی پرچم لہرایا۔ اور ہم دنیا بھر سے تقریباً 1500 ٹیموں میں سے ٹاپ 20 ٹیموں میں شامل تھے۔
وزیر اعظم: ٹھیک ہے، مزید سننے سے پہلے، میں پہلے آپ سبھی کومبارکباد دیتا ہوں۔
سُویش: آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اس کامیابی کے دوران ہماری دوستی گہری ہو گئی اور ایسے سخت اور مشکل منصوبوں کو اپنانے کے لیے ہمارا اعتماد بڑھا۔ اس وقت کے دوران اسپیس ایکس کو دیکھنے کے بعد اور آپ نے جو کچھ کھولا، اس تاریخی فیصلے میں 2020 میں خلائی شعبے میں نجکاری... ہم اس کے بارے میں کافی پرجوش ہو گئے۔ اور میں رکشت کو دعوت دینا چاہوں گا کہ ہم کیا بنا رہے ہیں اور اس کے کیا استعمال ہیں۔
رکشت: جی، میرا نام رکشت ہے اور میں اس بات کا جواب دوں گا کہ اس ٹیکنالوجی سے ہمیں کس طرح فائدہ پہنچے گا۔
وزیر اعظم: رکشت، آپ اتراکھنڈ میں کہاں سے ہیں؟
رکشت: سر، میں الموڑہ سے ہوں۔
وزیراعظم: تو آپ بال مٹھائی والے ہیں۔
رکشت: ہاں سر، ہاں سر، بال مٹھائی ہماری پسندیدہ ہے۔
وزیر اعظم: آپ لکشیا سین کو جانتے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں بال مٹھائی کھلاتے رہتے ہیں۔ ہاں رکشت بتاؤ۔
رکشت: تو ہماری یہ ٹیکنالوجی رات کے وقت بھی کائنات میں بادلوں کے ذریعے دیکھ سکتی ہے، اس لیے روزانہ ہم ملک کے کسی بھی کونے سے اپنے ملک کی واضح تصویر پر کلک کر سکتے ہیں۔ اور اس ڈیٹا کو ہم دو شعبوں کی ترقی میں کام کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ پہلا، ہندوستان کو بہت محفوظ بنانا۔ ہم روزانہ اپنی سرحدوں، اپنےآبی علاقوں اور سمندروں کی نگرانی کریں گے۔ ہم دشمن کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں گے اور اپنی مسلح افواج کو خفیہ معلومات فراہم کریں گے۔ اور دوسرا بھارت کے کسانوں کو مضبوط کرنا ہے۔ لہٰذا ہم نے پہلے ہی بھارت کے جھینگاکے کسانوں کے لیے ایک پروڈکٹ تیار کر لیا ہے جو موجودہ لاگت کے دسویں حصے پر خلا سے ان کے تالابوں کے پانی کے معیار کی پیمائش کر سکتا ہے۔ اور مستقبل میں ہم گلوبل وارمنگ جیسے عالمی مسائل کے خلاف لڑائی میں دنیا کے لیے بہترین معیار کی سیٹلائٹ تصاویر تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دنیا کو بہترین معیار کا سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم: اس کا مطلب ہے کہ آپ کی ٹیم جئے جوان کے ساتھ ساتھ جئے کسان کے جوہر بھی دکھائے گی۔
رکشت: جی سر، بالکل۔
وزیر اعظم: دوستو، آپ اتنا اچھا کام کر رہے ہیں، میں اس ٹیکنالوجی کی درستگی کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
رکشت: جناب ہم 50 سینٹی میٹر سے کم کی ریزولوشن تک پہنچ سکتے ہیں اور۔ ہم ایک وقت میں تقریباً 300 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے کی تصویر کشی کر سکیں گے۔
وزیر اعظم: تو، مجھے لگتا ہے کہ جب ہمارے ہم وطن یہ سنیں گے، تو وہ بہت فخر محسوس کریں گے۔ لیکن میں ایک سوال اور پوچھنا چاہوں گا۔
رکشت: جی سر
وزیر اعظم: خلائی ماحولیاتی نظام بہت متحرک ہو رہا ہے۔ اب، آپ کی ٹیم کون سی تبدیلیاں دیکھ رہی ہے؟
کشن: میرا نام کشن ہے۔ گلیکس آئی کے آغاز کے بعد ہم نے ان-اسپیس کو آتے دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ’جیو اسپیشل ڈیٹا پالیسی‘ اور انڈیا اسپیس پالیسی جیسی بہت سی پالیسیاں آتی دیکھی ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے 3 سالوں سے ہم نے بہت سی تبدیلیاں آتی ہوئی دیکھی ہیں... بہت سارے عمل کے ساتھ، بہت سارے انفراسٹرکچر اور اسرو کی بہت سی سہولیات بہت اچھے طریقے سے دستیاب ہیں جیسے کہ ہم اسرو جا کر اپنے ہارڈ ویئر کی جانچ کر سکتے ہیں۔ اب یہ بہت آسان طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ 3 سال پہلے یہ عمل وہاں نہیں تھے اور یہ ہمارے لیے اور بہت سے مزید اسٹارٹ اپس کے لیے بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ ایف ڈی آئی پالیسیوں اور ان سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے بہت سے اسٹارٹ اپس کو کافی ترغیب مل رہی ہے اور ایسے اسٹارٹ اپ بہت آسانی سے اور بہت اچھے طریقے سے ترقی کر سکتے ہیں، اس شعبے میں جہاں عام طور پر ترقی بہت مہنگی اور جس میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ موجودہ پالیسیوں اوراِن اسپیس کی آمد کے بعد سے چیزیں اسٹارٹ اپس کے لیے آسان ہو گئی ہیں۔ میرے دوست ڈینیئل چاوڑا اس پر بات کرنا چاہیں گے۔
وزیراعظم: ڈینیئل ، بتاؤ۔
ڈینیئل: سر، ہم نے ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا ہے، ہم نے انجینئرنگ کے طلباء کی سوچ میں تبدیلی دیکھی ہے۔ پہلے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور وہاں خلائی شعبے میں کام کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے تھے، لیکن اب چونکہ ایک بہت اچھا خلائی ماحولیاتی نظام ہندوستان میں بہت اچھی طرح سے ترقی کر رہا ہے، اس لیے وہ اس ماحولیاتی نظام کا حصہ بننے کے لیے ہندوستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا فیڈ بیک ہے جو ہمیں ملا ہے اور ہماری اپنی کمپنی میں کچھ لوگ اس کی وجہ سے واپس آئے ہیں اور کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
وزیر اعظم: میں محسوس کرتا ہوں کہ جن پہلوؤں کو آپ دونوں کشن اور ڈینیئل نے دیکھا ہے، میں یقینی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ شاید بہت سے لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی ہو گی، کس طرح ایک شعبے میں اصلاحات کے متعدد اثرات ہوتے ہیں... بہت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں... اور آپ کی تفصیل کے مطابق چونکہ آپ کا تعلق اس شعبے سے ہے، اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا اور یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ ملک کے نوجوان یہاں خود اس شعبے میں اپنا مستقبل آزمانا چاہتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ آپ کا بہت اچھا مشاہدہ ہے۔
ایک اور سوال میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ ان نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے جو اسٹارٹ اپس اور خلائی شعبے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پرنیت: سر، میں پرنیت بول رہا ہوں اور میں سوال کا جواب دوں گا۔
وزیر اعظم: ہاں پرنیت، بتاؤ۔
پرنیت: سر، میں اپنے چند سالوں کے تجربے سے دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے اگر ہم اسٹارٹ اپ قائم کرنا چاہتے ہیں، تو یہ موقع ہے کیونکہ آج ہندوستان دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس بہت سارے مواقع ہیں...
پرنیت: 24 سال کی عمر میں مجھے یہ سوچ کر فخر محسوس ہوتا ہے کہ اگلے سال ہم اپنا سیٹلائٹ لانچ کریں گے۔ اس کی بنیاد پر ہماری حکومت چند بڑے فیصلے کرے گی اور ہم نے اس میں تھوڑا سا تعاون پیش کیا ہے۔ قومی اثرات کے ایسے منصوبوں کے لیے کام کرنے کے لیے، یہ ایسی صنعت اور ایسا وقت ہے، جب کہ آج خلائی صنعت شروع ہو رہی ہے۔ لہذا، میں اپنے نوجوان دوستوں کو بتانا چاہوں گا کہ یہ موقع صرف اثر کا نہیں بلکہ خود مالی ترقی اور عالمی مسئلہ کو حل کرنے کا بھی ہے۔ اس لیے ہم آپس میں بات کرتے ہیں کہ جب ہم چھوٹے تھے تو کہتے تھے کہ ہم بڑے ہو کر اداکار بنیں گے، کھلاڑی بنیں گے... ایسی ہی باتیں، لیکن اب اگر ہم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنیں کہ میں کاروباری بننا چاہتا ہوں ، خلائی صنعت میں کام کرنا ہے تو یہ ایک انتہائی قابل فخر لمحہ ہے کہ ہم اس پوری تبدیلی میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم: دوستو، پرنت، کشن، ڈینیئل، رکشت اور سُویش ، ایک طرح سے، آپ کا آغاز آپ کی دوستی کی طرح مضبوط ہے۔ اس لیے آپ ایسا شاندار کام کر رہے ہیں۔ مجھے کچھ سال پہلے آئی آئی ٹی –مدراس جانے کا موقع ملا تھا اور میں نے خود اس انسٹی ٹیوٹ کی ایکسی لنس کا تجربہ کیا تھا۔ اور ویسے بھی آئی آئی ٹی کے سلسلے میں پوری دنیا میں ایک احترام کا جذبہ ہے اور وہاں سے نکلنے والے ہمارے لوگ جب ہندوستان کے لئے کام کرتے ہیں تو ضرور کچھ نہ کچھ بہترین تعاون پیش کرتے ہیں۔ خلائی شعبے میں کام کرنے والے آپ اور دیگر اسٹارٹ اپس کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ مجھے آپ پانچوں سے بات کرنا بہت اچھا لگا۔ بہت بہت شکریہ دوستوں۔
سُویش: بہت شکریہ!
میرے پیارے ہم وطنو، اس سال لال قلعہ سے، میں نے ایک لاکھ نوجوانوں سے جو سیاسی پس منظر سے نہیں ہیں، سیاسی نظام سے جڑنے کی اپیل کی ہے۔ میرے اس نکتے کو زبردست حمایت ملی ہے۔ اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سیاست میں آنے کے لیے بے تابی سے تیار ہے۔ وہ صرف صحیح موقع اور مناسب رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ مجھے اس موضوع پر ملک بھر کے نوجوانوں کے خطوط بھی موصول ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی زبردست ردعمل موصول ہو رہا ہے۔ لوگوں نے مجھے کئی طرح کی تجاویز بھیجی ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے اپنے خطوط میں لکھا ہے کہ یہ واقعی ان کے لیے ناقابل فہم ہے۔ اپنے دادا یا والدین کی طرف سے سیاسی وراثت کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ چاہنے کے باوجود سیاست میں نہ آ سکے۔ کچھ نوجوانوں نے لکھا ہے کہ وہ زمینی سطح پر کام کرنے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ لوگوں کے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ خاندانی سیاست نئی صلاحیت کو کچل دیتی ہے۔ کچھ نوجوانوں نے کہا ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے ہماری جمہوریت کو مزید تقویت ملے گی۔ میں اس موضوع پر تجاویز بھیجنے کے لیے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اب ہماری اجتماعی کوششوں سے ایسے نوجوان بھی سیاست میں آگے آئیں گے جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے... ان کا تجربہ اور ان کا جوش ملک کے لیے کارآمد ثابت ہوگا۔
دوستو، جدوجہد آزادی کے دوران بھی کئی ایسے لوگ سامنے آئے تھے، جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی خاطرخود کو وقف کردیا ۔ ایک بار پھر، ہمیں وکست بھارت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ میں اپنے تمام نوجوان دوستوں سے گزارش کروں گا کہ اس مہم میں مثبت طور پر شامل ہوں۔ آپ کا یہ قدم آپ کے مستقبل اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے تبدیلی کا باعث ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’ ہر گھر ترنگا اور پورا دیش ترنگا ‘مہم اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ملک بھر سے مہم سے جڑی حیرت انگیز تصاویر منظر عام پر آئی ہیں۔ ہم نے گھروں کے ساتھ ساتھ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ترنگا لہراتے دیکھا۔ کچھ لوگوں نے اپنی دکانوں، دفاتر کو ترنگے سے سجایا... لوگوں نے اپنے ڈیسک ٹاپ، موبائل اور گاڑیوں پر بھی ایسا ہی کیا۔ جب لوگ ایک ساتھ جڑ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو اس طرح کی ہر مہم کو چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ آپ ابھی اپنی ٹی وی اسکرینوں پر جو ویژول دیکھ رہے ہیں وہ جموں و کشمیر کے ریاسی کی ہیں۔
750 میٹر لمبا جھنڈا اٹھائے ہوئے ایک ترنگا ریلی کا اہتمام کیا گیا... یہ ریلی دنیا کے سب سے اونچے چناب ریلوے پل پر نکالی گئی۔ جس نے بھی ان تصویروں کو دیکھا ان کے دل خوشی سے جھوم اٹھے۔ ہم سب نے سری نگر کی ڈل جھیل پر ترنگا یاترا کی دلکش تصاویر دیکھیں۔ اروناچل پردیش کے مشرقی کامنگ ضلع میں 600 فٹ لمبے ترنگا کے ساتھ ایک یاترا نکالی گئی۔ اسی طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی ہر عمر کے لوگوں نے اس طرح کی ترنگا یاترا میں شرکت کی۔ آپ نے بھی تجربہ کیا ہوگا کہ یوم آزادی اب ایک سماجی تہوار میں تبدیل ہو رہا ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو ترنگوں کی پٹیوں سے سجاتے ہیں۔ سیلف ہیلپ گروپس سے جڑی خواتین لاکھوں جھنڈے بناتی ہیں۔
ای کامرس پلیٹ فارمز پر، ترنگے میں رنگے سامانوں کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔ ۔ یوم آزادی کے موقع پر، ہمارے پرچم کے تینوں رنگ ملک کے ہر کونے اور کونے میں... زمین، سمندر اور ہوا پر نظر آئے! ہر گھر ترنگا کی ویب سائٹ پر پانچ کروڑ سے زیادہ سیلفیز پوسٹ کی گئیں۔ اس مہم نے پورے ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں باندھ دیا اور بالکل یہی ایک بھارت شریسٹھ بھارت ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے انسانوں اور جانوروں کے درمیان محبت کے بندھن پر مبنی بہت سی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ لیکن ان دنوں آسام میں ایک حقیقی کہانی سامنے آرہی ہے۔ آسام کے تینسوکیا ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں باریکوری میں موران برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اور اسی گاؤں میں ’ہولوک گبنس‘ رہتے ہیں... وہاں انہیں "ہولو بندر" کہا جاتا ہے۔ ’ہولوک گبنس‘ نے اس گاؤں میں ہی اپنا بسیرا بنالیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس گاؤں کے لوگوں کا ہولوک گبنس کے ساتھ گہرا رشتہ ہے۔ گاؤں کے لوگ موجودہ دور میں بھی اپنی روایتی اقدار پر قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گبنس کے ساتھ اپنے بندھن کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ گبنس کو کیلے بہت پسند ہیں تو انہوں نے اپنے کھیتوں میں کیلے اگانے شروع کر دیے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ گبنس کی پیدائش اور موت سے منسلک رسومات ادا کریں گے، جیسا کہ وہ اپنے قریبی اور عزیزوں کے لیے انجام دیتے تھے۔ انہوں نے گبنس کا نام بھی رکھا ہے۔ حال ہی میں، گبنس کو آس پاس کے علاقے میں سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا۔ اس منظر میں گاؤں والوں نے حکومت کے سامنے مسئلہ پیش کیا اور اس کا فوری حل بھی نکالا گیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اب یہ گبنس تصویروں کے لیے پوز بھی دیتے ہیں۔
دوستو، جانوروں سے محبت کے معاملے میں اروناچل پردیش کے ہمارے نوجوان دوست بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اروناچل میں ہمارے کچھ نوجوان دوستوں نے 3-ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ جنگلی جانوروں کو ان کے سینگوں اور دانتوں کے شکار ہونے سے بچانا چاہتے ہیں... نبام باپو اور لکھا نانا کی قیادت میں، ٹیم جانوروں کے مختلف حصوں کی 3-ڈی پرنٹنگ کرتی ہے۔ سینگ ہوں یا دانت، یہ سب 3-ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد انہیں ملبوسات اور ہیڈ گیئر جیسی اشیاء میں بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز متبادل ہے جو بائیو ڈیگریڈیبل مواد کا استعمال کرتا ہے۔
ایسی شاندار کاوشوں کی تعریف ہی کافی نہیں ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس کو آگے آنا چاہیے تاکہ ہمارے جانور محفوظ رہیں اور روایات قائم رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، مدھیہ پردیش کے جھابوا میں کچھ شاندار ہو رہا ہے، جس کے بارے میں آپ کو یقیناً معلوم ہونا چاہیے۔ وہاں، ہمارے صفائی کارکن بھائیوں اور بہنوں نے ایک شاندار کام انجام دیا ہے۔ ان بھائیوں اور بہنوں نے ہمیں ویسٹ ٹو ویلتھ کا پیغام حقیقت میں بدل کردکھایاہے۔ جھابوا کے ایک پارک میں اس ٹیم نے کچرے سے شاندار فن پارے بنائے ہیں۔ اپنی اس کوشش کے لیے، انہوں نے محلے سے پلاسٹک کا کچرا، استعمال شدہ بوتلیں، ٹائر اور پائپ جمع کیے۔ اس آرٹ ورک میں ہیلی کاپٹر، کاریں اور توپیں شامل ہیں۔ خوبصورت لٹکتے پھولوں کے گملے بھی تیار کیے گئے ہیں۔ یہاں، استعمال شدہ ٹائروں کو آرام دہ بینچ بنانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ صفائی کے کارکنوں کی اس ٹیم نے ری ڈیوز، ری یوز، اور ری سائکل کا منتر اپنایا ہے۔ ان کی کوششوں سے پارک غیر معمولی طور پر خوبصورت نظر آنے لگا ہے۔ مقامی باشندوں کے علاوہ پڑوسی اضلاع میں رہنے والے لوگ بھی دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں۔
دوستو، مجھے یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ آج ہمارے ملک میں بہت سے اسٹارٹ اپس بھی ماحول کو فروغ دینے کی کوششوں میں خود کو شامل کر رہے ہیں۔ ای کانشیئس نام کی ایک ٹیم ہے، جو ماحول دوست مصنوعات تیار کرنے کے لیے پلاسٹک کے کچرے کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ خیال انہیں ہمارے سیاحتی مقامات، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں پھیلے ہوئے کوڑے کو دیکھ کر آیا۔ ہم خیال لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ایکوکاری نام سے ایک اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ وہ پلاسٹک کے کچرے سے بے شمار خوبصورت اشیاء تیار کرتے ہیں۔
دوستو، کھلونا ری سائیکلنگ ایک اور ایسا شعبہ ہے جہاں ہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جہاں بہت سے بچے اپنے کھلونوں سے جلد ہی بور ہو جاتے ہیں وہیں ایسے بچے بھی ہیں جن کے لیے ایسے کھلونے ایک خواب کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ کھلونے جن سے آپ کے بچے اب نہیں کھیلتے... آپ انہیں خالی جگہوں پر دے سکتے ہیں، جہاں وہ کارآمد ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ماحول کے تحفظ کی طرف ایک اچھا راستہ ہے۔ جب ہم مل کر کوشش کریں گے تو یہ یقینی طور پر ماحول کو مضبوط کرے گا، ملک کو آگے لے جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے، 19 اگست کو، ہم نے رکشا بندھن کا تہوار منایا۔ اسی دن دنیا بھر میں سنسکرت کا عالمی دن منایا گیا۔ آج بھی سنسکرت کی طرف ایک خاص جھکاؤ ملک کے اندر اور یکساں طور پر پوری دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں سنسکرت زبان کے دائرے میں طرح طرح کی تحقیق اور تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں، میں آپ کے لیے ایک مختصر آڈیو کلپ چلا رہا ہوں۔
###آڈیو کلپ###
دوستو یہ آڈیو ایک یورپی ملک لتھوانیا سے منسلک ہے۔ وہاں کے پروفیسر ویٹیس وِڈوناس نے ایک انوکھی کوشش شروع کی ہے... انہوں نے اس کا نام سنسکرت آن دی ریورز رکھا ہے۔ چند لوگوں پر مشتمل ایک گروپ نیرس ندی کے کنارے اکٹھا ہوا اور وہاں ویدوں اور گیتا کا پاٹھ کیا ۔ اس طرح کی کوششیں گزشتہ چند سالوں سے وہاں جاری ہیں۔ آپ بھی کوشش کریں اور ایسی کوششیں آگے لائیں جو سنسکرت زبان کو فروغ دیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، فٹنس ہماری زندگی میں بہت اہم ہے۔ فٹ رہنے کے لیے ہمیں اپنی خوراک، اپنی طرز زندگی... ہر چیز پر توجہ دینا ہوگی۔ فٹنس کے بارے میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے، فٹ انڈیا مہم شروع کی گئی۔ صحت مند رہنے کی خاطر، لوگ یوگا کو اپنا رہے ہیں، چاہے وہ کسی بھی عمر یا طبقے کا ہو۔ لوگ تھالیوں میں ’سُرفوڈ ملٹس‘ یعنی شری انّ کو جگہ دینے لگے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے پیچھے مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ خاندان کا ہر فرد تندرست اور صحت یاب رہے۔
دوستو ہمارا خاندان، ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک.... اور ان سبھی کا مستقبل، ہمارے بچوں کی صحت پر منحصر ہے... اور ان کی صحت کی خاطر، یہ ضروری ہے کہ وہ مناسب غذائیت حاصل کرتے رہیں۔ بچوں کی غذائیت ملک کے لیے اولین ترجیح ہے۔ درحقیقت، ہم پورے سال ان کی غذائیت پر توجہ دیتے ہیں لیکن ایک خاص مہینہ ہے جو خاص طور پر اس معاملے پر توجہ دینے کے لیے وقف ہے۔ اس کے لیے ہر سال یکم ستمبر سے 30 ستمبر تک غذائیت کا مہینہ منایا جاتا ہے۔
غذائیت کےسلسلے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے نیوٹریشن میلا، اینیمیا کیمپ، نوزائیدہ بچوں کے گھر پر جانا، سیمینار، ویبینار جیسے کئی طریقے کار اپنائے جاتے ہیں۔متعدد مقامات پر آنگن واڑی کے زیراہتمام ماں اور بچہ سے متعلق کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ یہ کمیٹی غذائیت کی کمی کا شکار بچوں، حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کا پتہ لگاتی ہے... یہ ان کی مسلسل نگرانی کرتی ہے، ان کی غذائیت کے بندوبست کو یقینی بناتی ہے۔ پچھلے سال پوشن ابھیان کو نئی تعلیمی پالیسی سے جوڑا گیا تھا۔ پوشن بھی، پڑھائی بھی مہم کے ذریعے بچوں کی متوازن نشوونما پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
آپ کو بھی یقینی طور پر غذائیت کے بارے میں بیداری سے متعلق مہم سے خود کو جوڑنا چاہیے۔ آپ کی طرف سے ایک چھوٹی سی کوشش، غذائی قلت کے خلاف لڑائی میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار کی من کی بات میں، اتنا ہی۔ ’من کی بات ‘ میں آپس سے بات کرکے مجھے ہمیشہ بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے خیالات اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ غیر رسمی انداز میں ساجھا کر رہا ہوں، آپ کے دلوں سے جڑ رہا ہوں! آپ کی رائے، آپ کی تجاویز میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں بہت سے تہوار آنے والے ہیں۔ میں آپ سبھی کو ان کی ڈھیر ساری مباکباد دیتا ہوں۔
جنم اشٹمی کا تہوار بھی ہے۔ اگلے مہینے کے شروع میں گنیش چترتھی کابھی تہوارہے۔ اونم کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ میلاد النبی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو، اس مہینے کی 29 تاریخ کو تیلگو بھاشا دیوس بھی ہے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز زبان ہے۔ میں تلگو بھاشا دیوس پر دنیا بھر کے تیلگو بولنے والوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
پرپنچ ویاپتانگا ان
تیلگو ورکی
تیلیگو بھاشا دنوتسو شوبھاکانکشالو
دوستو میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کروں گا کہ بارش کے موسم میں احتیاط برتیں...اور اس کے ساتھ ساتھ’ کیچ دی رین موومنٹ‘ کا حصہ بنیں...میں آپ سبھی کو ’ ایک پیڑ ماں کے نام‘ مہم کی یاد دلانا چاہوں گا۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کریں۔ اگلے چند دنوں میں پیرس میں پیرالمپکس شروع ہونے والے ہیں۔ ہمارے دیویانگ بھائی اور بہنیں وہاں پہنچ گئے ہیں۔ 140 کروڑ ہندوستانی، اپنے ایتھلیٹوں اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ آپ بھی #Cheer4bharat (#چیئر4بھارت) کے ساتھ ہمارے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہم اگلے مہینے دوبارہ رابطہ کریں گے اور بہت سارے موضوعات پر بات کریں گے۔ تب تک میں آپ سے رخصت لیتا ہوں۔بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہموطنوں،من کی بات میں آپ کا خیر مقدم ہے، استقبال ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پیرس اولمپکس چھایا ہوا ہے۔ اولمپکس ہمارے کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر ترنگا لہرانے کا موقع فراہم کرتا ہے، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا موقع دیتا ہے۔ آپ بھی اپنے کھلاڑیوں کا جوش اور حوصلہ بڑھائیے، چیئر فار بھارت ! !
ساتھیو، اسپورٹس کی دنیا کے اِس اولمپکس سے الگ کچھ دن پہلے میتھس کی دنیا میں بھی ایک اولمپک ہوا ہے۔ انٹرنیشنل میتھ میٹیکس اولمپیاڈ ۔ اس اولمپیاڈ میں بھارت کے طلباء نے بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِس میں ہماری ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار سونے کے تمغے اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ ۔ انٹرنیشنل میتھ میٹیکس اولمپیاڈ ، اس میں 100 سے زیادہ ملکوں کے نوجوان حصہ لیتے ہیں اور اوور آل ٹیلی میں ہماری ٹیم ٹاپ فائیو میں آنے میں کامیاب رہی ہے۔ ملک کا نام روشن کرنے والے اِن طلباء کے نام ہیں :
پونے کے رہنے والے آدتیہ وینکٹ گنیش، پونے کے ہی سدھارتھ چوپڑا، دلّی کے ارجن گپتا، گریٹر نوئیڈا کے کَنَو تلوار ممبئی کے رُشیل ماتھر اور گواہاٹی کے آنندو بھادُری۔
ساتھیو، آج من کی بات میں، میں نے کامیابی حاصل کرنے والے اِن نوجوانوں کو خاص طور پر مدعو کیا ہے۔ یہ سبھی اِس وقت فون پر ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم :- نمستے ساتھیو، من کی بات میں آپ سبھی ساتھیو کا بہت بہت خیرمقدم ہے۔ آپ سبھی کیسے ہیں؟
طلباء :- ہم ٹھیک ہیں سر۔
وزیر اعظم :- اچھا ساتھیوں، من کی بات کے ذریعے ملک کے لوگ آپ سبھی کے تجربات جاننے کے بہت خواہشمند ہیں۔ میں شروعات کرتا ہوں، آدتیہ اور سدھارتھ سے۔ آپ لوگ پونے میں ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ سے ہی شروع کرتا ہوں۔ اولمپیاڈ کے دوران آپ نے جو تجربہ حاصل کیا، اُسے ہم سبھی کے ساتھ شیئر کیجئے۔
آدتیہ:- مجھے میتھس میں چھوٹے سے دلچسپی تھی ۔ مجھے چھٹی کلاس میتھس ایم پرکاش سر، میرے ٹیچر نے سکھایا تھا اور انہوں نے میری میتھس میں دلچسپی کو بڑھایا تھا۔ مجھے سیکھنے کو ملا اور مجھے موقع ملا تھا۔
وزیر اعظم :- آپ کے ساتھی کا کیا کہنا ہے؟
سدھارتھ:- سر میں سدھارتھ ہوں، میں پونے سے ہوں۔ میں ابھی کلاس بارہویں پاس کیا ہوں۔ یہ میرا سیکنڈ ٹائم تھا ۔ آئی ایم او میں، مجھے بھی چھوٹے سے بہت انٹریسٹ تھامیتھس میں اور آدتیہ کے ساتھ جب میں چھٹی کلاس میں تھا ایم پرکاش سر نے ہم دونوں کو ٹرین کیا تھا اور بہت ہیلپ ہوا تھا ہم کو اور ابھی میں کالج کیلئے سی ایم آئی جا رہا ہوں اور میتھس اینڈ سی ایس پرسیو کررہا ہوں۔
وزیر اعظم :- اچھا مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ارجن اِس وقت گاندھی نگر میں ہیں اور کَنَو تو گریٹر نوئیڈا کے ہی ہیں۔ ارجن اور کَنِو ہم نے اولمپیاڈ کو لے کر جو بات کی لیکن آپ دونوں ہمیں اپنی تیاری سے وابستہ کوئی موضوع اور کوئی خاص تجربے اگر بتائیں گے تو ہمارے سامعین کو اچھا لگے گا۔
ارجن:- نمستے سر، جے ہند، میں ارجن بول رہا ہوں۔
وزیر اعظم:- جے ہند ارجن
ارجن:- میں دلّی میں رہتا ہوں اور میری ماں شریمتی آشا گپتا فزکس کی پروفیسر ہیں، دلّی یونیورسٹی میں، اور میرے والد شری امت گپتا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ میں بھی بہت فخر محسوس کررہا ہوں کہ میں اپنے ملک کے وزیر اعظم سے بات کررہا ہوں اور سب سے پہلے، میں اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین کو دینا چاہوں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ جب ایک فیملی میں کوئی ممبر ایک ایسے کمپٹیشن کی تیاری کررہا ہوتا ہے تو صرف وہ اُس ممبر کی جدوجہد نہیں ہوتی بلکہ پورے پریوار کی جدوجہد ہوتی ہے۔ ہمارے پاس جو ہمارا پیپر ہوتے ہیں اُس میں ہمارے پاس تین پرابلمس کیلئےساڑھے چار گھنٹے ہوتے ہیں، تو ایک پرابلم کیلئے ڈیڑھ گھنٹہ۔ تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے ہمارے پاس ایک پرابلم کو حل کرنے کیلئے کتنا وقت ہوتا ہے۔ تو ہمیں گھر پہ کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں پرابلمس کے ساتھ گھنٹوں لگانے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ایک ایک پرابلم کے ساتھ، ایک دن یا یہاں تک کہ تین دن بھی لگ جاتے ہیں۔ تو اِس کیلئے ہمیں آن لائن پرابلمس ڈھونڈنی ہوتی ہیں۔ ہم پچھلے سال کی پرابلم ٹرائی کرتے ہیں اور ایسے ہی جیسے ہم آہستہ آہستہ محنت کرتے جاتے ہیں، اُس سے ہمارا ایکسپیرئنس بڑھتا ہے۔ ہماری سب سے ضروری چیز ہماری پرابلم سولوِنگ ایبیلٹی بڑھتی ہے، جو نہ کہ ہمیں میتھ میٹکس میں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مدد کرتی ہے۔
وزیر اعظم :- اچھا مجھے کَنَو بتا سکتے ہیں کہ کوئی خاص تجربہ ہو ، یہ ساری تیاری میں کوئی خاص جو ہمارے نوجوان ساتھیوں کو بڑا اچھا لگے جان کرکے۔
کَنَو تلوار :- میرا نام کَنَو تلوار ہے، میں گریٹر نوئیڈا اترپردیش میں رہتا ہوں اور گیارہویں کلاس کا طالب علم ہوں۔ میتھس میرا پسندیدہ مضمون ہے ۔ اور مجھے بچپن سے میتھس بہت پسند ہے۔ بچپن میں میرے والد مجھے پزلس کراتے تھے، جس سے میرا انٹریسٹ بڑھتا گیا۔ میں نے اولمپیاڈ کی تیاری ساتویں کلاس سے شروع کی تھی۔ اس میں میری بہن کا بہت بڑا رول رہا۔ اور میرے والدین نے بھی ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا۔ یہ اولمپیاڈ ، ایچ بی سی ایس ای منعقد کراتا ہے۔ اور یہ ایک 5 مرحلوں کا عمل ہوتا ہے۔ پچھلے سال میرا ٹیم میں نہیں ہوا تھا اور میں کافی قریب تھا۔ اور نہ ہونے پر بہت دکھی تھا۔ تب میرے والدین نے مجھے سکھایا کہ یا ہم جیتتے ہیں یا ہم سیکھتے ہیں۔ اور سفر معنی رکھتا ہے کامیابی نہیں۔ تو میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ - ’لَو وہاٹ یُو ڈُو اینڈ ڈُو وہاٹ یُو لَو ‘ ۔ سفر معنی رکھتا ہے کامیابی نہیں اور ہمیں سکسیس ملتے رہے گا۔ اگر ہم اپنے سبجیکٹ سے پیار کریں اور سفر کا مزہ لیں۔
وزیر اعظم:- تو کَنَو آپ تو میتھ میٹیکس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور بولتے ہیں ایسے ، جیسے آپ کو ادب میں بھی دلچسپی ہو۔
کَنَو تلوار :- جی سر، میں بچپن میں بحث و مباحثے اور تقریروں کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتا تھا۔
وزیر اعظم:- اچھا اب آئیے ہم آنندو سے بات کرتے ہیں۔ آنندو ، آپ ابھی گواہاٹی میں ہیں اور آپ کا ساتھی روشیل آپ ممبئی میں ہیں۔ میرا آپ دونوں سے ایک سوال ہے۔ دیکھیے، میں پریکشا پہ چرچا تو کرتا ہی رہتا ہوں، اور پریکشا پہ چرچا کے علاوہ دیگر پروگراموں میں بھی میں طلباء سے گفتگو کرتا رہتا ہوں۔ بہت سے طلباء کو میتھس سے اتنا ڈر لگتا ہے، نام سنتے ہی گھبرا جاتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ میتھس سے دوستی کیسے کی جائے؟
روشیل ماتھر:- سر میں روشیل ماتھر ہوں۔ جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں اور ہم پہلی بار ایڈیشن سیکھتے ہیں، ہمیں کیری فارورڈ سمجھایا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں کبھی یہ نہیں سمجھایا جاتا کہ کیری فارورڈ ہوتا کیوں ہے۔ جب ہم کمپاؤنڈ انٹریسٹ پڑھتے ہیں تو یہ سوال کبھی نہیں پوچھے کہ کمپاؤنڈ انٹریسٹ کا فارمولا آتا کہاں سے ہے؟ میرا ماننا یہ ہے کہ میتھس دراصل ایک سوچنے اور پرابلم حل کرنے کا ایک فن ہے۔ اور اس لیے مجھے یہ لگتا ہے کہ اگر ہم سب میتھ میٹکس میں ایک نیا سوال جوڑ دیں تو یہ سوال ہے کہ ہم یہ کیوں کررہے ہیں؟ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تو میرے خیال میں اِس سے میتھس میں بہت انٹریسٹ بڑھ سکتا ہے، لوگوں کا۔ کیونکہ جب کسی چیز کو ہم سمجھ نہیں پاتے، اُس سے ہمیں ڈر لگنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میتھس سب سوچتے ہیں کہ ایک بہت لاجیکل سا مضمون ہے۔ لیکن اس کے علاوہ میتھس میں بہت کرئیٹیویٹی بھی ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ کرئیٹیویٹی سے ہی ہم آؤٹ آف دی باکس سولوشنس سوچ پاتے ہیں جو اولمپیاڈ میں بہت کام آتے ہیں۔ اور اس لیے میتھس اولمپیاڈ کا بھی بہت اہم تعلق ہے ۔ میتھس کے انٹریسٹ بڑھانے کیلئے۔
وزیر اعظم :- آنندو کچھ کہنا چاہیں گے؟
آنندو بھادُری:- نمستے پی ایم جی۔ میں آنندو بھادُری گواہاٹی سے۔ میں ابھی ابھی 12ویں کلاس پاس کیا ہوں۔ یہاں کے مقامی اولمپیاڈ میں چھٹے اور ساتویں میں کرتا تھا۔ وہاں سے دلچسپی ہوئی یہ میری دوسری آئی ایم او تھی۔ دونوں آئی ایم او بہت اچھے لگے۔ میں روشیل جو تھا ، اُس سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جنہیں میتھس سے ڈر ہے ، انہیں صبر کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمیں میتھس جیسے پڑھایا جاتا ہے۔ کیا ہوتا ہے ایک فارمولا دیا جاتا ہے، جو رَٹا جاتا ہے پھر اُس فارمولے سے ہی 100 سوال ایسے پڑھنے پڑتے ہیں۔ لیکن فارمولا سمجھے کہ نہیں وہ نہیں دیکھا جاتا، صرف سوال کرتے جاؤ کرتے جاؤ۔ فارمولا بھی رٹا جائے گا اور پھر امتحان میں اگر فارمولا بھول گیا تو کیا کرے گا؟ اس لئے میں کہوں گا کہ فارمولے کو سمجھو ، جو روشیل کہا تھا۔ پھر اطمینان سے دیکھو۔ اگر فارمولا ٹھیک سے سمجھے تو 100 سوال نہیں کرنے پڑیں گے۔ ایک دو سوال سے ہی ہوجائیں گے۔ اور میتھس کو ڈرنا بھی نہیں ہے۔
وزیر اعظم:- آدتیہ اور سدھارتھ، آپ جب شروع میں بات کررہے تھے تب ٹھیک سے بات ہو نہیں پائی، اب اِن سارے ساتھیوں کو سننے کے بعد آپ کو بھی ضرور لگتا ہے کہ آپ بھی کچھ کہنا چاہتے ہوں گے۔ کیا آپ اپنے تجربے اچھے ڈھنگ سے شیئر کرسکتے ہیں؟
سدھارتھ:- بہت سارے دوسرے ملکوں سے انٹریکٹ کیا تھا، بہت سارے کلچر تھے اور بہت اچھا تھا دوسرے طلباء سے بات چیت اور بہت سارے مشہور میتھس کے ماہرین تھے۔
وزیر اعظم:- ہاں آدتیہ
آدتیہ:- بہت اچھا تجربہ تھا اور ہمیں انہوں نے باتھ سِٹی کو گھماکر دکھایا تھا اور بہت اچھے اچھے منظر دیکھے تھے۔ پارکس لے کے گئے تھے اور ہمیں آکسفورڈ یونیورسٹی کو بھی لے کر گئے تھے تو وہ ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔
وزیر اعظم:- چلیے ساتھیوں، مجھے بہت اچھا لگا آپ لوگوں سے بات کرکے اور میں آپ کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں اس طرح کے کھیل کیلئے کافی فوکس ایکٹیویٹی کرنی پڑتی ہے، دماغ لگانا پڑتا ہے اور فیملی کے لوگ بھی کبھی کبھی تنگ آجاتے ہیں ، کہ یہ ہر وقت جمع ، گھٹا ، تقسیم کرتا رہتا ہے۔لیکن میری طرف سے آپ کیلئے بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ نے ملک کی شان بڑھائی ہے۔ ملک کا نام روشن کیا ہے۔ شکریہ دوستوں۔
طلباء :- تھینک یو ، شکریہ
وزیر اعظم :- تھینک یو
طلباء :- تھینک یو سر ، جے ہند
وزیر اعظم:- جے ہند ، جے ہند
آپ سبھی طلباء سے بات کرکے بہت اچھا لگا۔ من کی بات میں شامل ہونے کیلئے آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے یقین ہے کہ میتھس کی اِن نوجوان ہستیوں کو سننے کے بعد دوسرے نوجوانوں کو میتھس کو انجوائے کرنے کی تحریک ملے گی۔
میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں، اب میں اُس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں، جسے سُن کر ہر بھارتی شہری کا سر فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ لیکن اِس کے بارے میں بتانے سے پہلے میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ کیا آپ نے چرائی دیو میدام کا نام سُنا ہے؟ اگر نہیں سنا، تو اب آپ یہ نام بار بار سنیں گے، اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ دوسروں کو بتائیں گے۔ آسام کے چرائی دیو میدام کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس لسٹ میں یہ بھارت کی 43 ویں لیکن نارتھ ایسٹ کی پہلی سائٹ ہوگی۔
ساتھیو، آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آرہا ہوگا کہ چرائی دیو میدام آخر ہے کیا، اور یہ اِتنا خاص کیوں ہے۔ چرائی دیو کا مطلب ہے شائننگ سِٹی آن دی ہِلس ، یعنی پہاڑی پر ایک چمکتا شہر۔ یہ راج ونش اَہوم کی پہلی راجدھانی تھی۔ راج ونش اَہوم کے لوگ اپنے آبا و اجداد کے جسدِ خاکی اور اُن کی قیمتی چیزوں کو روایتی انداز سے میدام میں رکھتے تھے۔ میدام، ٹیلے کی شکل کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے، جو اوپر مٹی سے ڈھکا ہوتا ہے، اور نیچے ایک یا اُس سے زیادہ کمرے ہوتے ہیں۔ یہ میدام اَہوم سلطنت کے اُن راجاؤں اور ممتاز لوگوں کے تئیں عقیدت کی علامت ہے، جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ اپنے آبا و اجداد کے تئیں احترام کے اظہار کا یہ طریقہ بہت منفرد ہے۔ اِس جگہ پر اجتماعی پوجا بھی ہوتی تھی۔
ساتھیو، اَہوم سلطنت کے بارے میں دوسری معلومات آپ کو اور حیران کریں گی۔ 13ویں صدی سے شروع ہوکر یہ سلطنت 19ویں صدی کی شروعات تک چلی۔ اتنے طویل عرصے تک ایک سلطنت کا برقرار رہنا بہت بڑی بات ہے۔ شاید اَہوم سلطنت کے اصول اور اعتماد اتنا مضبوط تھا کہ اُس نے اِس سلطنت کو اتنے وقت تک قائم رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ اِسی سال 9 مارچ کو مجھے غیر معمولی شجاعت اور بہادری کے علمبردار عظیم اَہوم مجاہد لَسِت بور پھوکن کے سب سے بلند مجسمے کی نقاب کشائی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس پروگرام کے دوران اَہوم برادری روحانی روایت پر عمل کرتے ہوئے مجھے ایک الگ ہی انداز کا تجربہ ہوا تھا۔ لَسِت میدام میں اَہوم برادری کے آبا و اجداد کی عزت افزائی کا شرف حاصل ہونا میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔ اب چرائی دیو میدام کے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ بننے کا مطلب ہوگا کہ یہاں پر اور زیادہ سیاح آئیں گے۔ آپ بھی مستقبل کے اپنے ٹریول پلانس میں اِس سائٹ کو ضرور شامل کرئیے گا۔
ساتھیو، اپنی ثقافت پر فخر کرتے ہوئے ہی کوئی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ بھارت میں بھی اِس طرح کی بہت سی کوششیں ہورہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش ہے پروجیکٹ پری … ۔ اب آپ پری سن کر کنفیوز مت ہوئیے گا .. یہ پری آسمانی تصور سے وابستہ نہیں بلکہ زمین کو سُورگ بنا رہی ہے۔ پری یعنی پبلک آرٹ آف انڈیا۔ پری پروجیکٹ ، پبلک آرٹ کو مقبولِ عام بنانے کیلئے ابھرتے ہوئے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بڑا وسیلہ بن رہا ہے۔ آپ دیکھتے ہوں گے .. سڑکوں کے کنارے، دیواروں پر، انڈر پاس میں بہت ہی خوبصورت پینٹگس بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ پینٹگس اور یہ فن پارے یہی آرٹسٹ بناتے ہیں، جو پری سے وابستہ ہیں۔ اس سے جہاں ہمارے عوامی مقامات کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں ہمارے کلچر کو اور زیادہ مشہور بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، دلّی کے بھارت منڈپم کو ہی لیجیے۔ یہاں ملک بھر کے عمدہ آرٹ ورکس آپ کو دیکھنے کو مل جائیں گے۔ دلّی میں کچھ انڈر پاس اور فلائی اوور پر بھی آپ ایسے خوبصورت پبلک آرٹ دیکھ سکتے ہیں۔ میں آرٹ اور کلچر کے مداحوں سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ بھی پبلک آرٹ پر اور کام کریں۔ یہ ہمیں اپنی اساس پر فخر کرنے کا خوشگوار احساس دلائے گا۔
میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں اب بات، رنگوں کی، ایسے رنگوں کی جنہوں نے ہریانہ کے روہتک ضلع کی ڈھائی سو سے زیادہ خواتین کی زندگی میں خوشحالی کے رنگ بھر دیئے ہیں۔ ہتھ کرگھا صنعت سے وابستہ یہ خواتین پہلے چھوٹی چھوٹی دکانیں اور چھوٹے موٹے کام کرکے گزارا کرتی تھیں۔ لیکن ہر کسی میں آگے بڑھنے کی خواہش تو ہوتی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے’ اُنّتی سیلف ہیلپ گروپ ‘سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا اور اس گروپ سے وابستہ ہوکر انہوں نے بلاک پرنٹنگ اور رنگائی میں تربیت حاصل کی۔ کپڑوں پر رنگوں کا جادو بکھیرنے والی یہ خواتین آج لاکھوں روپے کما رہی ہیں۔ اِن کے بنائے بیڈ کَور ، ساڑھیوں اور دوپٹوں کی بازار میں بھاری مانگ ہے۔
ساتھیو، روہتک کی اِن خواتین کی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں کاریگر، ہینڈلوم کو مقبولِ عام بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ خواہ اڈیشہ کی سمبل پوری ساڑھی ہو، خواہ ایم پی کی ماہیشوری ساڑھی ہو، مہاراشٹر کی پیٹھانی یا وِدربھ کے ’ہینڈ بلاک پرنٹس ‘ ہوں، خواہ ہماچل کی ’بھُٹّیکو‘ کی شال اور اونی کپڑے ہوں، یا پھر جموں وکشمیر کی کَنی شال ہوں۔ ملک کے گوشے گوشے میں ہینڈلوم کاریگروں کا کام چھایا ہوا ہے۔ اور آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے، کچھ ہی دن بعد 7 اگست کو ہم ’’نیشنل ہینڈلوم ڈے‘‘ منائیں گے۔ آج کل جس طرح ہینڈلوم اشیاء نے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے، وہ واقعی بہت زبردست، بڑی کامیابی ہے۔ اب تو کئی پرائیویٹ کمپنیاں بھی اے آئی کے ذریعے ہینڈلوم کے سامان اور پائیدار فیشن کو بڑھاوا دے رہی ہیں-:کوشا اے آئی ، ہینڈ لوم انڈیا ، ڈی- جَنک ، نووا ٹکس ، برہمپترا فیبلس ۔
ایسے کتنے ہی اسٹارٹ اَپ بھی ہینڈلوم اشیاء کو مقبولِ عام بنانے میں مصروف ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی اچھا لگا کہ بہت سے لوگ اپنے یہاں کے ایسے لوکل پروڈکٹس کو مشہور بنانے میں لگے ہیں۔ آپ بھی اپنے لوکل پروڈکٹس کو ’’ ہیش ٹیگ مائی پروڈکٹ مائی پرائیڈ ‘‘ کے نام سے سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کریں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کوشش بے شمار لوگوں کی زندگی بدل دے گی۔
ساتھیو، ہینڈلوم کے ساتھ ساتھ میں کھادی کی بات بھی کرنا چاہوں گا۔ آپ میں سے ایسے کئی لوگ ہوں گے، جو پہلے کبھی کھادی سے بنی اشیاء اور سامان کا استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن آج بڑے فخر سے کھادی پہنتے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے بھی خوشی ہورہی ہے کہ کھادی گرام اُدیوگ کا کاروبار پہلی مرتبہ ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ سوچئے ، ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے! اور جانتے ہیں کھادی کی فروخت میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟400 فی صد ۔ کھادی کی، ہینڈلوم کی یہ بڑھتی ہوئی فروخت بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کررہی ہے۔ اِس انڈسٹری سے سب سے زیادہ خواتین وابستہ ہیں ، تو سب سے زیادہ فائدہ بھی اُن ہی کو ہی رہا ہے۔ میری تو آپ سے پھر ایک اپیل ہے، آپ کے پاس طرح طرح کے ملبوسات ہوں گے اور آپ نے اب تک کھادی کے کپڑے نہیں خریدے تو اِس سال سے شروع کردیں۔ اگست کا مہینہ آہی گیا ہے، یہ آزادی ملنے کا مہینہ ہے، انقلاب کا مہینہ ہے۔ اِس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا – کھادی خریدنے کیلئے۔
میرے پیارے ہموطنو، من کی بات میں، میں نے اکثر آپ سے ڈرگْس کے چیلنج کی بات کی ہے۔ ہر فیملی کی یہ تشویش ہوتی ہے کہ کہیں اُن کا بچہ ڈرگْس کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ اب ایسے لوگوں کی مدد کیلئے سرکار نے ایک خصوصی سینٹر کھولا ہے، جس کا نام ہے، مانس ۔ ڈرگْس کے خلاف لڑائی میں یہ بہت بڑا قدم ہے۔ کچھ دن پہلے ہی مانس کی ہیلپ لائن اور پورٹل کو لانچ کیا گیا ہے۔ سرکار نے ایک ٹول فری نمبر ’1933‘ جاری کیا ہے۔ اِس پر کال کرکے کوئی بھی ضروری صلاح لے سکتا ہے یا پھر ری ہیبلیٹیشن سے وابستہ جانکاری حاصل کرسکتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ڈرگْس سے متعلق کوئی دوسری معلومات بھی ہیں، تو وہ اِسی نمبر پر کال کرکے ’نارکوٹکس کنٹرول بیورو ‘ کو یہ جانکاری فراہم کرسکتے ہیں۔ مانس کو دستیاب کرائی گئی ہر جانکاری راز میں رکھی جاتی ہے۔ بھارت کو ڈرگْس فری بنانےسے وابستہ سبھی لوگوں سے، سبھی کنبوں سے، سبھی تنظیموں سے میری اپیل ہے کہ مانس ہیلپ لائن کا بھرپور استعمال کریں۔
میرے پیارے ہموطنو، کَل دنیا بھر میں ٹائیگر ڈے منایا جائے گا۔ بھارت میں تو ٹائیگرس، شیر ہماری ثقافت کا لازمی حصہ رہا ہے۔ ہم سب شیروں سے وابستہ قصے کہانیاں سنتے ہوئے ہی بڑے ہوئے ہیں۔ جنگل کے آس پاس کے گاؤں میں تو ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ شیر کے ساتھ تال میل قائم کرکے کیسے رہنا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے کئی گاؤں ہیں، جہاں انسان اور شیر کے درمیان کبھی ٹکراؤ کی نوبت نہیں آتی۔ لیکن جہاں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے، وہاں بھی شیروں کو محفوظ رکھنے کیلئے غیر معمولی کوششیں ہورہی ہیں۔ جَن بھاگیداری کی ایسی ہی ایک کوشش ہے، ’’ کلہاڑی بند پنچایت‘‘ ۔ راجستھان کے رَن تھمبھور سے شروع کی گئی کلہاڑی بند پنچایت مہم بہت دلچسپ ہے۔ مقامی برادریوں نے خود اِس بات کا حلف لیا ہے کہ جنگل میں کلہاڑی کے ساتھ نہیں جائیں گے اور درخت نہیں کاٹیں گے۔ اِس ایک فیصلے سے یہاں کے جنگل ایک بار پھر سے ہرے بھرے ہورہے ہیں اور شیروں کیلئے بہتر ماحول تیار ہورہا ہے۔
ساتھیو، مہاراشٹر کا ٹدوبا – اندھاری ٹائیگر ریزرو شیروں کے اہم بسیروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کی مقامی برادریوں، خاص طور پر گونڈ اور مانا قبیلوں کے ہمارے بھائی بہنوں نے ایکو ٹورزم کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے ہیں۔ انہوں نے جنگل پر اپنا انحصار کم کیا ہے تاکہ یہاں شیروں کی سرگرمیاں بڑھ سکیں۔ آپ کو آندھرا پردیش میں نلاّ ملائی کی پہاڑیوں پر رہنے والے ’چینچو‘ قبیلے کی کوششیں بھی حیران کردیں گی۔ انہوں نے ٹائیگر ٹریکرس کے طور پر جنگل میں رہنے والے جنگلی جانوروں کی موومنٹ کی ہر جانکاری اکٹھا کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ علاقے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح اترپردیش کے پیلی بھیت میں جاری ’’باگھ مِتر کاریہ کرم‘‘ کا بھی بہت چرچا ہے۔ اِس کے تحت مقامی لوگوں کو ’ باگھ متر‘ کے طور پر کام کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ باگھ متر اِس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ شیروں اور انسانوں کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت نہ آئے۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں اِس طرح کی کئی کوششیں ہورہی ہیں۔ میں نے یہاں کچھ ہی کوششوں کا تذکرہ کیا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ جَن بھاگیداری، شیروں کے تحفظ میں بہت کام آرہی ہے۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے ہی بھارت میں شیروں کی آبادی ہر سال بڑھ رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی اور فخر کا احساس ہوگا کہ دنیا بھر میں جتنے شیر ہیں، اُن میں سے 70 فیصد شیر ہمارے ملک میں ہیں۔ سوچئے! 70 فیصد شیر! تبھی تو ہمارے ملک کے الگ الگ حصوں میں کئی ٹائیگر سینچری ہیں۔
ساتھیو، شیروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں جنگلاتی علاقے میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں بھی اجتماعی کوششوں سے بڑی کامیابی مل رہی ہے۔ پچھلے من کی بات پروگرام میں آپ سے ’’ایک پیڑ ماں کے نام‘‘ پروگرام کی بات کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں بڑی تعداد میں لوگ اِس مہم میں شامل ہورہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے صفائی ستھرائی کیلئے مشہور اندور میں ایک شاندار پروگرام ہوا۔ یہاں ’’ایک پیڑ ماں کے نام‘‘ پروگرام کے دوران ایک ہی دن میں دو لاکھ سے زیادہ پودے لگائے گئے۔ اپنی ماں کے نام پر درخت لگانے کی اِس مہم میں آپ بھی ضرور شامل ہوں اور سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کریں۔ اِس مہم میں شامل ہوکر اپنی ماں اور دھرتی ماں دونوں کیلئے کچھ اسپیشل کرنے کا احساس ہوگا۔
میرے پیارے ہموطنو، 15 اگست کا دن اب دور نہیں ہے۔ اور اب تو 15 اگست کے ساتھ ایک اور مہم وابستہ ہوگئی ہے، ’’ ہر گھر ترنگا ابھیان‘‘۔ گذشتہ کچھ برسوں سے تو پورے ملک میں ہر گھر ترنگا ابھیان کیلئے سب کا جوش ہائی رہتا ہے۔ غریب ہو، امیر ہو، چھوٹا گھر ہو، بڑا گھر ہو، ہر کوئی ترنگا لہراکر فخر کا احساس کرتا ہے۔ ترنگے کے ساتھ سیلفی لے کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا کریز بھی نظر آتا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا ، جب کالونی یا سوسائٹی کے ایک ایک گھر پر ترنگا لہراتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے گھروں پر بھی ترنگا نظر آنے لگتا ہے۔ یعنی ہر گھر ترنگا ابھیان – ترنگے کی شان میں ایک یونِک فیسٹیول بن چکا ہے۔ اِس سلسلے میں اب تو طرح طرح کی اختراعات بھی ہونے لگی ہیں۔ 15 اگست آتے آتے گھر میں، دفتر میں ، کار میں ، ترنگا لگانے کیلئے طرح طرح کے پروڈکٹ نظر آنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ترنگا اپنے دوستوں ، پڑوسیوں کو بانٹتے بھی ہیں۔ ترنگے کو لے کر یہ جوش و خروش ، یہ ولولہ ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔
ساتھیو، پہلے کی طرح اِس سال بھی آپ‘harghartiranga.com’ پر ترنگے کے ساتھ اپنی سیلفی ضرور اَپ لوڈ کریں گے اور میں، آپ کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ ہر سال 15 اگست سے پہلے آپ مجھے اپنی بہت سی تجویزیں بھیجتے ہیں۔ آپ اِس سال بھی مجھے اپنی تجاویز ضرور بھیجیے ۔ آپ ’ مائی گوو ‘ یا ’نمو ایپ ‘ پر بھی اپنی تجویزیں بھیج سکتے ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ تجویزوں کو 15 اگست کے خطاب میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا۔
میرے پیارے ہموطنو، من کی بات کے اِس ایپیسوڈ میں آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا۔ اگلی بار پھر ملیں گے، ملک کی نئی کامیابیوں کے ساتھ، جَن بھاگیداری کی نئی کوششوں کے ساتھ، آپ من کی بات کیلئے اپنی تجویزیں ضرور بھیجتے رہیں۔ آنے والے وقت میں کئی تہوار بھی آرہے ہیں۔ آپ کو سبھی تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر تہواروں کا لطف اٹھائیں۔ ملک کیلئے کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی توانائی لگاتار بنائے رکھیں۔ بہت بہت شکریہ ، نمسکار ۔
میرے پیارے ہم وطنو، سلام۔ آج وہ دن آ گیا ہے جس کا ہم سب فروری سے انتظار کر رہے تھے۔ میں ’من کی بات‘ کے ذریعے ایک بار پھرآپ کے درمیان اوراپنے پریوار جنوں کےدرمیان آیا ہوں۔ ایک بہت ہی پیاری کہاوت ہے –’اِتی ویداپنرملانیہ‘، اس کا مطلب بھی اتنا ہی پیارا ہے، میں الوداع کہتا ہوں، دوبارہ ملنے کے لیے۔ اسی جذبے کے تحت میں نے فروری میں آپ سے کہا تھا کہ میں انتخابی نتائج کے بعد آپ سے دوبارہ ملوں گا اور آج 'من کی بات' کے ساتھ میں آپ کے درمیان ایک بار پھر حاضر ہوں۔ امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے، گھر میں سب خیریت سے ہوں گے اور اب مانسون بھی آچکا ہے، اور جب مانسون آتا ہے تو من بھی خوش ہوجاتا ہے۔ آج سے ایک بار پھر 'من کی بات' میں ہم ایسے ہم وطنوں کے بارے میں بات کریں گے جو اپنے کام سے سماج اور ملک میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ ہم اپنی بھرپور ثقافت، شاندار تاریخ اور ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔
دوستو، فروری سے لے کر اب تک، جب بھی مہینے کا آخری اتوار قریب آتا تھا، توآپ سے یہ رابطہ بہت یاد آتا تھا۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں نے مجھے ان مہینوں میں لاکھوں پیغامات بھیجے۔ 'من کی بات' ریڈیو کا پروگرام بھلے ہی چند مہینوں سے بند ہوا ہو، لیکن 'من کی بات' کا جذبہ ہر روز ملک اور معاشرے میں اچھے کاموں کو پھیلا رہا ہے، بے لوث جذبے سے کیے گئے کام، جس کے مثبت اثرات معاشرے میں مرتب ہو رہے ہیں- اسےمسلسل جاری رکھیں۔ انتخابی خبروں کے درمیان، آپ نے یقیناً ایسی دل کو چھو لینے والی خبروں کو دیکھا ہوگا۔
دوستو، آج میں ہم وطنوں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے آئین اور ملک کے جمہوری نظام پر اپنے غیر متزلزل یقین کا اعادہ کیا ہے۔ 24 کا الیکشن دنیا کا سب سے بڑا الیکشن تھا۔ اتنا بڑا الیکشن دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوا، جس میں 65 کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ میں اس کے لیے الیکشن کمیشن اور ووٹنگ کے عمل سے وابستہ سبھی متعلقہ افراد کو مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 30 جون بہت اہم دن ہے۔ ہمارے قبائلی بھائی بہن اس دن کو ’’ ہُل دِوَس‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن بہادر سدھو کانہو کی بے مثال جرات سے وابستہ ہے جنہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے مظالم کا بھرپور مقابلہ کیا۔ بہادر سدھو کانہو نے ہزاروں سنتھالی ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور انگریزوں کے خلاف جی جان اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا ، اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کب ہوا؟ یہ 1855 میں ہوا، یعنی 1857 میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی سے دو سال پہلے، جب جھارکھنڈ کے سنتھل پرگنہ میں ہمارے قبائلی بھائی بہنوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ انگریزوں نے ہمارے سنتھالی بھائیوں اور بہنوں پر بہت مظالم ڈھائے تھے اور ان پر بہت سی پابندیاں بھی لگائی تھیں۔ بہادر سدھو اور کانہو اس جدوجہد میں کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ جھارکھنڈ کی سرزمین کے ان لازوال فرزندوں کی قربانی آج بھی اہل وطن کو متاثر کرتی ہے۔ آئیے سنتالی زبان میں ان کے لیے ایک گیت کا اقتباس سنتے ہیں۔
#آڈیو کلپ#
میرے پیارے دوستو، اگر میں آپ سے پوچھوں کہ دنیا کا سب سے قیمتی رشتہ کون سا ہے تو آپ ضرور کہیں گے - "ماں"۔ ہم سب کی زندگی میں ماں کا مقام سب سے زیادہ ہے۔ ماں ہر دکھ سہنے کے بعد بھی اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے۔ ہر ماں اپنے بچے کو ہر طرح سے پیار کرتی ہے۔ ہماری پیدائشی ماں کی یہ محبت ہم سب پر ایک قرض کی طرح ہے جسے کوئی نہیں چکا سکتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہم ماں کو تو کچھ نہیں دے سکتے لیکن کیا کچھ اور کر سکتے ہیں؟ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سال عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ایک خصوصی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کا نام ہے - 'ایک پیڑ ماں کے نام'۔ میں نے اپنی ماں کے نام پر ایک درخت بھی لگایا ہے۔ میں نے تمام اہل وطن، دنیا کے تمام ممالک کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ یا ان کے نام پر ایک درخت لگائیں۔ اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ماں کی یاد میں یا ان کے اعزاز میں درخت لگانے کی مہم تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ لوگ اپنی ماں کے ساتھ درخت لگانے کی تصاویر یا اس کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ماں کے لیے درخت لگا رہا ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب، چاہے وہ ملازمت پیشہ عورت ہو یا گھریلو خاتون۔ اس مہم نے سب کو اپنی ماں کے تئیں اپنے پیار کا اظہار کرنے کا یکساں موقع فراہم کیا ہے۔ وہ #پلانٹ فار مدر اور #ایک پیڑ ماں کے نام پر اپنی تصاویر شیئر کرکے دوسروں کو متاثر کررہے ہیں۔
دوستو اس مہم کا ایک اور فائدہ بھی ہوگا۔ دھرتی بھی ماں کی طرح ہمارا خیال رکھتی ہے۔ ماں دھرتی ہم سب کے لیے زندگی کی بنیاد ہے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم زمین کی ماں کا بھی خیال رکھیں۔ ماں کے نام پر درخت لگانے کی مہم سے نہ صرف ہماری ماں کی عزت دوبالا ہوگی بلکہ دھرتی ماں کی حفاظت بھی ہوگی۔ پچھلی دہائی میں، سب کی کوششوں سے، ہندوستان میں جنگلات کے رقبے میں بے مثال توسیع ہوئی ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران ملک بھر میں 60 ہزار سے زیادہ امرت سروور بھی بنائے گئے ہیں۔ اب ہمیں ماں کے نام پر درخت لگانے کی مہم کو تیز کرنا ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے مختلف حصوں میں مانسون تیزی سے اپنے رنگ بکھیر رہا ہے۔ اور برسات کے اس موسم میں جس چیز کو ہر کوئی اپنے گھر میں تلاش کرنے لگا ہے وہ ہے 'چھتری'۔ آج ’من کی بات‘ میں میں آپ کو ایک خاص قسم کی چھتریوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ چھتریاں ہمارے کیرالہ میں تیار کی جاتی ہیں۔ دراصل، کیرالہ کی ثقافت میں چھتریوں کی خاص اہمیت ہے۔ چھتریاں وہاں کی بہت سی روایات اور رسومات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ لیکن میں جن چھتریوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں وہ 'کرتھمبی چھتریاں' ہیں اور وہ اٹاپاڈی، کیرالہ میں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ رنگ برنگی چھتریاں بہت شاندار ہیں۔ اور خاص بات یہ ہے کہ یہ چھتریاں ہماری کیرالہ کی قبائلی بہنوں نے تیار کی ہیں۔ آج ملک بھر میں ان چھتریوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ انہیں آن لائن بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ چھتریاں 'وتالکی کوآپریٹو ایگریکلچرل سوسائٹی' کی نگرانی میں بنائی گئی ہیں۔ اس معاشرے کی قیادت ہماری خواتین کی طاقت سے ہے۔ اٹاپاڈی کی قبائلی برادری نے خواتین کی قیادت میں کاروبار کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ اس سوسائٹی نے بانس ہینڈی کرافٹ یونٹ بھی قائم کیا ہے۔ اب یہ لوگ ریٹیل آؤٹ لیٹ اور روایتی کیفے بھی کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اپنی چھتریاں اور دیگر مصنوعات فروخت کرنا ہے، بلکہ وہ دنیا کو اپنی روایت اور ثقافت سے بھی متعارف کروا رہے ہیں۔ آج کرتھمبی چھتریاں کیرالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ملٹی نیشنل کمپنیوں تک اپنا سفر مکمل کر رہی ہے۔ لوکل کے لیے آواز اٹھانے کی اس سے اچھی مثال کیا ہو سکتی ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت تک اگلے مہینے پیرس اولمپکس شروع ہو چکے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی اولمپک گیمز میں ہندوستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انتظار کر رہے ہوں گے۔ میں ہندوستانی ٹیم کو اولمپک کھیلوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ ٹوکیو اولمپکس کی یادیں آج بھی ہم سب کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ٹوکیو میں ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی نے ہر ہندوستانی کا دل جیت لیا تھا۔ ٹوکیو اولمپکس کے بعد سے ہمارے کھلاڑی پیرس اولمپکس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اگر ہم تمام کھلاڑیوں کو شامل کریں تو ان سب نے نو سو کے قریب بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔
دوستو، آپ کو پیرس اولمپکس میں پہلی بار کچھ چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔ شوٹنگ میں ہمارے کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے۔ مرد اور خواتین دونوں ٹیمیں، ٹیبل ٹینس میں کوالیفائی کر چکی ہیں۔ ہماری شوٹر بیٹیاں بھی ہندوستانی شاٹ گن ٹیم میں شامل ہیں۔ اس بار ہماری ٹیم کے کھلاڑی ریسلنگ اور گھڑ سواری کے ان زمروں میں بھی حصہ لیں گے جن میں انہوں نے پہلے کبھی حصہ نہیں لیا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بار ہم کھیلوں میں ایک الگ سطح کا جوش دیکھیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا، ہم نے چند ماہ قبل ورلڈ پیرا ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے شطرنج اور بیڈمنٹن میں بھی پرچم لہرایا ہے۔ اب پورا ملک امید کر رہا ہے کہ ہمارے کھلاڑی اولمپکس میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم ان کھیلوں میں تمغے جیتیں گے اور اہل وطن کے دل بھی جیتیں گے۔ آنے والے دنوں میں مجھے ہندوستانی ٹیم سے بھی ملنے کا موقع ملنے والا ہے۔ میں آپ کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ اور ہاں.. اس بار ہمارا ہیش ٹیگ #چیئرفار بھارت ہے۔ اس ہیش ٹیگ کے ذریعے ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو خوش کرنا ہے... ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔ اس لیے رفتار کو برقرار رکھیں... آپ کی یہ رفتار... دنیا کو ہندوستان کا جادو دکھانے میں مدد کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں آپ سب کے لیے ایک چھوٹا سا آڈیو کلپ چلا رہا ہوں۔
#آڈیو کلپ#
آپ بھی اس ریڈیو پروگرام کو سن کر حیران ہو گئے تھے نا؟ تو آئیے آپ کو اس کے پیچھے کی پوری کہانی بتاتے ہیں۔ دراصل یہ کویت ریڈیو کی نشریات کا کلپ ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ ہم کویت کی بات کر رہے ہیں تو وہاں ہندی کہاں سے آگئی؟ دراصل، کویت حکومت نے اپنے نیشنل ریڈیو پر ایک خصوصی پروگرام شروع کیا ہے۔ اور وہ بھی ہندی میں۔ یہ ہر اتوار کو آدھے گھنٹے کے لیے 'کویت ریڈیو' پر نشر ہوتا ہے۔ اس میں ہندوستانی ثقافت کے مختلف رنگ شامل ہیں۔ ہماری فلمیں اور فن کی دنیا سے متعلق مباحث وہاں کی ہندوستانی کمیونٹی میں بہت مقبول ہیں۔ مجھے یہاں تک بتایا گیا ہے کہ کویت کے مقامی لوگ بھی اس میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ میں کویت کی حکومت اور عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ شاندار اقدام اٹھایا۔
دوستو، جس طرح سے آج پوری دنیا میں ہماری ثقافت کی تعریف کی جا رہی ہے اس سے کون سا ہندوستانی خوش نہیں ہوگا؟ اب ترکمانستان میں اس سال مئی میں وہاں کے قومی شاعر کا 300 واں یوم پیدائش منایا گیا۔ اس موقع پر ترکمانستان کے صدر نے دنیا کے 24 مشہور شاعروں کے مجسموں کی نقاب کشائی کی۔ ان مجسموں میں سے ایک گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کا ہے۔ یہ گرودیو کا احترام ہے، ہندوستان کا احترام ہے۔ اسی طرح جون کے مہینے میں دو کیریبین ممالک سورینام اور سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز نے اپنے ہندوستانی ورثے کو پورے جوش و خروش سے منایا۔ سورینام میں ہندوستانی کمیونٹی ہر سال 5 جون کو ہندوستانی آمد کے دن اور ڈاسپورا ڈے کے طور پر مناتی ہے۔ یہاں ہندی کے ساتھ ساتھ بھوجپوری بھی بولی جاتی ہے۔ سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز میں رہنے والے ہندوستانی نژاد ہمارے بہن بھائیوں کی تعداد بھی چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان سب کو اپنے ورثے پر بہت فخر ہے۔ ان کے جذبات اس شان و شوکت سے واضح طور پر جھلکتے ہیں جس کے ساتھ ان سب نے یکم جون کو ہندوستانی آمد کا دن منایا۔ ہر ہندوستانی فخر محسوس کرتا ہے جب ہندوستانی وراثت اور ثقافت کی اس طرح کی توسیع پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہے۔
دوستو، اس مہینے پوری دنیا نے یوگا کا 10 واں عالمی دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا ہے۔ میں نے سری نگر، جموں و کشمیر میں منعقد یوگا پروگرام میں بھی شرکت کی۔ کشمیر میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بہنوں اور بیٹیوں نے بھی یوگا ڈے میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ جیسے جیسے یوگا ڈے منایا جا رہا ہے، نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ یوگا ڈے نے دنیا بھر میں بہت سی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سعودی عرب میں پہلی بار ایک خاتون الحنوف سعد نے مشترکہ یوگا پروٹوکول کی قیادت کی۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی سعودی خاتون نے مرکزی یوگا سیشن کی ہدایت کی ہے۔ اس بار مصر میں یوگا ڈے پر تصویری مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ بحیرہ احمر کے ساحلوں، دریائے نیل کے کنارے اور اہرام کے سامنے لاکھوں افراد کی یوگا کرتے ہوئے تصاویر بہت مشہور ہوئیں۔ میانمار کا مراویجایا پگوڈا کمپلیکس جو کہ ماربل بدھا کے مجسمے کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے، یہاں 21 جون کو ایک شاندار یوگا سیشن کا بھی اہتمام کیا گیا۔ بحرین میں معذور بچوں کے لیے خصوصی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ سری لنکا میں یونیسکو کے ثقافتی ورثے کے لیے مشہور گالے فورٹ میں ایک یادگار یوگا سیشن بھی ہوا۔ نیویارک، امریکا میں آبزرویشن ڈیک پر بھی لوگوں نے یوگا کیا۔ صدر جمہوریہ نے مارشل آئی لینڈ میں پہلی بار بڑے پیمانے پر منعقدہ یوگا ڈے پروگرام میں بھی شرکت کی۔ بھوٹان کے تھمپو میں بھی یوگا ڈے کا ایک بڑا پروگرام ہوا جس میں میرے دوست وزیر اعظم ٹوبگے نے بھی شرکت کی۔ یعنی ہم سب نے دنیا کے کونے کونے میں یوگا کرنے والے لوگوں کے خوبصورت نظارے دیکھے۔ میں ان تمام دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یوگا ڈے میں حصہ لیا۔ میری آپ سے پہلے سے ہی ایک درخواست بھی رہی ہےکہ ہمیں یوگا کو صرف ایک دن کی مشق نہیں بنانا ہے۔ آپ کو باقاعدگی سے یوگا کرنا چاہئے۔ اس سے آپ یقینی طور پر اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں محسوس کریں گے۔
دوستو، بہت ساری ہندوستانی مصنوعات ہیں جن کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے اور جب ہم کسی مقامی ہندوستانی پروڈکٹ کو عالمی سطح پر پہنچتے ہوئے دیکھتےہیں تو فخر سے ہمارا سربلندہو جانا فطری بات ہے۔ ایسی ہی ایک مصنوعات اراکو کافی ہے۔ اراکو کافی بڑی مقدار میں آندھرا پردیش کے الوری سیتا راما راجو ضلع میں اگائی جاتی ہے۔ یہ اپنے بھرپور ذائقے اور خوشبو کے لیے جانی جاتی ہے۔ تقریباً 1.5 لاکھ قبائلی خاندان اراکو کافی کی کاشت سے وابستہ ہیں۔ گریجن کوآپریٹیو نے اراکو کافی کو نئی بلندیاں دینے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس نے یہاں کے کسان بھائیوں اور بہنوں کو اکٹھا کرنے کا کام کیا اور انہیں اراکو کافی کاشت کرنے کی ترغیب دی۔ جس کی وجہ سے ان کسانوں کی آمدنی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ کونڈا ڈورا قبائلی برادری کو بھی اس سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ کمانے کے ساتھ ساتھ عزت کی زندگی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار مجھے وشاکھاپٹنم میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو گارو کے ساتھ اس کافی کا مزہ چکھنے کا موقع ملا۔ اس کے ذائقے کے بارے میں بھی مت پوچھو! یہ کافی حیرت انگیز ہے! اراکو کافی کو کئی عالمی اعزازات ملے ہیں۔ دہلی میں منعقدہجی - 20سربراہی اجلاس میں بھی کافی کا رواج تھا۔ جب بھی آپ کو موقع ملے آپ کو اراکو کافی سے بھی لطف اندوز ہونا چاہیے۔
دوستو، ہمارے جموں و کشمیر کے لوگ بھی مقامی مصنوعات کو عالمی بنانے میں پیچھے نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر نے پچھلے مہینے میں جو کچھ کیا ہے وہ پورے ملک کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔ برف کے مٹروں کی پہلی کھیپ پلوامہ سے لندن بھیجی گئی۔ کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ کشمیر میں اگنے والی غیر ملکی سبزیوں کو دنیا کے نقشے پر لایا جائے… پھر کیا… چکورا گاؤں کے عبدالرشید میر جی اس کے لیے سب سے پہلے آگے آئے۔انہوںنے گاؤں کے دوسرے کسانوں کی زمینیں ملا کر برف کے مٹر اگانے شروع کیے اور جلد ہی کشمیر سے برف کے مٹر لندن پہنچنے لگے۔ اس کامیابی سے جموں و کشمیر کے لوگوں کی خوشحالی کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسی منفرد مصنوعات کی کمی نہیں ہے۔ آپ کو ایسے پروڈکٹس کو #مائی پروڈکٹ مائی پرائڈکے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔ میں اس موضوع پر آئندہ 'من کی بات' میں بھی بات کروں گا۔
ماں پریا: ملک کی خاتون:
سنسکرت زبانوں پر آدیا آہم کنچیت کی بحث شروع ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں 'من کی بات' میں اچانک سنسکرت میں کیوں بول رہا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سنسکرت سے متعلق ایک خاص موقع ہے! آج 30 جون کو آل انڈیا ریڈیو کا سنسکرت بلیٹن اپنی نشریات کے 50 سال مکمل کر رہا ہے۔ اس بلیٹن نے بہت سے لوگوں کو سنسکرت سے 50 سالوں سے لگاتار منسلک کر کے رکھا ہے۔ میں آل انڈیا ریڈیو فیملی کو مبارکباد دیتا ہوں۔
دوستو، قدیم ہندوستانی علم و سائنس کی ترقی میں سنسکرت نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آج کا دور تقاضا کرتا ہے کہ ہم سنسکرت کو عزت دیں اور اسے اپنی روزمرہ کی زندگی سے بھی جوڑیں۔ آج کل، بہت سے لوگ بنگلورو میں اسی طرح کی کوشش کر رہے ہیں۔ بنگلورو میں ایک پارک ہے - کبن پارک۔ یہاں کے لوگوں نے اس پارک میں ایک نئی روایت شروع کی ہے۔ یہاں ہفتے میں ایک بار، ہر اتوار، بچے، نوجوان اور بزرگ آپس میں سنسکرت میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہی نہیں، یہاں صرف سنسکرت میں کئی مباحثے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان کی پہل کا نام ہے – سنسکرت ویک اینڈ! اس کی شروعات سماشتی گوبی جی نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے کی ہے۔ یہ کوشش، جو ابھی کچھ دن پہلے شروع ہوئی تھی، بنگلورو کے لوگوں میں بہت تیزی سے مقبول ہو گئی ہے۔ اگر ہم سب اس کوشش میں شامل ہو جائیں تو ہمیں دنیا کی ایسی قدیم اور سائنسی زبان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ کے اس ایپی سوڈ میں آپ کے ساتھ شامل ہونا بہت اچھا لگا۔ اب یہ سلسلہ پہلے کی طرح چلتا رہے گا۔ مقدس رتھ یاترا اب سے ایک ہفتہ بعد سے شروع ہونے والی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مہا پربھو جگن ناتھ کا آشیرواد تمام ہم وطنوں پر ہمیشہ قائم رہے۔ امرناتھ یاترا بھی شروع ہو چکی ہے اور اگلے چند دنوں میں پنڈھارپور واری بھی شروع ہونے والی ہے۔ میں ان یاترا میں شریک تمام عقیدت مندوں کو اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ اگلا کچھی نیا سال ہے – آشدھی بیجوں کا تہوار۔ ان تمام تہواروں کے لیے آپ سب کو بہت سی نیک خواہشات۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یقینی طور پر مثبتیت سے متعلق اس طرح کی عوامی شرکت کی کوششوں کا اشتراک کرتے رہیں گے۔ میں اگلے مہینے آپ کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا منتظر ہوں۔ تب تک اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھیں۔ بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار ۔ ’من کی بات‘ کے 110ویں ایپیسوڈ میں آپ کا خیر مقدم ہے ۔ ہمیشہ کی طرح ، اس بار بھی ہمیں آپ کی بہت ساری تجاویز، ان پٹ اور تبصرے ملے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ چیلنج ہے کہ ایپی سوڈ میں کن کن موضاعات کو شامل کیا جائے ۔ مجھے مثبتیت سے بھرے ایک سے بڑھ کر ایک اِن پُٹ ملے ہیں ۔ ان میں بہت سارے ایسے ہم وطنوں کا ذکر ہے ، جو دوسروں کے لیے امید کی کرن بن کر ، ان کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مصروف ہیں ۔
ساتھیو، کچھ ہی دنوں کے بعد 8 مارچ کو ہم 'خواتین کا دن' منائیں گے۔ یہ خاص دن ، ملک کی ترقی کے سفر میں ناری شکتی کے تعاون کو سلام کرنے کا موقع ہے۔ مہا کوی بھارتیار جی نے کہا ہے کہ دنیا تب ہی ترقی کرے گی ، جب خواتین کو مساوی مواقع ملیں گے۔ آج بھارت کی خواتین کی قوت ( ناری شکتی ) ہر شعبے میں ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ چند سال پہلے تک کس نے سوچا ہوگا کہ ہمارے ملک میں گاؤوں میں رہنے والی خواتین بھی ڈرون اڑائیں گی لیکن آج یہ ممکن ہو رہا ہے۔ آج تو گاؤں گاؤں میں ڈرون دیدی کا اتنا چرچا ہے، ہر کسی کی زبان پر نمو ڈرون دیدی، نمو ڈرون دیدی چل پڑا ہے۔ ہر کوئی ان کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ ایک بڑا تجسس پیدا ہوا اور اسی لیے میں نے یہ بھی سوچا کہ اس بار ’من کی بات‘ میں کیوں نہ کسی نمو ڈرون دیدی سے بات کی جائے۔ ہمارے ساتھ ، اِس وقت نمو ڈرون دیدی سنیتا جی جڑی ہوئی ہیں ، جو اتر پردیش کے سیتا پور سے ہیں ۔ آئیے ان سے بات کرتے ہیں۔
مودی جی: سنیتا دیوی جی، آپ کو نمسکار ۔
سنیتا دیوی: نمستے سر ۔
مودی جی: اچھا سنیتا جی، پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، آپ کے خاندان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ کچھ بتایئے۔
سنیتا دیوی: سر، ہمارے خاندان میں دو بچے ہیں، ہم ہیں، شوہر ہے، ماں ہے۔
مودی جی: سنیتا جی، آپ کی پڑھائی کہاں تک ہوئی ؟
سنیتا دیوی: سر، میں بی اے (فائنل) ہے۔
مودی جی: اور گھر میں کاروبار وغیرہ کیا ہے؟
سنیتا دیوی: کاروبار وغیرہ کھیت باڑی سے متعلق کاروبار کرتے ہیں ۔
مودی جی: اچھا سنیتا جی، آپ کا ڈرون دیدی بننے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ آپ نے تربیت کہاں سے حاصل کی، کس قسم کی تبدیلیاں ہوئیں، میں پہلے یہ جاننا چاہتا ہوں۔
سنیتا دیوی: جی سر، ٹریننگ ہماری پھول پور افکو کمپنی الہ ٰآباد میں ہوئی تھی اور ہم نے وہیں سے ٹریننگ حاصل کی تھی۔
مودی جی: تو کیا آپ نے ڈرون کے بارے میں سنا تھا کبھی ؟
سنیتا دیوی: سر، میں نے نہیں سنا تھا ایک بار ایسے دیکھے تھے ، سیتا پور کے کرشی وگیان کیندر میں، ہم نے وہاں دیکھا تھا، پہلی بار ہم نے وہاں ڈرون دیکھا تھا۔
مودی جی: سنیتا جی، مجھے یہ سمجھنا ہے کہ مانو آپ پہلے دن گئے ۔
سنیتا دیوی: جی ۔
مودی جی: پہلے دن آپ کو ڈرون دکھایا ہوگا، پھر بورڈ پر کچھ پڑھایا ہوگا، کاغذ پر پڑھایا ہوگا، پھر میدان میں لے جاکر پریکٹس ، کیا کیا ہوا ہوگا۔ کیا آپ مجھے مکمل تفصیل بتا سکتی ہیں؟
سنیتا دیوی: جی سر، پہلے دن سر، ہمارے جانے کے بعد دوسرے دن سے ہماری ٹریننگ شروع ہو گئی۔ پہلے تھیوری پڑھائی گئی پھر کلاس دو دن چلی۔ کلاس میں ڈرون کے پرزے کیا ہوتے ہیں، آپ کو کیسے اور کیا کرنا ہے- یہ سب چیزیں تھیوری میں پڑھائی گئیں۔ تیسرے دن سر ہمارا پیپر ہوا تھا ۔ اس کے بعد سر کمپیوٹر پر پیپر ہوا ، یعنی پہلے کلاس لی گئی اور پھر ٹیسٹ لیا گیا۔ پھر پریکٹیکل ہوا، ہمارا مطلب ہے کہ ڈرون کیسے اڑانا ہے، کنٹرول کیسے سنبھالنا ہے، سب کچھ پریکٹیکل شکل میں سکھایا گیا۔
مودی جی: پھر ڈرون کیا کام کرے گا، کیسے سکھایا گیا؟
سنیتا دیوی: سر، ڈرون ایسے کام کرے گا جیسے اب فصل اگ رہی ہے۔ بارش کا موسم ہو یا اس طرح کی کوئی اور چیز، بارشوں کے دوران کوئی پریشانی ہوتی ہے اور ہم فصل کاٹنے کے لیے کھیتوں میں نہیں جا پاتے، تو مزدور اندر کیسے جائیں گے، اس سے کسانوں کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ کھیتوں میں داخل ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے مزدوروں کو کام پر لگا کر اپنا کام کر سکتے ہیں، کھیت کے اندر کھڑے ہو کر اپنا کام کر سکتے ہیں، اگر کھیت کے اندر کوئی کیڑے مکوڑے ہوں تو ہمیں محتاط رہنا ہو گا، کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا اور میں بھی کسان ہوں۔ بہت اچھا لگ رہا ہے سر ۔ ہم اب تک 35 ایکڑ پر اسپرے کر چکے ہیں ۔
مودی جی: تو کسانوں کو بھی سمجھ ہے کہ اس کا فائدہ ہے ؟
سنیتا دیوی: جی جناب، کسان بہت مطمئن ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت اچھا محسوس کر رہے ہیں۔ وقت بھی بچ جاتا ہے، آپ تمام سہولیات خود دیکھ لیں، پانی، دوائی، سب کچھ ساتھ رکھا ہوا ہے اور ہمیں صرف فارم پر آکر بتانا ہے، میرا فارم کہاں سے ہے اور سارا کام آدھے گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔
مودی جی: تو یہ ڈرون دیکھنے کے لیے اور لوگ بھی آتے ہوں گے پھر تو ؟
سنیتا دیوی: سر، بہت بھیڑ لگ جاتی ہے، ڈرون دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ آتے ہیں۔ جو بڑے کسان ہیں نمبر لے جاتے ہیں کہ ہم بھی آپ کو اسپرے کے لیے بلا ئیں گے۔
مودی جی: اچھا ۔ کیونکہ میرا یک مشن ہے لکھپتی دیدی بنانے کا ، اگر آج ملک بھر کی بہنیں سن رہی ہیں، تو ایک ڈرون دیدی آج پہلی بار میرے ساتھ بات کر رہی ہے ، تو کیا کہنا چاہیں گےآپ ؟
سنیتا دیوی: جس طرح آج میں اکیلے ڈرون دیدی ہوں، اگر ایسی ہزاروں بہنیں میری طرح ڈرون دیدی بننے کے لیے آگے آئیں اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ جب میں اکیلی ہوں ، میرے ساتھ ہزاروں دوسرے لوگ کھڑے ہوں گےتو بہت اچھا لگے گا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں، بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور ڈرون دیدی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
مودی جی: چلیے سنیتا جی، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد ۔ یہ نمو ڈرون دیدی، یہ ملک میں زراعت کو جدید بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ میری بہت بہت نیک خواہشات۔
سنیتا دیوی: شکریہ، شکریہ سر۔
مودی جی: شکریہ!
ساتھیو، آج ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ، جس میں ملک کی ناری شکتی پیچھے رہ گئی ہو۔ ایک اور شعبہ جہاں خواتین نے اپنی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ہے قدرتی کاشتکاری، پانی کا تحفظ اور صفائی ستھرائی۔ کیمیکلز کی وجہ سے ہمارا مادر وطن ، جن دکھ ، درد اور مصائب کا سامنا کر رہا ہے، اس ملک کی دھرتی کو بچانے میں ناری شکتی بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں خواتین اب قدرتی کھیتی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج اگر ملک میں ’جل جیون مشن‘ کے تحت اتنا کام ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے واٹر کمیٹیوں کا بڑا رول ہے۔ اس واٹر کمیٹی کی قیادت صرف خواتین کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ، بہنیں اور بیٹیاں پانی کے تحفظ کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون کلیانی پرفل پاٹل جی ہیں ، جو میرے ساتھ فون لائن پر ہیں۔ وہ مہاراشٹر کی رہنے والی ہیں ۔ آئیے، کلیانی پرفل پاٹل جی سے بات کریں اور ان کا تجربہ جانتے ہیں۔
وزیر اعظم - کلیانی جی نمستے ۔
کلیانی جی - نمستے سر جی ، نمستے ۔
وزیر اعظم – کلیانی جی، سب سے پہلے ہمیں اپنے بارے میں، اپنے خاندان کے بارے میں، اپنے کام کے بارے میں بتائیں۔
کلیانی جی – سر، میں ایم ایس سی مائکرو بایولوجی ہوں اور گھر میں میرے شوہر، میری ساس اور دو بچے ہیں اور میں تین سال سے اپنی گرام پنچایت میں کام کر رہی ہوں۔
وزیر اعظم - اور پھر وہ گاؤں میں کھیتی باڑی کے کام میں لگ گئیں؟ کیونکہ آپ کے پاس بنیادی علم بھی ہے، آپ نے اس شعبے میں تعلیم بھی حاصل کی ہے اور اب آپ کاشتکاری سے منسلک ہو چکی ہیں، تو کیا کیا نئے تجربات کیے ہیں آپ نے ؟
کلیانی جی – سر ، ہمارے پاس موجود دس اقسام کی پودوں کو اکٹھا کر کے ، ہم نے اس سے ایک نامیاتی اسپرے بنایا، جیسے کہ ہم کیڑے مار دوا وغیرہ چھڑکتے ہیں تو اس سے ہمارے دوست کیڑے مکوڑے بھی تباہ ہو جاتے ہیں اور ہماری مٹی بھی آلودہ ہو جاتی ہے۔ جو کہ پانی میں کیمیکلز کی آمیزش کی وجہ سے ہمارے جسم پر مضر اثرات مرتب کر رہے ہیں، اسی مناسبت سے ہم نے کم سے کم کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا ہے۔
وزیر اعظم – تو ایک طرح سے آپ مکمل طور پر قدرتی کھیتی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
کلیانی جی – ہاں، جو ہماری روایتی کھیتی ہے جناب، ہم نے پچھلے سال کی تھی۔
وزیر اعظم - آپ کو قدرتی کاشتکاری میں کیا تجربہ ہے؟
کلیانی جی – سر ، جو ہماری خواتین ہیں ، ان کو جو خرچ ہے ، وہ کم لگا اور جو پروڈکٹس ہے ، سر ، وہ حل ملنے کے بعد، ہم نے بغیر پیسٹ وہ کیا کیونکہ اب کینسر کے شواہد بڑھ رہے ہیں، جیسے شہری علاقوں تو ہے ہی لیکن گاؤوں میں بھی اس کے شواہد بڑھتے جا رہے ہیں ، لہٰذا اگر آپ اپنے آنے والے خاندان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو یہ راستہ اختیار کرنا ضروری ہے، اسی مناسبت سے وہ خواتین بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
وزیر اعظم – ٹھیک ہے کلیانی جی، کیا آپ نے پانی کے تحفظ میں بھی کچھ کام کیا ہے؟ اس میں کیا کیا ہے آپ نے ؟
کلیانی جی –سر ، ہماری حکومت کی تمام عمارتیں جیسے پرائمری اسکول، آنگن واڑی، ہماری گرام پنچایت کی عمارت، وہاں کا سارا بارش کا پانی، ہم نے اسے ایک جگہ جمع کیا اور ریچارج شافٹ، سر ، یہ ہے کہ بارش کا پانی جو گرتا ہے۔ زمین کے اندر پرکولیٹ، اس کے مطابق ہم نے اپنے گاؤں میں 20 ریچارج شافٹ بنائے ہیں اور 50 ریچارج شافٹ منظور کیے گئے ہیں۔ اب وہ کام بھی جلد شروع ہونے والا ہے۔
وزیر اعظم - چلو کلیانی جی، آپ سے بات کر کے بہت خوشی ہوئی۔ آپ کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ۔
کلیانی جی - شکریہ سر ، شکریہ سر ۔ مجھے بھی آپ سے بات کرکے بہت خوشی ہوئی۔ مطلب، میری زندگی مکمل طور پر بامعنی ہو گئی ہے ، ایسا میں مانتی ہوں ۔
وزیر اعظم - بس سوا کیجیے ۔
وزیر اعظم - چلو، آپ کا نام ہی کلیانی ہے، تو آپ کو تو کلیان کرنا ہی کرنا ہے ۔ شکریہ جی ۔ نمسکار
کلیانی جی – شکریہ سر ۔ شکریہ
ساتھیو، سنیتا جی ہوں یا کلیانی جی، مختلف شعبوں میں ناری شکتی کی کامیابی بہت متاثر کن ہے۔ میں ایک بار پھر اپنی ناری شکتی کے اس جذبے کی تہہ دل سے ستائش کرتا ہوں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ موبائل فون اور ڈیجیٹل گیجٹس ہر ایک کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل گیجٹس کی مدد سے ، اب یہ جنگلی جانوروں سے ہم آہنگ رہنے میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد، 3 مارچ کو ’ورلڈ وائلڈ لائف ڈے‘ ہے۔ یہ دن جنگلی جانوروں کے تحفظ کے بارے میں بیداری پھیلانے کے مقصد سے منایا جاتا ہے۔ اس سال ورلڈ وائلڈ لائف ڈے کے موضوع میں ڈیجیٹل انوویشن کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کی کوششوں سے ملک میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مہاراشٹر کے چندر پور کے ٹائیگر ریزرو میں شیروں کی تعداد 250 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ چندر پور ضلع میں انسانوں اور شیروں کے درمیان تصادم کو کم کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لی جا رہی ہے۔ یہاں گاؤں اور جنگل کی سرحد پر کیمرے لگائے گئے ہیں۔ جب بھی کوئی شیر گاؤں کے قریب آتا ہے تو اے آئی کی مدد سے مقامی لوگوں کو ، ان کے موبائل پر الرٹ ملتا ہے۔ آج اس نظام نے ، اس ٹائیگر ریزرو کے آس پاس کے 13 گاؤوں میں لوگوں کو کافی سہولت فراہم کی ہے اور شیروں کو بھی تحفظ حاصل ہوا ہے۔
ساتھیو، آج نوجوان صنعت کار جنگلی حیات کے تحفظ اور ماحولیاتی سیاحت کے لیے بھی نئی ایجادات لا رہے ہیں۔ اتراکھنڈ کے روڑکی میں روٹر پریسیجن گروپس نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ مل کر ایک ایسا ڈرون تیار کیا ہے، جس سے کین ندی میں مگرمچھوں پر نظر رکھنے میں مدد مل رہی ہے ۔ اسی طرح بنگلورو کی ایک کمپنی نے ’باگھیرا‘ اور ’گروڈ‘ نامی ایپ تیار کی ہے۔ بگھیرا ایپ کے ذریعے جنگل سفاری کے دوران گاڑی کی رفتار اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے ملک کے کئی ٹائیگر ریزرو میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھَنگس پر مبنی گروڈا ایپ کو کسی بھی سی سی ٹی وی سے جوڑ کر، آپ کو حقیقی وقت میں الرٹس ملتے ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایسی ہر کوشش ہمارے ملک کے حیاتیاتی تنوع کو مزید تقویت بخش رہی ہے۔
ساتھیو، بھارت میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہماری ثقافت کا ایک لازمی حصہ رہی ہے۔ ہم ہزاروں سالوں سے فطرت اور جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کے جذبے میں رہ رہے ہیں۔ اگر آپ کبھی مہاراشٹر میں میل گھاٹ ٹائیگر ریزرو جائیں تو آپ خود اس کا تجربہ کر سکیں گے۔ اس ٹائیگر ریزرو کے قریب کھٹکلی گاؤں میں رہنے والے قبائلی خاندانوں نے حکومت کی مدد سے اپنے گھروں کو ہوم اسٹے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اسی گاؤں میں رہنے والے کورکو قبیلے کے پرکاش جمکر جی نے اپنی دو ہیکٹر اراضی پر سات کمروں پر مشتمل ہوم اسٹے تیار کیا ہے۔ ان کے یہاں رکنے والے سیاحوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام ، ان کا خاندان ہی کرتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے اپنے گھر کے ارد گرد آم اور کافی کے درخت بھی لگائے ہیں۔ اس سے نہ صرف سیاحوں کی کشش میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم مویشی پالنے کی بات کرتے ہیں تو اکثر گائے اور بھینسوں پر ہی رک جاتے ہیں لیکن بکری بھی ایک اہم جانور ہے، جس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بہت سے لوگ بکری پالنے سے بھی وابستہ ہیں۔ اوڈیشہ میں کالاہانڈی میں بکری پالن ، گاؤں کے لوگوں کی روزی روٹی کے ساتھ ساتھ ، ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس کوشش کے پیچھے جینتی مہاپاترا جی اور ان کے شوہر برین ساہو جی کا بڑا فیصلہ ہے۔ یہ دونوں بنگلورو میں مینجمنٹ پیشہ ور تھے لیکن انہوں نے وقفہ لے کر کالاہانڈی سے سالیبھاٹا گاؤں آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے ، جس سے یہاں کے گاؤں والوں کے مسائل حل ہوں اور انہیں بااختیار بھی بنایا جائے۔ خدمت اور لگن سے بھری اس سوچ کے ساتھ، انہوں نے مانیکاستو ایگرو قائم کیا اور کسانوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ جینتی جی اور برین جی نے یہاں ایک دلچسپ مانیکاستو گوٹ بینک بھی کھولا ہے۔ وہ کمیونٹی کی سطح پر بکری پالنے کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کے گوٹ فارم میں درجنوں کے قریب بکریاں ہیں۔ مانیکاستو گوٹ بینک، انہوں نے کسانوں کے لیے ایک مکمل نظام تیار کیا ہے۔ اس کے ذریعے کسانوں کو 24 ماہ کے لیے دو بکریاں دی جاتی ہیں۔ بکریاں 2 سال میں 9 سے 10 بچوں کو جنم دیتی ہیں، جن میں سے 6 بچے بینک اپنے پاس رکھتا ہے ، باقی بچے اسی خاندان کو دے دیتا ہے ، جو بکریاں پالتے ہیں۔ یہی نہیں بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ آج 50 گاؤں کے 1000 سے زیادہ کسان ، ان سے وابستہ ہیں۔ ان کی مدد سے گاؤں کے لوگ جانور پالنے کے شعبے میں آتم نربھرتا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مختلف شعبوں میں کامیاب پیشہ ور افراد چھوٹے کسانوں کو بااختیار اور خود کفیل بنانے کے لیے نئے نئے طریقے اپنا رہے ہیں۔ ان کی کوششیں سب کو متاثر کرنے والی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری ثقافت سکھاتی ہے – ’پرمارتھ پرمو دھرم‘ یعنی دوسروں کی مدد کرنا سب سے بڑا فرض ہے۔ اس جذبے کی پیروی کرتے ہوئے، ہمارے ملک میں بے شمار لوگ بے لوث دوسروں کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص ہیں - بہار کے بھوجپور کے بھیم سنگھ بھاویش جی۔ ان کے کاموں کے بارے میں ، ان کے علاقے کے مُسہر ذات کے لوگوں میں ان کے کام کا بہت چرچا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ آج ان کے بارے میں بھی بات کروں۔ بہار میں، مسہر ایک بہت ہی محروم کمیونٹی رہی ہے، ایک بہت ہی غریب کمیونٹی۔ بھیم سنگھ بھاویش جی نے ، اس کمیونٹی کے بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو سکے۔ انہوں نے مسہر ذات کے تقریباً 8 ہزار بچوں کو اسکول میں داخل کرایا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی لائبریری بھی بنائی ہے ، جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولتیں مل رہی ہیں۔ بھیم سنگھ جی ضروری دستاویزات بنانے اور فارم بھرنے میں اپنی برادری کے افراد کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اس سے گاؤں کے لوگوں کی ضروری وسائل تک رسائی میں مزید بہتری آئی ہے۔ لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ، انہوں نے 100 سے زائد میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا ہے۔ جب کورونا بحران زور پکڑ رہا تھا تو بھیم سنگھ جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کو ٹیکہ لگوانے کی ترغیب دی۔ ملک کے مختلف حصوں میں بھیم سنگھ بھاویش جی جیسے بہت سے لوگ ہیں، جو سماج میں ایسے بہت سے نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں تو یہ ایک مضبوط قوم کی تعمیر میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، بھارت کی خوبصورتی اس کے تنوع اور ہماری ثقافت کے مختلف رنگوں میں پنہاں ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کتنے لوگ بے لوث طریقے سے بھارتی ثقافت کے تحفظ اور اسے خوبصورت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو بھارت کے ہر حصے میں ملیں گے۔ ان میں ایک بڑی تعداد ، ان لوگوں کی بھی ہے ، جو زبان کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے گاندربل کے محمد منشا جی گزشتہ تین دہائیوں سے گوجری زبان کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کا تعلق گجر بکروال برادری سے ہے ، جو ایک قبائلی برادری ہے۔ بچپن میں ، انہیں پڑھائی کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی تھی، وہ روزانہ 20 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔ اس طرح کے چیلنجوں کے درمیان، انہوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد ہی ان کا اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کا عزم مضبوط ہوا۔
ادب کے میدان میں منشا جی کی تصانیف کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اسے تقریباً 50 جلدوں میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں نظمیں اور لوک گیت بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کا گوجری زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
ساتھیو، اروناچل پردیش میں تیرپ کے بنوانگ لوسو جی ایک استاد ہیں۔ انہوں نے وانچو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور آسام کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک لینگویج اسکول بنانے کا کام کیا ہے۔ وانچو زبان کا رسم الخط بھی تیار کیا گیا ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کو بھی وانچو زبان سکھا رہے ہیں تاکہ اسے معدوم ہونے سے بچایا جا سکے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو گانوں اور ناچوں کے ذریعے اپنی ثقافت اور زبان کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کرناٹک کے وینکپا امباجی سوگیتکر، ان کی زندگی بھی اس معاملے میں بہت متاثر کن ہے۔ یہاں کے باگل کوٹ کے رہنے والے سوگیتکر جی ایک لوک گلوکار ہیں۔ انہوں نے 1000 سے زیادہ گوندھلی گانے گائے ہیں اور اس زبان میں کہانیوں کو بھی بڑے پیمانے پر فروغ دیا ہے۔ وہ سینکڑوں طلباء کو بغیر فیس کے ٹریننگ بھی دے چکے ہیں۔ بھارت میں جوش اور ولولے سے بھرے ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جو ہماری ثقافت کو مسلسل فروغ دے رہے ہیں۔ آپ بھی ان سے تحریک لیں اور خود بھی کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ بہت مطمئن محسوس کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، دو دن پہلے میں وارانسی میں تھا اور وہاں میں نے ایک بہت ہی شاندار تصویری نمائش دیکھی۔ کاشی اور آس پاس کے نوجوانوں نے جو لمحات کیمرے میں قید کیے ہیں ، وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس میں بہت سی تصاویر ہیں ، جو موبائل کیمرے سے لی گئی ہیں۔ درحقیقت، آج جس کے پاس موبائل ہے ، وہ مواد تخلیق کرنے والا بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ، ان کے ہنر اور صلاحیتوں کو دکھانے میں بھی بہت مدد کی ہے۔ ہمارے بھارت کے نوجوان ساتھی کنٹینٹ کریئیٹر کے میدان میں حیرت انگیز کام کر رہے ہیں۔ چاہے کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، آپ کو ہمارے نوجوان دوست مختلف موضوعات پر مختلف مواد کا اشتراک کرتے ہوئے مل جائیں گے۔ سیاحت ہو، سماجی کاز، عوامی شرکت ہو یا زندگی کا متاثر کن سفر، ان سے متعلق مختلف قسم کے مواد سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ مواد تیار کرنے والے ملک کے نوجوانوں کی آواز آج بہت موثر ہو چکی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے لیے ، ملک میں نیشنل کریئیٹرز ایوارڈ شروع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مختلف کیٹیگریز میں ، ان تبدیلی سازوں کو نوازنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ، جو سماجی تبدیلی کی موثر آواز بننے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مقابلہ مائی گوو پر چل رہا ہے اور میں مواد تخلیق کرنے والوں سے ، اس میں شامل ہونے کی درخواست کروں گا۔ اگر آپ بھی ایسے دلچسپ مواد تخلیق کرنے والوں کو جانتے ہیں تو انہیں نیشنل کریئیٹرز ایوارڈ کے لیے ضرور نامزد کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے خوشی ہے کہ چند دن پہلے ہی الیکشن کمیشن نے ایک اور مہم شروع کی ہے – ’میرا پہلا ووٹ - ملک کے لیے‘۔ اس کے ذریعے پہلی بار ووٹروں سے خاص طور پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے۔ بھارت کو ، جوش اور توانائی سے بھرپور اپنی نوجوان قوت پر فخر ہے۔ ہمارے نوجوان انتخابی عمل میں جتنا زیادہ حصہ لیں گے، اس کے نتائج ملک کے لیے اتنے ہی زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔ میں پہلی بار ووٹروں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ریکارڈ تعداد میں ووٹ دیں۔ 18 سال کے ہونے کے بعد، آپ کو 18ویں لوک سبھا کے لیے رکن منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ 18ویں لوک سبھا بھی نوجوانوں کی امنگوں کی علامت ہوگی۔ اس لیے آپ کے ووٹ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ عام انتخابات کی اس ہلچل کے درمیان آپ نوجوانوں کو نہ صرف سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہیے بلکہ اس دوران ہونے والے بحث ومباحثہ سے بھی باخبر رہنا چاہیے اور یاد رکھیے گا – ’میرا پہلا ووٹ - ملک کے لیے ‘۔ میں ، ملک کے انفلوئنسسر سے بھی گزارش کروں گا، چاہے وہ کھیلوں کی دنیا سے ہوں، فلم انڈسٹری سے ہوں، ادب کی دنیا سے ہوں، دیگر پیشہ ور افراد ہوں یا ہمارے انسٹاگرام اور یوٹیوب کے انفلوئنسر ہوں ، وہ بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ہمارے فرسٹ ٹائم ووٹرس کو موٹیویٹ کریں۔
ساتھیو، ’من کی بات ‘ کے اس ایپی سوڈ میں میرے ساتھ اتنا ہی ۔ ملک میں لوک سبھا انتخابات کا ماحول ہے اور جیسا کہ پچھلی بار ہوا تھا، امکان ہے کہ مارچ کے مہینے میں بھی ضابطہ اخلاق نافذ ہو جائے گا۔ ’من کی بات‘ کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ گزشتہ 110 ایپی سوڈ میں ، ہم نے اسے حکومت کی پرچھائی سے بھی دور رکھا ہے۔ ’من کی بات‘ میں ملک کی اجتماعی قوت اور ملک کی کامیابیوں کی بات ہوتی ہے۔ ایک طرح سے یہ عوام کا، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے تیار ہونے والا پروگرام ہے لیکن پھر بھی، سیاسی روایات پر عمل کرتے ہوئے ، لوک سبھا انتخابات کے ان دنوں میں ’من کی بات‘ اب اگلے تین ماہ تک نشر نہیں ہوگی۔ اب جب ، ہم آپ کے ساتھ ’من کی بات‘ میں بات کریں گے، تو یہ ’من کی بات‘ کا 111واں ایپی سوڈ ہوگا۔ اگلی بار ’من کی بات‘ کا آغاز 111 ویں مبارک نمبر سے ہوگا ، تو اس سے اچھی اور کیا بات ہے لیکن ساتھیو، آپ کو میرے لیے ایک کام کرتے رہنا ہے ۔ ’ من کی بات‘ بھلے ہی تین ماہ کے لیے رک جائے، لیکن ملک کی کامیابیاں تھوڑے ہی رکیں گی ۔ اس لیے ’من کی بات ‘ ہیش ٹیگ (#) کے ساتھ سماج اور ملک کی کامیابیوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہیں۔ . کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان نے مجھے ایک اچھا مشورہ دیا۔ تجویز یہ ہے کہ ’من کی بات‘ کی اب تک کی اقساط کی چھوٹی ویڈیوز کو یوٹیوب شارٹس کی شکل میں شیئر کیا جانا چاہیے۔ اس لیے میں ’من کی بات‘ کے سننے والوں سے گزارش کروں گا کہ اس طرح کے شارٹس کو بڑے پیمانے پر شیئر کریں۔
ساتھیو، اگلی بار جب میں آپ سے بات کروں گا تو میں آپ سے نئی توانائی اور نئی معلومات کے ساتھ ملوں گا۔ اپنا خیال رکھنا، بہت بہت شکریہ۔ نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ یہ 2024 کا پہلا ’من کی بات‘ پروگرام ہے۔ امرتکال میں ایک نیا جوش و خروش ہے، ایک نئی لہر ہے۔ دو دن پہلے ہم سبھی ہم وطنوں نے 75 واں یوم جمہوریہ بڑی دھوم دھام اور جوش و خروش کے ساتھ منایا تھا۔ اس سال ہمارا دستور بھی 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ اور سپریم کورٹ کو بھی 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہماری جمہوریت کے یہ تہوار جمہوریت کی ماں بھارت کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ بھارت کا دستور اس قدر غور و فکر کے بعد وجود میں آیا ہے کہ اسے ایک زندہ دستاویز کہا جاتا ہے۔ اسی دستور کی اصل کاپی کے تیسرے حصے میں بھارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ تیسرے حصے کے آغاز میں ہمارے دستور سازوں نے بھگوان رام، ماتا سیتا اور لکشمن جی کی تصویروں کو مناسب جگہ دی تھی۔ پربھو رام کی حکم رانی ہمارے دستور سازوں کے لیے بھی ترغیب کا ذریعہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں میں نے ’دیو سے دیش‘ کے بارے میں بات کی تھی۔ میں نے ’رام سے راشٹر‘ کا ذکر کیا تھا۔
ساتھیو، ایسا لگتا ہے کہ ایودھیا میں پران پرتشٹھا کا موقع ایک مشترکہ تانے بانے میں پرویا گیا ہے، ملک کے کروڑوں لوگ ایک ساتھ ہیں۔ سب کے جذبات متفق ہیں، سب کی عقیدت یکجا ہے۔۔۔ رام سب کے الفاظ میں ہیں، رام سب کے دل میں ہیں۔ اس دوران ملک کے بہت سے لوگوں نے رام بھجن گائے اور انھیں شری رام کے چرنوں میں وقف کیا۔ 22 جنوری کی شام کو پورے ملک نے رام جیوتی جلائی اور دیوالی منائی۔ اس دوران ملک نے اتحاد کی طاقت دیکھی، جو ترقی یافتہ بھارت کے ہمارے عزم کی ایک بڑی بنیاد بھی ہے۔
میں نے ملک کے لوگوں سے درخواست کی تھی کہ وہ مکر سنکرانتی سے 22 جنوری تک صفائی مہم چلائیں۔ مجھے اچھا لگا کہ لاکھوں لوگ عقیدت کے ساتھ شامل ہوئے اور اپنے علاقے کے مذہبی مقامات کی صفائی کی۔ بہت سے لوگوں نے مجھے اس سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز بھیجی ہیں - یہ جذبہ ماند نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ مہم بند نہیں ہونی چاہیے۔ اجتماعیت کی یہ طاقت ہمارے ملک کو کام یابی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 26 جنوری کی پریڈ شاندار تھی، لیکن سب سے زیادہ زیر بحث عنصر پریڈ میں خواتین کی طاقت کو دیکھنا تھا۔۔۔ جب مرکزی سکیورٹی فورسز اور دہلی پولیس کی خواتین دستوں نے کرتویہ پتھ پر مارچ کرنا شروع کیا تو ہر کوئی فخر سے بھر گیا۔ خواتین کے بینڈ کی مارچنگ دیکھ کر اور ان کی زبردست ہم آہنگی کو دیکھ کر ملک اور بیرون ملک کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ اس بار پریڈ میں مارچ کرنے والے 20 دستوں میں سے 11 خواتین تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ گزرنے والی جھانکیوں میں بھی سبھی فن کار خواتین تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار بیٹیوں نے ان ثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا۔ بہت سی خواتین فن کار کونچ، نادسورم اور ناگدا جیسے بھارتی موسیقی کے آلات بجا رہی تھیں۔ ڈی آر ڈی او سے تعلق رکھنے والی جھانکی نے بھی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خواتین کی طاقت پانی، زمین، آسمان، سائبر اور خلا ہر شعبے میں ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ اس طرح اکیسویں صدی کا بھارت خواتین کی قیادت والی ترقی کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو، آپ نے ابھی کچھ دن پہلے ہی ارجن ایوارڈ کی تقریب دیکھی ہوگی۔ اس میں راشٹرپتی بھون میں ملک کے کئی ہونہار کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کو اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یہاں بھی ارجن ایوارڈ یافتہ بیٹیوں اور ان کی زندگی کے سفر نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ اس بار 13 خواتین ایتھلیٹس کو ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ان خواتین ایتھلیٹس نے کئی بڑے ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور بھارت کے جھنڈے کو روشن کیا۔ طبعی چیلنج، معاشی چیلنج ان بہادر اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو روک نہیں سکے۔ بدلتے ہوئے بھارت میں ہماری بیٹیاں، ملک کی عورتیں ہر میدان میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ایک اور شعبہ ہے جہاں خواتین نے اپنی پہچان بنائی ہے، وہ ہے سیلف ہیلپ گروپ۔ آج ملک میں خواتین سیلف ہیلپ گروپس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان کے کام کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آپ ہر گاؤں کے کھیتوں میں ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے نمو ڈرون دیدی کو کھیتی میں مدد کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ مجھے اتر پردیش کے بہرائچ میں مقامی اجزا کا استعمال کرتے ہوئے بائیو فرٹیلائزر اور بایو پیسٹی سائیڈ تیار کرنے والی خواتین کے بارے میں پتہ چلا۔ سیلف ہیلپ گروپوں سے وابستہ نبیہ بیگم پور گاؤں کی عورتیں گائے کے گوبر، نیم کے پتے اور کئی طرح کے دواؤں کے پودوں کو ملا کر بائیو فرٹیلائزر تیار کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ خواتین ادرک، لہسن، پیاز اور مرچ کا پیسٹ تیار کرکے نامیاتی پیسٹی سائیڈ بھی تیار کرتی ہیں۔ ان خواتین نے مل کر ’اونتی جیوک اکائی‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ یہ تنظیم ان خواتین کو بائیو پروڈکٹس تیار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ان کے ذریعے تیار کردہ بائیو کھاد اور بائیو کیڑے مار دوا کی مانگ بھی لگاتار بڑھ رہی ہے۔ آج آس پاس کے گاؤوں کے 6 ہزار سے زیادہ کسان ان سے بائیو پروڈکٹس خرید رہے ہیں۔ اس کے ذریعے سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ ان خواتین کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، اور ان کی مالی حالت میں بھی بہتری آئی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم ان ہم وطنوں کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہیں جو سماج اور ملک کو مضبوط بنانے کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب ملک نے تین دن پہلے ہی پدم ایوارڈ کا اعلان کیا تو ’من کی بات‘ میں ایسے لوگوں کا چرچا ہونا فطری بات ہے۔ اس بار بھی بہت سے ہم وطنوں کو پدم اعزاز سے نوازا گیا ہے جنھوں نے نچلی سطح سے جڑ کر سماج میں بڑی تبدیلی لانے کا کام کیا ہے۔
ان متاثر کن لوگوں کی زندگی کے سفر کے بارے میں جاننے کے لیے ملک بھر میں بہت تجسس دیکھا گیا ہے۔ میڈیا کی شہ سرخیوں سے دور، اخبارات کے پہلے صفحے سے دور، یہ لوگ بغیر کسی لائم لائٹ کے سماجی خدمت میں مشغول رہے ہیں۔ ہم نے ان لوگوں کے بارے میں پہلے شاید ہی کچھ دیکھا یا سنا ہو، لیکن اب مجھے خوشی ہے کہ پدم ایوارڈ کے اعلان کے بعد، اس طرح کے لوگوں کے چرچے ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے خواہشمند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے اپنے متعلقہ شعبوں میں منفرد کام کر رہے ہیں۔ جیسے کوئی ایمبولینس سروس فراہم کر رہا ہے تو کوئی بے سہارا لوگوں کے سر پر چھت کا انتظام کر رہا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ہزاروں درخت لگا کر فطرت کے تحفظ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک ایسا بھی ہے، جس نے چاول کی 650 سے زیادہ اقسام کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔ ایک ایسا بھی ہے جو منشیات اور شراب کی لت کی روک تھام کے لیے معاشرے میں بیداری پھیلا رہا ہے۔ بہت سے لوگ لوگوں کو سیلف ہیلپ گروپس، خاص طور پر ناری شکتی مہم سے جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم وطن بھی اس بات سے بہت خوش ہیں کہ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں 30 خواتین ہیں۔ یہ خواتین نچلی سطح پر اپنے کام کے ذریعے معاشرے اور ملک کو آگے لے جا رہی ہیں۔
ساتھیو، پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں سے ہر ایک کا تعاون ہم وطنوں کے لیے ایک تحریک ہے۔ اس بار اعزاز حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو کلاسیکی رقص، کلاسیکی موسیقی، لوک رقص، تھیٹر اور بھجن کی دنیا میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ یہ اعزاز ان لوگوں کو بھی دیا گیا ہے جنھوں نے پراکرت، مالوی اور لمباڈی زبانوں میں عمدہ کام کیا ہے۔ بیرون ملک سے بھی بہت سے لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، جن کا کام بھارتی ثقافت اور ورثے کو نئی بلندیاں دے رہا ہے۔ ان میں فرانس، تائیوان، میکسیکو اور بنگلہ دیش کے شہری بھی شامل ہیں۔
ساتھیو، مجھے بہت خوشی ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں پدم ایوارڈ کا نظام پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ اب یہ عوامی پدم بن گیا ہے۔ پدم ایوارڈ دینے کے نظام میں بہت سی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اب لوگوں کے پاس خود کو نامزد کرنے کا بھی موقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے مقابلے میں اس بار 28 گنا زیادہ نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پدم ایوارڈ کا وقار، اس کی ساکھ اور اس کے لیے احترام ہر سال بڑھ رہا ہے۔ میں ایک بار پھر پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے سبھی لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ کہا جاتا ہے کہ ہر زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ ہر کوئی ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لوگ پوری لگن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سماجی خدمت کے ذریعے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، کچھ فوج میں شامل ہو کر، کچھ اگلی نسل کو تعلیم دے کر، لیکن ساتھیو، ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زندگی کے خاتمے کے بعد بھی معاشرے اور زندگی کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور اس کا ذریعہ اعضا کا عطیہ ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں ایک ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنی موت کے بعد اپنے اعضا کا عطیہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ آسان نہیں، لیکن یہ فیصلہ کئی زندگیاں بچانے والا ہے۔ میں ان خاندانوں کی بھی تعریف کروں گا جنھوں نے اپنے پیاروں کی آخری خواہشات کا احترام کیا۔ آج ملک کی کئی تنظیمیں بھی اس سمت میں بہت متاثر کن کوششیں کر رہی ہیں۔ کچھ تنظیمیں لوگوں کو اعضا کے عطیات کے بارے میں آگاہی دے رہی ہیں، کچھ تنظیمیں اعضا عطیہ کرنے کے خواہشمند افراد کے اندراج میں مدد کر رہی ہیں۔ اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں اعضا کے عطیات کے حوالے سے مثبت ماحول پیدا ہو رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں بھی بچائی جا رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں اب آپ کے ساتھ بھارت کی ایک کام یابی شیئر کر رہا ہوں جس سے مریضوں کی زندگی آسان ہو جائے گی اور ان کی پریشانیاں ایک حد تک کم ہو جائیں گی۔
آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے، جو علاج کے لیے آیوروید، سدھا یا یونانی طب کے نظام سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایسے مریضوں کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اسی نظام کے کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ ان طبی طریقوں میں، بیماریوں، علاج اور ادویات کی اصطلاحات کے لیے ایک عام زبان استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ ہر ڈاکٹر بیماری کا نام اور علاج کے طریقے اپنے اپنے انداز میں لکھتا ہے۔ یہ بعض اوقات دوسرے ڈاکٹروں کے لیے سمجھنے کے لیے بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ دہائیوں سے جاری اس مسئلے کا حل اب تلاش کر لیا گیا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ آیوش کی وزارت نے عالمی ادارہ صحت کی مدد سے آیوروید، سدھا اور یونانی طب سے متعلق اعداد و شمار اور اصطلاحات کی درجہ بندی کی ہے۔ دونوں کی کوششوں سے آیوروید، یونانی اور سدھا طب میں بیماری اور علاج سے متعلق اصطلاحات کو کوڈ کیا گیا ہے۔ اس کوڈنگ کی مدد سے اب تمام ڈاکٹر اپنے نسخوں یا پرچیوں پر ایک ہی زبان لکھیں گے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر آپ اس پرچی کے ساتھ کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو ڈاکٹر کو صرف اسی پرچی سے اس کے بارے میں مکمل معلومات مل جائیں گی۔ یہ پرچی کسی کی بیماری، علاج، کون سی دوائیں لے رہی ہے، کتنے عرصے سے علاج چل رہا ہے، کن چیزوں سے الرجی ہے، یہ جاننے میں مدد ملے گی۔ اس کا ایک اور فائدہ ان لوگوں کو ہوگا، جو تحقیقی کام سے وابستہ ہیں۔ دوسرے ممالک کے سائنس داں بھی اس بیماری، ادویات اور ان کے اثرات کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں گے۔ جیسے جیسے تحقیق وسیع ہوگی اور بہت سے سائنس داں اکٹھے ہوں گے، ان طبی نظاموں کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور لوگوں کا ان کی طرف جھکاؤ بڑھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان آیوش نظاموں سے جڑے ہمارے ڈاکٹر جلد از جلد اس کوڈنگ کو اپنائیں گے۔
میرے ساتھیو، جب میں آیوش نظام طب کا ذکر کر رہا ہوں، تو میری آنکھوں کے سامنے یانونگ جموہ لیگو کی تصاویر بھی آ رہی ہیں۔ محترمہ یانونگ اروناچل پردیش کی رہنے والی ہیں اور جڑی بوٹیوں کی ماہر ہیں۔
انھوں نے آدی قبیلے کے روایتی طبی نظام کو بحال کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس بار انھیں اس تعاون کے لیے پدم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی طرح اس بار چھتیس گڑھ کے ہیم چند مانجھی کو بھی پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ویدیاراج ہیم چند مانجھی آیوش نظام طب کی مدد سے بھی لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ وہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نارائن پور، چھتیس گڑھ میں غریب مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ محترمہ یانونگ اور ہیم چند جی جیسے لوگوں کا ہمارے ملک میں چھپے آیوروید اور جڑی بوٹیوں کے خزانے کو محفوظ رکھنے میں بڑا رول ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ کے ذریعے ہمارا باہمی تعلق اب ایک دہائی پرانا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی ریڈیو پورے ملک کو جوڑنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ ریڈیو کی طاقت کتنی تبدیلی لاسکتی ہے اس کی ایک انوکھی مثال چھتیس گڑھ میں دیکھی جا رہی ہے۔ گذشتہ تقریباً 7 سال سے یہاں ریڈیو پر ایک مقبول پروگرام نشر کیا جا رہا ہے جس کا نام ’ہمار ہاتھی- ہمار گوٹھ‘ ہے۔ نام سن کر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ریڈیو اور ہاتھی کے درمیان کیا تعلق ہوسکتا ہے! لیکن یہی تو ریڈیو کی خوب صورتی ہے۔ چھتیس گڑھ میں یہ پروگرام آکاش وانی کے چار اسٹیشنوں امبیکا پور، رائے پور، بلاس پور اور رائے گڑھ سے ہر شام نشر کیا جاتا ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چھتیس گڑھ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے جنگلوں میں رہنے والے لوگ اس پروگرام کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ پروگرام ’ہمار ہاتھی - ہمار گوٹھ‘ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ جنگل کے کس علاقے سے گزر رہا ہے۔ یہ معلومات یہاں کے لوگوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ جیسے ہی لوگوں کو ہاتھیوں کے جھنڈ کی آمد کے بارے میں ریڈیو کے ذریعے جانکاری ملتی ہے، وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی جن راستوں سے گزرتے ہیں ان کو پار کرنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ ایک طرف، یہ ہاتھیوں کے ریوڑ سے ہونے والے نقصان کے امکان کو کم کرتا ہے۔ دوسری طرف، یہ ہاتھیوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس ڈیٹا کے استعمال سے مستقبل میں ہاتھیوں کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔
یہاں ہاتھیوں سے متعلق معلومات بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ اس سے جنگل کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے ہاتھیوں کے ساتھ توازن قائم کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ملک کے دیگر جنگلاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی چھتیس گڑھ کی اس انوکھی پہل اور اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اسی 25 جنوری کو ہم سبھی نے قومی یومِ رائے دہندگاں منایا ہے۔ یہ ہماری شاندار جمہوری روایات کے لیے ایک اہم دن ہے۔ آج ملک میں تقریباً 96 کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار کتنے بڑے ہیں؟ یہ امریکہ کی کل آبادی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ یہ پورے یورپ کی کل آبادی سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اگر ہم پولنگ اسٹیشنوں کی بات کریں تو آج ملک میں ان کی تعداد تقریباً 10۔5 لاکھ ہے۔ بھارت کے ہر شہری کو اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے، ہمارا انتخابی کمیشن ان جگہوں پر بھی پولنگ بوتھ قائم کرتا ہے جہاں صرف ایک ووٹر ہوتا ہے۔ میں انتخابی کمیشن کی ستائش کرنا چاہتا ہوں جس نے ملک میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں۔
ساتھیو، آج یہ ملک کے لیے جوش و خروش کی بات ہے کہ جہاں دنیا کے کئی ممالک میں ووٹنگ فیصد کم ہو رہا ہے، وہیں بھارت میں ووٹنگ فیصد بڑھ رہا ہے۔ 1951-52 میں جب ملک میں پہلی بار انتخابات ہوئے تو صرف 45 فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ آج اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں نہ صرف رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے قانون میں بھی ترامیم کی ہیں تاکہ ہمارے نوجوان ووٹروں کو رجسٹریشن کے زیادہ مواقع مل سکیں۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ رائے دہندگان میں بیداری بڑھانے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر بہت سی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر لوگ گھر گھر جاتے ہیں اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کے بارے میں بتاتے ہیں۔
دوسری جگہوں پر نوجوانوں کو پینٹنگ کے ذریعے راغب کیا جا رہا ہے۔ گلیوں کے ڈراموں کے ذریعے کہیں اور۔ اس طرح کی ہر کوشش ہماری جمہوریت کے جشن میں بے شمار رنگ ڈال رہی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے میں اپنے پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں سے کہوں گا کہ وہ اپنے نام ووٹر لسٹ میں ضرور شامل کروائیں۔ وہ نیشنل ووٹر سروس پورٹل اور ووٹر ہیلپ لائن ایپ کے ذریعے اسے آسانی سے آن لائن مکمل کرسکتے ہیں۔ آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کا ایک ووٹ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 جنوری کو بھارت کی دو عظیم شخصیات کا یوم پیدائش بھی ہے جنھوں نے مختلف ادوار میں حب الوطنی کی مثال قائم کی ہے۔ آج ملک پنجاب کیسری لالہ لاجپت رائے جی کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ لالہ جی ایک مجاہد آزادی تھے، جنھوں نے ہمیں غیر ملکی حکم رانی سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ لالہ جی کی شخصیت صرف جدوجہد آزادی تک محدود نہیں رہ سکتی۔ وہ بے حد دور اندیش تھا۔ انھوں نے پنجاب نیشنل بینک اور کئی دیگر اداروں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا مقصد نہ صرف غیر ملکیوں کو ملک سے بے دخل کرنا تھا بلکہ ملک کو معاشی طاقت دینے کا وژن بھی ان کی سوچ کا ایک اہم حصہ تھا۔ ان کی سوچ اور ان کی قربانی نے بھگت سنگھ کو بہت متاثر کیا۔ آج کا دن فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا جی کو عقیدت کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی دن ہے۔ انھوں نے تاریخ کے ایک اہم دور میں ہماری فوج کی قیادت کرکے جرات اور بہادری کی مثال قائم کی۔ ہماری فوج کو مضبوط بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج بھارت کھیلوں کی دنیا میں ہر روز نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو کھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں اور ملک میں اچھی طرح سے منظم کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کیے جائیں۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج بھارت میں کھیلوں کے نئے ٹورنامنٹ منعقد کیے جارہے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی چنئی میں کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس میں ملک کے 5 ہزار سے زائد ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج بھارت میں مسلسل ایسے نئے پلیٹ فارم بنائے جا رہے ہیں، جن میں کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ایسا ہی ایک پلیٹ فارم جو بنایا گیا ہے – بیچ گیمز، دیو میں منعقد کیا گیا تھا۔ آپ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ’دیو‘ ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے، جو سومناتھ کے بہت قریب ہے۔ ان بیچ گیمز کا انعقاد اس سال کے آغاز میں ہی دیو میں کیا گیا تھا۔ یہ بھارت کا پہلا ملٹی اسپورٹس بیچ گیمز تھا۔ ان مقابلوں میں رسا کشی، سمندری تیراکی، پینکاک سیلات، ملکھمب، بیچ والی بال، بیچ کبڈی، بیچ فٹ بال اور بیچ باکسنگ جیسے مقابلے شامل تھے۔ اس میں ہر کھلاڑی کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا کافی موقع ملا اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ٹورنامنٹ میں بہت سے کھلاڑی ان ریاستوں سے آئے تھے جن کا سمندر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش نے اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ تمغے جیتے، جہاں کوئی سمندری ساحل نہیں ہے۔ کھیلوں کے تئیں یہی مزاج کسی بھی ملک کو کھیلوں کی دنیا کا بادشاہ بناتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات‘ میں آج میرے ساتھ بس اتنا ہی۔ فروری میں ایک بار پھر آپ سے بات کروں گا۔ ہماری توجہ اس بات پر ہوگی کہ ملک کے عوام کی اجتماعی اور انفرادی کوششوں سے ملک کس طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، کل 29 تاریخ کو صبح 11 بجے ہم پریکشا پر چرچا بھی کریں گے۔ یہ ’پریکشا پر چرچا‘ کا ساتواں ایڈیشن ہوگا۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے، جس کا میں ہمیشہ انتظار کرتا ہوں۔ اس سے مجھے طلبہ کے ساتھ گفت و شنید کرنے کا موقع ملتا ہے، اور میں ان کے امتحان سے متعلق تناؤ کو کم کرنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ گذشتہ 7 برسوں میں ’پریکشا پر چرچا‘ تعلیم اور امتحانات سے متعلق مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک بہت اچھے ذریعہ کے طور پر ابھرا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس بار 2.25 کروڑ سے زیادہ طلبہ نے اس کے لیے اندراج کرایا ہے اور اپنی رائے بھی پیش کی ہے۔ 2018 میں جب ہم نے پہلی بار یہ پروگرام شروع کیا تھا تو یہ تعداد صرف 22 ہزار تھی۔
طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے اور امتحان سے متعلق تناؤ کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے بہت ساری اختراعی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ میں آپ سبھی، خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کل ریکارڈ تعداد میں شامل ہوں۔ میں بھی آپ سے بات کرنا پسند کروں گا۔ ان الفاظ کے ساتھ میں ’من کی بات‘ کی اس قسط میں آپ سے رخصت لیتا ہوں۔ جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔ شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو! نمسکار۔ ’من کی بات‘ کا مطلب ہے آپ سے ملنے کا ایک اچھا موقع، اور جب آپ اپنے خاندان کے افراد سے ملتے ہیں، تو یہ بہت خوش کن… بہت اطمینان بخش ہوتا ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سے ملنے کے بعد میں بالکل ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔ اور یقیناً آج یہ ہمارے مشترکہ سفر کی 108ویں قسط ہے۔ ہمارے یہاں 108 عدد کی اہمیت، اس کی پاکیزگی ایک گہرے مطالعہ کا موضوع ہے۔ ہار میں 108 دانے، 108 بار وِرد، 108 روحانی احساس، مندروں میں 108 سیڑھیاں، 108 گھنٹیاں، 108 کا یہ عدد بے پناہ عقیدت سے جڑی ہوئی ہے، اسی لیے ’من کی بات‘ کی 108 واں قسط میرے لیے بہت خاص ہوگئی ہے۔ ان 108 قسطوں میں ہم نے عوامی شراکت داری کی اتنی ہی مثالیں دیکھی ہیں، ان سے تحریک بھی حاصل کی ہے۔ اب اس سنگ میل تک پہنچنے کے بعد، ہمیں نئی توانائی کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ نئے سرے سے آگے بڑھنے کا عزم کرنا ہوگا۔ اور یہ کتنا خوشگوار اتفاق ہے کہ کل کا طلوع آفتاب 2024 کا پہلا طلوع آفتاب ہوگا - ہم سال 2024 میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ آپ سب کو 2024 کے لیے نیک خواہشات۔
دوستو، ’من کی بات‘ سننے والے بہت سے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور اپنے یادگار لمحات شیئر کیے ہیں۔ یہ 140 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت کی وجہ سے ہے کہ اس سال ہمارے ملک نے بہت سی خاص کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی سال ’ناری شکتی وندن ایکٹ‘ پاس ہوا، جس کا برسوں سے انتظار تھا۔ بہت سے لوگوں نے خطوط لکھے جس میں ہندوستان کے پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے مجھے جی 20 سربراہی اجلاس کی کامیابی کی یاد دلائی۔
دوستو، آج ہندوستان کا ہر گوشہ ترقی یافتہ ہندوستان کے جذبے سے لبریز، خود اعتمادی اور خود انحصاری کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ ہمیں 2024 میں بھی اسی جذبے اور رفتار کو برقرار رکھنا ہے۔ دیوالی پر ریکارڈ کاروبار نے ثابت کر دیا کہ ہر ہندوستانی ’ووکل فار لوکل‘ کے منتر کو اہمیت دے رہا ہے۔
دوستو، آج بھی بہت سے لوگ مجھے چندریان -3 کی کامیابی سے متعلق پیغامات بھیج رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ کو بھی ہمارے سائنسدانوں اور خاص کر خواتین سائنسدانوں پر فخر ہوگا۔
دوستو، جب ناٹو- ناٹو نے آسکر جیتا تو پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔’دی ایلیفینٹ وِسپررز‘ کے اعزاز کی بات سنی تو کون خوش نہیں ہوا؟ ان کے ذریعے دنیا نے ہندوستان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھا اور ماحولیات کے ساتھ ہمارے تعلق کو سمجھا۔ اس سال ہمارے کھلاڑیوں نے کھیلوں میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے ایشین گیمز میں 107 اور ایشین پیرا گیمز میں 111 میڈلز جیتے ہیں۔ ہندوستانی کھلاڑیوں نے کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی کارکردگی سے سب کا دل جیت لیا۔ انڈر 19، ٹی- 20 ورلڈ کپ میں ہماری خواتین کرکٹ ٹیم کی جیت بہت متاثر کن رہی ہے۔ دیگر کئی کھیلوں میں کھلاڑیوں کی کامیابیوں نے ملک کی شان میں اضافہ کیا۔ اب پیرس اولمپکس 2024 میں ہوں گے جس کے لیے پورا ملک اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
دوستو، جب بھی ہم نے مل کر کوششیں کیں، اس کا ہمارے ملک کی ترقی کے سفر پر بہت مثبت اثر پڑا ہے۔ ہم نے ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ اور ’میری ماٹی میرا دیش‘ جیسی کامیاب مہموں کا تجربہ کیا۔ اس میں کروڑوں لوگوں کی شراکت کے ہم سب گواہ ہیں۔ 70 ہزار امرت سرووروں کی تعمیر بھی ہماری اجتماعی کامیابی ہے۔
دوستو، میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ جو ملک اختراع کو اہمیت نہیں دیتا، اس کی ترقی رک جاتی ہے۔ ہندوستان کا، اینوویشن ہب بننا اس حقیقت کی علامت ہے کہ ہم رکنے والے نہیں ہیں۔ 2015 میں ہم گلوبل اینوویشن انڈیکس میں 81 ویں نمبر پر تھے – آج ہمارا رینک 40 واں ہے۔ اس سال، ہندوستان میں داخل ہونے والے پیٹنٹ کی تعداد زیادہ رہی ہے، جن میں سے تقریباً 60 فیصد گھریلو فنڈز کے تھے۔ اس بار کیو ایس ایشیا یونیورسٹی رینکنگ میں سب سے زیادہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان کامیابیوں کی فہرست بنانا شروع کر دیں تو یہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف ایک جھلک ہے کہ ہندوستان کی صلاحیت کتنی مؤثر ہے - ہمیں ملک کی ان کامیابیوں سے، ملک کے لوگوں کی ان حصول یابیوں سے تحریک لینی ہے، فخر کرنا ہے، نئے عہد لینے ہیں۔ ایک بار پھر، میں آپ سب کو 2024 کی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو، ہم نے صرف ہندوستان کے بارے میں اس امید اور جوش کے بارے میں بات کی ہے جو ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے - یہ امید اور توقع بہت اچھی ہے۔ جب ہندوستان ترقی یافتہ ہوگا تو نوجوانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن نوجوانوں کو زیادہ فائدہ تب ہوگا، جب وہ فٹ ہوں گے۔
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ طرز زندگی سے متعلق بیماریوں کے بارے میں کتنی باتیں ہوتی ہیں، یہ ہم سب کے لیے خاص طور پر نوجوانوں کے لیے انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اس ’من کی بات‘ کے لیے، میں نے آپ سب سے درخواست کی تھی کہ وہ فٹ انڈیا سے متعلق معلومات بھیجیں۔ آپ لوگوں نے جو جواب دیا ہے اس نے مجھے جوش سے بھر دیا ہے۔ اسٹارٹ اپس کی ایک بڑی تعداد نے بھی مجھے نمو ایپ پر اپنی تجاویز بھیجی ہیں۔ انہوں نے اپنی بہت سی منفرد کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
دوستو، ہندوستان کی کوششوں سے، 2023 کو موٹے اناج (ملیٹس) کا بین الاقوامی سال کے طور پر منایا گیا۔ اس سے اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کو بہت سارے مواقع ملے ہیں۔ ان میں لکھنؤ سے شروع ہونے والے ’کیروس فوڈس‘، پریاگ راج کی ’گرینڈ-ما ملیٹس‘ اور ’نیوٹراسیوٹیکل رچ آرگینک انڈیا‘ جیسے کئی اسٹارٹ اپس شامل ہیں۔ الپینو ہیلتھ فوڈس، آربوریئل اور کیروس فوڈس سے جڑے نوجوان صحت مند غذا کے متبادل کے حوالے سے بھی نئے نئے اختراعات کر رہے ہیں۔ بنگلورو کے اَن باکس ہیلتھ سے جڑے نوجوانوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو اپنی پسند کی خوراک کا انتخاب کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، اس شعبے سے متعلق کوچز اور ٹرینرز کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ جوگو ٹیکنالوجیز جیسے اسٹارٹ اپ اس مانگ کو پورا کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
دوستو، آج جسمانی صحت اور تندرستی کے بارے میں بہت باتیں ہو رہی ہیں، لیکن اس سے جڑا ایک اور اہم پہلو ذہنی صحت کا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ممبئی میں قائم اسٹارٹ اپس جیسے انفی- ہیل اور یور- دوست دماغی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہی نہیں، آج اس کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسی ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوستو، میں یہاں صرف چند اسٹارٹ اپس کے نام بتا سکتا ہوں، کیونکہ فہرست بہت لمبی ہے۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ فٹ انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے اختراعی آغاز کے بارے میں مجھے لکھتے رہیں۔ میں آپ کے ساتھ ایسے معروف لوگوں کے تجربات بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں جو جسمانی اور ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
یہ پہلا پیغام سد گرو جگی واسودیو جی کا ہے۔
وہ فٹنس، خاص طور پر دماغ کی فٹنس، یعنی دماغی صحت کے حوالے سے اپنے خیالات ساجھا کریں گے۔
****آڈیو****
’’ اس ’من کی بات‘ میں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ہماری خوش نصیبی ہے۔ دماغی بیماریاں اور ہم اپنے اعصابی نظام کو کس طرح برقرار رکھتے ہیں اس کا براہ راست تعلق ہے۔ ہم اعصابی نظام کو کس حد تک چوکس اور خلل سے پاک رکھتے ہیں یہ فیصلہ کرے گا کہ ہم اپنے اندر کتنا خوشگوار محسوس کرتے ہیں؟ جسے ہم امن، محبت، خوشی، مسرت، اذیت، افسردگی، جوش و خروش کے نام سے پکارتے ہیں، ان سب کی ایک کیمیائی اور اعصابی بنیاد ہے۔ فارماکولوجی بنیادی طور پر باہر سے کیمیکل ملاکر جسم کے اندر کیمیائی عدم توازن کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دماغی بیماریوں کا علاج اس طرح کیا جا رہا ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب کوئی انتہائی حالت میں ہو تو ادویات کی شکل میں باہر سے کیمیکل لینا ضروری ہے۔ اندرونی دماغی صحت کی صورتحال کے لیے کام کرنا یا اپنے اندر ایک مساوی کیمسٹری کے لیے کام کرنا، سکون، مسرت، مسرت کی کیمسٹری ایسی چیز ہے جسے ہر فرد کی زندگی میں لانا ہے۔ معاشرے اور دنیا بھر کی اقوام اور پوری انسانیت کی ثقافتی زندگی میں، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنی دماغی صحت کو سمجھیں، ہماری عقل ایک نازک استحقاق ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہمیں اس کی پرورش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے، یوگا نظام میں مشق کی بہت سی سطحیں ہیں - مکمل طور پر اندرونی عمل جو لوگ سادہ طریقوں کے طور پر کرسکتے ہیں، جس کے ساتھ وہ کیمسٹری میں ایک خاص مساوات اور اپنے اعصابی نظام میں کچھ سکون لا سکتے ہیں۔ باطنی بہبود کی ٹیکنالوجیز وہ ہیں جنہیں ہم یوگا سائنس کہتے ہیں۔ آئیے اسے ہونے دیں۔‘‘
عام طور پر، سدگرو جی اپنے خیالات کو اس طرح کے قابل ذکر انداز میں پیش کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
آئیے، اب ہم مشہور کرکٹ کھلاڑی ہرمن پریت کور جی کو سنتے ہیں۔
****آڈیو****
’’نمسکار! میں ’من کی بات‘ کے ذریعے اپنے ہم وطنوں سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی کے فٹ انڈیا پہل نے مجھے اپنے فٹنس منتر کو آپ سب کے ساتھ ساجھا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آپ سب کے لیے میری پہلی تجویز یہ ہے کہ ’کوئی بھی شخص خراب غذا کی مشق نہیں کر سکتا‘۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا کہ آپ کب کھاتے ہیں اور کیا کھاتے ہیں۔ حال ہی میں، عزت مآب وزیر اعظم مودی جی نے سب کو موٹا اناج کھانے کی ترغیب دی ہے، جو امراض کی روک تھام کے لئے قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور پائیدار زراعت میں مدد کرتا ہے اور ہضم کرنا بھی آسان ہے۔ باقاعدگی سے ورزش اور 7 گھنٹے کی پوری نیند جسم کے لیے بہت ضروری ہے اور فٹ رہنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ نظم و ضبط اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوگی۔ جب آپ نتائج حاصل کرنا شروع کر دیں گے تو آپ روزانہ ورزش کرنا شروع کر دیں گے۔ مجھے آپ سب سے بات کرنے اور اپنے فٹنس منتر کو ساجھا کرنے کا موقع دینے کے لیے عزت مآب وزیر اعظم کا بہت شکریہ۔‘‘
ہرمن پریت جی جیسی باصلاحیت کھلاڑی کے الفاظ یقیناً آپ سب کو تحریک دیں گے۔
آئیے، گرینڈ ماسٹر وشواناتھن آنند جی کو سنیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ’شطرنج‘کھیل کے لیے ذہنی فٹنس کتنی اہم ہے۔
****آڈیو****
’’نمستے، میں وشواناتھن آنند ہوں، آپ نے مجھے شطرنج کھیلتے دیکھا ہے اور اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے، آپ کی فٹنس روٹین کیا ہے؟ اب شطرنج میں بہت زیادہ توجہ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے میں مندرجہ ذیل کام کرتا ہوں جو مجھے فٹ اور چست رکھتا ہے۔ میں ہفتے میں دو بار یوگا کرتا ہوں، میں ہفتے میں دو بار کارڈیو کرتا ہوں، میں لچک، اسٹریچنگ، وزن کی تربیت پر توجہ دیتا ہوں اور میں ہفتے میں ایک دن کی چھٹی لیتا ہوں۔ یہ سب شطرنج کے لیے بہت اہم ہیں۔ آپ کو 6 یا 7 گھنٹے کی شدید ذہنی مشقت کے لیے اسٹیمنا کی ضرورت ہے، لیکن آپ کو آرام سے بیٹھنے کے لیے لچکدار ہونے کی بھی ضرورت ہے اور جب آپ کسی مسئلے پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پرسکون ہونے کے لیے اپنی سانسوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت مددگار ثابت ہوتی ہے، جو عام طور پر شطرنج کا کھیل ہے۔ تمام ’من کی بات‘ سننے والوں کے لیے میری فٹنس ٹپ یہ ہوگی کہ وہ پرسکون رہیں اور آگے کے کام پر توجہ دیں۔
میرے لیے بہترین فٹنس ٹِپ، بالکل سب سے اہم فٹنس ٹِپ رات کو اچھی نیند لینا ہے۔ رات کو چار سے پانچ گھنٹے تک سونا شروع نہ کریں، میرے خیال میں سات یا آٹھ گھنٹے کی نیند کم کم لینی چاہئے، اس لیے ہمیں رات کو اچھی نیند لینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ اسی صورت آپ اگلے دن پورا دن پرسکون انداز سے گزارنے میں اہل ہوسکتے ہیں۔ آپ جذباتی فیصلہ نہیں لیتے؛ آپ اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں۔ میرے لیے نیند سب سے اہم فٹنس ٹِپ ہے۔‘‘
آئیے، اب اکشے کمار جی کو سنتے ہیں۔
****آڈیو****
’’ہیلو، میں اکشے کمار ہوں۔ سب سے پہلے، میں اپنے قابل احترام وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے مجھے اپنے ’من کی بات‘ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات ساجھا کرنے کا ایک چھوٹا سا موقع فراہم کیا۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ جتنا میں فٹنس کے بارے میں پرجوش ہوں، میں قدرتی طریقے سے فٹ رہنے کے لیے اس سے بھی زیادہ پرجوش رہتا ہوں۔ مجھے ایک فینسی جم سے زیادہ جو چیز پسند ہے، وہ ہے باہر تیراکی کرنا، بیڈمنٹن کھیلنا، سیڑھیاں چڑھنا، مڈگر کلب کی گھنٹی کے ساتھ ورزش کرنا، اچھی صحت مند غذا استعمال کرنا … جیسا کہ میرا ماننا ہے کہ خالص گھی اگر مناسب مقدار میں کھایا جائے تو ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھی نہیں کھاتے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ موٹے ہو جائیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہماری فٹنس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ آپ کو اپنے طرز زندگی کو ڈاکٹروں کے مشورے سے بدلنا چاہیے نہ کہ کسی فلم اسٹار کا جسم دیکھ کر۔ اداکار اکثر وہ نہیں ہوتے جیسے وہ اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ کئی طرح کے فلٹرز اور اسپیشل ایفیکٹس استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے بعد ہم اپنے جسم کو بدلنے کے لیے غلط شارٹ کٹ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ آج کل، بہت سے لوگ اسٹیرائڈز لیتے ہیں اور 6پیک یا 8پیک کا سہارا لیتے ہیں۔ یار ایسے شارٹ کٹس سے جسم باہر سے پھول جاتا ہے، لیکن اندر سے کھوکھلا رہتا ہے۔ آپ لوگ یاد رکھیں کہ شارٹ کٹ آپ کی زندگی کو چھوٹا کرسکتا ہے۔ آپ کو شارٹ کٹ کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو دیرپا فٹنس کی ضرورت ہے۔ دوستو، فٹنس ایک قسم کی تپسیا ہے۔ یہ فوری کافی یا دو منٹ کے نوڈلز نہیں ہیں۔ اس نئے سال میں، اپنے آپ سے وعدہ کریں… کوئی کیمیکل نہیں، کوئی شارٹ کٹ ورزش نہیں، یوگا، اچھی غذا ، وقت پر سونا، کچھ مراقبہ اور سب سے اہم بات، آپ جس طرح نظر آتے ہیں اسے خوشی سے قبول کریں۔ آج کے بعد فلٹر لائف نہ جئیں، فتر لائف جئیں۔ اپنا خیال رکھیں۔ جئے مہاکال۔‘‘
اس شعبے میں اور بھی بہت سے اسٹارٹ اپس ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ ایک نوجوان اسٹارٹ اپ کے بانی سے بات کروں جو اس شعبے میں بہترین کام کر رہا ہے۔
****آڈیو****
’’ہیلو، میرا نام رشبھ ملہوترا ہے اور میں بنگلور سے ہوں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ’من کی بات‘ میں فٹنس پر بات ہو رہی ہے۔ میں خود فٹنس کی دنیا سے تعلق رکھتا ہوں اور ہمارا بنگلورو میں ایک اسٹارٹ اپ ہے، جس کا نام ’ٹیگڈا رہو‘ ہے۔ ہمارا اسٹارٹ اپ ہندوستان کی روایتی ورزشوں کو آگے لانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کی روایتی ورزشوں میں ایک بہت ہی حیرت انگیز ورزش ہے جو کہ ’گدا ورزش‘ ہے اور ہماری پوری توجہ صرف گدا اور مگدر کی ورزش پر ہے۔ لوگ یہ جان کر حیران رہ جاتے ہیں کہ آپ گدا سے ساری ٹریننگ کیسے کرتے ہیں؟ میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ گدا کی ورزش ہزاروں سال پرانی ہے اور یہ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے رائج ہے۔ آپ نے اسے بڑے اور چھوٹے اکھاڑوں میں ضرور دیکھا ہوگا اور ہم نے اپنے اسٹارٹ اپ کے ذریعے اسے ایک جدید شکل میں واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں پورے ملک سے بہت پیار ملا ہے اور بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ اس کے علاوہ ہندوستان میں کئی قدیم ورزشیں اور صحت و تندرستی سے متعلق طریقے ہیں، جنہیں ہمیں دنیا کو آگے بھی اپنانا اور سکھانا چاہیے۔ میں فٹنس کی دنیا سے ہوں، اس لیے میں آپ کو ایک ذاتی ٹپ دینا چاہوں گا۔ گدا ورزش سے آپ اپنی طاقت، قوت، حالت اور یہاں تک کہ سانس لینے میں بھی بہتری لا سکتے ہیں، اس لیے گدا کی اس ورزش کو اپنائیں اور اسے آگے بڑھائیں۔ جئے ہند۔‘‘
دوستو، سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، لیکن سب کا ایک ہی منتر ہے – ’صحت مند رہو، فٹ رہو‘۔ 2024 شروع کرنے کے لیے آپ کی اپنی فٹنس سے بڑا عزم کیا ہو سکتا ہے؟
پریوار جنو، کچھ دن پہلے کاشی میں ایک تجربہ ہوا، جسے میں ’من کی بات‘ کے سننے والوں کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ کاشی تمل سنگمم میں شرکت کے لیے تمل ناڈو سے ہزاروں لوگ کاشی پہنچے تھے۔ وہاں میں نے پہلی بار ان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے اے آئی ٹول بھاشنی کا عوامی طور پر استعمال کیا۔ میں اسٹیج سے ہندی میں خطاب کر رہا تھا، لیکن اے آئی ٹول بھاشنی کے ذریعے وہاں موجود تمل ناڈو کے لوگ بیک وقت تمل زبان میں میرا خطاب سن رہے تھے۔ کاشی تمل سنگمم میں آنے والے لوگ اس تجربے کو لے کر کافی پرجوش نظر آئے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک ہی زبان میں خطاب ہوگا اور عوام وہی تقریر بیک وقت اپنی زبان میں سنا کریں گے۔ فلموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا جب عوام سنیما ہال میں اے آئی کی مدد سے ریئل ٹائم ٹرانسلیشن سنا کریں گے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جب یہ ٹیکنالوجی ہمارے اسکولوں، اسپتالوں، ہماری عدالتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے لگے گی تو کتنی بڑی تبدیلی آجائے گی۔ میں آج کی نوجوان نسل سے اپیل کروں گا کہ وہ ریئل ٹائم ٹرانسلیشن سے جڑے اے آئی ٹولز کو مزید دریافت کریں اور انہیں 100 فیصد فول پروف بنائیں۔
دوستو، بدلتے وقت میں ہمیں اپنی زبانوں کو بچانا ہے اور ان کو فروغ دینا بھی ہے۔ اب میں آپ کو جھارکھنڈ کے ایک قبائلی گاؤں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس گاؤں نے اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک انوکھا اقدام کیا ہے۔ گڑھوا ضلع کے منگلو گاؤں میں بچوں کو کڈکھ زبان میں تعلیم دی جارہی ہے۔ اس اسکول کا نام ’کارتک اوراون آدیواسی کڈکھ اسکول‘ ہے۔ اس اسکول میں 300 قبائلی بچے پڑھتے ہیں۔ کڈکھ زبان اراؤں قبائلی برادری کی مادری زبان ہے۔ کڈکھ زبان کا اپنا رسم الخط بھی ہے جسے تولانگ سیکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ زبان رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ اسے بچانے کے لیے، اس کمیونٹی نے بچوں کو ان کی اپنی زبان میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکول کو شروع کرنے والے اروند اراؤں کا کہنا ہے کہ قبائلی بچوں کو انگریزی زبان میں دشواری ہوتی تھی، اس لیے انھوں نے گاؤں کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں پڑھانا شروع کیا۔ جب ان کی کوششوں کے بہتر نتائج آنے لگے تو گاؤں والے بھی ان کا ساتھ دینے لگے۔ اپنی زبان میں تعلیم کی وجہ سے بچوں کے سیکھنے کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ ہمارے ملک میں بہت سے بچے زبان کی مشکل کی وجہ سے درمیان میں پڑھائی چھوڑ دیتے تھے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی ایسی مشکلات کو ختم کرنے میں مدد دے رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ زبان کسی بھی بچے کی تعلیم اور ترقی میں رکاوٹ نہ بنے۔
دوستو، ہماری سرزمین ہند کو ہر عہد میں ملک کی بے مثال بیٹیوں نے فخر سے بھر دیا ہے۔ ساوتری بائی پھولے جی اور رانی ویلو ناچیار جی ملک کی دو ایسی ہی روشن شخصیتیں ہیں۔ ان کی شخصیت مینارۂ نور کی مانند ہے، جو ہر دور میں خواتین کی طاقت کو مزید آگے بڑھانے کا راستہ دکھاتی رہے گی۔ اب سے چند دن بعد یعنی 3 جنوری کو ہم سب دونوں کی یوم پیدائش منائیں گے۔ ساوتری بائی پھولے جی کا نام آتے ہی سب سے پہلی چیز جو ہمیں متاثر کرتی ہے وہ تعلیم اور سماجی اصلاح کے میدان میں ان کی شراکت داری ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین اور پسماندہ طبقے کی تعلیم کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں اور غلط ریت و رواج کی مخالفت میں ہمیشہ آواز بلند کرتی رہیں۔
وہ تعلیم کے ذریعے معاشرے کو بااختیار بنانے میں گہرا یقین رکھتی تھیں۔ مہاتما پھولے جی کے ساتھ مل کر انہوں نے بیٹیوں کے لیے کئی اسکول شروع کیے تھے۔ اس کی نظمیں لوگوں میں شعور بیدار کرتی تھیں اور خود اعتمادی پیدا کرنے والی ہوتی تھیں۔ انھوں نے ہمیشہ لوگوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کی ضرورت میں مدد کریں اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہیں۔ ان کی شفقت کی وسعت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جب مہاراشٹر میں قحط پڑا تو ساوتری بائی اور مہاتما پھولے نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے۔ سماجی انصاف کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب وہاں خوفناک طاعون پھیل گیا تو انھوں نے اپنے آپ کو لوگوں کی خدمت میں جھونک دیا۔ اس سب کے دوران وہ خود اس بیماری کا شکار ہوگئیں۔ انسانیت کے لیے وقف ان کی زندگی آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔
دوستو، رانی ویلو ناچیار کا نام بھی ملک کی ان بہت سی عظیم شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے غیر ملکی راج کے خلاف جدوجہد کی۔ تمل ناڈو کے میرے بھائی اور بہنیں اسے آج بھی ویرا منگئی یعنی بہادر خاتون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ رانی ویلو ناچیار نے جس بہادری سے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور جس بہادری کا مظاہرہ کیا وہ بہت متاثر کن ہے۔ ان کے شوہر کو انگریزوں نے شیوگنگائی سلطنت پر حملے کے دوران مار دیا تھا، جو وہاں کے راجاتھے۔ رانی ویلو ناچیار اور ان کی بیٹی کسی طرح دشمنوں سے بچ گئیں۔ وہ کئی سالوں تک ایک تنظیم بنانے اور مرودو برادرز یعنی اپنے کمانڈروں کے ساتھ فوج بنانے میں مسلسل مصروف رہی۔ انھوں نے پوری تیاری کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی اور بڑی ہمت و عزم کے ساتھ لڑیں۔ رانی ویلو ناچیار کا نام ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنی فوج میں پہلی بار آل ویمن گروپ بنایا۔ میں ان دو بہادر خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو، گجرات میں ڈائیرا کی روایت ہے۔ رات بھر ہزاروں لوگ ڈائیرا میں شامل ہوتے ہیں اور تفریح کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ڈائیرا میں لوک موسیقی، لوک ادب اور مزاح کی تثلیث ہر کسی کے ذہن کو مسرت سے بھر دیتی ہے۔ بھائی جگدیش ترویدی جی اس ڈائیرا کے مشہور فنکار ہیں۔ ایک مزاحیہ فنکار کے طور پر بھائی جگدیش ترویدی جی نے 30 سال سے زیادہ عرصے تک اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔ حال ہی میں مجھے بھائی جگدیش ترویدی جی کا ایک خط ملا ہے اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی بھیجی ہے۔ کتاب کا نام ہے – سوشل آڈٹ آف سوشل سروس۔ یہ کتاب بہت منفرد ہے۔ اس میں اکاؤنٹس کے ساتھ، یہ کتاب ایک قسم کی بیلنس شیٹ ہے۔ پچھلے 6 سالوں میں بھائی جگدیش ترویدی جی کو کس کس پروگرام سے کتنی آمدنی ہوئی اور وہ کہاں کہاں خرچ ہوئی، اس کا مکمل حساب کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہ بیلنس شیٹ منفرد ہے، کیونکہ انھوں نے اپنی پوری آمدنی یعنی ایک ایک روپیہ معاشرے کے لیے خرچ کر دیا - اسکول، اسپتال، لائبریری، معذور افراد سے متعلق ادارے، سماجی خدمت - پورے 6 سال کا حساب ہے۔ جیسا کہ کتاب میں ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ 2022 میں انہوں نے اپنے پروگراموں سے دو کروڑ پینتیس لاکھ اناسی ہزار چھ سو چوہتر روپے کمائے۔ اور اسکول، اسپتال، لائبریری پر دو کروڑ پینتیس لاکھ اناسی ہزار چھ سو چوہتر روپے خرچ ہوئے۔ ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ دراصل اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار بھائی جگدیش ترویدی جی نے کہا کہ جب وہ 2017 میں 50 سال کے ہو جائیں گے تو وہ اپنے پروگراموں سے ہونے والی آمدنی گھر نہیں لائیں گے، بلکہ سماج پر خرچ کریں گے۔ 2017 کے بعد سے، اس نے بے شمار سماجی کاموں پر تقریباً پونے نو کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ ایک مزاحیہ فنکار اپنی باتوں سے سب کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اندر کس قدر حساسیت رکھتا ہے، یہ بھائی جگدیش ترویدی جی کی زندگی پتا چلتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان کے پاس پی ایچ ڈی کی تین ڈگریاں بھی ہیں۔ انہوں نے 75 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کئی کو پذیرائی ملی ہے۔ انہیں سماجی کاموں پر کئی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ میں بھائی جگدیش ترویدی جی کو ان کے سماجی کام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو، ایودھیا میں رام مندر کے سلسلے میں پورے ملک میں جوش اور ولولہ ہے۔ لوگ مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران شری رام اور ایودھیا پر کئی نئے گانے اور نئے بھجن بنائے گئے ہیں۔ بہت سے لوگ نئی نظمیں بھی لکھ رہے ہیں۔ اس میں بہت سے تجربہ کار فنکار ہیں اور نئے ابھرتے ہوئے نوجوان فنکاروں نے دل کو گرما دینے والے بھجن بھی ترتیب دیے ہیں۔ میں نے اپنے سوشل میڈیا پر کچھ گانے اور بھجن بھی شیئر کیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فن کی دنیا اس تاریخی لمحے میں اپنے منفرد انداز میں شریک ہورہی ہے۔ میرے ذہن میں ایک بات آتی ہے… کیا ہم سب ایک مشترکہ ہیش ٹیگ کے ساتھ ایسی تمام تخلیقات کا اشتراک کر سکتے ہیں؟ میری آپ سے اپیل ہے کہ اپنی تخلیقات کو سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ شری رام بھجن (#shriRamBhajan) کے ساتھ شیئر کریں۔ یہ مجموعہ جذبے، بھکتی کی ایسی لہر میں تبدیل ہوجائے گا جس میں ہر کوئی رام مئے ہو جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات‘ میں میرے ساتھ بس اتنا ہی۔ 2024 بس چند گھنٹے دور ہے۔ ہندوستان کی کامیابیاں ہر ہندوستانی کی کامیابی ہے۔ ہمیں پنچ پران کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان کی ترقی کے لیے مسلسل کام کرنا ہے۔ ہم جو بھی کام کریں، جو بھی فیصلہ کریں، ہمارا پہلا معیار ہونا چاہیے… کہ اس سے ملک کو کیا ملے گا؟ اس سے ملک کا کیا فائدہ ہوگا۔ راشٹر پرتھم - نیشن فرسٹ - اس سے بڑا کوئی منتر نہیں ہے۔ اس منتر پر عمل کرتے ہوئے ہم ہندوستانی اپنے ملک کو ترقی یافتہ اور خود انحصار بنائیں گے۔ آپ سب 2024 میں کامیابی کی نئی بلندیوں تک پہنچیں، آپ سب صحت مند رہیں، تندرست رہیں، بے حد خوش رہیں - یہ میری دعا ہے۔ 2024 میں ہم ایک بار پھر ملک کے عوام کی نئی کامیابیوں پر بات کریں گے۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! من کی بات میں آپ کا خیر مقدم ۔ لیکن، ہم 26 نومبر کے اِس دن کو کبھی نہیں بھلاسکتے۔ یہ وہی دن ہے ، جب ملک پر زبردست دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا ۔ دہشت گردوں نے پورے ملک کے ساتھ ممبئی کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن یہ بھارت کا حوصلہ ہے، جس نے ہمیں آزمائش سے باہر نکالا ۔ اب ہم پورے حوصلے کے ساتھ دہشت گردی پر قابو پا رہے ہیں۔ میں ، ان تمام لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ممبئی حملے میں اپنی جانیں گنوائیں۔ آج ملک ، ان بہادر لوگوں کو یاد کر رہا ہے ، جنہوں نے حملے کے دوران اپنی عظیم قربانیاں پیش کیں۔
میرے پریوار جنوں ، آج کا دن، 26 نومبر ایک اور وجہ سے بہت اہم ہے۔ 1949 ء میں آج ہی کے دن ، آئین ساز اسمبلی نے بھارت کے آئین کو منظور کیا تھا اور اسے اختیار کیا تھا۔ مجھے یاد ہے… سال 2015 ء میں، جب ہم بابا صاحب امبیڈکر کی 125 ویں یوم پیدائش منا رہے تھے، میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ 26 نومبر کو یوم آئین کے طور پر منایا جائے اور تب سے ہم ہر سال ، اس دن کو یوم آئین کے طور پر منارہے ہیں۔ میں یوم آئین کے موقع پر ، تمام ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ہم مل کر یقینی طور پر شہریوں کے فرائض کو ترجیح دیتے ہوئے ایک ترقی یافتہ بھارت کا عزم حاصل کریں گے۔
ساتھیو ، ہم سب جانتے ہیں کہ آئین کو وجود میں آنے میں 2 سال 11 مہینے اور 18 دن لگے۔ آئین ساز اسمبلی کے سب سے پرانے رکن جناب سچیدانند سنہا جی تھے۔ ہمارے آئین کا مسودہ 60 سے زائد ممالک کے آئین کے قریبی مطالعہ اور طویل غور و خوض کے بعد تیا ر کیا گیا ۔ مسودہ تیار کرنے کے بعد، حتمی ڈھانچہ مکمل کئے جانے سے پہلے، اس میں 2000 سے زیادہ ترامیم شامل کی گئیں۔ 1950 ء میں آئین کے نافذ ہونے کے بعد سے آج تک آئین میں کل 106 ترامیم کی جا چکی ہیں۔ وقت، حالات اور ملک کے تقاضوں کے مطابق مختلف حکومتوں نے مختلف اوقات میں ترامیم کیں لیکن یہ بھی ایک بدقسمتی رہی ہے کہ آئین کی پہلی ترمیم تقریر اور اظہارِ رائے کی آزادی کو ختم کرنے سے متعلق تھی ، جب کہ 44ویں ترمیم کے ذریعے ایمرجنسی کے دوران سرزد ہونے والی غلطیاں درست کر دی گئیں۔
ساتھیو، یہ بات پھر سے متاثر کن ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے انہی ارکان میں سے ، جن کو نامزد کیا گیا تھا، 15 خواتین تھیں۔ ایسی ہی ایک رکن ہنسا مہتا جی تھیں، جنہوں نے خواتین کے حقوق اور انصاف کے لیے آواز بلند کی۔ اس عرصے کے دوران، بھارت اُن ممالک میں سے ایک تھا ، جس کے آئین نے خواتین کو ووٹنگ کے حقوق فراہم کیے تھے۔ قوم کی تعمیر کے عمل میں اجتماعی ترقی سب کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ یہ میرے لیے انتہائی اطمینان کی بات ہے کہ آئین کے بنانے والوں کی دور اندیشی کی تعمیل میں، بھارت کی پارلیمنٹ نے ، اب ناری شکتی وندن ادھینیم پاس کیا ہے۔ ناری شکتی وندن ادھینیم ، سنکلپ شکتی کی ایک مثال ہے، جو جمہوریت کے عزم کی قوت ہے ۔ اس سے ترقی یافتہ بھارت کے ہمارے عزم کو پورا کرنے کی رفتار کو تقویت ملے گی۔
میرے پریوار جنوں ، جب عوام بڑے پیمانے پر قوم کی تعمیر کی ذمہ داری سنبھالیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ آج بھارت میں صاف نظر آرہا ہے کہ ملک کے 140 کروڑ عوام کی قیادت میں بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ہم نے اس کی براہ راست مثال ، اس تہوار کے موسم میں دیکھی ہے۔ پچھلے مہینے ’ من کی بات ‘ میں میں نے ’ ووکل فار لوکل‘ یعنی مقامی مصنوعات خریدنے پر زور دیا تھا۔ گزشتہ چند دنوں میں ملک میں دیوالی، بھیا دوج اور چھٹھ پر 4 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا کاروبار ہوا اور اس عرصے کے دوران ، لوگوں میں بھارت میں بنی اشیاء کی خریداری میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا۔ اب تو ہمارے بچے بھی دکان پر کچھ خریدتے وقت یہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ان پر میڈ اِن انڈیا لکھا ہے یا نہیں ۔ اتنا ہی نہیں، آج کل لوگ آن لائن سامان کی خریداری کے دوران کنٹری آف اوریجن کو چیک کرنا نہیں بھولتے۔
ساتھیو، جس طرح ’سووچھ بھارت ابھیان ‘ کی کامیابی ایک تحریک بن گئی ہے ، اسی طرح ’ ووکل فار لوکل ‘ کی کامیابی ’ ایک ترقی یافتہ بھارت - خوشحال بھارت ‘ کے دروازے کھول رہی ہے۔ ’ووکل فار لوکل‘ کی یہ مہم پورے ملک کی معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔ ووکل فار لوکل مہم روزگار کی ضمانت ہے۔ یہ ترقی کی ضمانت ہے۔ یہی ملک کی متوازن ترقی کی ضمانت ہے۔ یہ شہری اور دیہی دونوں لوگوں کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے مقامی مصنوعات میں ویلیو ایڈیشن کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے اور اگر کبھی عالمی معیشت میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں تو مقامی کے لیے ووکل کا منتر ہماری معیشت کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ساتھیو، بھارتی مصنوعات کے تئیں یہ جذبہ صرف تہواروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اب شادیوں کا سیزن بھی شروع ہو چکا ہے۔ کچھ تجارتی اداروں کا اندازہ ہے کہ شادی کے اس سیزن میں تقریباً 5 لاکھ کروڑ روپئے کا کاروبار ہو سکتا ہے۔ شادیوں کی خریداری کرتے وقت، آپ سب کو صرف بھارت میں بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے اور ہاں، جب سے شادی کا موضوع آیا ہے، ایک بات مجھے کافی عرصے سے پریشان کر رہی ہے… اور اگر میں اپنے دل کا درد اپنے گھر والوں کے سامنے نہ کھولوں تو اور کس سے کروں؟ ذرا غور کریں… ان دنوں کچھ خاندانوں کی طرف سے بیرون ملک جا کر شادیاں کرنے کا ایک نیا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ سب ضروری ہے؟ اگر ہم بھارتی سرزمین پر شادیوں کی خوشیاں بھارت کے لوگوں کے درمیان منائیں گے تو ملک کا پیسہ ملک میں ہی رہے گا۔ آپ کی شادی میں ملک کے لوگوں کو کوئی نہ کوئی خدمت کرنے کا موقع ملے گا… غریب لوگ بھی اپنے بچوں کو اس موقع کے بارے میں بتائیں گے۔ کیا آپ ’ ووکل فار لوکل ‘ کے اس مشن کو آگے بڑھا سکتے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں شادی کی ایسی تقریبات کیوں نہیں منعقد کرتے؟ ممکن ہے ، جس طرح کا نظام آپ چاہتے ہیں ، آج وہ نہ ہو لیکن اگر ہم اس قسم کی تقریبات منعقد کریں گے تو نظام بھی ترقی کرے گا۔ یہ بڑے خاندانوں سے متعلق موضوع ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرا یہ درد ، ان بڑے خاندانوں تک ضرور پہنچے گا۔
میرے پریوار جنو ، اس تہوار کے موسم میں ایک اور بڑا رجحان دیکھا گیا ہے۔ یہ لگاتار دوسرا سال ہے ، جب دیوالی کے موقع پر نقد ادائیگی کے ذریعے کچھ سامان خریدنے کا رجحان بتدریج کم ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ اب زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ یہ بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ آپ ایک اور کام کر سکتے ہیں۔ خود فیصلہ کریں کہ ایک ماہ کے لیے آپ صرف یو پی آئی یا کسی بھی ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے ادائیگی کریں گے نہ کہ نقد ۔ بھارت میں ڈیجیٹل انقلاب کی کامیابی نے یہ سب ممکن بنا دیا ہے اور جب ایک مہینہ گزر جائے تو براہ کرم اپنے تجربات اور اپنی تصاویر مجھ سے شیئر کریں۔ میں آپ کو ابھی سے پیشگی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو ، ہمارے نوجوان ساتھیوں نے ملک کو ایک اور اہم خوشخبری سنائی ہے، جس سے ہم سب کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا ۔ ’’ ذہانت، تخیل اور اختراع‘‘ آج بھارتی نوجوانوں کی پہچان ہے۔ ٹیکنالوجی کے امتزاج کے ذریعے ، ان کی دانشورانہ خصوصیات میں مسلسل اضافہ - یہ اپنے آپ میں ملک کی صلاحیت کو بڑھانے میں پیش رفت کا ایک اہم پہلو ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ 2022 ء میں بھارتیوں کی جانب سے پیٹنٹ کی درخواستوں میں 31 فی صد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ دانشورانہ املاک کی عالمی تنظیم نے ایک انتہائی دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ پیٹنٹ فائل کرنے میں سب سے آگے رہنے والے ٹاپ 10 ممالک میں بھی ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو ، اس شاندار کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ملک ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہے۔ حکومت کی طرف سے کی گئی انتظامی اور قانونی اصلاحات کے بعد ، آج ہمارے نوجوان نئی توانائی کے ساتھ بڑے پیمانے پر اختراعات میں مصروف ہیں۔ اگر 10 سال پہلے کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا جائے تو آج، ہمارے پیٹنٹ کو 10 گنا زیادہ تیزی سے منظوری مل رہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پیٹنٹ نہ صرف ملک کی دانشورانہ املاک میں اضافہ کرتے ہیں ، بلکہ ان سے نئے مواقع کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ یہی نہیں، یہ ہمارے اسٹارٹ اَپس کی طاقت اور صلاحیت کو بھی بڑھاتا ہے۔ آج ہمارے اسکول کے بچوں میں بھی جدت پسندی کے جذبے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اٹل ٹنکرنگ لیب، اٹل انوویشن مشن، کالجوں میں انکیوبیشن سینٹر، اسٹارٹ اپ انڈیا مہم ، اسی طرح کی انتھک کوششوں کے نتائج ہم وطنوں کے سامنے ہیں۔ یہ بھی بھارت کی نوجوان قوت کی ایک واضح مثال ہے : بھارت کی اختراعی قوت ۔ اس جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، ہم ایک ترقی یافتہ بھارت کے خواب کو حاصل کریں گے اور اسی لیے میں بار بار کہتا ہوں، ’ جے جوان-جے کسان ‘ ، ’ جے وگیان-جے انوسندھان ‘ ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے ، میں نے ’ من کی بات ‘ میں بھارت میں بڑے پیمانے پر میلوں کے انعقاد کے بارے میں بات کی تھی۔ پھر ایک مقابلے کا خیال بھی ذہن میں آیا ، جس میں لوگ میلوں سے متعلق تصاویر شیئر کریں گے۔ ثقافت کی وزارت نے ، اسی سلسلے میں ایک میلہ مومنٹ مقابلہ منعقد کیا تھا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور بہت سے لوگوں نے انعامات بھی جیتے ۔ کولکاتہ کے رہنے والے راجیش دھارجی نے چرک میلہ میں غبارے اور کھلونے بیچنے والے کی اپنی حیرت انگیز تصویر کے لیے ایوارڈ جیتا۔ یہ میلہ بنگال کے دیہی علااقوں میں بہت مشہور ہے۔ انوپم سنگھ جی کو وارانسی میں ہولی کی نمائش کے لیے میلا پورٹریٹ ایوارڈ ملا۔ ارون کمار نلی میلاجی کو ’کلاسائی دسہرہ ‘ سے متعلق ایک پرکشش پہلو دکھانے پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح سب سے زیادہ پسند کی جانے والی تصویر میں پنڈھارپور کی عقیدت کو ظاہر کرنے والی ایک تصویر بھی شامل تھی، جسے مہاراشٹر کے جناب رال جی نے بھیجا تھا۔ اس مقابلے میں میلوں کے دوران مقامی پکوانوں کی بہت سی تصویریں نظر آئیں۔ اس میں پرولیا کے رہنے والے آلوک اویناش جی کی تصویر نے ایوارڈ جیتا ہے۔ انہوں نے ایک میلے کے دوران بنگال کے دیہی علاقوں کے کھانے کی نمائش کی تھی۔ پرنب بساک جی کی ایک تصویر، جس میں خواتین بھگوریا تہوار کے دوران قلفی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں، کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ رومیلا جی نے چھتیس گڑھ کے جگدل پور میں ایک گاؤں کے میلے میں بھجیا چکھنے والی خواتین کی تصویر بھیجی تھی - جسے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ساتھیو، ’من کی بات‘ کے ذریعے، میں آج ہر گاؤں، ہر اسکول، ہر پنچایت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس طرح کے مقابلے باقاعدگی سے منعقد کریں۔ آج کل سوشل میڈیا کی قوت بہت وسیع ہے ، ٹیکنالوجی اور موبائل ہر گھر تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے مقامی تہوار ہوں یا مصنوعات ، آپ ان کے ذریعے بھی انہیں دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔
ساتھیو، جس طرح ہر گاؤں میں میلوں کا انعقاد ہوتا ہے، اسی طرح یہاں کے مختلف رقص کی بھی اپنی الگ وراثتی پہچان ہیں۔ جھارکھنڈ، اڈیشہ اور بنگال کے قبائلی علاقوں میں ایک بہت مشہور رقص ہے ، جسے ’ چھاؤ ‘ کہا جاتا ہے۔ سری نگر میں 15 سے 17 نومبر تک ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کے ساتھ ’چھاؤ‘ میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں سب نے ’ چھاؤ ‘ رقص کا لطف اٹھایا۔ سری نگر کے نوجوانوں کو ’ چھاؤ ‘ رقص کی تربیت دینے کے لیے ایک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح کٹھوعہ ضلع میں چند ہفتے قبل ’ بسوہلی اتسو ‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ جگہ جموں سے 150 کلومیٹر دور ہے۔ اس تہوار میں مقامی فن، لوک رقص اور روایتی رام لیلا کا اہتمام کیا گیا۔
ساتھیو، بھارتی ثقافت کا حسن سعودی عرب میں بھی محسوس کیا جاتا ہے ۔ اس ماہ سعودی عرب میں ’ سنسکرت اتسو ‘ کے نام سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ یہ اپنے آپ میں منفرد تھا کیونکہ پورا پروگرام سنسکرت میں تھا۔ مکالمے، موسیقی، رقص، سب کچھ سنسکرت میں، جس میں مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی ۔
میرے پریوار جنو ، ’ سووچھ بھارت ‘ اب پورے ملک کا پسندیدہ موضوع بن گیا ہے۔ یقیناً یہ میرا بھی پسندیدہ موضوع ہے اور جیسے ہی مجھے اس سے متعلق کوئی خبر ملتی ہے، میرا ذہن اس کی طرف مرکوز ہوجاتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ ’ من کی بات ‘ میں اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ سووچھ بھارت ابھیان نے صفائی اور عوامی حفظان صحت کے حوالے سے لوگوں کی ذہنیت کو بدل دیا ہے۔ آج یہ پہل قومی جذبے کی علامت بن گئی ہے، جس سے کروڑوں ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے۔ اس مہم نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں ، خصوصاً نوجوانوں کو اجتماعی شرکت کی ترغیب دی ہے۔ ایسی ہی ایک قابل ستائش کوشش سورت میں دیکھنے میں آئی ہے۔ نوجوانوں کی ایک ٹیم نے وہاں ’پروجیکٹ سورت‘ شروع کیا ہے۔ اس کا مقصد سورت کو ایک ماڈل شہر بنانا ہے ، جو صفائی ستھرائی اور پائیدار ترقی کی ایک بہترین مثال بن جائے۔ اس کوشش کے تحت، جس کا آغاز ’صفائی سنڈے ‘ کے نام سے ہوا تھا، سورت کے نوجوان ، اس سے پہلے عوامی مقامات اور ڈوماس بیچ کی صفائی کیا کرتے تھے۔ بعد میں ان لوگوں نے خلوصِ دِل سے تاپی دریا کے کناروں کی صفائی میں حصہ لیا اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کچھ ہی عرصے میں اس سے وابستہ افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ لوگوں سے ملنے والے تعاون سے ٹیم کے اعتماد میں اضافہ ہوا ، جس کے بعد انہوں نے کچرا اٹھانے کا کام بھی شروع کر دیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ٹیم نے لاکھوں کلو کچرا صاف کیا ہے۔ نچلی سطح پر کی جانے والی ، اس طرح کی کوششیں بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔
ساتھیو، گجرات سے ہی ایک اور خبر سامنے آئی ہے ۔ چند ہفتے پہلے امباجی میں ’ بھدراوی پونم میلے ‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میلے میں 50 لاکھ سے زیادہ لوگ آئے تھے۔ یہ میلہ ہر سال لگتا ہے۔ اس کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ میلے میں آنے والے لوگوں نے گبّر پہاڑی کے ایک بڑے حصے میں صفائی مہم کا انعقاد کیا ۔ مندروں کے آس پاس کے پورے علاقے کو صاف رکھنے کی یہ مہم بہت متاثر کن ہے۔
ساتھیو، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ صفائی ایک دن یا ایک ہفتے کی مہم نہیں ہے بلکہ یہ زندگی بھر نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی صفائی سے متعلق مسائل کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں رہنے والے لوگناتھن جی منفرد شخصیت ہیں ۔ بچپن میں وہ اکثر غریب بچوں کے پھٹے ہوئے کپڑے دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد ، انہوں نے ایسے بچوں کی مدد کرنے کا عزم کیا اور اپنی کمائی کا ایک حصہ ، انہیں عطیہ کرنا شروع کردیا۔ جب پیسے کی کمی تھی تو لوگناتھن جی نے بیت الخلا بھی صاف کئے تاکہ ضرورت مند بچوں کی مدد کی جا سکے۔ وہ گزشتہ 25 سالوں سے پوری لگن کے ساتھ ، اس کام میں مصروف ہیں اور اب تک 1500 سے زائد بچوں کی مدد کر چکے ہیں۔ میں ایک بار پھر ایسی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ ملک بھر میں ہونے والی ایسی بہت سی کوششیں نہ صرف ہمیں حوصلہ دیتی ہیں بلکہ کچھ نیا کرنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔
میرے پریوار جنو ، 21ویں صدی کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ’ آبی سکیورٹی ‘ ہے۔ پانی کو بچانا زندگی بچانے سے کم نہیں ہے ۔ جب ہم اجتماعیت کے اس جذبے کے ساتھ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو ہمیں کامیابی بھی ملتی ہے۔ اس کی ایک مثال ملک کے ہر ضلع میں بنایا جا رہا ’ امرت سروور ‘ ہے۔ ’امرت مہوتسو‘ کے دوران بھارت نے ، جو 65 ہزار سے زیادہ ’امرت سروور‘ تیار کیے ہیں ، ان سے آنے والی نسلوں کو فائدہ ہوگا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ جہاں جہاں امرت سروور بنائے گئے ہیں، ان کی باقاعدگی سے دیکھ بھال کی جائے تاکہ وہ پانی کے تحفظ کا اہم ذریعہ بنے رہیں۔
ساتھیو، پانی کے تحفظ پر اس طرح کے مباحثے کے درمیان؛ مجھے گجرات کے امریلی میں منعقد ہونے والے ’ جل اتسو ‘ کے بارے میں معلوم ہوا۔ گجرات میں بارہ ماسی بہنے والے دریاؤں کی بھی کمی ہے، اس لیے لوگوں کو زیادہ تر بارش کے پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے 20-25 سالوں میں حکومت اور سماجی تنظیموں کی کوششوں کے بعد ، وہاں کے حالات میں تبدیلی آئی ہے اور اس لیے وہاں ’جل اتسو ‘ کا بڑا کردار ہے۔ امریلی میں منعقد ’جل اتسو‘ کے دوران ’پانی کے تحفظ‘ اور جھیلوں کے تحفظ کے بارے میں لوگوں میں بیداری بڑھانے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے تحت واٹر اسپورٹس کو بھی فروغ دیا گیا اور آبی تحفظ کے ماہرین کے ساتھ غور و فکر بھی کیا گیا ۔ اس پروگرام میں شرکت کرنے والوں نے پانی کے ترنگے فواروں کو بہت پسند کیا ۔ یہ واٹر فیسٹیول سورت کے ہیروں کے کاروبار میں اپنا نام بنانے والے ساؤجی بھائی ڈھولکیا کی فاؤنڈیشن نے منعقد کیا تھا۔ میں ، اس میں شامل تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور پانی کے تحفظ کے لیے ، اسی طرح کے کام کرنے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو ، آج کل اسکل ڈیولپمنٹ کی اہمیت کو پوری دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے۔ جب ہم کسی کو کوئی ہنر سکھاتے ہیں، تو ہم نہ صرف اس شخص کو وہ ہنر دیتے ہیں ، بلکہ ہم آمدنی کا ذریعہ بھی فراہم کرتے ہیں اور جب مجھے معلوم ہوا کہ ایک تنظیم گزشتہ چار دہائیوں سے اسکل ڈیولپمنٹ کے کام میں مصروف ہے تو مجھے اور بھی اچھا لگا۔ یہ ادارہ آندھرا پردیش کے سری کاکولم میں ہے اور اس کا نام ’بیلجی پورم یوتھ کلب‘ ہے۔ ہنر کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ’بیلجی پورم یوتھ کلب‘ نے تقریباً 7000 خواتین کو بااختیار بنایا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین آج کوئی نہ کوئی کام خود کر رہی ہیں۔ اس تنظیم نے چائلڈ لیبر میں پھنسے بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھا کر ، اس چکر سے نکلنے میں بھی مدد کی ہے۔ ’بیلجی پورم یوتھ کلب‘ کی ٹیم نے فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز یعنی ایف پی اوز سے وابستہ کسانوں کو نئے ہنر بھی سکھائے، جس نے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو بااختیار بنایا ہے۔ یہ یوتھ کلب ہر گاؤں میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے بیداری بھی پھیلا رہا ہے، اس نے کئی بیت الخلاء کی تعمیر میں بھی مدد کی ہے۔ میں ہنر کے فروغ کے لیے ، اس تنظیم سے وابستہ تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کی ستائش کرتا ہوں۔ آج ملک کے ہر گاؤں میں اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے ایسی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ساتھیو ، جب کسی مقصد کے لیے اجتماعی کوشش ہوتی ہے تو کامیابی کا درجہ بھی بلند ہوجاتا ہے۔ میں آپ سب کے ساتھ لداخ کی ایک متاثر کن مثال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پشمینہ شال کے بارے میں آپ نے یقیناً سنا ہوگا۔ لداخی پشمینہ کا بھی کچھ عرصے سے کافی چرچا ہو رہا ہے۔ لداخی پشمینہ ’لومز آف لداخ‘ کے نام سے دنیا بھر کے بازاروں میں پہنچ رہی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ 15 گاؤوں کی 450 سے زائد خواتین ، ان کی بنائی میں شامل ہیں۔ پہلے وہ اپنی مصنوعات ، وہاں آنے والے سیاحوں کو ہی فروخت کرتی تھیں ۔ لیکن اب ڈیجیٹل انڈیا کے اس دور میں ان کی بنائی ہوئی مصنوعات ملک اور دنیا کے مختلف بازاروں میں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا لوکل اب گلوبل ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے ، ان خواتین کی کمائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ساتھیو، خواتین کی قوت کی کامیابیوں کی ایسی کہانیاں ، ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ ایسی مثالوں کو زیادہ سے زیادہ سامنے لانے کی ضرورت ہے اور یہ بات بتانے کے لیے ’من کی بات‘ سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے؟ تو آپ بھی ، اس طرح کی مثالیں میرے ساتھ زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ میں بھی انہیں آپ تک پہنچانے کی پوری کوشش کروں گا۔
میرے پریوار جنو ، ’من کی بات ‘ میں ہم ایسی اجتماعی کوششوں پر بات کر رہے ہیں ، جن سے معاشرے میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ’من کی بات‘ کی ایک اور کامیابی یہ ہے کہ اس نے ریڈیو کو ہر گھر میں مقبول بنا دیا ہے۔ مائی گوو پر، مجھے اتر پردیش میں امروہہ کے رام سنگھ بودھ جی کا ایک خط موصول ہوا ہے۔ رام سنگھ جی پچھلی کئی دہائیوں سے ریڈیو سیٹ جمع کرنے کے کام میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ من کی بات ‘ کے بعد ، ان کے ریڈیو میوزیم کے بارے میں لوگوں کا تجسس مزید بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح ’من کی بات‘ سے متاثر ہو کر احمد آباد کے قریب تیرتھ دھام پریرنا تیرتھ نے ایک دلچسپ نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ بھارت اور بیرون ملک سے 100 سے زیادہ قدیم ریڈیو یہاں دکھائے جاتے ہیں۔ یہاں، ’من کی بات‘ کے اب تک کے تمام ایپی سوڈ سنے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح ’من کی بات‘ سے متاثر ہوئے اور اپنا کاروبار شروع کیا۔ ایسی ہی ایک مثال کرناٹک کے چام راج نگر کی ورشا جی کی ہے، جنہوں نے ’ من کی بات ‘ سے متاثر ہو کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو نے کی کوشش کی ۔ اس پروگرام کی ایک قسط سے متاثر ہو کر ، انہوں نے کیلے سے نامیاتی کھاد بنانے کا کام شروع کیا۔ ورشا جی کی اس پہل سے ، جو فطرت سے بے حد پیار کرتے ہیں، دوسرے لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
میرے پریوار جنو ، کل 27 نومبر کو ، کارتک پورنیما کا تہوار ہے۔ اس دن ’دیو دیوالی‘ بھی منائی جاتی ہے اور میں ہمیشہ کاشی کی ’ دیو دیوالی ‘ کو دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں ۔ اس مرتبہ میں کاشی نہیں جا سکوں گا لیکن میں ’ من کی بات ‘ کے ذریعے بنارس کے لوگوں کو اپنی نیک خواہشات ضرور بھیج رہا ہوں۔ اس بار بھی کاشی کے گھاٹوں پر لاکھوں چراغ جلیں گے۔ ایک عظیم الشان آرتی ہو گی۔ ایک لیزر شو ہوگا ، بھارت اور بیرون ملک سے لاکھوں لوگ ’ دیو دیوالی ‘ سے لطف اندوز ہوں گے۔
ساتھیو، کل پورے چاند کے دن، گرو نانک دیو جی کا پرکاش پرو بھی ہے۔ گرو نانک جی کے قیمتی پیغامات ، آج بھی نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے متاثر کن اور مفید ہیں۔ وہ ہمیں سادگی ، ہم آہنگی اور دوسروں کے لیے وقف ہونے کی تحریک دیتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہمارے سکھ بھائی اور بہنیں خدمت کے جذبے اور خدمت پر عمل در آمد کرنے کے بارے میں گرو نانک دیو جی کی تعلیمات پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ میں ’ من کی بات ‘کے تمام سننے والوں کو گرو نانک دیو جی کے ’ پرکاش پرو ‘ پر اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پریوار جنو ، ’من کی بات ‘ میں ، اِس وقت اتنا ہی ۔ بہرحال، 2023 رفتہ رفتہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہر بار کی طرح، میں اور آپ بھی سوچ رہے ہیں کہ دیکھو... یہ سال اتنی جلدی گزر گیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ سال بھارت کے لیے بے پناہ کامیابیوں کا سال رہا ہے اور بھارت کی کامیابیاں ہر بھارتی کی کامیابی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ’من کی بات‘ بھارتیوں کی ایسی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بن گیا ہے۔ اگلی بار ہم ، آپ سے اپنے ہم وطنوں کی بہت سی کامیابیوں کے بارے میں پھر بات کریں گے۔ تب تک میں آپ سے رخصت لیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ ۔
نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ’من کی بات‘ میں آپ کا ایک بار پھر خیر مقدم ہے۔ یہ ایپی سوڈ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پورے ملک میں تہواروں کی امنگ ہے، آپ سبھی کو آنے والے سبھی تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، تہواروں کی اس امنگ کے درمیان، دہلی کی ایک خبر سے ہی میں ’من کی بات‘ کی شروعات کرنا چاہتا ہوں۔ اس مہینہ کی شروعات میں گاندھی جینتی کے موقع پر دہلی میں کھادی کی ریکارڈ فروخت ہوئی۔ یہاں کناٹ پلیس میں، ایک ہی کھادی اسٹور میں، ایک ہی دن میں، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کا سامان لوگوں نے خریدا۔ اس مہینے چل رہے کھادی مہوتسو نے ایک بار پھر فروخت کے اپنے سارے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ آپ کو ایک اور بات جان کر بھی بہت اچھا لگے گا، دس سال پہلے ملک میں جہاں کھادی پروڈکٹس کی فروخت بڑی مشکل سے 30 ہزار کروڑ روپے سے بھی کم کی تھی، اب یہ بڑھ کر سوا لاکھ کروڑ روپے کے آس پاس پہنچ رہی ہے۔ کھادی کی فروخت بڑھنے کا مطلب ہے اس کا فائدہ شہر سے لے کر گاؤں تک میں الگ الگ طبقوں تک پہنچتا ہے۔ اس فروخت کا فائدہ ہمارے بُنکر، دستکاری کے کاریگر، ہمارے کسان، آیورویدک پودے لگانے والی دیہی صنعت سب کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے، اور، یہی تو، ’ووکل فار لوکل‘ مہم کی طاقت ہے اور دھیرے دھیرے آپ تمام اہل وطن کی حمایت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ساتھیو، آج میں اپنی ایک اور اپیل آپ کے سامنے دہرانا چاہتا ہوں اور بہت ہی مؤدبانہ طریقے سے دہرانا چاہتا ہوں۔ جب بھی آپ سیاحت پر جائیں، تیرتھاٹن پر جائیں، تو وہاں کے مقامی کاریگروں کے ذریعے بنائی گئی مصنوعات کو ضرور خریدیں۔ آپ اپنے اُس سفر کے کل بجٹ میں مقامی مصنوعات کی خرید کو ایک اہم ترجیحات کے طور پر ضرور رکھیں۔ 10 فیصد ہو، 20 فیصد ہو، جتنا آپ کا بجٹ بیٹھتا ہو، لوکل پر ضرور خرچ کیجئے گا اور وہیں پر خرچ کیجئے گا۔
ساتھیو، ہر بار کی طرح اس بار بھی، ہمارے تہواروں میں، ہماری ترجیح ہو ’ووکل فار لوکل‘ اور ہم مل کر اُس خواب کو پورا کریں، ہمارا خواب ہے ’آتم نربھر بھارت‘۔ اس بار ایسے پروڈکٹ سے ہی گھر کو روشن کریں جس میں میرے کسی ہم وطن کے پسینے کی خوشبو ہو، میرے ملک کے کسی نوجوان کا ٹیلنٹ ہو، اس کے بننے میں میرے ہم وطنوں کو روزگار ملا ہو، روزمرہ کی زندگی کی کوئی بھی ضرورت ہو – ہم لوکل ہی لیں گے۔ لیکن، آپ کو ایک اور بات پر غور کرنا ہوگا۔ ’ووکل فار لوکل‘ کا یہ جذبہ صرف تہواروں کی خریداری تک کے لیے ہی محدود نہیں ہے اور کہیں تو میں نے دیکھا ہے، دیوالی کا دیا لیتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں ’ووکل فار لوکل‘ – نہیں جی، وہ تو شروعات ہے۔ ہمیں بہت آگے بڑھنا ہے، زندگی کی ہر ضرورت – ہمارے ملک میں، اب، سب کچھ دستیاب ہے۔ یہ وژن صرف چھوٹے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں سے سامان لینے تک محدود نہیں ہے۔ آج بھارت، دنیا کا بڑا مینوفیکچرنگ ہب بن رہا ہے۔ کئی بڑے برانڈ یہیں پر اپنے پروڈکٹ کو تیار کر رہے ہیں۔ اگر ہم ان پروڈکٹ کو اپناتے ہیں، تو میک ان انڈیا کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور، یہ بھی، ’لوکل فار ووکل‘ ہی ہونا ہوتا ہے، اور یہاں، ایسے پروڈکٹ کو خریدتے وقت ہمارے ملک کی شان یو پی آئی ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم سے ادائیگی کرنے میں سبقت حاصل کریں، زندگی میں عادت ڈالیں، اور اس پروڈکٹ کے ساتھ، یا، اس کاریگر کے ساتھ سیلفی ’نمو ایپ‘ پر میرے ساتھ شیئر کریں اور وہ بھی ’میڈ ان انڈیا اسمارٹ فون‘ سے۔ میں ان میں سے کچھ پوسٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر کروں گا تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی ’ووکل فار لوکل‘ کا جذبہ حاصل ہو۔
ساتھیو، جب آپ بھارت میں بنے، ہندوستانیوں کے ذریعے بنائی گئی مصنوعات سے اپنی دیوالی روشن کریں گے، اپنے اہل خانہ کی ہر چھوٹی موٹی ضرورت لوکل سے پوری کریں گے تو دیوالی کی جگمگاہٹ اور زیادہ بڑھے گی ہی بڑھے گی، لیکن، اُن کاریگروں کی زندگی میں ایک نئی دیوالی آئے گی، زندگی کی ایک صبح آئے گی، ان کی زندگی شاندار بنے گی۔ بھارت کو آتم نربھر (خود کفیل) بنائیے، ’میک ان انڈیا‘ ہی منتخب کرتے جائیے، جس سے آپ کے ساتھ ساتھ اور بھی کروڑوں ہم وطنوں کی دیوالی شاندار بنے، جاندار بنے، روشن بنے، دلچسپ بنے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کا دن ہم سبھی کے لیے بہت خاص ہوتا ہے۔ اس دن ہمارے مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جینتی مناتے ہیں۔ ہم ہندوستانی، انہیں کئی وجہوں سے یاد کرتے ہیں، اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہے – ملک کی 580 سے زیادہ ریاستوں کو جوڑنے میں ان کا بے مثال کردار۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر سال 31 اکتوبر کو گجرات میں اسٹیچو آف یونٹی پر ایکتا دیوس سے جڑا بنیادی پروگرام ہوتا ہے۔ اس بار اس کے علاوہ دہلی میں کرتویہ پتھ پر ایک بہت ہی خاص پروگرام منعقد ہو رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، میں پچھلے دنوں ملک کے ہر گاؤں سے، ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کی اپیل کی تھی۔ ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کے بعد اسے کلش (گھڑے)میں رکھا گیا اور پھر امرت کلش یاترائیں نکالی گئیں۔ ملک کے کونے کونے سے جمع کی گئی یہ مٹی، یہ ہزاروں امرت کلش یاترائیں اب دہلی پہنچ رہی ہیں۔ یہاں دہلی میں اُس مٹی کو ایک بڑے بھارت کلش میں ڈالا جائے گا اور اسی مقدس مٹی سے دہلی میں ’امرت واٹکا‘ کی تعمیر ہوگی۔ یہ ملک کی راجدھانی کے قلب میں امرت مہوتسو کی عظیم روایت کے طور پر موجود رہے گی۔ 31 اکتوبر کو ہی ملک بھر میں گزشتہ ڈھائی سال سے چل رہے آزادی کے امرت مہوتسو کا اختتام ہوگا۔ آپ سبھی نے ملک کر اسے دنیا میں سب سے لمبے عرصے تک چلنے والے جشن میں سے ایک بنا دیا۔ اپنے فوجیوں کی عزت افزائی ہو یا پھر ہر گھر ترنگا، آزادی کے امرت مہوتسو میں، لوگوں نے اپنی مقامی تاریخ کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ اس دوران اجتماعی خدمت کی بھی شاندار مثال دیکھنے کو ملی ہے۔
ساتھیو، میں آج آپ کو ایک اور خوش خبری سنا رہا ہوں، خاص کر میرے نوجوان بیٹے بیٹیوں کو، جن کے دلوں میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہے، خواب ہیں، عزائم ہیں۔ یہ خوش خبری ملک کے شہریوں کے لیے تو ہے ہی، میرے نوجوان ساتھیو آپ کے لیے خاص ہے۔ دو دن بعد ہی، 31 اکتوبر کو ایک بہت بڑی ملک گیر تنظیم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور وہ بھی سردار صاحب کی جینتی کے دن۔ اس تنظیم کا نام ہے – میرا یوا بھارت، یعنی ’ایم وائی بھارت‘۔ ایم وائی بھارت تنظیم، ہندوستان کے نوجوانوں کو ملک کی تعمیر کے مختلف پروگراموں میں اپنا سرگرم رول نبھانے کا موقع فراہم کرے گی۔ یہ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں بھارت کی نوجوان طاقت کو متحد کرنے کی ایک انوکھی کوشش ہے۔ میرا یوا بھارت کی ویب سائٹ ’ایم وائی بھارت‘ بھی شروع ہونے والی ہے۔ میں نوجوانوں سے اپیل کروں گا، بار بار اپیل کروں گا کہ آپ سبھی میرے ملک کے نوجوان، آپ سبھی میرے ملک کے بیٹے بیٹی MYBharat.Gov.in پر رجسٹر کریں اور مختلف پروگراموں کے لیے سائن اپ کریں۔ 31 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کا یوم وفات بھی ہے۔ میں انہیں بھی تہ دل سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے ہم وطنوں، ہمارا ادب، لٹریچر، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو مضبوط کرنے کے سب سے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ میں آپ کے ساتھ تمل ناڈو کی شاندار وراثت سے جڑی دو بہت ہی سبق آموز کوششوں کو شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے تمل کی مشہور مصنفہ بہن شیو شنکری جی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ کیا ہے - Knit India, Through Literature اس کا مطلب ہے – ادب سے ملک کو ایک دھاگے میں پرونا اور جوڑنا۔ وہ اس پروجیکٹ پر گزشتہ 16 برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کئی بار کنیا کماری سے کشمیر تک اور امپھال سے جیسلمیر تک ملک بھر کے دورے کیے، تاکہ الگ الگ ریاستوں کے مصنفوں اور شعراء کے انٹرویو کر سکیں۔ شیو شنکری جی نے الگ الگ جگہوں پر اپنا سفر کیا، ٹریول کمنٹری کے ساتھ انہیں پبلش کیا ہے۔ یہ تمل اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہے۔ اس پروجیکٹ میں چار بڑے والیومز ہیں اور ہر والیوم بھارت کے الگ الگ حصے کے بارے میں ہے۔ مجھے ان کی اس قوت ارادی پر فخر ہے۔
ساتھیو، کنیا کماری کے تھیرو اے کے پیرومل جی کا کام بھی کافی متاثر کرنے والا ہے۔ انہوں نے تم ناڈو کی یہ جو اسٹوری ٹیلنگ ٹریڈن (داستان گوئی کی روایت) ہے اس کو محفوظ کرنے کا قابل تحسین کام کیا ہے۔ وہ اپنے مشن میں گزشتہ 40 برسوں سے مصروف ہیں۔ اس کے لیے وہ تمل ناڈو کے الگ الگ حصوں میں ٹریول کرتے ہیں اور فوک آرٹ فارمز کو کھوج کر اسے اپنی کتاب کا حصہ بناتے ہیں۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے اب تک ایسی تقریباً 100 کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ اس کے علاوہ پیرومل جی کا ایک اور بھی جنون ہے۔ تمل ناڈو کے ٹیمپل کلچر کے بارے میں ریسرچ کرنا انہیں بہت پسند ہے۔ انہوں نے لیدر پپیٹس (چمڑے کی کٹھ پتلی) پر بھی کافی ریسرچ کی ہے، جس کا فائدہ وہاں کے مقامی لوک کاریگروں کو ہو رہا ہے۔ شیو شنکری جی اور اے کے پیرومل جی کی کوشش ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ بھارت کو اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے والی ایسی ہر کوشش پر فخر ہے، جو ہمارے قومی اتحاد کو مضبوطی بخشنے کے ساتھ ہی ملک کا نام، ملک کا وقار، سب کچھ بڑھائے۔
میرے ہم وطنو، آنے والے 15 نومبر کو پورا ملک جن جاتیہ گورو دیوس منائے گا۔ یہ خاص دن بھگوان برسا منڈا کی جنم جینتی سے جڑا ہوا ہے۔ بھگوان برسا منڈا ہم سب کے دلوں میں رہتے ہیں۔ سچا حوصلہ کیا ہے اور اپنی قوت ارادی پر قائم رہنا کسے کہتے ہیں، یہ ہم ان کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کو کبھی قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ایسے معاشرے کا تصور کیا تھا، جہاں نا انصافی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کو عزت اور برابری کی زندگی حاصل ہو۔ بھگوان برسا منڈا نے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا، اس پر بھی ہمیشہ زور دیا۔ آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے آدیواسی بھائی بہن فطرت کی دیکھ بھال اور اس کے تحفظ کے لیے ہر طرح سے وقف ہیں۔ ہم سب کے لیے، ہمارے آدیواسی بھائی بہنوں کا یہ کام بہت بڑا سبق ہے۔
ساتھیو، کل یعنی 30 اکتوبر کو گووند گرو جی کا یوم وفات بھی ہے۔ ہمارے گجرات اور راجستھان کے آدیواسی اور محروم طبقوں کی زندگی میں گووند گرو جی کی بہت خاص اہمیت رہی ہے۔ گووند گرو جی کو بھی میں اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ نومبر مہینہ میں ہم مان گڑھ قتل عام کی برسی بھی مناتے ہیں۔ میں اس قتل عام میں، شہید ماں بھارتی کو، سبھی اولادوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، ہندوستان میں آدیواسی جانبازوں کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ بھارت کی اسی سرزمین پر عظیم تلک مانجھی نے ناانصافی کے خلاف بگل پھونکا تھا۔ اسی سرزمین سے سدھو کانہو نے برابری کی آواز اٹھائی۔ ہمیں فخر ہے کہ جن جانباز ٹنٹیا بھیل نے ہماری سرزمین پر جنم لیا۔ ہم شہید ویر نارائن سنگھ کو پوری عقیدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں، جو مشکل حالات میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ ویر رام جی گونڈ ہوں، ویر گنڈا دھر ہوں، بھیما نائک ہوں، ان کی شجاعت آج بھی ہمیں حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ الوری سیتا رام راجو نے آدیواسی بھائی بہنوں میں جو بیداری پیدا کی، اسے ملک آج بھی یاد کرتا ہے۔ نارتھ ایسٹ میں کیانگ نوبانگ اور رانی گائی دنلیو جیسے مجاہدین آزادی سے بھی ہمیں کافی حوصلہ ملتا ہے۔ آدیواسی سماج سے ہی ملک کو راج موہنی دیوی اور رانی کملا پتی جیسی بہادر خواتین ملیں۔ ملک اس وقت آدیواسی سماج کو حوصلہ بخشنے والی رانی درگاوتی جی کی 500ویں جینتی منا رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کے زیادہ سے زیادہ نوجوان اپنے علاقے کی آدیواسی شخصیتوں کے بارے میں جانیں گے اور ان سے سبق حاصل کریں گے۔ ملک اپنے آدیواسی سماج کا مرہون منت ہے، جنہوں نے ملک کے وقار اور ترقی کو ہمیشہ سب سے اوپر رکھا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، تہواروں کے اس موسم میں، اس وقت ملک میں اسپورٹس کا بھی پرچم لہرا رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایشیائی گیمز میں بھی ہندوستانی کھلاڑیوں نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کھیلوں میں بھارت نے 111 میڈل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ میں پیرا ایشیائی گیمز میں حصہ لینے والے تمام ایتھلیٹوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، میں آپ کی توجہ اسپیشل اولمپکس ورلڈ سمر گیمز کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہوں۔ اس کا انعقاد برلن میں ہوا تھا۔ یہ مقابلہ ہمارے Intellectual Disabilities والے ایتھلیٹوں کی بے پناہ صلاحیت کو سامنے لاتا ہے۔ اس مقابلہ میں ہندوستانی ٹیم نے 75 گولڈ میڈل سمیت 200 تمغے جیتے۔ رولر اسکیٹنگ ہو، بیچ والی بال ہو، فٹ بال ہو، یا ٹینس، ہندوستانی کھلاڑیوں نے میڈل کی جھڑی لگا دی۔ ان میڈل فاتحین کی لائف جرنی کافی انسپائرنگ رہی ہے۔ ہریانہ کے رنویر سینی نے گولف میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ بچپن سے ہی سے Autism میں مبتلا رنویر کے لیے کوئی بھی چنوتی گولف کو لے کر ان کے جنون کو کم نہیں کر پائی۔ ان کی ماں تو یہاں تک کہتی ہیں کہ فیملی میں آج سب گولفر بن گئے ہیں۔ پڈوچیری کے 16 سال کے ٹی وشال نے چار میڈل جیتے۔ گوا کی سیا سرودے نے پاور لفٹنگ میں 2 گولڈ میڈل سمیت چار میڈل اپنے نام کیے۔ 9 سال کی عمر میں اپنی ماں کو کھونے کے بعد بھی انہوں نے خود کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ چھتیس گڑھ کے درگ کے رہنے والے انوراگ پرساد نے پاور لفٹنگ میں تین گولڈ اور ایک سلور میڈل جیتا ہے۔ ایسی ہی حوصلہ افزا کہانی جھارکھنڈ کے اندو پرکاش کی ہے، جنہوں نے سائیکلنگ میں دو میڈل جیتے ہیں۔ بہت ہی معمولی خاندان سے آنے کے باوجود، اندو نے غریبی کو کبھی اپنی کامیابی کے سامنے دیوار نہیں بننے دیا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کھیلوں میں ہندوستانی کھلاڑیوں کی کامیابی Intellectual Disabilities کا مقابلہ کر رہے دیگر بچوں اور خاندانوں کو بھی حوصلہ فراہم کرے گی۔ میری آپ سب سے بھی گزارش ہے آپ کے گاؤں میں، آپ کے گاؤں کے ارد گرد، ایسے بچے جنہوں نے اس کھیل کود میں حصہ لیا ہے یا فاتح ہوئے ہیں، آپ معہ خاندان ان کے ساتھ جائیے۔ ان کو مبارکباد دیجئے۔ اور کچھ لمحہ ان بچوں کے ساتھ گزارئیے۔ آپ کو ایک نیا ہی تجربہ ہوگا۔ پرماتما نے ان کے اندر ایک ایسی طاقت بھری ہے آپ کو بھی اس کے درشن کا موقع ملے گا۔ ضرور جائیے گا۔
میرے ہم وطنو، آپ سبھی نے گجرات کے تیرتھ علاقہ امبا جی مندر کے بارے میں تو ضرور ہی سنا ہوگا۔ یہ ایک اہم شکتی پیٹھ ہے، جہاں ملک و بیرون ملک سے بڑی تعداد میں عقیدت مند ماں امبے کے درشن کے لیے پہنچتے ہیں۔ یہاں گبر پروت (پہاڑ) کے راستے میں آپ کو مختلف قسم کی یوگ مدراؤں اور آسنوں کے مجسمے دکھائی دیں گے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان مجسموں کی خاص بات کیا ہے؟ دراصل یہ Scrap سے بنے Sculpture ہیں، ایک طرح سے کباڑ سے بنے ہوئے اور جو بیحد خوبصورت ہیں۔ یعنی یہ مجسمے استعمال ہو چکی، کباڑ میں پھینک دی گئی پرانی چیزوں سے بنائے گئے ہیں۔ امباجی شکتی پیٹھ پر دیوی ماں کے درشن کے ساتھ ساتھ یہ مجسمے بھی عقیدت مندوں کے لیے توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس کوشش کی کامیابی کو دیکھ کر، میرے من میں ایک خیال بھی آ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جو ویسٹ سے اس طرح کے فن پارے بنا سکتے ہیں۔ تو میری گجرات سرکار سے اپیل ہے کہ وہ ایک مقابلہ شروع کرے اور ایسے لوگوں کو مدعو کرے۔ یہ کوشش، گبر پروت کی دلکشی بڑھانے کے ساتھ ہی، پورے ملک میں ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ مہم کے لیے لوگوں کو آمادہ کرے گی۔
ساتھیو، جب بھی سووچھ بھارت اور ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ کی بات آتی ہے، تو ہمیں ملک کے کونے کونے سے بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آسام کے کامروپ میٹروپولیٹن ڈسٹرکٹ میں اکشر فورم اس نام کا ایک اسکول بچوں میں پائیدار ترقی کا جذبہ بھرنے کا، اخلاقیات کا، ایک مسلسل کام کر رہا ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلباء ہر ہفتے پلاسٹک ویسٹ جمع کرتے ہیں، جس کا استعمال ایکو فرینڈلی اینٹیں اور چابی کی چین جیسے سامان بنانے میں ہوتا ہے۔ یہاں اسٹوڈنٹس کو ری سائیکلنگ اور پلاسٹک ویسٹ سے پروڈکٹس بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ کم عمر میں ہی ماحولیات کے تئیں یہ بیداری، ان بچوں کو ملک کا ایک فرض شناس شہری بنانے میں بہت مدد کرے گی۔
میرے ہم وطنو، آج زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں، جہاں ہمیں خواتین کی صلاحیت دیکھنے کو نہیں مل رہی ہو۔ اس دور میں، جب ہر طرف ان کی حصولیابیوں کو سراہا جا رہا ہے، تو ہمیں بھکتی کی شکتی کو دکھانے والی ایک ایسی خاتون سنت (سادھو) کو بھی یاد رکھنا ہے، جس کا نام تاریخ کے سنہرے صفحات میں درج ہے۔ ملک اس سال عظیم سنت میرا بائی کی 525ویں جنم جینتی منا رہا ہے۔ وہ ملک بھر کے لوگوں کے لیے کئی وجہوں سے حوصلے کا باعث رہی ہیں۔ اگر کسی کی موسیقی میں دلچسپی ہو، تو وہ موسیقی کے تئیں خود کو وقف کر دینے کی بڑی مثال ہی ہے، اگر کسی کو شاعری سے محبت ہو، تو بھکتی رس میں ڈوبے میرا بائی کے بھجن، اسے الگ ہی مزہ دیتے ہیں، اگر کوئی غیبی طاقت میں یقین رکھتا ہو، تو میرا بائی کا شری کرشن میں محو ہو جانا اس کے لیے ایک بڑا سبق بن سکتا ہے۔ میرا بائی، سنت روی داس کو اپنا گرو مانتی تھیں۔ وہ کہتی بھی تھیں –
گرو ملیا ریداس، دینہی گیان کی گٹکی۔
ملک کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے میرا بائی آج بھی حوصلے کا باعث ہیں۔ اس دور میں بھی انہوں نے اپنے اندر کی آواز کو ہی سنا اور قدامت پرست تصورات کے خلاف کھڑی ہوئیں۔ ایک سنت کے روپ میں بھی وہ ہم سب کو حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ ہندوستانی معاشرہ اور ثقافت کو تب مضبوط کرنے کے لیے آگے آئیں، جب ملک کئی قسم کے حملے کا سامنا کر رہا تھا۔ سادگی میں کتنی طاقت ہوتی ہے، یہ ہمیں میرا بائی کے دور حیات سے پتہ چلتا ہے۔ میں سنت میرا بائی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں اتنا ہی۔ آپ سب کے ساتھ ہونے والی ہر گفتگو مجھے نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ آپ کے پیغامات میں امید اور Positivity سے جڑی سینکڑوں کہانیاں مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ میری پھر سے آپ سے اپیل ہے – آتم نربھر بھارت مہم پر زور دیں۔ مقامی مصنوعات خریدیں، لوکل کے لیے ووکل بنیں۔ جیسے آپ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں، ویسے ہی اپنے محلے اور شہر کو صاف رکھیں اور آپ کو معلوم ہے، 31 اکتوبر سردار صاحب کی جینتی کو ملک ایکتا دیوس کے طور پر مناتا ہے، ملک کے متعدد مقامات پر Run for Unity کے پروگرام ہوتے ہیں، آپ بھی 31 اکتوبر کو Run for Unity کے پروگرام منعقد کریں۔ بہت بڑی تعداد میں آپ بھی جڑیں، اتحاد کے عزم کو مضبوط کریں۔ ایک بار پھر میں آنے والے تہواروں کے لیے ڈھیروں مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سبھی فیملی سمیت خوشیاں منائیں، صحت مند رہیں، مزے میں رہیں، یہی میری تمنا ہے۔ اور ہاں، دیوالی کے وقت کہیں ایسی غلطی نہ ہو جائے کہ کہیں آگ لگنے کا کوئی واقعہ ہو جائے۔ کسی کی زندگی کو خطرہ ہو جائے، تو آپ ضرور سنبھالیے۔ خود کو بھی سنبھالیے اور پورے علاقے کو بھی سنبھالیے۔
بہت بہت مبارکباد۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے اہلِ خانہ ، چندریان-3 کی کام یابی کے بعد عظیم الشان جی 20 ایونٹ نے ہر بھارتی کی خوشی کو دوگنا کر دیا۔ بھارت منڈپم اپنے آپ میں ایک مشہور شخصیت کی طرح بن گیا ہے۔ لوگ ان کے ساتھ سیلفی لے رہے ہیں اور فخر سے پوسٹ بھی کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس سربراہ اجلاس میں افریقی یونین کو جی 20کا مکمل رکن بنا کر اپنی قیادت ثابت کی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب بھارت بہت خوشحال تھا، اس وقت ہمارے ملک میں اور دنیا میں شاہراہ ریشم کے بارے میں کافی بحث ہوتی تھی۔ یہ شاہراہ ریشم تجارت اور کاروبار کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ اب جدید دور میں بھارت نے جی 20 میں ایک اور اقتصادی راہداری کی تجویز دی ہے۔ یہ انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور ہے۔ یہ راہداری آنے والے سینکڑوں برسوں تک عالمی تجارت کی بنیاد بننے جا رہی ہے اور تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ یہ راہداری بھارت کی سرزمین پر شروع کی گئی تھی۔
دوستو آج جی 20 کے دوران اس پروگرام سے بھارت کی نوجوان طاقت کس طرح جڑی ہوئی ہے اس کے خصوصی تذکرے کی ضرورت ہے۔ سال بھر ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں جی 20 سے متعلق پروگرام منعقد ہوتے رہے۔ اب اسی سلسلے میں دہلی میں ایک اور دل چسپ پروگرام ہونے جا رہا ہے جس کا نام ہے جی 20 یونیورسٹی کنیکٹ پروگرام۔ اس پروگرام کے ذریعے ملک بھر میں یونیورسٹی کے لاکھوں طلبہ ایک دوسرے سے جڑیں گے۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، این آئی ٹی اور میڈیکل کالج جیسے کئی نامور ادارے بھی اس میں حصہ لیں گے۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ کالج کے طالب علم ہیں تو 26 ستمبر کو یہ پروگرام ضرور دیکھیں، اس میں ضرور شامل ہوں۔ بھارت کے مستقبل میں، نوجوانوں کے مستقبل پر بہت سی دل چسپ چیزیں ہونے والی ہیں۔ میں خود بھی اس پروگرام میں شامل رہوں گا۔ میں اپنے کالج کے طالب علموں کے ساتھ گفت و شنید کرنے کا بھی منتظر ہوں۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، اب سے دو دن بعد، 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن ہے۔ کچھ لوگ سیاحت کو صرف سیر سپاٹے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن سیاحت کا ایک بہت بڑا پہلو روزگار سے جڑا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے کم سرمایہ کاری میں اگر کسی شعبے میں سب سے زیادہ روزگار پیدا ہوتا ہے تو وہ سیاحت کا شعبہ ہے۔ سیاحت کے شعبے کو بڑھانے میں کسی بھی ملک کے لیے خیر سگالی، اس کی طرف کشش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں بھارت کی طرف کشش بہت بڑھی ہے اور جی 20 کے کام یاب انعقاد کے بعد دنیا بھر کے لوگوں کی دل چسپی بھارت میں مزید بڑھ گئی ہے۔
دوستو جی 20 میں ایک لاکھ سے زیادہ مندوبین بھارت آئے تھے۔ وہ یہاں کے تنوع، مختلف روایات، مختلف قسم کے کھانوں اور ہمارے ورثے سے واقف ہوئے۔ یہاں آنے والے مندوبین جو حیرت انگیز تجربہ اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں اس سے سیاحت کو مزید وسعت ملے گی۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں ایک سے زیادہ عالمی ثقافتی ورثہ ہیں اور ان کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کرناٹک کے شانتی نکیتن اور مقدس ہوئساڈا مندروں کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو اس شاندار کام یابی کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے 2018میں شانتی نکیتن کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور شانتی نکیتن سے جڑے رہے ہیں۔ گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک قدیم سنسکرت شعر سے شانتی نکیتن کا نعرہ لیا تھا۔ یہ شلوک ہے :
یاترا وشوم بھاوتیک نیڈم
یعنی جہاں پوری دنیا ایک چھوٹے سے گھونسلے میں سماسکتی ہے۔
کرناٹک میں ہوئسلا مندر یونیسکو نے انھیں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہے، یہ 13 ویں صدی کے بہترین فن تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے. یونیسکو کے ذریعے ان مندروں کو تسلیم کرنا بھی مندر کی تعمیر کی بھارتی روایت کو خراج تحسین ہے۔ بھارت میں عالمی ثقافتی ورثے کی جائیدادوں کی کل تعداد اب 42ہے۔ بھارت اپنے زیادہ سے زیادہ تاریخی اور ثقافتی مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں آپ سبھی سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کہیں جانے کا ارادہ کریں تو بھارت کے تنوع کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ مختلف ریاستوں کی ثقافت کو سمجھتے ہیں، ثقافتی ورثے کو دیکھیں۔ اس سے آپ نہ صرف اپنے ملک کی شاندار تاریخ سے واقف ہوں گے بلکہ آپ مقامی لوگوں کی آمدنی بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بھی بن جائیں گے۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، بھارتی ثقافت اور بھارتی موسیقی اب گلوبل بن گئی ہے. دنیا بھر کے لوگوں کا ان سے لگاؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ میں آپ کو ایک خوب صورت چھوٹی سی لڑکی کی طرف سے پیش کردہ پریزنٹیشن کا ایک چھوٹا سا آڈیو سناتا ہوں ...
##Audio-Song
یہ سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے! کتنی پیاری آواز اور جذبات جو ہر لفظ میں جھلکتے ہیں، ہم خدا کے ساتھ اس کی وابستگی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ یہ سریلی آواز جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک بیٹی کی ہے تو شاید آپ کو اس سے بھی زیادہ حیرت ہوگی۔ اس بیٹی کا نام کسمی ہے۔ 21 سالہ کسمی ان دنوں انسٹاگرام پر بہت زیادہ وائرل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والی کسمی کبھی بھارت نہیں آئی لیکن وہ بھارتی موسیقی کی مداح ہے جس نے کبھی بھارت نہیں دیکھا، بھارتی موسیقی میں اس کی دل چسپی بہت متاثر کن ہے۔ کسمی پیدائش کے بعد سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس مشکل چیلنج نے اسے غیر معمولی کام یابیوں کے حصول سے نہیں روکا۔ موسیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کے تئیں اس کا جنون ایسا تھا کہ اس نے بچپن سے ہی گانا شروع کر دیا تھا۔ اس نے 3 سال کی عمر میں افریقی ڈھول بجانا شروع کیا۔ اسے بھارتی موسیقی سے صرف 5-6 سال پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔ بھارت کی موسیقی نے اسے اتنا متاثر کیا - اتنا کہ وہ اس میں پوری طرح ڈوب گئی۔ اس نے طبلہ بجانا بھی سیکھا ہے۔ سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ اس نے کئی بھارتی زبانوں میں گانے میں مہارت حاصل کی ہے۔ سنسکرت ہو، ہندی ہو، ملیالم ہو، تمل ہو، کنڑ ہو یا آسامی، بنگالی ہو، مراٹھی ہو، اردو ہو، ان سب میں اس نے اپنا لہجہ بنایا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی اور نامعلوم زبان کی دو یا تین لائنیں بولنی ہوں تو یہ کتنا مشکل ہے، لیکن کسمی کے لیے، یہ بائیں ہاتھ کے کھیل کی طرح ہے۔ آپ سبھی کے لیے، میں یہاں کنڑا میں گایا گیا اس کا ایک گانا شیئر کر رہا ہوں۔
##Audio - Song
میں بھارتی ثقافت اور موسیقی کے لیے جرمنی کی کسمی کے اس جذبے کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ اس کی یہ کوشش ہر بھارتی کو مغلوب کرنے والی ہے۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے ملک میں تعلیم کو ہمیشہ ایک خدمت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مجھے اتراکھنڈ کے کچھ ایسے نوجوانوں کے بارے میں پتہ چلا ہے جو اسی جذبے کے ساتھ بچوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ نینی تال ضلع کے کچھ نوجوانوں نے بچوں کے لیے ایک انوکھی گھوڑا لائبریری شروع کی ہے۔ اس لائبریری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی ناقابل رسائی علاقوں میں بھی اس کے ذریعے بچوں تک کتابیں پہنچ رہی ہیں اور یہی نہیں یہ سروس بالکل مفت ہے۔ نینی تال کے 12 گاؤوں کو اب تک اس کے ذریعے کور کیا جا چکا ہے۔ بچوں کی تعلیم سے متعلق اس نیک کام میں مدد کے لیے مقامی لوگ بھی آگے آرہے ہیں۔ اس گھوڑا لائبریری کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کو اسکول کی کتابوں کے علاوہ نظمیں، کہانیاں اور اخلاقی تعلیم پر مبنی کتابیں پڑھنے کا پورا موقع ملے۔ اس انوکھی لائبریری کو بچوں بھی بے حد پسند کر رہے ہیں۔
دوستو، میں حیدرآباد میں ہوں۔ لائبریری سے متعلق ایسی ہی ایک انوکھی کوشش سامنے آئی ہے۔ یہاں ساتویں جماعت میں پڑھنے والی ایک لڑکی آکارشنا ستیش نے حیرت انگیز کام کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف 11 سال کی عمر میں وہ بچوں کے لیے ایک یا دو نہیں بلکہ سات سات لائبریریاں چلا رہی ہے۔ آکارشنا کو دو سال پہلے اس وقت تحریک ملی جب وہ اپنے والدین کے ساتھ کینسر اسپتال گئیں۔ اس کے والد ضرورت مندوں کی مدد کے لیے وہاں گئے تھے۔ وہاں کے بچوں نے اس سے رنگین کتابیں مانگیں اور اس بات سے یہ پیاری گڑیا سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے مختلف قسم کی کتابیں جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے پڑوس کے گھروں، رشتہ داروں اور ساتھیوں سے کتابیں جمع کرنا شروع کیں اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اسی کینسر اسپتال میں بچوں کے لیے پہلی لائبریری کھولی گئی تھی۔ اس لڑکی نے اب تک ضرورت مند بچوں کے لیے مختلف مقامات پر جو سات لائبریریاں کھولی ہیں ان میں اب تقریباً 6 ہزار کتابیں دستیاب ہیں۔ جس طرح چھوٹی سی کشش بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کا بہت اچھا کام کر رہی ہے، وہ سب کو متاثر کرنے والی ہے۔
دوستو، یہ سچ ہے کہ آج کا دور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ای بکس، لیکن پھر بھی کتابیں، ہمیشہ ہماری زندگی میں ایک اچھے دوست کا کردار ادا کرتی ہیں. لہٰذا ہمیں بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے –
جیوشو کرونا چاپی میتری تیشو ودھیتیم
یعنی مخلوق پر رحم کرو اور انھیں اپنا دوست بنا لو۔ ہمارے زیادہ تر دیوی دیوتا جانوروں اور پرندوں کی سواری کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مندروں میں جاتے ہیں، خدا کی زیارت کرتے ہیں، لیکن ان جانوروں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ان پر سوار ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کو ہمارے عقیدے کا مرکز رہنا چاہیے، ہمیں بھی ہر ممکن طریقے سے ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک میں شیروں، شیروں، چیتوں اور ہاتھیوں کی تعداد میں حوصلہ افزا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اور بھی کئی کوششیں مسلسل جاری ہیں، تاکہ اس زمین پر رہنے والے دیگر جانوروں کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح کی انوکھی کوشش راجستھان کے پشکر میں کی جا رہی ہے۔ یہاں سکھدیو بھٹ جی اور ان کی ٹیم جنگلی حیات کو بچانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، اور جانتے ہیں ان کی ٹیم کا نام کیا ہے؟ ان کی ٹیم کا نام کوبرا ہے۔ یہ خطرناک نام اس لیے ہے کیوں کہ ان کی ٹیم بھی اس علاقے میں خطرناک سانپوں کو بچانے کا کام کرتی ہے۔ اس ٹیم سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ ہیں جو صرف ایک کال پر موقع پر پہنچ تے ہیں اور اپنے مشن میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سکھدیو جی کی اس ٹیم نے اب تک 30 ہزار سے زیادہ زہریلے سانپوں کی جان بچائی ہے۔ اس کوشش سے جہاں لوگوں کا خطرہ دور ہوا ہے وہیں فطرت کا بھی تحفظ کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیم دوسرے بیمار جانوروں کی خدمت کے کام میں بھی شامل ہے۔
دوستو، چنئی، تمل ناڈو میں آٹو ڈرائیور ایم راجندر پرساد جی بھی انوکھا کام کر رہے ہیں۔ وہ پچھلے 25-30 برسوں سے کبوتروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کے گھر میں 200 سے زیادہ کبوتر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پرندوں کی خوراک، پانی، صحت جیسی ہر ضرورت کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اس پر کافی پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن وہ اپنے کام میں مستقل مزاج ہیں۔ دوستو، لوگوں کو نیک نیتی سے اس طرح کے کام کرتے ہوئے دیکھنا واقعی مسرت آگیں ہوتا ہے، بہت خوشی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو بھی ایسی ہی کچھ انوکھی کوششوں کے بارے میں معلومات ملتی ہے تو انھیں ضرور شیئر کریں۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، آزادی کا یہ امرت بھی ملک کے لیے ہر شہری کا فرض ہے۔ صرف اپنا فرض ادا کرکے ہی ہم اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں، اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ فرض کا احساس ہم سب کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یوپی کے سنبھل میں ملک نے احساس ذمہ داری کی ایسی مثال دیکھی ہے، جسے میں آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ذرا تصور کریں، اگر 70 سے زیادہ گاؤں ہوں، ہزاروں کی آبادی ہو اور تمام لوگ ایک مقصد، ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوں، تو یہ ایک نادر واقعہ ہے، لیکن سنبھل کے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ ان لوگوں نے مل کر عوامی شرکت اور اجتماعیت کی ایک بہت عمدہ مثال قائم کی ہے۔ دراصل کئی دہائیاں پہلے اس علاقے میں سوت نامی ایک ندی ہوا کرتی تھی۔ امروہہ سے شروع ہوکر سنبھل کے راستے بدایوں تک بہنے والی یہ ندی کبھی اس علاقے میں لائف لائن کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس ندی میں پانی کا مسلسل بہاؤ ہوتا تھا، جو یہاں کے کسانوں کے لیے کھیتی کی بنیادی بنیاد تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ندی کا بہاؤ کم ہوتا گیا، جن راستوں سے دریا بہہ رہا تھا ان پر قبضہ کر لیا گیا اور ندی معدوم ہو گئی۔ ہمارے ملک میں جو دریا کو ماں مانتا ہے، سنبھل کے لوگوں نے اس سوت ندی کو بھی بحال کرنے کا عہد کیا تھا۔ پچھلے سال دسمبر میں 70 سے زیادہ گرام پنچایتوں نے سوت ندی کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ گرام پنچایتوں کے لوگ سرکاری محکموں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ سال کے پہلے 6 مہینوں میں ان لوگوں نے 100 کلومیٹر سے زیادہ ندی کی تزئین و آرائش کی تھی۔ جب برسات کا موسم شروع ہوا تو یہاں کے لوگوں کی محنت رنگ لائی اور سوت ندی پانی سے بھر گئی۔ یہ یہاں کے کسانوں کے لیے خوشی کا ایک بڑا موقع کے طور پر آیا ہے۔ لوگوں نے ندی کے کنارے 10 ہزار سے زیادہ بانس کے پودے بھی لگائے ہیں تاکہ اس کے کنارے مکمل طور پر محفوظ رہیں۔ مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے 30 ہزار سے زائد گیمبوسیا مچھلیوں کو بھی دریا کے پانی میں چھوڑا گیا ہے۔ دوستو، دریائے سوت کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم عزم بستہ ہوں تو ہم بڑے سے بڑے چیلنجوں پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ فرض کی راہ پر چلتے ہوئے آپ بھی اپنے ارد گرد ایسی بہت سی تبدیلیوں کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، جب ارادے پختہ ہوتے ہیں اور کچھ سیکھنے کا جذبہ ہوتا ہے، تو کوئی بھی کام مشکل نہیں رہتا۔ مغربی بنگال کی مسز شکنتلا سردار نے اس بات کو بالکل درست ثابت کیا ہے۔ آج وہ بہت سی دوسری خواتین کے لیے ایک تحریک بن گئی ہیں۔ شکنتلا جی جنگل محل کے شتنالا گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ لمبے عرصے تک ان کی فیملی یومیہ مزدور کے طور پر کام کرکے اپنا پیٹ پالتی تھی۔ ان کی فیملی کا زندہ رہنا بھی مشکل تھا۔ پھر انھوں نے ایک نئے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا اور کام یابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ انھوں نے یہ کیسے کیا! اس کا جواب ہے - ایک سلائی مشینسے۔ ایک سلائی مشین کے ذریعے انھوں نے سال کے پتوں پر خوب صورت ڈیزائن بنانا شروع کیے۔ ان کی قابلیت نے پورے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ان کے ذریعے بنائے گئے اس حیرت انگیز ہنر کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شکنتلا جی کے اس ہنر نے نہ صرف ان کی بلکہ سال کے پتے جمع کرنے والے بہت سے لوگوں کی زندگی اں بدل دی ہیں۔ اب، وہ کئی عورتوں کو تربیت دینے کا کام بھی کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں، ایک خاندان، جو کبھی مزدوری پر منحصر تھا، اب دوسروں کو روزگار دے رہا ہے۔ انھوں نے اپنی فیملی کو، جو یومیہ مزدوری پر منحصر ہے، اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس سے ان کے خاندان کو دیگر چیزوں پر بھی توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایک اور بات ہوئی ہے، جیسے ہی شکنتلا جی کی حالت بہتر ہوئی ہے، انھوں نے بچت بھی شروع کر دی ہے۔ اب انھوں نے لائف انشورنس اسکیموں میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، تاکہ ان کے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہو۔ شکنتلا جی کے جذبے کو ان کے مقابلے میں کم سراہا جاتا ہے بھارت کے لوگ اس طرح کے ٹیلنٹ سے بھرے ہوئے ہیں – آپ انھیں مواقع دیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
میرے پیارے اہلِ خانہ ، دہلی میں جی 20 سمٹ کے اس منظر کو کون بھول سکتا ہے، جب کئی عالمی رہ نما باپو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ باپو کے خیالات آج بھی پوری دنیا میں کتنے اہم ہیں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ گاندھی جینتی پر ملک بھر میں صفائی ستھرائی سے متعلق کئی پروگراموں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت کے تمام دفاتر میں سوچھتا ہی سیوا مہم پورے زور و شور سے چل رہی ہے۔ انڈین سووچھتا لیگ میں بھی بہت اچھی شرکت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آج میں من کی بات کے ذریعے بھی تمام ہم وطنوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یکم اکتوبر یعنی اتوار کی صبح 10 بجے صفائی ستھرائی پر ایک بڑا پروگرام منعقد ہونے جا رہا ہے۔ آپ بھی اپنا وقت نکالیں اور صفائی ستھرائی سے متعلق اس مہم میں اپنا ہاتھ بٹائیں۔ آپ اپنی گلی، محلے، پارک، ندی، جھیل یا کسی اور عوامی مقام پر اس صفائی مہم میں شامل ہوسکتے ہیں اور جہاں بھی امرت سروور بنایا گیا ہے، وہاں صفائی ضرور کی جائے۔ صفائی ستھرائی کا یہ کام گاندھی جی کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گاندھی جینتی کے موقع پر آپ کو کھادی کی کوئی مصنوعات ضرور خریدنی چاہیے۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، ہمارے ملک میں تہواروں کا موسم بھی شروع ہو گیا ہے۔ آپ سب اپنے گھر میں کچھ نیا خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے۔ نوراتری کے وقت کوئی اس مبارک کام کو شروع کرنے کا انتظار کر رہا ہوگا۔ جوش و خروش کے اس ماحول میں آپ کو ووکل فار لوکل کا منتر بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو، آپ کو بھارت میں تیار کردہ سامان خریدنا چاہیے، بھارتی مصنوعات کا استعمال کرنا چاہیے اور میڈ ان انڈیا سامان تحفے میں دینا چاہیے۔ آپ کی چھوٹی سی خوشی کسی اور کے خاندان میں بڑی خوشی کا باعث بنے گی۔ ہمارے مزدوروں، محنت کشوں، کاریگروں اور دیگر وشوکرما بھائیوں اور بہنوں کو آپ کی طرف سے خریدی جانے والی بھارتی اشیا کا براہ راست فائدہ ملے گا۔ آج کل، بہت سے اسٹارٹ اپ بھی مقامی مصنوعات کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر آپ مقامی چیزیں خریدیں گے تو اسٹارٹ اپس کے ان نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرے پیارے اہلِ خانہ، آج من کی بات میں میرے پاس کہنے کو بس یہی ہے۔ اگلی بار جب میں آپ سے من کی بات میں ملوں گا تو نوراتری اور دسہرہ ختم ہو جائیں گے۔ اس تہوار کے موسم میں، آپ بھی ہر تہوار پورے جوش و خروش کے ساتھ منائیں، آپ کے خاندان میں خوشیاں آئیں- یہ میری تمنا ہے۔ ان تہواروں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ میں آپ سے ایک بار پھر ملوں گا، نت نئے موضوعات کے ساتھ، ہم وطنوں کی نئی کام یابیوں کے ساتھ۔ مجھے اپنے پیغامات بھیجتے رہیں، اپنے تجربات شیئر کرنا نہ بھولیں۔ میں انتظار کروں گا۔
آپ کا بہت شکریہ۔
نمسکار
میرے پیارے پریوار جن، نمسکار۔ من کی بات کے اگست کے ایپی سوڈ میں ایک بار پھر آپ کا دِلی خیر مقدم ہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ساون کے مہینے میں 'من کی بات' پروگرام دو بار ہوا ہو لیکن اس بار ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ساون کا مطلب ہے ،مہاشیو کا مہینہ، تہواروں اور جوش کا مہینہ۔ چندریان کی کامیابی نے ،جشن کے اس ماحول کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ چندریان کو چاند پر پہنچے تین دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ کامیابی اتنی عظیم ہے کہ اس پر کسی بھی قسم کی بحث ناکافی ہوگی۔ آج جب میں ، آپ سے بات کر رہا ہوں تو مجھے اپنی ایک پرانی نظم کی چند سطریں یاد آ رہی ہیں...
آسمان میں سر اٹھاکر
گھنے بادلوں کو چیر کر
روشنی کا سنکلپ لے
ابھی تو سورج اُگا ہے۔
درِڑھ نِشچے کے ساتھ چل کر
ہر مشکل کو پار کر
گھور اندھیرے کو مٹانے
ابھی تو سورج اُگا ہے
آسمان میں سر اٹھاکر
گھنے بادلوں کو چیرکر
ابھی تو سورج اُگا ہے ۔
میرے پریوار جَن ، 23 اگست کو بھارت اور بھارت کے چندریان نے ثابت کر دیا ہے کہ عزم کے کچھ سورج چاند پر بھی طلوع ہوتے ہیں۔ مشن چندریان نئے بھارت کے جذبے کی علامت بن گیا ہے، جو جیت کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی حالت میں کیسے جیتنا ہے۔
ساتھیو ، اس مشن کا ایک پہلو رہا ہے ، جس پر ،میں آج آپ سب سے خصوصی طور پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس بار میں نے لال قلعہ سے کہا تھا کہ ہمیں خواتین کی قیادت میں ترقی کو ایک قومی کردار کے طور پر مضبوط کرنا ہے۔ جہاں خواتین کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے ،وہیں ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ بھارت کا مشن چندریان بھی عورت کی قوت کی زندہ مثال ہے۔ اس پورے مشن میں بہت سی خواتین سائنسدان اور انجینئرز براہ راست شامل رہی ہیں۔ انہوں نے پروجیکٹ ڈائریکٹر، مختلف سسٹمز کے پروجیکٹ مینیجر جیسی کئی اہم ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ بھارت کی بیٹیاں اب خلا ء کو بھی چیلنج کر رہی ہیں ، جسے لامحدود سمجھا جاتا ہے۔ جب کسی ملک کی بیٹیاں اتنی جرأت مند ہو جائیں تو اس ملک کو ترقی سے کون روک سکتا ہے!
ساتھیو ، ہم نے اتنی اونچی اڑان بھری ہے کیونکہ آج ہمارے خواب بھی بڑے ہیں اور ہماری کوششیں بھی بڑی ہیں۔ چندریان 3 کی کامیابی میں ہمارے سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے ہم وطنوں نے تمام کلپرزوں کی یقینی فراہمی اور تکنیکی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کیا ہے۔ جب سب کی کوششیں یکجا ہوئیں تو کامیابی بھی مل گئی۔ یہ چندریان 3 کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی ہمارا خلائی شعبہ اجتماعی کوششوں سے اس طرح کی بے شمار کامیابیاں حاصل کرے۔
میرے پریوار جَن ، ستمبر کا مہینہ بھارت کی صلاحیتوں کا گواہ ہونے والا ہے۔ بھارت اگلے ماہ منعقد ہونے والی جی – 20 سربراہ کانفرنس کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے 40 ملکوں کے سربراہان اور کئی عالمی تنظیموں کے سربراہان دارالحکومت دلّی آ رہے ہیں۔ یہ جی – 20 سربراہ اجلاس کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی شرکت ہوگی۔ اپنی صدارت کے دوران ، بھارت نے جی – 20 کو ایک زیادہ جامع فورم بنایا ہے۔ بھارت کی دعوت پر افریقی یونین بھی جی – 20 میں شامل ہوا اور افریقہ کے لوگوں کی آواز ، دنیا کے اس اہم پلیٹ فارم تک پہنچی۔ ساتھیوں، جب سے بھارت نے گزشتہ سال بالی میں جی – 20 کی صدارت سنبھالی ہے، اتنا کچھ ہوا ہے کہ اس پر ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ دلّی میں بڑے بڑے پروگرام منعقد کرنے کی روایت سے ہٹ کر ، ہم انہیں ملک کے الگ الگ شہروں میں لے گئے۔ ملک بھر کے 60 شہروں میں اس سے متعلق تقریباً 200 اجلاس منعقد کیے گئے۔ جی – 20 کے مندوبین جہاں بھی گئے، وہاں لوگوں نے ان کا گرمجوشی سے ، اُن کا استقبال کیا۔ یہ مندوبین ہمارے ملک کے تنوع اور ہماری متحرک جمہوریت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ بھارت میں بہت سے امکانات ہیں۔
ساتھیو ، ہماری جی – 20 کی صدارت ایک عوامی صدارت ہے، جس میں عوامی شرکت کا جذبہ سب سے اوپر ہے۔ جی – 20 کے ، جو گیارہ رابطہ گروپ تھے ، اُن میں تعلیمی ادارے ، شہری سماج ، نوجوان، خواتین، ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ ، صنعت کار اور شہری انتظامیہ سے وابستہ لوگوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں منعقد ہونے والی تقریبات سے کسی نہ کسی طرح ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ وابستہ رہے ہیں۔ عوامی شرکت کی ہماری اس کوشش میں نہ صرف ایک بلکہ دو - دو عالمی ریکارڈ بھی بن چکے ہیں۔ وارانسی میں منعقدہ جی – 20 کوئز میں 800 اسکولوں کے سوا لاکھ طلباء کی شرکت ایک نیا عالمی ریکارڈ بن گئی ۔ ساتھ ہی لمبانی کاریگروں نے بھی کمال کیا۔ 450 کاریگروں نے تقریباً 1800 منفرد پیچز کا ایک حیرت انگیز مجموعہ بنا کر اپنی مہارت اور کاریگری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جی -20 میں آنے والا ہر نمائندہ ہمارے ملک کے فنی تنوع کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسا ہی ایک عظیم الشان پروگرام سورت میں منعقد کیا گیا۔ 15 ریاستوں سے 15,000 خواتین نے وہاں منعقد 'ساڑی واکاتھون' میں حصہ لیا۔ اس پروگرام نے نہ صرف سورت کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دیا بلکہ 'ووکل فار لوکل' کو بھی تقویت ملی اور مقامی کے گلوبل بننے کی راہ بھی ہموار کی۔ سری نگر میں جی -20 اجلاس کے بعد کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ میں ، تمام ہم وطنوں سے گزارش کروں گا کہ آیئے ، مل کر جی -20 سربراہ اجلاس کو کامیاب بنائیں اور ملک کی شان بڑھائیں ۔
میرے پریوار جنوں ، 'من کی بات' کے ایپی سوڈ میں، ہم اکثر اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر بات کرتے ہیں۔ آج کھیل کود ایک ایسا شعبہ ہے ، جہاں ہمارے نوجوان مسلسل نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ آج 'من کی بات' میں میں ایک ایسے ٹورنامنٹ کے بارے میں بات کروں گا ، جہاں حال ہی میں ہمارے کھلاڑیوں نے قومی پرچم بلند کیا ہے۔ چند روز قبل چین میں ورلڈ یونیورسٹی گیمز کا انعقاد ہوا۔ بھارت نے اس بار ان کھیلوں میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے مجموعی طور پر 26 تمغے جیتے ، جن میں سے 11 گولڈ میڈلز تھے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اگر ہم 1959 سے اب تک منعقد ہونے والے تمام ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں جیتنے والے تمام میڈلز کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد صرف 18 تک پہنچتی ہے۔ ان تمام دہائیوں میں صرف 18 ، جب کہ اس بار ہمارے کھلاڑیوں نے 26 میڈلز جیتے ہیں۔ اس لیے کچھ نوجوان کھلاڑی طلباء ، جنہوں نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں تمغے جیتے ہیں، فی الحال فون لائن پر مجھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ پہلے میں آپ کو ، ان کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یوپی کی رہنے والی پرگتی نے تیر اندازی میں تمغہ جیتا ہے۔ آسام کے رہنے والے املان نے ایتھلیٹکس میں تمغہ جیتا ہے۔ یوپی کی رہنے والی پرینکا نے ریس واک میں تمغہ جیتا ہے۔ مہاراشٹر کی رہنے والی ابھیدنیہ نے شوٹنگ میں تمغہ جیتا ہے۔
مودی جی:- نمسکار میرے پیارے نوجوان کھلاڑیوں۔
نوجوان کھلاڑی:- نمستے سر۔
مودی جی:- مجھے آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ سب سے پہلے، میں بھارت کی یونیورسٹیوں سے منتخب ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں… آپ لوگوں نے بھارت کا نام روشن کیا ہے۔ آپ نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں اپنی کارکردگی سے ہر شہری کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ تو سب سے پہلے میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پرگتی، میں ، اِس بات چیت کی شروعات آپ سے کر رہا ہوں۔ بتائیے ، کہ دو میڈل جیتنے کے بعد ، جب آپ یہاں سے گئیں ، تب یہ سوچا تھا کیا اور اتنی بڑی کامیابی حاصل کی تو کیا محسوس ہو رہا ہے ؟
پرگتی:- سر، میں بہت فخر محسوس کر رہی تھی ، مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا کہ میں اپنے ملک کا جھنڈا اتنا اونچا لہرا کر واپس آئی ہوں… یہ ٹھیک ہے کہ ایک بار میں گولڈ فائٹ میں پہنچ گئی تھی ، میں اُس میں ہار گئی تھی تو مجھے افسوس ہو رہا تھا۔ لیکن دوسری بار میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اب کچھ بھی ہو جائے ، اس کو نیچے نہیں جانے دینا ہے ۔ اسے ہر حال میں سب سے اونچا لہرا کر ہی آنا ہے ۔ جب ہم آخر میں فائٹ جیت گئے تو وہیں پوڈیم پر ، ہم لوگوں نے بہت اچھی طرح جشن منایا تھا ۔ وہ لمحہ بہت اچھا تھا۔ میں اتنا فخر محسوس کر رہی تھی کہ جس کا کوئی حساب نہیں تھا ۔
مودی جی:- پرگتی، آپ کو جسمانی طور پر ایک بڑی پریشانی کا سامنا تھا۔ آپ اس میں سے ابھر کر آئیں ۔ یہ اپنے آپ میں ملک کے نوجوانوں کے لیے بڑا انسپائرنگ ہے۔ کیا ہوا تھا آپ کو ؟
پرگتی:- سر، 5 مئی 2020 ء میں مجھے برین ہیمرج ہوا تھا ۔ میں وینٹی لیٹر پر تھی۔ اس بات کا کوئی یقین نہیں تھا کہ میں زندہ رہوں گی یا نہیں اور اگر بچی تو میں کیسے بچوں گی؟ لیکن اتنا تھا … کہ ہاں، مجھے اندر سے ہمت تھی کہ مجھے جانا ہے واپس گراؤنڈ پر کھڑا ہونا ہے ، تیر چلانے کے لئے ۔ میرے لئے میری زندگی بچائی ہے تو سب سے بڑا ہاتھ بھگوان کا ، اس کے بعد ڈاکٹر کا اور پھر آرچری کا ۔
مودی جی:- املان بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ املان، مجھے بتائیں کہ آپ کی ایتھلیٹکس میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی!
املان:- جی نمسکار سر۔
مودی جی :- نمسکار، نمسکار
املان:- سر، پہلے ایتھلیٹکس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پہلے ہم فٹ بال میں زیادہ تھے۔ لیکن جیسا کہ میرے بھائی کے دوست نے مجھے بتایا کہ املان آپ کو ایتھلیٹکس کے مقابلوں کے لیے جانا چاہیے۔ تو میں نے سوچا ٹھیک ہے، تو پہلی بار جب میں نے اسٹیٹ میٹ کھیلا، میں اس میں ہار گیا۔ مجھے شکست پسند نہیں آئی۔ تو آہستہ آہستہ، میں ایتھلیٹکس میں آ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ اب مزہ آنے لگا ہے۔ تو ویسے ہی میری دلچسپی بڑھتی گئی۔
مودی جی:- املان ذرا یہ بتاؤ کہ تم نے زیادہ تر مشق کہاں کی!
املان:- میں نے زیادہ تر حیدرآباد میں پریکٹس کی ہے، سائی ریڈی سر کے ماتحت۔ پھر اس کے بعد بھونیشور شفٹ ہوا تو وہاں سے میرا پیشہ ورانہ آغاز ہوا ۔
اچھا ، پرینکا بھی ہمارے ساتھ ہے۔ پرینکا، آپ 20 کلو میٹر ریس واک ٹیم کا حصہ تھیں۔ آج پورا ملک آپ کو سن رہا ہے اور وہ اس کھیل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ اس کے لیے کس قسم کی مہارت کی ضرورت ہے۔ اور آپ کے کیریئر کہاں کہاں سے کہاں پہنچی ؟
پرینکا:- میرے جیسے ایونٹ میں ، مطلب کافی سخت ہے کیونکہ ہمارے پانچ جج کھڑے ہوتے ہیں ۔ اگر ہم بھاگ بھی لیے تو بھی وہ ہمیں نکال دیں گے یا اگر ہم سڑک سے تھوڑا سا بھی اٹھ جاتے ہیں ، جمپ آ جاتی ہے تو بھی وہ ہمیں نکال دیتے ہیں ۔ یا پھر ہم نے گھٹنا موڑ لیا تو بھی ہمیں نکال دیتے ہیں اور میرے لئے تو وارننگ بھی دو آ گئی تھیں ۔ اس کے بعد میں نے اپنی رفتار پر اتنا قابو کیا کہ کہیں نہ کہیں تین میڈل تو یہاں سے جیتنا ہی ہے کیونکہ ہم ملک کے لیے ہم یہاں پر آئے ہیں اور ہمیں خالی ہاتھ نہیں جانا ہے ۔
مودی جی:- ہاں، اور پتا جی ، بھائی وغیرہ سب ٹھیک ہیں ؟
پرینکا:- جی سر، سب ٹھیک ہے، میں سب سے کہتی ہوں کہ آپ ہمیں بہت حوصلہ دیتے ہیں، واقعی سر، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کیونکہ انڈیا میں ورلڈ یونیورسٹی جیسے کھیلوں کو اتنا پوچھا بھی نہیں جاتا ہے لیکن اب ہمیں اس کھیل میں بھی بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے… ہم ٹویٹس دیکھ رہے ہیں… ہر کوئی ٹوئیٹ کر رہا ہے کہ ہم نے بہت سارے تمغے جیتے ہیں، تو یہ بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے کہ اولمپکس کی طرح اس کو بھی اتنا بڑھاوا مل رہا ہے۔
مودی جی: ٹھیک ہے، پرینکا، میری طرف سے مبارکباد۔ تم نے بڑا نام روشن کیا ہے، ابھی ہم ابھیدنیا سے بات کرتے ہیں ۔
ابھیدنیا :- نمستے سر۔
مودی جی: اپنے بارے میں بتائیں۔
ابھیدنیا:- سر میں کولہاپور، مہاراشٹر سے ہوں، میں شوٹنگ میں 25 میٹر اسپورٹس پسٹل اور 10 میٹر ایئر پسٹل دونوں ایونٹس کرتی ہوں۔ میرے والدین دونوں ہائی اسکول کے اساتذہ ہیں اور میں نے 2015 ء میں شوٹنگ شروع کی۔ جب میں نے شوٹنگ شروع کی تو کولہاپور میں اتنی سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ وڈگاؤں سے کولہاپور تک بس کے ذریعے سفر کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے، پھر واپس آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ، اور ٹریننگ کے چار گھنٹے، اس طرح، سفر اور تربیت کے لیے 6-7 گھنٹےتو آنے جانے میں ہی نکل جاتے تھے ۔ میرا سکول بھی مِس ہوتا تھا ، تب ممی پاپا نے کہا کہ بیٹا ایک کام کرو، ہم تمہیں ہفتہ اتوار کو شوٹنگ رینج میں لے جائیں گے، باقی وقت تم دوسرے گیمز کرو۔ اس لیے میں بچپن میں بہت زیادہ گیمز کھیلتی تھی، کیونکہ میرے والدین دونوں ہی کھیلوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، مالی مدد اتنی زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی اتنی معلومات دستیاب تھیں۔ اس لیے میری ماں کا ایک بڑا خواب تھا… میں چاہتی تھی کہ میں ملک کی نمائندگی کروں اور پھر ملک کے لیے تمغہ جیتوں۔ اس لیے ان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے میں بچپن سے ہی کھیلوں میں بہت دلچسپی لیتی تھی اور پھر میں نے تائیکوانڈو بھی کیا، اس میں بھی میں بلیک بیلٹ ہوں، اور باکسنگ، جوڈو، فینسنگ اور ڈسکس تھرو جیسے کئی کھیل کرنے کے بعد ، پھر 2015 ء میں شوٹنگ میں آ گئی ۔ پھر میں نے 2-3 سال تک بہت جدوجہد کی اور پہلی بار میں ملیشیا میں یونیورسٹی چیمپئن شپ کے لیے منتخب ہوئی اور اس میں مجھے کانسے کا تمغہ ملا، تو مجھے وہاں سے ایک پُش ملا۔ پھر میرے اسکول نے میرے لیے ایک شوٹنگ رینج بنائی… میں وہاں تربیت لیتی تھی اور پھر انہوں نے مجھے تربیت کے لیے پونے بھیج دیا۔ تو یہاں پر گگن نارنگ اسپورٹس فاؤنڈیشن ہے، گن فار گلوری… میں اب اس کے تحت ٹریننگ کر رہی ہوں… گگن صاحب نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور میرے کھیل کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔
مودی جی:- ٹھیک ہے، اگر آپ چاروں مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، تو میں اسے سننا چاہوں گا۔ پرگتی ہو ، املان ہو ، پرینکا ہو اور ابھیدنیا ہو ، آپ سب میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے اگر آپ کچھ کہنا چاہیں تو میں ضرور سنوں گا۔
املان:- سر، میرا ایک سوال ہے سر ۔
مودی جی:- جی۔
املان:- سر آپ کو کون سا کھیل زیادہ پسند ہے؟
مودی جی:- بھارت کو کھیلوں کی دنیا میں بہت کھلنا چاہیے اور اسی لیے میں ان چیزوں کو بہت زیادہ فروغ دے رہا ہوں، لیکن ہاکی، فٹ بال، کبڈی، کھو کھو، یہ ہماری زمین سے جڑے کھیل ہیں، اس میں تو ہمیں کبھی پیچے نہیں رہنا چاہیئے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے لوگ تیر اندازی میں اچھا کر رہے ہیں، وہ شوٹنگ میں اچھا کر رہے ہیں اور دوسری بات یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں اور یہاں تک کہ ہمارے خاندانوں میں بھی کھیلوں کے تئیں وہ جذبہ نہیں ہے ، جو پہلے تھا۔ پہلے جب بچہ کھیلنے جاتا تھا تو وہ روکتے تھے اور اب زمانہ بدل گیا ہے اور آپ لوگ جو کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ، اس سے تمام گھر والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہر کھیل میں ہمارے بچے ، جہاں بھی جاتے ہیں، ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے واپس لوٹتے ہیں اور ایسی خبریں آج ملک میں نمایاں طور پر دکھائی جاتی ہیں ، بتائی بھی جاتی ہیں … اسکولوں اور کالجوں میں زیر بحث بھی رہتی ہیں۔ خیر! مجھے بہت اچھا لگا۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ بہت سی نیک خواہشات۔
نوجوان کھلاڑی:- بہت شکریہ! شکریہ سر! شکریہ
مودی جی:- شکریہ! نمسکار۔
میرے پریوار جَن ، اس بار 15 اگست کو ملک نے 'سب کا پریاس' کی طاقت دیکھی۔ تمام ہم وطنوں کی کوششوں نے 'ہر گھر ترنگا ابھیان' کو 'ہر من ترنگا ابھیان' میں بدل دیا۔ اس مہم کے دوران کئی ریکارڈز بھی بنائے گئے۔ ہم وطنوں نے کروڑوں میں ترنگے خریدے۔ تقریباً 1.5 کروڑ ترنگے 1.5 لاکھ ڈاک خانوں کے ذریعے فروخت کیے گئے۔ اس کے ذریعے ہمارے مزدوروں، بنکروں اور خاص کر خواتین نے بھی کروڑوں روپے کمائے ہیں۔ اس بار ہم وطنوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی پوسٹ کرنے کا نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ پچھلے سال 15 اگست تک تقریباً 5 کروڑ ہم وطنوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی پوسٹ کی تھی۔ اس سال یہ تعداد بھی 10 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔
ساتھیو ، اس وقت ملک میں حب الوطنی کے جذبے 'میری مٹی، میرا دیش' کو بیدار کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ ستمبر کے مہینے میں ملک کے ہر گاؤں میں ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔ ملک کی مقدس مٹی ہزاروں کی تعداد میں امرت کلشوں میں جمع کی جائے گی۔ اکتوبر کے آخر میں ہزاروں لوگ امرت کلش یاترا کے ساتھ ملک کی راجدھانی دلّی پہنچیں گے۔ دلّی میں اسی مٹی سے امرت واٹیکا کی تعمیر ہوگی ۔ مجھے یقین ہے کہ ہر اہل وطن کی کوششیں اس مہم کو کامیاب بنائیں گی۔
میرے پریوار جنوں ، اس بار مجھے سنسکرت زبان میں بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساون کے مہینے کی پورنیما کو سنسکرت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
सर्वेभ्य: विश्व-संस्कृत-दिवसस्य हार्द्य: शुभकामना:
سرویبھیا ، وشو - سنسکرت – دِوسسیہ ہاردیہہ ، شبھ کامناہا
سنسکرت کے عالمی دن پر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سنسکرت دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اسے بہت سی جدید زبانوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ سنسکرت اپنی قدامت کے ساتھ ساتھ اس کی سائنسی اور گرامر کے لیے بھی مشہور ہے۔ بھارت کا بہت قدیم علم سنسکرت زبان میں ہزاروں سالوں سے محفوظ ہے۔ یوگا، آیوروید اور فلسفہ جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے والے لوگ اب زیادہ سے زیادہ سنسکرت سیکھ رہے ہیں۔ بہت سے ادارے بھی اس سمت میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ جیسے کہ سنسکرت پروموشن فاؤنڈیشن بہت سے کورس چلاتی ہے جیسے یوگ کے لیے سنسکرت، آیوروید کے لیے سنسکرت اور بدھ مت کے لیے سنسکرت۔ 'سنسکرت بھارتی' لوگوں کو سنسکرت سکھانے کی مہم چلاتی ہے۔ اس میں آپ 10 دن کے 'سنسکرت گفتگو کیمپ' میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج لوگوں میں سنسکرت کے بارے میں بیداری اور فخر بڑھ گیا ہے۔ اس کے پیچھے گزشتہ برسوں میں ملک کا خصوصی تعاون بھی ہے۔ مثال کے طور پر، 2020 ء میں تین سنسکرت ڈیمڈ یونیورسٹیوں کو مرکزی یونیورسٹیاں بنا دیا گیا۔ مختلف شہروں میں سنسکرت یونیورسٹیوں کے بہت سے کالج اور انسٹی ٹیوٹ بھی چلائے جا رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں میں سنسکرت کے مراکز بہت مقبول ہو رہے ہیں۔
ساتھیو ، آپ نے اکثر ایک چیز کا تجربہ کیا ہوگا، جڑوں سے جڑنے کے لیے، اپنی ثقافت، ہماری روایت سے جڑنے کے لیے، ایک بہت ہی طاقتور ذریعہ ہے - ہماری مادری زبان۔ جب ہم اپنی مادری زبان سے جڑتے ہیں تو قدرتی طور پر ہم اپنی ثقافت سے جڑ جاتے ہیں۔ ہم اپنے سنسکاروں سے جڑ جاتے ہیں، ہم اپنی روایت سے جڑ جاتے ہیں، ہم اپنی قدیم شان سے جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح، بھارت کی ایک اور مادری زبان ہے، شاندار تیلگو زبان۔ 29 اگست کو تیلگو ڈے کے طور پر منایا جائے گا۔
अन्दरिकी तेलुगू भाषा दिनोत्सव शुभाकांक्षलु।
اندریکی تیلگو بھاشا دنوتسو شُبھا کانکشلو ۔
آپ سب کو تیلگو ڈے پر بہت بہت مبارکباد۔ تیلگو زبان کے ادب اور ورثے میں بھارتی ثقافت کے بہت سے انمول رتن پوشیدہ ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی بہت ساری کوششیں کی جارہی ہیں کہ پورے ملک کو تیلگو کی اس وراثت کا فائدہ ملے۔
میرے پریوار جنوں ، ہم نے 'من کی بات' کی کئی قسطوں میں سیاحت کے بارے میں بات کی ہے۔ چیزوں یا مقامات کو ذاتی طور پر دیکھنا، ان کو سمجھنا اور چند لمحوں کے لیے جینا، ایک مختلف تجربہ پیش کرتا ہے۔
سمندر کو کوئی کتنا ہی بیان کرے، ہم سمندر کو دیکھے بغیر اس کی وسعت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ہمالیہ کے بارے میں کوئی کتنی ہی بات کرے، ہمالیہ کو دیکھے بغیر ہم اس کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس لیے میں آپ سب سے اکثر گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی موقع ملے ، ہمیں اپنے ملک کی خوبصورتی اور تنوع دیکھنے ضرور جانا چاہیے۔ اکثر ہم ایک اور چیز بھی دیکھتے ہیں…دنیا کے کونے کونے میں تلاش کرنے کے باوجود ہم اپنے ہی شہر یا ریاست میں بہت سی بہترین جگہوں اور چیزوں سے انجان ہوتے ہیں۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ہی شہر کے تاریخی مقامات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ دھن پال جی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ دھنپال جی بنگلور کے ٹرانسپورٹ آفس میں ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔ تقریباً 17 سال قبل انہیں سائیٹ سینگ ونگ میں ذمہ داری دی گئی تھی۔ اب لوگ اسے بنگلورو درشینی کے نام سے جانتے ہیں۔ دھن پال جی سیاحوں کو شہر کے مختلف سیاحتی مقامات پر لے جایا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک سفر پر ایک سیاح نے ان سے پوچھ لیا کہ بنگلور میں ٹینک کو سینکی ٹینک کیوں کہا جاتا ہے؟ انہیں بہت برا لگا کہ انہیں جواب معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں انہوں نے اپنے علم کو بڑھانے پر توجہ دی۔ اپنے ورثے کو جاننے کے شوق میں انہیں بہت سے پتھر اور نوشتہ جات ملے۔ دھن پال جی کا ذہن اس کام میں اس قدر مگن تھا کہ انہوں نے ایپی گرافی یعنی نوشتہ جات سے متعلق مضمون میں ڈپلومہ بھی کیا۔ اگرچہ وہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں، لیکن بنگلورو کی تاریخ کو تلاش کرنے کا ، ان کا جذبہ اب بھی بر قرار ہے۔
ساتھیو ، مجھے آپ کو برائن ڈی کھارپرن کے بارے میں بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ وہ میگھالیہ کے رہنے والے ہیں اور اسپیالوجی میں بہت دلچسپی رکھتے ہے۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب ہے – غاروں کا مطالعہ۔ برسوں پہلے ان میں یہ دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی ، جب انہوں نے کئی کہانیوں کی کتابیں پڑھیں۔ 1964 ء میں، انہوں نے ایک اسکولی طالب علم کے طور پر اپنا پہلا ایکسپلوریشن کیا ۔ 1990 ء میں انہوں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک انجمن قائم کی اور اس کے ذریعے انہوں نے میگھالیہ کے نامعلوم غاروں کے بارے میں پتہ لگانا شروع کیا۔ کچھ ہی وقت میں، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ میگھالیہ میں 1700 سے زیادہ غاریں دریافت کیں اور ریاست کو عالمی غار کے نقشے پر پیش کیا ۔ بھارت کی سب سے لمبی اور گہری غاریں میگھالیہ میں موجود ہیں۔ برائن جی اور ان کی ٹیم نے غار حیوانات یعنی غار کی ان مخلوقات کی دستاویز بھی کی ہے، جو دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ میں اس پوری ٹیم کی کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، ساتھ ہی میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میگھالیہ کے غاروں کو دیکھنے کا منصوبہ بنائیں۔
میرے پریوار جنوں ، آپ سب جانتے ہیں کہ ڈیری سیکٹر ہمارے ملک کے اہم ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ اس نے ہماری ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے گجرات کی بناس ڈیری کے ایک دلچسپ اقدام کا علم ہوا۔ بناس ڈیری ایشیا کی سب سے بڑی ڈیری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں روزانہ اوسطاً 75 لاکھ لیٹر دودھ پراسس کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے دوسری ریاستوں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ یہاں سے دیگر ریاستوں میں دودھ کی بروقت ترسیل کے لیے اب تک ٹینکروں یا دودھ والی ٹرینوں کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن اس میں بھی کم چیلنجز نہیں تھے۔ پہلے تو لوڈنگ اور ان لوڈنگ میں کافی وقت لگتا تھا اور اکثر دودھ بھی خراب ہو جاتا تھا۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے بھارتی ریلوے نے ایک نیا تجربہ کیا۔ ریلوے نے پالن پور سے نیو ریواڑی تک ٹرک آن ٹریک کی سہولت شروع کی۔ اس میں دودھ کے ٹرکوں کو براہ راست ٹرین پر لادا جاتا ہے۔ یعنی ٹرانسپورٹیشن کا بڑا مسئلہ اس سے دور ہو گیا ہے۔ ٹرک آن ٹریک سہولت کے نتائج بہت تسلی بخش رہے ہیں۔ پہلے جو دودھ پہنچنے میں 30 گھنٹے لگتے تھے ، اب آدھے سے بھی کم وقت میں پہنچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے جہاں ایندھن سے ہونے والی آلودگی رک گئی ہے ، وہیں ایندھن کی قیمت میں بھی بچت ہوئی ہے۔ اس سے ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو بھی کافی فائدہ ہوا ہے، ان کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔
ساتھیو ، اجتماعی کوششوں سے آج ہماری ڈیریاں بھی جدید سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ بناس ڈیری نے بھی ماحولیاتی تحفظ کی سمت میں کس طرح ایک قدم آگے بڑھایا ہے ، یہ سیڈ بال ٹری پلانٹیشن مہم سے ظاہر ہوتا ہے۔ وارانسی دودھ یونین ہمارے ڈیری کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کھاد کے انتظام پر کام کر رہی ہے۔ کیرالہ کی مالابار دودھ یونین ڈیری کی کوشش بھی بہت منفرد ہے۔ یہ مویشیوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے آیورویدک ادویات تیار کرنے میں مصروف ہے۔
ساتھیو ، آج بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو ڈیری کو اپنا کر ، اس میں تنوع پیدا کر رہے ہیں۔ آپ کو امن پریت سنگھ کے بارے میں بھی معلوم ہوگا، جو راجستھان کے کوٹا میں ڈیری فارم چلا رہے ہیں۔ ڈیری کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے بایو گیس پر بھی توجہ دی اور دو بایو گیس پلانٹ لگائے ، جس کی وجہ سے ان کے بجلی پر ہونے والے اخراجات میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ان کی یہ کوشش ملک بھر کے ڈیری فارمرز کو متاثر کرنے والی ہے۔ آج بہت سی بڑی ڈیریاں بایو گیس پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ اس قسم کی کمیونٹی سے چلنے والی ویلیو ایڈیشن بہت پرجوش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے رجحانات پورے ملک میں جاری رہیں گے۔
میرے پریوار جنوں ، آج من کی بات میں اتنا ہی ہے۔ تہواروں کا موسم بھی آ گیا ہے۔ آپ سب کو بھی رکھشا بندھن کی پیشگی مبارکباد۔ جشن منانے کے وقت ہمیں ووکل فار لوکل کا منتر بھی یاد رکھنا ہے۔ ’آتم نر بھر بھارت‘ کی یہ مہم ملک کے ہر باشندے کی اپنی مہم ہے اور تہوار کے ماحول کے دوران، ہمیں مقدس مقامات اور ان کے ارد گرد کو تو ہمیشہ کے لئے صاف رکھنا ہی ہے ۔ اگلی بار آپ سے پھر 'من کی بات' ہو گی ۔ کچھ نئے موضوعات کے ساتھ ملیں گے۔ ہم ، ہم وطنوں کی کچھ نئی کوششوں کی ، اُن کی کامیابی پر ، جی بھر کے بات کریں گے ۔ تب کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔ بہت بہت شکریہ ۔
نمسکار ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔
'من کی بات' میں آپ سب کا پرتپاک استقبال۔ جولائی کا مہینہ یعنی مان سون کا مہینہ، بارش کا مہینہ۔ گزشتہ چند روز قدرتی آفات کی وجہ سے پریشانی اور مشکلات سے بھرے ہوئے رہے ہیں۔ یمنا سمیت کئی دریاؤں میں سیلاب کی وجہ سے کئی علاقوں کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں ۔ اسی دوران ، ملک کے مغربی حصے میں، بپرجوئے سائیکلون کچھ عرصہ قبل گجرات کے علاقوں سے بھی ٹکرایا تھا ۔ لیکن ساتھیوں ، ان آفات کے درمیان ہم سب ہم وطنوں نے پھر دکھا دیا ہے کہ اجتماعی کوشش کی قوت کیا ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں نے ، ہمارے این ڈی آر ایف کے جوانوں ، مقامی انتظامیہ کے لوگوں نے ، اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ ہماری صلاحیتیں اور وسائل کسی بھی آفت سے نمٹنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری حساسیت اور ہاتھ تھامنے کا جذبہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سَرو جَن ہِتایے کا یہی جذبہ بھارت کی پہچان بھی ہے اور بھارت کی قوت بھی ہے۔
ساتھیو ، بارش کا یہ مرحلہ 'درخت لگانے' اور 'پانی کے تحفظ' کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے دوران بنائے گئے 60 ہزار سے زیادہ امرت سرووروں میں بھی رونق بڑھ گئی ہے ۔ اس وقت 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور بنانے کا کام بھی چل رہا ہے۔ ہمارے ہم وطن پوری بیداری اور ذمہ داری کے ساتھ 'پانی کے تحفظ' کے لیے نئی کوششیں کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، کچھ وقت پہلے، میں ایم پی کے شاہڈول گیا تھا۔ وہاں میری ملاقات پکریا گاؤں کے قبائلی بھائیوں اور بہنوں سے ہوئی۔ وہیں پر میری ان سے فطرت اور پانی کو بچانے کے لیے بات چیت ہوئی ۔ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ پکریا گاؤں کے قبائلی بھائی بہنوں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ یہاں انتظامیہ کی مدد سے لوگوں نے تقریباً سو کنوؤں کو واٹر ریچارج سسٹم میں تبدیل کر دیا ہے۔ بارش کا پانی اب ان کنوؤں میں آتا ہے اور کنوؤں سے پانی زمین کے اندر چلا جاتا ہے۔ اس سے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بتدریج بہتر ہوگی۔ اب تمام گاؤں والوں نے ری چارجنگ کے لیے پورے علاقے میں تقریباً 800 کنویں استعمال کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایسی ہی ایک حوصلہ افزا خبر یوپی سے آئی ہے۔ کچھ دن پہلے اتر پردیش میں ایک دن میں 30 کروڑ درخت لگانے کا ریکارڈ بنایا گیا ہے۔ یہ مہم ریاستی حکومت نے شروع کی تھی۔ اسے وہاں کے لوگوں نے مکمل کیا۔ اس طرح کی کوششیں عوامی شرکت کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری کی بہترین مثالیں ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہم سب درخت لگانے اور پانی کو بچانے کی ،ان کوششوں کا حصہ بنیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت ساون کا مقدس مہینہ چل رہا ہے۔ سادھنا - ارادھنا کے ساتھ ہی 'ساون' ہریالی اور خوشیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے 'ساون' روحانی اور ثقافتی نقطہ نظر سے بہت اہم رہا ہے۔ ساون کے جھولے، ساون کی مہندی، ساون کے تہوار... یعنی 'ساون' کا مطلب ہی خوشی اور جوش ہے۔
ساتھیو ، اس عقیدے اور ہماری ان روایات کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ہمارے یہ تہوار اور روایات ہمیں متحرک بناتی ہیں۔ بہت سے عقیدت مند ساون میں شیو کی پوجا کرنے کے لیے کانوڑ یاترا پر نکلتے ہیں۔ ان دنوں بے شمار عقیدت مند 'ساون' کی وجہ سے 12 جیوترلنگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ بنارس پہنچنے والوں کی تعداد بھی ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ اب ہر سال 10 کروڑ سے زیادہ سیاح کاشی پہنچ رہے ہیں۔ ایودھیا، متھرا، اجین جیسے تیرتھوں پر آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے لاکھوں غریبوں کو روزگار مل رہا ہے۔ ان کی روزی روٹی کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ یہ سب ہماری اجتماعی ثقافتی بیداری کا نتیجہ ہے۔ اب ’درشن‘ کے لیے دنیا بھر سے لوگ ہماری تیرتھوں پر آ رہے ہیں۔ مجھے ایسے ہی دو امریکی دوستوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، جو کیلیفورنیا سے یہاں امرناتھ یاترا کرنے آئے تھے۔ ان غیر ملکی مہمانوں نے امرناتھ یاترا سے متعلق سوامی وویکانند کے تجربات کے بارے میں کہیں سنا تھا۔ انہیں اتنا حوصلہ ملا کہ وہ خود امرناتھ یاترا کے لیے آئے۔ وہ اسے بھگوان بھولے ناتھ کا آشیرواد مانتے ہیں۔ یہی بھارت کی خاصیت ہے کہ وہ سب کو اپناتا ہے، سب کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے۔ اسی طرح ایک فرانسیسی نژاد خاتون ہے - شارلوٹ شوپا۔ گذشتہ دنوں ، جب میں فرانس گیا تھا تو ان سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ شارلوٹ شوپا ایک یوگا پریکٹیشنر، یوگا ٹیچر ہیں اور ان کی عمر 100 سال سے زیادہ ہے۔ وہ ایک سنچری پار کر چکی ہیں ۔ وہ گزشتہ 40 سالوں سے یوگا کی مشق کر رہی ہیں۔ وہ اپنی صحت اور اس 100 سال کی عمر کا سہرا صرف یوگا کو دیتی ہیں ۔ وہ دنیا میں بھارت کی یوگ کی سائنس اور اس کی طاقت کا ایک نمایاں چہرہ بن گئی ہیں۔ سب کو ان سے سیکھنا چاہیے۔ آئیے ، ہم اپنے ورثے کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اسے ذمہ داری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مجھے خوشی ہے کہ ایسی ہی ایک کوشش ، ان دنوں اجین میں چل رہی ہے۔ یہاں ملک بھر کے 18 مصور پرانوں پر مبنی پرکشش تصویری کہانیاں بنا رہے ہیں۔ یہ پینٹنگز بہت سے مخصوص انداز میں بنائی جائیں گی جیسے کہ بوندی اسٹائل، ناتھ دُوارا اسٹائل، پہاڑی اسٹائل اور اَپ بھرنش اسٹائل۔ انہیں اُجّین کے تروینی میوزیم میں لگایا جائے گا یعنی کچھ وقت بعد، جب آپ اُجّین جائیں گے ، تو مہاکال مہا لوک کے ساتھ ساتھ ایک اور قابل دید مقام کا آپ دیدار کر سکیں گے ۔
ساتھیو ، اجین میں بن رہی ، اِن پینٹنگز کی بات کرتے ہوئے ، مجھے ایک اور انوکھی پینٹنگ کی یاد آ رہی ہے۔ یہ پینٹنگ راجکوٹ کے ایک آرٹسٹ پربھات سنگھ موڈ بھائی برہاٹ جی نے بنائی تھی۔
یہ پینٹنگ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج کی زندگی کے ایک واقعے پر مبنی تھی۔ آرٹسٹ پربھات بھائی نے تصویر کشی کی تھی کہ چھترپتی شیواجی مہاراج تاج پوشی کے بعد اپنی کلدیوی 'تلجا ماتا' سے ملنے جا رہے تھے اور اس وقت وہاں کا ماحول کیسا تھا۔ اپنی روایات، اپنے ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے ، ہمیں اسے بچانا ہوگا، اسے جینا ہوگا، آنے والی نسلوں کو سکھانا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج اس سمت میں بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو،
اکثر اوقات، جب ہم ماحولیات، نباتات، حیوانات، حیاتیاتی تنوع جیسے الفاظ سنتے ہیں، تو کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ خصوصی موضاعات ہیں۔ ماہرین سے متعلق مضامین ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر ہمیں فطرت سے محبت ہے تو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ سریش راگھون جی تمل ناڈو کے وڈّاولی کے ایک ساتھی ہیں۔ راگھون جی کو پینٹنگ کا شوق ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پینٹنگ آرٹ اور کینوس سے متعلق ایک کام ہے لیکن راگھون جی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پینٹنگز کے ذریعے پیڑ پودوں اور جانوروں کے بارے میں معلومات کو محفوظ کریں گے۔ وہ متنوع نباتات اور حیوانات کی پینٹنگز بنا کر ، ان سے متعلق معلومات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں ۔ اب تک ، وہ ایسے درجنوں پرندوں، جانوروں، باغوں کی پینٹنگز بنا چکے ہیں، جو معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ فن کے ذریعے فطرت کی خدمت کی یہ مثال واقعی حیرت انگیز ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک حیرت انگیز کریز دیکھنے میں آیا ۔ امریکہ نے ہمیں سو سے زائد نادر اور قدیم نوادرات واپس لوٹائی ہیں ۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ، ان نوادرات کا خوب چرچا ہوا۔ نوجوانوں نے اپنے ورثے پر فخر کا اظہار کیا۔ بھارت کو لوٹائے گئے یہ نوادرات ڈھائی ہزار سے لے کر 250 سال تک پرانی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ ان نایاب اشیاء کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ یہ ٹیراکوٹا، پتھر، دھات اور لکڑی کا استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ اگر آپ ان پر ایک نظر ڈالیں تو آپ مسحور رہ جائیں گے۔ ان میں سے آپ کو 11ویں صدی کا ایک خوبصورت سینڈ اسٹون کا مجسمہ بھی دیکھنے کو ملے گا۔ یہ ایک رقص کرتی ہوئی 'اپسرا' کا مجسمہ ہے، جس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔ چول دور کی کئی مورتیاں بھی ، ان میں شامل ہیں۔ بھگوان مرگن کی مورتیاں تو 12ویں صدی کی ہیں اور تمل ناڈو تمل ناڈو کی شاندار ثقافت کا حصہ ہیں ۔ بھگوان گنیش کی تقریباً ایک ہزار سال پرانی کانسے کی مورتی بھی بھارت کو واپس کی گئی ہے۔ للت آسن میں بیٹھے اوما -مہیشور کی مورتی 11ویں صدی کی بتائی جاتی ہے ، جس میں وہ دونوں نندی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جین تیرتھنکروں کی پتھر کی دو مورتیاں بھی بھارت واپس آئیں ہیں۔ بھگوان سوریا دیو کی دو مورتیاں بھی آپ کو مسحور کر دیں گی۔ ان میں سے ایک سینڈ اسٹون سے بنی ہے۔ واپس کی جانے والی اشیاء میں لکڑی سے بنا ایک پینل بھی شامل ہے، جو سمدر منتھن کی کہانی کو پیش کرتا ہے۔ 16ویں-17ویں صدی کا یہ پینل جنوبی بھارت سے وابستہ ہے۔
ساتھیو ، میں نے یہاں صرف چند نام بتائے ہیں، جب کہ اگر آپ دیکھیں تو یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ میں امریکی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جس نے ہمارا یہ قیمتی ورثہ واپس کیا۔ 2016 ء اور 2021 ء میں بھی ، جب میں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا، تب بھی بہت سے نوادرات بھارت کو واپس کی گئی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے ہمارے ثقافتی ورثے کی چوری روکنے کے لیے ملک بھر میں بیداری بڑھے گی۔ اس سے ہم وطنوں کا ہمارے شاندار ورثے سے لگاؤ مزید گہرا ہو گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیو بھومی اتراکھنڈ کی کچھ ماؤں اور بہنوں کی طرف سے مجھے لکھے گئے خطوط دل کو چھو لینے والے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو ، اپنے بھائی کو بہت سارا آشیرواد یا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ - 'انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارا قدیم ثقافتی ورثہ 'بھوج پتر' ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے!
ساتھیو ، یہ خط مجھے چمولی ضلع کی نیتی مانا وادی کی خواتین نے لکھے ہیں ۔ یہ وہی خواتین ہیں ، جنہوں نے مجھے گزشتہ سال اکتوبر میں بھوج پتر پر ایک انوکھا آرٹ ورک پیش کیا تھا۔ یہ تحفہ پا کر میں بھی بہت خوش ہوا۔ بہر حال، قدیم زمانے سے، ہمارے صحیفے اور کتابیں ان بھوج پتروں پر محفوظ ہیں۔ بھوج پتر پر مہابھارت بھی لکھی گئی تھی۔ آج دیو بھومی کی یہ خواتین بھوج پتر سے بہت خوبصورت نوادرات اور یادگاریں بنا رہی ہیں۔ مانا گاؤں کے دورے کے دوران میں نے ان کی انوکھی کوشش کو سراہا تھا۔ میں نے دیو بھومی آنے والے سیاحوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے دورے کے دوران زیادہ سے زیادہ مقامی مصنوعات خریدیں۔ وہاں اس کا بڑا اثر ہوا ہے۔ آج بھوج پتر کی مصنوعات یہاں آنے والے یاتریوں کو بہت پسند ہیں اور وہ اسے اچھی قیمت پر خرید بھی رہے ہیں۔ بھوج پتر کا یہ قدیم ورثہ اتراکھنڈ کی خواتین کی زندگیوں میں خوشیوں کے نئے رنگ بھر رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ریاستی حکومت خواتین کو بھوج پتر سے نئی نئی مصنوعات بنانے کی تربیت بھی دے رہی ہے۔
ریاستی حکومت نے بھوج پتر کی نایاب نسلوں کے تحفظ کے لیے بھی ایک مہم بھی شروع کی ہے۔ جن علاقوں کو کبھی ملک کا آخری حصہ سمجھا جاتا تھا ، اب انہیں ملک کا پہلا گاؤں سمجھ کر ترقی دی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہماری روایت اور ثقافت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے بھی اس بار ’من کی بات‘ میں ایسے خطوط کی ایک بڑی تعداد موصول ہوئی ہے ، جو ذہن کو بہت اطمینان بخشتی ہے۔ یہ خطوط ان مسلم خواتین نے لکھے ہیں ، جو حال ہی میں حج کا سفر کرکے آئی ہیں۔ ان کا یہ سفر کئی لحاظ سے بہت خاص ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں ، جنہوں نے بغیر کسی مرد ساتھی یا محرم کے حج کیا ہے اور ان کی تعداد پچاس یا سو نہیں بلکہ چار ہزار سے زیادہ ہے، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس سے قبل مسلم خواتین کو محرم کے بغیر حج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ من کی بات کے ذریعے میں سعودی عرب کی حکومت کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محرم کے بغیر حج پر جانے والی خواتین کے لیے خصوصی طور پر خواتین کوآرڈینیٹر بھی مقرر کی گئی تھیں ۔
ساتھیو ، گزشتہ چند سالوں میں حج پالیسی میں ، جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، ان کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ ہماری مسلمان ماؤں بہنوں نے مجھے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اب، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو 'حج' پر جانے کا موقع مل رہا ہے۔ حج سے واپس آنے والے لوگوں کو خصوصاً ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے خطوط کے ذریعے ، جو آشیرواد دیا ہے ، وہ اپنے آپ میں بہت متاثر کن ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، چاہے جموں کشمیر میں میوزیکل نائٹس ہوں، بلندی پر بائیک ریلیاں ہوں، چندی گڑھ کے مقامی کلب ہوں اور پنجاب کے بہت سے کھیلوں کے گروپ ہوں، ایسا لگتا ہے کہ ہم تفریح اور ایڈونچر کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ کچھ مختلف ہے ۔ اس واقعہ کا تعلق بھی ایک ' کامن کاز ' سے جڑا ہوا ہے اور یہ کامن کاز ہے - منشیات کے خلاف بیداری مہم ۔ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو منشیات سے بچانے کے لیے کئی اختراعی کوششیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ یہاں میوزیکل نائٹ، بائیک ریلیاں جیسے پروگرام ہو رہے ہیں۔ چنڈی گڑھ میں اس پیغام کو پھیلانے کے لیے مقامی کلبوں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ وہ انہیں وادا کلب کہتے ہیں۔ وادا یعنی وِکٹری اگینٹ ڈرگ ایبیوز ۔ پنجاب میں کئی اسپورٹس گروپس بھی بنائے گئے ہیں ، جو فٹنس پر توجہ دینے اور نشے کی لت سے نجات کے لیے بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ منشیات کے خلاف مہم میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شرکت بہت حوصلہ افزا ہے۔ ان کوششوں سے بھارت میں منشیات کے خلاف مہم کو کافی تقویت ملتی ہے۔ اگر ہم ملک کی آنے والی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں منشیات سے دور رکھنا ہی ہوگا۔ اسی سوچ کے ساتھ 15 اگست ، 2020 ء کو 'نشہ سے پاک بھارت مہم ' شروع کی گئی تھی ۔ اس مہم سے 11 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جوڑا گیا ہے ۔ دو ہفتے قبل بھارت نے منشیات کے خلاف بڑی کارروائی کی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کلو منشیات کی کھیپ ضبط کرنے کے بعد اسے تلف کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے 10 لاکھ کلو منشیات تلف کرنے کا انوکھا ریکارڈ بھی بنا ڈالا ہے ۔ ان منشیات کی قیمت 12000 کروڑ روپئے سے زیادہ تھی۔ میں ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا ، جو نشے سے نجات کی اس عظیم مہم میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ نشے کی لت نہ صرف خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اس سمت میں آگے بڑھیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، منشیات اور نوجوان نسل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں آپ کو مدھیہ پردیش کے ایک متاثر کن سفر کے بارے میں بھی بتانا چاہوں گا۔ یہ منی برازیل کا متاثر کن سفر ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مدھیہ پردیش میں منی برازیل کہاں سے آیا، ٹھیک ہے، یہی تو ٹوئسٹ ہے۔ ایم پی کے شاہڈول میں ایک گاؤں ہے ، بیچار پور ۔ بیچارپور کو منی برازیل بھی کہا جاتا ہے۔ ’منی برازیل‘ اس لیے کیونکہ یہ گاؤں آج فٹ بال کے ابھرتے ہوئے ستاروں کا گڑھ بن گیا ہے۔ جب میں چند ہفتے قبل شاہڈول گیا تھا تو میری ملاقات ایسے کئی فٹ بال کھلاڑیوں کے ساتھ ہوئی ۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ہم وطنوں اور خاص کر ہمارے نوجوان دوستوں کو اس کے بارے میں جاننا چاہیے۔
ساتھیو ، بیچار پور گاؤں کا منی برازیل بننے کا سفر دو ڈھائی دہائیوں پہلے شروع ہوا تھا۔ اس وقت بیچار پور گاؤں غیر قانونی شراب کے لیے بدنام تھا، نشہ کی گرفت میں تھا۔ اس قسم کے ماحول کا سب سے بڑا نقصان ، یہاں کے نوجوانوں کو ہو رہا تھا ۔ ایک سابق قومی کھلاڑی اور کوچ رئیس احمد نے ، ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پہچانا۔ رئیس جی کے پاس بہت زیادہ وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نے پوری لگن سے نوجوانوں کو فٹ بال سکھانا شروع کیا۔ چند ہی سالوں میں فٹ بال اس قدر مقبول ہو گیا کہ بیچار پور گاؤں کی پہچان ہی فٹ بال سے ہونے لگی ۔ اب یہاں فٹ بال کرانتی کے نام سے ایک پروگرام بھی چل رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو اس کھیل سے جوڑا جاتا ہے اور انہیں تربیت دی جاتی ہے۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب رہا ہے کہ بیچار پور سے 40 سے زیادہ قومی اور ریاستی سطح کے کھلاڑی سامنے آئے ہیں۔ فٹ بال کا یہ انقلاب اب آہستہ آہستہ پورے خطے میں پھیل رہا ہے۔ شاہڈول اور اس کے گردونواح میں 1200 سے زائد فٹ بال کلب بن چکے ہیں۔ یہاں سے بڑی تعداد میں کھلاڑی ابھر رہے ہیں ، جو قومی سطح پر کھیل رہے ہیں۔ آج، فٹ بال کے کئی نامور سابق کھلاڑی اور کوچ یہاں کے نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ایک قبائلی علاقہ ، جو ناجائز شراب کے لیے مشہور تھا، نشے کے لیے بدنام تھا، وہ اب ملک کی فٹ بال نرسری بن گیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں چاہ ، وہاں راہ ۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یقیناً انہیں ڈھونڈنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یہ نوجوان ملک کا نام بھی روشن کرتے ہیں اور ملک کی ترقی کو سمت بھی دیتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ہم سب 'امرت مہوتسو' پورے جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ 'امرت مہوتسو' کے دوران ملک میں تقریباً دو لاکھ پروگرام منعقد کیے گئے ہیں۔ یہ پروگرام ایک سے بڑھ کر ایک رنگوں سے سجے تھے... تنوع سے بھرے تھے۔ ان تقریبات کی خوبی یہ رہی کہ نوجوانوں کی ریکارڈ تعداد نے ان میں شرکت کی۔ اس دوران ہمارے نوجوانوں کو ملک کی عظیم شخصیات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔ اگر ہم صرف ابتدائی چند مہینوں کی بات کریں تو ہمیں عوامی شرکت سے متعلق بہت سے دلچسپ پروگرام دیکھنے کو ملے۔ ایسا ہی ایک پروگرام تھا - دِویانگ ادیبوں کے لیے 'رائٹرز میٹ' کا انعقاد۔ اس میں لوگوں کی ریکارڈ تعداد میں شرکت دیکھی گئی۔ وہیں آندھرا پردیش کے تروپتی میں 'قومی سنسکرت کانفرنس' کا انعقاد کیا گیا۔ ہم سبھی اپنی تاریخ میں قلعوں کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس کی عکاسی کرنے والی ایک مہم، ’قلعہ اور کہانیاں‘ یعنی قلعوں سے متعلق کہانیاں بھی لوگوں نے پسند کیں۔
ساتھیو ، آج جب ملک میں چاروں طرف امرت مہوتسو کی گونج ہے ، 15 اگست پاس ہی ہے تو ملک میں ایک اور بڑی مہم کی شروعات ہونے جا رہی ہے ۔ شہید بہادر مرد و خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ، 'میری ماٹی میرا دیش' مہم شروع ہو گی۔ اس کے تحت ملک بھر میں ہمارے امر شہیدوں کی یاد میں بہت سے پروگرام منعقد ہوں گے۔ ان عظیم شخصیات کی یاد میں ملک کی لاکھوں گاؤں پنچایتوں میں خصوصی کتبے بھی لگائے جائیں گے۔ اس مہم کے تحت ملک بھر میں 'امرت کلش یاترا' بھی نکالی جائے گی ۔ یہ امرت کلش یاترا ملک کے گاؤں گاؤں سے ، کونے کونے سے 7500 کلشوں میں مٹی لے کر ملک کی راجدھانی دلّی پہنچے گی۔ یہ یاترا اپنے ساتھ ملک کے الگ الگ حصوں سے پودے بھی لے کر آئے گی ۔ 7500 کلش میں آئی مٹی اور پودوں سے ملاکر پھر نیشنل وار میموریل کے قریب 'امرت واٹیکا' کی تعمیر کی جائے گی ۔ یہ امرت واٹیکا بھی 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کی بہت شاندار علامت بنے گی۔ میں نے پچھلے سال لال قلعہ سے اگلے 25 سال کے امرت کال کے لیے 'پنچ پران' کی بات کی تھی۔ 'میری ماٹی میرا دیش' مہم میں حصہ لے کر، ہم ان 'پنچ پرانوں ' کو پورا کرنے کا حلف بھی لیں گے۔ آپ سب ملک کی مقدس مٹی کو تھام کر حلف اٹھاتے ہوئے اپنی سیلفیز yuva.gov.in پر ضرور اپ لوڈ کریں ۔ پچھلے سال یوم آزادی کے موقع پر 'ہر گھر ترنگا ابھیان' کے لیے پورا ملک اکٹھا ہوا تھا، اسی طرح اس بار بھی ہمیں ہر گھر پر ترنگا لہرانا ہے اور اس روایت کو لگاتار آگے بڑھانا ہے۔ ان کوششوں سے ہمیں اپنے فرائض کا احساس ہو گا... ہمیں وطن کی آزادی کے لیے دی گئی لاتعداد قربانیوں کا احساس ہو گا۔ ہم آزادی کی قدر کو سمجھیں گے۔ اس لیے ہر اہل وطن کو ، ان کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 'من کی بات' میں آج بس اتنا ہی ۔
اب کچھ ہی دنوں میں ، ہم 15 اگست کو آزادی کے اس عظیم تہوار کا حصہ بنیں گے۔ ملک کی آزادی کے لیے مر مٹنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے ۔ ہمیں اُن کے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے دن رات محنت کرنی ہے اور 'من کی بات' اہل وطن کی ، اِسی محنت کو ، اُن کی اجتماعی کوششوں کو سامنے لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگلی مرتبہ کچھ نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے ملاقات ہو گی ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار، ایک بار پھر آپ سب کا ’من کی بات‘ میں خیرمقدم ہے۔ عام طور پر ’من کی بات‘ ہر مہینے کے آخری اتوار کو ہوتی ہے، لیکن اس بار یہ ایک ہفتہ پہلے ہو رہی ہے۔ آپ جانتے ہیں، میں اگلے ہفتے امریکہ میں رہوں گا اور وہاں بہت زیادہ بھاگ دوڑ ہوگی، اور اس لیے میں نے سوچا کہ جانے سے پہلے میں آپ سے بات کروں، اور اس سے بہتر کیا ہوگا ؟ لوگوں کا آشیرواد، آپ کی ترغیب ، میری توانائی بھی بڑھتی رہے گی۔
ساتھیو، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے بطور وزیراعظم یہ اچھا کام کیا، وہ بڑا کام کیا۔ ’من کی بات‘ کے بہت سے سامعین اپنے خطوط میں بہت ساری تعریفیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یہ کیا، کوئی کہتا ہے وہ کیا، یہ اچھا کیا ، یہ زیادہ اچھا کیا ، یہ بہترین کیا، لیکن، میں جب میں بھارت کے عام آدمی کی کوششوں، محنت اور ان کی قوت ارادی کو دیکھتا ہوں، تو میں خود بھی مسحور ہو جاتا ہوں۔ بڑے سے بڑا ہدف ہو، مشکل ترین چیلنج ہو، بھارت کے عوام کی اجتماعی کوشش، اجتماعی طاقت ، ہر چیلنج کو حل کردیتی ہے۔ ابھی دو تین دن پہلے، ہم نے دیکھا کہ ملک کے مغربی سرے پر کتنا بڑا طوفان آیا۔ تیز چلنے والی ہوائیں، تیز بارش۔ سمندری طوفان بپرجوائے نے کچھ میں بہت تباہی مچائی، لیکن کچھ کے لوگوں نے جس ہمت اور تیاری کے ساتھ اس خطرناک طوفان کا سامنا کیا وہ اتنا ہی غیرمعمولی ہے۔ دو دن بعد، کچھ کے لوگ اپنا نیا سال، یعنی آشاڑھی بیج منانے جا رہے ہیں۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ آشاڑھی بیج کچھ میں بارش کے آغاز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ میں اتنے سال سے کچھ آتا اور جا تارہا ہوں، میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے وہاں کے لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع ملاہے اور اس کے لیے میں کچھ کے لوگوں کے حوصلے اور جذبے کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ دو دہائی پہلے کے تباہ کن زلزلے کے بعد جس کچھ کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ وہ کبھی ابھر نہیں سکے گا ، آج وہیں ضلع ملک کے تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں سے ایک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سمندری طوفان بپر جوائے نے جوتباہی مچائی ہے، اس سے بھی کچھ کے لوگ بہت تیزی سے ابھرجائیں گے۔
ساتھیو، قدرتی آفات پر کسی کا زور نہیں ہوتا، لیکن بھارت نے گزشتہ برسوں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی جو طاقت پیدا کی ہے، وہ آج ایک مثال بن رہی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کا ایک بہترین طریقہ ہے- فطرت کا تحفظ ۔ آج کل مون سون کے موسم میں اس سمت میں ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ہی آج ملک ’کیچ دی رین‘ جیسی مہمات کے ذریعے اجتماعی کوششیں کر رہا ہے۔ پچھلے مہینے ’من کی بات‘ میں، ہم نے پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کی تھی۔ اس بار بھی مجھے خط لکھ کر کئی ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو پانی کی ایک ایک بوند کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساتھی ہیں- یوپی کے باندہ ضلع کے تلسی رام یادو جی۔ تلسی رام یادو جی لکترا گرام پنچایت کے پردھان ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ باندہ اور بندیل کھنڈ علاقے میں پانی کے حوالے سے کتنی مشکلات رہی ہیں۔ اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تلسی رام جی نے گاؤں کے لوگوں کو ساتھ لے کر علاقے میں 40 سے زیادہ تالاب بنوائے ہیں۔ تلسی رام جی نے اپنی مہم کی بنیاد بنائی ہے - کھیتوں کا پانی کھیتوں میں، گاؤں کا پانی گاؤں میں۔ آج ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ان کے گاؤں میں زیر زمین پانی کی سطح بہتر ہو رہی ہے۔ اسی طرح یو پی کے ہاپوڑ ضلع میں لوگوں نے مل کر ایک گمشدہ ندی کو زندہ کر دیا ہے۔ بہت پہلے یہاں نیم نام کی ایک ندی ہوا کرتی تھی ۔ وہ وقت کے ساتھ غائب ہو گئی، لیکن مقامی یادداشتوں اور عوامی داستانوں میں اسے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہا ۔ آخر کار، لوگوں نے اپنے اس قدرتی ورثے کو پھر سے زندہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ عوام کی اجتماعی کوششوں سے اب ’نیم ندی ‘ پھر سے زندہ ہونے لگی ہے۔ ندی کے اصل مقام کو امرت سروور کے طور پر بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔
ساتھیو، یہ ندی، نہر، سرور صرف آبی ذخائر ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان سے زندگی کے رنگ اور جذبات بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منظر کچھ دن پہلے مہاراشٹر میں بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ علاقہ زیادہ تر خشک سالی کا شکار رہتا ہے۔ پانچ دہائیوں کے انتظار کے بعد یہاں نل ونڈے ڈیم کی نہر کا کام مکمل کیا جا رہا ہے۔ چند روز قبل ٹیسٹنگ کے دوران نہر میں پانی چھوڑا گیا تھا۔ اس دوران جو تصویریں آئیں وہ واقعی جذباتی کردینے والی تھیں۔ گاؤں کے لوگ خوشی سے ایسے ناچ رہے تھے جیسے ہولی-دیوالی کا تہوار ہو۔
ساتھیو، جب انتظام کی بات ہورہی ہے، تو میں آج چھترپتی شیواجی مہاراج کو بھی یاد کروں گا۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی بہادری کے ساتھ ہی ان کی حکمرانی اور ان کی انتظامی ہنرمندی سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ خاص طور پر پانی کے بندوبست اور بحریہ کے حوالے سے چھترپتی شیواجی مہاراج نے جو کام کیے، وہ آج بھی بھارت کی تاریخ کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے جل دُرگ ( پانے میں قلعے) اتنی صدیوں بعد بھی سمندر کے بیچوں بیچ شان سے کھڑے ہیں۔ اس مہینے کے آغاز میں ہی چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کے 350 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس موقع کو ایک بڑے تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس دوران مہاراشٹر کے رائے گڑھ قلعہ میں اس سے جڑی عظیم الشان تقریبات منعقد کی گئیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے 2014 میں مجھے رائے گڑھ جانے، اس مقدس سرزمین کو سلام کرنے کی سعادت ملی تھی ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس موقع پر ہم چھترپتی شیواجی مہاراج کی انتظامی صلاحیتوں کو جانیں اور ان سے سیکھیں۔ یہ ہمارے اندر اپنے ورثے پر فخر کا احساس بھی پیدا کرے گا اور ہمیں مستقبل کے لیے اپنے فرائض ادا کرنے کی ترغیب بھی دے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے رامائن کی چھوٹی سی گلہری کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، جو رام سیتو بنانے میں مدد کے لیے آگے آئی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب نیت صاف ہو، کوششوں میں دیانت داری ہو تو پھرکوئی بھی ہدف مشکل نہیں رہتا۔ بھارت بھی آج اسی نیک نیتی سے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ چیلنج ہے- ٹی بی کا، جسے تپ دق بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت نے عزم کیا ہے 2025 تک ٹی.بی سے آزاد بھارت بنانے کا۔ ہدف بہت بڑا ضرور ہے۔ ایک وقت تھا جب ٹی بی۔ ٹی بی کا پتہ لگنے کے بعد گھر کے لوگ ہی دور ہوجاتے تھے لیکن آج کا دور ہے جب ٹی بی کے مریض کو خاندان کا فرد بنا کر ان کی مدد کی جا رہی ہے۔ اس تپ دق کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے نکشے متروں نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ ملک میں بڑی تعداد میں مختلف سماجی تنظیمیں نکشے متر بنی ہیں ۔ گاوں-دیہات میں پنچایتوں میں ہزاروں لوگوں نے خود آگے آکر ٹی بی مریضوں کو گود لیا ہے۔ کتنے ہی بچے ہیں جو ٹی بی کے مریضوں کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں۔ یہ عوامی شراکت داری ہی اس مہم کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس شراکت داری کی وجہ سے آج ملک میں ٹی بی کے 10 لاکھ سے زیادہ ٹی بی مریضوں کو گود لیا جاچکا ہے اور یہ ثوام کا کام کیا ہے تقریباً 85 ہزار نکشے متروں نے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے کئی سرپنچوں نے، گاوں کے پردھانوں نے بھی، یہ ذمہ اٹھا لیا ہے کہ وہ اپنے گاوں میں ٹی بی کو ختم کرکے ہی رہیں گے۔
نینی تال کے ایک گاؤں کے نکشے متر جناب دیکر سنگھ میواڑی جی نے ٹی بی کے چھ مریضوں کو گود لیا ہے۔ ایسے ہی کنور کی ایک گرام پنچایت کے پردھان نکشے متر جناب گیان سنگھ جی بھی اپنے بلاک میں ٹی بی مریضوں کو ہر ضروری مدد فراہم کرانے میں مصروف ہیں۔ بھارت کو ٹی بی سے پاک بنانے کی مہم میں ہمارے بچے اور نوجوان ساتھی بھی پیچھے نہیں ہیں۔ ہماچل پردیش کے اونا کی 7 سالہ بیٹی نلنی سنگھ کا کمال دیکھئے۔ بیٹی نلنی، اپنی جیب خرچ سے ٹی بی کے مریضوں کی مدد کررہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بچوں کو غلک سے کتنا پیار ہوتا ہے، لیکن ایم پی کے کٹنی ضلع کی 13 سال کی میناکشی اور مغربی بنگال کے ڈائمنڈ ہاربر کے 11 سال کے بشور مکھرجی دونوں ہی کچھ الگ قسم کے بچے ہیں۔ ان دونوں بچوں نے اپنے غلک کے پیسے بھی ٹی بی سے پاک بھارت کی مہم میں لگا دیئے ہیں۔ یہ تمام مثالیں جذبات سے بھری ہونے کے ساتھ ہی انتہائی تحریک دینے والی بھی ہیں۔کم عمر میں بڑی سوچ رکھنے والے ان سبھی بچوں کی میں دل سے تعریف کرتا ہوں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ ہم بھارت کے رہنے والوں کی فطرت ہوتی ہے کہ ہم نئے خیالات کا استقبال کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم اپنی چیزوں سے پیار کرتے ہیں اور نئی چیزوں کو اپناتے بھی ہیں۔ اس کی ایک مثال ہے - جاپان کی تکنیک میاواکی ، اگر کسی جگہ کی مٹی زرخیز نہیں رہی ہو، تو میاواکی تکنیک اس علاقے کو دوبارہ سرسبز بنانے کا ایک بہت اچھا طریقہ کار ہوتی ہے۔ میاواکی جنگل تیزی سے پھیلتے ہیں اور دو سے تین دہائیوں میں حیاتیاتی تنوع کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اب یہ بھارت کے مختلف حصوں میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے یہاں کیرالہ کے ایک استاد جناب رافی رام ناتھ جی نے اس تکنیک سے ایک علاقے کی تصویر بدل دی۔ دراصل، رام ناتھ جی اپنے طلباء کو فطرت اور ماحولیات کے بارے میں گہرائی سے سمجھانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک ہربل گارڈن ہی بنا ڈالا۔ ان کا یہ گارڈن اب بائیو ڈائیورسٹی زون بن چکا ہے۔ ان کی اس کامیابی نے انہیں اور تحریک دی ۔ اس کے بعد رافی جی نے میاواکی کی تکنیک سے ایک منی فاریسٹ یعنی چھوٹا جنگل بنایا اور اسے نام دیا ’ ودیاونم‘ ۔ اب اتنا خوبصورت نام تو صرف ایک استاد ہی رکھ سکتا ہے۔ –’ودیاونم‘۔ رام ناتھ جی کے اس ’ودیاونم‘ میں ایک چھوٹی سی جگہ میں 115 اقسام کے 450 سے زیادہ درخت لگائے گئے ۔ ان کے طلباء بھی اس کی دیکھ بھال میں مدد کرتے ہیں۔ اس خوبصورت جگہ کو دیکھنے کے لئے آس پاس کے اسکولی بچے، عام شہری –کافی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔ میاواکی جنگلوں کو کسی بھی جگہ یہاں تک کہ شہروں میں بھی آسانی سے اگایا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، میں نے گجرات میں کیوڑیا، ایکتا نگر میں میاواکی جنگل کا افتتاح کیا تھا۔ کچھ میں بھی 2001 کے زلزلے میں مارے گئے لوگوں کی یاد میں میاواکی طرز کا میں ایک یادگاری جنگل بنایا گیا ہے۔ کچھ جیسی جگہ پر اس کا کامیاب ہونا یہ بتاتا ہے کہ مشکل سے مشکل قدرتی ماحول میں بھی یہ تکنیک کتنی کارآمد ہے۔ اسی طرح امباجی اور پاوا گڑھ میں بھی میاواکی طریقہ کار سے پودے لگائے گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ لکھنؤ کے علی گنج میں بھی میاواکی پارک تیار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایسے 60 سے زیادہ جنگلوں پر کام کیا گیا ہے ۔ اب تو یہ تکنیک پوری دنیا میں پسند کی جا رہی ہے۔ سنگاپور، پیرس، آسٹریلیا، ملیشیا جیسے کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس تکنیک کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں اہل وطن سے، خاص طور پر شہروں میں رہنے والوں سے گزارش کروں گا کہ وہ میاواکی کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔ اس کے ذریعے آپ اپنی زمین اور فطرت کو سرسبز و شاداب اور شفاف بنانے میں بیش قیمتی تعاون دے سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کل ہمارے ملک میں جموں و کشمیر کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ کبھی بڑھتی ہوئی سیاحت کے سبب ، تو کبھی جی-20 کے شاندار انعقاد کی وجہ سے۔ کچھ وقت پہلے میں نے آپ کو ’من کی بات‘ میں بتایا تھا کہ کشمیر کے ’نادرو‘ ملک کے باہر بھی پسند کئے جارہے ہیں ۔ اب جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے لوگوں نے ایک شاندار کام کیا ہے۔ بارہمولہ میں طویل عرصے سے کھیتی باڑی کی جارہی ہے، لیکن یہاں دودھ کی قلت رہتی تھی۔ بارہمولہ کے لوگوں نے اس چیلنج کو ایک موقع کے طور پر لیا۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے ڈیری کا کام شروع کیا۔ یہاں کی خواتین اس کام میں سب سے آگے آئیں، جیسے کہ ایک بہن ہیں – عشرت نبی۔ عشرت نبی ایک گریجویٹ ہیں اور انہوں نے ’ میر سسٹرز ڈیری فارم‘ شروع کیا ہے۔ ان کے ڈیری فارم سے روزانہ تقریباً 150 لیٹر دودھ فروخت ہو رہا ہے۔ ایسے ہی سوپور کے ایک ساتھی ہیں۔ وسیم عنایت ۔ وسیم کے پاس دو درجن سے زیادہ مویشی ہیں اور وہ روزانہ دو سو لیٹر سے زیادہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔ ایک اور نوجوان عابد حسین بھی ڈیری کا کام کر رہے ہیں۔ ان کا کام بھی بہت آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی محنت کی وجہ سے بارہمولہ میں آج ہر روزہ 5.5 لاکھ لیٹر دودھ پیدا ہورہا ہے۔ پورا بارہمولہ ایک نئے سفید انقلاب کی پہچان بن رہا ہے۔ پچھلے ڈھائی تین برسوں میں یہاں 500 سے زیادہ ڈیری اکائیاں لگی ہیں ۔ بارہمولہ کی ڈیری صنعت اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے ملک کا ہر حصہ اتنے امکانات سے بھرا ہوا ہے۔ کسی خطے کے لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی کسی بھی ہدف کو حاصل کرکے دکھا سکتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس مہینے کھیلوں کی دنیا سے بھارت کے لیے کئی بڑی خوش خبریاں آئی ہیں ۔بھارت کی ٹیم نے پہلی بار ویمنز جونیئر ایشیا کپ جیت کر ترنگے کی شان بڑھائی ہے۔ اسی مہینے میں ہماری مردوں کی ہاکی ٹیم نے بھی جونیئر ایشیا کپ جیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اس ٹورنامنٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ جیت درج کرنے والی ٹیم بھی بن گئے ہیں۔ جونیئر شوٹنگ ورلڈ کپ اس میں بھی ہماری جونیئر ٹیم نے کمال کردیا۔ بھارت کی ٹیم نے اس ٹورنامنٹ میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کل جتنے گولڈ میڈلس تھے ، اس میں سے 20 فیصداکیلے بھارت کے کھاتے میں آئے ہیں۔ اسی جون میں ایشین انڈر ٹوئنٹی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ بھی ہوئی۔ اس میں بھارت تمغوں کی فہرست میں 45 ممالک میں ٹاپ تین میں رہا۔
ساتھیو، پہلے ایک وقت ہوتا تھا جب ہمیں بین الاقوامی انعقاد کے بارے میں پتہ تو چلتا تھا ، لیکن ان میں اکثر بھارت کا کوئی نام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن، آج میں صرف پچھلے چند ہفتوں کی کامیابیوں کا ذکر کر رہا ہوں، تو بھی فہرست اتنی لمبی ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی اصل طاقت ہے۔ ایسے بہت سے کھیل اور مقابلے ہیں جہاں آج بھارت پہلی بار اپنی موجودگی درج کروا رہا ہے۔ جیسے کہ لانگ جمپ میں سری شنکر مرلی نے پیرس ڈائمنڈ لیگ جیسے باوقار انعقاد میں ملک کے لیے کانسہ کا تمغہ جیتا ہے۔ یہ اس مقابلے میں بھارت کا پہلا تمغہ ہے۔ ایسی ہی ایک کامیابی ہماری انڈر سیونٹین ویمن ریسلنگ ٹیم نے کرغزستان میں بھی درج کی ہے۔ میں ملک کے ان تمام ایتھلیٹوں، ان کے والدین اور کوچز کو، سبھی کو ان کی کوششوں کے لیے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، بین الاقوامی انعقاد ات میں ملک کی اس کامیابی کے پیچھے قومی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں کی سخت محنت ہوتی ہے۔ آج ملک کی مختلف ریاستوں میں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ کھیلوں کے انعقاد ات ہوتے ہیں ۔ ان سے کھلاڑیوں کو کھیلنے، جیتنے اور ہار سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسے ابھی اتر پردیش میں کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کا انعقاد ہوا ۔ اس میں نوجوانوں میں بہت جوش اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ ان کھیلوں میں ہمارے نوجوانوں نے گیارہ ریکارڈ توڑ ے ہیں۔ ان کھیلوں میں پنجاب یونیورسٹی، امرتسر کی گرو نانک دیو یونیورسٹی اور کرناٹک کی جین یونیورسٹی ، تمغوں کی تعداد میں پہلے تین مقامات پر رہی ہیں۔
ساتھیو، ایسے ٹورنامنٹ کا ایک بڑا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں نوجوان کھلاڑیوں کی کئی متاثر کن کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں۔ کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں روئنگ مقابلےمیں، آسام کی کاٹن یونیورسٹی کے انیتم راجکمار ایسے پہلے دویانگ کھلاڑی بنے، جنہوں نے اس میں حصہ لیا۔ برکت اللہ یونیورسٹی کی ندھی پویا گھٹنے کی شدید چوٹ کے باوجود شاٹ پٹ میں گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہیں۔ ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی کے شبھم بھنڈارے کو ٹخنے کی چوٹ کی وجہ سے گزشتہ سال بنگلورو میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن اس بار اسٹیپل چیس کے گولڈ میڈلسٹ بنے ہیں۔ بردوان یونیورسٹی کی سرسوتی کنڈو اپنی کبڈی ٹیم کی کپتان ہیں۔ وہ بہت سی مشکلات کو عبور کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کئی ایتھلیٹس کو ٹاپس اسکیم سے بھی کافی مدد مل رہی ہے۔ ہمارے کھلاڑی جتنے زیادہ کھیلیں گے ، اتنا ہی نکھریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 21 جون بھی اب آہی گیا ہے۔ اس بار بھی دنیا کے کونے کونے میں لوگ یوگا کے عالمی دن کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اس سال یوگا ڈے کا تھیم ہے – یوگا فار وسودھیو کٹمبکم یعنی ’ ایک کرہ ارض-ایک خاندان‘ کی شکل میں سب کی بہبود کے لیے یوگا۔ یہ یوگا کے اس جذبہ کی عکاسی کرتا ہے جو سب کو جوڑنے والا اور سبھی کو ساتھ لے کر چلنے والا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ملک کے کونے کونے میں یوگا سے متعلق پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔
ساتھیو، اس بار مجھے نیویارک کے اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹر، یو این میں منعقد ہونے والے یوگا ڈے کے پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر بھی یوگا ڈے کے حوالے سے زبردست جوش و خروش ہے۔
ساتھیو، میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ یوگا کو اپنی زندگی میں ضرور اپنائیں، اسے، اپنے روزمرہ کے معمول کا حصہ بنائیں۔ اگر آپ اب بھی یوگا سے جڑے نہیں ہیں، تو آنے والا 21 جون ، اس عہد کے لئے ایک بہترین موقع ہے۔ یوگا میں تو ویسے بھی زیادہ تام جھام کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھئے جب آپ یوگاسے جڑیں گے تو آپ کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آئے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، پرسوں یعنی 20 جون کو تاریخی رتھ یاترا کا دن ہے۔ رتھ یاترا کی پوری دنیا میں ایک الگ پہچان ہے۔ ملک کی الگ الگ ریاستوں سے بہت دھوم دھام سے بھگوان جگناتھ کی رتھ یاترا نکالی جاتی ہے۔ اڈیشہ کے پُری میں ہونے والی رتھ یاترا اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے۔ جب میں گجرات میں تھا تو مجھے احمد آباد میں ہونے والی عظیم رتھ یاترا میں شامل ہونے کا موقع ملتا تھا۔ ان رتھ یاتراؤں میں جس طرح سے ملک بھر کے لوگ، ہر سماج اور ہر طبقے کے لوگ جمع ہوتے ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یہ عقیدے کے ساتھ ہی 'ایک بھارت- شریسٹھ بھارت' کا بھی عکاس ہوتی ہے۔ اس پرمسرت اور مقدس موقع پر آپ سبھی کو میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔ میں دعا کرتا ہوں کہ بھگوان جگن ناتھ تمام ہم وطنوں کو اچھی صحت اور خوشحالی کا آشرواد عطا فرمائے۔
ساتھیو،بھارت کی روایت اور ثقافت سے جڑے تہواروں پر گفتگو کرتے ہوئے، میں ملک کے راج بھونوں میں ہوئی دلچسپ تقریبات کا بھی ضرور ذکر کروں گا۔ اب ملک میں راج بھونوں کی پہچان، سماجی اور ترقیاتی کام کاج سے ہونے لگی ہے۔ آج ہمارے راج بھون،ٹی بی سے پاک بھارت کی مہم کے، قدرتی کھیتی سے متعلق مہم کے، پرچم بردار بن رہے ہیں۔ ماضی میں گجرات ہو، گوا ہو، تلنگانہ ہو، مہاراشٹر ہو یا سکم ہو، ان کےیوم تاسیس کو الگ الگ راج بھونوں نے جس جوش کے ساتھ منایا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یہ ایک بہترین پہل ے جو ’ایک بھارت – شریٹھ بھارت‘ کے جذبے کو طاقتور بناتی ہے۔
ساتھیو،بھارت جمہوریت کی ماں ہے، مدر آف ڈیموکریسی ہے، ہم اپنے جمہوری قدروں کوبالاتر مانتے ہیں ۔ اپنے آئین کو سب سے اوپر مانتے ہیں۔ اس لئے ہم 25 جون کو بھی کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ یہ وہی دن ہے جب ہمارے ملک پر ایمرجنسی تھوپی گئی تھی۔ یہ بھارت کی تاریخ کا سیاہ دور تھا۔ لاکھوں لوگوں نے ایمرجنسی کی پوری طاقت سے مخالفت کی تھی۔ جمہوریت کے حامیوں پر اس دوران اتنا ظلم کیا گیا، اتنی اذیتیں دی گئیں ، کہ آج بھی دل کانپ اٹھتا ہے۔ ان مظالم پر پولیس اور انتظامیہ کے ذریعہ دی گئی سزاؤں پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مجھے بھی ’سنگھرش میں گجرات ‘ نامی ایک کتاب لکھنے کا اس وقت موقع ملا تھا۔ کچھ دنوں پہلے ہی ایمرجنسی پر لکھی گئی ایک اور کتاب میرے سامنے آئی جس کاعنوان ہے – ٹارچر آف پولیٹیکل پرزنرس اِن انڈیا ۔ ایمرجنسی کے دوران شائع ہونے والی اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ کیسے اس وقت کی سرکار جمہوریت کے رکھوالوں سے بے رحمانہ سلوک کررہی تھی۔ اس کتاب میں ڈھیر ساری کیس اسٹڈیز ہیں، بہت ساری تصویریں ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں تو ملک کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے والے ایسے جرائم کا بھی ضرور تجزیہ کریں ۔ اس سے آج کی نوجوان نسل کو جمہوریت کے معنی اور اس کی اہمیت سمجھنے میں اور زیادہ آسانی ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ رنگ برنگے موتیوں سے مزین ایک خوبصورت ہار ہےجس کا ہر موتی اپنے آپ میں انوکھااور بیش قیمت ہے۔ اس پروگرام کی ہر قسط بہت ہی زندہ ہوتی ہے۔ہمیں اجتماعیت کے جذبہ کے ساتھ ساتھ، سماج کے تئیں فرض کے جذبے اور خدمت کے جذبے سے بھرتا ہے۔ یہاں ان موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوتی ہے، جن کے بارے میں ہمیں عام طور پر کم ہی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ’من کی بات‘ میں کسی موضوع کا ذکر ہونےکے بعد کس طرح متعدد ہم وطنوں کو نئی تحریک ملی۔ حال ہی میں مجھے ملک کی مشہور ہندوستانی شاستریہ رقاصہ آنندہ شنکر جینت کا ایک خط ملا ، اپنے خط میں انہوں نے ’ من کی بات ‘ کے اس قسط کے بارے میں لکھا ہے جس میں ہم نے اسٹوری ٹیلننگ کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ اس پروگرام میں ہم نے اس شعبے سے جڑے لوگوں کی صلاحیت کو تسلیم کیا تھا۔ ’ من کی بات ‘ کے اس پروگرام سے تحریک لے کر آنندہ شنکر جینت نے ’ کُٹی کہانی‘ تیار کی ہے۔ یہ بچوں کے لیے الگ الگ زبانوں کی کہانیوں کا ایک بہترین انتخاب ہے۔ یہ کوشش اس لیے بھی بہت اچھی ہے کیونکہ اس سے ہمارے بچوں کا اپنی ثقافت سے لگاؤ مزیدگہرا ہوتا ہے۔ انہوں نے ان کہانیوں کے کچھ دلچسپ ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پر بھی اپ لوڈ کیے ہیں۔ میں نے آنندہ شنکر جینت کی اس کوشش کا خاص طورسے اس لئے ذکر کیا کیونکہ یہ دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا کہ کس طرح ہم وطنوں کے اچھے کام دوسروں کو بھی متحرک کر رہے ہیں۔ اس سے سیکھ کر وہ بھی اپنے ہنر سے ملک اور سماج کے لیے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی تو ہم بھارت کے لوگوں کی اجتماعی طاقت ہے، جو ملک کی پیش رفت میں نئی توانائی بھررہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں میرے ساتھ اتنا ہی۔ اگلی بار نئے موضوعات کے ساتھ ، آپ سے ، پھر ملاقات ہوگی۔ بارش کا وقت ہے، اس لئے اپنی صحت کا خوب خیال رکھیئے۔ متوازن غذا کھائیے اور صحت مند رہیئے۔ ہاں ! یوگا ضرور کیجئے۔ اب کئی اسکولوں میں گرمی کی چھٹیاں بھی ختم ہونے والی ہیں۔ میں بچوں سے بھی کہوں گا کہ ہوم ورک آخری دن کے لئے پینڈنگ نہ رکھیں۔ کام ختم کیجئے اور بے فکر رہیئے۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنوں کو نمسکار ! ایک بار پھر، 'من کی بات' میں آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے ۔ اس بار 'من کی بات' کا یہ ایپیسوڈ دوسری صدی کا آغاز ہے۔ پچھلے مہینے ہم سب نے اس کی خصوصی صدی منائی تھی ۔ آپ کی شرکت اس پروگرام کی سب سے بڑی قوت ہے، 100ویں ایپیسوڈ کے نشر ہونے کے وقت ایک طرح سے پورا ملک ایک دھاگے میں بندھ گیا تھا۔ہمارے صفائی ورکر بھائی بہن ہوں یا الگ الگ شعبوں کی اہم شخصیات ، ’ من کی بات ‘ نے سب کو ساتھ لانے کا کام کیا ہے۔ آپ سب نے 'من کی بات' کے لیے جو قربت اور پیار دکھایا ہے وہ بے مثال ہے اور جذباتی کر دینے والا ہے۔ جب 'من کی بات' نشر ہوئی تو اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ٹائم زونز میں کہیں شام ہو رہی تھی اور کہیں رات ہو چکی تھی، اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے 100ویں ایپیسوڈ کو سننے کے لیے وقت نکالا ۔ میں نے ہزاروں میل دور نیوزی لینڈ کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ، جس میں ایک سو سال کی بزرگ ماتا جی اپنا آشیرواد دے رہی ہیں ۔ 'من کی بات' پر ملک اور بیرون ملک سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے تعمیری تجزیہ بھی کیا ہے۔ لوگوں نے اس بات کی تعریف کی ہے کہ 'من کی بات' میں صرف ملک اور اہل وطن کی کامیابیوں کی ہی بات کی جاتی ہے۔ میں ایک بار پھر اس آشیرواد کے لیے پورے احترام کے ساتھ آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، گذشتہ دنوں میں ہم نے 'من کی بات' میں کاشی-تمل سنگم، سوراشٹر-تمل سنگم کے بارے میں بات کی۔ کچھ وقت پہلے ہی وارانسی میں کاشی-تیلگو سنگمم بھی ہوا تھا۔ ایسی ہی ایک انوکھی کوشش ملک میں ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کو تقویت دینے کے لیے کی گئی ہے۔ یہ کوشش ہے ، یووا سنگم کی ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بارے میں ان لوگوں سے تفصیل سے پوچھا جائے ، جو اس انوکھی کوشش کا حصہ رہے ہیں۔ اس لیے ابھی میرے ساتھ فون پر دو نوجوان جڑے ہوئے ہیں - ایک اروناچل پردیش سے گیامر نیوکُم جی اور دوسری بیٹی ہے ، بہار کی بٹیا کی وشاکھا سنگھ جی ۔ آئیے پہلے گیامر نیوکُم سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: گیامر جی، نمستے!
گیامر جی: نمستے مودی جی!
وزیر اعظم: اچھا گیامر جی، سب سے پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔
گیامر جی – مودی جی، سب سے پہلے میں آپ کا اور حکومت ہند کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنا بہت قیمتی وقت نکالا اور مجھے بات کرنے کا موقع دیا، میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، اروناچل پردیش میں مکینیکل انجینئرنگ کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: اور والد وغیرہ خاندان میں کیا کرتے ہیں ؟
گیامر جی: جی ، میرے والد چھوٹے موٹے بزنس اور اس کے بعد فارمنگ میں سب کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: آپ کو یووا سنگم کے بارے میں کیسے پتہ چلا، آپ یووا سنگم کہاں گئے، کیسے گئے، کیا ہوا؟
گیامر جی: مودی جی، مجھے یووا سنگم کے بارے میں ، ہمارا جو انسٹی ٹیوٹ ہے ، جو این آئی ٹی ہیں ، انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ اس میں شرکت کر سکتے ہیں تو میں نے تھوڑا انٹرنیٹ میں سرچ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت اچھا پروگرام ہے، جو میرے ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے ویژن میں بہت زیادہ تعاون کر سکتا ہے اور مجھے فوراً کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے گا، پھر میں نے ویب سائٹ پر جا کر اس میں اینرول کرا ۔ میرا تجربہ بہت ہی مزیدار رہا ، بہت ہی اچھا تھا ۔
وزیراعظم: کیا آپ کو کوئی سلیکشن کرنا تھا؟
گیامر جی: مودی جی ، جب ویب سائٹ کھولا تھا تو اروناچل کے لوگوں کے لیے دو آپشن تھے۔ پہلا تھا ، آندھرا پردیش ، جس میں آئی آئی ٹی تروپتی تھا اور دوسرا تھا ، سنٹرل یونیورسٹی، راجستھان ۔ تو میں نے راجستھان میں کیا تھا ، اپنا فرسٹ پریفرینس ۔ دوسری ترجیح میں نے آئی آئی ٹی تروپتی کو دی تھی تو میں راجستھان کے لیے سلیکٹ ہوا اور میں راجستھان گیا تھا ۔
وزیر اعظم: آپ کا راجستھان دورہ کیسا رہا؟ آپ پہلی بار راجستھان گئے تھے!
گیامر جی: جی ، میں پہلی بار اروناچل سے باہر گیا تھا، میں نے راجستھان کے ان تمام قلعوں کو صرف فلموں میں اور فون پر دیکھا تھا، اس لیے جب میں پہلی بار گیا تو وہاں بہت سے لوگوں کا تجربہ ہوا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں اور جو ہمیں ٹریٹمنٹ دیا ، بہت ہی زیادہ اچھے تھے ۔ ہمیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں ۔ راجستھان کی بڑی بڑی جھیلیں اور وہاں کے لوگ کیسے رین واٹر ہارویسٹنگ کرتے ہیں ، بہت کچھ نیا نیا سیکھنے کو ملا ، جو مجھے بالکل ہی معلوم نہیں تھا تو یہ پروگرام میرے لیے بہت ہی اچھا تھا ، راجستھان کا دورہ ۔
وزیر اعظم: دیکھیں، آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اروناچل بھی بہادروں کی سرزمین ہے، راجستھان بھی بہادروں کی سرزمین ہے اور فوج میں راجستھان کے لوگ بڑی تعداد میں ہیں اور اروناچل میں سرحد پر جو فوجی ہیں ، اُن میں جب بھی راجستھان کے لوگ ملیں گے تو آپ ضرور ، اُن سے بات کریں گے کہ دیکھیے ، میں راجستھان گیا تھا، تو ایسا تجربہ تھا ، تو آپ کی قربت ایکدم سے بڑھ جائے گی۔ اچھا ، آپ کو وہاں کوئی یکسانیت بھی دھیان میں آئی ہوگی ، آپ کو لگا ہوگا کہ ہاں یار یہ تو اروناچل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
گیامر جی: مودی جی، مجھے ایک مماثلت یہ ملی کہ ملک سے محبت کا نعرہ اور ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا ویژن اور وہ احساس ، جو میں نے دیکھا کیونکہ اروناچل میں بھی لوگ اپنے آپ پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ ایک بھارتی ہیں اور اس لیے راجستھان میں بھی لوگ اپنی مادر وطن کے لیے بہت فخر محسوس کرتے ہیں، وہ چیز مجھے بہت زیادہ نظر آئی اور خاص طور پر ، جو نوجوان نسل ہے ۔ میں نے وہاں کے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کی ، تو وہ چیز ، جو مجھے بہت یکسر نظر آئی کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے لیے ، جو کچھ کرنے کا اور جو اپنے ملک کے لیے محبت ہے ، وہ چیز مجھے بہت ہی دونوں ریاستوں میں بہت ہی یکسانیت نظر آئی ۔
وزیر اعظم: تو وہاں ، جو دوست ملے ہیں ، اُن سے تعارف بڑھایا یا آکر کے بھول گئے ؟
گیامر جی: نہیں، ہم نے بڑھایا ، تعارف کیا ۔
وزیراعظم: جی ہاں...! تو کیا آپ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہیں؟
گیامر جی: ہاں مودی جی، میں ایکٹیو ہوں۔
وزیر اعظم: تو آپ کو ایک بلاگ لکھنا چاہیے، اس یووا سنگم کا آپ کا تجربہ کیسا رہا، آپ نے اس میں کیسے داخلہ لیا، راجستھان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا، تاکہ ملک کے نوجوانوں کو ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی عظمت کا پتہ چل سکے۔ یہ کیسی اسکیم ہے؟ نوجوان اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اپنے تجربے سے بھرپور بلاگ لکھیں، پھر بہت سے لوگوں کے لیے پڑھنا مفید ہوگا۔
گیامر جی: جی ، میں ضرور کروں گا۔
وزیر اعظم: گیامر جی، آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہوئی اور آپ سبھی نوجوانوں کو ملک کے لیے، ملک کے تابناک مستقبل کے لیے، کیونکہ یہ 25 سال بہت اہم ہیں - آپ کی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی زندگی میں بھی ، تو میری بہت بہت نیک خواہشات ، شکریہ ۔
گیامر جی: مودی جی آپ کا بھی شکریہ۔
وزیراعظم: نمسکار بھیاّ ۔
دوستو، اروناچل کے لوگ اتنے گرمجوش ہیں کہ مجھے ان سے بات کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یواا سنگم میں گیامر جی کا تجربہ شاندار رہا۔ آؤ، اب بات کرتے ہیں بہار کی بیٹی وشاکھا سنگھ جی سے۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، نمسکار۔
وشاکھا جی: سب سے پہلے، بھارت کے معزز وزیر اعظم کو میرا سلام اور میرے ساتھ تمام مندوبین کی طرف سے آپ کو بہت بہت سلام۔
وزیر اعظم: اچھا وشاکھا جی، پہلے اپنے بارے میں بتائیں۔ پھر میں یووا سنگم کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
وشاکھا جی: میں بہار کے ساسارام شہر کی رہنے والی ہوں اور مجھے یووا سنگم کے بارے میں سب سے پہلے اپنے کالج کے واٹس ایپ گروپ کے پیغام کے ذریعے معلوم ہوا۔ تو اس کے بعد مجھے اس کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم ہوئیں، یہ کیا ہے؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ وزیر اعظم کی اسکیم 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کے ذریعے نوجوانوں کا سنگم ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے اپلائی کیا اور جب میں نے اپلائی کیا تو میں اس میں شامل ہونے کے لیے پرجوش تھی لیکن جب وہاں سے گھوم کر تمل ناڈو جاکر واپس آئی ۔ وہ جو ایکسپوژر ، میں نے گین کیا ، اس کے بعد مجھے ا بھی بہت زیادہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں اس پروگرام کا حصہ رہی ہوں، اس لیے مجھے اس پروگرام میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی اور میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے اتنا شاندار پروگرام بنایا ، جس سے ہم بھارت کے مختلف حصوں کی ثقافت کو اپنا سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم: وشاکھا جی، آپ کیا پڑھتی ہیں؟
وشاکھا جی: میں کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی دوسرے سال کی طالبہ ہوں۔
وزیر اعظم: ٹھیک ہے وشاکھا جی، آپ کو کس ریاست میں جانا ہے، کہاں جانا ہے؟ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا؟
وشاکھا جی: جب میں نے اس یووا سنگم کے بارے میں گوگل پر سرچ کرنا شروع کیا، تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ بہار کے مندوبین کا تبادلہ تمل ناڈو کے مندوبین سے ہو رہا ہے۔ تمل ناڈو ہمارے ملک کی ثقافت سے مالا مال ایک ریاست ہے ، تو اس وقت بھی ، جب میں نے جانا ، یہ دیکھا کہ بہار سے لوگوں کو تمل ناڈو بھیجا جا رہا ہے، تو اس نے مجھے فیصلہ کرنے میں بہت مدد کی کہ مجھے فارم بھرنا چاہیئے ، وہاں جانا چاہیے یا نہیں اور سچ میں آج میں بہت زیادہ فخر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس میں حصہ لیا اور مجھے بہت خوشی ہے ۔
وزیر اعظم: آپ کا پہلی بار جانا ہوا تھا تمل ناڈو ؟
وشاکھا جی: جی ، میں پہلی بار گئی تھی۔
وزیراعظم: اچھا، اگر آپ کوئی خاص یادگار بات کہنا چاہتی ہیں، تو آپ کیا کہیں گی ؟ ملک کے نوجوان آپ کی بات سن رہے ہیں۔
وشاکھا جی: ہاں، اگر ہم پورے سفر پر غور کریں تو یہ میرے لیے بہت اچھا رہا ہے۔ ہر مرحلے پر، ہم نے بہت اچھی چیزیں سیکھی ہیں۔ میں نے تمل ناڈو میں جاکر اچھے دوست بنائے ہیں۔ وہاں کے کلچر کو اپنایا ہے۔ میں وہاں کے لوگوں سے ملی ہوں لیکن سب سے اچھی چیز ، جو مجھے وہاں ملی وہ یہ ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اسرو جانے کا موقع نہیں ملتا اور ہم ڈیلیگیٹ تھے اس لیے ہمیں اسرو میں جانے کا موقع ملا، دوسری بات سب سے اچھی تھی کہ جب ہم راج بھون میں گئے اور ہم تمل ناڈو کے گورنر جی سے ملے تو وہ دو موقع تھے ، میرے لیے کافی اچھا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ جس عمر میں ہم ہیں، ہمیں وہ موقع نہیں ملتا ، جو ہمیں یووا سنگم کے ذریعے ملا۔ تو یہ میرے لیے بہترین اور یادگار لمحہ تھا۔
وزیر اعظم: بہار میں کھانے کا طریقہ الگ ہے، تمل ناڈو میں کھانے کا طریقہ الگ ہے۔
وشاکھا جی: جی ۔
وزیراعظم: تو وہ سیٹ ہو گیا تھا پوری طرح ؟
وشاکھا جی: جب ہم وہاں گئے تو تمل ناڈو میں جنوبی ہند کے کھانے ہیں چنانچہ جیسے ہی ہم وہاں گئے ہمیں ڈوسا، اڈلی، سانبھر ، اُتپم، وڈا، اپما پیش کیا گیا۔ اس لیے جب ہم نے پہلی بار اسے ٹرائی کرا تو یہ بہت مزے کا تھا ! وہاں کا جو کھانا ہے ، وہ بہت صحت بخش ہے، حقیقت میں یہ ذائقے میں بہت اچھا ہے اور یہ ہمارے شمال کے کھانے سے بہت مختلف ہے، اس لیے مجھے وہاں کا کھانا بھی بہت اچھا لگا اور وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے لگے ۔
وزیر اعظم: تو اب تمل ناڈو میں بھی آپ کے دوست بن گئے ہوں گے؟
وشاکھا جی: جی ! جی! ہم وہاں پر رکے تھے ، این آئی ٹی تریچی میں ۔ اس کے بعد آئی آئی ٹی مدراس میں، ان دونوں جگہوں کے طلبا سے میری دوستی ہوگئی، اس کے علاوہ درمیان میں سی آئی آئی کی ایک استقبالیہ تقریب تھی، تو قریب کے کالجوں سے بھی کافی طلبا موجود تھے ، طالب علم آئے تھے تو وہاں ہم نے ان طلباء سے بھی بات چیت کی اور مجھے ان سے مل کر بہت خوشی محسوس ہوئی، ان میں سے بہت سے میرے دوست بھی ہیں اور تمل ناڈو سے بہار آنے والے کچھ مندوبین سے بھی ملاقات کی، تو ہم نے ان کے ساتھ بھی بات چیت کی اور ہم اب بھی ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، اس لیے میں بہت خوش ہوں۔
وزیر اعظم: تو وشاکھا جی، آپ ایک بلاگ لکھیں اور سوشل میڈیا پر اس یووا سنگم کا پورا تجربہ شیئر کریں، پھر 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کا اور پھر تمل ناڈو میں آپ کو جو اپنا پن ملا ، آپ کا استقبال اور مہمان نوازی ہوئی ، تمل لوگوں کا پیار ملا، یہ سب باتیں ملک کو بتائیں۔ تو آپ لکھیں گی ؟
وشاکھا جی: جی بالکل!
وزیر اعظم: تو میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور آپ کا بہت بہت شکریہ۔
وشاکھا جی: جی بہت شکریہ۔ نمسکار ۔
گیامر اور وشاکھا کے لیے میری بہت بہت نیک خواہشات ، جو کچھ آپ نے یووا سنگم میں سیکھا ہے وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔ یہ آپ سب کے لیے میری نیک خواہش ہے۔
دوستو، بھارت کی قوت اس کے تنوع میں پنہاں ہے۔ ہمارے ملک میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تعلیم نے 'یوواسنگم' کے نام سے ایک بہترین پہل کی ہے۔ اس اقدام کا مقصد پیپل ٹو پیپل کنیکٹ کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ مختلف ریاستوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ 'یوواسنگم' میں نوجوان دوسری ریاستوں کے شہروں اور گاؤوں کا دورہ کرتے ہیں، انہیں مختلف قسم کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ یووا سنگم کے پہلے دور میں تقریباً 1200 نوجوانوں نے ملک کی 22 ریاستوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ تمام نوجوان ، جو اس کا حصہ رہے ہیں، ایسی یادیں لے کر لوٹ رہے ہیں، جو زندگی بھر ان کے دلوں میں رہیں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی بڑی کمپنیوں کے سی ای او، بزنس لیڈرز، انہوں نے بھارت میں بیگ پائپر کے طور پر وقت گزارا ہے۔ جب میں دوسرے ممالک کے لیڈروں سے ملتا ہوں تو کئی بار وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی میں بھارت کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے بھارت میں جاننے اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے کہ آپ کا تجسس ہر بار بڑھتا ہی جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ ان دلچسپ تجربات کو جاننے کے بعد، آپ کو بھی یقیناً ملک کے مختلف حصوں کا سفر کرنے کی ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں تھا، وہاں مجھے ہیروشیما پیس میموریل میوزیم دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ ایک جذباتی تجربہ تھا۔ جب ہم تاریخ کی یادوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں تو اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بہت مدد ملتی ہے۔ کبھی ہمیں میوزیم میں نئے اسباق ملتے ہیں اور کبھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ چند روز قبل بھارت میں انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں دنیا کے 1200 سے زیادہ عجائب گھروں کی خصوصیات کو دکھایا گیا تھا ۔ ہمارے پاس بھارت میں بہت سے مختلف قسم کے عجائب گھر ہیں، جو ہمارے ماضی سے متعلق بہت سے پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے، گروگرام میں ایک انوکھا میوزیم ہے - موزیو کیمرہ، اس میں 1860 کے بعد کے 8 ہزار سے زیادہ کیمروں کا کلیکشن موجود ہے۔ اس طرح تمل ناڈو کے میوزیم آف پوسیبلٹیز کو ہمارے دِویانگ جنوں کو دھیان میں رکھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ ممبئی کا چھترپتی شیواجی مہاراج واستو سنگرہالیہ ایسا میوزیم ہے، جس میں 70 ہزار سے زیادہ چیزیں محفوظ کی گئی ہیں۔ سال 2010 ء میں قائم کیا گیا، انڈین میموری پروجیکٹ ایک قسم کا آن لائن میوزیم ہے۔ وہ جو دنیا بھر سے بھیجی گئی تصویروں اور کہانیوں کے ذریعے بھارت کی شاندار تاریخ کی کڑیوں کو جوڑنے میں مصروف ہے۔ تقسیم کی ہولناکیوں سے جڑی یادوں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے سالوں میں بھی ہم نے بھارت میں نئی قسم کے عجائب گھر اور یادگاریں بنتے دیکھی ہیں۔ جنگ آزادی میں قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے تعاون کے لیے دس نئے عجائب گھر قائم کیے جا رہے ہیں۔ کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں بپلوبی بھارت گیلری ہو یا جلیانوالہ باغ کی یادگار کی بحالی، ملک کے تمام سابق وزرائے اعظم کے لیے وقف پی ایم میوزیم بھی آج دلّی کی شان میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر روز بہت سے لوگ دلّی میں ہی نیشنل وار میموریل اور پولیس میموریل میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ چاہے وہ تاریخی ڈانڈی مارچ کے لیے وقف ڈانڈی کی یادگار ہو یا اسٹیچو آف یونٹی میوزیم۔ ویسے مجھے یہیں رکنا پڑے گا کیونکہ ملک بھر کے عجائب گھروں کی فہرست بہت طویل ہے اور پہلی بار ملک کے تمام عجائب گھروں کے بارے میں ضروری معلومات بھی مرتب کی گئی ہیں، یہ میوزیم کس موضوع پر مبنی ہے، کس قسم کا ہے؟ کیسی اشیاء وہاں رکھی جاتی ہیں رابطہ کی تفصیلات کیا ہیں - یہ سب ایک آن لائن ڈائریکٹری میں موجود ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی آپ کو موقع ملے آپ اپنے ملک کے ان عجائب گھروں کو ضرور دیکھیں۔ وہاں کی دلکش تصاویر ’’# میوزیم میموریز ‘‘ پر شیئر کرنا نہ بھولیں۔ اس سے ہم بھارتیوں کا ہماری شاندار ثقافت سے تعلق مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب نے ایک کہاوت کئی بار سنی ہو گی، بار بار سنی ہو گی- پانی کے بغیر سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی پر ہمیشہ بحران رہتا ہے، فرد اور ملک کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔ مستقبل کے اس چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے ، آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا امرت سروور اس لیے خاص ہے کہ اسے آزادی کے امرت دور میں بنایا جا رہا ہے اور اس میں لوگوں کی امرت کاوشیں ڈالی گئی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اب تک 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
دوستو، ہم ہر موسم گرما میں پانی سے متعلق چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بار بھی ہم اس موضوع پر بات کریں گے لیکن اس بار ہم پانی کے تحفظ سے متعلق اسٹارٹ اپس کے بارے میں بات کریں گے۔ ایک اسٹارٹ اپ – فلکس جین ہے۔ یہ اسٹارٹ اپ آئی او ٹی والی تکنیک کے ذریعے پانی کے بندوبست کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پانی کے استعمال کے نمونے بتائے گی اور پانی کے موثر استعمال میں مدد کرے گی۔ ایک اور اسٹارٹ اپ لائیو این سینس ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پر مبنی ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مدد سے پانی کی تقسیم کی موثر نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ کہاں اور کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ ' کُمبھی کاغذ' ہے۔ یہ کمبھی کاغذ ایک ایسا ہی موضوع ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ بہت پسند آئے گا۔ 'کُنبھی کاغذ' اسٹارٹ اپ نے ایک خاص کام شروع کیا ہے۔ وہ جل کمبھی سے کاغذ بنانے پر کام کر رہے ہیں، یعنی جل کمبھی جو کبھی آبی ذخائر کے لیے مسئلہ سمجھی جاتی تھی، اب کاغذ بنانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
دوستو، اگر بہت سے نوجوان اختراعات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کر رہے ہیں، تو بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو چھتیس گڑھ کے بلود ضلع کے نوجوانوں کی طرح سماج کو بیدار کرنے کے مشن میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کے نوجوانوں نے پانی بچانے کی مہم شروع کی ہے۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو پانی کے تحفظ سے آگاہ کرتے ہیں۔ کہیں شادی جیسی تقریب ہوتی ہے تو نوجوانوں کا یہ گروپ وہاں جا کر معلومات دیتا ہے کہ پانی کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے کھنٹی ضلع میں بھی پانی کے موثر استعمال سے متعلق ایک متاثر کن کوشش ہو رہی ہے۔ کھنٹی کے لوگوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بوری ڈیم سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ بوری ڈیم سے پانی جمع ہونے سے یہاں ساگ سبزیاں بھی اگنا شروع ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور علاقے کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ کھنٹی اس بات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے کہ کس طرح عوامی شرکت کی کوئی بھی کوشش اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں لاتی ہے۔ میں اس کوشش کے لیے یہاں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 1965 ء کی جنگ کے دوران ہمارے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی نے جئے جوان، جئے کسان کا نعرہ دیا تھا۔ بعد میں اٹل جی نے اس میں جئے وگیان کو بھی شامل کیا تھا۔ کچھ سال پہلے میں نے ملک کے سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے ، جئے انوسندھان کے بارے میں بات کی تھی۔ 'من کی بات' میں، آج ہم نے ایک ایسے شخص، ایسی تنظیم کے بارے میں بات کی، جو ان چاروں، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان اور جئے انوسندھان کے تئیں عہد بستہ ہیں ۔ یہ شخص ہیں ، مہاراشٹر کے جناب شیواجی شامراؤ ڈولے جی ۔ شیواجی ڈولے کا تعلق ناسک ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ ایک غریب قبائلی کسان خاندان سے آتے ہے اور ایک سابق فوجی بھی ہیں ۔ فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی ملک کے لیے وقف کر دی، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کچھ نیا سیکھنے کا فیصلہ کیا اور زراعت میں ڈپلومہ کیا یعنی وہ جئے جوان سے جئے کسان میں چلے گئے۔ اب ہر لمحہ ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ حصہ کیسے لیا جائے۔ اس مہم میں شیواجی ڈولے جی نے 20 لوگوں کی ایک چھوٹی ٹیم بنائی اور اس میں کچھ سابق فوجیوں کو شامل کیا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے وینکٹیشورا کوآپریٹو پاور اینڈ ایگرو پروسیسنگ لمیٹیڈ نام کی ایک کوآپریٹو تنظیم کا انتظام سنبھالا ، یہ کوآپریٹو تنظیم غیر فعال تھی، جسے انہو ں نے بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آج وینکٹیشورا کوآپریٹیو نے بہت سے اضلاع میں توسیع کی ہے۔ آج یہ ٹیم مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کام کر رہی ہے۔ تقریباً 18,000 لوگ اس سے وابستہ ہیں ، جن میں ہمارے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس ٹیم کے ارکان ناسک کے مالیگاؤں میں 500 ایکڑ سے زیادہ اراضی میں ایگرو فارمنگ کر رہے ہیں۔ یہ ٹیم پانی کے تحفظ کے لیے کئی تالاب بنانے میں بھی لگی ہوئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس نے آرگینک فارمنگ اور ڈیری بھی شروع کی ہے۔ اب اس کے اگائے ہوئے انگور یوروپ کو بھی برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اس ٹیم کی دو بڑی خصوصیات، جنہوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی، یہ ہیں - جئے وگیان اور جئے انوسندھان۔ اس کے اراکین ٹیکنالوجی اور جدید زرعی طریقوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ برآمدات کے لیے ضروری مختلف سرٹیفیکیشنز پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ میں 'تعاون کے ذریعے خوشحالی' کے جذبے کے ساتھ کام کرنے والی اس ٹیم کی ستائش کرتا ہوں۔ اس کوشش نے نہ صرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بااختیار بنایا ہے بلکہ روزی روٹی کے بہت سے ذرائع بھی پیدا کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کوشش 'من کی بات' کے ہر سننے والے کو متاثر کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 مئی عظیم مجاہد آزادی ویر ساورکر جی کا یوم پیدائش ہے۔ ان کی قربانی، ہمت اور عزم و استقلال سے جڑی کہانیاں آج بھی ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ میں وہ دن نہیں بھول سکتا ، جب میں انڈمان کے اس سیل میں گیا ، جہاں ویر ساورکر نے کالاپانی کی سزا کاٹی تھی ۔ ویر ساورکر کی شخصیت پختگی اور عظمت سے پُر تھی۔ ان کی نڈر اور خوددار طبیعت کو غلامی کی ذہنیت بالکل پسند نہ تھی۔ نہ صرف تحریک آزادی بلکہ ویر ساورکر نے سماجی مساوات اور سماجی انصاف کے لیے جو کچھ بھی کیا اسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
دوستو، کچھ دنوں بعد 4 جون کو سنت کبیر داس جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کبیرداس جی کا دکھایا ہوا راستہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کبیرداس جی کہا کرتے تھے :
"کبیرا کنواں ایک ہے، پانی بھرے انیک ۔
برتن میں ہی بھید ہے ، پانی سب میں ایک ۔ ‘‘
یعنی کنویں پر اگرچہ طرح طرح کے لوگ پانی بھرنے کے لیے آتے ہیں لیکن کنواں کسی میں فرق نہیں کرتا، پانی تو سبھی برتنوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ سنت کبیر نے سماج کو تقسیم کرنے والے ہر برے عمل کی مخالفت کی، سماج کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ آج جب ملک ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو ہمیں سنت کبیر سے تحریک لیتے ہوئے سماج کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں ، جنہوں نے سیاست اور فلم جگت میں اپنی شاندار شخصیت کے بل پر انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔ اس عظیم شخصیت کا نام ہے ، این ٹی راما راؤ ، جنہیں ہم سب این ٹی آر کے نام سے جانتے ہیں۔ آج این ٹی آر کی 100 ویں یوم پیدائش ہے۔ اپنی کثیر رخی شخصیت کی وجہ سے وہ نہ صرف تیلگو سنیما کے سپر اسٹار بن گئے بلکہ کروڑوں لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا تھا ۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے بل بوتے پر کئی تاریخی کرداروں کو زندہ کیا۔ بھگوان کرشن، رام اور اس طرح کے دیگر کئی کرداروں میں لوگوں نے این ٹی آر کی اداکاری کو اتنا پسند کیا کہ لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ این ٹی آر نے سنیما کی دنیا کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنی الگ شناخت بنائی تھی۔ یہاں بھی انہیں لوگوں کی طرف سے بے پناہ محبت اور آشیرواد ملا ۔ ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا کرنے والے این ٹی راما راؤ جی کے تئیں میں عاجزانہ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 'من کی بات' میں اتنا ہی ۔ اگلی بار کچھ نئے موضوعات لے کر آؤں گا، تب تک کچھ علاقوں میں گرمی بڑھ چکی ہوگی۔ کہیں بارش بھی شروع ہو جائے گی۔ آپ کو ہر موسم میں اپنی صحت کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہم 21 جون کو 'ورلڈ یوگا ڈے' بھی منائیں گے۔ اس کے لیے ملک اور بیرون ملک بھی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کے بارے میں بھی آپ مجھے اپنی 'من کی بات' لکھتے رہیں۔ اگر آپ کسی اور موضوع پر مزید معلومات حاصل کریں تو مجھے بھی بتائیں۔ میری کوشش ہوگی کہ 'من کی بات' میں زیادہ سے زیادہ تجاویز لے سکوں۔ ایک بار پھر آپ سب کا بہت شکریہ۔ اگلے مہینے ملتے ہیں، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔
نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج 'من کی بات' کا 100 واں ایپیسوڈ ہے ۔ مجھے آپ سب کے ہزاروں خطوط موصول ہوئے ہیں، لاکھوں پیغامات ملے ہیں اور میں نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خطوط پڑھوں، انہیں دیکھوں، پیغامات کو ذرا سمجھنے کی کوشش کروں۔ آپ کے خط پڑھتے ہوئے کئی بار میں جذباتی ہوا، جذبات سے لبریز ہوا، جذبات میں بہہ گیا اور خود کو بھی سنبھالا۔ آپ نے مجھے 'من کی بات' کی 100ویں قسط پر مبارکباد دی ہے لیکن میں سچے دِل سے کہتا ہوں کہ در اصل مبارکباد کے مستحق تو آپ سبھی 'من کی بات' کے سننے والے ہمارے ہم وطن ہیں ۔ 'من کی بات' کروڑوں بھارتیوں کی 'دِل کی بات' ہے، یہ ان کے جذبات کی عکاسی ہے۔
ساتھیو ، 3 اکتوبر ، 2014 ء کو وجے دشمی کا تہوار تھا اور ہم سب نے مل کر وجے دشمی کے دن 'من کی بات' کا سفر شروع کیا تھا ۔ وجے دشمی کا مطلب ہے برائی پر اچھائی کی جیت کا تہوار۔ 'من کی بات' بھی ہم وطنوں کی اچھائیوں اور مثبتیت کا ایک منفرد تہوار بن گیا ہے۔ ایسا ہی ایک تہوار ، جو ہر مہینے آتا ہے، جس کا ہم سبھی کو انتظار ہوتا ہے ۔ ہم اس میں مثبتیت کا جشن مناتے ہیں۔ ہم اس میں لوگوں کی شرکت کا بھی جشن مناتے ہیں۔ کبھی کبھی یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ 'من کی بات' کو اتنے مہینے اور اتنے سال گزر چکے ہیں۔ ہر ایپیسوڈ اپنے آپ میں خاص رہا ۔ ہر بار نئی مثالوں کی نوید، ہر بار وطن عزیز کی نئی کامیابیوں کی توسیع ۔ 'من کی بات' میں ملک کے کونے کونے سے ہر عمر کے لوگ شامل ہوئے۔ چاہے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی بات ہو ، سووچھ بھارت مہم ہو ، کھادی سے محبت ہو یا فطرت کی بات ہو ، آزادی کا امرت مہوتسو ہو یا امرت سروور کی بات ہو ، 'من کی بات' ، جس موضوع سے جڑی ، وہ عوامی تحریک بن گئی اور آپ لوگوں نے بنا دیا ۔ جب میں نے اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ 'من کی بات' شیئر کی تو پوری دنیا میں اس کا چرچا ہوا۔
ساتھیو ، 'من کی بات' میرے لیے دوسروں کی خوبیوں کی پوجا کرنے کی طرح ہی رہا ہے۔ میرے ایک رہنما تھے - جناب لکشمن راؤ جی انعامدار۔ ہم انہیں وکیل صاحب کہا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دوسروں کی خوبیوں کی پرستش کرنی چاہیے۔ کوئی بھی آپ کے سامنے ہو، آپ کے ساتھ ہو، آپ کا مخالف ہو، ہمیں ان کی خوبیوں کو جاننے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کی یہ بات ہمیشہ مجھے متاثر کرتی رہی ہے۔ 'من کی بات' دوسروں کی خوبیوں سے سیکھنے کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس پروگرام نے مجھے آپ سے کبھی دور نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو وہاں عام لوگوں سے ملنا جلنا فطری طور پر ہو ہی جاتا تھا۔ وزیراعلیٰ کا کام کاج اور آفس ایسا ہی ہوتا ہے، ملاقات کے بہت مواقع ملتے رہتے ہیں لیکن 2014 ء میں دلّی آنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہاں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ کام کی نوعیت مختلف ہے، ذمہ داریاں مختلف ہیں، صورتِ حال کی پابندی ، سکیورٹی کا تام جھام ، وقت کی حد۔ ابتدائی دنوں میں کچھ مختلف محسوس ہوا، خالی خالی سا محسوس کرتا تھا ۔ پچاس سال پہلے میں نے اپنا گھر اس لیے نہیں چھوڑا تھا کہ ایک دن اپنے ہی ملک کے لوگوں سے رابطہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اہل وطن ، جو میرا سب کچھ ہیں، میں ان سے جدا نہیں رہ سکتا۔ 'من کی بات' نے مجھے اس چیلنج کا حل دیا، عام آدمی سے جڑنے کا ایک طریقہ فراہم کیا ۔ دفتر اور پروٹوکول نظام تک محدود رہا اور عوامی جذبات، کروڑوں عوام کے ساتھ، میرے جذبات، دنیا کا لازم و ملزوم حصہ بن گئے۔ میں ہر ماہ ملک کے لوگوں کے ہزاروں پیغامات پڑھتا ہوں، ہر ماہ مجھے اہل وطن کا ایک شاندار روپ نظر آتا ہے۔ میں ہم وطنوں کے تپ اور تیاگ کی انتہا کو دیکھتا ہوں اور محسوس کر تا ہوں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں لگتا کہ میں آپ سے ذرا بھی دور ہوں۔ میرے لیے 'من کی بات' کوئی پروگرام نہیں، میرے لیے یہ ایک عقیدت ، پوجا ، وَرَت ہے۔ جیسے لوگ ایشور کی پوجا کرنے جاتے ہیں تو پرساد کی تھال لاتے ہیں ۔ میرے لیے 'من کی بات' ایشور کی صورت میں عوام کے قدموں میں پرساد کی تھال کی طرح ہے ۔ 'من کی بات' میرے دِل کا روحانی سفر بن گیا ہے۔
‘मन की बात’ स्व से समिष्टि की यात्रा है।
‘मन की बात’ अहम् से वयम् की यात्रा है।
यह तो मैं नहीं तू ही इसकी संस्कार साधना है।
آپ تصور کریں ، میرے کچھ ہم وطن 40-40 سالوں سے ویران پہاڑیوں اور بنجر زمینوں پر درخت لگا رہے ہیں، تو بہت سے لوگ 30-30 سالوں سے پانی کے تحفظ کے لیے باولیاں اور تالاب بنا رہے ہیں، ان کی صفائی کر رہے ہیں۔ کوئی 25-30 سال سے غریب بچوں کو پڑھا رہا ہے، کوئی غریبوں کے علاج میں مدد کر رہا ہے۔ 'من کی بات' میں کئی بار ان کا ذکر کرتے ہوئے میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کو اسے کئی بار دوبارہ ریکارڈ کرنا پڑا۔ آج چاہے ماضی کتنا ہی آنکھوں کے سامنے آرہا ہو۔ ہم وطنوں کی ان کوششوں نے مجھے مسلسل محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔
ساتھیو ، جن لوگوں کا ہم 'من کی بات' میں ذکر کرتے ہیں وہ سب ہمارے ہیرو ہیں ، جنہوں نے اس پروگرام کو جاندار بنایا ہے۔ آج جب ہم 100ویں قسط کے سنگ میل پر پہنچ چکے ہیں، میری یہ خواہش بھی ہے کہ ہم ایک بار پھر ان تمام ہیروز کے پاس جاکر ، ان کے سفر کے بارے میں جانیں ۔ آج ہم کچھ ساتھیوں سے بھی بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہریانہ کے بھائی سنیل جگلان میرے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ سنیل جگلان جی کا میرے ذہن پر اتنا اثر ہوا کیونکہ ہریانہ میں صنفی تناسب پر کافی بحث ہوتی تھی اور میں نے بھی ہریانہ سے ہی 'بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ' کی مہم شروع کی تھی اور اس دوران، جب میں نے سنیل جی کی 'سیلفی ود ڈاٹر' مہم دیکھی تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے بھی ان سے سیکھا اور اانہیں 'من کی بات' میں شامل کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، 'سیلفی ود ڈاٹر' ایک عالمی مہم میں تبدیل ہو گئی اور اس میں مسئلہ سیلفی کا نہیں تھا ، ٹیکنالوجی کا نہیں تھا ،اس میں ڈاٹر کو ، بیٹی کو اہمیت دی گئی تھی ۔ زندگی میں بیٹی کا مقام کتنا اہم ہوتا ہے ، اس مہم سے یہ بھی واضح ہوا ۔ ایسی بہت سی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہریانہ میں صنفی تناسب میں بہتری آئی ہے۔ چلو آج سنیل جی کے ساتھ کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔
محترم وزیر اعظم - نمسکار سنیل جی ،
سنیل- نمسکار سر، آپ کی آواز سن کر میری خوشی بہت بڑھ گئی ہے۔
وزیر اعظم- سنیل جی ' سیلفی وِد ڈاٹر ‘ ہر کسی کو یاد ہے... اب جب اس پر دوبارہ بات ہو رہی ہے تو آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
سنیل – محترم وزیر اعظم ، اصل میں آپ نے ،ہماری ریاست ہریانہ سے پانی پت کی چوتھی لڑائی بیٹیوں کی چہروں پر مسکراہٹ لانے کے لئے شروع کی تھی ، جسے پورے ملک نے آپ کی قیادت میں جیتنے کی کوشش کی ہے، واقعی ہر بیٹی کے والد اور بیٹیوں کے چاہنے والوں کے لئے بہت بڑی بات ہے ۔
وزیر اعظم- سنیل جی، آپ کی بیٹی اب کیسی ہے، ان دنوں کیا کر رہی ہے؟
سنیل- جی ، میری بیٹیاں نندنی اور یاچیکا ہیں، ایک ساتویں کلاس میں پڑھ رہی ہے اور ایک چوتھی کلاس میں پڑھ رہی ہے اور وہ آپ کی بہت بڑی مداح ہے ۔ انہوں نے آپ کے لئے تھینک یو پرائم منسٹر کرکے اپنی کلاس میٹس جو ہیں ، لیٹر بھی لکھوائے تھے ۔
وزیراعظم - واہ واہ! اچھی بیٹیوں کو آپ میرا اور من کی بات سننے والوں کا ڈھیروں آشیر واد دیجئے ۔
سنیل- آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ کی وجہ سے ملک کی بیٹیوں کے چہروں پر مسکراہٹ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وزیر اعظم - بہت بہت شکریہ سنیل جی۔
سنیل - شکریہ۔
ساتھیو ، میں بہت مطمئن ہوں کہ 'من کی بات' میں ہم نے ملک کی خواتین کی طاقت کی سینکڑوں متاثر کن کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ہماری فوج ہو یا کھیلوں کی دنیا، میں نے جب بھی خواتین کی کامیابیوں کی بات کی ہے، ان کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے چھتیس گڑھ کے دِیور گاؤں کی خواتین کے بارے میں بات کی۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے گاؤں کے چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کو صاف کرنے کی مہم چلاتی ہیں۔ اسی طرح، ملک نے تمل ناڈو کی قبائلی خواتین سے بھی بہت زیادہ ترغیب لی، جنہوں نے ہزاروں ماحول دوست ٹیراکوٹا کپ برآمد کیے۔ تمل ناڈو میں ہی 20,000 خواتین ویلور میں ناگ ندی کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ ایسی بہت سی مہمات کی قیادت ہماری ناری شکتی نے کی ہے اور 'من کی بات' ان کی کوششوں کو سامنے لانے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
ساتھیو، اب ہمارے پاس فون لائن پر ایک اور شخص موجود ہیں ۔ ان کا نام منظور احمد ہے۔ 'من کی بات' میں جموں و کشمیر کی پینسل سلیٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے منظور احمد جی کا ذکر کیا گیا تھا۔
وزیر اعظم - جناب منظور صاحب کیسے ہیں آپ؟
منظور- شکریہ سر … بہت اچھے سے ہیں سر ۔
وزیر اعظم- من کی بات کے اس 100ویں ایپی سوڈ میں آپ سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
منظور۔ شکریہ سر ۔
وزیر اعظم- اچھا، یہ پینسل سلیٹس والا کام کیسا چل رہا ہے؟
منظور - بہت اچھا چل رہا ہے سر ، بہت اچھا سر ، جب سے آپ نے 'من کی بات' میں ہمارے بارے میں بات کی ہے، تب سے بہت کام بڑھ گیا ہے اور دوسروں کا اس کام میں روزگار بہت بڑھ گیا ہے۔
وزیراعظم: اب کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہوگا؟
منظور - اب میرے پاس 200 پلس ہیں...
وزیر اعظم - اوہ واہ! مجھے بہت خوشی ہوئی ۔
منظور - سر جی.. سر جی … اب میں اسے ایک دو مہینے میں اس کو اور بڑھا رہا ہوں اور 200 لوگوں کا روزگار بڑھ جائے گا سر ۔
وزیراعظم - واہ واہ! دیکھئے منظور جی...
منظور - جی سر...
وزیر اعظم- مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس دن آپ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ایسا کام ہے ، جس کی کوئی پہچان نہیں، کوئی اپنی شناخت نہیں اور آپ کو بہت تکلیف بھی تھی اور اس کی وجہ سے آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ لیکن اب تو آپ کی پہچان بھی بن گئی ہے اور 200 سے زیادہ لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں۔
منظور - جی سر – جی سر ۔
وزیراعظم- آپ نے نئی توسیع کرکے اور 200 لوگوں کو روزگار دے کر بڑی خوشی کی خبر دی ہے۔
منظور - یہاں تک کہ جناب، یہاں کے کسانوں کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوا، سر ۔ ایک درخت 2000 میں بکتا تھا، اب وہی درخت 5000 تک پہنچ گیا ہے سر ۔ اس کے بعد سے اس کی مانگ اتنی بڑھ گئی ہے..اور یہ اس کی اپنی پہچان بھی بن گئی ہے، سر میرے پاس اس کے بہت سے آرڈرز ہیں، ابھی میں آئندہ ایک دو مہینے میں اور ایکسپینڈ کرکے دو – ڈھائی سو ، دو چار گاؤوں میں جتنے بھی لڑکے لڑکیاں ہیں ، اس میں کام کر سکتے ہیں ، اُن کی بھی روزی روٹی چل سکتی ہے سر ۔
وزیر اعظم- دیکھیے منظور جی، ووکل فار لوکل کی طاقت کتنی زبردست ہے، آپ نے اسے زمین پر اتار کر دکھا دیا ہے ۔
منظور - جی سر ۔
وزیر اعظم- آپ کو اور گاؤں کے تمام کسانوں اور آپ کے ساتھ کام کرنے والے تمام ساتھیوں کے لیے میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات، شکریہ بھائی۔
منظور ۔ شکریہ سر ۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں بہت سے ایسے باصلاحیت لوگ ہیں ، جو اپنی محنت کی بدولت کامیابی کے معراج پر پہنچے ہیں۔ مجھے یاد ہے، وشاکھاپٹنم کے وینکٹ مرلی پرساد جی نے خود کفیل بھارت کا چارٹ شیئر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ بھارتی مصنوعات کا استعمال کریں گے۔ جب بیتیا کے پرمود جی نے ایل ای ڈی بلب بنانے کے لیے ایک چھوٹا یونٹ قائم کیا تھا ، گڑھ مکتیشور کے سنتوش جی نے چٹائیاں بنانے کا کام کیا ، 'من کی بات' ہی ، اُن کی مصنوعات کو سب کے سامنے لانے کا ذریعہ بنی ۔ ہم نے 'من کی بات' میں میک ان انڈیا سے لے کر اسپیس اسٹارٹ اپس تک کی بات چیت کی ہے ۔
ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا کہ چند ایپیسوڈ پہلے ، میں نے منی پور کی بہن وجے شانتی دیوی کا بھی ذکر کیا تھا۔ وجے شانتی جی کمل کے ریشوں سے کپڑے بناتی ہیں۔ جب 'من کی بات' میں ان کے اس منفرد ماحول دوست آئیڈیا کے بارے میں بات کی گئی تو ان کا کام زیادہ مقبول ہوا۔ آج وجے شانتی جی فون پر ہمارے ساتھ ہیں۔
وزیر اعظم:- نمستے وجے شانتی جی! آپ کیسی ہو؟
وجے شانتی جی:- سر، میں ٹھیک ہوں۔
وزیراعظم:- اور آپ کا کام کیسا چل رہا ہے؟
وجے شانتی جی:- جناب، اب بھی میں 30 خواتین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں ۔
وزیراعظم:- اتنی مختصر مدت میں آپ 30 افراد کی ٹیم تک پہنچ گئی ہیں!
جے شانتی جی:- ہاں سر ، اس سال میں اپنے علاقے میں 100 خواتین کے ساتھ اور توسیع کروں گی ۔
وزیراعظم: تو آپ کا ہدف 100 خواتین ہیں۔
وجے شانتی جی :- جی! 100 خواتین
وزیر اعظم:- اور اب لوگ اس لوٹس اسٹیم فائبر سے واقف ہیں۔
وجے شانتی جی:- ہاں سر ، پورے بھارت میں 'من کی بات' پروگرام کے ذریعے اب سب جان چکے ہیں۔
وزیر اعظم: - تو اب یہ بہت مشہور ہے۔
وجے شانتی جی:- ہاں سر ، وزیر اعظم کے 'من کی بات' پروگرام سے ہر کوئی کمل کے فائبر کے بارے میں جان گیا ہے ۔
وزیراعظم: تو اب آپ کو مارکیٹ بھی مل گیا ہے ؟
وجے شانتی جی:- ہاں، مجھے امریکہ کا ایک مارکیٹ ملا ہے ، وہ اسے بڑی مقدار میں خریدنا چاہتے ہیں، لیکن میں اس سال سے یہ امریکہ بھیجنا شروع کروں گی ۔
وزیر اعظم:- یعنی اب آپ ایک بر آمد کار بن گئی ہیں؟
وجے شانتی جی:- جی سر ، اس سال سے میں بھارت میں بنی ہوئی لوٹس فائبر کی مصنوعات برآمد کر رہی ہوں۔
وزیر اعظم:- تو، جب میں کہتا ہوں ووکل فار لوکل اور اب لوکل فار گلوبل ۔
وجے شانتی جی:- جی سر ، میں اپنی مصنوعات کو پورے عالم میں ، پوری دنیا تک پہنچانا چاہتی ہوں ۔
وزیر اعظم: - تو مبارکباد اور آپ کے لیے نیک خواہشات ۔
وجے شانتی جی:- شکریہ سر ۔
وزیر اعظم:- شکریہ، شکریہ وجئے شانتی ۔
وجے شانتی جی:- آپ کا شکریہ سر ۔
ساتھیو، 'من کی بات' کی ایک اور خاصیت رہی ہے۔ 'من کی بات' کے ذریعے کئی عوامی تحریکوں نے جنم لیا اور رفتار بھی پکڑی ہے ۔ مثال کے طور پر، ہمارے کھلونے ، ہماری ٹوئے انڈسٹری کو دوبارہ قائم کرنے کا مشن 'من کی بات' سے ہی شروع ہوا تھا ۔ بھارتی نسل کے دیسی کتوں کو لے کر بیداری بڑھانے کا آغاز بھی تو 'من کی بات' سے ہی کیا گیا تھا ۔ ہم نے ایک اور مہم شروع کی تھی کہ ہم غریب چھوٹے دکانداروں سے مول بھاؤ نہیں کریں گے، جھگڑا نہیں کریں گے۔ جب 'ہر گھر ترنگا' مہم شروع ہوئی تب بھی 'من کی بات' نے ، ہم وطنوں کو اس عہد سے جوڑنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسی ہر مثال معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنی ہے۔ پردیپ سنگوان جی نے بھی سماج کو تحریک دینے کا ایسا کام کیا ہے۔ 'من کی بات' میں، ہم نے پردیپ سنگوان جی کی 'ہیلنگ ہمالیہ' مہم پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔ وہ فون لائن پر ہمارے ساتھ ہیں ۔
مودی جی - پردیپ جی نمسکار!
پردیپ جی - سر جئے ہند۔
مودی جی - جئے ہند، جئے ہند، بھائی! آپ کیسے ہو ؟
پردیپ جی - سر بہت بڑھیا ، آپ کی آواز سن کر اور بھی اچھا ۔
مودی جی - آپ نے ہمالیہ کو ہیل کرنے کا سوچا ۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی - مہم چلائی ، آج کل آپ کی مہم کیسی چل رہی ہے؟
پردیپ جی - سر یہ بہت اچھی چل رہی ہے۔ 2020 ء سے یقین کریں ، جو کام ہم پانچ سال میں کرتے تھے ، وہ اب ایک سال میں ہو جاتا ہے۔
مودی جی - ارے واہ!
پردیپ جی - جی ہاں، سر ۔ شروع میں، میں بہت گھبرایا ہوا تھا، مجھے اس بات کا بہت ڈر تھا کہ کیا میں ساری زندگی یہ کام کر پاؤں گا یا نہیں کر پاؤں گا لیکن مجھے کچھ سہارا ملا اور 2020 ء تک، ہم بہت جدو جہد بھی کر رہے تھے ۔ لوگ بہت کم جڑ رہے تھے، بہت سے لوگ ایسے تھے ، جو تعاون نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ ہماری مہم پر بھی اتنی توجہ نہیں دے رہے تھے لیکن 2020 ء کے بعد جب 'من کی بات' میں اس کا ذکر آیا تو بہت سی چیزیں بدل گئیں۔ مطلب کہ پہلے ہم ایک سال میں 6-7 کلیننگ ڈرائیوز کرتے تھے، اب ہم 10 کلیننگ ڈرائیوز کرتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں ہم روزانہ کی بنیاد پر الگ الگ مقامات سے پانچ ٹن کچرا جمع کرتے ہیں۔
مودی جی - واہ واہ!
پردیپ جی - سر، 'من کی بات' میں ذکر ہونے کے بعد، یقین کریں کہ میں ایک وقت میں تقریباً چھوڑنے کے مرحلے پر پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد میری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں اور چیزیں اتنی تیز رفتار ہو گئیں کہ جو چیزیں ہم نے سوچی بھی نہیں تھی ، وہ ہونے لگیں ۔ میں واقعی شکر گزار ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ ہم جیسے لوگوں کو کیسے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اتنے دور افتادہ علاقے میں کون کام کرتا ہے، ہم ہمالیائی علاقے میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ ہم اس بلندی پر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمیں وہاں ڈھونڈ لیا ۔ ہمارے کام کو دنیا کے سامنے لے کر آئے ۔ اس لیے یہ میرے لیے ، اس وقت بھی اور آج بھی بہت جذباتی لمحہ تھا کہ میں اپنے ملک کے اوّلین خادم ( پرتھم سیوک ) کے ساتھ بات چیت کر پا رہا ہوں۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات کوئی نہیں ہو سکتی۔
مودی جی - پردیپ جی! آپ ہمالیہ کی چوٹیوں پر حقیقی معنوں میں سادھنا کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اب آپ کا نام سن کر لوگوں کو یاد آتا جاتا ہے کہ آپ کیسے پہاڑوں کی سووچھتا مہم میں جڑے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی – اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اب ایک بہت بڑی ٹیم بنتی جا رہی ہے اور آپ روزانہ اتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ۔
مودی جی – اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ کی ان کوششوں کی وجہ سے، اس پر بات چیت سے ، اب تو کتنے ہی کوہ پیما صفائی ستھرائی سے متعلق تصاویر پوسٹ کرنے لگے ہیں۔
پردیپ جی - جی سر ! بہت
مودی جی - یہ اچھی بات ہے، آپ جیسے ساتھیو کی کوششوں سے، کچرا بھی دولت بن رہا ہے ، یہ بات اب لوگوں کے دماغ میں بیٹھ رہی ہے اور ماحولیات کا بھی تحفظ ہو رہا ہے اور ہمالیہ کا ، جو ہمارا فخر ہے ، اسے سنوارنا اور سنبھالنا ، اس سے لوگ جڑ رہے ہیں ۔ پردیب جی ، بہت اچھا لگا مجھے ، بہت شکریہ بھیا ۔
پردیپ جی - شکریہ سر آپ کا بہت بہت شکریہ جئے ہند۔
ساتھیو، آج ملک میں سیاحت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے قدرتی وسائل ہوں، دریا ہوں، پہاڑ ہوں، تالاب ہوں یا ہمارے مقدس مقامات ہوں ، ان کو صاف ستھرا رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے سیاحت کی صنعت کو بہت مدد ملے گی۔ سیاحت میں صفائی کے ساتھ ساتھ ہم نے بے مثال بھارت مہم پر بھی کئی مرتبہ بات کی ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے پہلی بار لوگوں کو بہت سی ایسی جگہوں کے بارے میں معلوم ہوا، جو ان کے آس پاس ہی موجود تھیں ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ بیرون ملک سیاحت پر جانے سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے کم از کم 15 سیاحتی مقامات کی سیر کرنی چاہیے اور یہ مقام ، اس ریاست کا نہیں ہونا چاہیے ، جہاں آپ رہتے ہیں، آپ کی ریاست سے باہر کسی دوسری ریاست کے ہونے چاہئیں ۔ اسی طرح ہم نے سووچھ سیاچن، سنگل یوز پلاسٹک اور ای ویسٹ جیسے سنجیدہ موضوعات پر مسلسل بات کی ہے۔ آج 'من کی بات' کی یہ کوشش ماحولیاتی مسئلے کو حل کرنے میں بہت اہم ہے ، جس پر پوری دنیا پریشان ہے۔
ساتھیو، اس بار مجھے یونیسکو کے ڈی جی، آدرے ازولے کی طرف سے 'من کی بات' کے حوالے سے ایک اور خاص پیغام ملا ہے۔ انہوں نے تمام ہم وطنوں کو 100 ایپیسوڈ کے اس شاندار سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کچھ سوالات پوچھے ہیں ۔ آئیے ، پہلے یونیسکو کے ڈی جی کے دِل کی بات سنتے ہیں۔
#Audio (UNESCO DG)#
ڈی جی یونیسکو: نمستے ایکسی لینسی، محترم وزیر اعظم یونیسکو کی جانب سے میں 'من کی بات' ریڈیو نشریات کے 100ویں ایپی سوڈ کا حصہ بننے کے لیے ، اس موقع کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یونیسکو اور بھارت کی ایک طویل مشترکہ تاریخ رہی ہے۔ ہمارے مینڈیٹ کے تمام شعبوں میں ایک ساتھ بہت مضبوط شراکت داری ہے - تعلیم، سائنس، ثقافت اور معلومات اور میں آج اس موقع پر تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ یونیسکو اپنے رکن ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ 2030 ء تک دنیا میں ہر کسی کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ساتھ، کیا آپ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھارتی طریقہ کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ یونیسکو ثقافت کی حمایت اور ورثے کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے اور بھارت اس سال جی – 20 کی صدارت کر رہا ہے۔ اس تقریب میں عالمی رہنما دلّی آئیں گے۔ محترم، بھارت کس طرح ثقافت اور تعلیم کو بین الاقوامی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا چاہتا ہے؟ میں ایک بار پھر یہ موقع دینے کے لئے ، آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے ذریعے بھارت کے لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں.... جلد ہی ملتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ ۔
وزیر اعظم مودی: آپ کا شکریہ، سر ۔ مجھے 100ویں 'من کی بات' پروگرام میں آپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خوشی ہو ئی ہے۔ میں اس بات پر بھی خوش ہوں کہ آپ نے تعلیم اور ثقافت کے اہم مسائل کو اٹھایا ہے۔
ساتھیو، یونیسکو کے ڈی جی نے تعلیم اور ثقافتی تحفظ کے سلسلے میں بھارت کی کوششوں کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ یہ دونوں موضوعات 'من کی بات' کے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔
چاہے بات تعلیم کی ہو یا ثقافت کی، چاہے اس کے تحفظ کی ہو یا فروغ کی، یہ بھارت کی قدیم روایت رہی ہے۔ آج ملک ، اس سمت میں ، جو کام کر رہا ہے ، وہ واقعی قابل ستائش ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ہو یا علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا اختیار، تعلیم میں ٹیکنالوجی کا انضمام، آپ کو ایسی بہت سی کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔ برسوں پہلے گجرات میں بہتر تعلیم دینے اور اسکول چھوڑنے والوں کی شرح کو کم کرنے کے لئے ، 'گنو اُتسو اور شالا پرویشو اُتسو' جیسے پروگرام عوامی شراکت کی شاندار مثال بنے تھے ۔ 'من کی بات' میں، ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کی کوششوں کو اجاگر کیا ہے، جو تعلیم کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے اوڈیشہ میں ٹھیلے پر چائے بیچنے والے آنجہانی ڈی پرکاش راؤ جی کے بارے میں بات کی تھی ، جو غریب بچوں کو پڑھانے کے مشن میں لگے ہوئے تھے۔ جھارکھنڈ کے دیہات میں ڈیجیٹل لائبریریاں چلانے والے سنجے کشیپ ہوں، کووڈ کے دوران ای لرننگ کے ذریعے بہت سے بچوں کی مدد کرنے والی ہیم لتا این کے جی ہوں ، ایسے بہت سے اساتذہ کی مثالیں ہم نے 'من کی بات' میں شامل کی ہیں ۔ ہم نے 'من کی بات' میں ثقافتی تحفظ کی کوششوں کو بھی مستقل جگہ دی ہے۔
لکشدیپ کے کمیل برادرس چیلنجرز کلب ہو یا کرناٹک کے 'کوئیم شری' ، 'کلا چیتنا' جیسے فورم ہوں ، ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے مجھے خط لکھ کر ایسی مثالیں بھیجی ہیں۔ ہم نے ان تین مقابلوں کے بارے میں بھی بات کی ، جو حب الوطنی پر 'گیت'، 'لوری' اور 'رنگولی' سے جڑے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے ملک بھر سے داستان گو افراد سے داستان گوئی کے ذریعے تعلیم کے بھارتی طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اجتماعی کوششیں سب سے بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اس سال جہاں ہم آزادی کے امرت کال میں آگے بڑھ رہے ہیں ، وہیں جی – 20 کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ متنوع عالمی ثقافتوں کو تقویت دینے کا ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک منتر صدیوں سے ہمیں ترغیب دیتا آیا ہے۔
चरैवेति चरैवेति चरैवेति।
चलते रहो-चलते रहो-चलते रहो।
آج ہم اسی چریویتی چریویتی کے جذبے کے ساتھ 'من کی بات' کا 100واں ایپیسوڈ مکمل کر رہے ہیں۔ بھارت کے سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے میں، 'من کی بات' ایک مالا کے دھاگے کی طرح ہے ، جو ہر ایک موتی جوڑے رکھتا ہے۔ ہر ایپیسوڈ میں اہل وطن کی خدمت اور صلاحیت نے دوسروں کو تحریک دی ہے ۔ اس پروگرام میں ہر ہم وطن دوسرے ہم وطنوں کے لیے تحریک بنتا ہے۔ ایک طرح سے من کی بات کا ہر ایپیسوڈ اگلے ایپیسوڈ کے لئے بنیاد تیار کرتا ہے۔ 'من کی بات' ہمیشہ خیر سگالی، خدمت اور فرض کے احساس کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ آزادی کے امرت کال میں یہ مثبتیت ملک کو آگے لے جائے گی، اسے ایک نئی بلندی پر لے جائے گی اور مجھے خوشی ہے کہ 'من کی بات' سے جو شروعات ہوئی تھی ، وہ آج ملک میں ایک نئی روایت بن رہی ہے۔ ایک ایسی روایت ، جس میں ہمیں ، سب کی کوششوں کا جذبہ نظر آتا ہے ۔
ساتھیو، آج میں آل انڈیا ریڈیو کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، جو بہت صبر کے ساتھ ، اس پورے پروگرام کو ریکارڈ کرتے ہیں ۔ وہ مترجم ، جو بہت ہی کم وقت میں ، بہت تیزی کے ساتھ 'من کی بات' کا مختلف علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں ، میں اُن کا بھی شکر گزار ہوں ۔ میں دوردرشن کے اور مائی گوو کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلز، الیکٹرانک میڈیا والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو کمرشل وقفے کے بغیر 'من کی بات' دکھاتے ہیں اور آخر میں، میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، جو 'من کی بات' کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں – بھارت کے لوگ ، بھارت میں یقین رکھنے والے لوگ ، یہ سب کچھ آپ کی تحریک اور طاقت سے ہی ممکن ہو پایا ہے ۔
ساتھیو ، ویسے تو میرے دِل میں آج اتنا کچھ کہنے کو ہے کہ وقت اور الفاظ دونوں کم پڑ رہے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے جذبات کو سمجھیں گے ۔ آپ کے خاندان کے ایک فرد کے طور پر، میں 'من کی بات' کی مدد سے آپ کے درمیان رہا ہوں، آپ کے درمیان رہوں گا۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے۔ ہم ایک بار پھر نئے موضوعات اور نئی جانکاریوں کے ساتھ ہم وطنوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں گے، تب تک کے لئے مجھے وداع دیجیے اور اپنا اور اپنوں کا خوب خیال رکھیے ۔ بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آپ سبھی کا ایک بار پھر بہت بہت خیر مقدم ہے۔ آج اس گفتگو کو شروع کرتے ہوئے ذہن و دل میں کتنے ہی جذبات امنڈ رہے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا ’من کی بات‘ کا یہ ساتھ، اپنے ننیانوے (99ویں) پائیدان پر آ پہنچا ہے۔ عام طور پر ہم سنتے ہیں کہ ننیانوے (99ویں) کا پھیر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ کرکٹ میں تو ’نروَس نائنٹیز‘ کو بہت مشکل پڑاؤ مانا جاتا ہے۔ لیکن، جہاں بھارت کے ہر شہری کے ’من کی بات‘ ہو، وہاں کی ترغیب ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ کو لے کر ملک کے لوگوں میں بہت جوش ہے۔ مجھے بہت سارے پیغام مل رہے ہیں، فون آ رہے ہیں۔ آج جب ہم آزادی کا امرت کال منا رہے ہیں، نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، تو سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو لے کر، آپ کے مشوروں، اور خیالات کو جاننے کے لیے میں بھی بہت پرجوش ہوں۔ مجھے، آپ کے ایسے مشوروں کا بے صبری سے انتظار ہے۔ ویسے تو انتظار ہمیشہ ہوتا ہے لیکن اس بار ذرا انتظار زیادہ ہے۔ آپ کے یہ مشورے اور خیالات ہی 30 اپریل کو ہونے والے سوویں (100ویں) ’من کی بات‘ کو اور یادگار بنائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایسے ہزاروں لوگوں کی چرچہ کی ہے، جو دوسروں کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم کے لیے اپنی پوری پنشن لگا دیتے ہیں، کوئی اپنی پوری زندگی کی کمائی ماحولیات اور جانداروں کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں خدمت کو اتنا اوپر رکھا گیا ہے کہ دوسروں کی خوشی کے لیے، لوگ اپنا سب کچھ قربان کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس لیے تو ہمیں بچپن سے شیوی اور ددھیچی جیسے عظیم لوگوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
ساتھیو، جدید میڈیکل سائنس کے اس دور میں آرگن ڈونیشن، کسی کو زندگی دینے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ کہتے ہیں، جب ایک آدمی موت کے بعد اپنا جسم عطیہ کرتا ہے، تو اس سے 8 سے 9 لوگوں کو ایک نئی زندگی ملنے کی امید بنتی ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ آج ملک میں آرگن ڈونیشن کے تئیں بیداری بھی بڑھ رہی ہے۔ سال 2013 میں، ہمارے ملک میں، آرگن ڈونیشن کے 5 ہزار سے بھی کم معاملے تھے، لیکن 2022 میں، یہ تعداد بڑھ کر، 15 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ آرگن ڈونیشن کرنے والے افراد نے، ان کی فیملی نے، واقعی بہت ثواب کا کام کیا ہے۔
ساتھیو، میرا کافی عرصے سے من تھا کہ میں ایسا نیک کام کرنے والے لوگوں کے ’من کی بات‘ جانوں اور اسےہم وطنوں کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ اس لیے آج ’من کی بات‘ میں ہمارے ساتھ ایک پیاری سی بٹیا، ایک خوبصورت گڑیا کے والد اور ان کی والدہ ہمارے ساتھ جڑنے جا رہے ہیں۔ والد کا نام ہے سکھبیر سنگھ سندھو جی اور والدہ کا نام ہے سپریت کور جی، یہ فیملی پنجاب کے امرتسر میں رہتی ہے۔ بہت منتوں کے بعد انہیں، ایک بہت خوبصورت گڑیا، بٹیا ہوئی تھی۔ گھر کے لوگوں نے بہت پیار سے اس کا نام رکھا تھا – ابابت کور۔ ابابت کا معنی، دوسرے کی خدمت سے جڑا ہے، دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے جڑا ہے۔ ابابت جب صرف انتالیس (39) دن کی تھی، تبھی وہ یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ لیکن سکھبیر سنگھ سندھو جی اور ان کی بیوی سپریت کور جی نے، ان کی فیملی نے، بہت ہی مثالی فیصلہ لیا۔ یہ فیصلہ تھا – انتالیس (39) دن کی عمر والی بیٹی کے آرگن ڈونیشن کا، جسم کے عضو کے عطیہ کا۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر سکھبیر سنگھ اور ان کی بیوی موجود ہیں۔ آئیے، ان سے بات کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی نمستے۔
سکھبیر جی – نمستے جناب وزیر اعظم صاحب۔ ست شری اکال
جناب وزیر اعظم – ست شری اکال جی، ست شری اکال جی، سکھبیر جی میں آج ’من کی بات‘ کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے لگا کہ ابابت کی بات اتنی حوصلہ افزا ہے وہ آپ ہی کے منہ سے سنوں کیوں کہ گھر میں بیٹی کی پیدائش جب ہوتی ہے تو کئی خواب کئی خوشیاں لے کر آتی ہے، لیکن بیٹی اتنی جلدی چلی جائے وہ درد کتنا خطرناک ہوگا اس کا بھی میں اندازہ لگا سکتا ہوں۔ جس طرح سے آپ نے فیصلہ لیا، تو میں ساری بات جاننا چاہتا ہوں جی۔
سکھبیر جی – سر، بھگوان نے بہت اچھا بچہ دیا تھا ہمیں، بہت پیاری گڑیا ہمارے گھر میں آئی تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی ہمیں پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں ایک ایسا نسوں کا گچھا بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے۔ تو ہم حیران ہو گئے کہ بچے کی صحت اتنی اچھی ہے، اتنا خوبصورت بچہ ہے اور اتنا بڑا مسئلہ لے کر پیدا ہوا ہے تو پہلے 24 دن تک تو بہت ٹھیک رہا، بچہ بالکل نارمل رہا۔ اچانک اس کا دل ایک دم کام کرنا بند ہو گیا، تو ہم جلدی سے اس کو اسپتال لے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے اس کو ریوائیو تو کر دیا لیکن سمجھنے میں ٹائم لگا کہ اس کو کیا دقت آئی، اتنی بڑی دقت کہ چھوٹا سا بچہ اور اچانک دل کا دورہ پڑ گیا تو ہم اس کو علاج کے لیے پی جی آئی چنڈی گڑھ لے گئے۔ وہاں بڑی بہادری سے اس بچہ نے علاج کے لیے جدوجہد کی۔ لیکن بیماری ایسی تھی کہ اس کا علاج اتنی چھوٹی عمر میں ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی کہ اس کو ریوائیو کروایا جائے، اگر چھ مہینے کے آس پاس بچہ چلا جائے تو اس کا آپریشن کرنے کی سوچی جا سکتی تھی۔ لیکن بھگوان کو کچھ اور منظور تھا، انہوں نے، صرف 39 دنوں کی جب ہوئی تب ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو دوبارہ دل کا دوڑہ پڑا ہے، اب امید بہت کم رہ گئی ہے۔ تو ہم دونوں میاں بیوی روتے ہوئے اس فیصلہ پر پہنچے کہ ہم نے دیکھا تھا اس کو بہادری سے لڑتے ہوئے، بار بار ایسا لگ رہا تھا جیسے اب چلی جائے گی، لیکن پھر ریوائیو کر رہی تھی تو ہمیں لگاکہ اس بچے کا یہاں آنے کا کوئی مقصد ہے، تو انہوں نے جب بالکل ہی جواب دے دیا تو ہم دونوں نے ڈیسائڈ کیا کہ کیوں نہ ہم اس بچے کے آرگن ڈونیٹ کر دیں۔ شاید کسی اور کی زندگی میں اجالا آ جائے، پھر ہم نے پی جی آئی کے جو ایڈمنسٹریٹو بلاک ہے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں گائیڈ کیا کہ اتنے چھوٹے بچے کی صرف کڈنی ہی لی جا سکتی ہے۔ پرماتما نے ہمت دی، گرو نانک صاحب کا فلسفہ ہے، اسی سوچ سے ہم نے فیصلہ لے لیا۔
جناب وزیر اعظم – گروؤں نے جو تعلیمات دی ہیں جی اسے آپ نے جی کر کے دکھایا ہے جی۔ سپریت جی ہیں کیا؟ ان سے بات ہو سکتی ہے؟
سکھبیر جی – جی سر۔
سپریت جی – ہیلو۔
جناب وزیر اعظم – سپریت جی، میں آپ کو پرنام کرتا ہوں
سپریت جی – نمسکار سر نمسکار، سر یہ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ آپ ہم سے بات کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – آپ نے اتنا بڑا کام کیا ہے اور میں مانتا ہوں، ملک یہ ساری باتیں جب سنے گا تو بہت لوگ کسی کی زندگی بچانے کے لیے آگے آئیں گے۔ ابابت کا یہ تعاون ہے، یہ بہت بڑا ہے جی۔
سپریت جی – سر یہ بھی گرو نانک بادشاہ جی شاید بخشش تھی کہ انہوں نے ہمت دی ایسا فیصلہ لینے میں۔
جناب وزیراعظم – گروؤں کی کرپا کے بنا تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا جی۔
سپریت جی – بالکل سر، بالکل۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، جب آپ اسپتال میں ہوں گے اور یہ ہلا دینے والی خبر جب ڈاکٹر نے آپ کو دی، اس کے بعد بھی آپ نے صحت مند ذہن سے آپ نے اور آپ کی شریمتی جی نے اتنا بڑا فیصلہ کیا، گروؤں کی سیکھ تو ہے ہی ہے کہ آپ کے من میں اتنا بڑا عمدہ خیال اور واقعی میں ابابت کا جو معنی عام زبان میں کہیں تو مددگار ہوتا ہے۔ یہ کام کر دیا یہ اس پل کو میں سننا چاہتا ہوں۔
سکھبیر جی – سر، دراصل ہمارے ایک فیملی فرینڈ ہیں پریہ جی، انہوں نے اپنے آرگن ڈونیٹ کیے تھے۔ ان سے بھی ہمیں حوصلہ ملا تو اس وقت تو ہمیں لگاکہ جسم جو ہے، پانچ عناصر میں تحلیل ہو جائے گا۔ جب کوئی بچھڑ جاتا ہے، چلا جاتا ہے، تو اسک ے جسم کو جلا دیا جاتا ہے یا دبا دیا جاتا ہے، لیکن اگر اس کے آرگن کسی کے کام آ جائیں، تو یہ بھلے کا ہی کام ہے، اور اس وقت ہمیں اور فخر محسوس ہوا، جب ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہمیں کہ آپ کی بیٹی، انڈیا کی ینگیسٹ ڈونر بنی ہے، جس کے آرگن کامیابی سے ٹرانس پلانٹ ہوئے، تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو گیا کہ جو نام ہم اپنے والدین کا اس عمر تک نہیں کر پائے، ایک چھوٹا سا بچہ آ کر اتنے دنوں میں ہمارا نام اونچا کر گیا اور اس سے اور بڑی بات ہے کہ آج آپ سے بات ہو رہی ہے اس موضوع پر۔ ہم پراؤڈ فیل کر رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – سکھبیر جی، آج آپ کی بیٹی کا صرف ایک عضو زندہ ہے، ایسا نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی انسانیت کی لازوال کہانی کی لازوال مسافر بن گئی ہے۔ اپنے جسم کے حصہ کے ذریعے وہ آج بھی موجود ہے۔ اس نیک کام کے لیے، میں آپ کی، آپ کی شریمتی جی کی، آپ کی فیملی کی تعریف کرتا ہوں۔
سکھبیر جی – تھینک یو سر۔
ساتھیو، آرگن ڈونیشن کے لیے سب سے بڑا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ جاتے جاتے بھی کسی کا بھلا ہو جائے، کسی کی زندگی بچ جائے۔ جو لوگ، آرگن ڈونیشن کا انتظار کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انتظار کا ایک ایک لمحہ گزرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اور ایسے میں جب کوئی عضو یا جسم کا عطیہ کرنے والا مل جاتا ہے، تو اس میں ایشور کی شکل ہی نظر آتی ہے۔ جھارکھنڈ کی رہنے والی اسنیہ لتا چودھری جی بھی ایسی ہی تھیں جنہوں نے ایشور بن کر دوسروں کو زندگی دی۔ 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری جی، اپنا دل، کڈنی اور لیور، عطیہ کر گئیں۔ آج ’من کی بات‘ میں، ان کے بیٹے بھائی ابھجیت چودھری جی ہمارے ساتھ ہیں۔ آئیے ان سے سنتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی نمسکار۔
ابھجیت جی – پرنام سر۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ ایک ایسی ماں کے بیٹے ہیں جس نے آپ کو جنم دے کر ایک طرح سے زندگی تو دی ہے، لیکن اور جو اپنی موت کے بعد بھی آپ کی ماتا جی کئی لوگوں کو زندگی دے کر گئیں۔ ایک بیٹے کے ناطے ابھجیت آپ ضرور فخر محسوس کرتے ہوں گے
ابھجیت جی – ہاں جی سر۔
جناب وزیر اعظم – آپ، اپنی ماتا جی کے بار میں ذرا بتائیے، کن حالات میں آرگن ڈونیشن کا فیصلہ لیا گیا؟
ابھجیت جی – میری ماتا جی، سرائیکیلا بول کر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جھارکھنڈ میں، وہاں پر میرے ممی پاپا دونوں رہتے ہیں۔ یہ پچھلے پچیس سال سے لگاتار مارننگ واک کرتے تھے اور اپنے ہیبٹ کے مطابق صبح 4 بجے اپنے مارننگ واک کے لیے نکلی تھیں۔ اس وقت ایک موٹر سائیکل والے نے ان کو پیچھے سے دھکہ مارا اور وہ اسی وقت گر گئیں جس سے ان کو سر پہ بہت زیادہ چوٹ لگا۔ فوراً ہم لوگ ان کو صدر اسپتال سرائیکیلا لے گئے جہاں ڈاکٹر صاحب نے ان کی مرہم پٹی کی، مگر خون بہت نکل رہا تھا۔ اور ان کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ فوراً ہم لوگ ان کو ٹاٹا مین ہاسپیٹل لے کر چلے گئے۔ وہاں ان کی سرجری ہوئی، 48 گھنٹے کے آبزرویشن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بولا کہ وہاں سے چانسز بہت کم ہیں۔ پھر ہم نے ان کو ایئرلفٹ کرکے ایمس دہلی لے کر آئے ہم لوگ۔ یہاں پر ان کی ٹریٹمنٹ ہوئی تقریباً 8-7 دن۔ اس کے بعد پوزیشن ٹھیک تھا، ایک دم ان کا بلڈ پریشر کافی گر گیا، اس کے بعد چلا ان کی برین ڈیتھ ہو گئی ہے۔ تب پھر ڈاکٹر صاحب ہمیں پروٹوکال کے ساتھ بریف کر رہے تھے آرگن ڈونیشن کے بارے میں۔ ہم اپنے والد صاحب کو شاید یہ نہیں بتا پاتے کہ آرگن ڈونیشن ٹائپ کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، کیوں کہ ہمیں لگا، وہ اس بات کو ہضم نہیں کر پائیں گے، تو ان کے دماغ سے ہم یہ نکالنا چاہتے تھے کہ ایسا کچھ چل رہا ہے۔ جیسے ہی ہم نے ان کو بولا کہ آرگن ڈونیشن کی باتیں چل رہی ہیں۔ تب انہوں نے یہ بولا کہ نہیں نہیں، یہ ممی کا بہت من تھا اور ہمیں یہ کرنا ہے۔ ہم کافی مایوس تھے اس وقت تک جب تک ہمیں یہ پتہ چلا تھا کہ ممی نہیں بچ سکیں گی، مگر جیسے ہی یہ آرگن ڈونیشن والا ڈسکشن چالو ہوا وہ مایوسی ایک بہت ہی پازیٹو سائڈ چلی گئی اور ہم کافی اچھے ایک بہت ہی پازیٹو انوائرمنٹ میں آ گئے۔ اس کو کرتے کرتے پھر ہم لوگ، رات میں 8 بجے کاؤنسلنگ ہوئی۔ دوسرے دن ہم لوگوں نے آرگن ڈونیشن کیا۔ اس میں ممی کی ایک سوچ بہت بڑی تھی کہ پہلے وہ کافی آنکھوں کے عطیہ اور ان چیزوں میں، سوشل اکٹیوٹیز میںیہ بہت ایکٹو تھیں۔ شاید یہی سوچ کو لے کر کے یہ اتنی بڑی چیز ہم لوگ کر پائے، اور میرے والد صاحب کا جو ڈسیزن میکنگ تھا اس چیز کے بارے میں، اس وجہ سے یہ چیز ہو پائی۔
جناب وزیر اعظم – کتنے لوگوں کو کام آیا آرگن؟
ابھجیت جی – ان کا ہارٹ، دو کڈنی، لیور اور دونوں آنکھ، یہ ڈونیشن ہوا تھا تو چار لوگوں کی جان اور دو لوگوں کو آنکھ ملی ہے۔
جناب وزیر اعظم – ابھجیت جی، آپ کے والد اور والدہ دونوں تعریف کے مستحق ہیں۔ میں ان کو پرنام کرتا ہوں اور آپ کے والد نے اتنے بڑے فیصلہ میں، آپ کی فیملی کے لوگوں کی قیادت کی، یہ واقعی بہت ہی حوصلہ افزا ہے اور میں مانتا ہوں کہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں ایک اپنے آپ میں حوصلہ بھی ہوتی ہے۔ لیکن ماں جو روایات چھوڑ کر جاتی ہیں، وہ نسل در نسل، ایک بہت بڑی طاقت بن جاتی ہیں۔ آرگن ڈونیشن کے لیے آپ کی ماتا جی کی ترغیب پورے ملک تک پہنچ رہی ہے۔ میں آپ کے اس مقدس کام اور عظیم کام کے لیے آپ کی پوری فیملی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ابھجیت جی شکریہ، اور آپ کے والد کو ہمارا پرنام ضرور کہہ دینا۔
ابھجیت جی – ضرور ضرور، تھینک یو۔
ساتھیو، 39 دن کی بابت کور ہو یا 63 سال کی اسنیہ لتا چودھری، ان کے جیسے دان ویر، ہمیں زندگی کی اہمیت سمجھا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں، آج بڑی تعداد میں ایسے ضرورت مند ہیں، جو صحت مند زندگی کی امید میں کسی آرگن ڈونیٹ کرنے والے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ آرگن ڈونیشن کو کو آسام بنانے اور ترغیب دینے کے لیے پورے ملک میں ایک جیسی پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس سمت میں ریاستوں کے ڈومیسائل کی شرط کو ہٹانے کا فیصلہ بھی لیا گیا ہے، یعنی اب ملک کی کسی بھی ریاست میں جا کر مریض آرگن حاصل کرنے کے لیے رجسٹر کروا پائے گا۔ سرکار نے آرگن ڈونیشن کے لیے 65 سال سے کم عمر کی عمر کی حد کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ان کوششوں کے درمیان، میری ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ آرگن ڈونر زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ آپ کا ایک فیصلہ، کئی لوگوں کی زندگی بچا سکتا ہے، زندگی بنا سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ نوراتر کا وقت ہے، شکتی کی اپاسنا کا وقت ہے۔ آج، بھارت کی جو صلاحیت نئے سرے سے نکھر کر سامنے آ رہی ہے، اس میں بہت بڑا رول ہماری خواتین کی طاقت کا ہے۔ حالیہ دنوں ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ آپ نے سوشل میڈیا پر، ایشیا کی پہلی خاتون لوکو پائلٹ سریکھا یادو جی کو ضرور دیکھا ہوگا۔ سریکھا جی، ایک اور ریکارڈ بناتے ہوئے وندے بھارت ایکسپریس کی بھی پہلی خاتون لوکو پائلٹ بن گئی ہیں۔ اسی مہینے، پروڈیوسر گنیت مونگا اور ڈائرکٹر کارتکی گونزالویس ان کی ڈاکیومنٹری ’ایلیفنٹ وسپیررز‘ نے آسکر جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ملک کے لیے ایک اور کامیابی بھابھا ایٹامک ریسرچ سنٹر کی سائنٹسٹ، بہن جیوترمئی موہنتی جی نے بھی حاصل کی ہے۔ جیوترمئی جی کو کیمسٹری اور کیمیکل انجینئرنگ کی فیلڈ میں آئی یو پی اے سی کا اسپیشل ایوارڈ ملا ہے۔ اس سال کی شروعات میں ہی بھارت کی انڈر-19 خواتین کرکٹ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر نئی تاریخ رقم کی۔ اگر آپ سیاست کی طرف دیکھیں گے، تو ایک نئی شروعات ناگالینڈ میں ہوئی ہے۔ ناگالینڈ میں 75 برسوں میں پہلی بار دو خاتون ایم ایل اے جیت کر اسمبلی پہنچی ہیں۔ ان میں سے ایک کو ناگالینڈ حکومت میں وزیر بھی بنایا گیا ہے، یعنی ریاست کے لوگوں کو پہلی بار ایک خاتون وزیر بھی ملی ہیں۔
ساتھیو، کچھ دنوں پہلے میری ملاقات ان جانباز بیٹیوں سے بھی ہوئی، جو ترکی تباہ کن زلزلہ کے بعد وہاں کے لوگوں کی مدد کے لیے گئی تھیں۔ یہ سبھی این ڈی آر ایف کے دستہ میں شامل تھیں۔ ان کی شجاعت اور مہارت کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے۔ بھارت نے یو این مشن کے تحت امن فوج میں ویمن آنلی پلاٹون کی بھی تعیناتی کی ہے۔
آج، ملک کی بیٹیاں تینوں افواج میں اپنی شجاعت کا پرچم بلند کر رہی ہیں۔ گروپ کیپٹن شالیجا دھامی کامبیٹ یونٹ میں کمانڈ اپائنٹمنٹ پانے والی پہلی خاتون فضائیہ افسر بنی ہیں۔ ان کے پاس تقریباً 3 ہزار گھنٹے کا فلائنگ ایکسپیرئنس ہے۔ اسی طرح، ہندوستانی فوج کی جانباز کیپٹن شیوا چوہان، سیاچن میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون افسر بنی ہیں۔ سیاچن میں جہاں درجہ حرارت مائنس ساٹھ (60-) ڈگری تک چلا جاتا ہے، وہاں شیوا تین مہینوں کے لیے تعینات رہیں گی۔
ساتھیو، یہ لسٹ اتنی لمبی ہے کہ یہاں سب کا ذکر کرنا بھی مشکل ہے۔ ایسی تمام خواتین، ہماری بیٹیاں، آج بھارت اور بھارت کے خوابوں کو توانائی بخش رہی ہیں۔ خواتین کی طاقت کی یہ توانائی ہی ترقی یافتہ ہندوستان کی جان ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ان دنوں پوری دنیا میں صاف توانائی، قابل تجدید توانائی کی خوب بات ہو رہی ہے۔ میں جب دنیا کے لوگوں سے ملتا ہوں، تو وہ اس شعبے میں بھارت کی غیر معمولی کامیابی کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ خاص کر، بھارت سولر انرجی کے شعبے میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، وہ اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ بھارت کے لوگ تو صدیوں سے سورج سے خاص طور پر ناطہ رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں سورج کی طاقت کو لے کر جو سائنسی سمجھ رہی ہے، سورج کی عبادت کی جو روایات رہی ہیں، وہ دیگر جگہوں پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج ملک کا ہر شہری شمسی توانائی کی اہمیت بھی سمجھ رہا ہے، اور کلیئر انرجی میں اپنا تعاون بھی دینا چاہتا ہے۔ ’سب کا پریاس‘ کا یہی جذبہ آج بھارت کے سولر مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مہاراشٹر کے پونے میں، ایسی ہی ایک بہترین کوشش نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ یہاں ایم ایس آر-اولیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لوگوں نے طے کیا کہ وہ سوسائٹی میں پینے کے پانی، لفٹ اور لائٹ جیسی مجموعی استعمال کی چیزیں، اب سولر انرجی سے ہی چلائیں گے۔ اس کے بعد اس سوسائٹی میں سب نے مل کر سولر پینل لگوائے۔ آج ان سولر پینلز سے ہر سال تقریباً 90 ہزار کلو واٹ گھنٹے بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سے ہر مہینے تقریباً 40 ہزار روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ اس بچت کا فائدہ سوسائٹی کے سبھی لوگوں کو ہو رہا ہے۔
ساتھیو، پونے کی طرح ہی دمن و دیو میں جو دیو ہے، جو ایک الگ ضلع ہے، وہاں کے لوگوں نے بھی، ایک انوکھا کام کرکے دکھایا ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دیو، سومناتھ کے پاس ہے۔ دیو بھارت کا پہلا ایسا ضلع بنا ہے، جو دن کے وقت سبھی ضرورتوں کے لیے سو فیصد کلین انرجی کا استعمال کر رہا ہے۔ دیو کی اس کامیابی کا منتر بھی سب کی کوشش ہی ہے کبھی یہاں بجلی کی پیداوار کے لیے وسائل کی چنوتی تھی۔ لوگوں نے اس چنوتی کے حل کے لیے سولر انرجی کا انتخاب کیا۔ یہاں بنجر زمین اور کئی بلڈنگوں پر سولر پینلز لگائے گئے۔ ان پینلز سے، دیو میں دن کے وقت جتنی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سولر پروجیکٹ سے، بجلی خرید پر خرچ ہونے والے تقریباً 52 کروڑ روپے بھی بچے ہیں۔ اس سے ماحولیات کی بھی بڑی حفاظت ہوئی ہے۔
ساتھیو، پونے اور دیو انہوں ے جو کر دکھایا ہے، ایسی کوششیں ملک بھر میں کئی اور جگہوں پر بھی ہو رہی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیات اور فطرت کو لے کر ہم ہندوستانی کتنے حساس ہیں، اور ہمارا ملک کس طرح مستقبل کی نسل کے لیے بہت بیدار ہے۔ میں اس قسم کی تمام کوششوں کی تہ دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں وقت کے ساتھ، حالات کے مطابق، متعدد روایات پروان چڑھی ہیں۔ یہی روایات، ہماری ثقافت کی صلاحیت بڑھاتی ہے اور اسے ہمیشہ طاقت بھی بخشتی ہے۔ کچھ مہینے پہلے ایسی ہی ایک روایت شروع ہوئی کاشی میں۔ کاشی-تمل سنگمم کے دوران، کاشی اور تمل علاقے کے درمیان صدیوں سے چلے آ رہے تاریخی اور ثقافتی رشتوں کو سیلیبریٹ کیا گیا۔ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا جذبہ ہمارے ملک کو مضبوط دیتا ہے۔ ہم جب ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں، سیکھتے ہیں، تو اتحاد کا یہ جذبہ اور مضبوط ہوتا ہے۔ اتحاد کے اسی جذبہ کے ساتھ اگلے مہینے گجرات کے مختلف حصوں میں ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ ہونے جا رہا ہے۔ ’سوراشٹر-تمل سنگمم‘ 17 سے 30 اپریل تک چلے گا۔ ’من کی بات‘ کے کچھ سامعین ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ گجرات کے سوراشٹر کا تمل ناڈو سے کیا تعلق ہے؟ دراصل، صدیوں پہلے سوراشٹر کے کئی لوگ تمل ناڈو کے الگ الگ حصوں میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ لوگ آجب ھی ’سوراشٹری تمل‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے کھان پان، رہن سہن، سماجی اخلاقیات میں آج بھی کچھ کچھ سوراشٹر کی جھلک مل جاتی ہے۔ مجھے اس پروگرام کو لے کر تمل ناڈو سے بہت سے لوگوں نے سراہنا بھرے خط لکھے ہیں۔ مدورئی میں رہنے والے جے چندرن جی نے ایک بڑی ہی جذباتی بات لکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہزار سال کے بعد، پہلی بار کسی نے سوراشٹر تمل کے ان رشتوں کے بارے میں سوچا ہے، سوراشٹر سے تمل ناڈو آ کر آباد ہوئے لوگوں کو پوچھا ہے۔‘‘ جے چندرن جی کی باتیں، ہزاروں تمل بھائی بہنوں کے دل کی بات ہے۔
ساتھیو، ’من کی بات‘ کے سامعین کو میں آسام سے جڑی ہوئی ایک خبر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبہ کو مضبوط کرتی ہے۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہم ویر لاست بورپھوکن جی کی 400ویں جینتی منا رہے ہیں۔ ویر لاست بورپھوکن نے ظالم مغل سطنت کے ہاتھوں سے گوہاٹی کو آزاد کروایا تھا۔ آج ملک، اس عظیم جانباز کی بے پناہ شجاعت سے متعارف ہو رہا ہے۔ کچھ دن پہلے لاست بورپھوکن کی زندگی پر مبنی مضمون نگاری کی ایک مہم چلائی گئی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کے لیے تقریباً 45 لاکھ لوگوں نے مضمون بھیجے۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ اب یہ ایک گنیز ریکارڈ بن چکا ہے۔ اور سب سے بڑی بات ہے اور جو زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ویر لاست بورپھوکن پر یہ جو مضامین لکھے گئے ہیں،اس میں قریب قریب 23 الگ الگ زبانوں میں لکھا گیا ہے اور لوگوں نے بھیجا ہے۔ ان میں، آسامی زبان کے علاوہ، ہندی، انگریزی، بنگالی، بوڈو، نیپالی، سنسکرت، سنتھالی جیسی زبانوں میں لوگوں نے مضمون بھیجے ہیں۔ میں اس کوشش کا حصہ بنے سبھی لوگوں کی دل سے تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کشمیر یا سرینگر کی بات ہوتی ہے، تو سب سے پہلے ہمارے سامنے اس کی وادیاں اور ڈل جھیل کی تصویر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی ڈل جھیل کے نظاروں کا لطف اٹھانا چاہتا ہے، لیکن ڈل جھیل میں ایک اور بات خاص ہے۔ ڈل جھیل، اپنے ذائقہ دار لوٹس اسٹیمس – کمل کے تنوں یا کمل ککڑی کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ کمل کے تنوں کو ملک میں الگ الگ جگہ، الگ الگ نام سے، جانتے ہیں۔ کشمیر میں انہیں نادرو کہتے ہیں۔ کشمیر کے نادرو کی ڈیمانڈ لگاتار بڑھ رہی ہے۔ اس ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ڈل جھیل میں نادرو کی کھیتی کرنے والے کسانوں نے ایک ایف پی او بنایا ہے اس ایف پی او می تقریباً 250 کسان شامل ہوئے ہیں۔ آج یہ کسان اپنے نادرو کو بیرونی ممالک تک بھیجنے لگے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ان کسانوں نے دو کھیپ یو اے ای بھیجی ہے۔ یہ کامیابی کشمیر کا نام تو کر ہی رہی ہے، ساتھ ہی اس سے سینکڑوں کسانوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے۔
ساتھیو، کشمیر کے لوگوں کا زراعت سے ہی جڑئی ہوئی ایک اور کوشش ان دنوں اپنی کامیابی کی خوشبو پھیلا رہی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کامیابی کی خوشبو کیوں بول رہا ہوں – بات ہے ہی خوشبو کی! دراصل، جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں ایک قصبہ ہے ’بھدرواہ‘! یہاں کے کسان دہائیوں سے مکئی کی روایتی کھیتی کرتے آ رہے تھے، لیکن کچھ کسانوں نے کچھ الگ کرنے کی سوچی۔ انہوں نے فلوری کلچر، یعنی پھولوں کی کھیتی کا رخ کیا۔ آج یہاں کے تقریباً 25 سو کسان (ڈھائی ہزار کسان) لیونڈر کی کھیتی کر رہے ہیں۔ انہیں مرکزی حکومت کے ایروما مشن سے مدد بھی ملی ہے۔ اس نئی کھیتی نے کسانوں کی آمدنی میں بڑا اضافہ کیا ہے، اور آج لیونڈر کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی کی خوشبو بھی دور دور تک پھیل رہی ہے۔
ساتھیو، جب کشمیر کی بات ہو، کمل کی بات ہو، پھول کی بات ہو، خوشبو کی بات ہو، تو کمل کے پھول پر تشریف فرما ماں شاردا کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کپواڑہ میں ماں شاردا کے عالیشان مندر کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ مندر اسی راستے پر بنا ہے، جہاں سے کبھی شاردا پیٹھ کے درشنوں کے لیے جایا کرتے تھے مقامی لوگوں نے اس مندر کی تعمیر میں بہت مدد کی ہے۔ میں، جموں کشمیر کے لوگوں کو اس نیک کام کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں بس اتنا ہی۔ اگلی بار، آپ سے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ملاقات ہوگی۔ آپ سبھی، اپنے مشورے ضرور بھیجئے۔ مارچ کے اس مہینہ میں، ہم ہولی سے لے کر نوراتری تک، کئی پرو اور تہواروں میں مصروف رہے ہیں۔ رمضان کا مقدس مہینہ بھی شروع ہو چکا ہے اگلے کچھ دنوں میں شری رام نومی کا مہا پرو بھی آنے والا ہے۔ اس کے بعد مہاویر جینتی، گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بھی آئیں گے۔ اپریل کے مہینہ میں ہم بھارت کی دو عظیم شخصیات کی جینتی بھی مناتے ہیں۔ یہ دو عظیم شخصیات ہیں – مہاتما جیوتبا پھلے، اور بابا صاحب امبیڈکر ان دونوں ہی شخصیات نے سماج میں بھید بھاؤ مٹانے کے لیے غیر معمولی تعاون دیا۔ آج، آزادی کے امرت کال میں، ہمیں ایسی عظیم شخصیات سے سیکھنے اور مسلسل ترغیب حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں، اپنے فرائض کو سب سے آگے رکھنا ہے۔ ساتھیو، اس وقت کچھ جگہوں پر کورونا بھی بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آپ سبھی کو احتیاط برتنی ہے، صفائی کا بھی دھیان رکھنا ہے۔ اگلے مہینے ’من کی بات‘ کے سوویں (100ویں) ایپی سوڈ میں ہم لوگ پھر ملیں گے، تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ’من کی بات‘ کے اس 98ویں ایپی سوڈ میں آپ سبھی کے ساتھ جڑ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ سینچری کی طرف بڑھتے اس سفر میں، ’من کی بات‘ کو، آپ سبھی نے، عوامی حصہ داری کے اظہار کا شاندار پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ ہر مہینے، لاکھوں پیغامات میں، کتنے ہی لوگوں کے ’من کی بات‘ مجھ تک پہنچتی ہے۔ آپ، اپنے من کی طاقت تو جانتے ہی ہیں، ویسے ہی، سماج کی طاقت سے کیسے ملک کی طاقت بڑھتی ہے، یہ ہم نے ’من کی بات‘ کے الگ الگ ایپی سوڈ میں دیکھا ہے، سمجھا ہے، اور میں نے محسوس کیا ہے – تسلیم بھی کیا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہے، جب ہم نے ’من کی بات‘ میں ہندوستان کے روایتی کھیلوں کو ترغیب دینے کی بات کی تھی۔ فوراً اس وقت ملک میں ایک لہر سی اٹھ گئی ہندوستانی کھیلوں سے جڑنے کی، ان میں مشغول ہونے کی، انہیں سیکھنے کی۔ ’من کی بات‘ میں، جب ہندوستانی کھلونوں کی بات ہوئی، تو ملک کے لوگوں نے اسے بھی ہاتھوں ہاتھ فروغ دیا۔ اب تو ہندوستانی کھلونوں کا اتنا کریز ہو گیا ہے کہ ملک کے باہر بھی ان کی ڈیمانڈ بہت بڑھ رہی ہے۔ جب ’من کی بات‘ میں ہم نے اسٹوری ٹیلنگ کی ہندوستانی مہارت پر بات کی، تو ان کی شہرت بھی دور دور تک پہنچ گئی۔ لوگ، زیادہ سے زیادہ ہندوستانی اسٹوری ٹیلنگ کی مہارت کی طرف متوجہ ہونے لگے۔
ساتھیو، آپ کو یاد ہوگا سردار پٹیل کی جینتی یعنی ’ایکتا دیوس‘ کے موقع پر ’من کی بات‘ میں ہم نے تین کمپٹیشنز کی بات کی تھی۔ یہ مقابلے حب الوطنی پر ’گیت‘، ’لوری‘ اور ’رنگولی‘ اس سے جڑی تھیں۔ مجھے، یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے، ملک بھر کے 700 سے زیادہ ضلعوں کے 5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا ہے۔ بچے، بڑے، بزرگ، سبھی نے، اس میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور 20 سے زیادہ زبانوں میں اپنی اینٹٹیز بھیجی ہیں۔ ان کمپٹیشنز میں حصہ لینے والے سبھی امیدواروں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی، اپنے آپ میں، ایک چمپئن ہے، فن کا ماہر ہے۔ آپ سبھی نے یہ دکھایا ہے کہ اپنے ملک کی تکثیریت اور ثقافت کے لیے آپ کے دل میں کتنا پیار ہے۔
ساتھیو، آج اس موقع پر مجھے لتا منگیشکر جی، لتا دیدی کی یاد آنا بہت فطری ہے۔ کیوں کہ جب یہ مقابلہ شروع ہوا تھا، اس دن لتا دیدی نے ٹوئٹ کرکے ملک کے شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس روایت سے ضرور جڑیں۔
ساتھیو، لوری رائٹنگ کمپٹیشن میں، پہلا انعام، کرناٹک کے چامراج نگر ضلع کے بی ایم منجو ناتھ جی نے جیتا ہے۔ انہیں یہ انعام کنڑ میں لکھی ان کی لوری ’ملگو کندا‘ کے لیے ملا ہے۔ اسے لکھنے کی ترغیب انہیں اپنی ماں اور دادی کے گائے لوری گیتوں سے ملی۔ آپ اسے سنیں گے تو آپ کو بھی مزہ آئے گا۔
(کنڑ ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
’’سو جاؤ، سو جاؤ، بیبی،
میرے سمجھدار لاڈلے، سو جاؤ،
دن چلا گیا ہے اور اندھیرا ہے،
نیند کی دیوی آ جائے گی،
ستاروں کے باغ سے،
خواب کاٹ لائے گی،
سو جاؤ، سو جاؤ،
جو جو…جو…جو
جو جو…جو…جو‘‘
آسام میں کامروپ ضلع کے رہنے والے دنیش گووالا جی نے اس مقابلہ میں سیکنڈ پرائز جیتا ہے۔ انہوں نے جو لوری لکھی ہے، اس میں مقامی مٹی اور میٹل کے برتن بنانے والے کاریگروں کے پاپولر کرافٹ کی چھاپ ہے۔
(آسامی ساؤنڈ کلپ (35 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
کمہار دادا جھولا لے کر آئے ہیں،
جھولے میں بھلا کیا ہے؟
کھول کر دیکھا کمہار کے جھولے کو تو،
جھولے میں تھی پیاری سی کٹوری!
ہماری گڑیا نے کمہار سے پوچھا،
کیسی ہے یہ چھوٹی سی کٹوری!
گیتوں اور لوری کی طرح ہی رنگولی کمپٹیشن بھی کافی مقبول رہا۔ اس میں حصہ لینے والوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت رنگولی بنا کر بھیجی۔ اس میں وِننگ انٹری، پنجاب کے، کمل کمار جی کی رہی۔ انہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس اور امر شہید ویر بھگت سنگھ کی بہت ہی خوبصورت رنگولی بنائی۔ مہاراشٹر کے سانگلی کے سچن نریندر اوساری جی نے اپنی رنگولی میں جلیاں والا باغ، اس کا قتل عام اور شہید اودھم سندھ کی بہادری کو پیش کیا۔ گوا کے رہنے والے گرودت وانٹیکر جی نے گاندھی جی کی رنگولی بنائی، جب کہ پڈوچیری کے مالا تلیسوم جی نے بھی آزادی کے کئی عظیم سپاہیوں پر اپنا فوکس رکھا۔ حب الوطنی کے گیت کے مقابلہ میں جیت حاصل کرنے والی ٹی وجے درگا جی آندھرا پردیش کی ہیں۔ انہوں نے تیلگو میں اپنی انٹری بھیجی تھی۔ وہ اپنے علاقے کے مشہور مجاہد آزادی نرسمہا ریڈی گارو جی سے کافی متاثر رہی ہیں۔ آپ بھی سنئے وجے درگا جی کی انٹری کا یہ حصہ
(تیلگو ساؤنڈ کلپ (27 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
ہندوستانی جدوجہد آزادی کے تخم ہو، لگام ہو!
انگریزوں کے انصاف سے عاری بے لگام جبرو استحصال کو دیکھ
خون تیرا کھولا اور آگ اُگلا!
ریناڈو صوبہ کے سورج،
اے ویر نرسنگھ!
تیلگو کے بعد، اب میں آپ کو میتھلی میں ایک کلپ سناتا ہوں۔ اسے دیپک وتس جی نے بھیجا ہے۔ انہوں نے بھی اس مقابلہ میں انعام جیتا ہے۔
(میتھلی ساؤنڈ کلپ (30 سیکنڈ) اردو ترجمہ)
ہندوستان دنیا کی شان ہے بھیا،
اپنا ملک عظیم ہے،
تین جانب سمندر سے گھرا،
شمال میں کیلاش طاقتور ہے،
گنگا، یمنا، کرشنا، کاویری،
کوشی، کملا بلان ہے،
اپنا ملک عظیم ہے بھیا،
ترنگے میں بس جان ہے
ساتھیو، مجھے امید ہے، آپ کو یہ پسند آئی ہوگی۔ مقابلہ میں آئی اس طرح کی اینٹٹیز کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ آپ، وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر جا کر انہیں اپنی فیملی کے ساتھ دیکھیں اور سنیں – آپ کو بہت ترغیب ملے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، بات بنارس کی ہو، شہنائی کی ہو، استاد بسم اللہ خاں جی کی ہو تو ظاہر ہے کہ میرا ذہن اس طرف جائے گا ہی۔ کچھ دن پہلے ’استاد بسم اللہ خاں یوا پرسکار‘ دیے گئے۔ یہ ایوارڈ میوزک اور پرفارمنگ آرٹس کے شعبے میں ابھر رہے باصلاحیت فنکاروں کو دیے جاتے ہیں۔ یہ فن و موسیقی کی دنیا کی مقبولیت کو آگے بڑھانے کے ساتھ ہی اسے تقویت بخشنے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ان میں، وہ فنکار بھی شامل ہیں جنہوں نے ان انسٹرومنٹ میں نئی جان پھونکی ہے، جن کی مقبولیت وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی تھی۔ اب، آپ سبھی اس ٹیون کو غور سے سنئے…
(ساؤنڈ کلپ (21 سیکنڈ) انسٹرومنٹ – ’سُر سنگار‘، آرٹسٹ – جوائے دیپ مکھرجی)
کیا آپ جانتے ہیں یہ کون سا انسٹرومنٹ ہے؟ ممکن ہے آپ کو پتہ نہ بھی ہو! اس ساز کا نام ’سُر سنگار‘ ہے اور اس دُھن کو تیار کیا ہے جوائے دیپ مکھرجی نے۔ جوائے دیپ جی، استاد بسم اللہ خاں ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے نوجوانوں میں شامل ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کی دُھنوں کو سننا پچھلی 50 اور 60 کی دہائی سے ہی نایاب ہو چکا تھا، لیکن، جوائے دیپ، سرسنگار کو پھر سے پاپولر بنانے میں جی جان سے مصروف ہیں۔ اسی طرح، بہن اُپّلو ناگ منی جی کی کوشش بھی بہت ہی متاثرکن ہے، جنہیں مینڈولن میں کارنیٹک انسٹرومینٹل کے لیے یہ انعام دیا گیا ہے۔ وہیں، سنگرام سنگھ سہاس بھنڈارے جی کو وارکری کیرتن کے لیے یہ انعام ملا ہے۔ اس لسٹ میں صرف موسیقی سے جڑے فنکار ہی نہیں ہیں – وی درگا دیوی جی نے رقص کی ایک قدیم شکل ’کرکٹم‘ کے لیے یہ انعام جیتا ہے۔ اس انعام کے ایک اور فاتح، راج کمار نائک جی نے تلنگانہ کے 31 ضلعوں میں، 101 دن تک چلنے والی پیرنی اوڈیسی کا اہتام کیا تھا۔ آج، لوگ انہیں پیرنی راج کمار کے نام سے جاننے لگے ہیں۔ پیرنی ناٹیم، بھگوان شیو کو پیش کیا گیا ایک رقص ہے، جو کاکتیہ سلطنت کے دور میں کافی مقبول تھا۔ اس سلطنت کی جڑیں آج کے تلنگانہ سے جڑی ہیں۔ ایک دوسرے انعام یافتہ سائیکھم سرچندر سنگھ جی ہیں۔ یہ میتیئی پُنگ انسٹرومنٹ بنانے میں اپنی مہارت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس انسٹرومنٹ کا منی پور سے ناطہ ہے۔ پورن سنگھ ایک دویانگ فنکار ہیں، جو راجولا- ملوشاہی، نیولی، ہڑکا بول، جاگر جیسی موسیقی کی مختلف شکلوں کو مقبول بنا رہے ہیں۔ انہوں نے ان سے جڑی کئی آڈیو ریکارڈنگ بھی تیار کی ہیں۔ اتراکھنڈ کے فوک میوزک میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرکے پورن سنگھ جی نے کئی انعامات بھی جیتے ہیں۔ وقت محدود ہونے کی وجہ سے، میں یہاں سبھی انعام یافتگان کی باتیں بھلے ہی نہ کر پاؤں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ ان کے بارے میں ضرور پڑھیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سبھی فنکار، پرفارمنگ آرٹس کو مزید مقبول بنانے کے لیے گراس روٹس پر سبھی کو ترغیب دیتے رہیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، تیزی سے آگے بڑھتے ہمارے ملک میں ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کونے کونے میں دکھائی دے رہی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کو گھر گھر پہنچانے میں الگ الگ ایپس کا بڑا رول ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک ایپ ہے، ای سنجیونی۔ اس ایپ سے ٹیلی کنسلٹیشن، یعنی دور بیٹھے، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ڈاکٹر سے، اپنی بیماری کے بارے میں صلاح کر سکتے ہیں۔ اس ایپ کا استعمال کرکے اب تک ٹیلی کنسلٹیشن کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ کی عدد کو پار کر گئی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے 10 کروڑ کنسلٹیشنز! مریض اور ڈاکٹر کے ساتھ شاندار ناطہ – یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔ اس حصولیابیکے لیے، میں سبھی ڈاکٹروں اور اس سہولت کا فائدہ اٹھانے والے مریضوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہندوستان کے لوگوں نے، ٹیکنالوجی کو کیسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے، یہ اس کی زندہ مثال ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کورونا کے دور میں ای سنجیونی ایپ اس کے ذریعے ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے ایک بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے۔ میرا بھی من ہوا کہ کیوں نہ اس کے بارے میں ’من کی بات‘ میں ہم ایک ڈاکٹر اور ایک مریض سے بات کریں، مذاکرہ کریں اور آپ تک بات کو پہنچائیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ٹیلی کنسلٹیشن لوگوں کے لیے آخر کتنا مؤثر رہا ہے۔ ہمارے ساتھ سکم سے ڈاکٹر مدن منی جی ہیں۔ ڈاکٹر مدن منی جی رہنے والے سکم کے ہی ہیں، لیکن انہوں نے ایم بی بی ایس دھنباد سے کیا اور پھر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ایم ڈی کیا۔ وہ دیہی علاقوں کے سینکڑوں لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن دے چکے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار… نمسکار مدن جی۔
ڈاکٹر مدن منی: جی نمسکار سر۔
جناب وزیر اعظم: میں نریندر مودی بول رہا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ تو بنارس میں پڑھے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی میں بنارس میں پڑھا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: آپ کا میڈیکل ایجوکیشن وہیں ہوا۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: تو جب آپ بنارس میں تھے تب کا بنارس اور آج بدلا ہوا بنارس کبھی دیکھنے گئے کہ نہیں گئے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی وزیر اعظم صاحب میں جا نہیں پایا ہوں جب سے میں واپس سکم آیا ہوں، لیکن میں نے سنا ہے کہ کافی بدل گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم: تو کتنے سال ہو گئے آپ کو بنارس چھوڑے؟
ڈاکٹر مدن منی: بنارس 2006 سے چھوڑا ہوا ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… پھر تو آپ کو ضرور جانا چاہیے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، میں نے فون تو اس لیے کیا کہ آپ سکم کے اندر دور افتادہ پہاڑوں میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو ٹیلی کنسلٹیشن کی بہت بڑی خدمات دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو آپ کا تجربہ سنانا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ذرا مجھے بتائیے، کیسا تجربہ رہا؟
ڈاکٹر مدن منی: تجربہ، بہت اچھا رہا وزیر اعظم صاحب۔ کیا ہے کہ سکم میں بہت نزدیک کا جو پی ایچ سی ہے، وہاں جانے کے لیے بھی لوگوں کو گاڑی میں چڑھ کر کم از کم ایک دو سو روپے لے کر جانا پڑتا ہے۔ اور ڈاکٹر ملے، نہیں ملے یہ بھی ایک پرابلم ہے۔ تو ٹیلی کنسلٹیشن کے ذریعے لوگ ہم لوگ سے سیدھے جڑ جاتے ہیں، دور دراز کے لوگ۔ ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر کے جو سی ایچ اوز ہوتے ہیں، وہ لوگ، ہم لوگ سے، کنیکٹ کروا دیتے ہیں۔ اور ہم لوگ کا جو پرانی ان کی بیماری ہے ان کی رپورٹس، ان کا ابھی کا پریزنٹ کنڈیشن ساری چیزیں وہ ہم لوگ کو بتا دیتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: یعنی ڈاکیومنٹ ٹرانسفر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: جی… جی۔ ڈاکیومنٹ ٹرانسفر بھی کرتے ہیں اور اگر ٹرانسفر نہیں کر سکے تو وہ پڑھ کے ہم لوگوں کو بتاتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: وہاں کا ویلنس سینٹر کا ڈاکٹر بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویلنس سینٹر میں جو سی ایچ او رہتا ہے، کمیونٹی ہیلتھ آفیسر۔
جناب وزیر اعظم: اور جو پیشنٹ ہے وہ اپنی پریشانیاں آپ کو سیدھے بتاتا ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، پیشنٹ بھی پریشانی ہم کو بتاتا ہے۔ پھر پرانے ریکارڈز دیکھ کے پھر اگر کوئی نئی چیزیں ہم لوگوں کو جاننا ہے۔ جیسے کسی کا چیسٹ آسلٹیٹ کرنا ہے، اگر ان کو پیر سوجا ہے کہ نہیں؟ اگر سی ایچ او نے نہیں دیکھا ہے تو ہم لوگ اس کو بولتے ہیں کہ جا کر دیکھو سوجن ہے، نہیں ہے، آنکھ دیکھو، اینیمیا ہے کہ نہیں ہے، اس کا اگر کھانسی ہے تو چیسٹ کو آسلٹیٹ کرو اور پتہ کرو کہ وہاں پہ ساؤنڈ ہے کہ نہیں۔
جناب وزیر اعظم: آپ وائس کال سے بات کرتے ہیں یا ویڈیو کال کا بھی استعمال کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، ویڈیو کال کا استعمال کرتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: تو آپ پیشنٹ کو بھی، آپ بھی دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو بھی دیکھ پاتے ہیں، جی۔
جناب وزیر اعظم: پیشنٹ کو کیا فیلنگ آتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: پیشنٹ کو اچھا لگتا ہے کیوں کہ ڈاکٹر کو نزدیک سے وہ دیکھ پاتا ہے۔ اس کو کنفیوزن رہتا ہے کہ اس کا دوا گھٹانا ہے، بڑھانا ہے، کیوں کہ سکم میں زیادہ تر جو پیشنٹ ہوتے ہیں، وہ ڈائبٹیز، ہائپر ٹینشن کے آتے ہیں اور ایک ڈائبٹیز اور ہائپر ٹینشن کے دوا کو چینج کرنے کے لیے اس کو ڈاکٹر سے ملنے کے لیے کتنا دور جانا پڑتا ہے۔ لیکن ٹیلی کنسلٹیشن کے تھرو وہیں مل جاتا ہے اور دوا بھی ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر میں فری ڈرگز انیشیٹو کے تھرو مل جاتا ہے۔ تو وہیں سے دوا بھی لے کر جاتا ہے وہ۔
جناب وزیر اعظم: اچھا مدن منی جی، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پیشنٹ کا ایک مزاج رہتا ہے کہ جب تک وہ ڈاکٹر آتا نہیں ہے، ڈاکٹر دیکھتا نہیں ہے، اس کو اطمینان نہیں ہوتا ہے اور ڈاکٹر کو بھی لگتا ہے ذرا مریض کو دیکھنا پڑے گا، اب وہاں سارا ہی ٹیلی کام میں کنسلٹیشن ہوتاہ ے تو ڈاکٹر کو کیا فیل ہوتاہ ے، پیشنٹ کو کیا فیل ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، وہ ہم لوگ کو بھی لگتا ہے کہ اگر پیشنٹ کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر کو دیکھنا چاہیے، تو ہم لوگ کو، جو جو چیزیں دیکھنا ہے وہ ہم لوگ سی ایچ او کو بول کے، ویڈیو میں ہی ہم لوگ دیکھنے کے لیے بولتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو پیشنٹ کو ویڈیو میں ہی نزدیک میں آ کے اس کی جو پریشانیاں ہیں اگر کسی کو جلد کا پرابلم ہے، اسکن کا پرابلم ہے، تو وہ ہم لوگ کو ویڈیو سے ہی دکھا دیتے ہیں۔ تو اطمینان رہتا ہے ان لوگوں کو۔
جناب وزیر اعظم: اور بعد میں اس کا علاج کرنے کے بعد اس کو اطمینان ملتا ہے، کیا تجربہ آتا ہے؟ پیشنٹ ٹھیک ہو رہے ہیں؟
ڈاکٹر مدن منی: جی، بہت اطمینان ملتا ہے۔ ہم کو بھی اطمینان ملتا ہے سر۔ کیوں کہ میں ابھی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ہوں اور ساتھ ساتھ میں ٹیلی کنسلٹیشن بھی کرتا ہوں تو فائل کے ساتھ ساتھ پیشنٹ کو بھی دیکھنا میرے لیے بہت اچھا، خوشگوار تجربہ رہتاہ ے۔
جناب وزیر اعظم: اوسطاً کتنے پیشنٹ آپ کو ٹیلی کنسلٹیشن کیس آتے ہوں گے؟
ڈاکٹر مدن منی: ابھی تک میں نے 536 پیشنٹ دیکھے ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اوہ… یعنی آپ کو کافی اس میں مہارت آ گئی ہے۔
ڈاکٹر مدن منی: جی، اچھا لگتا ہے دیکھنے میں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میں آپ کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آپ سکم کے دور افتادہ جنگلوں میں، پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی اتنی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اور خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے دور دراز علاقے میں بھی ٹیکنالوجی کا اتنا بہتر استعمال ہو رہا ہے۔ چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
ڈاکٹر مدن منی: تھینک یو۔
ساتھیو، ڈاکٹر مدن منی جی کی باتوں سے صاف ہے کہ ای سنجیونی ایپ کس طرح ان کی مدد کر رہا ہے۔ ڈاکٹر مدن جی کے بعد اب ہم ایک اور مدن جی سے جڑتے ہیں۔ یہ اتر پردیش کے چندولی ضلع کے رہنے والے مدن موہن لال جی ہیں۔ اب یہ بھی اتفاق ہے کہ چندولی بھی بنارس سے سٹا ہوا ہے۔ آئیے، مدن موہن جی سے جانتے ہیں کہ ای سنجیونی کو لے کر ایک مریض کے طور پر ان کا تجربہ کیا رہا ہے؟
جناب وزیر اعظم: مدن موہن جی، پرنام!
مدن موہن جی: نمسکار، نمسکار صاحب۔
جناب وزیر اعظم: نمسکار! اچھا، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ڈائبٹیز کے مریض ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: اور آپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ٹیلی کنسلٹیشن کر کر کے اپنی بیماری کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔
مدن موہن جی: جی۔
جناب وزیر اعظم: ایک پیشنٹ کے ناطے، ایک دردی کے طور پر، میں آپ کے تجربات سننا چاہتا ہوں، تاکہ میں ملک کے شہریوں تک اس بات کو پہنچانا چاہوں کہ آج کی ٹیکنالوجی سے ہمارے گاؤں میں رہنے والے لوگ بھی کس طرح سے اس کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ ذرا بتائیے کیسے کرتے ہیں؟
مدن موہن جی: ایسا ہے سر جی، ہاسپٹیل دور ہیں اور جب ڈائبٹیز ہم کو ہوا تو ہم کو جو ہے 6-5 کلومیٹر دور جا کر کے علاج کروانا پڑتا تھا، دکھانا پڑتا تھا۔ اور جب سے سسٹم آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ اسیے ہے کہ ہم اب جاتا ہوں، ہمارا جانچ ہوتا ہے، ہم کو باہر کے ڈاکٹروں سے بات بھی کرا دیتی ہیں اور دوا بھی دے دیتی ہیں۔ اس سے ہم کو بڑا فائدہ ہے اور، اور لوگوں کو بھی فائدہ ہے اس سے۔
جناب وزیر اعظم: تو ایک ہی ڈاکٹر ہر بار آپ کو دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بدلتے جاتے ہیں؟
مدن موہن جی: جیسے ان کونہیں سمجھ، ڈاکٹر کو دکھا دیتی ہیں۔ وہ ہی بات کرکے دوسرے ڈاکٹر سے ہم سے بات کراتی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اور ڈاکٹر آپ کو جو گائیڈنس دیتے ہیں وہ آپ کو پورا فائدہ ہوتا ہے اس سے۔
مدن موہن جی: ہم کو فائدہ ہوتا ہے۔ ہم کو اس سے بہت بڑا فائدہ ہے۔ اور گاؤں کے لوگوں کو بھی فائدہ اس سے ہے۔ سبھی لوگ وہاں پوچھتے ہیں کہ بھیا ہمارا بی پی ہے، ہمارا شوگر ہے، ٹیسٹ کرو، جانچ کرو، دوا بتاؤ۔ اور پہلے تو 6-5 کلومیٹر دور جاتے تھے، لمبی لائن لگی رہتی تھی، پیتھالوجی میں لائن لگی رہتی تھی۔ ایک ایک دن کا وقت نقصان ہوتا تھا۔
جناب وزیر اعظم: مطلب، آپ کا وقت بھی بچ جاتا ہے۔
مدن موہن جی: اور پیسہ بھی خرچ ہوتا تھا اور یہاں پر مفت خدمات سب ہو رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: اچھا، جب آپ اپنے سامنے ڈاکٹر کو ملتے ہیں تو ایک اعتماد بنتا ہے۔ چلو بھائی، ڈاکٹر ہے، انہوں نے میری نبض دیکھ لی ہے، میری آنکھیں دیکھ لی ہیں، میری جیبھ کو بھی چیک کر لیا ہے۔ تو ایک الگ فیلنگ آتا ہے۔ اب یہ ٹیلی کنسلٹیشن کرتے ہیں تو ویسا ہی اطمینان ہوتا ہے آپ کو؟
مدن موہن جی: ہاں، اطمینان ہوتا ہے کہ وہ ہماری نبض پکڑ رہے ہیں، آلہ لگا رہے ہیں، ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے اور ہم کو بڑا طبیعت خوش ہوتا ہے کہ بھئی اتنا اچھا نظام آپ کے ذریعے بنایا گیا ہے کہ جس سے کہ ہم کو یہاں پریشانی سے جانا پڑتا تھا، گاڑی کا کرایہ دینا پڑتا تھا، وہاں لائن لگانا پڑتا تھا۔ اور ساری سہولیات ہم کو گھر بیٹھے بیٹھے مل رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، مدن موہن جی میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات۔ عمر کے اس پڑاؤ پر بھی آپ ٹیکنالوجی کو سیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ اوروں کو بھی بتائیے تاکہ لوگوں کا وقت بھی بچ جائے، پیسہ بھی بچ جائے اور ان کو جو بھی رہنمائی ملتی ہے، اس سے دوائیں بھی اچھے طریقے سے ہو سکتی ہیں۔
مدن موہن جی: ہاں، اور کیا۔
جناب وزیر اعظم: چلئے، میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات مدن موہن جی۔
مدن موہن جی: بنارس کو صاحب آپ نے کاشی وشوناتھ اسٹیشن بنا دیا، ڈیولپمنٹ کر دیا۔ یہ آپ کو مبارکباد ہے ہماری طرف سے۔
جناب وزیر اعظم: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے کیا بنایا جی، بنارس کے لوگوں نے بنارس کو بنایا ہے۔ نہیں تو، ہم تو ماں گنگا کی خدمت کے لیے، ماں گنگا نے بلایا ہے، بس، اور کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے جی، بہت بہت مبارکباد آپ کو۔ پرنام جی۔
مدن موہن جی: نمسکار سر!
جناب وزیر اعظم: نمسکار جی!
ساتھیو، ملک کے عام انسانوں کے لیے، متوسط طبقہ کے لیے، پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے، ای سنجیونی، زندگی کو بچانے والا ایپ بن رہا ہے۔ یہ ہے ہندوستان کے ڈیجیٹل انقلاب کی طاقت۔ اور اس کا اثر آج ہم ہر علاقے میں دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کے یو پی آئی کی طاقت بھی آپ جانتے ہی ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ملک، اس کی طرف راغب ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہندوستان اور سنگاپور کے درمیان یو پی آئی- پے ناؤ لنک لانچ کیا گیا۔ اب، سنگاپور اور ہندوستان کے لوگ اپنے موبائل فون سے اسی طرح پیسے ٹرانسفر کر رہے ہیں جیسے وہ اپنے اپنے ملک کے اندر کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ہندوستان کا ای سنجیونی ایپ ہو یا پھر یو پی آئی، یہ ایز آف لیونگ کو بڑھانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کسی ملک میں غائب ہو رہی کسی پرندے کی نسل کو، کسی جاندار کو بچا لیا جاتا ہے، تو اس کی پوری دنیا میں چرچہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی متعدد عظیم روایات بھی ہیں، جو غائب ہو چکی تھیں، لوگوں کے ذہن و دماغ سے ہٹ چکی تھیں، لیکن اب انہیں عوامی حصہ داری کی طاقت سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس کی چرچہ کے لیے ’من کی بات‘ سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوگا؟
اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں، وہ جان کر واقعی آپ کو بہت خوشی ہوگی، وراثت پر ناز ہوگا۔ امریکہ میں رہنے والے جناب کنچن بنرجی نے وراثت کے تحفظ سے جڑی ایسی ہی ایک مہم کی طرف میری توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ساتھیو، مغربی بنگال میں ہگلی ضلع کے بانس بیریا میں اس مہینہ ’تربینی کمبھو مہوتشو‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں آٹھ لاکھ سے زیادہ عقیدت مند شامل ہوئے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اتنا خاص کیوں ہے؟ خاص اس لیے، کیوں کہ اس روایت کو 700 سال کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ روایت ہزاروں سال پرانی ہے لیکن بدقسمتی سے 700 سال پہلے بنگال کے تربینی میں ہونے والا یہ مہوتسو بند ہو گیا تھا۔ اسے آزادی کے بعد شروع کیا جانا چاہیے تھا، لیکن وہ بھی نہیں ہو پایا۔ دو سال پہلے، مقامی لوگ اور ’تربینی کمبھو پاریچالونا شامیتی‘ کے توسط سے، یہ مہوتسو پھر شروع ہوا ہے۔ میں اس کے انعقاد سے جڑے سبھی لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ صرف ایک روایت کو ہی زندہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ ہندوستان کی ثقافتی وراثت کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔
ساتھیو، مغربی بنگال میں تربینی کو صدیوں سے ایک مقدم مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کا ذکر مختلف منگل کاویہ، ویشنو ساہتیہ، شاک ادب اور دیگر بنگالی ادبی تخلیقات میں ملتا ہے۔ مختلف تاریخی دستاویزوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہ علاقہ سنسکرت، تعلیم اور ہندوستانی ثقافت کا مرکز تھا۔ کئی سنت اسے ماگھ سنکرانتی میں کمبھ کے اشنان کے لیے مقدس جگہ مانتے ہیں۔ تربینی میں آپ کو کئی گنگا گھاٹ، شیو مندر اور ٹیراکوٹا فن تعمیر سے سجی قدیم عمارتیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ تربینی کی وراثت کو دوبارہ قائم کرنے اور کمبھ کی روایت کے امتیاز کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے یہاں پچھلے سال کمبھ میلہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ سات صدیوں بعد، تین دن کے کمبھ مہا اشنان اور میلہ نے، اس علاقے میں ایک نئی توانائی پھونکی ہے۔ تین دنوں تک ہر روز ہونے والی گنگا آرتی، رودرابھشیک اور یگیہ میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ اس بار ہوئے مہوتسو میں مختلف آشرم، مٹھ اور اکھاڑے بھی شامل تھے۔ بنگالی روایات سے جڑے مختلف فنون جیسے کیرتن، باؤل، گوڑیو نرتیہ، سری کھول، پوٹیر گان، چھوؤ ناچ، شام کے پروگراموں میں توجہ کا مرکز بنے تھے۔ ہمارے نوجوانوں کو ملک کے سنہرے ماضی سے جوڑنے کی یہ بہت ہی قابل تعریف کوشش ہے۔ ہندوستان میں ایسی کئی اور پریکٹسز ہیں جنہیں ریوائیو کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے بارے میں ہونے والی گفتگو لوگوں کو اس سمت میں ضرور متوجہ کرے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، سووچھ بھارت ابھیان نے ہمارے ملک میں عوامی حصہ داری کے معنی ہی بدل دیے ہیں۔ ملک میں کہیں پر بھی کچھ صفائی سے جڑا ہوا ہوتا ہے تو لوگ اس کی جانکاری مجھ تک ضرور پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی میرا دھیان گیا ہے، ہریانہ کے نوجوانوں کے ایک سووچھتا ابھیان پر۔ ہریانہ میں ایک گاؤں ہے دُلہیڑی۔ یہاں کے نوجوانوں نے طے کیا کہ ہمیں بھوانی شہر کو صفائی کے معاملے میں ایک مثال بنانا ہے۔ انہوں نے یوا سووچھتا ایوم جن سیوا سمیتی نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس کمیٹی سے جڑے نوجوان صبح 4 بجے بھوانی پہنچ جاتے ہیں۔ شہر کے الگ الگ مقامات پر یہ مل کر صفائی مہم چلاتے ہیں۔ یہ لوگ اب تک شہر کے الگ الگ علاقوں سے کئی ٹن کوڑا صاف کر چکے ہیں۔
ساتھیو، سووچھ بھارت ابھیان کا ایک اہم گوشہ ویسٹ ٹو ویلتھ بھی ہے۔ اوڈیشہ کے کیندر پاڑہ ضلع کی ایک بہن کملا موہرانا ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں۔ اس گروپ کی عورتیں دودھ کی تھیلی اور دوسری پلاسٹک پیکنگ سے ٹوکری اور موبائل اسٹینڈ جیسی کئی چیزیں بناتی ہیں۔ یہ ان کے لیے صفائی کے ساتھ ہی آمدنی کا بھی ایک اچھا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم اگر ٹھان لیں تو سووچھ بھارت میں اپنا بہت بڑا تعاون دے سکتے ہیں۔ کم از کم پلاسٹک کے بیگ کی جگہ کپڑے کے بیگ کا عہد تو ہم سب کو ہی لینا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے، آپ کا یہ عہد آپ کو کتنا سکون دے گا، اور دوسرے لوگوں کو ضرور آمادہ کرے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے اور آپ نے ساتھ جڑ کر ایک بار پھر کئی حوصلہ افزا موضوعات پر بات کی۔ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کے اسے سنا اور اب اسے دن بھر گنگنائیں گے بھی۔ ہم ملک کی جفاکشی کی جتنی بھی بات کرتے ہیں، اتنی ہی ہمیں توانائی ملتی ہے۔ اسی توانائی کے ساتھ چلتے چلتے آج ہم ’من کی بات‘ کے 98ویں ایپی سوڈ کے مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ آج سے کچھ دن بعد ہی ہولی کا تہوار ہے۔ آپ سبھی کو ہولی کی مبارکباد۔ ہمیں، ہمارے تہوار ووکل فار لوکل کے عہد کے ساتھ ہی منانے ہیں۔ اپنے تجربات بھی میرے ساتھ شیئر کرنا نہ بھولئے گا۔ تب تک کے لیے مجھے وداع دیجئے۔ اگلی بار ہم پھر نئے موضوعات پر ساتھ ملیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!
یہ 2023 کی پہلی 'من کی بات' ہے اور اس کے ساتھ یہ پروگرام کی 97ویں کڑی بھی ہے۔ آپ سب کے ساتھ ایک بار پھر بات چیت کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہر سال جنوری کے مہینے میں کافی واقعات پیش آتے ہیں۔ اس مہینے، 14 جنوری کے آس پاس، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ملک میں تہواروں کی رونق چھائی رہی ۔ ملک نے اپنا یوم جمہوریہ بھی مناتا ہے۔ اس بار بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات کے کئی پہلوؤں کی خوب تعریف کی جا رہی ہے۔ جیسلمیر سے پلکت نے مجھے لکھا ہے کہ 26 جنوری کی پریڈ میں کرتویہ پتھ بنانے والے مزدوروں کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ کانپور سے جیا لکھتی ہیں کہ انہیں پریڈ میں شامل جھانکیوں میں بھارتی ثقافت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھ کر بہت لطف آیا۔ خواتین اونٹ سواروں اور سی آر پی ایف کے خواتین دستے کی، جس نے پہلی بار اس پریڈ میں حصہ لیا، کا بھی ستائش کی جا رہی ہے۔
دوستو، دہرادون سے وتسل جی نے مجھے لکھا ہے کہ میں ہمیشہ 25 جنوری کا انتظار کرتا ہوں کیونکہ اس دن پدم ایوارڈز کا اعلان ہوتا ہے اور ایک طرح سے، 25 کی شام 26 جنوری کے لیے میرے جوش و خروش کو بڑھاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو دیئے جانے والے پدم ایوارڈ کے بارے میں اپنے خیالات کو بھی شیئر کیا ہے جنہوں نے بنیادی سطح پر اپنی لگن اور خدمات کے ذریعے یہ ایوارڈ حاصل کیا۔ اس بار پدم ایوارڈ پانے والوں میں قبائلی برادری اور قبائلی زندگی سے وابستہ لوگوں کو اچھی نمائندگی ملی ہے۔ قبائلی زندگی شہروں کی ہلچل سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس کے چیلنجز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود قبائلی معاشرے اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ قبائلی برادریوں سے متعلق پہلوؤں کے تحفظ اور تحقیق کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ٹوٹو، ہو، کوی، کوی اور منڈا جیسی قبائلی زبانوں پر کام کرنے والی بہت سی عظیم شخصیات کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے۔ دھنی رام ٹوٹو، جنم سنگھ سویا اور بی رام کرشن ریڈی جی… اب پورا ملک انہیں جان چکا ہے۔ سدھی، جاراوا اور اونگے جیسے قبائلیوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کو بھی اس بار اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ جیسے… ہیرا بائی لوبی، رتن چندر کار اور ایشور چندر ورما جی۔ قبائلی برادریاں ہماری سرزمین، ہمارے ورثے کا اٹوٹ حصہ رہی ہیں۔ ملک اور معاشرے کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والی شخصیات کو عزت افزائی سے نئی نسل کو بھی حوصلہ ملے گا۔ اس سال پدم ایوارڈز کی بازگشت ان علاقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے جو پہلے نکسلیوں متاثر ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے نکسلیوں سے متاثرہ علاقوں میں گمراہ نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے والوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کے لیے کانکیر میں لکڑی کی نقاشی کرنے والے اجے کمار منڈاوی اور گڈچرولی کی مشہور جھاڑی پٹی رنگ بھومی سے وابستہ پرشورام کوماجی کھنے کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح، رامکویوانگبے نیومے، بکرم بہادر جماعتیہ اور کرما وانگچو کو، جو شمال مشرق میں اپنی ثقافت کے تحفظ میں مصروف ہیں، بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
دوستو، اس بار پدم ایوارڈز سے نوازے جانے والوں میں موسیقی کی دنیا میں زبردست تعاون کرنے والے کئی لوگ شامل ہیں۔ موسیقی کس کو پسند نہیں؟ موسیقی کے لیے ہر ایک کا انتخاب مختلف ہو سکتا ہے، لیکن موسیقی ہر ایک کی زندگی کا حصہ ہے۔ اس بار پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو ہماری موسیقی کے روایتی آلات جیسے سنتور، بمہم، دوی تارا کی دھن میں مہارت رکھتے ہیں۔ غلام محمد زاز، ماؤ سو-پونگ، ری-سنگھبور کورکا-لانگ، مونی وینکٹپا اور منگل کانتی رائے ان چند ناموں میں شامل ہیں جن کا ہر طرف چرچا ہے۔
دوستو، بہت سے پدم ایوارڈ یافتہ ہمارے درمیان ایسے دوست ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ملک کا سر فخر سے بلند کیا ، اور اپنی زندگیوں کو ’’قوم پہلے‘‘ کے اصول کے لیے وقف کیا۔ وہ اپنے کام میں پوری لگن سے مصروف رہے اور اس کے بدلے کسی اجر کی امید نہ رکھی۔ جن کے لیے وہ کام کر رہے ہیں ان کے چہرے پر اطمینان ہی ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ ایسے سرشار لوگوں کی عزت افزائی کر کے ہم وطنوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ میں یہاں تمام پدم ایوارڈ یافتہ افراد کے نام تو نہیں لے سکتا، لیکن میں آپ سے ضرور گزارش کرتا ہوں کہ ان پدم ایوارڈ یافتہ افراد کی متاثر کن زندگی کے بارے میں تفصیل سے جانیں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔
دوستو، آج جب ہم آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران اپنے یوم جمہوریہ پر بات کر رہے ہیں تو میں یہاں ایک دلچسپ کتاب کا بھی ذکر کروں گا۔ اس کتاب میں ایک بہت ہی دلچسپ موضوع پر بات کی گئی ہے جو مجھے چند ہفتے قبل موصول ہوئی تھی۔ اس کتاب کا نام ہے انڈیا - دی مدر آف ڈیموکریسی اور اس میں کئی بہترین مضامین ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہم بھارتیوں کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہمارا ملک جمہوریت کی ماں ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں ہے، یہ ہماری ثقافت میں ہے - یہ صدیوں سے ہمارے کام کا اٹوٹ حصہ رہی ہے۔ فطرتاً ہم ایک جمہوری معاشرہ ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے بودھ بھکشو یونین کا موازنہ بھارتی پارلیمنٹ سے کیا تھا۔ انہوں نے اسے ایک ایسا ادارہ قرار دیا جہاں تحریکوں، قراردادوں، کورم، ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی کے بہت سے اصول تھے۔ بابا صاحب کا خیال تھا کہ بھگوان بدھ کو اس وقت کے سیاسی نظام سے تحریک ملی ہوگی۔
تمل ناڈو میں ایک چھوٹا لیکن مشہور گاؤں ہے - اترمیرور۔ یہاں 1200-1100 سال پرانا ایک کتبہ ہے جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ایک پتھر پر لکھا یہ کتبہ ایک چھوٹے آئین کی طرح ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ گرام سبھا کا انعقاد کیسے ہونا چاہیے اور اس کے اراکین کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں جمہوری اقدار کی ایک اور مثال 12ویں صدی کے بھگوان بسویشور کا انوبھو منڈپم ہے۔ یہاں آزادانہ بحث ومباحثہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ میگنا کارٹا سے بھی کافی پہلے کا ہے۔ ورنگل کے کاکتیہ خاندان کے بادشاہوں کی جمہوری روایات بھی بہت مشہور تھیں۔ بھکتی تحریک نے مغربی بھارت میں جمہوریت کے کلچر کو آگے بڑھایا۔ کتاب میں سکھ پنتھ کے جمہوری جذبے پر ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جو گرو نانک دیو جی کے اتفاق رائے سے لیے گئے فیصلوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کتاب میں وسطی بھارت کے اوراون اور منڈا قبائل میں کمیونٹی پر مبنی اور اتفاق رائے سے چلنے والے فیصلہ سازی کے بارے میں بھی اچھی معلومات ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ کس طرح صدیوں سے ملک کے ہر حصے میں جمہوریت کی روح رواں ہے۔ جمہوریت کی ماں ہونے کے ناطے ہمیں اس موضوع پر مسلسل گہرائی سے سوچنا چاہیے، اس پر بحث کرنی چاہیے اور دنیا کو بھی مطلع کرنا چاہیے۔ اس سے ملک میں جمہوریت کا جذبہ مزید مضبوط ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اگر میں آپ سے پوچھوں کہ یوگا ڈے اور ہمارے مختلف قسم کے موٹے اناج - جوار میں کیا مشترک ہے، تو آپ سوچیں گے… یہ کیا موازنہ ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ حقیقت، اقوام متحدہ نے بھارت کی تجویز کے بعد یوگا کے بین الاقوامی دن اور موٹے اناج کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یوگا کا تعلق صحت سے بھی ہے اور جوار بھی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تیسری چیز زیادہ اہم ہے - دونوں مہمات میں عوامی شرکت کی وجہ سے انقلاب آنے والا ہے۔ جس طرح لوگوں نے بڑے پیمانے پر فعال حصہ لے کر یوگا اور فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ اسی طرح لوگ بڑے پیمانے پر جوار کو اپنا رہے ہیں۔ لوگ اب باجرے کو اپنی خوراک کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا بہت بڑا اثر بھی نظر آرہا ہے۔ ایک طرف، چھوٹے کسان جو روایتی طور پر باجرا پیدا کرتے تھے، بہت پرجوش ہیں۔ وہ بہت خوش ہیں کہ دنیا اب باجرے کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہے۔ دوسری طرف، ایف پی اوز اور تاجروں نے باجرے کی مارکیٹنگ اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
آندھرا پردیش کے نندیال ضلع کا رہنے والا کے وی راما سبا ریڈی جی نے باجرے کی خاطر اچھی تنخواہ والی نوکری چھوڑ دی۔ اپنی والدہ کے ہاتھوں سے بنائے گئے باجرے کا ذائقہ ایسا تھا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں باجرا پروسیسنگ یونٹ شروع کیا۔ سبا ریڈی جی لوگوں کو باجرے کے فوائد بھی بتاتے ہیں اور اسے آسانی سے دستیاب بھی کراتے ہیں۔ مہاراشٹر کے علی باغ کے قریب کناڈ گاؤں کی رہنے والی شرمیلا اوسوال گزشتہ 20 سالوں سے باجرے کی پیداوار میں منفرد انداز میں اپنا تعاون دے رہی ہیں۔ وہ کسانوں کو اسمارٹ زراعت کی تربیت فراہم کر رہی ہے۔ ان کی کوششوں سے نہ صرف باجرے کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگر آپ کو چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ جانے کا موقع ملے تو آپ کو یہاں ملٹس کیفے ضرور جانا چاہیے۔ چند ماہ قبل شروع ہونے والے اس ملیٹس کیفے میں چِلا، ڈوسا، موموز، پیزا اور منچورین جیسی اشیا بہت مقبول ہو رہی ہیں۔
کیا میں آپ سے ایک اور بات پوچھ سکتا ہوں؟ آپ نے لفظ انٹرپرینیور تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ نے میلیٹ پرینیورس سنا ہے؟ ان دنوں اوڈیشہ کے میلیت پرینیور سرخیوں میں ہیں۔ قبائلی ضلع سندر گڑھ کی تقریباً 1500 خواتین کا ایک خود امدادی گروپ اوڈیشہ ملیٹس مشن سے وابستہ ہے۔ یہاں خواتین باجرے سے لے کر کوکیز، رسگلہ، گلاب جامن اور یہاں تک کہ کیک وغیرہ بھی بنا رہی ہیں۔ مارکیٹ میں ان کی بہت زیادہ مانگ کی وجہ سے خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
الند بھوتائی ملیٹس فارمرز پروڈیوسر کمپنی نے گزشتہ سال کرناٹک کے کلبرگی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ملٹس ریسرچ کی نگرانی میں کام شروع کیا۔ لوگ یہاں کے کھاکرا، بسکٹ اور لڈو بہت پسند کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے بیدر ضلع میں، ہلسور ملیٹ پروڈیوسر کمپنی سے وابستہ خواتین جوار کی کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا آٹا بھی تیار کر رہی ہیں۔ اس کے ذریعے ان کی آمدنی میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ قدرتی کھیتی سے وابستہ چھتیس گڑھ کے سندیپ شرما کے ایف پی او میں 12 ریاستوں کے کسان شامل ہوئے ہیں۔ بلاس پور کا یہ ایف پی او 8 قسم کے موٹے اناجوں کا آٹا اور ان کے پکوان تیار کر رہا ہے۔
دوستو، آج بھارت کے کونے کونے میں جی -20 سربراہی اجلاس کی تقریبات جاری ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ملک کے کونے کونے میں جہاں بھی جی -20 سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، اس میں جوار سے تیار کردہ غذائیت سے بھرپور اور لذیذ پکوان شامل ہیں۔ باجرے کی کھچڑی، پوہا، کھیر اور روٹی کے ساتھ ساتھ راگی پر مبنی پیاسم، پوری اور ڈوسا جیسے پکوان بھی یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ جی 20 کے تمام مقامات پر جوار کی نمائشوں میں صحت سے متعلق مشروبات، اناج اور جوار سے بنائے گئے نوڈلز کی نمائش کی گئی۔ دنیا بھر میں بھارتی مشن بھی اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے بہت کوششیں کر رہے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی یہ کوشش اور دنیا میں جوار کی بڑھتی ہوئی مانگ ہمارے چھوٹے کسانوں کو تقویت دینے والی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ آج کل موٹے اناجوں سے مختلف قسم کی نئی چیزیں بننا شروع ہو گئی ہیں جو نوجوان نسل میں یکساں طور پر پسند کی جا رہی ہیں۔ میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو موٹے اناجوں کے بین الاقوامی دن کی اتنی شاندار آغاز اور اسے مسلسل آگے بڑھانے کے لیے بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب کوئی سیاحوں کے مرکز گوا کے بارے میں بات کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟
قدرتی طور پر، جیسے ہی گوا کا نام لیا جاتا ہے؛ سب سے پہلے، خوبصورت ساحل، ساحل اور پسندیدہ کھانے کی اشیاء ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن اس مہینے گوا میں کچھ ایسا ہوا، جو سرخیوں میں ہے۔ آج 'من کی بات' میں، میں یہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعہ گوا - پرپل فیسٹ میں پیش آیا۔ اس فیسٹیول کا اہتمام پانا جی میں 6 سے 8 جنوری تک کیا گیا تھا۔ دیویانگوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اپنے آپ میں ایک منفرد کوشش تھی۔ پرپل فیسٹیول کتنا بڑا موقع تھا، آپ سب اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں ہمارے 50 ہزار سے زیادہ بھائی بہنوں نے شرکت کی۔ یہاں آنے والے لوگ اس حقیقت کے بارے میں بہت پرجوش تھے کہ اب وہ 'میرامار بیچ' کا بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔ درحقیقت، 'میرامار بیچ' ہمارے دیویانگ بھائیوں اور بہنوں کے لیے گوا کے قابل رسائی ساحلوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ یہاں کرکٹ ٹورنامنٹ، ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ، میراتھن مقابلے کے ساتھ ساتھ ایک بہرے اور نابینا افراد کے کنونشن کا بھی انعقاد کیا گیا۔ منفرد برڈ واچنگ پروگرام کے علاوہ یہاں ایک فلم بھی دکھائی گئی۔ اس کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، تاکہ ہمارے تمام دیویانگ بھائی بہن اور بچے اس سے بھرپور لطف اندوز ہوسکیں۔
پرپل فیسٹیول کی ایک خاص بات اس میں ملک کے نجی شعبے کی شرکت تھی۔ ان کی جانب سے دیویانگوں دوست مصنوعات کی نمائش کی گئی۔ دیویانگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اس فیسٹیول میں بہت سی کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ پرپل فیسٹ کو کامیاب بنانے کے لیے، میں اس میں حصہ لینے والے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس کے ساتھ میں ان رضاکاروں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اس کو منظم کرنے کے لیے دن رات کام کیا۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ایسی مہمات قابل رسائی بھارت کے ہمارے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں بہت کارآمد ثابت ہوں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب 'من کی بات' میں میں ایک ایسے موضوع پر بات کروں گا، جس میں آپ کو خوشی اور فخر محسوس ہوگا اور آپ کا دماغ کہے گا - واہ کیا بات ہے! ملک کے قدیم ترین سائنسی اداروں میں سے ایک، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور، یعنی آئی آئی ایس سی، ایک شاندار مثال پیش کر رہا ہے۔ 'من کی بات' میں، میں نے پہلے کہا تھا کہ کس طرح بھارت کی دو عظیم شخصیاتوں جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکانند اس ادارے کے قیام کے پیچھے محرک رہے ہیں اور ہمارے لیے خوشی اور فخر کی بات یہ ہے کہ سال 2022 میں اس ادارے کے نام کل 145 پیٹنٹ ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے - ہر پانچ دن میں دو پیٹنٹ۔ یہ ریکارڈ اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے۔ میں اس کامیابی پر آئی آئی ایس سی کی ٹیم کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا۔ دوستو، آج بھارت کی درجہ بندی پیٹنٹ فائلنگ میں 7ویں اور ٹریڈ مارکس میں 5ویں نمبر پر ہے۔ صرف پیٹنٹ کی بات کریں تو پچھلے پانچ سالوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس میں بھی بھارت کی رینکنگ میں زبردست بہتری آئی ہے اور اب وہ 40ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، جب کہ 2015 میں بھارت گلوبل انوویشن انڈیکس میں 80ویں پوزیشن سے بھی پیچھے تھا۔ میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں۔ بھارت میں گزشتہ 11 سالوں میں پہلی بار گھریلو پیٹنٹ فائلنگ کی تعداد غیر ملکی فائلنگ سے زیادہ دیکھی گئی۔ یہ بھارت کی بڑھتی ہوئی سائنسی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوستو، ہم سب جانتے ہیں کہ 21ویں صدی کی عالمی معیشت میں علم سب سے اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے ٹیک ایڈ کا خواب یقینی طور پر ہمارے اختراع کاروں اور ان کے پیٹنٹ کی طاقت سے پورا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے ملک میں تیار کردہ عالمی معیار کی ٹیکنالوجی اور مصنوعات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں نے نمو ایپ پر تلنگانہ کے انجینئر وجے جی کی ایک پوسٹ دیکھی۔ اس میں وجے جی نے ای ویسٹ کے بارے میں لکھا ہے۔ وجے جی درخواست کرتے ہیں کہ میں 'من کی بات' میں اس پر تبادلہ خیال کروں۔ اس سے پہلے بھی اس پروگرام میں ہم 'ویسٹ ٹو ویلتھ' یعنی 'کچرے سے کنچن' کے بارے میں بات کر چکے ہیں، لیکن آئیے، آج اس سے متعلق ای ویسٹ پر بات کرتے ہیں۔
دوستو! آج موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ جیسے آلات ہر گھر میں عام ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد ملک بھر میں اربوں میں ہوگی۔ آج کے جدید ترین آلات بھی مستقبل کا ای ویسٹ ہیں۔ جب بھی کوئی نیا ڈیوائس خریدتا ہے یا کسی کی پرانی ڈیوائس کو تبدیل کرتا ہے تو یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا اسے صحیح طریقے سے ضائع کیا گیا ہے یا نہیں۔ اگر ای ویسٹ کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو یہ ہمارے ماحولیات کے لیے نقصادن دہ ہو سکتا ہے۔ لیکن، اگر یہ کام احتیاط سے کیا جائے، تو یہ ری سائیکل اور دوبارہ استعمال کی سرکلر معیشت کی ایک بڑی قوت بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال 50 ملین ٹن ای ویسٹ پھینکا جاتا ہے۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا؟ اگر بنی نوع انسان کی تاریخ میں بنائے گئے تمام تجارتی طیاروں کا وزن بھی ملایا جائے تو یہ ای ویسٹ کی مقدار کے برابر نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہے جیسے ہر ایک سیکنڈ میں 800 لیپ ٹاپ پھینکے جا رہے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اس ای ویسٹ سے تقریباً 17 قسم کی قیمتی دھاتیں مختلف عمل کے ذریعے نکالی جا سکتی ہیں۔ اس میں سونا، چاندی، تانبا اور نکل شامل ہیں، اس لیے ای ویسٹ کا استعمال 'کچرے کو کنچن' بنانے سے کم نہیں ہے۔ آج ایسے اسٹارٹ اپس کی کمی نہیں ہے جو اس سمت میں اختراعی کام کررہے ہیں۔ اس وقت تقریباً 500 ای ویسٹ ری سائیکلرز اس شعبے سے وابستہ ہیں اور بہت سے نئے کاروباری افراد بھی اس سے منسلک ہو رہے ہیں۔ اس شعبے نے ہزاروں لوگوں کو براہ راست روزگار بھی دیا ہے۔ بنگلورو کا ای پرسارا ایسی ہی ایک کوشش میں مصروف ہے۔ اس نے پرنٹڈ سرکٹ بورڈز سے قیمتی دھاتیں نکالنے کے لیے ایک دیسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔
اسی طرح ممبئی میں کام کرنے والی ایکو ریکو نے موبائل ایپ کے ذریعے ای ویسٹ کو جمع کرنے کا ایک نظام تیار کیا ہے۔ اتراکھنڈ کے روڑکی میں اٹیرو ری سائیکلنگ نے دنیا بھر میں اس شعبے میں کئی پیٹنٹ حاصل کیے ہیں۔ اس نے اپنی ای ویسٹ ری سائیکلنگ ٹیکنالوجی تیار کرکے بہت سارے ایوارڈز بھی حاصل کیے ہیں۔ بھوپال میں ایک موبائل ایپ اور ویب سائٹ 'کباڑی والا' کے ذریعے ٹن ای ویسٹ جمع کیا جا رہا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ سب بھارت کو عالمی ری سائیکلنگ کا مرکز بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔ لیکن، اس طرح کے اقدامات کی کامیابی کے لیے ایک لازمی شرط بھی ہے - یعنی لوگوں کو ای ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے محفوظ مفید طریقوں کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ ای ویسٹ کے شعبے میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ فی الحال ہر سال صرف 15 سے 17 فیصد ای ویسٹ کو ہی ری سائیکل کیا جا رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے بارے میں بہت بات ہو رہی ہے۔ ہم اس سمت میں بھارت کی ٹھوس کوششوں کے بارے میں مسلسل بات کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت نے اپنی آبی زمینوں کے لیے کیا کیا ہے۔ کچھ سامعین سوچ رہے ہوں گے کہ گیلی زمینیں کیا ہیں؟ 'ویٹ لینڈ سائٹس' سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں دلدلی مٹی جیسی زمین پر سال بھر پانی جمع رہتا ہے۔ کچھ دنوں بعد، 2 فروری کو، یہ عالمی ویٹ لینڈ ڈے منایا جائے گا۔ ویٹ لینڈز یا آبی ذخائر ہماری زمین کے وجود کے لیے بہت اہم ہیں، کیونکہ بہت سے پرندے اور جانور ان پر انحصار کرتے ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کی افزودگی کے ساتھ، وہ سیلاب پر قابو پانے اور زمینی پانی کے ریچارج کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ رامسر سائٹس ایسی آبی ذخائر ہیں جس کی بین الاقوامی اہمیتہے۔ ویٹ لینڈز کسی بھی ملک میں ہو سکتی ہیں۔ لیکن انہیں بہت سے معیارات پورے کرنے ہوں گے۔ تب ہی انہیں رامسر سائٹس قرار دیا جاتا ہے۔ رامسر سائٹس میں 20,000 یا اس سے زیادہ آبی پرندے ہونے چاہئیں۔ مقامی مچھلیوں کی بڑی تعداد کا ہونا ضروری ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران آزادی کے 75 سال پر، میں رامسر سائٹس سے متعلق کچھ اچھی معلومات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اب ہمارے ملک میں رامسر سائٹس کی کل تعداد بڑھ کر 75 ہو گئی ہے، جب کہ 2014 سے پہلے ملک میں صرف 26 رامسر سائٹس تھیں۔ اس کے لیے مقامی کمیونٹی مبارکباد کی مستحق ہے، جنہوں نے اس حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھا ہے۔ یہ ہماری قدیم ثقافت اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی روایت کو بھی خراج تحسین ہے۔ بھارت کی یہ آبی ذکائر بھی ہماری قدرتی صلاحیت کی ایک مثال ہیں۔ اڈیشہ کی چیلکا جھیل 40 سے زیادہ آبی پرندوں کی انواع کو پناہ دینے کے لیے جانی جاتی ہے۔ کائبول –لامجا، لوکتک کو دلدلی ہرن کا واحد قدرتی مسکن سمجھا جاتا ہے۔
تمل ناڈو کے ویدانتھنگل کو 2022 میں رامسر سائٹ قرار دیا گیا تھا۔ یہاں پرندوں کی آبادی کو محفوظ رکھنے کا سارا سہرا آس پاس کے کسانوں کے سر جاتا ہے۔ کشمیر میں پنجات ناگ برادری سالانہ پھلوں کے پھلنے کے تہوار کے دوران گاؤں کے موسم بہار کی صفائی میں خاص طور پر ایک دن گزارتی ہے۔ زیادہ تر ورڈز رامسر سائٹس کا بھی ایک منفرد ثقافتی ورثہ ہے۔ منی پور کی ثقافتوں کا لوکتک اور مقدس جھیل رینوکا سے گہرا تعلق ہے۔ اسی طرح سامبھر کا تعلق شکمبھری دیوی سے بھی ہے، جو ماں درگا کے اوتار ہیں۔ بھارت میں آبی ذخائر کی توسیع رامسر سائٹس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی وجہ سے ممکن ہے۔ میں 'من کی بات' کے سننے والوں کی طرف سے ایسے تمام لوگوں کی بہت ستائش کرتا ہوں، اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ہمارے ملک میں، خاص کر شمالی بھارت میں سخت سردی تھی۔ اس سردی میں لوگوں نے پہاڑوں پر برف باری کا بھی مزہ لیا۔ جموں و کشمیر سے کچھ ایسی تصویریں سامنے آئیں جنہوں نے پورے ملک کے دل موہ لیے۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے لوگ ان تصاویر کو پسند کر رہے ہیں۔ برف باری کی وجہ سے ہماری وادی کشمیر ہر سال کی طرح اس بار بھی بہت خوبصورت ہو گئی ہے۔ لوگ خاص طور پر بانہال سے بڈگام جانے والی ٹرین کی ویڈیو کو بھی پسند کر رہے ہیں۔ خوبصورت برف باری، چاروں طرف برف جیسی سفید چادر۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ منظر پریوں کی کہانی لگتا ہے! بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی بیرونی ملک کی نہیں، ہمارے اپنے ملک کے کشمیر کی تصویریں ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا - 'اس جنت سے زیادہ خوبصورت اور کیا ہوگا؟' یہ بالکل درست ہے- اسی لیے کشمیر کو زمین پر جنت کہا جاتا ہے۔ یہ تصاویر دیکھ کر آپ بھی کشمیر کی سیر پر جانے کا سوچ رہے ہوں گے۔ میں چاہوں گا کہ آپ خود وہاں جائیں اور اپنے دوستوں کو ساتھ لے جائیں۔ کشمیر میں برف پوش پہاڑ، قدرتی حسن کے ساتھ؛ دیکھنے اور جاننے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر، کشمیر کے سید آباد میں سرمائی کھیلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان گیمز کا تھیم تھا - اسنو کرکٹ! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسنو کرکٹ ایک بہت ہی دلچسپ کھیل ہو گا - اور آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں نے برف میں کرکٹ کو مزید حیرت انگیز بنا دیا۔ اس کے ذریعے کشمیر میں نوجوان کھلاڑیوں کی بھی تلاش ہے، جو بعد میں ٹیم انڈیا کے طور پر کھیلیں گے۔ ایک طرح سے یہ کھیلو انڈیا تحریک کی توسیع بھی ہے۔ کشمیر میں نوجوانوں میں کھیلوں کے حوالے سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان میں سے بہت سے نوجوان ملک کے لیے تمغے جیتیں گے، اور ترنگا لہرائیں گے۔ میں تجویز کروں گا کہ اگلی بار جب آپ کشمیر کے دورے کا ارادہ کریں تو اس طرح کے پروگراموں کو دیکھنے کے لیے وقت نکالیں۔ یہ تجربات آپ کے سفر کو مزید یادگار بنا دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اپنی جمہوریہ کو مضبوط بنانے کی ہماری کوششوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جمہوریت 'عوامی شرکت سے'، 'سب کی کوشش سے'، 'ملک کے تئیں اپنے فرائض کی انجام دہی سے' مضبوط ہوتی ہے، اور مجھے اطمینان ہے کہ ہماری 'من کی بات' ایسے فرض شناس لوگوں کی مضبوط آواز ہے۔ ہم اگلی بار ایسے ہی سرشار لوگوں کی دلچسپ اور متاثر کن کہانیوں کے ساتھ پھر ملیں۔
بہت بہت شکریہ!
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ آج ہم من کی بات کے چھیانوے (96) ایپیسوڈ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 'من کی بات' کا اگلا ایپی سوڈ سال 2023 کا پہلا ایپی سوڈ ہو گا ۔ آپ لوگوں کے بھیجے گئے پیغامات کو دیکھتے ہوئے ، آپ نے 2022 ء کے بارے میں بات کرنے کو کہا ہے ۔ ماضی کا مشاہدہ ہمیشہ ہمیں حال اور مستقبل کی تیاریوں کے لیے تحریک دیتا ہے۔ 2022 ء میں ملک کے لوگوں کی صلاحیت، ان کا تعاون، ان کا عزم، ان کی کامیابی اتنی زیادہ تھی کہ ان سب کو 'من کی بات' میں شامل کرنا مشکل ہو گا۔ 2022 ء واقعی بہت متاثر کن، بہت سے طریقوں سے شاندار رہا ہے۔ اس سال بھارت نے اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کیے اور اسی سال امرت کال کا آغاز ہوا۔ اس سال ملک نے نئی رفتار پکڑی، تمام اہل وطن نے ایک سے بڑھ کر ایک کام کیا۔ 2022 ء کی مختلف کامیابیوں نے ، آج پوری دنیا میں بھارت کے لیے ایک خاص مقام بنایا ہے۔ 2022 ء یعنی بھارت کا دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کرنا ، لوگوں کے ذریعہ 'خود کفیل بھارت ' کی قرارداد کو اپنانا، اسے جینا، 2022 ء کا مطلب ہے بھارت کے پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کا خیرمقدم کرنا، 2022 ء کا مطلب ہے خلا، ڈرون اور دفاعی شعبے میں بھارت کی شان ، 2022 ء کا مطلب ہر میدان میں بھارت کی کامیابی ہے۔ کھیلوں کے میدان میں بھی، کامن ویلتھ گیمز ہوں یا ہماری خواتین کی ہاکی ٹیم کی جیت، ہمارے نوجوانوں نے زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔
ساتھیو ، ان سب کے ساتھ ساتھ سال 2022 ء ایک اور وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ 'ایک بھارت-شریشٹھ بھارت' کے جذبے کی توسیع ہے۔ ملک کے لوگوں نے بھی اتحاد اور یکجہتی کا جشن منانے کے لیے بہت سی شاندار تقریبات کا اہتمام کیا۔ گجرات کا مادھو پور میلہ ہو، جہاں رکمنی کی شادی اور بھگوان کرشن کا شمال مشرق سے رشتہ منایا جاتا ہے، یا کاشی تمل سنگم، ان تہواروں میں اتحاد کے کئی رنگ نظر آتے تھے۔ 2022 ء میں اہل وطن نے ایک اور لازوال تاریخ لکھی ہے۔ اگست کے مہینے میں شروع کی گئی 'ہر گھر ترنگا' مہم کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ وہ لمحات تھے ، جب ہر ملک کے باشندے کو خوشی محسوس ہوتی تھی۔ آزادی کے 75 سال کی اس مہم میں پورا ملک ترنگا بن گیا۔ 6 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی بھی بھیجی۔ آزادی کا یہ امرت مہوتسو اگلے سال بھی اسی طرح جاری رہے گا - یہ امرت کال کی بنیاد کو مزید مضبوط کرے گا۔
ساتھیو ، اس سال بھارت کو جی – 20 گروپ کی صدارت کی ذمہ داری بھی ملی ہے۔ میں نے پچھلی بار بھی اس پر تفصیل سے بات کی تھی۔ سال 2023 ء میں ہمیں جی – 20 کے جوش کو ایک نئی بلندی پر لے جانا ہے، اس تقریب کو ایک عوامی تحریک بنانا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کرسمس کا تہوار بھی پوری دنیا میں بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے۔ یہ یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات کو یاد کرنے کا دن ہے۔ میں آپ سب کو کرسمس کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، آج اٹل بہاری واجپئی جی کا بھی یوم پیدائش ہے، جو ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں۔ وہ ایک عظیم سیاستدان تھے ، جنہوں نے ملک کو غیر معمولی قیادت دی۔ ہر بھارتی کے دل میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ مجھے کولکاتہ سے آستھا جی کا خط ملا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے حالیہ دلّی کے دورے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس دوران ، انہوں نے پی ایم میوزیم کا دورہ کرنے کے لیے وقت نکالا۔ اس میوزیم میں اٹل جی کی گیلری انہیں بہت پسند آئی ۔ اٹل جی کے ساتھ وہاں کلک کی گئی تصویر ان کے لیے یادگار بن گئی ہے۔ اٹل جی کی گیلری میں، ہم ملک کے لیے ، ان کی گرانقدر شراکت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ ہو، تعلیم ہو یا خارجہ پالیسی، انہوں نے ہر میدان میں بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا کام کیا۔ میں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے اٹل جی کو سلام پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو ، کل 26 دسمبر کو 'ویر بال دِوس' ہے اور اس موقع پر مجھے دلّی میں صاحبزادہ زوراوَر سنگھ جی اور صاحبزادہ فتح سنگھ جی کی شہادت کے لیے وقف پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل ہوگی۔ ملک ، صاحبزادے اور ماتا گجری کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہاں کہا جاتا ہے-
ستیم کِم پرامنم، پرتیاکم کِم پرامنم
یعنی سچ کو ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، جو سیدھی ہو ، اسے بھی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جدید میڈیکل سائنس کی بات آتی ہے تو سب سے اہم چیز ہے - ثبوت۔ ہمارے صحیفوں جیسے یوگا اور آیوروید کے سامنے ثبوت پر مبنی تحقیق کا فقدان، جو صدیوں سے بھارتی زندگی کا حصہ رہے ہیں، ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے - نتائج نظر آتے ہیں لیکن ثبوت نہیں ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ ثبوت پر مبنی ادویات کے دور میں، اب یوگا اور آیوروید جدید دور کے امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ آپ سب نے ممبئی میں ٹاٹا میموریل سینٹر کے بارے میں سنا ہوگا۔ اس ادارے نے ریسرچ، انوویشن اور کینسر کیئر میں بہت نام کمایا ہے۔ اس مرکز کی جانب سے کی گئی ایک گہری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوگا بریسٹ کینسر کے مریضوں کے لیے بہت موثر ہے۔ ٹاٹا میموریل سنٹر نے اپنی تحقیق کے نتائج کو امریکہ میں منعقدہ بریسٹ کینسر کانفرنس میں پیش کیا ہے۔ ان نتائج نے دنیا کے بڑے ماہرین کی توجہ مبذول کرائی ہے کیونکہ ٹاٹا میموریل سینٹر نے ثبوت کے ساتھ بتایا ہے کہ یوگا سے مریضوں کو کس طرح فائدہ ہوا ہے۔ اس مرکز کی تحقیق کے مطابق یوگا کی باقاعدہ مشق سے چھاتی کے کینسر کے مریضوں کے دوبارہ ٹھیک ہونے اور موت کے خطرات میں 15 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ پہلی مثال ہے کہ بھارتی روایتی ادویات کو مغربی طریقوں کے عین مطابق معیار پر آزمایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ پہلا مطالعہ ہے، جس میں چھاتی کے کینسر سے متاثرہ خواتین کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے یوگا کو اپنایا گیا ہے۔ اس کے طویل مدتی فائدے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ ٹاٹا میموریل سینٹر نے پیرس میں یوروپی سوسائٹی آف میڈیکل آنکولوجی (آنکولوجی) کانفرنس میں اپنے مطالعے کے نتائج پیش کیے ہیں۔
ساتھیو ، آج کے دور میں جتنے زیادہ ثبوتوں پر مبنی بھارتی طبی نظام ہوں گے، پوری دنیا میں ان کی قبولیت اتنی ہی بڑھے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ دلّی کے ایمس میں بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہاں، ہمارے روایتی طبی طریقوں کو درست کرنے کے لیے چھ سال قبل انٹیگریٹیو میڈیسن اینڈ ریسرچ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ اس میں جدید ترین تکنیک اور تحقیقی طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ سنٹر پہلے ہی معروف بین الاقوامی جرائد میں 20 مقالے شائع کر چکا ہے۔ امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے جریدے میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں سنکوپ کے شکار مریضوں کے لیے یوگا کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح نیورولوجی جرنل کے مقالے میں مائیگرین میں یوگا کے فوائد بتائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی دیگر بیماریوں میں بھی یوگا کے فوائد کے بارے میں مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ جیسے دل کی بیماری، ڈپریشن، نیند کی خرابی اور حمل کے دوران خواتین کو درپیش مسائل۔
ساتھیو ، کچھ دن پہلے میں ورلڈ آیوروید کانگریس کے لیے گوا میں تھا۔ اس میں 40 سے زائد ممالک کے مندوبین نے شرکت کی اور یہاں 550 سے زیادہ سائنسی مقالے پیش کیے گئے۔ یہاں کی نمائش میں بھارت سمیت دنیا بھر سے تقریباً 215 کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش کی۔ چار دن تک جاری رہنے والے اس ایکسپو میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آیوروید سے متعلق اپنے تجربات بتائے۔ آیوروید کانگریس میں بھی، میں نے دنیا بھر سے جمع ہوئے آیوروید ماہرین کے سامنے ثبوت پر مبنی تحقیق کی درخواست کو دہرایا۔ کورونا عالمی وباء کے اس وقت میں ، جس طرح ہم سب یوگا اور آیوروید کی طاقت کو دیکھ رہے ہیں، ان سے متعلق شواہد پر مبنی تحقیق بہت اہم ثابت ہوگی۔ میں آپ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس یوگا، آیوروید اور ہمارے روایتی طبی طریقوں سے متعلق ایسی کوششوں کے بارے میں کوئی معلومات ہیں، تو انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے صحت کے شعبے سے متعلق کئی بڑے چیلنجوں پر قابو پایا ہے۔ اس کا پورا سہرا ہمارے طبی ماہرین، سائنسدانوں اور اہل وطن کی قوت ارادی کو جاتا ہے۔ ہم نے بھارت سے چیچک، پولیو اور گائنی ورم جیسی بیماریوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
آج میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو ایک اور چیلنج کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، جو اب ختم ہونے کو ہے۔ یہ چیلنج، یہ بیماری ہے - 'کالا آزار'۔ یہ بیماری سینڈ فلائی یعنی بالو کی مکھی کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ جب کسی کو 'کالا آزار' ہوتا ہے تو اسے مہینوں بخار رہتا ہے، خون کی کمی ہوتی ہے، جسم کمزور ہو جاتا ہے اور وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری بچوں سے لے کر بڑوں تک کسی کو بھی ہو سکتی ہے لیکن سب کی کوششوں سے 'کالا آزار' نامی یہ بیماری اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ حال ہی میں، کالا آزار کی وباء 4 ریاستوں کے 50 سے زیادہ اضلاع میں پھیل چکی تھی لیکن اب یہ بیماری بہار اور جھارکھنڈ کے صرف 4 اضلاع تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہار-جھارکھنڈ کے لوگوں کی طاقت اور بیداری ان چار اضلاع سے 'کالا آزار' کو ختم کرنے کی حکومت کی کوششوں میں بھی مدد کرے گی۔ میں 'کالا آزار' سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ دو باتوں کو ذہن میں رکھیں۔ ایک تو سینڈ فلائی پر قابو پانا اور دوسرا اس بیماری کی جلد از جلد شناخت اور مکمل علاج۔ 'کالا آزار' کا علاج آسان ہے، اس کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں بھی بہت کارآمد ہیں۔ آپ کو صرف محتاط رہنا ہوگا۔ بخار ہو تو غفلت نہ برتیں اور ایسی ادویات کا چھڑکاؤ کرتے رہیں ، جو سینڈ فلائی کو مار دیتی ہیں۔ ذرا سوچئے ، جب ہمارا ملک 'کالا آزار' سے آزاد ہو گا تو ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہو گی۔ سب کا پریاس کے اس جذبے میں، ہم، بھارت کو 2025 ء تک ٹی بی سے پاک کرنے کے لئے بھی کام کر رہے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گذشتہ دنوں ، جب ٹی بی سے پاک بھارت مہم شروع ہوئی تو ہزاروں لوگ ٹی بی مریضوں کی مدد کے لیے آگے آئے ۔ یہ لوگ بے لوث دوست بن کر ٹی بی مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور ان کی مالی مدد کر رہے ہیں ۔ عوامی خدمت اور عوامی شرکت کی یہ طاقت ہر مشکل مقصد کو حاصل کرکے ہی دکھاتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری روایت اور ثقافت کا ماں گنگا سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ گنگا کا پانی ہمارے طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ رہا ہے اور یہ ہمارے شاستروں میں بھی کہا گیا ہے:-
नमामि गंगे तव पाद पंकजं,
सुर असुरै: वन्दित दिव्य रूपम्।
भुक्तिम् च मुक्तिम् च ददासि नित्यम्,
भाव अनुसारेण सदा नराणाम्।|
یعنی اے گنگا ماں! آپ اپنے عقیدت مندوں کو ان کی خواہشات کے مطابق دنیاوی خوشی اور نجات عطا کرتی ہیں۔ ہر کوئی آپ کے پوتر چرنوں کا وندن کرتا ہے۔ میں بھی آپ کے پوتر چرنوں میں اپنا پرنام پیش کرتا ہوں۔ ایسے میں ماں گنگا کو صدیوں سے صاف رکھنا ہم سب کی بڑی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے ساتھ، آٹھ سال پہلے، ہم نے 'نمامی گنگے مہم' شروع کی تھی۔ یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ آج بھارت کے اس اقدام کو دنیا بھر سے پذیرائی مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے 'نمامی گنگے' مشن کو ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے دنیا کے ٹاپ ٹین اقدامات میں شامل کیا ہے۔ یہ اور بھی خوشی کی بات ہے کہ 'نمامی گنگے' کو یہ اعزاز دنیا بھر سے 160 ایسے اقدامات میں ملا ہے۔
ساتھیو ، 'نمامی گنگے' مہم کی سب سے بڑی توانائی لوگوں کی مسلسل شرکت ہے۔ 'نمامی گنگے' مہم میں گنگا پریہریوں اور گنگا دوتوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ وہ درخت لگانے، گھاٹوں کی صفائی، گنگا آرتی، اسٹریٹ ڈرامے، پینٹنگ اور نظموں کے ذریعے بیداری پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اس مہم کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع میں بھی کافی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ ہلسا مچھلی، گنگا ڈولفن اور کچھوؤں کی مختلف اقسام کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گنگا کا ماحولیاتی نظام صاف ہونے کی وجہ سے روزگار کے دیگر مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہاں میں ایکویٹک لائیولی ہُڈ ماڈل پر بات کرنا چاہوں گا، جو حیاتیاتی تنوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ سیاحت پر مبنی یہ بوٹ سفاری 26 مقامات پر شروع کی گئی ہے۔ ظاہر ہے، نمامی گنگا مشن کی توسیع ، دائرہ دریا کی صفائی سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جہاں یہ ہماری قوتِ ارادی اور انتھک کوششوں کا براہِ راست ثبوت ہے، وہیں یہ دنیا کو ماحولیاتی تحفظ کی جانب ایک نیا راستہ بھی دکھانے والا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمارا عزم مضبوط ہوتا ہے تو بڑے سے بڑا چیلنج بھی آسان ہو جاتا ہے۔ سکم کے تھیگو گاؤں کے سنگے شیرپا جی نے اس کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ پچھلے 14 سالوں سے وہ 12,000 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر ماحولیاتی تحفظ کے کام میں مصروف ہیں۔ سنگے جی نے ثقافتی اور افسانوی اہمیت کی حامل سومگو جھیل کو صاف رکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اپنی انتھک کوششوں سے انہوں نے اس گلیشیئر جھیل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ سال 2008 ء میں ، جب سنگے شیرپا جی نے صفائی کی یہ مہم شروع کی تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کچھ ہی دنوں میں نوجوانوں اور گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ پنچایت کا بھی اس نیک کام میں بھرپور تعاون ملنے لگا۔ آج اگر آپ سومگو جھیل دیکھنے جائیں تو آپ کو وہاں چاروں طرف کچرا ڈالنے کے لئے بڑے بڑے گاربیج بِن نظر آئیں گے۔ اب یہاں جمع ہونے والے کچرے کو ری سائیکلنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کو کپڑے سے بنے کچرے کے تھیلے بھی دیئے جاتے ہیں تاکہ کچرا ادھر ادھر نہ پھینکا جائے۔ اب اس انتہائی صاف ستھری جھیل کو دیکھنے کے لیے ہر سال تقریباً 5 لاکھ سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔ سنگے شیرپا کو کئی تنظیموں نے سومگو جھیل کے تحفظ کی اس منفرد کوشش کے لیے اعزاز سے نوازا ہے۔ انہی کوششوں کی بدولت آج سکم کا شمار بھارت کی صاف ستھری ریاستوں میں ہوتا ہے۔ سنگے شیرپا جی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میں ان لوگوں کی بھی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں ، جو پورے ملک میں ماحولیاتی تحفظ کی عظیم کوشش میں مصروف ہیں۔
ساتھیو ، مجھے خوشی ہے کہ 'سووچھ بھارت مشن' آج ہر بھارتی کے ذہن میں رچ بس چکا ہے۔ سال 2014 ء میں اس عوامی تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک عوام کی جانب سے اسے نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے بہت سی انوکھی کوششیں کی گئی ہیں اور یہ کوششیں نہ صرف معاشرے کے اندر بلکہ حکومت کے اندر بھی ہو رہی ہیں۔ ان مسلسل کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کچرا ہٹانے، غیر ضروری اشیاء کو ہٹانے سے دفاتر میں کافی جگہ کھل جاتی ہے، نئی جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ اس سے قبل جگہ کی کمی کی وجہ سے دور دراز مقامات پر دفاتر کرائے پر رکھنے پڑتے تھے۔ ان دنوں اس صفائی کی وجہ سے اتنی جگہ دستیاب ہے کہ اب تمام دفاتر ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔ ماضی میں وزارت اطلاعات و نشریات نے ممبئی، احمد آباد، کولکاتہ، شیلانگ سمیت کئی شہروں میں اپنے دفاتر میں بھی بہت کوشش کی اور اسی کی وجہ سے آج ان کے پاس دو – دو ، تین - تین منزلیں پوری طرح سے نئے کام میں لی جا سکتی ہیں ۔ یہ اپنے آپ میں اس صفائی کی وجہ سے ہمیں اپنے وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کا بہترین تجربہ دے رہا ہے۔ یہ مہم ملک کے لیے ہر طرح سے کارآمد ثابت ہو رہی ہے، معاشرے میں، دیہاتوں اور شہروں میں، اسی طرح دفاتر میں بھی۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں اپنے فن اور ثقافت کے بارے میں ایک نیا شعور آ رہا ہے، ایک نیا شعور بیدار ہو رہا ہے۔ 'من کی بات' میں ہم اکثر ایسی مثالوں پر بات کرتے ہیں۔ جس طرح فن، ادب اور ثقافت معاشرے کا اجتماعی سرمایہ ہیں، اسی طرح ان کو آگے لے جانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ایسی ہی ایک کامیاب کوشش لکشدیپ میں ہو رہی ہے۔ کلپینی جزیرے پر ایک کلب ہے - کمیل برادرز چیلنجرز کلب۔ یہ کلب نوجوانوں کو مقامی ثقافت اور روایتی فنون کو محفوظ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو مقامی فن کولکلی، پریچاکلی، کلی پاٹہ اور روایتی گانوں کی تربیت دی جاتی ہے یعنی پرانا ورثہ نئی نسل کے ہاتھوں میں محفوظ ہو رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور دوستو، مجھے خوشی ہے کہ ایسی کوششیں نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں دوبئی سے خبر آئی کہ وہاں کے کلاری کلب نے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیا ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ دوبئی کے کلب نے ریکارڈ بنایا تو اس کا بھارت سے کیا تعلق؟ درحقیقت، یہ ریکارڈ بھارت کے قدیم مارشل آرٹ کلاریپائیتو سے متعلق ہے۔ یہ ریکارڈ کلاری کی ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ کلاری کلب دوبئی نے دوبئی پولیس کے ساتھ مل کر اس کی منصوبہ بندی کی اور اسے متحدہ عرب امارات کے قومی دن پر دکھایا۔ اس تقریب میں 4 سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 60 سال تک کے لوگوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کلاری کی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح مختلف نسلیں ایک قدیم روایت کو پوری لگن کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہیں۔
ساتھیو ، میں 'من کی بات' کے سننے والوں کو کرناٹک کے گڈک ضلع میں رہنے والی 'کویم شری' جی کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ 'کویم شری' پچھلے 25 سالوں سے کرناٹک کے جنوب میں آرٹ کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کے مشن میں لگاتار مصروف ہیں ۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی تپسیا کتنی عظیم ہے۔ اس سے قبل وہ ہوٹل مینجمنٹ کے پیشے سے وابستہ تھے ۔ تاہم اپنی ثقافت اور روایت سے ان کا لگاؤ اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے اسے اپنا مشن بنا لیا۔ انہوں نے 'کلا چیتنا' کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا۔ یہ پلیٹ فارم آج کرناٹک اور بھارت اور بیرون ملک سے فنکاروں کے بہت سے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ مقامی فن اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اس میں بہت سے اختراعی کام بھی کیے جاتے ہیں۔
ساتھیو ، ہم وطنوں کا اپنے فن اور ثقافت کے تئیں یہ جوش و جذبہ 'اپنے ورثے پر فخر' کے احساس کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار رنگ ہر کونے میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہمیں انہیں سجانے اور محفوظ کرنے کے لیے بھی لگاتار کام کرنا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے کئی علاقوں میں بانس سے بہت سی خوبصورت اور مفید چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں بانس کے ماہر کاریگر، ہنر مند فنکار موجود ہیں۔ جب سے ملک نے بانس سے متعلق برطانوی دور کے قوانین میں تبدیلی کی ہے، تب سے اس کے لیے ایک بہت بڑا بازار تیار ہوا ہے۔ مہاراشٹر کے پال گھر جیسے علاقوں میں بھی قبائلی سماج کے لوگ بانس سے بہت سی خوبصورت چیزیں بناتے ہیں۔ بانس سے بننے والے باکس، کرسیاں، چائے کے برتن، ٹوکریاں اور بانس سے بنی ٹرے جیسی چیزیں بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ یہی نہیں یہ لوگ بانس کی گھاس سے خوبصورت کپڑے اور سجاوٹ بھی بناتے ہیں، جس کی وجہ سے قبائلی خواتین کو روزگار بھی مل رہا ہے اور ان کے ہنر کو بھی پہچان مل رہی ہے۔
ساتھیو ، کرناٹک کا ایک جوڑا بین الاقوامی مارکیٹ میں آرکینوٹ فائبر سے بنی کئی منفرد مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔ یہ کرناٹک کے شیوموگا سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا ہے – جناب سریش اور ان کی اہلیہ محترمہ میتھلی۔ یہ لوگ سپاری کے ریشے سے ٹرے، پلیٹ اور ہینڈ بیگ سے لے کر بہت سی آرائشی چیزیں بنا رہے ہیں۔ اس فائبر سے بنی چپل بھی آج کل بہت پسند کی جارہی ہے۔ آج ان کی مصنوعات لندن اور یوروپ کے دیگر بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ ہمارے قدرتی وسائل اور روایتی ہنر کی خوبی ہے، جسے سب پسند کر رہے ہیں۔ بھارت کے اس روایتی علم میں دنیا پائیدار مستقبل کا راستہ دیکھ رہی ہے۔ ہمیں خود بھی اس سمت میں زیادہ سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود بھی ایسی دیسی اور مقامی مصنوعات کو استعمال کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی تحفہ دینا چاہیے۔ یہ ہماری شناخت کو بھی مضبوط کرے گا، مقامی معیشت کو مضبوط کرے گا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے، ایک روشن مستقبل بھی فراہم کرے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب ہم آہستہ آہستہ 'من کی بات' کے 100ویں ایپیسوڈ کے بے مثال سنگ میل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے بہت سے اہل وطن کے خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں انہوں نے 100ویں قسط کے بارے میں بہت تجسس کا اظہار کیا ہے۔ مجھے اچھا لگے گا اگر آپ مجھے اپنی تجاویز بھیجیں کہ ہمیں 100 ویں ایپی سوڈ میں کس چیز کے بارے میں بات کرنی چاہئے اور اسے کس طرح خاص بنانا ہے۔ اگلی بار ہم 2023 ء میں ملیں گے۔ میں آپ سب کو سال 2023 ء کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ یہ سال بھی ملک کے لیے خاص ہو، ملک نئی بلندیوں کو چھوتا رہے، ہمیں مل کر ایک عہد بھی لینا ہے اور اسے پورا بھی کرنا ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ چھٹیوں کے موڈ میں بھی ہیں۔ آپ ان تہواروں سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن تھوڑا محتاط رہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں کورونا بڑھ رہا ہے، اس لیے ہمیں ماسک پہننے اور ہاتھ دھونے جیسی احتیاطی تدابیر کا زیادہ خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم احتیاط کریں گے تو ہم محفوظ بھی رہیں گے اور ہماری خوشیوں میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں پڑے گی۔ اسی کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ، نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔
میں ایک بار پھر ’ من کی بات ‘ میں آپ سب کا پرتپاک استقبال کرتا ہوں۔ یہ پروگرام کا 95واں ایپیسوڈ ہے۔ ہم تیزی سے 100 ویں ’ من کی بات ‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ پروگرام میرے لئے 130 کروڑ ہم وطنوں سے جڑنے کا ایک اور ذریعہ ہے۔ ہر ایپیسوڈ سے پہلے گاؤں اور شہروں کے خطوط پڑھنا ؛ بچوں سے لے کر بڑوں تک آڈیو پیغامات سننا؛ یہ میرے لئے ایک روحانی تجربے جیسا ہے۔
دوستو، میں آج کا پروگرام ایک منفرد تحفہ کے حوالے کے ساتھ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ تلنگانہ کے راجنا سرسیلا ضلع میں ایک بنکر بھائی ہیں - یلدھی ہری پرساد گارو۔ انہوں نے مجھے یہ جی – 20 کا لوگو اپنے ہاتھوں سے بن کر بھیجا ہے۔ میں یہ شاندار تحفہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہری پرساد جی اپنے فن میں ایسے ماہر ہیں کہ وہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ہری پرساد جی نے ہاتھ سے بنے اس جی – 20 لوگو کے ساتھ مجھے ایک خط بھی بھیجا ہے۔ اس میں ، انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت کے لئے اگلے سال جی -20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنا بڑے فخر کی بات ہے۔ ملک کی ، اس کامیابی کی خوشی میں ، انہوں نے جی – 20 کا یہ لوگو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ بُنائی کا یہ شاندار ہنر ، انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے اور آج وہ پورے جذبے کے ساتھ اس میں مصروف ہیں۔
دوستو، کچھ دن پہلے مجھے جی - 20 لوگو اور بھارت کی صدارت کی ویب سائٹ لانچ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس لوگو کا انتخاب ایک عوامی مقابلے کے ذریعے کیا گیا تھا۔ جب مجھے ہری پرساد گارو کا یہ تحفہ ملا تو میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تلنگانہ کے ایک ضلع میں بیٹھا ایک شخص بھی جی - 20 جیسے سمٹ سے کتنا جڑا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ آج، ہری پرساد گارو جیسے بہت سے لوگوں نے مجھے خطوط بھیجے ہیں کہ ان کے دل اتنے بڑے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والے ملک پر فخر سے بھر گئے ہیں۔ میں آپ کو پونے سے سبا راؤ چلّرا جی اور کولکاتہ سے تشار جگموہن کے پیغام کا بھی ذکر کروں گا۔ انہوں نے جی - 20 کے حوالے سے بھارت کی فعال کوششوں کی بہت تعریف کی ہے۔
دوستو، جی - 20 کی شراکت داری دنیا کی دو تہائی آبادی، عالمی تجارت کا تین چوتھائی حصہ اور عالمی جی ڈی پی کا 85 فی صد حصہ پر مشتمل ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں - بھارت اب سے 3 دن بعد یعنی یکم دسمبر سے اتنے بڑے گروپ، اتنے طاقتور گروپ کی صدارت کرنے جا رہا ہے۔ بھارت کے لئے، ہر بھارتی کے لئے کتنا بڑا موقع آیا ہے! یہ اور بھی خاص ہو جاتا ہے کیونکہ آزادی کا امرت کال کے دوران بھارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ۔
دوستو، جی - 20 کی صدارت ہمارے لئے ایک بڑے موقع کے طور پر آئی ہے۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا اور عالمی بھلائی، عالمی بہبود پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ چاہے امن ہو یا اتحاد، ماحولیات کے تئیں حساسیت، یا پائیدار ترقی، بھارت کے پاس ان سے متعلق چیلنجوں کا حل موجود ہے۔ ہم نے ، جو موضوع دیا ہے ، ’’ ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل ‘‘، وہ ہمارے واسو دیوا کٹمبکم کے عہد کا اظہار کرتا ہے ۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں :
اوم سرویشم سواستیربھواتو
سرویشم شانتی بھواتو
سرویشم پورنم بھواتو
سرویشم منگلم بھواتو
اوم شانتی: شانتی: شانتی:
یعنی سب کی بھلائی ہو، سب کے لئے امن ہو، سب کی تکمیل ہو اور سب کی بھلائی ہو۔ آنے والے دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں جی - 20 سے متعلق بہت سے پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ اس عرصے کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے لوگوں کو آپ کی ریاستوں کا دورہ کرنے کا موقع ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ثقافت کے متنوع اور مخصوص رنگوں کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جی - 20 میں آنے والے لوگ، چاہے وہ اب بطور مندوبین ہی کیوں نہ آئیں، مستقبل کے سیاح ہیں۔ میں آپ سب سے، خاص کر اپنے نوجوان دوستوں سے ایک اور بات کی درخواست کرتا ہوں۔ ہری پرساد گارو کی طرح، آپ کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے جی - 20 میں شامل ہونا چاہیئے۔ جی - 20 کے بھارتی لوگو بہت خوبصورت انداز میں، بہت اسٹائلش انداز میں، کپڑوں پر پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی زور دوں گا کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر جی - 20 سے متعلق مباحثوں اور مقابلوں وغیرہ کا انعقاد کریں ۔ اگر آپ G20.inویب سائٹ پر جائیں گے تو وہاں آپ کو اپنی دلچسپی کے مطابق بہت سی چیزیں ملیں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، 18 نومبر کو پورے ملک نے خلائی شعبے میں نئی تاریخ رقم ہونے کا مشاہدہ کیا ۔ اس دن بھارت نے اپنا پہلا ایسا راکٹ خلا میں بھیجا، جسے بھارت کے نجی شعبے نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔ اس راکٹ کا نام ’ وکرم-ایس ‘ہے۔ جیسے ہی دیسی خلائی اسٹارٹ اَپ کے اس پہلے راکٹ نے سری ہری کوٹا سے تاریخی اڑان بھری، ہر بھارتی کا سینا فخر پھول گیا۔
دوستو، ’ وکرم-ایس ‘ راکٹ بہت سی خصوصیات سے لیس ہے۔ یہ دوسرے راکٹوں سے ہلکا بھی ہے اور سستا بھی ہے ۔ اس کو بنانے کی لاگت خلائی مشنوں میں شامل دیگر ممالک کے خرچ سے بہت کم ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی میں، کم قیمت پر عالمی درجے کا معیار، اب بھارت کی پہچان بن گیا ہے۔ اس راکٹ کو بنانے میں ایک اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس راکٹ کے کچھ اہم حصے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ یقینی طور پر، ’ وکرم-ایس ‘ کے لانچنگ مشن کو جو نام ’ پرارمبھ ‘ دیا گیا ہے، وہ پوری طرح اس سے میل کھاتا ہے۔ یہ بھارت میں نجی خلائی شعبے کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ ملک کے لئے خود اعتمادی سے بھرے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ، وہ بچے جو کبھی کاغذ کے ہوائی جہاز بناتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اڑاتے تھے ، اب انہیں بھارت میں ہی ہوائی جہاز بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ بچے ، جو کبھی آسمان پر چاند اور ستاروں کو دیکھ کر شکلیں بناتے تھے، اب انہیں بھارت میں ہی راکٹ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ نجی شعبے کے لئے مواقع کھولنے کے بعد نوجوانوں کے یہ خواب بھی پورے ہونے لگے ہیں۔ گویا راکٹ بنانے والے یہ نوجوان کہہ رہے ہیں، آسمان کی حد نہیں ہے۔
دوستو، بھارت خلائی شعبے میں اپنی کامیابی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی بانٹ رہا ہے۔ ابھی کل ہی بھارت نے ایک سیٹلائٹ لانچ کیا ہے ، جسے بھارت اور بھوٹان نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ بہت اچھی ریزولوشن کی تصاویر بھیجے گا ، جس سے بھوٹان کو اس کے قدرتی وسائل کے انتظام میں مدد ملے گی۔ اس سیٹلائٹ کی لانچنگ بھارت -بھوٹان کے مضبوط تعلقات کی عکاس ہے۔
دوستو، آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ ’ من کی بات ‘ کی پچھلی چند قسطوں میں، ہم نے خلاء ، ٹیکنالوجی اور اختراع پر کافی بات کی ہے۔ اس کی دو خاص وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہمارے نوجوان اس میدان میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ وہ بڑا سوچ رہے ہیں اور بڑا حاصل کر رہے ہیں۔ اب وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے مطمئن ہونے والے نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جدت اور قدر پیدا کرنے کے اس دلچسپ سفر میں ، وہ اپنے دوسرے نوجوان ساتھیوں اور اسٹارٹ اپس کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
دوستو، جب ہم ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات کی بات کر رہے ہیں تو ہم ڈرون کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ بھارت ڈرون کے میدان میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماچل پردیش کے کنور میں ڈرون کے ذریعے سیب لے جائے گئے ۔ کنور ہماچل کا ایک دور افتادہ ضلع ہے اور اس موسم میں بھاری برف باری ہوتی ہے۔ اتنی زیادہ برف باری کے ساتھ، کنور کا ریاست کے باقی حصوں سے رابطہ ہفتوں تک بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہاں سے سیب کی نقل و حمل بھی اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے۔ اب ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے ہماچل کے مزیدار کنوری سیب لوگوں تک تیزی سے پہنچنے شروع ہو جائیں گے۔ اس سے ہمارے کسان بھائیوں اور بہنوں کے اخراجات میں کمی آئے گی - سیب وقت پر منڈی پہنچیں گے، سیب کا زیاں بھی کم ہوگا۔
دوستو، آج ہمارے ہم وطن اپنی اختراعات سے وہ کام ممکن بنا رہے ہیں ، جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ دیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا؟ حالیہ برسوں میں ہمارے ملک نے کامیابیوں کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم بھارتی اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل اب رکنے والی نہیں ہے۔
پیارے ہم وطنو، میں آپ کے لئے ایک چھوٹا سا کلپ چلانے جا رہا ہوں.....
##(Song)##
آپ سب نے کبھی نہ کبھی یہ گانا ضرور سنا ہوگا۔ بہر حال، یہ باپو کا پسندیدہ گانا ہے، لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں کہ جن گلوکاروں نے اسے گایا ہے ، وہ یونان سے ہیں، تو آپ یقیناً حیران ہوں گے! اور یہ آپ کو بھی فخر سے بھر دے گا۔ یہ گانا یونان سے تعلق رکھنے والے گلوکار – ’ کونسٹنٹائنس کلیٹزس ‘ نے گایا ہے۔ انہوں نے اسے گاندھی جی کے 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران گایا تھا لیکن آج میں ، اس پر کسی اور وجہ سے بات کر رہا ہوں۔ انہیں بھارت اور بھارتی موسیقی سے بڑا لگاؤ ہے۔ انہیں بھارت سے اس قدر لگاؤ ہے کہ پچھلے 42 سالوں میں وہ تقریباً ہر سال بھارت آئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی ابتداء، مختلف بھارتی موسیقی کے نظاموں، مختلف قسم کے راگوں، تالوں اور راسوں کے ساتھ ساتھ مختلف گھرانوں کے بارے میں بھی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی موسیقی کی بہت سی عظیم شخصیات کے تعاون کا مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے کلاسیکی رقص کے مختلف پہلوؤں کو بھی قریب سے سمجھا ہے۔ اب انہوں نے بھارت سے متعلق ان تمام تجربات کو ایک کتاب میں بہت خوبصورتی سے جمع کیا ہے۔ ان کی انڈین میوزک نامی کتاب میں تقریباً 760 تصویریں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تصاویر ، انہوں نے خود لی ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھارتی ثقافت کے لئے ، اس طرح کا جوش و جذبہ واقعی دل کو خوش کرنے والا ہے۔
دوستو، چند ہفتے پہلے ایک اور خبر آئی ، جو ہمارا سر فخر سے اونچا کرنے والی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ گزشتہ 8 سالوں میں بھارت سے موسیقی کے آلات کی برآمدات میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ برقی موسیقی کے آلات کے بارے میں بات کریں تو ان کی برآمدات میں 60 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں بھارتی ثقافت اور موسیقی کا جنون بڑھ رہا ہے۔ بھارتی موسیقی کے آلات کے سب سے بڑے خریدار امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں موسیقی، رقص اور فن کا اتنا بھرپور ورثہ موجود ہے۔
دوستو، ہم سب عظیم بابا شاعر بھرتری ہری کو ان کے ’ نیتی شتک ‘ کے لئے جانتے ہیں۔ ایک شعر میں وہ کہتے ہیں کہ فن، موسیقی اور ادب سے لگاؤ ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ درحقیقت ہماری ثقافت اسے انسانیت سے اوپر، الوہیت تک لے جاتی ہے۔ ویدوں میں ساموید کو ہماری متنوع موسیقی کا ماخذ کہا گیا ہے۔ ماں سرسوتی کی وینا ہو، بھگوان کرشن کی بانسری ہو یا بھولے ناتھ کا ڈمرو، ہمارے دیوی دیوتاؤں کو بھی موسیقی سے لگاؤ ہے۔ ہم بھارتی ہر چیز میں موسیقی تلاش کرتے ہیں۔ دریا کی گنگناہٹ ہو، بارش کی بوندیں، پرندوں کی چہچہاہٹ ہو یا ہوا کی گونجتی ہوئی آواز، موسیقی ہماری تہذیب میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ موسیقی نہ صرف جسم کو سکون دیتی ہے بلکہ دماغ کو بھی خوشی دیتی ہے۔ موسیقی ہمارے معاشرے کو بھی جوڑتی ہے۔ اگر بھنگڑا اور لاوانی میں جوش اور مسرت کا احساس ہے تو رابندر سنگیت ہماری روح کو بلند کر دیتا ہے۔ ملک بھر کے قبائلیوں کی موسیقی کی مختلف روایات ہیں۔ وہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
دوستو، ہماری موسیقی کی شکلوں نے نہ صرف ہماری ثقافت کو تقویت بخشی ہے بلکہ دنیا کی موسیقی پر بھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں۔ بھارتی موسیقی کی شہرت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ مجھے آپ ایک اور آڈیو کلپ چلانے دیں۔
##(Song)##
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پڑوس کے کسی مندر میں بھجن کیرتن ہو رہا ہے لیکن یہ دُھن بھارت سے ہزاروں میل دور جنوبی امریکی ملک گیانا سے آپ تک پہنچی ہے ۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں یہاں سے بڑی تعداد میں لوگ گیانا گئے۔ وہ یہاں سے بھارت کی بہت سی روایات بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ مثال کے طور پر، جیسا کہ ہم بھارت میں ہولی مناتے ہیں، گیانا میں بھی ہولی کے رنگ جوش و خروش کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں۔ جہاں ہولی کے رنگ ہیں وہیں پھگوا کی موسیقی بھی ہے ، جو پھگوا ہے۔ گیانا کے پھگوا میں بھگوان رام اور بھگوان کرشن سے منسلک شادی کے گیت گانے کی ایک خاص روایت ہے۔ ان گیتوں کو چوتل کہتے ہیں۔ انہیں اسی قسم کی دھن پر اور اونچی آواز پر گایا جاتا ہے جیسا کہ ہم یہاں کرتے ہیں۔ یہی نہیں گیانا میں چوتل مقابلے بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بھارتی، خاص طور پر مشرقی اتر پردیش اور بہار کے لوگ بھی فجی گئے تھے۔ وہ روایتی بھجن کیرتن گاتے تھے، خاص طور پر رام چرتر مانس کے دوہے ۔ انہوں نے فجی میں بھجن کیرتن سے وابستہ کئی منڈلیاں بھی بنائیں۔ آج بھی فجی میں رامائن منڈلی کے نام سے دو ہزار سے زیادہ بھجن کیرتن منڈلیا ں ہیں۔ آج وہ ہر گاؤں اور محلے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
میں نے یہاں صرف چند مثالیں دی ہیں۔ اگر آپ پوری دنیا کو دیکھیں تو بھارتی موسیقی سے محبت کرنے والوں کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی قدیم ترین روایات کا گھر ہے۔ لہٰذا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی روایات اور روایتی علم کو محفوظ رکھیں، اسے فروغ دیں اور اسے زیادہ سے زیادہ آگے لے جائیں۔ ایسی ہی ایک قابل تحسین کوشش ہماری شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کے کچھ دوست کر رہے ہیں۔ مجھے یہ کاوش بہت پسند آئی، اس لئے میں نے سوچا، اسے ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کے ساتھ شیئر کروں۔
دوستو، ناگا لینڈ میں ناگا کمیونٹی کا طرز زندگی، ان کا فن ثقافت اور موسیقی سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے شاندار ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ناگالینڈ کے لوگوں کی زندگی اور ان کی مہارتیں بھی پائیدار طرز زندگی کے لئے بہت اہم ہیں۔ ان روایات اور ہنر کو بچانے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لئے وہاں کے لوگوں نے ایک تنظیم بنائی ہے، جس کا نام ’ لِڈی – کرو - یو ‘ ہے۔ تنظیم نے ناگا ثقافت کے ، ان خوبصورت پہلوؤں کو زندہ کرنے کا کام شروع کیا ہے ، جو ختم جانے کے دہانے پر تھے۔ مثال کے طور پر، ناگا لوک موسیقی اپنے آپ میں ایک بہت مالا مال صنف ہے۔ اس تنظیم نے ناگا میوزک البمز لانچ کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اب تک ایسے تین البم لانچ ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ لوک موسیقی اور لوک رقص سے متعلق ورک شاپس کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ ان سب کے لئے نوجوانوں کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ یہی نہیں، نوجوانوں کو ناگالینڈ کے روایتی انداز میں ملبوسات سازی، سلائی اور بُنائی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ شمال مشرق میں بانس سے کئی قسم کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ نئی نسل کے نوجوانوں کو بانس کی مصنوعات بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس سے یہ نوجوان نہ صرف اپنی ثقافت سے جڑتے ہیں بلکہ ان کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ لڈی – کرو – یو کے لوگ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ناگا لوک ثقافت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوستو، آپ کے علاقے میں بھی ایسے ثقافتی انداز اور روایات ہوں گی۔ آپ بھی اپنے اپنے علاقوں میں ایسی کوششیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہے کہ ایسی کوئی انوکھی کوشش کہیں کی جا رہی ہے تو آپ وہ معلومات میرے ساتھ ضرور شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے یہاں کہا ہے
ودیا دھانم سروا دھانم پردھانم
یعنی اگر کوئی علم عطیہ کر رہا ہے تو وہ معاشرے کے مفاد میں بہترین کام کر رہا ہے۔ تعلیم کے میدان میں جلنے والا ایک چھوٹا سا چراغ بھی پورے معاشرے کو روشن کر سکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بنسا یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ سے 70-80 کلومیٹر دور ہردوئی کا ایک گاؤں ہے۔ مجھے اس گاؤں کے جتن للت سنگھ جی کے بارے میں معلوم ہوا ہے، جو تعلیم کا شعلہ جلانے میں مصروف ہیں۔ جتن جی نے دو سال پہلے یہاں ایک ’کمیونٹی لائبریری اینڈ ریسورس سنٹر ‘ شروع کیا تھا۔
ان کے سینٹر میں ہندی اور انگریزی ادب، کمپیوٹر، قانون اور کئی سرکاری امتحانات کی تیاری سے متعلق 3000 سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ اس لائبریری میں بچوں کی پسند کا بھی پورا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں موجود مزاحیہ کتابیں ہوں یا تعلیمی کھلونے، بچے انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے یہاں کھیلتے ہوئے نئی چیزیں سیکھنے آتے ہیں۔ آف لائن ہو یا آن لائن تعلیم، اس مرکز میں تقریباً 40 رضاکار طلباء رہنمائی میں مصروف ہیں۔ اس لائبریری میں روزانہ گاؤں کے تقریباً 80 طلباء پڑھنے آتے ہیں۔
دوستو، جھارکھنڈ کے سنجے کشیپ جی بھی غریب بچوں کے خوابوں کو نئے پنکھ دے رہے ہیں۔ طالب علمی کی زندگی میں سنجے جی کو اچھی کتابوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ کتابوں کی کمی کے باعث اپنے علاقے کے بچوں کا مستقبل تاریک نہیں ہونے دیں گے۔ اس مشن کی وجہ سے آج وہ جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے ’لائبریری مین‘ بن چکے ہیں۔ جب سنجے جی نے کام کرنا شروع کیا تھا تو انہوں نے اپنے آبائی مقام پر پہلی لائبریری بنوائی تھی۔ ملازمت کے دوران ، جہاں بھی ان کا تبادلہ ہوتا وہ غریب اور قبائلی بچوں کی تعلیم کے لئے لائبریری کھولنے کے مشن میں لگ جاتے۔ یہ کرتے ہوئے ، انہوں نے جھارکھنڈ کے کئی اضلاع میں بچوں کے لئے لائبریریاں کھولی ہیں۔ لائبریری کھولنے کا ان کا مشن آج ایک سماجی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ سنجے جی ہوں یا جتن جی، میں خاص طور پر ان کی بے شمار کوششوں کے لئے ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، طبی سائنس کی دنیا نے تحقیق اور اختراع کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کی مدد سے بہت ترقی کی ہے لیکن کچھ بیماریاں آج بھی ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک بیماری ہے – مسکولر ڈسٹرافی ! یہ بنیادی طور پر ایک جینیاتی بیماری ہے ، جو کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے ، جس میں جسم کے پٹھے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مریض کے لئے روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے کام بھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے خدمت کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماچل پردیش کے سولن میں ہمارا ایسا مرکز ہے، جو مسکولر ڈسٹرافی کے مریضوں کے لئے امید کی نئی کرن بن گیا ہے۔ اس مرکز کا نام ’ مانو مندر ‘ ہے۔ اسے انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ مانو مندر اپنے نام کے مطابق انسانی خدمت کی ایک شاندار مثال ہے۔ مریضوں کے لئے او پی ڈی اور داخلے کی خدمات یہاں تین چار سال قبل شروع ہوئی تھیں۔ مانو مندر میں تقریباً 50 مریضوں کے لئے بستروں کی سہولت بھی موجود ہے۔ فیزیو تھیراپی، الیکٹرو تھیراپی اور ہائیڈرو تھیراپی کے ساتھ ساتھ یہاں یوگا-پرانایام کی مدد سے بھی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
دوستو، ہر قسم کی ہائی ٹیک سہولیات کے ذریعے یہ سنٹر مریضوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مسکولر ڈسٹرافی سے جڑا ایک چیلنج ، اس کے بارے میں آگاہی کی کمی بھی ہے۔ اسی لئے، یہ مرکز نہ صرف ہماچل پردیش بلکہ پورے ملک میں مریضوں کے لئے بیداری کیمپوں کا اہتمام کرتا ہے۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس تنظیم کا انتظام بنیادی طور پر اس بیماری میں مبتلا لوگ کرتے ہیں، جیسے سماجی کارکن ارمیلا بالدی جی، انڈین ایسوسی ایشن آف مسکولر ڈسٹرافی کی صدر سسٹر سنجنا گوئل جی اور اس ایسوسی ایشن کے دیگر ممبران۔ شریمان وپل گوئل جی، جنہوں نے اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے ، اس ادارے کے لئے بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ مانو مندر کو ایک ہسپتال اور تحقیقی مرکز کے طور پر تیار کرنے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ اس سے یہاں مریض بہتر علاج کر سکیں گے۔ میں اس سمت میں کوشش کرنے والے تمام لوگوں کی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں اور ساتھ ہی مسکولر ڈسٹرافی میں مبتلا تمام لوگوں کی صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم نے آج’ من کی بات ‘ میں اپنے ہم وطنوں کی ، جن تخلیقی اور سماجی کوششوں کی بات کی، وہ ہمارے ملک کی توانائی اور جوش و خروش کی مثالیں ہیں۔ آج ہر ہم وطن کسی نہ کسی میدان میں، ہر سطح پر ملک کے لئے کچھ مختلف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آج کی گفتگو میں ہی ہم نے دیکھا کہ جی - 20 جیسے بین الاقوامی ایونٹ میں ہمارے ایک بنکر ساتھی نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اسے نبھانے کے لئے آگے آئے۔ اسی طرح کچھ ماحولیات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، کچھ پانی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ تعلیم، طب اور سائنس ٹیکنالوجی سے لے کر ثقافت روایات تک غیر معمولی کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ہر شہری اپنے فرائض کا احساس کر رہا ہے۔ جب کسی قوم کے شہریوں کے اندر فرض شناسی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو اس کا سنہرا مستقبل خود بخود یقینی ہو جاتا ہے اور خود اس ملک کے سنہرے مستقبل میں ہم سب کا سنہرا مستقبل بھی مضمر ہے۔
میں ایک بار پھر ہم وطنوں کو ، ان کی کوششوں کے لئے سلام کرتا ہوں۔ ہم اگلے ماہ دوبارہ ملیں گے اور اس طرح کے بہت سے حوصلہ افزا موضوعات پر ضرور بات کریں گے۔ اپنی تجاویز اور خیالات بھیجتے رہیں۔ آپ سب کا بہت شکریہ!
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج، ملک کے کئی حصوں میں سورج کی اُپاسنا کا بڑا تہوار ’چھٹھ‘ منایا جا رہا ہے۔ ’چھٹھ‘ تہوار کا حصہ بننے کے لیے لاکھوں عقیدت مند اپنے گاؤں، اپنے گھر، اپنی فیملی کے درمیان پہنچے ہیں۔ میری پرارتھنا ہے کہ چھٹھ میاّ سب کی خوشحالی، سب کی فلاح کا آشیرواد دیں۔
ساتھیو، سورج کی اُپاسنا کی روایت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری تہذیب، ہماری عقیدت کا، فطرت سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اس پوجا کے ذریعے ہماری زندگی میں سورج کی روشنی کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اتار چڑھاؤ، زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس لیے، ہمیں ہر حالات میں ایک جیسا جذبہ رکھنا چاہیے۔ چھٹھ میاّ کی پوجا میں الگ الگ قسم کے پھلوں اور ٹھیکوا کا پرساد چڑھایا جاتا ہے۔ اس کا برت بھی کسی مشکل سادھنا سے کم نہیں ہوتا۔ چھٹھ پوجا کی ایک اور خاص بات ہوتی ہے کہ اس میں پوجا کے لیے جن اشیاء کا استعمال ہوتا ہے اسے سماج کے مختلف لوگ مل کر تیار کرتے ہیں۔ اس میں بانس کی بنی ٹوکری یا سُپالی کا استعمال ہوتا ہے۔ مٹی کے دیوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے چنے کی پیداوار کرنے والے کسان اور بتاشے بنانے والے چھوٹے کاروباریوں کی سماج میں اہمیت بتائی گئی ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر چھٹھ کی پوجا مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ چھٹھ کا تہوار ہماری زندگی میں صفائی کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ اس تہوار کے آنے پر عوامی سطح پر سڑک، ندی، گھاٹ، پانی کے مختلف ذرائع، سب کی صفائی کی جاتی ہے۔ چھٹھ کا تہوار ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کی بھی مثال ہے۔ آج بہار اور پوروانچل کے لوگ ملک کے جس بھی کونے میں ہیں، وہاں دھوم دھام سے چھٹھ کا پروگرام ہو رہا ہے۔ دہلی، ممبئی سمیت مہاراشٹر کے الگ الگ ضلعوں اور گجرات کے کئی حصوں میں چھٹھ کا بڑے پیمانے پر پروگرام ہونے لگا ہے۔ مجھے تو یاد ہے، پہلے گجرات میں اتنی چھٹھ پوجا نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ آج قریب قریب پورے گجرات میں چھٹھ پوجا کے رنگ نظر آنے لگے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں، بیرونی ممالک سے بھی چھٹھ پوجا کی کتنی شاندار تصویریں آتی ہیں۔ یعنی بھارت کی بیش قیمتی وراثت، ہماری عقیدت، دنیا کے کونے کونے میں اپنی پہچان بڑھا رہی ہے۔ اس بڑے تہوار میں شامل ہونے والے ہر عقیدت مند کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی ہم نے مقدس چھٹھ پوجا کی بات کی، بھگوان سوریہ کی اُپاسنا کی بات کی۔ تو کیوں نہ سوریہ اُپاسنا کے ساتھ ساتھ آج ہم ان کے وردان کی بھی چرچہ کریں۔ سوریہ دیو کا یہ وردان ہے – ’شمسی توانائی‘۔ سولر انرجی آج ایک ایسا موضوع ہے، جس میں پوری دنیا اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے اور بھارت کے لیے تو سوریہ دیو صدیوں سے اُپاسنا ہی نہیں، طرز زندگی کے بھی مرکز میں رہ رہے ہیں۔ بھارت، آج اپنے روایتی تجربات کو جدید سائنس سے جوڑ رہا ہے، تبھی، آج ہم، شمسی توانائی سے بجلی بنانے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہو گئے ہیں۔ شمسی توانائی سے کیسے ہمارے ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے، وہ بھی مطالعہ کا موضوع ہے۔
تمل ناڈو میں، کانچی پورم میں ایک کسان ہیں، تھیرو کے ایجھیلن۔ انہوں نے ’پی ایم کسم یوجنا‘ سے فائدہ حاصل کیا اور اپنے کھیت میں دس ہارس پاور کا سولر پمپ سیٹ لگوایا۔ اب انہیں اپنے کھیت کے لیے بجلی پر کچھ خرچ نہیں کرنا ہوتا ہے۔ کھیت میں سینچائی کے لیے اب وہ سرکار کی بجلی سپلائی پر منحصر نہیں ہیں۔ ویسے ہی راجستھان کے بھرت پور میں ’پی ایم کسان یوجنا‘ سے استفادہ کرنے والے ایک اور کسان ہیں – کمل جی مینا۔ کمل جی نے کھیت میں سولر پمپ لگایا، جس سے ان کی لاگت کم ہو گئی ہے۔ لاگت کم ہوئی تو آمدنی بھی بڑھ گئی۔ کمل جی سولر بجلی سے دوسری کئی صنعتوں کو بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کے علاقے میں لکڑی کا کام ہے، گائے کے گوبر سے بننے والی مصنوعات ہیں، ان میں بھی سولر بجلی کا استعمال ہو رہا ہے۔ وہ، 12-10 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں، یعنی کسم یوجنا سے کمل جی نے شروعات کی، اس کی مہک کتنے ہی لوگوں تک پہنچے لگی ہے۔
ساتھیو، کیا آپ کبھی تصور کر سکتے ہیں کہ آپ مہینے بھر بجلی کا استعمال کریں اور آپ کا بجلی بل آنے کی بجائے، آپ کو بجلی کے پیسے ملیں؟ شمسی توانائی نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ آپ نے کچھ دن پہلے، ملک کے پہلے سوریہ گرام – گجرات کے موڈھیرا کی خوب چرچہ سنی ہوگی۔ موڈھیرا سوریہ گرام کے زیادہ تر گھر، سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے لگے ہیں۔ اب وہاں کے کئی گھروں میں مہینہ کے آخر میں بجلی کا بل نہیں آ رہا ہے، بلکہ، بجلی سے کمائی کا چیک آ رہا ہے۔ یہ ہوتا دیکھ، اب ملک کے بہت سے گاؤوں کے لوگ مجھے خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے گاؤں کو بھی سوریہ گرام میں بدلا جائے، یعنی وہ دن دور نہیں جب بھارت میں سوریہ گراموں کی تعمیر بہت بڑی تحریک بنے گی اور اس کی شروعات موڈھیرا گاؤں کے لوگ کر ہی چکے ہیں۔
آئیے، ’من کی بات‘ کے سامعین کو بھی موڈھیرا کے لوگوں سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر جڑے ہیں محترم وپن بھائی پٹیل۔
محترم وزیراعظم:- وپن بھائی نمستے! دیکھئے، اب تو موڈھیرا پورے ملک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر چرچہ میں آ گیا ہے۔ لیکن جب آپ کو اپنے رشتہ دار، شناسا لوگ سب باتیں پوچھتے ہوں گے تو آپ ان کو کیا کیا بتاتے ہیں، کیا فائدہ ہوا؟
وپن جی:- سر، لوگ ہمارے کو پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں جو بل آتا تھا، لائٹ بل وہ ابھی زیرو آ رہا ہے اور کبھی 70 روپے آتا ہے مگر ہمارے پورے گاؤں میں جو مالی حالت ہے وہ بہتر ہو رہی ہے۔
محترم وزیر اعظم:- اب اپنے گھر میں ہی خود ہی بجلی کا کارخانہ کے مالک بن گئے۔ خود کا اپنا گھر کے چھت پر بجلی بن رہی ہے۔
وپن جی:- ہاں سر، صحیح ہے سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو کیا یہ تبدیلی جو آئی ہے اس کا گاؤں کے لوگوں پر کیا اثر ہے؟
وپن جی:- سر وہ پورے گاؤں کے لوگ، وہ کھیتی کر رہے ہیں، تو پھر ہمارے کو بجلی کی جو جھنجھٹ تھی تو اس میں آزادی ہو گئی ہے۔ بجلی کا بل تو بھرنا نہیں ہے، بے فکر ہو گئے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- مطلب، بجلی کا بل بھی گیا اور سہولت بڑھ گئی۔
وپن جی:- جھنجھٹ ہی گیا سر اور سر جب آپ یہاں آئے تھے اور وہ 3ڈی شو جو یہاں افتتاح کیا تو اس کے بعد تو موڈھیرا گاؤں میں چار چاند لگ گئے ہیں سر۔ اور وہ جو سکریٹری آئے تھے سر…
محترم وزیر اعظم:- جی جی…
وپن جی:- تو وہ گاؤں فیمس (مشہور) ہو گیا سر۔
محترم وزیر اعظم:- جی ہاں، یو این کے سکریٹری جنرل ان کی خود کی خواہش تھی۔ انہوں نے مجھ سے بڑی گزارش کی کہ بھئی اتنا بڑا کام کیا ہے تو میں وہاں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلئے وپن بھائی آپ کو اور آپ کے گاؤں کے سب لوگوں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور دنیا آپ میں سے سبق لے اور یہ سولر انرجی کی مہم گھر گھر چلے
وپن جی:- ٹھیک ہے سر۔ وہ ہم سب لوگوں کو بتائیں سر کہ بھئی سولر لگواؤ، آپ کے پیسے سے بھی لگواؤں، تو بہت فائدہ ہے۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں لوگوں کو سمجھائیے۔ چلئے بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ بھیا۔
وپن جی:- تھینک یو سر، تھینک یو سر، میری زندگی مالامال ہو گئی آپ سے بات کرکے۔
وپن بھائی کا بہت بہت شکریہ۔
آئیے اب موڈھیرا گاؤں میں ورشا بہن سے بھی بات کریں گے۔
ورشا بین:- ہیلو نمستے سر!
محترم وزیر اعظم:- نمستے نمستے ورشا بین۔ کیسی ہیں آپ؟
ورشا بین:- ہم بہت اچھے ہیں سر۔ آپ کیسے ہیں؟
محترم وزیر اعظم:- میں بہت ٹھیک ہوں۔
ورشا بین:- ہم مالا مال ہو گئے سر آپ سے بات کرکے۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا ورشا بین۔
ورشا بین:- ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- آپ موڈھیرا میں، آپ تو ایک تو فوجی فیملی سے ہیں۔
ورشا بین:- میں فوجی فیملی سے ہوں ہیں۔ آرمی ایکس مین کی وائف بول رہی ہوں سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو پہلے ہندوستان میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا آپ کو؟
ورشا بین:- مجھے راجستھان میں ملا، گاندھی نگر میں ملا، کچرا کانجھور جموں ہے وہاں پر ملا موقع، ساتھ میں رہنے کا۔ بہت سہولت وہاں پر مل رہی تھی سر۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں۔ یہ فوج میں ہونے کی وجہ سے آپ ہندی بھی بڑھیا بول رہی ہو۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سیکھا ہے سر ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- مجھے بتائیے موڈھیرا میں جو اتنی بڑی تبدیلی آئی تو یہ سولر روف ٹاپ پلانٹ آپ نے لگوا دیا۔ جو شروع میں لوگ کہہ رہے ہوں گے، تب تو آپ کو من میں آیا ہوگا، یہ کیا مطلب ہے؟ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہوگا؟ ایسے تھوڑی بجلی آتی ہے؟ یہ سب باتیں ہیں کہ آپ کے من میں آئی ہوں گی۔ اب کیا تجربہ آ رہا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہوا ہے؟
ورشا بین:- بہت سر فائدہ تو فائدہ ہی فائدہ ہوا ہے سر۔ سر ہمارے گاؤں میں تو روز دیوالی منائی جاتی ہے آپ کی وجہ سے۔ 24 گھنٹے ہمیں بجلی مل رہی ہے، بل تو آتا ہی نہیں ہے بالکل۔ ہمارے گھر میں ہم نے الیکٹرک سب چیزیں گھر میں لا رکھی ہیں سر، سب چیزیں یوز کر رہے ہیں – آپ کی وجہ سے سر۔ بل آتا ہی نہیں ہے، تو ہم فری مائنڈ سے، سب یوز کر سکتے ہیں ناٍ!
محترم وزیر اعظم:- یہ بات صحیح ہے، آپ نے بجلی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے بھی من بنا لیا ہے۔
ورشا بین:- بنا لیا سر، بنا لیا۔ ابھی ہمیں کوئی دقت ہی نہیں ہے۔ ہم فری مائنڈ سے، سب یہ جو واشنگ مشین ہے، اے سی ہے سب چلا سکتے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اور گاؤں کے باقی لوگ بھی خوش ہیں اس کی وجہ سے؟
ورشا بین:- بہت بہت خوش ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا یہ آپ کے پتی دیو (شوہر) تو وہاں سوریہ مندر میں کام کرتے ہیں؟ تو وہاں جو وہ لائٹ شو ہوا اتنا بڑا ایونٹ ہوا اور ابھی دنیا بھر کے مہمان آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- دنیا بھر کے فارینرز آ سکتے ہیں پر آپ نے ورلڈ میں مشہور کر دیا ہے ہمارے گاؤں کو۔
محترم وزیر اعظم:- تو آپ کے شوہر کو اب کام بڑھ گیا ہوگا اتنے مہمان وہاں مندر میں دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- ارے! کوئی بات نہیں جتنا بھی کام بڑھے، سر کوئی بات نہیں، اس کی ہمیں کوئی دقت نہیں ہے ہمارے شوہر کو، بس آپ ترقی کرتے جاؤ ہمارے گاؤں کی۔
محترم وزیر اعظم:- اب گاؤں کی ترقی تو ہم سب کو مل کر کے کرنی ہے۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- اور میں تو موڈھیرا کے لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا کیوں کہ گاؤں نے اس اسکیم کو قبول کیا اور ان کو اعتماد ہو گیا کہ ہاں ہم اپنے گھر میں بجلی بنا سکتے ہیں۔
ورشا بین:- 24 گھنٹے سر! ہمارے گھر میں بجلی آتی ہے اور ہم بہت خوش ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- چلیے! میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ جو پیسے بچے ہیں، اس کا بچوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیجئے۔ ان پیسوں کا استعمال اچھا ہو تاکہ آپ کی زندگی کو فائدہ ہو۔ میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ اور سب موڈھیرا والوں کو میرا نمسکار!
ساتھیوں، ورشا بین اور وپن بھائی نے جو بتایا ہے، وہ پورے ملک کے لیے، گاؤوں شہروں کے لیے ایک مثال ہے۔ موڈھیرا کا یہ تجربہ پورے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔ سورج کی طاقت، اب پیسے بھی بچائے گی اور آمدنی بھی بڑھائے گی۔ جموں و کشمیر کے سرینگر سے ایک ساتھی ہیں – منظور احمد لرہوال۔ کشمیر میں سردیوں کی وجہ سے بجلی کا خرچ کافی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے، منظور جی کا بجلی کا بل بھی 4 ہزار روپے سے زیادہ آتا تھا، لیکن جب سے منظور جی نے اپنے گھر پر سولر روف ٹاپ پلانٹ لگوایا ہے، ان کا خرچ آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ ایسے ہی، اوڈیشہ کی ایک بیٹی کنی دیئوری، شمسی توانائی کو اپنے ساتھ ساتھ دوسری عورتوں کے روزگار کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔ کنی، اوڈیشہ کے کیندوجھر ضلع کے کرداپال گاؤں میں رہتی ہیں۔ وہ آدیواسی خواتین کو سولر سے چلنے والی ریلنگ مشین پر سلک کی کتائی کی ٹریننگ دیتی ہیں۔ سولر مشین کے سبب ان آدیواسی خواتین پر بجلی کے بل کا بوجھ نہیں پڑتا، اور ان کی آمدنی ہو رہی ہے۔ یہی تو سوریہ دیو کی شمسی توانائی کا وردان ہی تو ہے۔ وردان اور پرساد تو جتنی توسیع ہو، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس لیے، میری آپ سے درخواست ہے، آپ بھی، اس میں جڑیں اور دوسروں کو بھی جوڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آپ سے سورج کی باتیں کر رہا تھا۔ اب میرا دھیان اسپیس کی طرف جا رہا ہے۔ وہ اس لیے، کیوں کہ ہمارا ملک، سولر سیکٹر کے ساتھ ہی اسپیس سیکٹر میں بھی کمال کر رہا ہے۔ پوری دنیا، آج، بھارت کی حصولیابیاں دیکھ کر حیران ہے۔ اس لیے میں نے سوچا، ’من کی بات‘ کے سامعین کو یہ بتا کر میں ان کی بھی خوشی بڑھاؤں۔
ساتھیو، اب سے کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا بھارت نے ایک ساتھ 36 سیٹلائٹس کو خلاء میں قائم کیا ہے۔ دیوالی سے ٹھیک ایک دن پہلے ملی یہ کامیابی ایک طرح سے یہ ہمارے نوجوانوں کی طرف سے ملک کو ایک اسپیشل دیوالی گفٹ ہے۔ اس لانچنگ سے کشمیر سے کنیاکماری اور کچھّ سے کوہیما تک، پورے ملک میں ڈیجیٹل کنیکٹویٹی کو اور مضبوطی ملے گی۔ اس کی مدد سے بے حد دور دراز کے علاقے بھی ملک کے باقی حصوں سے اور آسانی سے جڑ جائیں گے۔ ملک جب آتم نربھر ہوتا ہے، تو، کیسے کامیابی کی نئی بلندی پر پہنچتا جاتا ہے – یہ اس کی بھی ایک مثال ہے۔ آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے وہ پرانا وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب بھارت کو کرایوجینک راکٹ ٹیکنالوجی دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ لیکن بھارت کے سائنس دانوں نے نہ صرف سودیشی ٹیکنالوجی تیار کی بلکہ آج اس کی مدد سے ایک ساتھ درجنوں سیٹلائٹس خلاء میں بھیج رہا ہے۔ اس لانچنگ کے ساتھ بھارت گلوبل کمرشیل مارکیٹ میں ایک مضبوط پلیئر بن کر ابھرا ہے، اس سے خلائی شعبے میں بھارت کے لیے مواقع کے نئے دروازے بھی کھلے ہیں۔
ساتھیو، ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم لے کر چل رہا ہمارا ملک، سب کی کوشش سے ہی، اپنے اہداف کو حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت میں پہلے اسپیس سیکٹر، سرکاری انتظامات کے دائرے میں ہی سمٹا ہوا تھا۔ جب یہ اسپیس سیکٹر بھارت کے نوجوانوں کے لیے، بھارت کے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کھول دیا گیا تب سے اس میں انقلابی تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ ہندوستانی انڈسٹری اور اسٹارٹ اپس اس شعبے میں نئے نئے انوویشنز اور نئی نئی ٹیکنالوجیز لانے میں مصروف ہیں۔ خاص کر، ان-اسپیس کے تعاون سے اس شعبے میں بڑی تبدیلی ہونے جا رہی ہے۔
ان-اسپیس کے ذریعے غیر سرکاری کمپنیوں کو بھی اپنے پے لوڈز اور سیٹلائٹ لانچ کرنے کی سہولت مل رہی ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس اور انوویٹر سے اپیل کروں گا کہ وہ اسپیس سیکٹر میں بھارت میں بن رہے ان بڑے مواقع کا پورا فائدہ اٹھائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب اسٹوڈنٹس کی بات آئے، نوجوانوں کی طاقت کی بات آئے، قائدانہ قوت کی بات آئے، تو ہمارے من میں گھسی پٹی، پرانی بہت سی بدگمانیاں گھر کر گئی ہیں۔ کئی بار ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسٹوڈنٹ پاور کی بات ہوتی ہے، تو اس کے اسٹوڈنٹ یونین انتخابات سے جوڑ کر اس کا دائرہ محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسٹوڈنٹ پاور کا دائرہ بہت بڑا ہے، بہت وسیع ہے۔ اسٹوڈنٹ پاور، بھارت کو پاورفل بنانے کی بنیاد ہے۔ آخر، آج جو نوجوان ہیں، وہی تو بھارت کو 2047 تک لے کر جائیں گے۔ جب بھارت صد سالہ جشن منائے گا، نوجوانوں کی یہ طاقت، ان کی محنت، ان کا پیسہ، ان کی صلاحیت، بھارت کو اس بلندی پر لے کر جائے گی، جس کا عزم، ملک آج کر رہا ہے۔ ہمارے آج کے نوجوان، جس طرح ملک کے لیے کام کر رہے ہیں، نیشن بلڈنگ میں مصروف ہو گئے ہیں، وہ دیکھ کر میں بہت بھروسے سے بھرا ہوا ہوں۔ جس طرح ہمارے نوجوان ہیکا تھانس میں پرابلم سالو کرتے ہیں، رات رات بھر جاگ کر گھنٹوں کام کرتے ہیں، وہ بہت ہی حوصلہ فراہم کرنے والا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہوئی ایک ہیکاتھانس میں ملک کے لاکھوں نوجوانوں نے مل کر، بہت سارے چیلنجز کو نمٹایا ہے، ملک کو نئے سالیوشنز دیے ہیں۔
ساتھیو، آپ کویاد ہوگا، میں نے لال قلعہ سے ’جے انوسندھان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ میں نے اس دہائی کو بھارت کا ٹیک ایڈ بنانے کی بات بھی کہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا، اس کی کمان ہماری آئی آئی ٹی کے اسٹوڈنٹس نے بھی سنبھال لی ہے۔ اسی مہینے 15-14 اکتوبر کو سبھی 23 آئی آئی ٹی اپنے انوویشنز اور ریسرچ پروجیکٹ کی نمائش کرنے کے لیے پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر آئے۔ اس میلہ میں ملک بھر سے منتخب ہو کر آئے اسٹوڈنٹس اور ریسرچرز انہوں نے 75 سے زیادہ بہترین پروجیکٹس کی نمائش کی۔ ہیلتھ کیئر، ایگریکلچر، روبوٹکس، سیمی کنڈکٹرز، 5جی کمیونی کیشنز، ایسی بہت ساری تھیم پر یہ پروجیکٹ بنائے گئے تھے۔ ویسے تو یہ سارے ہی پروجیکٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھے، لیکن، میں کچھ پروجیکٹس کے بارے میں آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے، آئی آئی ٹی بھونیشور کی ایک ٹیم نے نوزائیدہ بچوں کے لیے پورٹیبل وینٹی لیٹر تیار کیا ہے۔ یہ بیٹری سے چلتا ہے اور اسکا استعمال دور دراز کے علاقوں میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان بچوں کی زندگی بچانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے جن کی پیدائش طے وقت سے پہلے ہو جاتی ہے۔ الیکٹرک موبلٹی ہو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، 5جی ہو، ہمارے بہت سارے طلباء، ان سے جڑی ہوئی نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کئی ساری آئی آئی ٹی مل کر ایک کثیر لسانی پروجیکٹ پر بھی کام کر رہی ہیں جو مقامی زبانوں کو سیکھنے کے طریقے کو آسان بناتا ہے۔ یہ پروجیکٹ نئی قومی تعلیمی پالیسی کو، ان اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مدد بہت مدد کرے گا۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ آئی آئی ٹی مدراس اور آئی آئی ٹی کانپور نے بھارت کے سودیشی 5جی ٹیسٹ بیڈ کو تیار کرنے میں سرکردہ رول نبھایا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک شاندار شروعات ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرح کی کئی اور کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ آئی آئی ٹی سے حوصلہ پا کر دوسرے انسٹی ٹیوشن بھی تحقیق و ترقی سے جڑی اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ماحولیات کے تئیں حساسیت، ہمارے سماج کے ذرے ذرے میں شامل ہے اور اور اسے ہم اپنے چاروں طرف محسوس کر سکتے ہیں۔ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو ماحولیات کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی کھپا دیتے ہیں۔
کرناٹک کے بنگلورو میں رہنے والے سریش کمار جی سے بھی ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں، ان میں فطرت اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے غضب کا جنون ہے۔ 20 سال پہلے انہوں نے شہر کے سہکار نگر کے ایک جنگل کو پھر سے ہرا بھرا کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ یہ کام مشکلوں سے بھرا تھا، لیکن، 20 سال پہلے لگائے گئے وہ پودے آج 40-40 فٹ اونچے لحیم شحیم درخت بن چکے ہیں۔ اب ان کی خوبصورتی ہر کسی کا من موہ لیتی ہے۔ اس سے وہاں رہنے والے لوگوں کو بھی بڑے فخر کا احساس ہوتا ہے۔ سریش کمار جی اور ایک انوکھا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کنڑ زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے سہکار نگر میں ایک بس شیلٹر بھی بنایا ہے۔ وہ سینکڑوں لوگوں کو کنڑ میں لکھی براس پلیٹس بھی تحفے میں دے چکے ہیں۔ ایکولوجی اور کلچر دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں اور پھلیں پھولیں، سوچئے… یہ کتنی بڑی بات ہے۔
ساتھیو، آج ایکو فرینڈلی لیونگ اور ایکو فرینڈلی پروڈکٹس کو لے کر لوگوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بیداری نظر آ رہی ہے۔ مجھے تمل ناڈو کی ایک ایسی ہی دلچسپ کوشش کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ یہ شاندار کوشش کوئمبٹور کے انائی کٹی میں آدیواسی خواتین کی ایک ٹیم کی ہے۔ ان عورتوں نے ایکسپورٹ کے لیے دس ہزار ایکو فرینڈلی ٹیراکوٹا ٹی کپس بنائے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ٹیراکوٹا ٹی کپس بنانے کی پوری ذمہ داری ان عورتوں نے خود ہی اٹھائی۔ کلے مکسنگ سے لے کر فائنل پیکیجنگ تک سارے کام خود کیے۔ اس کے لیے انہوں نے تربیت بھی حاصل کی تھی۔ اس انوکھی کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ساتھیو، تریپورہ کے کچھ گاؤوں نے بھی بڑی اچھی سیکھ دی ہے۔ آپ لوگوں نے بائیو ولیج تو ضرور سنا ہوگا، لیکن تریپورہ کے کچھ گاؤں، بائیو ولیج 2 کی سیڑھی چڑھ گئے ہیں۔ بائیو ولیج-2 میں اس بات پر زور دہوتا ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کیسے کم از کم کیا جائے۔ اس میں مختلف طریقوں سے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر پوری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ سولر انرجی، بائیو گیس، بی کیپنگ اور بائیو فرٹیلائزرس، ان سب پر پورا فوکس رہتا ہے۔ کل ملا کر اگر دیکھیں تو، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مہم کو بائیو ولیج 2 بہت مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ میں ملک کے الگ الگ حصوں میں ماحولیاتی تحفظ کو لے کر بڑھ رہے جوش کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوں۔ کچھ دن پہلے ہی، بھارت میں، ماحولیات کے تحفظ کے لیے وقف مشن لائف کو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ مشن لائف کا سیدھا اصول ہے – ایسا طریقہ زندگی، ایسی لائف اسٹائل کو فروغ، جو ماحولیات کو نقصان نہ پہنچائے۔ میری اپیل ہے کہ آپ بھی مشن لائف کو جانئے، اسے اپنانے کی کوشش کیجئے۔
ساتھیو، کل، 31 اکتوبرکو، راشٹریہ ایکتا دیوس ہے، سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کی جنم جینتی کا مبارک موقع ہے۔ اس دن ملک کے کونے کونے میں رن فار یونٹی کا پروگرام کیا جاتا ہے۔ یہ دوڑ، ملک میں اتحاد کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہے، ہمارے نوجوانوں کو حوصلہ بخشتی ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے، ایسا ہی جذبہ، ہمارے قومی کھیلوں کے دوران بھی دیکھا ہے۔ ’جڑے گا انڈیا تو جیتے گا انڈیا‘ اس تھیم کے ساتھ قومی کھیلوں نے جہاں اتحاد کا مضبوط پیغام دیا، وہیں بھارت کی کھیل ثقافت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت میں قومی کھیلوں کا اب تک کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ اس میں 36 کھیلوں کو شامل کیا گیا، جس میں 7 نئے اور دو سودیشی مقابلے یوگاسن، اور ملّ کھمب بھی شامل رہے۔ گولڈ میڈل جیتنے میں سب سے آگے جو تین ٹیمیں رہیں، وہ ہیں – سروسز کی ٹیم، مہاراشٹر اور ہریانہ کی ٹیم۔ ان کھیلوں میں چھ نیشنل ریکارڈز اور قریب قریب 60 نیشنل گیمز ریکارڈز بھی بنے۔ میں میڈل جیتنے والے، نئے ریکارڈ بنانے والے، اس کھیل مقابلہ میں حصہ لینے والے، سبھی کھلاڑیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ان کھلاڑیوں کے سنہرے مستقبل کی دعا بھی کرتا ہوں۔
ساتھیو، میں ان سبھی لوگوں کی بھی دل کی گہرائیوں سے تعریف کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گجرات میں ہوئے قومی کھیلوں کے کامیاب انعقاد میں اپنا تعاون دیا۔ آپ نے دیکھا ہے کہ گجرات میں تو قومی کھیل نوراتری کے دوران ہوئے۔ ان کھیلوں کے انعقاد سے پہلے ایک بار تو میرے من میں بھی آیا کہ اس وقت تو پورا گجرات ان تہواروں میں مصروف ہے، تو لوگ ان کھیلوں کا مزہ کیسے لے پائیں گے؟ اتنا بڑاانتظام اور دوسری طرف نوراتری کے گربا وغیرہ کا انتظام۔ یہ سارے کام گجرات ایک ساتھ کیسے کر لے گا؟ لیکن گجرات کے لوگوں نے اپنی مہمان نوازی سے سبھی مہمانوں کو خوش کر دیا۔ احمد آباد میں نیشنل گیمز کے دوران جس طرح فن، کھیل اور ثقافت کا سنگم ہوا، وہ خوشیوں سے بھر دینے والا تھا۔ کھلاڑی بھی دن میں جہاں کھیل میں حصہ لیتے تھے، وہیں شام کو وہ گربا اور ڈانڈیا کے رنگ میں ڈوب جاتے تھے۔ انہوں نے گجراتی کھانا اور نوراتری کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیں۔ یہ دیکھنا ہم سبھی کے لیے بہت ہی مزیدار تھا۔ آخرکار، اس طرح کے کھیلوں سے، بھارت کی متنوع ثقافتوں کےبارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کو بھی اتنا ہی مضبوط کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، نومبر مہینے میں 15 تاریخ کو ہمارا ملک جن جاتیہ گورو دیوس منائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا، ملک نے پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جنم جینتی کے دن آدیواسی وراثت اور گورو کو سیلیبریٹ کرنے کے لیے یہ شروعات کی تھی۔ بھگوان برسا منڈا نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں انگریزی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگوں کو متحد کر دیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی اور آدیواسی ثقافت کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ ایسا کتنا کچھ ہے، جو ہم دھرتی آبا برسا منڈا سے سیکھ سکتے ہیں۔ ساتھیو، جب دھرتی آبا برسا منڈا کی بات آتی ہے، چھوٹی سی ان کی زندگی کی طرف نظر کرتے ہیں، آج بھی ہم اس میں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور دھرتی آبا نے تو کہا تھا- یہ دھرتی ہماری ہے، ہم اس کے محافظ ہیں۔ ان کے اس جملے میں مادر وطن کے لیے ذمہ داری کا جذبہ بھی ہے اور ماحولیات کے لیے ہمارے فرائض کا احساس بھی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں ہماری آدیواسی ثقافت کو بھولنا نہیں ہے، اس سے ذرہ برابر بھی دور نہیں جانا ہے۔ آج بھی ہم ملک کے آدیواسی سماجوں سے فطرت اور ماحولیات کو لے کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جینتی کے موقع پر، مجھے رانچی کے بھگوان برسا منڈا میوزیم کے افتتاح کا موقع حاصل ہوا تھا۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ انہیں جب بھی وقت ملے، وہ اسے دیکھنے ضرور جائیں۔ میں آپ کویہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک نومبر یعنی پرسوں، میں گجرات-راجستھان کے بارڈر پر موجودہ مان گڑھ میں رہوں گا۔ بھارت کی جدوجہد آزادی اور ہماری بیش قیمتی آدیواسی وراثت میں مان گڑھ کا بہت ہی خاص مقام رہا ہے۔ یہاں پر نومبر 1913 میں ایک خوفناک قتل عام ہوا تھا، جس میں انگریزوں نے مقامی آدیواسیوں کا بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قتل عام میں ایک ہزار سے زیادہ آدیواسیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اس جن جاتیہ آندولن کی قیادت گووند گرو جی نے کی تھی، جن کی زندگی ہر کسی کو حوصلہ بخشنے والی ہے۔ آج میں ان سبھی آدیواسی شہیدوں اور گووند گرو جی کی مثالی ہمت اور شجاعت کو نمن کرتا ہوں۔ ہم اس امرتکال میں بھگوان برسا منڈا، گووند گرو اور دیگر مجاہدین آزادی کے اصولوں پر جتنی ایمانداری سے عمل کریں گے، ہمارا ملک اتنی ہی بلندیوں کو چھو لے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آنے والے 8 نومبر کو گرو پورب ہے۔ گرونانک جی کا پرکاش پرو جتنا ہمارے عقیدہ کے لیے اہم ہے، اتنا ہی ہمیں اس سے سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ گرو نانک دیو جی نے اپنی پوری زندگی، انسانیت کے لیے روشنی پھیلائی۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک نے گروؤں کی روشنی کو ہر ایک تک پہنچانے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ ہمیں گرو نانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو یاد ہے، ملک اور بیرون ملک میں بڑے پیمانے پر منانے کا سنہرا موقع ملا تھا۔ دہائیوں سے انتظار کے بعد کرتارپور صاحب کوریڈور کی تعمیر ہونا بھی اتنا ہی مسرت آمیز ہے۔ کچھ دن پہلے ہی مجھے ہیم کنڈ صاحب کے لیے روپ وے کا سنگ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ ہمیں ہمارے گروؤں کے خیالات سے لگاتار سیکھنا ہے، ان کے لیے وقف رہنا ہے۔ اسی دن کارتک پورنیما کا بھی ہے۔ اس دن ہم تیرتھوں میں، ندیوں میں اسنان (غسل) کرتے ہیں – سیوا اور دان کرتے ہیں۔ میں آپ سبھی کو ان تہواروں کی دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں کئی ریاستیں، اپنا یوم تاسیس بھی منائیں گی۔ آندھرا پردیش اپنا یوم تاسیس منائے گا، چھتیس گڑھ اور ہریانہ بھی اپنا یوم تاسیس منائیں گے۔ میں ان سبھی ریاستوں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہماری تمام ریاستوں میں، ایک دوسرے سے سیکھنے کی، تعاون کرنے کی، اور مل کر کام کرنے کی اسپرٹ جتنی مضبوط ہوگی، ملک اتنا ہی آگے جائے گا۔ مجھے یقین ہے، ہم اسی جذبے سے آگے بڑھیں گے۔ آپ سب اپنا خیال رکھئے، صحت مند رہئے۔ ’من کی بات‘ کی اگلی ملاقات تک کے لیے مجھے اجازت دیجئے۔
نمسکار، شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
پچھلے کچھ دنوں میں ، جس چیز نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچی ہے ، وہ ہے چیتا۔ چیتوں کے بارے میں بات کرنے کے بہت سے پیغامات آئے ہیں، چاہے وہ اتر پردیش کے ارون کمار گپتا ہوں یا پھر تلنگانہ کے این رام چندرن رگھورام جی؛ گجرات کے راجن جی ہوں یا دلّی کے سبرت جی۔ بھارت میں چیتوں کی واپسی پر ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ 130 کروڑ بھارتی خوش ہیں، فخر سے بھرے ہیں - یہ بھارت کی فطرت سے محبت ہے۔ اس بارے میں لوگوں کا ایک عام سوال ہے کہ مودی جی، ہمیں چیتا دیکھنے کا موقع کب ملے گا؟
ساتھیو ، ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔ یہ ٹاسک فورس چیتوں کی نگرانی کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ یہاں کے ماحول میں کتنا گھل مل جانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس بنیاد پر کچھ مہینوں کے بعد فیصلہ کیا جائے گا اور پھر آپ چیتا دیکھ سکیں گے لیکن تب تک میں آپ سب کو کچھ کام سونپ رہا ہوں۔ اس کے لئے مئی گوو پلیٹ فارم پر ایک مقابلہ منعقد کیا جائے گا، جس میں ، میں لوگوں سے کچھ چیزیں شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ چیتوں کے لئے ، جو مہم چلا رہے ہیں ، آخر اس مہم کا کیا نام ہونا چاہیئے! کیا ہم ان تمام چیتوں کے نام رکھنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو کس نام سے پکارا جائے! ویسے اگر یہ نام روایتی ہو تو کافی اچھا رہے گا کیونکہ ہمارے معاشرے اور ثقافت، روایت اور ورثے سے جڑی کوئی بھی چیز ہمیں فطری طور پر اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ یہ بھی بتائیں کہ آخر انسانوں کو جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے! ہمارے بنیادی فرائض میں بھی جانوروں کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ میری آپ سبھی سے اپیل ہے کہ آپ اس مقابلے میں ضرور شرکت کریں - کیا پتہ انعام کے طور پر چیتے دیکھنے کا پہلا موقع آپ کو ہی مل جائے !
میرے پیارے ہم وطنو، آج 25 ستمبر کو ملک کے عظیم انسان دوست، مفکر اور ملک کے عظیم فرزند دین دیال اپادھیائے جی کایوم پیدائش منایا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے نوجوان اپنی شناخت اور عظمت پر جتنا زیادہ فخر کرتے ہیں، ان کے اصل نظریات اور فلسفے انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ دین دیال جی کے افکار کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دنیا کے بڑے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ وہ نظریات کے تصادم کے گواہ بنے تھے۔ اس لئے انہوں نے ’ ایک آتما مانو درشن‘ اور ’ انتودیا ‘ کا ایک نظریہ ملک کے سامنے رکھا ، جو پوری طرح بھارتیہ تھا۔ دین دیال جی کا ’ ایک آتما مانو درشن ‘ ایک ایسا نظریہ ہے، جو نظریے کے نام پر تنازعات اور تعصب سے آزادی دیتا ہے۔ انہوں نے انسان کو یکساں سمجھنے والے بھارتی درشن کو پھر سے دنیا کے سامنے رکھنا ۔ ہمارے شاستروں کہا گیا ہے ۔ ’ आत्मवत् सर्वभूतेषु‘ ( آتم وَت سرو بھوتیشو ) یعنی ہم ہر نفس کو اپنی طرح سمجھیں ، اپنے جیسا سلوک کریں ، جدید معاشرتی اور سیاسی تناظر میں بھی بھارتی درشن ، کس طرح دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے ، یہ دین دیال جی نے ہمیں سکھایا ۔ ایک طرح سے انہوں نے آزادی کے بعد ملک میں پھیلنے والے احساس کمتری سے آزاد کر کے ہمارے اپنے فکری شعور کو بیدار کیا۔وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ’’ہماری آزادی اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے ، جب یہ ہماری ثقافت اور شناخت کا اظہار کرے‘‘۔ اسی خیال کی بنیاد پر انہوں نے ملک کی ترقی کا ویژن تیار کیا تھا۔ دین دیال اپادھیائے جی کہا کرتے تھے کہ ملک کی ترقی کا پیمانہ آخری پائیدان پر موجود شخص ہوتا ہے۔ آزادی کے امرت کال میں، ہم دین دیال جی کو جتنا سمجھیں گے ، ان سے جتنا سیکھیں گے، ملک کو اتنا ہی آگے لے کر جانے کی ہم سب کو تحریک ملے گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے تین دن بعد یعنی 28 ستمبر کو امرت مہوتسو کا ایک خاص دن آ رہا ہے۔ اس دن ہم بھارت ماتا کے بہادر بیٹے بھگت سنگھ جی کا یوم پیدائش منائیں گے۔ بھگت سنگھ جی کے یوم پیدائش سے عین قبل انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چندی گڑھ کے ہوائی اڈے کا نام اب شہید بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے گا۔ اس کا کافی عرصے سے انتظار تھا۔ میں اس فیصلے کے لئے چندی گڑھ، پنجاب، ہریانہ اور ملک کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، ہم اپنے مجاہدینِ آزادی سے تحریک لیں، ان کے اصولوں پر چلتے ہوئے ، ان کے خوابوں کے بھارت کی تعمیر کریں، یہی ان کے لئے ہمارا خراج عقیدت ہو گا ۔ شہیدوں کی یادگاریں، جگہوں کے نام اور ان کے نام سے منسوب ادارے ہمیں فرائض کے لئے تحریک دیتے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک نے کرتوویہ پَتھ پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ نصب کرکے ایسی ہی ایک کوشش کی ہے اور اب شہید بھگت سنگھ کے نام سے چنڈی گڑھ ہوائی اڈے کا نام اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ میں چاہوں گا کہ جس طرح ہم امرت مہوتسو میں مجاہدینِ آزادی سے متعلق خصوصی مواقع پر جشن منا رہے ہیں، اسی طرح ہر نوجوان کو 28 ستمبر کو کچھ نیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
ویسے، میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کے پاس 28 ستمبر کو جشن منانے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ جانتے ہیں یہ کیا ہے! میں صرف دو لفظ کہوں گا لیکن مجھے معلوم ہے، آپ کا جوش چار گنا بڑھ جائے گا۔ یہ دو الفاظ ہیں - سرجیکل اسٹرائیک۔ بڑھ گیا نا جوش! ہمارے ملک میں امرت مہوتسو کی ، جو مہم چل رہی ہے ، اس کا ہم پوری دل جمعی سے جشن منائیں ، اپنی خوشیوں کو سب کے ساتھ ساجھا کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، کہتے ہیں - زندگی کی کشمکش سے تپے ہوئے شخص کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ ٹک نہیں سکتی۔اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہم کچھ ایسے ساتھی بھی دیکھتے ہیں، جو کسی نہ کسی جسمانی چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یا تو سننے سے قاصر ہیں، یا بول کر اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے ساتھیوں کا سب سے بڑا سہارا اشاروں کی زبان ہے لیکن بھارت میں برسوں سے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اشاروں کی زبان کے لئے کوئی واضح اشارے، کوئی معیار طے نہیں تھا۔ ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہی سال 2015 ء میں انڈین سائن لینگویج ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے اب تک دس ہزار الفاظ اور محاورات کی لغت تیار کرلی ہے۔ دو دن پہلے یعنی 23 ستمبر کو اشاروں کی زبان کے دن کے موقع پر بہت سے اسکولی کورسز بھی اشاروں کی زبان میں شروع کئے گئے ہیں، قومی تعلیمی پالیسی میں بھی اشارے کی زبان کے مقررہ معیار کو برقرار رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اشاروں کی زبان کی ، جو لغت بنی ہے ، اس کی ویڈیوز بنا کر اسے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے، بہت سے اداروں نے یوٹیوب پر بھارتی اشاروں کی زبان میں اپنے چینل شروع کئے ہیں یعنی ملک میں 7 - 8 سال پہلے اشارے کی زبان کے بارے میں ، جو مہم شروع کی گئی تھی،اب میرے لاکھوں معذور بھائی اور بہنیں اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پوجا جی، جن کا تعلق ہریانہ سے ہے، بھارتی اشاروں کی زبان سے بہت خوش ہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنے بیٹے سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں لیکن 2018 ء میں اشاروں کی زبان کی تربیت لینے کے بعد ماں - بیٹے دونوں کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ پوجا جی کے بیٹے نے بھی اشاروں کی زبان سیکھی اور اپنے اسکول میں اس نے کہانی سنانے میں انعام جیت کر بھی دکھایا۔ اسی طرح ٹنِکا جی کی ایک چھ سال کی بیٹی ہے ، جو سن نہیں سکتی۔ ٹنکا جی نے اپنی بیٹی کو اشاروں کی زبان کا کورس کرایا تھا لیکن وہ خود اشاروں کی زبان نہیں جانتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی بیٹی سے بات چیت نہیں کر پاتی تھیں۔ اب ٹنِکا جی نے اشاروں کی زبان کی تربیت بھی لے لی ہے اور ماں بیٹی دونوں اب آپس میں خوب باتیں کرتی ہیں۔ کیرالہ کی منجو جی کو بھی ان کوششوں سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ منجو جی، پیدائش سے ہی سن نہیں پا تی ہیں، یہی نہیں، ان کے والدین کی زندگی میں بھی یہی حال رہا ہے۔ ایسے میں اشاروں کی زبان پورے خاندان کے لئے رابطے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اب منجو جی نے خود بھی اشاروں کی زبان کی ٹیچر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساتھیو ، میں اس بارے میں ’ من کی بات ‘ میں ، اس لئے بھی بات کر رہا ہوں تاکہ بھارتی اشاروں کی زبان کے بارے میں آگاہی بڑھے، اس سے ہم اپنے معذور ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں گے۔ بھائیو اور بہنو، کچھ دن پہلے مجھے بریل میں لکھی ہیمکوش کی ایک کاپی بھی ملی ہے۔ ہیمکوش آسامی زبان کی سب سے پرانی لغت میں سے ایک ہے۔ یہ 19ویں صدی میں تیار کی گئی تھا۔ اس کی تدوین ممتاز ماہر لسانیات ہیم چندر بروا جی نے کی تھی۔ ہیمکوش کا بریل ایڈیشن تقریباً 10000 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ 15 سے بھی زیادہ جلدوں میں شائع ہونے جا رہا ہے ۔ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ الفاظ کا ترجمہ ہونا ہے۔ میں اس حساس کوشش کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ اس طرح کی ہر کوشش مختلف طور پر معذور ساتھیوں کی مہارت اور صلاحیت کو بڑھانے میں بہت مدد کرتی ہے۔ آج بھارت پیرا اسپورٹس میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ ہم سب کئی ٹورنامنٹس میں اس کے گواہ رہے ہیں۔ آج بہت سے لوگ ہیں ، جو بنیادی سطح پر معذور افراد میں فٹنس کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ اس سے معذور افراد کی خود اعتمادی کو کافی تقویت ملتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، میری ملاقات کچھ دن پہلے سورت کی ایک بیٹی انوی سے ہوئی۔ انوی اور انوی کے یوگ سے میری ملاقات اتنی یادگار رہی کہ میں اس کے بارے میں ’ من کی بات ‘ کے سبھی سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو ، انوی پیدائش سے ہی ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے اور وہ بچپن سے ہی دل کی سنگین بیماری سے بھی لڑ رہی ہے۔ جب وہ صرف تین مہینے کی تھی تبھی اسے اوپن ہارٹ سرجری سے بھی گزرنا پڑا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود نہ تو انوی نے اور نہ ہی اس کے والدین نے کبھی ہمت ہاری۔ انوی کے والدین نے ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کیں اور پھر فیصلہ کیا کہ انوی کا دوسروں پر انحصار کیسے کم کیا جائے۔ انہوں نے انوی کو پانی کا گلاس کیسے اٹھانا ہے، جوتوں کے فیتے کیسے باندھنے ہیں ، کپڑوں کے بٹن کیسے لگانے ہیں ، ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھانا شروع کیں۔ کون سی چیز کی جگہ کہاں ہے ، کون سی اچھی عادتیں ہوتی ہیں ، یہ سب کچھ بہت تحمل کے ساتھ انہوں نے اپنی انوی کو سکھانے کی کوشش کی ۔ بٹیا انوی نے ، جس طرح سیکھنے کی اپنی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا ، اس سے اس کے والدین کو بھی بہت حوصلہ ملا ۔ انہوں نے انوی کو یوگ سیکھنے کی تحریک دی۔مسئلہ بہت سنجیدہ تھا کیونکہ انوی اپنے دو پیروں پر بھی کھڑی نہیں ہو پاتی تھی ۔ ایسی صورت میں ، اس کے والدین نے انوی کو یوگ سیکھنے کے لئے آمادہ کیا ۔پہلی مرتبہ، جب وہ یوگ سکھانے والی کوچ کے پاس گئی ، تو وہ بھی بہت ششپنج میں تھے کہ کیا یہ معصوم بچی یوگ کر سکے گی! لیکن کوچ کو بھی شاید اندازہ نہیں تھا کہ انوی کس مٹی سے بنی ہے۔ اس نے اپنی والدہ کے ساتھ یوگا کی مشق شروع کی اور اب وہ یوگا کی ماہر بن چکی ہیں۔ آج انوی ملک بھر کے مقابلوں میں حصہ لیتی ہے اور تمغے جیتتی ہے۔ یوگا نے انوی کو نئی زندگی دی۔ انوی نے یوگ کو اپنایا اور زندگی کو اپنایا۔ انوی کے والدین نے مجھے بتایا کہ یوگا سے انوی کی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں، اب اس کی خود اعتمادی حیرت انگیز ہو گئی ہے۔ یوگا سے انوی کی جسمانی صحت میں بھی بہتری آئی ہے اور ادویات کی ضرورت بھی کم ہو رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ملک اور بیرون ملک میں موجود ’ من کی بات ‘ کے سامعین انوی کو یوگ سے ہوئے فائدے کا سائنسی مطالعہ کریں، میرے خیال میں انوی ایک بہترین کیس اسٹڈی ہے، ان لوگوں کے لئے ، جو یوگا کی قوت کو جانچنا چاہتے ہیں۔ ایسے سائنسدانوں کو آگے آنا چاہیئے اور انوی کی اس کامیابی کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور دنیا کو یوگا کی طاقت سے متعارف کرانا چاہیئے۔ ایسی کوئی بھی تحقیق دنیا بھر میں ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا بچوں کے لئے بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ یوگا جسمانی اور ذہنی تندرستی کے لئے بہت موثر ہے، خاص طور پر ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے متعلق مسائل میں یوگا بہت مدد کرتا ہے۔ یوگا کی ایسی ہی قوت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 21 جون کو بین الاقوامی یوگا کا دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اقوام متحدہ نے بھارت کی ایک اور کوشش کو تسلیم کیا ہے، اس کا احترام کیا ہے۔ یہ کوشش ہے، جو سال 2017 ء میں شروع کی گئی ’’ انڈیا ہائیپر ٹنشن کنٹرول انیشیٹو ‘‘ ۔ اس کے تحت بلڈ پریشر کے مسائل سے دوچار لاکھوں لوگوں کا علاج سرکاری سیوا کیندروں میں کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام نے ، جس طرح بین الاقوامی اداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ، وہ بے مثال ہے۔ یہ بات ہم سب کے لئے حوصلہ افزا ہے کہ جن لوگوں کا علاج کیا گیا ہے ، ان میں سے تقریباً آدھے کا بلڈ پریشر اب کنٹرول میں ہے ۔ میں اس اقدام کے لئے کام کرنے والے تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے اسے کامیاب بنایا۔
ساتھیو ، انسانی زندگی کی ترقی کا سفر مسلسل پانی سے جڑا ہوا ہے ۔ چاہے وہ سمندر ہو، دریا ہو یا تالاب ہو ، بھارت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تقریباٍ ساڑھے سات ہزار کلومیٹر ( 7500 ) کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کی وجہ سے سمندر سے ہمارا ناطا سمندر اٹوٹ رہا ہے۔ یہ ساحلی سرحد کئی ریاستوں اور جزیروں سے گزرتی ہے۔ مختلف برادریوں اور تنوع سے بھری بھارت کی ثقافت کو یہاں پھلتا پھولتا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں، ان ساحلی علاقوں کے کھانے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ان مزیدار باتوں کے ساتھ ساتھ ایک افسوسناک پہلو بھی ہے۔ ہمارے یہ ساحلی علاقے بہت سے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، آب و ہوا میں تبدیلی ، سمندری ماحولیاتی نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہمارے ساحلوں پر موجود گندگی پریشان کن ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان چیلنجز کے لئے سنجیدہ اور مستقل کوششیں کریں۔ یہاں میں ملک کے ساحلی علاقوں میں ساحلی صفائی کی ایک کوشش ’ سووچھ ساگر - سرکشت ساگر ‘ کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ 5 جولائی کو شروع ہونے والی یہ مہم 17 ستمبر کو وشوکرما جینتی کے دن ختم ہوئی۔ اس دن کوسٹل کلین اپ ڈے بھی تھا۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں شروع ہونے والی یہ مہم 75 دن تک جاری رہی۔ اس میں عوام کی بھر پور شرکت دیکھی جا رہی تھی۔ اس کوشش کے دوران پورے ڈھائی ماہ تک صفائی کے کئی پروگرام دیکھے گئے۔ گوا میں ایک لمبی انسانی زنجیر بنائی گئی۔ کاکی ناڈا میں گنپتی وسرجن کے دوران لوگوں کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بتایا گیا۔ این ایس ایس کے تقریباً 5000 نوجوانوں نے 30 ٹن سے زیادہ پلاسٹک جمع کیا۔ اڈیشہ میں، تین دنوں کے اندر 20 ہزار سے زیادہ اسکولی طلباء نے عہد لیا کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی ’ سووچھ ساگر – شرکشت ساگر ‘ کے لئے تحریک دلائیں گے۔ میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا ، جنہوں نے اس مہم میں حصہ لیا۔
جب میں منتخب عہدیداروں، خاص طور پر شہروں کے میئروں اور دیہاتوں کے سرپنچوں سے بات چیت کرتا ہوں، تو میں ان سے یہ ضرور اپیل کرتا ہوں کہ وہ سووچھتا جیسی کوششون میں مقامی برادریوں اور مقامی تنظیموں کو شامل کریں ، اختراعی طریقے اپنائیں۔
بنگلورو میں ایک ٹیم ہے - ’’ یوتھ فار پریورتن ‘‘۔ پچھلے آٹھ سالوں سے یہ ٹیم صفائی اور دیگر کمیونٹی سرگرمیوں پر کام کر رہی ہے۔ اس کا نعرہ بہت واضح ہے – ’ شکایت کرنا بند کرو، عمل کرنا شروع کرو ‘ ('Stop Complaining, Start Acting' )۔ اب تک یہ ٹیم شہر بھر میں 370 سے زائد مقامات کو خوبصورت بنا چکی ہے۔ ہر مقام پر یوتھ فار پریورتن کی مہم نے 100 سے 150 شہروں کو جوڑا ہے۔ ہر اتوار کو یہ پروگرام صبح شروع ہوتا ہے اور دوپہر تک چلتا ہے۔ اس کام میں نہ صرف کچرا ہٹایا جاتا ہے بلکہ دیواروں پر پینٹنگ اور آرٹسٹک اسکیچز بنانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر آپ مشہور لوگوں کے خاکے اور ان کے متاثر کن اقتباسات بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بنگلورو کے یوتھ فار پریورتن کی کوششوں کے بعد، میں آپ کو میرٹھ کی ’ کباڑ سے جگاڑ ‘ مہم کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس مہم کا تعلق ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ شہر کو خوبصورت بنانے سے بھی ہے۔ اس مہم کی خاص بات یہ ہے کہ اس مہم میں لوہے کا اسکریپ، پلاسٹک کا کچرا، پرانے ٹائر اور ڈرم استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ مہم اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ کم خرچ میں عوامی مقامات کو کیسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ میں اس مہم میں شامل تمام لوگوں کی تہہ دل سے ستائش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت پورے ملک میں چاروں طرف تہواروں کی رونق ہے۔ کل نوراتری کا پہلا دن ہے۔ اس میں ہم دیوی کی پہلی شکل ’ ماں شیل پُتری ‘ کی پوجا کریں گے۔ یہاں سے نو دنوں کا نیم – سَیّم اور اُپواس پھر وجے دشمی کے پروو کا تہوار بھی ہو گا یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو ہم پائیں گے کہ ہمارے تہواروں میں عقیدت اور روحانیت کے ساتھ ساتھ کتنا گہرا پیغام بھی چھپا ہے۔ نظم و ضبط اور تحمل کے ذریعے کامیابی کا حصول اور اس کے بعد فتح کا تہوار، زندگی میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ دسہرہ کے بعد دھنتیرس اور دیوالی کا تہوار بھی آنے والا ہے۔
ساتھیو ، گزشتہ برسوں سے ہمارے تہواروں سے ملک کا ایک نیا عہد بھی جڑ گیا ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں، یہ عہد ہے - ’ ووکل فار لوکل ‘ کا ۔ اب ہم تہواروں کی خوشی میں اپنے مقامی کاریگروں ، دست کاروں اور تاجروں کے بھی شامل کرتے ہیں۔ 2 اکتوبر کو باپو کے یوم پیدائش کے موقع پر ہمیں اس مہم کو مزید تیز کرنے کا عہد کرنا ہے۔ کھادی، ہینڈلوم، دستکاری، ان تمام مصنوعات کے ساتھ ساتھ مقامی اشیا ضرور خریدیں۔ آخرکار ، اس تہوار کی اصل خوشی تب ہوتی ہے ، جب ہر کوئی اس تہوار کا حصہ بنتا ہے، اس لئے مقامی مصنوعات کے کام سے جڑے لوگوں کی ، ہمیں مدد بھی کرنی ہے ۔ ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم تہوار کے دوران ، جو بھی تحفہ دیتے ہیں ، اس میں اس قسم کی مصنوعات کو شامل کیا جائے۔
اس وقت یہ مہم اس لئے بھی خاص ہے کیونکہ آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ہم خود کفیل بھارت کا ہدف بھی لے کر چل رہے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں آزادی کے متوالوں کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بار کھادی، ہینڈلوم یا دستکاری میں اس پروڈکٹ کو خریدنے کے لئے تمام ریکارڈ توڑ دیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تہواروں کے دوران پولی تھین بیگز کو پیکنگ کے لئے بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ صفائی کے تہواروں پر پولی تھین کا نقصان دہ فضلہ ہمارے تہواروں کے جذبے کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا، ہم صرف مقامی طور پر بنائے گئے غیر پلاسٹک کے تھیلے استعمال کریں۔ ہمارے یہاں جوٹ، سوت ، کیلے جیسی چیزوں سے روایتی تھیلوں کا چلن ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تہواروں کے موقع پر ان کو بڑھاوا دیں اور صفائی کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور ماحولیات کا بھی خیال رکھیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے-
‘परहित सरिस धरम नहीं भाई’ ( پرہِت سَرِس دھرم نہیں بھائی )
یعنی دوسروں کا فائدہ کرنے کے برابر ، دوسروں کی خدمت کرنے کے برابر اور دوسروں کی بھلائی کرنے کے برابر اور کوئی دھرم نہیں ہے ۔ حال ہی میں ملک میں سماجی خدمت کے اس جذبے کی ایک اور جھلک دیکھنے کو ملی۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ لوگ آگے آکر کسی نہ کسی ٹی بی سے متاثرہ مریض کو گود لے رہے ہیں ۔ غذائیت سے بھرپور خوراک کا بیڑا اٹھا رہا ہیں ۔ دراصل، یہ ٹی بی سے پاک بھارت مہم کا ایک حصہ ہے، جس کی بنیاد عوامی شرکت ہے ، فرائض کا جذبہ ہے۔ ٹی بی کا علاج صحیح خوراک، صحیح وقت پر صحیح ادویات سے ہی ممکن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عوامی شرکت کی اس قوت سے، بھارت یقینی طور پر سال 2025 ء تک ٹی بی سے پاک ہو جائے گا۔
ساتھیو ، مجھے مرکز کے زیر انتظام علاقوں دادر- نگر حویلی اور دمن - دیو سے بھی ایسی مثال ملی ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے۔ یہاں کے قبائلی علاقے میں رہنے والی جینو راوتیہ جی نے لکھا ہے کہ وہاں چل رہے گاؤں گود لینے کے پروگرام کے تحت میڈیکل کالج کے طلباء نے 50 گاؤں گود لئے ہیں۔ اس میں جینو جی کا گاؤں بھی شامل ہے۔یہ میڈیکل طلباء گاؤں کے لوگوں کو بیماری سے بچنے کے لئے آگاہ کرتے ہیں، بیماری میں مدد بھی کرتے ہیں اور سرکاری اسکیموں کے بارے میں بھی جانکاری دیتے ہیں۔ انسان دوستی کے اس جذبے سے گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں میں نئی خوشیاں آئی ہیں۔ میں اس کے لئے میڈیکل کالج کے تمام طلباء کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو ، ’من کی بات‘ میں نئے نئے موضوعات پر بات ہوتی رہتی ہے۔ کئی بار اس پروگرام کے ذریعے ہمیں کچھ پرانے موضوعات کی گہرائی میں جانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پچھلے مہینے ’من کی بات ‘ میں، میں نے موٹے اناج اور سال 2023 ء کو انٹر نیشنل ملٹ ایئر کے طور پر منانے پر بات کی تھی ۔ اس موضوع کو لے کر لوگوں میں بہت جوش ہے ۔ مجھے ایسے بہت سے خطوط ملے ہیں ، جس میں لوگ بتا رہے ہیں کہ انہوں نے کیسے موٹے اناج کو اپنی یومیہ خوراک کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔ کچھ لوگوں نے موٹے اناج سے بننے والے روایتی پکوانوں کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کے آثار ہیں۔ لوگوں کے اس جوش و جذبے کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ ہمیں مل کر ایک ای بک تیار کرنی چاہیئے، جس میں لوگ موٹے اناج سے بننے والے کھانوں اور اپنے تجربات ساجھا کر سکیں ۔ اس سے انٹر نیشنل ملٹ ایئر شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس ایک عوامی انسائیکلو پیڈیا بھی تیار ہو گی اور پھر اسے مائی گوو پورٹل پر پبلش کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ میں اس بار اتنا ہی ، لیکن چلتے چلتے ، میں آپ کو قومی کھیلوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ گجرات میں 29 ستمبر سے قومی کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خاص موقع ہے کیونکہ کئی سالوں کے بعد نیشنل گیمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ کووڈ کی وباء کی وجہ سے پچھلے ایونٹس کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ اس کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لینے والے ہر کھلاڑی کے لئے میری نیک خواہشات ہیں ۔ اس دن کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ، میں ان کے درمیان رہوں گا۔ آپ سب بھی نیشنل گیمز کو ضرور فالو کریں اور اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اب میں آج کے لئے وداع لیتا ہوں۔ اگلے مہینے ’ من کی بات ‘ میں نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے پھر ملاقات ہو گی ۔ شکریہ ۔ نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ! اگست کے اس مہینے میں آپ سبھی کے خطوط، پیغامات اور کارڈز نے میرے دفتر کو تین رنگوں سے بھر دیا ہے۔ مجھے شاید ہی کوئی ایسا خط ملا ہو ، جس پر ترنگا نہ ہو، یا ترنگے اور آزادی سے متعلق بات نہ ہو۔ بچوں نے ، نو جوان ساتھیوں نے تو امرت مہوتسو پر بہت خوبصورت خوبصورت تصاویر اور فن پارے بھی بنا کر بھیجے ہیں ۔ آزادی کے اس مہینے میں، ہمارے پورے ملک میں، ہر شہر، ہر گاؤں میں، امرت مہوتسو کی امرت دھارا بہہ رہی ہے۔ امرت مہوتسو اور یومِ آزادی کے اس خاص موقع پر ہم نے ملک کی اجتماعی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ بیداری کا ایک احساس ہوا ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنے تنوع، لیکن جب ترنگا لہرانے کی بات آئی تو سب ایک ہی جذبے میں بہتے دکھائی دیئے ۔ ترنگے کی شان کے پہلے محافظ بن کر لوگ خود آگے آئے۔ ہم نے صفائی مہم اور ٹیکہ کاری مہم میں بھی ملک کا جذبہ دیکھا تھا۔ حب الوطنی کا وہی جذبہ ہمیں امرت مہوتسو میں دوبارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے اونچے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر، ملک کی سرحدوں پر اور سمندر کے بیچ ترنگا لہرایا۔ لوگ ترنگا مہم کے لئے مختلف اختراعی آئیڈیاز بھی لے کر آئے۔ جیسے نوجوان ساتھی، کرشنیل انل جی نے ، جو ایک پزل آرٹسٹ ہیں ، انہوں نے ریکارڈ وقت میں خوبصورت ترنگا موزیک آرٹ تیار کیا ہے۔ کرناٹک کے کولار میں لوگوں نے 630 فٹ لمبا اور 205 فٹ چوڑا ترنگا پکڑ کر ایک انوکھا نظارہ پیش کیا۔ آسام میں سرکاری ملازمین نے دیگھالی پوکھوری وار میموریل پر ترنگا لہرانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے 20 فٹ کا ترنگا بنا یا ۔ اسی طرح اندور میں لوگوں نے انسانی چین کے ذریعے بھارت کا نقشہ بنایا۔ چنڈی گڑھ میں نوجوانوں نے ایک عظیم انسانی ترنگا بنایا۔ ان دونوں ہی کوسشوں کو گینز ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ اس سب کے درمیان ہماچل پردیش کی گنگوٹ پنچایت سے ایک بڑی تحریک دینے والی مثال بھی دیکھنے کو ملی ہے ۔ یہاں پنچایت میں یوم ِ آزادی کے پروگرام میں مہاجر مزدوروں کے بچوں کو مہمان خصوصی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کے یہ رنگ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو ملے۔ بوتسوانا میں مقامی گلوکاروں نے بھارت کی آزادی کے 75 سال منانے کے لئے حب الوطنی کے 75 گیت گائے۔ اس میں خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ 75 گیت ہندی، پنجابی، گجراتی، بنگالی، آسامی، تامل، تیلگو، کنڑ اور سنسکرت جیسی زبانوں میں گائے گئے۔ اسی طرح نمیبیا میں بھارت - نمیبیا کے ثقافتی-روایتی تعلقات پر خصوصی ٹکٹ جاری کیا گیا ۔
ساتھیو ، میں ایک اور خوشی کی بات بتانا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے دوردرشن سیریل ’سوراج‘ کی اسکریننگ رکھی تھی ۔ مجھے اس کے پریمیئر میں جانے کا موقع ملا۔ ملک کی نوجوان نسل کو تحریک آزادی میں حصہ لینے والے ان ہیروز اور ہیروئنوں کی کاوشوں سے روشناس کرانے کا یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ یہ ہر اتوار کو رات 9 بجے دوردرشن پر نشر ہوتا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ 75 ہفتوں تک جاری رہے گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ وقت نکال کر خود بھی دیکھیں اور اپنے گھر کے بچوں کو بھی دکھائیں اور اسکول کالج والے بھی پیر کو اسکول کالج کھلنے پر اس کی ریکارڈنگ کرکے ایک خصوصی پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تاکہ آزادی کے اِن ہیرو کے تئیں ہمارے ملک میں ایک نئی بیداری پیدا ہو ۔ آزادی کا امرت مہوتسو اگلے سال یعنی اگست ، 2023 ء تک جاری رہے گا ۔ ملک کے لئے، مجاہدینِ آزادی کے لئے، جو مضمون نویسی وغیرہ ہم کر رہے تھے ، ہمیں انہیں اور آگے بڑھانا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اجداد کا علم، ہمارے اجداد کی دور اندیشی اور ہمارے اجداد کی اتحاد کی فکر آج بھی کتنی اہم ہے ، جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے ۔ ہزاروں سال پرانا ہمارا رِگ وید – رِگ وید میں کہا گیا ہے :
ओमान-मापो मानुषी: अमृक्तम् धात तोकाय तनयाय शं यो:।
यूयं हिष्ठा भिषजो मातृतमा विश्वस्य स्थातु: जगतो जनित्री:।|
یعنی - اے پانی تو انسانیت کا بہترین دوست ہے۔ تو ہی زندگی دینے والا ہے، تجھ سے رزق پیدا ہوتا ہے اور تجھ سے ہمارے بچوں کی فلاح ہوتی ہے۔ تو ہی ہمارا محافظ ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے دور رکھے۔ آپ بہترین دوا ہیں اور آپ ہی اس کائنات کو پالنے والے ہیں۔
سوچیے ، ہماری تہذیب میں ہزاروں سال پہلے پانی اور پانی کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے ۔ جب ہم اس علم کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہم جوش میں آجاتے ہیں لیکن جب اسی علم کو ملک اپنی صلاحیت کے طور پر اعتراف کرتا ہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، چار مہینے پہلے ’من کی بات‘ میں ہی میں نے امرت سروور کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مختلف اضلاع میں مقامی انتظامیہ جمع ہوئی، رضاکار تنظیمیں جمع ہوئیں اور مقامی لوگ جمع ہوئے- دیکھتے ہی دیکھتے امرت سروور کی تعمیر ایک عوامی تحریک بن گئی ہے۔ جب ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہو، اپنے فرض کا احساس ہو، آنے والی نسلوں کی فکر ہو تو طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے اور عزم بھی بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے تلنگانہ کے وارنگل سے ایک عظیم کوشش کا علم ہوا ہے۔ یہاں ایک نئی گرام پنچایت بنائی گئی ہے، جس کا نام ہے ’منگتیا والیا ٹھانڈا ‘ ۔ یہ گاؤں جنگل علاقے کے قریب ہے۔ گاؤں کے قریب ہی ایک ایسی جگہ تھی ، جہاں مانسون میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی پہل پر اب اس جگہ کو امرت سروور ابھیان کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس بار مانسون کے دوران ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ جھیل پانی سے بھر گئی ہے۔
میں آپ کو مدھیہ پردیش کے منڈلا میں موچا گرام پنچایت میں بنائے گئے امرت سروور کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہ امرت سروور کانہا نیشنل پارک کے قریب بنایا گیا ہے اور اس نے اس علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اتر پردیش کے للت پور میں نو تعمیر شدہ شہید بھگت سنگھ امرت سروور بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ یہاں کی نیواری گرام پنچایت میں بنی یہ جھیل 4 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل کے کناروں پر شجرکاری اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے۔ جھیل کے قریب 35 فٹ اونچے ترنگے کو دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آرہے ہیں۔ امرت سروور کی یہ مہم کرناٹک میں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ یہاں باگل کوٹ ضلع کے گاؤں ’بلکیرور ‘ میں لوگوں نے ایک بہت ہی خوبصورت امرت سروور بنایا ہے۔ در اصل ، اس علاقے میں پہاڑ سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے لوگوں کو بہت مشکل ہوتی تھی ، کسانوں اور ان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا تھا ۔ امرت سروور بنانے کے لئے گاؤں کے لوگ سارے پانی کو چینلائز کرکے ایک طرف لے آئے۔ اس سے علاقے میں سیلاب کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ امرت سروور ابھیان نہ صرف آج ہمارے بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس مہم کے تحت کئی مقامات پر پرانے آبی ذخائر کو بھی از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ امرت سروور کو جانوروں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تالابوں کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اردگرد ہریالی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں، کئی جگہوں پر لوگ امرت سروور میں ماہی پروری کی تیاریوں میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ میری آپ سب سے، خاص کر میرے نوجوان دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ امرت سروور مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پانی کو جمع کرنے اور اس کے تحفظ کی ان کوششوں کو پوری طاقت سے آگے بڑھائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آسام کے بونگئی گاؤں میں ایک دلچسپ پروجیکٹ چلایا جا رہا ہے – پروجیکٹ سمپورن۔ اس پروجیکٹ کا مقصد تغذیہ قلت کے خلاف لڑنا ہے اور اس لڑائی کا طریقہ بھی بہت منفرد ہے۔ اس کے تحت کسی آنگن واڑی سنٹر سے کسی صحت مند بچے کی ماں ایک تغذیہ کی کمی والے بچے کی ماں سے ہر ہفتے ملتی ہے اور تغذیہ سے متعلق تمام معلومات پر تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ یعنی ایک ماں دوسری ماں کی سہیلی بنتی ہے، اس کی مدد کرتی ہے، اسے سکھاتی ہے۔ اس منصوبے کی مدد سے اس خطے میں ایک سال میں 90 فیصد سے زیادہ بچوں میں تغذیہ کی کمی دور ہوئی ہے ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں، کیا گانا اور موسیقی اور ترانے بھی تغذیہ کی کمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ مدھیہ پردیش کے دتیا ضلع میں ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ ! اس ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ میں کامیابی کے ساتھ اس کا تجربہ کیا گیا۔ اس کے تحت ضلع میں بھجن کیرتنوں کا انعقاد کیا گیا ، جس میں تغذیہ گرو کہلانے والے اساتذہ کو بلایا گیا۔ ایک مٹکا پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جس میں خواتین آنگن واڑی مرکز میں مٹھی بھر اناج لاتی ہیں اور اس اناج سے ہفتہ کے روز ’ بال بھوج ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سے آنگن واڑی مراکز میں بچوں کی حاضری بڑھنے سے تغذیہ کی کمی بھی کم ہوئی ہے۔ جھارکھنڈ میں تغذیہ کی قلت کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لئے ایک انوکھی مہم بھی چل رہی ہے۔ جھارکھنڈ کے گریڈیہہ میں سانپ سیڑھی کا ایک کھیل تیار کیا گیا ہے۔ کھیل کے ذریعے بچے اچھی اور بری عادات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔
ساتھیو ، میں آپ کو تغذیہ سے متعلق بہت سے نت نئے تجربات کے بارے میں بتا رہا ہوں کیونکہ آنے والے مہینے میں ہم سب کو اس مہم میں شامل ہونا ہے۔ ستمبر کا مہینہ تہواروں کے ساتھ ساتھ تغذیہ سے متعلق ایک بڑی مہم کے لئے وقف ہے۔ ہم ہر سال 1 سے 30 ستمبر تک پوشن ماہ مناتے ہیں۔ پورے ملک میں تغذیہ کی کمی کے خلاف بہت سی تخلیقی اور متنوع کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال اور عوام کی شرکت بھی نیوٹریشن مہم کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ ملک میں لاکھوں آنگن واڑی کارکنوں کو موبائل آلات دینے سے لے کر آنگن واڑی خدمات کی رسائی کی نگرانی تک، پوشن ٹریکر بھی شروع کیا گیا ہے۔ تمام امنگوں والے اضلاع اور شمال مشرق کے ریاستوں میں 14 سے 18 سال کی بیٹیوں کو بھی پوشن ابھیان کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ تغذیہ کی کمی کے مسئلے کا حل صرف ان اقدامات تک محدود نہیں ہے - اس لڑائی میں بہت سے دوسرے اقدامات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جل جیون مشن کو لے لیجئے، تو یہ مشن بھارت کو تغذیہ کی کمی سے پاک بنانے میں بھی بہت بڑا اثر ڈالنے والا ہے۔ سماجی بیداری کی کوششیں تغذیہ کی قلت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آنے والے پوشن ماہ میں آپ کو تغذیہ کی قلت یا مال نیوٹریشن کو دور کرنے کی کوششوں میں ضرور حصہ لیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، چنئی سے سری دیوی وردراجن جی نے مجھے ایک ریمائنڈر بھیجا ہے۔ انہوں نے مائی گوو پر اپنی بات کچھ اس طرح لکھی ہے – نئے سال کے آنے میں 5 ماہ سے بھی کم وقت بچا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ آنے والا نیا سال جوار باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے مجھے ملک کا جوار باجرے کا نقشہ بھی بھیجا ہے۔ یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا آپ ’من کی بات ‘ کے آنے والے ایپی سوڈ میں اس پر بات کر سکتے ہیں؟ مجھے اپنے ہم وطنوں میں ایسا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کرکے سال 2023 ء کو جوار باجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت کی اس تجویز کو 70 سے زیادہ ممالک کی حمایت ملی تھی ۔ آج پوری دنیا میں اسی موٹے اناج کا ، جوار باجرے کا کریز بڑھتا جا رہا ہے۔ ساتھیو ، جب میں موٹے اناج کی بات کرتا ہوں تو میں آج اپنی ایک کوشش کو بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصے سے ، جب کوئی بھی غیر ملکی مہمان بھارت آتا ہے، جب سربراہ مملکت بھارت آتے ہیں تو میری کوشش رہتی ہے کہ کھانے میں بھارت کے موٹے اناج یعنی ملٹس سے بنے ہوئے پکوان بنواؤں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان اہم شخصیات کو یہ کھانے بہت پسند آتے ہیں اور ہمارے موٹے اناج کے تعلق سے ، ملٹ کے تعلق سے ، وہ بہت سی معلومات حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ملٹس ، موٹے اناج عہدِ قدیم سے ہی ہماری زراعت، ثقافت اور تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ ہمارے ویدوں میں موٹے اناج کے بارے میں تحریر ملتی ہے اور اسی طرح پرانانورو اور تولکپیم میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، وہاں کے لوگوں کے کھانے میں آپ کو الگ الگ طرح کے موٹے اناج دیکھنے کو ضرور ملیں گے ۔ ہماری تہذیب کی طرح ملٹ میں بھی بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ جوار، باجرہ، راگی، ساواں ، کنگنی، سینا، کوڈو، کٹکی، کٹو، یہ سب موٹے اناج ہی تو ہیں ۔ بھارت دنیا میں موٹے اناج کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے، اس لئے اس پہل کو کامیاب بنانے کی بڑی ذمہ داری بھی ہم بھارتیوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے ایک عوامی تحریک بنانا ہے اور ملک کے لوگوں میں موٹے اناج کے تئیں بیداری بڑھانی ہے اور ساتھیو ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ملٹ کسانوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور وہ بھی خاص طور پر چھوٹے کسانوں کے لئے۔ دراصل، فصل بہت کم وقت میں تیار ہو جاتی ہے اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ملٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کے لئے ، خاص طور پر بہت فائدہ مند ہے۔ ملٹ کے بھوسے کو بھی بہترین چارہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل صحت مند رہنے اور کھانے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اس حساب سے بھی دیکھیں تو ملٹ میں پروٹین، فائبر اور منرل بھرپور ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے سپر فوڈ بھی کہتے ہیں۔ ملٹ کے ایک نہیں بلکہ بہت سے فوائد ہیں۔ موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل سے متعلق امراض کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ معدے اور جگر کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہیں۔ ہم نے تھوڑی دیر پہلے تغذیہ کی قلت کے بارے میں بات کی تھی۔ ملٹ تغذیہ کی کمی سے لڑنے میں بھی بہت فائدہ مند ہے کیونکہ یہ پروٹین کے ساتھ ساتھ توانائی سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ آج ملک میں ملٹ کو فروغ دینے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ اس سے متعلق تحقیق اور اختراع پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ، ایف پی او کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ میرے کسان بھائیوں اور بہنوں سے میری درخواست ہے کہ ملٹ یعنی موٹے اناج کو زیادہ سے زیادہ اپنائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ آج بہت سے ایسے اسٹارٹ اپس ابھر رہے ہیں، جو ملٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملٹ کوکیز بنا رہے ہیں، جب کہ کچھ ملٹ پین کیک اور ڈوسا بھی بنا رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں ، جو ملٹ کی انرجی بارز اور ملٹ کا ناشتہ تیار کر رہے ہیں۔ میں اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ اس تہوار کے موسم میں، ہم زیادہ تر پکوانوں میں ملٹ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ آپ اپنے گھروں میں بننے والی ایسی ڈشز کی تصویریں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ لوگوں میں ملٹ کے بارے میں آگاہی بڑھانے میں مدد ملے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے، میں نے اروناچل پردیش کے سیانگ ضلع کے جورسنگ گاؤں سے ایک خبر دیکھی۔ یہ خبر اس تبدیلی کی تھی ، جس کا اس گاؤں کے لوگ کئی سالوں سے انتظار کر رہے تھے۔ دراصل، جورسنگ گاؤں میں اس ماہ یوم ِآزادی کے دن سے 4 جی انٹرنیٹ خدمات شروع ہو گئی ہیں۔ پہلے کبھی گاؤں میں بجلی پہنچنے پر لوگ خوش ہوتے تھے، اب نئے بھارت میں ویسی ہی خوشی 4 جی پہنچنے پر ہوتی ہے ۔ اروناچل اور شمال مشرق کے دور دراز علاقوں میں 4 جی کے طور پر ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ایک نئی صبح لے کر آئی ہے ، جو سہولتیں کبھی صرف بڑے شہروں میں دستیاب تھیں، ڈیجیٹل انڈیا نے انہیں ہر گاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں نئے ڈیجیٹل انٹرپرینیور پیدا ہو رہے ہیں۔ راجستھان کے اجمیر ضلع کے سیٹھا سنگھ راوت جی ’ درزی آن لائن ‘ ، ای اسٹور چلاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ کیا ہوا، آن لائن درزی!! دراصل سیٹھا سنگھ راوت کووڈ سے پہلے ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے۔ جب کووڈ آیا تو راوت جی نے اس چیلنج کو مشکل نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر لیا۔ انہوں نے ’ کامن سروس سنٹر ‘ یعنی سی ایس سی ای اسٹور جوائن کیا اور آن لائن کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گاہک، بڑی تعداد میں، ماسک کا آرڈر دے رہے تھے۔ انہوں نے کچھ خواتین کو کام پر رکھا اور ماسک بنوانے لگے ۔ اس کے بعد انہوں نے ’ درزی آن لائن ‘ کے نام سے اپنا آن لائن اسٹور شروع کیا ، جس میں وہ اور بھی کئی طرح کے کپڑے بناکر بیچنے لگے ۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت سے سیٹھا سنگھ جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب انہیں پورے ملک سے آرڈر ملتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سینکڑوں خواتین کو روزگار دیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا نے یوپی کے اناؤ میں رہنے والے اوم پرکاش سنگھ جی کو بھی ڈیجیٹل انٹرپرینیور بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک ہزار سے زیادہ براڈ بینڈ کنکشن قائم کئے ہیں۔ اوم پرکاش جی نے اپنے کامن سروس سینٹر کے ارد گرد ایک مفت وائی فائی زون بھی بنایا ہے، جو ضرورت مند لوگوں کی بہت مدد کر رہا ہے۔ اوم پرکاش جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے 20 سے زیادہ لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔ یہ لوگ گاؤں کے اسکولوں، اسپتالوں، تحصیل دفاتر اور آنگن واڑی مراکز کو براڈ بینڈ کنکشن فراہم کر رہے ہیں اور اس سے روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کامن سروس سینٹر کی طرح، ایسی کتنی کامیابی کی کہانیاں گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم پورٹل پر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
ساتھیو ، مجھے گاؤوں سے اس طرح کے بہت سے پیغامات ملتے ہیں، جو انٹرنیٹ سے ہونے والی تبدیلیوں کو میرے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہمارے نوجوان دوستوں کے مطالعہ اور سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جب یوپی کی گڑیا سنگھ اناؤ کے امویا گاؤں میں اپنے سسرال آئیں ، تو انہیں اپنی پڑھائی کے فکر ہوئی لیکن بھارت نیٹ نے ان کی اس فکر کو حل کر دیا ۔ گڑیا نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنی گریجویشن بھی مکمل کی۔ گاؤں گاؤں میں ایسی کتنی زندگیوں کو ڈیجیٹل انڈیا مہم سے نئی طاقت مل رہی ہے۔ آپ مجھے گاؤوں کے ڈیجیٹل انٹرپرینیورس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھ کر بھیجیں اور ان کی کامیابی کی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر بھی ضرور ساجھا کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ وقت پہلے، مجھے ہماچل پردیش سے ’من کی بات‘ کے سننے والے رمیش جی کا خط ملا۔ رمیش جی نے اپنے خط میں پہاڑوں کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پہاڑوں پر بستیاں بھلے ہی دور دور بستی ہیں لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ در اصل ، ہم پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پہاڑوں کے رہن سہن اور ثقافت سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اگر ہم حالات کے دباؤ میں نہ آئیں تو آسانی سے ان پر قابو پا سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم مقامی وسائل سے خود کفیل کیسے ہو سکتے ہیں۔ پہلا سبق ، جس کا میں نے ذکر کیا، اس کی ایک خوبصورت تصویر ان دنوں اسپیتی کے علاقے میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسپیتی ایک قبائلی علاقہ ہے۔ یہاں ان دنوں مٹر توڑنے کا کام جاری ہے۔ پہاڑی کھیتوں میں یہ ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے لیکن یہاں گاؤں کی عورتیں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کے کھیتوں سے مٹر چنتی ہیں۔ اس کام کے ساتھ خواتین مقامی گیت ’ چھپرا ماجھی چھپرا ‘ بھی گاتی ہیں یعنی یہاں باہمی تعاون بھی لوک روایت کا حصہ ہے۔ مقامی وسائل کے استعمال کی بہترین مثال اسپیتی میں ملتی ہے۔ اسپیتی میں، کسان جو گائے پالتے ہیں ، ان کے گوبر کو خشک کرکے بوریوں میں بھرتے ہیں۔ جب سردیاں آتی ہیں تو یہ بوریاں اس جگہ رکھ دی جاتی ہیں ، جہاں گائے رہتی ہے ، جسے یہاں کوڑھ کہتے ہیں۔ برف باری کے دوران یہ بوریاں گا یوں کو سردی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سردیوں کے بعد گائے کے اس گوبر کو کھیتوں میں کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی جانوروں کے فضلے سے ان کی حفاظت بھی اور کھیتوں کے لئے کھاد بھی۔کھیتی کی لاگت بھی کم اور کھیت میں پیداوار بھی زیادہ ۔ اسی لئے تو یہ علاقہ ان دنوں قدرتی کھیتی کے لئے بھی تحریک بن رہا ہے۔
ساتھیو ، اسی طرح ہماری کی کئی قابل ستائش کوششیں ہماری ایک پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اتراکھنڈ میں کئی قسم کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ، جو ہماری صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ ان میں سے ایک پھل ہے - بیڑو۔ اسے ہمالیائی انجیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پھل میں معدنیات اور وٹامنز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ اسے نہ صرف پھل کی شکل میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے کئی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کی ان خوبیوں کے پیش نظر اب بیڑو کے جوس، جیم، چٹنیاں، اچار اور خشک میوہ جات کو خشک کرکے تیار کیا گیا ہے۔ پتھورا گڑھ انتظامیہ کی پہل اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بیڑو کو مختلف شکلوں میں بازار تک پہنچانے میں کامیابی ملی ہے۔ بیڑو کو پہاڑی انجیر کے نام سے برانڈنگ کرکے آن لائن مارکیٹ میں بھی لانچ کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف آمدنی کا نیا ذریعہ ملا ہے بلکہ بیڑو کی ادویاتی خصوصیات کے فوائد دور دور تک پہنچنے لگے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات ‘ میں شروعات میں ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے بارے میں بات کی ہے۔ یوم آزادی کے عظیم تہوار کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں کئی اور تہوار بھی آنے والے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد بھگوان گنیش کی پوجا کا تہوار گنیش چترتھی ہے۔ گنیش چترتھی، یعنی گنپتی بپا کے آشیرواد کا تہوار۔ گنیش چترتھی سے پہلے اونم کا تہوار بھی شروع ہو رہا ہے۔ اونم خاص طور پر کیرالہ میں امن اور خوشحالی کے جذبے کے ساتھ منایا جائے گا۔ ہرتالیکا تیج بھی 30 اگست کو ہے۔ اوڈیشہ میں یکم ستمبر کو نوا کھائی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔ نوا کھائی کا مطلب ہوتا ہے ، نیا کھانا یعنی یہ بھی بہت سے دوسرے تہواروں کی طرح ہماری زرعی روایت سے جڑا ایک تہوار ہے۔ اس دوران جین سماج کا سموت سری تہوار بھی ہوگا۔ ہمارے یہ تمام تہوار ہماری مالا مال ثقافت اور بھر پور زندگی کے مترادف ہیں۔ میں آپ سب سے ان تہواروں اور خاص مواقع کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ان تہواروں کے ساتھ ساتھ کل 29 اگست کو میجر دھیان چند جی کے یوم پیدائش پر قومی کھیلوں کا دن بھی منایا جائے گا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی عالمی پلیٹ فارمز پر ہمارے ترنگے کی شان کو بڑھاتے رہیں، یہی دھیان چند جی کو ہمارا خراج عقیدت ہوگا۔ آئیے ، ہم سب مل کر ملک کے لئے کام کرتے رہیں، ملک کی عزت میں اضافہ کرتے رہیں، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اگلے مہینے ایک بار آپ سے ’ من کی بات ‘ ہوگی ۔
بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار !
یہ ’من کی بات ‘کی 91ویں کڑی ہے۔ ہم لوگوں نے پہلے اتنی ساری باتیں کی ہیں، الگ الگ موضوعات پر اپنی باتوں کو ساجھا کیا ہے لیکن اس مرتبہ ’ من کی بات ‘ بہت خاص ہے۔ اس کی وجہ ہے ، اس مرتبہ کا یوم آزادی ، جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کرے گا۔ ہم سبھی بہت ہی شاندار اور تاریخی لمحے کے گواہ بنیں گے ۔ ایشور نے ہمارے لئے بہت بڑی خوش قسمتی رکھی ہے۔ آپ بھی سوچیئے ، اگر ہم غلامی کے دور میں پیدا ہوئے ہوتے تو اس دن کا تصور ہمارے لئے کیسا ہوتا ؟ غلامی سے نجات کی وہ تڑپ،غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی وہ بے چینی- کتنی زیادہ رہی ہوگی۔ وہ دن ، جب ہم ہر دن لاکھوں ہم وطنوں کو آزادی کے لئے لڑتے ، جوجھتے ، قربانی دیتے دیکھ رہے ہوتے ۔ اب ہم ہر صبح اس خواب کے ساتھ جاگتے کہ میرا بھارت کب آزاد ہوگا اور ہو سکتا ہے ، ہماری زندگی میں وہ دن بھی آتا ، جب بندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے بولتے ہوئے ، ہم آنے والی نسلوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ، زندگی کھپا دیتے ۔
ساتھیو ، 31 جولائی یعنی آ ج ہی کے دن ، ہم تمام اہل وطن، شہید اودھم سنگھ جی کی شہادت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میں ، ایسے دیگر تمام عظیم انقلابیوں کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔
ساتھیو ، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس سے متعلق مختلف پروگراموں میں زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس ماہ کے شروع میں میگھالیہ میں منعقد ہوا ۔ میگھالیہ کے بہادر مجاہد ، یو تیروت سنگھ جی کی برسی پر لوگوں نے انہیں یاد کیا ۔ تروت سنگھ جی نے خاصی ہلس پر کنٹرول کرنے اور وہاں کی ثقافت پر حملہ کرنے کی برطانوی سازش کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس پروگرام میں بہت سے فن کاروں نے خوبصورت فن کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے تاریخ کو زندہ کر دیا ۔ اس میں ایک کارنیوال کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ، جس میں میگھالیہ کی عظیم ثقافت کو بہت خوبصورت انداز میں دکھایا گیا تھا۔ اب سے کچھ ہفتے پہلے کرناٹک میں امرتا بھارتی کناڈارتھی کے نام سے ایک انوکھی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ اس میں ریاست کے 75 مقامات پر آزادی کے امرت مہوتسو سے متعلق عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ ان میں کرناٹک کے عظیم آزادی پسندوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ادبی کارناموں کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ساتھیو ، اسی جولائی میں ایک بہت ہی دلچسپ کوشش کی گئی ہے، جس کا نام ہے ، آزادی کی ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن ۔ اس کوشش کا مقصد جدوجہد آزادی میں بھارتی ریلوے کے کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ملک میں ایسے کئی ریلوے اسٹیشن ہیں، جو تحریک آزادی کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ جھارکھنڈ میں گومو جنکشن کو اب سرکاری طور پر نیتا جی سبھاش چندر بوس جنکشن گومو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ دراصل اس اسٹیشن پر نیتا جی سبھاش کالکا میل میں سوار ہو کر انگریز افسروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ آپ سب نے لکھنؤ کے قریب کاکوری ریلوے اسٹیشن کا نام بھی سنا ہوگا۔ اس اسٹیشن سے رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان جیسے بہادر لوگوں کا نام جڑا ہے۔ بہادر انقلابیوں نے یہاں ٹرین کے ذریعے جانے والے انگریزوں کے خزانے کو لوٹ کر انگریزوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب بھی آپ تمل ناڈو کے لوگوں سے بات کریں گے، آپ کو تھوتھکوڈی ضلع کے وانچی مانیاچی جنکشن کے بارے میں سننے کو ملے گا ۔ اس اسٹیشن کا نام تمل مجاہد آزادی وانچی ناتھن جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے ، جہاں 25 سالہ نوجوان وانچی نے برطانوی کلکٹر کو اس کے کئے کی سزا دی تھی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ ملک بھر کی 24 ریاستوں میں پھیلے ہوئے ایسے 75 ریلوے اسٹیشنوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان 75 اسٹیشنوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جا رہا ہے۔ ان میں کئی طرح کے پروگرام بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ آپ کو اپنے قریب کے ایسے تاریخی اسٹیشن پر جانے کے لئے بھی وقت نکالنا چاہیئے۔ آپ کو تحریک آزادی کی ایسی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے معلوم ہو جائے گا ، جس سے آپ انجان رہے ہیں ۔ میں آس پاس کے اسکولوں کے طلباء سے گزارش کروں گا، اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے اسکول کے چھوٹے بچوں کو اسٹیشن لے جائیں اور ان بچوں کو سارا واقعہ سنائیں اور سمجھائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے امرت مہوتسو کے تحت 13 سے 15 اگست تک ایک خصوصی تحریک ’’ ہر گھر ترنگا، ہر گھر ترنگا ‘‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس تحریک کا حصہ بن کر 13 سے 15 اگست تک، آپ اپنے گھر پر ترنگا ضرور لہرائیں یا اسے اپنے گھر پر لگائیں ۔ ترنگا ہمیں متحد کرتا ہے، ہمیں ملک کے لئے کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میرا یہ بھی مشورہ ہے کہ 2 اگست سے 15 اگست تک ہم سب اپنی سوشل میڈیا پروفائل تصویروں میں ترنگا لگا سکتے ہیں۔ ویسے کیا آپ جانتے ہیں کہ 2 اگست کا ہمارے ترنگے سے بھی خاص تعلق ہے۔ یہ دن پنگلی وینکیا جی کا یوم پیدائش ہے ، جنہوں نے ہمارے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا تھا۔ میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہمارے قومی پرچم کی بات کرتے ہوئے ، مجھے عظیم انقلابی میڈم کاما بھی یاد آ رہی ہیں ۔ ترنگے کو شکل دینے میں ، ان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔
ساتھیو ، آزادی کے نام پر منعقد ہونے والی ان تمام تقریبات کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم تمام اہل وطن اپنی ذمہ داری پوری لگن کے ساتھ ادا کریں۔ تب ہی ہم ان لاتعداد آزادی پسندوں کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کا بھارت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس لئے ہمارے اگلے 25 سالوں کا یہ امرت کال ہر اہل وطن کے لئے فرائض کی انجام دہی کے عہد کی طرح ہے۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے بہادر جنگجوؤں نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اسے پوری طرح نبھانا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ہم وطنوں کی کورونا کے خلاف جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ پوری دنیا آج بھی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجموعی حفظانِ صحت میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ، اس میں سب کی بہت مدد کی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی روایتی طریقے اس میں کتنے کارآمد ہیں۔ کورونا کے خلاف جنگ میں آیوش نے تو ، عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ پوری دنیا میں آیوروید اور بھارتی ادویات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے ، جس کی وجہ سے آیوش بر آمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی بہت خوشگوار ہے کہ اس شعبے میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس بھی ابھر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک گلوبل آیوش انویسٹمنٹ اینڈ انوویشن سمٹ کا انعقاد کیا گیاتھا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس میں تقریباً دس ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ ایک اور بہت اہم بات یہ ہوئی ہے کہ کورونا کے دور میں ادویاتی پودوں پر تحقیق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں کئی تحقیقی مطالعات شائع ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ ایک اچھی شروعات ہے۔
ساتھیو ، ملک میں مختلف قسم کے ادویاتی پودوں اور جڑی بوٹیوں کے حوالے سے ایک اور شاندار کوشش کی گئی ہے۔ انڈین ورچوئل ہربیریم جولائی کے مہینے میں ہی لانچ کیا گیا تھا۔ یہ اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہم ڈیجیٹل دنیا کو اپنی جڑوں سے جوڑنے کے لئے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ انڈین ورچوئل ہربیریم محفوظ پودوں یا پودوں کے حصوں کی ڈیجیٹل تصاویر کا ایک دلچسپ مجموعہ ہے، جو ویب پر مفت دستیاب ہیں۔ اس ورچوئل ہربیریم پر ایک لاکھ سے زیادہ نمونے اور ان سے متعلق سائنسی معلومات دستیاب ہیں۔ ورچوئل ہربیریم میں بھارت کے نباتاتی تنوع کی بھرپور تصویر بھی نظر آتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارتی ورچوئل ہربیریم بھارتی نباتات پر تحقیق کے لئے ایک اہم وسیلہ بن جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات ‘میں ، ہم ہر مرتبہ ہم وطنوں کی ایسی کامیابیوں پر گفتگو کرتے ہیں ، جو ہمارے چہروں پر میٹھی مسکراہٹ لاتی ہیں۔ اگر کامیابی کی کہانی میٹھی مسکراہٹیں پھیلاتی ہے اور ذائقہ بھی میٹھا ہے، تو آپ اسے یقینی طور پر سون پر سہاگا کہیں گے۔ ان دنوں ہمارے کسان شہد کی پیداوار میں ایسا معجزہ کر رہے ہیں۔ شہد کی مٹھاس بھی ہمارے کسانوں کی زندگی بدل رہی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہریانہ میں، یمنا نگر میں، شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک ساتھی رہتے ہیں - سبھاش کمبوج جی۔ سبھاش جی نے سائنسی طریقے سے شہد کی مکھیاں پالنے کی تربیت لی۔ اس کے بعد انہوں نے صرف چھ ڈبوں سے اپنا کام شروع کیا۔ آج وہ تقریباً دو ہزار ڈبوں میں شہد کی مکھیاں پال رہا ہے۔ ان کا شہد کئی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ونود کمار جی جموں کے پلّی گاؤں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کالونیوں میں شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال رانی مکھی پالنے کی تربیت لی ہے۔ اس کام سے وہ سالانہ 15 سے 20 لاکھ روپئے کما رہے ہیں۔ کرناٹک کے ایک اور کسان ہیں - مدھوکیشور ہیگڈے جی۔ مدھوکیشور جی نے بتایا کہ انہوں نے مکھیوں کی 50 کالونیوں کے لئے حکومت ہند سے سبسڈی لی تھی ۔ آج ان کے پاس 800 سے زیادہ کالونیاں ہیں اور وہ کئی ٹن شہد فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام میں جدت پیدا کی ہے اور وہ جامن شہد، تلسی شہد، آملہ شہد جیسے نباتاتی شہد بھی بنا رہے ہیں۔ مدھوکیشور جی، شہد کی پیداوار میں آپ کی اختراع اور کامیابی بھی آپ کے نام کو معنی خیز بناتی ہے۔
ساتھیو ، آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری روایتی صحت سائنس میں شہد کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ آیوروید کی کتابوں میں شہد کو امرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شہد نہ صرف ہمیں ذائقہ دیتا ہے بلکہ صحت بھی دیتا ہے۔ آج شہد کی پیداوار میں اتنی صلاحیت ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسے اپنا روزگار بنا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ہیں – یو پی میں گورکھپور کے نیمت سنگھ جی۔ نمت جی نے بی ٹیک کیا ہے۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر ہیں لیکن تعلیم کے بعد نمت جی نے نوکری کے بجائے خود روزگار کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہد کی پیداوار شروع کی۔ انہوں نے معیار کی جانچ کے لئے لکھنؤ میں اپنی لیب بھی بنوائی۔ نمت جی اب شہد اور مکھی کے موم سے اچھی کمائی کر رہے ہیں اور مختلف ریاستوں میں جا کر کسانوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے آج ملک اتنا بڑا شہد پیدا کرنے والا ملک بن رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک سے شہد کی برآمد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک نے شہد کی مکھیوں کو پالنے اور شہد کے مشن جیسی مہم شروع کی، کسانوں نے محنت کی اور ہمارے شہد کی مٹھاس پوری دنیا تک پہنچنے لگی۔ اس میدان میں اب بھی بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ، ان مواقع میں شامل ہوں اور ان سے فائدہ اٹھائیں اور نئے امکانات کو حقیقت شکل دیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے ’من کی بات ‘ کے سننے والے جناب آشیش بہل جی کا ہماچل پردیش سے ایک خط موصول ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے خط میں چمبا ک ’ منجر میلہ ‘کا ذکر کیا ہے۔ در اصل منجر مکا کے پھولوں کو کہتے ہیں ، جب مکا میں پھول آتے ہیں ، تو منجر میلہ بھیا منایا جاتا ہے اور اس میلے میں ملک بھر سے سیاح شرکت کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ اتفاق سے اس وقت منجر کا میلہ بھی چل رہا ہے، اگر آپ ہماچل کی سیر کرنے گئے ہیں تو اس میلے کو دیکھنے کے لئے چمبہ جا سکتے ہیں۔چمبا تو اتنا خوبصورت ہے کہ یہاں لوک گیتوں میں بار بار کہا جاتا ہے -
’’ چمبے ایک دن اونا کنے مہینا رینا ‘‘
یعنی جو لوگ ایک دن کے لئے چمبہ آتے ہیں، وہ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مہینے بھر کے لئے یہاں رک جاتے ہیں۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں میلوں کی بھی بڑی ثقافتی اہمیت رہی ہے، میلے انسانوں اور دلوں کو جوڑتے ہیں۔ ہماچل میں بارش کے بعد ، جب خریف کی فصلیں پکتی ہیں ، تب ستمبر میں شملہ ، منڈی ، کلو اور سولن میں سیری یا سیر منایا جاتا ہے ۔ ستمبر میں جاگرا بھی آنے والا ہے ۔ جاگرا کے میلوں میں مہاسو دیوتا کا آہوان کرکے بیسو گیت گائے جاتے ہیں۔ مہاسو دیوتا کا یہ جاگر ہماچل میں شملہ، کنور اور سرمور کے ساتھ ساتھ اتراکھنڈ میں بھی ہوتا ہے۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف ریاستوں میں قبائلی سماج کے بھی کئی روایتی میلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ میلے قبائلی ثقافت سے جڑے ہیں، تو کچھ کا انعقاد آدی واسی تاریخ اور وراثت سے جڑا ہے ، جیسا کہ ، اگر آپ کو موقع ملے تو آپ کو تلنگانہ کے میڈارم میں چار روزہ سمکا-سرلمہ جاترا میلہ ضرور دیکھنا چاہیئے۔ اس میلے کو تلنگانہ کا مہا کمبھ کہا جاتا ہے۔ سرلمہ جاترا میلہ دو قبائلی خواتین ہیروئنوں - سمکا اور سرلمہ کے احترام میں منایا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف تلنگانہ بلکہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کی کویا قبائلی برادری کے لئے بھی عقیدے کا ایک بڑا مرکز ہے۔ آندھرا پردیش میں ماری دماّ کا میلہ بھی قبائلی سماج کے عقائد سے جڑا ایک بڑا میلہ ہے۔ ماریدماّ میلہ جیشٹھ اماوسیہ سے اساڑھ اماوسیہ تک چلتا ہے اور یہاں کا قبائلی معاشرہ اسے شکتی پوجا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہاں، مشرقی گوداوری کے پیدھاپورم میں، ماریدماّ مندر بھی ہے۔ اسی طرح راجستھان میں گراسیا قبائل کے لوگ ویساکھ شکل چتر دشی کو ’ سیاوا کا میلا ‘ ، یا ’ منکھارو میلہ ‘ کا انعقاد کرتے ہیں ۔
چھتیس گڑھ میں بستر کے نارائن پور کا ’ماولی میلہ ‘ بھی بہت خاص ہوتا ہے۔ اس کے قریب ہی مدھیہ پردیش کا بھگوریا میلہ بھی بہت مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوریا میلہ راجہ بھوج کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ پھر بھیل بادشاہوں، کسومار اور بلون نے پہلی بار اپنے اپنے دارالحکومتوں میں ان تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ میلے یکساں جوش و خروش سے منائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گجرات میں ترنیتر اور مادھوپور جیسے کئی میلے بہت مشہور ہیں۔ میلے اپنے آپ میں ہمارے معاشرے، زندگی کے لئے توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی ایسے کئی میلے ضرور ہوں گے۔ جدید دور میں، ’ایک بھارت- شریشٹھ بھارت ‘ کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لئے سماج کے یہ پرانے روابط بہت اہم ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو ان سے ضرور جڑنا چاہیئے اور جب بھی آپ ایسے میلوں میں جائیں تو وہاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک مخصوص ہیش ٹیگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے دوسرے لوگ بھی ان میلوں کے بارے میں جان جائیں گے۔ آپ وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر بھی تصاویر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں وزارت ثقافت ایک مقابلہ بھی شروع کرنے جا رہی ہے، جہاں میلوں کی بہترین تصاویر بھیجنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جائے گا ۔ اس لئے دیر نہ کریں، میلوں کا دورہ کریں، ان کی تصاویر شیئر کریں، اور شاید آپ انعام بھی حاصل کر سکیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو یاد ہو گا ، ’من کی بات ‘ کے ایک ایپی سوڈ میں میں نے کہا تھا کہ بھارت میں کھلونوں کی برآمدات میں پاور ہاؤس بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں نے خاص طور پر کھیلوں میں بھارت کے شاندار وراثت پر بات کی تھی ۔ بھارت کے مقامی کھلونے ماحول دوست ہیں، روایت اور فطرت دونوں کے مطابق ہیں۔ آج میں آپ کے ساتھ انڈین ٹوائز کی کامیابیاں بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہماری کھلونا صنعت نے ، جو کامیابی ہمارے نوجوانوں، اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کی وجہ سے حاصل کی ہے ، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ آج جب بھارتی کھلونوں کی بات آتی ہے تو ہر طرف ووکل فار لوکل کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ آپ یہ بھی جاننا پسند کریں گے کہ اب بھارت میں بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پہلے جہاں 3 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے باہر سے آتے تھے، اب ان کی درآمد میں 70 فی صد کمی آئی ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عرصے کے دوران بھارت نے 2 ہزار 600 کروڑ روپئے سے زیادہ کے کھلونے بیرونی ملکوں میں برآمد کئے ہیں ، جب کہ پہلے بھارت سے باہر صرف 300-400 کروڑ روپئے کے کھلونے جاتے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کورونا کے دور میں ہوا تھا۔ بھارت کے کھلونا سیکٹر نے خود کو بدل کر دکھایا ہے۔ بھارتی صنعت کار اب بھارتی افسانوں، تاریخ اور ثقافت پر مبنی کھلونے بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ کھلونوں کے جھرمٹ ہیں، چھوٹے کاروباری جو کھلونے بناتے ہیں، انہیں اس سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان چھوٹے کاروباریوں کے بنائے ہوئے کھلونے اب پوری دنیا میں جا رہے ہیں۔ بھارت کے کھلونا بنانے والے بھی دنیا کے معروف عالمی کھلونا برانڈز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی بہت اچھا لگا کہ ہمارا اسٹارٹ اپ سیکٹر بھی کھلونوں کی دنیا پر پوری توجہ دے رہا ہے۔ وہ اس شعبے میں بہت مزے کی چیزیں بھی کر رہے ہیں۔ بنگلور میں شمّی ٹوئیز نام کا ایک سٹارٹ اپ ماحول دوست کھلونوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ گجرات میں آر کڈ زو کمپنی اے آر پر مبنی فلیش کارڈز اور اے آر پر مبنی اسٹوری بکس بنا رہی ہے۔ پونے کی کمپنی فن وینشن آموزش ، کھلونے اور ایکٹیویٹی پزل کے ذریعے سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے میں مصروف ہے۔ میں اسٹارٹ اپس کو مبارکباد دینا چاہوں گا، ایسے تمام مینوفیکچررز ، جو کھلونوں کی دنیا میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ آئیے ، ہم سب مل کر بھارتی کھلونوں کو پوری دنیا میں مزید مقبول بنائیں۔ اس کے ساتھ، میں والدین سے یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھارتی کھلونے، پہیلیاں اور گیمز خریدیں۔
ساتھیو ، کلاس روم ہو یا کھیل کا میدان، آج ہمارے نوجوان ہر میدان میں ملک کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں۔ اس ماہ پی وی سندھو نے سنگاپور اوپن کا اپنا پہلا خطاب جیتا ہے۔ نیرج چوپڑا نے بھی اپنی شاندار کارکردگی کو جاری رکھتے ہوئے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں ملک کے لئے چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آئرلینڈ پیرا بیڈمنٹن انٹرنیشنل میں بھی ہمارے کھلاڑیوں نے 11 میڈلز جیت کر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ روم میں منعقدہ ورلڈ کیڈٹ ریسلنگ چیمپئن شپ میں بھی بھارتی کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہمارے کھلاڑی سورج نے گریکو رومن ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 32 سال کے طویل وقفے کے بعد اس ایونٹ میں ریسلنگ کا گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے یہ پورا مہینہ ایکشن سے بھرپور رہا۔ چنئی میں 44ویں شطرنج اولمپیاڈ کی میزبانی کرنا بھارت کے لئے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ یہ ٹورنامنٹ 28 جولائی کو شروع ہوا ہے اور مجھے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دن برطانیہ میں کامن ویلتھ گیمز کا آغاز بھی ہوا۔ نوجوانوں کے جوش سے بھرپور بھارتی ٹیم وہاں ملک کی نمائندگی کر رہی ہے۔ میں ہم وطنوں کی طرف سے تمام کھلاڑیوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھارت فیفا کے 17 سال سے کم عمر کی خواتین کے عالمی کپ کی بھی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اکتوبر کے آس پاس منعقد ہوگا ، جس سے ملک کی بیٹیوں کا کھیلوں کے تئیں جوش و جذبہ بڑھے گا۔
ساتھیو ، ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک بھر میں دسویں اور بارہویں جماعت کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں ان تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے اپنی سخت محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلے دو سال، وبائی امراض کی وجہ سے، انتہائی چیلنجنگ رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے ، جس ہمت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے۔ میں سب کے روشن مستقبل کی نیک خواہشات رکھتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے آزادی کے 75 سال پر اپنی گفتگو کا آغاز ملک کے دورے سے کیا۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ہمارا اگلے 25 سالوں کا سفر شروع ہو چکا ہوگا۔ ہم سب کو اپنے پیارے ترنگے کو اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کے گھروں پر لہرانے کے لئے جمع ہونا ہے۔ اس بار آپ نے یوم آزادی کیسے منایا، کیا آپ نے کوئی خاص کام کیا، وہ بھی میرے ساتھ شیئر کریں۔ اگلی بار، ہم اپنے اس امرت کے تہوار کے مختلف رنگوں کے بارے میں دوبارہ بات کریں گے، تب تک مجھے اجازت دیں۔ بہت شکریہ ۔
نئی دہلی، 26/جون 2022 ۔ میرے پیارے ہم وطنو، سلام۔ مجھے ’من کی بات‘ کے لیے آپ سب کی طرف سے بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں، سوشل میڈیا اور نمو ایپ پر بھی بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہیں، میں اس کے لیے آپ کا بہت مشکور ہوں۔ اس پروگرام میں ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک دوسرے کی متاثر کن کوششوں پر تبادلہ خیال کریں، عوامی تحریک کے ذریعے تبدیلی کی کہانی پورے ملک کو سنائیں۔ اس کڑی میں آج میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عوامی تحریک پر بات کرنا چاہتا ہوں، جس کی ملک کے ہر شہری کی زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ لیکن، اس سے پہلے، میں آج کی نسل کے نوجوانوں سے، 24-25 سال کے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، اور یہ سوال بہت سنجیدہ ہے، اور میرے سوال پر ضرور غور کریں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے والدین آپ کی عمر کے تھے تو ایک بار ان سے زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا تھا! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے، لیکن میرے نوجوان دوستو! یہ ہمارے ملک میں ایک بار ہوا تھا۔ یہ برسوں پہلے سنہ انیس سو پچھتر کی بات ہے۔ جون کا وہی وقت تھا جب ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اس میں ملک کے شہریوں سے تمام حقوق چھین لیے گئے تھے۔ ان حقوق میں سے ایک ’حق زندگی اور ذاتی آزادی‘ کا حق بھی تھا جو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت تمام ہندوستانیوں کو دیا گیا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی جمہوریت کو کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ملک کی عدالتیں، ہر آئینی ادارہ، پریس، سب کنٹرول میں تھے۔ سنسرشپ کا یہ حال تھا کہ منظوری کے بغیر کوئی چیز چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب مشہور گلوکار کشور کمار نے حکومت کی تعریف کرنے سے انکار کیا تو ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ریڈیو پر ان کی انٹری ہٹا دی گئی۔ لیکن بہت سی کوششوں، ہزاروں گرفتاریوں اور لاکھوں لوگوں پر مظالم کے بعد بھی ہندوستانی عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا، بالکل نہیں ہوا۔ ہندوستان کے لوگوں کے لیے جمہوریت کی جو قدریں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جمہوری جذبہ جو ہماری رگوں میں ہے، آخرکار اس کی فتح ہوئی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے جمہوری طریقے سے ایمرجنسی ہٹاکر جمہوریت قائم کی۔ آمرانہ ذہنیت، آمرانہ رجحان کو جمہوری طریقے سے شکست دینے کی ایسی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمرجنسی کے دوران، ہم وطنوں کی جدوجہد کا، گواہ رہنے کا، شراکت دار رہنے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہوا - جمہوریت کے ایک سپاہی کے طور پر۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے، ہمیں ایمرجنسی کے اس خوفناک دور کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ آنے والی نسلوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ امرت مہوتسو نہ صرف سیکڑوں سالوں کی غلامی سے آزادی کی فتح کی داستان کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ آزادی کے بعد 75 سال کے سفر کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر اہم مرحلے سے سبق سیکھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنی زندگی میں آسمان سے متعلق تصورات نہ کی ہوں۔ بچپن میں ہر کسی کو آسمان کے چاند اور ستارے، ان کی کہانیاں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے آسمان کو چھونا خوابوں کو سچ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ آج جب ہمارا ہندوستان بہت سارے میدانوں میں کامیابی کے آسمان کو چھو رہا ہے تو آسمان یا خلا اس سے کیسے اچھوتے رہ سکتے ہیں! پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے ملک میں خلائی شعبے سے متعلق کئی بڑے کام ہوئے ہیں۔ ملک کی ان کامیابیوں میں سے ایک اِن- اسپیس نامی ایجنسی کا قیام ہے۔ ایک ایجنسی جو خلائی شعبے میں ہندوستان کے نجی شعبے کے لیے نئے مواقع کو فروغ دے رہی ہے۔ اس آغاز نے خاص طور پر ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ مجھے کئی نوجوانوں کی طرف سے اس سے متعلق پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے جب میں اِن- اسپیس کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کرنے گیا تو میں نے بہت سے نوجوان اسٹارٹ اپس کے خیالات اور جوش کو دیکھا۔ میں نے بھی کافی دیر تک ان سے بات کی۔ جب آپ ان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے، مثال کے طور پر خلائی اسٹارٹ اپس کی تعداد اور رفتار کو دیکھیں۔ چند سال پہلے تک، ہمارے ملک میں، خلائی شعبے میں، کسی نے اسٹارٹ اپس کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ آج ان کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ یہ تمام اسٹارٹ اَپس ایسے آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں، جن کے بارے میں یا تو پہلے سوچا بھی نہیں گیا تھا، یا پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، چنئی اور حیدرآباد میں دو اسٹارٹ اپس ہیں – اگنی کول اور اسکائی روٹ! یہ اسٹارٹ اپس ایسی لانچ گاڑیاں تیار کررہے ہیں جو چھوٹے پے لوڈ کو خلا میں لے جائیں گی۔ اس کی وجہ سے خلائی لانچنگ کی لاگت کا تخمینہ بہت کم ہونے کا اندازہ ہے۔ اسی طرح حیدرآباد کا ایک اور اسٹارٹ اپ، دھرو اِسپیس، سیٹلائٹ ڈیپلائر اور سیٹلائٹس کے لیے ہائی ٹیکنالوجی سولر پینلز پر کام کر رہا ہے۔ میں ایک اور خلائی اسٹارٹ اپ دگنترا کے تنویر احمد سے بھی ملا تھا، جو خلا کے کچرے کی نقشہ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے انھیں ایک چیلنج بھی دیا ہے، کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کریں، جس سے خلا کے کچرے کے نپٹارے کا حل نکالا جاسکے۔ دگنترا اور دھرو اِسپیس دونوں 30 جون کو اسرو کی لانچ وہیکل سے اپنا پہلا لانچ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بنگلور میں واقع خلائی اسٹارٹ اپ ایسٹروم کی بانی نیہا بھی ایک حیرت انگیز آئیڈیا پر کام کررہی ہیں۔ یہ اسٹارٹ اپ ایسے فلیٹ انٹینا بنا رہا ہے جو نہ صرف چھوٹے ہوں گے بلکہ ان کی قیمت بھی بہت کم ہوگی۔ اس ٹیکنالوجی کی مانگ پوری دنیا میں ہوسکتی ہے۔
ساتھیو، اِن- سپیس کے پروگرام میں، میری ملاقات مہسانہ کی ایک اسکول کی طالبہ بیٹی تنوی پٹیل سے بھی ہوئی۔ وہ ایک بہت ہی چھوٹے سیٹلائٹ پر کام کررہی ہے، جو اگلے چند مہینوں میں خلا میں بھیجا جانے والا ہے۔ تنوی نے مجھے گجراتی زبان میں اپنے کام کے بارے میں بتایا۔ تنوی کی طرح ملک کے تقریباً ساڑھے سات سو اسکولی طلباء امرت مہوتسو میں ایسے 75 سیٹلائٹس پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طلباء ملک کے چھوٹے شہروں سے ہیں۔
ساتھیو، یہ وہی نوجوان ہیں، جن کے ذہن میں چند سال پہلے خلائی شعبے کی تصویر ایک خفیہ مشن کی طرح تھی، لیکن، ملک نے خلائی اصلاحات کیں، اور وہی نوجوان اب اپنا سیٹلائٹ لانچ کر رہے ہیں۔ جب ملک کا نوجوان آسمان کو چھونے کے لئے تیار ہے تو پھر ہمارا ملک کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب ایک ایسے موضوع پر بات کرتے ہیں جو آپ کو پرجوش بنائے گا اور متاثر کرے گا۔ اولمپکس کے بعد بھی وہ ایک کے بعد ایک کامیابی کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔نیرج نے فن لینڈ میں پاو ونورمی گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنے ہی جیویلن تھرو کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ نیرج نے ایک بار پھر کورتانے گیمز میں طلائی تمغہ جیت کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ انھوں نے یہ گولڈ ایسے حالات میں جیتا جب وہاں کا موسم بھی بہت خراب تھا۔ یہ ہمت آج کے نوجوانوں کی پہچان ہے۔ اسٹارٹ اپس سے لے کر کھیلوں کی دنیا تک، ہندوستان کے نوجوان نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔حال ہی میں منعقدہ کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں ہمارے کھلاڑیوں نے بھی کئی ریکارڈ بنائے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ان گیمز میں کل 12 ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں- اتنا ہی نہیں، خواتین کھلاڑیوں کے نام 11 ریکارڈز درج ہوچکے ہیں۔ منی پور کی ایم مارٹینا دیوی نے ویٹ لفٹنگ میں آٹھ ریکارڈ بنائے ہیں۔
اسی طرح سنجنا، سوناکشی اور بھاؤنا نے بھی مختلف ریکارڈ بنائے ہیں۔ اپنی محنت سے ان کھلاڑیوں نے بتایا ہے کہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستان کی ساکھ کتنی بڑھنے والی ہے۔ میں ان تمام کھلاڑیوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو، کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی ایک اور خاص بات سامنے آئی ہے۔اس بار بھی بہت سے ایسی صلاحیتیں سامنے آئی ہیں، جن کا تعلق بہت ہی عام گھرانوں سے ہیں۔ان کھلاڑیوں نے اپنی زندگی میں بہت جدوجہد کی ہے اور کامیابی کے اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ان کی کامیابی میں ان کے خاندان اور ان کے والدین کا بھی بڑا کردار ہے۔
70 کلومیٹر سائیکلنگ میں گولڈ میڈل جیتنے والے سری نگر سے تعلق رکھنے والے عادل الطاف کے والد ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کے خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سر فخر سے بلند ہوگیا۔ دھنش کے والد بھی ایک سادہ کارپینٹر ہیں۔سانگلی کی بیٹی کاجول سرگار، کے والد چائے بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ کاجول اپنے والد کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور ویٹ لفٹنگ کی پریکٹس بھی کرتی تھی۔ ان کی اور ان کے گھر والوں کی یہ محنت رنگ لائی اور کاجول نے ویٹ لفٹنگ میں خوب تعریفیں حاصل کیں۔روہتک کی تنو نے بھی ایسا ہی کرشمہ کیا ہے۔تنو کے والد راجبیر سنگھ روہتک میں اسکول بس ڈرائیور ہیں۔تنو نے کشتی میں گولڈ میڈل جیت کا اپنا اور اپنے خاندان کا، اپنے والد کا خوابسچ کرکے دکھایا ہے۔
ساتھیو، کھیلوں کی دنیا میں اب ہندوستانی کھلاڑیوں کا دبدبہ تو بڑھ ہی رہا ہے، ساتھ ہی ہندوستانی کھیلوں کی ایک نئی شناخت بھی بن رہی ہے، جیسے کہ اس بار کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں اولمپک میں شامل ہونے والے مقابلوں کے علاوہ پانچ دیسی کھیلوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، یہ پانچ کھیل ہیں- گتکا، تھانگ تا، یوگاسن، کلریپایٹو اور ملّ کھمب۔
ساتھیو، بھارت میں ایک ایسے کھیل کا بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہونے جا رہا ہے، جس کھیل کا جنم ہمارے اپنے ہی ملک میں صدیوں پہلے پیدا ہوا تھا، بھارت میں ہوا تھا، یہ 28 جولائی سے شروع ہونے والا شطرنج اولمپیاڈ ہے۔ اس بار شطرنج اولمپیاڈ میں 180 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں۔کھیل اور فٹنس کی ہماری آج کی بحث ایک اور نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے- یہ نام ہے تلنگانہ کی کوہ پیما پورنا مالاوتھ کا۔پورنا نے ’سیوین سمٹس چیلنج‘ کو مکمل کرکے کامیابی کا ایک اور پرچم لہرایا ہے۔ سیون سمٹس چیلنج یعنی دنیا کی سات سب سے مشکل اور بلند پہاڑیوں پر چڑھنے کا چیلنج۔ پورنا نے اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ شمالی امریکہ کی سب سے بلند چوٹھی ’ماؤنٹ دینالی‘ کی کوہ پیمائی مکمل کرکے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔پورنا بھارت کی وہی بیٹی ہے جس نے صرف 13 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا تھا۔
ساتھیو، جب کھیل کی بات آتی ہے، تو آج میں متالی راج کے بارے میں بھی بات کرنا چاہوں گا، جو ہندوستان کی سب سے باصلاحیت کرکٹرز میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اسی مہینے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا ہے، جس نے کئی کھیل شائقین کو جذبات سے مغلوب کردیا ہے۔ متالی نہ صرف ایک غیر معمولی کھلاڑی رہی ہیں، بلکہ بہت سے کھلاڑیوں کے لیے ایک تحریک بھی رہی ہیں۔ میں متالی کو ان کے مستقبل کے لئے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ یعنی کچرے سے حصول دولت سے وابستہ کامیاب کوششوں پر بات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال میزورم کی راجدھانی آئیزول ہے۔ آئیزول میں ایک خوبصورت ندی ’چٹے لوئی‘ ہے، جو برسوں کی عدم توجہی کے باعث گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ اس ندی کو بچانے کی کوشش گزشتہ چند سالوں سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے لیے مقامی ایجنسیاں، رضاکار تنظیمیں اور مقامی لوگ مل کر سیو چٹے لوئی ایکشن پلان بھی چلا رہے ہیں۔ اس ندی کی صفائی مہم نے کچرے سے دولت کے حصول کا موقع بھی پیدا کیا ہے۔ دراصل یہ ندی اور اس کے کنارے پلاسٹک اور پولی تھین کے کچرے سے بھرے پڑے تھے۔ ندی کو بچانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اس پولی تھین یعنی دریا سے نکلنے والے کچرے سے سڑک بنانے کا فیصلہ کیا، میزورم کے ایک گاؤں میں ریاست کی پہلی پلاسٹک سڑک بنائی گئی، یعنی صفائی بھی اور ترقی بھی۔
ساتھیو، ایسی ہی ایک کوشش پڈوچیری کے نوجوانوں نے بھی اپنی رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے شروع کی ہے۔ پڈوچیری سمندر کے کنارے واقع ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کے ساحلوں اور سمندر کی خوبصورتی کو دیکھنے آتی ہے۔ لیکن، پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی پڈوچیری کے سمندری ساحل پر بھی بڑھ رہی تھی، اس لیے اپنے سمندر، ساحلوں اور ماحولیات کو بچانے کے لیے یہاں کے لوگوں نے ’ری سائیکلنگ فار لائف‘ مہم شروع کی ہے۔ آج، پڈوچیری کے کرائیکل میں ہر روز ہزاروں کلو گرام کچرا جمع کیا جاتا ہے اور اسے الگ الگ کیا جاتا ہے۔ اس میں جو آرگینک کچرا ہوتا ہے اس سے کھاد بنائی جاتی ہے، باقی دوسری چیزوں کو الگ کرکے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں نہ صرف متاثر کن ہیں، بلکہ سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف ہندوستان کی مہم کو بھی تقویت دیتی ہیں۔
ساتھیو، اس وقت جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، ہماچل پردیش میں ایک انوکھی سائیکلنگ ریلی بھی نکل رہی ہے۔ میں آپ کو اس بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ سائیکل سواروں کا ایک گروپ صفائی کا پیغام لے کر شملہ سے منڈی کے لئے نکلا ہے۔ یہ لوگ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر کا یہ فاصلہ پہاڑی سڑکوں پر صرف سائیکل چلاکر پورا کریں گے۔ اس گروپ میں بچے بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ اگر ہمارا ماحول صاف ستھرا ہو، ہمارے پہاڑ اور دریا، ہمارے سمندر صاف رہیں تو ہماری صحت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں مانسون کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں بارش بڑھ رہی ہے۔ یہ وقت ’پانی‘ اور ’پانی کے تحفظ‘ کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے یہ ذمہ داری معاشرے نے مل کر اٹھائی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایک بار اسٹیپ ویلس یعنی باوڑیوں کی وراثت پر بات کی تھی۔ باوڑی ان بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں جن تک سیڑھیوں سے اترکر پہنچتے ہیں۔ راجستھان کے اودے پور میں ایسی ہی سیکڑوں سال پرانی ایک باوڑی ہے – ’سلطان کی باوڑی‘۔ اسے راؤ سلطان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا، لیکن نظر انداز ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ جگہ ویران ہوتی گئی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ ایک دن کچھ نوجوان اسی طرح گھومتے پھرتے اس سیڑھی پر پہنچے اور اس کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ ان نوجوانوں نے اسی لمحے سلطان کی باوڑی کی تصویر اور تقدیر بدلنے کا عزم کیا۔ انھوں نے اپنے اس مشن کو’سلطان سے سر- تان‘ کا نام دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سر-تان کیا ہے؟ درحقیقت ان نوجوانوں نے اپنی کاوشوں سے نہ صرف اس باوڑی کا کایاکلپ کیا بلکہ اسے موسیقی کے سر اور تان سے بھی جوڑ دیا ہے۔ سلطان کی باوڑی کی صفائی اور سجاوٹ کے بعد وہاں سُر اور سنگیت کا پروگرام ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا اتنا چرچا ہے کہ بیرون ملک سے بہت سے لوگ اسے دیکھنے آنے لگے ہیں۔ اس کامیاب کوشش کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہم شروع کرنے والے نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ اتفاق سے اب سے چند دن بعد یکم جولائی کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے ہے۔ میں ملک کے تمام چارٹرڈ اکاؤنٹٹس کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم اپنے آبی ذخائر کو موسیقی اور دیگر سماجی پروگراموں سے جوڑکر ان کے بارے میں بیداری کا اسی طرح کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔ پانی کا تحفظ دراصل زندگی کا تحفظ ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ آج کل کتنے ’ریور فیسٹیول‘ ہونے لگے ہیں۔ آپ کے شہروں میں بھی اس طرح کے جو بھی آبی ذخائر ہیں، وہاں کچھ نہ کچھ پروگرام ضرور کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک جیون منتر ہے – ’چریوتی-چریوتی-چریوتی‘ – آپ نے بھی اس منتر کو ضرور سنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے - چلتے رہو، چلتے رہو۔ یہ منتر ہمارے ملک میں بہت مقبول اس لئے ہے، کیونکہ مسلسل چلتے رہنا، متحرک بنے رہنا ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہزاروں سالوں پر محیط ترقی کے سفر کے ذریعے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک معاشرے کے طور پر، ہم ہمیشہ نئے خیالات، نئی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہماری ثقافتی حرکیات اور سفر نے اس میں بہت تعاون کیا ہے۔ اسی لیے ہمارے رشیوں منیوں نے تیرتھ یاترا جیسی مذہبی ذمہ داریاں ہمیں سونپی تھیں۔ ہم سب الگ الگ تیرتھ یاتراؤں پر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ اس بار چاردھام یاترا میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً مختلف دیو یاترائیں بھی ہوتی ہیں جن میں نہ صرف عقیدت مند بلکہ ہمارے بھگوان بھی یاترا پر نکلتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں میں یکم جولائی سے بھگوان جگن ناتھ کی مشہور یاترا شروع ہونے والی ہے۔ اڑیسہ میں پوری کی یاترا سے ملک کا ہر باشندہ واقف ہے۔ لوگوں کی کوشش ہے کہ انہیں اس موقع پر پوری جانے کی سعادت حاصل ہو۔ دوسری ریاستوں میں بھی جگن ناتھ یاترا بڑے دھوم دھام سے نکالی جاتی ہے۔ بھگوان جگن ناتھ یاترا اساڑھ مہینے کی دویتیا سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری کتابوں میں ’آشا ڈھسیہ دوی تیے دوسے--- رتھ یاترا‘، سنسکرت کے اشلوکوں میں اس طرح کی تفصیل ملتی ہے۔ ہر سال گجرات کے احمد آباد میں اساڑھ دویتیہ سے رتھ یاترا نکلتی ہے۔ میں گجرات میں تھا، تو مجھے بھی ہر سال اس یاترا میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ اساڑھ دویتیہ، جسے اساڑھی بج بھی کہا جاتا ہے، اس دن سے ہی کچھ کا نیا سال بھی شروع ہوتا ہے۔ میں اپنے تمام کچھی بھائیوں اور بہنوں کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتا ہوں۔ میرے لیے یہ دن بھی بہت خاص ہے۔ مجھے یاد ہے، اساڑھ دویتیہ سے ایک دن پہلے، یعنی اساڑھ کی پہلی تاریخ کو، ہم نے گجرات میں ایک سنسکرت اُتسو کی شروعات کی تھی، جس میں سنسکرت زبان میں گیت، سنگیت اور ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اس تقریب کا نام ہے – ’آشا ڑھیہ پرتھم دیوس‘۔ اس تہوار کو یہ خاص نام دینے کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ دراصل سنسکرت کے عظیم شاعر کالیداس نے میگھدوتم کو اساڑھ کے مہینے سے ہی بارش کی آمد پر میگھ دوتم لکھا تھا۔ میگھ دوتم میں ایک اشلوک ہے–آشاڑھیہ پرتھم دیوسے میگھم، آشی لشٹ سانم، یعنی اساڑھ کے پہلے دن پہاڑ کی چوٹیوں سے لپٹے ہوئے بادل۔ یہی اشلوک اس تقریب کا بنیاد بنا۔
ساتھیو، احمد آباد ہو یا پوری، بھگوان جگن ناتھ اپنی اس یاترا کے ذریعے ہمیں بہت گہرے انسانی پیغامات دیتے ہیں۔ بھگوان جگن ناتھ جگت کے مالک تو ہیں ہی لیکن ان کی یاترا میں غریبوں، محروموں کی خصوصی شرکت ہوتی ہے۔ بھگوان بھی معاشرے کے ہر طبقے اور فرد کے ساتھ چلتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ملک میں جتنی بھی یاترائیں ہوتی ہیں ان میں غریب اور امیر، اونچ نیچ جیسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔ ہر طرح کی تفریق سے اوپر اٹھ کر، یاترا ہی سب سے مقدم ہوتی ہے۔ جیسے کہ مہاراشٹر میں پنڈھرپور کی یاترا کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ پنڈھرپور کی یاترا میں نہ کوئی بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا ہوتا ہے۔ ہر کوئی وارکری ہوتا ہے، بھگوان وٹھل کا سیوک ہوتا ہے۔ ابھی 4 دن بعد ہی 30 جون سے امرناتھ یاترا بھی شروع ہونے جا رہی ہے۔ پورے ملک سے عقیدت مند امرناتھ یاترا کے لیے جموں و کشمیر پہنچتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے مقامی لوگ اس یاترا کی ذمہ داری یکساں عقیدت کے ساتھ لیتے ہیں، اور یاتریوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
ساتھیو، سبریمالا یاترا کی جنوب میں بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سبریمالا پہاڑیوں پر بھگوان ایپّا کے درشن کرنے کے لئے یہ یاترا تب سے چل رہی ہے جب یہ راستہ پوری طرح جنگلات سے گھرا ہوا تھا۔ آج بھی لوگ جب ان یاتراؤں پر جاتے ہیں تو اسے مذہبی رسومات سے لے کر قیام تک، غریبوں کے لئے کتنے مواقع پیدا ہوتے ہیں، یعنی یہ یاترائیں ہمیں براہ راست غریبوں کی خدمت کا موقع فراہم کرتی ہیں اور غریبوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ اسی لئے تو ملک بھی اب روحانی یاتراؤں میں عقیدت مندوں کے لئے سہولت بڑھانے کے لئے بہت کوششیں کر رہا ہے۔ اگر آپ بھی اس طرح کی یاترا پر جائیں گے تو آپ کو روحانیت کے ساتھ ساتھ ایک بھارت - شریسٹھ بھارت کے درشن بھی ہوں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سب کے ساتھ جڑنا ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ رہا۔ ہم نے ہم وطنوں کی کامیابیوں اور حصول یابیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سب کے درمیان ہمیں کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ آج ملک میں ویکسین کا ایک جامع حفاظتی ڈھال موجود ہے۔ ہم ویکسین کی 200 کروڑ خوراک کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں تیزی سے احتیاطی خوراک بھی لگائی جا رہی ہیں۔ اگر آپ کی دوسری خوراک کے بعد احتیاطی خوراک کا وقت ہوگیا ہے، تو آپ یہ تیسری خوراک ضرور لیں۔ اپنے خاندان کے افراد خصوصاً بوڑھوں کو بھی احتیاطی خوراک لگوائیں۔ ہمیں ہاتھوں کی صفائی اور ماسک جیسی ضروری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ بارش کے موسم میں آس پاس کی گندگی سے ہونے والی بیماریوں کے تئیں بھی ہمیں محتاط رہنا ہے۔ آپ سب چوکس رہیں، صحت مند رہیں اور ایسی ہی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے، تب تک کے لئے، بہت بہت شکریہ، نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ آج ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سبھی کوٹی کوٹی میرے پریوار کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ’من کی بات ‘ میں آپ سب کا خیرمقدم ہے۔ کچھ دن پہلے ملک نے ایک ایسا اعزاز حاصل کیا ہے جو ہم سھی کو تحریک دیتا ہے۔ بھارت کی طاقت کے تئیں ایک نیا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ آپ لوگ کرکٹ کے میدان پر ٹیم انڈیا کے کسی بلے بازی کی سنچری سُن کر خوشی ہوتے ہوں گے،لیکن بھارت نے ایک اور میدان میں سنچری لگائی ہے اور وہ بہت خاص ہے۔ اس مہینے 5 تاریخ کو ملک میں یونیکارن کی تعداد 100 کے اعدادوشمار تک پہنچ گئی ہے اور آپ کو تو پتہ ہی ہے، ایک یونیکارن ، یعنی ، کم از کم ساڑھے سات ہزار کروڑ روپئے کا اسٹارٹ اپ۔ ان یونیکارنز کا کل ویلیوایشن 330 بلین ڈالر ، یعنی 25 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ ہے۔ یقینی طور پر، یہ بات ، ہر بھارتی کے لئے فخر کرنے والی بات ہے۔ آپ کو یہ جانکر بھی حیرانی ہوگی، کہ ہمارے کل یونیکارن میں سے 44، پچھلے سال بنے تھے۔ اتنا ہی نہیں ، اس سال کے 3 سے 4 مہینے میں ہی 14 اور نئے یونیکارن بن گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی وبا کے اس دور میں بھی ہمارے اسٹارٹ اپس، ویلتھ اور ویلیو کریٹ کرتے رہے ہیں۔ انڈین یونیکارن کا ایورج اینول گروتھ ریٹ، یو ایس اے ، یو کے اور دیگر کئی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ اینالیسسٹس کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں تیزاچھال دیکھنے کو ملے گا۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے یونیکارن ڈائیورسی فائنگ ہیں۔ یہ ای- کامرس، فن-ٹیک، ایڈ-ٹیک ، بایو ٹیک جیسے کئی شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ ایک اور بات جسے میں زیادہ اہم مانتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسٹارٹ-اپس کی دنیا نیو انڈیا کی اسپرٹ کو رفلیکٹ کررہی ہے۔ آج، بھارت کا اسٹارٹ اپس ایکوسسٹم صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہے، چھوٹے -چھوٹے شہروں اور قصبوں سے بھی انٹرپرینورز سامنے آرہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں جس کے پاس انوویشن آئڈیا ہے وہ، ویلتھ کریٹ کرسکتا ہے۔
ساتھیو، ملک کی اس کامیابی کے پیچھے، ملک کی نوجوان -طاقت ، ملک کے ٹیلینٹ اور سرکار، سبھی مل کر یہ کوشش کررہے ہیں، ہر کسی کا تعاون ہے، لیکن اس میں ایک اور اہم بات ہے، وہ ہے، اسٹارٹ-اپ ورلڈ میں، رائٹ مینٹرنگ ؛ یعنی، صحیح رہنمائی۔ ایک اچھا مینٹر اسٹارٹ-اپس کو نئی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے۔ یہ فاؤنڈرز کو رائٹ ڈیسیزن کے لئے ہر طرح سے گائیڈ کرسکتا ہے۔ مجھے، اس بات کا فخر ہے کہ بھارت میں ایسے بہت سے مینٹرز ہیں جنہوں نے اسٹارٹ-اپس کو آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف کردیا ہے۔
شری دھر ویمبوجی کو حال ہی میں پدم اعزاز ملا ہے۔ وہ خود ایک کامیاب انٹرپریونیور ہیں، لیکن اب انہوں نے، دوسرے انٹرپریونیور کو گروم کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہے۔ شری دھر جی نے اپنا کام دیہی علاقوں سے شروع کیا ہے۔ وہ، دیہی نوجوانوں کی گاؤں میں ہی رہ کر اس شعبے میں کچھ کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں مدن پڑاکی جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے رورل انٹرپریونیورز کو فروغ دینے کے لئے 2014 میں ون-برج نام کا پلیٹ فارم بنایا تھا۔ آج ، ون-برج جنوبی اور مشرقی بھارت کے 75 سے بھی زیادہ اضلاع میں موجود ہیں۔ اس سے جڑے 9000 سے زیادہ رورل انٹرپریونیورز دیہی صارفین کو اپنی خدمات مہیا کرا رہے ہیں۔ میرا شینائے جی بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔ وہ رورل ٹرائبل اور ڈزایبل یوتھ کے لئے مارکٹ لنکڈ اسکل ٹریننگ کے شعبے میں قابل ذکر کام کررہی ہیں۔میں نے یہاں تو کچھ ہی نام لئے ہیں، لیکن آج ہمارے بیچ مینٹرز کی کمی نہیں ہے ، ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسٹارٹ-اپس کے لئے آج ملک میں ایک پورا سپورٹ سسٹم تیار ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں ہمیں بھارت کے اسٹارٹ اپ ورلڈ کی ترقی کی نئی اڑان دیکھنے کو ملے گی۔
ساتھیو، کچھ روز قبل مجھے ایک ایسی انٹریسٹنگ اور اٹریکٹیو چیز ملی، جس میں اہل وطن کی کریٹیوٹی اور ان کے آرٹسٹک ٹیلنٹ کا رنگ بھرا ہے۔ ایک تحفہ ہے، جسے تمل ناڈو کے تھنجاور کے ایک سیلف-ہیلپ گروپ نے مجھے بھیجا ہے۔ اس تحفے میں بھارتیت کی خوشبو ہے اور ماترشکتی کے آشرواد- مجھ پر ان کی محبت کی بھی جھلک ہے۔ یہ ایک اسپیشل تھنجاور ڈول ہے، جسے جی آئی ٹیگ بھی ملا ہوا ہے۔ میں تھنجاور سیلف ہیلپ گروپ کا خا ص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے مقامی ثقافت میں رچے -بسے اس تحفے کو بھیجا۔ ویسے ساتھیو، یہ تھنجاور ڈول اتنی خوبصورت ہوتی ہے، اتنی ہی خوبصورتی سے ، یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی نئی کہانی بھی لکھ رہی ہے۔ تھنجاور میں خواتین کے سیلف ہیلپ گروپز کے اسٹور اور کیوسک بھی کھل رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کتنے ہی غریب خاندانوں کی زندگی بدل گئی ہے۔ ایسے کیوسک اور اسٹورز کی مدد سے خواتین اب اپنے پروڈکٹ گاہکوں کو سیدھے فروخت کرپارہی ہیں۔ اس پہل کو ’تھارگئیگل کئی ونئی پورتکل ورپنئی انگاڑی ‘نام دیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پہل سے 22 سیلف گروپ جڑے ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ بھی جان کر اچھا لگے گا کہ خواتین سیلف ہیلپ گروپز، خواتین خود کی مدد آپ گروپ کے یہ اسٹور تھنجاور میں بہت ہی پرائم لوکیشن پر کھلے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری بھی خواتین ہی اٹھا رہی ہیں۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ تھنجاور ڈول اور برونز لیمپ جیسے جی آئی پروڈکٹ کے علاوہ کھلونے، میٹ اور آرٹیفیشل جیولری بھی بناتے ہیں۔ ایسے اسٹور کی وجہ سے جی آئی پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ ہینڈی کرافٹ کے پروڈکٹ کی فروخت میں کافی تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔اس مہم کی وجہ سے نہ صرف کاریگروں کو فروغ ملا ہے بلکہ خواتین کی آمدنی بڑھنے سے وہ بااختیار بھی ہورہی ہیں۔ میری ’ من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی درخواست ہے۔آپ اپنے علاقے میں یہ پتہ لگائیں ، کہ کون سے خواتین سیلف ہیلپ گروپ کام کررہے ہیں۔ ان کے پروڈکٹ کےبارے میں بھی آپ جانکاری حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ ان پروڈکٹس کو استعمال میں لائیں۔ ایسا کرکے ، آپ سیلف ہیلپ گروپ کی آمدنی بڑھانے میں تو مدد کریں گی ہی ، ’آتم نربھر بھارت مہم ‘ کو بھی رفتار دیں گے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں کئی ساری زبان، رسم الخط اور بولیوں کا بیشمار خزانہ ہے۔ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ لباس، کھانا پینا اور ثقافت ، یہ ہماری پہچان ہے۔ یہ ڈائیورسٹی ، یہ تنوع ، ایک قوم کی شکل میں ہمیں مزید مضبوط کرتی ہے اور متحد رکھتی ہے۔ اس سے جڑی ایک حوصلہ افزا مثال ہے ایک بیٹی کلپنا کی، جسے ، میں آپ سبھی کے ساتھ مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا نام کلپنا ہے، لیکن ان کی کوشش، ’ ایک بھارت شریسٹھ بھارت‘ کے حقیقی جذبے سےمعمور ہے۔ دراصل ، کلپنا نے حال ہی میں کرناٹک میں اپنا 10 ویں کا امتحان پاس کیا ہے لیکن ان کی کامیابی کی بے حد خاص بات یہ ہے کہ کلپنا کو کچھ وقت پہلے تک کنڑ زبان ہی نہیں آتی تھی۔ انہوں نے ، نہ صرف تین مہینے میں کنڑ زبان سیکھی بلکہ 92 ویں نمبر بھی لاکر دکھایا۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہورہی ہوگی، لیکن یہ سچ ہے۔ ان کے بارے میں اور بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو آپ کو حیران بھی کریں گی اور تحریک بھی دیں گی۔ کلپنا، بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ کی رہنے والی ہیں۔ وہ پہلے ٹی بی سے متاثر رہی تھیں اور جب وہ تیسری کلاس میں تھیں تبھی ان کی آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی تھی لیکن، کہتے ہیں نہ ، ’ جہاں چاہ- وہاں راہ ‘۔ کلپنا بعد میں میسور کی رہنے والی پروفیسر تارامورتی کے رابطے میں آئیں، جنہوں نے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ ہر طرح سے ان کی مدد بھی کی۔ آج ، وہ اپنی محنت سے ہم سب کے لئے ایک مثال بن گئی ہیں۔ میں، کلپنا کو ان کے حوصلے کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اسی طرح، ہمارے ملک میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں، جو ملک کی لسانی تنوع کو مضبوط کرنے کا کام کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ساتھ ہیں، مغربی بنگال میں پرولیا کے شری پتی ٹوڈو جی۔ ٹوڈو جی ، پرولیا کی سدھو-کانو-برسا یونیورسٹی میں سنتھالی زبان کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے، سنتھالی سماج کے لئے ، ان کی اپنی ’اول چکی‘ رسم الخط میں ملک کے آئین کی کاپی تیار کی ہے۔ سری پتی ٹوڈو جی کہتے ہیں کہ ہمارا آئین ہمارے ملک کے ہر ایک شہری کو ان کے حقوق اور فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اس لئے ، ہر شہری کو کو اس سےمانوس ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ، انہوں نے سنتھالی سماج کے لئے ان کے اپنی رسم الخط میں آئین کی کاپی تیار کرکے تحفے -سوگات کے طور پر دی ہے۔ میں، شری پتی جی کی اس سوچ اور ان کی کوششوں کی تعریف کرتا ہوں۔ یہ ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کے جذبے کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس جذبے کو آگے بڑھانے والی ایسی بہت سی کوششوں کے بارے میں ، آپ کو ’ایک بھارت ، شریٹھ بھارت‘ کی ویب سائٹ پر بھی جانکاری ملے گی ۔ یہاں آپ کو کھان -پان، آرٹ، ثقافت، سیاحت سمیت ایسے کئی موضوعات پر ایکٹیوٹیز کے بارے میں پتہ چلے گا۔ آپ ان ایکٹیویٹیز میں حصہ بھی لے سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو ، اپنے ملک کے بارے میں جانکاری بھی ملے گی، اور آپ ملک کے تنوع کو محسوس بھی کریں گے۔
میرے پیارے اہل وطن ، اس وقت ہمارے ملک میں اتراکھنڈ کے ’چار -دھام‘ کی مقدس یاترا چل رہی ہے۔ ’چار -دھام‘ اور خاص طور پر کیدارناتھ میں ہر دن ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لوگ، اپنی ’چار دھام یاترا‘ کے اچھے احساس شیئر کررہے ہیں، لیکن ، میں نے، یہ بھی دیکھا کہ، عقیدت مند کیدارناتھ میں کچھ یاتریوں کے ذریعہ پھیلائی جارہی گندگی کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے اپنی بات رکھی ہے ۔ ہم، مقدس یاترا میں جائیں اور وہاں گندگی کا ڈھیر ہو، یہ ٹھیک نہیں ۔ لیکن ساتھیو، ان شکایات کے بیچ کئی اچھی تصویریں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جہاں عقیدت ہے، وہاں ،تخلیقیت اور مثبت سوچ بھی ہے۔ کئی عقیدت مند ایسے بھی ہیں جو بابا کیدار کے دھام میں درشن -پوجن کے ساتھ ساتھ سوچھتا کی سادھنا بھی کررہے ہیں۔ کوئی اپنے ٹھہرنے کی جگہ کے پاس صفائی کررہا ہے، تو کوئی یاترا کے راستے سے کوڑا کچرا صاف کررہا ہے۔ سوچھ بھارت مہم کی ٹیم کے ساتھ مل کر کئی ادارے اور رضاکارتنظیمیں بھی وہاں کام کررہی ہیں۔ ساتھیو، ہمارے یہاں جیسے تیرتھ یاترا کی اہمیت ہوتی ہے ، ویسے ہی تیرتھ سیوا کی بھی اہمیت بتائی گئی ہے، اور میں تو یہ بھی کہوں گا، تیرتھ -سیوا کے بغیر، تیرتھ -یاترا بھی ادھوری ہے۔ دیوبھومی اتراکھنڈ میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو سوچتھا اور سیوا کی سادھنا میں لگے ہوئے ہیں۔ رودر پریاگ کے رہنے والے شری مان منوج بینجوال جی سے بھی آپ کو بہت تحریک ملے گی۔ منوج جی نے پچھلے 25 برسو ں سے ماحولیات کی دیکھ ریکھ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ وہ ، سوچھتا کی مہم چلانے کے ساتھ ہی ، مقدس مقامات کو ، پلاسٹک سے پاک کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ وہیں گپت کاشی میں رہنے والے -سریندر بگواڑی جی نے بھی سوچھتا کو اپنی زندگی کا منتر بنا لیا ہے۔ وہ ، گپت کاشی میں باقاعدہ طور پر صفائی پروگرام چلاتے ہیں ، اور مجھے پتہ چلا ہے کہ اس مہم کا نام بھی انہوں نے ’من کی بات ‘ رکھ لیا ہے۔ ایسے ہی ، دیور گاوں کی چمپادیوی پچھلے تین سال سے اپنے گاؤں کی خواتین کو کوڑے کے بندوبست ، یعنی ، ویسٹ مینجمنٹ سکھا رہی ہیں۔ چمپا جی نے سینکڑوں درخت بھی لگائے ہیں اور انہوں نے اپنی محنت سے ایک ہرابھراجنگل تیار کردیا ہے۔ ساتھیو، ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے دیوتاؤں کی سرزمین دیوبھومی اور تیرتھوں کا وہ دیویہ احساس قائم ہے، جسے محسوس کرنے کے لئے ہم وہاں جاتے ہیں،اس دیوتو اور روحانیت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری ہماری بھی تو ہے۔ ابھی ، ہمارے ملک میں، ’چار دھام یاترا‘ کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں ’امرناتھ یاترا‘، ’پنڈھرپور یاترا‘ اور ’جگن ناتھ یاترا‘ جیسی کئی یاترائیں ہوں گی۔ ساون ماہ میں تو شاید ہر گاوں میں کوئی نہ کوئی میلا لگتا ہے۔
ساتھیو، ہم جہاں کہیں بھی جائیں، ان تیرتھ مقامات کا احترام قائم رہے۔ سوچیتا، صاف-صفائی ، ایک مقدس ماحول ہمیں اسے کبھی نہیں بھولناہے، اسے ضرور بنائے رکھیں اور اس لئے ضروری ہے ، کہ ہم سوچھتا کے عزم کو یاد رکھیں۔ کچھ دن بعد ہی ، 5 جون کو ’ماحولیات کا عالمی دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ماحولیات کے تعلق سے ہمیں اپنے آس پاس مثبت مہم چلانی چاہئے اور یہ مسلسل کرنے والا کام ہے۔ آپ ، اس بار سب کو ساتھ جوڑ کر سوچھتا اور شجرکاری کے لئے کچھ کوشش ضرور کریں ۔ آپ، خود بھی درخت لگائیں اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔
میرے پیارے اہل وطن، اگلے مہینے 21 جون کو ہم آٹھواں ’ یوگ کا بین الاقوامی دن ‘ منانے والے ہیں۔ اس بار ’یوگ کے دن ‘کا تھیم ہے -یوگا فار ہیومنٹی ،میں آپ سبھی سےیوگ کے دن کو انتہائی جورش و خروش کے ساتھ منانے کی درخواست کروں گا ۔ ہاں ! کورونا سے متعلق احتیاط بھی برتیں، ویسے ، اب تو پوری دنیا میں کورونا کے تعلق سے حالات پہلے سے کچھ بہتر لگ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ویکسینیشن کوریج کی وجہ سے اب لوگ پہلے سے کہیں زیادہ باہر بھی نکل رہے ہیں، اس لئے پوری دنیا میں ’یوگ دیوس‘ کے تعلق سے کافی تیاریاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کورونا وبا نے ہم سبھی کو یہ احساس بھی کرایا ہے کہ ہماری زندگی میں صحت کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اور یوگ اس میں کتنا بڑا وسیلہ ہے ، لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ یوگ سے فزیکل ، اسپرچوئل اور انٹل ایکچوئل ویل بیئنگ کو بھی فروغ ملتا ہے۔ دنیا کے ٹاپ بزنس پرسن سے لے کر فلم اور اسپورٹس پرسنیلٹیز تک ، اسٹوڈنٹ سے لے کر عام انسان تک ، سبھی یوگ کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنارہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دنیا بھر میں یوگ کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر آپ سبھی کو بہت اچھا لگتا ہوگا۔ ساتھیو، اس بار ملک اور بیرون ملک میں ’یوگ دیوس‘ پر ہونے والے کچھ انتہائی انوویٹیو مثالوں کے بارے میں مجھے علم ہوا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ہے گارڈین رنگ- ایک بڑا ہی یونک پروگرام ہوگا۔ اس میں موومنٹ آف سن کو سیلیبریٹ کیا جائے گا، یعنی سورج جیسے جیسے سفر کرے گا ، زمین کے الگ الگ حصوں سے ، ہم یوگ کے ذریعہ، اس کا استقبال کریں گے۔ الگ الگ ملکوں میں انڈین مشنز وہاں کے لوکل ٹائم کے مطابق طلوع آفتاب کے وقت یوگ پروگرام منعقد کریں گے۔ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک سے پروگرام شروع ہوگا۔ پورب سے پشچم تک مسلسل سفر چلتا رہے گا، پھر ایسے ہی یہ آگے بڑھتا رہے گا۔ ان پروگراموں کی اسٹریمنگ بھی اسی طرح ایک کے بعد ایک جڑتی جائے گی، یعنی یہ ، ایک طرح کا ریلیے یوگا اسٹریمنگ ایونٹ ہوگا۔ آپ بھی اسے ضرور دیکھئے گا۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں اس بار ’امرت مہوتسو‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کے 75 اہم مقامات پر بھی ’بین الاقوامی یوگ دیوس‘ کا انعقاد ہوگا۔ اس موقع پر کئی تنظیمیں اور اہل وطن نے اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے علاقو ں کی خاص جگہوں پر کچھ نہ کچھ انوویٹیو کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ میں آپ سے بھی یہ درخواست کروں گا ، اس بار یوگ دیوس منانے کے لئے، آپ اپنے شہر، قصبے یا گاوں کی کسی ایسی جگہ منتخب کریں، جو سب سے خاص ہو۔ یہ جگہ کوئی قدیم مندر اور سیاحتی مرکز ہوسکتا ہے، یا پھر ،کسی معروف ندی، جھیل یا تالاب کا کنارہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے یوگ کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے کی پہچان بھی بڑھے گی اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس وقت ’یوگ دیوس‘ کا 100 ڈے کاونٹ ڈاون بھی جاری ہے، یا یوں کہیں کہ نجی اور سماجی کوششوں سے جڑے پروگرام ، تین مہینے پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ دہلی میں 100 ویں دن اور 75 ویں دن کے کاونٹ ڈاون پروگرامز ہوئے ہیں۔ وہیں، آسام کے شیوساگر میں 50 ویں اور حیدرآباد میں 25 ویں کاونٹ ڈاون ایونٹ منعقد کئے گئے۔ میں چاہوں گا کہ آپ بھی اپنے یہاں ابھی سے ’یوس دیوس‘ کی تیاریاں شروع کردیجئے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملئے، ہر کسی کو یوگ دیوس کے پروگرام میں شامل ہونے کے لئے درخواست کیجئے، حوصلہ افزائی کیجئے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ سبھی ’یوگ دیوس‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، ساتھ ہی یوگ کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی اپنائیں گے۔
ساتھیو، کچھ دن پہلے میں جاپان گیا تھا۔اپنے کئی پروگراموں کے درمیان مجھے کچھ شاندار شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں ’ من کی بات ‘ میں ، آپ سے ان کے بارے میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ لوگ ہیں تو جاپان کے ، لیکن بھارت کے تئیں ان میں غضب کا لگاؤ اور محبت ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ہیروشی کوئیکے جی، جو ایک معروف آرٹ ڈائرکٹر ہیں۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی خوشی ہوگی کہ انہوں نے مہابھارت پروجیکٹ کو ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی شروعات کمبوڈیا میں ہوئی تھی اور پچھلے 9 برسوں سے یہ مسلسل جاری ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ہر کام بہت ہی الگ طریقے سے کرتے ہیں۔ وہ ، ہر سال، ایشیا کے کسی ملک کا سفر کرتے ہیں۔ اور وہاں لوکل آرٹسٹ اور میوزیشین کے ساتھ مہابھارت کے کچھ حصوں کو پرڈیوس کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے ذریعہ سے انہوں نے انڈیا کمبوڈیا اور انڈونیشیا سمیت 9 ملکوں میں پروڈکشن کئے ہیں اور اسٹیج پرفارمنس بھی دی ہے۔ ہیروشی کوئیکے جی ان فنکاروں کو ایک ساتھ لاتے ہیں ، جن کا کلاسیکل اور ٹریڈیشنل ایشین پرفارمننگ آرٹ میں ڈائیورس بیک گراونڈ رہا ہے۔ اس وجہ سے ان کے کام میں مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملیشیا اور جاپان کے پرفارمرز جاوا رقص، بالی رقص ، تھائی رقص کے ذریعہ اسے اور پرکشش بناتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر پرفامر اپنی ہی مادری زبان میں بولتا ہے اور کوریوگرافی بہت ہی خوبصورتی سے اس تنوع کو پیش کرتی ہے اور میوزک کی ڈائیورسٹی اس پروڈکشن کو مزید زندگی عطا کردیتی ہے۔ ان کا مقصد اس بات کو سامنے لانا ہے کہ ہمارے سماج میں ڈائیورسٹی اور کو ایکزیسٹنس کی کیا اہمیت ہے اور امن کی شکل حقیقت میں کیسی ہونی چاہئے۔ ان کے علاوہ میں، جاپان میں جن دیگر لوگوں سے ملا وہ ہیں، اتسوشی ماتسوو جی اور کینزی یوشی جی۔ یہ دونوں ہی ٹیم پروڈکشن کمپنی سے جڑے ہیں۔ اس کمپنی کا تعلق رامائن کی اس جاپانی اینی میشن فلم سے ہے، جو 1993 میں ریلیز ہوئی تھی ۔ یہ پروجیکٹ جاپان کے بہت ہی مشہور فلم ڈائریکٹر یوگو ساکو جی سے جڑا ہوا تھا۔ تقریباً چالیس سال پہلے 1983 میں ، انہیں، پہلی بار رامائن کے بارے میں پتہ چلاتھا۔’ رامائن ‘ ان کے دل کو چھو گئی ، جس کے بعد انہوں نے اس پر گہرائی سے ری سرچ شروع کردی۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے جاپانی زبان میں رامائن کے 10 ورژن پڑھ ڈالے۔ اور وہ اتنے پر ہی نہیں رکے ، وہ اسے اینی میشن پر بھی اتارنا چاہتے تھے۔ اس میں انڈین اینی میٹرز نے بھی ان کی کافی مدد کی، انہیں فلم میں دکھائے گئے بھارتی رسم ورواج اور روایتوں کے بارے میں گائیڈ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت میں لوگ دھوتی کیسے پہنتے ہیں، ساڑی کیسے پہنتے ہیں، بال کیسے بناتے ہیں۔ بچے خاندان کے اندر ایک دوسرے کی عزت کیسے کرتے ہیں ، آشرواد کی روایت کیا ہوتی ہے۔ صبح اٹھ کر اپنے گھر کے جو سینئر ہیں، ان کو پرنام کرنا ، ان کا آشرواد لینا، یہ ساری باتیں اب 30 برسوں کے بعد یہ اینی میشن فلم پھر سے 4 کے میں ری ماسٹر کی جارہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے جلد ہی پورا ہونے کا امکان ہے۔ ہم سے ہزاروں کلومیٹر دور جاپان میں بیٹھے لوگ جو نہ ہماری زبان جانتے ہیں ، جو نہ ہماری روایات کے بارے میں اتنا جانتے ہیں، ان کی ہماری ثقافت کے لئے اتنی لگن ، یہ عقیدت، یہ احترام ، بہت ہی قابل تعریف ہے۔ کون ہندوستانی اس پر فخر نہیں کرے گا؟
میرے پیارے اہل وطن، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سماج کی خدمت کا منتر، سیلف فار سوسائٹی کا منتر، ہماری تہذیب کا حصہ ہے ۔ ہمارے ملک میں بے شمار لوگ اس منتر کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ مجھے، آندھراپردیش میں، مرکاپورم میں رہنے والے ایک ساتھی ، رام بھوپال ریڈی جی کے بارے میں جانکاری ملی ۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے رام بھوپال ریڈی جی نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی اپنی ساری کمائی بیٹیوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کردی ہے۔ انہوں نے تقریباً 100 بیٹیوں کے لئے ’ سُکنیا سمردھی یوجنا‘ کے تحت کھاتے کھلوائے اور اس میں اپنے 25 لاکھ سے زیادہ روپئے جمع کروادیئے۔ ایسی ہی خدمت کی ایک اور مثال یو پی میں آگرہ کے کچورا گاوں کی ہے۔ کافی سال سے اس گاوں میں میٹھے پانی کی قلت تھی۔ اس بیچ گاوں کے ایک کسان کنور سنگھ کو گاوں سے 6 سے 7 کلومیٹر دور اپنے کھیت میں میٹھا پانی مل گیا۔ یہ ان کے لئے بہت خوشی کی بات تھی۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ اس پانی سے باقی سبھی گاوں والوں کی بھی خدمت کی جائے۔لیکن کھیت سے گاوں تک پانی لے جانے کے لئے 32-30 لاکھ روپئے چاہئے تھے۔ کچھ عرصے بعد کنور سنگھ کے چھوٹے بھائی شیام سنگھ فوج سے ریٹائرہوکر گاؤں آئے، تو انہیں یہ بات پتہ چلی۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ پر ملی اپنی پوری رقم اس کام کے لئے پیش کردی اور کھیت سے گاوں تک پائپ لائن بچھا کر گاوں والوں کے لئے میٹھاپانی پہنچایا۔ اگر لگن ہو، اپنے فرائض کے تئیں سنجیدگی ہو، تو ایک فرد بھی کیسے پورے سماج کا مستقبل بدل سکتا ہے، یہ یہ کوشش اس کی بڑی تحریک ہے۔ ہم فرائض کی راہ پر چلتے ہوئے ہی سماج کو بااختیاربناسکتے ہیں، ملک کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ آزادی کے اس ’امرت مہوتسو‘ میں یہی ہمارا عزم ہونا چاہئے، اور یہی ہماری سادھنا بھی ہونا چاہئے۔ جس کا ایک ہی راستہ ہے - فرض، فرض اور فرض۔
میرے پیارے اہل وطن ، آج ’ من کی بات ‘ میں ہم نے سماج سے جڑے کئی اہم موضوعات پر بات چیت کی۔ آپ سب، الگ الگ موضوعات سے جڑی اہم تجاویز مجھے بھیجتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر ہماری بات آگے بڑھتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے اگلے ایڈیشن کے لئے اپنی تجاویز بھیجنا بھی مت بھولئیے گا۔ اس وقت آزادی کے امرت مہوتسو سے جڑے جو پروگرام چل رہے ہیں، جن پروگرام میں آپ شامل ہورہے ہیں، ان کے بارے میں بھی مجھے ضرور بتائیے۔ نمو ایپ اور مائی گو پر مجھے آپ کی تجاویز کا انتظار رہے گا۔ اگلی بار ہم ایک بار پھر ملیں گے، پھر سے اہل وطن سے جڑے ایسے ہی موضوعات پر بات کریں گے۔ آپ ، اپنا خیال رکھئے اور اپنے آس پاس سبھی جانداروں کا بھی خیال رکھئے۔ گرمیوں کے اس موسم میں، آپ جانوروں اور پرندوں کے لئے کھانا-پانی دینے کی اپنی انسانی ذمہ داری بھی نبھاتے رہیں - یہ ضرور یاد رکھئے گا، تب تک کے لئے بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار!
نئے موضوعات کے ساتھ، نئی حوصلہ افزا مثالوں کے ساتھ، نئے نئے پیغامات کو سمیٹے ہوئے، ایک بار پھر میں آپ سے ’من کی بات‘ کرنے آیا ہوں۔ جانتے ہیں اس بار مجھے سب سے زیادہ خطوط اور پیغامات کس موضوع کے بارے میں ملے ہیں؟ یہ موضوع ایسا ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے جڑا ہے۔ میں بات کر رہا ہوں ملک کو ملے نئے پی ایم میوزیم کی۔ اس 14 اپریل کو بابا صاحب امبیڈکر کی جنم جینتی پر پی ایم میوزیم کا افتتاح ہوا ہے۔ اسے، ملک کے شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ایک سامع ہیں جناب سارتھک جی، سارتھک جی گروگرام میں رہتے ہیں اور پہلا موقع ملتے ہی وہ وزیر اعظم کا میوزیم دیکھ آئے ہیں۔ سارتھک جی نے Namo App پر جو پیغام مجھے لکھا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ برسوں سے نیوز چینل دیکھتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہیں لگتا تھا کہ ان کی جنرل نالیج کافی اچھی ہوگی، لیکن، جب وہ پی ایم میوزیم گئے تو انہیں بہت حیرانی ہوئی، انہیں محسوس ہوا کہ وہ اپنے ملک اور ملک کی قیادت کرنے والوں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے پی ایم میوزیم کی کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں لکھا ہے، جو ان کے تجسس کو مزید بڑھانے والا تھا، جیسے، انہیں لال بہادر شاستری جی کا وہ چرخہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جو انہیں سسرال سے تحفے میں ملا تھا۔ انہوں نے شاستری جی کی پاس بک بھی دیکھی اور یہ بھی دیکھا کہ ان کے پاس کتنی کم بچت تھی۔ سارتھک جی نے لکھا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مورارجی بھائی دیسائی جدوجہد آزادی میں شامل ہونے سے پہلے گجرات میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس میں ان کا ایک لمبا کریئر رہا تھا۔ سارتھک جی چودھری چرن سنگھ جی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ زمینداری کے خاتمہ کے سلسلے میں چودھری چرن سنگھ جی کا بہت بڑا رول تھا۔ اتنا ہی نہیں، وہ آگے لکھتے ہیں، جب لینڈ ریفارم کے بارے میں وہاں میں نے دیکھا کہ جناب پی وی نرسمہا راؤ جی لینڈ ریفارم کے کام میں بہت گہری دلچسپی لیتے تھے۔ سارتھک جی کو بھی اس میوزیم میں آ کر ہی پتہ چلا کہ چندر شیکھر جی نے ۴ ہزار کلومیٹر سے زیادہ پیدل چل کر ہندوستان کا تاریخی سفر کیا تھا۔ انہوں نے جب میوزیم میں اُن چیزوں کو دیکھا جو اٹل جی استعمال کرتے تھے، ان کی تقریریں سنیں، تو وہ فخر سے بھر اٹھے۔ سارتھک جی نے یہ بھی بتایا کہ اس میوزیم میں مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، ڈاکٹر امبیڈکر، جے پرکاش نارائن اور ہمارے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں بھی بہت ہی دلچسپ جانکاریاں ہیں۔
ساتھیو، ملک کے وزرائے اعظم کے تعاون کو یاد کرنے کے لیے آزادی کے امرت مہوتسو سے اچھا وقت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ تاریخ کو لے کر لوگوں کی دلچسپی کافی بڑھ رہی ہے اور ایسے میں پی ایم میوزیم نوجوانوں کے لیے بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، جو ملک کی انمول وراثت سے انہیں جوڑ رہا ہے۔
ویسے ساتھیو، جب میوزیم کے بارے میں آپ سے اتنی باتیں ہو رہی ہیں، تو میرا من کیا کہ میں بھی آپ سے کچھ سوال کروں۔ دیکھتے ہیں آپ کی جنرل نالیج کیا کہتی ہے – آپ کو کتنی جانکاری ہے۔ میرے نوجوان ساتھیو آپ تیار ہیں، کاغذ قلم ہاتھ میں لے لیا؟ ابھی میں آپ سے جو پوچھنے جا رہا ہوں، آپ ان کے جواب NaMo App یا سوشل میڈیا پر #MuseumQuiz کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں اور ضرور کریں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان تمام سوالوں کا جواب ضرور دیں۔ اس سے ملک بھر کے لوگوں میں میوزیم کو لے کر دلچسپی مزید بڑھے گی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ملک کے کس شہر میں ایک مشہور ریل میوزیم ہے، جہاں پچھلے 45 برسوں سے لوگوں کو ہندوستانی ریل کی وراثت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ میں آپ کو ایک اور clue دیتا ہوں۔ آپ یہاں Fairy Queen (فیئری کوئین)، Saloon of Prince of Wales (سلون آف پرنسز آف ویلس) سے لے کر Fireless Steam Locomotive (فائر لیس اسٹیم لوکوموٹیو) بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ممبئی میں وہ کون سا میوزیم ہے، جہاں ہمیں بہت ہی دلچسپ طریقے سے کرنسی کا ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے؟ یہاں چھٹویں صدی قبل عیسی مسیح کے سکے موجود ہیں، تو دوسری طرف ای-منی بھی موجود ہے۔ تیسرا سوال ’وراثت خالصہ‘ اس میوزیم سے جڑا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں، یہ میوزیم، پنجاب کے کس شہر میں موجود ہے؟ پتنگ بازی میں تو آپ سب کو بہت مزہ آتا ہی ہوگا، اگلا سوال اسی سے جڑا ہے۔ ملک کاواحد ’کائٹ میوزیم‘ کہاں ہے؟ آئیے میں آپ کو ایک clue دیتا ہوں یہاں جو سب سے بڑی پتنگ رکھی ہے، اس کا سائز 22 گنا 16 فٹ ہے۔ کچھ دھیان آیا – نہیں تو یہیں – ایک اور چیز بتاتا ہوں – یہ جس شہر میں ہے، اس کا باپو سے مخصوصی ناطہ رہا ہے۔ بچپن میں ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا شوق کسے نہیں ہوتا! لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ بھارت میں ڈاک ٹکٹ سے جڑا نیشنل میوزیم کہاں ہے؟ میں آپ سے ایک اور سوال کرتا ہوں۔ گلشن محل نام کی عمارت میں کون سا میوزیم ہے؟ آپ کے لیے clue یہ ہے کہ اس میوزیم میں آپ فلم کے ڈائرکٹر بھی بن سکتے ہیں، کیمرہ، ایڈیٹنگ کی باریکیوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا! کیا آپ ایسے کسی میوزیم کے بارے میں جانتے ہیں جو بھارت کی ٹیکسٹائل سے جڑی وراثت کو سیلیبریٹ کرتاہ ے۔ اس میوزیم میں منی ایچر پینٹنگز، جین مینواسکرپٹس، اسکلپچر – بہت کچھ ہے۔ یہ اپنے یونیک ڈسپلے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
ساتھیو، ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کے لیے ان کے جواب تلاش کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سوال میں نے اس لیے پوچھے تاکہ ہماری نئی نسل میں تجسس بڑھے، وہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں، انہیں دیکھنے جائیں۔ اب تو، میوزیم کی اہمیت کی وجہ سے، کئی لوگ، خود آگے آکر، میوزیم کے لیے کافی عطیہ بھی کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے پرانے کلکشن کو، تاریخی چیزوں کو بھی، میوزیم کو عطیہ کر رہے ہیں۔ آپ جب ایسا کرتے ہیں تو ایک طرح سے آپ ایک وراثتی سرمایہ کو پورے سماج کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی لوگ اب اس کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ میں، ایسی تمام ذاتی کوششوں کی بھی تعریف کرتا ہوں۔ آج، بدلے ہوئے وقت میں اور کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے میوزیم میں نئے طور طریقے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ میوزیم میں ڈیجیٹائزیشن پر بھی فوکس بڑھا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ 18 مئی کو پوری دنیا میں انٹرنیشنل میوزیم ڈے منایا جائے گا۔ اسے دیکھتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھیوں کے لیے میرے پاس ایک آئڈیا ہے۔ کیوں نہ آنے والی چھٹیوں میں، آپ، اپنے دوستوں کے گروہ کے ساتھ، کسی مقامی میوزیم کو دیکھنے جائیں۔ آپ اپنا تجربہ #MuseumMemories کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ آپ کے ایسا کرنے سے دوسروں کے من میں بھی میوزیم کو لے کر تجسس پیدا ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ اپنی زندگی میں بہت سے عہد لیتے ہوں گے، انہیں پورا کرنے کے لیے محنت بھی کرتے ہوں گے۔ ساتھیو، لیکن حال ہی میں، مجھے ایسے عہد کے بارے میں پتہ چلا، جو واقعی بہت الگ تھا، بہت انوکھا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اسے ’من کی بات‘ کے سامعین کو ضرور شیئر کروں۔
ساتھیو، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی اپنے گھر سے یہ عہد لے کر نکلے کہ وہ آج دن بھر، پورا شہر گھومے گا اور ایک بھی پیسے کا لین دین کیش میں نہیں کرے گا، نقد میں نہیں کرے گا – ہے نا یہ دلچسپ عہد۔ دہلی کی دو بیٹیاں، ساگریکا اور پریکشا نے ایسے ہی کیش لیس ڈے آؤٹ کا تجربہ کیا۔ ساگریکا اور پریکشا دہلی میں جہاں بھی گئیں، انہیں ڈیجیٹل پیمنٹ کی سہولت دستیاب ہو گئی۔ یوپی آئی کیو آر کوڈ کی وجہ سے انہیں کیس نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہاں تک کہ اسٹریٹ فوڈ اور ریہڑی پٹری کی دکانوں پر بھی زیادہ تر جگہ انہیں آن لائن ٹرانزیکشن کی سہولت ملی۔
ساتھیو، کوئی سوچ سکتا ہے کہ دہلی ہے، میٹرو سٹی ہے، وہاں یہ سب ہونا آسان ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے کہ یو پی آئی کا یہ پھیلاؤ صرف دہلی جیسے بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔ ایک میسیج مجھے غازی آباد سے آنندتا ترپاٹھی کا بھی ملا ہے۔ آنندتا پچھلے ہفتے اپنے شوہر کے ساتھ نارتھ ایسٹ گھومنے گئی تھیں۔ انہوں نے آسام سے لے کر میگھالیہ اور اروناچل پردیش کے توانگ تک کے اپنے سفر کا تجربہ مجھے بتایا۔ آپ کو بھی یہ جان کر بے حد حیرانی ہوگی کہ کئی دن کے اس سفر میں دور دراز علاقوں میں بھی انہیں کیش نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جن جگہوں پر کچھ سال پہلے تک انٹرنیٹ کی اچھی سہولت بھی نہیں تھی، وہاں بھی اب یو پی آئی سے پیمنٹ کی سہولت موجود ہے۔ ساگریکا، پریکشا اور آنندتا کے تجربات کو دیکھتے ہوئے میں آپ سے بھی اپیل کروں گاکہ کیش لیس ڈے آؤٹ کا ایکسپیریمنٹ کرکے دیکھیں، ضرور کریں۔
ساتھیو، پچھلے کچھ سالوں میں BHIM UPI تیزی سے ہماری اکنامی اور عادتوں کا حصہ بن گیا ہے۔ اب تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں اور زیادہ تر گاؤوں میں بھی لوگ یوپی آئی سے ہی لین دین کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل اکنامی سے ملک میں ایک کلچر بھی پیدا ہو رہا ہے۔ گلی نکڑ کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ڈیجیٹل پیمنٹ ہونے سے انہیں زیادہ سے زیادہ صارفین کو سروس دینا آسان ہو گیا ہے۔ انہیں اب کھلے پیسوں کی بھی دقت نہیں ہوتی۔ آپ بھی یو پی آئی کی سہولت کو روزمرہ کی زندگی میں محسوس کرتے ہوں گے۔ کہیں بھی گئے، کیش لے جانے کا، بینک جانے کا، اے ٹی ایم کھوجنے کا، جھنجھٹ ہی ختم۔ موبائل سے ہی سارے پیمنٹ ہو جاتے ہیں، لیکن، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے ان چھوٹے چھوٹے آن لائن پیمنٹ سے ملک میں کتنی بڑی ڈیجیٹل اکنامی تیار ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کے ٹرانزیکشن ہر دن ہو رہے ہیں۔ پچھلے مارچ کے مہینے میں تو یو پی آئی ٹرانزیکشن تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ اس سے ملک میں سہولت بھی بڑھ رہی ہے اور ایمانداری کا ماحول بھی بن رہا ہے۔ اب تو ملک میں Fin-tech سے جڑے نئے اسٹارٹ اپس بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ کے پاس بھی ڈیجیٹل پیمنٹ اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی اس طاقت سے جڑے تجربات ہیں، تو انہیں شیئر کیجئے۔ آپ کے تجربات دوسرے کئی اور ہم وطنوں کے لیے حوصلہ افزا ہو سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ٹیکنالوجی کی طاقت کیسے عام لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے، یہ ہمیں ہمارے آس پاس لگاتار نظر آ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔ یہ کام ہے دِویانگ ساتھیوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کا فائدہ ملک اور دنیا کو دلانا۔ ہمارے دویانگ بھائی بہن کیا کر سکتے ہیں، یہ ہم نے ٹوکیو پیرالمپکس میں دیکھا ہے۔ کھیلوں کی طرح ہی، آرٹس، اکیڈمکس اور دوسرے کئی شعبوں میں دویانگ ساتھی کمال کر رہے ہیں، لیکن، جب ان ساتھیوں کو ٹیکنالوجی کی طاقت مل جاتی ہے، تو یہ اور بھی بڑے مقام حاصل کرکے دکھاتے ہیں۔ اسی لیے، ملک آج کل لگاتار وسائل اور انفراسٹرکچر کو دویانگوں کے لیے آسان بنانے کے لیے لگاتار کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں ایسے کئی اسٹارٹ اپس اور ادارے بھی ہیں جو اس سمت میں مثالی کام کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ ہے – وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل، یہ ادارہ اسسٹو ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئے مواقع کو پروموٹ کر رہاہے۔ جو دویانگ فنکار ہیں، ان کے کام کو، دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی ایک انوویٹو شروعات کی گئی ہے۔ وائس آف اسپیشلی ایبلڈ پیپل نے ان فنکاروں کی پینٹنگز کی ڈیجیٹل آرٹ گیلری تیار کی ہے۔ دویانگ ساتھی کس طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور ان کے پاس کتنی غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں – یہ آرٹ گیلری اس کی ایک مثال ہے۔ دویانگ ساتھیوں کی زندگی میں کیسے چیلنجز آتے ہیں، ان سے نکل کر، وہ کہاں تک پہنچ سکتے ہیں! ایسے کئی موضوعات کو ان پینٹنگز میں آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اگر کسی دویانگ ساتھی کو جانتے ہیں، ان کے ٹیلنٹ کو جانتے ہیں، تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔ جو دویانگ ساتھی ہیں، وہ بھی اس قسم کی کوششوں سے ضرور جڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک کے زیادہ تر حصوں میں گرمی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی یہ گرمی، پانی بچانے کی ہماری ذمہ داری کو بھی اتنا ہی بڑھا دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی جہاں ہوں، وہاں پانی مناسب مقدار میں دستیاب ہو۔ لیکن، آپ کو ان کروڑوں لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا ہے، جو پانی کی کمی والے علاقوں میں رہتے ہیں، جن کے لیے پانی کی ایک ایک بوند امرت کی طرح ہوتی ہے۔
ساتھیو، اس وقت آزادی کے 75ویں سال میں، آزادی کے امرت مہوتسو میں، ملک جن عزائم کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے، ان میں پانی کا تحفظ بھی ایک ہے۔ امرت مہوتسو کے دوران ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنائے جائیں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی مہم ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آپ کے اپنے شہر میں 75 امرت سروور ہوں گے۔ میں، آپ سبھی سے، اور خاص کر، نوجوانوں سے چاہوں گا کہ وہ اس مہم کے بارے میں جانیں اور اس کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ اگر آپ کے علاقے میں جدوجہد آزادی سے جڑی کوئی تاریخ ہے، کسی فوجی کی یادگار ہے، تو اسے بھی امرت سروور سے جوڑ سکتے ہیں۔ ویسے مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ امرت سروور کا عہد لینے کے بعد کئی جگہوں پر اس پر تیزی سے کام شروع ہو چکا ہے۔ مجھے یوپی کے رامپور کی گرام پنچایت پٹوائی کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ وہاں پر گرام سبھا کی زمین پر ایک تالاب تھا، لیکن وہ، گندگی اور کوڑے کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں بہت محنت کرکے، مقامی لوگوں کی مدد سے، مقامی اسکولی بچوں کی مدد سے، اس گندے تالاب کو درست کیا گیا ہے۔ اب، اس سروور کے کنارے رٹینگ وال، چار دیواری، فوڈ کورٹ، فوارے اور لائٹنگ بھی نہ جانے کیا کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ میں رامپور کی پٹوائی گرام پنچایت کو، گاؤں کو، لوگوں کو، وہاں کے بچوں کو اس کوشش کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، پانی کی دستیابی اور پانی کی قلت، یہ کسی بھی ملک کی ترقی اور رفتار کو متعین کرتے ہیں۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ ’من کی بات‘ میں، میں، صفائی جیسے موضوعات کے ساتھ ہی بار بار پانی کے تحفظ کی بات ضرور کرتا ہوں۔ ہمارے تو گرنتھوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے –
پانیم پرمم لوکے، جیوانام جیونم سمرتم
یعنی، دنیا میں، پانی ہی، ہر ایک جاندار کی زندگی کی بنیاد ہے اور پانی ہی سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے تو ہمارے آباء و اجداد نے پانی کے تحفظ کے لیے اتنا زور دیا۔ ویدوں سے لے کر پرانوں تک، ہر جگہ پانی بچانے کو، تالاب، سروور وغیرہ بنوانے کو، انسانوں کا سماجی اور روحانی فریضہ بتایا گیا ہے۔ والمیکی رامائن میں آبی وسائل کو جوڑنے پر، پانی کے تحفظ پر، خاص زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح، تاریخ کے اسٹوڈنٹ جانتے ہوں گے، سندھو سرسوتی اور ہڑپا تہذیبوں کے دوران بھی ہندوستان میں پانی کو لے کر کتنی ترقی یافتہ انجینئرنگ ہوتی تھی۔ زمانۂ قدیم میں کئی شہر میں آبی ذرائع کا آپس میں انٹر کنیکٹیڈ سسٹم ہوتا تھا اور یہ وہ وقت تھا، جب آبادی اتنی نہیں تھی، قدرتی وسائل کی قلت بھی نہیں تھی، ایک طرح سے فراوانی تھی، پھر بھی، آبی تحفظ کو لے کر، تب، بیداری بہت زیادہ تھی۔ لیکن، آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ میری آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے، آپ اپنے علاقے کے ایسے پرانے تالابوں، کنووں اور سرووروں کے بارے میں جانیں۔ امرت سروور مہم کی وجہ سے پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے کی پہچان بھی بنے گی۔ اس سے شہروں میں، محلوں میں، مقامی سیاحت کی جگہوں بھی تیار ہوں گی، لوگوں کو گھومنے پھرنے کی بھی ایک جگہ ملے گی۔
ساتھیو، پانی سے جڑی ہر کوشش ہمارے کل سے جڑی ہے۔ اس میں پورے سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے لیے صدیوں سے الگ الگ سماج، الگ الگ کوشش لگاتار کرتے آئے ہیں۔ جیسے کہ، ’’کچھ کے رن‘‘ کا ایک قبیلہ ’مالدھاری‘ پانی کے تحفظ کے لیے ’’ورداس‘ نام کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس کے تحت چھوٹے کنویں بنائے جاتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے آس پاس پیڑ پودے لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے بھیل قبیلہ نے اپنی ایک تاریخی روایت ’ہلما‘ کو پانی کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ اس روایت کے تحت اس قبیلہ کے لوگ پانی سے جڑے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ ہلما روایت سے ملے مشوروں کی وجہ سے اس شعبے میں پانی کا بحران کم ہوا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح بھی بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو، ایسی ہی ذمہ داری کا جذبہ اگر سب کے من میں آ جائے تو، آبی بحران سے جڑے بڑے سے بڑے چیلنج کا حل ہو سکتا ہے۔ آئیے، آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم آبی تحفظ اور حیاتی تحفظ کا عہد کریں۔ ہم بوند بوند پانی بچائیں گے اور ہر ایک زندگی بچائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دن پہلے میں نے اپنے نوجوان دوستوں سے، اسٹوڈنٹ سے ’پریکشاپر چرچہ‘ کی تھی۔ اس چرچہ کے دوران کچھ اسٹوڈنٹ نے کہا کہ انہیں امتحان میں ریاضی سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح کی بات کئی طلباء نے مجھے اپنے پیغام میں بھی بھیجی تھی۔ اس وقت ہی میں نے یہ طے کیا تھا کہ ریاضی- میتھ میٹکس پر میں اس بار کے ’من کی بات‘ میں ضرور چرچہ کروں گا۔ ساتھیو، ریاضی تو ایسا سبجیکٹ ہے جسے لے کر ہم ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ آسانی محسوس کرنی چاہیے۔ آخر، ریاضی کو لے کر پوری دنیا کے لیے سب سے زیادہ تحقیق اور تعاون ہندوستان کے لوگوں نے ہی تو دیا ہے۔ صفر، یعنی، زیرو کی کھوج اور اس کی اہمیت کے بارے میں آپ نے خوب سنا بھی ہوگا۔ اکثر آپ یہ بھی سنتے ہوں گے کہ اگر زیرو کی کھوج نہ ہوتی، تو شاید ہم، دنیا کی اتنی سائنسی پیش رفت بھی نہ دیکھ پاتے۔ کیلکولس سے لے کر کمپیوٹر تک – یہ تمام سائنسی ایجادات زیرو پر ہی تو مبنی ہیں۔ بھارت کے ریاضی دانوں اور دانشوروں نے یہاں تک لکھا ہے کہ –
یت کنچت وستو تت سروم، گنی تین بنا نہی!
یعنی، اس پوری کائنات میں جو کچھ بھی ہے، وہ سب کچھ ریاضی پر ہی مبنی ہے۔ آپ سائنس کی پڑھائی کو یاد کیجئے، تو اس کا مطلب آپ کو سمجھ آ جائے گا۔ سائنس کا ہر اصول ایک حسابی فارمولہ میں ہی تو ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیوٹن کے لاء ہوں، آئنسٹائن کا مشہور ایکوئیشن، کائنات سے جڑی پوری سائنس ایک ریاضی ہی تو ہے۔ اب تو سائنس داں Theory of Everything کی بھی چرچہ کرتے ہیں، یعنی ایک ایسا سنگل فارمولہ جس سے کائنات کی ہر چیز کو ظاہر کیا جا سکے۔ ریاضی کے سہارے سائنسی فہم کی اتنی توسیع کا تصور ہمارے رشیوں نے ہمیشہ سے کیا ہے۔ ہم نے اگر صفر کی ایجاد کی، تو ساتھ ہی لا محدود، یعنی انفائنائٹ کو بھی ایکسپریس کیا ہے۔ عام بول چال میں جب ہم اعداد اور نمبر کی بات کرتے ہیں، تو ملین، بلین اور ٹریلین تک بولتے اور سوچتے ہیں، لیکن، ویدوں میں اور ہندوستانی ریاضی میں یہ حساب بہت آگے تک جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک بہت پرانا شلوک مشہور ہے –
ایکم دشم شتم چیو، سہسرم ایونتم تھا
لکشم چ نیوتم چیو، کوٹیہ اربودم ایو چ
ورندم کھروو نکھروہ چ، شنکھہ پدمہ چ ساگرہ
انتیم مدھیم پراردھہ چ، دش وردھیا یتھا کرمم
اس شلوک میں اعداد کی ترتیب بتائی گئی ہے۔ جیسے کہ –
ایک، دس، سو، ہزار اور ایوت
لاکھ، نیوت اور کوٹی یعنی کروڑ
اسی طرح یہ تعداد جاتی ہے – شنکھ، پدم اور ساگر تک۔ ایک ساگر کا مطلب ہوتا ہے کہ 10 کی پاور 57۔ یہی نہیں اس کے آگے بھی، اوگھ اور مہوگھ جیسی اعداد ہوتی ہیں۔ ایک مہوگھ ہوتا ہے – 10 کی پاور 62 کے برابر، یعنی، ایک کے آگے 62 صفر۔ ہم اتنی بڑی تعداد کا تصور بھی دماغ میں کرتے ہیں تو مشکل ہوتی ہے، لیکن ہندوستانی ریاضی میں ان کا استعمال ہزاروں سالوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے سے انٹیل کمپنی کے سی ای او ملے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک پینٹنگ دی تھی، اس میں بھی وامن اوتار کے ذریعے گنتی یا ناپ کے ایک ایسے ہی ہندوستانی طریقے کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ انٹیل کا نام آیا تو کمپیوٹر آپ کے دماغ میں اپنے آپ آ گیا ہوگا۔ کمپیوٹر کی زبان میں آپ نے بائنری سسٹم کے بارے میں بھی سنا ہوگا، لیکن، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں آچاریہ پنگلا جیسے رشی ہوئے تھے، جنہوں نے بائنری کا تصور کیا تھا۔ اسی طرح، آریہ بھٹ سے لے کر رامانوج جیسے ماہر ریاضی دانوں تک ریاضی کے کتنے ہی اصولوں پر ہمارے یہاں کام ہوا ہے۔
ساتھیو، ہم ہندوستانیوں کے لیے ریاضی کبھی مشکل موضوع نہیں رہا، اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ویدک ریاضی بھی ہے۔ دور جدید میں ویدک ریاضی کا کریڈٹ جاتا ہے – جناب بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج کو۔ انہوں نے کیلکولیشن کے پرانے طریقوں کو ریوائیو کیا اور اسے ویدک ریاضی نام دیا۔ ویدک ریاضی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے آپ مشکل سے مشکل حساب پلک جھپکتے ہی من میں ہی کر سکتے ہیں۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر ویدک ریاضی سیکھنے اور سکھانے والے ایسے کئی نوجوانوں کے ویڈیو بھی آپ نے دیکھے ہوں گے۔
ساتھیو، آج ’من کی بات‘ میں ویدک ریاضی سکھانے والے ایک ایسے ہی ساتھی ہمارے ساتھ بھی جڑ رہے ہیں۔ یہ ساتھی ہیں کولکاتا کے گورو ٹیکری وال جی۔ اور وہ گزشتہ دو ڈھائی دہائیوں سے ویدک میتھ میٹکس اس موومنٹ کو پوری جاں فشانی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ آئیے، ان سے ہی کچھ باتیں کرتے ہیں۔
مودی جی – گورو جی نمستے!
مودی جی – میں نے سنا ہے کہ آپ ویدک میتھ کے لیے کافی دلچسپی رکھتے ہیں، بہت کچھ کرتے ہیں۔ تو پہلے تو میں آپ کے بارے میں کچھ جاننا چاہوں گا اور بعد میں اس موضوع میں آپ کی دلچسپی کیسے ہے ذرا مجھے بتائیے؟
گورو – سر جب میں بیس سال پہلے بزنس اسکول کے لیے اپلائی کر رہا تھا، تو اس کا مقابلہ جاتی امتحان ہوتا تھا، جس کا نام ہے کیٹ ۔ اس میں بہت سارے ریاضی کے سوال آتے تھے، جس کو کم وقت میں کرنا پڑتا تھا۔ تو میری ماں نے مجھے ایک بُک لاکر دیا جس کا نام تھا ویدک گنت۔ سوامی شری بھارتی کرشن تیرتھ جی مہاراج نے وہ بُک لکھی تھی۔ اور اس میں انہوں نے 16 سوتر دیے تھے۔ جس میں ریاضی بہت ہی آسان اور بہت ہی تیز ہو جاتا تھی۔ جب میں نے وہ پڑھا تو مجھے بہت حوصلہ ملا اور پھر میری دلچسپی پیدا ہوگی میتھ میٹکس میں۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ یہ سبجیکٹ جو بھارت کی دین ہے، جو ہمارا خزانہ ہے اس کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ تب سے میں نے اس کو ایک مشن بنایا کہ ویدک میتھ کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جائے۔ کیوں کہ ریاضی کا ڈر ہر کسی کو ستاتا ہے۔ اور ویدک ریاضی سے آسان اور کیا ہو سکتا ہے۔
مودی جی – گورو جی کتنے سالوں سے آپ اس میں کام کر رہے ہیں؟
گورو – مجھے آج ہو گئے تقریباً 20 سال سر۔ میں اس میں ہی لگا ہوا ہوں۔
مودی جی – اور اویئرنیس کے لیے کیا کرتے ہیں، کیا کیا تجربے کرتے ہیں، کیسے جاتے ہیں لوگوں کے پاس؟
گورو – ہم لوگ اسکول میں جاتے ہیں، ہم لوگ آن لائن تعلیم دیتے ہیں۔ ہمارے ادارہ کا نام ہے ’ویدک میتھس فورم انڈیا‘۔ اس ادارہ کے تحت ہم لوگ انٹرنیٹ کے توسط سے 24 گھنٹے ویدک میتھ پڑھاتے ہیں سر۔
مودی جی – گورو جی آپ تو جانتے ہیں، میں لگاتار بچوں کے ساتھ بات چیت کرنا پسند بھی کرتا ہوں اور میں موقع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ اور exam warrior سے تو میں بالکل ایک طرح سے میں نے اس کو Institutionalized کر دیا ہے اور میرا بھی تجربہ ہے کہ زیادہ تر جب بچوں سے بات کرتا ہوں، تو ریاضی کا نام سنتے ہی وہ بھاگ جاتے ہیں اور تو میری کوشش یہی ہے کہ یہ بلا وجہ جو ایک ڈر پیدا ہوا ہے اس کو نکالا جائے، یہ ڈر نکالا جائے اور چھوٹی چھوٹی ٹیکنیک جو روایت سے ہے، جو کہ بھارت، ریاضی کے بارے میں کوئی نئی نہیں ہے۔ شاید دنیا میں قدیم روایات میں بھارت کے پاس ریاضی کی روایت رہی ہے، تو exam warrior کو ڈر نکالنا ہے تو آپ کیا کہیں گے ان کو؟
گورو – سر یہ تو سب سے زیادہ مفید ہے بچوں کے لیے، کیوں کہ، ایگزام کا جو ڈر ہوتا ہے، جو ہوّا ہوگیا ہے ہر گھر میں۔ ایگزام کے لیے بچے ٹیوشن لیتے ہیں، والدین پریشان رہتے ہیں۔ ٹیچر بھی پریشان ہوتے ہیں۔ تو ویدک میتھ پندرہ سو پرسینٹ تیز ہے اور اس سے بچوں میں بہت کانفیڈنس آتا ہے اور دماغ بھی تیزی سے چلتا ہے۔ جیسے، ہم لوگ ویدک میتھ کے ساتھ یوگا بھی انٹروڈیوس کیے ہیں، جس سے کہ بچے اگر چاہیں تو آنکھ بند کرکے بھی کیلکولیشن کر سکتے ہیں ویدک میتھ کے ذریعے۔
مودی جی – ویسے دھیان کی جو روایت ہے، اس میں بھی اس طرح سے ریاضی کرنا وہ بھی دھیان کا ایک پرائمری کورس بھی ہوتا ہے۔
گورو – رائٹ سر!
مودی جی – چلئے گورو جی، بہت اچھا لگا مجھے اور آپ نے مشن موڈ میں اس کام کو اٹھایا ہے اور خاص کر آپ کی ماتا جی ایک اچھے گرو کے طور پر آپ کو اس راستے پر لے گئیں۔ اور آج آپ لاکھوں بچوں کو اس راستے پر لے جا رہے ہیں۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
گورو – شکریہ سر! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں سر کہ ویدک میتھ کو آپ نے اہمیت دی اور مجھے منتخب کیا سر! تو we are very thankful۔
مودی جی – بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔
گورو – نمستے سر۔
ساتھیو، گورو جی نے بڑے اچھے طریقے سے بتایا کہ ویدک میتھ کیسے ریاضی کو مشکل سے مزیدار بنا سکتاہ ے۔ یہی نہیں، ویدک میتھ سے آپ بڑے بڑے سائنسی پرابلم بھی سالو کر سکتے ہیں۔ میں چاہوں گا، سبھی والدین اپنے بچوں کو ویدک میتھ ضرور سکھائیں۔ اس سے، ان کا کانفیڈنس تو بڑھے گا ہی، ان کے برین کی اینالیٹکیکل پاور بھی بڑھے گی اور ہاں، ریاضی کو لے کر کچھ بچوں میں جو بھی تھوڑا بہت ڈر ہوتا ہے، وہ ڈر بھی پوری طرح ختم ہو جائے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں آج میوزیم سے لے کر میتھ تک کئی علم افروز موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ یہ تمام موضوعات آپ لوگوں کے مشوروں سے ہی ’من کی بات‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مجھے آپ اسی طرح، آگے بھی اپنے مشورے NaMoApp اور MyGov کے ذریعے بھیجتے رہیے۔ آنے والے دنوں میں ملک میں عید کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ 3 مئی کو اکشے ترتیہ اور بھگوان پرشو رام کی جینتی بھی منائی جائے گی۔ کچھ دن بعد ہی ویشاکھ بدھ پورنیما کا تہوار بھی آئے گا۔ یہ سبھی تہوار تحمل، پاکیزگی، خیرات اور رواداری کے تہوار ہیں۔ آپ سبھی کو ان تہواروں کی پیشگی مبارکباد۔ ان تہواروں کو خوب خوشی اور رواداری کے ساتھ منائیے۔ ان سب کے درمیان، آپ کو کورونا سے بھی محتاط رہنا ہے۔ ماسک لگانا، وقفہ وقفہ پر ہاتھ دھوتے رہنا، بچاؤ کے لیے جو بھی ضروری طریقے ہیں، آپ ان پر عمل کرتے رہیں۔ اگلی بار ’من کی بات‘ میں ہم پھر ملیں گے اور آپ کے بھیجے ہوئے کچھ اور نئے موضوعات پر بات کریں گے – تب تک کے لیے وداع لیتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے ، جس پر ہم سب کو فخر ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ بھارت نے گزشتہ ہفتے 400 بلین ڈالر یعنی 30 لاکھ کروڑ روپئے کا برآمدات کا ہدف حاصل کیا ہے۔ پہلی بار سننے میں لگتا ہے کہ یہ معاملہ معیشت سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ معیشت سے زیادہ بھارت کی صلاحیت، بھارت کی اہلیت سے متعلق معاملہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی برآمدات کبھی 100 بلین ، کبھی 150 بلین ، کبھی 200 بلین تک ہوا کرتی تھی ، اب آج بھارت 400 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت میں بنی چیزوں کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپلائی چین روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے اور اس کا ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ ملک اس وقت بڑے قدم اٹھاتا ہے ، جب عز م خوابوں سے بھی بڑے ہوں۔ جب ان عزم کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایمانداری سے کوشش کی جاتی ہے تو وہ عزم پورے بھی ہوتے ہیں اور آپ دیکھیئے ، کسی شخص کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی کا عزم، اس کی کوشش ، اس کے خوابوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں تو کامیابی ، اُس کے پاس خود چل کر آتی ہے۔
ساتھیو ، ملک کے کونے کونے سے نئی اشیاء نئی اشیا بیرونی ممالک جا رہی ہیں ۔ آسام کے ہیلا کانڈی کی چمڑے کی مصنوعات ہوں یا عثمان آباد کی ہینڈلوم کی مصنوعات، بیجاپور کے پھل اور سبزیاں ہوں یا چندولی کے کالے چاول، سب کی برآمدات بڑھ رہی ہے ۔ اب، آپ کو دوبئی میں لداخ کی دنیا کی مشہور خوبانی بھی ملے گی اور سعودی عرب میں، آپ کو تمل ناڈو سے بھیجے گئے کیلے ملیں گے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نئی مصنوعات نئے ممالک کو بھیجی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماچل، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والے باجرے (موٹے اناج) کی پہلی کھیپ ڈنمارک کو برآمد کی گئی۔ آندھرا پردیش کے کرشنا اور چتور اضلاع سے بنگن پلیّ اور سورن رِکھا آم جنوبی کوریا کو برآمد کئے گئے ۔ تری پورہ سے تازہ کٹہل ہوائی جہاز کے ذریعے لندن برآمد کئے گئے اور پہلی بار ناگالینڈ کی راجہ مرچ لندن بھیجی گئی ۔ اسی طرح بھالیا گیہوں کی پہلی کھیپ گجرات سے کینیا اور سری لنکا کو برآمد کی گئی یعنی اب اگر آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو میڈ ان انڈیا مصنوعات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آئیں گی۔
ساتھیو ، یہ فہرست بہت لمبی ہے اور یہ فہرست جتنی لمبی ہوگی، میک ان انڈیا کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اتنی ہی بھارت کی وسیع صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد ہیں - ہمارے کسان، ہمارے کاریگر، ہمارے بُنکر، ہمارے انجینئر ، ہمارے چھوٹے کاروباری، ہمارا ایم ایس ایم ای سیکٹر، بہت سے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہ سب اس کی حقیقی طاقت ہیں۔ ان کی محنت کی بدولت 400 بلین ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کیا گیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتی عوام کی یہ طاقت اب دنیا کے کونے کونے میں نئی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے۔ جب ایک ایک ہندوستانی لوکل کے ووکل ہوتا ہے ، تب لوکل کو گلوبل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ۔ آئیے لوکل کو گلوبل بنائیں اور اپنی مصنوعات کی ساکھ کو اور بڑھائیں ۔
ساتھیو ، ’ من کی بات ‘ کے سننے والوں کو یہ جان کر اچھا لگے گا کہ گھریلو سطح پر بھی ہمارے چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کامیابی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج ہمارے چھوٹے کاروباری افراد گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم کے ذریعے سرکاری خریداری میں بڑا تعاون کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے انتہائی شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔ جی ای ایم پورٹل کے ذریعے پچھلے ایک سال میں حکومت نے ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی چیزیں خریدی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے تقریباً 1.25 لاکھ چھوٹے کاروباریوں، چھوٹے دکانداروں نے اپنا سامان براہ راست حکومت کو فروخت کیا ہے۔ ایک وقت تھا ، جب صرف بڑی کمپنیاں ہی حکومت کو سامان فروخت کر سکتی تھیں لیکن اب ملک بدل رہا ہے، پرانے نظام بھی بدل رہے ہیں۔ اب چھوٹے دکاندار بھی جی ای ایم پورٹل پر حکومت کو اپنا سامان بیچ سکتے ہیں ۔ یہی تو نیا بھارت ہے۔ وہ نہ صرف بڑے خواب دیکھتا ہے بلکہ اس مقصد تک پہنچنے کی ہمت بھی دکھاتا ہے، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا۔ اس حوصلے کے بل پر ہم سبھی بھارتی مل کر آتم نربھر بھارت کا خواب ضرور پورا کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ نے بابا شیوانند جی کو حال ہی میں منعقد پدم اعزاز کی تقریب میں ضرور دیکھا ہوگا۔ 126 سال کے بزرگ کی پھرتی دیکھ کر میری طرح ہر کوئی حیران رہ گیا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ پلک جھپکتے ہی وہ نندی مدرا میں پرنام کرنے لگے ۔ میں نے بھی بابا شیوانند جی بار بار جھک کر پرنام کیا ۔ 126 سال کی عمر اور بابا شیوانند جی کی فٹنس دونوں آج ملک میں بحث کا موضوع ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کے کمنٹ دیکھے کہ بابا شیوانند اپنی عمر سے چار گنا کم عمر کے لوگوں بھی زیادہ فٹ ہیں۔ واقعی، بابا شیوانند کی زندگی ہم سب کے لئے ایک تحریک ہے۔ میں ان کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوں۔ ان میں یوگ کے تئیں ایک جذبہ ہے اور وہ بہت ہیلتھی لائف اسٹائل جیتے ہیں ۔
जीवेम शरदः शतम्।
ہماری ثقافت میں ہر ایک کو سو سال کی صحت مند زندگی کی دعا دی جاتی ہے۔ ہم 7 اپریل کو ’ صحت کا عالمی دن ‘ منائیں گے۔ آج پوری دنیا میں صحت سے متعلق بھارت کے موقف پر چاہے وہ یوگا ہو یا آیوروید ، اس کے تئیں رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ ابھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ گزشتہ ہفتے قطر میں یوگا پروگرام کا انعقاد کیا گیا ، جس میں 114 ممالک کے شہریوں نے حصہ لے کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی طرح آیوش انڈسٹری کا بازار بھی لگاتار بڑھ رہا ہے۔ 6 سال پہلے آیوروید سے متعلق ادویات کا بازار تقریباً 22 ہزار کروڑ کا تھا۔ آج آیوش مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کروڑ روپئے تک پہنچ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں امکانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں بھی آیوش کشش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔
ساتھیو ، میں نے صحت کے شعبے کے دوسرے اسٹارٹ اپس پر پہلے بھی کئی بار بات کی ہے لیکن اس بار میں آپ سے خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس پر بات کروں گا۔ ایک اسٹارٹ ہے ، کپیوا ! ۔ اس کے نام میں ہی اس کا مطلب پوشیدہ ہے ۔ اس میں ’ کا ‘ کا مطلب ہے – کف ، ’ پی ‘ کا مطلب ہے – پت اور ’ وا ‘ کا مطلب ہے – ’ وات ‘ ۔ یہ اسٹارٹ اپ ہماری روایات کے مطابق صحت مند کھانے کی عادات پر مبنی ہے۔ ایک اور اسٹارٹ اپ، نیروگ اسٹریٹ بھی ہے ، آیوروید حفظان صحت نظام میں ایک انوکھا تصور ہے ۔ اس کا ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارم دنیا بھر کے آیوروید ڈاکٹروں کو براہ راست لوگوں سے جوڑتا ہے۔ 50 ہزار سے زیادہ پریکٹیشنرز اس سے وابستہ ہیں۔ اسی طرح، صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی کا ایک اسٹارٹ اپ اَتریا اننو ویشن ہے ، جو مجموعی تندرستی کے شعبے میں کام کر رہا ہے ۔ ایکسوریل نے نہ صرف اشوگندھا کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کی ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی پیداوار کے عمل پر بھی بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کَیور ویدا نے جدید جڑی بوٹیوں کی تحقیق اور روایتی علم کو ملا کر مکمل زندگی کے لئے غذائی سپلیمنٹس بنائے ہیں۔
ساتھیو ، میں نے ابھی تک صرف چند نام گنوائے ہیں، یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوان صنعت کاروں اور بھارت میں پیدا ہونے والے نئے امکانات کی علامت ہے۔ میری صحت کے شعبے کے اسٹارٹ اپس اور خاص طور پر آیوش اسٹارٹ اپس سے بھی ایک درخواست ہے۔ آپ جو بھی پورٹل آن لائن بناتے ہیں، جو بھی مواد بناتے ہیں، اسے اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ تمام زبانوں میں بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں ، جہاں انگریزی نہ تو اتنی بولی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے ممالک کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی معلومات کی تشہیر کریں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کے آیوش اسٹارٹ اپ اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے ساتھ جلد ہی پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
ساتھیو ، صحت کا براہ راست تعلق صفائی سے ہے۔ ’من کی بات‘ میں ہم ہمیشہ صفائی کے حامیوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک ایسے ہی سووچھ گرہی ہیں - چندرکشور پاٹل جی ۔ وہ مہاراشٹر کے ناسک میں رہتے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے چندرکشور جی کا عزم بہت پختہ ہے۔ وہ گوداوری دریا کے پاس کھڑے رہتے ہیں اور لوگوں کو لگاتار دریا میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی ایسا کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اُسے فوراً منع کرتے ہیں ۔ چندرکشور جی اپنا کافی وقت اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ شام تک ان کے پاس ایسی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، جسے لوگ دریا میں پھینکنے کے لئے لائے ہوتے ہیں۔ چندرکشور جی کی یہ کوشش بیداری میں بھی اضافہ کرتی ہے اور تحریک بھی دیتی ہے۔ اسی طرح ایک اور سووچھ گرہی ہیں - اڑیسہ میں پوری کے راہل مہارانا۔ راہل ہر اتوار کو صبح سویرے پوری میں مقدس مقامات پر جاتے ہیں اور وہاں پلاسٹک کے کچرے کو صاف کرتے ہیں۔ وہ اب تک سینکڑوں کلو پلاسٹک کا کچرا اور گندگی صاف کر چکے ہیں۔ پوری کے راہل ہوں یا ناسک کے چندرکشور، یہ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ شہری ہونے کے ناطے ہم اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، چاہے وہ صفائی ہو، غذائیت ہو یا ویکسینیشن، ان سب کوششوں سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آئیے بات کرتے ہیں ، کیرالہ کے موپٹم سری نارائنن جی کی ۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے ، جس کا نام ہے – ’ پوٹس فار واٹر آف لائف ‘۔آپ جب اِس پروجیکٹ کے بارے میں جانیں گے تو سوچیں گے کہ یہ کیا کمال کام ہے ۔
ساتھیو ، موپٹم سری نارائنن جی مٹی کے برتن تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تاکہ گرمیوں میں جانوروں اور پرندوں کو پانی کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ گرمیوں میں وہ خود بھی جانوروں اور پرندوں کی یہ پریشانی دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ مٹی کے برتن خود ہی بانٹنا شروع کردوں تاکہ دوسروں کا کام صرف ان برتنوں میں پانی بھرنا ہو۔ آپ حیران ہوں گے کہ نارائنن جی کی طرف سے تقسیم کئے گئے برتنوں کی تعداد ایک لاکھ کو پار کرنے جا رہی ہے۔ اپنی مہم میں وہ گاندھی جی کے قائم کردہ سابرمتی آشرم کو ایک لاکھواں برتن عطیہ کریں گے۔ آج جب گرمیوں کے موسم نے دستک دی ہے، نارائنن جی کا یہ کام یقیناً ہم سب کو متاثر کرے گا اور ہم اس گرمی میں اپنے دوست جانوروں اور پرندوں کے لئے پانی کا بھی بندوبست کریں گے۔
ساتھیو ، میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے بھی اپیل کروں گا کہ ہم اپنے عزائم کو پھر سے دوہرائیں ۔ پانی کے ہر قطرے کو بچانے کے لئے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں پانی کی ری سائیکلنگ پر برابر زور دیتے رہنا چاہیئے ۔ گھر میں استعمال ہونے والا پانی گملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، باغبانی میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے ضرور دوبارہ استعمال کرنا چاہیئے ۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنے گھر میں اس طرح کے انتظامات کر سکتے ہیں۔ رحیم داس جی صدیوں پہلے کسی مقصد کے لئے کہہ گئے تھے کہ ’رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سون‘۔ اور پانی بچانے کے اس کام میں مجھے بچوں سے بہت امید ہے ۔ سووچھتا کو جیسے بچوں نے ایک مہم بنایا ہے ، ویسے ہی وہ واٹر واریئر بن کر پانی بچانے میں مدد کر سکتے ہیں ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں پانی کا تحفظ، آبی ذرائع کا تحفظ، صدیوں سے معاشرے کی فطرت کا حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگوں نے پانی کے تحفظ کو زندگی کا مشن بنا لیا ہے ، جیسے چنئی کے ایک ساتھی ہیں ، ارون کرشنامورتی جی! ارون جی اپنے علاقے میں تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 150 سے زائد تالابوں اور جھیلوں کی صفائی کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ساتھی روہن کالے ہیں۔ روہن پیشے کے لحاظ سے ایچ آر پروفیشنل ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے سینکڑوں اسٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے پرانے کنوؤں کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے کنویں سینکڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارے ورثے کا حصہ ہیں۔ سکندرآباد میں بنسی لال-پیٹ کنواں ایک ایسا ہی اسٹیپ ویل ہے ۔ برسوں کی نظر اندازی کی وجہ سے یہ اسٹیپ ویل مٹی اور کچرے سے ڈھک گیا تھا لیکن اب اس اسٹیپ ویل کو بحال کرنے کی مہم عوامی شرکت کے ساتھ شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو ، میں ایک ایسی ریاست سے آیا ہوں ، جہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہی ہے۔ گجرات میں ان سٹیپ ویلوں کو واؤ کہتے ہیں۔ گجرات جیسی ریاست میں واؤ کا بڑا رول رہا ہے۔ ان کنوؤں یا باولیوں کے تحفظ کے لئے ’ جل مندر یوجنا ‘ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ پورے گجرات میں کئی باولیوں کو بحال کیا گیا ہے ۔ اس سے ان علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں بھی کافی مدد ملی ہے ۔ آپ مقامی سطح پر بھی اسی طرح کی مہم چلا سکتے ہیں۔ اگر چیک ڈیم بنانے ہوں تو بارش کے پانی کی ہار ویسٹنگ ہونی چاہیئے ۔ اس میں انفرادی کوشش بھی اہم ہے اور اجتماعی کوششیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے ملک کے ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سروور بنائے جا سکتے ہیں۔ کچھ پرانے سرووروں کو سدھارا جا سکتا ہے، کچھ نئے سروور بنائے جا سکتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس سمت میں کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ مجھے آپ کے پیغامات کئی زبانوں، کئی بولیوں میں ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ مائی گوو پر آڈیو میسیج بھی بھیجتے ہیں۔ بھارت کی ثقافت، ہماری زبانیں، ہماری بولیاں، ہمارا طرز زندگی، کھانے پینے کا تنوع ، یہ تمام تنوع ہماری بڑی طاقت ہیں۔ مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک، یہ تنوع بھارت کو متحد رکھتے ہے، جو ایک بھارت شریشٹھ بھارت بناتا ہے۔ اس میں بھی ہمارے تاریخی مقامات اور اساطیر دونوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اب آپ سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ ’’مادھو پور میلہ‘‘ ہے۔ من کی بات کے سامعین کو یہ جاننا بہت دلچسپ لگے گا کہ مادھو پور میلہ کہاں منعقد ہوتا ہے، کیوں منعقد ہوتا ہے، اس کا بھارت کے تنوع سے کیا تعلق ہے۔
ساتھیو ، مادھو پور میلہ گجرات کے پوربندر میں سمندر کے پاس مادھو پور گاؤں میں لگتا ہے لیکن اس کا بھارت کے مغربی کنارے سے بھی ناطا جڑا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب بھی ایک اساطیری کہانی سے ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے بھگوان کرشن کی شادی شمال مشرق کی ایک شہزادی رکمنی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی پوربندر کے مادھو پور میں ہوئی تھی اور اسی شادی کی علامت کے طور پر آج بھی وہاں مادھو پور میلہ لگتا ہے۔ مشرق اور مغرب کا یہ گہرا رشتہ ہمارا ورثہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب لوگوں کی کوششوں سے مادھو پور میلے میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی والوں کو گھراتی کہا جاتا ہے اور اس میلے میں اب شمال مشرق سے بہت گھراتی بھی آنے لگے ہیں۔ ایک ہفتہ تک چلنے والے مادھو پور میلے میں شمال مشرق کی تمام ریاستوں سے فنکار پہنچتے ہیں، ہنڈی کرافٹ ( دستکاری ) سے جڑے فنکار جرٹے ہیں اور اس میلے کی رونق کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک بھارت کے مشرق اور مغربی کی ثقافت کا یہ ملن ، یہ مادھو پور میلہ، ایک بھارت - شریسٹھا بھارت کی بہت خوبصورت مثال بن رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس میلے کو بارے میں پڑھیں اور معلومات حاصل کریں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک میں آزادی کا امرت مہوتسو ، اب عوامی شرکت کی نئی مثال بن رہا ہے۔ چند روز قبل 23 مارچ کو شہید دِوس پر ملک کے الگ الگ کونوں میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک میں اپنے آزادی کے ہیرو اور ہیرئنوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اسی دن مجھے کولکاتہ کے وکٹوریہ میموریل میں پَبلوبی بھارت گیلری کے افتتاح کا بھی موقع ملا۔ بھارت کے بہادر انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ، یہ اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد گیلری ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے تو آپ اسے دیکھنے ضرور جائیں ۔ ساتھیو ، اپریل کے مہینے میں ہم دو عظیم ہستیوں کا یوم پیدائش بھی منائیں گے۔ ان دونوں نے بھارتی سماج پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ عظیم ہستیاں مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر ہیں۔ مہاتما پھولے کا یوم پیدائش 11 اپریل کو ہے اور ہم 14 اپریل کو بابا صاحب کا یوم پیدائش منائیں گے۔ ان دونوں عظیم انسانوں نے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ مہاتما پھولے نے ، اس دور میں بیٹیوں کے لئے اسکول کھولے، بچیوں کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے پانی کے بحران سے نجات کے لئے بڑی مہم بھی چلائیں ۔
ساتھیو ، مہاتما پھولے کے اس ذکر میں ساوتری بائی پھولے جی کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے بہت سے سماجی اداروں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ایک استاد اور سماجی مصلح کے طور پر انہوں نے معاشرے کو بیدار بھی کیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دونوں ساتھ مل کر ستیہ شودھک سماج قائم کیا ۔ عوام کو بااختیار بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے کاموں میں ہم مہاتما پھولے کا اثر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اندازہ اس معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے، بابا صاحب امبیڈکر کی زندگی سے تحریک لیتے ہوئے، میں تمام والدین اور سرپرستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں۔ بیٹیوں کا اسکول میں داخلے بڑھانے کے لئے کچھ دن پہلے ہی کنیا شکشا پرویش اتسو بھی شروع کیا گیا ہے، جن بیٹیوں کی کسی وجہ سے پڑھائی چھوٹ گئی ہے، انہیں اسکول واپس لانے پر توجہ دی جارہی ہے۔
ساتھیو ، یہ ہم سب کے لئے خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمیں بابا صاحب سے جڑے پنچ تیرتھ کے لئے کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مہو میں ان کی پیدائش کا مقام ہو، ممبئی میں چیتیا بھومی ہو، لندن میں ان کا گھر ہو، ناگپور کی ابتدائی سرزمین ہو، یا دلّی میں بابا صاحب کا مہا پری نروان اِستھل ، مجھے سبھی مقامات پر ، سبھی تیرتھوں پر جانے کا موقع ملا ہے ۔ میں ’من کی بات ‘ کے سامعین سے اپیل کروں گا کہ وہ مہاتما پھولے، ساوتری بائی پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جڑے مقامات کو دیکھنے کے لئے ضرور جائیں ۔ آپ کو وہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات ‘ میں ، اس مرتبہ بھی ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ اگلے مہینے بہت سے تہوار آرہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ہی نوراترے ہیں ۔ نو راترے میں ، ہم وَرت – اُپواس ، شکتی کی پوجا کرتے ہیں یعنی ہماری روایتیں ہمیں خوشیاں منانا بھی سکھاتی ہیں اور تحمل اور ریاض کا درس بھی دیتی ہیں ۔ تحمل اور استقامت بھی ہمارے لئے ایک تہوار ہے، اس لئے نوراترے ہمیشہ ہم سب کے لئے بہت خاص رہے ہیں ۔ نوراترے کے پہلے ہی دن گڈی پروا کا تہوار بھی ہے۔ اپریل میں ہی ایسٹر بھی آتا ہے اور رمضان کے مقدس دن بھی شروع ہو رہے ہیں۔ آیئے ، ہم سب کو ساتھ لے کر اپنے تہوار منائیں ، بھارت کے تنوع کو مضبوط کریں ، سب کی یہی آرزو ہے ۔ اس بار ’ من کی بات ‘ میں اتنا ہی ۔ اگلے مہینے آپ سے نئے موضوعات کے ساتھ پھر ملاقات ہو گی ۔ بہت بہت شکریہ !
میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔
’ من کی بات ‘ میں پھر ایک بار آپ سب کا خیر مقدم ہے ۔ آج ’ من کی بات ‘ کی شروعات ہم ، بھارت کی کامیابی کے ذکر کے ساتھ کریں گے ۔ اس ماہ کے شروع میں بھارت اٹلی سے اپنے ایک قیمتی ورثے کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ ورثہ ہے، اولوکیتیشورا پدم پانی کی ہزار سال سے زیادہ پرانی مورتی ۔ یہ مورتی کچھ سال پہلے بہار میں گیا جی کے دیوی مقام کنڈل پور مندر سے چوری ہو گئی تھی۔ لیکن بہت کوششوں کے بعد ، اب بھارت کو یہ مورتی واپس مل گئی ہے۔ ایسے ہی کچھ سال پہلے تمل ناڈو کے ویلور سے بھگوان آنجنییّر ، ہنومان جی کی مورتی چوری ہو گئی تھی۔ ہنومان جی کی یہ مورتی 600-700 سال پرانی تھی۔ اس مہینے کے شروع میں، آسٹریلیا میں ہمیں یہ ملی ، ہمارے مشن کو مل چکی ہے۔
ساتھیو ، ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ملک کے کونے کونے میں ایک سے بڑھ ایک مورتیاں ہمیشہ بنتی رہی ہیں، ان میں عقیدت بھی تھی، طاقت بھی تھی، ہنر بھی تھا اور تنوع سے بھرا ہوا تھا اور ہماری مورتیوں کی تاریخ میں ، اُس وقت کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ یہ بھارت کی مورتی بنانے کے فن کی نایاب مثالیں تو ہی تھیں ، اِن سے ہماری عقیدت بھی جڑی ہوئی تھی لیکن ماضی میں، بہت سے مورتیاں چوری ہوکر بھارت سے باہر جاتی رہیں ۔ کبھی اِس ملک میں، کبھی اس ملک میں یہ مورتیاں بیچی جاتی رہیں اور ان کے لئے وہ تو صرف فن پارے تھے۔ ان کا تاریخ سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ ہی عقیدت سے کچھ لینا دینا تھا ۔ ان مورتیوں کو واپس لانا بھارت ماں کے تئیں ہمارا فرض تھا ۔ ان مورتیوں میں بھارت کی روح کا عقیدت کا عنصر ہے۔ ان کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھارت نے اپنی کوششیں بڑھائیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوا کہ چوری کا ، جو رجحان تھا ، اُس میں بھی ایک خوف پیدا ہوا۔ جن ممالک میں یہ مورتیاں چوری کرکے لے جائی گئی تھیں ، اب انہیں بھی لگنے لگا کہ بھارت کے ساتھ رشتوں میں سافٹ پاور کا ، جو ڈپلومیٹک چینل ہوتا ہے ، اُس میں ، اِس کی بھی بہت بڑی اہمیت ہو سکتی ہے کیونکہ اِس کے ساتھ بھارت کے احساسات جڑے ہوئے ہیں ، بھارت کی جذبات جڑے ہوئے ہیں اور ایک طرح سے عوام سے عوام کے تعلقات میں بھی یہ بہت طاقت پیدا کرتا ہے ۔ ابھی آپ نے کچھ دن پہلے دیکھا ہوگا کہ کاشی سے چوری ہونے والی ماں اناپورنا دیوی کی مورتی بھی واپس لائی گئی تھی۔ یہ بھارت کے لئے بدلتے ہوئے عالمی نقطہ نظر کی ایک مثال ہے۔ سال 2013 ء تک تقریباً 13 مورتیاں بھارت آئی تھیں لیکن، پچھلے سات سالوں میں، بھارت کامیابی سے 200 سے زیادہ انمول مورتیوں کو واپس لا چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، کناڈا ، جرمنی، سنگاپور، ایسے کئی ممالک نے بھارت کے جذبات کو سمجھا ہے اور مورتیاں واپس لانے میں ہماری مدد کی ہے۔ جب میں پچھلے سال ستمبر میں امریکہ گیا تھا تو وہاں مجھے کافی پرانی پرانی بہت سی مورتیاں اور ثقافتی اہمیت کی بہت سی چیزیں ملیں ۔ ملک کا جب کوئی بھی قیمتی ورثہ واپس ملتا ہے تو تاریخ میں احترام رکھنے والے ، آثار قدیمہ پر یقین رکھتے ہیں، عقیدے اور ثقافت سے جڑے ہوئے لوگ اور ایک بھارتی کے طور پر ، ہم سب کو ، اطمینان ملنا بہت فطری بات ہے۔
ساتھیو، بھارتی ثقافت اور ہمارے ورثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، آج میں آپ کو ’من کی بات ‘ میں دو لوگوں سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ان دنوں تنزانیہ کے دو بہن بھائی کلی پال اور ان کی بہن نیما فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کافی خبروں میں ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے بھی ان کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ ان کے اندر بھارتی موسیقی کو لے کر ایک جنون ہے ، ایک دیوانگی ہے اور اسی وجہ سے وہ بہت مقبول بھی ہیں۔ ہونٹوں کی حرکت کے اُن کے طریقے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے وہ کتنی زیادہ محنت کرتے ہیں۔ حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمارا قومی ترانہ ’ جن گن من ‘ گاتے ہوئے ، ان کا ایک ویڈیو خوب وائرل ہوا تھا۔ کچھ دن پہلے، انہوں نے ایک گانا گا کر لتا دیدی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا ۔ میں ان دونوں بھائی بہن کلی اور نیما کی اس شاندار تخلیقی صلاحیتوں کی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہیں کچھ روز پہلے تنزانیہ میں بھارتی سفارت خانے میں بھی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ بھارتی موسیقی کا جادو کچھ ایسا ہے ، جو سب کو مسحور کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں کے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اپنے ملبوسات میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن، ’ ویشنو جن ‘ گانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا ۔
آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75ویں سال کا اہم تہوار منا رہا ہے تو ایسے ہی تجربات حب الوطنی کے گیتوں کے حوالے سے کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں غیر ملکی شہریوں کو ، وہاں کے مشہور گلوکاروں کو بھارتی حب الوطنی کے گیت گانے کے لئے مدعو کریں۔ یہی نہیں، اگر تنزانیہ میں کلی اور نیما بھارت کے گانوں کو اس طرح لِپ سِنک کر سکتے ہیں، تو کیا میرے ملک میں ، کئی طرح کے گانے ہمارے ملک کی کئی زبانوں میں ہیں، کیا ہم کوئی ، گجراتی بچے تمل گانے پر کریں ، کوئی کیرل کے بچے آسامی گیت پر کریں ، کوئی کنڑ بچے جموں و کشمیر کے گیتوں پر کریں ۔ ہم ایسا ماحول بنا سکتے ہیں ، جس میں ہم ’ایک بھارت-شریشٹھ بھارت ‘ کا تجربہ کر سکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، ہم آزادی کے امرت مہوتسو کو یقینی طور پر ایک نئے انداز میں منا سکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں، آئیے اپنے طریقے سے بھارتی زبانوں کے مقبول گانوں کی ویڈیو بنائیں، آپ بہت مقبول ہوجائیں گے اور ملک کے تنوع سے نئی نسل متعارف ہو گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہم نے مادری زبان کا دن منایا۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ اس بارے میں کافی علمی معلومات دے سکتے ہیں کہ مادری زبان کا لفظ کہاں سے آیا، اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ میں تو مادری زبان کے لئے یہی کہوں گا کہ جس طرح ہماری ماں ہماری زندگی بناتی ہے، اسی طرح مادری زبان بھی ہماری زندگی بناتی ہے۔ ماں اور مادری زبان مل کر زندگی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔ جس طرح ہم اپنی ماں کو نہیں چھوڑ سکتے ، اسی طرح ہم اپنی مادری زبان کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے سالوں پہلے کی ایک بات یاد ہے، جب میرا امریکہ جانا ہوا تو مجھے مختلف خاندانوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا ۔ ایک بار میں ایک تیلگو خاندان کے پاس گیا تو وہاں ایک بہت ہی خوشگوار منظر دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے خاندان میں ایک اصول بنا رکھا ہے کہ چاہے جتنا بھی کام ہو لیکن اگر ہم شہر سے باہر نہ ہوں تو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور دوسرا ، یہ لازمی ہےکہ کھانے کی میز پر صرف تیلگو زبان میں ہی بات کریں گے۔ وہاں جو بچے پیدا ہوئے ، ان کے لئے بھی یہی اصول تھا۔ اپنی مادری زبان سے ، اُن کی محبت کو دیکھ کر میں اس خاندان سے بہت متاثر ہوا تھا ۔
ساتھیو، آزادی کے 75 سال بعد بھی کچھ لوگ ایسی ذہنی کشمکش میں جی رہے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے کھانے پینے کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا ہے، جب کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان ہے، ہمیں اسے فخر سے بولنا چاہیئے اور ہمارا بھارت تو زبانوں کے معاملے میں اتنا امیر ہے کہ اس کا تو موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری زبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کشمیر سے کنیا کماری تک، کچھ سے کوہیما تک، سینکڑوں زبانیں، ہزاروں بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے میں رچی بسی ہوئی ہیں – زبانیں انیک تاثرات ایک ۔ صدیوں سے ہماری زبانیں ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے خود کو نکھارتی رہی ہیں، ایک دوسرے کی نشوونما کرتی رہی ہیں ۔ تمل بھارت میں دنیا کی قدیم ترین زبان ہے اور ہر بھارتی کو اس پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے پاس دنیا کا اتنا بڑا ورثہ ہے۔ اسی طرح جتنے قدیم دھرم شاستر ہیں، وہ بھی ہماری سنسکرت زبان میں ہیں ۔ بھارت کے لوگ، تقریباً 121، یعنی ہمیں فخر ہوگا کہ 121 قسم کی مادری زبانوں سے ہم جڑے ہوئے ہیں اور ان میں 14 زبانیں تو ایک کروڑ سے زیادہ لوگ روزمرہ کی زندگی میں بولتے ہیں۔ یعنی جتنے یورپی ممالک کی کل آبادی نہیں ہے، اس سے زیادہ لوگ ہمارے ملک میں 14 مختلف زبانوں سے وابستہ ہیں۔ سال 2019 ء میں ہندی دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ ہر بھارتی کو اس پر بھی فخر ہونا چاہیئے۔ زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ زبان معاشرے کی ثقافت اور ورثے کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔ اپنی زبان کی ثقافت کو محفوظ کرنے کا ایسا ہی کام سورینام میں سُرجن پروہی جی کر رہے ہیں ۔ وہ اس مہینے کی 2 تاریخ کو 84 سال کے ہو ئے ہیں ۔ ان کے اجداد بھی سالوں پہلے روزی کمانے کے لئے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ سورینام گئے تھے۔ سرجن پروہی جی ہندی میں بہت اچھی شاعری لکھتے ہیں، ان کا نام وہاں کے قومی شاعروں میں لیا جاتا ہے یعنی آج بھی ان کے دل میں بھارت دھڑکتا ہے، ان کے کاموں میں بھارتی مٹی کی خوشبو ہے۔ سورینام کے لوگوں نے سرجن پروہی جی کے نام پر ایک میوزیم بھی بنایا ہے۔ یہ میرے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے کہ سال 2015 ء میں مجھے ان کی عزت افزائی کا موقع ملا۔
ساتھیو، آج کے دن یعنی 27 فروری کو مراٹھی زبان کے فخر کا دن بھی ہے۔
’’ سَرو مراٹھی بندھو بھگی نینا مراٹھی بھاشا دِناچیا ہاردِک شوبھیچھا ‘‘
یہ دن مراٹھی شاعر ، وشنو بامن شرواڈکر جی، شریمان کسوماگرج جی کے لئے وقف ہے۔ آج ہی کسوماگرج جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ کسوماگرج جی نے مراٹھی میں نظمیں لکھیں، بہت سے ڈرامے لکھے، مراٹھی ادب کو نئی بلندیاں دیں۔
ساتھیو، ہمارے یہاں زبان کی اپنی خوبیاں ہیں، مادری زبان کی اپنی سائنس ہے۔ اس سائنس کو سمجھتے ہوئے ہی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ کوششیں جاری ہیں کہ ہمارے پیشہ ورانہ کورسز کو بھی مقامی زبان میں پڑھائے جائیں ۔ آزادی کے امرت کال میں ، ہم سب کو مل کر اس کوشش کو بہت زیادہ رفتار دینی چاہیئے، یہ عزت نفس کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ جو بھی مادری زبان بولتے ہیں، اُس کی خوبیوں کے بارے میں ضرور جانیں اور کچھ نہ کچھ لکھیں ۔س
ساتھیو، کچھ دن پہلے میری ملاقات ، میرے دوست اور کینیا کے سابق وزیر اعظم رائلا اوڈنگا جی سے ہوئی تھی ۔ یہ ملاقات دلچسپ تو تھی ہی لیکن بہت جذباتی بھی تھی۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں تو ہم کھل کر بات بھی کرلیتے ہیں۔ جب ہم دونوں باتیں کر رہے تھے تو اوڈنگا جی نے اپنی بیٹی کے بارے میں بتایا۔ ان کی بیٹی روزمیری کو برین ٹیومر ہوگیا تھا ، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کی سرجری کرانی پڑی تھی لیکن اس کا ایک برا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی تقریباً چلی گئی، دکھائی دینا ہی بند ہو گیا ۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بیٹی کے ساتھ کیا گزری ہو گی اور ہم ایک باپ کی حالت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، اس کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے اسپتالوں میں ، دنیا کا کوئی بڑا ملک نہیں ہوگا، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے علاج کے لئے پوری کوشش نہ کی ہو۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں تلاش کیا لیکن کامیابی نہ ملی اور ایک طرح سے تمام امیدیں چھوڑ کر پورے گھر میں مایوسی کا ماحول چھا گیا۔ اس میں کسی نے انہیں آیوروید کے علاج کے لئے بھارت آنے کا مشورہ دیا اور وہ بہت کچھ کر چکے تھے، تھک بھی چکے تھے، پھر بھی سوچا کہ چلو ایک بار آزمائیں، کیا ہوتا ہے؟ وہ بھارت آئے ، کیرالہ کے ایک آیورویدک اسپتال میں اپنی بیٹی کا علاج کرانا شروع کیا ۔ کافی وقت بیٹی یہاں رہی ۔ آیوروید کے اس علاج کا اثر یہ ہوا کہ روزمیری کی بینائی کافی حد تک واپس آگئی۔ آپ سوچ سکتے ہیں، جیسے ایک نئی زندگی مل گئی اور روزمیری کی زندگی میں تو روشنی آگئی لیکن پورے خاندان میں بھی ایک نئی روشنی ، نئی زندگی آگئی ہے اور اوڈنگا جی اتنے جذباتی ہو کر مجھے یہ بات بتا رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ بھارت کا آیوروید کا علم ایک سائنس ہے، اسے کینیا میں لے جائیں ۔ اس میں ، جس قسم کے پودے استعمال کئے جاتے ہیں ، وہ ان پودوں کی کاشت کریں گے اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔
میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری سرزمین اور روایت سے اتنا بڑا دکھ کسی کی زندگی سے دور ہو گیا۔ یہ سن کر آپ کو بھی خوش ہو گی۔ کون ایسا بھارتی ہوگا ، جسے اس پر فخر نہ ہو؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف اوڈنگا جی بلکہ دنیا کے لاکھوں لوگ آیوروید سے اسی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
برطانیہ کے پرنس چارلس بھی آیوروید کے بڑے مداحوں میں سے ایک ہیں۔ جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی ہے ، وہ آیوروید کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ انہیں بھارت کے کئی آیورویدک اداروں کی جانکاری بھی ہے ۔
ساتھیو، پچھلے سات سالوں میں ملک میں آیوروید کے فروغ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آیوش کی وزارت کی تشکیل نے ہمارے روایتی طریقوں اور صحت کو مقبول بنانے کے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں آیوروید کے میدان میں بہت سے نئے اسٹارٹ اپس ابھرے ہیں۔ اسی مہینے کی شروعات میں آیوش اسٹارٹ اپ چیلنج شروع ہوا تھا۔ اس چیلنج کا مقصد اس شعبے میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی شناخت اور مدد کرنا تھا ۔ اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوانوں سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس چیلنج میں ضرور حصہ لیں۔
ساتھیو، ایک بار جب لوگ مل کر کچھ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، تو وہ شاندار کام کر جاتے ہیں۔ معاشرے میں اس طرح کی کئی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں عوامی شراکت، اجتماعی کوشش نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی ہی ایک عوامی تحریک جس کا نام ’’مشن جل تھل‘‘ ہے ، کشمیر کے سری نگر میں جاری ہے۔ سری نگر کی جھیلوں اور تالابوں کو صاف کرنے اور انہیں ان کی پرانی شان میں بحال کرنے کی یہ ایک انوکھی کوشش ہے۔ ’’ مشن جل تھل‘‘ کا فوکس ’’ کشل سار ‘‘ اور ’’ گل سار ‘‘ پر ہے۔ اس میں عوام کی شرکت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بہت مدد لی جا رہی ہے۔ یہ جاننے کے لئے کہ کہاں کہاں تجاوزات ہیں، کہاں غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں، اس علاقے کا سروے کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پلاسٹک کے کچرے کو ہٹانے اور کچرے کو صاف کرنے کی مہم بھی چلائی گئی۔ مشن کے دوسرے مرحلے میں پرانے واٹر چینلوں اور جھیل کو بھرنے والے 19 چشموں کی بحالی کے لئے بھی کافی کوشش کی گئی۔ اس بحالی پر؎وجیکٹ کی اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کے لئے مقامی لوگوں اور نوجوانوں کو واٹر ایمبیسیڈر بھی بنایا گیا۔ اب یہاں کے مقامی لوگ بھی ’’ گل سار جھیل ‘‘ میں ہجرت کرنے والے پرندوں اور مچھلیوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ میں سری نگر کے لوگوں کو اس شاندار کاوش کے لئے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، ملک نے آٹھ سال پہلے ، جو ’ سووچھ بھارت مشن ‘ شروع کیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا، نئی اختراعات بھی شامل ہوئیں۔ آپ بھارت میں ، جہاں بھی جائیں، آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ صفائی کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ آسام کے کوکرا جھار میں مجھے ایسی ہی ایک کوشش کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں مارننگ واکرز کے ایک گروپ نے ’ سووچھ اور ہرِت کوکراجھار ‘ مشن کے تحت ایک بہت ہی قابل تعریف پہل کی ہے۔ ان سب نے نئے فلائی اوور کے علاقے میں تین کلو میٹر طویل سڑک کی صفائی کرکے صفائی کا تحریکی پیغام دیا۔ اسی طرح وشاکھاپٹنم میں ’ سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت پولی تھین کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ ماحول کو صاف رکھنے کے لئے سنگل یوز پلاسٹک کی مصنوعات کے خلاف مہم بھی چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ گھروں میں ہی کچرے کو الگ کرنے کے لئے بیداری بھی پھیلا رہے ہیں۔ ممبئی کے سومیا کالج کے طلباء نے صفائی کی اپنی مہم میں خوبصورتی کو بھی شامل کر لیا ہے۔ انہوں نے کلیان ریلوے اسٹیشن کی دیواروں کو خوبصورت پینٹنگز سے سجایا ہے۔ راجستھان میں سوائی مادھوپور کی ایک متاثر کن مثال بھی میرے علم میں آئی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے رَنتھمبور میں ’ مشن بیٹ پلاسٹک ‘نام سے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے ، جس میں رنتھمبور کے جنگلات سے پلاسٹک اور پولی تھین کو ہٹا یا گیا ہے۔ ہر کسی کی کوشش کا یہ جذبہ ملک میں عوام کی شرکت کو تقویت دیتا ہے اور جب عوامی شرکت ہو تو بڑے سے بڑے مقاصد ضرور پورے ہوتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دن بعد یعنی 8 مارچ کو پوری دنیا میں ’خواتین کا عالمی دن ‘منایا جائے گا۔ ’ من کی بات ‘میں ہم خواتین کی ہمت، ہنر اور مہارت سے متعلق بہت سی مثالیں شیئر کر تے رہے ہیں۔ آج چاہے اسکل انڈیا ہو، سیلف ہیلپ گروپ ہو یا چھوٹی بڑی صنعتیں ہوں ، خواتین ہر جگہ آگے بڑھی ہیں۔ آج کسی بھی طرف دیکھئے ، خواتین پرانی روایتوں کو توڑ رہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں خواتین پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت تک مختلف شعبوں میں نئیبلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ فوج میں بھی اب بیٹیاں نئے اور بڑے کرداروں میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور ملک کی حفاظت کر رہی ہیں۔ پچھلے مہینے یوم جمہوریہ پر ہم نے دیکھا کہ جدید لڑاکا طیارے بھی بیٹیا اڑا رہی ہیں ۔ ملک نے سینک اسکولوں میں بیٹیوں کے داخلے پر پابندی بھی ہٹا دی ہے اور ملک بھر کے فوجی اسکولوں میں بیٹیاں داخلہ لے رہی ہیں۔ اسی طرح اسٹارٹ اپ کو دیکھ لیں، پچھلے سالوں میں ملک میں ہزاروں نئے اسٹارٹ اپس شروع ہوئے۔ ان میں سے تقریباً آدھے اسٹارٹ اپس میں ڈائریکٹر کے کردار میں خواتین ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ میں خواتین کے لئے زچگی کی چھٹی بڑھانے جیسے فیصلے کئے گئے ہیں۔ بیٹے اور بیٹیوں کو مساوی حقوق دیتے ہوئے شادی کی عمر کو برابر کرنے کی ملک کوشش کر رہا ہے۔ اس سے ہر شعبے میں خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ آپ ملک میں ایک اور بڑی تبدیلی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ تبدیلی ہے - ہماری سماجی مہمات کی کامیابی ۔ ’ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کی کامیابی کو لے لیں، آج ملک میں جنسی تناسب بہتر ہوا ہے۔ اسکول جانے والی بیٹیوں کی تعداد میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس میں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہماری بیٹیاں درمیان میں اسکول نہ چھوڑیں۔ اسی طرح ملک میں خواتین کو ’سووچھ بھارت ابھیان ‘ کے تحت کھلے میں رفع حاجت سے آزادی ملی ہے۔ تین طلاق جیسی سماجی برائی بھی ختم ہو رہی ہے ۔ جب سے تین طلاق کے خلاف قانون نافذ ہوا ہے، ملک میں تین طلاق کے معاملات میں 80 فی صد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں یہ ساری تبدیلیاں کیسے ہو رہی ہیں؟ یہ تبدیلیاں اس لئے آ رہی ہے کہ اب خواتین خود ہمارے ملک میں تبدیلی اور ترقی کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 28 فروری کو ’ قومی سائنس کا دن ‘ ہے۔ یہ دن رمن ایفیکٹ کی دریافت کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ میں ، سی وی رمن جی کے ساتھ ساتھ، میں ان تمام سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ہمارے سائنسی سفر کو تقویت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھیو، ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں آسانی اور سادگی میں کافی جگہ بنا لی ہے۔ کون سی ٹیکنالوجی اچھی ہے، کون سی ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال، ہم ان تمام موضوعات سے بخوبی واقف ہی ہیں۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے خاندان کے بچوں کے لئے اس ٹیکنالوجی کی بنیاد کیا ہے، اس کے پیچھے سائنس کیا ہے، ہماری توجہ اس طرف جاتی ہی نہیں ۔ اس سائنس ڈے پر، میں تمام خاندانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کوششوں سے ضرور آغاز کریں۔ اب جیسے دکھتا نہیں ہے ، عینک لگانے کے بعد صاف دکھنے لگتا ہے تو بچوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے سائنس کیا ہے ۔ بس عینک سے دیکھیں ، مزہ کریں ، اتنا نہیں۔ اب آپ آرام سے اسے ایک کاغذ پر بتا سکتے ہیں۔ اب وہ موبائل فون استعمال کرتا ہے، کیلکولیٹر کیسے کام کرتا ہے، ریموٹ کنٹرول کیسے کام کرتا ہے، سینسرز کیا ہیں؟ یہ سائنسٹفک باتیں ، اس کے ساتھ ساتھ گھر میں بات چیت میں ہوتی ہیں کیا ؟ ہو سکتی ہے بڑے آرام سے ، ہم اِن چیزوں کو گھر کی روز مرہ کی زندگی کے پیچھے کیا سائنس ہے کہ وہ کون سی بات ہے ، جو کر رہی ہے ، اس کو سمجھا سکتے ہیں ۔ اسی طرح کیا ہم نے کبھی آسمان میں بچوں کو ایک ساتھ لے کر دیکھا ہے کیا ؟ رات میں ستاروں کے بارے میں بھی بات ہوئی ہوں ۔ مختلف قسم کے برج دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں بتائیں۔ ایسا کرنے سے آپ بچوں میں فزکس اور فلکیات کی طرف ایک نیا رجحان پیدا کر سکتے ہیں۔ آج کل تو ایسی بہت سی ایپس بھی ہیں، جن کے ذریعے آپ ستاروں اور سیاروں کا پتہ لگا سکتے ہیں یا آپ آسمان پر نظر آنے والے ستارے کی شناخت کر سکتے ہیں، آپ اس کے بارے میں جان بھی سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپس سے بھی کہوں گا کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور سائنسی کردار کو قوم کی تعمیر سے متعلق کام میں استعمال کریں۔ یہ ملک کے تئیں ہماری اجتماعی سائنسی ذمہ داری بھی ہے۔ جیسے آج کل ، میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے اسٹارٹ اپ ورچوئل رئیلٹی کی دنیا میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ورچوئل کلاسز کے اس دور میں بچوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ہی ایک ورچوئل لیب بنائی جا سکتی ہے۔ ہم ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے کیمسٹری لیب کا تجربہ بھی کرا سکتے ہیں۔ میری اساتذہ اور والدین سے درخواست ہے کہ وہ تمام طلباء اور بچوں کو سوالات کرنے کی ترغیب دیں اور ان کے ساتھ مل کر سوالات کے صحیح جوابات تلاش کریں۔ آج، میں کورونا کے خلاف لڑائی میں بھارتی سائنسدانوں کے کردار کی بھی ستائش کرنا چاہوں گا۔ ان کی محنت کی وجہ سے میڈ ان انڈیا ویکسین تیار کرنا ممکن ہوا ، جس سے پوری دنیا کو کافی مدد ملی ہے۔ یہ انسانیت کو سائنس کا تحفہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ آنے والے مارچ کے مہینے میں بہت سے تہوار آ رہے ہیں - شیو راتری آ رہی ہے اور اب کچھ دنوں کے بعد آپ سب ہولی کی تیاری میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہولی ، ہمیں متحد کرنے والا تہوار ہے۔ اس میں اپنے – پرائے ، چھوٹے بڑے کے تمام فرق مٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں ، ہوکی کے رنگوں سے بھی زیادہ گہرا رنگ ، ہولی کی محبت اور ہم آہنگی کا ہوتا ہے ۔ ہولی میں گجیا کے ساتھ ساتھ رشتوں کی انوکھی مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ ان رشتوں کو ہمیں اور مضبوط کرنا ہے اور یہ رشتہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی ہے ، جو آپ کے بڑے خاندان کا حصہ ہیں۔ اس کا سب سے اہم طریقہ بھی آپ کو یاد رکھنا ہے۔ یہ طریقہ ہے - ’ ووکل فار لوکل ‘ کے ساتھ تہوار منانے کا ۔ آپ تہواروں پر مقامی مصنوعات کی خریداری کریں ، جس سے آپ کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی زندگی میں بھی رنگ بھرے ، رنگ رہے ، امنگ رہے ۔ جس کامیابی کے ساتھ ہمارا ملک کورونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، اُس سے تہواروں میں جوش بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی جوش کے ساتھ ہمیں اپنے تہوار منانے ہیں اور ساتھ ہی اپنی احتیاط بھی برقرار رکھنی ہے۔ میں آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ آپ کے باتوں کا ، آپ کے خطوط کا ، آپ کے پیغامات انتظار رہے گا ۔ بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ،30 جنوری / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج ’ من کی بات ‘ کے ایک اور ایپیسوڈ کے ذریعے ہم ایک ساتھ جڑ رہے ہیں ۔ یہ 2022 ء کی پہلی ’ من کی بات ‘ ہے ۔ آج ہم پھر ایسے تبادلۂ خیال کو آگے بڑھائیں گے، جو ہمارے ملک اور ہم وطنوں کی مثبت تحریکوں اور اجتماعی کوششوں سے جڑے ہوتے ہیں ۔ آج ہمارے قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کی برسی بھی ہے۔ 30 جنوری کا یہ دن ہمیں باپو کی تعلیمات کی یاد دلاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے یوم ِ جمہوریہ بھی منایا۔ دلّی میں راج پتھ پر ، ہم نے ملک کی بہادری اور طاقت کی ، جو جھانکی دیکھی ، اُس نے سب کو فخر اور جوش سے بھر دیا۔ ایک تبدیلی ، جو آپ نے دیکھی ہوگی، اب یوم ِ جمہوریہ کی تقریبات 23 جنوری یعنی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم ِپیدائش سے شروع ہوں گی اور 30 جنوری تک یعنی گاندھی جی کی برسی تک جاری رہیں گی۔ انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا ڈیجیٹل مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس بات کا ، جس طرح سے ، ملک نے خیر مقدم کیا، ملک کے ہر کونے سے ، جو خوشی کی لہر اٹھی، ملک کے ہر باشندے نے ، جس طرح کے جذبات کا اظہار کیا ، اسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے ۔
ساتھیو ، ملک آزادی کے امرت مہوتسو میں ، ان کوششوں سے اپنی قومی علامتوں کو دوبارہ قائم کر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انڈیا گیٹ کے قریب ’امر جوان جیوتی ‘ اور اس کے قریب ہی ’ نیشنل وار میموریل ‘ ( قومی جنگی یادگار ) پر جلنے والی جیوتی کو آپس میں ضم کیاگیا ۔ اس جذباتی موقع پر بہت سے اہل وطن اور شہدا کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آزادی کے بعد سے شہید ہونے والے ملک کے تمام بہادروں کے نام ’نیشنل وار میموریل ‘ میں کندہ کئے گئے ہیں۔ کچھ سابق فوجیوں نے مجھے لکھا ہے کہ ’’شہیدوں کی یاد کے سامنے جلائی جانے والی ’امر جوان جیوتی‘ شہیدوں کے امر ہونے کی علامت ہے۔ حقیقت میں ، ’امر جوان جیوتی ‘ کی طرح ہمارے شہید ، ان کی تحریک اور ان کا تعاون بھی امر ہے۔ میں آپ سب سے کہوں گا کہ جب بھی آپ کو موقع ملے ’نیشنل وار میموریل‘ ضرور جائیں ۔ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ یہاں آپ کو ایک مختلف توانائی اور تحریک کا تجربہ ہوگا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کی ان تقریبات کے درمیان ملک میں کئی اہم قومی اعزازات بھی دیئے گئے۔ اُن میں سے ایک ہے ’ وزیر اعظم کا ’ راشٹریہ بال پرسکار ‘ ۔ یہ ایوارڈز ، ان بچوں کو دیئے جاتے ہیں ، جنہوں نے کم عمری میں جرات مندانہ اور متاثر کن کام کئے ہے۔ ہم سب کو اپنے گھروں میں ان بچوں کے بارے میں بتانا چاہیئے۔ ان سے ہمارے بچے بھی تحریک حاصل کریں گے اور ان کے اندر بھی ملک کا نام روشن کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا ۔ ملک میں پدم ایوارڈ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ایسے بہت سے نام ہیں ،جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے غیر معروف ہیرو ہیں، جنہوں نے عام حالات میں غیر معمولی کام کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ کی بسنتی دیوی کو پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ بسنتی دیوی نے اپنی پوری زندگی جدوجہد کے درمیان گزاری۔ ان کے شوہر کا کم عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور وہ ایک آشرم میں رہنے لگیں ۔ یہاں رہ کر ، انہوں نے دریا کو بچانے کے لئے جدوجہد کی اور ماحولیات کے لئے غیر معمولی تعاون کیا ۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بھی بہت کام کیا ہے۔ اسی طرح منی پور سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ لوریبم بینو دیوی کئی دہائیوں سے منی پور کے لیبا ٹیکسٹائل آرٹ کا تحفظ کر رہی ہیں۔ انہیں بھی پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ارجن سنگھ کو بیگا قبائلی رقص کے فن کو پہچان دلناے کے لئے پدم ایوارڈ ملا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک اور شخص جناب امائی مہا لینگا نائک ہیں۔ وہ ایک کسان ہیں اور کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ٹنل مین بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے زراعت میں ایسی ایسی ایجادات کی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر ایک حیران رہ جائے ۔ چھوٹے کسانوں کو ، ان کی کوششوں کا بہت زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے غیر معروف ہیرو ہیں ، جنہیں ملک نے ان کی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ کو ضرور ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ زندگی میں ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، امرت مہوتسو پر، آپ سب ساتھی مجھے بہت سے خطوط اور پیغامات بھیجتے ہیں، بہت سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ اس سیریز میں کچھ ایسا ہوا ، جو میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچوں نے اپنے ’من کی بات ‘ پوسٹ کارڈ کے ذریعے لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ ایک کروڑ پوسٹ کارڈ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہیں، بیرون ملک سے بھی آئے ہیں۔ میں نے وقت نکال کر ، ان میں سے بہت سے پوسٹ کارڈز کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پوسٹ کارڈ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کے لئے ہماری نئی نسل کا ویژن کتنا وسیع اور کتنا بڑا ہے۔ میں نے ’ من کی بات ‘کے سننے والوں کے لئے کچھ پوسٹ کارڈوں کو چنا ہے ، جنہیں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ گوہاٹی، آسام سے رِدھیما سورگیاری کا پوسٹ کارڈ اس طرح ہے۔ رِدھیما ساتویں جماعت کی طالبہ ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ آزادی کے 100ویں سال میں ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے ، جو دنیا کا سب سے صاف ستھرا ملک ہو، دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد ہو، سو فی صد خواندہ ممالک میں شامل ہو، حادثوں سے پاک ملک ہو اور پائیدار ٹیکنالوجی کے ساتھ خوراک کی سکیورٹی کے قابل ہو ۔ رِدھیما، ہماری بیٹیاں جو بھی سوچتی ہیں، جو خواب وہ ملک کے لئے دیکھتی ہیں، وہ تو پورے ہوتے ہی ہیں۔ جب سب کی کوششیں شامل ہوں گی، آپ کی نوجوان نسل اسے ایک مقصد بنانے کے لئے کام کرے گی، پھر آپ جس طرح سے ہندوستان بنانا چاہتے ہیں، وہ ضرور بنے گا۔ میرے پاس اتر پردیش کے پریاگ راج کی نویا ورما کا پوسٹ کارڈ بھی ہے۔ نَویا نے لکھا ہے کہ 2047 ء میں ، ان کا خواب ایک ایسے بھارت کا ہے ، جہاں ہر ایک کو باوقار زندگی ملے، جہاں کسان خوشحال ہوں اور کرپشن نہ ہو۔ نَویا، ملک کے لئے آپ کا خواب بہت قابل تعریف ہے۔ ملک بھی اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ نے کرپشن فری انڈیا کی بات کی۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس سے نجات کے لئے 2047 ء کا انتظار کیوں؟ ہم تمام اہل وطن، آج کے نوجوانوں کو مل کر یہ کام جلد از جلد کرنا ہے اور اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کو ترجیح دیں ، جہاں فرض کا احساس ہو، فرض سب سے اہم ہو ، وہاں کرپشن پھٹک بھی نہیں سکتا۔
ساتھیو ، میرے سامنے چنئی سے محمد ابراہیم کا ایک اور پوسٹ کارڈ ہے۔ ابراہیم 2047 ء میں ہندوستان کو دفاعی میدان میں ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چاند پر ہندوستان کا اپنا ریسرچ بیس ہو اور ہندوستان مریخ پر انسانی آبادی کو آباد کرنے کا کام شروع کرے نیز ابراہیم زمین کو آلودگی سے پاک بنانے میں ہندوستان کے لئے ایک بڑا کردار دیکھتے ہیں۔ ابراہیم، جس ملک میں آپ جیسا نوجوان ہو،اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ساتھیو ، میرے سامنے ایک اور خط ہے۔ مدھیہ پردیش کے رائے سین میں سرسوتی ودیا مندر میں 10ویں جماعت کی طالبہ بھاونا کا ۔ سب سے پہلے، میں بھاونا سے کہوں گا کہ آپ کا اپنے پوسٹ کارڈ کو ترنگے سے سجانے کا طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔ بھاونا نے انقلابی شریش کمار کے بارے میں لکھا ہے۔
ساتھیو ، مجھے گوا سے لارنشیو پریرا کا پوسٹ کارڈ بھی ملا ہے۔ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کے خط کا موضوع بھی ہے – آزادی کے غیر معروف ہیرو ۔ میں آپ کو اس کا ہندی کا ترجمہ بتا رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے – ’’ بھیکاجی کاما ہندوستانی جدوجہد آزادی میں شامل سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بااختیار بنانے کے لئے ملک اور بیرون ملک بہت سی مہمیں چلائیں۔کئی نمائشوں کا اہتمام کیا۔ ‘‘ یقیناً بھیکاجی کاما تحریک آزادی کی سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ 1907 ء میں ، انہوں نے جرمنی میں ترنگا لہرایا۔ اس ترنگے کو ڈیزائن کرنے میں ، جس شخص نے ان کا ساتھ دیا تھا ، وہ تھے - شری شیام جی کرشن ورما۔ شری شیام جی کرشن ورما جی کا انتقال 1930 ء میں جنیوا میں ہوا۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ان کی استھیاں ہندوستان لائی جائیں حالانکہ ان کی استھیاں 1947 ء میں آزادی کے دوسرے ہی دن ہندوستان واپس لائی جانی چاہیئے تھیں لیکن یہ کام نہیں ہوا۔ شاید بھگوان کی مرضی ہوگی کہ یہ کام میں کروں اور اس کام کو کرنے کا موقع بھی مجھے ہی ملا ۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ان کی استھیاں 2003 ء میں ہندوستان لائی گئیں۔ شیام جی کرشن ورما جی کی یاد میں ان کی جائے پیدائش، مانڈوی میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔
ساتھیو ، ہندوستان کی آزادی کے امرت مہوتسو کا جوش و خروش صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے۔ مجھے ہندوستان کے دوست ملک کروشیا سے بھی 75 پوسٹ کارڈ ملے ہیں۔ کروشیا کے زاگریب میں اسکول آف اپلائیڈ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے طلباء نے یہ 75 کارڈ ہندوستان کے لوگوں کو بھیجے ہیں اور امرت مہوتسو کی مبارکباد دی ہے۔ آپ تمام ہم وطنوں کی طرف سے، میں کروشیا اور اس کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان تعلیم اور علم کی سرزمین رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کو کتابی علم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے زندگی کے ایک جامع تجربے کے طور پر دیکھا ہے۔ ہمارے ملک کی عظیم شخصیات کا بھی تعلیم سے گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، وہیں مہاتما گاندھی نے گجرات ودیا پیٹھ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ گجرات کے آنندمیں ایک بہت پیاری جگہ ہے - ولبھ ودیا نگر ۔ سردار پٹیل کے اصرار پر ان کے دو ساتھیوں بھائی کاکا اور بھیکا بھائی نے ، وہاں نوجوانوں کے لئے تعلیمی مراکز قائم کئے تھے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور نے شانتی نکیتن قائم کیا۔ مہاراجہ گائیکواڑ بھی تعلیم کے پرجوش حامیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کی تعمیر کرائی اور ڈاکٹر امبیڈکر اور شری اروبندو سمیت کئی شخصیات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے متاثر کیا۔ ایسی عظیم ہستیوں کی فہرست میں ایک نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کا بھی ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے ایک ٹیکنیکل اسکول کے قیام کے لئے اپنا گھر ہی سونپ دیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ اور متھرا میں تعلیمی مراکز کی تعمیر کے لئے کافی مالی مدد کی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے علی گڑھ میں ان کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تعلیم کی روشنی کو عوام تک پہنچانے کا وہی متحرک جذبہ آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس احساس کی سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟ یعنی تعلیم کے بارے میں یہ بیداری معاشرے میں ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ تمل ناڈو کے تریپور ضلع کے ادومل پیٹ بلاک میں رہنے والی تایمّل جی کی مثال بہت متاثر کن ہے۔ تایمّل جی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ برسوں سے ان کا خاندان ناریل پانی بیچ کر روزی کما رہا ہے۔ مالی حالت بھلے اچھی نہ ہو لیکن تایّمل جی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے بچے چِنّ ویرم پٹی پنچایت یونین مڈل اسکول میں پڑھتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن اسکول میں والدین کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ کلاس رومز اور اسکول کی حالت بہتر کی جائے، اسکول کا بنیادی ڈھانچہ د ٹھیک کیا جائے۔ تایمل جی بھی اس میٹنگ میں تھیں ۔ انہوں نے سب کچھ سنا۔ اسی میٹنگ میں بات چیت کاموں کے لئے پیسوں کی کمی پر آکر اٹک گئی ۔ اس کے بعد تایمل جی نے ، جو کچھ کیا ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تایمل جی، جنہوں نے ناریل پانی بیچ کر کچھ سرمایہ جمع کیا تھا، اسکول کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ درحقیقت، ایسا کرنے کے لئے بہت بڑا دِل چاہیئے ، خدمت کا جذبہ چاہیئے ۔ تایمل جی کا کہنا ہے کہ ابھی جو اسکول ہے ، اس میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی ہوتی ہے۔ اب جب اسکول کا بنیادی ڈھانچہ سدھر جائے گا تو یہاں ہائر سیکنڈری تک کی پڑھائی ہونے لگے گی ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے یہی وہ جذبہ ہے ، جس کی میں بات کر رہا تھا۔ مجھے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے ایک سابق طالب علم کی طرف سے بھی اسی طرح کے عطیہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ بی ایچ یو کے سابق طالب علم جے چودھری جی نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو فاؤنڈیشن کو ایک ملین ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے سات کروڑ کا عطیہ دیا۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جو دوسروں کی مدد کر کے معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس طرح کی کوششیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ، خاص طور پر ہمارے مختلف آئی آئی ٹیز میں مسلسل دیکھی جا رہی ہیں۔ مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی ایسی متاثر کن مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو مزید بڑھانے کے لئے گزشتہ سال ستمبر سے ملک میں ودیانجلی ابھیان بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مختلف تنظیموں، سی ایس آر اور نجی شعبے کی شراکت سے ملک بھر کے اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ودیانجلی کمیونٹی کی شرکت اور ملکیت کے جذبے کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے اسکول، کالج سے مسلسل جڑے رہنا، اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ تعاون کرنا ، ایک ایسی چیز ہے ، جس کا تجربہ کرنے کے بعد ہی ایسا اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، فطرت سے محبت اور ہر جاندار کے لئے ہمدردی، یہ ہماری ثقافت بھی ہے اور ہماری فطرت بھی ہے۔ ہماری اِن اقدار کی ایک جھلک حال ہی میں ، اُس وقت دیکھی گئی ، جب مدھیہ پردیش کے پینچ ٹائیگر ریزرو میں ایک شیرنی نے دنیا کو الوداع کہا ۔ لوگ اس شیرنی کو کالر والی شیرنی کہتے تھے۔ محکمہ جنگلات نے اسے ٹی – 15 کا نام دیا تھا ۔ اس شیرنی کی موت نے لوگوں کو اس قدر جذباتی کر دیا کہ جیسے کوئی اپنا ہی دنیا سے چلا گیا ہو۔ لوگوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں، پورے احترام اور محبت سے اسے رخصت کیا ۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ پوری دنیا میں فطرت اور جانوروں کے لئے ہم ہندوستانیوں کی اس محبت کو بہت سراہا گیا۔ کالر والی شیرنی نے اپنی زندگی میں 29 بچوں کو جنم دیا اور 25 کی پرورش کرکے انہیں بڑا کیا۔ ہم نے ٹی – 15 کی اس زندگی کا جشن بھی منایا اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو ہم نے اسے جذباتی طور پر رخصت بھی کیا ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی خوبی ہے۔ ہم ہر ذی نفس سے محبت کا رشتہ بنا لیتے ہیں۔ ہمیں اس بار یوم جمہوریہ کی پریڈ میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ اس پریڈ میں صدر کے باڈی گارڈز کے چارجر گھوڑے وِراٹ نے اپنی آخری پریڈ میں حصہ لیا۔ گھوڑا وِراٹ 2003 ء میں راشٹرپتی بھون میں آیا تھا اور ہر بار یوم جمہوریہ پر کمانڈنٹ چارجر کے طور پر پریڈ کی قیادت کرتاتھا۔ یہاں تک کہ جب راشٹرپتی بھون میں کسی غیر ملکی سربراہ کا استقبال کیا جاتا تھا تو بھی وہ یہ کردار ادا کرتا تھا۔ اس سال گھوڑے وِراٹ کو آرمی چیف نے آرمی ڈے پر سی او اے ایس ستائشی کارڈ بھی دیا تھا۔ وراٹ کی بے پناہ خدمات کو دیکھتے ہوئے ، اس کے ریٹائرمنٹ کے بعد ، اسے اتنے ہی شاندار انداز میں الوداع کیا گیا۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب خلوص نیت سے کام کیا جائے تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آسام سے سامنے آئی ہے۔ آسام کا نام لیتے ہی ذہن میں چائے کے باغات اور کئی قومی پارکوں کا خیال آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک سینگ والے گینڈے یعنی ایک سینگ گینڈے کی تصویر بھی ابھرتی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سینگ والا گینڈا ہمیشہ سے آسامی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ بھارت رتن بھوپین ہزاریکا جی کا یہ گانا ہر ایک کان میں گونجتا ہو گا۔
ساتھیو ، اس گانے کا مفہوم بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس گانے میں کہا گیا ہے کہ کازی رنگا کا سرسبز و شاداب ماحول، ہاتھیوں اور شیروں کا ٹھکانہ، ایک سینگ والے گینڈے کو زمین دیکھے ، پرندوں کی مدھر چہچہاہٹ سنے۔ گینڈے کی تصویر یں آسام کے دنیا بھر میں معروف مونگا اور ایری کے بنائی والے کپڑوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس گینڈے کو ، جس کی آسام کی ثقافت میں ایک عظیم تاریخ ہے ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ 2013 ء میں 37 اور 2014 ء میں 32 گینڈوں کو شکاریوں نے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے گینڈوں کے شکار کے خلاف ایک وسیع مہم چلائی گئی ، جو پچھلے سات سال میں آسام حکومت کی خصوصی کوششوں میں شامل ہے ۔ پچھلے سال 22 ستمبر کو گینڈوں کے عالمی دن کے موقع پر اسمگلروں سے پکڑے گئے 2400 سے زائد سینگوں کو جلا دیا گیا تھا۔ یہ شکاریوں کے لئے ایک سخت پیغام تھا۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب آسام میں گینڈوں کے شکار میں تیزی سے کمی آئی ہے ، جب کہ 2013 ء میں ، جہاں 37 گینڈے ہلاک کئے گئے تھے ، 2020 ء میں صرف 2 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 2021 ء میں صرف ایک معاملہ سامنے آیا ہے ۔ میں گینڈوں کے تحفظ کے لئے آسام کے عوام کے عہد کی ستائش کرتا ہوں ۔
ساتھیو ، ہندوستانی ثقافت کے متنوع رنگ اور روحانی طاقت نے ہمیشہ پوری دنیا کے لوگوں کو راغب کیا ہے ۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ہندوستانی ثقافت امریکہ، کناڈا ، دوبئی، سنگاپور، مغربی یورپ اور جاپان میں بہت مقبول ہے تو آپ کو یہ ایک عام بات لگے گی اور آپ کو تعجب نہیں ہوگا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ لاطینی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں بھی بھارت ثقافت بڑی توجہ کا مرکز ہے ، تو آپ یقیناً ایک بار ضرور سوچیں گے ۔ میکسیکو میں کھادی کو فروغ دینے کا معاملہ ہو یا برازیل میں ہندوستانی روایات کو مقبول بنانے کی کوشش، ہم ان موضوعات پر ، اِس سے پہلے کی ’من کی بات ‘ میں بات کر چکے ہیں۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ ارجنٹینا میں بھی ہندوستانی ثقافت اپنے نشان چھوڑ رہی ہے ۔ ارجنٹینا میں ہماری ثقافت کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ 2018 ء میں، میں نے اپنے ارجنٹینا کے دورے کے دوران ایک یوگا پروگرام – ’ یوگا فار پیس ‘ میں حصہ لیا۔ یہاں ارجنٹینا میں ایک تنظیم ہے - ہستینا پور فاؤنڈیشن۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ارجنٹینا میں ہستینا پور فاؤنڈیشن موجود ہے ۔ یہ فاؤنڈیشن ارجنٹینا میں ہندوستانی ویدِک روایات کو فروغ دینے میں شامل ہے۔ اس کا قیام 40 سال پہلے ایک خاتون پروفیسر ایڈا البریکٹ نے کیا تھا ۔ پروفیسر ایڈا البریکٹ آج 90 سال کی ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ، اُن کا تعلق کیسے ہوا ، یہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ جب وہ 18 سال کی تھیں ، تو انہیں پہلی مرتبہ بھارتی ثقافتی کی قوت کے تعارف ہوا ۔ انہوں نے ہندوستان میں کافی وقت گزارا ۔ انہوں نے بھگوت گیتا اور اُپنیشدوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ آج ہستینا پور فاؤنڈیشن میں 40 ہزار سے زیادہ ارکان ہیں اور ارجنٹینا اور دیگر لاطینی امریکی ملکوں میں تقریباً 30 شاخیں ہیں ۔ ہستینا پور فاؤنڈیشن نے 100 سے زیادہ ویدک اور فلسفے کی کتابیں اسپینی زبان میں شائع کی ہیں ۔ ان کا آشرم بھی بہت پرکشش ہے۔ آشرم میں بارہ مندر تعمیر کئے گئے ہیں ، جن میں بہت سے دیوی اور دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔ ان سب کے مرکز میں ایک ایسا مندر بھی ہے ، جسے اَدویت وادی دھیان کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔
ساتھیو ، ایسی سینکڑوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ہماری ثقافت نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک انمول ورثہ ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اسے جاننا چاہتے ہیں، سمجھنا چاہتے ہیں، جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اسے تمام لوگوں تک پہنچانا چاہیئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے اور خاص کر ہمارے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اب تصور کریں کہ آپ ایک بار میں کتنے پش اپس کر سکتے ہیں۔ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ یقیناً آپ کو حیرت سے بھر دے گا۔ منی پور کے 24 سالہ نوجوان تھونا اوجم نرنجوئے سنگھ نے ایک منٹ میں 109 پش اپس کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نرنجوئے سنگھ کے لئے ریکارڈ توڑنا کوئی نئی بات نہیں، جو اس سے پہلے ایک منٹ میں ایک ہاتھ سے سب سے زیادہ نکل پش اپس کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نرنجوئے سنگھ سے متاثر ہوں گے اور جسمانی فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
ساتھیو ، آج میں آپ کے ساتھ لداخ کے بارے میں ایک ایسی ہی معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں ، جس کے بارے میں جان کر آپ یقیناً فخر محسوس کریں گے۔ لداخ کو جلد ہی ایک شاندار اوپن سنتھیٹک ٹریک اور آسٹرو ٹرف فٹ بال اسٹیڈیم کا تحفہ ملنے والا ہے ۔ یہ اسٹیڈیم 10 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر بنایا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر جلد پوری ہونے والی ہے۔ یہ لداخ کا سب سے بڑا اوپن اسٹیڈیم ہوگا ، جہاں 30,000 شائقین ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ لداخ کے اس جدید فٹ بال اسٹیڈیم میں 8 لین والا مصنوعی ٹریک بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ، ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہاسٹل کی سہولت بھی ہوگی۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ اس اسٹیڈیم کو فٹ بال کی سب سے بڑی تنظیم فیفا نے بھی سرٹیفائی کیا ہے۔ جب بھی اتنا بڑا کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، اس سے ملک کے نوجوانوں کے لئے بڑے مواقع آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ، جہاں یہ انتظام ہوتا ہے ، وہاں ملک بھر سے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ، سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس اسٹیڈیم سے لداخ میں ہمارے بہت سے نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات ‘ میں بھی ، ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ ایک اور موضوع ہے، جو اس وقت ہر کسی کے ذہن میں ہے اور وہ ہے کورونا کا موضوع ۔ بھارت کورونا کی نئی لہر کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ لڑ رہا ہے، یہ بھی فخر کی بات ہے کہ اب تک تقریباً 4.5 کروڑ بچے کورونا ویکسین کی خوراک لے چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 15 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کو تین سے چار ہفتے میں ہی ٹیکے لگائے گئے ہیں ۔ اس سے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی حفاظت ہوگی بلکہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ 20 دنوں کے اندر ایک کروڑ لوگوں نے احتیاطی خوراک بھی لی ہے۔ ہمارے ملک کی ویکسین پر ہم وطنوں کا یہ اعتماد ہماری بڑی طاقت ہے۔ اب کورونا انفیکشن کے کیسز بھی کم ہونے لگے ہیں - یہ ایک بہت ہی مثبت علامت ہے۔ عوام محفوظ رہے، ملک کی معاشی سرگرمیوں کی رفتار برقرار رہے، یہ ہر شہری کی خواہش ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں ’ من کی بات‘ میں، کچھ چیزیں، میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا، جیسے، ہمیں ’سووچھتا مہم ‘ کو بھولنا نہیں ہے، ہمیں سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف مہم کو تیز کرنا چاہیئے۔ یہ ضروری ہے۔ ووکل فار لوکل کا منتر ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آتم نربھر بھارت کے لئے جی جان سے جٹے رہیں ۔ ہم سب کی کوششوں سے ہی ملک ترقی کی نئی اونچائیوں پر پہنچے گا ۔ اسی امید کے ساتھ ، میں آپ سب سے وداع لیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دلّی ،26 دسمبر/ میرے پیارے ہم وطنو ! اس وقت آپ 2021 ء کو الوداع کہنے اور 2022 ء کا خیر مقدم کرنے کی تیاری میں مصروف ہوں گے ۔ نئے سال پر، ہر شخص، ہر ادارہ، آنے والے سال میں کچھ اور بہتر کرنے، بہتر بننے کے عہد لیتے ہیں ۔ پچھلے سات سالوں سے، ہماری ’ من کی بات ‘بھی ہمیں فرد، سماج، ملک کی بھلائی کو اجاگر کرکے مزید اچھا کرنے اور بہتر بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ ان سات سالوں میں ’من کی بات‘ کرتے ہوئے میں حکومت کی کامیابیوں پر بھی بات کر سکتا تھا۔ آپ کو بھی اچھا لگتا ، آپ نے بھی سراہا ہوتا لیکن یہ میرا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے کہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، اخبارات کی سرخیوں سے دور، بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو بہت کچھ اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنا آج ملک کے مستقبل کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ آج، وہ ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی کوششوں پر جی جان سے جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی باتیں بہت سکون دیتی ہیں، تحریک دیتی ہیں۔ میرے لئے ’من کی بات‘ ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے بھرا ہوا ، کھلا ہوا ، سجا ہوا ایک خوبصورت باغ رہا ہے اور من کی بات میں تو ہر مہینے میری پوری کوشش ہی اِس بات پر ہوتی ہے ، اس باغ کی کون سی پنکھڑی آپ کے سامنے پیش کروں ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری خوبصورت زمین پر نیک کاموں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور آج جب ملک ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے تو یہ جو عوام کی قوت ہے ، ایک ایک شخص کی قوت ہے ، اُس کی تعریف ، اس کی کوشش ، اس کی محنت بھارت کے اور انسانیت کے تابناک مستقبل کے لئے ایک طرح سے گارنٹی دیتا ہے ۔
ساتھیو ، یہ عوام کی ہی طاقت ہے ، سب کی کوشش ہے کہ بھارت 100 سال میں آئی سب سے بڑی وباء سے لڑ سکا ہے ۔ ہم ہر مشکل وقت میں ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنے محلے یا شہر میں کسی کی مدد کرنے کے لئے ، جس سے جو ہو سکا ، اُس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اگر ہم آج دنیا میں ویکسینیشن کے اعداد و شمار کا موازنہ بھارت کے ساتھ کریں تو لگتا ہے کہ اس ملک نے ایسا بے مثال کام کیا ہے، کتنا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ ویکسین کی 140 کروڑ خوراکوں کا سنگ میل عبور کرنا ہر ہندوستانی کی اپنی کامیابی ہے۔ یہ نظام پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے، سائنس پر اعتماد ظاہر کرتا ہے، سائنس دانوں پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے اور یہ ہم ہندوستانیوں کی قوت ارادی کا بھی ثبوت ہے، جو معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں لیکن دوستو ں ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کورونا کی ایک نئی شکل نے دستک دی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کا ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس عالمی وبا کو شکست دینے کے لئے بحیثیت شہری ہماری کوشش بہت ضروری ہے۔ ہمارے سائنسداں ، اس نئے اومیکرون قسم کا مسلسل مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ نیا ڈیٹا مل رہا ہے، ان کی تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں خود آگاہی، خود نظم و ضبط، ملک کے پاس کورونا کے اس قسم کے خلاف بڑی طاقت ہے۔ ہماری اجتماعی طاقت کورونا کو شکست دے گی، اس ذمہ داری کے ساتھ ہمیں 2022 ء میں داخل ہونا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مہابھارت کی جنگ کے دوران، بھگوان کرشن نے ارجن سے کہا تھا – ’نبھہ سپرشم دیپتم‘ ، یعنی فخر کے ساتھ آسمان کو چھونا۔ یہ ہندوستانی فضائیہ کا نعرہ بھی ہے۔ ماں بھارتی کی خدمت میں مصروف کئی زندگیاں ہر روز فخر کے ساتھ آسمان کی ان بلندیوں کو چھوتی ہیں، ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ گروپ کیپٹن ورون سنگھ کی زندگی ایسی ہی تھی۔ ورون سنگھ ، اس ہیلی کاپٹر کو اڑا رہے تھے ، جو اس ماہ تمل ناڈو میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں، ہم نے ملک کے پہلے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت اور ان کی اہلیہ سمیت کئی بہادروں کو کھو دیا۔ ورون سنگھ بھی کئی دن تک موت کے ساتھ بہادری سے لڑے لیکن پھر وہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جب ورون اسپتال میں تھے، میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا دیکھا ، جو میرے دل کو چھو گیا۔ انہیں اس سال اگست میں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا۔ اس اعزاز کے بعد ، انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کو خط لکھا تھا ۔ اس خط کو پڑھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ، وہ جڑوں کو سیراب کرنا نہیں بھولے۔ دوسرا یہ کہ جب ان کے پاس جشن منانے کا وقت تھا تو انہوں نے آنے والی نسلوں کی فکر کی۔ وہ چاہتے تھے کہ جس اسکول میں وہ پڑھے تھے ، وہاں کے طلباء کی زندگی بھی ایک جشن کی طرح بنیں ۔ ورون سنگھ نے اپنے خط میں اپنی بہادری کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ، انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو قابلیت میں تبدیل کیا۔ اس خط میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے -
“ It is ok to be mediocre. Not everyone will excel at school and not everyone will be able to score in the 90s. If you do, it is an amazing achievement and must be applauded. However, if you don't, do not think that you are meant to be mediocre. You may be mediocre in school but it is by no means a measure of things to come in life. Find your calling - it could be art, music, graphic design, literature, etc. Whatever you work towards, be dedicated, do your best. Never go to bed, thinking, I could have put-in more efforts.
دوستو، اوسط سے غیر معمولی بننے کا ، انہوں نے ، جو منتر دیا ہے ، وہ بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اس خط میں ورون سنگھ نے لکھا ہے۔
“Never lose hope. Never think that you cannot be good at what you want to be. It will not come easy, it will take sacrifice of time and comfort. I was mediocre, and today, I have reached difficult milestones in my career. Do not think that 12th board marks decide what you are capable of achieving in life. Believe in yourself and work towards it."
ورون نے لکھا کہ اگر وہ ایک طالب علم کو بھی ترغیب دے سکے تو یہ بہت ہوگا لیکن، آج میں کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے پوری قوم کو ترغیب دی ہے۔ ان کا خط بھلے ہی صرف طالب علموں کے نام ہے لیکن انہوں نے ہمارے پورے معاشرے کو پیغام دیا ہے ۔
دوستو، میں ہر سال امتحانات کے موقع پر طلبا کے ساتھ پریکشا پر چرچا کرتا ہوں ۔ اس سال بھی میں امتحانات سے پہلے طلبا سے بات کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ اس پروگرام کے لئے رجسٹریشن بھی دو دن بعد MyGov.in پر 28 دسمبر سے شروع ہونے والے ہے۔ یہ رجسٹریشن 28 دسمبر سے 20 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس کے لئے 9ویں سے 12ویں جماعت کے طلبا، اساتذہ اور والدین کے لئے آن لائن مقابلہ بھی منعقد کیا جائے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب اس میں حصہ لیں۔ آپ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ ہم ایک ساتھ مل کر امتحان، کیریئر، کامیابی اور طالب علم کی زندگی سے متعلق بہت سے پہلوؤں پر غور و فکر کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب میں آپ کو ایک ایسی بات بتانے جا رہا ہوں ، جو بہت دور، سرحد پار سے آئی ہے۔ اس سے آپ کو خوشی بھی ہو گی اور حیرانی بھی ہو گی:
(Instrumental + Vocal (VandeMatram)
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम्
सुजलां सुफलां मलयजशीतलाम्
शस्यशामलां मातरम् । वन्दे मातरम्
शुभ्रज्योत्स्नापुलकितयामिनीं
फुल्लकुसुमितद्रुमदलशोभिनीं
सुहासिनीं सुमधुर भाषिणीं
सुखदां वरदां मातरम् ।। १ ।।
वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम् ।
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو یہ سن کر بہت اچھا لگا ہو گا ، فخر محسوس ہوا ہوگا ۔ وندے ماترم میں ، جو بھی جذبہ چھپا ہوا ہے ، وہ ہمیں فخر اور جوش سے بھر دیتا ہے ۔
ساتھیو ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خوبصورت ویڈیو کہاں کی ہے، کس ملک سے آئی ہے؟ جواب آپ کی حیرت میں اضافہ کر دے گا۔ وندے ماترم پیش کرنے والے یہ طلبا یونان سے ہیں۔ وہاں وہ الیا کے ہائی اسکول میں پڑھ ر ہے ہیں ۔ انہوں نے ، جس خوبصورتی اور جذبے کے ساتھ ’وندے ماترم‘ گایا ہے ، وہ حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ اس طرح کی کوششیں دونوں ملکوں کے لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔ میں یونان کے ، ان طلباء اور طالبات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران کی گئی ، ان کی کوشش کی ستائش کرتا ہوں۔
ساتھیو ، میں لکھنؤ کے رہنے والے نیلیش جی کی ایک پوسٹ پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ نیلیش جی نے لکھنؤ میں منعقد ہونے والے انوکھے ڈرون شو کی بہت تعریف کی ہے۔ یہ ڈرون شو لکھنؤ کے ریذیڈنسی علاقے میں منعقد کیا گیا تھا۔ 1857 ء کی پہلی جدوجہد آزادی کی شہادت آج بھی ریذیڈنسی کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ ریزیڈنسی میں منعقدہ ڈرون شو میں ہندوستانی جدوجہد آزادی کے مختلف پہلوؤں کو زندہ کیا گیا۔ ’چوری چورا آندولن‘ ہو، ’کاکوری ٹرین‘ کا واقعہ ہو یا نیتا جی سبھاش کی بے مثال ہمت اور بہادری، اس ڈرون شو نے سب کا دل جیت لیا۔ اسی طرح آپ اپنے شہروں، دیہاتوں کی تحریک آزادی سے متعلق منفرد پہلوؤں کو بھی لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی کی بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ آزادی کا امرت مہوتسو ہمیں جدوجہد آزادی کی یادوں کو جینے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہمیں اس کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا تہوار ہے، ملک کے لئے کچھ کرنے کے عزم کو ظاہر کرنے کا ایک متاثر کن موقع ہے۔ آئیے ، ہم جدوجہد آزادی کی عظیم ہستیوں سے ترغیب پاوتے رہیں اور ملک کے لئے اپنی کوششوں کو مضبوط کرتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا ہندوستان بہت سی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، جن کی تخلیقی صلاحیت دوسروں کو کچھ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک شخص تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کوریلا وٹھلاچاریہ ہیں۔ ان کی عمر 84 سال ہے۔ وٹھلاچاریہ جی اس کی ایک مثال ہیں کہ جب آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دوستو، وٹھلاچاریہ جی کی بچپن سے ہی خواہش تھی کہ وہ ایک بڑی لائبریری کھولیں۔ ملک تب غلام تھا، کچھ حالات ایسے تھے کہ بچپن کا خواب پھر خواب ہی رہ گیا۔ وقت کے ساتھ، وٹھلاچاریہ ایک لیکچرر بن گئے، تیلگو زبان کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس میں بہت سی کمپوزیشنز تخلیق کیں۔ 6-7 سال پہلے وہ ایک بار پھر اپنا خواب پورا کرنے میں لگ گئے ۔ انہوں نے لائبریری کا آغاز اپنی کتابوں سے کیا۔ اپنی زندگی کی کمائی اس میں لگا دی۔ آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہو کر اپنا تعاون کرنے لگے۔ یدادری - بھوناگیری ضلع کے رمناّ پیٹ منڈل کی ، اس لائبریری میں تقریباً 2 لاکھ کتابیں ہیں۔ وٹھلاچاریہ جی کہتے ہیں کہ پڑھائی کے سلسلے میں انہیں جن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ، وہ کسی اور کو نہ کرنا پڑے ۔ انہیں آج یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ بڑی تعداد میں طلباء کو ، اِس کا فائدہ مل رہا ہے ۔ ان کی کوششوں سے ترغیب پاکر کئی دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی لائبریری بنانے میں لگ گئے ہیں ۔
ساتھیو ، کتابیں نہ صرف علم دیتی ہیں بلکہ شخصیت کو سنوارتی ہیں اور زندگی کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ایک عجیب سی تسکین دیتا ہے۔ آج کل میں دیکھتا ہوں کہ لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے اس سال اتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ اب میں ان کتابوں کو مزید پڑھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے، جس میں مزید اضافہ ہونا چاہیئے۔ میں ’من کی بات’ کے سننے والوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ہمیں اس سال کی آپ کی پانچ کتابوں کے بارے میں بتائیں ، جو آپ کی پسندیدہ رہی ہیں۔ اس طرح آپ دوسرے قارئین کو بھی 2022 ء میں اچھی کتابوں کا انتخاب کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب ہمارا اسکرین ٹائم بڑھ رہا ہے، کتابوں کا مطالعہ بھی زیادہ سے زیادہ مقبول بنیں ، اس کے لئے بھی ہمیں مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں میرا دھیان ایک اور دلچسپ کوشش کی طرف گیا ہے۔ یہ کوشش ہمارے قدیم گرنتھوں اور تہذیبی اقدار کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول بنانے کی ہے ۔ پونے میں بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک مرکز ہے۔ اس ادارے نے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مہابھارت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لئے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگرچہ یہ کورس ابھی ابھی شروع ہوا ہے لیکن اس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ، اسے تیار کرنے کا آغاز 100 سال سے بھی پہلے ہوا تھا ، جب ادارے نے اس سے جڑا کورس شروع کیا تو اسے زبردست رد عمل حاصل ہوا ۔ میں اس شاندار پہل کی بات اس لئے کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہماری روایات کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح جدید انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں تک ، اس کا فائدہ کیسے پہنچے ، اس کے لئے بھی اننوویٹیو طریقے اپنائے جا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج پوری دنیا میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگ ہماری ثقافت کے بارے میں نہ صرف جاننے کے لئے بے تاب ہیں بلکہ اسے بڑھانے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت سربیا کے اسکالر ڈاکٹر مومیر نکیچ ہیں ( سربائی دانشور ڈاکٹر مومیر نیکیچی )۔ انہوں نے ایک دو لسانی سنسکرت-سربیائی ڈکشنری تیار کی ہے۔ اس ڈکشنری میں شامل سنسکرت کے 70 ہزار سے زیادہ الفاظ کا سربیائی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹر نکیچ نے 70 سال کی عمر میں سنسکرت زبان سیکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں مہاتما گاندھی کے مضامین پڑھ کر تحریک ملی۔ اسی طرح کی ایک مثال منگولیا کے 93 سالہ پروفیسر جے گینڈوارم بھی ہے۔ پچھلی 4 دہائیوں میں، انہوں نے تقریباً 40 قدیم تحریروں، نظموں اور ہندوستان کے کاموں کا منگول زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ملک میں بھی بہت سے لوگ اس قسم کے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مجھے گوا کے ساگر مولے جی کی کوششوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے، جو سینکڑوں سال پرانی ’کاوی‘ پینٹنگ کو معدوم ہونے سے بچانے میں مصروف ہیں۔ ’کاوی‘ پینٹنگ اپنے آپ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل، ’ کاویہ‘ کا مطلب سرخ مٹی ہے۔ قدیم زمانے میں ، اس فن میں سرخ مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ گوا میں پرتگالی دور حکومت میں ، وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں نے دوسری ریاستوں کے لوگوں کو ، اس شاندار پینٹنگ سے متعارف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پینٹنگ ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن ساگر مولے جی نے ، اس فن کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کی کاوشوں کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ساتھیو ، ایک چھوٹی سی کوشش، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا قدم بھی ہمارے شاندار فنون کے تحفظ میں بہت بڑا تعاون کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ عزم کر لیں تو ملک بھر میں اپنے قدیم فنون کو سجانے، سنوارنے اور بچانے کا جذبہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ میں نے یہاں صرف چند کوششوں کے بارے میں بات کی ہے۔ ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ، ان کی معلومات نمو ایپ کے ذریعے مجھ تک ضرور پہنچائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، اروناچل پردیش کے لوگ ایک سال سے ایک انوکھی مہم چلا رہے ہیں اور اسے’’اروناچل پردیش ایئرگن سرینڈر مہم ‘ کا نام دیا ہے۔ اس مہم میں، لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی ایئرگنز حوالے کر رہے ہیں ۔ جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ اروناچل پردیش میں پرندوں کے اندھا دھند شکار کو روکا جاسکے۔ دوستو، اروناچل پردیش پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام کا گھر ہے۔ ان میں کچھ دیسی پرندوں کی اقسام بھی شامل ہیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں لیکن آہستہ آہستہ اب جنگلوں میں پرندوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ اب اس کو سدھارنے کے لئے یہ ایئرگن سرینڈر مہم چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، پہاڑ سے لے کر میدانوں تک، ایک کمیونٹی سے دوسری کمیونٹی تک، پوری ریاست کے لوگوں نے اسے کھلے دل سے اپنایا ہے۔ اروناچل کے لوگوں نے اپنی مرضی سے 1600 سے زیادہ ایئرگنس سپرد کر دی ہیں۔ میں اس کے لئے اروناچل کے لوگوں کی تعریف اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کی طرف سے 2022 ء سے متعلق بہت سے پیغامات اور مشورے آئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، زیادہ تر لوگوں کے پیغامات میں ایک موضوع ہوتا ہے۔ یہ ہے صفائی اور صاف بھارت کا۔ صفائی کا یہ عزم نظم و ضبط، بیداری اور لگن سے ہی پورا ہو گا۔ اس کی ایک جھلک این سی سی کیڈٹس کے ذریعہ شروع کی گئی پونیت ساگر ابھیان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس مہم میں 30 ہزار سے زیادہ این سی سی کیڈٹس نے حصہ لیا۔ این سی سی کے ان کیڈٹس نے ساحلوں کی صفائی کی، وہاں سے پلاسٹک کا کچرا ہٹایا اور اسے ری سائیکلنگ کے لئے جمع کیا۔ ہمارے ساحل، ہمارے پہاڑ تبھی گھومنے کے قابل ہوتے ہیں ، جب وہاں صفائی ستھرائی ہو ۔ بہت سے لوگ زندگی بھر کسی نہ کسی جگہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن جب وہ وہاں جاتے ہیں تو جانے انجانے کچرا بھی پھیلا آتے ہیں ۔ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ جو جگہ ہمیں اتنی خوشی دیتی ہے ، ہم اُسے گندا نہ کریں ۔
ساتھیو ، مجھے صاف واٹر نام کے ایک اسٹارٹ اپ کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، جسے کچھ نوجوانوں نے شروع کیا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے لوگوں کو اپنے علاقے میں پانی کی صفائی اور معیار سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ یہ صرف صفائی کا اگلا مرحلہ ہے۔ لوگوں کے صاف اور صحت مند مستقبل کے لئے اس سٹارٹ اپ کی اہمیت کے پیش نظر اسے گلوبل ایوارڈ بھی ملا ہے۔
ساتھیو ، ’ ایک قدم صفائی کی جانب ‘ ، اس کوشش میں ادارے ہوں یا حکومت، سب کا اہم کردار ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر میں کتنی پرانی فائلوں اور کاغذات کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ جب سے حکومت نے پرانے طریقوں کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے، یہ فائلیں اور کاغذ کے ڈھیر ڈیجیٹل ہو کر کمپیوٹر کے فولڈر میں محفوظ ہو رہے ہیں۔ وزارتوں اور محکموں میں پرانے اور زیر التوا مواد کو ہٹانے کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم سے کچھ بہت دلچسپ چیزین سامنے آئی ہیں ۔ محکمہ ڈاک میں ، جب یہ صفائی مہم شروع کی گئی تو وہاں کا کباڑ خانہ بالکل خالی ہوگیا۔ اب یہ کباڑ خانہ صحن اور کیفے ٹیریا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک اور کباڑ خانے کو دو پہیہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، وزارت ماحولیات نے اپنے خالی کباڑ خانے کو فلاحی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ شہری امور کی وزارت نے صاف ستھرا اے ٹی ایم بھی لگایا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کچرا دیں اور نقد رقم لے کر جائیں ۔ شہری ہوا بازی کی وزارت کے محکموں نے خشک پتوں اور درختوں سے گرنے والے فضلے سے نامیاتی کھاد بنانا شروع کیا ہے۔ یہ محکمہ بیکار کاغذ سے اسٹیشنری بنانے کا کام بھی کر رہا ہے۔ ہمارے سرکاری محکمے بھی صفائی جیسے موضوع پر اتنے جدت پسند ہو سکتے ہیں، چند سال پہلے تک کوئی اس پر یقین بھی نہیں کرتا تھا لیکن آج یہ نظام کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ملک کی نئی سوچ ہے ، جس کی قیادت تمام اہل وطن مل کر کر رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ’من کی بات‘ میں ، ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ ہر بار کی طرح ایک ماہ بعد پھر ملیں گے لیکن 2022 ء میں۔ ہر نئی شروعات آپ کی صلاحیت کو پہچاننے کا موقع بھی لاتی ہے۔ اہداف ، جن کا ہم نے پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آج ملک ان کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے یہاں کہاوت ہے -
क्षणश: कणशश्चैव, विद्याम् अर्थं च साधयेत्।
क्षणे नष्टे कुतो विद्या, कणे नष्टे कुतो धनम्।|
یعنی جب ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک لمحے سے استفادہ کرنا چاہیئے اور جب ہمیں پیسہ کمانا ہے یعنی ترقی کرنی ہے تو پھر ہر ذرہ یعنی ہر وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ لمحہ بہ لمحہ فنا ہوجانے کے ساتھ علم اور معلومات ختم ہوجاتی ہے اور ذرہ ذرہ فنا ہونے سے دولت اور ترقی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز ہم تمام ہم وطنوں کے لئے ایک ترغیب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے، نئی ایجادات کرنی ہیں، نئے اہداف حاصل کرنے ہیں، اس لئے ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اس لئے ہمیں اپنے ہر وسائل کا بھرپور استعمال کرنا ہو گا ۔ ایک طرح سے یہ آتم نربھر بھارت کا منتر بھی ہے کیونکہ جب ہم اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں گے، ہم انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے، تبھی تو ہم لوکل کی طاقت پہچانیں گے، تبھی ملک خود کفیل ہوگا۔ اس لئے ، آئیے ہم اپنا عہد دوہرائیں کہ بڑا سوچیں گے ، بڑے خواب دیکھیں گے اور انہیں پورا کرنے کے لئے جی جان لگا دیں گے اور ہمارے خواب صرف ہم تک ہی محدود نہیں ہوں گے ۔ ہمارے خواب ایسے ہوں گے ، جن سے ہمارے معاشرے اور ملک کی ترقی جڑی ہو ، ہماری ترقی سے ملک کی ترقی کے راستے کھلیں اور اس کے لئے ہمیں آج ہی سے کام کرنا ہو گا ۔ بغیر ایک لمحہ گنوائیں ، بغیر ایک ذرہ گنوائیں ۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ اسی عہد کے ساتھ آنے والے سال میں ملک آگے بڑھے گا اور 2022 ء ایک نئے بھارت کی تعمیر کا سنہرا باب بنے گا ۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو 2022 ء کی ڈھیر ساری مبارکباد ۔ بہت بہت شکریہ ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج ہم ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے لیے ایک ساتھ جڑ رہے ہیں۔ دو دن بعد دسمبر کا مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے اور دسمبر آتے ہی نفسیاتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ چلئے بھائی سال پورا ہو گیا ہے۔ یہ سال کا آخری مہینہ ہے اور نئے سال کے لیے تانے بانے بننا شروع کر دیتے ہیں۔اسی مہینے نیوی ڈے آرمڈ فورسز فلیگ ڈے بھی ملک مناتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ 16 دسمبر کو1971 کی جنگ کی گولڈن جوبلی بھی ملک منا رہا ہے۔ میں ان سبھی مواقع پر ملک کی سیکورٹی فورسز یاد کرتا ہوں، اپنے بہادروں کو یاد کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر ان بہادر ماؤں کو یاد کرتا ہوں جنہوں نے ایسے بہادروں کو جنم دیا۔ ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی مجھے نمو ایپ پر، مائی جی او وی پر آپ کے بہت سارے مشورے بھی ملے ہیں۔ آپ لوگوں نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مانتے ہوئے اپنی زندگی کے سکھ دکھ بھی ساجھا کئے ہیں۔ ان میں بہت سارے نوجوان بھی ہیں، طلبا اور طالبات بھی ہیں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے کہ’من کی بات‘ کا ہمارا یہ خاندان مسلسل بڑا تو ہوہی رہا ہے،من سے بھی جڑ رہا ہے اور مقصد سے بھی جڑ رہا ہے اور ہمارےگہرے ہوتے رشتے، ہمارے اندر، مسلسل مثبت نظریات کا ایک سلسلہ پیدا کررہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے سیتا پور کے اوجسوی نے لکھا ہے کہ امرت مہوتسو سے متعلق تذکرے انہیں بہت پسند آرہے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ’من کی بات‘ سنتے ہیں اور جنگ آزادی کے بارے کافی کچھ جاننے سیکھنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ساتھیو، امرت مہوتسو سیکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ملک کے لیے کچھ کرنے کی بھی تحریک دیتا ہے اور اب تو ملک بھر میں چاہے عام لوگ ہوں یا حکومتیں، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک، امرت مہوتسو کی گونج ہے اور اس لگاتار اس مہوتسو سے متعلق پروگرامون کا سلسلہ چل رہا ہے، ایسا ہی ایک دلچسپ پروگرام گزشتہ دنوں دہلی میں ہوا۔’’آزادی کی کہانی - بچوں کی زبانی‘‘پروگرام میں بچوں نے جنگی آزادی سے متعلق کہانیاں پورے جذبے کے ساتھ پیش کیں۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں بھارت کے ساتھ ہی نیپال، ماریشس، تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور فجی کے طلبا بھی شامل ہوئے۔ ہمارے ملک کا مہارتن او این جی سی۔ او این جی سی بھی کچھ الگ طریقے سے امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ او این جی سی ان دنوں آئل فیلڈز اپنے طلباء کے لیے میں مطالعاتی دوروں کا اہتمام کر رہا ہے۔ ان دوروں میں، نوجوانوں کو او این جی سی کے آئل فیلڈ آپریشنز کی معلومات فراہم کرائی جارہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے ابھرتے ہوئے انجینئرز ملک کی تعمیر کی کوششوں میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ہاتھ بٹا سکیں۔
ساتھیو، آزادی میں اپنی قبائلی برادری کے تعاون کو دیکھتے ہوئے ملک نے جن جاتیہ گورو ہفتہ بھی منایا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس سلسلے میں پروگرام بھی منعقد ہوئے۔ جزائر انڈمان اور نکوبار میں، جاروا اور اونگے، ایسی قبائلی برادریوں کے لوگوں نے اپنی ثقافت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ایک کمال کا کام ہماچل پردیش میں اونا کے منی ایچر رائٹر رام کمار جوشی نے بھی کیا ہے، انہوں نے ڈاک ٹکٹوں پر ہی یعنی تنے چھوٹی ڈاکٹ ٹکٹوں پر نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری جی کے منفرد اسکیچ بنائے ۔ ہندی میں لکھے ’رام‘ لفظ پر انہوں نے اسکیچ تیار کئے جس میں مختصراً دونوں عظیم شخصیتوں کی سوانح عمری کو بھی درج کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے کٹنی کے کچھ ساتھیوں نے بھی ایک یادگار داستان گوئی پروگرام کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں رانی درگاوتی کے ناقابل تسخیر حوصلے اور قربانی کی یادیں تازہ کی گئی ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام کاشی میں ہوا۔ گوسوامی تلسی داس، سنت کبیر، سنت رے داس، بھارتندو ہریش چندر، منشی پریم چند اور جے شنکر پرساد جیسی عظیم ہستیوں کے اعزاز میں تین روزہ مہوتس کا اہتمام کیا گیا۔ الگ الگ ادوار میں ان سبھی کا ملک میں عوامی بیداری پھیلانے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ں کہ ’من کی بات‘ کی گزشتہ قسط کے دوران میں نے تین مقابلوں کا ذکر کیا تھا، کمپٹیشن کی بات کہی تھی۔ ایک حب الوطنی کے گیت لکھنا، حب الوطنی سے جڑے، تحریک آزادی سے متعلق واقعات کی رنگولیاں بنانا اور ہمارے بچوں کے ذہنوں میں عظیم الشان بھارت کے خواب جگانے والی لوری لکھی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان مقابلوں کے لیے بھی آپ ضرور انٹری بھی بھیج چکے ہوں گے، اسکیم بھی تیار کرچکے ہوں گے اور اپنے ساتھیوں سے ذکر کرچکے ہوں گے۔ مجھے امید ہے بڑھ چڑک کرکے بھارت کے ہر کونے اس پروگرام کو آپ ضرور آگے بڑھائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس تذکرے سے اب میں آپ کو سیدھے ورنداون لے کر چلتا ہوں۔ ورنداون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کی محبت کا براہ راست مظہر ہے۔ ہمارے سنتوں نے بھی کہا ہے کہ
यह आसा धरि चित्त में, यह आसा धरि चित्त में,
कहत जथा मति मोर।
वृंदावन सुख रंग कौ, वृंदावन सुख रंग कौ,
काहु न पायौ और।
یعنی ورنداون کی شان، ہم سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بیان ضرور کرتے ہیں، لیکن ورنداون کی سکھ ہے، یہاں کا رس ہے، اس کاآخری سراکوئی نہیں پا سکتا، وہ تو لامحدود ہے۔ تبھی تو ورنداون دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تا رہا ہے۔ اس کی چھاپ آپ کو دنیا کے کونے کونے میں مل جائے گی۔
مغربی آسٹریلیا کا ایک شہر ہے پرتھ۔ کرکٹ کے شائقین اس جگہ سے بخوبی واقف ہوں گے، کیونکہ پرتھ میں اکثر کرکٹ کے میچ ہوتے رہتے ہیں۔ پرتھ میں ایک ’سیکرڈ انڈیا گیلری‘ کے نام سے ایک آرٹ گیلری بھی ہے۔ یہ گیلری سوان ویلی کے ایک خوبصورت علاقے میں بنائی گئی ہے اور یہ آسٹریلیا کی رہنے والے جگت تارینی داسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جگت تارینی جی ویسے تو ہیں آسٹریلیا کی، جنم بھی وہیں ہوا، پرورش بھی وہیں ہوئی، لیکن 13 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ورنداون میں آکر انہوں نے گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ آسٹریلیا لوٹ تو گئیں، اپنے ملک واپس تو گئیں، لیکن وہ ورنداون کو کبھی بھول نہیں پائی۔ اس لئے انہوں نے ورنداون اور اس کے روحانی اثر سے جڑنے کے لیے، آسٹریلیا میں ہی ورنداون کھڑا کردیا۔ اپنے فن کو ہی ذریعہ بنا کر انہوں نے ایک حیرت انگیز ورنداون بنالیا۔ یہاں آنے والے لوگوں کو کئی طرح کے فن پارے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں بھارت کے سب سے زیادہ معروف مقدس مقامات ورنداون، نوادیپ اور جگن ناتھ پوری کی روایت اور ثقافت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں پر بھگوان کرشن کی زندگی سے متعلق بہت سے فن پارے بھی آویزاں ہیں۔ ایک فن پارہ ایسا بھی ہے، جس میں بھگوان کرشنا نے گووردھن پہاڑ کو اپنی چھوٹی انگلی پر اٹھا رکھا ہے، جس کے نیچے ورنداون کے لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ جگت تارینی جی کی یہ شاندار کوشش، واقعی ہمیں کرشن بھکتی کی طاقت کا درشن کراتی ہے۔ میں انہیں اس کوشش کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آسٹریلیا کے پرتھ میں واقع ورنداون کی بات کر رہا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے کہ آسٹریلیا کا ایک رشتہ ہمارے بندیل کھنڈ کے جھانسی سے بھی ہے۔ درحقیقت جھانسی کی رانی لکشمی جب بائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف قانونی لڑائی لڑ رہی تھیں تو ان کے وکیل جان لینگ تھے۔ جان لینگ کا تعلق اصل میں آسٹریلیا سے تھا۔ بھارت میں رہ کر انہوں نے رانی لکشمی بائی کا مقدمہ لڑا تھا۔ ہماری جنگ آزادی میں جھانسی اور بندیل کھنڈ کا کتنا بڑا تعاون ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ یہاں رانی لکشمی بائی اور جھلکاری بائی جیسی بہادر خواتین بھی ہوئی ہیں اور میجر دھیان چند جیسے کھیل رتن بھی اس خطے نے ملک کو دیئے ہیں۔
ساتھیو، بہادری صرف میدان جنگ میں ہی دکھائی جائے ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بہادری جب ایک عہد بن جاتی ہے اور پھیلتی ہے اور ہر میدان میں بہت سے کام ہونے لگتے ہیں۔ مجھے ایسی ہی بہادری کے بارے میں محترمہ جیوتسنا نے خط لکھ کر بتایا ہے۔ جالون میں ایک روایتی ندی تھی - نون ندی۔ نون، یہاں کے کسانوں کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ نون ندی معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی، جو تھوڑا بہت وجود اس ندی کا بچا تھا، اس میں وہ نالے میں تبدیل ہو رہی تھی، اس سے کسانوں کے لیے آبپاشی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ جالون کے لوگوں نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اسی سال مارچ میں اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ہزاروں گاؤں والے اور مقامی لوگ اپنی مرضی سے اس مہم سے جڑے۔ یہاں کی پنچایتوں نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور آج اتنی کم مدت میں اور بہت کم لاگت میں یہ ندی پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔ بہت سے کسانوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔ جنگ کے میدان سے الگ بہادری کی یہ مثال ہمارے ہم وطنوں کی قوتِ ارادی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر ہم پرعزم ہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں اور تبھی تو میں کہتا ہوں کہ سب کا پریاس۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم قدرت کا تحفظ کرتے ہیں تو بدلے میں قدرت بھی ہمیں تحفظ اور حفاظت فراہم کرتی ہے۔اس بات کو ہم اپنی ذاتی زندگی میں بھی محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی ایک مثال تمل ناڈو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر پیش کی ہے۔ یہ مثال ہے تمل ناڈو کے توتو کوڑی ضلع کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ساحلی علاقے بعض اوقات زمین کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ توتوکوڑی میں بھی کئی چھوٹے جزیرے اور ٹاپو ایسے تھے جن کے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ یہاں کے لوگوں اور ماہرین نے اس قدرتی آفت سے بچنے کے لئے قدرتی طریقہ ہی تلاش کیا۔ یہ لوگ اب ان جزائر پر پالمیرا کے درخت لگا رہے ہیں۔ یہ درخت سائیکلوں اور طوفانوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں اور زمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان اب اس علاقے کو بچانے کا ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔
ساتھیو، قدرت ہمارے لیے خطرہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کا توازن بگاڑ تے ہیں یا اس کے تقدست کو تباہ کرتے ہیں۔ قدرت، ماں کی طرح ہماری پرورش بھی کرتی ہے اور ہماری دنیا میں نئے نئے رنگ بھی بھر تی ہے۔
ابھی میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ میگھالیہ میں ایک فلائنگ بوٹ کی تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ پہلی ہی نظر یہ تصویر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ آپ میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے اسے آن لائن ضرور دیکھا ہوگا۔ ہوا میں تیرتی اس کشتی کو جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ندی کے پانی میں چل رہی ہے۔ ندی کا پانی اتنا صاف ہے کہ ہمیں اس کی تلہٹی نظر آتی ہے اور کشتی ہوا میں تیرتی سے لگ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ریاستیں ہیں، کئی علاقے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی قدرتی وراثت کے رنگوں کو محفوظ رکھا ہے۔ ان لوگوں نے قدرت کے ساتھ مل کر رہنے کے طرز زندگی کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ یہ ہم سب کو بھی تحریک دیتی ہے۔ ہمارے اردگرد جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں، ہمیں ان کو بچانا چاہیے، انھیں پھر سے ان کی اصلی شکل میں لانا چاہئیے۔ اسی میں ہم سب کا مفاد ہے، دنیا کا مفاد ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، حکومت جب اسکیمیں تیار کرتی ہے، بجٹ خرچ کرتی ہے،وقت پر پروجیکٹوں کو مکمل کرتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کام کر رہی ہے۔ لیکن حکومت کے متعدد کاموں میں ترقی کی متعدد اسکیموں کے درمیان، انسانی احساسات سے جڑی باتیں ہمیشہ ایک الگ ہی خوشی دیتی ہیں۔ حکومت کی کوششوں سے حکومت کی اسکیموں سے کیسے کوئی زندگی بدلی، اس بدلی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا ہے؟ جب یہ سنتے ہیں تو ہم بھی احساسات سے پر ہوجاتے ہیں۔ یہ من کو اطمینان بھی دیتا ہے اور اس اسکیم کو لوگوں تک پہنچانے کی تحریک بھی دیتا ہے۔ ایک طرح سے یہ ’سوانتہ: سکھائے‘ ہی تو ہے اور اس لئے ’من کی بات‘ ہمارے ساتھ دو ایسے ہی ساتھی بھی جڑ رہے ہیں جو اپنے حوصلوں سے ایک نئی زندگی جیت کر آئے ہیں۔ انہوں نے آیوشمان بھارت اسکیم کی مدد سے اپنا علاج کرایا اور ایک نئی زندگی شروع کی ہے۔ ہمارے پہلے ساتھی ہیں راجیش کمار پرجاپتی ہیں، جو عارضہ قلب سے پریشان تھے۔
تو آئیے راجیش جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم : راجیش جی نمستے۔
راجیش پرجاپتی : نمستے سر نمستے۔
وزیر اعظم : راجیش جی آپ کو کیا بیماری تھی؟ پھر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے، مجھے ذرا سمجھایئے، مقامی ڈاکٹر نے کہا ہو گا، پھر کسی اور ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے؟ پھر آپ فیصلہ نہیں کرتے ہوں گے یا کرتے ہوں گے ،کیا کیا ہوتا تھا؟
راجیش پرجاپتی: جی مجھے دل کا عارضہ لاھق ہوگیا تھا سر، میرے سینے میں جلن ہوتی تھی،سر، پھر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نےپہلے توو بتایا کہ ہوسکتا بیٹا تمہارے ایسڈ ہوگی، تو میں نے کافی دن تک ایسڈ کی دوائی کرائی، اس سے جب مجھے فائدہ نہیں ہوا تو پھر ڈاکٹر کپور کو دکھایا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تمہاری علامات ہیں اس کے بارے میں انجیوگرافی سے پتہ چلے گا، پھر اس نے ریفر کیا مجھے شری رام مورتی میں۔ پھر ملے ہم امریش اگروال جی سے، تو انہوں نے میری انجیوگرافی کری۔ پھر انہوں نے بتایا کہ بیٹا یہ تو تمہاری نس بلاکیج ہے تو ہم نے کہا کہ سر اس مین کتنا خرچ آئے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ کارڈ ہے آیوشمان والا، جو پی ایم جی نے بناکر دیا ۔ تو ہم نے کہا سر ہمارے پاس ہے۔ تو انہوں نے میرا وہ کارڈ لیا اور میرا سارا علاج اسی کارڈ سے ہوا ہے۔ سر اور جو آپ نے یہ بنایا ہے کارڈ ئی بہت ہی اچھے طریقے سے اور ہم غریب آدمیوں کے لیے بہت بڑی سہولت ہے اس سے۔ اور آپ کا کیسے میں شکریہ ادا کروں؟
وزیر اعظم : آپ کرتے کیا ہیں راجیش جی ؟
راجیش پرجاپتی : سر، اس وقت تو میں پرائیویٹ نوکری کرتا ہوں سر
وزیر اعظم : اور آپ کی عمر کتنی ہے؟
راجیش پرجاپتی: میری عمر 59 سال ہے۔ سر
وزیر اعظم : اتنی چھوٹی عمر میں آپ کو عارضہ قلب ہوگیا۔
راجیش پرجاپتی: ہاں جی سر کیا بتائیں اب۔
وزیر اعظم : آپ کے خاندان میں بھی والد کو والدہ کو یا ا س طرح کا عارضہ پہلے رہا ہے کیا؟
راجیش پرجاپتی: نہیں سر، کسی کو نہیں تھاسر، یہ پہلا ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے۔
وزیر اعظم : یہ آیوشمان کارڈ حکومت ہند یہ کارڈ دہتی ہے ،غریبوں کے لیے بہت بڑی اسکیم ہے، تو یہ آپ کو پتہ کیسے چلا ؟
راجیش پرجاپتی: سر یہ تو اتنی بڑی اسکیم ہے، غریب آدمی کو اس سےبہت فائدہ ملتا ہے اور اتنا خوش ہیں سر، ہم نے اسپتال میں دیکھا ہے کہ اس کارڈ سے کتنے لوگوں کو سہولت ملتی ہے جب ڈاکٹر سے کہتا ہے کارڈ میرے پاس ہے سر۔ تو ڈاکٹر کہا ہے ٹھیک ہے وہ کارڈ لے کر آیئے میں اسی کارڈ سے آپ کا ا علاج کردوں گا۔
وزیراعظم: اچھا کارڈ نہ ہوتا تو آپ کو کتنا خرچ بولا تھا ڈاکٹر نے ۔
راجیش پرجاپتی : ڈاکٹر نے کہا تھا بیٹا اس میں بہت سارا خرچ آئے گا۔ بیٹا اگر کارڈ نہیں ہوگا۔ تو میں نے کہا سر کار تو ہے میرے پاس تو انہوں نے کہا کہ فوراً آپ دکھائیے تو ہم نے فوراً دکھایا اسی کارڈ سے سارا علاج میرا کیا گیا، میرا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، ساری دوائیں بھی اسی کارڈ سے نکالی گئی ہیں۔
وزیر اعظم: تو راجیش جی، آپ کو اب سکون ہے، طبیعت ٹھیک ہے۔
راجیش پرجاپتی: جی سر، آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کی عمر بھی اتنی لمبی ہو کہ ہمیشہ اقتدار میں ہی رہیں، اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی آپ سے اتنا خوش ہیں، کیا کہیں آپ سے۔
وزیر اعظم: راجیش جی، آپ مجھے اقتدار میں رہنے کی نیک خواہشات مت دیجئے، میں آج بھی اقتدار میں نہیں ہوں اور مستقبل میں بھی اقتدار میں جانا نہیں چاہتا ہوں۔ میں تو صرف خدمت میں پہ رہنا چاہتا ہوں، میرے لیے یہ عہدہ، یہ وزیراعظم ساری چیزیں یہ اقتدار کے لیے ہے ہی نہیں بھائی، خدمت کے لیے ہے۔
راجیش پرجاپتی: خدمت ہی تو چاہیئے ہم لوگوں کو اور کیا؟
وزیر اعظم: دیکھئے غریبوں کے لیے یہ آیوشمان بھارت اسکیم یہ اپنے آپ میں ۔
راجیش پرجاپتی: جی سر بہت بڑھیا چیز بات ہے۔
وزیر اعظم: لیکن دیکھئے راجیش جی، آپ ہمارا ایک کام کیجئے، کریں گے؟
راجیش پرجاپتی: جی بالکل کریں گے سر۔
وزیراعظم: دیکھئے ہوتاکیا ہے کہ لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا ہے، آپ ایک ذمہ داری نبھایئے ایسے جتنے غریب خاندان ہیں، آپ کے آس پاس، ان کو اپنی یہ کیسے آپ کو فائدہ ہوا، کیسے مدد ملی یہ بتایئے؟
راجیش پرجاپتی: بالکل بتائیں گے سر۔
وزیر اعظم: اور ان کو کہئے کہ وہ بھی ایسا کارڈ بنوالیں تاکہ خاندان میں پتہ نہیں کب کیا مصیبت آجائے اور آج غریب دوا کی وجہ سے پریشان رہے یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ اب پیسوں کی وجہ سے وہ دوا نہ لے اور بیماری کا علاج نہ کرے تو یہ بھی بڑی تشویش کی بات ہے اور غریب کو تو کیا ہوتا ہے جیسے آپ کو یہ دل کا عارضہ ہوا تو کتنے مہینے تک تو آپ کام ہی نہیں کرپائیں ہوں گے۔
راجیش پرجاپتی: ہم تودس قدم نہیں چل پاتے تھے، زینا نہیں چڑھ پاٹے تھے سر
وزیر اعظم: بس تو آپ راجیش جی، میرے ایک اچھے ساتھی بن کر جنتے غریبوں کو آپ یہ آیوشمان بھارت اسکیم کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں، ویسے بیمار لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، دیکھئے آپ کو بھی سکون ہوگا اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ چلئے کی ایک راجیش جی کی طبیعت تو ٹھیک ہوئی لیکن راجیش جی نے سینکڑوں لوگوں کی طبیعت ٹھیک کروادی، یہ آیوشمان بھارت اسکیم، یہ غریبوں کے لیے ہے، یہ متوسط طبقے کے لیے ہے، یہ عام خاندانوں کے لیے ہے، تو گھر گھر اس بات کو پہنچائیں گے آپ۔
راجیش پرجاپتی: بالکل پہنچائیں گے سر۔ ہم تو وہیں تین دن رکے نا اسپتال میں سر تو بیچارے بہت لوگ آئے ، ساری سہولتیں ان کو بتائیں ، کارڈ ہوگا تو مفت میں ہو جائے گا۔
وزیر اعظم: چلئے راجیش جی، اپنے آپ کو تندرست رکھئے، تھوڑی جسم کی فکر کیجئے، بچوں کی فک کیجئے اور بہت ترقی کیجئے، میری بہت نیک خواہشات ہیں آپ کو۔
ساتھیو، ہم نے راجیش جی کی باتیں سنیں، آیئے اب ہمارے ساتھ سکھ دیوی جی جڑ رہی ہیں، گھٹنوں کی تکلیف نے انہیں بہت پریشان کررکھا تھا، آئیے ہم سکھ دیوی جی سے پہلے ان کی تکلیف کی بات سکتے ہیں اور پھرسکھ کیسے آیا وہ سمجھتے ہیں۔
مودی جی - سکھ دیوی جی نمستے! آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟
سکھ دیوی جی – دندپرا سے۔
مودی جی - یہ کہاں پڑتا ہے یہ؟
سکھ دیوی جی – متھرا میں۔
مودی جی – متھرا میں، پھر تو سکھ دیوی جی، آپ کو نمستے بھی کہنا ہے اور ساتھ ساتھ رادھے۔رادھے بھی کہنا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں، رادھے۔ رادھے
مودی جی – اچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ کو تکلیف ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی آپریشن ہوا۔ ذرا بتائیں گی کہ کیا با ت ہے؟
سکھ دیوی جی– ہاں میرا گھٹنا خراب ہوگیا تھا، تو آپریشن ہوا ہے میرا۔ پریاگ ہسپتال میں۔
مودی جی– آپ کی عمر کتنی ہے سکھ دیوی جی؟
سکھ دیوی جی – عمر 40 سال۔
مودی جی – 40 سال اور سکھ دیو نام، اور سکھ دیوی کو بیماری ہوگئی۔
سکھ دیوی جی – بیماری تو مجھے 15۔16 سال سے ہی لگ گئی۔
مودی جی – ارے باپ رے! اتنی چھوٹی عمر میں آپ کے گھٹنے خراب ہوگئے۔
سکھ دیوی جی – وہ گٹھیا ۔ بائے بولتے ہیں جو جوڑوں میں درد سے گھٹنا خراب ہوگیا۔
مودی جی – تو 16 سال سے 40 سال کی عمر تک آپ نے اس کا علاج ہی نہیں کرایا۔
سکھ دیوی جی – نہیں، کروایا تھا۔ درد کی دوائی کھاتے رہے، چھوٹے۔ موٹے ڈاکٹروں نے تو ایسی دیسی دوائی ہے ویسی دوائی ہے۔ جھولا چھاپ ڈاکٹروں نے تو ایسے ان سے گھٹنا چل بھی پائی خراب ہوگئی، 1۔2 کلومیٹر پیدل چلی میں تو گھٹنا خراب ہوگیا میرا۔
مودی جی – تو سکھ دیوی جی آپریشن کا خیال کیسے آیا؟ اس کے پیسوں کا کیا انتظام کیا؟ کیسے بنا یہ سب؟
سکھ دیوی جی – میں نے وہ آیوشمان کارڈ سے علاج کروایا ہے۔
مودی جی – تو آپ کو آیوشمان کارڈ مل گیا تھا؟
سکھ دیوی جی– ہاں۔
مودی جی – اور آیوشمان کارڈ سے غریبوں کو مفت میں علاج ہوتا ہے۔ یہ معلوم تھا؟
سکھ دیوی جی – اسکول میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ وہاں سے ہمارے شوہر کو معلوم ہوا تو کارڈ بنوایا میرے نام سے۔
مودی جی – ہاں۔
سکھ دیوی جی – پھر علاج کروایا کارڈ سے، اور میں نے کوئی پیسہ نہیں لگایا۔ کارڈ سے ہی علاج ہوا ہے میرا۔ خوب بڑھیا علاج ہوا ہے۔
مودی جی – اچھا ڈاکٹر پہلے اگر کارڈ نہ ہوتا تو کتنا خرچ بتاتے تھے؟
سکھ دیوی جی – ڈھائی لاکھ روپئے، تین لاکھ روپئے۔ 6۔7 سال سے پڑی ہوں کھاٹ پر۔ یہ کہتی تھی کہ، ہے بھگوان مجھے لے لے تو، مجھے نہیں جینا۔
مودی جی – 6۔7 سال سے کھاٹ پے تھی۔ باپ رے باپ۔
سکھ دیوی جی – ہاں۔
مودی جی – او ہو۔
سکھ دیوی جی – بالکل اٹھا بیٹھا نہیں جاتا تھا۔
مودی جی – تو ابھی آپ کا گھٹنا پہلے سے اچھا ہو اہے؟
سکھ دیوی جی – میں خوب گھومتی ہوں۔ پھرتی ہوں۔ رسوئی کا کام کرتی ہوں۔ گھر کا کام کرتی ہوں۔ بچوں کو کھانا بناکر دیتی ہوں۔
مودی جی – تو مطلب آیوشمان بھارت کارڈ نے آپ کو سچ مچ میں آیوشمان بنا دیا۔
سکھ دیوی جی – بہت بہت شکریہ آپ کی اسکیم کی وجہ سے ٹھیک ہوگئی، اپنے پیرں پر کھڑی ہوگئی۔
مودی جی – تو اب تو بچوں کو بھی مزہ آتا ہوگا۔
سکھ دیوی جی – ہاں جی۔ بچوں کو تو بہت ہی پریشانی ہوتی تھی۔ اب ماں پریشان ہے تو بچہ بھی پریشان ہے۔
مودی جی – دیکھئے ہماری زندگی میں سب سے بڑی خوشی ہماری صحت ہی ہوتی ہے۔ یہ خوشحال زندگی سب کو ملے یہی آیوشمان بھارت کا جذبہ ہے، چلئے سکھ دیوی جی میری جانب سے آپ کو بہت بہت مبارکباد، پھر سے ایک بار آپ کو رادھے۔ رادھے۔
سکھ دیوی جی – رادھے۔رادھے، نمستے!
میرے پیارے اہل وطن، نوجوانوں کی اکثریت والے ملک میں تین چیزیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ اب وہی تو کبھی کبھی نوجوان کی حقیقی شناخت بن جاتی ہے۔ پہلی چیز ہے – خیال اور اختراع۔ دوسری ہےخطرہ مول لینے کا جذبہ اور تیسری ہے کسی بھی کام کو پورا کرنے کی ضد، خواہ کتنے بھی برعکس حالات کیوں نہ ہوں، جب یہ تینوں چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو غیرمعمولی نتائج سامنے آتے ہیں۔ کرشمے ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہم چاروں طرف سنتے ہیں ، اسٹارٹ اپ، اسٹارٹ اپ ، اسٹارٹ اپ۔ صحیح بات ہے، یہ اسٹارٹ اپ کا زمانہ ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسٹارٹ اپ کے میدان میں آج بھارت دنیا بھر میں ایک طرح سے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ سال در سال اسٹارٹ اپ کو ریکارڈ تعداد میں سرمایہ حاصل ہو رہا ہے۔ یہ شعبہ بہت تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اسٹارٹ اپ کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ’یونی کارن‘ لفظ خوب سرخیوں میں ہے۔ آپ سب نے اس کے بارے میں سنا ہوگا۔ ’یونی کارن‘ ایک ایسا اسٹارٹ اپ ہوتا ہے جس کی قیمت کم سے کم ایک بلین ڈالر کے بقدر ہوتی ہے یعنی تقریباً سات ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ۔
ساتھیو، سال 2015 تک ملک میں بہ مشکل نو یا دس یونی کارن ہوا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر ازحد خوشی ہوگی کہ اب یونی کارنس کی دنیا میں بھی بھارت تیز اُڑان بھر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ محض 10 مہینوں میں ہی بھارت میں ہر 10 دن میں ایک یونی کارن بنا ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے نواجوانوں نے یہ کامیابی کورونا وبائی مرض کے درمیان حاصل کی ہے۔ آج بھارت میں 70 سے زائد یونی کارنس ہو چکے ہیں۔ یعنی 70 سے زائد اسٹارٹ اپس ایسے ہیں جو ایک بلین سے زائد کی قیمت سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ساتھیو اسٹارٹ اپ کی کامیابی کی وجہ سے ہر کسی کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ہے اور جس طرح سے ملک سے، غیر ممالک سے، سرمایہ کاروں سے اسے تعاون حاصل ہو رہا ہے۔ شاید کچھ برس قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ساتھیو، اسٹارٹ اپس کے ذریعہ بھارتی نوجوان عالمی مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ آج ہم ایک نوجوان میور پاٹل سے بات کریں گے، انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آلودگی کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔
مودی جی– میور جی نمستے۔
میور پاٹل – نمستے سر جی۔
مودی جی – میور جی آپ کیسے ہیں؟
میور پاٹل – بس بڑھیا سر۔ آپ کیسے ہو؟
مودی جی – میں بہت خوش ہوں۔ اچھا مجھے بتایئے کہ آج آپ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور Waste میں سے Best بھی کر رہے ہیں۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – Environment کا بھی کر رہے ہیں ، تھوڑا مجھے اپنے بارے میں بتایئے۔ اپنے کام کے بارے میں بتایئے اور اس کام کے پیچھے آپ کو خیال کہاں سے آیا؟
میور پاٹل – سر جب کالج میں تھا تب میرے پاس موٹرسائیکل تھی ، جس کا مائی لیج بہت کم تھا اور اخراج بہت زیادہ تھا۔ وہ 2 اسٹرائیک موٹرسائیکل تھی۔ تو اخراج کم کرنے کے لیے اور اس کا مائی لیج تھوڑا بڑھانے کے لیے میں نے کوشش شروع کی تھی۔ 2011۔12 میں اور اس کا میں نے تقریباً 62 کلو میٹر فی لیٹر تک مائی لیج بڑھا دیا تھا۔ تو وہاں سے مجھے یہ ترغیب حاصل ہوئی کہ کچھ ایسی چیز بنائیں جو مارس پروڈکشن کر سکتے ہیں، تو باقی بہت سارے لوگوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ تو 2017۔18 میں ہم لوگوں نے اس کی تکنالوجی ڈیولپ کی اور علاقائی نقل و حمل کارپوریشن میں ہم لوگوں نے 10 بسوں میں وہ استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ چیک کرنے کے لیے اور قریب قریب ہم لوگوں نے اس کا چالیس فیصد اخراج کم کر دیا۔ بسوں میں۔
مودی جی – ہم! اب یہ تکنالوجی جو آپ نے دریافت کی ہے۔ اس کا پیٹنٹ وغیرہ کروا لیا۔
میور پاٹل – ہاں جی! پیٹنٹ ہوگیا۔ اس سال ہمیں پیٹنٹ گرانٹ ہوکر کے آگیا۔
مودی جی – اور آگے اس کو بڑھانے کا کیا منصوبہ ہے؟ آپ کا۔ کس طرح سے کر رہے ہیں؟ جیسے بس کا ریزلٹ آگیا۔ اس کی بھی ساری چیزیں باہر آگئی ہوں گی۔ تو آگے کیا سوچ رہے ہیں؟
میور پاٹل – سر، اسٹارٹ اپ انڈیا کے اندر نیتی آیوگ سے اٹل نیو انڈیا چیلنج جو ہے، وہاں سے ہمیں مدد ملی اور اس مدد کی بنیاد پر ہم لوگوں نے فیکٹری شروع کی جہاں پر ہم ایئر فلٹرس کی مینوفیکچرنگ کر سکتے ہیں۔
مودی جی – تو حکومت ہند کی جانب سے کتنی مدد ملی آپ کو؟
میور پاٹل – 90 لاکھ۔
مودی جی– 90 لاکھ۔
میور پاٹل – ہاں جی!
مودی جی – اور اس سے آپ کا کام چل گیا۔
میور پاٹل – ہاں ابھی تو شروع ہو گیا ہے۔ پروسیس میں ہے۔
مودی جی – آپ کتنے دوست مل کر کے کر رہے ہیں؟ یہ سب!
میور پاٹل – ہم چار لوگ ہیں سر۔
مودی جی – اور چاروں پہلے ساتھ میں ہی پڑھتے تھے اور اسی میں سے آپ کو ایک خیال آیا آگے بڑھنے کا۔
میور پاٹل – ہاں جی! ہاں جی! ہم کالج میں ہی تھے۔ اور کالج میں ہم لوگوں نے یہ سب سوچا اور یہ میرا آئیڈیا تھا کہ میری موٹرسائیکل کی آلودگی کم سے کم ہوجائے اور مائی لیج بڑھ جائے۔
مودی جی – اچھا آلودگی کم کرتے ہیں، مائی لیج بڑھاتے ہیں تو اوسط خرچ کتنا بچتا ہوگا؟
میور پاٹل – سر موٹرسائیکل پر ہم لوگوں نے ٹیسٹ کیا، اس کا مائی لیج تھا 25 کلومیٹر فی لیٹر، وہ ہم لوگوں نے بڑھا دیا 39 کلو میٹر فی لیٹر تو ، قریب قریب 14کلومیٹر کا فائدہ ہوا اور اس میں سے 40 فیصد کا کاربن اخراج کم ہوگیا۔ اور جب علاقائی نقل و حمل کارپوریشن نے بسوں پر کیا تو وہاں پر 10 فیصد ایندھن اثرانگیزی میں اضافہ ہوا اور اس میں بھی 35۔40 فیصد اخراج کم ہوگیا۔
مودی جی – میور مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے اور آپ کے ساتھیوں کو بھی میری طرف سے مبارکباد دیجئے کہ کالج کی زندگی میں خود کا جو مسئلہ تھا اس مسئلے کا حل بھی آپ نے تلاش لیا اور اب اس حل میں سے جو راستہ اختیار کیا اس نے ماحولیات کے مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی قوت ہی ہے جو کوئی بھی بڑی چنوتی اٹھا لیتے ہیں اور راستے تلاش رہے ہیں۔ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
میور پاٹل – آپ کا شکریہ سر! آ پ کا شکریہ!
ساتھیو، کچھ برسوں قبل اگر کوئی کہتا تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا ہے یا ایک کوئی نہیں کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے، تب کنبے کے بڑے بزرگ کا جواب ہوتا تھا کہ ’’تم نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے، نوکری کرو نا بھائی۔ ارے نوکری میں سکیورٹی ہوتی ہے، تنخواہ ہوتی ہے۔ جھنجھٹ بھی کم ہوتی ہے۔ لیکن، آج اگر کوئی اپنی کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے تو اس کے آس پاس کے تمام لوگ بہت پرجوش ہوتے ہیں اور اس میں اس کا مکمل تعاون بھی کرتے ہیں۔ ساتھیو بھارت کی نمو کی داستان کایہ اہم موڑ ہے، جہاں اب لوگ صرف نوکری تلاش کرنے والا بننے کا خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ روزگار کےمواقع پیدا کرنے والے بھی بن رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن مزید مضبوط بنے گی۔
میرے پیارے اہل وطن حضرات، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے امرت مہوتسو کی بات کی۔ امرت کال میں کیسے ہمارے اہل وطن نئے نئے عہد پور ے کر رہے ہیں، اس پر بات کی، اور ساتھ ہی دسمبر مہینے میں فوج کی شجاعت سے متعلق باتوں کا بھی ذکر کیا۔ دسمبر مہینے میں ہی ایک اور بڑا دن ہمار سامنے آتا ہے جس سے ہم ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ یہ دن ہے، 6 دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی ۔ بابا صاحب نے اپنی پوری زندگی ملک اور سماج کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ہم اہل وطن یہ کبھی نہ فراموش کریں کہ ہمارے آئین کا بھی بنیادی جذبہ، ہمارا آئین ہم سبھی اہل وطن سے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توقع رکھتا ہے۔ تو آیئے، ہم بھی عہد کریں کہ امرت مہوتسو میں ہم فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کریں گے۔ یہی بابا صاحب امبیڈکر کے لیے ہمارا حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔
ساتھیو اب ہم دسمبر مہینے میں داخل ہو رہے ہیں، ظاہر ہے آئندہ ’من کی بات‘ 2021 کا آخری ’من کی بات‘ ہوگا۔ 2022 میں پھر سے سفر شروع کریں گے اور میں آپ سے ڈھیر سارے سجھاؤ کی توقع کرتا ہی رہوں گا۔ آپ اس سال کو کیسے وداع کر رہے ہیں، نئے سال میں کیا کچھ کرنے والے ہیں، یہ بھی ضرور بتایئے اور ہاں یہ بھی مت بھولنا کہ کورونا ابھی گیا نہیں ہے۔ احتیاط برتنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سبھی کو نمسکار۔ کوٹی کوٹی (لاکھوں، کروڑوں) نمسکار۔ اور میں ’کوٹی کوٹی نمسکار‘ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ 100 کروڑ ویکسین ڈوز کے بعد آج ملک نئے جوش، نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی، بھارت کی صلاحیت کو دکھاتی ہے، سب کی کوشش کے منتر کی طاقت کو دکھاتی ہے۔
ساتھیو، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا ڈیٹا بہت بڑا ضرور ہے، لیکن اس سے لاکھوں چھوٹے چھوٹے حوصلہ افزااور فخر سے پُر کر دینے والے متعدد تجربات، متعدد مثالیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ خط لکھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ویکسین کی شروعات کے ساتھ ہی کیسے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس مہم کو اتنی بڑی کامیابی ملے گی۔ مجھے یہ پختہ یقین اس لیے تھا، کیوں کہ میں اپنے ملک، اپنے ملک کے لوگوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز ملک کے شہریوں کی ٹیکہ کاری میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ہمارے طبی ملازمین نے اپنی بے پناہ کوششوں اور عزم سے ایک نئی مثال پیش کی، انہوں نے انوویشن کے ساتھ اپنے پختہ عزم سے انسانیت کی خدمت کا ایک نیا پیمانہ قائم کیا۔ ان کے بارے میں بے شمار مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے تمام چیلنجز کو پار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیکورٹی کور فراہم کیا۔ ہم نے کئی بار اخباروں میں پڑھا ہے، باہر بھی سنا ہے اس کام کو کرنے کے لیے ہمارے ان لوگوں نے کتنی محنت کی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک متعدد حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں آج ’من کی بات‘ کے سامعین کو اتراکھنڈ کے باگیشور کی ایک ایسی ہی ہیلتھ ورکر پونم نوٹیال جی سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، یہ باگیشور اتراکھنڈ کی اُس سرزمین سے ہے جس اتراکھنڈ نے سو فیصد پہلا ڈوز لگانے کا کام پورا کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار بھی اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے، کیوں کہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے، مشکل علاقہ ہے۔ ویسے ہی، ہماچل نے بھی ایسی مشکلات میں سو فیصد ڈوز کا کام کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پونم جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے دن رات محنت کی ہے۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی نمستے۔
پونم نوٹیال:- سر پرنام۔
جناب وزیراعظم:- پونم جی اپنے بارے میں بتائے ذرا ملک کے سامعین کو۔
پونم نوٹیال:- سر میں پونم نوٹیال ہوں۔ سر میں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں چانی کورالی سنٹر میں ملازم ہوں۔ میں ایک اے این ایم ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی میری خوش قسمتی ہے مجھے باگیشور آنے کا موقع ملا تھا وہ ایک طرح سے تیرتھ کا علاقہ رہا ہے وہاں قدیم مندر وغیرہ بھی ہیں، میں بہت متاثر ہوا تھا صدیوں پہلے کیسے لوگوں نے کام کیا ہوگا۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر
جناب وزیر اعظم:- پونم جی کیا آپ نے اپنے علاقے کے سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کروالی ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، سبھی لوگوں کا ہو چکا ہے
جناب وزیر اعظم:- آپ کو کسی قسم کی دقت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کیا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر۔ سر ہم لوگ جیسے بارش ہوتی تھی وہاں پہ اور روڈ بلاک ہو جاتا تھا۔ سر، ندی پار کرکے گئے ہیں ہم لوگ نا! اور سر گھر گھر گئے ہیں، جیسے این ایچ سی وی سی کے تحت ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ جو لوگ سنٹر میں نہیں آ سکتے تھے، جیسے بزرگ لوگ اور معذور افراد، حاملہ عورتیں، دھاتری عورتیں – یہ لوگ سر۔
جناب وزیر اعظم:- لیکن، وہاں تو پہاڑوں پر گھر بھی بہت دور دور ہوتے ہیں۔
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- تو ایک دن میں کتنا کر پاتے تھے آپ!
پونم نوٹیال:- سر کلومیٹر کا حساب – 10 کلومیٹر کبھی 8 کلومیٹر۔
جناب وزیر اعظم:- خیر، یہ تو ترائی میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو یہ سمجھ نہیں آئے گا 10-8 کلومیٹر کیا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ کے 10-8 کلومیٹر مطلب پورا دن چلا جاتا ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- لیکن ایک دن میں کیوں کہ یہ بڑی محنت کا کام ہے اور ٹیکہ کاری کا سارا سامان اٹھا کر کے جانا۔ آپ کے ساتھ کوئی معاون رہتے تھے کہ نہیں؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، ٹیم ممبر، ہم پانچ لوگ رہتے تھے سر نا!
جناب وزیر اعظم:- ہاں
پونم نوٹیال:- تو اس میں ڈاکٹر ہو گئے، پھر اے این ایم ہو گئی، فارماسسٹ ہو گئے، آشا ہو گئی، اور ڈیٹا انٹری آپریٹر ہو گئے۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا وہ ڈیٹا انٹری، وہاں کنیکٹویٹی مل جاتی تھی یا پھر باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے؟
پونم نوٹیال:- سر کہیں کہیں مل جاتی، کہیں کہیں باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے، ہم لوگ۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا! مجھے بتایا گیا ہے پونم جی کہ آپ نے آؤٹ آف دی وے جاکر لوگوں کا ٹیکہ لگوایا۔ یہ کیا تصور آیا، آپ کے من میں خیال کیسے آیا اور کیسے کیا آپ نے؟
پونم نوٹیال:- ہم لوگوں نے، پوری ٹیم نے، عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں سے ایک آدمی بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ہمارے ملک سے کورونا بیماری دور بھاگنی چاہیے۔ میں نے اور آشا نے مل کر ہر ایک آدمی کی گاؤں وائز ڈیو لسٹ بنائی، پھر اس کے حساب سے جو لوگ سنٹر میں آئے ان کو سنٹر میں لگایا۔ پھر ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ سر، پھر اس کے بعد، چھوٹے ہوئے تھے، جو لوگ نہیں آ پاتے سنٹر میں،
جناب وزیر اعظم:- اچھا، لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، سمجھایا، ہاں جی!
جناب وزیر اعظم:- لوگوں کا جوش ہے، ابھی بھی ویکسین لینے کا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، ہاں جی۔ اب تو لوگ سمجھ گئے ہیں۔ فرسٹ میں بہت دقت ہوئی ہم لوگوں کو۔ لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا، کہ یہ جو ویکسین ہے محفوظ ہے، اور اثر دار ہے، ہم لوگ بھی لگا چکے ہیں، تو ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، آپ کے سامنے ہیں، اور ہمارے اسٹاف نے، سب نے، لگا لیا ہے، تو ہم لوگ ٹھیک ہیں۔
جناب وزیر اعظم:- کہیں پر ویکسین لگنے کے بعد کسی کی شکایت آئی۔ بعد میں
پونم نوٹیال:- نہیں، نہیں سر۔ ایسا تو نہیں ہوا
جناب وزیر اعظم:- کچھ نہیں ہوا
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- سب کو اطمینان تھا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- کہ ٹھیک ہو گیا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیراعظم:- چلئے، آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں، یہ پورا علاقہ کتنا مشکل ہے اور پیدل چلنا پہاڑوں پہ۔ ایک پہاڑ پہ جاؤ، پھر نیچے اترو، پھر دوسرے پہاڑ پہ جاؤ، گھر بھی دور دور اس کے باوجود بھی، آپ نے، اتنا بڑھیا کام کیا
پونم نوٹیال:- شکریہ سر، میری خوش قسمتی آپ سے بات ہوئی میری۔
آپ جیسے لاکھوں ہیلتھ ورکرز نے ان کی محنت کی وجہ سے ہی بھارت سو کروڑ ویکسین ڈوز کا پڑاؤ پار کر سکا ہے۔ آج میں صرف آپ کا ہی شکریہ ادا نہیں کر رہا ہوں، بلکہ بھارت کے ہر اس شہری کا شکریہ ادا کر رہا ہوں، جس نے ’سب کو ویکسین –مفت ویکسین‘ مہم کو اتنی اونچائی دی، کامیابی دی۔ آپ کو، آپ کی فیملی کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ جانتے ہیں کہ اگلے اتوار، 31 اکتوبر کو، سردار پٹیل جی کی جنم جینتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ہر سامعین کی طرف سے، اور میری طرف سے، میں آئرن مین کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو، 31 اکتوبر کو ہم ’راشٹریہ ایکتا دیوس‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کا پیغام دینے والی کسی نہ کسی سرگرمی سے ضرور جڑیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حال ہی میں گجرات پولیس نے کچھّ کے لکھپت قلعہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی نکالی ہے۔ تریپورہ پولیس کے جوان تو ایکتا دیوس منانے کے لیے تریپورہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی کرر ہے ہیں۔ یعنی، مشرق سے چل کر مغرب تک ملک کو جوڑ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے جواب بھی اُری سے پٹھان کوٹ تک ایسی ہی بائیک ریلی نکال کر ملک کے اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں۔ میں ان سبھی جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے ہی کپواڑہ ضلع کی کئی بہنوں کے بارے میں بھی مجھے پتہ چلا ہے۔ یہ بہنیں کشمیر میں فوج اور سرکاری دفتروں کے لیے ترنگا سلنے کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کام حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میں ان بہنوں کے جذبے کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کو بھی، بھارت کے اتحاد کے لیے، بھارت کی عظمت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ دیکھئے گا، آپ کے من کو کتنا سکون ملتا ہے۔
ساتھیو، سردار صاحب کہتے تھے کہ – ’’ہم اپنے اتحاد سے ہی ملک کو نئی عظیم بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہم میں اتحاد نہیں ہوا تو ہم خود کو نئی نئی مصیبتوں میں پھنسا دیں گے۔‘‘ یعنی قومی اتحاد ہے تو اونچائی ہے، ترقی ہے۔ ہم سردار پٹیل جی کی زندگی سے، ان کے خیالات سے، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی حال ہی میں سردار صاحب پر ایک پکٹوریل بائیوگرافی شائع کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے سبھی نوجوان ساتھی اسے ضرور پڑھیں۔ اس سے آپ کو دلچسپ انداز میں سردار صاحب کے بارےمیں جاننے کا موقع ملے گا۔
پیارے ہم وطنو، زندگی مسلسل پیش رفت چاہتی ہے، ترقی چاہتی ہے، اونچائیوں کو پار کرنا چاہتی ہے۔ سائنس بھلے ہی آگے بڑھ جائے، ترقی کی رفتار کتنی ہی تیز ہو جائے، عمارت کتنی ہی عالیشان بن جائے، لیکن پھر بھی زندگی ادھوراپن محسوس کرتی ہے۔ لیکن، جب ان میں گیت موسیقی، آرٹ، رقص و ڈرامہ، ادب جڑ جاتا ہے، تو ان کی شان، ان کی جاودانی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرح سے زندگی کو مثبت بننا ہے، تو یہ سب ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ سبھی ہنر ہماری زندگی میں ایک کیٹالسٹ کا کام کرتے ہیں، ہماری توانائی بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائی کو فروغ دینے میں، ہمارے ذہن کی گہرائی کی راہ ہموار کرنے میں بھی، گیت موسیقی اور مختلف فنون کا بڑا رول ہوتا ہے، اور ان کی ایک بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں نہ وقت باندھ سکتا ہے، نہ سرحد باندھ سکتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے باندھ سکتا ہے۔ امرت مہوتسو میں بھی اپنے فن، ثقافت، گیت، موسیقی کے رنگ ضرور بھرنے چاہئیں۔ مجھے بھی آپ کی طرف سے امرت مہوتسو اور گیت موسیقی فن کی اس طاقت سے جڑے بہت سارے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ مشورے، میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میں نے انہیں وزارت ثقافت کو مطالعہ کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزارت نے اتنے کم وقت میں ان مشوروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا، اور اس پر کام بھی کیا۔ انہی میں سے ایک مشورہ ہے، حب الوطنی کے گیتوں سے جڑا مقابلہ! آزادی کی لڑائی میں الگ الگ زبان، بولی میں، حب الوطنی کے گیتوں اور بھجنوں نے پورے ملک کو متحد کیا تھا۔ اب امرت کال میں، ہمارے نوجوان، حب الوطنی کے ایسے ہی گیت لکھ کر، اس پروگرام میں مزید توانائی بھر سکتے ہیں۔ حب الوطنی کے یہ گیت مادری زبان میں ہو سکتے ہیں، قومی زبان میں ہو سکتے ہیں، اور انگریزی میں بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ ضروری ہے کہ یہ تخلیقات نئے بھارت کی نئی سوچ والی ہوں، ملک کی موجودہ کامیابی سے تاثر لے کر مستقبل کے لیے ملک کو عزم فراہم کرنے والی ہوں۔ وزارت ثقافت کی تیاری تحصیل سطح سے قومی سطح تک اس سے جڑے مقابلے کرانے کی ہے۔
ساتھیو، ایسے ہی ’من کی بات‘ کے ایک سامع نے مشورہ دیا ہے کہ امرت مہوتسو کو رنگولی کے فن سے بھی جوڑا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں رنگولی کے ذریعے تہواروں میں رنگ بھرنے کی روایت تو صدیوں سے ہے۔ رنگولی میں ملک کی تکثیریت کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے، الگ الگ تھیم پر رنگولی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے، وزارت ثقافت اس سے بھی جڑا ایک قومی مقابلہ کرانے جا رہا ہے۔ آپ تصور کیجئے، جب آزادی کی تحریک سے جڑی رنگولی بنے گی، لوگ اپنے دروازے پر، دیوار پر، کسی آزادی کے متوالے کی تصویر بنائیں گے، آزادی کے کسی واقعہ کو رنگوں سے دکھائیں گے، تو امرت مہوتسو کا بھی رنگ اور بڑھ جائے گا۔
ساتھیو، ایک اور فن ہمارے یہاں لوری کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں لوری کے ذریعے چھوٹے بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں، ثقافت سے ان کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ لوری کی بھی اپنی رنگا رنگی ہے۔ تو کیوں نہ ہم، امرت کال میں، اس فن کو بھی دوبارہ زندہ کریں اور حب الوطنی سے جڑی ایسی لوریاں لکھیں، نظمیں، گیت، کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں جو بڑی آسانی سے، ہر گھر میں مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنا سکیں۔ ان لوریوں میں جدید بھارت کا حوالہ ہو، 21ویں صدی کے بھارت کے خوابوں کی عکاسی ہو۔ آپ تمام سامعین کے مشورے کے بعد وزارت نے اس سے جڑا مقابلہ بھی کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔
ساتھیو، یہ تینوں مقابلے 31 اکتوبر کو سردار صاحب کی جینتی سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت ثقافت اس سے جڑی ساری جانکاری دے گی۔ یہ جانکاری وزارت کی ویب سائٹ پر بھی رہے گی، اور سوشل میڈیا پر بھی دی جائے گی۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی اس سے جڑیں۔ ہمارے نوجوان ساتھی ضرور اس میں اپنے فن کا، اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آپ کے علاقے کا فن اور ثقافت بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ کی کہانیاں پورا ملک سنے گا۔
پیارے ہم وطنو، اس وقت ہم امرت مہوتسو میں ملک کے بہادر بیٹے بیٹیوں کو، ان عظیم روحوں کو یاد کر رہے ہیں۔ اگلے مہینے، 15 نومبر کو ہمارے ملک کی ایسی ہی عظیم شخصیت، بہادر سپاہی، بھگوان برسا منڈا جی کی جنم جینتی آنے والی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کو ’دھرتی آبا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے بابائے زمین۔ بھگوان برسا منڈا نے جس طرح اپنی ثقافت، اپنے جنگل، اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی، وہ دھرتی آبا ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی ثقافت اور جڑوں کے تئیں فخر کرنا سکھایا۔ غیر ملکی حکومت نے انہیں کتنی دھمکیاں دیں، کتنا دباؤ بنایا، لیکن انہوں نے آدیواسی ثقافت کو نہیں چھوڑا۔ قدرت اور ماحولیات سے اگر ہمیں محبت کرنا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے بھی دھرتی آبا بھگوان برسا منڈا ہمارے لیے بڑے حوصلہ کا باعث ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کی ہر اس پالیسی کی پرزور مخالفت کی، جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی تھی۔ غریب اور مصیبت سے گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں بھگوان برسا منڈا ہمیشہ آگے رہے۔ انہوں نے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج کو بیدار بھی کیا۔ اُلگولان تحریک میں ان کی قیادت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے! اس تحریک نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد انگریزوں نے بھگوان برسا منڈا پر بہت بڑا انعام رکھا تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں جیل میں ڈالا، ان کے اوپر اس قدر ظلم ڈھائے کہ 25 سال سے بھی کم عمر میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر گئے، لیکن صرف جسم سے۔
عام لوگوں میں تو بھگوان برسا منڈا ہمیشہ کے لیے رچے بسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے ان کی زندگی حوصلہ کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ آج بھی ان کی بہادری اور شجاعت سے بھرے لوک گیت اور کہانیاں بھارت کے وسطی علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ میں ’دھرتی آبا‘ برسا منڈا کو سلام کرتا ہوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ہماری آدیواسی برادری کے مخصوص تعاون کے بارے میں آپ جتنا جانیں گے، اتنے ہی فخر کا احساس ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 24 اکتوبر کو یو این ڈے، یعنی ’اقوام متحدہ کا دن‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی بھارت اس سے جڑا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے 1945 میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اقوام متحدہ سے جڑا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اثر اور اس کی طاقت بڑھانے میں، ہندوستانی خواتین نے بڑا رول نبھایا ہے۔ 48-1947 میں جب یو این ہیومن رائٹس کا یونیورسل ڈکلریشن تیار ہو رہا تھا تو اس ڈکلریشن میں لکھا جا رہا تھا کہ ’’تمام مردوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ لیکن بھارت کے ایک وفد نے اس پر اعتراض جتایا اور پھر یونیورسل ڈکلریشن میں لکھا گیا – ’’تمام انسانوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ یہ بات جنسی برابری کی بھارت کی صدیوں پرانی روایت کے موافق تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ ہنسا مہتہ وہ وفد تھی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا، اسی دوران، ایک دیگر وفد محترمہ لکشمی مینن نے جنسی برابری کے ایشو پر زوردار طریقے سے اپنی بات رکھی تھی۔ یہی نہیں، 1953 میں محترمہ وجیہ لکشمی پنڈت، یو این جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون پریزیڈنٹ بھی بنی تھیں۔
ساتھیو، ہم اس سرزمین کے لوگ ہیں، جو یہ یقین کرتے ہیں، جو یہ پرارتھنا کرتے ہیں:
ॐ द्यौ: शान्तिरन्तरिक्षॅं शान्ति:,
पृथ्वी शान्तिराप: शान्तिरोषधय: शान्ति:।
वनस्पतय: शान्तिर्विश्र्वे देवा: शान्तिर्ब्रह्म शान्ति:,
सर्वॅंशान्ति:, शान्तिरेव शान्ति:, सा मा शान्तिरेधि।।
ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति:।।
بھارت نے ہمیشہ عالمی امن کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بھارت 1950 کے عشرے سے لگاتار اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہا ہے۔ غریبی ہٹانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مزدوروں سے متعلق مسائل کے حل میں بھی بھارت سرکردہ رول نبھاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یوگ اور آیوش کو مقبول بنانے کے لیے بھارت ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ مارچ، 2021 میں ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ بھارت میں روایتی میڈیسن کے لیے ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جائے گا۔
ساتھیو، اقوام متحدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج مجھے اٹل جی کے الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ 1977 میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ہندی میں مخاطب کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ آج میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو، اٹل جی کے اس خطاب کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے، اٹل جی کی بارعب آواز –
’’یہاںمیں قوموں کی حکومت اور اہمیت کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ عام آدمی کا وقار اور ترقی میرے لیے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آخرکار ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں صرف ایک ہی پیمانے سے ناپی جانی چاہیے کہ کیا ہم پوری انسانیت، ہر مرد و عورت اور بچے کے لیے انصاف اور عزت کی یقینی دہانی کرانے میں کوشاں ہیں۔‘‘
ساتھیو، اٹل جی کی یہ باتیں آج بھی ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ اس سرزمین کو ایک بہتر اور محفوظ سیارہ بنانے میں بھارت کا تعاون، دنیا بھر کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہی 21 اکتوبر کو ہم نے پولیس کا یادگاری دن منایا ہے۔ پولیس کے جن ساتھیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اس دن ہم انہیں خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ میں آج اپنے ان پولیس ملازمین کے ساتھ ہی ان کے کنبوں کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ فیملی کے تعاون اور قربانی کے بغیر پولیس جیسی مشکل خدمت بہت مشکل ہے۔ پولیس سروس سے جڑی ایک اور بات ہے جو میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے یہ تصور بن گیا تھا کہ فوج اور پولیس جیسی سروس صرف مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ دڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خواتین پولیس کی تعداد ڈبل ہو گئی ہے، دو گنی ہو گئی ہے۔ 2014 میں جہاں ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار کے قریب تھی، وہیں 2020 تک اس میں دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 2 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز میں بھی پچھلے سات سالوں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنی ہوئی ہے۔ اور میں صرف تعداد کی ہی بات نہیں کرتا۔ آج ملک کی بیٹیاں مشکل سے مشکل ڈیوٹی بھی پوری طاقت اور حوصلے سے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی بیٹیاں ابھی سب سے مشکل مانی جانے والی ٹریننگ میں سے ایک اسپیشلائزڈ جنگل وارفیئر کمانڈوز کی ٹریننگ لے رہی ہیں۔ یہ ہماری کوبرا بٹالیں کا حصہ بنیں گی۔
ساتھیو، آج ہم ایئرپورٹس جاتے ہیں، میٹرو اسٹیشنز جاتے ہیں یا سرکاری دفتروں کو دیکھتے ہیں، سی آئی ایس ایف کی جانباز خواتین ہر حساس جگہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سب سے مثبت اثر ہمارے پولیس دستہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ذہن و دل پر بھی پڑ رہا ہے۔ خواتین سیکورٹی گارڈز کی موجودگی سے لوگوں میں، خاص کر عورتوں میں فطری طور پر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وہ ان سے قدرتی طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ عورتوں کی حساسیت کی وجہ سے بھی لوگ ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواتین پولیس ملک کی لاکھوں اور بیٹیوں کے لیے بھی رول ماڈل بن رہی ہیں۔ میں خواتین پولیس سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اسکولوں کے کھلنے کے بعد اپنے علاقے کے اسکولوں میں وزٹ کریں، وہاں بچیوں سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات چیت سے ہماری نئی نسل کو ایک نئی سمت ملے گی۔ یہی نہیں، اس سے پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آگے اور بھی زیادہ تعداد میں عورتیں پولیس سروس میں شامل ہوں گی، ہمارے ملک کی نیو ایج پولیسنگ کو لیڈ کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس پر اکثر مجھے ’من کی بات‘ کے سامعین اپنی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ آج میں ایسے ہی ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے ملک، خاص کر ہمارے نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے تصورات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ موضوع ہے، ڈرون کا، ڈرون ٹیکنالوجی کا۔ کچھ سال پہلے تک جب کہیں ڈرون کا نام آتا تھا، تو لوگوں کے من میں پہلا خیال کیا آتا تھا؟ فوج کا، ہتھیاروں کا، جنگ کا۔ لیکن آج ہمارے یہاں کوئی شادی بارات یا فنکشن ہوتا ہے تو ہم ڈرون سے فوٹو اور ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرون کا دائرہ، اس کی طاقت، صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ بھارت، دنیا کے ان پہلے ممالک میں سے ہے، جو ڈرون کی مدد سے اپنے گاؤں میں زمین کے ڈجیٹل ریکارڈ تیار کر رہا ہے۔ بھارت ڈرون کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن کے لیے کرنے پر بہت ہمہ گیر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چاہے گاؤں میں کھیتی باڑی ہو یا گھر پر سامان کی ڈیلیوری ہو۔ ایمرجنسی میں مدد پہنچانی ہو یا قانون اور نظم و نسق کی نگرانی ہو۔ بہت وقت نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے کہ ڈرون ہماری ان سب ضرورتوں کے لیے تعینات ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کی تو شروعات بھی ہو چکی ہے۔ جیسے کچھ دن پہلے، گجرات کے بھاؤ نگر میں ڈرون کے ذریعے کھیتوں میں نینو یوریا کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ کووڈ ویکسین مہم میں بھی ڈرون اپنا رول نبھا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر ہمیں منی پور میں دیکھنے کو ملی تھی۔ جہاں ایک جزیرہ پر ڈرون سے ویکسین پہنچائی گئی۔ تلنگانہ بھی ڈرون سے ویکسین ڈیلیوری کے لیے ٹرائل کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اب انفراسٹرکچر کے کئی بڑے پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بھی ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ایسے نوجوان اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی پڑھا ہے جس نے اپنے ڈرون کی مدد سے ماہی گیروں کی زندگی بچانے کا کام کیا۔
ساتھیو، پہلے اس سیکٹر میں اتنے ضابطے، قانون اور پابندیاں لگا کر رکھے گئے تھے کہ ڈرون کی اصلی صلاحیت کا استعمال بھی ممکن نہیں تھا۔ جس ٹیکنالوجی کو موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، اسے بحران کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر آپ کو کسی بھی کام کے لیے ڈرون اڑانا ہے تو لائسنس اور پرمیشن کا اتنا جھنجٹ ہوتا تھا کہ لوگ ڈرون کے نام سے ہی توبہ کر لیتے تھے۔ ہم نے طے کیا کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا جائے اور نئے ٹرینڈز کو اپنایا جائے۔ اسی لیے اس سال 25 اگست کو ملک ایک نئی ڈرون پالیسی لیکر آیا۔ یہ پالیسی ڈرون سے جڑے حال اور مستقبل کے امکانات کے حساب سے بنائی گئی ہے۔ اس میں اب نہ بہت سارے فارم کے چکر میں پڑنا ہوگا، نہ ہی پہلے جتنی فیس دینی پڑے گی۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نئی ڈرون پالیسی آنے کے بعد کئی ڈرون اسٹارٹ اپس میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹ بھی لگا رہی ہیں۔ آرمی، نیوی اور ایئر فورس نے ہندوستانی ڈرون کمپنیوں کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی میں سرکردہ ملک بننا ہے۔ اس کے لیے سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ آپ ڈرون پالیسی کے بعد بنے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں ضرور سوچیں، آگے آئیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، یو پی کے میرٹھ سے ’من کی بات‘ کی ایک سامع محترمہ پربھا شکلا نے مجھے صفائی سے جڑا ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ – ’’بھارت میں تہواروں پر ہم سبھی صفائی کا جشن مناتے ہیں۔ ویسے ہی، اگر ہم صفائی کو، ہر دن کی عادت بنا لیں، تو پورا ملک صاف ہو جائے گا۔‘‘ مجھے پربھا جی کی بات بہت پسند آئی۔ واقعی، جہاں صفائی ہے، وہاں صحت ہے، جہاں صحت ہے، وہاں صلاحیت ہے اور جہاں صلاحیت ہے، وہاں خوشحالی ہے۔ اس لیے تو ملک سووچھ بھارت ابھیان پر اتنا زور دے رہا ہے۔
ساتھیو، مجھے رانچی سے سٹے ایک گاؤں سپاروم نیا سرائے، وہاں کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا، لیکن لوگ اس تالاب والی جگہ کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت جب سب کے گھر میں بیت الخلاء بن گیا تو گاؤں والوں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصور ت بنایا جائے۔ پھر کیا تھا، سب نے مل کر تالاب والی جگہ پر پارک بنا دیا۔ آج وہ جگہ لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے، ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ اس سے پورے گاؤں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں آپ کو چھتیس گڑھ کے دیئور گاؤں کی عورتوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں کی عورتیں ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں اور مل جل کر گاؤں کے چوک چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کی صفائی کرتی ہیں۔
ساتھیو، یوپی کے غازی آباد کے رام ویر تنور جی کو لوگ ’پانڈ مین‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رام ویر جی تو میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد نوکری کر رہے تھے۔ لیکن ان کے من میں صفائی کی ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ نوکری چھوڑ کر تالابوں کی صفائی میں جٹ گئے۔ رام ویر جی اب تک کتنے ہی تالابوں کی صفائی کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر چکے ہیں۔
ساتھیو، صفائی کی کوشش تبھی پوری طرح کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ابھی دیوالی پر ہم سب اپنے گھر کی صاف صفائی میں تو مصروف ہونے ہی والے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا آس پڑوس بھی صاف رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کریں، لیکن ہمارے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے باہر، ہماری سڑکوں پر پہنچ جائے۔ اور ہاں، میں جب صفائی کی بات کرتا ہوں تب براہ کرم سنگل یوز پلاسٹک سے نجات کی بات ہمیں کبھی بھی بھولنی نہیں ہے۔ تو آئیے، ہم عہد کریں کہ سووچھ بھارت ابھیان کے جوشش کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سب مل کر اپنے ملک کو پوری طرح صاف بنائیں گے اور صاف رکھیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر کا پورا مہینہ ہی تہواروں کے رنگوں میں رنگا رہا ہے اور اب سے کچھ دن بعد دیوالی تو آ ہی رہی ہے۔ دیوالی، اس کے بعد پھر گووردھن پوجا، پھر بھائی دوج، یہ تین تہوار تو ہوں گے ہی ہوں گے، اسی دوران چھٹھ پوجا بھی ہوگی۔ نومبر میں ہی گرونانک دیو جی کی جینتی بھی ہے۔ اتنے تہوار ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی تیاریاں بھی کافی پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ سب بھی ابھی سے خریداری کا پلان کرنے لگے ہوں گے، لیکن آپ کو یاد ہے نہ، خریداری مطلب ’ووکل فار لوکل‘۔ آپ لوکل خریدیں گے تو آپ کا تہوار بھی روشن ہوگا اور کسی غریب بھائی بہن، کسی کاریگر، کسی بنکر کے گھر میں بھی روشنی آئے گی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ جو مہم ہم سب نے مل کر شروع کی ہے، اس بار تہواروں میں اور بھی مضبوط ہوگی۔ آپ اپنے یہاں کے جو لوکل پراڈکٹس خریدیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی بتائیں۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے، اور پھر ایسے ہی ڈھیر سارے موضوعات پر بات کریں گے۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! نمسکار!
نئی دہلی۔ 26 ستمبر میرے پیارے ہم وطنو! آپ جانتے ہیں کہ مجھے ایک اہم پروگرام کے لیے امریکہ جانا پڑ رہا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ بہتر ہوگا کہ امریکہ جانے سے پہلے 'من کی بات' ریکارڈ کردوں ۔ ستمبر میں جس دن 'من کی بات' ہے اسی تاریخ کو ایک اور اہم دن ہوتا ہے۔ ویسے تو ہم لوگ بہت سارے دن یاد رکحتے ہیں ، مختلف قسم کے دن مناتے بھی ہیں ، اور اگر اپنے گھر میں جوان بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، اگر ان سے پوچھیں گے تو سال بھر کے کون سے دن کب آتے ہیں ، آپ کو مکمل فہرست بتادیں گے ، لیکن ایک اور دن ایسا ہے جسے ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ دن ایسا ہے جو ہندوستان کی روایات کے عین مطابق ہے۔ صدیوں سے جن روایات سے ہم وابستہ ہیں ان سے جوڑنے والا ہے ۔ یہ ہے 'ورلڈ ریور ڈے' ہے یعنی 'ندیوں کا عالمی دن '۔
ہمارے یہاں کہا گیا ہے –
"پبنتی ندیہ ، سوے – میو نامبہ:
یعنی ندیاں اپنا پانی خود نہیں پیتیں ، بلکہ عطیہ دیتی ہیں۔ ہمارے لیے ندیاں ایک طبعی شئے نہیں ہے، ہمارے لیے ندی ایک زندہ اکائی ہے اور اسی لیے ہم ندیوں کو ماں کہتے ہیں۔ خواہ ہمارے کتنے ہی تہوار ہوں ، جشن ہو، امنگ ہو، یہ سب ہماری ماؤں کی گود میں ہی ہوتے ہیں۔
آپ سب جانتے ہیں کہ جب ماگھ کا مہینہ آتا ہے تو ہمارے ملک میں بہت سے لوگ پورا ایک مہینہ ماں گنگا یا کسی اورندی کے کنارے کلپ واس کرتے ہیں۔ اب تو یہ روایت نہیں رہی ، لیکن پہلے زمانے میں ایک روایت تھی کہ اگر ہم گھر میں نہاتے ہیں تو ندیوں کو یاد رکھنے کی روایت آج بھلے ہی ختم ہو گئی ہو یا بہت کم رہ گئی ہو لیکن ایک بہت بڑی روایت تھی جو صبح سویرے ہی غسل کرتے وقت ہی وسیع ہندوستان کا سفر کرا دیتی تھی ، ذہنی سفر! ملک کے کونے کونے سے جڑنے کے لیے ایک ترغیب بن جاتی تھی۔ اور وہ کیا تھا ، ہندوستان میں غسل کرتے وقت ایک شلوک پڑھنے کی روایت رہی ہے-
گنگے چا جمنا چیو گوداوری سرسوتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلے اسمن سنیدھم کورو
پہلے ہمارے گھروں میں خاندان کے بزرگ اس شلوک کو بچوں کے لیے یاد کرواتے تھے اور اس سے ہمارے ملک میں نیدیوں کے تئیں یقین بھی پیدا ہوتا تھا۔ وسیع و عریض ہندوستان کا ایک نقشہ ذہن میں نقش ہوجاتا تھا۔ ندیوں سے ربط قائم ہوتاتھا۔ جس ندی کو ماں کے طور پر ہم جانتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، جیتے ہیں اس ندی کے تئیں ایک یقین کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایک سنسکار کا عمل تھا۔
دوستو ، جب ہم اپنے ملک میں ندیوں کی شان کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو قدرتی طور پر ہر کوئی ایک سوال اٹھائے گا اور سوال اٹھانے کا حق بھی ہے اور اس کا جواب دینا ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ کوئی بھی سوال پوچھے گا کہ بھائی آپ ندی کے اتنے گیت گا رہے ہیں ، ندی کو ماں کہہ رہے ہیں ، تو یہ ندی آلودہ کیوں ہوجاتی ہے؟ ہمارے شاستروں میں تو ندیوں کو تھوڑا سا آلودہ کرنا بھی غلط کہا گیا ہے۔ اور ہماری روایات بھی اس طرح رہی ہیں ، آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے ہندوستان کا مغربی حصہ خصوصا گجرات اور راجستھان ، وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔ کبھی کبھی قحط پڑتا ہے۔ اب اس لیے وہاں کی معاشرتی زندگی میں ایک نئی روایت پروان چڑھی ہے۔ جیسے گجرات میں بارش کی شروعات ہوتی ہے تو گجرات میں جل– جیلانی اکادشی مناتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں ، جسے ہم 'کیچ دی رین' کہتے ہیں ،وہ وہی بات ہے جو پانی کے ایک ایک بوند کو خود میں سمیٹنا، جل – جیلانی ۔ اسی طرح سے بارش کے بعد بہار اور مشرقی حصوں میں چھٹ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ چھٹ پوجا کو دیکھتے ہوئے ندیوں کے کنارے ، گھاٹوں کی صفائی اور مرمت کی تیاری شروع کر دی گئی ہوگی۔ ہم ندیوں کی صفائی اور انہیں آلودگی سے پاک کرنے کا کام سب کی کوشش اور سب کے تعاون سے ہی کر سکتے ہیں۔ 'نمامی گنگے مشن' بھی آج آگے بڑھ رہا ہے ، لہذا تمام لوگوں کی کوشش ، ایک طرح سے ، عوامی بیداری ، عوامی تحریک، اس کا بہت بڑا کردار ہے۔
دوستو ، جب ندی کی بات ہو رہی ہے ، ماں گنگا کی بات ہو رہی ہے تو ایک اور بات کی جانب بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ بات جب 'نمامی گنگے' کی ہو رہی ہے تو آپ کا دھیان ایک بات کی طرف ضرور گئی ہوگی اور ہمارے نوجوانوں کا دھیان تو یقینا گیا ہوگا۔ آج کل ایک خاص ای - آکشن ، ای نیلامی جاری ہے۔ یہ الیکٹرانک نیلامی ان تحائف کے لیے منعقد کی جا رہی ہیں جو لوگوں نے مجھے وقتا فوقتا دیے ہیں۔ اس نیلامی سے جو رقم آئے گی وہ 'نمامی گنگے' مہم کے لیے وقف ہے۔ آپ جس اپنائیت کے جذبے سے مجھے تحفے دیتے ہیں، اسی جذبے کو یہ مہم اور مضبوط کرتی ہے۔
دوستو ، ملک بھر میں ندیوں کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے ، پانی کی صفائی کے لیے حکومت اور سماجی تنظیمیں مسلسل کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔ آج سے نہیں ، یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے کاموں کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکے ہیں۔ اورہندوستان کے کسی بھی گوشے سے جب ایسی خبریں میں سنتا ہوں تو ایسا کام کرنے والوں کے تئیں نہایت احترام کا جذبہ میرے دل میں بیدار ہوتا اور میرا بھی دل کرتا ہے کہ وہ باتیں آپ کو بتاؤں۔ آپ دیکھئے تمل ناڈو کے ویلور اور ترووناملائی اضلاع کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ یہاں ایک ندی بہتی ہے ، ناگاندھی۔ اب یہ ناگاندھی برسوں پہلے خشک ہو گئی تھی۔ اس وجہ سے ، وہاں پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی تھی۔ لیکن ، وہاں کی خواتین نے اپنی ندی کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایاکہ وہ اپنی ندی کو دوبارہ زندگی کریں گی۔ پھر کیا تھا ، انہوں نے لوگوں کو جوڑا ، عوامی شراکت سے نہریں کھودیں ، چیک ڈیم بنائے ، ریچارج کنویں بنائے۔ دوستو ، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج وہ ندی پانی سے بھر گئی ہے۔ اور جب ندی پانی سے بھر جاتی ہے ، تودل میں بہت سکون محسوس کرتا ہے ، میں نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ جس سابرمتی ندی کے کنارے مہاتما گاندھی نے سابرمتی آشرم بنایا تھا وہ گزشتہ چند دہائیوں میں یہ سابرمتی ندی خشک ہوچکی تھی۔ ایک سال میں چھ سے آٹھ مہینے تک پانی نظر نہیں آتا تھا ، لیکن نرمدا ندی اور سابرمتی ندی کو جوڑ دیا ، لہذا اگر آپ آج احمد آباد جائیں گے تو سابرمتی ندی کا پانی ذہن کو شاداب کردیتا ہے۔ اسی طرح بہت سے کام جیسے تمل ناڈو کی ہماری یہ بہنیں کر رہی ہیں ، ملک کے مختلف گوشوں میں چل رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری مذہبی روایت وابستہ سے کئی سنت ، گرو ہیں ، وہ اپنے روحانی سفر کے ساتھ ساتھ پانی کے لیے ندی کے لیے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں ، بہت سے لوگ ندیؤں کے کنارے شجر کاری مہم چلا رہے ہیں۔ تو کہیں ندیوں میں بہنے والا گندا پانی روکا جا رہا ہے۔
دوستو ، جب ہم آج 'ورلڈ ریور ڈے' منا رہے ہیں ، میں اس کام کے لیے وقف ہر ایک کی ستائش کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ لیکن ہر ندی کے قریب رہنے والے لوگوں سے ، اہل وطن سے اپیل کروں گا کہ ہندوستان کےگوشے گوشے میں سال میں ایک بار تو ندی کا تہوار منانا ہی چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کبھی بھی چھوٹی بات کو چھوٹی چیز کو چھوٹی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں بعض اوقات بڑی بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں اور اگر مہاتما گاندھی کی زندگی پر ہم نظر ڈالیں تو ہم ہر لمحہ محسوس کریں گے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی ان کی زندگی میں کتنی اہمیت تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے بڑے بڑے عزائم کو کیسے انہوں نے سچ کر دکھایا تھا۔ ہمارے آج کے نوجوانوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح صفائی مہم نے تحریک آزادی کو ایک مستقل توانائی دی تھی۔ یہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے صفائی کو ایک عوامی تحریک بنانے کا کام کیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے صفائی کو آزادی کے خواب سے جوڑ دیا تھا۔ آج ، کئی دہائیوں کے بعد ، صفائی کی تحریک نے ایک بار پھر ملک کو ایک نئے ہندوستان کے خواب سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اور یہ ہماری عادات کو بدلنے کی بھی مہم بن رہی ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صفائی صرف ایک پروگرام ہے۔ صفائی نسل در نسل سنسکار منتقلی کی ذمہ داری ہے اور جب صفائی کی مہم نسل در نسل چلتی ہے تو پھر پورا معاشرہ زندگی میں صفائی کی فطرت بن جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ سال دو سال ، ایک حکومت سےدوسری حکومت تک کے لیےایسا موضوع نہیں ہے ، نسل در نسل ، ہمیں صفائی کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ، بغیر تھکے ، بغیر رکے بڑی عقیدت کے ساتھ مسلسل جڑے رہنا ہے اور صفائی کی مہم کو جاری رکھنا ہے۔ اور میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ صفائی مہم قابل پرستش باپو کو اس ملک کا ایک بڑا خراج تحسین ہے اور یہ خراج تحسین ہمیں ہر بار پیش کرتے رہنا ہے ، اسے مسلسل کرتے رہنا ہے۔
دوستو ، لوگ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی صفائی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتا ہوں اور شاید اسی لیے ہمارے ایک 'من کی بات' سننے والے جناب رمیش پٹیل جی نے لکھا ہے ، ہمیں باپو سے سیکھتے ہوئے اس آزادی کے "امرت مہوتسو" میں معاشی صفائی کا بھی عہد لینا چاہیے۔ جس طرح بیت الخلاء کی تعمیر نے غریبوں کے وقار میں اضافہ کیا ، اسی طرح معاشی صفائی ستھرائی غریبوں کے حقوق کو یقینی بناتی ہے ، ان کی زندگی آسان بناتی ہے۔ اب آپ جانتے ہیں کہ جن دھن کھاتوں کے حوالے سے ملک نے ایک مہم شروع کی ۔ اس کی وجہ سے ، آج غریبوں کو ان کے واجب الادا پیسے براہ راست ان کے کھاتے میں مل رہے ہیں ، جس کی وجہ سے آج بدعنوانی جیسی رکاوٹوں میں بہت حد تک کمی آ گئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ معاشی صفائی میں ٹیکنالوجی بہت مدد کر سکتی ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج گاؤں دیہات میں بھی فن ٹیک یو پی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کرنے کی سمت میں عام انسان بھی شامل ہو رہے ہیں ، اس کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ میں آپ کو ایک اعداد و شمار بتاتا ہوں، آپ کو فخر ہوگا ، گزشتہ اگست کے مہینے میں یو پی آئی کے ذریعہ ایک ماہ میں 355 کروڑ ٹرانزیکشن ہوئے ، یعنی تقریبا 350 کروڑ سے زائد ٹرانزیکشنز ، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں 350 کروڑ سے زائد مرتبہ ڈیجیٹل لین دین کے لیے یو پی آئی کا استعمال کیا گیا ہے۔ آج ، اوسطا 6 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیجیٹل ادائیگی یو پی آئی کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس سے ملک کی معیشت میں شفافیت آ رہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اب فن ٹیک کی اہمیت بہت بڑھ رہی ہے۔
دوستو ، جس طرح باپو نے صفائی کو آزادی سے جوڑا تھا ، اسی طرح کھادی کو آزادی کی پہچان بنا دیا گیاتھا۔ آج آزادی کے 75 ویں سال میں ، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں ، آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی تحریک میں جو وقار کھادی نے حاصل کیا تھا ، آج ہماری نوجوان نسل کھادی کو وہ شان دے رہی ہے۔ آج کھادی اور ہینڈلوم کی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب دہلی کے کھادی شوروم نے ایک دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے۔ میں آپ کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ 2 اکتوبر کو قابل پرستش باپو کی سالگرہ پر ہم سب ایک بار پھر ایک نیا ریکارڈ بنائیں۔ آپ اپنے شہر میں جہاں بھی کھادی ، ہینڈلوم ، ہینڈ کرافٹ بکتا ہو اور دیوالی کا تہوار سامنے ہے ، تہواروں کے موسم کے لیے کھادی ، ہینڈلوم ، کاٹیج انڈسٹری سے متعلق آپ کی ہر خریداری 'ووکل فار لوکل ' اس مہم کو مضبوط بنانے کے لیے ہو، پرانے سارے ریکارڈ توڑنے والی ہو۔
دوستو ، امرت مہوتسو کے اس دور میں ملک میں آزادی کی تاریخ کی ان کہی کہانیوں کو عوام تک پہنچانے کی ایک مہم بھی چل رہی ہے اور اس کے لیے ابھرتے ہوئے مصنفوں کو ، ملک اور دنیا کے نوجوانوں سے اپیل کی گئی تھی۔ اب تک 13 ہزار سے زائد افراد نے اس مہم کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے اور وہ بھی 14 مختلف زبانوں میں۔ اور میرے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ 20 سے زائد ممالک میں کئی غیر مقیم ہندوستانیوں نے بھی اس مہم میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ایک اور بہت دلچسپ جانکاری ہے ، تقریبا 5000 سے زائد نئے ابھرتے ہوئے مصنفین جنگ آزادی کی کہانیاں تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے، جو غیر معروف ہیرو ہیں، جو گمنام ہیں تاریخ کے صفحات میں جن کے نام نظر نہیں آتے، ایسے غیر معروف جانباز وں پر ، موضوع پر ان کی زندگی پر ، ان کے واقعات پر کچھ لکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے ، یعنی ملک کے نوجوانوں نے تہیہ کر لیا ہے، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو بھی ملک کے سامنے لائیں گے ، جن کا گزشتہ 75 سالوں میں کوئی ذکر تک نہیں ہواہے۔ تمام سننے والوں سے میری گزارش ہے کہ تعلیم کی دنیا سے وابستہ ہر ایک سے میری درخواست ہے۔ آپ بھی نوجوانوں کو ترغیب دیں ۔ آپ بھی آگے آئیں اور مجھے پختہ یقین ہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو میں تاریخ لکھنے کا کام کرنے والے لوگ تاریخ بنانے والے بھی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہم سب سیاچن گلیشیر کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہاں سردی اتنی خوفناک ہے کہ اس میں رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دور دور تک برف ہی برف اور پیڑ پودوں کا تو نام نشان نہیں ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک بھی جاتا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے سیاچن کے اس ناقابل رسائی علاقے میں 8دیویانگ لوگوں کی ٹیم نے جو حیرت انگیز کام کیے ہیں،وہ ہر ہم وطن کے لیے فخر کی بات ہے ۔ اس ٹیم نے سیاچن گلیشیر کی 15 ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پر واقع 'کمار پوسٹ' پر اپنا جھنڈا لہرا کر عالمی ریکارڈ بنادیا ہے۔ جسمانی چیلنجوں کے باوجود بھی ، ان دیویانگوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ پورے ملک کے لیےباعث ترغیب ہیں اور جب آپ اس ٹیم کے ارکان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی میری طرح ہمت اور حوصلے سے بھر جائیں گے۔ ان جانباز دیویانگوں کے نام ہیں - مہیش نہرا ، اتراکھنڈ کے اکشت راوت ، مہاراشٹر کے پشپک گوانڈے، ہریانہ کے اجے کمار ، لداخ کے لوبسانگ چوسپل ، تمل ناڈو کے میجر دوارکیش ، جموں و کشمیر کے عرفان احمد میر اور ہماچل پردیش کے چونجین انگمو۔ سیاچن گلیشیر کو فتح کرنے کا یہ آپریشن ہندوستانی فوج کے خصوصی دستوں کے رضاکاروں کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے۔ میں اس ٹیم کی اس تاریخی اور بے مثال کامیابی کے لیے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے ہم وطنوں کے "Can Do Culture"، "Can Do Determination" ، "Can Do Attitude" کے ساتھ ہر چیلنج سے نمٹنے کے جذبے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوستو ، آج ملک میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مجھے اتر پردیش میں ہو رہی ایسی ہی ایک کوشش One Teacher, One Call کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ بریلی میں یہ انوکھی کوشش مختلف معذور بچوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہی ہے۔ اس مہم کی قیادت ڈبھورا گنگا پور کے ایک اسکول کی پرنسپل دیپ مالا پانڈے جی کر رہی ہیں۔ کورونا کے دوران اس مہم کی وجہ سے نہ صرف بڑی تعداد میں بچوں کا داخلہ ممکن ہوا بلکہ 350 سے زائد اساتذہ بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں ۔ یہ اساتذہ گاؤں گاؤں جا کر معذور بچوں کو پکارتے ہیں ، ان کی تلاش کرتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی اسکول میں ان کے داخلے کو یقینی بناتے ہیں۔ میں معذور افراد کے لیے دیپ مالا جی اور ساتھی اساتذہ کی اس عظیم کاوش کی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتا ہوں۔ تعلیم کے میدان میں اس طرح کی ہر کوشش ہمارے ملک کا مستقبل سنوارنے والی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم لوگوں کی زندگی کی حالت یہ ہے کہ ایک دن میں سینکڑوں بار لفظ کورونا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے ، سو سالوں میں آئی سب سے بڑی عالمی وبا ، کووڈ 19 نے ہر ہم وطن کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ آج حفظان صحت اور تندرستی کے بارے میں تجسس اور آگاہی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روایتی طور پر ہمارے ملک میں ایسی قدرتی مصنوعات وافر مقدار میں دستیاب ہیں جو کہ تندرستی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اوڈیشہ کے کالا ہانڈی کے نندول میں رہنے والے پتایت ساہو جی ، برسوں سے اس علاقے میں ایک انوکھا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر دواؤں کے پودے لگائے ہیں۔ یہی نہیں، ساہو جی نے ان دواؤں کے پودوں کو دستاویزی شکل بھی دی ہے۔مجھےرانچی کے ستیش جی نے ایک خط کے ذریعہ ایسی ہی ایک جانکاری شیئر کی ہے۔ ستیش جی نے میری توجہ جھارکھنڈ کے ایک ایلو ویرا گاؤں کی طرف مبذول کرائی ہے۔ رانچی کے قریب ہی دیوری گاؤں کی خواتین نے منجو کچھپ جی کی قیادت میں برسا زرعی اسکول سے ایلو ویرا کی کاشت کی تربیت لی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایلو ویرا کی کاشت شروع کی۔ اس کاشتکاری سے نہ صرف صحت کے شعبے میں فائدہ ہوا بلکہ ان خواتین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ کووڈ وبائی مرض کے دوران بھی انہیں اچھی آمدنی حاصل ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سینیٹائزر بنانے والی کمپنیاں ان سے براہ راست ایلو ویرا خرید رہی تھیں۔ آج تقریبا چالیس خواتین کی ایک ٹیم اس کام میں شامل ہے۔ اور کئی ایکڑ میں ایلو ویرا کی کاشت کی جاتی ہے۔ اوڈیشہ کے پتایت ساہو جی ہوں یا پھر دیوری میں خواتین کی یہ ٹیم ، انہوں نے زراعت کو صحت کے شعبے سے جس طرح جوڑا ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
دوستو ، آنے والے 2 اکتوبر کو لال بہادر شاستری جی کا بھی یوم پیدائش ہے۔ ان کی یاد میں یہ دن ہمیں زراعت میں نئے تجربات کرنے والوں کے بارے میں بھی سکھاتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے شعبہ میں اسٹارٹ اپ کو فروغ دینے کے لیے میڈی ہب ٹی بی آئی کے نام سے ایک انکیوبیٹر گجرات کے آنند میں کام کر رہا ہے ۔ میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ سے وابستہ اس انکیوبیٹر نے بہت کم وقت میں 15 کاروباری افراد کے کاروباری خیال کی تائید کر چکی ہے۔ اس انکیوبیٹر کی مدد حاصل کرنے کے بعد ہی سودھا چیبرولو جی نے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ ان کی کمپنی میں خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے اورانہیں پر وہ جدید جڑی بوٹیوں کی تشکیل کی بھی ذمہ داری ہے۔ ایک اور کاروباری سبھاشری جی نے اسی میڈیکل اور ارومیٹک پلانٹ انکیوبیٹر سے بھی مدد لی ہے۔ سبھاشری جی کی کمپنی ہربل روم اور کار فریشر کے میدان میں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے ایک ہربل ٹیرس گارڈن بھی بنایا ہے جس میں 400 سے زیادہ دواؤں کی جڑی بوٹیاں ہیں۔
دوستو ، وزارت آیوش نے بچوں میں دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے پودوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے ایک دلچسپ پہل کی ہے اور اس کا بیڑا اٹھایا ہے، ہمارے پروفیسر آیوشمان جی نے ۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ سوچیں کہ پروفیسر آیوشمان کون ہیں؟ دراصل پروفیسر آیوشمان ایک مزاحیہ کتاب کا نام ہے۔ اس میں مختلف کارٹون کرداروں کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں تیار کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ایلوویرا ، تلسی ، آملہ ، گیلوے ، نیم ، اشواگندھا اور برہمی جیسے صحت مند دواؤں کے پودوں کی افادیت بتائی گئی ہے۔
دوستو ، آج کے حالات میں جس طرح پوری دنیا میں دواؤں کے پودوں اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے ، اس میں ہندوستان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ماضی میں ، آیورویدک اور جڑی بوٹیوں کی مصنوعات کی برآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
میں سائنسدانوں ، محققین اور اسٹارٹ اپ کی دنیا سے وابستہ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسی مصنوعات پر توجہ دیں ، جو نہ صرف لوگوں کی تندرستی اور قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ ہمارے کسانوں اور نوجوانوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوی ہیں۔
دوستو ، روایتی کاشتکاری سے آگے بڑھتے ہوئے ، زراعت میں کیے جا رہے نئے تجربات ، نئے متبادل مسلسل خود روزگار کے نئے ذرائع بنا رہے ہیں۔ پلوامہ کے دو بھائیوں کی کہانی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بلال احمد شیخ اور منیر احمد شیخ نے جس طرح اپنے لیے نئی راہیں تلاش کیں ، وہ نئے ہندوستان کی ایک مثال ہے۔ 39 سالہ بلال احمد جی بہت ہی تعلیم یافتہ ہیں ، انہوں نے کئی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اپنی اعلی تعلیم سے وابستہ تجربات کا استعمال آج وہ زراعت میں اپنا اسٹارٹ اپ بنا کر کر رہے ہیں۔ بلال جی نے اپنے گھر پر ہی ورمی کمپوسٹنگ کا ایک یونٹ لگایا ہے۔ اس یونٹ سے تیار کردہ بایو فرٹیلائزر سے نہ صرف کاشتکاری میں بہت فائدہ ہوا ہے بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں۔ ہر سال کسانوں کو ان بھائیوں کی اکائیوں سے تقریبا تین ہزار کوئنٹل ورمی کمپوسٹ مل رہا ہے۔ آج اس ورمی کمپوسٹنگ یونٹ میں 15 لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ان کی اس یونٹ کو دیکھنے کے لیے پہنچ رہی ہے اور ان میں سے بیشتر ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو زراعت کے شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ کے شیخ برادران نے نوکری کے متلاشی بننے کے بجائے نوکری کی تخلیق کرنے کا عہد لیا اور آج وہ نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک بھر کے لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھا رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، 25 ستمبر کو ملک کے عظیم سپوت پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کا یوم پیدائش ہے۔ دین دیال جی پچھلی صدی کے عظیم مفکرین میں سےایک ہیں۔ معاشیات کا ان کا فلسفہ ، معاشرے کو بااختیار بنانے کی ان کی پالیسیاں ، ان کے ذریعہ دکھایا گیا انتودے کا راستہ آج بھی جتنا موزوں ہے اتنا ہی باعث ترغیب بھی ہے۔ تین سال پہلے ، 25 ستمبر کو ، ان کی سالگرہ کے موقع پرہی دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم - آیوشمان بھارت یوجنا نافذ کی گئی تھی۔ آج ، ملک کے دو سوا دو کروڑ سے زیادہ غریبوں کو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ہسپتال میں 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج مل چکا ہے۔ غریبوں کے لیے اتنی بڑی اسکیم دین دیال جی کے انتودیے فلسفے کے لیے ہی وقف ہے۔ اگر آج کے نوجوان ان کے اقدار اور نظریات کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو یہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بار لکھنؤ میں ، دین دیال جی نے کہا تھا - "کتنی اچھی اچھی چیزیں ، اچھی اچھی خوبیاں ہیں - یہ سب ہمیں معاشرے سے ہی توحاصل ہوتی ہیں۔ ہمیں معاشرے کا قرض ادا کرنا ہے ، اس طرح کی سوچ ہونی ہی چاہیے۔ " یعنی دین دیال جی نےسبق سکھایا کہ ہم معاشرے سے ، ملک سے اتنا کچھ لیتے ہیں ، جو کچھ بھی ہے ، وہ ملک کی وجہ سے ہی تو ہے ، لہذا ملک کے تئیں اپنا قرض کیسے ادا کریں گے، اس سلسلے میں سوچنا چاہیے۔ یہ آج کے نوجوانوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔
دوستو ، دین دیال جی کی زندگی سے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننے کا سبق بھی ملتا ہے۔ مخالف سیاسی اور نظریاتی حالات کے باوجود ، ہندوستان کی ترقی کے لیے دیسی ماڈل کے وژن سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج ، بہت سے نوجوان بنے بنائے راستوں سے الگ ہو کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اپنی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ دین دیال جی کی زندگی سے انہیں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان کے بارے میں ضرور جانیں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج ہم نے کئی موضوعات پر بات چیت کی۔ جیسا کہ ہم بات بھی کر رہے تھے ، آنے والا وقت تہواروں کا ہے۔ پورا ملک مریادا پرشوتم شری رام کے جھوٹ پر فتح کا تہوار بھی منانے جا رہا ہے۔ لیکن اس تہوار میں ہمیں ایک اورجنگ کے بارے میں یاد رکھنا ہے - وہ ہے کورونا کے خلاف ملک کی جنگ ۔ ٹیم انڈیا اس جنگ میں روزانہ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ ٹیکہ کاری میں ، ملک نے ایسے کئی ریکارڈ بنائے ہیں جن پر پوری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ہندوستانی کا اہم کردار ہے۔ ہمیں اپنی باری آنے پر ویکسین تو لگوانی ہی ہے ، لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی اس حفاظتی دائرے سے باہر نہ رہ جائے ۔ اپنے اردگرد جسے ویکسین نہیں لگی اسے بھی ویکسین سینٹر تک لے جانا ہے۔ ویکسین لگنے کے بعد بھی ضروری پروٹوکول پر عمل کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جنگ میں ایک بار پھر ٹیم انڈیا اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ ہم اگلی بار کچھ دوسرے موضوعات پر 'من کی بات' کریں گے۔ آپ سب کو ، ہر اہل وطن کو ، تہواروں کی بہت بہت مبارکباد۔
شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
ہم سب کو پتہ ہے کہ آج میجر دھیان چند جی کی سالگرہ ہےاور ہمارا ملک ، ان کی یاد میں اس دن کو کھیلوں قومی دن کے طور پر بھی مناتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت ، میجر دھیان چند جی کی آتما ، جہاں بھی ہو گی ، بہت خوشی محسوس کرتی ہو گی ۔ پوری دنیا میں بھارت کی ہاکی کا ڈنکا بجانے کا کام دھیان چند جی کی ہاکی نے کیا تھا اور چار دہائیوں بعد ، تقریباً 41 سال بعد بھارت کے نو جوانوں نے ، بیٹے اور بیٹیوں نے ہاکی کے اندر پھر ایک بار جان ڈال دی ہے اور کتنے ہی تمغے کیوں نہ مل جائیں ، لیکن جب تک ہاکی میں تمغہ نہیں ملتا ، بھارت کا کوئی بھی شہری فتح کی خوشی حاصل نہیں کر سکتا ہے اور اس مرتبہ اولمپک میں ہاکی کا تمغہ ملا ، چار دہائیوں بعد ملا ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ،میجر دھیان چند جی کے دل پر ، اُن کی آتما پر ، وہ جہاں ہوں گے ،وہاں کتنی خوشی ہو گی اور دھیان چند جی کی پوری زندگی کھیل کے لئے وقف تھی اور اس لئے آج جب ہمیں ملک کے نو جوانوں میں ، ہمارے بیٹے بیٹیوں میں کھیل کے تئیں ، جو دلچسپی نظر آ رہی ہے ، ماں باپ کو بھی ، بچے اگر کھیل میں آگے جا رہے ہیں تو خوشی ہو رہی ہے ۔ یہ جو جذبہ نظر آ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، یہی میجر دھیان چند جی کے لئے بہت بڑا اظہارِ عقیدت ہے ۔
ساتھیو ،
جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ پوری نوجوان نسل ہمارے سامنے نظر آتی ہے اور جب ہم نوجوان نسل کو قریب سے دیکھتے ہیں تو کتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بدل گیا ہےاور آج کا نوجوان ذہن ، پرانے طریقوں سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہٹ کر کرنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان بنے بنائے راستوں پر نہیں چلنا چاہتا ، وہ نئے راستے بنانا چاہتا ہے۔ کسی نامعلوم مقام پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ منزل بھی نئی ، ہدف بھی نئے ، راستے بھی نئے اور خواہش بھی نئی ۔ ارے ، ایک بار جب دل میں ٹھان لیتا ہے نا نو جوان ، جی جان سے لگ جاتا ہے ۔ دن رات محنت کر رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اپنے اسپیس کے شعبے کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان نسل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلباء ، نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان بڑھ چڑھ کو آگے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے سیٹلائٹس ہوں گے ، جن میں ہمارے نو جوانوں ، ہمارے طلباء نے ، ہمارے کالج نے ، ہماری یونیورسٹی نے ، لیب میں کام کرنے والے طلباء نے کام کیا ہوگا۔
اسی طرح آج آپ جہاں کہیں بھی دیکھیں ، کسی بھی خاندان میں جائیں ، چاہے وہ خاندان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، پڑھا لکھا خاندان لیکن اگر آپ خاندان کے نوجوان سے بات کریں تو وہ اپنے خاندان سے کیا کہتا ہے جو کہ روایات سے ہٹ کر کہتا ہے ۔ میں اسٹارٹ اپ کروں گا ، میں سٹارٹ اپ میں جاؤں گا یعنی اس کا دِل خطرہ مول لینے کے لئے بے تاب ہے۔ آج اسٹارٹ اپ کلچر چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور میں اس میں روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے ملک میں کھلونوں پر بحث ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب یہ موضوع ہمارے نوجوانوں کی توجہ میں آیا تو انہوں نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ہندوستان کے کھلونوں کو دنیا میں پہچان کیسے دلائی جائے اور وہ نئے تجربات کر رہے ہیں اور دنیا میں کھلونوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ، 6-7 لاکھ کروڑ کی مارکیٹ ہے۔ آج ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن کھلونے کیسے بنائے جائیں ، کھلونوں کی اقسام کیا ہیں ، کھلونوں میں ٹیکنالوجی کیا ہے ، بچوں کی نفسیات کے مطابق کھلونے کیسے ہیں، آج ہمارے ملک کا نوجوان اس پر توجہ دے رہا ہے ، کچھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ ساتھیوں ، ایک اور بات ، جو دل کو بھی خوشی سے بھر دیتی ہے اور یقین کو بھی مضبوط کرتی ہے اور وہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی توجہ دی ہے؟ عام طور پر ہمارے یہاں ایک عادت بن چکی ہے – ہوتی ہے ، چلو یار چلتا ہے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، میرے ملک کا نوجوان ذہن اب خود کو بہترین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ بہترین کرنا چاہتا ہے ، بہترین طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی قوم کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔
ساتھیو ،
اس بار اولمپکس نے بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔ اولمپک کھیل ختم ہوچکے ہیں ، اب پیرالمپکس جاری ہیں۔ ملک کے لئے ، کھیل کی اس دنیا میں ، جو کچھ ہوا ، دنیا کے مقابلے بھلے ہی کم ہو لیکن یقین کرنے کے لئے بہت کچھ ہوا ہے ۔ آج نوجوان صرف اسپورٹس کی طرف ہی دیکھ رہا ہے ، ایسا نہیں ہے لیکن ہم اس سے جڑے امتحانات کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ نو جوان پورے نظام کو بہت باریکی سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی افادیت کو سمجھ رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں خود کو جوڑنا بھی چاہتا ہے ۔ اب وہ روایتی چیزوں سے آگے بڑھ کر نئے ڈسپلن اپنا رہا ہے ۔ میرے ہم وطنوں ، جب اتنی رفتار آئی ہے ، ہر خاندان میں کھیلوں پر گفتگو شروع ہو گئی ہے۔ آپ مجھے بتائیں ، کیا اس رفتار کو اب رکنے دینا چاہیے ، کیا اسے رکنے دیا جائے؟ جی نہیں ۔ آپ بھی میری طرح سوچ رہے ہوں گے۔ اب ملک میں کھیل ، کھیل کود ، اسپورٹس ، اسپورٹس مین اسپرٹ اب رکنی نہیں ہے ۔ اس رفتار کو خاندانی زندگی میں ، سماجی زندگی میں ، قومی زندگی میں مستقل بنانا ہے ۔ توانائی سے بھر دینا ہے ، مسلسل نئی توانائی سے بھر دینا ہے ۔ گھر ہو ، باہر ہو ، گاؤں ہو ، شہر ہو ، ہمارے کھیل کے میدان بھرے ہونے چاہئیں ، ہر ایک کو کھیلنا چاہیے – سب کھیلیں سب کھیلیں اور آپ کو یاد ہے ناں ، کہ میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – ‘‘ سب کا پریاس ’’ ۔ جی ہاں ، سب کی کوشش۔ سب کی کوشش سے ہی بھارت کھیلوں میں وہ اونچائی حاصل کر سکے گا ، جس کا وہ حقدار ہے۔ میجر دھیان چند جی جیسے لوگوں نے ، جو راہ بتائی ہے ، اُس پر آگے بڑھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ سالوں کے بعد ملک میں ایسا دور آیا ہے کہ چاہے وہ ایک خاندان ہو ، ایک معاشرہ ہو ، ایک ریاست ہو ، ایک قوم ہو - تمام لوگ ایک جذبے کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔
میرے پیارے نوجوانوں ،
ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف قسم کے کھیلوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ گاؤں گاؤں کھیلوں کے مقابلوں کو مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ یہ مقابلہ کے ذریعے ہوتا ہے کہ کھیل کا فروغ ہوتا ہے ، کھیلوں کی ترقی ہوتی ہے ، کھلاڑی بھی اس سے نکلتے ہیں۔ آئیے ، ہم سب ہم وطن اس رفتار میں جتنا زیادہ تعاون کر سکتے ہیں ، ‘ سب کا پریاس ’ ، اس منتر کو پورا کر کے دکھائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
کل جنم اشٹمی کا عظیم تہوار بھی ہے۔ جنم اشٹمی کے اس تہوار کو ، بھگوان شری کرشن کی پیدائش کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہم بھگوان کے ہر روپ سے واقف ہیں ، نٹ کھٹ کنہیا سے لےکر ، عظیم روپ حاصل کرنےوالے کرشن تک ، شاستروں کی اہلیت سے لے کر شاستر کی حمایت والے کرشن تک ۔ فن ہو ، خوبصورتی ہو ، کہاں کہاں کرشن ہیں لیکن یہ باتیں میں اِس لئے کر رہا ہوں کہ جنم اشٹمی سے کچھ دن پہلے میں ایک ایسے دلچسپ تجربے سے گزرا ہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ یہ باتیں میں آپ کو بتاؤں ۔ آپ کو یاد ہوگا ، اس مہینے کی 20 تاریخ کو بھگوان سومناتھ مندر سے جڑے تعمیراتی کاموں کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ سومناتھ مندر سے 3 – 4 کلومیٹر فاصلے پر بھالکا تیرتھ ہے ۔ یہ بھالکا تیرتھ وہیں ہے ، جہاں بھگوان شری کرشن نے زمین پر اپنے آخری لمحات گزارے تھے۔ ایک طرح سے، اس دنیا کی اُن کی لیلاؤں کا وہاں اختتام ہوا تھا ۔ سومناتھ ٹرسٹ کے ذریعہ اس پورے علاقے میں بہت سارے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ میں بھالکا تیرتھ اور وہاں ہونے والے کام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے ایک خوبصورت آرٹ بک دیکھی۔ کسی نے یہ کتاب میرے لیے میری رہائش کے باہر کوئی میرے لئے چھوڑ گیاتھا ۔ اس میں بھگوان شری کرشن کے مختلف روپوں کو دکھایا گیا تھا ،بہت خوبصورت تصویریں تھی اور بڑی میننگ فُل تصویریں تھیں ۔ جب میں نے کتاب کے صفحات کو پلٹنا شروع کیا تو میرا تجسس کچھ اور بڑھ گیا۔ جب میں نے یہ کتاب اور ان تمام تصاویر کو دیکھا اور اس پر میرے لیے ایک پیغام لکھا اور پھر جو میں نے پڑھا ، تو میرا دل چاہا کہ ان سے ملوں ، جو یہ کتاب میرے گھر کے پاس چھوڑ گئے ہیں ، مجھے اُن سے ملنا چاہیئے تو میرے دفتر نے اُن کے ساتھ رابطہ قائم کیا ۔ دوسرے ہی دن اُن کو ملنے کے لئے بلایا اور میرا تجسس اتنا تھا ، آرٹ بُک کو دیکھ کر کے ، شری کرشن کی الگ الگ تصویروں کو دیکھ کر کے ۔ اسی تجسس میں میری ملاقات جدو رانی داسی جی سے ہوئی ۔ وہ امریکی ہیں ، پیدائش امریکہ میں ہوئی ، پرورش امریکہ میں ہوئی ، جدو رانی داسی جی اسکون سے جڑی ہیں ۔ ہرے کرشنا موومنٹ سے جڑی ہوئی ہیں اور ان الگ الگ موومنٹس سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی بہت بڑی خصوصیت ہے ، ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقیدت کے فن میں ماہر ہیں۔ آپ جانتے ہیں ، ابھی دو دن بعد ہی ، یکم ستمبر کو ، اسکون کے بانی شری پربھو پاد سوامی جی کی 125 ویں سالگرہ ہے ۔ جدو رانی داسی جی ، اسی سلسلے میں بھارت آئی تھیں ۔ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ جن کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے ، وہ ہندوستانی جذبات سے اتنی رہیں ، وہ آخر کیسے بھگوان کرشن کی اتنی خوبصورت تصاویر بنا لیتی ہیں ۔ میری اُن سے کافی طویل بات ہوئی تھی لیکن میں آپ کو کچھ حصہ سنانا چاہتا ہوں ۔
پی ایم سر: جدو رانی جی ، ہرے کرشنا!
میں نے بھکتی آرٹ کے بارے میں تھوڑا بہت پڑا ہے لیکن ہمارے سامعین کواِس کے بارے میں کچھ اور بتائیں ۔ اس کے لئے آپ کا جذبہ اور دلچسپی بہت زیادہ ہے ۔
جدو رانی جی: تو ، بھکتی آرٹ میں ہمارا ایک مضمون ہے ، جس میں بھکتی آرٹ پر مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح یہ آرٹ ذہن یا تصور سے ابھرتا ہے لیکن قدیم ویدک صحیفوں میں ، جیسے بھرم سنہیتا ۔
Ven Omkaraya Patitam skilatam Sikand (वें ओंकाराय पतितं स्क्लितं सिकंद), from The Goswami’s of Vrindavan, from the Lord Brahma himself. Eeshwarah paramah krishnah sachchidanand vigrahah ( ईश्वर: परम: कृष्ण: सच्चिदानन्द विग्रह: ) how He carries the flute, how all of his senses can act for any other sense and Srimad bhagwatam (TCR 9.09) (Barhapeend natwarvapuh karnayoh karnakaram ) बर्हापींड नटवरवपुः कर्णयो: कर्णिकारं everything,
وہ اپنے کانوں میں کرنیکا کے پھول لگاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کمل جیسے پیروں کی پورے ورندا وَن میں چھاپ چھوڑی ہے ۔ گائیں کے ریوڑ ، اُن کی تعریف کرتے ہیں ۔ اُن کی بانسری تمام خوش قسمت لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو راغب کرتی ہے ۔ اس لئے قدیم ویدک صحیفوں میں ، جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے اور جو حقیقی طور پر عقیدت مند ہیں ، اسے ایک آرٹ کے طورپر اپناتے ہیں اور اس قوت کی وجہ سے یہ زندگی تبدیل کرنے والی ہے اور اس میں میری کسی قوت کا دخل نہیں ہے ۔
پی ایم سر :
جدو رانی جی ، میرے آپ سے کچھ الگ طرح کے سوال ہیں ۔ 1966 ء سے ، اور خاص طور سے 1976 ء سے آپ طویل عرصے سے بھارت سے منسلک ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ بھارت ،آپ کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے ؟
جدو رانی جی:
وزیر اعظم جی ، بھارت میرے لئے سب کچھ ہے۔ میں بتاتی ہوں کہ میں نے کچھ دن پہلے صدر جمہوریہ سے بات کی تھی کہ بھارت تکنیکی طورپر بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور ٹوئیٹر انسٹاگرام اور آئی فون اور بڑی بڑی عمارتوں میں مغرب کی راہ پر آگے بڑھا ہے ۔ یہاں تک کے ہر سہولت میں آگے بڑھ رہا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ بھارت کی حقیقی عظمت نہیں ہے ۔ بھارت کو ، جو چیز عظیم بناتی ہیں ، وہ حقیقت یہ ہے کہ کرشنا خود اوتار لے کر یہاں آئے اور سبھی اوتار یہاں پہنچے ۔ بھگوان شیو نے یہاں اوتار لیا ، بھگوان رام یہاں آئے ۔ تمام مقدس دریا یہاں ہیں ۔ ویشنو کلچر کے تمام مقدس مقامات یہاں ہیں ۔ اس لئے بھارت ، خاص طور پر ورندا وَن پوری کائنات میں سب سے اہم مقام ہے ۔ ورندا وَن تمام ویکنٹھ سیاروں کا وسیلہ ہے ، دواریکا کا وسیلہ ہے ۔ تمام ماد ی تخلیق کا وسیلہ ہے ۔ اس لئے میں بھارت سے محبت کرتی ہوں ۔
پی ایم سر : شکریہ یدو رانی راجی ۔ ہرے کرشنا !
ساتھیو ،
جب دنیا کے لوگ آج ہندوستانی روحانیت اور فلسفے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں ، تب ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ان عظیم روایات کو آگے بڑھائیں۔ جو لازوال ہے ، اسے چھوڑنا ہی ہے لیکن جو گزرا ہوا زمانہ ہے ، اُسے آگے بھی لے جانا ہے ۔ آئیے ، ہم اپنے تہوار منائیں ، اس کی سائنسی اہمیت کو سمجھیں ، اس کے پس پشت معنی کو سمجھیں۔ یہی نہیں ، ہر تہوار میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے ، کوئی نہ کوئی رسم ہوتی ہے۔ ہمیں اسے جاننا بھی ہے ، اسے زندہ رکھنا ہے اور اسے آنے والی نسلوں کے لئے میراث کے طور پر منتقل کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر تمام اہل وطن کو جنم اشٹمی کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے پیارے ہم وطنو ، مجھے اس کورونا دور میں صفائی کے بارے میں جتنی بات کرنی چاہیئے تھی ، لگتا ہے ، شاید اس میں کمی آئی ہے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں صفائی کی مہم کو ذرا بھی کم نہیں ہونے دینا چاہیئے ۔ قوم کی تعمیر کے لیے ہر ایک کی کوششیں کس طرح ترقی کرتی ہیں ، اس کی مثالیں بھی ہمیں متاثر کرتی ہیں اور کچھ کرنے کے لیے نئی توانائی دیتی ہیں ، نیا اعتماد دیتی ہیں ، ہمارے عزم کو زندگی دیتی ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی سووچھ بھارت ابھیان کی بات آتی ہے تو اندور کا نام سامنے آتا ہے کیونکہ اندور نے صفائی کے حوالے سے ایک خاص پہچان بنائی ہے اور اندور کے شہری اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمارا اندور کئی سالوں سے ‘ سوچھ بھارت رینکنگ ’ میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ اب اندور کے لوگ سووچھ بھارت کی اس درجہ بندی سے مطمئن نہیں بیٹھنا چاہتے ، وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنے ذہن میں جو فیصلہ کیا ہے ، وہ ‘ واٹر پلس سٹی ’ کو برقرار رکھنے کے لئے سخت محنت کر رہےہیں ۔ ‘ واٹر پلس سٹی ’ یعنی ایسا شہر ، جہاں صفائی کے بغیر کسی بھی سیوریج کا پانی عام پانی کے وسائل میں نہیں چھوڑا جاتا ۔ یہاں کے شہریوں نے خود آگے آکر اپنی نالیوں کو سیور لائن سے جوڑا ہے۔ سووچھتا ابھیان بھی چلایا ہے اور اس وجہ سرسوتی اور کانہا دریاؤں میں گرنے والا گندا پانی بھی کافی حد تک کم ہوگیا ہے اور بہتری نظر آرہی ہے۔ آج ، جب ہمارا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے ، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمیں سووچھ بھارت ابھیان کی قرارداد کو کبھی سست نہیں پڑنے دینا ہے۔ ہمارے ملک میں جتنے زیادہ شہر ‘پلس سٹی ’ ہوں گے ، اتنا ہی صفائی میں اضافہ ہوگا ، ہمارے دریا بھی صاف ہوں گے اور پانی بچانے کی انسانی ذمہ داری کو پورا کرنے کی بھی تہذہب ہو گی ۔
دوستو ،
بہار کے مدھوبنی سے میرے سامنے ایک مثال آئی ہے۔ مدھوبنی میں ڈاکٹر راجندر پرساد زرعی یونیورسٹی اور مقامی کرشی وگیان مرکز نے مل کر اچھی کوشش کی ہے۔ کسانوں کو اس کا فائدہ مل رہا ہے ، یہ سووچھ بھارت ابھیان کو نئی طاقت بھی دے رہا ہے۔ یونیورسٹی کے اس اقدام کا نام ہے – ‘‘ سکھیت ماڈل ’’ ۔ سکھیت ماڈل کا مقصد دیہات میں آلودگی کو کم کرنا ہے۔ اس ماڈل کے تحت گاؤں کے کسانوں سے گائے کا گوبر اور دیگر گھریلو کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے اور بدلے میں گاؤں والوں کو کھانا پکانے کے گیس سلنڈر کے لیے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ گاؤں سے جمع ہونے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ورمی کمپوسٹ بنانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے یعنی سکھیت ماڈل کے چار فوائد براہ راست نظر آتے ہیں۔ ایک ، گاؤں آلودگی سے آزاد ، دوسرا گاؤں گندگی سے آزاد ، تیسرا گاؤں والوں کو ایل پی جی سلنڈر کے پیسے اور چوتھا گاؤں کے کسانوں کو نامیاتی کھاد کی فراہمی۔ آپ سوچیئے ، اس طرح کی کوششیں ہمارے دیہات کی طاقت کو کتنا بڑھا سکتی ہیں۔ یہ خود انحصاری کا موضوع ہے۔ میں ملک کی ہر پنچایت سے کہوں گا کہ انہیں بھی یہاں کچھ ایسا کرنے کا سوچنا چاہیئے اور دوستو ، جب ہم ایک مقصد کے ساتھ نکلتے ہیں تو نتیجے کا ملنایقینی ہوتا ہے ۔ اب دیکھئے نا ، ہمارے تمل ناڈو میں شیو گنگا ضلع کی کانجی رنگال پنچایت ۔ دیکھیئے ، اس چھوٹی سی پنچایت نے کیا کیا ۔ یہاں پر آپ کو ویسٹ سے ویلتھ کا ایک ماڈل دیکھنے کو ملےگا ۔ یہاں گرام پنچایت نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں میں کچرے سے بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ گاؤں میں لگایا ہے ۔ پورے گاؤں سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے ، اس سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور باقی بچے ہوئے فضلہ کو کیڑے مار دوا کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے ۔ گاؤں کے اس پاور پلانٹ کی صلاحیت یومیہ دو ٹن کچرے کا استعمال کرنا ہے ۔ اس سے بننے والی بجلی گاؤں کی سڑکوں پر لگی لائٹوں اور دوسری ضرورتوں میں استعمال ہو رہی ہے ۔ اس سے پنچایت کا پیسہ تو بچ ہی رہا ہے اور پیسہ دوسرے کاموں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اب مجھے بتائیے ، تمل ناڈو کے شیو گنگا ضلع کی ایک چھوٹی سی پنچایت ہم سبھی ہم وطنوں کو کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے یا نہیں ،کمال ہی کیا ہے نا انہوں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
‘ من کی بات ’ اب ہندوستان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف کونوں میں بھی ‘ من کی بات ’ پر گفتگو ہوتی ہے اور بیرونی ملکوں میں رہنے والے ہمارے ہندوستانی سماج کے لوگ ، وہ بھی مجھے بہت سی نئی نئی معلومات دیتے رہتے ہیں اور مجھے بھی کبھی کبھی ‘ من کی بات ’ میں بیرونی ملکوں میں ، جو انوکھے پروگرام چلتے ہیں ، اُن کی باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا اچھا لگتا ہے ۔ آج بھی میں آپ کو کچھ ایسے لوگوں سے متعارف کراؤں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ایک آڈیو سنانا چاہتا ہوں۔ تھوڑا غور سے سنیئے ۔
##
[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]
नमोनमः सर्वेभ्यः | मम नाम गङ्गा | भवन्तः शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-
एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ | अहम् एकतामूर्तेः मार्गदर्शिका एवं रेडियो-
युनिटी-माध्यमे आर्.जे. अस्मि | अद्य संस्कृतदिनम् अस्ति | सर्वेभ्यः बहव्यः
शुभकामनाः सन्ति| सरदार-वल्लभभाई-पटेलमहोदयः ‘लौहपुरुषः’ इत्युच्यते | २०१३-
तमे वर्षे लौहसंग्रहस्य अभियानम् प्रारब्धम् | १३४-टन-परिमितस्य लौहस्य गलनं
कृतम् | झारखण्डस्य एकः कृषकः मुद्गरस्य दानं कृतवान् | भवन्तः
शृण्वन्तु रेडियो-युनिटी-नवति-एफ्.एम् –‘एकभारतं श्रेष्ठ-भारतम्’ |
[रेडियो युनिटी नाईन्टी एफ्.एम्.-2]
##
ساتھیو ،
زبان تو آپ نے سمجھ گئے ہوں گے ۔ یہ ریڈیو پر سنسکرت میں بات کی جا رہی ہے اور جو بات کر رہی ہیں ، وہ آر جے گنگا ہیں ۔ آر جے گنگا گجرات کے ریڈیو جوکی گروپ کی رکن ہیں۔ ان کے اور بھی ساتھی ہیں ، جیسے آر جے نیلم ، آر جے گرو اور آر جے ہیتل۔ یہ تمام لوگ گجرات میں ، کیوڑیا میں اِس وقت سنسکرت زبان کی قدر بڑھانے میں مصروف ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ کیوڑیا وہی ہے ، جہاں دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ، ہمارے ملک کا فخر ، مجسمۂ اتحاد ہے ، میں اس کیوڑیا کے بارے میں بات کر رہا ہوں اور یہ سب ایسے ریڈیو جوکی ہیں ، جو بیک وقت کئی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ گائیڈ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں نیز کمیونٹی ریڈیو انیشئیٹو ، ریڈیو یونٹی 90 ایف ایم چلاتے ہیں۔ یہ آر جے اپنے سننے والوں سے سنسکرت زبان میں بات کرتے ہیں ، انہیں سنسکرت میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔
ساتھیو ،
ہمارے یہاں سنسکرت کے بارے میں کہا گیا ہے -
अमृतम् संस्कृतम् मित्र, सरसम् सरलम् वचः |
एकता मूलकम् राष्ट्रे, ज्ञान विज्ञान पोषकम् |
یعنی ہماری سنسکرت زبان میٹھی بھی ہے اور آسان بھی ۔
سنسکرت اپنے خیالات ، اپنے ادب کے ذریعے ، اس علم ، سائنس اور قوم کی وحدت کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ اس کو مضبوط کرتی ہے ۔ یہ سنسکرت ادب میں انسانیت اور علم کا الہی فلسفہ ہے ، جو کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ حال ہی میں ، مجھے ایسے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا ، جو بیرون ملک سنسکرت پڑھانے کا تحریکی کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص ہیں ،جناب رٹگر کورٹن ہارسٹ ، جو آئر لینڈ میں سنسکرت کے معروف دانشور ہیں اور استاد ہیں اور وہاں بچوں کو سنسکرت پڑھاتے ہیں ۔ اِدھر ہمارے یہاں مشرق میں بھارت اور تھائی لینڈ کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی میں سنسکرت کا بھی اہم کردار ہے ۔ ڈاکٹر چراپت پرپنڈ وِدیا اور ڈاکٹر کسوما رکشا منی ، یہ دونوں تھائی لینڈ میں سنسکرت زبان کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے تھائی اور سنسکرت زبانوں میں تقابلی ادب بھی تحریر کیا ہے۔ ایسے ہی ایک پروفیسر مسٹر بورس زاخرِن ہیں ، جو روس کی ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کئی تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں۔ انہوں نے سنسکرت سے روسی میں کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح سڈنی سنسکرت اسکول ، آسٹریلیا کے معروف اداروں میں سے ایک ہے ، جہاں طلباء کو سنسکرت زبان سکھائی جاتی ہے۔ یہ اسکول بچوں کے لئے سنسکرت گرامر کیمپ ، سنسکرت ناٹک اور سنسکرت ڈے جیسے پروگراموں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
ساتھیو ،
حالیہ دنوں میں کی جانے والی کوششوں نے سنسکرت کے بارے میں ایک نئی آگاہی پیدا کی ہے۔ اب اس سمت میں اپنی کوششوں کو بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ورثے کا خیال رکھیں ، اسے سنبھالیں ، نئی نسل کو دیں اور آنے والی نسلوں کا بھی اس پر حق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کاموں کے لیے بھی سب کی کوششیں بڑھائی جائیں۔ ساتھیو ، اگر آپ اس طرح کی کوششوں میں مصروف کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں ، اگر آپ کے پاس ایسی کوئی معلومات ہے ، تو براہ کرم سوشل میڈیا پر ان سے متعلقہ معلومات CelebratingSanskrit# کے ساتھ شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
اگلے کچھ دنوں میں ہی ‘ وشوکرما جینتی ’ بھی آنے والی ہے ۔ بھگوان وشوکرما کو ہمارے یہاں دنیا کی تخلیقی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جو بھی تخلیق کرتا ہے ، اپنی مہارت سے کوئی چیز تخلیق کرتا ہے ، چاہے وہ سلائی کڑھائی ہو ، سافٹ وئیر ہو یا سیٹلائٹ ، یہ سب بھگوان وشوکرما کا مظہر ہے۔ اگرچہ آج دنیا میں ہنر کو ایک نئے طریقے سے تسلیم کیا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے رشیوں نے ہزاروں سالوں سے مہارت اور پیمانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مہارت کو ، ہنر کو ، اہلیت کو عقیدت سے جوڑ کر ہماری زندگی کا حصہ بنا دیا ہے ۔ ہمارے ویدوں نے بھی کئی سُکت بھگوان وشو کرما کو وقف کی ہیں ۔ کائنات کی تمام عظیم تخلیقات ، جو بھی نئی اور بڑی چیزیں کی گئی ہیں ، ان کا کریڈٹ ہماری کتابوں میں بھگوان وشوکرما کو دیا گیا ہے۔ ایک طرح سے ، یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ دنیا میں جو بھی ترقی اور جدت واقع ہوتی ہے ، وہ صرف مہارت سے ہوتی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی سالگرہ اور ان کی پوجا کے پیچھے یہی روح ہے اور ہمارے شاستروں میں بھی یہی کہا گیا ہے –
‘विश्वम कृत्-सन्म कर्म व्यापारो यस्य सः विश्वकर्मा’
یعنی جو کائانت اور تعمیر سےجڑے کام کرتاہے ، وہ وشو کرما ہے ۔ ہمارے شاستروں کی نظر میں ، ہمارے ارد گرد تخلیق اور تخلیق میں مصروف تمام ہنر مند لوگ بھگوان وشوکرما کی میراث ہیں۔ ہم ان کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ سوچیئے اور دیکھیئے ، اگر آپ کے گھر میں بجلی کا کوئی مسئلہ ہے اور آپ کو کوئی الیکٹریشن نہیں ملتا تو کیا ہوگا؟ آپ کو کتنا بڑا مسئلہ درپیش ہوگا۔ ایسے کئی ہنر مند لوگوں کی وجہ سے ہماری زندگی چلتی ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھئے ، چاہے لوہے کا کام کرنے والے ہوں ، مٹی کے برتن بنانے والے ہوں ، لکڑی کے کام کرنے والے ہوں ، الیکٹریشن ہوں ، گھر کا پینٹر ہو ، جھاڑو لگانے والا ہو ، یا موبائل لیپ ٹاپ کا ریپیئر کرنے والا ہو ، یہ سب ساتھی مرمت کرنے والے صرف اپنی مہارت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ نئی شکل میں ، وہ وشوکرما بھی ہیں۔ لیکن دوستو ، اس کا ایک اور پہلو ہے اور یہ بعض اوقات تشویش کا باعث بھی بنتا ہے ۔ ایک ایسے ملک میں ، جہاں کی تہذیب میں ، روایت میں ، سوچ میں ، ہنر کو ، اسکل مین پاور کو بھگوان وشوکرما کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہو ، وہاں صورت حال کیسے بدل گئی ہے ،ایک وقت تھا ، ہماری خاندانی زندگی ، سماجی زندگی ، قومی زندگی پر اہلیت کا بہت بڑا اثر رہتاتھا لیکن غلامی کے لمبے دور میں ہنرکو اس طرح کا احترام دینے والا جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہو گیا ہے۔ اب کچھ ایسی سوچ بن گئی ہے کہ ہنر پر مبنی کام کو چھوٹا سمجھا جانے لگا ہے اور آج دیکھیئے ، پوری دنیا ، سب سے زیادہ ہنر یعنی اسکل پر ہی زور دے رہی ہے۔ بھگوان وشوکرما کی پوجا بھی صرف رسموں سے ہی پوری نہیں ہوئی ۔ ہمیں ہنر کا احترام کرنا ہوگا ، ہمیں ہنر مند بننے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔ ہنر مند ہونے پر فخر کرنا چاہیئے ۔ جب ہم کچھ نیا کام کریں تو کچھ اختراعی کریں ، کچھ ایسا کام کریں ، جس سے سماج کا بھلاہو ، لوگوں کی زندگی آسان بنے ۔ تب ہماری وشوکرما پوجا درست ثابت ہو گی ۔ آج دنیا میں ہنر مند افراد کے لیے مواقع کی کمی نہیں ہے۔ ترقی کے کتنے راستے آج ہنر سے تیار ہو رہے ہیں ۔ تو آئیے ، اس بار ہم ، بھگوان وشوکرما کی پوجا پر ، آستھا کے ساتھ ساتھ ، اُن کے پیغامات کو بھی اپنانے کا عہد کریں ۔ ہماری پوجا کا جذبہ یہی ہونا چاہیئے کہ ہم ہنر مندی کی اہمیت کو سمجھیں ، ہنر مند لوگوں کو ، چاہے وہ کوئی بھی کام کرتا ہو ، ان کا پورا احترام کیا جائے گا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
یہ وقت آزادی کے 75 ویں سال کا ہے۔ اس سال تو ہمیں ہر دن نیا عہد کرنا ہے ۔ نیا سوچنا ہے اور کچھ نیا کرنے کا اپنا جذبہ بڑھانا ہے ۔ ہمارا بھار ت ، جب آزادی کے 100 سال پورے کرے گا ، تب ہمارے یہ عہد ہی ، اس کی کامیابی کی بنیاد بنیں گے ۔ ہمیں اس میں اپنا زیادہ سے زیادہ تعاون دینا ہے اور ان کوششوں کے بیچ ہمیں ایک بات اور یاد رکھنی ہے ۔ دوائی بھی ، کڑھائی بھی ۔ ملک میں 62 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی ڈوز دی جا چکی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں احتیاط رکھنی ہے احتیاط برتنی ہے ۔ اور ہاں ، ہمیشہ کی طرح ، جب بھی آپ کچھ نیا کریں ، نیا سوچیں ، تو اس میں ، مجھے بھی شامل کریئے گا ۔ مجھے آپ کے خط اور میسیج کا انتظار رہے گا ۔ اسی خواہش کے ساتھ ، آپ سبھی کو آنے والے تہواروں کی ایک بار پھر بہت بہت مبارکباد ، بہت بہت شکریہ ۔
نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
دو دن پہلے کی کچھ خوبصورت تصویریں ، کچھ یاد گار پل ، اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ اس لئے اِس مرتبہ ’’ من کی بات‘‘ کی شروعات ، انہی لمحوں سے کرتے ہیں ۔ ٹوکیو اولمپکس میں بھارتی کھلاڑیوں کو ترنگا لے کر چلتے دیکھ کر میں ہی نہیں ، پورا ملک جھوم اٹھا ۔ پورے ملک نے جیسے ایک ہوکر اپنے اِن جانبازوں سے کہا –
تمہاری فتح ہو ! تمہاری فتح ہو !
جب یہ کھلاڑی بھارت سے روانہ ہوئے تھے تو مجھے ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کا ، ان کے بارے میں جاننے اور ملک کو بتانے کا موقع ملا۔ یہ کھلاڑی زندگی کے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ آج ، ان کے پاس آپ کی محبت اور حمایت کی قوت ہے۔ اس لئے آئیے مل کر اپنے تمام کھلاڑیوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کریں، ملک کا حوصلہ بڑھائیں ۔ سوشل میڈیا پر اولمپکس کھلاڑیوں کی حمایت کے لئے ہمارا وِکٹری پنچ کمپین اب شروع ہو چکا ہے ۔ آپ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ اپنا وِکٹری پنچ شیئر کریئے۔ بھارت کے لئے چیئر کریئے ۔
ساتھیو ، جو ملک کے لئے ترنگا اٹھاتا ہے ، اُس کے احترام میں جذباتی ہو جانا فطری بات ہے ۔ حب الوطنی کا یہ جذبہ ہم سب کو جوڑتا ہے ۔ کل یعنی 26 جولائی کو ’’ کرگل وجے دِوس ‘‘ بھی ہے۔ کرگل کی جنگ بھارتی فوجوں کی بہادری اور تحمل کی ایک ایسی علامت ہے ، جسے پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ اس بار یہ شاندار دن ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران منایا جائے گا ۔ اس لئے یہ اور بھی خاص ہوجاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ کرگل کی سنسنی خیز کہانی ضروری پڑھیں ، ہم سب کرگل کے بہادروں کو سلام پیش کریں۔
ساتھیو ، اس مرتبہ 15 اگست کو ، ملک آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہورہا ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ جس آزادی کے لئے ملک نے صدیوں کا انتظار کیا ، اُس کے 75 سال پورے ہونے کے ہم گواہ بن رہے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا ، آزادی کے 75 سال منانے کے لئے ، ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کا آغاز 12 مارچ کو باپو کے سابرمتی آشرم سے ہوا تھا۔ اس دن باپو کی ڈانڈی یاترا کی بھی تجدید کی گئی تھی ، تب سے جموں و کشمیر سے پڈوچیری تک ، گجرات سے شمال مشرق تک ، ’’امرت مہوتسو ‘‘ سے متعلق پروگرام پورے ملک میں جاری ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ، ایسے جدو جہد آزادی کے سپاہی، جن کا تعاون تو بہت زیادہ ہے لیکن اُن کا ذکر اتنا نہیں ہو پایا ، آج لوگ ان کے بارے میں بھی جان رہے ہیں۔ اب ، مثال کے طور پر ، موئیرانگ ڈے کو ہی لے لیجئے ! منی پور کا ایک چھوٹا سا قصبہ ، موئیرانگ ، کسی زمانے میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی یعنی ( آئی این اے ) کا ایک اہم ٹھکانہ تھا۔ یہاں ، آزادی سے قبل ہی ، آئی این اے کے کرنل شوکت ملک نے پرچم لہرایا تھا۔ ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کے دوران 14 اپریل کو اسی موئیرانگ میں ایک بار پھر ترنگا لہرایا گیا۔ ایسے بہت سے آزادی کے سپاہی اور عظیم شخصیات ہیں ، جنہیں ’’ امرت مہوتسو ‘‘ میں ملک یاد کر رہا ہے ۔ حکومت اور سماجی اداروں کی طرف سے بھی لگاتار اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ ایسا ہی ایک پروگرام اس مرتبہ 15 اگست کو ہونے والا ہے ۔ یہ ایک کوشش ہے – قومی ترانے سے جڑی ہوئی ۔ ثقافت کی وزارت کی کوشش ہے کہ اس دن ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ لوگ قومی ترانہ ایک ساتھ مل کر گائیں ۔ اس کے لئے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے Rashtragan.in۔ اس ویب سائٹ کی مدد سے آپ قومی ترانہ گاکر ، اُسے ریکارڈ کر سکیں گے، اس مہم سے جڑ سکیں گے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس انوکھی پہل سے ضرور جڑیں گے ۔ اسی طرح کی بہت ساری مہم ، بہت ساری کوششیں آپ کو آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملیں گی ۔ ’’ امرت مہوتسو ‘‘ کسی حکومت کا پروگرام نہیں ہے ، کسی سیاسی پارٹی کا پروگرام نہیں ہے ، یہ پوری طرح ہندوستانیوں کا پروگرام ہے ۔ ہر آزاد اور ممنون ہندوستانی کا اپنے آزادی کے سپاہیوں کو سلام ہے اور اس مہوتسو کا بنیادی جذبہ تو بہت وسیع ہے ۔ یہ جذبہ ہے ، اپنے جدو جہد آزادی کے سپاہیوں کے راستے پر چلنا ، اُن کے خوابوں کا ملک بنانا ، جیسے – ملک کی آزادی کے متوالے ، آزادی کے لئے متحد ہوگئے تھے ، ویسے ہی ہمیں ملک کی ترقی کے لئے متحد ہونا ہے ۔ ہمیں ملک کے لئے جینا ہے ، ملک کے لئے کام کرنا ہے اور اس میں چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بھی بڑے نتائج حاصل ہو جاتے ہیں ۔ روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی ہم قوم کی تعمیر کر سکتے ہیں ، جیسے ووکل فار لوکل ۔ ہمارے ملک کے مقامی صنعت کاروں ، فن کاروں ، دست کاروں ، بنکروں کی حمایت کرنا ، ہمارے رویے میں ہونا چاہیئے ۔ 7 اگست کو آنے والا قومی یومِ ہینڈلوم ایک ایسا ہی موقع ہے ، جب ہم کوشش کرکے بھی یہ کام کرسکتے ہیں ۔ قومی یومِ ہینڈ لوم کے ساتھ بہت تاریخی واقعہ جڑا ہوا ہے ۔ اسی دن 1905 ء میں سودیشی کی شروعات ہوئی تھی ۔
ساتھیو ، ہمارے ملک کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں ہینڈ لوم کمائی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے ۔ یہ ایسا شعبہ ہے ، جس سے لاکھوں خواتین ، لاکھوں بنکر ، لاکھوں دست کار جڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے بنکروں کو نئی امید ملے گی۔ آپ خود بھی کچھ نہ کچھ خریدیں اور اپنی بات دوسروں کو بھی بتائیں اور جب ہم آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسا کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا ، سال 2014 ء کے بعد سے ہی ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم اکثر کھادی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ آپ کی ہی کوشش ہے کہ آج ملک میں کھادی کی فروخت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایک کھادی کے کسی اسٹور سے ایک دن میں ایک کروڑ سے زیادہ کی فروخت ہو سکتی ہے! لیکن ، آپ نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ جب بھی آپ کہیں بھی کھادی کی کوئی چیز خریدتے ہیں تو اس سے ہمارے غریب بنکر بھائیوں اور بہنوں کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ، کھادی خریدنا ایک طرح سے عوامی خدمت ہے ، یہ قوم کی خدمت بھی ہے۔ میں آپ سبھی عزیز بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ دیہی علاقوں میں تیار کردہ ہینڈلوم مصنوعات خریدیں اور اسے #MyHandloomMyPride کے ساتھ شیئر کریں۔
ساتھیو ، جب آزادی کی تحریک اور کھادی کی بات آتی ہے تو پوجیے باپو کو یاد رکھنا فطری بات ہے ۔ جیسے باپو کی قیادت میں ’’ بھارت چھوڑو ‘‘ مہم چلی تھی ، ویسے ہی آج ہر شہری کو ’’ بھارت جوڑو ‘‘ مہم کی قیادت کرنی ہے ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کام اِس طرح کریں ، جو تنوع والے ہمارے بھارت کو جوڑنے میں مدد گار ہو سکیں ۔ تو آیئے ہم ’’ امرت مہوتسو ‘‘ پر یہ امرت عہد کریں کہ ملک ہی ہمارا سب سے بڑا عقیدہ اور سب سے بڑی ترجیح بنا رہے گا ۔ ’’ نیشن فرسٹ ، آلویز فرسٹ ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہی ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج میں من کی بات سننے والے اپنے نوجوان ساتھیوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی MyGov کی طرف سے ’’ من کی بات ‘‘ کے سامعین کے بارے میں ایک مطالعہ کیا گیا تھا ۔ اس مطالعے میں یہ دیکھا گیا کہ من کی بات کے لئے پیغامات اور مشورے بھیجنے والوں میں ، خاص طور پر کون لوگ ہیں ۔ مطالعے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پیغامات اور تجاویز بھیجنے والوں میں تقریباً تقریباً 75 فی صد لوگ 35 سال کی عمر سے کم ہیں یعنی بھارت کی نوجوان قوت کی تجاویز ’’ من کی بات ‘‘ کو راستہ دکھا رہی ہیں ۔ میں اسے ایک بہت اچھی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ ’’ من کی بات ‘‘ ایک ایسا ذریعہ ہے ، جہاں مثبت انداز اور حساسیت پائی جاتی ہے ۔ ’’ من کی بات ‘‘ میں ہم مثبت باتیں کرتے ہیں ۔ اس کا کریکٹر اجتماعی ہے ۔
مثبت خیالات اور مشوروں کے لئے بھارت کے نو جوانوں کی یہ سرگرمی مجھے خوش کرتی ہے ۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ’’ من کی بات ‘‘ کے ذریعے مجھے نو جوانوں کے دِل کو بھی جاننے کا موقع ملتا ہے ۔
ساتھیو ، آپ لوگوں سے ملے مشورے ہی ’’ من کی بات ‘‘ کی اصل طاقت ہیں ۔ آپ کی تجاویز ’’ من کی بات ‘‘ کے ذریعے بھارت کے تنوع کا اظہار کرتی ہیں ، بھارت میں رہنے والوں کی خدمت اور قربانی کو چاروں طرف پھیلاتی ہیں ۔ ہمارے محنت کش نو جوانوں کے اننوویشن سب کو ترغیب دیتے ہیں ۔ ’’ من کی بات ‘‘ میں آپ کئی طرح کے آئیڈیاز بھیجتے ہیں ۔ ہم سبھی پر تو تبادلۂ خیال نہیں کر سکتے لیکن اُن میں سے بہت سے آئیڈیا کو میں متعلقہ شعبوں کو ضرور بھیجتا ہوں تاکہ اُن پر آگے کام کیا جا سکے ۔
ساتھیو ، میں آپ کو سائیں پرنیت جی کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ سائیں پرنیت جی ، ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں ۔ آندھرا پردیش کے رہنے والے ہیں ۔ پچھلے سال انہوں نے دیکھا کہ اپنی جگہ موسم کی وجہ سے کسانوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کئی سالوں سے محکمہ موسمیات میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ لہٰذا انہوں نے اپنی دلچسپی اور اپنی صلاحیتوں کو کسانوں کی بہتری کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ موسم کے اعداد و شمار کو مختلف اعداد و شمار کے ذرائع سے خریدتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور مقامی زبان میں مختلف ذرائع کے ذریعہ کاشت کاروں کو ضروری معلومات منتقل کرتے ہیں۔ موسم کی تازہ معلومات کے علاوہ ، پرنیت جی الگ الگ آب و ہوا کی صورت حال میں لوگوں کو کیا کرنا چاہیئے ، اس کی بھی رہنمائی کرتے ہیں ، خاص طور پر سیلاب سے بچنے کے لئے یا طوفان یا آسمانی بجلی کی صورت میں کیسے بچا جائے ، اس کے بارے میں بھی وہ لوگوں کو بتاتے ہے۔
ساتھیو ، ایک طرف اس نوجوان سافٹ ویئر انجینئر کی یہ کوشش دل کو چھو لینے والی ہے ، دوسری طرف ہمارے ایک اور ساتھی کے ذریعہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی آپ کو تعجب کرنے پر مجبور کرے گا ۔ یہ ساتھی ہیں ، اڈیشہ کے سنبل پور ضلعے کے ایک گاؤں میں رہنے والے جناب اسحاق منڈا جی ، جو کبھی ایک دیہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے لیکن اب وہ ایک انٹرنیٹ سنسیشن بن گئے ہیں ۔ اپنے یو ٹیوب چینل سے وہ کافی رقم کما رہے ہیں ۔ وہ اپنے ویڈیوز میں مقامی کھانے ، روایتی کھانے بنانے کے طریقے ، اپنے گاؤں ، اپنی طرز زندگی ، خاندان اور کھانے پینے کی عادتوں کو خاص طور سے دکھاتے ہیں ۔ ایک یو ٹیوبر کی شکل میں ، اُن کا سفر مارچ ، 2020 ء میں شروع ہوا تھا ، جب انہوں نے اڈیشہ کے مشہور مقامی کھانے پکھال سے جڑا ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا ۔ تب سے اب تک وہ سینکڑوں ویڈیو پوسٹ کر چکے ہیں۔ یہ کوشش کئی وجہ سے سب سے الگ ہے ، خاص طور پر اس لئے کہ اس سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو ، وہ طرز زندگی دیکھنے کا موقع ملتاہے ، جس کے بارے میں وہ زیادہ کچھ نہیں جانتے ۔ اسحاق منڈا جی کلچر اور کھانوں دونوں کو برابر ملاکر جشن منا رہے ہیں اور ہم سب کو تحریک بھی دے رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جب ہم ٹیکنالوجی کی بات کر رہے ہیں تو میں ایک اور دلچسپ موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے حال فی الحال میں پڑھا ہوگا ، دیکھا ہوگا کہ آئی آئی ٹی مدراس کے طالب علم کے ذریعے قائم کی گئی ایک اسٹارٹ اَپ نے ایک 3 ڈی پرنٹڈ ہاؤس بنایا ہے ۔ 3 ڈی پرنٹنگ کرکے گھر کی تعمیر ، آخر یہ ہوا کیسے ؟ دراصل اِس اسٹارٹ اَپ نے سب سے پہلے 3 ڈی پرنٹر میں ایک تین پہلو والے ڈیزائن کو فیڈ کیا اور پھر ایک خاص طرح کی کنکریٹ کے ذریعے پرت دَر پرت ایک تھری ڈی ڈھانچہ تیار کر دیا ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ملک بھر میں ، اِس طرح کی کئی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ایک وقت تھا ، جب چھوٹے چھوٹے تعمیری کام میں بھی کئی سال لگ جاتے تھے لیکن آج ٹیکنا لوجی کی وجہ سے بھارت میں صورتِ حال بدل رہی ہے ۔ کچھ وقت پہلے ہم نے دنیا بھر کی ایسی اختراعی کمپنیوں کو مدعو کرنے کے لئے ایک عالمی ہاؤسنگ ٹیکنالوجی چیلنج لانچ کیا تھا ۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کی ایک انوکھی کوشش ہے ۔ لہٰذا ، ہم نے ان کو لائٹ ہاؤس پروجیکٹس کا نام دیا۔ اس وقت ملک میں 6 مختلف مقامات پر لائٹ ہاؤس پروجیکٹس پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ ان لائٹ ہاؤس پروجیکٹس میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس سے تعمیرات کا وقت کم ہوجاتا ہے نیز جو مکانات تعمیر کئے گئے ہیں ، وہ زیادہ پائیدار ، کفایتی اور آرام دہ ہوتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ڈرون کے ذریعے ان منصوبوں کا جائزہ لیا اور کام کی پیشرفت کو براہ راست دیکھا۔
اِندور کے پروجیکٹ میں ، بِرک اور مورٹار وال کی جگہ پری فیبریکیٹڈ سینڈویچ پینل سسٹم استعمال کیا جارہا ہے۔ راجکوٹ میں لائٹ ہاؤس فرانسیسی ٹیکنالوجی سے بنائے جا رہے ہیں ، جس میں سرنگوں کے ذریعہ کنکریٹ کی تعمیراتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے بنائے گئے گھر آفات کا سامنا کرنے کے کہیں زیادہ اہل ہوں گے۔ چنئی میں ، امریکہ اور فن لینڈ کی پری کاسٹ کنکریٹ سسٹم ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی مدد سے مکانات تیزی سے تعمیر ہوں گے اور لاگت بھی کم آئے گی۔ جرمنی کے تھری ڈی کنسٹرکشن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے رانچی میں مکانات تعمیر کئے جائیں گے۔ اس میں ، ہر کمرے کو الگ سے بنایا جائے گا ، پھر پورے ڈھانچے کو اسی طرح جوڑا جائے گا ، جیسے بلاک کھلونوں کو جوڑا جاتا ہے ۔ نیوزی لینڈ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیل فریم کے ساتھ اگرتلا میں مکانات تعمیر ہورہے ہیں ، جو بڑے زلزلوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ وہیں لکھنؤ میں کناڈا کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں پلاسٹر اور پینٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور گھر کو تیزی سے بنانے کے لئے پہلے سے تیار دیواریں استعمال کی جائیں گی۔
ساتھیو، آج ملک میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ یہ پروجیکٹ انکیوبیشن سینٹرز کے طور پر کام کریں ۔ اس سے ہمارے منصوبہ بندی کرنے والوں ، آرکیٹیکٹس ، انجینئرز اور طلباء نئی ٹیکنالوجی کو جان سکیں گے اور وہ اس کے ساتھ تجربہ بھی کرسکیں گے۔ میں ان چیزوں کو خصوصاً اپنے نوجوانوں کے لئے ساجھا کر رہا ہوں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو قوم کے مفاد میں ٹیکنالوجی کے نئے شعبوں کی طرف راغب کیا جاسکے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آپ نے انگریزی کی کہاوت ضرور سنی ہوگی – ’’ ٹو لرن اِز ٹو گرو ‘‘ یعنی ’’ سیکھنا ہی آگے بڑھنا ہے‘‘ ۔ جب ہم کچھ نیا سیکھتے ہیں تو ہمارے لئے نئے نئے راستے خود بہ خود کھل جاتے ہیں ۔ جب بھی کہیں لیگ سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش ہوئی ہے ، انسانیت کے لئے نئے دروازے کھلے ہیں ، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کہیں بھی کوئی نیا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ سب کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اب جیسے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ وہ کون سی ریاستیں ہیں ، جن کو آپ سیب کے ساتھ جوڑیں گے؟ تو ظاہر ہے کہ ہماچل پردیش ، جموں و کشمیر اور اتراکھنڈ کا نام آپ کے ذہن میں سب سے پہلے آئے گا لیکن اگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ منی پور کو بھی اس فہرست میں جوڑ دیجئے تو شاید آپ کو بہت تعجب ہو گا ۔ کچھ نیا کرنے کے جذبے سے بھرے نوجوانوں نے منی پور میں یہ کارنامہ کر دکھایا ہے ۔ آج کل منی پور کے ضلع اخرول میں سیب کی کاشت زور پکڑتی جارہی ہے۔ یہاں کے کاشتکار اپنے باغات میں سیب اُگا رہے ہیں۔ سیب اگانے کے لئے ، ان لوگوں نے ہماچل جاکر باقاعدہ ٹریننگ بھی لی ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ، ٹی ایس رِنگپھامی یونگ ۔ یہ پیشے سے ایک ایرو نوٹیکل انجینئر ہیں ۔ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ٹی ایس اینجل کے ساتھ مل کر سیب کی پیداوار کی ہے ۔ اسی طرح آوُنگ شی شمرے اوگسٹینا نے بھی اپنے باغوں میں سیب کی پیداوار کی ۔ آوُنگ شی دلّی میں جاب کرتی تھیں ۔ یہ چھوڑ کر وہ اپنے گاؤں لوٹ گئیں اور سیب کی کھیتی شروع کی ۔ منی پور میں آج ایسے کئی سیب پیدا کرنے والے ہیں ، جنہوں نے کچھ الگ اور نیا کرکے دکھایا ہے ۔
ساتھیو ، ہمارے قبائلی سماج میں بیر بہت مقبول ہوتے ہیں ۔ قبائلی سماج کے لوگ ہمیشہ سے بیر کی کاشت کرتے رہے ہیں لیکن خاص طور پر کووڈ – 19 وبائی بیماری کے بعد اس کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بکرم جیت چکما 32 سال کے ایسے ہی نوجوان ساتھی ہیں ، جو تری پورہ کے اناکوٹی کے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے بیر کی کھیتی کی شروعات کرکے بہت زیادہ منافع بھی حاصل کیا ہے اور اب وہ لوگوں کو بیری کی کاشت کرنے کے لئے بھی تحریک دے رہے ہیں ۔ ریاستی حکومت بھی ایسے لوگوں کی مدد کے لئے آگے آئی ہے۔ اس کے لئے حکومت کی طرف سے بہت ساری خصوصی نرسریاں بنائی گئی ہیں تاکہ بیر کی کاشت سے وابستہ لوگوں کی مانگ پوری کی جاسکے۔ کھیتی میں جدت طرازی ہو رہی ہے تو کھیتی کی پیداوار میں بھی تخلیقی پہلو دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
ساتھیو ، مجھے اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں کئے گئے ایک تجربے کے بارے میں بھی پتہ چلا ہے ۔ کووڈ کے دوران ہی لکھیم پور کھیری میں ایک انوکھی پہل ہوئی ہے ۔ وہاں ، خواتین کو کیلے کے بیکار تنوں سے فائبر بنانے کی تربیت دینے کا کام شروع کیا گیا۔ فضلے کو کارآمد بنانے کا طریقہ ۔ کیلے کے تنے کو کاٹ کر مشین کی مدد سے ’ بنانا فائبر ‘ تیار کیا جاتا ہے ، جو جوٹ یا سن کی طرح ہوتا ہے ۔ اس فائبر سے تھیلے ، چٹائی ، دری ، کتنی ہی چیزیں بنائی جاتی ہیں ۔ اس سے ایک تو فصل کے کچرے کا استعمال شروع ہو گیا ، وہیں دوسری طرف گاؤں میں رہنے والی ہماری بہن بیٹیوں کو آمدنی کا ایک ذریعہ مل گیا ۔ ’ بنانا فائبر ‘ کے اِس کام سے ایک مقامی خاتون کو 400 سے 600 روپئے یومیہ کی کمائی ہوجاتی ہے ۔ لکھیم پور کھیری میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر کیلے کی کھیتی ہوتی ہے ۔ کیلے کی فصل کے بعد عام طور پر کسانوں کو ، اِس کے تنے کو پھینکنے کے لئے الگ سے خرچ کرنا پڑتا تھا ۔ اب اُن کا یہ پیسہ بھی بچ جاتا ہے یعنی آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام ، یہ کہاوت یہاں بالکل درست بیٹھتی ہے ۔
ساتھیو،ایک طرف بنانا فائبر سے سامان بنایا جارہا ہے ، وہیں دوسری طرف کیلے کے آٹے سے ڈوسا اور گلاب جامن جیسے مزیدار کھانے بھی بن رہے ہیں ۔ کرناٹک کے شمالی کنڑ اور جنوبی کنڑ ضلعوں میں خواتین یہ نیا کام کررہی ہیں ۔ اس کا آغاز بھی کورونا دور میں ہی ہوا ہے ۔ ان خواتین نے نہ صرف کیلے کے آٹے سے ڈوسا ، گلاب جامن جیسی چیزیں بنائی ہیں بلکہ ان کی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا ہے ۔ جب زیادہ لوگوں کو کیلے کے آٹے کے بارے میں پتہ چلا تو اُس کی مانگ بھی بڑی اور ان عورتوں کی آمدنی بھی ۔ لکھیم پور کھیری کی طرح یہاں بھی اس اختراعی نظریے کی خواتین ہی قیادت کررہی ہیں ۔
دوستو، اس طرح کی مثالیں زندگی میں کچھ نیا کرنے کے لئے ترغیب فراہم کرتی ہیں۔ آپ کے آس پاس ایسے کئی لوگ ہوں گے۔ جب آپ کے کنبے کے افراد بات چیت میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ کو بھی اس گفتگو میں حصہ لینا چاہئے۔ کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کی کوششوں کو دیکھنے جائیں اور اگر آپ کو موقع ملے ، تو خود بھی ایسا ہی کچھ کریں۔ اور ہاں، میں چاہوں گا کہ آپ یہ سب میرے ساتھ نمو ایپ یا مائی گو پر ساجھا کریں۔
میرے عزیز اہل وطن ، ہماری سنسکرت کی کتابوں میں ایک اشلوک ہے –
آتمن تھرم جیوالوکاسمن، کو نہ جیوتی مانواہ: |
پرم پروپکارتھم، یو جیوتی سا جیوتی ||
اس کا مطلب ہے، اس دنیا میں ہر کوئی اپنے لیے جیتا ہے۔ لیکن درحقیقت جیتا صرف وہی انسان ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے ہے۔ ’من کی بات‘ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں بھارت ماتا کے بیٹوں اور بیٹیوں کی انسان دوست کوششوں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں۔ آج بھی، ہم ایسے ہی دوستوں کے بارے میں بات کریں گے۔ ہمارے دوستوں میں سے ایک کاتعلق چنڈی گڑھ شہر سے ہے۔ میں بھی چنڈی گڑھ میں کچھ برس رہا ہوں۔ یہ ایک بہت ہی خوشگوار اور خوبصورت شہر ہے۔ چنڈی گڑھ کے عوام بھی بڑے دل والے ہوتے ہیں، اور ہاں، اگر آپ کھانے کے شوقین ہیں، تو یہاں آپ کو اور لطف آئے گا۔ چنڈی گڑھ کے سیکٹر 29 میں، سنجے رانا جی کا ایک فوڈ اسٹال ہے اور وہ اپنی سائیکل پر چھولے بھٹورے بیچتے ہیں۔ ایک دن ان کی بیٹی ردھیما اور بھانجی ریا ایک سجھاؤ لے کر آئیں۔ دونوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان لوگوں کو مفت چھولے بھٹورے کھلائیں جنہوں کووِڈ ٹیکہ لگوایا ہے۔ انہوں نے اس سجھاؤ کو بخوشی قبول کیا اور فوری طور پر اس اچھی اور نیک کوشش کا آغاز کیا۔ سنجے رانا جی کے چھولے بھٹورے مفت کھانے کے لئے، آپ کو یہ دکھانا ہوگا کہ آپ نے اس دن ٹیکہ لگوایا ہے۔ جب آپ ٹیکہ لگوانے سے متعلق پیغام دکھائیں گے تو وہ آپ کو لذیذ چھولے پیش کریں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی فلاح و بہبود کے لئے، پیسے سے زیادہ جذبۂ خدمت اور فرض کا احساس درکار ہوتا ہے۔ ہمارے سنجے بھائی اس قول کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔
دوستو، میں آج اس طرح کے کام کی ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ کوشش تمل ناڈو کے نیل گری علاقے میں کی جا رہی ہے۔ یہاں رادھیکا شاستری جی نے ایمبوآر ایکس (ایمبو ریکس) پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد پہاڑی علاقوں میں مریضوں کے علاج کے لئے آسان نقل و حمل فراہم کرانا ہے۔ انہوں نے ایمبو آر ایکس کے لئے اپنے کیفے کے ساتھیوں سے سرمایہ اکٹھا کیا تھا۔ آج چھ ایمبو آر ایکس نیل گری پہاڑی علاقوں میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں اور ہنگامی صورتحال کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مریضوں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ایک ایمبو آرایکس ایک اسٹریچر، ایک آکسیجن سلنڈر، فرسٹ ایڈ باکس اور دیگر سازومان پر مشتمل ہوتی ہے۔
دوستو، خواہ سنجے جی ہوں یا رادھیکا جی، ان کی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم اپنے روزمرہ کے کام ، اپنا کاروبار اور نوکری کرتے ہوئے بھی خدمت کر سکتے ہیں۔
دوستو، چند روز قبل ایک بڑا ہی دلچسپ اور جذباتی واقعہ پیش آیا، جس نے بھارت۔جارجیا دوستی کو نئی قوت عطا کی۔ اس تقریب کے دوران، بھارت نے حکومت جارجیا اور وہاں کے عوام کو مقدس باقیات یا سینٹ کوئین کیٹیون کا آئیکن سونپا، اس مشن کے لئے ہمارے وزیر خارجہ بذاتِ خود وہاں گئے۔ یہ تقریب، جوکہ انتہائی جذباتی ماحول میں منعقد ہوئی، اس میں جورجیا کے صدر، وزیر اعظم، متعدد مذہبی قائدین، اور بڑی تعداد میں جارجیا کے عوام نے شرکت کی۔ اس تقریب کے دوران بھارت کی تعریف میں جو کلمات کہے گئے وہ یقیناً یادگار ہیں۔ اس واحد تقریب نے نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ گوا اور جارجیا کے مابین تعلقات کو بھی مضبوط کیا ۔ سینٹ کوئین کیٹیون کے مقدس باقیات 2005 میں گوا میں واقع سینٹ اگسٹائن چرچ میں پائے گئے تھے۔
دوستو، آپ کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا ۔۔۔ یہ سب چیزیں کس لیے ہیں اور یہ کیسے ہوا؟ درحقیقت، یہ واقعہ چار سو یا پانچ سو برس پہلے کا ہے۔ کوئین کیٹیون جارجیا کے شاہی خاندان کی بیٹی تھیں۔ دس سال کی قید کے بعد 1624میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ قدیم پرتگالی دستاویز کے مطابق، سینٹ کوئین کیٹیون کے باقیات کو پرانے گوا کے سینٹ آگسٹین کانوینٹ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن، ایک طویل مدت کے لئے یہ سمجھا گیا کہ گوا میں دفن ان کے باقیات 1930 کے زلزلے میں کہیں گم ہوگئے۔
حکومت ہند اور جارجیا کے مؤرخین ، محققین، ماہرین آثار قدیمہ اور جارجیا کی چرچ کی دہائیوں کی انتھک کوششوں کے بعد 2005 میں باقیات کو کامیابی کے ساتھ ڈھونڈھ لیا گیا۔یہ جارجیا کے عوام کے لئے ایک ازحدجذباتی موضوع ہے ۔ اسی لیے ان کے تاریخی، مذہبی اور روحانی جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت ہند نے جارجیا کے عوام کو ان باقیات کے ایک حصے کو بطور تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ آج، بھارت اور جارجیا کی مشترکہ تاریخ کے اس منفرد حصے کی حفاظت کرنے کے لئے میں گوا کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔گوا متعدد روحانی ورثے کی سرزمین کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ سینٹ آگسٹین چرچ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے جو کہ گوا کے چرچوں اور کانوینٹس کا ایک حصہ ہے۔
میرے عزیز اہل وطن، اب مجھے آپ کو جارجیا سے سنگاپور لے جانے دیجئے، جہاں اس ماہ کے آغاز میں ایک اور شاندار موقع حاصل ہوا۔ سنگاپور کے وزیر اعظم اور میرے دوست لی شین لونگ نے حال ہی میں تجدید شدہ سیلت روڈ گورودوارے کا افتتاح کیا۔ انہوں نے روایتی سکھ پگڑی بھی پہنی۔ یہ گورودوارہ سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں بھائی مہاراج سنگھ کو وقف کیا گیا ایک میمورئیل بھی ہے۔ بھائی مہاراج جی بھارت کی آزادی کے لئے لڑے تھے اور یہ لمحہ اس وقت مزید متاثرکن ہو گیا ہے جب ہم آزادی کے 75 برسوں کا جشن منا رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی عوام سے عوام کے درمیان طاقت کو اس طرح کی پہل قدمیوں اور کوششوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم آہنگی کے ماحول میں رہنا اور ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنا کتنا اہم ہے۔
میرے پیارے اہل وطن، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔ ایک موضوع اور ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ یہ موضوع آبی تحفظ سے متعلق ہے۔ جس جگہ میرا بچپن گزرا، وہاں ہمیشہ پانی کی قلت رہتی تھی۔ ہم بارش کے لئے ترستے تھے اور اسی لیے پانی کی ایک ایک بوند کی حفاظت کرنا ہماری روایات ، ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ اب ’عوامی شراکت داری کے توسط سے آبی تحفظ‘ کے منتر نے وہاں کی تصویر ہی بدل کر رکھ دی ہے۔
دوستو، فطرت اور ماحولیات کی حفاظت بھارت کی ثقافتی زندگی میں پنہاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بارشوں اور مانسون نے ہمارے افکار، ہمارے فلسفے اور ہماری تہذیب کو سنوارا ہے۔ ’رِتو سنہار‘ اور ’میگھ دوت‘ میں، عظیم شاعر کالی داس نے خوبصورت انداز میں بارشوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔ یہ نظمیں ادب کے چاہنے والوں میں آج بھی بہت مقبول ہیں۔ بارشوں کی عظمت کو رگوید کی پرجانیا سکتم میں بھی بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح، زمین، سورج اور بارش کے درمیان رشتے پر بھی شریمد بھگوت میں منظوم انداز میں تفصیلی بیان ملتا ہے۔
اشٹو ماسان نپیت ید، بھومیا: چا، اود۔مایم وسو|
سوبھوگی: موکتم آرے بھے، پرجنیہ: کال آگتے||
اس کا مطلب ہے، سورج نے زمین کی دولت کو پانی کی شکل میں استعمال کیا، اب مانسون کے موسم میں، سورج یہ جمع کی گئی دولت زمین کو واپس کر رہا ہے۔ یقیناً، مانسون اور بارش کا موسم نہ صرف خوبصورت اور خوشگوار ہے، بلکہ یہ حیات بخش اور نشو و نما کرنے والا بھی ہے۔ ہمیں حاصل ہونے والا بارانی پانی ہماری مستقبل کی پیڑھی کے لئے، ہمیں یہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
آج ایک خیال میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ میں اپنی بات اس طرح کے دلچسپ حوالوں کے ساتھ پوری کروں۔ آنے والے تیوہاروں کے لئے آپ سبھی کو میری طرف سے نیک خواہشات۔ تیوہاروں اور جشن کے دور میں، آپ کو یہ یاد رکھنا ہے کہ کورونا ہمارے درمیان سے رخصت نہیں ہوا۔ آپ کورونا سے متعلق پروٹوکول کو فراموش نہ کریں۔ خداکرے کہ آپ سب صحت مند اور خوش رہیں۔
بہت بہت شکریہ!
نئی دلّی ، 27 جون / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! اکثر 'من کی بات' میں ، آپ کے سوالوں کی بوچھاڑ رہتی ہے ۔ اس بار میں نے سوچا کہ کچھ الگ کیا جائے ۔ میں آپ سے سوال کروں ۔ تو آپ دھیان سے سنیئے میرے سوال ۔
.... اولمپکس میں انفرادی گولڈ جیتنے والا پہلا ہندوستانی کون تھا؟
.... اب تک کس اولمپک کھیل میں ہندوستان زیادہ سے زیادہ میڈلز جیت چکا ہے؟
... اولمپکس میں کس کھلاڑی نے سب سے زیادہ تمغے جیتے ہیں؟
ساتھیو ، آپ مجھے MyGov پر جواب بھیجیں ، جس میں اولمپک پر ، جو کوئز ہے ، اُس میں سوالوں کے جواب دیں گے تو کئی سارے انعام جیتیں گے ۔ ایسے بہت سارے سوال MyGov کے 'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں موجود ہیں ۔ آپ 'روڈ ٹو ٹوکیو کوئز' میں حصہ لیں ۔ بھارت نے پہلے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ ہماری ٹوکیو اولمپک کے لئے کیا تیاری ہے ؟ یہ سب خود جانیں اور دوسروں کو بھی بتائیں ۔ میں آپ سب سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس کوئز مقابلے میں ضرور حصہ لیں۔
ساتھیو ، ، جب بات ٹوکیو اولمپکس کی ہو رہی ہے تو بھلا ملکھا سنگھ جی جیسے لیجنڈری ایتھلیٹ کو کون بھول سکتا ہے! کچھ دن پہلے ہی ، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ جب وہ اسپتال میں تھے تو مجھے ان سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔
بات کرتے ہوئے میں نے اس سے اپیل کی ، میں نے کہا تھا کہ آپ نے 1964 ء میں ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کی تھی ۔ لہٰذا ، اس بار ، جب ہمارے کھلاڑی اولمپکس کے لئے ٹوکیو جارہے ہیں ، آپ کو ہمارے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی ، انہیں اپنے پیغام سے تحریک دلانا ہے۔ وہ کھیل کو لے کر اتنے سرشار اور پرجوش تھے کہ بیماری میں بھی انہوں نے فوراً ہی اس کے لئے حامی بھردی لیکن بدقسمتی سے قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے ، وہ 2014 ء میں سورت آئے تھے ۔ ہم لوگوں نے ایک نائٹ میراتھن کا افتتاح کیاتھا ۔ اُس وقت اُن سے جو بات چیت ہوئی ، کھیلوں کے بارے میں بات ہوئی ، اس سے مجھے بھی بہت تحریک ملتی تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملکھا سنگھ جی کا پورا کنبہ کھیلوں کے لئے وقف رہا ہے ، بھارت کا سر بلند کر تا رہا ہے ۔
ساتھیو ، جب صلاحیت ، ڈیڈیکیشن ، مستحکم عہد اور اسپورٹس مین اسپرٹ اکٹھے ہوجاتے ہیں ، تب جاکر کوئی چیمپئن بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں ، زیادہ تر کھلاڑی چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں سے آتے ہیں۔ ٹوکیو جانے والےہمارے اولمپک دستے میں بھی کئی ایسے کھلاڑی شامل ہیں ، جن کی زندگی بہت تحریک دلاتی ہے ۔ ہمارے پروین جادھو جی کے بارے میں آپ سنیں گے تو آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ آپ کو بھی لگے گا کہ کتنی سخت جدو جہد سے گزرتے ہوئے پروین جی یہاں پہنچیں ہیں ۔ پروین جادھو جی مہاراشٹر کے ستارا ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں ۔ وہ تیر اندازی کے بہترین کھلاڑی ہیں ۔ ان کے والدین مزدوری کرکے خاندان چلاتے ہیں اور اب ان کا بیٹا اپنا پہلا اولمپکس کھیلنے ٹوکیو جارہا ہے۔ یہ نہ صرف ان کے والدین بلکہ ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے۔ اسی طرح ، ایک اور کھلاڑی ہیں ، ہماری نیہا گوئل جی۔ نیہا ٹوکیو جانے والی خواتین ہاکی ٹیم کی رکن ہیں۔ ان کی والدہ اور بہنیں فیملی کی کفالت کے لئے سائیکل فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ نیہا کی طرح ، دپیکا کماری کی زندگی کا سفر بھی اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے ۔ دیپیکا کے والد آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور ان کی والدہ ایک نرس ہیں اور اب دیکھیں کہ دپیکا اب ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی طرف سے اکلوتی خاتون تیر انداز ہیں۔ کبھی دنیا کی نمبر ایک تیر انداز رہی دیپکا کے ساتھ ہم سب کی نیک خواہشات ہیں ۔
ساتھیو ، زندگی میں جہاں بھی ہم پہنچتے ہیں ، جو بھی اونچائی ہم حاصل کرتے ہیں ، زمین کے ساتھ یہ ربط ، ہمیشہ ، ہماری جڑوں سے باندھے رکھتا ہے۔ جدوجہد کے دنوں بعد حاصل ہونے والی کامیابی کی خوشی بھی کچھ اور ہے ۔ہمارے کھلاڑیوں کو ٹوکیو جاتے ہوئے بچپن میں وسائل کی ہر کمی کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اترپردیش کے مظفر نگر کی پرینکا گوسوامی جی کی زندگی بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ پرینکا کے والد بس کنڈکٹر ہیں۔ بچپن میں ، پرینکا کو وہ بیگ پسند تھا جو تمغہ جیتنے والوں کو ملتا تھا۔ اس کی چاہت میں ، انہوں نے پہلی بار ریس واکنگ مقابلے میں حصہ لیا۔ اب ، آج وہ اس کی بڑی چیمپئن ہے۔
بھالا پھینک مقابلے میں حصہ لینے والے شیو پال سنگھ جی بنارس کے رہنے والے ہیں ۔ ان کا تو پورا خاندان ہی اس کھیل سے جڑا ہوا ہے ۔ ان کے والد، چاچا اور بھائی ، سبھی بھالا پھنکنے کے ماہر ہیں ۔ خاندانی روایت اُن کے لئے ٹوکیو اولمپک میں کام آنے والی ہے ۔ ٹوکیو اولمپکس کے لئے جارہے چراغ شیٹی اور ان کے پارٹنر ساتوِک سائیراج کا حوصلہ بھی ترغیب دینے والا ہے ۔ حال ہی میں چراغ کے نانا جی کا کورونا سے انتقال ہو گیا ہے ۔ ساتوِک بھی خود پچھلے سال کورونا سے متاثر ہو گئے تھے لیکن ان مشکلوں کے بعد بھی یہ دونوں مردوں کے ڈبلز مقابلے میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔
ایک اور کھلاڑی سے میں آپ کا تعارف کرانا چاہوں گا ۔ یہ ہیں ہریانہ کے بھیوانی کے منیش کوشک جی ۔ منیش جی کھیتی کسانی والے خاندان سے آتے ہیں ۔ بچپن میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے منیش کو باکسنگ کا شوق ہوگیا۔ آج یہ شوق اسے ٹوکیو لے جا رہا ہے۔ ایک اور کھلاڑی ہیں ، سی اے۔ بھوانی دیوی جی ۔ نام بھوانی ہے اور یہ تلوار بازی میں ماہر ہیں ۔ چنئی کی رہنے والی بھوانی پہلی ہندوستانی فینسر ہیں ، جنہوں نے اولمپک کے لئے کوالیفائی کیا ہے ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بھوانی جی کی ٹریننگ جاری رہے ، اس کے لئے ان کی والدہ نے اپنے زیورات بھی گروی رکھ دیئے تھے ۔
ساتھیو ، ایسے تو اَن گنت نام ہیں لیکن من کی بات میں ، میں آج صرف چند ناموں کا ہی تذکرہ کروں گا ۔ ٹوکیو جانے والے ہر کھلاڑی کی اپنی جدوجہد ، برسوں کی محنت ہے۔ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک کے لئے جارہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو بھارت کا سر فخر سے بلند کرنا ہوگا اور پھر لوگوں کا دل بھی جیتنا ہے اور اسی طرح سے ہم اپنے ملک کے شہریوں کو آپ کی صلاح بھی دینا چاہتے ہیں ۔ ہمیں انجانے میں بھی ہمارے اِن کھلاڑیوں پر دباؤ نہیں بنانا ہے بلکہ کھلےدل سے ان کا ساتھ دینا ہے ، ہر کھلاڑی کی ہمت افزائی کرنی ہے ۔
سوشل میڈیا پر آپ #چیئر 4 انڈیا کے ساتھ اپنے ان کھلاڑیوں کو نیک تمنائیں پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ کچھ اختراعی کام کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ضرورت مندوں کے لئے دستیاب ہے ۔ ہم سب مل کر ٹوکیو جانے والے اپنے کھلاڑیوں کا تعاون کریں گے ۔ چیئر 4 انڈیا !!! چیئر 4 انڈیا!!!
میرے ہم وطنوں ، کورونا کے خلاف ہماری لڑائی جاری ہے لیکن اس لڑائی میں مل کر ہم بہت سارے غیر معمولی سنگ میل بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ہمارے ملک نے ایک بے مثال کام کیا ہے۔ ویکسین مہم کا اگلا مرحلہ 21 جون کو شروع ہوا اور اسی دن ملک نے بھی 86 لاکھ سے زائد افراد کو مفت ویکسین فراہم کرنے کا ریکارڈ بنایا اور وہ بھی ایک دن میں۔ اتنی بڑی تعداد میں حکومت ہند کی ویکسی نیشن اور وہ بھی ایک دن میں! فطری بات ہے کہ اس پر بہت بات چیت ہوئی ہے۔
ساتھیو ، ایک سال پہلے سب کے سامنے سوال تھا کہ ویکسین کب آئے گی؟ آج ہم ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو مفت میں 'میڈ اِن انڈیا' ویکسین دے رہے ہیں اور یہی نیو انڈیا کی طاقت ہے۔
ساتھیو ، ملک کے ہر شہری کو ویکسین کا تحفظ حاصل ہونا چاہئے ، ہمیں مسلسل کوشش کرتے رہنا ہے ، کئی جگہوں پر ویکسین سے متعلق ہچکاہٹ کو ختم کرنے کے لئے کئی ادارے ، سول سوسائٹی کے لوگ آگے آئے ہیں اور سب مل کر بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ چلئے ، ہم بھی آج ایک گاؤں میں چلتے ہیں اور ان لوگوں سے بات کرتے ہیں ۔ ویکسین کے بارے میں مدھیہ پردیش کے بیتول ضلع کے دلاریہ گاؤں چلتے ہیں ۔
وزیر اعظم: ہیلو!
راجیش: نمسکار !
وزیر اعظم: نمستے جی ۔
راجیش: میرا نام راجیش ہیراوے ، گرام پنچایت ڈُلاریہ ، بھیم پور بلاک ۔
وزیر اعظم: راجیش جی ، میں نے فون اِس لئے کیا کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ ابھی آپ کے گاؤں میں کورونا کی کیا صورتِ حال ہے؟
راجیش: سر ، یہاں پر کورونا کی صورتحال تو ابھی ایسا کچھ نہیں ہے یہاں ۔
وزیر اعظم: ابھی لوگ بیمار نہیں ہیں؟
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: گاؤں کی آبادی کتنی ہے؟ کتنے لوگ ہیں گاؤں میں ؟
راجیش: گاؤں میں 462 مرد اور 332 خواتین ہیں سر ۔
وزیر اعظم: اچھا ! راجیش جی آپ نے ویکسین لے لی ہےکیا ؟
راجیش: نہیں سر ، ابھی نہیں لی ہے۔
وزیر اعظم: ارے ! کیوں نہیں لیا؟
راجیش: سر جی ، یہاں پر کچھ لوگ نے ، کچھ واٹس ایپ پر ایسی افواہ ڈال دی کہ اس سے لوگ ڈر گئے ہیں سر جی ۔
وزیر اعظم: تو کیا آپ کے دل میں بھی ڈر ہے؟
راجیش: جی سر ، پورے گاؤں میں ایسی افواہ پھیلا دی تھی سر ۔
وزیر اعظم: ارے رے رے ، یہ کیا بات کی آ پ نے ؟ دیکھئے راجیش جی...
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم : میرا آپ کو بھی اور میرے سبھی گاؤں کے بھائی بہنوں کو یہی کہنا ہے کہ ڈر ہے تو نکال دیجئے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: ہمارے پور ے ملک میں 31 کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں نے ویکسین کا ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: آپ جانتے ہو نا ، میں نے خود نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی ہیں۔
راجیش: جی سر ۔
وزیر اعظم: ارے میری ماں تو قریب قریب 100 سال کی ہیں ۔ انہوں نے بھی دونوں ڈوز لگوا لی ہیں ۔کبھی کبھی کسی کو ، اِس سے بخار وغیرہ آجاتا ہے لیکن وہ بہت معمولی ہوتا ہے ۔ کچھ گھنٹوں کے لئے ہی ہوتا ہے ۔ دیکھئے ویکسین نہیں لینا بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: اس سے آپ خو د کو تو خطرے میں ڈالتےہی ہیں، ساتھ ہی میں اپنے کنبے اور اپنے گاؤں کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: اور راجیش جی ، اس لئے جتنا جلدی ہو سکے ، ویکسین لگوا لیجئے اور گاؤں میں سب کو بتائیے کہ بھارت سرکار کی طرف سے مفت ویکسین دی جا رہی ہے اور 18 سال کی عمر سے اوپر کے سبھی لوگوں کے لئے یہ مفت ویکسینیشن ہے ۔
راجیش: جی جی۔
وزیر اعظم: تو آپ بھی لوگوں کو گاؤں میں یہ بتائیے اور گاؤں میں اِس طرح کے ڈر کی تو کوئی وجہ ہی نہیں ہے ۔
راجیش: وجہ یہی ہے سر ، کچھ لوگوں نے ایسی غلط افواہ پھیلا دی ، جس سے لوگوں میں بہت ہی خوف پھیل گیا ہے ۔ مثلاً ، جیسے ویکسین کو لگانے سے بخار کا آنا ، بخار سے اور بیماری پھیل جانا ، مطلب آدمی کی موت ہو جانے تک کی افواہ پھیلائی گئی ہے ۔
وزیر اعظم: اوہ ہو ہو .... دیکھئے آج تو ریڈیو پر ، ٹی وی پر اتنی ساری خبریں ملتی ہیں اور اس لئے لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہو جا تا ہے اور دیکھئے ، میں آپ کو بتاؤں ، بھارت کے بہت سے گاؤں ایسے ہیں ، جہاں سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں یعنی گاؤں کے صد فی صد لوگوں نے ویکسین لگوا لی ہے ۔ جیسے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں ۔
راجیش : جی ۔
وزیر اعظم: کشمیر میں باندی پورہ ضلع ہے ۔ اس باندی پورہ ضلع میں ایک ویان گاؤں کے لوگوں نے مل کر 100 فی صد ویکسین کا ہدف بنایا اور اُسے پورا بھی کر لیا ۔ آج کشمیر کے اِس گاؤں کے 18 سال سے زیادہ عمر کے سبھی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں ۔ ناگالینڈ کے بھی تین گاؤوں کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ وہاں بھی سبھی لوگوں نے 100 فی صد ٹیکہ لگوا لیا ہے ۔
راجیش: جی ... جی ...
وزیر اعظم: راجیش جی ، آپ کو بھی اپنے گاؤں ، اپنے آس پاس کے گاؤوں میں یہ بات پہنچانی چاہیئے اور جیسا کہ آپ بھی کہتے ہیں یہ افواہ ہے ، بس یہ افواہ ہی ہے ۔
راجیش: جی ... جی ...
وزیر اعظم: تو افواہ کا جواب یہی ہے کہ آپ خود کو ٹیکہ لگواکر دوسروں کو سمجھائیں سب کو ۔ کریں گے نا آپ ؟
راجیش: جی سر ۔
وزیر اعظم: پکاّ کریں گے ؟
راجیش: جی سر ، جی سر۔ آپ سے بات کرنے سے مجھے ایسا لگا کہ میں خود بھی ٹیکہ لگواؤں اور لوگوں کو بھی اس کے بارے میں بتاؤں ۔
وزیر اعظم: اچھا ، گاؤں میں اور بھی کوئی ہے ، جن سے میں بات کرسکتا ہوں؟
راجیش: جی ہے سر ۔
وزیر اعظم: کون بات کرے گا؟
کشوری لال: ہیلو سر ... نمسکار !
وزیر اعظم: نمستے جی ، کون بول رہے ہیں؟
کشوری لال: سر ، میرا نام ہے کشوری لال دُروے ۔
وزیر اعظم: تو کشوری لال جی ، ابھی راجیش جی سے بات ہو رہی تھی۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: اور وہ تو بڑے دکھی ہو کر کے بتا رہے تھے کہ ویکسین کولے کر لوگ الگ الگ باتیں کرتے ہیں ۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: آپ نے بھی ایسا سنا ہےکیا؟
کشوری لال: ہاں ... سناتو ہے سر ویسے ...
وزیر اعظم: کیا سنا ہے؟
کشوری لال: چونکہ یہ ہے سر ، یہ پاس میں مہاراشٹر ہے ، اُدھر سے کچھ رشتہ دار سے جڑے لوگ ، مطلب کچھ افواہ پھیلاتے ہیں کہ ویکسین لگانے سے لوگ سب مر رہے ہیں ۔ کوئی بیمار ہورہا ہے ۔ افواہوں کی وجہ سے ، لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں۔
وزیر اعظم: نہیں .. کہتے کیا ہیں ؟ اب کورونا چلا گیا ، ایسا کہتے ہیں؟
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: کورونا سے کچھ نہیں ہوتا ہے، ایسا کہتے ہیں ؟
کشوری لال: نہیں ، کورونا چلا گیا ، نہیں بولتے سر ، کورونا تو ہے بولتے ہیں ، لیکن ویکسین لینے سے بیماری ہو رہا ہے ، سب مر رہے ہیں ۔ یہ صورتحال بتاتے ہیں سر وہ ۔
وزیر اعظم: اچھا ویکسین کی وجہ سے مر رہے ہیں ؟
کشوری لال: اپنا علاقہ قبائلی علاقہ ہے سر ، ایسے بھی لوگ یہاں جلد ی خوفزدہ ہوجاتے ہیں .. اس لئے افواہ پھیلنے کی وجہ سے لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے سر ۔
وزیر اعظم: دیکھئے کشوری لال جی ...
کشوری لال: جی ہاں سر ...
وزیر اعظم: یہ افواہیں پھیلانے والے لوگ تو افواہیں پھیلاتے رہیں گے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: ہمیں تو زندگی تو بچانی ہے ، ہمیں اپنے گاؤں کے لوگوں کو بچانا ہے ، ہمیں اپنے ہم وطنوں کو بچانا ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کورونا چلا گیا ہے ، تو اس افواہ میں مت آیئے ۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: یہ بیماری ایسی ہے ، جو شکل بدلتی ہے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: یہ اپنی شکل بدلتی ہے ... یہ نئی شکلیں لینے کے بعد پہنچ جاتی ہے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اور اس سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو کورونا کے لئے بنایا ہوا پروٹوکول ، ماسک پہننا ، صابن سے بار بار ہاتھ دھونا، فاصلہ رکھنا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ویکسین کا ٹیکہ بھی لگوایا جائے ، یہ بھی ایک اچھی حفاظتی شیلڈ ہے ، پھر اس کی فکر کریں۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اچھا کشوری لال جی ، یہ بتائیے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: جب لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو کیسے سمجھاتے ہیں؟ کیا آپ سمجھانے کا کام کرتے ہیں کہ آپ بھی افواہوں میں پڑ جاتے ہیں؟
کشوری لال: سمجھائیں کیا ، وہ لوگ زیادہ ہو جاتے ہیں تو سر ہم بھی ڈر جاتے ہیں نا سر ۔
وزیر اعظم: دیکھئے کشوری لال جی ، آج میں نے آپ سے بات کی ہے ، آپ میرے ساتھی ہیں۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کو لوگوں کا خوف بھی دور کرنا ہے۔ نکالوگے ؟
کشوری لال: جی سر ۔ نکالیں گے سر ، لوگوں کا خوف بھی دور کریں گے سر ۔ خود بھی لگواؤں گا ۔
وزیر اعظم: دیکھئے ، افواہوں پر بالکل دھیان نہ دیں۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: آپ جانتے ہیں ، ہمارے سائنسدانوں نے کتنی محنت کرکے ، یہ ویکسین بنائی ہے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: سال بھر ، رات اور دن ، بڑے بڑے سائنسدانوں نے کام کیا ہے اور اس لئے ہمیں سائنس پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ سائنس دانوں پر بھروسہ کرنا چاہیئے اور ان جھوٹ پھیلانے والے لوگوں کو بار بار سمجھانا چاہئے کہ دیکھئے بھائی ، ایسا نہیں ہوتا ہے ، اتنے لوگوں نے ویکسین لی ہے ، کچھ نہیں ہوتا ہے۔
کشوری لال: جی ۔
وزیر اعظم: اور افواہوں سے ب بچنا چاہئے ، گاؤں کو بھی بچانا چاہئے۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: اور راجیش جی ، کشوری لال جی ، آپ جیسے اپنے ساتھیوں سے میں کہوں گا کہ آپ ، اپنے گاؤں میں ہی نہیں ، اور گاؤوں میں بھی ، ان افواہوں کو روکنے کا کام کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ مجھ سے بات ہوئی ہے۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: بتا دیجئے ، میر انام بتا دیجئے ۔
کشوری لال: بتائیں گے سر اور لوگوں کو سمجھائیں گے اور خود بھی لیں گے ۔
وزیر اعظم: دیکھئے ، آپ کے پورے گاؤں کو میری طرف سے نیک خواہشات دیجئے ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: اور سب کو بتائیں کہ جب بھی آپ کا نمبر آئے گا ...
کشوری لال: جی ...
وزیر اعظم: ویکسین ضرور لگوائیں ۔
کشوری لال: ٹھیک ہے سر ۔
وزیر اعظم: میں چاہوں گا کہ گاؤں کی خواتین کو ، ہماری ماؤں اور بہنوں کو ...
کشوری لال: جی سر
وزیر اعظم: اس کام میں زیادہ سے زیادہ جوڑیئے اور انہیں فعال طور پر اپنے ساتھ رکھیئے ۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: بعض اوقات مائیں بہنیں باتیں کرتی ہیں اور لوگ جلدی سے راضی ہوجاتے ہیں۔
کشوری لال: جی
وزیر اعظم: آپ کے گاؤں میں ، جب ٹیکہ کاری پوری ہو جائے گی تو مجھے بتائیں گے آپ ؟
کشوری لال: ہاں ، بتائیں گے سر ۔
وزیر اعظم: پکاّ بتائیں گے؟
کشورہ لال: جی
وزیر اعظم: دیکھئے ، میں انتظار کروں گا آپ کے خط کا ۔
کشوری لال: جی سر ۔
وزیر اعظم: چلئے راجیش جی ، کشور جی بہت بہت شکریہ۔ آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔
کشوری لال: شکریہ سر ، آپ نے ہم سے بات کی ہے۔ آپ کا بھی بہت شکریہ۔
ساتھیو ، کبھی نہ کبھی ، اس دنیاکے لئے کیس اسٹڈی کا موضوع بنے گا کہ اس کورونا دور میں ہندوستان کے دیہاتوں ، ہمارے جنگل میں رہنے والے قبائلی بھائیوں اور بہنوں نے کس طرح اپنی صلاحیت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے قرنطینہ مرکز بنائے ، مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کووڈ پروٹوکول بنائے ، گاؤں کے لوگوں نے کسی کو بھوکا نہیں سونے دیا ۔ کھیتی کا کام بھی نہیں رکنے دیا ۔ نزدیک کے شہروں میں دودھ ، سبزیاں ہر روز پہنچاتے رہے ۔ گاؤں نے یہ بھی یقینی بنایا ، خود کو سنبھالا اور دوسروں کو بھی سنبھالا ۔ اسی طرح ، ہمیں ویکسی نیشن مہم میں یہی کام جاری رکھنا ہے۔ ہمیں بیدار رہنا ہو گا اور ہمیں بیدار کرنا بھی ہوگا۔گاؤوں میں ہر ایک شخص کو ٹیکہ لگ جائے ، یہ ہر گاؤں کا ہدف ہونا چاہئے۔ یاد رکھئے ، اور میں آپ کو خاص طور پر بتانا چاہتا ہوں۔ آپ اپنے ذہن میں ایک سوال پوچھئے - ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے لیکن فیصلہ کن کامیابی کا منتر کیا ہے؟ فیصلہ کن کامیابی کی کلید مستقل مزاجی ہے ۔ لہٰذا ، ہمیں سست روی کی ضرورت نہیں ہے ، کسی بھی فریب میں مبتلا نہ ہوں۔ ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے ، ہمیں کورونا پر فتح حاصل کرنا ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب ہمارے ملک میں مانسون کا موسم بھی آگیا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو نہ صرف ہمارے لئے بارش ہوتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی بارش ہوتی ہے۔ بارش کا پانی زمین میں بھی جمع ہوتا ہے ، اس سے زمین کے اندر پانی کی سطح بھی بہتر ہوتی ہے۔ اور اسی لئے میں پانی کے تحفظ کو قوم کی خدمت کی ایک شکل سمجھتا ہوں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا ، ہم میں سے بہت سے لوگ اس خوبی کو اپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص اتراکھنڈ کے پوڑی گڑھوال کے سچیدانند بھارتی جی ہیں۔ بھارتی جی ایک استاد ہیں اور انہوں نے اپنے کاموں کے ذریعہ لوگوں کو بہت اچھی تعلیم دی ہے۔ آج ، ان کی محنت کی وجہ سے ، پوڑی گڑھوال کے علاقے افریں کھال علاقے میں پانی کا بڑا بحران ختم ہوگیا ہے۔ جہاں لوگ پانی کےلئے ترستے تھے ، ، آج وہاں سارا سال پانی کی فراہمی رہتی ہے۔
ساتھیو ، پہاڑوں میں پانی کے تحفظ کا ایک روایتی طریقہ رہا ہے ، جسے ‘ چال کھال ’ بھی کہتے ہیں ، یعنی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بڑا گڑھا کھودنا۔ اس روایت میں ، بھارتی جی نے کچھ نئے طریقوں کو بھی شامل کیا۔ انہوں نے لگاتار بڑے اور چھوٹے تالاب تعمیر کیے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف افریں کھال کی پہاڑی ہری بھری ہوگئی ، بلکہ لوگوں کے پینے کے پانی کا مسئلہ بھی دور ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارتی جی ایسے 30 ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے تالاب بنوا چکے ہیں 30 ہزار! ان کا یہ ساجھیداری کا کام آج بھی جاری ہے اور بہت سے لوگوں کو تحریک دے رہے ہیں ۔
ساتھیو ، اسی طرح یوپی کے باندا ضلع کے اندھاو گاؤں کے لوگوں نے بھی ایک مختلف کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنی مہم کو ایک بہت ہی دلچسپ نام دیا ہے۔ '' کھیت کا پانی کھیت میں ، گاؤں کا پانی گاؤں میں ''۔ اس مہم کے تحت گاؤں کے کئی سو بیگھا کھیتوں میں اونچی اونچی میڑھ بنائی گئی ہیں۔ اس وجہ سے بارش کا پانی کھیت میں جمع ہونا شروع ہوگیا ، اور زمین میں جانے لگا۔ اب یہ لوگ کھیتوں کے میڑھوں پر درخت لگانے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یعنی ، اب کسانوں کو پانی ، درخت اور پیسہ تینوں ملے گا ۔ اپنے اچھے کاموں سے ، پہچان تو اُن کے گاؤں کی ویسے بھی دور ور تک ہو ہی رہی ہے ۔
ساتھیو ، ان سب سے متاثر ہوکر ، ہم اپنے ارد گرد پانی کی ، جس طرح بھی بچت کرسکتے ہیں ، ہمیں اسے بچانا چاہئے۔ مانسون کے اس اہم موسم کو ہمیں گنوانا نہیں چاہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے –
‘‘ ناستی مولم انوشدھم ’’
یعنی، زمین پر ایسا کوئی پودا نہیں ہے ، جس میں کوئی نہ کوئی دواؤں کی خصوصیات نہ ہو! ہمارے آس پاس ایسے بہت سے درخت اور پودے ہیں، جن کی حیرت انگیز خصوصیات ہیں لیکن کئی بار ہمیں ان کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہوتا ۔ مجھے نینی تال سے ایک ساتھی ، بھائی پریتوش نے اسی موضوع پر ایک خط بھیجا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں گلوئے اور دوسرے کئی پودوں کی اتنی معجزاتی طبی خصوصیات کےبارے میں کورونا آنے کے بعد ہی پتہ چلا ہے! پریتوش نے مجھ سے زور دے کر کہا ہے کہ میں 'من کی بات' کے تمام سامعین سے کہوں کہ آپ اپنے آس پاس موجود پودوں کے بارے میں جانیئے اور دوسروں کو بھی بتائیے ۔ حقیقت میں یہ ہمارا قدیم ورثہ ہے ، جس کا ہمیں احترام کرنا ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے ستنا کے ایک ساتھی ہیں ، جناب رام لوٹن کشواہا جی ۔ انہوں نے ایک بہت ہی قابل ستائش کام کیا ہے۔ رام لوٹن جی نے اپنے کھیت میں ایک دیسی میوزیم بنایا ہے۔ اس میوزیم میں انہوں نے سینکڑوں طبی پودے اور بیج اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انہیں دور دراز سے یہاں لائے ہیں۔ اس کے علاوہ ، وہ ہر سال کئی طرح کی بھارتی سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ رام لوٹن جی کے اس باغ کو ، اس دیسی میوزم کو لوگ دیکھنے کے لئے بھی آتے ہیں اور اس سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ درحقیقت ، یہ ایک بہت اچھا تجربہ ہے ،جسے ملک کے مختلف حصوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ میں چاہوں گا ، آپ میں سے ، جو لوگ یہ اس طرح کی کوشش کر سکتے ہیں ، وہ ضروری کریں ۔ اس سے آپ کی آمدنی کے نئے وسائل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ مقامی پودوں کے ذریعے سے آپ کے علاقے کی پہچان بھی بڑھے گی ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج سے کچھ دنوں بعد یکم جولائی کو ہم ڈاکٹروں کا قومی دن منائیں گے۔ یہ دن ملک کے عظیم ڈاکٹر اور اسٹیٹس مین ڈاکٹر بی سی رائے کی یوم پیدائش کے موقع سے منایا جاتا ہے۔ کورونا کے دور میں ہم سب ڈاکٹروں کے تعاون کے شکر گزار ہیں۔ ہمارے ڈاکٹروں نے اپنی زندگی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہماری خدمت کی ہے۔ اس لئے اس بار ‘نیشنل ڈاکٹرز ڈے’ اور بھی خاص ہو جاتا ہے۔
ساتھیو، طب کے میدان میں دنیا کے سب سے معزز لوگوں میں سے ایک ہپوکریٹس نے کہا ہے:
‘‘جہاں کہیں بھی فن طب سے محبت پائی جاتی ہے وہاں انسانیت سے محبت بھی پائی جاتی ہے۔ ’’
یعنی جہاں آرٹ آف میڈیسن سے محبت ہے وہیں انسانیت سے بھی محبت ہے۔ ڈاکٹر اسی محبت کی طاقت کے ساتھ ہماری خدمت کرپاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اسی محبت کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ تاہم ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ڈاکٹروں کی مدد کے لئے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ مجھے سری نگر سے اسی طرح کی ایک کوشش کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ یہاں ڈل جھیل پر ایک بوٹ ایمبولینس سروس شروع کی گئی ہے۔ اس سروس کا آغاز سری نگر کے طارق احمد پتلو جی نے کیا جو ایک ہاؤس بوٹ کے مالک ہیں۔ انہوں نے خود کوویڈ-19 کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس سے انہیں ایمبولینس سروس شروع کرنے کی تحریک ملی۔ وہ اس ایمبولینس سے لوگوں کو حساس بنانے کی مہم بھی چلا رہے ہیں اور وہ ایمبولینس سے مسلسل اعلان بھی کر رہے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ لوگ ماسک پہننے سے لے کر تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ساتھیو، ڈاکٹرز ڈے کے ساتھ ساتھ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے بھی یکم جولائی کو منایا جاتا ہے۔ میں نے چند سال قبل ملک کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے عالمی سطح کی بھارتی آڈٹ فرموں سے ایک تحفہ مانگا تھا۔ آج میں انہیں اس کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس معیشت میں شفافیت لانے کے لئے بہت اچھا اور مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں تمام چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اور ان کے خاندان کے افراد کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کورونا کے خلاف بھارت کی جنگ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ملک کے ہر شخص نے اس لڑائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے اکثر ‘من کی بات’ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں اتنی بات نہیں ہوپاتی ہے۔ بہت سے لوگ خواہ وہ بینک کا عملہ ہوں، اساتذہ ہوں، چھوٹے تاجر ہوں، دوکاندار ہوں، دکانوں کے ملازم ہوں، گلیوں میں کام کرنے والے ہوں، ریہڑی پٹری والے بہن بھائی ہوں، سیکورٹی چوکیدار ہوں، یا ڈاکیے اور ڈاک خانے کے ملازمین ہوں—یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہر ایک فرد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انتظامیہ و حکومت میں بھی کتنے ہی لوگ مختلف سطحوں پر جٹے ہوئے ہیں۔
ساتھیو، آپ نے گرو پرساد مہاپاترا جی کا نام سنا ہوگا جو بھارت سرکار میں سکریٹری تھے۔ میں آج ‘من کی بات’ میں ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ گروپرساد جی کو کورونا ہوگیا تھا، انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا اور وہ وہاں بھی اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے ملک میں آکسیجن کی پیداوار بڑھانے، دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا۔ ایک طرف کورٹ کچہری کا چکر، میڈیا کا دباؤ، وہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑتے رہے، انہوں نے بیماری کے دوران کام کرنا بند نہیں کیا۔ منع کرنے کے بعد بھی انہوں نے آکسیجن سے متعلق ویڈیو کانفرنس میں شرکت پر اصرار کیا۔ انہیں اہل وطن کی فکر تھی۔ وہ اسپتال کے بستر پر اپنی پروا کیے بغیر ملک کے لوگوں کو آکسیجن پہنچانے کے لئے انتظام میں جٹے رہے۔ یہ ہم سب کے لئے نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس کرم یوگی سے بھی ملک محروم ہوگیا، کورونا نے انہیں ہم سے چھین لیا ہے۔ ایسے بے شمار لوگ ہیں جن پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ اس طرح ہر ایک کو ہمارا خراج تحسین یہ ہوگا کہ کوویڈ پروٹوکول پر مکمل طور پر عمل کیا جائے، ویکسین ضرور لگوائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، من کی بات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں مجھ سے زیادہ آپ سب کا حصہ ہوتا ہے۔ ابھی میں نے مائی گوو (MyGov) پر ایک پوسٹ دیکھی جو چنئی کے ترو آر گروپرساد جی کی ہے۔ اسے جان کر آپ کو بھی اچھا لگے گا کہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ‘من کی بات’ پروگرام کو باقاعدگی سے سنتے ہیں۔ اب میں گروپرساد جی کی پوسٹ کی کچھ سطروں کو کوٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے:
جب بھی آپ تمل ناڈو کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میری دل چسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔
آپ نے تمل زبان اور تمل ثقافت، تمل تہواروں اور تمل ناڈو کے نمایاں مقامات کی عظمت کے بارے میں بات کی ہے۔
گرو پرساد جی مزید لکھتے ہیں کہ: ‘من کی بات’ میں میں نے تمل ناڈو کے لوگوں کی کام یابیوں کے بارے میں بھی کئی بار ذکر کیا ہے۔ تروکورل سے آپ کی محبت اور تروولور جی کے لئے آپ کے احترام کا تو کیا کہنا ہے۔ چناں چہ میں نے تمل ناڈو کے بارے میں آپ کی تمام باتوں کو 'من کی بات' سے مرتب کیا ہے اور ایک ای بک تیار کی ہے۔ کیا آپ اس ای کے بارے میں کچھ کہیں گے اور اسے نمو ایپ پر ریلیز بھی کریں گے؟ شکریہ۔ '
میں آپ کے سامنے گروپرساد جی کا خط پڑھ رہا تھا۔
گروپرساد جی، آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ اپنی ای بک میں اب ایک اور صفحہ شامل کرلیجئے۔
..' نان تمل کلا چارکتن پیریے ابھیمانی
نان اُلگتلئے پلمایاں تمل میلین پیریے ابھیمانی...'
تلفظ اور ادائیگی میں ضرور کوئی خامی رہی ہوگی تاہم میری کوشش اور میری محبت کبھی کم نہیں ہوگی۔ میں ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو تمل بولنے والے لوگ نہیں ہیں کہ میں نے گروپرساد جی سے کہا ہے:
میں تمل ثقافت کا بہت بڑا مداح ہوں۔
میں تمل زبان کا بہت بڑا مداح ہوں جو دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے۔
ساتھیو، دنیا کی سب سے پرانی زبان ہمارے ملک کی ہے، اس پر ہر بھارتی کو فخر محسوس کرنا چاہیے۔ مجھے تمل پر بھی بہت فخر ہے۔ گرو پرساد جی، آپ کی کوشش مجھے ایک نیا وژن دینے والی ہے۔ کیوں کہ جب میں 'من کی بات' کرتا ہوں تو میں سادہ انداز میں بات کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا بھی ایک عنصر تھا۔ جب آپ نے تمام پرانی چیزیں اکٹھا کیں تو میں نے اسے ایک بار نہیں بلکہ دو بار پڑھا۔ گروپرساد جی، میں آپ کی کتاب کو نمو ایپ پر ضرور اپ لوڈ کروں گا۔ آپ کی مستقبل کی کوششوں کے لئے آپ کو نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم نے کورونا کی مشکلات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بات کی، ہم نے ملک اور اہل وطن کی بہت سی کام یابیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اب ہمارے پاس ایک اور بڑا موقع ہے۔ 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ آزادی کا 75 سالہ امرت مہوتسو ہمارے لئے ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ آئیے ہم ملک کے لئے جینا سیکھیں۔ جنگ آزادی ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کی داستان ہے۔ ہمیں آزادی کے بعد کے اس دور کو ان لوگوں کی داستان بنانا ہے جو ملک کے لئے جیتے ہیں۔ ہمارا منتر انڈیا فرسٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہر فیصلے ہر ارادے کی بنیاد ہونا چاہیے—انڈیا فرسٹ۔
ساتھیو، امرت مہوتسو میں بھی ملک نے کئی اجتماعی اہداف مقرر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں اپنے مجاہدین آزادی کو یاد کرکے ان سے وابستہ تاریخ کو زندہ کرنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 'من کی بات' میں میں نے نوجوانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ تحریک آزادی کی تاریخ لکھیں، تحقیق کریں۔ خیال یہ تھا کہ نوجوان ٹیلنٹ کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کی سوچ، نوجوانوں کے خیالات کو آگے آنا چاہیے، نوجوانوں کا قلم نئی توانائی کے ساتھ لکھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ بہت کم وقت میں ڈھائی ہزار سے زیادہ نوجوان اس کام کو کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں۔ ساتھیو، دل چسپ بات یہ ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ کی بات تو عام طور پر ہوتی رہتی ہے لیکن یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں جو نوجوان پیدا ہوئے ہیں، میرے ایسے نوجوان ساتھیوں نے انیسویں اور بیسویں صدی کی جنگ آزادی کو عوام کے سامنے رکھنے میں پیش قدمی کی ہے۔ ان تمام لوگوں نے مائی گوو (MyGov) پر مکمل تفصیلات بھیجی ہیں۔ یہ لوگ ہندی، انگریزی، تمل، کنڑ، بنگالی، تیلگو، مراٹھی، ملیالم، گجراتی جیسی ملک کی مختلف زبانوں میں جدوجہد آزادی پر لکھیں گے۔ کوئی آزادی کی جدوجہد سے وابستہ اپنے ارد گرد کے مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہا ہے، تو کوئی آدیباسی مجاہدین آزادی پر کتاب لکھ رہا ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ امرت مہوتسو میں جیسے بھی شامل ہوسکتے ہوں، ضرور ہوں۔ آزادی کی 75 ویں سالگرہ کا گواہ بننا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ چناں چہ اگلی بار جب ہم 'من کی بات' میں ملیں گے تو ہم امرت مہوتسو کے لئے مزید تیاریوں پر بھی بات کریں گے۔ آپ سب صحت مند رہیں، کورونا سے متعلق احتیاطی اصولوں پر عمل کریں، آگے بڑھیں، اپنی نئی نئی کوششوں سے ملک کو ایسے ہی رفتار دیتے رہیں۔ انھی نیک خواہشات کے ساتھ۔ بے حد شکریہ۔
نئی دہلی۔ 30 مئی میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس طرح اپنی پوری قوت کے ساتھ کووڈ – 19 سے لڑ رہا ہے ۔ یہ پچھلے 100 سال میں اب تک کی سب سے بڑی وباء ہے اور اس عالمی وباء کے دوران بھارت کو کئی قدرتی آفات سے بھی نمٹنا پڑا ہے ۔ اس دوران سمندری طوفان ‘ امفن ’ اور نسرگ آیا ، کئی ریاستوں میں سیلاب آئے اور کئی چھوٹے بڑے زلزلے بھی آئے اور مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بھی پیش آئے ۔ ابھی حال ہی میں ، پچھلے 10 دنوں میں ملک کو دو بڑے سمندری طوفانوں - مغربی ساحل پر سمندری طوفان تاوتے اور مشرقی ساحل پر سمندری طوفان یاس کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان دونوں طوفانوں سے کئی ریاستیں متاثر ہوئی ہیں ۔ ملک اور اس کے عوام نے کم سے کم نقصان کو یقینی بنانے کے لئے ، ان کے ساتھ پوری قوت سے لڑائی لڑی ۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے وقت کےمقابلے ، اب ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جان بچانے کے قابل ہوئے ہیں ۔ اس مشکل اور غیر معمولی قدرتی آفات کے دوران ، اِن طوفانوں سے متاثر ہونے والی ریاستوں کے تمام لوگوں نے بہت جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے - - انہوں نے انتہائی تحمل اور ڈسپلن کے ساتھ ، اِس بحران کا سامنا کیا ۔ میں ، پورے خلوص کے ساتھ تمام شہریوں کی احترام کےساتھ ستائش کرتا ہوں ۔ جن لوگوں نے راحت اور بچاؤ کارروائیوں کی قیادت کی ، وہ اتنی ستائش کے حقدار ہیں ، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں ، اُن سب کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ مرکز ، ریاستی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کو ، اِس قدرتی آفات کا مل کر سامنا کرنا ہے ۔ میرے تمام جذبات ، اُن لوگوں کے ساتھ ہیں ، جنہوں نے اپنے قریبی عزیزوں کو کھویا ہے ۔ آیئے ، ہم اُن سب کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہوں ، جنہیں ، اِن آفات سےنقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ،
چیلنج کتنا ہی بڑا ہو ، بھارت کی جیت کا عزم بھی ہمیشہ اتنا ہی بڑا رہا ہے ۔ ملک کی مجموعی قوت اور خدمت کے ہمارے جذبے نے ملک کو ہر طوفان سے باہر نکالا ہے ۔ حال کے دنوں میں ، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے ہمارے ڈاکٹروں ، نرسوں اور صف اول کے جانبازوں نے خود کی فکر چھوڑ کر دن رات کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ اس سب کے بیچ کئی لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کی کورونا کی دوسری لہر سے لڑنے میں بہت بڑا رول رہا ہے ۔ مجھ سے من کی بات کے کئی سامعین نے نمو ایپ پر اور خط کے ذریعے ، ان جانبازوں کے بارے میں بات کرنے کا اصرار کیا ہے ۔
ساتھیو ،
جب دوسری لہر آئی ، اچانک آکسیجن کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ، یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ملک کے دور دراز علاقوں تک میڈیکل آکسیجن پہنچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ آکسیجن ٹینکر زیادہ تیز چلے، چھوٹی چھوٹی سی غلطی بھی ہو تو اس میں ایک بہت ہی بڑے دھماکے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ملک کے مشرقی حصوں میں صنعتی آکسیجن تیار کرنے والے بہت سے پلانٹ ہیں ، وہاں سے آکسیجن کو دوسری ریاستوں میں لے جانے میں بھی کئی دن لگتے ہیں۔ ملک کے سامنے آئے ، اِس چیلنج نے ملک کی مدد کرایوجینک ٹینکر چلانے والے ڈرائیوروں نے کی ، آکسیجن ایکسپریس نے کی ، ایئر فورس کے پائلٹس نے کی ۔ ایسے بہت سے لوگوں نے جنگی پیمانے پر کام کیا اور ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔ آج ، من کی بات میں ، ایسا ہی ایک ساتھی ہمارے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔ یو پی کے جونپور کے رہنے والے ، جناب دنیش اپادھیائے جی ،
مودی جی- دنیش جی ، نمسکار !
دنیش اپادھیائے جی۔ سر جی پرنام ۔
مودی جی۔ سب سے پہلے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں اپنے بارے میں بتائیں۔
دنیش اپادھیائے جی۔ سر ہمارا نام دنیش بابل ناتھ اپادھیائے ہے۔ میں گاؤں حسن پور ، پوسٹ جموا ، ضلع جونپور کا رہنے والا ہوں۔
مودی جی۔ کیا آپ اتر پردیش سے ہیں؟
دنیش۔ ہاں! جی ہاں ! سر
مودی جی ۔
دنیش۔ ہمارا ایک لڑکا ، دو لڑکیاں اور ایک بیوی اور والدین ہیں۔
مودی جی - اور ، آپ کیا کرتے ہیں؟
دنیش۔ سر ، میں آکسیجن ٹینکر چلاتا ہوں ، رقیق آکسیجن ۔
مودی جی - کیا بچے مناسب طریقے سے پڑھ رہے ہیں؟
دنیش۔ ہاں صاحب! بچے پڑھ رہے ہیں۔ دونوں لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں ، اور میرا لڑکا بھی پڑھ رہا ہے ، جناب۔
مودی جی - کیا یہ آن لائن پڑھائی بھی ٹھیک طرح سے چلتی ہیں؟
دنیش۔ جی ہاں جناب ، اچھے ڈھنگ سے کر رہے ہیں ، ابھی لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں۔ آن لائن میں ہی پڑھ رہی ہیں سر ۔ سر 15 سے 17 سال ہوچکے ہیں ، میں آکسیجن کا ٹینکر چلا رہا ہوں ۔
جناب مودی - اچھا! آپ یہ 15 – 17 سال سے صرف آکسیجن لے کر جات ہیں ، پھر آپ صرف ٹرک ڈرائیور نہیں ہیں ! آپ ایک طرح سے لاکھوں جانیں بچانے میں مصروف ہیں۔
دنیش۔ سر ، ہمارا کام ہی ایسا ہے ، آکسیجن ٹینکر کی ، جو ہماری کمپنی ہے ، آئینوکس کمپنی ، وہ بھی ہم لوگوں کا بہت خیال رکھتی ہےاور اگر ہم کہیں بھی جاتے ہیں اور آکسیجن خالی کرتے ہیں تو ہمیں بہت خوش ملتی ہے ۔
مودی جی۔ لیکن اب آپ کی ذمہ داری کورونا کے وقت میں بہت بڑھ گئی ہے؟
دنیش۔ ہاں سر ، اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
مودی جی - جب آپ اپنے ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں تو ، آپ کے دل میں کیا جذبہ ہوتا ہے؟ پہلے سے مختلف تجربات کیا ہیں؟ کافی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ ذہنی دباؤ بھی رہتا ہوگا؟ خاندان کی فکر ، کورونا کا ماحول ، لوگوں کی طرف سے دباؤ ، مانگ ، کیا کچھ ہوتا ہوگا؟
دنیش۔ سر ، ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ ہمیں صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ ہم جو اپنا کام کر رہے ہیں ، وہ ٹائم پر لے کر اگر اپنی آکسیجن سے کسی کو زندگی ملتی ہے ، تو یہ ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔
مودی جی - آپ اپنے جذبات کا اظہار بہت اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔ اچھا بتایئے ، آج جب لوگ اس وبائی مرض کے وقت آپ کے کام کی اہمیت کو دیکھ رہے ہیں ، جسے شاید پہلے سمجھا نہیں گیا تھا ، اب وہ سمجھ رہے ہیں ، تو کیا آپ اور آپ کے کام کے بارے میں ان کا رویہ تبدیل ہوا ہے؟
دنیش۔ ہاں سر ! پہلے ، ہم آکسیجن کے ڈرائیور کہیں بھی ادھر ادھر جام میں پھنسے رہتے تھے ، لیکن آج کی تاریخ میں ، انتظامیہ نے بھی ہم لوگوں کی بہت مدد کی ہے اور جہاں بھی ہم جاتے ہیں تو ہمارے اندر بھی تجسس پیدا ہوتا ہے ، کہ ہم کتنی جلدی پہنچ کر لوگوں کی جان بچائیں ۔ چاہے کھانا ملے یا نہ ملے ۔ کچھ بھی پریشانی ہو لیکن ہم اسپتال پہنچتے ہیں ، جب ٹینکر لے کر اور دیکھتے ہیں کہ اسپتال والے ہم لوگوں کو دیکھ کر وی کا اشارہ کرتے ہیں ، اُس خاندان کے لوگ بھی ، جن کے گھر والے اسپتال میں داخل ہیں۔
مودی جی – اچھا ، وکٹری کا وی بناتے ہیں؟
دنیش۔ ہاں سر ! وی بناتے ہیں ، کوئی انگوٹھا دکھاتا ہے۔ ہم کو بہت سکون ملتا ہے ۔ ہماری زندگی میں کہ کہ ہم نے اچھا کام ضرور کیا ہے ، جو مجھے ایسی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے۔
مودی جی - ساری تھکن اتر جاتی ہوگی؟
دنیش۔ ہاں سر ! ہاں سر !
مودی جی - تو آپ گھر آکر بچوں سے باتیں بتاتے ہوں گے؟
دنیش۔ نہیں سر ۔ بچے تو ہمارے گاؤں میں رہتے ہیں۔ ہم تو یہاں آئینوکس ایئر پروڈکٹ میں ڈرائیوری کرتا ہوں ۔ 8 – 9 مہینوں کے بعد تب گھر جاتا ہوں ۔
مودی جی - تو کبھی فون پر بچوں سے بات کرتے ہوں گے ؟
دنیش۔ ہاں سر ! برابر کرتا ہوں ۔
مودی جی - تو اُن کے دل میں رہتا ہوگا کہ پتاجی ذرا سنبھلیئے ایسے وقت ۔
دنیش۔ سر ، وہ لوگ کہتے ہیں ، پاپا کام کرو ، لیکن اپنی حفاظت سے کرو اور سر ہم لوگ سیفٹی سے کام کرتے ہیں ۔ ہمارا مانگ گاؤں پلانٹ بھی ہے۔ آئینوکس ہم لوگوں کی بہت مدد کرتا ہے ۔
مودی جی - چلیں! دنیش جی ، مجھے بہت اچھا لگا ۔ آپ کی باتیں سن کر اور ملک کے لوگوں کو بھی لگے گا کہ اس کورونا کی لڑائی میں کیسے کیسے ، کس طرح سے لوگ کام کر رہے ہیں ۔ آپ 9-9 مہینوں تک اپنے بچوں سے نہیں مل رہےہیں ۔ خاندان سے نہیں مل رہے ہیں ، صرف لوگوں کی جان بچ جائے ۔ جب یہ ملک سنے گا تو ملک کو فخر ہو گا کہ یہ لڑائی ہم جیتیں گے کیونکہ دنیش اپادھیائے جیسے لاکھوں لوگ ایسے ہیں ، جو جی جان سے لگے ہوئے ہیں ۔ مودی جی چلیئے ،دنیش جی ، آپ کا یہ جذبہ ہی تو ملک کی طاقت ہے ۔ بہت بہت شکریہ دنیش جی اور اپنےبچوں کو میرا آشیرواد دییجئے گا ۔
دنیش۔ ٹھیک ہے سر! پرنام ۔
مودی جی۔ دھنیہ واد ۔
دنیش۔ پرنام پرنام سر ۔
مودی جی ۔ دھنیہ واد
ساتھیو ، جیسا کہ دنیش جی بتا رہے تھے ، جب ایک ٹینکر کا ڈرائیور آکسیجن لے کر اسپتال پہنچتا ہے تو بھگوان کابھیجا ہوا دوت لگتا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنی ذمہ داری کا ہوتا ہے اور اس میں کتنا ذہنی دباؤ بھی ہوتا ہے ۔
ساتھیو ، چیلنج کے اس وقت میں ، آکسیجن کی نقل و حمل کو آسان کرنے کے لئے بھارتی ریلوے بھی آگے آئی ہے ۔ آکسیجن ایکسپریس ، آکسیجن ریل نے سڑک پر چلنے والے آکسیجن ٹینکر سے کہیں زیادہ تیزی سے ، کہیں زیادہ مقدار میں آکسیجن ملک کے کونے کونے میں پہنچائی ہے ۔ ماؤں – بہنوں کو یہ سن کر فخر ہوگا کہ ایک آکسیجن ایکسپریس تو پوری طرح مہیلائیں ہی چلا رہی ہیں ۔ ملک کی ہر خواتین کو اس بات پر فخر ہوگا ۔ اتنا ہی نہیں ، ہر بھارتی کو فخر ہو گا ۔ میں نے آکسیجن ایکسپریس کی ایک لوکو پائلٹ شریشا گجنی جی کو ‘ من کی بات ’ میں مدعو کیا ہے ۔
مودی جی ۔شریشا جی نمستے!
شریشا۔ نمستے سر ! کیسے ہیں سر ؟
مودی جی۔ میں بہت ٹھیک ہوں شریشا جی ، میں نے سنا ہے کہ آپ ریلوے پائلٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کی پوری خواتین ٹیم یہ آکسیجن ایکسپریس چلا رہی ہے۔ شریشا جی ، آپ بہت ہی شاندار کام کررہی ہیں۔ کرونا کے دور میں ، آپ کی طرح بہت سی خواتین نے ، آگے آکر کورونا سے لڑائی میں ملک کو قوت دی ہے ۔ آپ بھی ناری شکتی کی ایک بہت بڑی مثال ہیں ۔ لیکن ملک جاننا چاہے گا ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ حوصلہ کہاں سے ملتی ہے ؟
شریشا۔ سر ، مجھے یہ حوصلہ میرے والد ، والدہ سے ملتا ہے سر ۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں سر ۔ دراصل ، میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ، ہم تین ممبران ہیں ۔ صرف خواتین لیکن میرے والد کام کرنے کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔میری پہلی بہن بینک میں سرکاری ملازمت کرتی ہے اور میں ریلوے میں ملازم ہوں۔ میرے والدین میری ہمت افزائی کرتے ہیں ۔
مودی جی - اچھا شریشا جی ، آپ نے عام دنوں میں بھی ریلوے کو اپنی خدمات دی ہیں۔ ٹرین کو چلایا ہے لیکن جب یہ ایک طرف آکسیجن کی اتنی بڑی مانگ اور جب آپ آکسیجن کو لے جارہی ہیں تو تھوڑا زیادہ ذمہ داری والا کام ہو گا ، تھوڑی زیادہ ذمہ داریاں ہوں گی؟ عام سامان کو لے جانا الگ بات ہے ، آکسیجن تو بہت نازک بھی ہوتی ہے ، یہ چیز ، تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں ؟
شریشا ۔ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کام کرنے کے لئے ۔ آکسیجن اسپیشل دینے کے وقت میں بھی سبھی دیکھ رہے تھے ۔ سیفٹی کے لئے پرمیشن کے لئے ، کوئی رساؤ ہو ۔ اس کے بعد ، بھارتی ریلوے بھی مدد کرنی ہے ، سر ۔ یہ آکسیجن چلانے کے لئے مجھ کو گرین پاتھ دیا گیا ، یہ گاڑی چلانے کے لئے 125 کلو میٹر ، ڈیڑھ گھنٹہ میں پہنچنا ہوتا ہے ۔ اتنی ریلوے نے بھی ذمہ داری لی اور میں نے بھی یہ ذمہ داری لے لی سر ۔
مودی جی - واہ! ... چلیئے شیرشا جی ، میں آپ کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے والد ، والدہ کو ،خاص طور سے پرنام کرتا ہوں ، جنہوں نے تینوں بیٹیوں کو اتنی تحریک دی اور ان کواتنا آگے بڑھایا اور اس طرح کا حوصلہ دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے والدین کو بھی پرنام اور آپ سبھی بہنوں کو بھی پرنام ، جنہوں نے اس طرح سے ملک کی خدمت کی اور جذبہ بھی دکھایا ہے ۔ بہت بہت شکریہ! شریشا جی ۔
شریشا۔ شکریہ سر۔ شکریہ سر ۔ آپ کی دعائیں چاہئیں سر مجھے ۔
مودی جی۔ بس ، پرماتما کا آشیرواد آپ پر بنا رہے ، آپ کے والد ، والدہ کا آشیرواد بنا رہے ۔ شکریہ جی!
شریشا۔ شکریہ سر۔
ساتھیو ، ہم نے ابھی شریشا جی کی بات سنی۔ ان کے تجربات ، تحریک بھی دیتے ہیں اور جذباتی بھی بناتے ہیں ۔ حقیقت میں ، یہ لڑائی اتنی بڑی ہے کہ اس میں ریلوے کی ہی طرح ہمارا ملک بحری ، بری اور فضائی ، تینوں راستوں سے کام کر رہا ہے ۔ ایک طرف، خالی ٹینکروں کو ایئر فورس کے طیاروں کے ذریعے آکسیجن پلانٹس تک پہنچانے کا کام ہو رہا ہے تو دوسری طرف آکسیجن پلانٹس بنانا کا بھی کام پورا کیا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی بیرونی ملکوں سے آکسیجن ، آکسیجن کنسنٹریٹرس اور کرائیوجینک ٹینکر بھی ملک میں لائے جارہے ہیں ۔اس لئے ، اس میں بحریہ بھی لگی ہوئی ہے ، ایئرفورس بھی لگی ہوئی ہے ، آرمی بھی اور ڈی آر ڈی او جیسی ہماری تنظیمیں بھی جٹی ہیں ۔ ہمارے کتنےہی سائنسداں ، صنعت کے ماہرین اور تکنیکی ماہرین بھی جنگی پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ان سب کے کام کو جاننے کا ، سمجھنے کا تجسس سبھی ہم وطنوں کے دلوں میں ہے ۔ اس لئے ہمارے ساتھ ، ہماری فضائیہ کے گروپ کیپٹن پٹنائک جی جڑ رہے ہیں ۔
مودی جی۔ پٹنائک جی ، جے ہند۔
گروپ کیپٹن - سر جے ہند ۔ سر میں گروپ کیپٹن اے کے پٹنائک ہوں ۔ فضائیہ کے اسٹیشن ہنڈن سے بات کر رہا ہوں ۔
مودی جی۔ پٹنائک جی ، کورونا سے لڑائی کے دوران ، آپ بہت بڑی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں جاکر ٹینکر لانا ، ٹینکر یہاں پہنچانا ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایک فوجی کی حیثیت سے ایک مختلف قسم کا کام آپ نے کیا۔ مرنے مارنے کے لئے دوڑنا ہوتا ہے ۔ آج آپ زندگی بچانے کے لئے دوڑ رہےہیں ۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟
گروپ کیپٹن ۔ سر ، اس بحران کے دور میں ،ہمارے ہم وطنوں کو مدد کر سکتے ہیں ، یہ ہمارے لئے بہت ہی خوش قسمتی کا کام ہے ۔ سر اور یہ جو بھی ہمیں مشن ملے ہیں ، ہم بخوبی اُس کو نبھا رہے ہیں ۔ ہماری ٹریننگ اور امدادی خدمات ، جو ہیں ، ہماری پوری مدد کر رہے ہیں اور سب سے بڑی چیز یہ ہے سر ، اس میں جو ہمیں جوب پر اطمینان مل رہا ہے ، وہ بہت ہی اعلیٰ درجے کا ہے اور اسی کی وجہ سے ہم مسلسل آپریشن کر پا رہے ہیں ۔
مودی جی ۔ کیپٹن ، آپ نے ان دنوں جو جو کوششیں کی ہیں ، اور وہ بھی کم سے کم وقت میں ، سب کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں اب ان دنوں کیا رہا آپ کا؟
گروپ کیپٹن ۔ سر پچھلے ایک مہینے سے ہم مسلسل آکسیجن ٹینکر ، رقیق آکسیجن کنٹینر ، گھریلو مقامات سے اور بین الاقوامی مقامات سے ، دونوں جگہ سے اٹھا رہے ہیں ۔ سر تقریباً 1600 پروازوں سے زیادہ ایئر فورس کر چکی ہے اور 3000 سے زیادہ گھنٹے ہم اُڑ چکے ہیں ۔ تقریباً 160 بین الاقوامی مشن کر چکے ہیں ۔ اس وجہ سے ہم ہر جگہ سے آکسیجن ٹینکر ، جو پہلے اگر ملک میں 2 سے 3 دن لگتے تھے ، ہم اُس کو 2 سے 3 گھنٹے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتے ہیں ، سر اور بین الاقوامی مشنوں میں بھی 24 گھنٹے کے اندر اندر مسلسل ، ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے آپریشن کرکے پوری فضائیہ اس میں لگی ہوئی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہم زیادہ سے زیادہ ٹینکر لائیں اور ملک کی مدد کریں۔
مودی جی۔ کیپٹن آپ کو بین الاقوامی ملکوں میں ابھی کہاں تک جانے کا اتفاق ہوا ؟
گروپ کیپٹن ۔ سر مختصر نوٹس کے ساتھ ہمیں ، سنگا پور ، دوبئی ، بیلجیم ، جرمنی اور یو کے ، ان سب مقامات پر انڈین ایئر فورس کی مختلف پروازیں ، آئی ایل – 76 ، سی – 17 ، جو بہت ہی چھوٹے سے نوٹس پر مشن پلان کرکے ہماری ٹریننگ اور جوش کی وجہ سے ، ہم وقت پر ان مشنوں کو مکمل کر سکیں گے ۔
مودی جی – دیکھیئے ، اس بار ملک اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ بحری ہو ،بری ہو یا فضائیہ ہو ، ہمارے سارے جوان ، اس کورونا کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں اور کیپٹن آپ نے بھی بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ہے تو میں آپ کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
گروپ کیپٹن ۔ سر ، تھینک یو سو مچ سر ، ہم اپنی پوری کوشش میں ، جی جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور میری بیٹی بھی آدیتی بھی میرے ساتھ ہے سر۔
مودی جی - ارے واہ !
آدیتی ۔ نمستے مودی جی ۔
مودی جی۔ نمستے بیٹی نمستے ، آدیتی ، آپ کتنے سال کی ہیں ؟
آدیتی – میں 12 سال کی ہوں اور آٹھویں کلاس میں پڑھتی ہوں ۔
مودی جی۔ تو یہ پتاجی باہر جاتے ہیں ، یونیفارم میں رہتے ہیں ۔
آدیتی - ہاں! اُن کے لئے مجھے بہت پراؤڈ لگتا ہے ، بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتنا اہم کام کر رہے ہیں ، جو سارے کورونا سے متاثرہ لوگ ہیں ، اُن کی مدد اتنی زیادہ کر رہے ہیں اور اتنے سارے ملکوں سے آکسیجن ٹینکر لا رہے ہیں ، کنٹینرس لا رہے ہیں ۔
مودی جی - لیکن بیٹی تو پاپا کو بہت مِس کرتی ہو نا ؟
آدیتی - ہاں ، بہت مِس کرتی ہوں ، انہیں ۔وہ آج کل زیادہ گھر پر نہیں رہ پا رہے ہیں کیونکہ اتنی ساری بین الاقوامی پروازوں میں جا رہے ہیں اور کنٹینر اور ٹینکر ، اُن کے پروڈکشن پلانٹ تک پہنچا رہے ہیں تاکہ جو لوگ کورونا سے متاثر ہیں ، اُن کو وقت پر آکسیجن مل سکے اور اُن کی جان بچ سکے ۔
مودی جی۔ تو بیٹایہ جو آکسیجن کی وجہ سے لوگوں کی جان بچانے والا کام ، تو اب گھر گھر میں لوگوں کو پتہ چل گیا ہے ۔
آدیتی - ہاں۔
مودی جی۔ جب آپ کےدوستوں کا حلقہ ، تمہارے ساتھی طلباء جانتے ہوں گے کہ تمہارے والد آکسیجن کی خدمت میں لگے ہیں تو تمہیں وہ بہت احترام سے دیکھتے ہو ں گے ؟
آدیتی - جی ہاں ، میرے تمام دوست بھی کہتے ہیں کہ تمہارے پاپا اتنا زیادہ اہم کام کر رہے ہیں اور تمہیں بھی بہت فخر ہوتا ہوگا اور تب مجھے اتنا زیادہ فخر محسوس ہوتاہے اور میری جو ساری فیملی ہے ، میرے نانا نانی ، دادی ، سب لوگ ہی میرے پاپا کے لئے بہت فخر محسوس کرتے ہیں ۔ میری ممی اور وہ لوگ بھی ، ڈاکٹر ہیں ، وہ لوگ بھی دن رات کام کر رہے ہیں اور ساری مسلح افواج ، میرے پاپا کے سارے اسکواڈرن کے انکل اور ساری جو فورس ہے ، سب لوگ ، ساری سینا بہت کام کر رہی ہے اور مجھے یقین ہےکہ سب کی کوششوں کے ساتھ ہم لوگ کورونا سے یہ لڑائی ضروری جیتیں گے ۔
مودی جی ۔ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ بیٹی جب بولتی ہے نا تو اس کےالفاظ میں سرسوتی وراجمان ہوتی ہے ، اور جب آدیتی بول رہی ہے کہ ہم ضرور جیتیں گے تو ایک طرح سے یہ ایشور کی آواز بن جاتی ہے ۔ اچھا آدیتی ، ابھی تو آن لائن پڑھتی ہوں گے ۔
آدیتی - ہاں ، ابھی تو ہماری تمام آن لائن کلاسز چل رہی ہیں اور ابھی ہم لوگ گھر میں بھی پوری احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں اور اگر کہیں اگر باہر جانا ہے تو پھر ڈبل ماسک پہن کر ، اور سب کچھ ، ساری احتیاط اور ذاتی صفائی ستھرائی کر رہے ہیں ، سب چیزوں کا دھیان رکھ رہے ہیں ۔
مودی جی - اچھا بیٹا ، تمہاری کیا ہوبیز ہیں ، کیا پسند ہیں ؟
آدیتی – میری ہوبیز ہیں کہ میں سوئمنگ کرتی ہوں اورباسکٹ بال کھیلتی ہوں لیکن ابھی تو وہ تھوڑا بند ہو گیا ہے اور اس لاک ڈاؤن اور کورونا وارئس کے دوران میں نے بیکنگ اور کوکنگ کا مجھے بہت زیادہ شوق ہے اور میں ابھی سارے بیکنگ اور کوکنگ کرکے ، جب پاپا اتنا سارا کام کرکے آتے ہیں تو میں ان کے لئے کوکیز اور کیک بناتی ہوں ۔
مودی جی - واہ ، واہ ، واہ! چلیئے بیٹا ، بہت دنوں کے بعد تمہیں پاپا کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا ہے ۔ بہت اچھا لگا اور کیپٹن آپ کو بھی میں بہت مبارکباد دیتا ہوں لیکن جب میں کیپٹن کو مبارکباد دیتا ہوں تو اس کا مطلب صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ یہ ہماری فضائیہ، بحریہ اور بری افواج کے لئے بھی ہے ، جو اس طرح مصروف ہیں ۔ میں سب کو سلام کرتا ہوں ، شکریہ بھائیوں ۔
گروپ کیپٹن – شکریہ سر
ساتھیو، ہمارے ان جوانوں نے، ان واریئرز نے جو کام کیا ہے، اسکے لیے ملک انہیں سلام کرتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں لوگ دن رات مصروف ہیں۔ جو کام وہ کر رہے ہیں، وہ انکے معمول کے کام کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح کی آفت تو دنیا میں سو سال بعد آئی ہے ، ایک صدی کے بعد اتنا بڑا بحران! اسلئے، اس طرح کے کام کا کسی کے پاس کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔ اسکے پیچھے ملک کی خدمت کا جذبہ ہے اور ایک عزم کی طاقت ہے۔ اسی سے ملک نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، عام دنوں میں ہمارے یہاں ایک دن میں 900 میٹرک ٹن، مائع طبی آکسیجن کی پیداوار ہوتی تھی ۔ اب 10 گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر،اس کی پیداوار تقریبا 9500 میٹرک ٹن ہو رہی ہے۔ اس آکسیجن کو ہمارے واریئرزملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچا رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آکسیجن پہنچانے کے لیے ملک میں اتنی کوشش ہوئی ، اتنے لوگ مصروف ہوئے ، ایک شہری کے طور پر یہ سارے کام تحریک دیتے ہیں۔ ایک ٹیم بن کر ہر کسی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ مجھے بینگلورو سے ارملا جی نے کہا ہے کہ انکے خاوند لیب ٹیکنیشین ہیں، اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے اتنے چیلنجوں کے درمیان وہ مسلسل ٹیسٹنگ کا کام کرتے رہے ہیں۔
ساتھیو، کو رونا کی شروعات میں ملک میں صرف ایک ہی ٹیسٹنگ لیب تھا ، لیکن آج ڈھائی ہزار سے زیادہ لیب کام کر رہے ہیں۔ شروع میں کچھ سو ٹیسٹ ایک دن میں ہو پاتے تھے، اب 20 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ ایک دن میں ہونے لگے ہیں۔ اب تک ملک میں 33 کروڑ سے زیادہ نمونوں کی جانچ کی جا چکی ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ان ساتھیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ کتنے ہی فرنٹ لائن کارکنان نمونے اکٹھے کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ متاثرہ مریضوں کے درمیان جانا، انکا سمپل لینا، یہ کتنی بڑی خدمت ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے ان ساتھیوں کو اتنی گرمی میں بھی لگاتار پی پی ای کٹ پہن کے ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسکے بعد یہ سمپل لیب میں پہنچتا ہے۔ اسلئے، جب میں آپ سب کے مشورے اور سوال پڑھ رہا تھا تو میں نے طے کیا کہ اپنے ان ساتھیوں کا بھی ذکر ضرور ہونا چاہیئے۔ انکے تجربات سے ہمیں بھی بہت کچھ جاننے کو ملےگا۔ تو آئیے دلی میں ایک لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کرنے والے اپنے ساتھی پرکاش کانڈپال جی سے بات کرتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی نمسکار۔
پرکاش جی – نمسکار معزز وزیر اعظم صاحب۔
مودی جی – پرکاش جی، سب سے پہلے تو آپ ‘من کی بات’ کے ہمارے سبھی سامعین کو اپنے بارے میں بتائیے۔ آپ کتنے وقت سے یہ کام کر رہے ہیں اور کو رونا کے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے کیونکہ ملک کے لوگوں کو اس طرح سے نہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، نہ اخبار میں دیکھتے ہیں۔ پھر بھی ایک رشی کی طرح لیب میں رہ کرکے کام کر رہے ہیں۔ تو میں چاہونگا کہ آپ جب بتائیں گے تو ہم وطنوں کو بھی جانکاری ملے گی کہ ملک میں کام کیسے ہو رہا ہے ؟
پرکاش جی – میں دلی سرکار کے خود مختار ادارے انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بلیئری سائنسز(آئی ایل بی ایس) نام کے ہاسپٹل میں پچھلے 10 سالوں سے لیب ٹیکنیشین کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میرا صحت کے شعبہ میں کام کرنے کا تجربہ 22 سالوں پر محیط ہے۔ آئی ایل بی ایس سے پہلے بھی میں دلی کے اپولوہاسپٹل، راجیو گاندھیؔ کینسر ہاسپٹل، روٹری بلڈ بینک جیسے معروف اداروں میں کام کر چکا ہوں۔ سر، اگرچہ سبھی جگہ میں نےبلڈ بینک کے شعبہ میں اپنی خدمات انجام دیں تاہم گذشتہ سال یکم اپریل، 2020 سے میں آئی ایل بی ایس کے ویرولوجی ڈیپارٹمنٹ کے کووڈ ٹیسٹنگ لیب میں کام کر رہا ہوں۔ بلاشبہ، کووڈ وبا میں صحت اور صحت سے متعلق سبھی وسائل پر بہت دباؤ پڑا، لیکن میں اس جنگ کے دور کو ذاتی طور پر ایک ایسا موقع مانتا ہوں، جب ملک، انسانیت ، سماج ہم سے زیادہ فرض کی ادائیگی، تعاون ، ہم سے زیادہ ، ہم سے زیادہ اچھی کارکردگی اور ہم سے زیادہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی توقع کرتا ہے اور امید کرتا ہے۔ اور سر، جب ہم ملک کے ، انسانیت کے ، معاشرہ کے توقعات اور امیدوں کے مطابق اپنی سطح پر جو کہ ایک قطرے کے برابر ہے ، ہم اس پر کام کرتے ہیں،کھرا اترتے ہے تو ایک فخر کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی جب ہمارے گھر والے بھی خوفزدہ ہوتے ہے یا تھوڑا انہیں ڈر لگتا ہے تو ایسے موقعوں پر ان کو یاد دلاتا ہوں، کہ ہمارے ملک کے جوان جو کہ ہمیشہ ہی اپنے کنبے سے دور سرحدوں پر سخت اور غیر معمولی صورتحال میں ملک کی حفاظت کر رہے ہیں، ان کے مقابلے میں تو ہمارا خطرہ جو ہے کم ہے، بہت کم ہے۔ تو وہ بھی اس چیز کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ایک طرح سے وہ بھی معاونت کرتے ہیں اور وہ بھی اس مصیبت میں عام طور سے جو بھی تعاون ہے اس میں اپنی حصہ داری پیش کرتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی ایک طرف حکومت سب کو کہہ رہی ہے کہ دوری رکھو - دوری رکھو،کو رونا میں ایک دوسرے سے دور رہو۔ اور آپ کو تو سامنے سے ہوکر، کو رونا وائرس کے بیچ میں رہنا ہی پڑتا ہے ، سامنے سے جانا پڑتا ہے۔ تو، یہ اپنے آپ میں ایک زندگی کو مشکل میں ڈالنے والا معاملہ رہتا ہے تو کنبے کو فکر لاحق ہونا بہت فطری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ لیب ٹیکنیشین کا کام عام کاموں میں سے ایک ہے۔ اور ایسی عالمی وباء کی صورت میں دوسرا ہے اور وہ آپ کر رہے ہیں۔تو کام کے گھنٹے بھی بہت بڑھ گئے ہوں گے ؟ رات رات لیب میں گذارنا پڑتا ہوگا ؟ کیونکہ کروڑوں لوگوں کی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے تو بوجھ بھی بڑھا ہوگا ؟ لیکن اپنی حفاظت کے لیے بھی یہ احتیاط رکھتے ہیں کہ نہیں رکھتے ہیں ؟
پرکاش جی – بالکل رکھتے ہیں سر۔ ہمارے آئی ایل بی ایس کا جو لیب ہے ، وہ ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ ہے۔ تو جو سارےپروٹوکول ہیں وہ بین الاقوامی معیار کے ہیں،یہ جو ہماری تین سطحی پوشاک ہے اسے پہن کر ہم جاتے ہیں لیب میں، اور اسی میں ہم کام کرتے ہیں۔ اور اسکا پورا ڈسکارڈنگ کا، لیبلنگ کا اور ان کی ٹیسٹنگ کا ایک پورا پروٹوکول ہے تو اس پروٹوکول کے تحت کام کرتے ہیں۔ تو سر یہ بھی ایشور کی مہربانی ہے کہ میرا اور میرے جاننے والے زیادہ تر جو ابھی تک اس وباء سے بچے ہوئے ہیں۔ تو ایک چیز ہے کہ، اگر آپ احتیاط برتتے ہیں اور حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ تھوڑا بہت اس سے بچے رہ سکتے ہیں۔
مودی جی – پرکاش جی، آپ جیسے ہزاروں لوگ پچھلے ایک سال سے لیب میں بیٹھے ہیں اور اتنی زحمت کر رہے ہیں۔ اتنے لوگوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔ جو ملک آج جان رہا ہے۔ لیکن پرکاش جی میں آپکے توسط سے آپکی برادری کے سبھی ساتھیوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم وطنوں کی طرف شکریہ ادا کرتا ہوںاور آپ صحت مند رہیں ۔ آپ کا کنبہ صحت مند رہے۔ میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔
پرکاش جی – شکریہ وزیر اعظم صاحب ۔ میں آپ کا بہت بہت ممنون ہوں، کہ آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا۔
مودی جی – شکریہ بھیا۔
ساتھیوں، ایک طرح سے بات تو میں نے بھائی پرکاش جی سے کی ہے، لیکن انکی باتوں میں ہزاروں لیب ٹیکنیشین کی خدمات کو خوشبو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ان باتوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کے خدمت کا جذبہ تو نظر آتا ہی ہے، ہم سبھی کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ جتنی محنت اور لگن سے بھائی پرکاش جی جیسے ہمارے ساتھی کام کر رہے ہیں، اتنی ہی ایمانداری سے ان کا تعاون ، کو رونا کو ہرانے میں بہت مدد کرے گا۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ابھی ہم اپنے 'کورونا واریئر' کا ذکر کر رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ سالوں میں ہم نے ان کی لگن اور جانفشانی خوب دیکھی ہے۔ لیکن اس لڑائی میں بہت اہم کردار ملک کے کئی علاقوں کے متعدد واریئرز کی بھی ہے۔ آپ سوچئے، ہمارے ملک میں اتنا بڑا بحران آیا، اسکا اثر ملک کے ایک نظام پر پڑا۔ زرعی نظام نے خود کو اس حملے سے کافی حد تک محفوظ رکھا ۔ محفوظ ہی نہیں رکھا، بلکہ ترقی بھی کی، آگے بھی بڑھا! کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس وباء میں بھی ہمارے کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ہے ؟ کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی ، تو اس مرتبہ ملک نے ریکارڈ فصل خریدی بھی ہے۔ اس بار کئی جگہوں پر تو سرسوں کے لیے کسانوں کو ایم ایس پی سے بھی زیادہ قیمت ملی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے ہی ہمارا ملک ہرشہری کو مدد فراہم کر پا رہا ہے۔آج اس بحران کی گھڑی میں 80 کروڑ غریبوں کو مفت راشن مہیا کرایا جا رہا ہے تاکہ غریب کے گھر میں بھی کبھی ایسا دن نہ آئے جب چولہا نہ جلے۔
ساتھیوں، آج ہمارے ملک کے کسان، کئی علاقوں میں نئے نظام کا فائدہ اٹھاکر کمال کر رہے ہیں۔ جیسے کہ اگرتلہ کے کسانوں کو ہی لیجئے ! یہ کسان بہت اچھے کٹہل کی پیداوار کرتے ہیں۔ انکی مانگ ملک و بیرون ملک میں ہو سکتی ہے، اسلئے اس بار اگرتلہ کے کسانوں کے کٹہل ریل کے ذریعہ گوہاٹی تک لائے گئے۔ گوہاٹی سے اب یہ کٹہل لندن بھیجے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی آپ نے بہار کی ‘شاہی لیچی’ کا نام بھی سنا ہوگا۔ 2018 میں حکومت نے شاہی لیچی کوجی آئی ٹیگ بھی دیا تھا تاکہ اسکی پہچان مستحکم ہو اور کسانوں کو زیادہ فائدہ ہو۔ اس بار بہار کی یہ ‘شاہی لیچی’ بھی فضائی راستے سے لندن بھیجی گئی ہے۔ مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب ہمارا ملک ایسے ہی انوکھے ذائقوں اور پیداوار سے بھر پور ہے۔ جنوبی ہند میں، وجے نگرم کے آم کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا ؟ اب بھلا یہ آم کون نہیں کھانا چاہے گا ! اسلئے، اب کسان -ریل، سیکڑوں ٹن وجے نگرم آم دلی پہنچا رہی ہے۔ دلی اور شمالی ہند کے لوگوں کو وجے نگرم کے آم کھانے کو ملے گا اور وجے نگرم کے کسانوں کی اچھی کمائی ہوگی۔ کسان ریل اب تک تقریبا 2 لاکھ ٹن پیداوار کا نقل و حمل کر چکی ہے۔ اب کسان بہت کم قیمت پر پھل، سبزیاں ، اناج، ملک کے دوسرے دور دراز علاقوں میں بھیج پا رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج 30 مئی کو ہم ‘من کی بات’ کر رہے ہیں اور اتفاق سے یہ حکومت کے 7 سال پورے ہونے کا بھی وقت ہے۔ ان سالوں میں ملک ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’ کے منتر پر چلا ہے۔ ملک کی خدمت میں ہر لمحہ لگن کے ساتھ ہم سبھی نے کام کیا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے خط ارسال کیے ہیں اور کہا ہے کہ ‘من کی بات’ میں 7 سال کے ہمارے آپ کے اس مشترکہ سفر کا بھی ذکر کروں۔ ساتھیوں، ان 7 سالوں میں جو کچھ بھی حصولیابی رہی ہے، وہ ملک کی رہی ہے، ہم وطنوں کی رہی ہے۔ کتنے ہی قومی فخر کے لمحوں کا ہم نے ان سالوں میں ساتھ مل کر مشاہدہ کیا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان دوسرے ملکوں کی سوچ اور انکے دباؤ میں نہیں، اپنے عزم سے چلتا ہے، تو ہم سب کو فخر ہوتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہندوستان اپنے خلاف سازش کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیتا ہے تو ہماری خود اعتمادی اور بڑھتی ہے۔ جب ہندوستان قومی سلامتی کے امور پر سمجھوتہ نہیں کرتا، جب ہماری افواج کی طاقت بڑھتی ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہاں، ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں۔
ساتھیوں، مجھے کتنے ہی ہم وطنوں کے پیغامات ، انکے خطوط، ملک کے گوشے گوشے سے ملتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ملک کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ 70 سال بعد انکے گاؤں میں پہلی بار بجلی پہنچی ہے، انکے بیٹے بیٹیاں اجالے میں، پنکھے میں بیٹھ کرکے پڑھ رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا بھی گاؤں اب پکی سڑک سے، شہر سے مربوط ہو گیا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک قبائلی علاقے سے کچھ ساتھیوں نے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ سڑک بننے کے بعد پہلی بار انہیں ایسا لگا کہ وہ بھی باقی دنیا سے جڑ گئے ہیں۔ ایسے ہی کہیں کوئی بینک کھاتہ کھلنے کی خوشی شیئر کرتا ہے، تو کوئی الگ الگ منصوبوں کی مدد سے جب نیا روزگار شروع کرتا ہے تو اس خوشی میں مجھے بھی مدعو کرتا ہے۔ ‘پردھان منتری آواس یوجنا’ کے تحت گھر ملنے کے بعد گرہ پرویش کی تقریب میں کتنی ہی دعوت مجھے اپنے وطنوں کی جانب سے لگاتار ملتے رہتے ہیں۔ ان 7 سالوں میں آپ سب کی ایسی کروڑوں خوشیوں میں، میں شامل ہوا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے گاؤں سے ایک پریوار نے ‘جل جیون مشن’ کے تحت گھر میں لگے پانی کے نل کی ایک فوٹو بھیجی۔ انہوں نے اس فوٹو کی سرخی لگائی تھی–‘میرے گاؤں کی جیون دھارا’۔ ایسے کتنے ہی کنبے ہیں۔ آزادی کے بعد 7 عشروں میں ہمارے ملک کے صرف ساڑھے تین کروڑ دیہی گھروں میں ہی پانی کے کنکشن تھے۔ لیکن پچھلے 21 مہینوں میں ہی ساڑھے چار کروڑ گھروں کو صاف پانی کے کنکشن دیے گئے ہیں۔ ان میں سے 15 مہینے تو کوروناکے ہی تھے ! اسی طرح کا ایک اعتماد ملک میں ‘آیوشمان یوجنا’ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ جب کوئی غریب مفت علاج سے صحت مند ہوکر گھر آتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ ملک اسکے ساتھ ہے۔ ایسے کتنے ہی کنبوں کی برکت، کروڑوں ماؤں کی دعائیں لیکر ہمارا ملک مضبوطی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ساتھیوں،ان 7 سالوں میں ہندوستان نے ڈیجیٹل 'لین دین’ میں دنیا کو نئی سمت کھانے کا کام کیا ہے۔ آج کسی بھی جگہ جتنی آسانی سے آپ چٹکیوں میں ڈیجیٹل ادائیگی کر دیتے ہیں، وہ کو رونا کی اس گھڑی میں بھی بہت کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ آج صفائی کے تئیں ہم وطنوں کی سنجیدگی اور احتیاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ریکارڈ سیٹلائٹ بھی لانچ کر رہے ہیں اورریکارڈ سڑکیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہی ملک کے متعدد قدیم تنازعے بھی مکمل امن و ہم آہنگی کے ساتھ طے کیے گئے ہیں۔شمال مشرق سے لیکر کشمیر تک امن و ترقی کا ایک نیا بھروسہ جگا ہے۔ساتھیوں،کیا آپ نے سوچا ہے، یہ سب کام جو دہائیوں میں بھی نہیں ہو سکے، ان 7 سالوں میں کیسے ہوئے ؟ یہ سب اسی لئے ممکن ہوا کیونکہ ان 7 سالوں میں ہم نے حکومت اور عوام سے زیادہ ایک ملک کے طور پر کام کیا،ایک ٹیم کی شکل میں کام کیا،'ٹیم انڈیا' کی شکل میں کام کیا۔ ہرشہری نےملک کو آگے بڑھانے میں ایک آدھا قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاں ! جہاں کامیابیاں ہوتی ہیں، وہاں آزمائشیں بھی ہوتی ہیں۔ ان 7 سالوں میں ہم نے ساتھ ملکر ہی کئی مشکل آزمائشوں سے بھی گزرے ہیں اور ہر بار ہم سبھی مضبوط ہوکر نکلے ہیں۔ کو رونا وبائی مرض کی شکل میں، اتنی بڑی آزمائش تو لگاتار چل رہی ہے۔ یہ تو ایک ایسا بحران ہے جس نے پوری دنیا کو پریشان کیا ہے، کتنے ہی لوگوں نے اپنوں کو کھویا ہے۔ بڑے بڑے ملک بھی اسکی تباہی سے بچ نہیں سکے ہیں۔ اس عالمی وباء کے درمیان ہندوستان ، ‘خدمت اور تعاون’ کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے پہلی لہر میں بھی پورے حوصلے کے ساتھ لڑائی لڑی تھی، اس بار بھی وائرس کے خلاف چل رہی لڑائی میں ہندوستان کی فتح ہوگی۔ ‘دو گز کی دوری’، ماسک سے جڑے اصول ہو یا پھرویکسین ہمیں ڈھلائی نہیں کرنی ہے۔ یہی ہماری جیت کا راستہ ہے۔ اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے، تو ہم وطنوں کے کئی اور حوصلہ افزا مثالوں پر بات کریں گے اور نئے موضوعات پر بات چیت کریں گے۔ آپ اپنے مشورے مجھے ایسے ہی بھیجتے رہیں۔ آپ سبھی صحت مند رہیں، ملک کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہیں ۔بہت –بہت شکریہ ۔
نئی دہلی۔ 25 اپریل میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار ۔ آج آپ سے ‘من کی بات’، ایک ایسے وقت میں کر رہا ہوں، جب کو رونا، ہم سبھی کے صبر وتحمل ، ہم سبھی کے دکھ برداشت کرنے کی حد کا امتحان لے رہا ہے ۔ بہت سے اپنے، ہمیں، بے وقت ، چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ کورونا کی پہلی لہر کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد ملک کا حوصلہ بلند تھا، ملک خود اعتمادی سے سے لبریز تھا، لیکن اس طوفان نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔
ساتھیو، پچھلے دنوں اس بحران سے نمٹنے کے لیے، میری، الگ الگ شعبوں کے ایکسپرٹ کے ساتھ، ماہرین کے ساتھ طویل بات چیت ہوئی ہے ۔ ہماری دوا ساز صنعت کے لوگ ہوں، ویکسین بنانے والے ہوں ، آکسیجن بنانے کے عمل سے منسلک لوگ ہوں یا پھر طبی شعبہ کے جانکار، انہوں نے، اپنے اہم مشورے حکومت کو دیے ہیں۔ اس وقت ، ہمیں اس لڑائی کو جیتنے کے لیے، ماہرین اور سائنسی صلاح کو ترجیح دینی ہے ۔ ریاستی سرکار کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں حکومت ہند پوری طاقت سے مصروف عمل ہے۔ ریاستی حکومتیں بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کی بھر پور کوششیں کر رہی ہیں۔
ساتھیو، کو رونا کے خلاف اس وقت بہت بڑی لڑائی ملک کے ڈاکٹر اور صحت کارکنان لڑ رہے ہیں ۔ پچھلے ایک سال میں انہیں اس بیماری کے بارے میں ہر قسم کے تجربات بھی ہوئے ہیں ۔ ہمارے ساتھ، اس وقت ، ممبیٔ سے مشہور ڈاکٹر ششانک جوشی جی جڑ رہے ہیں ۔
ڈاکٹر ششانک جی کو کو رونا کے علاج اور اس سے متعلق تحقیق کا بہت زمینی تجربہ ہے۔ وہ انڈین کالج آف فیزیسین کے ڈین بھی رہ چکے ہیں ۔ آئیے بات کرتے ہیں ڈاکٹر ششانک سے :-
مودی جی - نمسکار ڈاکٹر ششانک جی
ڈاکٹر ششانک – نمسکار سر ۔
مودی جی - ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ سے بات کرنے کا موقع ملا تھا ۔ آپکے خیالات کی توضیح مجھے بہت اچھی لگی تھی ۔ مجھے لگا ملک کے سبھی شہری کو آپ کے خیالات جاننے چاہیئے ۔ جو باتیں سننے میں آتی اسی کو میں ایک سوال کی شکل میں آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر ششانک – آپ لوگ اس وقت دن رات زندگی کی حفاظت کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سب سے پہلے تو میں چاہونگا کہ آپ دوسری لہر کے بارے میں لوگوں کو بتائیں۔ طبی طور پر یہ کیسے الگ ہے اور کیا کیا احتیاط ضروری ہے ۔
ڈاکٹر ششانک – شکریہ سر، یہ جو دوسری لہر (wave) آئی ہے ۔ یہ تیزی سے آئی ہے، تو جتنی پہلی لہر (wave) تھی اس سے یہ وائرس زیادہ تیز چل رہا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس سے زیادہ رفتار سےصحت یابی بھی ہو رہی ہے اور اموات کی شرح کافی کم ہے ۔ اس میں دو تین فرق ہے، پہلا تو یہ نوجوانوں میں اور بچوں میں بھی تھوڑا دکھائی دے رہا ہے ۔ اسکی جو علامت ہے، پہلے جیسی علامت تھی سانس چڑھنا، سوکھی کھانسی آنا، بخار آنا یہ تو سب ہے ہی اور اسکے ساتھ تھوڑی بو کا ختم ہو جانا، ذائقہ چلا جانا یہ بھی ہے ۔ اور لوگ تھوڑے خوفزدہ ہیں ۔ خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔ 80-90 فیصد لوگوں میں اس کی کوئی بھی علامت دکھائی نہیں دیتی ہے، یہ میوٹیشن - میوٹیشن جو بولتے ہیں، گھبرانے کی بات نہیں ہے ۔ یہ میوٹیشن ہوتے رہتے ہیں جیسے ہم کپڑے بدلتے ہیں ویسے وائرس بھی اپنا رنگ بدل رہا ہے اور اسلئے بالکل ڈرنے کی بات نہیں ہے اور یہ لہر ہم پار کر لیں گے ۔ لہرآتی جاتی ہے، اور یہ وائرس آتاجاتا رہتا ہے تو یہی الگ الگ علامتیں ہیں ہے اور طبی طور پر ہم کو محتاط رہنا چاہیئے ۔ ایک 14 سے 21 دن کا یہ کووڈ کا ٹائم ٹیبل ہے اس میں ویدیہ (ڈاکٹر) کی صلاح لینی چاہیے ۔
مودی جی - ڈاکٹر ششانک میرے لیے بھی آپ نے جو تجزیہ پیش کیا ، بہت دلچسپ ہے، مجھے کئی خطوط ملے ہیں ، جس میں علاج کے بارے میں بھی لوگوں کو بہت سے شکوک و شبہات ہیں، کچھ دواؤں کی مانگ بہت زیادہ ہے، اسلئے میں چاہتا ہوں کہ کووڈ کے علاج کے بارے میں بھی آپ لوگوں کو ضرور بتائیں ۔
ڈاکٹر ششانک – ہاں سر، کلینکل علاج لوگ بہت تاخیر سے شروع کرتے ہیں اور اپنے آپ بیماری سے دب جائے گی ، اس بھروسے پر رہتے ہیں، اور، موبائل پر آنے والی باتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں، اور اگر حکومتی معلومات پر عمل کریں تو یہ دشواری پیش نہیں آتی ہے ۔ تو کووڈ میں کلینکل علاج کا پروٹوکول ہے اس میں تین طرح کی شدت ہے ، ہلکا یا معمولی کووڈ، درمیانہ یا متوسط کووڈ اور تیز کووڈ جسے severe covid بولتے ہیں، اسکے لیے ہے ۔ تو جو ہلکا کووڈ ہے اسکے لیے تو ہم آکسیجن کی نگرانی کرتے ہیں ، نبض کی نگرانی کرتے ہیں، بخار کی نگرانی کرتے ، بخار بڑھ جاتا ہے تو کبھی کبھی پیراسیٹامول (Paracetamol) جیسی دواؤں کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے ڈاکٹر سےرجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ صحیح اور سستی دوائیں دستیاب ہیں۔ اس میں اسٹرائیوڈ، جو ہے ، جان بچا سکتی ہے، ہم اِن ہیلر دے سکتے ہیں، ہم ٹیبلیٹ دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی آکسیجن ہے وہ دینا پڑتا ہے اور اس کے لیے چھوٹے چھوٹے علاج ہیں ۔ لیکن اکثر کیا ہو رہا ہے کہ ایک نئی تجرباتی دوا ہے ، جس کا نام ہے ریمڈیسیویر۔ اس دوا سے ایک چیز ضرور ہوتی کہ اسپتال میں دو–تین دن کم رہنا پڑتا ہے اورکلینکل صحت یابی میں تھوڑی سی اس سے مدد ملتی ہے ۔ یہ بھی دوا کب کام کرتی ہے، جب، پہلے 9-10 دن میں دی جاتی ہے اور یہ پانچ ہی دن دینی پڑتی ہے، تو یہ لوگ جو دوڑ رہے ہیں ریمڈیسیویر کے پیچھے یہ بالکل دوڑنا نہیں چاہیئے ۔ یہ دواکا تھوڑا کام ہے، جن کو آکسیجن لگتی ہے، زندگی بخشنے والی آکسیجن لگتی ہے، جو اسپتال میں بھرتی ہوتے ہیں اور ڈاکٹر جب بتاتے ہیں تبھی لینا چاہیئے ۔ تو سب لوگوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ ہم پرانایام کریں گے، ہمارےجسم میں جو پھیپھڑے ہیں انہیں تھوڑا کشادہ کریں گے اور جو ہمارے خون کو پتلا کرنے والی انجکشن ہے جس کو ہم ہیپارین (heparin) کہتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی دوائیں دیں گے تو 98 فیصد لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں، اس لیے پازیٹو رہنا بہت ضروری ہے ۔علاج کا پروٹوکول ڈاکٹروں کی صلاح سے لینا بہت ضروری ہے ۔ اور یہ جو مہنگی مہنگی دوائیں ہیں ، اسکے پیچھے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سر، اپنے پاس بہتر علاج ہو رہا ہے ، زندگی بخشنے والی آکسیجن ہے وینٹیلٹر کی بھی سہولت ہے ، سب کچھ ہے سر، اور کبھی کبھی یہ دوائیں اگر مل جاتی ہیں تو اہل لوگوں میں ہی دینی چاہیے ، تو اس کے لیے بھرم پھیلا ہوا ہے اور اس لیے یہ وضاحت دینا چاہتا ہوں سر کہ اپنے پاس دنیا کا سب سے بہترین علاج دستیاب ہے آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں سب سے اچھی صحت یابی کی شرح ہے ۔ آپ اگر موازنہ کریں گے یورپ کے لیے، امریکہ وہیں سے ہمارے یہاں کے علاج کے پروٹوکول سے مریض ٹھیک ہو رہے ہیں سر ۔
مودی جی - ڈاکٹر ششانک آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ڈاکٹر ششانک نے جو جانکاریاں ہمیں دیں، وہ بہت ضروری ہیں اور ہم سب کے کام آئیں گی۔
ساتھیو، میں آپ سب سے گذارش کرتا ہوں،، آپ کو اگر کوئی بھی جانکاری چاہیئے ہو، کوئی اور ضرورت ہو، تو سہی حوالے سے ہی جانکاری لیں ۔ آپکے جو فیملی ڈاکٹر ہوں ، آس پاس کے جو ڈاکٹرس ہوں، آپ ان سے فون سے رابطہ کرکے صلاح لیجیے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے ڈاکٹر خود بھی یہ ذمہ داری اٹھا رہے ہیں ۔ کئی ڈاکٹر سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو جانکاری دے رہے ہیں۔ فون پر، واٹس اپ پرمشورے دے رہے ہیں ۔ کئی ہاسپٹل کی ویب سائٹیں ہیں، جہاں جانکاریاں بھی دستیاب ہیں، اور وہاں آپ ڈاکٹروں سے،صلاح و مشورہ بھی لے سکتے ہیں ۔ یہ بہت قابل تحسین ہے ۔
میرے ساتھ سرینگر سے ڈاکٹر نوید نذیر شاہ جڑ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر نوید سرینگر کے ایک گورنمنٹ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں ۔ نوید جی اپنی نگہداشت میں متعدد کورونا مریضوں کو ٹھیک کر چکے ہیں اور رمضان کے اس مقدس مہینے میں ڈاکٹر نوید اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اور، انہوں نے ہم سے بات چیت کے لیے وقت بھی نکالا ہے ۔ آئیے انہیں سے بات کرتے ہیں ۔
مودی جی – نوید جی نمسکار ۔
ڈاکٹر نوید – نمسکار سر ۔
ڈاکٹر نوید ‘من کی بات’ کے ہمارے سامعین نے اس مشکل گھڑی میں panic management کا سوال اٹھایا ہے ۔ آپ اپنے تجربہ سے انہیں کیا جواب دیں گے ؟
ڈاکٹر نوید – دیکھیے جب کو رونا شروع ہوا تو کشمیر میں جو سب سے پہلا hospital designate ہوا کووڈ ہاسپٹل کے طور پر تو وہ ہمارا سٹی ہاسپٹل تھا ۔ جو میڈیکل کالج کے ماتحت ہے تو اس وقت ایک خوف کا ماحول تھا ۔ لوگو میں تو تھا ہی وہ سمجھتے تھے شاید کووڈ انفیکشن اگر کسی کو ہو جاتا ہے تو سزائے موت مانا جائے گا یہ ، اور ایسے میں ہمارے ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان یا نیم طبی عملے کام کرتے تھے، ان میں بھی ایک خوف کا ماحول تھا کہ ہم ان مریض کا کیسے سامنا کریں گے ہمیں انفیکشن ہونے کا خطرہ تو نہیں ہے۔ لیکن جو وقت گذرا ہم نے بھی دیکھا کہ اگر پورے طریقے سے ہم جو protective gear پہنے احتیاطی تدابیر جو ہے، ان پر عمل کریں تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہمارا جو باقی عملہ ہے وہ بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور آگے آگے ہم دیکھتے گئے مریض یا کچھ لوگ بیمار تھے جو asymptomaticتھے جن میں بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ہم نے دیکھا تقریبا 90-95 فیصد سے زیادہ جو مریض ہیں وہ بغیر دواؤں کے بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وقت جیسے گزرتا گیا لوگوں میں جو کو رونا کا ایک ڈر تھا وہ بہت کم ہو گیا ۔ آج کی بات جو یہ second wave جو اس ٹائم ہماری آئی ہے اس کو رونا میں اس ٹائم بھی ہمیں panic ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس موقع پر جو بھی احتیاطی تدابیر ہیں ، جو SOPs ہے اگر ان پر ہم عمل کریں گے جیسے ماسک پہننا، hand sanitizer کا استعمال کرنا، اسکے علاوہ جسمانی دوری برقرار رکھنا یا سماجی اجتماع سے اجتناب کریں تو ہم اپنے روزمرہ کا کام بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور اس بیماری سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں ۔
مودی جی - ڈاکٹر نوید ویکسین کے بارے میں بھی لوگوں کے کئی سوال ہیں، جیسے کہ ویکسین سے کتنی حفاظت ملے گی، ویکسین کے بعد کتنا مطمئن رہ سکتے ہیں ؟ آپ کچھ بات اس کے بارے میں بتائیں سامعین کو بہت فائدہ پہنچے گا ۔
ڈاکٹر نوید – جب کو رونا کا انفیکشن سامنے آیا تب سے آج تک ہمارے پاس کووڈ 19 کے لیے کوئی مؤثر علاج دستیاب نہیں ہے، تو ہم اس بیماری کا مقابلہ دو ہی چیزوں سے کر سکتے ہیں ایک توحفاظتی تدابیر اور ہم پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی مؤثر ویکسین ہمارے پاس آئے تو وہ ہمیں اس بیماری سے نجات دلا سکتا ہے اور ہمارے ملک میں دو ویکسین اس وقت دستیاب ہے، Covaxin and Covishield ہے جو یہیں بنی ہوئی ویکسین ہے ۔ اور کمپنیوں نے بھی جو اپنا تجربہ کیا ہے تو اس میں بھی دیکھا گیا ہے کہ اسکی اثر انگیزی 60 فیصد سے زیادہ ہے، اور اگر ہم، جموں کشمیر کی بات کریں تو مرکز کے زیر انتظام ہماری ریاست میں ابھی تک 15 سے 16 لاکھ تک لوگوں نے ابھی یہ ویکسین لگائی ہے ۔ ہاں سوشل میڈیا میں اس کے بارے میں کافی misconception یا myths ہیں، اس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے side effect ہیں، ابھی تک یہاں جو بھی ویکسین لگے ہیں کوئی side effect میں نہیں پایا گیا ہے ۔ صرف، جو، عام vaccine کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، کسی کو بخار آنا، پورے بدن میں درد یا جہاں پر انجکشن لگتا ہے وہاں پر درد ہونا ایسے ہی side effects ہم نے ہر مریض میں دیکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی adverse effect ہم نے نہیں دیکھا ہے ۔ اور ہاں دوسری بات لوگوں میں یہ بھی شکوک و شبہات تھے کہ کچھ لوگ ٹیکہ کاری یعنی ویکسین لینے کے بعد پازیٹو ہو گئے اس میں کمپنیوں سے ہی گائیڈ لائن ہے کہ اس میں اگر کسی کو ٹیکہ لگا ہے ، اسکے بعد اس میں انفیکشن ہو سکتا ہے وہ پازیٹو ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو بیماری کی شدت ہے، یعنی بیماری کی شدت جو ہے، ان مریض میں، اتنی نہیں ہوگی یعنی کی وہ پازیٹو ہو سکتے ہیں لیکن جو بیماری ہے وہ ایک جان لیوا بیماری ان میں ثابت نہیں ہو سکتی، اسلئے جو بھی یہ misconception ہیں ویکسین کے بارے میں وہ ہمیں دماغ سے نکال دینا چاہیئے اور جس جس کی باری آئے کیونکہ یکم مئی سے ہمارے پورے ملک میں جو بھی 18 سال سے زیادہ کی عمر کا ہے انکو ویکسین لگانے کا پروگرام شروع ہوگا تو لوگوں سے اپیل یہی کریں گےکہ آپ ویکسین لگوائیں اور اپنے آپ کو بھی محفوظ رکھیں کریں اور مجموعی طور پر ہماری سوسائٹی اور ہماری کمیونٹی اس سے محفوظ رہے گی کووڈ 19 کے انفیکشن سے ۔
مودی جی - ڈاکٹر نوید آپ کا بہت بہت شکریہ ، اور آپ کو رمضان کے مقدس مہینے کی بہت بہت مبارکباد ۔
ڈاکٹر نوید – بہت بہت شکریہ۔
مودی جی : ساتھیو، کو رونا کے اس بحران میں ویکسین کی اہمیت سبھی کو پتہ چل رہی ہے، اسلئے، میری گذارش ہے کہ ویکسین کے بارے میں کسی افواہ پر دھیان نہ دیں ۔ آپ سبھی کو معلوم بھی ہوگا کہ حکومت ہند کی طرف سے تمام ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین بھیجی گئی ہے جس کافائدہ 45 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگ اٹھا سکتے ہیں ۔ اب تو یکم مئی سے ملک میں 18 سال سے زیادہ کی عمر کے ہر فرد کے لیے ویکسین دستیاب ہونے والی ہے ۔ اب ملک کا کارپوریٹ سیکٹر, کمپنیاں بھی اپنے کرمچاریوں کو ویکسین لگانے کی مہم شرکت کر پائیں گی۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے مفت ویکسین کا جوپروگرام ابھی چل رہا ہے، وہ، آگے بھی چلتا رہیگا ۔ میری ریاستوں سے بھی گذارش ہے، کہ، وہ حکومت ہند کی اس مفت ویکسین مہم کا فائدہ اپنی ریاست کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایں ۔
ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ بیماری میں ہمارے لیے اپنی، اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا، ذہنی طور پر کتنا مشکل ہوتا ہے، لیکن، ہمارے اسپتالوں کے نرسنگ اسٹاف کو تو، یہی کام، لگاتار، کتنے ہی مریضوں کے لیے ایک ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ یہ خدمت کا جذبہ ہمارے سماج کی بہت بڑی طاقت ہے ۔نرسنگ اسٹاف کے ذریعہ کی جا رہی خدمات اور جانفشانی کے بارے میں، سب سے اچھا تو کوئی نرس ہی بتا سکتی ہے ۔ اسلئے میں نے رائے پور کے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر میڈیکل کالج ہاسپٹل میں اپنی خدمات سر انجام دے رہیں sister بھاونا دھرو جی کو ‘من کی بات’ میں مدعو کیا ہے، وہ،متعدد کو رونا مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں ۔ آئیے ! ان ہی سے بات کرتے ہیں –
مودی جی:- نمسکار بھاونا جی !
بھاونا:- معزز وزیر اعظم صاحب ، نمسکار !
مودی جی:- بھاونا جی۔۔۔
بھاونا:- یس سر
مودی جی:- ‘من کی بات’ سننے والوں کو آپ ضرور یہ بتائیےکہ آپکے کنبے میں اتنی ساری ذمہ داریاں یعنی multitask اور اسکے بعد بھی آپ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔ کو رونا کے مریضوں کے ساتھ آپ کا جو تجربہ رہا، وہ ضرور ہم وطن سننا چاہیں گے کیونکہ sister جو ہوتی ہے، نرسیں جو ہوتی ہیں، مریض کے سب سے قریب ہوتی ہیں اور سب سے طویل وقت تک ہوتی ہیں تو وہ ہر چیز کو بڑی باریکی سے سمجھ سکتی ہیں جی بتائیے ۔
بھاونا:- جی سر، میرا total experience کووڈ میں سر، دو مہینے کا ہے سر ۔ ہم 14 دنوں کی ڈیوٹی کرتے ہیں اور 14 دنوں کے بعد ہمیں rest دیا جاتا ہے ۔ پھر 2 مہینے بعد ہماری یہ کووڈ کی ڈیوٹی دوبارہ ہوتی ہے سر ۔ جب سب سے پہلے میری کووڈ کی ڈیوٹی لگی تو سب سے پہلے میں اپنےفیملی کے لوگوں کو کووڈ ڈیوٹی کی بات شیئر کی ۔ یہ مئی کی بات ہے اور میں، یہ، جیسے ہی میں نے شیئر کیا سب کے سب ڈر گئے، گھبرا گئے مجھ سے، کہنے لگے کہ بیٹا ٹھیک سے کام کرنا، ایک جذباتی صورتحال تھی سر ۔ درمیان میں جب، میری بیٹی مجھ سے پوچھی، ممی آپ کووڈ ڈیوٹی پر جا رہی ہیں تو اس وقت بہت ہی زیادہ میرے لیے جذباتی لمحہ تھا، لیکن، جب میں کووڈ کے مریض کے پاس گئی تو میں ایک ذمہ داری گھر میں چھوڑ کر گئی اور جب میں کووڈ کے مریض سے ملی سر، تو وہ ان سے اور زیادہ گھبرایے ہوئے تھے، کووڈ کے نام سے سارے مریض اتنا ڈرے ہوئے تھے سر، کہ، انکو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہم آگے کیا کریں گے ۔ ہم انکے ڈر کو دور کرنے کے لیے ان کو بہت اچھے سے دوستانہ ماحول دیا ، سر ، انہیں ۔ ہمیں جب یہ کووڈ ڈیوٹی کرنے کو کہا گیا تو سر سب سے پہلے ہم کو پی پی ای کٹ پہننے کے لیے کہا گیا سر، جو کہ بہت ہی مشکل ہے، پی پی ای کٹ پہن کر ڈیوٹی کرنا ۔ سر یہ بہت ہی مشکل تھا ہمارے لیے، میں نے دو مہینے کی ڈیوٹی میں ہر جگہ 14-14 دن ڈیوٹی کی وارڈ میں، آئی سی یو میں، آئسولیشن میں سر ۔
مودی:- یعنی کل ملا کر تو آپ ایک سال سے اسی کام کو کر رہی ہیں ۔
بھاونا: یس سر، وہاں جانے سے پہلے مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے colleagues کون ہے ۔ ہم نے ایک ٹیم ممبر کی طرح کام کیا سر، ان کی جو بھی مشکلیں تھیں ، انکو شیئر کیا ، ہم نے مریض کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور انکا stigma دور کیاسر، کئی لوگ ایسے تھے سر جو کووڈ کے نام سے ہی ڈرتے تھے ۔ وہ ساری علامتیں ان میں تھیں جب ہم history لیتے تھے ان سے، لیکن وہ ڈر کے باعث اپنا ٹیسٹ نہیں کروا پاتے تھے، تو ہم انکو سمجھاتے تھے، اور سر، جب شدت بڑھ جاتی تھی تب ان کا پھیپھڑا متاثر ہو چکا ہوتا تھا تب انکو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی تھی تب وہ آتے تھے اور ساتھ میں انکی پوری فیملی آتی تھی ۔ تو ایسا 1-2 معاملہ ہم نے دیکھا سر اور ایسا بھی نہیں کہ ہر ایک age group کے ساتھ کام کیا سر ہم نے ۔جس میں چھوٹے بچے تھے، خواتین، مرد ، بزرگ، ہر طرح کے مریض تھے سر ۔ ان سب سے ہم نے بات کی تو سب نے کہا کہ ہم ڈر کی وجہ سے نہیں آ پاے، سب کا یہی جواب ہمیں ملا سر ۔ تو ہم انکو سمجھائے سر، کہ، ڈر کچھ نہیں ہوتا ہے آپ ہمارا ساتھ دیجیے ہم آپ کا ساتھ دینگے بس آپ جو بھی پروٹول ہے اس پر عمل کیجیے بس ہم اتنا ان سے کر پاے سر ۔
مودی جی:- بھاونا جی، مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، آپ نے کافی اچھی جانکاریاں دی ہیں ۔ اپنے خود کے تجربے پیش کئے ہیں ، تو ضرور ہم وطنوں میں اس سے ایک اثباتیت کا پیغام پہنچے گا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ بھاونا جی!
بھاونا:- Thank you so much sir... Thank you so much... جے ہند سر ۔
مودی جی:- جے ہند
بھاونا جی اور Nursing Staff کے آپ جیسے ہزاروں لاکھوں بھائی بہن بخوبی اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ یہ ہم سبھی کے لیے بہت بڑی ترغیب ہے ۔ آپ اپنی صحت پر بھی خوب دھیان دیجیے ۔ اپنے پریوار کا بھی دھیان رکھیے ۔
ساتھیو، ہمارے ساتھ، اس وقت مینگلورو سے Sister سریکھا جی بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ سریکھا جی K.C. General Hospital میں Senior Nursing Officer ہیں ۔ آئیے ! انکے تجربات بھی جانتے ہیں –
مودی جی:- نمستے سریکھا جی !
सुरेखा:- I am really proud and honoured sir to speak to Prime Minister of our country.
Modi ji:-Surekha ji, you along with all fellow nurses and hospital staff are doing excellent work. India is thankful to you all. What is your message for the citizens in this fight against COVID-19.
Surekha:- Yes sir... Being a responsible citizen I would really like to tell something like please be humble to your neighbors and early testing and proper tracking help us to reduce the mortality rate and moreover please if you find any symptoms isolate yourself and consult nearby doctors and get treated as early as possible. So, community need to know awareness about this disease and be positive, don’t be panic and don’t be stressed out. It worsens the condition of the patient. We are thankful to our Government proud to have a vaccine also and I am already vaccinated with my own experience I wanted to tell the citizens of India, no vaccine provides 100% protection immediately. It takes time to build immunity. Please don’t be scared to get vaccinated. Please vaccinate yourself; there is a minimal side effects and I want to deliver the message like, stay at home, stay healthy, avoid contact with the people who are sick and avoid touching the nose, eyes and mouth unnecessarily. Please practice physically distancing, wear mask properly, wash your hands regularly and home remedies you can practice in the house. Please drink Ayurvedic Kadha (आयुर्वेदिक काढ़ा), take steam inhalation and mouth gargling everyday and breathing exercise also you can do it. And one more thing last and not the least please have a sympathy towards frontline workers and professionals. We need your support and co-operation. We will fight together. We will get through with the pandemic. This is what my message to the people sir.
Modi ji:- Thank you Surekha ji.
Surekha:- Thank you sir.
سریکھا جی، واقعی، آپ بہت مشکل گھڑی میں مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ آپ اپنا دھیان رکھیے ! آپکے پریوار کو بھی میری بہت بہت نیک خواہشات ہیں ۔ میں، ملک کے لوگوں سے بھی اپیل کرونگا کہ جیسے بھاونا جی، سریکھا جی نے، اپنے تجربات کا اظہار کیا ہے ۔ کو رونا سے لڑنے کے لیے مثبت جذبہ بہت زیادہ ضرری ہے اور ہم وطنوں کو اسے بنائے رکھنا ہے ۔
ساتھیو، ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کے ساتھ ساتھ اس وقت Lab-Technicians اور Ambulance Drivers جیسے Frontline Workers بھی بھگوان کی طرح ہی کام کر رہے ہیں ۔ جب کوئی Ambulance کسی مریض تک پہنچتی ہے تو انہیں Ambulance Driver دیودوت جیسا ہی لگتا ہے ۔ ان سب کی خدمات کے بارے میں، انکےاحساسات کے بارے میں، ملک کو ضرور جاننا چاہیئے ۔ میرے ساتھ ابھی ایسے ہی ایک شخص ہیں – شریمان پریم ورما جی، جو کہ ایک Ambulance Driver ہیں، جیسا کہ انکے نام سے ہی پتہ چلتا ہے ۔ پریم ورما جی اپنے کام کو، اپنے فرض کو، پورے پریم اور لگن سے کرتے ہیں ۔ آئیے ! ان سے بات کرتے ہیں –
مودی جی – نمستے پریم جی ۔
پریم جی – نمستے سر جی ۔
مودی جی – بھائی ! پریم ۔
پریم جی – ہاں جی سر ۔
مودی جی – آپ اپنے کام کے بارے میں ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – ذرا تفصیل سے بتائیے ۔ آپ کا جو تجربہ ہے، وہ بھی بتائیے ۔
پریم جی – میں CATS Ambulance میں driver کی post پر ہوں، اور جیسے ہی Control ہمیں ایک tab پر call دیتا ہے ۔ 102 سے جو call آتی ہے ہم move کرتے ہیں patient کے پاس ۔ ہم patient کی طرف جاتے ہیں، انکے پاس، تو دو سال سے ہم مسلسل کر رہے ہیں یہ کام ۔ اپنا کٹ پہن کر، اپنےماسک، دستانہ پہن کرمریض کو، جہاں وہ drop کرنے کے لیے کہتے ہیں، جو بھی ہاسپیٹل میں، ہم جلدی سے جلدی انکو drop کرتے ہیں ۔
مودی جی – آپ کو تو ویکسین کی دونوں dose لگ گئی ہوں گی ۔
پریم جی – بالکل سر ۔
مودی جی – تو دوسرے لوگوں کو ویکسین vaccine لگوائیں ۔ اسکے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ؟
پریم جی – سر بالکل ۔ سبھی کو یہ dose لگوانا چاہیئے اور اچھی ہی ہے family کے لیے بھی ۔ اب مجھے میری ممی کہتی ہیں یہ نوکری چھوڑ دو ۔ میں نے بولا، ممی، اگر میں بھی نوکری چھوڑ کر بیٹھ جاؤنگا تو سب اور patient کو کیسے کون چھوڑنے جائیگا ؟ کیونکہ سب اس کورونا کال میں سب بھاگ رہے ہیں ۔ سب نوکری چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ممی بھی مجھے بولتی ہیں کہ بیٹا وہ نوکری چھوڑ دے ۔ میں نے بولا نہیں ممی میں نوکری نہیں چھوڑوں گا ۔
مودی جی – پریم جی ماں کو دکھی مت کرنا ۔ ماں کو سمجھانا ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – لیکن یہ جو آپ نے ماں والی بات بتائی نا
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – یہ بہت ہی چھونے والی ہے ۔
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – آپکی ماتا جی کو بھی ۔
پریم جی – ہاں جی ۔
مودی جی – میرا پرنام کہئے گا ۔
پریم جی – بالکل
مودی جی – ہاں
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – اور پریم جی میں آپ کے ذریعہ
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – یہ ambulance چلانے والے ہمارے driver بھی
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – کتنا بڑا risk لے کر کام کر رہے ہیں ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – اور ہر ایک کی ماں کیا سوچتی ہے ؟
پریم جی – بالکل سر
مودی جی – یہ بات جب سامعین تک پہنچے گی
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – میں ضرور مانتا ہوں، کہ ان کے بھی دل کو چھو جائیگی ۔
پریم جی – ہاں جی
مودی جی – پریم جی بہت بہت شکریہ ۔ آپ ایک طرح سے پریم کی گنگا بہا رہے ہیں ۔
پریم جی – شکریہ سر جی
مودی جی – شکریہ بھیا
پریم جی – شکریہ ۔
ساتھیو، پریم ورما جی اور ان جیسے ہزاروں لوگ، آج اپنی زندگی داو پر لگاکر، لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں ۔ کو رونا کے خلاف اس لڑائی میں جتنی بھی زندگی بچ رہی ہے اس میں Ambulance Drivers کا بھی بہت بڑی خدمت ہے ۔ پریم جی آپ کو اور ملک بھر میں آپ کے سبھی ساتھیوں کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، ۔ آپ وقت پر پہنچتے رہیے، زندگی بچاتے رہیے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ صحیح ہے کہ، کو رونا سے بہت لوگ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن، کو رونا سے ٹھیک ہونے والے لوگوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہے ۔ گروگرام کی پریتی چترویدی جی نے بھی حال ہی میں کو رونا کو ہرایا ہے۔ پریتی جی ‘من کی بات’ میں ہمارے ساتھ جڑ رہی ہیں۔ انکے تجربات ہم سب کےلیے بہت کام آئیں گی ۔
مودی جی – پریتی جی نمستے
پریتی – نمستے سر ۔ کیسے ہیں آپ ؟
مودی جی – میں ٹھیک ہوں، جی ۔ سب سے پہلے تو میں آپ کی کووڈ 19 سے
پریتی – جی
مودی جی – کامیابی کے ساتھ لڑنے کے لیے
پریتی – جی
مودی جی – ستائش کروں گا
پریتی – Thank you so much sir
مودی جی – میری تمنا ہے آپ کی صحت اور تیزی سے بہتر ہو ۔
پریتی – جی شکریہ سر
مودی جی – پریتی جی
پریتی –ہاں جی سر
مودی جی –پوری لہر میں صرف آپ ہی کا نمبر لگا ہے کہ خاندان دیگر لوگ بھی اس میں پھنس گئے ہیں ۔
پریتی – نہیں نہیں سر میں اکیلی ہی ہوئی تھی ۔
مودی جی – چلیے بھگوان کی کرپا رہی ۔ اچھا میں چاہونگا
پریتی – ہاں جی سر ۔
مودی جی –آپ اپنی اس تکلیف کی صورتحال کے کچھ تجربات اگر شیئر کریں تو شاید جو سامعین ہیں انکو بھی ایسے وقت میں کیسے اپنے آپ کو سنبھالنا چاہیئے اس کی رہنمائی ملے گی ۔
پریتی – جی سر، ضرور ۔ سر initially stage میں میرے کو بہت زیادہ lethargy, مطلب بہت سستی سستی آئی اور اسکے بعد نا میرے گلے میں تھوڑی سی خراش ہونے لگی ۔ تو اسکے بعد تھوڑا سا مجھے لگا کہ یہ علامت ہے تو میں نے جانچ کے لیے ٹیسٹ کرایا ۔ دوسرے دن report آتے ہی جیسے ہی مجھے positive ہوا، میں نے اپنے آپ کو quarantine کر لیا ۔ ایک Room میں isolate کرکےdoctors سے رابطہ کیا میں نے سے ۔ انکی medication start کر دی ۔
مودی جی – تو آپ کا پریوار بچ گیا آپکےفوری اقدام کی وجہ سے ۔
پریتی – جی سر ۔ وہ باقی سب کا بھی بعد میں کرایا تھا ۔ باقی سب negative تھے ۔ میں ہی positive تھی ۔ اس سے پہلے میں نے اپنے آپ کو isolate کر لیا تھا ایک room کے اندر ۔ اپنی ضرورت کا سارا سامان رکھ کر اسکو میں اپنے آپ اندر کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ میں نے پھر ڈاکٹر کے ساتھ medication start کر دی ۔ سر میں نے medication کے ساتھ ساتھ ، یوگا، آیورویدک، اور، میں یہ سب start کیا اور ساتھ میں ، میں نے، کاڑھا بھی لینا شروع کر دیا تھا ۔ قوت مدافعت بہتر کرنے کے لیے اور سر میں دن میں مطلب جب بھی کھانا کھاتی تھی ، اس میں میں نے healthy food جو کہ protein rich diet تھی، وہ لیا میں نے ۔ میں نے بہت سارا fluid لیا میں نے steam لیا gargle کیا اور hot water لیا ۔ میں نے دن بھر میں ان سب چیزوں کو ہی اپنی زندگی میں لیتی آئی روزانہ ۔ اور سر ان دنوں میں نا، سب سے بڑی بات میں بولنا چاہونگی گھبرانا تو بالکل نہیں ہے ۔ ذہنی طور پر بہت مضبوط رہنا ہے جسکے لیے مجھے یوگا نے بہت زیادہ، breathing exercise کرتی تھی اچھا لگتا تھا اسکو کرنے سے مجھے ۔
مودی جی – ہاں ۔ اچھا پریتی جی جب آپ کا process پورا ہو گیا ۔ آپ بحران سے باہر نکل آئیں ۔
پریتی – ہاں جی
مودی جی – اب آپ کا test بھی negative آ گیا ہے ۔
پریتی – ہاں جی سر
مودی جی – تو پھر آپ اپنی صحت کے لیے اسکی دیکھ بھال کے لیے ابھی کیا کر رہی ہیں ؟
پریتی – سر میں نے ایک تو یوگابند نہیں کیا ہے ۔
مودی جی – ہاں
پریتی – ٹھیک ہے میں نے کاڑھا ابھی بھی لے رہی ہوں، اور اپنی قوت مدافعت برقرار رکھنے کے لیے میں اچھا healthy food کھا رہی ہوں، ابھی ۔
مودی جی – ہاں
پریتی – جو کہ میں بہت اپنے آپ کونظر انداز کرتی تھی اس پر بہت دھیان دے رہی ہوں، میں ۔
مودی جی – شکریہ پریتی جی ۔
پریتی – Thank you so much sir.
مودی جی – آپ نے جو جانکاری دی مجھے لگتا ہے یہ بہت سارے لوگوں کے کام آئے گی ۔ آپ صحت مند رہیں، آپ کنبے کے لوگ صحت مند رہیں، میری جانب سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ۔
میرے پیارے ہم وطنو، جیسے آج ہمارے طبی شعبہ کے لوگ، صف اول کے کارکنان دن رات خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ ویسے ہی سماج کے دیگر لوگ بھی، اس وقت پیچھے نہیں ہیں ۔ ملک ایک بار پھرمتحد ہوکر کو رونا کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے ۔ ان دنوں میں دیکھ رہا ہوں، کوئی قرنطینہ میں رہ رہے کنبوں کے لیے دوا پہنچا رہا ہے، کوئی، سبزیاں ، دودھ، پھل وغیرہ پہنچا رہا ہے۔ کوئی ایمبولینس کی مفت خدمات مریضوں کو دے رہا ہے ۔ ملک کے الگ الگ گوشے میں اس چیلنج سے بھرپور گھڑی میں بھی اپنی مدد آپ تنظیمیں آگے آکر دوسروں کی مدد کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس بار، گاؤوں میں بھی نئی بیداری دیکھی جا رہی ہے ۔ کووڈ ضابطوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے لوگ اپنے گاؤں کی کو رونا سے حفاظت کر رہے ہیں، جو لوگ، باہر سے آ رہے ہیں انکے لیے صحیح انتظامات بھی کی جا رہی ہیں ۔ شہروں میں بھی کئی نوجوان سامنے آئے ہیں، جو اپنے علاقوں میں، کو رونا کے معاملے نہ بڑھیں ، اسکے لیے، مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں، یعنی ایک طرف ملک ، دن رات اسپتالوں، Ventilators اور دوائیوں کے لیے کام کر رہا ہے، تو دوسری جانب ، ہم وطن بھی، جی جان سے کو رونا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ جذبہ ہمیں کتنی طاقت دیتا ہے، کتنا اعتماد پیدا کرتا ہے ۔ یہ جو بھی کوشش ہو رہی ہے ، سماج کی بہت بڑی خدمت ہے ۔ یہ سماج کی طاقت شکتی بڑھاتی ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ کی پوری بات چیت کو ہم نے کو رونا وبا کے لیے ہی مخصوص رکھا، کیونکہ، آج، ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس بیماری کو ہرانا ۔ آج بھگوان مہاویر جینتی بھی ہے ۔ اس موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کونیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ۔ بھگوان مہاویر کے پیغام ، ہمیں، حوصلہ اور خود اعتمادی کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ابھی رمضان کا مقدس مہینہ بھی چل رہا ہے ۔ آگے بدھ پورنما بھی ہے ۔ گرو تیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے ۔ ایک اہم دن پوچشے بوئی شاک - ٹیگور جینتی کا ہے ۔ یہ سبھی ہمیں ترغیب دیتے ہیں اپنے فرائض کی انجام دہی کی ۔ ایک شہری کے طور پر ہم اپنی زندگی میں جتنی مہارت سے اپنے فرائض انجام دیں گے ، بحران سے نکل کر مستقبل کے راستے پر اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھیں گے ۔ اسی تمنا کے ساتھ میں آپ سبھی سے ایک بار پھر اپیل کرتا ہوں، کہ ویکسین ہم سب کو لگوانا ہے اور پوری احتیاط بھی برتنی ہے ۔ ‘دوائی بھی - کڑائی بھی’ ۔ اس منتر کو کبھی بھی نہیں بھولنا ہے ۔ ہم جلد ہی ساتھ مل کر اس آفت سے باہر آئیں گے ۔ اسی امید کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ ۔ نمسکار ۔
نئی دہلی۔ 28 مارچ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! اس بار، جب میں،‘من کی بات’ کے لیے، جو بھی خطوط آتے ہیں،تبصرے آتے ہیں، مختلف قسم کی جانکاری ملتی ہیں، جب انکی طرف نظر دوڑا رہا تھا، تو کئی لوگوں نے ایک بہت ہی اہم بات یاد کی۔مائی گو پر آرین شری، بینگلورو سے انوپ راؤ، نوئیڈا سے دیویش، تھانے سے سجیت، ان سبھی نے کہا – مودی جی اس بار ‘من کی بات’ کی 75ویں ہے، اسکے لیے آپ کو مبارکباد ۔ میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے اتنی باریک بینی سے ‘من کی بات’ کو سنتے رہے ہیں اور آپ جڑے رہے ہیں۔ یہ میرے لیے بہت ہی فخر کا باعث ہے، خوشی کا باعث ہے۔ میری طرف سے بھی، آپ سبھی کو مبارکباد، ‘من کی بات’ کے سبھی سامعین کا شکر گزار ہوں ، کیونکہ آپ کے ساتھ کے بغیر یہ سفر ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے، جیسے یہ کل کی ہی بات ہو، جب ہم سبھی نے ایک ساتھ مل کر یہ فکری سفر کا آغاز کیا تھا۔ تب 3 اکتوبر، 2014 کو وجے دشمی کا مقدس تہوار تھا اور اتفاق دیکھیے، کہ آج، ہولیکا دہن ہے۔ ‘ایک دیپ سے جلے دوسرا اور ملک روشن ہو ہمارا’ – اس جذبے کے ساتھ چلتے چلتے ہم نے یہ راستہ طے کیا ہے۔ ہم لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے لوگوں سے بات کی اور ان کے غیر معمولی کارناموں کے بارے میں جانا۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا، ہمارے ملک کے دور دراز کے علاقوں میں بھی، کتنی بے مثال صلاحیت موجود ہے۔ بھارت ماں کی گود میں، کیسے کیسے رتن پل رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بھی ایک سماج کے تئیں دیکھنے کا، سماج کو جاننے کا، سماج کی صلاحیت کو پہچاننے کا، میرے لیے تو ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ان 75 قسطوں کے دوران کتنے کتنے موضوعات سے گزرنا ہوا۔ کبھی ندی کی بات تو کبھی ہمالیہ کی چوٹیوں کی بات، تو کبھی ریگستان کی بات، کبھی قدرتی آفات کی بات، تو کبھی انسانی خدمات بے شمار کہانیوں کا احساس ، کبھی ٹکنالوجی کی ایجاد، تو کبھی کسی انجان گوشے میں، کچھ نیا کر کےدکھانے والے کسی کے تجربہ کی کہانی ۔ اب آپ دیکھیے، کیا صفائی کی بات ہو، چاہے ہماری وراثت کو سنبھالنے کا ذکر ہو، اور اتنا ہی نہیں، کھلونے بنانے کی بات ہو، کیا کچھ نہیں تھا۔ شاید، کتنے موضوعات پرہم نے بات کی ہے تو وہ بھی شاید بے شمار ہو جائیں گے۔ اس دوران ہم نے وقفے وقفے سے عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کی، انکے بارے میں جانا، جنہوں نے ہندوستان کی تعمیر میں بے نظیر خدمات پیش کی ہیں۔ ہم لوگوں نے کئی عالمی امور پر بھی بات کی، ان سے تحریک لینے کی کوشش کی ہے۔ کئی باتیں آپ نے مجھے بتائی، کئی آئیڈیاز دیے،۔ ایک طرح سے، اس فکری سفر میں، آپ، ساتھ ساتھ چلتے رہے، جڑتے رہے اور کچھ نہ کچھ نیا جوڑتے بھی رہے۔ میں آج، اس 75ویں قسط کے موقع پر سب سے پہلے ‘من کی بات’ کو کامیاب بنانے کے لیے، خوشگوار بنانے کے لیے اور اس سے جڑے رہنے کے لیے ہر سامع کا بہت بہت شکر گزار ہوں،۔
میرے پیارے ہم وطنو، دیکھیے یہ کیسا حسن اتفاق ہے آج مجھے 75ویں ‘من کی بات’ کا موقع ملا اور یہی مہینہ آزادی کے 75 سال کے ‘امرت مہوتسو’کے آغاز کا مہینہ۔ امرت مہوتسو ڈانڈی یاترا کے دن سے شروع ہوا تھا اور 15 اگست 2023 تک چلےگا۔‘امرت مہوتسو’ سے منسلک پروگرام پورے ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں، الگ الگ جگہوں سے ان پروگراموں کی تصویریں، جانکاریاں لوگ شیئر کر رہے ہیں۔نمو ایپ پر ایسی ہی کچھ تصویروں کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے نوین نے مجھے ایک پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ‘امرت مہوتسو’ کے پروگرام دیکھے اور طے کیا کہ وہ بھی جد وجہد آزادی سے جڑے کم سے کم 10 مقامات پر جائیں گے۔ ان کی فہرست میں پہلا نام، بھگوان برسا منڈا کے جائے پیدائش کا ہے۔ نوین نے لکھا ہے کہ جھارکھنڈ کے قبائلی مجاہدین آزادی کی کہانیاں وہ ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائیں گے۔ بھائی نوین، آپکی سوچ کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، کسی مجاہدین آزادی کی جد و جہد کی داستان ہو، کسی جگہ کی تاریخ ہو، ملک کی کوئی ثقافتی کہانی ہو، ‘امرت مہوتسو’ کے دوران آپ اسے ملک کے سامنے لا سکتے ہیں، ہم وطنوں کو اس سے جوڑ نے کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔آپ دیکھئے گا، دیکھتے ہی دیکھتے ‘امرت مہوتسو’ ایسے بہت سے قابل ترغیب امرت سے بھر جائے گا، اور پھر امرت کی ایسی دھارا بہے گی جو ہمیں ہندوستان کی آزادی کی سو سال تک ترغیب دے گی۔ ملک کو نئی بلندی پر لے جائے گی، کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے گی۔ آزادی کے لڑائی میں ہمارے مجاہدین نے کتنے ہی تکلیف اسلئے برداشت کیے ، کیونکہ، وہ ملک کے لیے قربانی کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی قربانی کی لازوال داستانیں اب ہمیں مسلسل فرائض کی ادائیگی کے لیے راغب کرے اور جیسے گیتا میں بھگوان کرشن نے کہا ہے –
نیتں کورو کرم توں کرم جیایو ہیکرمن:
اسی جذبے کے ساتھ، ہم سب، اپنے مقررہ فرائض کو پوری ایمانداری سے انجام دیں اور آزادی کا ‘امرت مہوتسو’ کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے عزم کی تجدید کریں۔ ان عزائم کو ثابت کرنے کے لیے جی جان سے مصروف ہو جائیں اور عزم وہ ہو جو سماج کی بھلائی کاہو، دیش کی بھلائی کا ہو،ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے ہو، اور عزم وہ ہو، جس میں، میری ، اپنی، خود کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہو، میرا اپنا فرض جڑا ہوا ہو۔ مجھے یقین ہے، گیتا کو جینے کا یہ سنہرا موقع ، ہم لوگوں کے پاس ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے سال یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا، ملک نے پہلی بار جنتا کرفیو کا لفظ سنا تھا۔ لیکن اس عظیم ملک کے عظیم باشندوں کی عظیم قوت تجربہ دیکھیے، جنتا کرفیو پوری دنیا کے لیے حیران کن بن گیا تھا۔نظم و ضبط کی یہ غیر معمولی مثال تھی، آنے والی نسلیں اس ایک بات پر ضرور فخر کرے گی۔ اسی طرح ہمارے کو رونا واریئر کے احترام ،عزت ، تھالی بجانا، تالی بجانا، دیا جلانا۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کو رونا واریئر کے دل کو کتنا چھو گیا تھا وہ، اور، وہ ہی تو سبب ہے، جو پورےسال بھر،وہ ، بغیر تھکاوٹ محسوس کیے ، بغیر رکے، ڈٹے رہے۔ ملک کے ایک ایک شہری کی جان بچانے کے لیے جی جان سے مصروف عمل رہے۔ پچھلے سال اس وقت سوال تھا کہ کو رونا کی ویکسین کب تک آئے گی۔ ساتھیو، ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے، کہ آج ہندوستان ، دنیا کا، سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام چلا رہا ہے۔ٹیکہ کاری پروگرام کی تصویروں کے بارے میں مجھے بھوونیشور کی پشپا شکلا جی نے لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے بڑے بزرگوں میں ویکسین کے بارے میں جو جوش نظر آ رہا ہے ، اس کا ذکر میں ‘من کی بات’ میں کروں۔ساتھیو درست بھی ہے، ملک کے گوشے گوشے سے، ہم، ایسی خبریں سن رہے ہیں، ایسی تصویریں دیکھ رہے ہیں جو ہمارے دل کو چھو جاتی ہیں۔ یوپی کے جونپور میں 109 برس کی بزرگ ماں، رام دو لیا جی نے ٹیکہ لگوایا ہے، ایسے ہی، دلی میں بھی، 107 سال کے، کیول کرشن جی نےٹیکہ کی خوراک لی ہے۔ حیدرآباد میں 100 سال کے جے چودھری جی نے ٹیکہ لگوائی اور سبھی سے اپیل بھی ہے کہ ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ میں ٹوئٹر – فیس بک پر بھی یہ دیکھ رہا ہوں، کہ کیسے لوگ اپنے گھر کے بزرگوں کو ٹیکہ لگوانے کے بعد، انکی فوٹو اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کیرالہ سے ایک نوجوان آنندن نائر نے تو اسے ایک نیا لفظ دیا ہے – 'ویکسین سیوا'۔ ایسے ہی پیغامات دلی سے شیوانی، ہماچل سے ہمانشو اوردوسرے کئی نوجوانوں نے بھی بھیجے ہیں۔ میں آپ سبھی سامعین کی ان آراء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،۔ ان سب کےدرمیان ، کو رونا سے لڑائی کا منتر بھی ضرور یاد رکھیئے ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔اور صرف مجھے بولنا ہے – ایسا نہیں ! ہمیں جینا بھی ہے، بولنا بھی ہے، بتانا بھی ہے اور لوگوں کو بھی، ‘دوائی بھی، کڑائی بھی’، اسکے لیے، عہد پر بھی قائم رہنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، مجھے آج اندور کی رہنے والی سومیا جی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے، ایک موضوع کے بارے میں میری توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا ذکر ‘من کی بات’ میں کرنے کے لیے کہا ہے۔یہ موضوع ہے – بھارت کی کرکٹ کھلاڑی متالی راج جی کا نیا ریکارڈ ۔ متالی جی، حال ہی میں بین الاقوامی کرکٹ میں دس ہزار رن بنانے والی پہلی ہندوستانی خاتون کرکٹر بنی ہیں۔ انکی اس کامیابی پر بہت بہت مبارکباد۔ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں سات ہزار رن بنانے والی بھی وہ اکیلی بین الاقوامی خاتون کھلاڑی ہیں۔ خاتون کرکٹ کے شعبہ میں ان کی خدمات بہت شاندار ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ کے کیریر میں متالی راج جی نے ہزاروں لاکھوں کو تحریک دی ہے۔ ان کی سخت جانفشانی اور کامیابی کی کہانی، نہ صرف خواتین کرکٹروں، بلکہ، مرد کرکٹروں کے لیے بھی ایک ترغیب ہے۔
ساتھیو، یہ دلچسپ ہے، اسی مارچ کے مہینے میں، جب ہم یوم خواتین منا رہے تھے ، تب کئی خاتون کھلاڑیوں نے میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ دلی میں منعقدہ شوٹنگ میں آئی ایس ایس ایف ورلڈ کپ میں ہندوستان سرفہرست رہا۔ سونے کے تمغے کی تعداد کے معاملے میں ہندوستان بازی ماری۔ یہ ہندوستان کی خواتین اور مرد نشانہ بازوں کے شاندار کارکردگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اس درمیان پی وی سندھو جی نے بی ڈبلیو ایف سوئس اوپن سوپر 300 ٹورنامنٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ آج،تعلیم سے لے کر کاروبار تک، مسلح افواج سے لے کرسائنس و ٹکنالوجی تک، ہر جگہ ملک کی بیٹیاں، اپنی، الگ شناخت بنا رہی ہیں۔ مجھے خاص طور پر اس بات سے خوشی ہے، کہ، بیٹیاں کھیلوں میں، اپنا ایک نیا مقام بنا رہی ہیں۔ پیشہ ورانہ انتخاب کی شکل میں اسپورٹس ایک پسند بن کر ابھر رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ عرصہ قبل ہوئی میری ٹائم انڈیا سمٹ آپ کو یاد ہے نا ؟ اس سمّٹ میں میں نے کیا کہا تھا، کیا یہ آپ کو یاد ہے ؟ قدرتی ہے، اتنے پروگرام ہوتے رہتے ہیں، اتنی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ہر بات کہاں یاد رہتی ہیں اور اتنا دھیان بھی کہاں جاتا ہے – فطری عمل ہے۔ لیکن، مجھے اچھا لگا کہ میری ایک گزارش کو گرو پرساد جی نے بہت دلچسپی لے کر آگے بڑھایا ہے۔ میں نے اس سمٹ میں ملک کے لائٹ ہاؤس کمپلیکس کے آس پاس سیاحت کی سہولتیں فروغ دینے کے بارے میں بات کی تھی۔ گرو پرساد جی نے تمل ناڈو کے دو لائٹ ہاؤسوں چنئی لائٹ ہاؤس اور مہابلی پورام لائٹ ہاؤس کی 2019 کے اپنے سفر کے تجربات کو شیئر کیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دلچسپ حقائق شیئر کی ہیں جو ‘من کی بات’ سننے والوں کو بھی حیران کریں گی۔ جیسے، چنئی لائٹ ہاؤس دنیا کے ان چنندہ لائٹ ہاؤس میں سے ایک ہے، جس میں الیویٹر موجود ہے۔ یہی نہیں،ہندوستان کا یہ اکلوتا لائٹ ہاؤس ہے، جو شہر کے حدود کے اندر قائم ہے۔ اس میں، بجلی کے لیے شمسی پینل بھی لگے ہیں۔گرو پرساد جی نے لائٹ ہاؤس کےہیرٹیج میوزیم کے بارے میں بھی بات کی، جو میرین نیوی گیشن کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے۔ میوزیم میں، تیل سے جلنے والی بڑی بڑی لائٹیں ، کیروسین لائٹ ، پٹرولیم ویپراور قدیم زمانے میں استعمال ہونے والے بجلی کے لیمپ کی نمائش کی گئی ہے۔ ہندوستان کے سب سے قدیم لائٹ ہاؤس مہا بلی پورم لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی گرو پرساد جی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس لائٹ ہاؤس کے بغل میں سینکڑوں برس پہلے، پلو راجا مہیندر ورمن اول کے ذریعہ بنایا گیا ‘الکنیشورمندر' ہے۔
ساتھیو، ‘من کی بات’ کے دوران، میں نے، سیاحت کے مختلف پہلوؤں پر متعدد بار بات کی ہے، لیکن، یہ لائٹ ہاؤس ٹورزم کے لحاظ سے انوکھے ہوتے ہیں۔ اپنی شاندار تعمیر کے سبب لائٹ ہاؤس ہمیشہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان میں بھی71 لائٹ ہاؤس کی شناخت کی گئی ہے۔ ان سبھی لائٹ ہاؤسوں میں ان کی صلاحیت کے مطابق میوزیم، امپی تھیٹر، اوپن ایئر تھیٹر، کیفیٹریا، چلڈرن پارک، ماحول دوست جھونپڑیاں اور لینڈ اسکیپنگ تیار کیے جائیں گے۔ ویسے، لائٹ ہاؤس کی بات چل رہی ہے تو میں ایک انوکھے لائٹ ہاؤس کے بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہوں گا۔ یہ لائٹ ہاؤس گجرات کے سریندر نگر ضلع میں جنجھوواڑا نام کے ایک مقام پر ہے۔ جانتے ہیں، یہ لائٹ ہاؤس کیوں خاص ہے ؟ خاص اسلئے ہے کیونکہ جہاں یہ لائٹ ہاؤس ہے، وہاں سے اب ساحل سمندر سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ آپ کو اس گاؤں میں ایسے پتھر بھی مل جائیں گے، جو یہ بتاتے ہیں کہ، یہاں، کبھی، ایک مصروف بندرگاہ رہا ہوگا۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے ساحلی پٹی جنجھوواڑا تک تھی۔ سمندر کا گھٹنا، بڑھنا، پیچھے ہو جانا، اتنی دور چلے جانا، یہ بھی اس کی ایک شکل ہے۔ اسی مہینے جاپان میں آئی بھیانک سونامی کو 10 سال ہو رہے ہیں۔ اس سونامی میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ ایسی ایک سونامی ہندوستان میں 2004 میں آئی تھی۔ سونامی کے دوران ہم نے اپنے لائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے، اپنے،14 ملازمین کو کھو دیا تھا، انڈمان نکوبار اور تمل ناڈو میں لائٹ ہاؤس میں وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ کڑی محنت کرنے والے،ہمارے ان لائٹ کیپرس کو میں بڑے احترام سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، اور لائٹ کیپرس کے کام کی بہت بہت ستائش کرتا ہوں،۔
عزیرہم وطنو،زندگی کے ہر شعبے میں نیاپن ، جدت ضروری ہوتی ہے، ورنہ، وہی، کبھی کبھی، ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ہندوستان کی زرعی شعبہ میں جدت وقت کی ضرورت ہے۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔زرعی شعبہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے، روایتی زراعت کے ساتھ ہی، نئے متبادل کو، نئے نئے اختراعات کو، اپنانا بھی، اتنا ہی ضروری ہے۔سفید انقلاب کے دوران، ملک نے، اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب شہد کی مکھی کی کھیتی بھی ایسا ہی ایک متبادل بن کرابھر رہا ہے۔شہد کی مکھی کی زراعت ملک میں شہد کرانتی یا شیریں انقلاب کی بنیاد بنا رہی ہے۔ بڑی تعداد میں کسان اس سے وابستہ ہو رہے ہیں، اختراعات کر رہے ہیں۔ جیسے کہ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ایک گاؤں ہے گردم۔ پہاڑوں کی اتنی بلندی ، جغرافیائی دقتیں، لیکن، یہاں کے لوگوں نے شہد کی مکھی کی زراعت کا کام شروع کیا، اور آج، اس جگہ پر بنے شہد کی، مدھو کی، اچھی مانگ ہو رہی ہے۔ اس سے کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے ہی سندر بن علاقوں کا قدرتی آرگینک شہد تو ملک اور بیرون ممالک پسند کیا جاتا ہے۔ایسا ہی ایک ذاتی تجربہ مجھے گجرات کا بھی ہے۔ گجرات کے بناسکانٹھا میں سال 2016 میں ایک پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں میں نے لوگوں سے کہا یہاں اتنے امکانات ہیں، کیوں نہ بناسکانٹھا اور ہمارے یہاں کے کسان شیریں انقلاب کا نیا باب لکھیں ؟ آپ کو جان کر خوشی ہوگی، اتنے کم عرصے میں، بناسکانٹھا، شہد پیدا کرنے کا اہم مرکز بن گیا ہے۔ آج بناسکانٹھا کے کسان شہد سے لاکھوں روپئے سالانہ کما رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال ہریانہ کے جمنا نگر کا بھی ہے۔ جمنا نگر میں، کسان،شہد کی کھیتی کرکے، سالانہ، کئی سو ٹن شہد پیدا کر رہے ہیں، اپنی آمدنی بڑھا رہے ہیں۔ کسانوں کی اس محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں شہد کی پیداوار لگاتار بڑھ رہی ہے، اور سالانہ،تقریبا سوا لاکھ ٹن پہنچا ہے، اس میں سے، بڑی مقدار میں، شہد، بیرون ممالک میں ایکسپورٹ بھی ہو رہا ہے۔
ساتھیو،شہد کی مکھی کی زراعت میں صرف شہد سے ہی آمدنی نہیں ہوتی، بلکہ بی ویکس بھی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔دوا سازی کی صنعت، خوراک کی صنعت، کپڑا اور زیبائش کی صنعتیں ، ہر جگہ بی ویکس کی مانگ ہے۔ ہمارا ملک فی الحال بی ویکس درآمد کرتا ہے، لیکن، ہمارے کسان، اب یہ صورتحال ، تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے خود انحصار ہندوستان مہم میں مدد کر رہے ہیں۔ آج تو پوری دنیا آیوروید اورنیچرل ہیلتھ پروڈکٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں شہد کی مانگ اور بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں، ملک کے زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی کے ساتھ ساتھ شہد کی زراعت سے بھی جڑیں۔ یہ کسانوں کی آمدنی بھی بڑھائے گا اور ان کی زندگی میں مٹھاس بھی گھولے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو،ابھی کچھ دن پہلےورلڈ اسپیرو ڈےمنایا گیا۔ اسپیرو یعنی گوریا۔ کہیں اسے چکلی بولتے ہیں، کہیں چمنی بولتے ہیں، کہیں گھان چرکا کہا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے گھروں کی دیواروں میں، آس پاس کے پیڑوں پر گوریا چہکتی رہتی تھی۔ لیکن اب لوگ گوریا کو یہ کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ پچھلی بار، برسوں پہلے، گوریا دیکھا تھا۔ آج اسے بچانے کے لیے ہمیں کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ میرے بنارس کے ایک ساتھی اندرپال سنگھ بترا جی نے ایسا کام کیا ہے جسے میں، ‘من کی بات’ کے سامعین کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ بترا جی نے اپنے گھر کو ہی گوریا کا آشیانہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کے ایسے گھونسلے بنوائے جن میں گوریا آسانی سے رہ سکے۔ آج بنارس کے کئی گھر اس مہم سے جڑ رہے ہیں۔ اس سے گھروں میں ایک غیر معمولی قدرتی ماحول بھی بن گیا ہے۔ میں چاہوں گا قدرتی ، ماحولیات ،جاندار، پرندے جن کے لیے بھی بن سکے، کم زیادہ کوششیں ہمیں بھی کرنی چاہیئے۔ جیسے ایک ساتھی ہیں وجے کمار کا بی جی۔ وجے جی اوڈیشہ کے کیندرپاڑا کے رہنے والے ہیں۔ کیندرپاڑا سمندر کے کنارے ہے۔ اسلئے اس ضلع کے کئی گاؤں ایسے ہیں، جن پر سمندر کی اونچی لہروں اور طوفان کا خطرہ رہتا ہے۔ اس سے کئی بار بہت نقصان بھی ہوتا ہے۔ وجے جی نے محسوس کیا کہ اگر اس قدرتی تباہی کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت ہی روک سکتی ہے۔ پھر کیا تھا – وجے جی نےبڑاکوٹ گاؤں سے اپنا مشن شروع کیا۔ انہوں نے 12 سال، ساتھیوں، 12 سال، محنت کرکے، گاؤں کے باہر، سمندر کی جانب 25 ایکڑ میں مینگروو کا جنگل کھڑا کر دیا۔آج یہ جنگل اس گاؤں کی حفاظت کر رہا ہے۔ایسا ہی کام اوڈیشہ کے ہی پردیپ ضلع میں ایک انجینئر امریش سامنت جی نے کیا ہے۔امریش جی نے چھوٹے چھوٹے جنگل لگائے ہیں، جن سے آج کئی گاؤں کی حفاظت ہو رہی ہے۔ساتھیو،اس طرح کے کاموں میں، اگر ہم، سماج کو ساتھ جوڑ لیں، تو بڑے نتائج سامنے آتے ہیں۔جیسے، تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں بس کنڈکٹر کا کام کرنے والے مرمتھو یوگناتھن جی ہیں۔ یوگناتھن جی، اپنی بس کے مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہیں، تو ساتھ میں ہی ایک پودا بھی مفت دیتے ہیں۔اس طرح یوگناتھن جی نہ جانے کتنے ہی پیڑ لگوا چکے ہیں۔یوگناتھن جی اپنے تنخواہ کا کافی حصہ اسی کام میں خرچ کرتے آ رہے ہیں۔اب اسکو سننے کے بعد ایسا کون شہری ہوگا جو مرمتھو یوگناتھن جی کے کام کی تعریف نہ کرے۔میں دل سے ان کی کوششوں کو بہت مبارکباد دیتا ہوں، انکے اس قابل ترغیب کام کے لیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ویسٹ سے ویلتھ یعنی کچرے سے کنچن بنانے کے بارے میں ہم سب نے دیکھا بھی ہے، سنا بھی ہے، اور ہم بھی اوروں کو بتاتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح فضلہ کو قیمت میں بدلنے کا بھی کام کیا جا رہا ہے۔ایسی ہی ایک مثال کیرالہ کے کوچی کے سینٹ ٹیریسا کالج کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ 2017 میں، میں اس کالج کے کیمپس میں، ایک بُک ریڈنگ پر مبنی پروگرام میں شامل ہوا تھا۔اس کالج کے طلباء دوبارہ استعمال شدہ کھلونا بنا رہے ہیں، وہ بھی بہت ہی تخلیقی طریقے سے۔یہ طلباء پرانے کپڑوں، پھینکے گئے لکڑی کے ٹکڑوں،بیگ اور بکس کا استعمال کھلونے بنانے میں کر رہے ہیں۔کوئی طالب علم معمہ بنا رہا ہے تو کوئی کار اور ٹرین بنا رہا ہے۔یہاں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ کھلونے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ماحول دوست بھی ہوں۔ اور اس پوری کوششوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ کھلونے آنگن باڑی کے بچوں کو کھیلنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔آج جب ہندوستان کھلونوں کی مینوفکچرنگ میں کافی آگے بڑھ رہا ہے تو فضلہ سے قیمت کی یہ مہم یہ اختراعی استعمال بہت معنی رکھتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے وجےواڑا میں ایک پروفیسر شرینواس پدکانڈلا جی ہیں۔ وہ بہت ہی دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے آٹو موبائل اسکریپ سے مجسمے بنائے ہیں۔ ان کے ذریعہ بنائے گئے یہ شاندار مجسمے عوامی پارکوں میں لگائے گئے ہیں اور لوگ انہیں بہت جوش و خروش سے دیکھ رہے ہیں۔ الیکٹرونک اور آٹو موبائل فضلہ کی ری سائیکلنگ کا یہ اختراعی استعمال ہے۔ میں ایک بار پھر کوچی اور وجے واڑا کی ان کوششوں کی ستائش کرتا ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مزید لوگ بھی ایسی کوششوں میں آگے آئیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،ہندوستان کے لوگ دنیا کے کسی خطے میں جاتے ہیں تو فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں۔ ہم اپنے یوگ، آیوروید، فلسفہ نہ جانے کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس جس کے لیے ہم فخر کرتے ہیں ، فخر کی باتیں کرتے ہیں ساتھ ہی اپنی مقامی زبان ، بولی، پہچان، پوشاک ، کھان پان اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ہمیں نیا تو پانا ہے، اور وہی تو زندگی ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قدیم کو گنوانا بھی نہیں ہے۔ ہمیں بہت محنت کے ساتھ اپنے آس پاس موجود لامحدود ثقافتی ورثے کو فروغ دینا ہے ، نئی نسل تک پہنچانا ہے۔یہی کام، آج، آسام کے رہنے والے ‘سکاری ٹسو’ بہت ہی لگن کے ساتھ کر رہے ہے۔ کربی انلونگ ضلع کے ‘سکاری ٹسو’ جی پچھلے 20 سالوں سے کربی زبان کی دستاویز تیار کر رہے ہیں۔کسی زمانہ میں کسی عہد میں ‘کربی قبائلی بھائی بہنوں کی زبان ‘کربی’آج قومی دھارے سے غائب ہو رہی ہے۔جناب ‘سکاری ٹسو’ جی نے طے کیا تھا کہ اپنی اس پہچان کو وہ بچائیں گے ، اور آج ان کی کوششوں سے کربی زبان کی کافی جانکاری دستاویز کی شکل میں تیار ہوگئی ہے۔ انہیں ان کوششوں کے کے لیے کئی جگہ ان کی ستائش بھی ہوئی ہے۔ اور ایوارڈبھی ملے ہیں۔‘من کی بات’ کے ذریعہ جناب ‘سکاری ٹسو’ جی کو میں تو مبارکباد دیتا ہی ہوں، لیکن ملک کے کئی کونے میں اس طرح کئی کامل افراد ہوں گے جو ایک کام لے کر کے کوشاں رہتے ہو ں گے میں ان سب کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں،کوئی بھی نئی شروعات ہمیشہ بہت خاص ہوتی ہیں۔نئی شروعات کا مطلب ہوتا ہےنئے امکانات، نئی کوششیں اور نئی کوششوں کا مطلب ہے نئی توانائی اور نیا جوش۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور علاقوں میں الگ الگ راجیوں اور شیتروں میں اور تنوع سے بھری ہماری ثقافت میں کسی بھی شروعات کو اتسو کے طور پر منانے کی روایت رہی ہے۔اور یہ وقت نئی شروعات اور نئے اتسو کی آمد کا ہے۔ہولی بھی تو بسنت کو اتسو کے طور پر ہی منانے کی ایک روایت ہے۔جس وقت ہم رنگوں کے ساتھ ہولی منارہے ہوتے ہیں، اسی وقت ، بسنت بھی، ہمارے چاروں جانب نئے رنگ بکھیر رہا ہوتا ہے۔ اسی وقت پھولوں کا کھلنا شروع ہوتا ہے اور قدرت زندہ ہو اٹھتی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں میں جلد ہی نیا سال بھی منایا جائے گا۔چاہے اگادی ہو یا پوتھنڈو، گڑی پڑوا ہو یا بیہو، نورہ ہو یا پوئیلا، یا پھر بوئیشاکھ ہو یا بیساکھی – پورا ملک ، امنگ، جوش اور نئی امیدوں کے رنگ میں شرابور نظر آئے گا۔ اسی وقت کیرالہ بھی خوبصورت تہوار وشو مناتا ہے۔اسکے بعد، جلد ہی چیتر نوراتری کا مقدس موقع بھی آ جائے گا۔ چیتر مہینے کے نوویں دن ہمارے یہاں رام نومی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسے بھگوان رام کے جنم اتسو کے ساتھ ہی انصاف اورپراکرم کے ایک نئے عہد کی شروعات کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔اس دوران چاروں طرف دھوم دھام کے ساتھ ہی بھکتی کے جذبے سے بھرا ماحول ہوتا ہے، جو لوگوں کو اور قریب لاتا ہے، انہیں خاندان اور سماج سے جوڑتا ہے، آپسی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ان تہواروں کے موقع پر میں سبھی ہم وطنوں کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،اس دوران 4 اپریل کو ملک ایسٹر بھی منائے گا۔عیسی مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے اتسو کی شکل میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا ہے۔ علامتی طور پر کہیں تو ایسٹر زندگی کی نئی شروعات سے جڑا ہے۔ایسٹر امیدوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی علامت ہے۔
On this holy and auspicious occasion, I greet not only the Christian Community in India, but also Christians globally.
میرے پیارے ہم وطنو، آج ‘من کی بات’ میں ہم نے ‘امرت مہوتسو’ اور ملک کے لیے اپنے فرائض کی بات کی۔ہم نے دیگر تہواروں کا بھی ذکر کیا ۔ اسی دوران ایک اور تہوار آنے والا ہے جو ہمارے آئینی حقوق اور فرائض کی یاد دلاتا ہے۔ وہ ہے 14 اپریل – ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جی کا یوم پیدائش ۔اس بار ‘امرت مہوتسو’ میں تو یہ موقع اور بھی خاص بن گیا ہے۔مجھے یقین ہے، بابا صاحب کی اس یوم پیدائش کو ہم ضرور یادگار بنائیں گے، اپنے فرائض عہد لے کر انہیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو تہواروں کی ایک بار پھر نیک خواہشات ۔آپ سب خوش رہیں، صحت مند رہیں، سوستھ رہیے، اور خوب خوشی منائیں۔ اسی آرزو کے ساتھ پھر سے یاد کراتا ہوں، ‘دوائی بھی – کڑائی بھی’۔بہت بہت شکریہ ۔
نئی دلّی ، 28 فروری / میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ۔ کل ماگھ پورنیما کا تہوار تھا ۔ ماگھ کا مہینہ ، خاص طور پر دریاؤں ، جھیلوں اور آبی وسائل سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کا ذکر ہمارے صحیفوں میں بھی کیا گیا ہے ۔
‘‘ ماگھے نمگنا : سلیلے سوشیتے ، ویمکت پاپا : دتری دیوم پرایانتی ’’
یعنی ماگھ کے مہینے میں کسی بھی مقدس آبی وسائل میں نہانے کو مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ دنیا کے ہر سماج میں دریا کے ساتھ جڑی ہوئی کوئی نہ کوئی روایت موجود ہوتی ہی ہے ۔ دریاؤں کے کناروں پر بہت سی تہذیبوں نے فروغ پایا ہے کیونکہ ہماری تہذیب بھی ہزاروں سال پرانی ہے ۔ اِس لئے یہ روایت یہاں بھی واضح نظر آتی ہے ۔ ہندوستان میں کوئی ایک بھی ایسا دن ہے ، جس میں ملک کے کسی نہ کسی کونے میں پانی سے مربوط کوئی تہوار نہ ہو ۔ ماگھ کے دوران لوگ اپنے گھروں اور اپنے قریبی لوگوں تک کو اور آسائش اور آرام کو چھوڑ کر دریا کے کناروں پر کلپ واس رکھتے ہیں ۔ اس مرتبہ ہریدوار میں کمبھ بھی منعقد کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے لئے پانی زندگی ہے ، عقیدہ بھی ہے اور ترقی کی علامت بھی ہے ۔ ایک طرح سے پانی پارس یا فلوسفر کے پتھر سے زیادہ اہم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پارس رگڑنے سے لوہا سونے میں بدل جاتا ہے ۔ اسی طرح پانی بھی زندگی کے لئے ضروری ہے ، ترقی کے لئے نا گزیر ہے ۔
دوستو ، ماگھ مہینے کو پانی سے جوڑنے کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ اس کے بعد سے ہی سردیاں ختم ہو جاتی ہیں اور گرمیاں دستک دینے لگتی ہیں ۔ اس لئے پانی کے تحفظ کے لئے ہمیں ابھی سے ہی کوششیں شروع کر دینی چاہئیں ۔ کچھ دنوں بعد مارچ کے مہینے میں ہی 22 تاریخ کو پانی کا عالمی دن بھی ہے ۔
مجھے یو پی کی آرادھیا جی نے لکھا ہے کہ دنیا میں کروڑوں لوگ اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ پانی کی کمی کو پورا کرنے میں ہی لگا دیتے ہیں ۔ ‘بن پانی سب سون ’ ایسے ہی نہیں کہا گیا ہے ۔ پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک بہت ہی اچھا پیغام مغربی بنگال کے شمالی دیناج پور سے سجیت جی نے مجھے بھیجا ہے ۔ سجیت جی نے لکھا ہے کہ قدرت نے پانی کی شکل میں ہمیں ایک اجتماعی تحفہ دیا ہے ۔ اس لئے اِسے بچانے کی ذمہ داری بھی اجتماعی ہے ۔ یہ بات صحیح ہے ، جیسا اجتماعی تحفہ ہے ، ویسے ہی اجتماعی جوابدہی بھی ہے ۔ سجیت جی کی بات بالکل صحیح ہے ۔ دریا ، تالاب ، جھیل ، بارش یا زمین کا پانی یہ سب ہر ایک کے لئے ہیں ۔
ساتھیو ، ایک وقت تھا ، جب گاؤں میں کنویں ، تالاب ، اِن کی دیکھ بھال سب مل کر کرتے تھے ۔ اب ایسی ہی ایک کوشش تمل ناڈو کے ترووناّ ملائی میں ہو رہی ہے ۔ یہاں مقامی لوگوں نے اپنے کنووں کو محفوظ کرنے کے لئے مہم چلائی ہے ۔ یہ لوگ اپنے علاقے میں برسوں سے بند پڑے عوامی کنووں کو پھر سے بحال کر رہے ہیں ۔
مدھیہ پردیش کے اگروتھا گاؤں کی ببیتا راجپوت جی بھی ، جو کر رہی ہیں ، اُس سے آپ سبھی کو تحریک ملے گی ۔ ببیتا جی کا گاؤں بندیل کھنڈ میں ہے ۔ اُن کے گاؤں کے پاس کبھی ایک بہت بڑی جھیل تھی ، جو سوکھ گئی تھی ۔ انہوں نے گاؤں کی ہی دوسری خواتین کو ساتھ لیا اور جھیل تک پانی لے جانے کے لئے ایک نہر بنا دی ۔ اس نہر سے بارش کا پانی سیدھے جھیل میں جانے لگا ۔ اب یہ جھیل پانی سے بھری رہتی ہے ۔
ساتھیو ، اترا کھنڈ کے باگیشور میں رہنے والے جگدیش کنیال جی کا کام بھی بہت کچھ سکھاتا ہے ۔ جگدیش جی کا گاؤں اور آس پاس کا علاقہ پانی کی ضرورتوں کے لئے ایک قدرتی چشمہ پر منحصر تھا لیکن کئی سال پہلے یہ چشمہ سوکھ گیا ۔ اس سے پورے علاقے میں پانی کا بحران بڑھتا چلا گیا ۔ جگدیش جی نے ، اِس مسئلے کا حل شجر کاری سے کرنے کا عزم کیا ۔ انہوں نے پورے علاقے میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہزاروں پیڑ لگائے اور آج اُن کے علاقے کا سوکھ چکا چشمہ پھر سے بھر گیا ہے ۔
ساتھیو ، پانی کو لے کر ہمیں ، اِسی طرح اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا ۔ ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں مئی – جون میں بارش ہوتی ہے ۔ کیا ہم ابھی سے اپنے آس پاس کے پانی کے وسائل کی صفائی کے لئے ، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے 100 دن کی کوئی مہم شروع کر سکتے ہیں ؟ اسی سوچ کے ساتھ اب سے کچھ دن بعد جل شکتی کی وزارت کے ذریعے بھی ‘ جل شکتی ابھیان ’ – ‘ کیچ دا – رین ’ بھی شروع کیا جا رہا ہے ۔ اس مہم کا خاص مقصد ہے ، ‘ کیچ دا – رین ویئر اِٹ فال ، وہین اِٹ فالس ’ ۔ ہم ابھی سے محنت کریں گے ، ہم ابھی سے ، جو رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹم ہے ، انہیں درست کروا لیں گے ، گاؤوں میں ، تالابوں میں پوکھروں کی صفائی کروا لیں گے ، ان میں پہنچنے والے پانی کے راستے کی رکاوٹیں دور کر لیں گے تو زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ کر سکیں گے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب بھی ماگھ کے مہینے اور اس کے سماجی اہمیت کی بات ہوتی ہے تو یہ بات ایک نام کے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔ یہ نام ہے ، سنت روی داس جی کا ۔ ماگھ پورنیما کے دن ہی سنت روی داس جی کی جینتی ہوتی ہے ۔ آج بھی ، سنت روی داس جی کے الفاظ ، اُن کی تعلیم ، ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا تھا –
ایکے ماتی کے سبھ بھانڈے ،
سبھ کا ایکو سرجن ہار ۔
روی داس ویاپے ایکے گھٹ بھیتر ،
سبھ کو ایکے گھڑے کمہار ۔
ہم سبھی ایک ہی مٹی کے برتن ہیں ۔ ہم سبھی کو ایک نے ہی گھڑا ہے ۔ سنت روی داس جی نے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر ہمیشہ کھل کر اپنی بات کہی ہے ۔ انہوں نے ، اِن برائیوں کو سماج کے سامنے رکھا ، اُسے سدھارنے کی راہ دکھائی اور تبھی تو میرا جی نے کہا تھا –
‘ گرو ملیا ریداس ، دینہی گیان کی گٹکی ’ ۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں سنت روی داس جی کے پیدائشی مقام وارانسی سے جڑا ہوا ہوں ۔ سنت روی داس جی کی زندگی انتہائی اونچائی کو اور اُن کی توانائی کو میں نے ، اُس مقدس مقام پر محسوس کیا ہے ۔
ساتھیوں روی داس جی کہتے تھے –
کرم بندھن میں بندھ رہیو ، پھل کی نا تجّیو آس ۔
کرم مانوش کا دھرم ہے ، ست بھاکھے روی داس ۔
یعنی ہمیں مسلسل اپنا عمل کرتے رہنا چاہیئے ۔ پھر پھل تو ملے گا ہی ملے گا ، یعنی عمل کا نتیجہ تو نکلتا ہی نکلتا ہے ۔ ہمارے نو جوانوں کو ایک اور بات سنت روی داس جی سے ضرور سیکھنی چاہیئے ۔ نو جوانوں کو کوئی بھی کام کرنے کے لئے خود کو پرانے طور طریقوں میں باندھنا نہیں چاہیئے ۔ آپ اپنی زندگی کو خود ہی طے کریئے ۔ اپنے طور طریقے بھی خود ہی بنائیے اور اپنے ہدف بھی خود ہی طے کریئے ۔ اگر آپ کا ذہن ، آپ کی خود اعتمادی مضبوط ہے تو آپ کو دنیا میں کسی بھی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ایسا اِس لئے کہتا ہوں کیونکہ کئی مرتبہ ہمارے نو جوان ، اِس چلی آ رہی سوچ کے دباؤ میں ، وہ کام نہیں کر پاتے ، جو واقعی انہیں پسند ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ کو کبھی بھی نیا سوچنے ، نیا کرنے میں ، ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیئے ۔ اسی طرح سنت روی داس جی نے ایک اور اہم پیغام دیا ہے ۔ یہ پیغام ہے ، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ۔ ہم اپنے خوابوں کے لئے کسی دوسرے پر منحصر رہیں ، یہ بالکل درست نہیں ہے ۔ جو جیسا ہے ، وہ ویسا چلتا رہے ، روی داس جی کبھی بھی اِس کی حمایت میں نہیں تھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا نو جوان بھی ، اِس سوچ کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔ آج جب میں ملک کے نو جوانوں میں اننوویشن کا جذبہ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں پر سنت روی داس جی کو ضرور فخر ہوتا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آج نیشنل سائنس ڈے بھی ہے ۔ آج کا دن ہندوستان کے عظیم سائنسداں ڈاکٹر سی وی رمن جی کے ذریعے کی گئی ‘ رمن اِفکیٹ ’ کی دریافت کے لئے وقف ہے ۔ کیرالہ کے یوگیشورن جی نے نمو ایپ پر لکھا ہے کہ رمن اِفکیٹ کی دریافت نے پوری سائنس کی سمت کو ہی بدل دیا تھا ۔ اس سے جڑا ہوا ایک بہت اچھا پیغام مجھے ناسک کے اسنیہل جی نے بھیجا ہے ۔ اسنیہل جی نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک کے اَنگنت سائنسداں ہیں ، جن کے تعاون کے بغیر سائنس اتنی ترقی نہیں کر سکتی تھی ۔ ہم جیسے دنیا کے دوسرے سائنس دانوں کے بارے میں جانتے ہیں ، ویسے ہی ہمیں ہندوستان کے سائنس دانوں کے بارے میں بھی جاننا چاہیئے ۔ میں بھی من کی بات کے اِن سامعین کی بات سے متفق ہوں ۔ میں ضرور چاہوں گا کہ ہمارے نو جوان ہندوستان کے سائنس دانوں – تاریخ کو ہمارے سائنس دانوں کو جانیں ، سمجھیں اور خوب پڑھیں ۔
ساتھیو ، جب ہم سائنس کی بات کرتے ہیں تو کئی بار اسے لوگ فزکس – کیمسٹری یا پھر لیبس تک ہی محدود کر دیتے ہیں لیکن سائنس کا وسعت تو اِس سے کہیں زیادہ ہے اور آتم نربھر مہم میں سائنس کی طاقت کا بہت تعاون بھی ہے ۔ ہمیں سائنس کو ‘ لیب تو لینڈ ’ کے منتر کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا ۔
مثال کے طور پر حیدر آباد کے چنتلا وینکٹ ریڈی جی ہیں ۔ ریڈی جی کے ایک ڈاکٹر دوست نے ، انہیں ایک مرتبہ ویٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی بیماریوں اور اُس کے خطروں سے نمٹنے کے بارے میں بتایا تھا ۔ ریڈی جی کسان ہیں ۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے محنت کی اور گیہوں چاول کی ایسی نسل کو فروغ دیا ، جو خاص طور پر ویٹامن ڈی سے بھر پور ہے ۔ اسی مہینے انہیں ورلڈ انٹلیکچوول پراپرٹری آرگنائزیشن ، جینیوا سے پیٹنٹ بھی ملا ہے ۔ یہ ہماری حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ وینکٹ ریڈی جی کو پچھلے سال پدم شری سے بھی نوازا گیا تھا ۔
ایسے ہی بہت اننو ویٹیو طریقے سے لداخ کے اُرگین فتسوگ بھی کام کر رہے ہیں ۔ ارگین بھی اتنی اونچائی پر آرگینک طریقے سے کھیتی کرکے تقریباً 20 فصلیں اگا رہے ہیں ۔ وہ بھی سائکلک طریقے سے ، یعنی وہ ایک فصل کے کچرے کو دوسری فصل میں کھاد کے طور پر استعمال کرلیتے ہیں ۔ ہے نا کمال کی بات ۔
اسی طرح گجرات کے پاٹن ضلع میں کام راج بھائی چودھری نے گھر میں ہی سہجن کے اچھے بیج فروغ دیئے ہیں ۔ سہجن کو کچھ لوگ سرگوا بولتے ہیں ۔ اسی مورنگا یا ڈرم اسٹک بھی کہا جاتا ہے ۔ اچھے بیجوں کی مدد سے ، جو سہجن پیدا ہوتا ہے ، اُس کی کوالٹی بھی اچھی ہوتی ہے ۔ اپنی پیداوار کو وہ اب تمل ناڈو اور مغربی بنگال بھیج کر اپنی آمدنی بھی بڑا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کل چیا کے بیج کا نام آپ لوگ بہت سن رہے ہوں گے ۔ ہیلتھ اویئر نیس سے جڑے لوگ اِسے کافی اہمیت دیتے ہیں اور دنیا میں اس کی کافی مانگ ہے ۔ ہندوستان میں اسے زیادہ تر باہر سے منگواتے ہیں لیکن اب چیا بیج میں خود انحصاری کا بیڑا بھی لوگ اٹھا رہے ہیں ۔ ایسے ہی یو پی کے بارابنکی میں ہریش چندر جی نے چیا کے بیج کی کھیتی شروع کی ہے ۔ چیا کے بیج کی کھیتی ، اُن کی آمدنی بھی بڑھائے گی اور خود کفیل بھارت مہم میں بھی مدد کرے گی ۔
ساتھیو ، زرعی کچرے سے دولت پیدا کرنے کے بھی کئی تجربے ملک بھر میں کامیابی سے چل رہے ہیں ۔ جیسے مدورئی کے مروگیسن جی نے کیلے کے کچرے سے رسی بنانے کی ایک مشین بنائی ہے ۔ مروگیسن جی کے اِس اننوویشن سے ماحولیات اور گندگی کا بھی حل ہوگا اور کسانوں کے لئے اضافی آمدنی کا راستہ بھی کھلے گا ۔
ساتھیو ، ‘ من کی بات ’ کے سامعین کو اتنے سارے لوگوں کے بارے میں بتانے کا میرا مقصد یہی ہے کہ ہم سبھی اِن سے ترغیب لیں ۔ جب ملک کا ہر شہری اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سائنس کو وسعت دے گاتو ترقی کے راستے بھی کھلیں گے اور ملک خود کفیل بھی بنے گا اور مجھے یقین ہے کہ ملک کا ہر شہری کر سکتا ہے ۔
میرے پیارے ساتھیو ، کولکاتہ کے رنجن جی نے اپنے خط میں بہت ہی دلچسپ اور بنیادی سوال پوچھا ہے اور ساتھ ہی بہترین طریقے سے ، اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم خود کفیل ہونے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں ، خود انہوں نے مزید لکھا ہے کہ – "آتم نربھر بھارت مہم" صرف ایک حکومتی پالیسی نہیں ہے ، بلکہ ایک قومی روح بھی ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ خود کفیل ہونے کا مطلب ہے کہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا یعنی خود اپنی قسمت کا بنانے والا بننا ۔ رنجن بابو کی بات سو ٹکا صحیح ہے ۔ اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ بھی کہوں گا کہ خود کفالت کی پہلی شرط ہوتی ہے – اپنے ملک کی چیزوں پر فخر ہونا ، اپنے ملک کے لوگوں کے ذریعے بنائی گئی چیزوں پر فخر ہونا ۔ جب ہر ایک ہم وطن فخر کرتا ہے ، ہر ایک ہم وطن جڑتا ہے ، تو آتم نربھر بھارت ، صرف ایک معاشی مہم نہ رہ کر ایک قومی روح بن جاتی ہے ۔ جب آسمان میں ہم اپنے ملک میں بنے لڑاکو طیارے تیجس کو کلابازیاں کھاتے دیکھتے ہیں ، جب بھارت میں بنے ٹینک ، بھارت میں بنی میزائلیں ، ہمارے فخر میں اضافہ کرتی ہیں ، جب ترقی یافتہ ملکوں میں ہم میٹرو ٹرین کے میڈ اِن انڈیا کوچیز دیکھتے ہیں ، جب درجنوں ملکوں تک میڈ اِن انڈیا کورونا ویکسین کو پہنچتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارا سر اور اونچا ہو جاتا ہے اور ایسا ہی نہیں ہے کہ بڑی بڑی چیزیں ہی بھارت کو خود کفیل بنائیں گی ۔ بھارت میں بنے کپڑے ، بھارت کے ہنرمند کاریگروں کے ذریعے بنایا گیا ہینڈی کرافٹ کا سامان ، بھارت کی الیکٹرانک اشیاء ، بھارت کے موبائل ، ہر شعبے میں ، ہمیں اِس فخر کو بڑھانا ہو گا ۔ جب ہم اِسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے ، تبھی صحیح معنی میں آتم نربھر بن پائیں گے اور ساتھیو ں ، مجھے خوشی ہے کہ خود کفیل بھارت کا یہ منتر ، ملک کے گاؤں – گاؤں میں پہنچ رہا ہے ۔ بہار کے بیتیا میں یہی ہوا ہے ، جس کے بارے میں مجھے میڈیا میں پڑھنے کو ملا ۔
بیتیا کے رہنے والے پرمود جی ، دلّی میں ایک ٹیکنیشئن کے طور پر ایل ای ڈی بلب بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اِس فیکٹری میں کام کے دوران پوری طریقے کو بہت باریکی سے سمجھا ۔ لیکن کورونا کے دوران پرمود جی کو اپنے گھر پاس لوٹنا پڑا ۔ آپ جانتے ہیں ، لوٹنے کے بعد پرمود جی نے کیا کیا ؟ انہوں نے خود ایل ای ڈی بلب بنانے کی ایک چھوٹی سی یونٹ ہی شروع کر دی ۔ انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ نو جوانوں کو ساتھ لیا اور کچھ ہی مہینوں میں فیکٹری ورکر سے لے کر فیکٹری اونر بننے تک کا سفر پورا کر دیا ۔ وہ بھی اپنے ہی گھر میں رہتے ہوئے ۔
ایک اور مثال ہے – یو پی کے گڑھ مکتیشور کی ۔ گڑھ مکتیشور سے شری مان سنتوش جی نے لکھا ہے کہ کیسے کورونا دور میں ، انہوں نے آفت کو موقع میں بدلا ۔ سنتوش جی کے پُرکھے شاندار کاریگر تھے ، چٹائی بنانے کا کام کرتے تھے ۔ کورونا کے وقت جب باقی کام رُکے تو اِن لوگوں نے بڑی طاقت اور جوش کے ساتھ چٹائی بنانا شروع کیا ۔ جلد ہی ، انہیں نہ صرف اتر پردیش بلکہ دوسری ریاستوں سے بھی چٹائی کے آڈر ملنے شروع ہو گئے ۔ سنتوش جی نے یہ بھی بتایا ہے کہ اِس سے اِس علاقے کے سینکڑوں سال پرانے خوبصورت فن کو بھی ایک نئی طاقت ملی ہے ۔
ساتھیو ، ملک بھر میں ایسی کئی مثالیں ہیں ، جہاں لوگ ، ‘ آتم نربھر بھارت مہم ’ میں ، اسی طرح اپنا حصہ لے رہے ہیں ۔ آج یہ ایک جذبہ بن چکا ہے ، جو عام لوگوں کے دلوں میں رواں دواں ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، میں نے نمو ایپ پر گڑ گاؤں کے رہنے والے میور کی ایک دلچسپ پوسٹ دیکھی ۔ وہ پیشنیٹ برڈ واچر اور قدر سے محبت کرنے والے ( نیچر لور ) ہیں ۔ میور جی نے لکھا ہے کہ میں تو ہریانہ میں رہتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ ، آسام کے لوگوں اور خاص طور پر کازی رنگا کے لوگوں سے گفتگو کریں۔ مجھے لگا کہ میور جی ، رائنوس کے بارے میں بات کریں گے ، جنہیں وہاں کا فخر کا کہا جاتا ہے لیکن میور جی نے کازی رنگا میں واٹر فولس کی تعداد میں ہوئے اضافے کو لے کر آسام کے لوگوں کو سراہنے کے لئے کہا ہے ۔ میں ڈھونڈ رہاتھا کہ ہم واٹر فولس کو عام زبان میں کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک لفظ ملا – جل پکشی ( پانی کا پرندہ ) ۔ ایسے پرندے ، جن کا گھونسلا ، پیڑوں پر نہیں ، پانی پر ہوتا ہے ، جیسے بطخ وغیرہ ۔ کازی رنگا نیشنل پارک اینڈ ٹائیگر ریزرو اتھارٹی کچھ وقت سے سالانہ واٹر فولس سینسز ( مردم شماری ) کرتی آ رہی ہے ۔ اس مردم شماری سے پانی کے پرندوں کی تعداد کا پتہ چلتا ہے اور ان کی پسندیدہ رہائش گاہ کی معلومات ملتی ہیں ۔ ابھی دو تین ہفتے پہلے ہی سروے پھر سے ہوا ہے ۔ آپ کو بھی یہ جانکر خوشی ہو گی کہ اس بار پانی کے پرندوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 175 فی صد زیادہ آئی ہے ۔ اس مردم شماری کے دوران کازی رنگا نیشنل پارک میں برڈس کی کل 112 قسموں کو دیکھا گیا ہے ۔ ان میں سے 58 قسمیں یوروپ ، وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے آئے وِنٹر مائیگرینٹس کی ہیں ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں پانی کا بہتر تحفظ ہونے کے ساتھ انسانی مداخلت بہت کم ہے ۔ ویسے کچھ معاملوں میں مثبت انسانی مداخلت بھی بہت اہم ہوتی ہے ۔
آسام کے جناب جادو پائینگ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ آپ میں سے کچھ لوگ اُن کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے ۔ اپنے کاموں کے لئے انہیں پدم سمان ملا ہے ۔ شری جادو پائینگ وہ شخص ہیں ، جنہوں نے آسام کے مجولی آئی لینڈ میں قریب 300 ہیکٹیئر شجر کاری میں اپنا فعال تعاون دیا ہے ۔ وہ جنگلات کے تحفظ کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور لوگوں کو شجر کاری اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے تحریک دلا رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آسام میں ہمارے مندر بھی ، قدرت کے تحفظ میں ، اپنا الگ ہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر آپ ہمارے مندروں کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر مندر کے پاس ایک تالاب ہے۔ ہاجو کے ہیاگریو مادھیب مندر ، سونیت پور کے ناگ شنکر مندر اور گوہاٹی کے اُگر تارا مندر کے پاس ، اسی طرح کے کئی تالاب ہیں ۔ ان کا استعمال معدوم ہو رہے کچھوؤں کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ آسام میں کچھوؤں کی سب سے زیادہ نسلیں پائی جاتی ہیں ۔ مندروں کے یہ تالاب کچھوؤں کے تحفظ ، افزائش اور ان کے بارے میں جاننے کے لئے ایک بہترین مقام بن سکتے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اننوویشن کرنے کے لئے ، آپ کا سائنسدان ہونا ضروری ہے ۔ کچھ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو کچھ سکھانے کے لئے آپ کا ٹیچر ہونا ضروری ہے ۔ اس سوچ کو چیلنج کرنے والے لوگ ہمیشہ تعریف کے لائق ہوتے ہیں ۔ اب جیسے ، کیا کوئی ، کسی کی فوجی بنانے کے لئے تربیت کرتا ہے تو کیا اُس کا فوجی ہونا ضروری ہے ؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہاں ، ضروری ہے ۔ لیکن یہاں تھوڑا سا ٹوئیسٹ ہے ۔
مائی گو پر کمل کانتھ جی نے میڈیا کی ایک رپورٹ ساجھا کی ہے ، جو کچھ الگ بات کہتی ہے ۔ اڈیشہ میں اراکھڑا میں ایک صاحب ہیں – نائک سَر ۔ ویسے تو اِن کا نام سلو نائک ہے ، پر سب انہیں نائک سَر ہی بلاتے ہیں ۔ دراصل ، وہ مین آن اے مشن ہیں ۔ وہ اُن نو جوانوں کی مفت میں تربیت کرتے ہیں ، جو فوج میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ نائک سر کی آرگنائزیشن کا نام مہاگرو بٹالین ہے ۔ اس میں فزیکل فٹنیس سے لے کر انٹر ویو تک اور رائٹنگ سے لے کر ٹریننگ تک ، ان سبھی پہلوؤں کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ جانکر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے جن لوگوں کو تربیت دی ہے ، انہوں نے بری ، بحری اور فضائی فوج ، سی آر پی ایف ، بی ایس ایف جیسی فورسیز میں اپنی جگہ بنائی ہے ۔ ویسے آپ کو یہ جانکر بھی حیرت ہو گی کہ سلو نائک جی نے خود اڈیشہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے ۔ اس کے باوجود ، انہوں نے اپنی تربیت کے دم پربہت سے نوجوانوں کو ملک کی خدمت کے قابل بنایا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر نائک سر کو مبارکباد دیں کہ وہ ہمارے ملک کے لئے اور زیادہ جانبازوں کو تیار کریں ۔
ساتھیو ، کبھی کبھی بہت چھوٹا اور عام سا سوال بھی ذہن کو ہلا دیتا ہے ۔ یہ سوال لمبے نہیں ہوتے ہیں ، بہت آسان ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے حیدر آباد کی اپرنا ریڈی جی نے مجھ سے ایسا ہی ایک سوال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ – آپ اتنے سال سے وزیر اعظم ہیں ، اتنے سال وزیر اعلیٰ رہے ، کیا آپ کو کبھی لگتا ہے کہ کہ کچھ کمی رہ گئی ۔ اپرنا جی کا سوال جتنا آسان ہے ، اس کا جواب اتنا ہی مشکل بھی ۔ میں نے اس سوال پر سوچا اور خود سے کہا میری ایک کمی یہ رہی کہ میں دنیا کی سب سے تاریخی زبان تمل سیکھنے کے لئے بہت کوشش نہیں کرپایا ۔ میں تمل نہیں سیکھ پایا ۔ یہ ایک ایسی خوبصورت زبان ہے ، جو دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ بہت سے لوگوں نے مجھے تمل ادب کے معیار اور اس میں لکھے گئے اشعار کی گہرائی کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے ۔ بھارت ایسی بہت سی زبانوں کا مقام ہے ، جو ہماری ثقافت اور فخر کی علامت ہے ۔ زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، میں ایک چھوٹی سی دلچسپ کلپ آپ سب کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔
## (ساؤنڈ کلپ مجسمہ اتحاد)
دراصل ، ابھی جو آپ سن رہے تھے ، وہ مجسمہ ٔاتحاد پر ایک گائڈ ہے ، جو سنسکرت میں لوگوں کو سردار پٹیل کی دنیا کی سب سے بلند مجسمے کے بارے میں بتا رہی ہے ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کیوڑیا میں 15 سے زیادہ گائیڈ ، سنسکرت میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک اور آواز سنواتا ہوں ۔
## (ساؤنڈ کلپ کرکٹ کمنٹری)
آپ بھی اِسے سن کر حیران ہو گئے ہوں گے ۔ در اصل ، یہ سنسکرت میں کی جا رہی کرکٹ کمنٹری ہے ۔ وارانسی میں ، سنسکرت کالجوں کے بیچ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا ہے ۔ یہ کالج ہیں – شاستھارتھ مہا ودیالیہ ، سوامی ویدانتی وید ودیا پیٹھ ، شری برہم وید ودیالیہ اور انٹرنیشنل چندر مولی چیریٹبل ٹرسٹ ۔ اس ٹورنامنٹ کے میچوں کے دوران کمنٹری سنسکرت میں بھی کی جاتی ہے۔ ابھی میں نے اس کمنٹری کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ آپ کو سنایا ۔ یہی نہیں ، اس ٹورنامنٹ میں ، کھلاڑی اور کمنٹیٹر روایتی لباس میں نظر آتے ہیں ۔ اگر آپ کو توانائی ، جوش و خروش ، سسپنس سب کچھ ایک ساتھ چاہیئے تو آپ کو کھیلوں کی کمنٹری سننی چاہیئے ۔ ٹی وی آنے سے بہت پہلے کھیلوں کے تبصرے ہی وہ وہ ذریعہ تھے ، جس کے ذریعے کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں کی سنسنی ملک بھر کے لوگ محسوس کرتے تھے ۔ ٹینس اور فٹ بال میچوں کی کمنٹری بھی بہت اچھی طرح سے پیش کی جاتی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن کھیلوں کی کمنٹری میں وسعت ہے ، ان کھیلوں کو مقبولیت بہت تیزی سے حاصل ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں بھی بہت سے بھارتی کھیل ہیں لیکن ان میں کمنٹری کلچر نہیں آیا ہے اور اس وجہ سے وہ معدوم ہونے کی حالت میں ہیں ۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے ۔ – کیوں نہ الگ الگ کھیلوں اور خاص طور پر بھارتی کھیلوں کی اچھی کمنٹری زیادہ سے زیادہ زبانوں میں ہو ، ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے ۔ میں کھیل کی وزارت اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھیوں سے اس بارے میں سوچنے کی درخواست کروں گا ۔
میرے پیارے نو جوان ساتھیو ، آنے والے کچھ مہینے آپ سب کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ زیادہ تر نو جوان ساتھیوں کے امتحانات ہوں گے ۔ آپ سب کو یاد ہے نا – واریئر بننا ہے ، ووریئر نہیں ۔ ہنستے ہوئے امتحان دینے جانا ہے اور مسکراتے ہوئے لوٹنا ہے۔ کسی اور سے نہیں ، اپنے آپ سے ہی مقابلہ کرنا ہے ۔ ضرورت کے مطابق نیند بھی لینی ہے اور ٹائم مینجمنٹ بھی کرنا ہے ۔ کھیلنا بھی نہیں چھوڑنا ہے کیونکہ جو کھیلے وہ کھِلے ۔ نظر ثانی اور یاد کرنے کے اسمارٹ طریقے اپنانے ہیں یعنی کل ملاکر ، ان امتحانات میں اپنی بہترین کارکردگی کو باہر لانا ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ، یہ سب ہوگا کیسے ۔ ہم سب مل کر یہ کرنے والے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم سب کریں گے ‘ پریکشا پے چرچا ’ ۔ لیکن مارچ میں ہونے والی ‘ پریکشا پے چرچا ’ سے پہلے میری آپ سبھی ایگزام واریئر سے ، والدین سے اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ اپنے تجربات ضرور شیئر کریں ۔ آپ مائی گو ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ نریندر مودی ایپ پر شیئر کر سکتے ہیں ۔ اس بار ‘ پریکشا پے چرچا ’ میں نو جونواں کے ساتھ ساتھ ، والدین اور اساتذہ بھی مدعو ہیں ۔ کیسے حصہ لینا ہے ، کیسے انعام جیتنے ہیں ، کیسے میرے ساتھ گفتگو کا موقع حاصل کرنا ہے ، یہ ساری معلومات آپ کو مائی گو ایپ پر ملیں گی ۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ طالب علم ، قریب 40 ہزار والدین اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ حصہ لے چکے ہیں ۔ آپ بھی آج ہی حصہ لیجئے ۔ اس کورونا کے وقت میں ، میں نے کچھ وقت نکال کر ایگزام واریئر بُک میں بھی کئی نئے منتر جوڑ دیئے ہیں ، اب اس میں والدین کے لئے بھی کچھ منتر جوڑے گئے ہیں ۔ ان منتروں سے جڑی بہت ساری دلچسپ سرگرمیاں نریندر مودی ایپ پر دی گئی ہیں ، جو آپ کے اندر کے ایگزام واریئر کو اکسانے میں مدد کریں گی ۔ آپ ان کو ضرور آزماکر دیکھئے ۔ سبھی نوجوان ساتھیوں کو آنے والے امتحانات کے لئے بہت بہت نیک خواہشات ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، مارچ کا مہینہ ہمارے مالی سال کا آخری مہینہ بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لئے کافی مصروفیت بھی رہے گی ۔ اب جس طرح سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں ، اس سے ہمارے کاروباریوں اور صنعت کاروں کی مصروفیت بھی بہت بڑھ رہی ہے ۔ ان سارے معاملوں کے بیچ ہمیں کورونا سے متعلق احتیاط میں کمی نہیں کرنی ہے ۔ آپ سب صحت مند رہیں گے ، خوش رہیں گے ، فرائض کی انجام دہی پر ڈتے رہیں گے تو ملک تیزی سے آگے بڑھتا رہے گا ۔
آپ سبھی کو تہواروں کی پیشگی مبارکباد ، ساتھ ساتھ کورونا سے متعلق ، جو بھی قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ہے ، ان میں کسی طرح کی کمی نہیں آنی چاہیئے ۔ بہت بہت شکریہ !
نئی دہلی۔ 31 جنوری میرے عزیز ہم وطنو! نمسکار! جب میں "من کی بات" کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے ، جیسے آپ کے درمیان، آپ کے پریوار کے رکن کی حیثیت سے حاضر ہوں ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں، جو ایک دوسرے کو، کچھ، سکھا جائے، زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات ، جی بھر کے جینے کی ترغیب بن جائے – بس یہی تو ہے ‘من کی بات’۔ آج، 2021 کی جنوری کا آخری دن ہے۔ کیا آپ بھی میری طرح یہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے تو 2021 شروع ہوا تھا ؟ لگتا ہی نہیں کہ جنوری کا پورا مہینہ گذر گیا ہے – وقت کی رفتار اسی کو تو کہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی ہی تو بات لگتی ہے جب ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، پھر ہم نے لوہڑی منائی، مکر سنکرانتی منائی، پونگل، بہو منایا۔ دیش کے الگ الگ حصوں میں تہواروں کی دھوم رہی۔ 23 جنوری کو ہم نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے جنم دن کو ‘پراکرم دوس’ کے طور پر منایا اور 26 جنوری کو ‘یوم جمہوریہ ’ کی شاندار پریڈ بھی دیکھی۔ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ایوان کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے بعد ‘بجٹ اجلاس’ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ان سبھی کے درمیان ایک اور کام یہ ہوا، جس کا ہم سبھی کو بہت انتظار رہتا ہے – یہ ہے پدم ایوارڈوں کا اعلان ۔ ملک غیر معمولی کارنامہ انجام دے رہے لوگوں کو انکی حصولیابیوں اور انسانیت کے تئیں ان کی خدمات کو اعزاز سے نوازا۔ اس سال بھی، ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں، وہ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے، مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اپنے کارناموں سے کسی کی زندگی بدلی، ملک کو آگے بڑھایاہے۔ یعنی، زمینی سطح پر کام کرنے والے گمنام ہیرو کو پدم اعزاز دینے کی جو روایت ملک نے کچھ سال پہلے شروع کی تھی، وہ، اس بار بھی قائم رکھی گئی ہے۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے، کہ، ان لوگوں کے بارے میں، ان کی خدمات کے بارے میں ضرور جانیں، اپنے کنبے میں، انکے بارے میں،باتیں کریں۔ دیکھیں گے ، سبھی کو اس سے کتنی تحریک ملتی ہے۔
اس مہینے، کرکٹ کے میدان سے بھی بہت اچھی خبر ملی۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے شروعاتی دقتوں کے بعد، شاندار واپسی کرتے ہوئے آسٹریلیا میں سیریز جیتی۔ ہمارے کھلاڑیوں کی کڑی محنت اور ٹیم ورک حوصلہ افزا ہے۔ ان سب کے درمیان دلی میں، 26 جنوری کو ترنگے کا بے حرمتی دیکھ کر ملک بہت افسردہ بھی ہوا۔ ہمیں آنے والے وقت کو نئی امید اور جدت سے معمور کرنا ہے۔ ہم نےگذشتہ سال غیر معمولی حوصلہ اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس سال بھی ہمیں کڑی محنت کرکے اپنے عزائم کوثابت کرنا ہے۔ اپنے ملک کو، اور تیز رفتاری سے، آگے لے جانا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اس سال کی شروعات کے ساتھ ہی کو رونا کے خلاف ہماری لڑائی کو بھی قریب قریب ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ جیسے کو رونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی ایک مثال بنی ہے، ویسے ہی، اب، ہماراٹیکہ کاری پروگرام بھی دنیا میں، ایک مثال بن رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاکووڈ ویکسین پروگرام چلا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں، اور بھی زیادہ فخر کی بات کیا ہے ؟ ہم سب سے بڑے ویکسین پروگرام کے ساتھ ہی دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے اپنے شہریوں کی ٹیکہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ صرف 15 دنوں میں،ہندوستان ، اپنے 30 لاکھ سے زیادہ،کورونا واریرس کی ٹیکہ کاری کر چکا ہے، جبکہ، امریکہ جیسے خوشحال ملک کو، اسی کام میں، 18 دن لگے تھے اور برطانیہ کو 36 دن۔
ساتھیو! ہندوستان میں بنی ویکسین آج، خود انحصار ہندوستان کی تو علامت ہے ہی،ہندوستان کے لیے قابل فخر ہونے کی علامت بھی ہے۔نمو اَیپ پر اتر پردیش بھائی ہمانشو یادو نے لکھا ہے کہ' میڈ اِن انڈیا ویکسین' سے دل میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ مدورے سے کیرتی جی لکھتی ہیں، کہ انکے کئی غیر ملکی دوست، انکو، میسیج بھیج کرہندوستان کا شکریا ادا کر رہے ہیں۔ کیرتی جی کے دوستوں نے انہیں لکھا ہے کہ ہندوستان نے جس طرح کو رونا سے لڑائی میں دنیا کی مدد کی ہے، اس سے ہندوستان کے بارے میں، انکے من میں، عزت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیرتی جی، ملک کے بارے میں یہ قابل فخر باتیں سن کر، ‘من کی بات’ کے سامعین کو بھی فخر ہوتا ہے۔ آج کل مجھے بھی مختلف ممالک کے صدور اور وزراء اعظم کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایسے ہی پیغامات ملتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا، ابھی، برازیل کے صدر نے، ٹویٹ کرکے جس طرح سے ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ہے، وہ دیکھ کر ہرہندوستانی کو کتنا اچھا لگا۔ ہزاروں کلومیٹر دور، دنیا کے دور درراز گوشوں میں رہنے والوں کو ، رامائن کے اس سیاق و سباق کی اتنی گہری جانکاری ہے، وہ اس سے اس قدر متاثر ہیں، – یہ ہمارے کلچر کی خصوصیت ہے۔
ساتھیو! اس ٹیکہ کاری مہم میں، آپ نے ایک اور بات پر ضرور دھیان دیا ہوگا۔ بحران کے وقت ہندوستان ، دنیا کی خدمت اسلئے کر پا رہا ہے، کیونکہ،ہندوستان ، آج، دواؤں اورویکسین کو لیکراہل اور خود انحصار ہے۔ یہی فکر خود انحصار ہندوستان مہم کی بھی ہے۔ ہندوستان جتنا اہل ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت کی خدمت کرے گا ، اتنا ہی زیادہ دنیا کو فائدہ ہوگا۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہر بار آپ کے ڈھیر سارے خطوط ملتے ہیں ، نمو اَپ اور مائی گو پر آپ کے پیغامات اور فون کال کے ذریعہ آپ کی باتیں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان ہی پیغامات میں ایک ایسا بھی پیغام ہے، جس نے، میری توجہ مبذول کرائی – یہ پیغام ہے، بہن پرینکا پانڈے جی کا۔ 23 سال کی بیٹی پرینکا جی، ہندی ادب کی طالبہ ہیں ، اور، بہار کے سیوان میں رہتی ہیں۔ پرینکا جی نے نمو اَیپ پر لکھا ہے، کہ انہیں ، ملک کے 15 گھریلو سیاحتی مقامات پر جانے کے میرے مشورے سے بہت حوصلہ ملا تھا ، اسلئے یکم جنوری کو وہ ایک جگہ کے لیے نکلیں، جو بہت خاص تھی۔ وہ جگہ تھی، انکے گھر سے 15 کلومیٹر دور، ملک پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کا آبائی گاؤں۔ پرینکا جی نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ اپنے ملک کی عظیم ہستیوں کو جاننے کی سمت میں انکا یہ پہلا قدم تھا۔ پرینکا جی کو وہاں ڈاکٹر راجیندر پرساد جی کے ذریعہ لکھی گئی کتابیں ملیں، متعدد تاریخی تصویریں ملیں۔ انہوں نے، ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جب پوجیہ باپو، راجیندر جی کے گھر میں ٹھہرے تھے۔ واقعی، پرینکا جی آپ کا یہ تجربہ دوسروں کو بھی تحریک دے گا۔
ساتھیو! اس سال ہندوستان اپنی آزادی کی75 سالہ تقریب– امرت مہوتسو شروع کرنے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ ہمارے ان عظیم ہیرو سےمنسلک علاقائی مقامات کا پتہ لگانے کا بہترین وقت ہے، جن کی وجہ سے ہمیں آزادی ملی۔
ساتھیو! ہم آزادی کی تحریک اور بہار کی بات کر رہیں ہیں، تو میں نمو اَیپ پر ہی کیا گیا ایک اورتبصرے کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ مونگیر کے رہنے والے جے رام وپلو جی نے مجھے یوم شہیدانِ تاراپور کے بارے میں لکھا ہے۔ 15 فروری، 1932 کو، قوم پرستوں کی ایک جماعت کے کئی بہادر نوجوانوں کا انگریزوں نے بڑی ہی بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ ان کا صرف ایک جرم یہ تھا کہ وہ ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماں کی جے’ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں ان شہیدوں کو نمن کرتا ہوں، اور ان کی جرات کو بڑی عقیدت یاد کرتا ہوں،۔ میں جے رام وپلو جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک ایسے واقعہ کو ملک کے سامنے لیکر آئے، جس پر اتنی باتیں نہیں ہو پائیں، جتنی ہونی چاہیئے تھی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان کے ہر حصہ میں، ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں آزادی کی لڑائی پوری طاقت کے ساتھ لڑی گئی تھی۔ سر زمین ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے عظیم سپوتوں اور بہادروں نے جنم لیا، جنہوں نے، ملک و قوم کے لیے اپنی زندگی نچھاور کر دی، ایسے میں، یہ، بہت اہم ہے کہ ہمارے لیے کی گئی ان کی جد و جہد اور ان سے وابستہ یادوں کو ہم سنبھال رکھیں اور اسکے لیے انکے بارے میں لکھ کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انکی یادوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ میں، سبھی ہم وطنوں کو اور خاص کر اپنے نوجوان ساتھیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک کے مجاہدین آزادی کے بارے میں، آزادی سے جڑے واقعات کے بارے میں لکھیں۔ اپنے علاقے میں جنگ آزادی کے دور کی بہادری کی داستانوں کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ اب جبکہ ہندوستان اپنی آزادی کا 75 واں سال منائے گا ، تو آپ کی تحریر آزادی کے ہیروؤں کے تئیں خراج عقیدت ہوگی۔جواں سال لکھنے والوں کے لیے 'انڈیا سوینٹی فائیو' کے نام سے ایک پہل کی جا رہی ہے۔ اس سے سبھی ریاستوں اور زبانوں کے جواں سال لکھنے والوں کو تحریک ملے گی۔ ملک میں بڑی تعداد میں ایسے موضوعات پر لکھنے والے تیار ہوں گے، جن کا ہندوستانی وراثت اور ثقافت پر گہرا مطالعہ ہوگا۔ ہمیں ایسی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کی بھرپور مدد کرنی ہے۔ اس سے مستقل کی سمت متعین کرنے والے قائدین کا ایک طبقہ بھی تیار ہوگا۔ میں اپنے نوجوان دوستوں کو اس پہل کا حصہ بننے اور اپنی ادبی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس سے جڑی جانکاریاں وزارت تعلیم کی ویب سائٹ پر حاصل کر سکتے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ‘من کی بات’ میں سامعین کو کیا پسند آتا ہے، یہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مجھے ‘من کی بات’ میں سب سے اچھا یہ لگتا ہے کہ مجھے بہت کچھ جاننے سیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرح سے بالواسطہ طور پر آپ سب سے، جڑنے کاموقع ملتا ہے۔ کسی کی کوشش ، کسی کا جذبہ، کسی کا ملک کے لیے کچھ کرگذر جانے کا جنون – یہ سب، مجھے، بہت تحریک دیتے ہیں، توانائی سے لبریز کر دیتے ہیں۔
حیدرآباد کے بوین پلی میں، ایک مقامی سبزی منڈی، کس طرح، اپنے فرائض انجام دے رہی ہے، یہ پڑھکر بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ سبزی منڈیوں میں متعدد وجوہات سے کافی سبزی خراب ہو جاتی ہے۔ یہ سبزی ادھرادھر پھیلتی ہے، گندگی بھی پھیلاتی ہے لیکن، بوین پلی کی سبزی منڈی نے طے کیا کہ، ہر روز بچنے والی ان سبزیوں کو ایسے ہی پھینکا نہیں جائے گا۔ سبزی منڈی سے جڑے لوگوں نے طے کیا، اس سے، بجلی بنائی جائیگی۔ بیکار ہوئی سبزیوں سے بجلی بنانے کے بارے میں شاید ہی آپ نے کبھی سنا ہو – یہی تو اختراعات کی طاقت ہے۔ آج بوین پلی کی منڈی میں پہلے جوفضلہ تھا، آج اسی سے دولت پیدا ہو رہی ہے – یہی تو کچرے سے کنچن بنانے کا سفر ہے۔ وہاں ہر دن قریب 10 ٹن فضلہ نکلتا ہے، اسے ایک پلانٹ میں اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ پلانٹ کے اندر اس فضلہ سے ہر دن 500 یونٹ بجلی بنتی ہے، اور قریب 30 کلو حیاتیاتی ایندھن بھی بنتا ہے۔ اس بجلی سے ہی سبزی منڈی میں روشنی ہوتی ہے اور جو حیاتیاتی ایندھن بنتا ہے، اس سے منڈی کی کینٹین میں کھانا بنایا جاتا ہے – ہے نہ کمال کی کوشش!
ایسا ہی ایک کمال، ہریانہ کے پنچ کولہ کی بڑوت گرام پنچایت نے بھی کرکے دکھایا ہے۔ اس پنچایت کے علاقے میں پانی کی نکاسی کا مسئلہ تھا ۔ اس کی وجہ سے گندہ پانی ادھرادھر پھیل رہا تھا، بیماری پھیلتی تھی، لیکن، بڑوت کے لوگوں نے طے کیا کہ اس خراب پانی سے بھی دولت پیدا کریں گے۔ گرام پنچایت نے پورے گاؤں سے آنے والے گندے پانی کو ایک جگہ اکٹھا کرکے فلٹر کرنا شروع کیا، اورفلٹر کیا ہوا یہ پانی، اب گاؤں کے کسان، کھیتوں میں سینچائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یعنی آلودگی ، گندگی اور بیماریوں سے چھٹکارا بھی، اور کھیتوں میں سینچائی بھی۔
ساتھیو!ماحولیات کے تحفظ سے کیسے آمدنی کے راستے بھی کھلتے ہیں، اس کی ایک مثال اروناچل پردیش کے توانگ میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ اروناچل پردیش کے اس پہاڑی علاقے میں صدیوں سے ‘مون شوگو’ نام کا ایک پیپر بنایا جاتا ہے۔ یہ کاغذ یہاں کے مقامی شوگو شینگ نام کے ایک پودے کی چھال سے بناتے ہیں، اسلئے، اس کاغذ کو بنانے کے لیے پیڑوں کو نہیں کاٹنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ، اسے بنانے میں کسی کیمیاوی مواد کا استعمال بھی نہیں ہوتا ہے، یعنی، یہ کاغذ ماحولیات کے لیے بھی محفوظ ہے، اور صحت کے لیے بھی۔ ایک وہ بھی وقت تھا، جب، اس کاغذ کی بر آمدات ہوتی تھی ، لیکن، جب جدید تکنیک سے بڑی تعداد میں کاغذ بننے لگے، تو یہ مقامی آرٹ بند ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ۔ اب ایک مقامی سماجی خدمتگار کلنگ گومبو نے اس آرٹ کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے، اس سے، یہاں کے قبائلی بھائی بہنوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔
میں نے ایک اور خبر کیرالہ کی دیکھی ہے، جو ہم سبھی کو اپنے فرض کا احساس دلاتی ہے۔ کیرالہ کے کو ٹیم میں ایک معذور بزرگ ہیں – این ایس راجپن صاحب۔ راجپن جی لقوہ کے باعثت چل نہیں سکتے ہیں ، لیکن اس سے، صفائی کے تئیں ان کی سرشاری میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ، پچھلے کئی سالوں سے ناؤ سے ویمبناڈ جھیل میں جاتے ہیں اور جھیل میں پھینکی گئی پلاسٹک کی بوتلیں باہر نکال کرلے آتے ہیں۔ سوچیں، راجپن جی کی سوچ کتنی اونچی ہے۔ ہمیں بھی، راجپن جی سے تحریک لے کر ، صفائی کے لیے، جہاں ممکن ہو، اپنا تعاون پیش کرنا چاہیئے۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا، امریکہ کے سان فرانسسکو سے بنگلورو کے لیے ایک نان اسٹاپ فلائٹ کی کمان ہندوستان کی چار خواتین پائلٹ نے سنبھالی۔ دس ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ لمبا سفر طے کرکے یہ فلائٹ سوا دو سو سے زیادہ مسافروں کو ہندوستان لیکر آئی۔ آپ نے اس بار 26 جنوری کی پریڈ میں بھی غور کیا ہوگا، جہاں، ہندوستانی فضائیہ کی دو خاتون افسروں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔علاقہ کوئی بھی ہو، ملک کی خواتین کی شراکت داری مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ، ملک کے گاؤں میں ہو رہے اسی طرح کی تبدیلی کا اتنا ذکر نہیں ہوپاتا ۔ اسلئے، جب میں نے ایک خبر مدھیہ پردیش کے جبل پور کی دیکھی، تو مجھے لگا کہ اسکا ذکر تو مجھے ‘من کی بات’ میں ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ خبر بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ جبل پور کے چچگاؤں میں کچھ قبائلی خواتین ایک چاول مل میں دہاڑی پر کام کرتی تھیں۔ کو رونا عالمی وبا نے جس طرح دنیا کے ہر فرد کو متاثر کیا اسی طرح یہ خواتین بھی متاثر ہوئیں۔ ان کی چاول میں کام رک گیا۔ قدرتی بات ہے کہ اس سے آمدنی کی بھی دقت آنے لگی، لیکن یہ ناامید نہیں ہوئیں، انہوں نےہار نہیں مانی۔ انہوں نے طے کیا کہ یہ ساتھ ملکر اپنی خود کی چاول مل شروع کریں گی، جس مل میں یہ کام کرتی تھیں، وہ اپنی مشین بھی بیچنا چاہتی تھی۔ ان میں سے مینا راہنگ ڈالے جی نے سبھی خواتین کو جوڑکر ‘سیلف ہیلف گروپ’ بنایا، اور سب نے اپنی بچائی ہوئی پونجی سے پیسہ جٹایا، جو پیسہ کم پڑا، اسکے لیے ‘آجیوکا مشن’ کے تحت بینک سے قرض لے لیا، اور اب دیکھیے، ان قبائلی بہنوں نے وہی چاول مل خرید لی، جس میں وہ کبھی کام کیا کرتی تھیں۔ آج وہ اپنی خود کی چاول مل چلا رہی ہیں۔ اتنے ہی دنوں میں اس مل نے تقریباً تین لاکھ روپے کا منافع بھی کما یا ہے۔ اس منافع سے مینا جی اور انکی ساتھی، سب سے پہلے، بینک کا لون چکانے اور پھر اپنے بیوپار کو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کو رونا نے جو صورتحال بنائی ، اس سے مقابلے کے لیے ملک کے کونے کونے میں ایسے حیرت انگیز کام ہوئے ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، اگر میں آپ سےبندیل کھنڈ کے بارے میں بات کروں تو وہ کون سی چیزیں ہیں، جو آپ کےذہن میں آئیں گی! تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اس علاقہ کو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے ساتھ جوڑیں گے۔ وہیں، کچھ لوگ خوبصورت اور پرسکون ‘اورچھا’ کے بارے میں سوچیں گے۔ کچھ لوگوں کو اس علاقے میں پڑنے والی سخت گرمی کی بھی یاد آ جائے گی، لیکن، ان دنوں، یہاں، کچھ الگ ہو رہا ہے، جو، کافی جوش بڑھانے والا ہے، اور جسکے بارے میں ہمیں ضرور جاننا چاہیئے۔گذشتہ دنوں جھانسی میں ایک مہینے تک چلنے والا 'اسٹرا بیری فیسٹیول' شروع ہوا۔ ہر کسی کوحیرانی ہوتی ہے – اسٹرا بیری اور بندیل کھنڈ ! لیکن یہی سچائی ہے۔ اب بندیل کھنڈ میں اسٹرا بیری کی کھیتی کو لیکرجوش بڑھ رہا ہے، اور اس میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے، جھانسی کی ایک بیٹی – گرلین چاؤلہ نے۔قانون کی طالبہ گرلین نے پہلے اپنے گھر اور پھر اپنے کھیت میں اسٹرابیری کی کھیتی کا کامیاب تجربہ کر کے یہ اعتماد بحال کیا کہ جھانسی میں بھی یہ ہو سکتا ہے۔ جھانسی کا 'اسٹرابیری فیسٹیول' "گھر پر رہیں " کے تصور پر زور دیتا ہے۔ اس فیسٹیول کے ذریعہ کسانوں اورنوجوانوں کو اپنے گھر کے پیچھے خالی جگہ میں ، یا چھت پر باغبانی کرنے اور اسٹرا بیری اگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی مدد سے ایسے ہی کوششیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہو رہی ہیں، جو اسٹرا بیری کبھی، پہاڑوں کی پہچان تھی، وہ اب، کچھ کی رتیلی زمین پر بھی ہونے لگی ہے، کسانوں کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔
ساتھیو! اسٹرابیری فیسٹیول جیسے استعمال اختراعات کی روح کو تو ظاہر کرتے ہی ہیں، ساتھ ہی یہ بھی دکھاتے ہیں کہ ہمارے دیش کا زرعی شعبہ کیسے نئی ٹکنالوجی اختیار کر رہا ہے۔
ساتھیو، زراعت کو جدید بنانے کے لیے حکومت پر عزم ہے اور متعدد اقدامات بھی کر رہی ہے۔ حکومت کی کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، کچھ ہی دن پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھا۔ وہ ویڈیومغربی بنگال کے مغربی مدناپور میں واقع ‘نیا پنگلا’ گاؤں کے ایک مصور سرم الدین کا تھا۔ وہ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ رامائن پر بنائی انکی پینٹنگ دو لاکھ روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ اس سے انکے گاؤں والوں کو بھی کافی خوشی ملی ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھے اسکے بارے میں اور زیادہ جاننے کا تجسس ہوا۔ اسی سلسلے میں مجھے مغربی بنگال سے وابستہ ایک بہت اچھی پہل کے بارے میں جانکاری ملی، جسے میں آپ سے ساتھ ضرور شیئر کرنا چاہونگا۔ وزارت سیاحت کے علاقائی دفتر نے مہینے کے شروع میں ہی بنگال کے گاؤں میں ایک 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے' کی شروعات کی۔ اس میں مغربی مدناپور، بانکرا، بیربھوم، پرو لیا، پورو بردھمان، وہاں کےدستکاروں نے آنے والوں کے لیے 'ہینڈی کرافٹ ورکشاپ' کا انعقاد کیا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ 'بے نظیر ہندوستان ویک انڈ گیٹ وے کے دوران دستکاری کی جو فروخت ہوئی وہ دستکاروں کے لیے بیحد حوصلہ افزا ہے۔ ملک بھر میں لوگ بھی نئے نئے طریقوں سے ہمارے آرٹ کو مقبول عام بنا رہے ہیں۔ اڈیشہ کے راورکیلا کی بھاگیشری ساہو کو دیکھ لیجئے۔ ویسے تو وہ انجنیئرنگ کی طالبہ ہیں، لیکن، پچھلے کچھ مہینوں میں انہوں نےاسکرین آرٹ کو سیکھنا شروع کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نےپینٹ کہاں کیا – نرم نرم پتھروں پر، کالج جانے کے راستے میں بھاگیہ شری کو یہ نرم پتھر ملے، انہوں نے، انہیں جمع کیا اور صاف کیا۔ بعد میں، انہوں نے، روزانہ دو گھنٹے ان پتھروں پراسکرین آرٹ کی پینٹنگ کی۔ وہ ان پتھروں کو پینٹ کر کے انہیں اپنے دوستوں کو بطور تحفہ دینے لگیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے بوتلوں پر بھی پینٹ کرنا شروع کر دیا۔ اب تو وہ اس آرٹ پر ورکشاپ بھی منعقد کرتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی، سبھاش بابو کی جینتی پر، بھاگیہ شری نے پتھر پر ہی انہیں انوکھی شردھانجلی دی۔ میں، بھاگیہ شری کو ان کی کوششوں کے مبارکباد دیتا ہوں۔آرٹ اور رنگوں کے ذریعہ بہت کچھ نیا سیکھا جا سکتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کے دمکا میں کئے گئے ایک ایسے ہی انوکھی کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا۔ یہاں میڈل اسکول کے ایک پرنسپل نے بچوں کو پڑھانے اور سکھانے کے لیے گاؤں کی دیواروں کو ہی انگریزی اور ہندی کے حروف سے پینٹ کروا دیا، ساتھ ہی، اس میں، مختلف تصویریں بھی بنائی گئی ہیں، اس سے، گاؤں کے بچوں کو کافی مدد مل رہی ہے۔ میں، ایسے سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہندوستان سے ہزاروں کلومیٹر دور، کئی سمندروں ، بر اعظموں کے پار ایک ملک ، جس کا نام ہے چلی۔ ہندوستان سے چلی پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی ثقافت کی خوشبو وہاں بہت پہلے سے ہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے، کہ، وہاں یوگا بہت زیادہ مقبول ہے۔ آپ کو یہ جان کر اچھا لگےگا کہ چلی کی راجدھانی سینٹیاگو میں 30 سے زیادہ یوگا اسکول ہیں۔چلی میں بین الاقوامی یوگ دوس بھی بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہاؤس آف ڈیوپٹیز میں یوگ دوس کو لیکر بہت ہی گرم جوشی بھرا ماحول ہوتا ہے۔ کو رونا کے اس دور میں قوت مدافعت پر زور اور قوت مدافعت بڑھانے میں، یوگا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اب وہ لوگ یوگا کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔چلی کی کانگریس، یعنی وہاں کی پارلیمنٹ نے تجویز منظور کی ہے۔ وہاں، 4 نومبر کو قومی یوگا ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر 4 نومبر میں ایسا کیا ہے ؟ 4 نومبر 1962 کو ہی چلی کا پہلا یوگا کا ادارہ ہوزے رافال ایسٹراڈا کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا۔ اس دن کوقومی یوگا ڈے کا اعلان کرکے ایسٹراڈا جی کو بھی خراج عقیدت پیش کی گئی ہے۔ چلی کی پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک خاص اعزاز ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ ویسے چلی کی پارلیمنٹ سے جڑی ایک اور بات آپ کو دلچسپ لگےگی۔ چلی کی سینٹ کےنائب صدر کا نام رابندرناتھ کونٹیراس ہے۔ انکا یہ نام وشو کوی گرودیو ٹیگور سے تحریک حاصل کر کے رکھا گیا ہے۔
میرے عزیز ہم وطنو! مائی گو پر مہاراشٹر کے جالنا کے ڈاکٹر سوپ نیل منتری اور کیرالہ کے پلکاڈ کے پرہلاد راج گوپالن نے گذارش کی ہے کہ میں ‘من کی بات’ میں سڑک تحفظ پر بھی آپ سے بات کروں۔ اسی مہینے 18 جنوری سے 17 فروری تک، ہمارا ملک ‘سڑک تحفظ ماہ’ یعنی 'روڈ سیفٹی منتھ" منا رہا ہے۔ سڑک حادثے آج ہمارے ملک میں ہی نہیں پوری دنیا میں تشویش کا موضوع ہیں۔ آج ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے لیےحکومت کے ساتھ ہی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کئی طرح کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ زندگی بچانے کی ان کوششوں میں ہم سب کو سرگرمی سے شراکت دار بننا چاہیئے۔
ساتھیو! آپ نے غور کیا ہوگا، بارڈر روڈ آرگنائزیشن جو سڑکیں بناتی ہیں اس سے گذرتے ہوئے آپ کو بڑے ہی اختراعی نعرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ‘This is highway not runway’ یا پھر ‘Be Mr. Late than Late Mr.’ یہ نعرے سڑک پر احتیاط برتنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کرنے میں کافی مؤثر ہوتے ہیں۔ اب آپ بھی ایسے ہی اختراعی سلوگن یا پرکشش فقرے مائی گو پر بھیج سکتے ہیں۔ آپکے اچھے سلوگن بھی اس مہم میں استعمال کئے جائیں گے۔
ساتھیو، روڈ سیفٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں نمو اَیپ پر کولکاتہ کی اپرنا داس جی کی ایک پوسٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اپرنا جی نے مجھے 'فاسٹ ٹیگ' پروگرام پر بات کرنے کی صلاح دی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 'فاسٹ ٹیگ' سے سفر کرنے تجربہ ہی بدل گیا ہے۔ اس سے وقت کی تو بچت ہوتی ہی ہے، ٹال پلازہ پر رکنے، نقد ادائیگی کی فکر کرنے جیسی دقتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اپرنا جی کی بات سہی بھی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں ٹال پلازہ پر ایک گاڑی کو اوسطاً 7 سے 8 منٹ لگ جاتے تھے، لیکن'فاسٹ ٹیگ' آنے کے بعد، یہ وقت ، اوسطاً صرف ڈیڑھ دو منٹ رہ گیا ہے۔ ٹال پلازہ پر انتظار کرنے کے وقت میں کمی آنے سے گاڑی کے ایندھن کی بچت بھی ہو رہی ہے۔ اس سے ہم وطنوں کے تقریباً 21 ہزار کروڑ روپے بچنے کا اندازہ ہے، یعنی پیسے کی بھی بچت، اور وقت کی بھی بچت۔ میری آپ سبھی سے گذارش ہے کہ سبھی رہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، اپنا بھی دھیان رکھیں اور دوسروں کی زندگی بھی بچائیں۔
میرے عزیز ہم وطنو! ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے – “جل بندو نپاتین کرمش پوریتے گھٹ”۔ یعنی ایک ایک بوند سے ہی گھڑا بھرتا ہے۔ ہماری ایک ایک کوشش سے ہی ہمارے عزم پورے ہوتے ہیں۔ اسلئے، 2021 کی شروعات جن اہداف کے ساتھ ہم نے کی ہے، انکو، ہم سب کو مل کر ہی پورا کرنا ہے تو آئیے، ہم سب مل کر اس سال کو مثبت بنانے کے لیے اپنے اپنے قدم بڑھائیں۔ آپ اپنا پیغام اپنےخیالات ضرور بھیجتے رہیئے گا۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے۔
ابھی وداع لیتے ہیں ، پھر ملیں گے!
نئی دہلی۔27 دسمبر میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج 27 دسمبر ہے۔ چار دن بعد ہی 2021 کی شروعات ہونے جا رہی ہے۔ آج کی ‘من کی بات’ ایک طرح سے 2020 کی آخری ‘من کی بات’ ہے۔ اگلی ‘من کی بات’ 2021 میں شروع ہوگی۔ ساتھیو، میرے سامنے آپ کے لکھے ہوئے بہت سے خطوط ہیں۔' مائی گو' پر جو آپ اپنی رائے بھیجتے ہیں، وہ بھی میرے سامنے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے فون کرکے اپنی بات بتائی ہے۔ زیادہ تر پیغامات میں، گذرے ہوئے سال کے تجربات ، اور، 2021 سے وابستہ عہد ہیں۔ کولہاپور سے انجلی جی نے لکھا ہے کہ نئے سال پر، ہم، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں تو اس بار ہم ایک نیا کام کریں۔ کیوں نہ ہم، اپنے ملک کو مبارکباد دیں، ملک کے تئیں بھی نیک خواہشات کا اظہار کریں۔ انجلی جی، واقعی، بہت ہی اچھی رائے ہے۔ ہمارا ملک 2021 میں کامیابیوں کی نئی بلندیوں پر جائے ، دنیا میں ہندوستان کی شناخت اورمضبوط ہو، اس سے بڑی تمنا اور کیا ہوسکتی ہے۔
دوستو ، ممبئی کے ابھیشیک جی نے نمو ایپ پر ایک پیغام پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2020 نے جو کچھ دکھایا ، جوکچھ سکھایا ، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ کو رونا سے جڑی تمام باتیں انہوں نے لکھی ہیں۔ ان خطوں میں، ان پیغامات میں، مجھے، ایک بات جومشترک نظر آ رہی ہے، خاص نظر آ رہی ہے، وہ میں آج آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔زیادہ تر خطوں میں لوگوں نے ملک کی صلاحیت ، ہم وطنوں کی اجتماعی طاقت کی بھرپور ستائش کی ہے۔ جب جنتا کرفیو جیسا جدید تجربہ پوری دنیا کے لیے تحریک بن گئی ، جب، تالی تھالی بجاکر ملک نے کورونا واریرس کو عزت بخشی تھی، اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، اسے بھی کئی لوگوں نے یاد کیا ہے ۔
ساتھیو، ملک کے عام آدمی نے اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ میں نے ملک میں امید کا ایک حیرت انگیز بہاؤ بھی دیکھا ہے۔ بہت سارے چیلنجزآئے۔ بہت سارے بحران بھی آئے۔کورونا کے باعث دنیا میں سپلائی چین کے سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں بھی درپیش ہوئیں، لیکن ، ہم نے ہر بحران سے نیا سبق لیا۔ ملک میں ایک نئی صلاحیت نے بھی جنم لیا۔ اگر آپ الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں تو اس صلاحیت کا نام 'خود انحصاری' ہے۔
دوستو ، دہلی میں رہنے والے ابھینو بنرجی نے اپناجو تجربہ مجھے لکھ کر بھیجا ہے ،وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ابھینو جی کو اپنی رشتہ داری میں بچوں کو تحفے دینے کے لئے کچھ کھلونے خریدنے تھے ، لہذا ، وہ دہلی کے جھنڈے والان بازار گئے تھے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا ، یہ بازار دہلی میں سائیکلوں اور کھلونوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ پہلے وہاں مہنگے کھلونوں کا مطلب بھی درآمد شدہ کھلونے ہوتا تھا اور سستے کھلونے بھی باہر سے آئے تھے۔ لیکن ابھینو جی نے خط میں لکھا ہے کہ اب وہاں کئی دکاندار ، صارفین کو یہ کہہ کر کھلونے بیچ رہے ہیں کہ یہ اچھا کھلونا ہے ، کیونکہ یہ ہندوستان میں بنایا گیا ہے 'میڈ اِن انڈیا' ہے۔ صارفین بھی ہندوستان میں بنے کھلونوں کی ہی مانگ کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے ، یہ ایک سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ ہم وطنوں کی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے ، اور وہ بھی ایک سال کے اندر ۔اس تبدیلی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ ماہرین معاشیات بھی اپنے پیمانے پر اسے وزن نہیں کرسکتے ہیں۔
دوستو ، مجھے وشاکھاپٹنم سےوینکٹ مرلی پرساد جی نے جو لکھا ہے اس میں بھی ایک الگ ہی قسم کا تصور ہے۔ وینکٹ جی نے لکھا ہے میں آپ کو 2021 کے لئےاپنا اے بی سی اٹیچ کر رہا ہوں ۔ مجھےکچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اے بی سی سے ان کا کیا مطلب ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ وینکٹ جی نے خط کے ساتھ ایک چارٹ بھی منسلک کیا ہے۔ میں نے اس چارٹ کو دیکھا ، اور پھر سمجھ گیا کہ اے بی سی کا ان کا مطلب ہے – خود انحصار بھارت چارٹ – اے بی سی۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ وینکٹ جی نے ان تمام چیزوں کی ایک مکمل فہرست بنائی ہے جنہیں وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں الیکٹرانکس ، اسٹیشنری ، خود کی دیکھ بھال کرنے والی اشیاء، اس کے علاوہ اور بہت کچھ شامل ہے۔ وینکٹ جی نے کہا ہے کہ ، ہم جانے انجانے میں ان غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں جن کا متبادل ہندوستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اب انہوں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان ہی مصنوعات کا استعمال کروں گا جن میں ہمارے ہم وطنوں کی محنت اور پسینہ شامل ہے۔
دوستو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے کچھ اوربھی کہا ہے ، جو مجھے کافی دلچسپ لگا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہم ایک خود انحصار ہندوستان کی حمایت کر رہے ہیں ، لیکن ہمارے مینوفیکچررز کے لیے بھی واضح پیغام ہونا چاہئے کہ وہ مصنوعات کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ بات تو درست ہے ۔ صفر اثر ، صفر عیب کی سوچ کے ساتھ کام کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ میں ملک کے صنعت کاروں اور صنعتوں کے رہنماؤں سے گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے عوام نے مضبوط قدم اٹھایا ہے ، مضبوط قدم آگے بڑھایا ہے۔ ووکل فار لوکل کا نعرہ آج گھر گھر میں گونج رہا ہے۔ ایسے میں اب یہ یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ ہماری مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔ جو بھی عالمی طور پر بہترین ہے ، ہم اسے ہندوستان میں بنا کر دکھائیں۔ اس کے لیے ہمارے کاروباری ساتھیوں کو آگے آنا ہوگا۔ اسٹارٹ اپ کو بھی آگے آنا ہوگا۔ ایک بار پھر ، میں وینکٹ جی کو ان کی بہترین کاوشوں کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو ، ہمیں اس جذبے کو برقرار رکھنا ہے ، زندہ رکھنا ہے اور اسے فروغ دیتے رہنا ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ہم وطنوں سے ایک بار پھر گذارش کروں گا ۔ آپ بھی ایک فہرست تیار کریں ۔دن بھر ہم جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں کہ غیر دانستہ طور پر بیرون ملک بنی کون سی چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہیں۔ایک طرح سے ، ہمیں قیدی بنا لیا ہے۔ان کے ہندوستان میں بنائے گئے متبادل کا پتہ لگائیں ، اور یہ بھی طے کریں کہ آئندہ سے ہندوستان کے محنت کش لوگوں ، ان کے پسینے سے تیار کردہ مصنوعات کا ہم استعمال کریں ۔ آپ ہر سال نئے سال کی قراردادیں لیتے ہیں ، اس بارایک قرار دار اپنے ملک کی خاطر بھی ضرور لینا چاہیے ۔
میرے پیارےہم وطنو ، ہمارے ملک میں ، دہشت گردوں سے، ظالموں سے ، ملک کے ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت ، اپنے رسم و رواج کو بچانے کے لئے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں ، آج انہیں یاد کرنے کا بھی دن ہے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند جی کے صاحبزادے جوراور سنگھ اور فتح سنگھ کو دیوارمیں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ ظالم چاہتے تھے کہ صاحبزادے اپنا عقیدہ ترک کردیں ، عظیم گرو روایت کی تعلیمات چھوڑ دیں۔ لیکن ہمارے صاحبزادوں نے اتنی کم عمر میں بھی غضب کی ہمت اور خواہش کا مظاہرہ کیا۔ دیوار میں چنے جانے کے وقت ، پتھر لگتے رہے ، دیواریں اونچی ہوتی رہیں، موت سامنے ہی منڈلا رہی تھی ، لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند سنگھ جی کی ماں ماتا گوجری کی بھی شہادت ہوئی تھی۔ تقریبا ایک ہفتہ قبل ، گرو تیغ بہادر جی کا بھی یوم شہادت تھا۔ مجھے یہاں ، دہلی میں ، گرودوارہ رکاب گنج جا کر ، گرو تیغ بہادر جی کو خراج عقیدت پیش کرنے ، ماتھا ٹیکنے کا موقع ملا۔ اسی مہینے گرو گووند سنگھ جی سے تحریک حاصل کر کے متعدد لوگ زمین پر سوتے ہیں۔ لوگ گرو گووند سنگھ جی کےخاندان کے لوگوں کے ذریعہ دی گئی شہادت کو انتہائی جذباتی طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس شہادت نے پوری انسانیت ، ملک کو، ایک نئی تعلیم عطا کی۔ اس شہادت نے ہماری تہذیب کو محفوظ رکھنے کا بہت بڑا کام کیا۔ ہم سب اس شہادت کے مقروض ہیں۔ ایک بار پھر ، میں گرو تیغ بہادر جی ، ماتا گوجری جی ، گرو گووند سنگھ جی ، اور چاروں صاحبزادوں کی شہادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ، متعدد شہادتوں نے ہندوستان کی موجودہ شکل کو محفوظ رکھا ہے، برقرار رکھا ہے۔
میرے پیارےہم وطنو ، اب میں آپ کو ایسی بات بتانے جارہا ہوں ، جس سے آپ کو خوش بھی ہوں گے اور فخر بھی ہوگا۔ 2014 اور 2018 کے درمیان ، ہندوستان میں چیتوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ، ملک میں چیتے کی تعداد لگ بھگ 7،900 تھی ، جبکہ 2019 میں ان کی تعداد بڑھ کر 12،852 ہوگئی۔ یہ وہی چیتے ہیں جن کے بارے میں جم کاربیٹ نے کہا تھا : "جن لوگوں نے چیتوں کو فطرت میں آزادانہ طور پر گھومتے نہیں دیکھا ، وہ اس کے حسن کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اس کے رنگوں کی خوبصورتی اور اس کے چال کے دلکشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ " ملک کی بیشتر ریاستوں میں ، خاص طور پر وسطی ہندوستان میں ، چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چیتے کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں میں مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹر سرفہرست ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ چیتے کو برسوں سے پوری دنیا میں خطرات لاحق ہیں ، دنیا بھر میں ان کے رہنے کی جگہ کو نقصان ہوا ہے۔ ایسے وقت میں ، ہندوستان نے چیتوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ کرکے پوری دنیا کو راستہ دکھایا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ پچھلے کچھ سالوں میں ، ہندوستان میں شیروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ، شیروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیز ہندوستانی جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ بہت سارے افراد ، سول سوسائٹی ، کئی ادارے بھی ہمارے درختوں اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں شامل ہیں وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ساتھیو، میں نے تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں دلوں کو چھو لینے والی کوششوں کے بارے میں پڑھا۔ آپ نے بھی سوشل میڈیا پر اس کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ ہم سبھی نے انسانوں کے لیے وہیل چیئر دیکھی ہے ، لیکن کوئمبٹور کی ایک بیٹی گایتری نے اپنے والد کے ساتھ مل کر ایک متاثر کتے کے لئے وہیل چیئر بنادی۔ یہ حساسیت حوصلہ افزا ہے ، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان ہر جاندار کے ساتھ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور ہو۔ دہلی این سی آر اور ملک کے دوسرے شہروں میں سخت سردی کی لپیٹ میں بے گھر جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کئی لوگ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ وہ ان جانوروں کے لئے کھانا پینا اور یہاں تک کہ ان کے لئے سویٹر اور بستر کا انتظام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے جانوروں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔اس طرح کی کوششوں کی ستائش کی جانی چاہئے۔ کچھ اسی طرح کی نیک کوششیں اترپردیش کے کوشامبی میں بھی کی جارہی ہیں۔وہاں جیل میں بند قیدی ، گایوں کو سردی سے بچانے کے لئے پرانے اور پھٹے ہوئے کمبلوں سےکوور بنا رہے ہیں۔ ان کمبلوں کو کوشامبی سمیت دیگر اضلاع کی جیلوں سے جمع کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سِل کر گو شالہ بھیجا جاتا ہے۔ کوشامبی جیل کے قیدی ہر ہفتے کئی کور تیار کر رہے ہیں۔ آئیے ، دوسروں کی دیکھ بھال کےلیے خدمت کے جذبے سے معمور ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ واقعتا یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے کی حساسیت کو تقویت بخشتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب جو خط میرے سامنے ہے اس میں دو بڑی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر ایک مندر کی ہیں اور پہلے اور بعد کی ہیں۔ ان تصاویر کے ہمراہ جو خط ہے اس میں نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم کے بارے میں بتایا گیا ہے جو خود کو نوجوان بریگیڈ کہتے ہیں۔ در اصل ، اس نوجوان بریگیڈ نے کرناٹک میں سری رنگ پٹن کے قریب واقع ویربھدرا سوامی نامی کے ایک قدیم شیو مندر کو از سرنو بحال کر دیا۔ مندرمیں ہر طرف گھاس پھوس اور جھاڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ اتنی کہ راہگیر بھی نہیں بتاسکتے کہ یہاں ایک مندر ہے۔ ایک دن ، کچھ سیاحوں نے اس بھولے بسرے مندر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ جب نوجوان بریگیڈ نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ان سے رہا نہیں گیا اور پھر اس ٹیم نے مل کر اس کی تجدیدکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نےمندر کے احاطے میں اُگ آئی کانٹے کی جھاڑیوں ، گھاس اور پودوں کو ہٹا یا ۔ جہاں مرمت اور تعمیر کی ضرورت تھی ، وہ کیا ۔ ان کے اچھے کام کو دیکھتے ہوئے ، مقامی لوگوں نے بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ کچھ لوگوں نے سیمنٹ دیا اور کچھ لوگوں نے پینٹ اور بہت سی دوسری چیزوں سے اپنی اپنی شراکت داری کی۔ یہ تمام نوجوان مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، انہوں نے اختتام ہفتہ کے دوران وقت نکالا اور مندر کے لئے کام کیا ، نوجوانوں نے مندر میں دروازہ لگوانے کے ساتھ بجلی کا کنکشن بھی لگوایا۔ اس طرح انہوں مندر کی پرانی شان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کام کیا۔ جنون اور عزم ایسی دو چیزیں ہیں جن سے لوگ ہر مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ جب میں ہندوستان کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اعتماد کا احساس ہوتا ہے۔ خوشی اورپر اعتمادی اس لیے کیونکہ میرے ملک کے نوجوانوں کے پاس 'کر سکتے ہیں' اور 'کریں گے ' کا جذبہ ہے۔ ان کے لئے کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں ہے۔ ان کی پہنچ سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ میں نے تمل ناڈو کی ایک ٹیچر کے بارے میں پڑھا۔ اس کا نام ہیم لتا این کے ہے ، جو وڈوپورم کے ایک اسکول میں ، دنیا کی قدیم ترین زبان تمل کی تعلیم دیتی ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا بھی ان کے پڑھانے کے کام میں آڑے نہیں آئی ۔ جی ہاں ! ان کے سامنے چیلنجز ضرور تھے ، لیکن ، انہوں ایک اختراعی راستہ نکالا۔ انہوں نے کورس کے تمام 53 ابواب کو ریکارڈ کیا ، متحرک ویڈیوز تیار کیں اور انہیں اپنے طالب علموں میں ایک پین ڈرائیو میں لے کر تقسیم کر دی۔ اس سے ان کے طلباء کو بہت مدد ملی ، وہ ابواب کو ویزول طریقے سے بھی سمجھ پائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلباء سے ٹیلیفون پر بھی بات کرتی رہیں۔ اس سے طلباء کےلیے پڑھائی کافی دلچسپ ہوگئی۔ ملک بھر میں کورونا کے اس زمانے میں ، اساتذہ نے جو اختراعی طریقے اپنائے جو کورس مواد تخلیقی طور پر تیار کیا ہے ، وہ آن لائن تعلیم کے اس مرحلے میں انمول ہے۔ میں تمام اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کورس مٹیریل کو وزارت تعلیم کےدکشا پورٹل پر اپ لوڈ کریں۔ اس سے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، آئیے اب جھارکھنڈ کے کوروا قبیلے کے ہیرامن جی کی بات کرتے ہیں۔ ہیرامن جی گڑھوا ضلع کے سنجو گاؤں میں رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کوروا قبیلے کی آبادی صرف 6،000 ہے ، جو شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اپنی برادری کی ثقافت اور شناخت کو بچانے کے لئے ہیرامن جی نے ایک پیش قدمی کی ہے۔ انہوں نے 12 سال کی انتھک محنت کے بعد ،، معدوم ہوتی کوروا زبان کی ایک لغت تیار کی ہے۔ اس لغت میں انہوں نے گھریلو استعمال میں آنے والے الفاظ سے لے کر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والےکوروا زبان کے بہت سارے الفاظ کو معنی کے ساتھ لکھا ہے۔ ہیرامن جی نے کوروا برادری کے لئے جو کیا ہے وہ ملک کے لئے ایک مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ایسا کہتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں ایک ممتاز رکن ابوالفضل تھے۔ انہوں نے ایک بار کشمیرکے دورے کے بعد کہا تھا کہ کشمیر میں ایسا نظارہ ہے ، جسے دیکھ کر چڑچڑے اورغصہ ور لوگ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ دراصل ، وہ کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ زعفران صدیوں سے کشمیر سے وابستہ ہیں۔ کشمیری زعفران بنیادی طور پر پلوامہ ، بڈگام اور کشتواڑ جیسی جگہوں پر اگایا جاتا ہے۔ اس سال مئی میں ، کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارے کا ٹیگ یعنی جی آئی ٹیک دیا گیا ۔ اس کے ذریعہ ، ہم کشمیری زعفران کو عالمی سطح پر مقبول برانڈ بنانا چاہتے ہیں۔ کشمیری زعفران ایک مصالحے کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے جس میں طرح طرح کی دواؤں کی خصوصیات ہیں۔ یہ بہت خوشبودارہوتا ہے ، اس کا رنگ گاڑھا ہوتا ہے اور اس کے دھاگے لمبے اور موٹے ہوٹے ہوتے ہیں۔ جو اس کی طبی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جموں وکشمیر کی خوشحال ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے۔ معیار کی بات کریں تو کشمیر کا زعفران بہت ہی منفرد اور دوسرے ممالک کے زعفران سے بالکل مختلف ہے۔ کشمیر کے زعفران کو جی آئی ٹیگ شناخت سے الگ پہچان ملی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جی آئی ٹیگ کی سند ملنے کے بعد ، کشمیری زعفران کو دبئی کے ایک سپر مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ اب اس کی برآمدات بڑھنے لگیں گی۔ اس سے خود انحصار ہندوستان بنانے کی ہماری کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے خاص طور پر زعفران کاشتکار وں کو فائدہ ہوگا۔ پلوامہ میں ترال کے شار علاقے کے رہائشی عبد المجید وانی کو ہی دیکھ لیں ۔ وہ اپنے جی آئی ٹیگ والے زعفران کو قومی زعفران مشن کی مدد سے پمپور کے تجارتی مرکز میں ای ٹریڈنگ کے ذریعہ فروخت کررہے ہیں ۔کشمیر میں اس طرح کے بہت سے لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ اگلی بار جب آپ زعفران خریدنے کا فیصلہ کریں تو کشمیر کا زعفران ہی خریدنے کا سوچیں۔ کشمیریوں کی گرمجوشی ایسی ہے کہ وہاں کے زعفران کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی دو دن پہلے گیتا جینتی تھی۔ گیتا، ہمیں اپنی زندگی کے ہر تناظر میں تحریک دیتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گیتا اتنی حیرت انگیز کتاب کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود بھگوان کرشن کے کلمات ہیں۔ لیکن گیتا کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے تجسس سے شروع ہوتی ہے۔ ارجن نے خدا سے سوال کیا ، تجسس کا اظہار کیا ، تبھی تو گیتا کا علم دنیا نے حاصل کیا۔ گیتا کی ہی طرح ، ہماری ثقافت میں تمام علم تجسس کے ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ ویدانت کا تو پہلا منتر ہی ہے – 'اتھاتو برہما جیگیاسا' یعنی آؤ ہم برہماکا تجسس کریں۔ اسی لئے تو ہمارے یہاں برہما کے باقیات کی بات کہی جاتی ہے۔ تجسس کی طاقت ایسی ہی ہے۔ تجسس مستقل طور پر آپ کو نئی چیز کی ترغیب دیتا ہے۔ بچپن میں ہم اسی لیے تو سیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر تجسس ہوتا ہے۔ یعنی جب تک تجسس ہے تب تک زندگی ہے۔ جب تک تجسس ہے ، تب تک نیا سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کوئی عمر ، کسی صورتحال معانی ہی نہیں رکھتی۔ تجسس کی ایسی توانائی کی ایک مثال کا مجھے پتہ چلا ، تمل ناڈو کےبزرگ شری ٹی سرینواسچاریہ سوامی جی کے بارے میں! جناب ٹی سرینواساچاریہ سوامی جی 92 سال کے ہیں، وہ اس عمر میں بھی کمپیوٹر پر اپنی کتاب لکھ رہے ہیں ، وہ بھی خود ٹائپ کرکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب لکھنا تو ٹھیک ہے ، لیکن سرینواساچاریہ جی کے وقت میں تو کمپیوٹر رہا ہی نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے کمپیوٹر کب سیکھا؟ یہ سچ ہے کہ اس کے کالج کے دور میں کمپیوٹر نہیں تھا۔ تاہم ان کے دل میں تجسس اور خود اعتمادی اب بھی اتنی ہی ہے جتنی ان کی اپنی جوانی میں تھی۔ دراصل ، سرینواساچاریہ سوامی جی سنسکرت اور تامل کے اسکالر ہیں۔ انہوں نے اب تک تقریبا 16 روحانی نصوص بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن ، کمپیوٹر آنے کے بعد ، جب انہیں لگا کہ اب تو کتاب لکھنے اور طباعت کا طریقہ بدل گیا ہے ، تو انہوں نے 86 سال کی عمر میں کمپیوٹر سیکھا ، اپنے لئے ضروری سافٹ ویئر سیکھا۔ اب وہ اپنی کتاب مکمل کر رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جناب ٹی شرینواساچاریہ سوامی جی کی زندگی اس بات کا براہ راست ثبوت ہے کہ زندگی اس وقت تک توانائی سے بھرپور رہتی ہے جب تک زندگی میں تجسس نہیں مرجاتی ہے ، سیکھنے کی خواہش مر نہیں جاتی۔ لہذا ، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم پچھڑ گئے ، ہم چوک گئے۔ کاش ہم بھی سیکھ لیتے! ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سیکھ نہیں سکتے ، یا آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ہم تجسس سے کچھ نیاسیکھنے اور کرنے کی بات کر رہے تھے۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزائم کی بات کر رہے تھے۔ لیکن ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستقل طور پر کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہتے ہیں ،نئے نئے عزائم کو ثابت کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں محسوس کیا ہوگا ، جب ہم معاشرے کے لئے کچھ کرتے ہیں تو معاشرہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی توانائی خود ہی دیتا ہے۔ عام سی لگنے والی محرکات سے بہت بڑے کام بھی ہوسکتے ہیں۔ جناب پردیپ سانگوان ایک ایسے ہی نوجوان ہیں! گروگرام کے پردیپ سانگوان 2016 سے ہیلنگ ہمالیاز کے نام سے مہم چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم اور رضاکاروں کے ساتھ ہمالیہ کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں اور جو پلاسٹک کے فضلہ سیاح وہاں چھوڑ جاتے ہیں، وہ صاف کرتے ہیں۔ پردیپ جی اب تک ہمالیہ کے مختلف سیاحتی مقامات سے کئی ٹن پلاسٹک کی صفائی کر چکے ہیں۔ اسی طرح ، انودیپ اور منوشا کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جوڑے ہیں۔ انودیپ اور منوشا کی گذشتہ ماہ نومبر میں شادی ہوئی ہے۔ بہت سے نوجوان شادی کے بعد سیر پر جاتے ہیں ، لیکن ان دونوں نے کچھ مختلف کیا۔ ان دونوں نے ہمیشہ دیکھا کہ لوگ اپنے گھر سے باہر گھومنے تو جاتے ہیں ، لیکن ، جہاں جاتے ہیں ، وہیں ڈھیر سارا کچرا اور کوڑا چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔ کرناٹک کے سومیشورساحل پر بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انودیپ اور منوشا نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگ ان کچرے کو صاف کریں گے جسے لوگ سومیشور کے ساحل پر چھوڑ کر گئے ہیں۔ دونوں شوہر اور بیوی نے شادی کے بعد اپنا پہلا عہد کیا۔ دونوں نے مل کر سمندری ساحل پر بہت سارا کوڑا صاف کیا۔ انودیپ نے اپنے اس عہد کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔ پھر کیا تھا ، ان کی اتنی شاندار سوچ سے متاثر ہوکر ، بہت سارے نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔ ان لوگوں نے مل کر سومیشور ساحل سمندر سے 800 کلوگرام سے زیادہ کچرا صاف کیا ہے۔
ساتھیو ، ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سوچنا ہے یہ کوڑا کرکٹ ان ساحلوں ، ان پہاڑوں تک کیسے پہنچتا ہے۔ آخر ہم میں سے ہی کئی لوگ اس کوڑے کو وہاں چھوڑ کر آتے ہیں ۔ ہمیں پردیپ اور انودیپ منوشا کی طرح صفائی مہم چلانی چاہئے۔ لیکن اس سےبھی پہلے ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہئے کہ ہم گندگی پھیلائیں گے ہی نہیں۔ آخر سوچھ بھارت مہم مہم کابھی تو پہلاعہد یہی ہے۔ ہاں ، ایک اور بات میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کورونا کی وجہ سے ، اس پر زیادہ بات چیت نہیں ہوپائی ہے۔ ہمیں ملک کوسنگل یوز پلاسٹک سے آزاد کرنا ہے۔ یہ بھی 2021 کی قراردادوں میں سے ایک ہے۔ آخر میں ، میں آپ کو نئے سال کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ خود صحتمند رہیں ، اپنے کنبے کو صحت مند رکھیں۔ اگلے سال جنوری میں ، نئے موضوعات پر 'من کی بات' ہوگی۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ‘من کی بات’ کی شروعات میں آج میں، آپ سب کے ساتھ ایک خوشخبری ساجھا کرنا چاہتا ہوں۔ ہر ہندوستانی کو یہ جانکر فخر ہوگا کہ دیوی انّ پورناکی ایک بہت پرانی مورتی، کینیڈا سے واپس ہندوستان آرہی ہے۔ یہ مورتی لگ بھگ 100 سال پہلے، 1913 کے قریب، وارانسی کے ایک مندر سے چرا کر ملک سے باہر بھیج دی گئی تھی۔ میں، کینیڈا کی حکومت اور اس نیک کام کو ممکن بنانے والے سبھی لوگوں کا اس بڑے دل کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ماتا انّ پورنا کا کاشی سے بہت ہی خاص رشتہ ہے۔ اب، ان کی مورتی کا واپس آنا، ہم سبھی کیلئے خوشی کی بات ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی طرح ہی ہماری وراثت کے متعدد انمول ورثے بین الاقوامی گروہوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ یہ گروہ بین الاقوامی بازار میں، انہیں بہت اونچی قیمت پر بیچتے ہیں۔ اب ان پر سختی تو لگائی جارہی ہے ان کی واپسی کیلئے ہندوستان نے اپنی کوششیں بھی بڑھائی ہیں۔ ایسی کوششوں کی وجہ سے پچھلے کچھ برسوں میں ہندوستان کئی مورتیوں اور فن پاروں کو واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ماتا انّ پورنا کی مورتی کی واپسی کے سا تھ، ایک اتفاق یہ بھی جڑا ہے کہ کچھ دن پہلے ہی عالمی ورثہ کا ہفتہ منایا گیا ہے۔ عالمی ورثہ ہفتہ، ثقافت کے محبین کیلئے، پرانے وقت میں واپس جانے، ان کی تاریخ کے اہم سنگ میل کا پتہ لگانے کا ایک شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا کے دور کے باوجود بھی اس بار ہم نے اختراعی طریقے سے لوگوں کو یہ ورثہ ہفتہ مناتے دیکھا۔ بحران کے دور میں ثقافت بڑے کام آتی ہے۔ اس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے توسط سے بھی ثقافت ایک جذباتی ریچارج کی طرح کام کرتی ہے۔ آج ملک میں کئی میوزیم اور لائبریریاں اپنے کلیکشن کو پوری طرح ڈیجیٹل بنانے پر کام کررہی ہیں۔ دہلی میں ہمارے قومی میوزیم نے اس سلسلے میں قابل ستائش کوششیں کی ہیں۔ قومی میوزیم کے ذریعے تقریباً 10 ورچوول گیلریوں کو متعارف کرانے کی سمت میں کام چل رہا ہے۔ ہے نا مزیدار! اب آپ گھر بیٹھے نیشنل میوزیم گیلریز کا ٹور کرپائیں گے، جہاں ایک جانب ثقافتی ورثے کو ٹیکنالوجی کے توسط سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اہم ہے وہیں ان ورثوں کے تحفظ کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اہم ہے۔ حال ہی میں ایک دلچسپ پروجیکٹ کے بارے میں پڑھ رہا تھا، ناروے کے شمال میں سولباڈ نام کا ایک جزیرہ ہے ، اس جزیرے میں ایک پروجیکٹ آرکٹک ورلڈ آرکائیو بنایا گیا ہے۔ اس آرکائیو میں بیش قیمتی ہیریٹیج ڈاٹا کو اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے قدرتی یا انسانی پیدا کردہ مصیبتوں سے متاثر نہ ہوسکیں۔ ابھی حال ہی میں یہ بھی جانکاری آئی ہے کہ اجنتا گپھاؤں کے ورثے کو بھی ڈیجیٹائز کرکے اس پروجیکٹ میں محفوظ کیا جارہا ہے۔ اس میں اجنتا گپھاؤں کی پوری جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ اس میں ڈیجیٹلائزڈ اور ریسٹورڈ پینٹنگ کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق دستاویز اور اقتباسات بھی شامل ہوں گے۔ ساتھیو،وبا نے ایک جانب جہاں ہمارے کام کرنے کے طور طریقوں کو بدلا ہے تو دوسری جانب فطرت کا نئے ڈھنگ سے تجربہ کرنے کا بھی موقع دیا ہے۔ فطرت کو دیکھنے کے ہمارے نظریے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ہم سردیوں کے موسم میں قدم رکھ رہے ہیں، ہمیں فطرت کے الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ پچھلے کچھ دنوں سے انٹرنیٹ، چیری بلوزم کی وائرل تصویروں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جب میں چیری بلوزم کی بات کررہا ہوں تو جاپان کے اس اہم شناخت کی بات کررہا ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ جاپان کی تصویریں نہیں ہیں، یہ اپنے میگھالیہ کے شیلانگ کی تصویریں ہیں۔ میگھالیہ کی خوبصورتی کو ان چیری بلوزم نے اور بڑھادیا ہے۔
ساتھیو، اس مہینے 12 نومبر سے ڈاکٹر سلیم علی جی کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات شروع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم نے چڑیوں کی دنیا میں برڈ واچنگ کو لیکر قابل ذکر کام کیا ہے۔ دنیا کے برڈ واچرس کو ہندوستان کے تئیں راغب بھی کیا ہے۔ میں ہمیشہ سے برڈ واچنگ کے شوقین لوگوں کا مداح رہا ہوں۔ بہت دلجمعی کے ساتھ وہ گھنٹوں تک صبح سے شام تک برڈ واچنگ کرسکتے ہیں۔ فطرت کے انوکھے نظاروں کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور اپنی معلومات کو ہم لوگوں تک بھی پہنچاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی بہت سی برڈ واچنگ سوسائٹی سرگرم ہیں۔ آپ بھی ضرور اس موضوع کے ساتھ جڑیے۔ میری بھاگ دوڑ کی زندگی میں مجھے بھی پچھلے دنوں کیواڈیا میں چڑیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بہت ہی یادگار موقع ملا۔ چڑیوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت آپ کو فطرت سے بھی جوڑے گااور ماحولیات کے لئے بھی تحریک دیگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان کا کلچر اور شاسترہمیشہ سے ہی پوری دنیا کیلئے توجہ کے مرکز رہے ہیں۔ کئی لوگ تو ان کی تلاش میں ہندوستان آئے اور ہمیشہ کیلئے یہیں کے ہوکر رہ گئے، تو کئی لوگ واپس اپنے ملک جاکر اس کلچر کے محافظ بن گئے۔ مجھے جونس میسیٹی کے کام کے بارے میں جاننے کا موقع ملا جنہیں وشوناتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جونس برازیل میں لوگوں کو ویدانت اور گیتا سکھاتے ہیں، وہ وشوویدھانام کا ایک ادارہ چلاتے ہیں جو ریوڈی جنیروں سے ایک گھنٹے کی دوری پر پیٹرو پولیس کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ جونس نے میکنیکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد اسٹاک مارکٹ میں اپنی کمپنی میں کام کیا۔ بعد میں ان کا رجحان ہندوستانی ثقافت اور بالخصوص ویدانت کی طرف ہوگیا۔ اسٹاک سے لیکر کے اسپریچولٹی (روحانیت )تک حقیقت میں ان کا ایک طویل سفر ہے۔ جونس نے بھارت میں ویدانت درشن کا مطالعہ کیا اور چار سال تک وہ کوئمبٹور کے ارشا ودیا گروکولم میں رہے ہیں۔ جونس میں ایک اور خاصیت ہے وہ اپنے میسیج کو آگے پہنچانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے آن لائن پروگرام کرتے ہیں۔ وہ ہردن پوڈکاسٹ کرتے ہیں۔ پچھلے سات برسوں میں جونس نے ویدانت پر اپنے فری اوپن کورسیز کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلباء کو پڑھایا ہے۔ جونس نہ صرف ایک بڑا کام کررہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسی زبان میں کررہے ہیں جسے سمجھنے والوں کی تعدا دبھی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں میں اس کو لیکر کافی دلچسپی ہے کہ کورونا اور کوارنٹائن کے اس وقت میں ویدانت کیسے مدد کرسکتا ہے۔ من کی بات کے توسط سے، میں جونس کی ان کی کوششوں کیلئے مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کی کوششوں کیلئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح ابھی ایک خبر پر آپ کا دھیان ضرور گیا ہوگا۔ نیوزیلینڈ میں وہاں کے نومنتخب ایم پی ڈاکٹر گورو شرما نے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت زبان میں حلف لیا ہے۔ ایک ہندوستانی کے طور پر ہندوستانی ثقافت کی یہ ترویج واشاعت ہم سب کو فخر سے بھردیتی ہے۔ من کی بات کے توسط سے میں گورو شرما جی کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم سبھی کی تمنا ہے، وہ نیوزیلینڈ کے لوگوں کی خدمت میں نئی حصولیابیاں حاصل کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کل 30 نومبر کو ہم شری گرونانک دیوجی کا 551واں پرکاش پرو منائیں گے۔ پوری دنیا میں گرونانک دیو جی کا اثر واضح طور سے دکھائی دیتا ہے۔
وینکوور سے ویلنگٹن تک، سنگاپور سے ساؤتھ افریقہ تک ان کے پیغامات ہر طرف سنائی دیتے ہیں۔ گروگرنتھ صاحب میں کہا گیا ہے-‘‘سیوک کو سیوا بن آئی’’، یعنی سیوک کا کام سیوا کرنا ہے، پچھلے کچھ برسوں میں کئی اہم پڑاؤ آئے اور ایک سیوک کے طور پر ہمیں بہت کچھ کرنے کا موقع ملا۔ گروصاحب نے ہماری سیوا لی۔ گرونانک دیو جی کی 550واں پرکاش پرو شری گروگوبند سنگھ جی کا 350واں پرکاش پرو اگلے برس شری گروتیغ بہادر جی کا 400واں پرکاش پرو بھی ہے، مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ گرو صاحب کی مجھ پر خصوصی مہربانی رہی جو انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے کاموں میں بہت قریب سے جوڑا ہے۔
ساتھیو، کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ میں ایک گرودوارہ ہے، لکھپت گرودوارہ صاحب۔ شری گرونانک جی اپنے اداسی کے دوران لکھپت گرودوارہ صاحب میں رُکے تھے۔ 2001 کے زلزلے سے اس گرودوارہ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ یہ گرو صاحب کی مہربانی ہی تھی کہ میں اس کی بازیابی وتزئین کاری کو یقینی کرپایا۔ نہ صرف گرودوارہ کی مرمت کی گئی بلکہ اس کے فخر اور شان کو بھی پھر سے قائم کیا گیا۔ ہم سب کو گروصاحب کا بھرپور آشیرواد بھی ملا۔ لکھپت گرودوارہ کے تحفظ کی کوششوں کو 2004 میں یونیسیکو ایشیا پیسیفک ہیریٹیج ایوارڈ میں ایوارڈ آف ڈسٹنکشن دیا گیا۔ ایوارڈ دینے والی جیوری نے یہ پایا کہ مرمت کے دوران آرٹ اور آرکیٹیکچر سے جڑی باریکیوں کا خصوصی دھیان رکھا گیا۔ جیوری نے یہ بھی نوٹ کیا کہ گرودوارہ کے تعمیر نو کے کام میں سکھ برادری کی نہ صرف سرگرم شراکت داری رہی بلکہ ان کی ہی رہنمائی میں یہ کام ہوا۔ لکھپت گرودوارہ جانے کا خوش نصیبی مجھے تب بھی ملی تھی جب میں وزیراعلیٰ بھی نہیں تھا۔ مجھے وہاں جاکر بے پناہ توانائی ملتی تھی، اس گرودوارے میں جاکر ہر کوئی خود کو خوش نصیب محسوس کرتا ہے۔ میں اس بات کیلئے بہت شکر گزار ہوں کہ گرو صاحب نے مجھ سے مسلسل خدمت لی ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی کرتاپور صاحب کوریڈور کا کھلنا بہت ہی تاریخی رہا۔ اس بات کو میں زندگی بھر اپنے دل میں محفوظ کرکے رکھوں گا۔ یہ ہم سبھی کی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں شری دربار صاحب کی سیوا کرنے کا ایک اور موقع ملا۔ بیرون ملک رہنے والے ہمارے سکھ بھائی بہنوں کیلئے اب دربار صاحب کی سیوا کیلئے رقم بھیجنا اور آسان ہوگیا ہے۔ اس قدم سے دنیا بھر کی سنگت دربار صاحب کے اور قریب آگئی ہے۔
ساتھیو، یہ گروناک دیوجی ہی تھے جنہوں نے لنگر کی روایت شروع کی تھی اور آج ہم نے دیکھا کہ دنیا بھرمیں سکھ فرقہ نے کس طرح کورونا کے اس دور میں لوگوں کو کھانا کھلانے کی اپنی روایت کو جاری رکھا ہے۔ انسانیت کی خدمت کی یہ روایت ہم سبھی کیلئے مسلسل ترغیب دینے کاکام کرتی ہے۔ میری تمنا ہے ہم سبھی سیوک کی طرح کام کرتے رہیں، گرو صاحب مجھ سے اور ملک کے باشندوں سے اسی طرح خدمت لیتے رہیں۔ ایک بار پھر بھی گروناک جینتی پر میری بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے دنوں مجھے ملک بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے طلباء کے ساتھ بات چیت کا ان کی تعلیمی سفر کے اہم پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے میں آئی آئی ٹی گوہاٹی، آئی آئی ٹی دہلی، گاندھی نگر کی دین دیال پٹرولیم یونیورسٹی، دہلی کی جے این یو، میسور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طلباء سے کنیکٹ ہوپایا۔ ملک کے نوجوانوں کے درمیان ہونا بیحد تروتازہ کرنے والا اور توانائی سے بھرنے والا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے کیمپس تو ایک طرح سے منی انڈیا کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کیمپسوں میں ہندوستان کی کثرت کے درشن ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف وہاں نیو انڈیا کے لئے بڑے بڑے بدلاؤ کا جذبہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں جب میں روبرو کسی ادارے کے پروگرام میں جاتا تھا تو یہ گزارش بھی کرتا تھا کہ آس پاس کے اسکولوں سے غریب بچوں کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا جائے۔ وہ بچے اس پروگرام میں، میرے خصوصی مہمان بن کر آتے رہے ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچہ اس پُررونق پروگرام میں کسی نوجوان کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ بنتے دیکھتا ہے، کسی کو میڈل لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس میں نئے سپنے جگتے ہیں، میں بھی کرسکتا ہوں، یہ خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عہد کے لئے تحریک ملتی ہے۔
ساتھیو، اس کے علاوہ ایک اور بات جاننے میں میری ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے کہ اس ادارے کے ایلومنی کون ہے، اس ادارے کے اپنے ایلومنی سے ریگولر انگیجمنٹ کا انتظام ہے کیا؟ ان کا ایلومنی نیٹ ورک کتنا متحرک ہے۔
میرے نوجوان دوستو، آپ سب تک ہی کسی ادارے کے طالب علم ہوتے ہیں جب تک آپ وہاں پڑھائی کرتے ہیں، لیکن وہاں کے ایلومنی ، آپ زندگی بھر بنے رہتے ہیں۔ اسکول، کالج سے نکلنے کے بعد دو چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ایک آپ کی تعلیم کا اثر، اور دوسرا آپ کا اپنے اسکول کالج سے لگاؤ۔ جب کبھی ایلومنی آپس میں بات کرتے ہیں تو اسکول کالج کی ان کی یادوں میں کتابوں اور پڑھائی سے زیادہ کیمپس میں گزارا گیا وقت اور دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے ہوتے ہیں، اور انہیں یادوں میں سے جنم لیتا ہے ایک جذبہ ادارے کیلئے کچھ کرنے کا۔ جہاں آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہوا ہے، وہاں کی ترقی کیلئے آپ کچھ کریں ، اس سے بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے۔ میں نے کچھ ایسی کوششوں کے بارے میں پڑھا ہے، جہاں سابق طالب علموں نے اپنے پرانے اداروں کو بڑھ چڑھ کر کے دیا ہے۔ آج کل ایلومنی اس کو لیکر بہت سرگرم ہیں۔ آئی آئی ٹی کے فارغ التحصیل افراد نے اپنے اداروں کو کانفرنس سینٹر، مینجمنٹ سینٹر، انکیوبیشن سینٹر جیسے کئی الگ الگ انتظامات خود بناکر دیے ہیں۔ یہ ساری کوشش موجودہ طالب علموں کے لرننگ تجربے کو بہترکرتے ہیں۔ آئی آئی ٹی دہلی نے ایک عطیہ فنڈ کی شروعات کی ہے، جو کہ ایک شاندار تصور ہے۔ دنیا کی جانی مانی یونیورسٹی میں اس طرح کے عطیات قائم کرنے کا کلچر رہا ہے، جو طلبا کی مدد کرتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی یونیورسٹیاں بھی اس کلچر کو ادارہ جاتی بنانے میں اہل ہیں۔
جب کچھ لوٹانے کی بات ہوتی ہے تو کچھ بھی بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی مدد بھی معنی رکھتی ہے۔ ہر کوشش اہم ہوتی ہے۔ اکثر سابق طلباء اپنے اداروں کے ٹیکنالوجی کی جدیدکاری میں، عمارتوں کی تعمیر میں، ایوارڈس اور اسکالر شپ شروع کرنے میں، ہنرمندی کے فروغ کے پروگرام شروع کرنے میں، بہ تاہم کردار نبھاتے ہیں۔ کچھ اسکولوں کی اولڈ اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن نے مینٹرشپ پروگرامشروع کئے ہیں۔ اس میں وہ الگ الگ بیچ کے طلباء کو گائیڈ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تعلیمی پہلوؤں پر چرچا کرتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں خاص طور سے رہائشی اسکولوں کی ایلومنی ایسوسی ایشن بہت مضبوط ہے، جو اسپورٹس ٹورنامنٹ اور کمیونیٹی سروس جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ میں سابق طلباء سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے جن اداروں میں پڑھائی کی ہے وہاں سے اپنے رشتے کو مزید مضبوط کرتے رہیں۔ چاہے وہ اسکول ہو، کالج ہو یا یونیورسٹی۔ میرا اداروں سے بھی گزارش ہے کہ ایلومنی انگیجمنٹ کے نئے اور اختراعی طریقوں پر کام کریں۔ کریٹیو پلیٹ فارم ڈیولپ کریں تاکہ ایلومنی کی فعال شراکت داری ہوسکے۔ بڑے کالج اور یونیورسٹیز ہی نہیں، ہمارے گاؤں کے اسکول کا بھی اسٹرانگ وائبرینٹ ایکٹیو ایلومنی نیٹ ورک ہو۔
میرے پیارے ہم وطنو، 5دسمبر کو شری اربندو کی برسی ہے۔ شری اربندو کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، اتنی ہی گہرائی ہمیں ملتی جاتی ہے۔ میرے نوجوان ساتھی شری اربندو کو جتنا جانیں گے، اتنا ہی اپنے آپ کو جانیں گے، خود کو مضبوط کریں گے۔ زندگی کے جس دور میں آپ ہیں، جن عہدوں کو حقیقت بنانے کے لئے آپ کوشش کررہے ہیں،ان کے درمیان آپ ہمیشہ سے ہی شری اربندو کو ایک نئی تحریک دیتے پائیں گے، ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے پائیں گے۔ جیسے، آج، جب ہم ‘لوکل کے لئے ووکل’ اس ابھیان کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو شری اربندو کا سودیشی کا درشن ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ بنگلہ میں ایک بڑی ہی مؤثر نظم ہے۔
‘چھوئی شوتو پائے۔ مانتو آشے تُنگ ہوتے۔
دیا۔شلائی کاٹھی، تاؤ آسے پوتے۔۔
پرو۔ دپیتی جالتے کھوتے، شوتے، جوتے۔
کچھوتے لوک نائے شادھین۔۔
یعنی ہمارے یہاں سوئی اور دیا سلائی تک ولایتی جہاز سے آتے ہیں۔ کھانے۔ پینے ، سونے، کسی بھی بات میں، لوگ آزاد نہیں ہیں۔
وہ کہتے بھی تھے سودیشی کا مطلب ہے کہ ہم، اپنے ہندوستانی مزدوروں، کاریگروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو ترجیح دیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شری اربندو نے غیرملکوں سے کچھ سیکھنے کا بھی کبھی مخالفت کی ہو۔ جہاں جو نیا ہے وہاں سے ہم سیکھیں۔ جو ہمارے ملک میں اچھا ہوسکتا ہے اس کا ہم تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہی تو آتم نربھر بھارت ابھیان میں ‘‘ووکل فار لوکل’’منتر کی بھی بھاؤنا ہے۔ خاص کر سودیشی اپنانے کو لیکر انہوں نے جو کچھ کہا وہ آج ہر ملک کے شہری کو پڑھناچاہئے۔ ساتھیو، اسی طرح تعلیم کو لیکر بھی شری اربندو کے خیالات بہت واضح تھے۔ وہ تعلیم کو صرف کتابی معلومات، ڈگری اور نوکری تک ہی محدود نہیں مانتے تھے۔ جناب اروبندو کہتے تھے ہماری قومی تعلیم ہماری نوجوان نسل کے دل اور دماغ کی تربیت ہونی چاہئے۔ یعنی ذہن کی سائنٹفک ترقی ہو اور دل میں ہندوستانی جذبات بھی ہوں، تب ہی ایک نوجوان ملک کا ایک بہتر شہری بن پاتا ہے۔ شری اربندو نے قومی تعلیم کو لیکر جو بات تب کہی تھی ، جو امید کی تھی آج ملک اسے نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے پورا کررہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان میں کھیتی اور اس سے جڑی چیزوں کے ساتھ نئی جہتیں جڑی رہی ہیں۔ پچھلے دنوں ہوئے زرعی اصلاحات میں کسانوں کے لئے نئے امکانات کے دروازے بھی کھولے ہیں۔ برسوں سے کسانوں کی جو مانگ تھی، جن مانگوں کو پورا کرنے کیلئے کسی نہ کسی وقت میں ہر سیاسی پارٹی نے ان سے وعدہ کیا تھا، وہ مانگیں پوری ہوئی ہیں۔ کافی غور وخوض کے بعد ہندوستان کے پارلیمنٹ نے زرعی اصلاحات کو قانونی شکل دیا۔ ان اصلاحات سے نہ صرف کسانوں کو متعدد بندھن ختم ہوئے ہیں، بلکہ انہیں نئے حقوق بھی ملے ہیں، نئے مواقع بھی ملے ہیں۔ ان حقوق نے بہت ہی کم وقت میں، کسانوں کی پریشانیوں کو کم کرنا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر کے دھولے ضلع کے کسان، جتیندر بھوئی جی نے، نئے زرعی قوانین کا استعمال کیسے کیا وہ آپ کو بھی جاننا چاہئے۔ جتیندر بھوئی جی نے مکے کی کھیتی کی تھی اور صحیح داموں کیلئے اسے کاروباریوں کو بیچنا طے کیا۔ فصل کی کُل قیمت طے ہوئی قریب تین لاکھ بتیس ہزار روپئے۔ جتیندر بھوئی کو پچیس ہزار روپئے پیشگی بھی مل گئے تھے۔ طے یہ ہوا تھا کہ باقی کا پیسہ انہیں پندرہ دن میں چکا دیا جائیگا۔ لیکن بعد میں حالات ایسے بنے کہ انہیں باقی کا پیمنٹ نہیں ملا۔ کسان سے فصل خرید لو، مہینوں- مہینوں پیمنٹ نہ کرو، ممکنہ طور پر مکاّ خریدنے والے برسوں سے چلی آرہی اسی روایت کو نبھا رہے تھے۔ اسی طرح چار مہینے تک جتیندر جی کا پیمنٹ نہیں ہوا۔ اس صورتحال میں ان کی مدد کی ستمبر میں جو پاس ہوئے ہیں، جو نئے زرعی قوانین بنے ہیں، وہ ان کے کام آئے۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ فصل خریدنے کے تین دن میں ہی، کسان کو پورا پیمنٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر پیمنٹ نہیں ہوتا ہے، تو کسان شکایت درج کرسکتا ہے۔ قانون میں ایک اور بہت بڑی بات ہے، اس قانون میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ علاقے کے ایس ڈی ایم کو ایک مہینے کے اندر ہی کسان کی شکایت کا نپٹارہ کرنا ہوگا۔ اب، جب، ایسے قانون کی طاقت ہمارے کسان بھائی کے پاس تھی، تو ان کے مسئلے کا حل تو ہونا ہی تھا، انہوں نے شکایت کی اور چند ہی دن میں ان کا بقایہ چکا دیا گیا۔ یعنی کہ قانون کی صحیح اور پوری جانکاری ہی جتیندر جی کی طاقت بنی۔ علاقہ کوئی بھی ہو، ہر طرح کی افواہوں سے دور، صحیح جانکاری ہر شخص کیلئے بہت بڑاسمبل ہوتی ہے۔ کسانوں میں بیداری بڑھانے کا ایسا ہی ایک کام کررہے ہیں، راجستھان کے باراں ضلع میں رہنے والے محمد اسلم جی۔ یہ ایک کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او بھی ہیں۔ جی ہاں، آپ نے صحیح سنا۔ کسان پروڈیوسر تنظیم کے سی ای او ۔ امید ہے، بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوکو یہ سن کر اچھا لگے گا کہ اب ملک کے دور دراز والے علاقوں میں کام کررہے کسان تنظیموں میں بھی سی ای او ہونے لگے ہیں۔ تو ساتھیو، محمد اسلم جی نے اپنے علاقے کے متعدد کسانوں کو ملاکر ایک وہاٹس ایپ گروپ بنالیا ہے۔ اس گروپ پر وہ ہر روز، آس پاس کی منڈیوں میں کیا قیمت چل رہی ہے، اس کی جانکاری کسانوں کو دیتے ہیں۔ خود ان کا ایف پی او بھی کسانوں سے فصل خریدتا ہے، اس لئے ، ان کی اس کوشش سے کسانوں کو فیصلہ لینے میں مدد ملتی ہے۔
ساتھیو، بیداری ہے تو زندگی ہے۔ اپنی بیداری سے ہزاروں لوگوں کی زندگی متاثر کرنے والے ایک زرعی صنعتکار جناب ویریندر یادو جی ہیں۔ ویریندر یادو جی، کبھی آسٹریلیا میں رہا کرتے تھے۔ دو سال پہلے ہی وہ ہندوستان آئے اور اب ہریانہ کے کیتھل میں رہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح ہی، کھیتی میں پرالی ان کے سامنے بھی ایک بڑا ایشو تھا۔ اس کے حل کے لئے بہت وسیع سطح پر کام ہورہا ہے، لیکن، آج، من کی بات میں، میں ویریندر جی کو خصوصی طور پر ذکر اس لئے کررہا ہوں، کیوں کہ ان کی کوشش الگ ہے، ایک نئی راہ دکھاتی ہے۔ پرالی کا حل کرنے کیلئے ویریندر جی نے پوال کی گانٹھ بنانے والی اسٹرابیلر مشین خریدی۔ اس کے لئے انہیں محکمہ زراعت سے مالی مدد بھی ملی۔ اس مشین سے انہوں نے پرالی کے گٹھے بنانا شروع کردیا۔ گٹھے بنانے کے بعد انہوں نے پرالی کو ایگروانرجی پلانٹ اور پیپر مل کو بیچ دیا۔ آپ جانکر حیران رہ جائیں گے کہ ویریندر جی نے پرالی سے صرف دو برس میں ڈیڑھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا کاروبار کیا ہے اور اس میں بھی لگ بھگ 50 لاکھ روپئے منافع کمایا ہے۔ اس کا فائدہ ان کسانوں کو بھی ہورہا ہے جن کے کھیتوں سے ویریندر جی پرالی اٹھاتے ہیں۔ ہم نے کچرے سے کنچن کی بات تو بہت سنی ہے، لیکن،پرالی کا نپٹارہ کرکے پیسہ اور ثواب کمانے کی یہ انوکھی مثال ہے۔ میرا نوجوانوں، خاص کر زراعت کی پڑھائی کررہے طلباء سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے گاؤں میں جاکر کسانوں کو جدید ترین زراعت کے بارے میں، حال میں ہوئے زرعی اصلاحات کے بارے میں بیدار کریں۔ ایسا کرکے آپ ملک میں ہورہے بڑے بدلاؤ کے معاون بنیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو،
‘من کی بات’ میں ہم الگ الگ، طرح طرح کے متعدد موضوعات پربات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی بات کو بھی ایک سال ہورہا ہے، جس کو ہم کبھی خوشی سے یاد نہیں کرنا چاہیں گے۔ قریب قریب ایک سال ہورہے ہیں، جب دنیا کو کورونا کے پہلے کیس کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ تب سے لیکر اب تک، پوری دنیا نے متعدد اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دور سے باہر نکل کر، اب، ویکسین پر بحث ہونے لگی ہے۔ لیکن کورونا کو لیکر کسی بھی طرح کی لاپرواہی اب بھی بہت نقصاندہ ہے۔ ہمیں، کورونا کے خلاف اپنی لڑائی کو مضبوطی سے جاری رکھنا ہے۔
ساتھیو، کچھ دنوں بعد ہی، 6دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی بھی ہے۔ یہ دن بابا صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی ملک کے تئیں اپنے عہدوں، آئین نے ایک شہری کے طور پر اپنے فرض کو نبھانے کی جو سیکھ ہمیں دی ہے، اسے دوہرانے کا ہے۔ ملک کے بڑے حصے میں سردی کا موسم بھی زور پکڑ رہا ہے۔ متعدد جگہوں پر برف باری ہورہی ہے۔ اس موسم میں ہمیں خاندان کے بچوں اور بزرگوں کا، بیمار لوگوں کا خاص دھیان رکھنا ہے، خود بھی احتیاط برتنی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے آس پاس کے ضرورتمندوں کی بھی فکر کرتے ہیں۔ گرم کپڑے دیکر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہارا جانوروں کیلئے بھی سردیاں بہت مشکلات لیکر آتی ہیں۔ ان کی مدد کیلئے بھی بہت لوگ آگے آتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اس طرح کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ ساتھیو، اگلی بار جب ہم ‘من کی بات’ میں ملیں گے تو 2020 کا یہ برس اختتام کی جانب ہوگا۔ نئی امیدوں، نئے اعتماد کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے۔ اب، جو بھی تجاویز ہوں، افنکار ونظریات ہوں، انہیں مجھ تک ضرور ساجھا کرتے رہیے۔ آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ آپ سب صحتمند رہیں، ملک کے لئے سرگرم رہیں۔ بہت بہت شکریہ۔
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج وجے دشمی یعنی دشہرے کا تہوار ہے۔ اس مبارک موقع پر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات۔ دشہرہ کا یہ تہوار جھوٹ پر سچائی کی جیت کا تہوار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک طرح سے مشکلات پڑنے پر صبر کی جیت کا تہوار بھی ہے۔ آج آپ سبھی بہت تحمل کے ساتھ جی رہے ہیں۔ مریادہ میں رہ کر تہوار منارہےہیں اس لئے جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں، اس میں جیت بھی یقینی ہے۔ پہلے درگا پنڈال میں، ماں کے درشنوں کے لئے اتنی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی۔ ایکدم، میلے جیسا ماحول رہتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوپایا۔ پہلے دشہرے پر بھی بڑے بڑے میلے لگتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی شکل بھی مختلف ہے۔ رام لیلا کا تہوار بھی، اس کی بڑی کشش تھی۔ لیکن اس میں بھی کچھ نہ کچھ پابندیاں لگی ہیں۔پہلے نو راتر پر، گجرات کے گربا کی گونج ہر طرف چھائی رہتی تھی، اس بار بڑے بڑے پروگرام سب بند ہیں۔ ابھی آگے اور بھی کئی تہوار آنے والے ہیں۔ابھی عید ہے، شرد پورنیما ہے، والمیکی جینتی ہے، پھر دھن تیرس ، دیوالی، بھائی دوج، چھٹی میا کی پوجا ہے،گورو نانک دیو جی کی جینتی ہے۔ کورونا کے اس مصیبت کے دور میں ہمیں صبر و تحمل سے ہی کام لینا ہے،مریادہ میں ہی رہنا ہے۔
ساتھیو، جب ہم تہوار کی بات کرتے ہیں، تیاری کرتے ہیں، تو سب سے پہلے من میں یہی آتا ہے کہ بازار کب جانا ہے؟ کیا کیا خریداری کرنی ہے؟خاص طور پر بچوں میں تو اس کے لئے خصوصی جوش ہوتا ہے۔ اس بار تہوار پر نیا کیا ملنے والا ہے؟ تہواروں کی یہ امنگ اور بازار کی چمک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس بار جب آپ خریداری کرنے جائیں تو ’ووکل فار لوکل‘ کا اپنا عزم ضرور یاد رکھیں۔ بازار سے سامان خریدتے وقت ہمیں مقامی مصنوعات اولیت دینی ہے۔
ساتھیو، تہواروں کی اس خوشی اور امنگ کے درمیان میں لاک ڈاؤن کے وقت کو بھی یاد کرنا چاہیے۔ لاک ڈاؤن میں ہم نے معاشرے کے ان ساتھیوں کو اور قریب سے جانا ہے، جن کے بغیر ہماری زندگی بہت ہی مشکل ہوجاتی۔ صفائی ملازمین، گھر میں کام کرنے والے بھائی بہن ، مقامی سبزی والے، دودھ والے، سکیورٹی گارڈ، ان سب کا ہماری زندگی میں کیا رول ہے، ہم نے اب اچھی طرح محسوس کیا ہے۔ مشکل وقت میں یہ آپ کے ساتھ تھے، ہم سب کے ساتھ تھے۔ اب اپنے تہواروں میں، اپنی خوشیوں میں بھی، ہمیں ان کو ساتھ رکھنا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، انہیں اپنی خوشیوں میں شامل ضرور کیجئے۔ خاندان کے رکن کی طرح شامل کیجئے، پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی خوشیوں میں کتنا زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
ساتھیو، ہمیں اپنے ان جانباز فوجیوں کو بھی یاد رکھنا ہے، جو ان تہواروں میں بھی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت ماتا کی خدمت اور حفاظت کررہے ہیں۔ ہمیں ان کو یاد کرکے ہی اپنے تہوار منانے ہیں۔ ہمیں گھر میں ایک دیا، بھارت ماتا کے ان بہادر بیٹے بیٹیوں کے اعزاز میں بھی جلانا ہے۔میں، اپنے ان بہادر جوانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھلے ہی سرحد پر ہیں، لیکن پورا ملک آپ کے ساتھ ہے، آپ کے لئے نیک خواہشات رکھتاہے۔ میں ان خاندانوں کے ایثار کو بھی سلام کرتا ہوں، جن کے بیٹے بیٹیاں آج سرحد پر ہیں۔ ہر وہ شخص جو ملک سے متعلق کسی نہ کسی ذمہ داری کی وجہ سے اپنے گھر پر نہیں ہے، اپنے خاندان سے دور ہے۔ میں دل سے اس کے لئے ممنوعیت کا اظہار کرتاہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ہم لوکل کے لئے ووکل ہو رہے ہیں تو دنیا بھی ہمارے لوکل پروڈکٹس کی فین ہور ہی ہے۔ہمارے کئی لوکل پروڈکٹس میں گلوبل ہونے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ جیسے ایک مثال ہے کھادی کی۔ طویل وقت تک کھادی سادگی کی پہچان رہی ہے، لیکن ہماری کھادی آج ایکو فرینڈلی فیبرک کے طور پر جانی جارہی ہے۔ صحت کے نظریہ سے یہ باڈی فرینڈلی فیبرک ہے، آل ویدر فیبرک ہے اور آج کھادی فیشن اسٹیٹمنٹ تو بن ہی رہی ہے۔ کھادی کی مقبولیت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے، ساتھ ہی دنیا میں کئی جگہ، کھادی بنائی بھی جارہی ہے۔ میکسکو میں ایک جگہ ہے ’اوہاکا‘۔ اس علاقے میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں مقامی دیہاتی افراد کھادی بننے کا کام کرتے ہیں۔ آج یہاں کی کھادی ’اوہاکا کھادی‘ کےنام سے مشہور ہوچکی ہے۔ اوہاکا میں کھادی کیسے پہنچی، یہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ دراصل، میکسکو کے ایک نوجوان مارک براؤن نے ایک بار مہاتما گاندھی پر ایک فلم دیکھی۔ براؤن یہ فلم دیکھ کر باپو سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ بھارت میں باپو کے آشرم آئے اور باپو کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سمجھا۔ تب براؤن کو احساس ہوا کہ کھادی صرف ایک کپڑا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پورا طریقہ زندگی ہے۔ اس سے کس طرح سے دیہی معیشت اور خود کفیلی کا فلسفہ جڑ اہے براؤن اس سے بہت متاثر ہوئے۔ یہاں سے براؤن نے عہد کیا کہ وہ میکسکو میں جاکر کھادی کا کام شروع کریں گے۔ انہوں نے میکسکو کے اوہاکا میں گاؤں والوں کو کھادی کا کام سکھایا، انہیں تربیت دی اور آج ’اوہاکا کھادی‘ ایک برانڈ بن گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے ’دی سیمبل آف دھرما ان موشن‘۔ اس ویب سائٹ میں مارک براؤن کا بہت ہی دلچسپ انٹرویو بھی ملے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں لوگ کھادی کے تعلق سے شبے میں تھے، لیکن آخرکار اس میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی اور اس کا بازار تیار ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں، یہ رام راجیہ سے جڑی باتیں ہیں جب آپ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تو پھر لوگ بھی آپ سے جڑنے چلے آتے ہیں۔
ساتھیو، دلی کے کناٹ پلیس کے کھادی اسٹور میں اس بار گاندھی جینتی پر ایک ہی دن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی خریداری ہوئی۔ اسی طرح کورونا کے دور میں کھادی کے ماسک بھی بہت مقبول ہورہے ہیں۔ ملک بھر میں کئی جگہ سیلف ہیلپ گروپ اور دوسرے ادارے کھادی کے ماسک بنا رہے ہیں۔ یو پی میں بارا بنکی میں ایک خاتون ہیں۔ سمن دیوی جی۔ سمن جی نے سیلف ہیپ گروپ کی اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ مل کر کھادی ماسک بنانا شروع کئے۔ آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دیگر خواتین بھی جڑتی گئیں، اب وہ سبھی مل کر ہزاروں کھادی ماسک بنارہی ہیں۔ ہمارے لوکل پروڈکٹس کی خوبی ہے کہ ان کے ساتھ اکثر ایک پورا فلسفہ جڑ ا ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب ہمیں اپنی چیزوں پر فخر ہوتا ہے تو دنیا میں بھی ان کے بارے میں کے تجسس بڑھتا ۔ جیسے ہماری روحانیت نے،یوگ نے، آیوروید نے، پوری دنیا کو راغب کیا ہے۔ ہمارے کئی کھیل بھی دنیا کو راغبب کررہے ہیں۔ آج کل ہمارا ملکھمب بھی کئی ملکوں میں مقبول ہورہا ہے۔ امریکہ میں چنمے پاٹنکر اور پرگیا پاٹنکر نے جب اپنے گھر سے ہی ملکھمب سکھانا شروع کیا تھا تو انہیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی کامیابی ملے گی۔ امریکہ میں آج کئی مقامات پر ملکھمب تربیتی مراکز چل رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں امریکہ کے نوجوان اس سے جڑ رہے ہیں، ملکھمب سیکھ رہے ہیں۔ آج جرمنی ہو، پولینڈ ہو، ملیشیا ہو، ایسے تقریباً 20 دیگر ممالک میں بھی ملکھمب خوب مقبول ہورہا ہے۔ اب تو اس کی عالمی چمپئن شپ شروع کی گئی ہے، جس میں کئی ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ بھارت میں تو دور قدیم سے کئی ایسے کھیل رہے ہیں جو ہمیں غیر معمولی طور پر فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہمارے ذہن، باڈی بیلنس کو ایک نئی جہت پر لے جاتے ہیں۔ لیکن ممکنہ طور پر نئی نسل کے ہمارے نوجوان ساتھ، ملکھمب سے اتنا واقف نہ ہوں ۔ آپ اسے انٹرنیٹ پر ضرور سرچ کیجئے اور دیکھئے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں کتنے ہی مارشل آرٹ ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان ساتھی ان کے بارے میں بھی جانیں، انہیں سیکھیں اور وقت کے لحاظ سے اختراع بھی کریں۔
جب زندگی میں بڑے چیلنجز نہیں ہوتے ہیں تو شخصیت کا بہترین عنصر بھی باہر نکل کر نہیں آتاہے۔ اس لئے خود کو ہمیشہ چیلنج کرتے رہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کہا جاتا ہے کہ ’لرننگ از گروئنگ‘۔ آج ’من کی بات‘ میں، میں آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کراؤں گا جس میں ایک منفرد جنون ہے۔ یہ جنون ہے دوسروں کے ساتھ مطالعہ کرنے اور سیکھینے کی خوشیوں کو باٹنے کا۔ یہ ہیں پون مریپّن، پون مریپّن تمل ناڈو کے تُتکڑی میں رہتے ہیں۔ تتکڑی کو پرل سٹی یعنی موتیوں کے شہر کے طورپر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کبھی پانڈین سامراج کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہاں رہنے والے میرے دوست پون مریپن ہیئر کٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ایک سیلون چلاتے ہیں۔ بہت چھوٹا سا سیلون ہے۔ انہوں نے ایک منفرد اور تحریک دینے والا کام کیا ہے۔ اپنے سیلون کے ایک حصے کو ہی لائبریری بنا دیا ہے۔ اگر کوئی شخص سیلون میں اپنی باری کا انتظار کرنے کے دوران وہاں کچھ پڑھتا ہے اور جو پڑھا ہے اس کے بارے میں کچھ لکھتا ہے تو پون مریپن جی اس گاہک کو ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ ہے نہ مزے دار!
آیئے تتکڑی چلتے ہیں۔ پون مریپّن جی سے بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم… نلّہ اِر کنگڈا؟
(وزیراعظم: پون مریپّن جی، ونکّم ۔ آپ کیسے ہیں؟)
پون مریپّن: …(تمل میں جواب)
(پون مریپّن: عزت مآب وزیراعظم جی، ونکّم (نمسکار)۔)
وزیراعظم: ونکّم ، ونکّم… انگلکّے اند لائبریری آئیڈیا یّڑی ونددا
(وزیراعظم: ونکّم، ونکّم ۔ آپ کو یہ لائبریری کا جو آئیڈیا ہے، یہ کیسے آیا؟)
پون مریپّن: … (تمل میں جواب)…
(پون مریپّن کے جواب کا ترجمہ: میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس سے آگے میرےخاندان کے حالات کی وجہ سے میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ جب میں پڑھے لوگوں کو یکھتا ہوں، تب میرے دل میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے میرے من میں آیا کہ ہم کیوں نہ ایک لائبریری قائم کریں اور اس سے بہت سے لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا ، یہی میرے لئے ایک تحریک بنی۔
وزیراعظم: انگلکے یند پُتہم پڈکّم؟
(وزیراعظم: آپ کو کون سی کتاب بہت پسند ہے؟)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: مجھے ’تروکورول بہت پسند ہے)
وزیراعظم: اَنگ کٹّ پیسئے دل ینکّ۔ رومبا مگلچی۔ نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: آپ سے بات کرکے مجھے خوشی ہوئی۔ آپ کا بہت بہت نیک خواہشات)
پون مریپّن: …. (تمل میں جواب)
(پون مریپّن: میں بھی عزت مآب وزیراعظم جی سے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہا ہوں)
وزیراعظم: نل واڑ تکّل
(وزیراعظم: بہت ساری نیک خواہشات)
پون مریپّن: (تمل میں جواب)…..
(پون مریپّن: شکریہ وزیراعظم جی)
وزیراعظم: شکریہ۔
ہم نے ابھی پون مریپّن جی سے بات کی۔ دیکھئے، کیسے وہ لوگوں کے بالوں کو تو سنوارتے ہی ہیں، انہیں اپنی زندگی سنوارنے کا بھی موقع دیتے ہیں۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں سن کر بہت اچھا لگا۔ تھروکورل کی مقبولیت کے بارے میں آپ سب نے بھی سنا۔ آج بھارت کی سبھی زبانوں میں تھروکورل دستیاب ہے۔اگر موقع ملے تو ضرور پڑھنا چاہیے۔ زندگی کے لئے وہ ایک طرح سے رہنمائی کرنے والی ہے۔
ساتھیو، لیکن آپ کو یہ جان کر خوش ہوگی کہ پورے بھارت میں متعدد لوگ ہیں جنہیں علم کی ترسیل سے بہت خوشی ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہتے ہیں کہ ہر کوئی پڑھنے کے لئے تحریک حاصل کرے۔ مدھیہ پردیش کے سنگرولی کی ٹیچر، اوشا دوبے جی نے تو اسکوٹی کو ہی موبائل لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ ہر روز اپنی چلتی پھرتی لائبریری کے ساتھ کسی نہ کسی گاؤں میں پہنچ جاتی ہیں اور وہاں بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ بچے انہیں پیار سے کتابوں والی دیدی کہہ کر بلاتےہیں۔ اس سال اگست میں اروناچل پردیش کے نرجولی کے رایو گاؤں میں ایک سیلف ہیلپ لائبریری بنائی گئی ہے۔ دراصل یہاں کی مینا گورنگ اور دیوانگ ہوسائی کو جب پتہ چلا کہ قصبے میں کوئی لائبریری نہیں ہے تو انہوں نے اس کی فنڈنگ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس لائبریری کے لئے کوئی ممبر شپ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص دو ہفتے کے لئے کتاب لے جاسکتا ہے۔ پڑھنے کے بعد اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ لائبریری ساتوں دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ پاس پڑوس کے سرپرست یہ دیکھ کر کافی خوش ہیں کہ ان کے بچے کتاب پڑھنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور سے اس وقت جب اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں۔ وہیں چنڈی گڑھ میں ایک این جی او چلانے والے سندیپ کمار جی نے ایک منی وین میں موبائل لائبریری بنائی ہے، اس کے ذریعہ غریب بچوں کو پڑھنے کے لئے مفت میں کتابیں دی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گجرات کے بھاؤ نگر کے بھی دو اداروں کے بارے میں جانتا ہوں جو بہترین کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے ’وکاس ورتل ٹرسٹ‘۔ یہ ادارہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبا کے لئے بہت مددگار ہے۔ یہ ٹرسٹ 1975 سے کام کررہا ہے اور یہ 5000 کتابوں کے ساتھ 140 سے زیادہ رسالے دستیاب کراتا ہے۔ ایسا ایک ادارہ ’پستک پرب‘ ہے۔ یہ اختراعی پروجیکٹ ہے جو ادبی کتابوں کے ساتھ ہی دوسری کتابیں مفت فراہم کراتا ہے۔ اس لائبریری میں روحانیت، آیورویدک طریقہ علاج اور کئی دیگر موضوعات سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کو اس طرح کی اور کوششوں کے بارے میں کچھ پتہ ہے تو میرا اصرار ہے کہ آپ اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔ یہ مثال کتابیں پڑھنے یا لائبریری کھولنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس نئے بھارت کے جذبے کی بھی علامت ہے جس میں سماج کی ترقی کے لئے ہر علاقے اور ہر طبقے کے لوگ نئے نئے اور اختراعی طریقے اختیار کررہے ہیں۔ گیتا میں کہا گیا ہے :
نہ ہی گیانین سدرشم پوتر مہ ودیاتے
یعنی ، علم کی طرح دنیا میں کچھ بھی مقدس نہیں ہے۔ میں علم کی ترسیل کرنے والے ایسی نیک کوششیں کرنے والے سبھی لوگوں کو دل سے سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ ہی دنوں بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کا یوم پیدائش 31 اکتوبر کو ہم سب ’قومی یکجہتی کے دن‘ کے طور پر منائیں گے۔ ’من کی بات‘ میں پہلے بھی ہم نے سردار پٹیل پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ہم نے ان کی عظیم شخصیت کی کئی جہتوں کا ذکر کیا ہے۔ بہت کم لوگ ملیں گے جن کی شخصیت میں ایک ساتھ کئی عناصر موجود ہوں۔ نظریاتی گہرائی ، اخلاقی جرأت، سیاسی انفرادیت، زرعی شعبے کا گہرا علم اور قومی یکجہتی کے بارے میں اپنے آپ کو وقف کرنے کا جذبہ ۔ کیا آپ سردار پٹیل کے بارے میں ایک بات جانتے ہیں جو ان کے سینس آف ہیومر کو ظاہر کرتی ہے۔ ذرا اس مرد آہن کی شبیہ کا تصور کیجئے جو راجے رجواڑوں سے بات کررہے تھے، پوجیہ باپو، کی عوامی تحریک کا انتظام کررہے تھے، ساتھ ہی انگریزوں سے لڑائی بھی لڑ رہے تھے اور ان سب کے درمیان بھی ان کا سینس آف ہیومر پورے رنگ میں ہوتا تھا۔ باپو نے سردار پٹیل کے بارے میں کہا تھا ۔ ان کی پر مزہ باتیں مجھے اتنا ہنساتی تھیں کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ ایسا دن میں ایک بار نہیں کئی کئی بار ہوتا تھا۔ اس میں ہمارےلئے بھی ایک سبق ہے۔ حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں، اپنے سینس آف ہیومر کو زندہ رکھئے، یہ ہمیں معمول پر تو رکھے گا ہی ہم اپنے مسائل کا حل بھی نکال پائیں گے۔ سردار صاحب نے یہی تو کیا تھا!
میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے اپنی پوری زندگی ملک کے اتحاد کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے بھارتی عوام کے ذہن کو تحریک آزادی سے جوڑا۔ انہوں نے آزادی کے ساتھ کسانوں کے معاملات کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہوں نے راجے رجواڑوں کو ہماری قوم کے ساتھ ملانے کا کام کیا۔وہ تنوع میں اتحاد کے منتر کو ہر بھارتی کے ذہن میں جگا رہے تھے۔
ساتھیو، آج ہمیں اپنی زبان ، اپنے رویہ، اپنے کام سے ہر لمحہ ان سب چیزوں کو آگے بڑھانا ہے جو ہمیں ’متحد‘ کرے ، جو ملک کے ایک حصے میں رہنے والے شہریوں کے ذہن میں دوسرے کونے میں رہنے والے شہریوں کے لئے خلوص اور اپنے پن کا جذبہ پیدا کرسکے۔ ہمارے اباؤ اجداد نے صدیوں سے مسلسل یہ کوششیں کی ہیں۔ اب دیکھئے، کیرلا میں پیدا ہوئے پوچیہ آدی شنکر چاریہ جی نے بھارت کی چاروں سمتوں میں چار اہم مٹھ قائم کئے۔ شمال میں بدری کاشرم، مشرق میں پوری، جنوب میں شرنگیری اور مغرب میں دوارکا۔ انہوں نے سری نگر کا سفر بھی کیا، یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک ’شنکراچاریہ ہل‘ ہےتیرٹھاٹن اپنے آپ میں بھارت کو ایک دھاگے میں پروتا ہے۔ جیوتر لنگوں اور شکتی پیٹھوں کا سلسلہ بھارت کو ایک دھاگے میں باندھتا ہے۔ تریپورہ سے لیکر گجرات تک جموں کشمیر سے لیکر تمل ناڈو تک قائم کئے گئے ہمارے آستھا کے مرکز ہمیں ایک کرتے ہیں۔ بھگتی تحریک پورے بھارت میں ایک بڑی عوامی تحریک بن گئی جس نے ہمیں بھگتی کے ذریعہ متحد کیا۔ ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی یہ باتیں اس طرح گھل گئی ہیں، جس میں اتحاد کی طاقت ہے۔ ہر ایک انوشٹھان سے پہلے مختلف دریاؤں کو پکارا جاتا ہے۔ اس میں دور دراز شمال میں واقع دریا ئے سندھو سے لیکر جنوبی ہند کا زندگی عطا کرنے والادریائے کاویری تک شامل ہیں۔ اکثر ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں، اشنان کرتےوقت پاک جذبے کے ساتھ ایکتا کا منتر ہی بولتے ہیں:
گنگے چ یمنے چیو گوداوری سروتی۔
نرمدے سندھو کاویری جلیسمن سنّدھم کرو۔
اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات میں ’نانڈیڑ صاحب‘ اور ’پٹنہ صاحب‘گورودوارے شامل ہیں۔ ہمارے سکھ گوروؤں نے بھی اپنی زندگی اور اچھے کاموں کے ذریعہ سے اتحاد کے جذبے کو تقویت بخشی ہے۔ گزشتہ صدی میں ہمارے ملک میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر جیسی عظیم شخصیات رہی ہیں۔ جنہوں نے ہم سبھی کو آئین کے ذریعہ سے متحد کیا۔
ساتھیو،
Unity is Power, Unity is strength,
Unity is Progress, Unity is Empowerment,
United we will scale new heights
ویسے۔ ایسی طاقتیں بھی موجود رہی ہیں جو مسلسل ہمارے ذہن میں شکوک و شبہات کے بیچ بونے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ملک میں نے بھی ہر بار، ان بد ارادوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ہمیں مسلسل اپنی تخلیقی صلاحیت سے، محبت سے، ہر لمحہ کوشش کرکے اپنے چھوٹے سے چھوٹے کاموں میں ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے خوبصورت رنگوں کو سامنے لانا ہے۔ اتحاد کے نئے رنگ بھرنے ہیں، اور، ہر شہری کو بھرنے ہیں۔ اس ضمن میں آپ سب سے ایک ویب سائٹ دیکھنے کا اصرار کرتا ہوں۔ ekbharat.gov.in (ایک بھارت ڈاٹ جی او وی ڈاٹ ان)۔ اس میں قومی یکجہتی کی ہماری مہم کو آگے بڑھانے کی کئی کوششیں نظر آئیں گی۔ اس کا ایک دلچسپ کارنر ہے ۔ آج کا واکیہ۔ اس سیکشن میں ہم ہر روز ایک واکیہ کو الگ الگ زبانوں میں کیسے بولتے ہیں، یہ سیکھ سکتے ہیں۔ آپ اس ویب سائٹ کے لئے کنٹریبوٹ بھی کریں، جیسے ہر ریاست اور ثقافت میں علیحدہ علیحدہ خورد و نوش ہوتا ہے۔ یہ پکوان مقامی سطح کی خاص اشیا یعنی اناج اور مسالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ کیا ہم ان لوکل فوڈ کی ریسیپی کو مقامی اجزا کے ناموں کے ساتھ ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ ویب سائٹ پر شیئر کرسکتے ہیں؟ یونٹی اور امیونٹی کو بڑھانے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے!
ساتھیو، اس مہینے کی 31 تاریخ کو مجھے کیوڑیا میں تاریخی اسٹیچو آف یونٹی پر ہورہے کئی پروگرامیوں میں شرکت کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ لوگ بھی ضرور جڑیئے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کو ہم ‘والمیکی جینتی’ بھی منائیں گے۔ میں مہارشی والمیکی کو نمن کرتا ہوں اور اس خاص موقع کے لئے اہل وطن کو دلی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ مہارشی والمیکی کے عظیم خیالات کروڑوں لوگوں کو تحریک دیتے ہیں، تقویت عطا کرتے ہیں۔ وہ لاکھوں، کروڑوں غریبوں اور دلتوں کے لئے بہت بڑی امید ہیں۔ ان کے اندر امید اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کسی بھی شخص کی قوت ارادی اگر اس کے ساتھ ہو تو وہ کوئی بھی کام بڑی آسانی سے کرسکتا ہے۔ یہ قوت ارادی ہی ہے جو کئی نوجوانوں کو غیر معمولی کام کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ مہارشی والمیکی نے مثبت سوچ پر زور دیا۔ ان کے لئے، خدمت اور انسانی وقار کا مقام سب سے اوپر ہے۔مہارشی والمیکی کا اخلاق ، خیالات اور آئیڈیل آج نیو انڈیا کے ہمارے عزم کے لئے محرک بھی ہیں اور رہنما خطوط بھی ہیں۔ ہم مہارشی والمیکی کے ہمیشہ ممنون رہیں گے کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے رامائن جیسے عظیم گرنتھ کی تخلیق کی۔
اکتیس اکتوبر کو بھارت کی سابق وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کو ہم نے کھو دیا۔ میں احترام کے ساتھ ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج کشمیر کا پلوامہ پورے ملک کو تعلیم دینے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ آج ملک بھر میں بچے اپنا ہوم ورک کرتے ہیں، نوٹس بناتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کے پیچھے پلوامہ کے لوگوں کی سخت محنت بھی ہے۔ وادی کشمیر پورے ملک کی تقریباً 90 فیصد پنسل سلیٹ، لکڑی تختی کی مانگ کو پورا کرتی ہے اور اس میں بہت بڑی حصے داری پلوامہ کی ہے۔ ایک وقت میں ہم لوگ بیرون ممالک سے پنسل کے لئے لکڑی منگواتے تھے، لیکن اب ہمارا پلوامہ ، اس شعبے میں ملک کو خود کفیل بنا رہا ہے۔ حقیقت میں پلوامہ کے یہ پنسل سلیٹ، ریاستوں کے درمیان کے گیپ کو کم کررہے ہیں۔ وادی کی چنار کی لکڑی میں اب بہت زیادہ نمی اور سافٹ نیس ہوتی ہے جو پنسل تیار کرنے کےلئے اسے سب سے مناسب بناتی ہے۔ پلوامہ میں اکھو کو پنسل ولیج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پنسل سلیٹ تیار کرنے کی کئی اکائیاں ہیں جو روزگار فراہم کرا رہی ہیں اور ان میں کافی تعداد میں خواتین کام کرتی ہیں۔
ساتھیو، پلوامہ کی اپنی یہ پہچان اس وقت قائم ہوئی ہے جب یہاں کے لوگوں نے کچھ نیا کرنے کی ٹھانی۔ کام کو لیکر جوکھم اٹھایا اور خود کو اس کے لئے وقف کردیا۔ ایسے ہی محنتی لوگوں میں سے ایک ہیں منظور احمد علائی ۔ پہلے منظور بھائی لکڑی کاٹنے والے ایک عام مزدور تھے۔ منظور بھائی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں غریبی میں زندگی نہ گزاریں۔ انہوں نے اپنی پشتینی زمین فروخت کردی اور ایپل وڈن باکس یعنی سیب رکھنے والے لکڑی کے بکسے بنانے کی یونٹ شروع کی۔ وہ اپنے چھوٹے سے بزنس میں جٹے ہوئے تھے، تبھی منظوری بھائی کو کہیں سے پتہ چلا کہ پنسل تیار کرنے میں پوپلر وڈ یعنی چنار کی لکڑی کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد منظور بھائی نے اپنی صنعت کاری کی صلاحیت کا تعارف کراتے ہوئے کچھ فیمس پنسل مینوفیکچرنگ یونٹس کو پوپلر وڈن باکس کی سپلائی شروع کی۔ منظور جی کو یہ بہت فائدے مند لگا اور ان کی آمدنی بھی اچھی خاصی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ انہوں نے پنسل سلیٹ مینوفیکچرنگ مشینری لے لی اور اس کے بعد انہوں نے ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں کو پنسل سلیٹ کی سپلائی شروع کردی۔ آج منظور بھائی کے اس کاروبار کا ٹرن اوور کروڑوں میں ہے اور وہ تقریباً 200 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں۔ آج ’من کی بات‘ کے ذریعہ تمام اہل وطن کی جانب سے میں منظور بھائی سمیت پلوامہ کے محنت کش بھائی بہنوں کو اور ان کے خاندان والوں کو ، ان کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ سب ملک کے نوجوان ذہنوں کو، تعلیم دینے کےلئے اپنا بیش قیمت تعاون کررہے ہیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو، لاک ڈاؤن کے دوران ٹکنالوجی بیسڈ سروس ڈلیوری کے کئی تجربات ہمارے ملک میں کئے گئے ہیں اوراب ایسا نہیں رہا کہ بہت بڑی ٹکنالوجی اور لاجسٹکس کمپنیاں ہی یہ کرسکتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں یہ کام خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ نے کرکے دکھایا ہے۔ ان خواتین نے کسانوں کے کھیتوں سے سبزیاں اور پھل لئے اور سیدھے گھروں تک پہنچائے۔ ان خواتین نے ’آجیوکا فارم فریش‘ نام سےایک ایپ بنوانا جس کے ذریعہ لوگ آسانی سے سبزیاں منگوا سکتے تھے۔ اس پوری کوشش سے کسانوں کو اپنی سبزیوں اور پھلوں کے اچھے دام ملے اور لوگوں کو بھی فریش سبزیاں ملتی رہیں۔ وہاں ’اجیوکا فارم فریش‘ ایپ کا آئیڈیا بہت مقبول ہورہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں انہوں نے 50 لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پھل سبزیاں لوگوں تک پہنچائی ہیں۔ ساتھیو، زراعت کے شعبے میں نئے امکانات پیدا ہوتے دیکھ کر ہمارے نوجوان بھی کافی تعداد میں اس سے جڑنے لگے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے بڑوانی میں اتل پاٹیدار اپنے علاقے کے 4000 کسانوں کو ڈیجیٹل طریقے سے جوڑ چکے ہیں۔ یہ کسان اتل پاٹیدار کے ای۔ پلیٹ فارم فارم ارڈ کے ذریعہ کھیتی کے سامان، جیسے کھاد، بیچ، پیسٹی سائڈ، فنجی سائٹ وغیرہ کی ہوم ڈلیوری پا رہے ہیں، یعنی کسانوں کو گھر تک ان کی ضرورت کی چیزیں مل رہی ہیں۔ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جدید زرعی آلات بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے وقت بھی اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعہ کسانوں کو ہزاروں پیکٹ ڈلیور کئے گئے، جس میں کپاس اور سبزیوں کے بیچ بھی تھے۔ اتل جی اور ان کی ٹیم کسانوں کو تکنیکی طور پر بیدار بنارہی ہے۔ آن لائن پیمنٹ اور خریداری سکھا رہی ہے۔
ساتھیو، ان دنوں مہاراشٹر کے ایک واقعہ پر میرا دھیان گیا۔ وہاں ایک فارمر پروڈیوسر کمپنی نے مکئی کی کھیتی کرنے والے کسانوں سے مکئی خریدی۔ کمپنی نے کسانوں کو اس بار قیمت کے علاوہ بونس بھی دیا۔ کسانوں کو بھی حیران کن خوشی ہوئی۔ جب اس کمپنی سے پوچھا تو انہوں نے کہا بھارت سرکار نے جو نئے زرعی قوانین بنائے ہیں اب ان کے تحت کسان بھارت میں کہیں پر بھی فصل فروخت کرپارہے ہیں اور انہیں اچھے دام مل رہے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ اس فاضل پروفٹ کو کسانوں کے ساتھ بھی بانٹنا چاہیے۔ اس پر ان کا بھی حق ہے اور انہوں نے کسانوں کو بونس دیا ہے۔ ساتھیو، بونس بھلے ہی ابھی چھوٹا ہو، لیکن شروعات بہت بڑی ہے۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے زرعی قوانین سے زمینی سطح پر کس طرح کی تبدیلیاں کسانوں کے حق میں آنے کے امکانات بھرے پڑے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج ’من کی بات میں‘ اہل وطن کی غیر معمولی کامیابیوں ، ہمارے ملک، ہماری ثقافت کی علیحدہ علیحدہ جہتوں کے بارے میں آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ملک باصلاحیت لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ اگر آپ بھی ایسے لوگوں کو جانتے ہوں، ان کے بارے میں بات کیجئے، لکھئے اور ان کی کامیابیوں کو شیئر کیجئے۔ آنے والے تہواروں کی آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو بہت بہت مبارکباد۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے اور تہواروں میں، ذرا خصوصی طور پر یاد رکھئے۔ ماسک پہننا ہے، ہاتھ صابن سے دھوتے رہنا ہے، دو گز کی دوری بنائی رکھنی ہے۔
ساتھیو، اگلے مہینے پھر آپ سے من کی بات ہوگی بہت بہت شکریہ۔
نئی دلّی ،27 ستمبر / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ۔ کورونا کے اِس بحرانی دور میں پوری دنیا مختلف تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے ۔ آج جب دو گز کی دوری ایک نا گزیر ضرورت بن گئی ہے تو اسی بحرانی دور نے کنبے کے ارکان کو آپس میں جوڑنے اور قریب لانے کا بھی کام کیا ہے لیکن اتنے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا ، کیسے رہنا ، وقت کیسے گزارنا ، ہر پل خوشی بھرا کیسے ہو ؟ تو ، کئی کنبوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اُس کی وجہ تھی کہ جو ہماری اقدار تھیں ، جو کنبے میں ایک طرح سے روایتی نظام کی طرح چلتی تھی ، اُس کی کمی محسوس ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے کنبے ہیں ، جہاں یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے اُس کمی کے رہتے ہوئے ، بحران کے اِس دور کو گزارنا بھی کنبوں کے لئے تھوڑا مشکل ہو گیا اور اس میں ایک اہم بات کیا تھی ؟ ہر کنبے میں کوئی نہ کوئی بزرگ ، کنبے کے بڑے شخص کہانیاں سنایا کرتے تھے اور گھر میں نیا جوش اور نئی توانائی بھر دیتے تھے ۔ ہمیں ضرور احساس ہوا ہو گا کہ ہمارے اجداد نے ، جو طریقے بنائے تھے ، وہ آج بھی کتنے اہم ہیں اور جب نہیں ہوتے ہیں تو کتنی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ایسا ہی ایک ہنر ، جیسا میں نے کہا ، کہانی سنانے کا آرٹ ، اسٹوری ٹیلنگ ہے ۔ ساتھیو ، کہانیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ، جتنا کہ انسانی تہذیب کی تاریخ پرانی ہے ۔
" جہاں کوئی روح ہے ، وہاں کہانی بھی ہے ۔ "
کہانیاں لوگوں کے تخلیقی اور حساس پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں اور اس کا اظہار کرتی ہیں ۔ کہانی کی طاقت کو محسوس کرنا ہو ، تو جب کوئی ماں اپنے چھوٹے بچے کو سلانے کے لئے یا پھر اُسے کھانا کھلانے کےلئے کہانی سنا رہی ہوتی ہے ، تب دیکھیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں بڑے عرصے تک ایک سیاح کے طور پر گزارا ہے ۔ گھومنا ہی میری زندگی تھی ۔ ہر دن نیا گاؤں ، نئے لوگ ، نئے کنبے لیکن جب میں کنبوں میں جاتا تھا تو میں بچوں سے ضرور بات کرتا تھا اور کبھی کبھی بچوں سے کہتا تھا کہ چلو بھائی مجھے کوئی کہانی سناؤ ۔ تو میں حیران تھا ، بچے مجھ سے کہتے تھے کہ نہیں انکل ہم چٹکلا سنائیں گے اور مجھ سے بھی وہ یہی کہتے تھے کہ انکل آپ ہمیں چٹکلے سنائیے یعنی اُن کو کہانی سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا ۔ زیادہ تر اُن کی زندگی چٹکلوں میں ہی ختم ہو گئی ۔
ساتھیو ، ہندوستان میں کہانی سنانے یا قصہ گوئی کی ایک اہم روایت رہی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں ، جہاں ہیتوپدیش اور پنچ تنتر کی روایت رہی ہے ، جہاں کہانیوں میں جانوروں اور پرندوں اور پریوں کی خیالی دنیا تشکیل دی گئی تھی تاکہ عقل اور ذہانت کی باتوں کو آسانی سے سمجھایا جا سکے ۔ ہمارے یہاں کتھا کی روایت رہی ہے۔ یہ مذہبی کہانیاں سنانے کا یہ قدیم طریقہ ہے۔ اس میں 'کٹا کالیش وَم' بھی شامل رہا ہے ۔ ہمارے یہاں طرح طرح کی لوک کہانیاں رائج ہیں۔ تمل ناڈو اور کیرالہ میں کہانی سنانے کا ایک بہت ہی دلچسپ طریقہ ہے۔ اسے 'ویلو پاٹ' کہا جات ہے ۔ اس میں کہانی اور موسیقی کی ایک بہت ہی پرکشش ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کٹھ پتلی کی بھی روایت رہی ہے۔ ان دنوں سائنس اور سائنس فکشن سے جڑی کہانیاں اور کہانی کہنے کا طریقہ مقبول ہو رہا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں ، کئی لوگ قصہ گوئی کے آرٹ کو بڑھانے کے لئے قابلِ ستائش پہل کر رہے ہیں ۔ مجھے gaathastory.in جیسی ویب سائٹ کے بارے میں پتہ چلا ، جسے ، امر ویاس ، باقی لوگوں کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں ۔ امر ویاس آئی آئی ایم احمد آباد سے ایم بی اے کرنے کے بعد بیرون ملک چلا گئے ، پھر واپس آئے ۔ فی الحال بنگلورو میں رہ رہے ہیں اور وقت نکال کر کہانیوں سے جڑے اِس طرح کے دلچسپ کام کر رہے ہیں۔ کئی ایسی کوششیں بھی ہیں ، جو دیہی بھارت کی کہانیوں کو خوب مقبول بنا رہی ہیں ۔ ویشالی ویہوہارے دیش پانڈے جیسے کئی لوگ ہیں ، جو اسے مراٹھی میں بھی مقبول بنا رہے ہیں ۔
چنئی کی شری وِدھا اور وی راگھون بھی ہمارے تہذیب سے جڑی کہانیوں کی نشر و اشاعت کرنے میں لگی ہیں ۔ وہیں کتھالیہ اور دی انڈین اسٹوری ٹیلنگ نیٹ ورک نام کی دو ویب سائٹ بھی اِس شعبے میں زبردست کام کر رہی ہیں ۔ گیتا راما نجن نے kathalaya.org میں کہانیوں کو مرکوز کیا ہے ، وہیں The Indian Story Telling Network کے ذریعے بھی الگ الگ شہروں کے اسٹوری ٹیلرس کا نیٹ ورک تیار کیا جا رہا ہے ۔ بنگلورو میں ایک وکرم شری دھر ہیں ، جو باپو سے جڑی کہانیوں کو لے کر بہت پُر جوش ہیں اور بھی کئی لوگ اِس شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ آپ ضرور ا ن کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر کریں ۔
آج ہمارے ساتھ بنگلورو اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی بہن اپرنا آتریا اور دیگر ارکان جڑے ہیں ، آئیے ، انہیں سے بات کرتے ہیں اور جانتے ہیں ، اُن کا تجربہ ۔
وزیر اعظم : ہیلو
اپرنا : نمسکار محترم وزیر اعظم جی کیسے ہیں آپ ۔
وزیر اعظم : میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسی ہیں اپرنا جی ؟
اپرنا : بالکل بڑھیا سر جی ۔ سب سے پہلے میں بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی کی طرف سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہم جیسے فن کاروں کو اِس فورم پر بلایا ہے اور بات کر رہے ہیں ۔
وزیر اعظم : اور میں نے سنا ہے کہ آج تو شاید آپ کی پوری ٹیم بھی آپ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔
اپرنا : جی – – جی بالکل – – بالکل سر ۔
وزیر اعظم : تو اچھا ہوگا کہ آپ اپنی ٹیم کا تعارف کرا دیں تاکہ من کی بات کے ، جو سامعین ہیں ، اُن کے لئے تعرف ہو جائے کہ آپ لوگ کیسے بڑی مہم چلا رہے ہیں ۔
اپرنا : سر میں اپرنا آتریہ ہوں ، میں دو بچوں کی ماں ہوں ، ایک بھارتی فضائیہ کے افسر کی بیوی ہوں اور ایک جذباتی قصہ گو ہوں سر ۔ اسٹوری ٹیلنگ کی شروعات 15 سال پہلے ہوئی تھی ، جب میں سافٹ ویئر انڈسٹری میں کام کر رہی تھی ۔ تب میں سی ایس آر پروجیکٹوں میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے کے لئے ، جب گئی تھی ، تب ہزاروں بچوں کو کہانیوں کے ذریعے تعلیم دینے کا موقع ملا اور یہ کہانی ، جو میں بتا رہی تھی ، وہ اپنی دادی ماں سے سنی تھی لیکن جب کہانی سنتے وقت میں نے ، جو خوشی ، اُن بچوں میں دیکھی ، میں کیا بولوں آپ کو ، کتنی مسکراہٹ تھی ، کتنی خوشی تھی تو اُس وقت میں نے طے کیا کہ اسٹوری ٹیلنگ میری زندگی کا ہدف ہو گا سر ۔
وزیر اعظم : آپ کی ٹیم میں اور کون ہے وہاں ؟
اپرنا : میرے ساتھ ہیں ، شیلجا سمپت ۔
شیلجا : نمسکار سیر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
شیلجا : میں شیلجا سمپت بات کر رہی ہوں ۔ میں تو پہلے ٹیچر تھی ۔ اُس کے بعد جب میرے بچے بڑے ہوئے تب میں نے تھیٹر میں کام شروع کیا اور آخر کار کہانیوں کو سنانے میں سب سے زیادہ دلی سکون ملا ۔
وزیر اعظم : شکریہ !
شیلجا : میرے ساتھ سومیا ہیں ۔
سومیا : نمسکار سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
سومیا : میں ہوں سومیا سری نواسن ۔ میں ایک سائکلوجسٹ ہوں ۔ میں جب کام کرتی ہوں ، بچے اور بڑے لوگوں کے ساتھ ، اُس میں کہانیوں کے ذریعے انسان کے جذبات کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی تبادلۂ خیال بھی کرتی ہوں ۔ میرا مقصد ہے – Healing and transformative storytelling ۔
اپرنا : نمستے سر ۔
وزیر اعظم : نمستے جی ۔
اپرنا : میرا نام اپرنا جے شنکر ہے ۔ ویسے تو میری خوش قسمتی ہے کہ میں اپنے نانا نانی اور دادی کے ساتھ اس ملک کے مختلف حصوں میں پلی ہوں ۔ اس لئے رامائن ، پرانوں اور گیتا کی کہانیاں مجھے وراثت میں ہر رات کو ملتی تھیں اور بنگلور اسٹوری ٹیلنگ سوسائٹی جیسی تنظیم ہے تو مجھے اسٹوری ٹیلر بننا ہی تھا ۔ میرے ساتھ میری ساتھی لاونیا پرساد ہیں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی ، نمستے ۔
لاونیا : نمستے سر ۔ میں ایک الیکٹریکل انجینئر ہوں ، جو پیشہ ور قصہ گو بن گئی ہوں ۔ سر ، میں اپنے دادا سے کہانیاں سن کر بڑی ہوئی ہوں ۔ میں بزرگ شہریوں کے ساتھ کام کرتی ہوں ۔ میرے خصوصی پروجیکٹ میں ، جس کا نام روٹس ہے ، جہاں میں ، اُن کی زندگی اور اُن کے کنبوں کی زندگی کو دستاویزی شکل دینے میں مدد کرتی ہوں ۔
وزیر اعظم : لاونیا جی آپ کو بہت بہت مبارک ہو اور جیسا آپ نے کہا ہے ، میں نے بھی ایک بار من کی بات میں سب سے کہا تھا کہ آپ کنبے میں دادا ، دادی ، نانا ، نانی ہیں تو اُن سے ، اُن کے بچپن کی کہانیاں پوچھیئے اور اُسے ٹیپ کر لیجئے ، ریکارڈ کر لیجئے ۔ میں نے کہا تھا کہ بہت کام آئے گا لیکن مجھے اچھا لگا کہ ایک تو آپ سب نے ، جو اپنا تعارف کرایا ، اُس میں بھی آپ کا فن ، مواصلات کی آپ کی صلاحیت اور بہت ہی کم الفاظ میں ، بہت اچھے طریقے سے آپ نے اپنا تعارف کرایا ، اس لئے بھی میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔
لاونیا : شکریہ سر ، آپ کا شکریہ ۔
اب جو ہمارے سامعین لوگ ہیں ، من کی بات کے ، اُن کا بھی دل چاہتا ہوگا ، کہانی سننے کا ۔ کیا میں آپ سے درخواست کر سکتا ہوں کہ ایک دو کہانی سنائے آپ لوگ ؟
گروپ کی آواز : جی بالکل ، یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔
چلئے چلئے سنتے ہیں کہانی ایک راجا کی ۔ راجا کا نام تھا ، کرشن دیو رائے اور سلطنت کا نام تھا ، وجے نگر ۔ اب راجا ہمارے تھے تو بڑے خوبیوں کے مالک ۔ اگر اُن میں کوئی کھوٹ بتانا ہی تھا ، تو وہ تھا ، زیادہ محبت اپنے وزیر تینالی راما کی جانب اور دوسرے کھانے کی ۔ راجا جی ہر دن دوپہر کے کھانے کے لئے بڑے شان سے بیٹھے تھے – کہ آج کچھ اچھا بنا ہوگا اور ہر دن اُن کے باورچی انہیں وہی بے جان سبزیاں کھلاتے تھے ، تورئی ، لاکی ، کدو ، ٹنڈا – اُف ۔ ایسے ہی ایک دن راجا نے کھاتے کھاتے غصے میں تھالی پھینک دی اور اپنے باورچی کو حکم دیا کہ یا تو کل کوئی دوسری مزیدار سبزی بنانا یا پھر کل میں تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا ۔ باورچی بے چارہ ڈر گیا ۔ اب نئی سبزی کے لئے وہ کہاں جائے ۔ باورچی بھاگا بھاگا چلا سیدھے تینالی راما کے پاس اور اُسے پوری کہانی سنائی ۔ سن کر تینالی راما نے باورچی کو ترکیب بتائی ۔ اگلے دن راجا دوپہر کو کھانے کے لئے آئے اور باورچی کو آواز دی ۔ آج کچھ نیا مزیدار بنا ہے یا میں سولی تیار کر دوں ۔ ڈرے ہوئے باورچی نے جھٹ پٹ تھالی کو سجایا اور راجا کے لئے گرما گرم کھانا پیش کیا ۔ تھالی میں نئی سبزی تھی ۔ راجا بہت خوش ہوئے اور تھوڑی سی سبزی چکھی ۔ اوہ واہ ، کیا سبزی تھی ، نہ تورئی کی طرح پھیکی تھی ، نہ کدو کی طرح میٹھی تھی ۔ باورچی نے ، جو بھی مسالحہ بھون کر ، کوٹ کر ڈالا تھا ، سب اچھی طرح سے چڑھی تھی ۔ انگلیاں چاٹتے ہوئے مطمئن راجا نے باورچی کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون سی سبزی ہے ، اس کا نام کیا ہے ۔ جیسے سکھایا گیا تھا ، ویسے ہی باورچی نے جواب دیا ۔ مہا راج ، یہ مکٹ دھاری بیگن ہیں ۔ پربھو ٹھیک آپ ہی کی طرح یہ بھی سبزیوں کے راجا ہیں اور اسی لئے باقی سبزیوں نے بیگن کو تاج پہنایا ہے ۔ راجا خوش ہوئے اور اعلان کیا ، آج سے ہم یہی مکٹ دھاری بیگن کھائیں گے اور صرف ہم ہی نہیں ، ہماری سلطنت میں بھی صرف بیگن ہی بنے گا اور کوئی سبزی نہیں بنے گی ۔ راجا اور پرچا دونوں خوش تھے ۔ یعنی پہلے پہلے تو سب خوش تھے کہ انہیں نئی سبزی ملی ہے لیکن جیسے ہی دن بڑھتے گئے ، سُر تھوڑا کم ہوتا گیا ۔ ایک گھر میں بیگن کا بھرتا تو دوسرے گھر میں بیگن بھاجی ۔ ایک کے یہاں کاتے کا سمبھر تو دوسرے کے یہاں وانگی بھات ۔ ایک ہی بیگن بے چارا کتنے روپ دھارن کرے ۔ آہستہ آہستہ راجا بھی تنگ آ گئے ۔ روزانہ وہی بیگن اور ایک دن ایسا آیا کہ راجا نے باورچی کو بلایا اور خوب ڈانٹا ۔ تم سے کس نے کہا کہ بیگن کے سر پر تاج ہے ۔ اس سلطنت میں اب کوئی بیگن نہیں کھائے گا ۔ کل سے باقی کوئی بھی سبزی بنانا لیکن بیگن نہیں بنانا ۔ باورچی جیسے آپ کی آگیا مہا راج ، کہہ کر سیدھا تینالی راما کے پاس پہنچا ۔ تینالی راما کے پاؤں پکٹرتے ہوئے کہا کہ منتری جی شکریہ ۔ آپ نے ہماری جان بچا لی ۔ آپ کے مشورے کی وجہ سے اب ہم کوئی بھی سبزی راجا کو کھلا سکتے ہیں ۔ تینالی راما نے ہنستے ہو کہا ، وہ وزیر ہی کیا ، جو راجا کو خوش نہ رکھ سکے اور اسی طرح راجا کرشن دیو رائے اور اُن کے وزیر تینالی راما کی کہانیاں بنتی رہیں اور لوگ سنتے رہے ۔ شکریہ ۔
وزیر اعظم : آپ نے ، بات میں ، اتنی درستگی تھی ، اتنی باریکیوں کو پکڑا تھا ، میں سمجھتا ہوں ، بچے ، بڑے ، جو بھی سنیں گے ، کئی چیزوں کو یاد رکھیں گے ۔ بہت اچھے طریقے سے آپ نے بتایا اور خاص اتفاق یہ ہے کہ ملک میں تغذیہ کا مہینہ چل رہا ہے اور آپ کی کہانی کھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔
خاتون : جی
وزیر اعظم : اور میں ضرور ، یہ جو اسٹوری ٹیلر آپ لوگ ہیں ، اور بھی لوگ ہیں ۔ ہمیں کس طرح سے اپنے ملک کی نئی پیڑھی کو اپنی عظیم شخصیتوں، عظیم ماؤں بہنوں کے ساتھ ، جو عظیم ہو گئے ہیں ، کہانیوں کے ذریعے کیسے جوڑا جائے ۔ ہم قصہ گوئی کو اور زیادہ کیسے مقبول بنائیں اور ہر گھرمیں اچھی کہانی کہنا ، اچھی کہانی بچوں کو سنانا ، یہ عام آدمی کی زندگی کی بہت بڑی کریڈٹ ہو ۔ یہ ماحول کیسے بنائیں ۔ اُس سمت میں ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیئے لیکن مجھے بہت اچھا لگا ، آپ لوگوں سے بات کرکے اور میں آپ سب کو بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔ شکریہ ۔
گروپ کی آواز : شکریہ سر ۔
کہانی کے ذریعے تہذیب کے ماحول کو آگے بڑھانے والی اِن بہنوں کو اپنے سنا ۔ میں جب اُن سے فون پر بات کر رہا تھا ، اتنی لمبی بات تھی تو مجھے لگا کہ من کی بات کے وقت کی حد ہے تو میری اُن سے جو باتیں ہوئی ہیں ، وہ ساری باتیں ، میں اپنے نریندر مودی ایپ پر اَپ لوڈ کروں گا – پوری کہانیاں ضرور وہاں سنیئے ۔ ابھی من کی بات میں تو میں نے اُس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہی آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ میں ضرور آپ سے درخواست کروں گا ، خاندان میں ، ہر ہفتے آپ کہانیوں کے لئے کچھ وقت نکالئے اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خاندان کے ہر رکن کو ہر ہفتے کے لئے ایک موضوع طے کریں ، جیسے مان لو ہمدردی ہے ، حساسیت ہے ، ہمت ہے ، قربانی ہے ، بہادری ہے ، کوئی ایک جذبہ اور خاندان کے سبھی ارکان اُس ہفتے ایک ہی موضوع پر سب کے سب لوگ کہانی ڈھونڈیں گے اور خاندان کے سب لوگ مل کر ایک ایک کہانی کہیں گے ۔
آپ دیکھئے کہ کنبہ میں کتنا بڑا خزانہ ہو جائے گا ، کتنا بڑا تحقیقی کام ہوگا ، ہر ایک اور کتنی خوشی خوشی لطف اٹھائے گا ، کنبے میں نئی توانائی آئے گی ۔ اسی طرح ہم ایک کام اور بھی کرسکتے ہیں۔ میں ، کہانی سنانے والے سب سے اپیل کروں گا کہ ہم آزادی کے 75 سالوں کو منانے جا رہے ہیں ۔ کیا ہم اپنی کہانیوں میں پورے غلامی کے دور کے جتنے متاثر کن واقعات کو کہانیوں میں متعارف کرا سکتے ہیں! خاص طور پر ، 1857 ء سے لے کر 1947 ء تک ، ہم ہر چھوٹے موٹے نئے واقعہ سے ، اب اپنی کہانیوں کے ذریعے اپنی نئی نسل کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یہ کام ضرور کریں گے۔ کہانی کہنے کا یہ فن ملک میں زیادہ مضبوط ، زیادہ عام اور زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوتا ہے ، لہذا ، آئیے ہم سب کوشش کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آئیے ، اب ہم کہانیوں کی دنیا سے نکل کر ، اب ہم سات سمندر پار چلتے ہیں ، یہ آواز سنیئے ۔
" نمستے ، بھائیو اور بہنوں ، میرا نام سیدو دیم بیلے ہے۔ میں مغربی افریقہ کے ایک ملک مالی سے ہوں۔ فروری میں ، مجھے ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی تہوار کمبھ میلے میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات ہے۔ مجھے کمبھ میلے میں شرکت کرکے بہت اچھا لگا اور ہندوستان کی ثقافت کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک بار پھر ہندوستان جانے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ ہم ہندوستان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکیں۔ نمستے " ۔
وزیر اعظم: ہے نہ مزیدار ، تو یہ تھے مالی کی سیدو دیم بیلے ۔ مالی بھارت سے بہت دور مغربی افریقہ کا ایک بہت بڑا اور لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ سیدو دیم بیلے مالی کے ایک شہر کیٹا کے ایک پبلک اسکول میں ٹیچر ہیں ۔ وہ بچوں کو انگلش ، میوزک ، پینٹنگ اور ڈرائنگ پڑھاتے اور سکھاتے ہیں ۔ لین اُن کی ایک اور شناخت بھی ہے۔ لوگ انہیں مالی کے ہندوستان کا بابو کہتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے انہیں بہت فخر ہوتا ہے۔ ہر اتوار کی دوپہر ، وہ مالی میں ایک گھنٹہ کا ریڈیو پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ اس پروگرام کا نام ہے ، انڈین فریکونسی آن بالی ووڈ سانگس ۔ وہ پچھلے 23 سالوں سے اسے پیش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے دوران ، وہ فرانسیسی زبان کے ساتھ ساتھ مالی کی مقامی زبان 'بمبارا' میں بھی اپنی کمنٹری کرتے ہیں اور ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہیں ہندوستان سے دِلی محبت ہے۔ ہندوستان سے ان کی گہری وابستگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ، ان کی پیدائش بھی 15 اگست کو ہوئی تھی۔ سیدو جی نے اب ہر اتوار کے روز دو گھنٹے کا ایک اور پروگرام شروع کیا ہے ، جس میں وہ بالی ووڈ کی ایک مکمل فلم کی کہانی فرانسیسی اور بمبارا میں سناتے ہیں ۔ کبھی کبھی کسی جذباتی منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ، وہ خود اور ان کے سننے والے ایک ساتھ رو پڑتے ہیں۔ سیدو جی کے والد نے ہی ہندوستانی ثقافت سے ان کا تعارف کرایا تھا ۔ ان کے والد سینما ، تھیٹر میں کام کرتے تھے اور وہاں ہندوستانی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں ۔ اس 15 اگست کو ، انہوں نے ہندی میں ایک ویڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد دی تھی ۔ آج ان کے بچے آسانی سے ہندوستان کا قومی ترانہ گاتے ہیں۔ آپ ان دونوں ویڈیوز کو ضرور دیکھیں اور ان کی ہندوستان سے محبت کو محسوس کریں۔ جب سیدوجی نے کمبھ کا دورہ کیا تھا ، اس وقت وہ، اُس وفد کا حصہ تھے ، جس سے میں نے ملاقات کی تھی ۔ ندوستان کے لئے ، اُن کا اس طرح کا جنون ، محبت اور پیار واقعی ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے ، جو شخص زمین سے جتنا جڑا ہوا ہے ، وہ بڑے سے بڑے طوفان میں اتنا ہی ڈٹا رہتا ہے۔ کورونا کے اس مشکل دور میں ہمارا زرعی شعبہ ، ہمارا کسان ، اِس کی زندہ مثال ہے ۔ مشکل کے اس دور میں بھی ہمارے ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ساتھیو ، ملک کا زرعی شعبہ ، ہمارے کسان ، ہمارے دیہات ، خود کفیل بھارت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے تو پھر خود کفیل بھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ، ان شعبوں نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے ، بہت سے مفروضوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے ایسے بہت سے کسانوں کے خطوط ملتے ہیں ، میں کسان تنظیموں سے بات کرتا ہوں ، جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کاشتکاری میں نئی جہتیں شامل کی جارہی ہیں ، زراعت کیسے تبدیل ہورہی ہے۔ میں نے ان سے کیا سنا ہے ، میں نے دوسروں سے کیا سنا ہے ، میرا دِل چاہتا ہے کہ آج 'من کی بات' میں ، میں آپ کو ان کسانوں کی کچھ باتیں ضرور بتاؤں۔ ہمارا ایک کسان بھائی ہے ، جس کا نام جناب کنور چوہان ہے ، جو ہریانہ کے سونی پت ضلع میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب انہیں منڈی سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ اپنے پھل اور سبزیاں منڈی کے باہر بیچ دیتے تھے تو پھر کئی بار ان کے پھل ، سبزیاں اور گاڑیاں تک ضبط ہوجاتی تھیں۔ تاہم ، 2014 ء میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی ایکٹ سے باہر کردیا گیا ، جس سے انہیں اور آس پاس کے کسانوں کو بہت فائدہ ہوا۔ چار سال پہلے ، انہوں نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔ آج ، گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کھیتی کرتے ہیں۔ آج ، ان کی پیداوار دلّی کی آزاد پور منڈی ، بڑی ریٹیل چین اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں براہ راست سپلائی ہو رہی ہے ۔ آج گاؤں کے کسان سویٹ کارن اور بیبی کارن کی کاشت کرکے سالانہ ایکڑ ڈھائی سے تین لاکھ کما رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ، اس گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار ، نیٹ ہاؤس بنا کر ، پولی ہاؤس بنا کر ، ٹماٹر ، کھیرا ، شملہ مرچ ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر سال فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپئے تک کمائی کر رہے ہیں۔ جانتے ہیں ، ان کسانوں کے پاس کیا الگ ہے ، اپنے پھل ، سبزیوں کو کہیں پر بھی ، کسی کو بھی ، بیچنے کی طاقت ہے اور یہ طاقت ہی اُن کی اس ترقی کی بنیاد ہے ۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ نہ صرف پھل اور سبزیوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ اپنے کھیت میں وہ جو پیدا کر رہے ہیں – دھان ، گیہوں ، سرسوں ، گنا ، جو بھی پیدا کر رہے ہیں ، اُس کو اپنی مرضی کے مطابق زیادہ دام ملیں ، وہیں پر بیچنے کی اب اُن کو آزادی مل گئی ہے ۔
ساتھیو ، تین چار سال پہلے ، مہاراشٹر میں ، پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی کے دائرہ کار سے باہر کردیا گیا تھا۔ اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے ، اس کی ایک مثال یہ کسانوں کا ایک گروپ ہے ، جس کا نام سری سوامی سامرتھ فارمرس پروڈیوسر کمپنی لمیٹیڈ ہے ۔ پونے اور ممبئی کے کسان خود ہفتہ وار بازار چلا رہے ہیں۔ ان منڈیوں میں ، تقریباً لگ بھگ 70 گاؤوں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار براہ راست فروخت ہوتی ہے ، کوئی بچولیہ نہیں ہے ۔ دیہی نوجوان منڈی ، کاشتکاری اور بیچنے کے عمل میں براہ راست شامل ہوتے ہیں ۔ اس سے کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو روزگار میں فائدہ ہوتا ہے ۔
اس کی ایک اور مثال تمل ناڈو کے تھینی ضلع کی ہے ۔ یہاں تمل ناڈو کے کیلے کے کسانوں کی کمپنی ہے ۔ پیداوار کرنے والے کسانوں کی یہ کمپنی کہنے کو تو کمپنی ہے لیکن حقیقت میں ، ان کسانوں نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ ایک بہت ہی لچکدار نظام موجود ہے ، اور وہ بھی پانچ چھ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران قریب کے گاؤوں سے سیکڑوں میٹرک ٹن سبزیاں ، پھل اور کیلے خریدے اور چنئی شہر کو سبزی کمبو کٹ دیا۔ آپ سوچئے ، انہوں نے کتنے نوجوانوں کو روز گار دیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ بچولیا نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو بھی فائدہ ہوا اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا ۔ ایسا ہی ایک لکھنؤ کا کسانوں کا گروپ ہے ۔ انہوں نے نام رکھا ہے ، " ارادہ فارمر پروڈیوسر " ۔ انہوں نے بھی لاک ڈاؤن کے دوران براہ راست کسانوں کے کھیتوں سے پھل اور سبزیاں لیں اور سیدھے جاکر لکھنؤ کے بازاروں میں فروخت کیں ۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من پسند قیمت انہوں نے حاصل کی ۔ ساتھیو ، گجرات میں بناس کے رام پورہ گاؤں میں اسماعیل بھائی کرکے ایک کسان ہیں۔ ان کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ اسماعیل بھائی کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے لیکن ، جیسا کہ اب زیادہ تر سوچ بن گئی ہے ، ان کے اہل خانہ بھی یہ سوچتے تھے کہ اسماعیل بھائی کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ اسماعیل بھائی کے والد کھیتی باڑی کرتے تھے ، لیکن اس میں اکثر انہیں نقصان ہوتا تھا تو والد نے بھی منع کیا لیکن خاندان والوں کے منع کرنے کے باوجود اسماعیل بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ کھیتی باڑی ہی کریں گے۔ اسماعیل بھائی کا خیال تھا کہ کھیتی باڑی نقصان کا سودا ہے ، وہ اس سوچ اور صورتحال دونوں کو بدل کر دکھائیں گے ۔ انہوں نے کھیتی باڑی شروع کی لیکن ، نئے طریقوں سے ، اختراعی طریقوں سے۔ انہوں نے ڈرپ سے آبپاشی کرکے آلو کی کاشت شروع کردی اور آج ان کے آلو ایک پہچان بن گئے ہیں ۔ وہ ایسے آلو اگا رہے ہیں ، جن کی کوالٹی بہت ہی اچھی ہوتی ہے ۔ اسماعیل بھائی ، یہ آلو براہ راست بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں ۔ بچولیوں کا نام و نشان نہیں اور نتیجہ – اچھا منافع کما رہے ہیں ۔ اب تو انہوں نے اپنے والد کا سارا قرض بھی ادا کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات جانتے ہیں : اسماعیل بھائی ، آج اپنے علاقے کے سینکڑوں اور کسانوں کی بھی مدد کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی بھی بدل رہے ہیں ۔
ساتھیو ، آج کی تاریخ میں ، ہم کھیتی باڑی کو جتنا جدید متبادل دیں گے ، اتنا ہی وہ آگے بڑھے گی ۔ اس میں نئے نئے طور طریقے آئیں گے ، نئی اختراعات جڑیں گی ۔ منی پور کی رہنے والی بجے شانتی ایک نئی اختراع کی وجہ سے کافی بحث میں ہیں ۔ انہوں نے کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اَپ شروع کیا ہے ۔ آج اُن کی اختراع کی وجہ سے کمل کی کھیتی اور ٹیکسٹائل میں ایک نیا راستہ بن گیا ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، میں آپ کو ماضی کے ایک حصے میں لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ ایک سو سال پرانی بات ہے۔ 1919 ء کا سال تھا۔ جلیانوالا باغ میں برطانوی حکومت نے بے گناہ لوگوں کو قتل عام کیا تھا۔ اس قتل عام کے بعد ، ایک بارہ سالہ لڑکا جائے وقوع پر گیا۔ وہ خوشگوار اور چنچل بچہ ، تاہم ، اس نے جلیانوالا باغ میں جو کچھ دیکھا ، وہ اس کے تصور سے بالاتر تھا۔ وہ حیران رہ گیا ، حیرت سے کہ کوئی بھی اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ معصوم غصے کی آگ میں جلنے لگا ۔ اسی جلیانوالہ باغ میں ، اس نے انگریزی حکومت کے خلاف لڑنے کی قسم کھائی ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں؟ جی ہاں! میں شہید ویر بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں۔ کل ، 28 ستمبر کو ، ہم شہید ویر بھگت سنگھ کی یوم پیدائش منائیں گے۔ میں ، تمام شہریوں کے ساتھ ، شہید ویر بھگت سنگھ ، جو بہادری اور بہادری کی علامت ہے ، کو سلام کرتا ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ، ایسی حکومت ، جس نے دنیا کے اتنے بڑے حصے پر حکمرانی کی ، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکومت میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا ۔ اتنی طاقتور حکومت کو 23 سالہ شخص نے خوفزدہ کردیا۔ شہید بھگت سنگھ با ہمت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے ، مفکر تھے ۔ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ، بھگت سنگھ اور ان کے انقلابی ساتھیوں نے ایسے جرات مندانہ کام انجام دیئے ، جس کا ملک کی آزادی میں بہت بڑا تعاون تھا ۔ شہید ویر بھگت سنگھ کی زندگی کا ایک اور خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ٹیم ورک کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ لالہ لاجپت رائے کے تئیں اُن کی لگن ہو یا چندر شیکھر آزاد ، سکھ دیو ، راج گرو سمیت انقلابیوں کے ساتھ ، اُن کا اتحاد ، اُن کے لئے کبھی ذاتی فخر کبھی اہم نہیں رہا ۔ وہ جب تک جئے ، صرف ایک مشن کے لئے جئے اور اسی کے لئے انہوں نے اپنی قربانی دے دی – وہ مشن تھا ، بھارت کو نا انصافی اور انگریزی حکمرانی سے آزادی دلانا ۔ میں نے نمو ایپ پر حیدر آباد کے اجے ایس جی کا ایک کمنٹ پڑا ۔ اجے جی لکھتے ہیں – آج کے نو جوان کیسے بھگت سنگھ جیسے بن سکتے ہیں ۔ دیکھئے ، ہم بھگت سنگھ بن پائیں یا نہ بن پائیں لیکن بھگت سنگھ جیسی حب الوطنی ، ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ضرور ہم سب کے دلوں میں ہے ۔ شہید بھگت سنگھ کو یہ ہمارا سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔ 4 سال پہلے تقریباً یہی وقت تھا ، جب سرجیکل اسٹرائک کے دوران دنیا نے ہمارے جوانوں کے حوصلے ، بہادری اور بے خوفی کا مشاہدہ کیا ۔ ہمارے بہادر فوجیوں کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی ہدف تھا ، ہر قیمت پر بھارت ماتا کے فخر اور عزت کا دفاع کرنا ۔ انہوں نے اپنی زندگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی ۔ وہ اپنے فرض کے راستے پر آگے بڑھتے گئے اور ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح وہ فاتح ہوکر سامنے آئے ۔ بھارت ماتا کے فخر میں اضافہ کیا ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، آنے والے دنوں میں ہم کئی عظیم لوگوں کو یاد کریں گے ، جن کا بھارت کی تعمیر میں بہ بھلایا جانے والا تعاون ہے ۔ 2 اکتوبر ہم سب کے لئے مقدس ہے اور تحریک دلانے والا دن ہے ۔ یہ دن مادر وطن کے 2 سپوتوں ، مہاتما گاندھی اور لال بہادر شاستری کو یاد کرنے کا دن ہے ۔
پوجیا باپو کے افکار اور نظریات آج کے مقابلے میں آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ، مہاتما گاندھی کی معاشی سوچ ، اگر اس جذبے کو پکڑا جاتا ، سمجھا جاتا ، اسی راہ پر گامزن ہوتا ، تب ، آج خود انحصاری ہندوستان مہم کی ضرورت ہے گر نہیں ہوتا ہے۔ گاندھی کی معاشی سوچ کو ہندوستان کے اعصاب ، ہندوستان کی خوشبو کی سمجھ تھی۔ پوجیا باپو کی زندگی ہمیں اس بات کی یاد دلانے کی یاد دلاتی ہے کہ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کے غریب لوگوں کے مفاد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، شاستری کی زندگی ہمیں عاجزی اور سادگی کا پیغام دیتی ہے۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے خاص ہے۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک ہیرو جئے پرکاش جی کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر یاد کرتے ہیں۔ جے پی نے ہماری جمہوری اقدار کے تحفظ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں ہندوستان رتن ناناجی دیشمکھ بھی یاد ہے ، جن کی یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہے۔ نانا جی دیشمکھ جئے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ جب جے پی بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے تو پٹنہ میں اس پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔ پھر ، ناناجی دیشمکھ نے خود جنگ لڑ لی۔ اس حملے میں نانا جی کو شدید چوٹ پہنچی تھی ، لیکن ، وہ جے پی کی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہ 12 اکتوبر راجماتا وجئےارجے سنڈیا جی کی یوم پیدائش بھی ہے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ وہ ایک شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ، اسے جائیداد ، طاقت اور دیگر وسائل کی کمی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ، اس نے اپنی زندگی ، ایک ماں کی طرح ، عوامی مفاد میں ، عوامی خدمت کے لئے صرف کی۔ اس کا دل بہت فراخ دل تھا۔ یہ 12 اکتوبر ان کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کی تقریبات کا اختتامی دن ہوگا اور آج جب میں راجماتا جی کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آیا۔ ویسے ، مجھے اس کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، بہت سارے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن ، مجھے لگتا ہے ، آج ، مجھے ایک واقعہ کا ذکر کرنا ہوگا۔ کنیاکماری سے کشمیر تک ، ہم ایکتا یاترا کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ سفر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی سربراہی میں جاری تھا۔ دسمبر ، جنوری سرد دن تھے۔ ہم مدھیہ پردیش کے گوالیار ، رات بارہ بجے کے قریب شیوپوری پہنچے ، ٹھکانے جاتے ہوئے ، کیوں کہ ، دن بھر تھکن ہوتی تھی ، نہاتے اور سوتے تھے ، اور صبح کی تیاری کرتے تھے۔ 2 بجے کے قریب ، میں نہانے اور سونے کی تیاری کر رہا تھا ، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے راجماتا صاحب کھڑے تھے۔ کڑوی سردی اور راجمتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔ میں نے ماں کو سجدہ کیا ، میں نے کہا ، آدھی رات میں ماں! انہوں نے کہا ، نہیں بیٹا ، تم یہ کرو مودی جی ، دودھ پی لو اور گرم دودھ پی کر سو جاؤ۔ خود ہلدی کا دودھ لے کر آیا تھا۔ ہاں ، لیکن جب ، دوسرے دن ، میں نے دیکھا ، وہ صرف میں ہی نہیں تھا ، ہمارے سفر کے انتظامات میں ، 30-40 افراد تھے ، ڈرائیور تھے ، اور خود بھی ، ہر کمرے میں جانے والے کارکن تھے۔ رات کے 2 بجے سب کو دودھ چھڑوایا۔ ماں کی محبت کیا ہے ، واٹسالیہ کیا ہے ، میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایسی عظیم شخصیات نے اپنی قربانی اور توبہ سے ہماری زمین کو پانی پلایا۔ آؤ ، آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا ہندوستان تشکیل دیں جس پر یہ عظیم آدمی فخر محسوس کریں۔ ان کے خوابوں کو ان کی قراردادیں بنائیں۔
محترم باپو کے خیالات اور اصول آج پہلے سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتے ہیں ۔ مہاتما گاندھی کی ، جو اقتصادی فکر تھی ، اگر اُس جذبے پر کام کیا گیا ہوتا ، سمجھا گیا ہوتا ، اُس راستے پر چلا گیا ہوتا تو آج خود کفیل بھارت مہم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ گاندھی جی کی اقتصادی فکر میں بھارت کی نس نس کی سمجھ تھی ، بھارت کی خوشبو تھی ۔ مہاتما کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا ہر کام ایسا ہو ، جس سے غریب سے غریب تر شخص کا بھلا ہو ۔ وہیں شاستری جی کی زندگی ہمیں انکسار اور سادگی کا پیغام دیتی ہے ۔ 11 اکتوبر کا دن بھی ہمارے لئے بہت خاص ہوتا ہے ۔ اس دن ہم بھارت رتن لوک نائک جے پرکاش جی کو ، اُن کے یومِ پیدائش پر یاد کرتے ہیں ۔ جے پی نے ہماری جمہوریت کی اقدار کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ہم بھارت رتن نانا جی دیش مکھ کو بھی یاد کرتے ہیں ، جن کا یوم پیدائش بھی 11 تاریخ کو ہی ہے ۔ نانا جی دیش مکھ ، جے پرکاش نارائن جی کے بہت قریبی ساتھی تھے ۔ جب جے پی بد عنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ، تو پٹنہ میں اُن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ تب نانا جی دیش مکھ نے ، وہ وار اپنے اوپر لے لیا تھا ۔ اس حملے میں نانا جی کو کافی چوٹ لگی تھی لیکن جے پی کی زندگی بچانے میں وہ کامیاب رہے ۔ اس 12 اکتوبر ، راج ماتا وجے راجے سندھیا جی کا بھی یومِ پیدائش ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں وقف کر دی ۔ وہ ایک شاہی خاندان سے تھیں ۔ اُن کے پاس دولت ، طاقت اور دیگر وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی ایک ماں کی طرح ممتا کے جذبے سے عوامی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔ ان کا دل بہت نرم تھا ۔ اس 12 اکتوبر کو ان کی یومِ پیدائش کا صد سالہ تقریبات کا اختتام کا دن ہو گا اور آج جب میں راج ماتا جی کی بات کر رہا ہوں تو مجھے بھی ایک بہت ہی جذباتی واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ ویسے تو اُن کے ساتھ بہت سالوں تک کام کرنے کا موقع ملا ، کئی واقعات ہیں ، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ ایک واقعہ کا ذکر کروں ۔ کنیا کماری سے کشمیر ، ہم اتحاد ی یاترا لے کر نکلے تھے ۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جی کی قیادت میں یاتر ا چل رہی تھی ۔ دسمبر ، جنوری ، سخت سردی کے دن تھے ۔ ہم رات کو تقریباً بارہ ایک بجے مدھیہ پردیش میں گوالیار کے پاس شیو پوری پہنچے ۔ ٹھہرنے کی جگہ پر جاکر ، کیونکہ دن بھر کی تھکان ہوتی تھی ، نہا دھوکر سوتے تھے اور صبح ہی تیاری کر لیتے تھے ۔ تقریباً 2 بجے ہوں گے ، میں نہا دھوکر سونے کی تیاری کر رہا تھا ، تو دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ میں نے دروازہ کھولا تو راج ماتا صاحب سامنے کھڑی تھیں ۔ سخت سردی میں اور راج ماتا صاحب کو دیکھ کر میں حیران تھا ۔ میں نے ماں کو پرنام کیا ، میں نے کہا ، ماں آدھی رات میں : بولیں کہ نہیں بیٹا ۔ آپ ایسا کرو ، مودی جی دودھ پی لیجئے ۔ یہ گرم دودھ پی کر سو جائیے ۔ ہلدی والا دودھ لے کر خود آئیں ۔ ہاں ، لیکن جب دوسرے دن میں نے دیکھا ، وہ صرف مجھے ہی نہیں ہماری یاترا میں ، جو 30 – 40 لوگ تھے ، اُس میں ڈرائیور بھی تھے اور بھی ورکر تھے ، ہر ایک کے کمرے میں جاکر خود نے رات کو دو بجے سب کو دودھ پلایا ۔ ماں کا پیار کیا ہوتا ہے ، ممتا کیا ہوتی ہے ، اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ یہ ہماری خوشی قسمتی ہے ، کہ ایسی مہان شخصیتوں نے ہماری سر زمین کو اپنے تیاگ اور تپسیا سے سینچا ہے ۔ آئیے ، ہم سب مل کر کے ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں ، جس پر ان عظیم شخصیتوں کو فخر ہو ، اُن کے خوابوں کو اپنا عہد بنائیں ۔
میرے پیارے ہم وطنو ، کورونا کے اِس وبائی دور میں ، میں پھر ایک بار آپ کو یاد کراؤں گا ، ماسک ضرور رکھیں ، فیس کور کے بغیر باہر نہ جائیں ، دو گز کی دوری کا اصول آپ کو بھی بچا سکتا ہے ، آپ کے خاندان کو بھی بچا سکتا ہے ۔ یہ کچھ اصول ہیں ، اس کورونا کے خلاف ، لڑائی کے ہتھیار ہیں ، ہر شہری کی زندگی کو بچانے کا مضبوط ذریعہ ہیں اور ہم نہ بھولیں ، جب تک دوائی نہیں ، تب تک ڈھیلائی نہیں ۔ آپ صحت مند رہیں ، آپ کا خاندان صحت مند رہے ، انہی نیک خواہشات کے ساتھ ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار !
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار!
عام طور پر یہ وقت اُتسو کا ہوتا ہے، جگہ جگہ میلے لگتے ہیں، مذہبی پوجا پاٹھ ہوتے ہیں، کورونا کے اس مشکل دور میں لوگوں میں امنگ تو ہے اُتساہ بھی ہے لیکن ہم سب کے من کو چھو جائے ویسا ڈسپلن بھی ہے۔ بہت ایک روپ میں دیکھا جائے تو شہریوں میں ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ لوگ اپنا دھیان رکھتے ہوئے، دوسروں کا دھیان رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کےکام بھی کررہے ہیں۔ ملک میں ہورہے ہر پروگرام میں جس طرح کی قوت برداشت اور سادگی اس بار دیکھی جارہی ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ گنیش اُتسو بھی کہیں آن لائن منایا جارہا ہے تو زیادہ تر جگہوں پر اس بار ایکو فرینڈلی گنیش جی کامجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ ساتھیو، ہم بہت باریکی سے اگر دیکھیں گے تو ایک بار ضرور ہمارے ذہن میں آئے گی، ہمارے تہوار اور ماحولیات ان دونوں کے درمیان ایک بہت گہرا ناطہ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے تہواروں میں ماحولیات اور فطرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پیغام چھپا ہوتا ہے تو دوسری جانب کئی سارے تہوار فطرت کے تحفظ کیلئے ہی منائے جاتے ہیں۔ جیسے بہار کے مغربی چمپارن میں صدیوں سے تھارو آدیواسی سماج کے لوگ 60 گھنٹے کے لاک ڈاؤن یا ان کے ہی الفاظ میں کہیں تو 60 گھنٹے کے برنا کا پالن کرتے ہیں۔ فطرت کے تحفظ کیلئے برنا کو تھارو سماج نے اپنی روایت کاحصہ بنالیا ہے اور صدیوں سے بنایا ہے۔ اس دوران نہ کوئی گاؤں میں آتا ہے اور نہ ہی کوئی اپنے گھروں سے باہر نکلتا ہے اور لوگ مانتے ہیں کہ اگر وہ باہر نکلے یا کوئی باہر سے آیا تو ان کے آنے جانے سے لوگوں کی روز مرہ کی سرگرمیوں سے نئے پیڑ پودوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ برنا کی شروعات میں شاندار طریقے سے ہمارے آدیواسی بھائی بہن پوجاپاٹھ کرتے ہیں اور اس کے اختتام پر آدیواسی روایت کے گیت، سنگیت، رقص جم کرکے اس کے پروگرام بھی ہوتے ہیں۔
ساتھیو، ان دنوں اونم کا تہوار بھی دھوم دھام سے منایاجارہا ہے۔ یہ تہوار چن گم مہینے میں آتا ہے، اس دوران لوگ کچھ نیا خریدتے ہیں، اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، کوک کلم بناتے ہیں، اونم – سادیہ کا لطف لیتے ہیں۔ طرح طرح کے کھیل اور مسابقے بھی ہوتے ہیں۔ اونم کی دھوم تو آج دور دراز ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے، امریکہ ہو ، یورپ ہو یا خلیجی ملک ہوں اونم کا جشن آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔ اونم ایک انٹرنیشنل فیسٹول بنتا جارہا ہے۔
ساتھیو، اونم ہماری زراعت سے جڑا ہوا تہوار ہے، یہ ہماری دیہی معیشت کیلئے بھی ایک نئی شروعات کا وقت ہوتا ہے۔ کسانوں کی طاقت سے ہی تو ہماری زندگی، ہمارا سماج چلتا ہے، ہمارے تہوار کسانوں کی محنت سے ہی رنگ برنگے بنتے ہیں۔ ہمارے اَن داتا کو کسانوں کی زندگی دینے والی طاقت کو تو ویدوں میں بھی بہت فخریہ طور سے سلام کیا گیا ہے۔ رگ وید میں ایک منتر ہے۔
اَنّا نم پتائے نماہ
چھیترا نام پتائے نماہ
جس کا مطلب ہے اَن داتا کو سلام ہے ، کسان کو سلام ہے۔ ہمارے کسانوں نے کورونا کےاس مشکل حالات میں بھی اپنی طاقت کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بار خریف کی فصل کی بوائی پچھلے سال کے مقابلے سات فیصد زیادہ ہوئی ہے۔
دھان کی روپائی اس بار تقریباً 10فیصد ، دالیں لگ بھگ 5فیصد، موٹے اناج لگ بھگ 3 فیصد، تلہن لگ بھگ 13فیصد، کپاس لگ بھگ 3فیصد زیادہ بوئی گئی ہے۔ میں اس کے لئے ملک کے کسانوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ان کی محنت کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوٍ! کورونا کے اس دور میں ملک کئی مورچے پر ایک ساتھ لڑرہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی بار من میں یہ بھی سوال آتا رہا کہ اتنے لمبے عرصے تک گھروں میں رہنے کے سبب میرے چھوٹے چھوٹے بچے دوستوں کا وقت کیسے گزرتا ہوگا اور اسی سے میں نے گاندھی نگر کی چلڈرن یونیورسٹی جو دنیا میں ایک الگ طرح کا پریوگ ہے۔ حکومت ہند کی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، تعلیم کی وزارت ، بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کی وزارت ان سبھی کے ساتھ ملکر ہم بچوں کیلئے کیاکرسکتے ہیں، اس پر غور وفکر کیا۔ میرے لیے یہ بہت خوش آئند تھا۔ فائدے مند بھی تھا کیوں کہ ایک طرح سے یہ میرے لیے بھی کچھ نیا جاننے کانیا سیکھنے کا موقع بن گیا۔
ساتھیو، ہمارے غور وفکر کا موضوع تھا کھلونے اور بالخصوص ہندوستانی کھلونے۔ ہم نے اس بات پر غور وفکر کیا کہ ہندوستان کے بچوں کو نئے نئے کھلونے کیسے ملے ، ہندوستان ٹوائے پروڈکشن کابہت بڑا ہب کیسے بنے، ویسے میں، من کی بات سن رہے بچوں کے ماں باپ سے معافی مانگتا ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے انہیں اب یہ من کی بات سننے کے بعد کھلونوں کی نئی نئی مانگ سننے کا شاید ایک نیا کام سامنے آجائیگا۔
ساتھیو، کھلونے جہاں ایکٹیویٹی کو بڑھانے والے ہوتے ہیں تو کھلونے ہماری آرزوؤں کو بھی اُڑان دیتے ہیں۔ کھلونے صرف من ہی نہیں بہلاتے،کھلونے من بناتے بھی ہیں اور مقصد گڑھتے بھی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کھلونوں کے معاملے میں گرو دیورابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ بہترین کھلونا وہ ہوتا ہے جو نامکمل ہو۔ ایسا کھلونا جو ادھورا ہو اور بچے مل کر کھیل کھیل میں اسے پورا کریں۔ گرو دیو ٹیگور نے کہا تھا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو خود کے تصور سے گھر میں ملنے والے سامانوں سے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے کھلونے اور کھیل بنایا کرتے تھے لیکن ایک دن بچپن کے ان موج مستی بھرے پلوں میں بڑوں کا دخل ہوگیا۔ ہوایہ تھا کہ ان کا ایک ساتھی ، ایک بڑا اور سندر سا غیرملکی کھلونا لیکر آگیا۔ کھلونے کو لیکر اتراتے ہوئے اب سب ساتھی کا دھیان کھیل سے زیادہ کھلونے پر رہ گیا۔ ہر کسی کے توجہ کا مرکز کھیل نہیں رہا،کھلونا بن گیا۔ جو بچہ کل تک سب کے ساتھ کھیلتا تھا، سب کے ساتھ رہتا تھا، گھل مل جاتا تھا، کھیل میں ڈوب جاتا تھا وہ اب دور رہنے لگا۔ ایک طرح سے باقی بچوں سے بھید کا بھاؤ اس کے من میں بیٹھ گیا۔ مہنگے کھلونے میں بنانے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا، سیکھنے کیلئے بھی کچھ نہیں تھا۔ یعنی ایک جاذب نظر کھلونے نے ایک متجسس بچے کو کہیں دبا دیا، چھپادیا، مرجھا دیا۔ اس کھلونے نے دولت کا، جائیداد کا، ذرا برکپن کی نمائش کرلی لیکن اس بچے کے تخلیقی جذبے کو بڑھنے اور سنورنے سے روک دیا۔ کھلونا تو آگیا پر کھیل ختم ہوگیا اور بچے کا کھلنا بھی کھوگیا۔ اس لئے گرودیو کہتے تھے کہ کھلونے ایسے ہونے چاہئے جو بچے کے بچپن کو باہر لائے اس کی تخلیقیت کو سامنے لائے۔ بچوں کی زندگی کے الگ الگ پہلو پر کھلونوں کا جو اثر ہے اس پر قومی تعلیمی پالیسی میں بھی بہت دھیان دیا گیا ہے۔ کھیل کھیل میں سیکھنا، کھلونے بنانا سیکھنا، کھلونے جہاں بنتے ہیں وہاں کی وِزٹ کرنا، ان سب کو تعلیمی نصاب کاحصہ بنایا گیا ہے۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں لوکل کھلونوں کی بہت عظیم روایت رہی ہے، کئی ہنرمند اور ماہر کاریگر ہیں جو اچھے کھلونے بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ علاقے ٹوائے کلسٹر یعنی کھلونوں کے مرکز کے طور پر بھی ترقی پارہے ہیں۔ جیسے کرناٹک کے رام نگرم میں چنّاپٹنا، آندھرا پردیش کے کرشنا میں کنڈاپلی، تملناڈو میں تنجور، آسام میں ڈھبری، اترپردیش کا وارانسی کئی ایسی جگہ ہیں، کئی نام گنا سکتے ہیں، آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عالمی کھیلوں کی صنعت 7 لاکھ کروڑ روپئے سے بھی زیادہ کی ہے۔ سات لاکھ کروڑ روپئے کا اتنا بڑا کاروبار لیکن ہندوستان کا حصہ اس میں بہت کم ہے۔
اب آپ سوچئے کہ جس ملک کے پاس اتنی وراثت ہو، روایت ہو، تنوع ہو، نوجوان آبادی ہو، کیا کھلونوں کے بازار میں اس کی حصے داری اتنی کم ہونی، ہمیں اچھا لگے گاکیا، جی نہیں۔ یہ سننے کے بعد آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔ دیکھئے ساتھیو، کھیلوں کی صنعت بہت وسیع ہے ۔ گھریلو صنعت ہو، چھوٹے اور بہت چھوٹی صنعت ہو، ایم ایس ایم ای ہو، اس کے ساتھ ساتھ بڑی صنعت اور نجی صنعت بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسے آگے بڑھانے کیلئے ملک کو ملکر محنت کرنی ہوگی۔ اب جیسے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں سری مان سی وی راجو ہیں، ان کے گاؤں کے اے پی- کوپکا ٹوائس ایک وقت میں بہت مقبول تھے۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ یہ کھلونے لکڑی سے بنتے تھے اور دوسری بات یہ کہ ان کھلونوں میں آپ کو کہیں کوئی اینگل یا کون نہیں ملتا تھا۔ یہ کھلونے ہر طرف سے راؤنڈ ہوتے تھے اس لئے بچوں کو چوٹ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ سی وی راجو نے اے پی کوپکا ٹوائس کیلئے اب اپنے گاؤں کے کاریگروں کے ساتھ ملکر ایک طرح سےنئی تحریک شروع کردی ہے۔ بہترین کوالٹی کے اے پی کوپکا ٹوائز بناکر سی وی راجو نے مقامی کھلونوں کی کھوئی ہوئی عزت کو واپس لادیا ہے۔ کھلونوں کے ساتھ ہم دو چیزیں کرسکتے ہیں۔ اپنے قابل فخر ماضی کو اپنی زندگی میں پھر سے اتار سکتے ہیں اور اپنے سنہرے مستقبل کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ میں اپنے اسٹارٹ اپ دوستوں کو اپنے نئے صنعت کاروں سے کہتاہوں، ٹیم اپ فار ٹوائز، آئیے ملکر کھلونے بنائیں۔ ہم سبھی کیلئے لوکل کھلونوں کیلئے ووکل ہونے کا وقت ہے۔ آئیے ہم اپنے نوجوانوں کیلئے کچھ نئے قسم کے اچھی کوالٹی والے کھلونے بناتے ہیں۔ کھلونا وہ ہو جس کی موجودگی میں بچپن کھلے بھی، کھلکھلائے بھی۔ ہم ایسے کھلونے بنائیں جو ماحولیات کے بھی موافق ہوں۔
ساتھیو، اسی طرح اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کے اس زمانے میں کمپیوٹر گیمس کا بھی بہت ٹرینڈ ہے۔ یہ گیمس بچے بھی سیکھتے ہیں، بڑے بھی کھیلتے ہیں ، لیکن ان میں بھی جتنے گیمس ہوتے ہیں ان کی تھیم بھی زیادہ تر باہر کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اتنے آئیڈیاز ہیں، اتنے تصورات ہیں، بہت مضبوط ہماری تاریخ رہی ہے۔ کیا ہم ان پر گیمس بناسکتے ہیں۔ میں ملک کے نوجوان ٹیلنٹ سے کہتا ہوں آپ بھارت میں بھی گیمس بنائیے اور بھارت کے بھی گیمس بنائیے۔ کہا بھی جاتا ہے لیٹ دی گیمس بیگن ، تو چلو کھیل شروع کرتے ہیں۔
ساتھیو، آتم نربھر بھارت ابھیان میں ورچوول گیمس ہوں، ٹوائز کا سیکٹر ہو، سب کو بہت اہم کردار نبھانی ہے اور یہ موقع بھی ہے۔ جب آج سے 100 برس پہلے عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی تو گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ‘‘عدم تعاون کی تحریک ہم وطنوں میں عزت نفس اور اپنی طاقت بتلانے کی ایک کوشش ہے’’۔
آج جب ہم ملک کو آتم نربھر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ہر علاقے میں ملک کو آتم نربھر بنانا ہے۔ تحریک عدم تعاون کی شکل میں جو بیج بویا گیا تھا اب آتم نربھر بھارت کے تن آور درخت میں اضافہ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستانیوں کے انّوویشن اور سولوشن دینے کی صلاحیت کا لوہا ہر کوئی مانتا ہے اور جب مکمل جذبہ ہو، سمویدنا ہو تو یہ طاقت عظیم بن جاتی ہے۔ اس مہینے کی شروعات میں ملک کے نوجوانوں کے سامنے ایک ایپ انّوویشن چیلنج رکھا گیا۔ اس آتم نربھر بھارت ایپ انّوویشن چیلنج میں ہمارے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ قریب 7 ہزار انٹریز آئی، اس میں بھی قریب قریب دو تہائی ایپس ٹیئرٹو اور ٹیئر تھری شہروں کے نوجوانوں نے بنائے ہیں۔ یہ آتم نربھر بھارت کے لئے ملک کے مستقبل کیلئے بہت ہی خوش آئند ہیں۔ آتم نربھر ایپ انّوویشن چیلنج کے نتائج دیکھ کر آپ ضرور متاثر ہوں گے۔ کافی جانچ پرکھ کے بعد الگ الگ کٹیگری میں لگ بھگ دو درجن ایپس کو ایوارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ آپ ضرور ان ایپس کے بارے میں جانیں اور ان سے جڑیں ہوسکتا ہے آپ بھی ایسا کچھ بنانے کیلئے حوصلہ پاجائیں۔ ان میں ایک ایپ ہے اوٹوکی، کڈس،لرننگ ایپ، یہ چھوٹے بچوں کیلئے ایسا انٹرایکٹیو ایپ ہے جس میں گانوں اور کہانیوں کے ذریعے بات بات میں ہی بچے میتھ سائنس میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ایکٹیویٹیز بھی ہیں،کھیل بھی ہیں، اسی طرح ایک مائیکروبلاگنگ پلیٹ فارم کا بھی ایپ ہے جس کا نام ہے کو-کے او او کو، اس میں ہم اپنی مادری زبان میں ٹیکس ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح چنگاری ایپ بھی نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہورہا ہے۔ ایک ایپ ہے آسک سرکار، اس میں چیٹ بورڈ کے ذریعے آپ انٹرایکٹ کرسکتے ہیں اور کسی بھی سرکاری یوجنا کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ بھی ٹیکس آڈیو اور ویڈیو تینوں طریقے سے یہ آپ کی بڑی مدد کرسکتا ہے۔ ایک اور ایپ ہے اسٹیپ سیٹ گو، یہ فٹنیس ایپ ہے ، آپ کتنا چلے، کتنی کیلوریز برن کی، یہ سارا حساب یہ ایپ رکھتا ہے اور آپ کو فٹ رہنے کیلئے تحریک بھی دیتا ہے۔ میں نے یہ کچھ ہی مثال دیے ہیں ، کئی اور ایپس نے بھی اس چیلنج کو جیتا ہے۔ کئی بزنس ایپس ہیں، گیمس ک ایپ ہیں جیسے اِز ایکول ٹو ،بکس اینڈ اسپینس، زوہو، ورک پلیس، ایف ٹی سی ٹیلنٹ، آپ ان کے بارے میں نیٹ پر سرچ کریئے آپ کو بہت جانکاری ملے گی۔ آپ بھی آگے آئیے، کچھ انّوویٹ کریں، کچھ ایمپلی مینٹ کریں آپ کی کوشش آج کے چھوٹے چھوٹے اسٹارٹ اپس کل بڑی بڑی کمپنیوں میں بدلیں گے اور دنیا میں بھارت کی پہچان بنیں گے اور آپ یہ مت بھولیے کہ آج جو دنیا میں بہت بڑی بڑی کمپنیاں نظرآتی ہیں نا، یہ بھی کبھی اسٹارٹ اپ ہوا کرتی تھی۔
پیارے ہم وطنو! ہمارے یہاں کے بچے ، ہمارے طلباء اپنی پوری طاقت دکھا پائیں، اپنی قوت دکھا پائیں، اس میں بہت بڑا رول نیوٹریشن کا بھی ہوتا ہے، تغذیہ کا بھی ہوتا ہے ، پورے ملک میں ستمبر مہینے کو تغذیے کا مہینہ نیوٹریشن منتھ کی شکل میں منایا جائیگا، نیشن اور نیوٹریشن کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے ، یتھا انّم تتھا منّم، یعنی جیسی غذا ہوتی ہے ویسی ہی ہماری ذہنی اور دماغی ترقی بھی ہوتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو رحم میں اور بچپن میں جتنی اچھی غذا ملتی ہے اتنا اچھا اس کی ذہنی ترقی ہوتی ہے اور صحتمند رہتا ہے۔ بچوں کے تغذیے کےلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ماں کو بھی پوری غذا ملے اور تغذیہ یا نیوٹریشن کامطلب صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ آپ کیا کھا رہے ہیں ، کتنا کھا رہے ہیں، کتنی بار کھا رہے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ کے جسم کو کتنے ضروری غذائی اجزاء، نیوٹرینس مل رہے ہیں۔ آپ کو آئرن کیلشیم مل رہے ہیں یا نہیں،سوڈیم مل رہا ہے یا نہیں، وٹامنس مل رہے ہیں یا نہیں، یہ سب نیوٹریشن کے بہت اہم پہلو ہیں۔ نیوٹریشن کی اس مہم میں عوامی شراکت داری بھی بہت ضروری ہے۔ عوامی شراکت داری ہی اس کو کامیاب بناتی ہے۔پچھلے کچھ برسوں میں اس سمت میں ملک میں کافی کوششیں کی گئیں۔ خاص کر ہمارے گاؤں میں اسے جن بھاگیداری سے جن آندولن بنایاجارہا ہے۔ تغذیہ ہفتہ ہو، تغذیہ ماہ ہو، ان کے ذریعے سے زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جارہی ہے۔ اسکولوں کو جوڑا گیا ہے۔ بچوں کیلئے مقابلے ہوں، ان میں بیداری بڑھے، اس کے لئے بھی لگاتار کوشش جاری ہے۔ جیسے کلاس میں ایک کلاس مانیٹر ہوتاہے اسی طرح نیوٹریشن مانیٹر بھی ہو۔ رپورٹ کارڈ کی طرح نیوٹریشن کارڈ بھی بنے اس طرح کی بھی شروعات کی جارہی ہے۔ تغذیہ ماہ نیوٹریشن منتھ کے دوران MyGov پورٹل پر ایک فوڈ ا ور نیوٹریشن کوئز کا بھی انعقاد کیاجائیگا اور ساتھ ہی ایک میم مسابقہ بھی ہوگا، آپ خود شرکت کریں اور دوسروں کو بھی تحریک دیں۔
ساتھیو، اگر آپ کو گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے اسٹیچو آف یونٹی،مجسمہ اتحاد جانے کا موقع ملا ہوگا اور کووڈ کے بعد جب وہ کھلے گا اور آپ کو جانے کا موقع ملے گا تو وہاں ایک نادر قسم کا نیوٹریشن پارک بنایا گیا ہے، کھیل کھیل میں ہی نیوٹریشن کی تعلیم لطف کے ساتھ وہاں ضرور دیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، بھارت ایک عظیم ملک ہے ، کھان پان میں ڈھیر ساری تنوع ہے ، ہمارے ملک میں چھ الگ الگ موسم ہوتےہیں،الگ الگ علاقوں میں وہاں کے موسم کے لحاظ سے الگ الگ چیزیں پیداہوتی ہیں، اس لئے یہ بہت ہی اہم ہے کہ ہر علاقے کے موسم وہاں کے مقامی کھانے اور وہاں پیدا ہونے والے اناج، پھل، سبزیوں کے مطابق ایک تغذیہ سے بھرپور ڈائٹ پلان بنے۔ اب جیسے ملیٹس موٹے اناج راگی ہے، جوار ہے یہ بہت فائدے مند تغذیاتی غذا ہے۔ ایک بھارتی کرشی کوش تیار کیا جارہا ہے اس میں ہمارے ایک ضلع میں کیا کیا فصل ہوتی ہے ان کی تغذیاتی ویلو کتنی ہے اس کی پوری جانکاری ہوگی۔ یہ آپ سب کیلئے بڑے کام کا کوش ہوسکتا ہے۔ آئیے تغذیہ ماہ میں غذائیت سے بھرپور کھانے اور صحتمند رہنے کیلئے ہم سبھی کو ترغیب دیں۔
پیارے ہم وطنو، بیتے دنوں جب ہم اپنا یوم آزادی منارہے تھے تب ایک دلچسپ خبر پر میرا دھیان گیا۔ یہ خبر ہے ہمارے سیکورٹی فورسز کے دو جانباز کرداروں کی، ایک ہے سوفی اور دوسرا وِدا، سوفی اور وِدا انڈین آرمی کے ڈاگس ہیں اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف کمنڈیشن کارڈس سے نوازا گیا ہے۔ سوفی اور وِدا کو یہ اعزاز اسلئے ملا کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ ہماری افواج میں ہمارے سیکورٹی فورسز کے پاس ایسے کتنے ہی بہادر ڈاگس ہیں جو ملک کے لئے جیتے ہیں اور ملک کے اپنی قربانی بھی دیتے ہیں۔ کتنے ہی بم دھماکوں کو، کتنی ہی دہشت گردانہ سازشوں کو روکنے میں ایسے ڈاگس نے بہت اہم رول نبھایا ہے۔ کچھ وقت پہلے مجھے ملک کی سیکورٹی میں ڈاگس کے رول کے بارے میں نہایت تفصیل سے جاننے کو ملا، کئی قصے بھی سنے، ایک ڈاگ بلرام نے 2006 میں امرناتھ یاترا کے راستے میں بڑی مقدار میں گولہ بارود کھوج نکالا تھا۔ 2002 میں ڈاگ بھاؤنا نے آئی ای ڈی کھوجا تھا، آئی ای ڈی نکالنے کے دوران دہشت گردوں نے دھماکہ کردیا اور ڈاگ شہید ہوگئے۔ دو تین برس پہلے چھتیس گڑھ کے بیجا پور میں سی آر پی ایف کا اسنیفر ڈاگ ‘‘کریکر’’ بھی آئی ای ڈی بلاسٹ میں شہید ہوگیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی آپ نے شاید ٹی وی پر ایک بڑا جذباتی بنا دینے والا منظر دیکھا ہوگا جس میں بیڈ پولیس اپنے ساتھی ڈاگ راکی کو پورے اعزاز کے ساتھ آخری وداعی دے رہی تھی۔ راکی نے 300 سے زیادہ کیسوں کو سلجھانے میں پولیس کی مدد کی تھی، ڈاگس کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور رسکیو مشن میں بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ بھارت میں تو نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس این ڈی آر ایف نے ایسے درجنوں ڈاگس کو خصوصی طور پر ٹرینڈ کیا ہے۔ کہیں زلزلہ آنے پر عمارت گرنے پر ملبے میں دبے زندہ لوگوں کو کھوج نکالنے میں یہ ڈاگس بہت ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔
ساتھیو، مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ انڈین بریڈ کے ڈاگس بھی بہت اچھے ہوتے ہیں، بہت اہل ہوتے ہیں ، انڈین بیڈس میں موگھول ہاؤنڈ ہیں، ہماچلی ہاؤنڈ ہیں،یہ بہت ہی اچھی نسلیں ہیں۔ راجا پلایم، کنّی چپی پرائی اور کومبائی بھی بہت شاندار انڈین بریڈس ہیں۔ ان کو پالنے میں خرچ بھی کافی کم آتا ہے اور یہ ہندوستانی ماحول میں ڈھلے بھی ہوتے ہیں۔ اب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے انڈین بریڈس کے ڈاگس کو اپنے سیکورٹی دستے میں شامل کررہی ہیں۔ پچھلے کچھ وقت میں آرمی، سی آئی ایس ایف ، این ایس جی نے موگھول ہاؤنڈ ڈاگس کو ٹرینڈ کرکے ڈاگ اسکوارڈ میں شامل کیا ہے۔ سی آر پی ایف نے کومبائی ڈاگس کو شامل کیا ہے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ بھی بھارتی نسل کے ڈاگس پر ریسرچ کررہی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ انڈین بریڈس کو اور بہتر بنایا جاسکے اور سودمند بنایا جاسکے۔ آپ انٹرنیٹ پر ان کے نام سرچ کریے ان کے بارے میں جانیے، آپ ان کی خوبصورتی، ان کی کوالٹیز دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ اگلی بار جب بھی آپ ڈاگ پالنے کی سوچیں، آپ ضرور ان میں سے ہی کسی انڈین بریڈ کے ڈاگ کو گھر لائیں۔ آتم نربھر بھارت جب جن من کا منتر بن ہی رہا ہے تو کوئی بھی شعبہ اس سے پیچھے کیسے چھوٹ سکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کچھ دنوں بعد 5 ستمبر کو ہم یوم اساتذہ منائیں گے، ہم سب جب اپنی زندگی کی کامیابیوں کو اپنی زندگی کے سفر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے کسی نہ کسی استاذ کی یاد ضرور آتی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت اور کورونا کے مشکل دور میں ہمارے اساتذہ کے سامنے بھی وقت کے ساتھ بدلاؤ کی ایک چنوتی لگتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اساتذہ نے اس چنوتی کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے موقع میں بدل بھی دیا ہے۔ پڑھائی میں تکنیک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیسے ہو، نئے طریقوں کو کیسے اپنائیں، طلباء کو مدد کیسے کریں، یہ ہمارے اساتذہ نے بحسن وخوبی اپنایا ہے اور اپنے طلباء کو بھی سکھایا ہے۔ آج ملک میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ انّوویشن ہورہے ہیں، استاذ اور طالب علم ملکر کچھ نیا کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ جس طرح ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ایک بڑا بدلاؤ ہونے جارہا ہے ہمارے اساتذہ اس کا بھی فائدہ طلباء تک پہنچانے میں اہم رول نبھائیں گے۔
ساتھیو اور بالخصوص میرے اساتذہ ساتھیو، سال 2022 میں ہمارا ملک آزادی کے 75 سال کا جشن منائیگا، آزادی کے پہلے متعدد برسوں تک ہمارے ملک میں آزادی کی جنگ اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اس دوران ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں تھا جہاں آزادی کے متوالوں نے اپنی جان نچھاور نہ کی ہوں، اپناسب کچھ قربان نہ کیاہو، یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری آج کی نسل ، ہمارے طلباء آزادی کی جنگ، ہمارے ملک کے جانبازوں سے واقف رہیں، اسے اتنا ہی محسوس کریں، اپنے ضلع سے اپنے علاقے میں آزادی کی تحریک کے وقت کیا ہوا، کیسے ہوا، کون شہید ہوا، کون کتنے وقت تک ملک کے لئے جیل میں رہا، یہ باتیں ہمارے طلباء جانیں گے تو ان کی شخصیت میں بھی اس کا اثر دِکھے گا۔ اس کے لئے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جس میں ہمارے اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے۔ جیسے آپ جس ضلع میں ہیں وہاں صدیوں تک جو آزادی کا جنگ چلا ان آزادیوں کے جنگ میں وہاں کوئی واقعات رونما ہوئے ہیں کیا؟ اسے لیکر طلباء سے تحقیق کروائی جاسکتی ہے۔ اسے اسکول کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے شہر میں آزادی کی تحریک سے جڑا کوئی جگہ ہو تو طلباء اور طالبات کو وہاں لے جاسکتے ہیں۔ کسی اسکول کے طلباء ٹھان سکتے ہیں کہ وہ آزادی کے 75برس میں اپنے علاقے کے 75مجاہدین آزادی پر نظمیں لکھیں گے، ڈرامے لکھیں گے، آپ کی کوشش ملک کے ہزاروں، لاکھوں، نامعلوم جانبازوں کو سامنے لائیں گے جو ملک کیلئے جیے، جو ملک کے لیے کھپ گئے، جن کے نام وقت کے ساتھ کھوگئے۔ ایسی اہم شخصیات کو اگر ہم سامنے لائیں گے، آزادی کے 75برس میں انہیں یاد کریں گے تو ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا اور جب 5ستمبر کو یوم اساتذہ منارہے ہیں تب میں اپنے اساتذہ ساتھیوں سے ضرور اپیل کروں گا کہ وہ اس کے لئے ایک ماحول بنائیں ، سب کو جوڑیں اور سب مل کر جٹ جائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک آج جس ترقی کے سفر پر چل رہا ہے، اس کی کامیابی خوش آئند تبھی ہوگی جب ہرایک ملک کا شہری اس میں شامل ہو، اس سفر کا مسافر ہو، اس منزل کا راہی ہو، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک شہری صحتمند رہے، سکھی رہے اور ہم ملکر کے کورونا سے پوری طرح سے ہرائیں۔کورونا تبھی ہارے گا جب آپ محفوظ رہیں گے، جب آپ ‘‘دو گز کی دوری، ماسک ضروری’’ اس عہد کی پوری طرح سے اتباع کریں گے۔ آپ سب صحتمند رہیے، خوش رہیے، ان ہی نیک تمناؤں کے ساتھ اگلی من کی بات میں پھر ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ ، نمسکار۔
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ آج 26 جولائی ہے ، اور، آج کا دن بہت خاص ہے۔ آج، ‘کارگل وجے دِوس’ ہے۔ آج سے 21 سال قبل آج کے ہی دن ہماری فوج نے کارگل جنگ میں فتح کا پرچم لہرایا تھا۔ ساتھیو، بھارت ان حالات کو کبھی بھول نہین سکتا جس کے تحت کارگل کی جنگ ہوئی تھی۔ پاکستان نے ہندوستان کی سرزمین پر تجاوزات کرنے کے غلط فہمیاں پیدا کیں، تاکہ وہاں موجود داخلی تنازعات کی طرف سے توجہ مبذول ہو سکے۔ اس وقت ہندوستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جیساکہ کہا جاتا ہے :
‘‘بیرو اکارن سب کاہو سوں۔ جو کر ہیت ان ہیت تاہو سوں۔’’
یعنی ، شریروں کی فطرت ہی ہوتی ہے، بغیر کسی وجہ کے ہر کسی سے دشمنی کرنا۔ اس طرح کے رجحان رکھنے والے لوگ اپنے خیر خواہوں کو بھی نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں… یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو پاکستان نے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے بعد ، جب ہماری بہادر فوج نے بہادری کا مظاہرہ کیا تو، اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں – اونچے پہاڑوں پر بیٹھا ہوا دشمن اور نیچے سے لڑ رہے ہماری فوجیں، ہمارے بہادر جوان، لیکن ، فتح پہاڑ کی اونچائی کی نہیں – بھارتی فوجوں کے اونچے حوصلے اور بہادری کی ہوئی۔ ساتھیوں، اس وقت مجھے بھی کرگل جانے اور ہمارے جوانوں کی بہادری کو دیکھنے کا موقع ملا، وہ دن، میری زندگی کا سب سے بیش قیمت لمحہ ہے۔ میں، دیکھ رہا ہوں کہ آج ملک بھر میں لوگ کارگل وجے دوس کو یاد کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ہیش ٹیگ #courageinkargil کے ساتھ لوگ اپنے بہادروں کو سلام کر رہے ہیں، اور جو شہید ہوئے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ میں، آج سبھی ہم وطنوں کی طرف سے ، ہمارے ان بہادر جوانوں کے ساتھ ساتھ ، ان بہادر ماؤں کو بھی سلام کرتا ہوں جنہوں نے ماں بھارتی کے سچے بیٹوں کو جنم دیا، میرا ملک کے نوجوانوں سے گزارش ہے، کہ آج دن بھر کارگل فتح سے جڑے ہمارے جانبازوں کی کہانیاں، بہادر ماؤں کی قربانی کے بارے میں، ایک دوسرے کو بتائیں ، شیئر کریں۔ میں، ساتھیوں، آپ سے ایک گزارش کرتا ہوں – آج ۔ ایک ویب سائٹ ہے www.gallantryawards.gov.in آپ اس کو ضرور دیکھیں۔ وہاں آپ کو ، ہمارے بہادر جنگجوؤں کے بارے میں، ان کی بہادری سے متعلق ، بہت ساری جانکاریاں حاصل ہوں گی، اور ان جانکاریوں کو ، جب آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کریں گے – ان کے لیے بھی الہام کی ایک وجہ بنے گی۔ آپ اس ویب سائٹ پر ضرورت ویزٹ کیجیے، اور میں تو کہوں گا بار بار کیجیے۔
ساتھیو، کارگل جنگ کے وقت اٹل جی نے لال قلعے سے جو بھی کہا تھا، وہ آج بھی ہم سبی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اٹل جی نے، اس وقت ملک کو گاندھی جی کے ایک قول کی یاد دلائی تھی۔ مہاتما گاندھی کا قول تھا کہ اگر کسی کو کبھی کوئی الجھن ہو کہ اسے کیا کرنا ، کیا نہ کرنا ہے تو اسے بھارت کے سب سے غریب اور بے سہارا شخص کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہیے۔ اسے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے، اس سے اس شخص کو فائدہ ہوگیا یا نہیں۔ گاندھی جی کے اس خیالات سے آگےبڑھ کر اٹل جی نے کہا تھا کہ کارگل جنگ نے ہمیں ایک دوسرا منتر دیا ہے – یہ منتر تھا کہ کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے، ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم ، اس سپاہی کے اعزاز کے مطابق ہے جس نے ان تکلیف دہ پہاڑیوں میں اپنی جان قربان کر دی تھی۔ آیئے اٹل جی کی آواز میں ہی، ان کے اس احساسات کو ہم سنیں، سمجھیں اور وقت کا تقاضہ ہے کہ اسے قبول کریں :
Sound bite of sh. Atal Ji ###
‘‘ہم سبھی کو یاد ہے کہ گاندھی جے نے ہمیں ایک منتر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی الجھن ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے، تو تم بھارت کے اس سب سے بے سہارا شخص کے بارے میں سوچو اور خود سے پوچھو کہ کیا تم جو کرنے جا رہے ہو اس سے اس شخص کی بہتری ہوگی۔ کارگل نے ہمیں دوسرا منتر دیا ہے - کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے ہم یہ سوچیں کہ کیا ہمارا یہ قدم اس سپاہی کے اعزاز کے مطابق ہے، جس نے ان ناقابل رسائی میں اپنے جانوں کی قربانی دی تھی۔’’
ساتھیو، جنگ کے حالات میں ، ہم جو بات کہتے ہیں، کرتے ہیں، اس کا سرحد پر تعینات فوجیوں کے حوصلوں پر ، اس کے کنبوں کے حوصلوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہ بات ہمیں کبھی بھولنی نہیں چاہیے اور اس لیے ہمارے اخلاقیات ، طرز عمل ، ہماری بولی، ہمارے بیانات ، ہمارے وقار ، مقاصد ، سبھی کچھ ضرور رہنا چاہیے کہ ہم جو کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں، اس سے فوجیوں کے حوصلوں اور عزاز میں اضافہ ہو۔ ملک سب سے اوپر ہے کی سوچ کے ساتھ ، یکجہتی کے دھاگے میں بندھے ہوئے ہم وطنوں، ہمارے فوجیوں کی طاقت کو کئی ہزار گنا بڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو کہا گیا ہے کہ ‘سنگھے شکتی کلو یوگے’۔
کبھی-کبھی ہم اس بات کو سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر ایسی چیزوں کو بڑھاوا دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تجسس کی وجہ سے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہے یہ غلط ہے پھر بھی کرتے رہتے ہ یں۔ آج کل، جنگ، صرف سرحوں پر ہی نہیں لڑی جاتی ہیں، ملک میں بھی کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑی جاتی ہے ، اور ہر ایک باشندے کو اپنا کردار کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اپنا کردار، ملک کی سرحد پر، مشکل ترین حالات میں لڑ رہے فوجیوں کو یاد کرتے ہوئے طے کرنی ہوگی۔
میرے پیارے ہم وطنوں، گزشتہ کچھ مہینوں سے پورے ملک میں ایک ساتھ مل کر کورونا سے مقابلہ کیا ہے، اس نے ، بہت سے خدشات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ آج، ہمارے ملک میں صحتیابی کی شرح دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہے، ساتھ ہی ، ہمارے ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی شرح بھی دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے کافی کم ہے۔ یقینی طور پر ایک بھی شخص کو کھونا افسوسناک ہے، لیکن بھارت، اپنے لاکھوں باشندوں کی زندگی بچانے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ لیکن ساتھیو، کورونا کا خطرہ ابھی برقرار ہے۔ کئی حصوں میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمیں بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ خیال رکھنا ہے کہ کورونا اب بھی اتنا ہی مہلک ہے جتنا کہ شروع میں تھا، اس لیے ہمیں پوری احتیاط برتنی ہوگی۔ چہرے پر ماسک لگانا یا گمچھے کا استعمال کرنا، دو گز کی دوری، مسلسل ہاتھ دھونا، کہیں پر بھی تھوکنا نہیں، صفائی ستھرائی کا پورا خیال رکھنا – یہی ہمارے ہتھیار ہیں جو ہمیں کورونا سے بچا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں ماسک سے تکلیف ہوتی ہے اور من کرنا ہے کہ چہرے پر سے ماسک ہٹا دیں۔ بات چیت کرنا شروع کرتے ہیں۔ جب ماسک کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، اسی وقت ماسک ہٹا دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، میں آپ سے گزارش کرونگا کہ جب بھی آپ کو ماسک کی وجہ سے پریشانی محسوس ہوتی ہو، ماسک اتارنے کا من کرتا ہو، تو لمحہ بھر کے لیے ان ڈاکٹرس کو یاد کیجیے، ان نرسوں کو یاد کیجیے، ہمارے ان کورونا واریئرس کو یاد کیجیے، آپ دیکھیے ، وہ ماسک پہن کر کے گھنٹوں مسلسل ، ہم سب کی زندگی کو بچانے کے لیے لگے رہتے ہیں۔ آٹھ -آٹھ ، دس – دس گھنٹے تک ماسک پہنے رکھتے ہیں۔ کیا ان کو تکلیف نہیں ہوتی ہوگی۔ ذرا ان کا بھی خیال کیجیے، آپ کو بھی لگے گا کہ ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اس میں ذرا سی بھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے اور نہ ہی کسی کو برتنے دینی چاہیے۔ ایک طرف ہمیں کورونا کے خلاف لڑائی کو پوری چوکسی اور بیداری کے ساتھ لڑنی ہے تو دوسری جانب، سخت محنت سے، تجارت، نوکری، تعلیم ، جو بھی فرائض ہم انجام دیتے ہیں ، ان کو تیز کرنا ہوگا، اسے بھی نئی اونچائی پر لے جانی ہے۔ ساتھیو، کورونا کے اس دور میں تو ہمارے دیہی علاقوں نے پورے ملک کو راہ دکھائی ہے۔ گاؤوں سے مقامی لوگوں کے، گرام پنچایتوں کے، دیگر اچھی کوششیں مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔ جموں میں ایک گرام تریوا گرام پنچایت ہے۔ وہاں کی سرپنچ ہیں بلبیر کور جی۔ مجھے بتایا گیا کہ بلبیر کور جی نے اپنے پنچایت میں 30 بستروں والا ایک قرنطینہ مرکز بنوایا ہے۔ پنچایت آنے والے راستوں پر ، پانی کی معقول انتظام کی ہے۔ لوگوں کو ہاتھ دھونے میں کوئی دشواری نہ ہو ، اس بات کو یقینی بنایا ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ بلبیر کور جی، خود اپنے کندھوں پر اسپرے پمپ ٹانگ کر، رضاکروں کے ساتھ مل کر، پورے پنچایت میں، آس – پاس کے علاقوں میں، سینی ٹائزیشن کا کام بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کشمیری خواتین سرپنچ ہیں، گندربل کے چونٹلی وار کی زیتون بیگم ۔ زیتون بیگم جی نے عہد کیا کہ ان کی پنچایت کورونا کے خلاف جنگ میں لڑے گی اور کمائی کے لیے مواقع بھی پیدا کریں گی۔ انہوں نے ، پورے علاقے میں فری ماسک اور راشن تقسیم کیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کو فصلوں کے بیج اور سیب کے پودے بھی دیئے، تاکہ لوگوں کو کھیتی میں ، باغبانی میں، کوئی دشواری نہ آئے۔ ساتھیو، کشمیر سے ایک اور تحریک دینے والا واقعہ ہے۔ یہاں ، اننت ناگ میں میونسپل صدر ہیں – جناب محمد اقبال۔ انہوں اپنے علاقے میں سینی ٹائزیشن کے لیے اسپریئر کی ضرورت تھی۔ انہوں نے جانکاری حاصل کی تو معلوم ہوا ہے کہ دوسرے شہر سے مشین لانی ہوگی اور مشین کی قیمت ہے 6 لاکھ روپے، تو جناب اقبال جی نے خود ہی کوشش کر کے اپنے آپ سپریئر مشین بنا لی اور وہ بھی صرف پچاس ہزار روپے میں – اس طرح کی نہ جانے کتنے ہی مثالیں ہیں۔ پورے ملک میں ، کونے – کونے میں، ایسی ہی کئی متحرک واقعات روز سامنے آتی ہیں، یہ سبھی مبارکباد کے حقدار ہیں۔ چیلنجز آئے، لیکن لوگوں نے اتنی ہی قوت سے ، اس کا سامنا بھی کیا۔
میرے پیارے ہم وطنوں، صحیح اور مثبت نقطہ نظر سے ہمیشہ آفات کو مواقع میں، مشکلات کو ترقی میں بدلنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ابھی ہم کورونا کے وقت بھی دیکھ رہے ہیں، کہ کیسے ہمارے ملک کے نوجوان – خواتین نے اپنے ہنر اور اسکل کے دم پر کچھ نئی کوششیں شروع کی ہیں۔ بہار میں کئی وومین سیلف ہیلپ گروپس نے مدھوبنی پینٹنگ والے ماسک بنانا شروع کیا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے ، یہ خوب مشہور ہو گئے ہیں۔ یہ مدھوبنی ماسک ایک طرح سے اپنی روایت کو فروغ تو دے ہی رہے ہیں، لوگوں کو ، صحت کے ساتھ، روزگار بھی مہیا کرا رہے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں شامل مشرق میں بانس کتنی بڑی مقدار میں ہوتی ہے، اب اسی بانس سے ترپورہ ، منی پور ، آسام کے کریگروں نے اعلیٰ درجے کا پانی کی بوتل اور ٹفن باکس بنانا شروع کیا ہے۔ اگر آپ بانس کوالیٹی دیکھیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ بانس کی بوتلیں بھی اتنی شاندار ہو سکتی ہیں، اور پھر یہ بوتلیں ایکو فرینڈلی بھی ہیں۔ انہیں، جب بناتے ہیں، تو بانس کو پہلے نیم اور دوسرے ادویاتی پودوں کے ساتھ اوبالا جاتا ہے، اس سے ان میں ادویاتی خصوصیات بھی مل جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مقامی مصنوعات سے کس طرح بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس کی ایک مثال جھارکھنڈ سے بھی ملتی ہے۔ جھارکھنڈ کے بشنوپور میں ان دنوں 30 سے زیادہ گروپس مل کر لیمن گراس کی کاشت کر رہے ہیں۔ لیمن گراس چار مہینوں میں تیار ہو جاتی ہے، اور اس کا تیل بازار میں اچھے قیمتوں میں فروخت ہوتا ہے۔ آج کل اس کی مانگ بھی کافی ہے۔ میں ملک کے دو علاقوں کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں، دونوں ہی ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے، اور اپنے اپنے طریقے سے بھارت کو آتم نربھر بنانے کے لیے کچھ مختلف کام کر رہے ہیں – ایک ہے لداخ اور دوسرا ہے کچھ۔ لیہ اور لداخ کا نام سامنے آتے ہی خوبصورت وادیوں اور اونچے اونچے پہاڑوں کے مناظر ہمارے آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں، تازی ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ وہیں کچھ کا ذکر ہوتے ہی ریگستان، دور – دور تک ریگستان، کہیں پیڑ – پودے، بھی نظر نہ آئے، یہ سب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ لداخ میں ایک خاص طرح کا پھل ہوتا ہے جس کا نام چولی یا اپری کوٹ یعنی خوبانی ہے۔ یہ فصل اس علاقے کی معیشت کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سپلائی چین، موسم کی مار جیسے کئی چیلنجز سے دوچار رہتا ہے۔ اس کی کم سے کم بربادی ہو، اس کےلیے آج کل ایک نئے انوویشن کا استعمال شروع ہوا ہے – ایک ڈوول سسٹم ہے، جس کا نام ہے، سولر ایپریکوٹ ڈرائر اینڈ اسپیس ہیٹر۔ یہ، خوبانی اور دوسرے دیگر پھلوں و سبزیوں کو ضرورت کے مطابق سکھا سکتا ہے، اور وہ بھی صحت مند طریقے سے۔ پہلے جب خوبانی کو کھیتوں کے پاس سکھاتے تھے، تو اس سے بربادی تو ہوتی ہی تھی، ساتھ ہی گرد اور بارش کے پانی کی وجہ سے پھلوں کی کوالیٹی بھی متاثر ہوتی تھی۔ دوسری جانب ، آج کل کچھ میں کسان ڈریگن فرٹس کی کھیتی کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جب سنتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے – کچھ اور ڈریگن فرٹس۔ لیکن وہاں آج کئی کسان اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ پھل کی کوالیٹی اور کم زمین میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کی وجہ سے کافی اختراع کیے جا رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈریگن فرٹس کی مقبولیت دن دن بڑھ رہی ہے، خاص کر ، ناشتے میں اس کا استعمال بڑھا ہے۔ کچھ کے کسانوں کا عزم ہے کہ ملک کو ڈریگن فرٹس درآمد نہ کرنا پڑے – یہی تو آتم نربھرتا کی بات ہے۔
ساتھیو، جب ہم کچھ نیا کرنے کی سوچتے ہیں ، انوویٹیو سوچتے ہیں، تو ایسے کام بھی آسان ہو جاتے ہیں، جن کی عام طور پر کوئی تصور بھی نہیں کرتا، جیسا کہ بہار کے کچھ نوجوانوں کو ہی لیجیے۔ پہلے یہ عام نوکری کرتے تھے، ایک دن انہوںنے طے کیا کہ وہ موتی یعنی پرلس کی کھیتی کریں گے۔ ان کے علاقے میں لوگوں کو اس بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھی، لیکن ان لوگوں نے پہلے ساری جانکاری حاصل کی ، جے پور اور بھوبنیشور جاکر ٹریننگ لی اور اپنے گاؤں میں ہی موتی کی کھیتی شروع کر دی۔ آج، یہ خود تو اس سے کافی اچھی کمائی کر ہی رہے ہیں، انہوں نے مظفرپور، بیگوسرائے اور پٹنہ میں دیگر ریاستوں سے لوٹے مائیگرینٹ مزدوروں کو اس کی ٹریننگ بھی دینی شروع کر دی ہے۔ کتنے ہی لوگوں کے لیے ، اس سے آتم نربھرتا کے راستے کھل گئے ہیں۔
ساتھیو، ابھی کچھ دن بعد رکشا بندھن کا مقدس تہوار آ رہا ہے۔ میں ان دنوں دیکھ رہا ہوں کہ کئی لوگ اور تنظیمیں اس بار رکشا بندھن کو الگ طریقے سے منانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ کئی لوگ اسے وکل فار لوکل سے بھی جوڑ رہے ہیں، اور بات بھی صحیح ہے۔ ہمارے تہوار، ہمارے سماج کے ، ہمارے گھر کے پاس ہی کسی فرد کے کاروبار میں اضافہ ہو، اس کا بھی تہوار خوشحال ہو، تب ، تہوار کی خوشی، کچھ اور ہی ہو جاتی ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو رکشا بندھن کی بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، 7 اگست کو نیشنل ہینڈلوم ڈے ہے۔ بھارت کا ہینڈلوم ، ہمارا ہینڈی کرافٹس ، خود سینکڑوں سالوں کی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ ہم سبھی کی کوشش ہونی چاہیے کہ نہ صرف ہندوستانی ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، بلکہ اس سے متعلق ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھی بتانی چاہیے۔ بھارت کا ہینڈلوم اور ہینڈی کرافٹ کتنا اعلیٰ درجے کا ہے ، اس میں بہت زیادہ تنوع ہے، یہ دنیا جتنی زیادہ اس کے بارے میں جانے گی ، ہمارے لوکل کاریگروں اور بن کروں کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، خاص کر میرے نوجوان ساتھیو، ہمارا ملک بدل رہا ہے۔ کیسے بدل رہا ہے؟ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے؟ کیسے کیسے شعبوں میں بدل رہا ہے؟ ایک مثبت سوچ کے ساتھ اگر نظرثانی کریں تو ہم خود حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ ایک وقت تھا، جب کھیل – کود سے لے کر کے دیگر شعبے میں زیادہ تر لوگ یا تو بڑے بڑے شہروں سے ہوتے تھے یا بڑے – بڑے خاندان سے یا پھر مشہور اسکول یا کالج سے ہوتے تھے۔ اب، ملک بدل رہا ہے۔ گاؤوں سے ، چھوٹے شہروں سے، عام کنبوں سے ہمارے نوجوان آگے آرہے ہیں۔ کامیابی کی نئی اونچائی چوم رہی ہے۔ یہ لوگ مصیبت کے دوران بھی نئے نئے خواب سجاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمیں ابھی حال ہی میں جو بورڈ ایگزام کے ریزلٹ آئے ہیں، اس میں بھی دکھتا ہے۔ آج ‘من کی بات’ میں ہم کچھ ایسے ہی باصلاحیت بیٹے بیٹیوں سے بات کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک باصلاحیت بیٹی ہے کرتیکا ناندل۔ کرتیکا جی ہریانہ میں پانی پت سے ہیں۔
مودی جی - ہیلو ، کریتکا جی نمستے۔
کرتیکا - نمستے سر۔
مودی جی - اچھے نتائج کے لئے آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
کرتیکا - شکریہ سر۔
مودی جی - اور آپ تو ان دنوں ٹیلی فون ریسیو کرتے کرتے آپ تھک گئی ہوں گی۔ اتنے سارے لوگوں کا فون آتے ہوں گے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اور جو لوگ مبارکباد دیتے ہیں وہ بھی فخر محسوس کرتے ہوں گے کہ وہ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ کو کیسا لگ رہا ہے۔
کرتیکا - سر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ والدین کو فخر محسوس کرا کر خود کو بھی اتنا فخر محسوس ہو رہا ہے۔
مودی جی - اچھا یہ بتایئے کہ آپ سب سے زیادہ تحریک کن سے ملتی ہے؟
کرتیکا - سر ، مجھے میری ماں سے سب سے زیادہ تحریک ملتی ہے۔
مودی جی - واہ! اچھا ، آپ ممی سے کیا سیکھ رہی ہو۔
کرتیکا - سر، انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی مشکلیں دیکھی ہیں، پھر بھی وہ اتنی بولڈ اور اتنی مضبوط ہیں، سر، انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے اتنی تحریک ملتی ہے کہ میں بھی انہیں کی طرح بنوں۔
مودی جی - ماں کتنی تعلیم یافتہ ہیں۔
کرتیکا - سر بی اے کیا ہوا ہیں انہوں نے۔
مودی جی - بی اے کیا ہوا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اچھا! تو ، ماں آپ کو سکھاتی بھی ہوں گی۔
کرتیکا - جی سر! سکھاتی ہیں، دنیا داری کے بارے میں ہر بات بتاتی ہیں۔
مودی جی - وہ ، ڈانٹتی بھی ہوں گی۔
کرتیکا - جی سر، ڈانٹتی بھی ہیں۔
مودی جی - اچھا بیٹا، آپ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں؟
کرتیکا - سر ہم ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
مودی جی - ارے واہ!
کرتیکا - ایم بی بی ایس۔
مودی جی - دیکھیے ڈاکٹر بننا آسان کام نہیں ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - ڈگری تو حاصل کر لیں گی کیونکہ آپ بہت ہی ہوشیار ہیں بیٹا؛ لیکن ڈاکٹر کی زندگی جو ہے ، وہ معاشرے کے لیے سرشار ہوتا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - ڈاکٹر رات میں، کبھی سکون سے سو نہیں سکتا ہے۔ کبھی مریض کا فون آجاتا ہے، اسپتال سے فون آجاتا ہے تو پھر دوڑنا پڑتا ہے۔ یعنی ایک طرح سے 24x7 ، 365 دن ۔ ڈاکٹر کی زندگی لوگوں کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔
کرتیکا - یس سر۔
مودی جی - اور خطرہ بھی رہتا ہے، کیونکہ ، کبھی پتا نہیں، آج کل جس طرح کی بیماریاں ہیں تو ڈاکٹر کے سامنے بھی بہت بڑی مصیبت رہتا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - اچھا کرتیکا، ہریانہ تو کھیل – کود میں پورے ہندوستان کے لیے ہمیشہ ہی ایک حوصلہ افزا اور تحریک دینے والا ریاست رہا ہے۔
کرتیکا - جی سر۔
مودی جی - تو آپ بھی تو کھیل کود میں حصہ لیتی ہیں کیا، کچھ کھیل – کود پسند ہے کیا آپ کو؟
کرتیکا - سر، باسکیٹ بال کھیلتے تھے، اسکول میں۔
مودی جی - اچھا ، آپ کی اونچائی کتنی ہے، زیادہ ہے اونچائی۔
کرتیکا - نہیں سر، پانچ دو کی ہے۔
مودی جی - اچھا، تو کیا آپ کو کھیل پسند ہے؟
کرتیکا - سر وہ تو بس جنون ہے، کھیل لیتے ہیں۔
مودی جی - اچھا – اچھا! چلیے کرتیکا جی، آپ کی والدہ کو میری طرف سے سلام کہیے، انہوں نے آپ کو اس طرح قابل بنایا۔ آپ کی زندگی کو سنوارا۔ آپ کی والدہ کو سلام اور آپ کو بہت بہت مبارکباد، اور بہت بہت نیک خواہشات۔
کرتیکا - شکریہ سر۔
آیئے ! اب ہم چلتے ہیں کیرلہ، ایرناکّلم۔ کیرلہ کے نوجوان سے بات کریں گے۔
مودی جی - ہیلو۔
وینایک - ہیلو سر نمسکار!
مودی جی - تو وینایک، مبارک ہو!
وینایک - ہاں ، شکریہ سر۔
مودی جی - شاباش وینایک، شاباش۔
وینایک - ہاں، شکریہ سر۔
مودی جی - ہاؤ از دا جوش؟
وینایک - ہائی سر۔
مودی جی - کیا آپ کوئی کھیل کھیلتے ہیں؟
وینایک - بیڈمنٹن۔
مودی جی - بیڈمنٹن۔
وینایک - ہاں۔
مودی جی - کسی اسکول میں یا آپ کو کوئی ٹریننگ کا موقع ملا ہے؟
وینایک - نہیں، اسکول میں ہم نے پہلے کچھ تربیت حاصل کر لی تھی۔
مودی جی - ہوں ہوں۔
وینایک - ہمارے اساتذہ سے۔
مودی جی - ہوں ہوں۔
ونایک - تاکہ ہمیں باہر حصہ لینے کا موقع ملے۔
مودی جی - واہ!
وینایک - اسکول ہی سے۔
مودی جی - آپ نے کتنی ریاستوں کا دورہ کیا ہے؟
وینایک - میں نے صرف کیرالہ اور تمل ناڈو کا دورہ کیا ہے۔
مودی جی - صرف کیرل اور تمل ناڈو ۔
وینایک - اوہ ہاں۔
مودی جی - تو ، کیا آپ دہلی جانا پسند کریں گے؟
وینایک - جی ہاں سر ، اب ، میں اعلی تعلیم کے لیے دہلی یونیورسٹی میں درخواست دے رہا ہوں۔
مودی جی - واہ ، تو آپ دہلی آرہے ہیں؟
وینایک - ہاں ہاں سر۔
مودی جی - مجھے بتائیں ، کیا آپ کے ساتھی طلبا کے لئے کوئی پیغام ہے،جو مستقبل میں بورڈ کے امتحانات دے گا؟
وینایک - سخت محنت اور وقت کا مناسب استعمال۔
مودی جی - اتنا صحیح وقت کا استعمال ۔
وینایک - جی ہاں ، سر۔
مودی جی - ونایاک ، میں آپ کے مشاغل جاننا چاہتا ہوں۔
وینایک - ……… بیڈمنٹن اور اس کے بعد روئنگ ۔
مودی جی - تو ، آپ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔
وینایک - نہیں ، ہمیں اسکول میں کسی بھی گیجٹ،الیکٹرانک اشیاء کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مودی جی - تو آپ خوش قسمت ہیں۔
وینایک - جی ہاں سر۔
مودی جی - ٹھیک ہے ، وینایک ، ایک بار پھر مبارکباد اور آپ سب کی نیک خواہشات۔
وینایک - شکریہ، سر۔
آیئے ! ہم اترپردیش چلتے ہیں۔ اترپردیش میں امروہا کے جناب عثمان سیفی سے بات کریں گے۔
مودی جی - ہیلو عثمان، بہت بہت مبارکباد، آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔
عثمان - شکریہ سر۔
مودی جی - اچھا آپ عثمان بتایئے، کہ آپنے جو چاہا تھا وہی ریزلٹ آیا کہ کچھ کم آیا۔
عثمان - نہیں، جو چاہا تھا وہی ملا ہے۔ میرے والدین بھی بہت خوش ہیں۔
مودی جی - واہ، اچھا خاندان میں اور بھائی بھی، بہت ہی ہوشیار ہیں کہ گھر میں آپ ہی ہیں جو اتنے ہوشیار ہیں۔
عثمان - صرف میں ہی ہوں، میرا بھائی تھوڑا شرارتی ہے۔
مودی جی - ہاں، ہاں۔
عثمان - باقی مجھ سے سب بہت خوش رہتے ہیں۔
مودی جی - اچھا، اچھا۔ اچھا آپ جب پڑھ رہے تھے ، تو عثمان آپکا پسندیدہ موضوع کون سا تھا؟
عثمان - میتھ میٹکس۔
مودی جی - ارے واہ! تو کیا میتھ میٹکس میں کس چیز میں دلچسپی تھی؟کیسے ہوئی؟ کس ٹیچر نے آپ کو تحریک دی؟
عثمان - جی ہمارے ایک سبجیکٹ ٹیچر رجت سر۔ انہوں نے مجھے تحریک دی اور وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں اور میتھ میٹکس شروع سے ہی میرا اچھا رہا ہے اور کافی انٹریسٹنگ سبجیکٹ بھی ہے۔
مودی جی - ہوں، ہوں۔
عثمان - تو جتنا زیادہ کرتےہیں، اتنا زیادہ انٹریسٹ آتا ہے تو اس لیے میرا پسندیدہ موضوع ہے۔
مودی جی - ہوں، ہوں۔ آ پ کو معلوم ہے ایک آن لائن ویدک میٹھ میٹکس کے کلاس چلتے ہیں۔
عثمان - ہاں سر۔
مودی جی - ہاں کبھی ٹرائی کیا ہے اس کا؟
مثمان - نہیں سر، ابھی نہیں کیا۔
مودی جی - آپ دیکھیے، آپ کے بہت سارے دوستوں کو لگے گا کہ جیسے آپ جادوگر ہیں کیونکہ کمپیوٹر کی اسپیڈ سے آپ گنتی کر سکتے ہیں ویدک میتھ میٹکس کی۔ بہت آسان ٹیکنک ہے اور آج کل وہ آن لائن پر بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
عثمان - جی سر۔
مودی جی - اچھا عثمان ، آپ خالی وقت میں کیا کرتے ہیں؟
عثمان - خالی وقت میں سر، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں میں۔ مجھے لکھنے میں بہت مزہ آتا ہے۔
مودی جی - ارے واہ! مطلب آپ میتھ میٹکس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور لٹریچر میں بھی ۔
عثمان - ہاں سر۔
مودی جی - کیا لکھتے ہیں؟ نظمیں لکھتے ہیں، شاعری لکھتے ہیں۔
عثمان - کچھ بھی کرنٹ افیئرس سے متعلق کوئی بھی ٹاپک ہو اس پر لکھتا رہتا ہوں۔
مودی جی - ہاں، ہاں۔
عثمان - نئی نئی جانکاریاں ملتی رہتی ہیں جیسے جی ایس ٹی چلا تھا اور نوٹ بندی – سب کچھ۔
مودی جی - ارے واہ! تو آپ کالج کی تعلیم کے لیے آگے کیا پلان بنا رہے ہیں؟
عثمان - کالج کی پڑتعلیم، سر میرا جی مینس کا فرسٹ اٹیمپٹ کلیئر ہو چکا ہے اور اب میں ستمبر کے لیے سیکنڈ اٹیمپٹ میں بیٹھونگا۔ میرا اصل مقصد ہے کہ میں پہلے آئی آئی ٹی سے بیچلر ڈگری لوں اور اس کے بعد سول سروسز میں جاؤ اور ایک آئی اے ایس بنوں۔
مودی جی - ارے واہ! اچھا آپ ٹکنالوجی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں؟
عثمان - ہاں سر، اس لیے میں آئی ٹی اوپٹ کیا ہے فرسٹ ٹائم آئی آئی ٹی کا۔
مودی جی - اچھا چلیے عثمان، میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور آپ کا بھائی شرارتی ہے ، تو آپ کا وقت بھی اچھا جاتا ہوگا اور آپ کے والدین کو بھی میری طرف سے سلام کہیے۔ انہوں نے آپ کو اس طرح سے مواقع فراہم کیے، حوصلہ بلند کیا اور یہ مجھے اچھا لگا کہ آپ تعلیم کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی مطالعہ کرتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ دیکھیے لکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات میں شارپ نیس آتی ہے۔ بہت اچھا فائدہ حاصل ہوتا ہے لکھنے سے۔ تو بہت بہت مبارکباد میری طرف سے۔
عثمان - شکریہ سر۔
آیئے ! چلیے پھر ایک قدم سے نیچے جنوب میں چلتے ہیں۔ تمل ناڈو، ناماکل سے بیٹی کننگا سے بات کریں گے اور کننگا کی بات تو بہت ہی متاثر کن ہے۔
مودی جی - کننگا جی، وڈکم۔
کننگا - وڈکم، سر۔
مودی جی - ہاؤ آر یو؟
کننگا - فائن سر۔
مودی جی - سب سے پہلے میں آپ کی بڑی کامیابی کے لیے آپ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
کننگا - شکریہ سر۔
مودی جی - جب میں نمکل کے بارے میں سنتا ہوں تو میں انجنئر مندر کے بارے میں سوچتا ہوں۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - اب میں آپ کے ساتھ اپنی بات چیت کو بھی یاد کروں گا۔
کننگا - ہاں سر۔
مودی جی - تو، پھر سے مبارکباد ۔
کننگا - شکریہ سر۔
مودی جی - آپ نے امتحانات کے لیے بہت محنت کیا، تیاری کرتے وقت آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
کننگا - سر، ہم شروع سے ہی سخت محنت کر رہے ہیں۔ لہذا مجھے اس نتیجے کی توقع نہیں تھی لیکن میں نے اچھا لکھا ہے اور لیے مجھے اچھا ریزلٹ حاصل ہوا۔
مودی جی - آپ کی توقع کیا تھی؟
کننگا - 485 اور 486 کے قریب، میں نے سوچا تھا۔
مودی جی - اور اب
کننگا - 490
مودی جی - تو آپ کے اہل خانہ اور آپ کے اساتزہ کا کیا رد عمل ہے؟
کننگا - وہ بہت خوش تھے اور انہیں بہت فخر تھاسر۔
مودی جی - آپ کا پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟
کننگا - میتھ میٹکس
مودی جی - اوہ! اور آپ کے مستقبل کے منصوبے کیا ہیں؟
کننگا - اے ایف ایم سی سر میں اگر ممکن ہو تو میں ڈاکٹر بننے جا رہا ہوں۔
مودی جی - اور آپ کے کنبے کے ممبر بھی میڈیکل پیشہ میں ہیں یا کہیں اور؟
کننگا - نہیں سر، میرے والد ڈرائیور ہیں لیکن میری بہت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
مودی جی - ارے واہ! لہذا سب سے پہلے میں آپ کے والد کو سلام کروں گا جو آپ کی بہن اور آپ کی بہت دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی خدمت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - اور وہ سب کو تحریک دینے والے ہے۔
کننگا - جی سر۔
مودی جی - تو آپ کو ، آپ کی بہن اور آپ کے والد اور آپ کے اہل خانہ کو میری طرف سے مبارکباد۔
کننگا - شکریہ سر۔
ساتھیو، ایسے اور بھی کتنے نوجوان دوست ہیں ، مشکل حالات میں بھی جن کے حوصلے کی، جن کی کامیابی کی کہانیاں ہمیں تحریک دیتی ہے۔ میرا من تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ساتھیوں سے بات کرنے کا موقع ملے، لیکن، وقت کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ میں سبھی نوجوان ساتھیوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اپنی کہانی ، اپنی زبانی جو ملک کو تحریک دے، وہ ہم سب کے ساتھ، ضرور شیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، سات سمندر پار، ہندوستان سے ہزاروں میل دور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا نام ہے سورینام۔ ہندوستان کا سورینام کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات ہیں۔ سو سال سے بھی زیادہ وقت پہلے، ہندوستان سے لوگ وہاں گئے اور اسے ہی اپنا گھر بنا لیا۔ آج ، چوتھی ، پانچویں نسل وہاں موجود ہے۔ آج، سورینام میں ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی ہندوستانیوں کی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ، وہاں کی عام زبان میں سے ایک سرنامی بھی ، بھوجپوری کی ہی ایک زبان ہے۔ ان ثقافتی تعلقات کی وجہ سے ہم ہندوستانی کافی فخر محسوس کرتے ہیں۔
حال ہی میں ، شری چندریکا پرساد سنتوکھی سورینام کے نئے صدر بن گئے ہیں۔ وہ ہندوستان کے دوست ہیں ، اور ، انہوں نے سال 2018 میں منعقدہ پرسن آف انڈین آریجن (پی آئی او)پارلیمانی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ شری چندریکا پرساد سنتوکھی جی نےحلف برداری کی شروعات وید منتروں کےساتھ کی، وہ سنسکرت میں بولے۔ انہوں نے ، ویدوں کا ذکر کیا اور ’’اوم شانتی، شانتی‘‘ کے ساتھ اپنی حلف برداری مکمل کی۔ اپنے ہاتھ میں وید لے کر وہ بولے – میں چندریکا پرساد سنتوکھی اور آگے، انہوں نے حلف میں کیا کہا؟ انہوں نے وید کا ہی ایک منتر پڑھا۔ انہوں نے کہا –
اوم اگنے ورتپتے ورتم چریشیامی تجھ کیئم تنمے رادھیاتام۔ اِدم ہمنرتات ستیہ مو پیمی۔
یعنی۔ ہے اگنی ، عزم کے خدا، میں ایک عہد کر رہا ہوں۔ مجھے اس کے لیے قوت فراہم کریں۔ مجھے جھوٹ سے دور رہنے اور حق کی جانب گامزن ہونے کا آشرواد پردان کریں۔ سچ میں، یہ ہم سبھی کے لیے ، فخر کی بات ہے۔
میں شری چندریکا پرساد سنتوکھی کو مبارک دیتا ہوں ، اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لیے ، 130 کروڑ ہندستانیوں کی طرف سے ، انہیں مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے ہم وطنوں ، اس وقت بارش کا موسم بھی ہے۔ پچھلی بار بھی میں نے آپ سے کہا تھا ، کہ برسات میں گندگی اور ان سے ہونے والی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اسپتالوں میں بھیڑ بھی بڑھ جاتی ہے، اس لیے ، آپ صاف صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھیں۔ قوت مدافعت بڑھانے والی چیزیں، آیورویدک کاڑھا وغیرہ لیتے رہیں۔ کورونا انفیکشن کے وقت ، ہم، دیگر بیماریوں سے دور رہیں۔ ہمیں اسپتال کے چکر نہ لگانے پڑیں، اس کا پورا خیال رکھنا ہوگا۔
ساتھیو، بارش کے موسم میں، ملک کا ایک بڑا حصہ ، سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔ بہار، آسام جیسے ریاستوں کے کئی علاقوں میں تو سیلاب نے کافی مشکلیں پیدا کی ہوئی ہیں۔ یعنی ایک طرف کورونا ہے ، تو دوسری طرف یہ ایک اور چیلنج ہے، ایسے میں، سبھی حکومتیں ، این ڈی آر ایف کی ٹیمیں ریاست کی آفات سے نمٹنے والی ٹیمیں، رضاکارانہ تنظیمیں، سب ایک ساتھ مل کر ، ہر طرح سے راحت اور بچاؤ کے کام کر رہے ہیں۔ اس آفات سے متاثرہ سبھی لوگوں کے ساتھ پورا ملک کھڑا ہے۔
ساتھیوں، اگلی بار ، جب ہم، ‘من کی بات’ میں ملیں گے، اس کے پہلے ہی 15 اگست بھی آنے والا ہے۔ اس بات 15 اگست بھی، مختلف حالات میں ہو گا۔ کورونا وبا کی اس مشکل وقت کے درمیان ہوگا۔
میرا ، اپنے نوجوانوں سے، سبھی ہم وطنوں سے، گزارش ہے، کہ ہم یوم آزادی پر، وبائی امراض سے آزادی کا عہد کریں، آتم نربھر بھارت کا عہد کریں، کچھ نیا سیکھنے، اور سکھانے کا، عہد کریں، اپنے فرائض کی تکمیل کریں۔ ہمارا ملک آج جس اونچائی پر ہے، وہ بہت ساری عظیم شخصیات کی تپسیا کی وجہ سے ہے، جنہوں نے اپنی زندگی قوم کی تعمیر کے لیے وقف کر دی ہے، ان عظیم شخصیات میں سے ایک لوک مانیہ تلک۔ یکم اگست 2020 کو لوک مانیہ تلک جی کی 100ویں یوم وفات ہے۔ لوک مانیہ تلک جی کی زندگی ہم سب کے لیے بہت ہی تحریک دینے والی ہے۔ ہم سب کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔
اگلی بار جب ہم ملیں گے ، تو ، پھر بہت ساری باتیں کریں گے، مل کر کچھ نیا سیکھیں گے، اور سب کے ساتھ شیئر کریں گے۔ آپ سب ، اپنا خیال رکھیے ، اپنے کنبے کا خیال رکھیے، اور صحتمند رہیے۔ سبھی ہم وطنوں کو آنے والے سبھی تہواروں کی بہت بہت نیک کواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
میرےپیارےہموطنو،نمسکار۔ ‘منکیبات’ نےاببرس 2020 میںاپناآدھاسفرمکملکرلیاہے۔ اسدوران،ہمنےبہتسارےموضوعاتکےبارےمیںباتکی۔یہفطریباتہےکہانسانینسلپرآنےوالےبحرانپرہماریگفتگوبہتزیادہرہی،لیکن،اندنوںمیںدیکھرہاہوں،لوگوںمیںمسلسلایکموضوعپرباتہورہیہے،کہیہسالکبگزرےگا ۔کوئیکسیکوفونبھیکررہاہے،توباتچیتاسیموضوعسےشروعہورہیہے،کہآخریہسالجلدنہیںگزررہاہے،کوئیلکھرہاہے،دوستوںسےگفتگوکرتےہوئے،یہکہتےہوئےکہ،یہسالاچھانہیںہے،کوئیکہہرہاہےکہ 2020 اچھاسالنہیںہے،بسچاہتےہیںکہلوگکسیبھیصورتیہسالجلدازجلدگزرجائے۔
دوستو،کبھیکبھیمجھےحیرتہوتیہےکہایساکیوںہورہاہے،اسطرحکیگفتگوکیکچھوجوہاتہوسکتیہیں۔ چھساتمہینےپہلے،یہہمیںکہاںمعلومتھا،کوروناجیسابحرانآجائےگااوریہلڑائیاتنےعرصےتکجاریرہےگی،یہبحراناببھیباقیہے،ملکمیںنئےچیلنجزآرہےہیں۔ ابھیکچھہیدنپہلے،ملککےمشرقیحصہپرطوفانامفانپہنچا،تب،طوفاننسارگمغربیسرےپرآیا۔ ٹڈیکےحملےسےہمارےکسانبھائیاوربہنیںکتنیریاستوںمیںپریشانہیں،اورکچھنہیںتوبہتسارے،ملککےحصوںمیںچھوٹےزلزلےرکنےکانامنہیںلےرہےہیںاورانسبکےبیچیہملکانچیلنجوںسےبھینمٹرہاہےجوہمارےکچھہمسایہممالککررہےہیں۔ واقعتااسطرحکییہآفاتایکساتھبہتکمہیدیکھنےکوملتیہیں۔ صورتحالایسیبنگئیہےکہ،یہاںتککہاگرکوئیچھوٹاساواقعہپیشآرہاہو،تولوگاسےانچیلنجوںسےجوڑکردیکھرہےہیں۔
دوستو،مشکلاتآتیہیں،بحرانآتےہیں،لیکنسوالیہہےکہکیاہمیںانآفاتکیوجہسےسال 2020 کوبراسمجھناچاہئے؟کیایہپچھلے 6 مہینوںکیوجہسےہے،کیونکہ،یہفرضکرلیناکہیہساراسالایساہیہے،کیایہسوچنادرستہے؟نہیں،میرےپیارےہموطنو – بالکلنہیں۔ ایکسالمیںایکچیلنجآئےیاپچاسچیلنجآئیں،تعدادکمیازیادہہوجانےسےوہسالخرابنہیںہوجاتاہے۔ ہندوستانکیتاریخآفاتاورچیلنجوںپرفتححاصلکرکےاوراسسےزیادہنکھرکرنکلنےرہیہے،سینکڑوںسالوںتک،مختلفحملہآوروںنےہندوستانپرحملہکیا،اسےبحرانمیںڈالدیا،لوگوںکاخیالتھاکہہندوستانکاڈھانچہتباہہوجائےگا،ہندوستانکیثقافتختمہوجائےگی،لیکن،انبحرانوںسےابھرکرہندستاناوربھیمضبوطہوکرسامنےآیاہے۔
دوستو،ہمارےیہاںیہکہاجاتاہے،سجنشاوستہے،سجننرنترہے
مجھےایکگاناکیکچھلائنیںیادآرہیہیں۔
یہکلکلچھلچھلبہتی،کیاکہتیگنگادھارا؟
یگیگسےبہتاآتا،یہپونیہپرواہمارا
اسیگیتمیںآگےآتاہے
کیااسکوروکسکیںگے،مٹنےوالےمٹجائیں
کنکرپتھرکیہستی،کیابادھابنکرآئے
یہاںتککہہندوستانمیں،جہاںایکطرف،بہتبڑےبحرانپیداہوئے،اسیوقتبہتساریرکاوٹیںپیداہوئیں،تمامرکاوٹیںدورکردیگئیں۔ نیاادبتخلیقہوا،نئیتحقیقکیگئی،نئےنظریےتخلیقہوئے،یعنیبحرانکےدورانبھی۔ ،ہرشعبےمیں،تخلیقکاعملجاریرہااورہماریثقافتپروانچڑھتیرہی،ملکآگےبڑھتارہا،ہندوستاننےہمیشہبحرانوںکوکامیابیکےمراحلمیںتبدیلکیاہے۔ اسیجذبےکےساتھ،ہمیںانتمامبحرانوںکےدرمیانآگےبڑھتےرہناہے،آپبھیاسخیالکےساتھآگےبڑھیںگے، 130 کروڑعوامآگےبڑھیںگے،تب،یہسالملککےلئےایکنیاریکارڈثابتہوگا۔ | اسیسالمیں،ملکنئےمقاصدحاصلکرےگا،نئیمنزلیںطےکرےگا،نئیبلندیوںکوچھوئےگا۔میںپورےاعتمادکےساتھ،اسملککیعظیمروایتپر،آپسبھی، 130 کروڑعوامکیطاقتپربھروسہکرتاہوں۔
میرےپیارےہموطنو،بحرانچاہےجتنابھیبڑاہو،ہندستانکیثقافتاوراقداربےلوثخدمتکیترغیبدیتیہیں۔ آججسطرحہندوستاننےمشکلوقتمیںدنیاکیمددکی،اسنےامناورترقیمیںہندوستانکےکردارکومستحکمکیاہے۔ دنیانےاسعرصےکےدورانہندوستانکیعالمیبرادریکےجذباتکوبھیمحسوسکیاہے،اوراسکےساتھہی،دنیانےہندوستانکیطاقتاوراپنیخودمختاریاورسرحدوںکےتحفظکےلئےبھارتکےعزمکوبھیدیکھاہے۔ لداخمیںہندوستانکیسرزمینپر،آنکھاٹھاکردیکھنےوالوںکوکڑاجوابملاہے۔ ہندوستانجسطرحدوستیبرقراررکھناجانتاہےاسیطرحوہآنکھوںمیںآنکھیںڈالکرمناسبجوابدینابھیجانتاہے۔ ہمارےبہادرفوجیوںنےیہدکھادیاہےکہ،وہکبھیبھیوطنعزیزکیعظمتپرآنچنہیںآنےدیںگے۔
دوستو،پوریقوماپنےبہادرفوجیوںکیبہادریکوخراجعقیدتپیشکررہیہےجولداخمیںشہیدہوئےہیں،پوراملکانکاشکرگزارہے،انکےسامنےانکاسرفخرسےبلندہے۔ انساتھیوںکےاہلخانہکیطرح،ہرہندوستانیبھیانکوکھونےکادرداٹھارہاہے۔ اپنےبہادربیٹوںاوربیٹوںکیقربانیپرانکےاہلخانہمیںفخرکااحساس،وہجذبہجوملککےلئےہے,یہملککیطاقتہے۔ آپنےدیکھاہوگاکہوہوالدین،جنکےبیٹےشہیدہوئےتھے،اپنےدوسرےبیٹوںکوبھی،گھرکےدوسرےبچوںکوبھیفوجمیںبھیجنےکیباتکررہےہیں۔ بہارسےتعلقرکھنےوالےشہیدکندنکمارکےوالدکےالفاظانکےکانوںمیںگونجرہےہیں۔ وہکہہرہےتھے،میںاپنےپوتےپوتیوںکوملککیحفاظتکےلئےفوجمیںبھیجوںگا۔ یہشہیدوںکےاہلخانہکیہمتہے۔ درحقیقت،انکےلواحقینکیقربانیقابلاحترامہے۔ ہمیںزندگیکامقصدبھیبناناہے،ہرہندوستانیکواپنیسرزمیںہندستانکےتحفظکےلئےیکساںعزمکرناہوگا۔ اسسمتمیںہرممکنکوششکیجانیچاہئے،تاکہسرحدوںکےتحفظکےلئےملککیطاقتمیںاضافہہو،ملککومزیدمضبوطبنایاجاسکے،تاکہملکخودکفیلہوجائے۔ یہبھیہمارےشہیدوںکوسچیخراجعقیدتہوگی۔ آسامسےتعلقرکھنےوالےرجنیجینےمجھکوخطلکھاہے،انہوںنےمشرقیلداخمیںپیشآنےوالےواقعاتکودیکھنےکےبعد،ایکعہدکیاہےکہوہصرفمقامیچیزیںخریدیںگے،نہصرفمقامیلوگوںکےلئےوہآوازاٹھاسکیںگے۔ اسطرحکےپیغاماتملککےکونےکونےسےآرہےہیں۔ بہتسارےلوگمجھےخطلکھرہےہیںکہمجھےیہکہتےہوئےکہوہاسطرفبڑھگئےہیں۔ اسیطرحتملناڈوکےمدورائیسےتعلقرکھنےوالےموہنرامامورتینےلکھاہےکہ،وہدفاعیمیدانمیںہندوستانکوخودکفیلہوتادیکھناچاہتےہیں۔
دوستو،آزادیسےپہلے،ہماراملکدفاعیشعبےمیںبہتسےممالکسےآگےتھا۔ ہمارےیہاںمتعددآرڈیننسفیکٹریاںتھیں۔ اسوقت،بہتسےممالک،جوہمسےبہتپیچھےتھے،آجہمسےآگےہیں۔ آزادیکےبعد،ہمدفاعیشعبےمیںجوکوششیںکرنیچاہئےتھیاسسےفائدہنہیںاٹھاسکتے،ہمیںاپنےپرانےتجرباتسےفائدہاٹھاناچاہئےتھا۔ لیکن،آج،دفاعیشعبےمیں،ٹکنالوجیکےمیدانمیں،ہندوستانمستقلطورپرآگےبڑھنےکیکوششکررہاہے،ہندوستانخودکفالتکیطرفگامزنہے۔
دوستو،کوئیبھیمشن،عوامیشراکتکےبغیرمکملنہیںہوسکتا،کامیابنہیںہوسکتاہے،لہذا،بحیثیتایکشہریکے،ہندوستانکوترقیکیسمتمیںآگےلےجانےکےلئےہمسبکاعزم،لگناورتعاونبہتضروریہے۔ | آپلوکلخریدیںگے،لوکلکےلئےووکلہوںگے،توسمجھئے،آپملککومضبوطبنانےمیںاپناکرداراداکررہےہیں۔ یہبھیایکطرحسےملککیخدمتہے۔ چاہےآپکسیبھیپیشےمیںہوں،ہرجگہ،خدمتکیگنجائشبہتہے۔ ملککیضرورتکااحساسکرتےہوئے،جوبھیکامہوتاہے،وہملککیخدمتہے۔ آپکیخدمتسےملککوایکطرحسےتقویتملتیہے،اور،ہمیںیہیادرکھناہوگا – ہماراملکجتنامضبوطہوگا،دنیامیںامنکےامکاناتاتنےہیمضبوطہوںگےہمارےیہاںکہاجاتاہے۔
ودیاودیاوےدھننمیتاے،شکتیپریشاپریپیڈنے |
خالصیاسادھو: وپریتماییت،گیانئےدانےچےرکشنائے
یعنی،اگرکوئیفطرتکےلحاظسےبراہے،تووہشخصتنازعہمیںعلم،پیسہکااستعمالغرورکرنے،اوردوسروںکوتکلیفپہنچانےکیطاقتکااستعمالکرتاہے۔ لیکن،ایکشریفآدمیکاتعلیم،علمکیمدد , پیسہمددکےلئےاورطاقتحفاظتکےلئےاستعمالہوتاہے۔ ہندوستاننےاپنیطاقتکوہمیشہاسیجذبےکےساتھاستعمالکیاہے۔ ہندوستانکاعزمیہہےکہہندوستانکیعزتنفساورخودمختاریکاتحفظکریں۔ ہندوستانکاہدفہے – خودپرمنحصرہندوستان۔ ہندوستانکیروایتہے – اعتماد،دوستی۔ ہندوستانکیروحہے – برادری،ہماننظریاتکےساتھآگےبڑھتےرہیںگے۔
میرےپیارےہموطنو،کروناکےبحرانکےدوران،ملکلاکڈاؤنسےباہرآگیاہے۔ ابہمانلاککےدورمیںہیں۔ آنلاکہونےکےاسدورمیں،دوچیزوںپربہتزیادہتوجہدیجارہیہیں ۔ دوستو،لاکڈاؤنکےبجائےانلاککےدورانہمیںزیادہمحتاطرہناچاہئے۔ آپکامحتاطہوناآپکوکوروناسےبچائےگا۔ ہمیشہیادرکھیںکہاگرآپماسکنہیںپہنیںگے،دوگزکیدوریبرقرارنہیںرکھیںگے،یادیگرضروریاحتیاطیتدابیراختیارنہیںکرتے،توآپخودکواوردوسروںکوبھیخطرہمیںڈالرہےہیں۔ خاصطورپر،گھرکےبچوںاوربزرگوںکو۔ اسیلئےمیںتمامملکسےدرخواستکرتاہوںاورمیںبارباریہدرخواستکرتاہوںاورمیریگذارشہےکہآپبےپرواہنہہوں،اپناخیالرکھیں،اوردوسروںکابھی۔
دوستو،آنلاکہونےکےدورمیں،ایسیبہتسیچیزوںکوکھولاجارہاہےجسمیںہندوستانکئیدہائیوںسےبندھاہواتھا۔ کئیسالوںسےہماراکانکنیکاشعبہلاکڈاؤنمیںتھا۔ تجارتینیلامیکیمنظوریکےفیصلےنےصورتحالکویکسربدلدیاہے۔ کچھدنپہلےخلائیشعبےمیںتاریخیاصلاحاتکیگئیں۔ اناصلاحاتکےذریعہ،اسشعبےکو،جوبرسوںسےلاکڈاؤنمیںبندتھا،کوآزادیملی۔ اسسےنہصرفخودانحصاریکیہندوستانکیمہمکوفروغملےگا،بلکہیہملکٹیکنالوجیمیںبھیترقیکرےگا۔ اگرآپاپنےزرعیشعبےکودیکھیںتواسشعبےمیںبہتساریچیزیںکئیدہائیوںسےلاکڈاؤنمیںپھنسگئیں۔ اسشعبےکوبھیآنلاککردیاگیاہے۔ اسسےکسانوںکواپنیفصلکہیںبھیبیچنےکیآزادیملگئیہے،ایکطرف،دوسریطرفانہیںزیادہقرضملنابھییقینیہوگیاہے،بہتسارےشعبےایسےہیںجہاںہماراملک،انتمامبحرانوںکےدرمیان،تاریخیفیصلےکرنا،ترقیکینئیراہیںکھولرہاہے۔
میرےپیارےہوطنو! ہرمہینےہمایسیخبریںپڑھتےاوردیکھتےہیںجوہمیںجذباتیبناتیہیں۔ یہہمیںیاددلاتاہے،کہکسطرح،ہرہندوستانیایکدوسرےکیمددکرنےکےلئےتیارہے،وہجوبھیکرسکتاہےکرنےمیںمصروفہے۔
اروناچلپردیشکیایسیہیایکمتاثرکنکہانی،مجھےمیڈیامیںپڑھنےکوملی۔ یہاں،ضلعسیانگکےمیریمگاؤںنےوہایکانوکھاکامکیاہے،جوپورےہندوستانکےلئےایکمثالبنگیاہے۔ اسگاؤںکےبہتسےلوگباہررہکرنوکریاںکرتےہیں۔ دیہاتیوںنےدیکھاکہکوروناکیوباکےدوران،وہسباپنےاپنےگاؤںلوٹرہےتھے۔ ایسیصورتحالمیں،دیہاتیوںنےپہلےہیگاؤںکےباہرکورنٹائنبندوبستکرنےکافیصلہکیاتھا۔ انہوںنےایکساتھملکرگاؤںسےکچھفاصلےپر، 14 عارضیجھونپڑیاںبنائیںاورفیصلہکیاکہجبگاؤںوالےواپسآئیںگےتوانہیںانجھونپڑوںمیںکچھدنکورنٹائنرکھاجائےگا۔ انجھونپڑیوںمیںروزانہکیہرطرحکیضروریاتفراہمکیگئیں،جنمیںبیتالخلا،بجلیاورپانیشاملہیں۔ ظاہرہے،اسمشترکہکوششاورمیرمگاؤںکےلوگوںکیبیدارینےسبکیتوجہاپنیطرفمبذولکرلی۔
دوستو،ہمارےیہاںکہاجاتاہے،
سمبھونہجاہتایو،سادھواپدترتوپیسن
کرپور،پاوکسپشٹی،سورنبھلبھتترم
یعنی،جیسےکافورآگمیںجلنےکےبعدبھیاپنیخوشبونہیںچھوڑتا،ویسےہیاچھےلوگبحرانمیںاپنیخصوصیات،اپنےاچھےبرتاؤکوترکنہیںکرتےہیں۔ آجہمارےملککیمزدورقوماسکیزندہمثالہیں۔ آپنےدیکھاکہاندنوںہمارےمہاجرمزدوروںکیبہتساریکہانیاںہیںجوپورےملککوترغیبدےرہیہیں۔ اترپردیشمیںبارہبانکیگاؤںواپسآنےوالےمزدوروںنےدریائےکلیانیکیفطریشکللوٹانےکےلئےکامشروعکیا۔ دریاکیصفائیستھرائیدیکھکرآسپاسکےکسان،آسپاسکےلوگبھیپرجوشہیں۔ گاؤںآنےکےبعد،الگتھلگمرکزمیں،کورنٹائنمرکزمیںرہتےہوئے،ہمارےمزدورساتھیوںنےاپنےآسپاسکےحالاتکوتبدیلکرنےکےلئےاپنیصلاحیتوںکوجسطرحاستعمالکیاہےوہحیرتانگیزہے،لیکن،دوستو،ایسےکتنیہیکہانیاںاورقصےملککےلاکھوںدیہاتکیہیں،جوہمتکنہیںپہنچیہیں۔
میرےدوستو،جیساکہہمارےملککینوعیتہےمجھےیقینہےکہ،آپکےگاؤںمیںبھی،آپکےآسپاسبھیایسےبہتسےواقعاترونماہوئےہوںگے۔ اگرایسیکوئیباتآپکےدھیانمیںآئیہےتوآپکولازمیطورپرمجھےایساہیمتاثرکنواقعہلکھناچاہئے۔ بحرانکےاسوقتمیں،یہمثبتواقعات،یہکہانیاںدوسروںکوترغیبدیتیہیں۔
میرے پیارےہموطنو، کورونا وائرس نے یقینا ہماری طرز زندگی کو تبدیل کردیا ہے۔ میں نے لندن سے شائع ہونے والے فنانشل ٹائمز کا ایک بہت ہی دلچسپ مضمون پڑھ رہا تھا۔ یہ لکھا گیا تھا کہ ، کورونا کے دور میں ، ایشیا کے علاوہ امریکہ میں بھی ادرک ، ہلدی سمیت دیگر مصالحوں کیمانگمیں اضافہ ہوا ہے۔ پوری دنیا کی توجہ اس وقت اپنیقوت مدافعت (امیونٹی) بڑھانے پر ہے ، اورقوت مدافعت ٰ کو بڑھانے والی یہ چیزیں ہمارے ملک سے وابستہ ہیں۔ ہمیں دنیا کے لوگوں کو ایسی آسان اور آسان زبان میں ان کی خصوصیات کے بارے میں بتانا چاہئے ، تاکہ وہ آسانی سے سمجھ سکیں اور ہم ایک صحت مند سیارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
میرے پیارےہم وطنو، کورونا جیسا بحران نہ ہوتا ، اس لئے شاید ، زندگی کیا ہے ، زندگی کیوں ہے ، زندگی کیسی ہے ، ہمیں یاد نہیں ہوتا ، شاید یہ بہت سارے لوگ ، اسی وجہ سے ، ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ لہذا ، دوسری طرف ، لوگوں نے مجھ سے یہ بھی بتایا ہے کہ ، کس طرح ، لاک ڈاؤن کے دوران ، خوشی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں – جنہوں نے زندگی میں دوبارہ دریافت کیا۔ بہت سارے لوگوں نے مجھے روایتیان ڈور کھیل کھیلنے اور پورے کنبے کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے تجربات بھیجے ہیں۔
دوستو ، ہمارے ملک میں روایتی کھیلوں کا بہت مالا مال ورثہ ہے۔ جیسے ، آپ نے کسی کھیل کا نام سنا ہو گا – پاسیسی۔ یہ کھیل تمل ناڈو میں “پلنگولی” ، کرناٹک میں “الی گلی مانے” اور آندھرا پردیش میں “ومن گنٹلو” کے طور پر کھیلا جاتا ہے۔ یہ حکمت عملی کا ایک کھیل ہے ، جس میں ایک بورڈ استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ، بہت سے کھانچے ہوتےہیں ، جن میں کھلاڑیوں کو گولی یا بیجکو پکڑناپڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کھیل جنوبی ہندوستان سے جنوب مشرقی ایشیاء اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
دوستو ، آج ہر بچہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل کے بارے میں جانتا ہے۔ لیکن ، کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک ہندوستانی روایتی کھیل کی بھی شکل ہے ، جسے موکشا پٹام یا پیرپدم کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک اور روایتی کھیل ہے۔ گوٹا۔بڑےبھی گٹٹے کھیلتے ہیں اور بچوں کو بھی۔ آسانی سے ایک ہی سائز کے پانچ چھوٹے پتھر اٹھائیں اور آپ گٹگے کو کھیلنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک پتھر کو ہوا میںاچھالیںاور جب وہ پتھر ہوا میں ہو ، آپ کو باقی پتھر زمین میں سے اٹھانا ہوں گے۔ عام طور پر یہاں انڈور گیمز میں کسی بڑے ٹولز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کوئی چاک یا پتھر لاتا ہے ، اس سے کچھ لائنیں کھینچتا ہے اور پھر کھیل شروع ہوتا ہے۔ کھیلوں میں جس میںڈائسکی ضرورت ہوتی ہے ، یہکوڑیوںیا املی کے بیج کے ساتھ بھی کام کرسکتا ہے۔
دوستو ، مجھے معلوم ہے ، آج ، جب میں اس کے بارے میں بات کر رہا ہوں ، کتنے ہی لوگ اپنے بچپن میں لوٹ آئے ہوں گے ، کتنے لوگوں نے اپنے بچپن کے دن یاد رکھے ہیں۔ میں کہوں گا کہ تم ان دنوں کو کیوں بھول گئے ہو؟ تم وہ کھیل کیوں بھول گئے؟ میری گھر کے دادا دادی ، نانا ، نانا ، بزرگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ اس نسل کو نئی نسل میںتبدیل نہیں کریں گے تو کون کرے گا! جب آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو ، ہمیں یہ توازن برقرار رکھنے کےلیے اور آن لائن کھیلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک نیا موقع ہے ، اور ہمارے آغاز کےلئے، ایک مضبوط موقع ، یہاں تک کہ ہماری نوجوان نسل کے لئے۔ آئیے ، ہندوستان کے روایتی انڈور گیمز کو ایک نئی اور پرکشش شکل میں پیش کریں۔ متحرک افراد ، سپلائی کر نے والے ، اسٹارٹ اپ بہت مشہور ہوجائیں گے ، اور ، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ، ہمارے ہندوستانی کھیل بھی مقامی ہیں ، اور ہم نے پہلے ہی مقامی لوگوں کے لئے آواز اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔ ، اور ، میرے بچوں جیسے دوست ، ہر گھر کے بچوں ، یہاں تک کہ اپنے چھوٹے دوستوں سے ، آج ، میں ایک خصوصی درخواست کرتا ہوں۔ بچوں ، کیا آپ میری درخواست قبول کریں گے؟ دیکھو ، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میں جو کہوں اس پر عمل کرو ، ایک کام کرو – جب آپ کے پاس تھوڑا وقت ہو تو ، اپنے والدین سے پوچھیں اور موبائل اور اپنے دادا ، نانا ، دادی یا گھر میں جو بھی ہو اسے اٹھاؤ۔ ان کا انٹرویو ریکارڈ کریں ، اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کریں۔ جس طرح آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا ، کیا آپ صحافیوں کو انٹرویو نہیں دیتے ، بالکل وہی انٹرویو دیتے ہیں ، اور آپ ان کے ساتھ کیا کریں گے؟ میں تجویز کرتا ہوں آپ ان سے پوچھیں ، بچپن میں ان کی زندگ کیسے گزری تھی ، وہ کیا کھیل کھیلتے تھے ، کبھی وہ ڈرامے دیکھنے جاتے تھے ، سنیما جاتے تھے ، کبھی چھٹیوں پر ماموں کے گھر جاتے تھے ، کبھی فارم میں جاتے تھے ، تم تہواروں کو کس طرح سمجھتے ہو ، بہت سی چیزیں جو تم ان سے پوچھ سکتے ہو ، وہ بھی ، آپ کی زندگی میں ، 40-50 سال ، 60 سال ، بہت خوشی دیں گے اور 40-50 سال پہلے ہندوستان آپ کے لئے کیسا تھا؟ ، آپ کہاں رہتے تھے ، علاقہ کیسا تھا ، کیمپس کیسے تھا ، لوگوں کے طریقے کیا تھے – سب کچھ ، بہت آسانی سے ، آپ کو سیکھنے کو مل جائے گا ، جاننے کا موقع ملے گا ، اور ، آپ بھی ، بہت ہی ، دیکھیں گے۔ یہ تفریحی ہوگا ، اور ، کنبہ کے لئے ایک بہت ہی انمول خزانہ ، ایک اچھا ویڈیو البم بھی بن جائے گا۔
دوستو ، یہ سچ ہے۔ تاریخ کی سچائی کے قریب جانے کے لئے خودنوشت یا سوانح حیات ، ایک نہایت مفید ذریعہ ہے۔ آپ بھی اپنے بڑوں سے بات کریں گے ، تب آپ ان کے وقت ، ان کے بچپن ، جوانی کی باتوں کو سمجھ سکیں گے۔ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ بزرگ اپنے بچپن کے بارے میں ، اس عرصے کے بارے میں ، اپنے گھر کے بچوں کو بھی بتا ئیں۔
دوستو ، ملک کا ایک بہت بڑا حصہمیں ، اب مانسون پہنچ چکا ہے۔ اس بار موسمیات کے ماہرین بھی بڑی امید کا اظہار کرتے ہوئے بارش کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ اگر بارش اچھی رہی تو ہمارے کسانوں کی فصلیں اچھی ہوں گی ، ماحول بھی سبز ہوگا۔ بارش کے موسم میں ، فطرت بھی اپنے آپ کو نو جوان کرتی ہے۔ جیسے جیسے انسان بارش کے دوران قدرتی وسائل ، فطرت کا ایک طرح سے استحصال کرتا ہے ، انہیں بھرتا اور بھرتا ہے۔ لیکن ، یہ ریفلنگ تب ہی ہوسکتی ہے جب ہم بھی اپنی ماں اور ماں کی مدد کریں تو ، اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ ہماری طرف سے ایک چھوٹی سی کوشش ، فطرت ، ماحول ، اور بہت مدد ملتی ہے۔ ہمارے بہت سارے شہری اس میں بہت بڑے کام کر رہے ہیں۔
کامی گوڈا | منڈاوالی ، کرناٹک ، میں ایک 80-85 سال پرانا ہے کامگوڑا جی ایک عام کسان ہیں ، لیکن ان کی شخصیت بہت ہی غیرمعمولی ہے۔ اس نے ایسا کام کیا ہے کہ کسی کو حیرت نہیں ہوگی۔ کامیگوڑا جی ، جو 80-85 سال پرانے ہیں ، اپنے جانور چراتے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے علاقے میں نئے تالاب بنانے کے لئے بھی پیش قدمی کی ہے۔ وہ اپنے علاقے میں پانی کے مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں ، لہذا ، پانی کے تحفظ کے کام میں ، وہ چھوٹے تالابوں کی تعمیر کے کام میں مصروف ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ 80-85 سالہ کامیگوڑا جی ، اپنی محنت اور محنت کے ذریعہ اب تک 16 تالاب کھود چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان تالابوں کو جو انہوں نے تعمیر کیا ہے ، وہ بہت بڑے نہیں ہیں ، لیکن ، ان کی کوششیں بہت بڑی ہیں۔ آج ان تالابوں سے پورے علاقے کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
دوستو ، گجرات میں وڈوڈرا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ یہاں ، ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں نے مل کر ایک دلچسپ مہم چلائی۔ اس مہم کی وجہ سے ، وڈوڈرا میں ، ایک ہزار اسکولوں میں بارش کے پانی کو بچانے کی مہمشروع ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ، اس کی وجہ سے ، ہر سال ، اوسطا تقریبا 100، 100 ملین لیٹر پانی کو بہتے ہوئے فضلے سے بچایا جارہا ہے۔
دوستو ، فطرت کے تحفظ کے لئے ، اس بارش میں ماحولیات کی حفاظت کےلئے، ہمیں بھی کچھ ایسا ہی سوچنے اور کرنے کا اقدام کرنا چاہئے۔ بہت ساری جگہوں کی طرح ، گنیش چتروتیکیبھی تیاریوں کا آغاز ہونا ہے۔ اس بار ، ہم ماحول دوست گنیشے کے مجسمے بنانے اور ان کی پوجا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کیا ہم ایسے بتوں کی پوجا سے بچ سکتے ہیں ، جو دریا تالاب میں ڈوبنے کے بعد پانی ، جانوروں اور پانی میں رہنے والے جانوروں کے لئے بحران نہ بن جاتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ کریں گے ، اور ان سب چیزوں کے بیچ ، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ مانسون کے موسم میں بھی بہت سی بیماریاں ہوتی ہیں۔ کرونا دور میں ، ہمیں ان سے بھی بچنا ہے۔ آیورویدک دوائیں ، کاڑھ ، گرم پانی ، ان کا استعمال کرتے رہیں ، صحت مند رہیں۔
میرے پیارے ہموطنو ، آج 28 جون کو ، ہندوستان اپنے ایک سابق وزیر اعظم کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے ، جس نے ایک نازک مرحلے میں ملک کی قیادت کی۔ آج ہمارے وزیر اعظم جناب پی وی نرسمہا راؤ کے یوم پیدائش کے سو سالہ سال کا دن ہے۔ جب ہم پی وی نرسمہا راؤ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ، ایک سیاست دان کی حیثیت سے ان کی شبیہ فطری طور پر ہمارے سامنے ابھرتی ہے ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ ہندوستانی اور غیر ملکی زبانیں بولتے تھے۔ وہ ایک طرف ہندوستانی اقدار میں آباد تھا اور دوسری طرف اسے مغربی ادب اور سائنس کا بھی علم تھا۔ وہ ہندوستان کے تجربہ کار قائدین میں سے ایک تھے۔ لیکن ، اس کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی ہے ، اور وہ قابل ذکر ہے ، ہمیں بھی جان لینا چاہئے۔ دوستو ، نرسمہا راؤ جی نوعمری میں ہی تحریک آزادی میں شامل ہوئے تھے۔ جب حیدرآباد کے نظام نے وندے ماترم کو گانا کرنے کی اجازت سے انکار کر دیا تو ، اس نے بھی ان کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اس وقت ، اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ چھوٹی عمر ہی سے ، مسٹر نرسمہا راؤ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے میں آگے تھے۔ اس نے آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نرسمہا راؤ بھی تاریخ کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایک بہت ہی سادہ پس منظر سے اس کا عروج ، تعلیم پر اس کا زور ، اس کے سیکھنے کا رجحان ، اور اس سب کے ساتھ ، ان کی قائدانہ صلاحیت – سب کچھ یادگار ہے۔ میری درخواست ہے کہ ، نرسمہا راؤ کے یوم پیدائش کے سالگرہ میں ، آپ سب ، ان کی زندگی اور افکار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کریں۔ میں ان کو ایک بار پھر عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار من کی بات میں ، بہت سارے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اگلی بار جب ہم ملیں گے تو ، کچھ اور نئے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوگا۔ آپ ، اپنے پیغامات ، اپنے جدید نظریات مجھے بھیجتے رہیں۔ ہم سب مل کر آگے بڑھیں گے ، اور آنے والے دن زیادہ مثبت ہوں گے ، جیسا کہ ، میں نے آج کے آغاز میں کہا تھا ، ہم اس سال یعنی 2020 میں بہتر کام کریں گے ، ہم آگے بڑھیں گے اور ملک بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس دہائی میں 2020 ہندستان کے لئے ایک نئی سمت دینے والا سال ثابت ہوگا۔ اس اعتماد کے ساتھ ، آپ کو بھی آگے بڑھنا چاہئے ، صحتمند رہنا چاہئے ، مثبت رہنا چاہئے۔ ان خواہشات کے ساتھ ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔
شکریہ ۔
نئی دہلی، 31 مئی 2020، من کی بات 2.0 کے بارہویں ایپی سوڈ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم جناب نریند ر مودی نے کہا کہ ملک میں کورونا کے خلاف نبرد آزمائی، اجتماعی کوششوں کے ذریعہ کی جارہی ہے ۔ انہوں نے عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ کووڈ -19 وبائی مرض کے درمیان زیادہ خبردرا اورچوکس رہیں۔ اگرچہ معیشت کا ایک بڑا حصہ اب معمول کے مطابق مصروف عمل بنادیا گیا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ شرمک اسپیشل ریل گاڑیوں او ر خصوصی ریل گاڑیوں سمیت ریل خدمات بحال کردی گئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اڑان خدمات پھر سے شروع ہوگئی ہیں اور صنعت بھی آہستہ آہستہ معمول کی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کے کیا کہ کسی طرح کی لاپرواہی نہیں برتی جانی چاہئے اور عوام الناس کو دو گز کی دوری بنائے رکھنی چاہئے اور چہرے پرماسک پہننا چاہئے او ر جہاں تک ممکن ہوسکے گھر پر ہی قیام کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس قدر پریشانی اٹھانے کے بعد ملک نے صورتحال کو جس طرح سنبھالا ہے وہ عمل بے کار نہیں جانا چاہئے ۔
وزیراعظم نے اپنے لوگوں کے ذریعہ ظاہر کئے گئے خدمت کاجذبے کا خیر مقدم کیا اور اسے سب بڑی طاقت کہامظاہرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیوا پرمودھرما کے اصول کے قائل ہیں اور خدمت بذات خود مسرت کا باعث ہوتی ہے اور اپنے آپ میں ایک طرح کی تسلی ہے ۔ ملک بھر کی طبی خدمت سے وابستہ عملے کی ستائش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ڈاکٹروں ، نرسنگ عملے ،صفائی ستھرائی کارکنان ، پولیس کے عملے او ر میڈ یا کے نمائندگان کی ستائش کی۔ انہوں نے ا س بحران کے دوران خواتین سیل ہیلپ گروپوں کے قابل ذکر تعاون کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے تمل ناڈو کے کے سی موہن اور اگرتلہ کے گوتم داس ، پٹھان کوٹ کے دویانگ راجو کا بھی ذکر کیا ،جنہوں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اس بحرانی وقت میں دوسروں کی مد د کی ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے ذریعہ انجام دی گئی ملک بھر میں مختلف النوع خدمات کی داستانیں بھی عام ہورہی ہیں۔
وزیراعظم نے اس عالمی وبا سے نمٹنے میں بہت سرگرم رول ادا کرنے کے لئے لوگوں کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے ناسک کے راجیندر یادو کی مثال دی جنہوں نے ایک سوچھتا مشین تیار کی۔ جو ان کے ٹریکٹر سے جڑی تھی۔ کئی دکانداروں نے اپنی دوکانوں میں دو گز کی دوری پر عمل کرنے کے لئے بڑی پائپ لائنیں لگائیں۔
عالمی وبا کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات پر اپنا درد مشترک کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس نے سماج کے تمام طبقات کو متاثر کیا ہے تاہم ہر طرح کی مراعات سے محروم مزدور طبقہ اور کارکنان سب سے زیاد ہ متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکز ،ریاستی حکومتیں اور ادارے اورمحکمے مل کر راحت کاری کے کام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک کو اس بات کا احساس ہے کہ ہم کس دورسے گزر رہے ہیں۔ اورمرکز سے لے کرریاستیں اور مقامی بلدیاتی ادارے 24 گھنٹے مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کی تعریف کی جو ریل گاڑیوں اور بسوں میں لاکھو مزدوروں کو حفاظت کے ساتھ پہنچانے، ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے ہر ایک ضلع میں ان کے کوارنٹائن کا انتظام کرنے میں مسلسل لگے ہوئےہیں۔
وزیراعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ وقت کی ضرورت ایک نئے حل کا منصوبہ بنانے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سمت میں کئی اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کے ذریعہ حال ہی میں کئے گئے فیصلوں سے دیہی روزگار ، اپنا خود کا روزگار اور چھوٹی صنعتوں کے لئے وسیع امکانات پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے اعتماد ظاہر کیا کہ آتم نربھر بھارت مہم اس دہائی میں ملک کو زیادہ اونچائیوں پر لے جائے گی۔
وزیراعظم نے دہرایا کہ موجودہ کورونا عالمی وبا کے دوران ہر جگہ عوام الناس یوگ اور آیوروید کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا اوراسے انداز حیات کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یوگ کی ’’کمیونٹی (لوگوں)، امیونٹی (قوت مدافعت) اور یونٹی (یکجہتی)‘‘ کے لئے وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کورونا وبا کے دوران یوگ بہت اہم ہوگیا ہے، کیونکہ یہ وائرس سانس کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ یوگ میں پرانایام کی کئی قسمیں ہیں جو سانس کے نظام کو مضبوط کرتی ہیں اور اس کے مفید اثرات کو طویل مدت تک دیکھا جاسکت اہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم نے لوگوں سے آیوش کی وزارت کے ذریعہ منعقدہ بین الاقوامی ویڈیو بلاگ کمپٹیشن ’مائی لائف، مائی یوگا‘ کے لئے اپنے ویڈیو مشترک کرنے کی اپیل کی۔وزیراعظممودی نے سبھی سے اس کمپٹیشن میں حصہ لینے اور آئندہ بین الاقوامی یوگ کے دن کا حصہ بننے کی اپیل کی۔
وزیراعظم نے عالمی وبا سے نمٹنے میں حکومت کی کوششوں کی ستائش کی اور یہ شیئر کرنے میں فخر محسوس کیا کہ آیوش مان بھارت یوجنا کے استفادہ کندگان ایک کروڑ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ’آیوشمان بھارت‘ کے استفادہ کنندگان کے ساتھ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی اہلکاروں کو بھی مبارکباد دی جنہوں نے عالمی وبا کے دوران مریضوں کا علاج کیا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک طرف ہم کورونا وائرس سے لڑ رہے ہیں، اور دوسری جانب سمندر طوفان امفن جیسی آفات سے بھی۔ انہوں نے مغربی بنگال اور اوڈیشہ کے لوگوں کی جرأت اور بہادری کی تعریف کی جس کے ساتھ انہوں نے سمندر طوفان امفن سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے ان ریاستوں میں کسانوں کو ہونے والے نقصان کے لئے ہمدردی ظاہر کی اور کہا کہ یہ لوگ جس مشکل امتحان سے گزرے اور جس طریقے سے انہوں نے اپنے صبر اور پختہ عزم کا اظہار کیا ، وہ قابل تعریف ہے۔
جناب مودی نے کہا کہ سمندر آفت کے علاوہ ملک کے کئی حصے ٹڈیوں کے حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کیسے حکومت مصیبت کے دوران مسلسل کام کررہی ہے تاکہ پورے ملک میں عام آدمی کو ضروری اشیا کی کمی کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ اس مصیبت کی وجہ سے کسانوں کی مدد اور فصلوں کے نقصان کو کم کرنے کے لئے مرکز سے لیکر ریاستی حکومتیں محکمہ زراعت یا انتظامیہ تک ہر کوئی جدید تکنیکوں کو استعمال کررہا ہے۔
وزیراعظم نے موجودہ نسل کو پانی بچانے کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بارش کے پانی کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سبھی کو پانی کے تحفظ کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے اہل وطن سے قدرت کے ساتھ روز مرہ کے تعلقات بنانے کے لئے کچھ درخت لگاکر اور عزم کرکے اس ’یوم ماحولیات‘ پر قدرت کی خدمت کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن نے زندگی کی رفتار کو سست کردیا ہے، لیکن اس نے قدرت کو ٹھیک طرح سے دیکھنے کا موقع دیا ہے اور جنگلی جانوروں نے زیادہ باہر آنا شروع کردیا ہے۔
وزیراعظم نے اپنا خطاب یہ کہتے ہوئے مکمل کیا کہ لاپروا یا جذباتی ہونا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ کورونا کے خلاف لڑائی ابھی بھی اسی طرح سے سنگین ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! نمسکار،
آپ سب لاک ڈاؤن میں اس ‘من کی بات ’ کو سن رہے ہیں، اس ‘من کی بات’ کی کے لئے آنے والی تجاویز ، فون کال کی تعداد عام طور سے موصول ہونےو الی تجاویز اور فون کال سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کئی سارے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے آپ کی یہ من کی باتیں مجھ تک پہنچی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھ پاؤں، سن پاؤں ، آپ کی باتوں سے کئی ایسے پہلو جاننے کو ملے ہیں جن پر اس گہما گہمی میں دھیان ہی نہیں جاتا ہے۔ میرا من کرتا ہے کہ جنگ کے درمیان ہورہی اس ‘من کی بات’ میں ان ہی سب پہلوؤ ں کو آپ سبھی ہم وطنوں کے ساتھ بانٹوں۔
ساتھیو، ہندوستان کی کورونا کے خلاف لڑائی صحیح معنی میں پیپُل ڈرائیوین ہے۔ ہندوستان میں کورونا کے خلاف لڑائی عوام لڑرہی ہے، آپ لڑرہے ہیں، عوام کے ساتھ ملکر حکومت انتظامیہ لڑرہی ہے۔ ہندوستان جیسا وسیع ملک جو ترقی کیلئے عہد بند ہے۔ غریبی سے فیصلہ کن لڑائی لڑرہا ہے۔ اس کے پاس کورونا سے لڑنے اور جیتنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ آج پورا ملک ، ملک کا ہر ایک شہری ، ہر فرد اس لڑائی کا سپاہی ہے، لڑائی کی قیادت کررہا ہے۔ آپ کہیں بھی نظر ڈالیے آپ کو احساس ہوجائیگا کہ ہندوستان کی لڑائی پیپُل ڈرائیوین ہے۔ جب پوری دنیا اس وبا کے بحران سے جوجھ رہی ہے ، مستقبل میں جب اس کی چرچا ہوگی ، اس کے طور طریقے کی چرچا ہوگی ، مجھے یقین ہے کہ بھارت کی یہ پیپُل ڈرائیوین لڑائی ، اس کی ضرور چرچا ہوگی۔ پورے ملک میں گلی محلے میں جگہ جگہ پر آج لوگ ایک دوسرے کی مدد کیلئے آگے آئے ہیں۔ غریبوں کیلئے کھانے سے لے کر راشن کا بندوبست ہو، لاک ڈاؤن کا پالن ہو، اسپتال کا بندوبست ہو، طبی آلات کی ملک میں ہی تعمیر ہو۔ آج پورا ملک ایک ہدف ، ایک سمت، ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ تالی، تھالی، دیا، موم بتی ، ان ساری چیزوں نے جن جذبات کو جنم دیا ، جس جذبے سے ہم وطنوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ ہر کسی کو ان باتوں نے تحریک دیا۔ شہر ہو یا گاؤں ایسا لگ رہا ہے جیسے ملک میں ایک بہت بڑا مہایگیہ چل رہا ہے جس میں ہر کوئی اپنا تعاون دینے کیلئے پُرجوش ہے۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کو ہی دیکھئے ۔ ایک طرف وہ اس وبا کے درمیان اپنے کھیتوں میں دن رات محنت کررہے ہیں اور اس بات کی بھی فکر کررہے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی بھوکا نہ سوئے، ہر کوئی اپنے اپنی طاقت کے حساب سے اس لڑائی کو لڑرہا ہے۔ کوئی کرایا معاف کررہا ہے تو کوئی اپنی پوری پنشن یا انعا م میں ملی رقم کو پی ایم کیئرس میں جمع کرا رہا ہے۔ کوئی کھیت کی ساری سبزیاں عطیہ دے رہا ہے تو کوئی ہر روز سینکڑوں غریبوں کو مفت کھانا کھلا رہا ہے، کوئی ماسک بنارہا ہے ، کہیں ہمارے مزدور بھائی بہن کوارنٹائن میں رہتے ہوئے جس اسکول میں رہ رہے ہیں اس کی رنگائی پوتائی کررہے ہیں۔
ساتھیو، دوسروں کی مدد کیلئے آپ کے اندر دل کے کسی کو نے میں جو یہ امنڈتا جذبہ ہے نا وہی ، وہی کورونا کے خلاف ہندوستان کی لڑائی کو طاقت دے رہا ہے۔ وہی اس لڑائی کو سچے معنی میں پیپُل ڈرائیوین بنارہا ہے او ر ہم نے دیکھا ہے پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں یہ مزاج بنا ہے ، لگاتار مضبوط ہوتار ہا ہے، چاہے کروڑوں لوگوں کا گیس سبسیڈی چھوڑنا ہو، لاکھوں بزرگوں کا ریلوے سبسیڈی چھوڑنا ہو، سوچھ بھارت ابھیان کی قیادت کرنی ہو، بیت الخلا بنانے ہوں۔ ان گنت باتیں ایسی ہیں ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے ہم سب کو ایک من ایک مضبوط دھاگے سے پرو دیا ہے۔ ایک ہوکر ملک کیلئے کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، میں نہایت ادب ، بہت ہی احترام کے ساتھ آج 130 کروڑ ہم وطنوں کے اس جذبے کو سر جھکا کر سلام کرتاہوں۔ آپ اپنے جذبے کے مطابق ملک کے لئے اپنی دلچسپی کے حساب سے اپنے وقت کے مطابق کچھ کرسکیں اس کے لئے حکومت نے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی تیار کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم ہے ۔covidwarriors.gov.in ۔ میں دوبارہ بولتا ہوں، covidwarriors.gov.in حکومت نے اس پلیٹ فارم کے توسط سے تمام سماجی اداروں کے رضاکار ، سول سوسائٹی کے نمائندے اور مقامی انتظامیہ کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ بہت ہی کم وقت میں اس پورٹل سے سوا کروڑ لوگ جڑ چکے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ، نرسوں سے لیکر ہماری آشا ، اے این ایم بہنیں ، ہمارے این سی سی ، این ایس ایس کے ساتھی الگ الگ شعبے کے تمام پیشہ ور افراد ، انہوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنا پلیٹ فارم بنالیا ہے، یہ لوگ مقامی سطح پر بحران کے بندوبست سے متعلق منصوبہ بنانے والوں میں اور اس کے حصول میں بھی بہت مدد کررہے ہیں، آپ بھی covidwarriors.gov.in سے جڑ کر ملک کی خدمت کرسکتے ہیں، کووڈ واریئر س بن سکتے ہیں۔
ساتھیو، ہر مشکل حالات ،ہڑ لڑائی کچھ کچھ سبق دیتی ہے، کچھ نہ کچھ سکھا کر جاتی ہے ، سیکھ دیتی ہے ،کچھ امکانات کے راستے بناتی ہے اور کچھ نئی منزلوں کی سمت بھی دیتی ہے۔ اس حالات میں آپ سب ہم وطنوں نے جو عہد طاقت دکھائی ہے اس سے بھارت میں ایک نئے بدلاؤ کی شروعات بھی ہوئی ہے۔ ہمار ے بزنس ، ہمارے دفتر، ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارا میڈیکل سیکٹر، ہر کوئی تیزی سے نئے تکنیکی بدلاؤ کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے محاذ پر تو واقعی ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کا ہر ایک اختراع کار نئے حالات کے مطابق کچھ نہ کچھ نیا تیار کررہا ہے۔
ساتھیو، ملک جب ایک ٹیم بن کر کام کرتا ہے تب کیا کچھ ہوتا ہے یہ ہم تجربہ کررہے ہیں۔آج مرکزی سرکار ہو ، ریاستی سرکار ہو ان کا ہر ایک شعبہ اور ادارہ راحت کیلئے مل جل کر پوری تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ ہماری ہوابازی سیکٹر میں کام کررہے لوگ ہوں ، ریلوے ملازمین ہوں، یہ دن رات محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے شہریوں کو کم سے کم پریشانی ہو، آپ میں سے شاید بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ملک کے ہر ایک حصے میں دوائیوں کو پہنچانے کیلئے لائف لائن اڑان نام سے ایک خصوصی ابھیان چل رہا ہے ، ہمارے ان ساتھیوں نے اتنے کم وقت میں ملک کے اندر ہی تین لاکھ کلو میٹر کی فضائی اڑان بھری ہے اور 500 ٹن سے زیادہ طبی ساز وسامان ملک کے کونے کونے میں آپ تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح ریلوے کے ساتھی لاک ڈاؤن میں بھی لگاتار محنت کررہے ہیں تاکہ ملک کے عام شہریوں کو ضروری اشیاء کی کمی نہ ہو۔ اس کام کیلئے بھارتی ریلوے قریب قریب 60 سے زیادہ ریل راستے پر 100 سے بھی زیادہ پارسل ٹرین چلا رہی ہے۔ اسی طرح دواؤں کی سپلائی میں ہمارے ڈاک محکمے کے لوگ بہت اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ ہمارے یہ سبھی ساتھی حقیقی معنی میں کورونا کے واریئر ہی ہیں۔
ساتھیو، ‘پردھان منتری غریب کلیان پیکیج’ کے تحت غریبوں کےاکاؤنٹ میں پیسے سیدھے ٹرانسفر کیے جارہے ہیں، بزرگوں کیلئے پنشن جاری کی گئی ہے، غریبوں کو تین مہینے کے مفت گیس سیلنڈر راشن جیسی سہولتیں بھی دی جارہی ہیں۔ ان سب کاموں میں حکومت کے الگ الگ محکموں کے لوگ بینکنگ سیکٹر کے لوگ ایک ٹیم کی طرح دن رات کام کررہے ہیں اور میں اپنے ملک کی ریاستی سرکاروں کی بھی اس بات کیلئے تعریف کروں گا کہ وہ اس وبا سے نمٹنے کیلئے بہت سرگرم کردار ادا کررہی ہیں۔ مقامی انتظامیہ ، ریاستی سرکاریں، جو ذمہ داری نبھا رہی ہیں اس کا کورونا کے خلاف لڑائی میں بہت بڑا کردار ہے، ان کی یہ کوشش بیحد قابل تعریف ہے ۔
میرے پیارے ہم وطنو، ملک بھر میں صحت خدمات سے جڑے لوگوں نے ابھی حال ہی میں جو آرڈیننس لایا گیا ہے اس پر اپنے اطمینان کااظہا ر کرچکے ہیں۔ اس آرڈیننس میں کورونا واریئرس کے ساتھ تشدد اور انہیں کسی بھی طرح سے چوٹ پہنچانے والے لوگوں کےخلاف بیحد سخت سزا تجویز کی گئی ہے، ہمارے ڈاکٹر ، نرسیز ، طبی عملہ، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور ایسے سبھی لوگ جو ملک کو کورونا سے پاک بنانے میں دن رات مصروف ہوئے ہیں ان کی حفاظت کرنے کیلئے یہ قدم بہت ضروری تھا۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب تجربہ کررہے ہیں کہ وبا کے خلاف اس لڑائی کے دوران ہمیں اپنی زندگی کو، سماج کو، ہمارے آس پاس رونما ہورہے واقعات کو ایک تازہ نظریے سے دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے، سماج کے نظریے میں بھی مثبت بدلا ؤ آیا ہے، آج اپنی زندگی سے جڑے ہر شخص کی اہمیت کا ہمیں احساس ہورہا ہے ،ہمارے گھروں میں کام کرنے والے لوگ ہوں ، ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کام کرنے والے ، ہمارے عام کام کرنے والے ہوں، پڑوس کی دوکانوں میں کام کرنے والے لوگ ہوں، ان سب کا کتنا بڑا رول ہے ہمیں یہ تجربہ ہورہا ہے۔ اسی طرح ضروری خدمات کی ڈیلیوری کرنے والےلوگ، منڈیوں میں کام کرنے والے ہمارے مزدور بھائی بہن، ہمارے آس پڑوس کے آٹو ڈرائیور، رکشا چلانے والے ۔ آج ہم تجربہ کررہے ہیں کہ ان سب کے بغیر ہماری زندگی کتنی مشکل ہوسکتی ہے۔
آج کل سوشل میڈیا میں ہم سب لوگ لگاتار دیکھ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نہ صرف اپنے ساتھیوں کو یاد کررہے ہیں ، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں بہت عزت اور احترام سے لکھ بھی رہے ہیں۔ آج ملک ہر ایک کونے سے ایسی تصویریں آرہی ہیں کہ لوگ صفائی کرمچاریوں پر پھول برسا رہے ہیں، پہلے ان کے کام کو آپ بھی کبھی نوٹس نہیں کرتے تھے ، ڈاکٹر ہوں، صفائی کرمچاری ہوں، دیگر خدمات انجام دینے والے لوگ ہوں۔ اتنا ہی نہیں ہماری پولیس انتظامیہ کو لیکر بھی عام لوگوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے پولیس کے بارے میں سوچتے ہی منفی سو چ کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا ، ہمارے پولیس کارکنان آج غریبوں، ضرورتمندوں کو کھانا پہنچا رہے ہیں ، دوا پہنچا رہے ہیں، جس طرح سے ہر مدد کیلئے پولیس سامنے آرہی ہے اس سے پولیسنگ کا انسانی اور رحم دلی کا جذبہ ہمارے سامنے اُبھر کر آیا ہے ، ہمارے من کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ہمارے دل کو چھو لیا ہے، ایک ایسا موقع ہے جس میں عام لوگ پولیس کے ساتھ جذباتی طریقے سے جڑ رہے ہیں ، ہمارے پولیس اہلکاروں نے اسے عوام کی خدمت کے ایک موقع کے طو ر پر لیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے ان واقعات سے آنے والے وقت میں صحیح معنی میں بہت ہی مثبت بدلاؤ آسکتا ہے اور ہم سب کو اس مثبت سوچ کو کبھی بھی منفی سوچ کے رنگ سے رنگنا نہیں ہے۔
ساتھیو، ہم اکثرسنتے ہیں ۔ پرکرتی ، ویکرتی اور سنسکرتی ان الفاظ کو ایک ساتھ دیکھیں اور اس کے پیچھے کے جذبے کو دیکھیں تو آپ کو زندگی کو سمجھنے کا بھی ایک نیا راستہ کھلتاہوا دِکھے گا، اگر انسانی پرکرتی کی چرچا کریں تو ‘یہ میرا ہے’ ، ‘میں اس کا استعمال کرتاہوں’، اس کو اور اس جذبے کو بہت فطری مانا جاتا ہے، کسی کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، اسے ہم ‘پرکرتی’ کہہ سکتے ہیں، لیکن ‘ جو میرا نہیں ہے’، ‘جس پر میرا حق نہیں ہے’ اسے میں دوسرے سے چھین لیتا ہوں، اسے چھین کر استعمال میں لاتا ہوں، تب ہم اسے ‘وِیکرتی’ کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں سے پرے پرکرتی او ر ویکرتی سے اوپر جب کوئی سنسکارت ۔ من سوچتا ہے یا سلوک کرتا ہے تو ہمیں ‘سنسکرتی’ نظر آتی ہے ۔ جب کوئی اپنے حق کی چیز ، اپنے محنت سے کمائی چیز اپنے لئے ضروری چیز کم ہو یا زیادہ اس کی پرواہ کیے بنا کسی شخص کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے خود کی فکر چھوڑ کر اپنے حق کےحصے کو بانٹ کرکے کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ وہی تو ‘سنسکرتی’ ہے۔ ساتھیو، جب کسوٹی کا دور ہوتا ہے تب ان اوصاف کاامتحان ہوتا ہے۔
آپ نے پچھلے دنوں دیکھا ہوگا کہ ہندوستان نے اپنے سنسکاروں کے مطابق ،ہماری سوچ کے مطابق، ہماری سنسکرتی کا استعمال کرتے ہوئے کچھ فیصلے لیے ہیں ، بحران کی اس گھڑی میں دنیا کے لئے بھی ، طاقتور ملکوں کیلئے بھی دوائیوں کا بحران بہت زیادہ رہاہے، ایک ایسا وقت ہے کہ اگر ہندوستان دنیا کو دوائیاں نہ بھی دے تو ہندوستان کو قصوروار نہیں مانتا ،ہر ملک سمجھ رہاہے کہ ہندوستان کیلئے بھی اس کی ترجیح اپنے شہریوں کی زندگی بچانا ہے لیکن ساتھیو، ہندوستان نے پرکرتی ، ویکرتی کی سوچ سے اوپر ہوکر فیصلہ لیا ، ہندوستان نے اپنی سنسکرتی کے مطابق فیصلہ لیا ،ہم نے بھارت کی ضرورتوں کیلئے جو کرنا تھا اس کی کوشش کو تو بڑھایا ہی لیکن دنیا بھر سے آرہی انسانیت کی حفاظت کی پُکار پر بھی پورا پورا دھیان دیا۔ ہم نے دنیا کے ہر ضرورتمند تک دوائیوں کو پہنچانے کابیڑااٹھایا اور انسانیت کے اس کام کو کرکے دکھایا، آج جب میری متعدد ممالک کے رہنماؤں سے فون پر بات ہوتی ہے تو وہ ہندوستان کے عوا م کا احسان ضرور مانتے ہیں، جب وہ لوگ کہتے ہیں تھینک یو انڈیا، تھینک یو پیپل آف انڈیا ، تو ملک کیلئے فخر اور بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس وقت دنیا بھر میں ہندوستان کے آیوروید اوریوگ کی اہمیت کو بھی لوگ بڑے اہم جذبے سے دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھئے ، ہر طرف قوت مدافعت بڑھانے کیلئے کس طرح سے بھارت کے آیوروید اور یوگا کی چرچا ہورہی ہے۔ کورونا کے نقطہ نظر سے آیوش کی وزارت نے امیونیٹی (قوت مدافعت) بڑھانے کیلئے جو پروٹوکول دیا تھا مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ اس کااستعمال ضرور کررہے ہوں گے۔ گرم پانی ، کاڑھا اور جو دیگر رہنما خطوط آیوش کی وزارت نے جاری کیے ہیں وہ آپ اپنے روز مرہ میں شامل کریں گے تو آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، ویسے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ کئی بار ہم اپنے ہی طاقتوں اور مضبوط روایت کو پہچاننے سے انکار کردیتےہیں لیکن جب دنیا کاکوئی دوسرا ملک شواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر وہی بات کرتا ہے ، ہمارا ہی فارمولہ ہمیں سکھاتا ہے ، تو ہم اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ممکن ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا سبب ۔ سینکڑوں برسوں کی ہماری غلامی کا دور رہا ہے اس وجہ سے کبھی کبھی ہمیں اپنی ہی طاقت پر یقین نہیں ہوتا ہے ،ہماری خود اعتمادی کم نظر آتی ہے، اس لئے ہم اپنے ملک کی اچھی باتوں کو اپنے روایتی اصولوں کوشواہد پر مبنی تحقیق کی بنیاد پر آگے بڑھانے کے بجائے اسے چھوڑ دیتے ہیں، اسے کم تر سمجھنے لگتے ہیں، ہندوستان کی نوجوان نسل کو اب اس چنوتی کو تسلیم کرنا ہو گا ، جیسے دنیا بھر نے یوگا کو تسلیم کیا ہے ویسے ہی ہزاروں برس پرانے ہمار ے آیوروید کے اصولوں کے طریقوں کو بھی دنیا ضرور تسلیم کرے گی۔ ہاں، اس کے لئے نوجوان نسل کو عہد کرنا ہوگا اور دنیا جس زبان میں سمجھتی ہے اس سائنسی زبان میں ہمیں سمجھانا ہوگا ، کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
ساتھیو، ویسے کووڈ-19 کے سبب کئی مثبت بدلاؤ ، ہمارے کام کرنے کے طریقے، ہماری طرز زندگی اور ہماری عادتو ں میں بھی فطری طور سے اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ آپ سب نے بھی محسوس کیا ہوگا اس بحران نے کیسے الگ الگ موضوعات پر ہماری سوچ اور سمجھ کو بیدار کیا ہے جو اثر ہمیں اپنے آس پاس دیکھنے کو مل رہے ہیں ان میں سب سے پہلا ہے ماسک پہننا اور اپنے چہرے کو ڈھک کر رکھنا، کورونا کی وجہ سے بدلتے ہوئے حالات میں ماسک بھی ہماری زندگی کاحصہ بن رہا ہے۔ ویسے میں اس کی بھی عادت کبھی نہیں رہی کہ ہمارے آس پاس کے بہت سارے لوگ ماسک میں دکھیں لیکن اب ہویہی رہا ہے ۔ ہاں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو ماسک لگاتے ہیں وہ سبھی بیمار ہیں اور جب میں ماسک کی بات کرتا ہوں تو مجھے پرانی بات یاد آتی ہے، آپ سب کو بھی یاد ہوگا ، ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے کئی ایسے علاقے ہوتے تھے کہ وہاں اگر کوئی شہری پھل خریدتا ہوا دکھائی دیتا تھا تو آس پڑوس کےلوگ اس کو ضرور پوچھتے تھے ۔ کیا گھر میں کوئی بیمار ہے؟ یعنی پھل ۔ مطلب بیماری میں ہی کھایا جاتا ہے۔ ایسی ایک سوچ بنی ہوئی تھی ، حالانکہ وقت بدلااور یہ سوچ بھی بدلی، ویسے ہی ماسک کو لیکر بھی سوچ اب بدلنے والی ہے، آپ دیکھئے گا ماسک جب مہذب سماج کا عکاس بن جائے گا ، اگر بیماری سے خود کو بچانا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے، تو آپ کو ماسک لگانا پڑے گا اور میرا تو معمولی مشورہ رہتا ہے ۔ گمچھا ، منہ ڈھکنا ہے۔
ساتھیو، ہمارے سماج میں ایک اور بڑی بیداری یہ آئی ہے کہ آپ سبھی لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عوامی مقامات پر تھوکنے کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں ، یہاں وہاں ، کہیں پر بھی تھوک دینا غلط عادتوں کاحصہ بناہوا تھا، یہ سوچھتا اور صحت کو سنگین چیلنج بھی دیتا تھا، ویسے ایک طرح سے دیکھیں تو ہم ہمیشہ سے ہی اس مسئلے کو جانتے رہے ہیں، لیکن یہ مسئلہ سماج سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جب وہ وقت آگیا ہے کہ اس بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے ، کہتے بھی ہیں کہ“better late than never”۔ تو دیر بھلے ہی ہوگئی ہو لیکن اب یہ تھوکنے کی عادت چھوڑ دینی چاہئے، یہ باتیں جہاں بنیادی صفائی ستھرائی کی سطح بڑھائیں گی وہیں کورونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں بھی مدد کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، یہ حسین اتفاق ہی ہے کہ آج جب آپ سے میں من کی بات کررہا ہوں تو اکچھیہ –ترتیہ کا مقدس تیوہار بھی ہے۔ساتھیو، ‘چھیہ’ کا مطلب ہوتا ہے برباد ی لیکن جو کبھی برباد نہیں ہو ہو ‘اکچھیہ، ہے اپنے گھروں میں ہم سب اس تیوہار کو ہر سال مناتے ہیں، لیکن اس سال ہمارے لیے اس کی خصوصی اہمیت ہے۔آج کے مشکل وقت میں یہ ایک ایسا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری آتما ، ہماری بھاؤنا‘اکچھیہ’ ہے ، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ چاہے کتنی بھی مشکلات راستہ روکے ، چاہے کتنی بھی مصیبتیں آئیں، چاہے کتنی بھی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے ، ان سے لڑنے او ر جوجھنے کی انسانی جذبے ’اکچھیہ’ ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہی وہ دن ہے جس دن بھگوان شری کرشن اور بھگوان سوریہ دیو کے آشیرواد سے پانڈووں کو ‘اکچھیہ پاتر ’ملا تھا ،اکچھیہ پاتر یعنی ایک ایسا برتن جس میں کھانا کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ان داتا کسان ہر حالات میں ملک کے لئے ، ہم سب کیلئے اسی جذبے سے محنت کرتے ہیں، انہیں کی محنت سے آج ہم سب کیلئے ،غریبوں کیلئے، ملک کے پاس اکچھیہ اناج کا بھنڈار ہے۔ اس اکچھیہ ترتیہ پر ہمیں ماحولات، جنگل ، ندیوں اور پورے ماحولی نظام کے تحفظ کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو ہماری زندگی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ اگر ہم ‘اکچھیہ’ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری دھرتی اکچھیہ رہے ۔
کیاآپ جانتے ہیں کہ اکچھیہ ترتیہ کا یہ تیوہار دان کی شکتی، یعنی پاور آف گیونگ کا بھی ایک موقع ہوتا ہے۔ ہم دلی جذبے سے جو کچھ بھی دیتے ہیں حقیقت میں اہمیت اسی کی ہوتی ہے۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم کیا دیتے ہیں اور کتنا دیتے ہیں، مشکل کے اس دور میں ہماری چھوٹی سی کوشش ہمارے آس پاس کے بہت سے لوگوں کیلئے بہت بڑا نمونہ بن سکتا ہے۔ ساتھیو، جین روایت میں بھی یہ بہت مقدس دن ہے کیوں کہ پہلے تیرتھ کر بھگوان رشی بھدیو کی زندگی کا یہ ایک اہم دن رہا ہے۔ ایسے میں جین سماج اسے ایک تیوہار کی شکل میں مناتا ہے اور اس لئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ کیوں اس دن کو لوگ کسی بھی نیک کام کو شروع کرنا پسند کرتے ہیں چونکہ آج کچھ نیا شروع کرنے کا دن ہے تو ایسے میں کیا ہم سب ملکر اپنی کوششوں سے اپنی دھرتی کو اکچھیہ اور اویناشی بنانے کا عہد کرسکتے ہیں۔ ساتھیو، آج بھگوان بسویشور جی کی بھی جینتی ہے یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بھگوان بسویشورکی مورتیاں اور ان کے پیغامات سے بار بار جڑنے کا ، سیکھے کا موقع ملا ہے، ملک اور دنیا میں بھگوان بسویشور کے سبھی ماننے والوں کو ان کے یوم پیدائش پر بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو، رمضان کا بھی مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے، جب پچھلی بار رمضان منایا گیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس بار رمضان میں اتنی بڑی مصیبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا لیکن اب جب پوری دنیا میں یہ مصیبت آہی گئی ہے تو ہمارے سامنے موقع ہے اس رمضان کو خود ، آپسی بھائی چارہ، خدمت کےجذبے کا عکاس بنائیں۔ اس بار ہم پہلے سے زیادہ عبادت کریں تاکہ عید آنے سے پہلے دنیا کورونا سے پاک ہوجائے او رہم پہلے کی طرح امنگ اور خوشی کے ساتھ عید منائیں۔ مجھے یقین ہے کہ رمضان کے ان دنوں میں مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کورونا کے خلاف چل رہی اس لڑائی کو ہم اور مضبوط بنائیں گے۔ سڑکوں پر ، بازاروں میں، محلوں میں، جسمانی دوری کے اصولوں پر عمل آوری ابھی بہت ضروری ہے۔ آج ان سبھی کمیونٹی لیڈرس کے تئیں بھی شکریہ کا اظہار کرتا ہوں جو دو گز دوری اور گھرسے باہر نہیں نکلنے کو لیکر لوگوں کو بیدار کررہے ہیں۔ واقعی کورونا نے اس بار ہندوستان سمیت دنیا بھر میں تیوہاروں کو منانے کی شکل ہی بدل دی ہے۔ رنگ روپ بدل دیئے ہیں۔ ا بھی پچھلے دنوں ہی ہمارے یہاں بھی بیہو، بیساکھی، پوڈھنڈو، ویشو، اوڑیہ نیا سال، ایسے متعدد تیوہار آئے ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے کیسے ان تیوہاروں کو گھر میں رہ کر اور بڑی سادگی کے ساتھ سماج کے تئیں اچھی سوچ کے ساتھ تیوہاروں کو منایا، عام طور پر وہ ان تیوہاروں کو اپنے دوستوں اور فیملی کےساتھ پورے جوش ا ور امنگ کے ساتھ مناتے تھے ، گھر کے باہر نکل کر اپنی خوشی ساجھا کرتے تھے، لیکن اس بار ہر کسی نے صبر کیا ، لاک ڈاؤن کے اصولوں کا پالن کیا، ہم نے دیکھا ہے کہ اس بار ہمارے عیسائی دوستوں نے ایسٹر بھی گھر پر ہی منایا ہے، اپنے سماج ، اپنے ملک کے تئیں یہ ذمہ داری نبھانا آج کی بہت بڑی ضرورت ہے ، تبھی ہم کورونا کےپھیلاؤ کو روک پانے میں کامیاب ہوں گے۔ کورونا جیسی عالمی وبا کو شکست دے پائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس عالمی وبا کے بحران کے درمیان آپ کی فیملی کے ایک رکن کے ناطے اور آپ سب بھی میرے ہی کنبے کے فرد ہیں تب کچھ اشارہ کرنا ، کچھ مشورہ دینا یہ میرا فرض بھی بن جاتا ہے، میر ے ہم وطنو، میں آپ سے گزارش کروں گا۔ ہم قطعی حد سے زیادہ خود اعتمادی میں نہ پھنس جائیں ، ہم ایسا خیال نہ پال لیں کہ ہمارے شہر میں، ہمارے گاؤں میں، ہماری گلی میں، ہمارے دفتر میں، ابھی تک کورونا نہیں پہنچا ہے، اس لئے اب پہنچنے والا نہیں ہے۔ دیکھئے ایسی غلطی کبھی مت کرنا، دنیا کا تجربہ ہمیں بہت کچھ کہہ رہا ہے اور ہمارے یہاں تو بار بار کہا جاتا ہے ‘ساؤدھانی ہٹی تو دُرگھٹنا گھٹی’(احتیاط ختم ہوئی تو حادثہ رونماہوا)۔ یاد رکھئے ہمارے اسلاف نے ہمیں ان سارے معاملات میں بہت اچھا راستہ دکھایا ہے، ہمارے اسلاف نے کہا ہے
‘اگنی : شیسم ، رنا: شیسم،
ودیادھی: شیسم تتھیوچ۔
پونہ: پونہ: پرودھیت،
تسمات شیسم نہ کاریت۔
اس کا مطلب ہلکے میں لیکر چھوڑ دی گئی آگ، قرض اور بیماری موقع پاتے ہی دوبارہ بڑھ کر خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس لئے ان کا پوری طرح علاج بہت ضروری ہوتا ہے۔اس لئے بہت زیادہ خوداعتمادی میں آکر مقامی سطح پر کہیں پر بھی کوئی لاپروائی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کاہمیشہ ہمیشہ ہمیں دھیان رکھنا ہی ہوگا اور میں پھر ایک بار کہوں گا ۔ دو گز دوری بنائے رکھئے ، خود کو صحتمند رکھئے ۔ ‘دو گز دوری ،بہت ہی ضروری’۔ آپ سب کی اچھی صحت کی تمنا کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ۔ اگلے ‘من کی بات’ کے وقت جب ملیں تب اس عالمی وبا سے کچھ نجات کی خبریں دنیا بھر سے آئیں۔ انسان ان مصیبتوں سے باہر آئے۔ اسی دعا کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
My dear countrymen, generally speaking, I touch upon varied subjects in Mann ki Baat. But today, the foremost concern in everyone’s mind in the country and all over the world is the catastrophic Corona Global Pandemic. Amidst that, it will not be appropriate on my part to reflect on anything else. But first of all, I extend a heartfelt apology to all countrymen. And I strongly feel from the core of my heart that you will forgive me – since certain decisions had to be taken, resulting in myriad hardships for you. And when it comes to my underprivileged brothers and sisters, they must be wondering on the kind of Prime Minister they have, who has pushed them to the brink! My wholehearted apologies, especially to them. It is possible that many are annoyed with me for their confinement in their homes. I fully understand your situation; I can feel what you are going through. But in order to battle Corona in a country of 130 crore people such as India, there was no other option. The fight against Corona is one between life and death itself…we have to win. And that is why such strong measures had to be resorted to. No one wants to go that way; looking at what the world is going through, this was the only way left. After all, the safety of you and your families has to be ensured. Once again, I apologize for any inconvenience, any hardship caused to you. Friends, we have an adage-“ Evam Evam Vikar, api tarunha Saadhyate Sukham”… which means, an illness and its scourge should be nipped in the bud itself. Later when it becomes incurable its treatment is very difficult. Today the whole of India, every Indian is doing just that. Brothers, Sisters, Mothers and the elderly, Corona virus has incarcerated the world. It is posing a challenge to Knowledge, science, the rich and the poor,
the strong and the weak alike. It is not confined to any nation's borders, nor does it make distinction of region or season. This virus has, in a way, obstinately picked up the gauntlet to annihilate the human race. And that is why humankind will have to rise unitedly, in the resolve to exterminate it. Some may feel that by complying with the lockdown, they are helping others! This is a misconception. This lockdown is a means to protect yourself. You have to protect yourself and your family. For the next many days, you have to continue displaying this patience; abide by the Lakshman Rekha. Friends, I know that no one wants to overstep the law and break rules wilfully. But there are some who are doing so, since they are not trying to understand the gravity of the matter. To them I will say that if they don’t comply with the lockdown rule, it will be difficult to save ourselves from the scourge of the Corona virus! The world over, many people nursed this delusion….all of them are regretting now. Friends, we are familiar with our adage “Aarogyam Param Bhagyam, Swasthyam Sarwaarth Sadhanam” -which means good health is the greatest fortune. Health is the only way to happiness in the world. In that backdrop, those breaking the rules are playing with their lives. Friends, in this war, there are many soldiers who are fighting the Corona virus, not in the confines of their homes but outside their homes. These are our front line soldiers-especially our brothers and sisters on duty as nurses, doctors and paramedical staff. These are people who have defeated corona. Today, we shall draw inspiration from them. During the course of the last few days, I spoke to a few such people over the phone, boosting their zeal, in turn raising my own enthusiasm too. I have learnt a lot from them. It was my earnest desire to share with you excerpts of the conversation I had with them, in Mann ki Baat. The first to join us is Shri RamagampaTeja Ji. He happens to be an IT professional….let’s listen to his experiences.
Yes Ram,
Ramgampa Teja: Namaste ji
PM: Yes Ram, Namaste
RT : Namaste, Namaste
PM: I have come to know that you have freed yourself from the clutches of the Corona virus!
RT: Yes
PM: I wanted to talk to you. Since you just came out of the danger zone, I wanted to listen to your experience.
RT: I am an employee of the IT sector. I had gone to Dubai for work; for meetings. It just happened willy-nilly. On my return it began with a fever. After 4 or 5 days, doctors conducted a test for Corona virus. It turned out positive. I was admitted to Gandhi Hospital, Government Hospital, Hyderabad, where I recovered after 14 days and was discharged. All this was a bit scary.
PM: You mean when you came to know of the infection?
RT: Yes
PM: And did you know earlier that virus was dangerous and could put you in trouble?
RT: Yes
PM: So, when it happened to you, what was your immediate response?
RT: First...I was very scared, not ready to believe that it had happened. And how? Because in India, there were only two or three cases, I didn’t know anything about it. When I was admitted to the hospital, they kept me in a quarantine. The first 2-3 days passed just like that. But the doctors and nurses there…
PM: Yes!
RT: They were very nice to me. They would call me up and talk to me and give me confidence that nothing will happen, I would be okay, they kept on saying. Twice or thrice a day, doctors would speak to me...nurses too. So first I was afraid, but later I felt I was with very good people, who knew what to do. I felt I would get better.
P.M : How were family members feeling?
R.T : When I was admitted to the hospital. Everyone was under stress. Media also created some problem there. Everyone’s attention was drawn to it. But yes. First they all had to undergo a test. The result was negative, which was the biggest blessing for us, for our family and all those around me. After that, there was improvement each day. Doctors were talking to me and informing family too.
P.M. : What precautions did you take? What precautions were there for family?
R.T : When the family first came to know, I was in quarantine. But even after quarantine, doctors told me to stay at home for 14 days…House quarantine for myself in my room. So even after coming home, I am at home mostly in my room, wearing a mask the whole day. When I come out for food, hand washing is most important.
PM: Fine Ram! You’ve returned to good health. Good wishes to you and family.
RT: Thank you.
PM: But I want this experience of yours
RT: Yes!
PM: You are from the IT profession,
RT: Yes
PM: So make an audio and…
RT: Yes
PM: Share it with people, make it viral on social media. What will happen is, people will not be scared and at the same time, points on adequate care and preventive measures will easily reach people.
RT: Yes, when I came out, I saw people feeling that being in quarantine is like being in a jail. It is not like that. Everyone should know that government quarantine is for their sake; for their families. On that I would like to ask maximum people to get the test done and not be afraid of quarantine. There should be no stigma attached to being on quarantine.
PM: Fine Ram. Many good wishes to you.
RT: Thank you, Thank you.
PM: Thank you Bhaiyya…Thanks a lot.
RT: Thank you.
Friends, as Ram said, he followed Doctor’s instructions fully when suspected of having Corona. And as a result, he is leading a healthy, normal life today. Another friend, who has defeated Corona is joining us now. His entire family had come under the clasp of this scourge, including a teenage son. Come let us speak to Shriman Ashok Kapoor from Agra.
PM: Ashok ji, Namaste!
Ashok Kapoor: Namaskar ji! I am lucky to be talking to you.
PM: Fine. Am fortunate too. I called you up, since your entire family had to hear the brunt.
AK: ji ji.
PM: I would certainly like to know as to how this infection was diagnosed. What had happened? What happened in the hospital? So that, after listening to you, if something important is to be conveyed to countrymen, I can use that.
AK: Absolutely Sir. I have two sons. They had gone to Italy to attend a shoe fair. We run a factory here, manufacturing shoes.
PM: Yes!
AK: So, when they returned from Italy...
PM: Yes!
AK: Our son in law too had gone there. He stays in Delhi. Feeling a health problem, He went to Ram Manohar Lohiya hospital.
PM: Ok
AK: They said it was positive. They shifted him to Safdurjung.
PM: Yes
AK: They called us up asking both my sons to get tested since they had been with him. Both sons went to Agra District hospital. There they were asked to call family members also. Just for a check. Ultimately all of us went there.
PM: Hmm…
AK: The next day they confirmed six of us positive... both my sons, myself, my wife, my son’s wife and my sixteen year old grandson...By the way, I am 73. I was told to take all of them to Delhi.
PM: O my God!
AK: But we didn’t fear. We thought it was good we came to know. We went to Safdarjung Hospital, Delhi. The Agra Doctors provided us with two ambulances. And we were not charged for that. We are grateful to them and the administration for their efforts and co-operation.
PM: You came in an ambulance!
AK: Yes. We were seated normally inside. Doctors accompanied us till Safdarjung Hospital where their doctors were waiting at the gate. They shifted us to a ward.
All six of us had separate rooms. The rooms were good; had everything. And then Sir, we stayed at the Hospital alone for 14 days. And as far as doctors are concerned, they were very helpful and treated us well….same for staff.
Sir, actually, when they used to enter wearing their dress, one could not make out if it was a doctor or a ward boy or nurse. We would obey their instructions fully. There we did not face even one percent problem.
PM: You come across as someone with immense self confidence.
AK: Sir, I am perfect...Yes. I have earlier undergone a knee surgery also. Even then I am perfect.
PM: No, but since your entire family went through a bad time, including the young sixteen year old…
AK: And Sir, it was time for his ICSE papers! We said no…that can be thought of later. If life stays on, all papers will be managed. Not to worry.
PM Modi: That is true. Your experience in life came to be of use in this crisis and imparted confidence as well as courage to the entire family.
Ashok Kapoor: Yes, we all went there, the entire family, we supported each other and though we did not meet, we would talk on the phone. We wouldn’t meet but the doctors took complete care of us –to the maximum extent possible. We are grateful to them for their compassion. The staff nurses took full care of us.
PM Modi: Let me extend my best wishes to you and your entire family.
Ashok Kapoor: Thank you ji | Thanks | We are all very happy that I have spoken to you.
PM Modi: No! It is a pleasure for us.
Ashok Kapoor: Even then, Sir, I speak for all of us, if it is needed to go anywhere to spread awareness, or to do something, we are ready at all times.
PM Modi: No, in your own way, do it in Agra. If someone is hungry, feed him, be empathetic to the poor, and follow the rules. You must explain to the people that your family was in the clutches of this disease, but you managed to save your family by following the rules, if everyone follows the rules then the country too will be saved.
Ashok Kapoor: We sir, Modi sir, we have shot our videos, and sent them to the TV channels.
PM Modi: Good.
Ashok Kapoor: The channels have also telecast them so awareness can be spread in people and…
PM Modi: This should be streamed in social media also so they become popular.
Ashok Kapoor: Yes. Yes. And in our colony where we live, it is a neat and clean colony, we have told everyone that, look, we have come back from Quarantine, so do not be afraid. If anyone has a health scare, go and get it tested. And those who met should also get their tests done, and remain protected by the mercy of God. Yes sir.
PM Modi: Alright. I wish everyone all the best.
Friends, we pray for the long life of Ashok ji and his entire family. As he mentioned, without panicking, following the right steps on time, contacting doctors on time without getting afraid and by taking proper precautions, we can defeat this pandemic. Friends, to know the capability with which we are dealing with this pandemic at the medical level, I also spoke to some doctors who are leading the front line in this battle. Their daily activity is synchronous with that of their patients. We now joined by Dr. Nitesh Gupta from Delhi…
PM Modi: Hello doctor.
Dr. Nitesh Gupta: Hello Sir
PM Modi: Namaste Niteshji, you are right there on the front, so I want to know what is the mood of the rest of your colleagues in the hospitals? Tell us how is it?
Dr. Nitesh Gupta: Everyone's mood is upbeat. Your blessings are with everyone. Whatever cause you are supporting in the given hospital or whatever we are asking for in line treatment, you are providing it all. So, we are engaged in exactly the same way just like the army battles on the border! And, our only duty is to get the patient back home after being cured.
PM Modi: You are right! This is a war-like situation and you all are managing a frontline.
Dr. Nitesh Gupta: Yes sir.
PM Modi: You must also be counselling the patient along with his treatment?
Dr. Nitesh Gupta: Yes sir that is the most important thing. Because the patient gets traumatized upon hearing what is happening with him. They have to be explained that there is nothing to fear and post quarantine lasting 14 days he will be fine and return home for sure!. So far we have managed to send 16 such patients home.
PM Modi: So what comes across over-all when you converse with such scared patients, are they plagued by worries?
Dr. Nitesh Gupta: They think mostly about what will happen next? What will happen now? It is because what they witness in the outside world with morbid mortality rates and wonder if the same will happen to them! So we explain to them which one of their afflictions will be cured during a particular time frame. We counsel them that their case is very mild akin to a case with a common cold and since one gets well in five-seven days, they too will be fine after a similar period of convalescence. Then we will tell them that after tests which are bound to report as negative and then they can be send home. So that's why we visit them repeatedly after intervals of two-three-four hours, we meet them, ask about their wellbeing. They also feel comfortable throughout the day.
PM Modi: So they have their confidence restored after being scared initially?
Dr. Nitesh Gupta: Initially, they are scared, but when we have counselled and by the second or third day when they start recovering, they also start believing that they can be cured.
PM Modi: But do all the doctors are imbued with the feeling that the work of rendering the greatest service in their lives has to be shouldered by them, is this emotion shared by all of them?
Dr. Nitesh Gupta: Yes, it is. We keep our team motivated to the utmost extent that there is nothing to fear, and there is no such thing that we should fear! If we observe precautions thoroughly, and explain these precautions to the patient that he is to follow, then everything will be fine.
PM Modi: Ok Doctor, a large amount of patients come to you and you are absolutely devoted to their cause. It was nice talking to you. But in this battle, I'm with you! Keep on fighting
Dr. Nitesh Gupta: We seek your blessings. This is what we wish.
PM Modi: Many good wishes Bhaiya
Dr. Nitesh Gupta: Sir Thank you.
PM Modi: Nitish ji, plenty of plaudits to you. Due to efforts of people like you, India will surely achieve victory in the battle against Corona. I urge you to take care of yourself...take care of your loved ones...take care of your family. The world’s experience tells us that in this illness, the number of patients infected with it suddenly grows exponentially. On account of this sudden rise, we have seen the best health systems crumble. In order to ensure that India does not have to face such a situation, we have to keep trying ceaselessly. Another doctor joins us from Pune...Shriman Doctor Borse.
PM Modi: Namaste Doctor
Doctor: Namaste Namaste
PM Modi: You are working relentlessly in the true spirit of ‘Service to Mankind is service to God’. I want to speak to you today on something that will be a message for our countrymen. Firstly, a question that strikes the minds of many is when to contact doctors and when to go for the Corona test! As a doctor, you have dedicated yourself completely in the service of patients. Your words carry weight. I want to hear it from you.
Doctor: Sir, I am a Professor at B.J.Medical College, Pune. And in Pune, there is a Muncipal Corporation Hospital, named Naidu Hospital. It has a fully functional screening centre since Januray 2020. Here till date, 16 Covid -19 positive cases
have been diagnosed. And out of those 16 cases, after due quarantine, isolation and treatment, 7 patients have been discharged Sir. And the remaining nine cases are also very stable and doing well. Despite the virus being inside their bodies, they are getting well; they are recovering out of the Corona virus. Here the sample size is tiny Sir...only 16 cases. But cases of the young population getting affected are coming to light. And despite that, the disease itself is not that serious a disease. It’s a mild disease and patients are successfully recovering. And those remaining 9 people are also going to be well, they are not going to deteriorate, we are keeping a watch on them on a daily basis. They are also going to be well in another 4-5 days. From people who come here as suspects; international travellers and those who come into contact with them...we take a swab... oropharyngeal and nasal. If the nasal swab report is positive, the patient is being admitted to the positive ward. If negative, we advise the patient on home quarantine, how it is to be done at home. After this advice, they are sent home.
PM Modi: What do you explain to them? While at home what aspects do you elucidate to them?
Doctor: Sir, even if one stays at home, one has to stay quarantined there. Observing a 6 feet distance is mandatory. Secondly, one has to use a mask and wash hands very frequently. If you do not have sanitisation, you can use simple soap and water to wash hands, but you have to keep doing it frequently. And while coughing or sneezing, use a simple handkerchief to cough on, so that droplets are not able to spread, nor fall on the floor, thus preventing hand contact and further spread. We explain this Sir. The second thing is, when they are supposed to be in a home quarantine, they are not supposed to leave home at all. During the current lockdown, they ought to be home quarantined properly for a minimum of 14 days...we are informing them, this is our message to them Sir.
PM Modi: Fine Doctor, you are doing a great service and with selfless dedication...your entire team is at work. I firmly believe that all our patients there return home safely. We shall win this battle...it will be victory for the country...with the help from all of you.
Doctor: Sir we believe we shall overcome. We shall win this battle.
PM Modi: Doctor, many good wishes to you. Thank You.
Doctor: Thank you, Thank You Sir.
Friends, all these people, all these friends are persevering to the best extent possible to chase out this scourge. What they tell us is not just for us to listen to; it is to be practised in life in the truest spirit. Today when I witness the sacrifice, perseverance and dedication on part of doctors, I am reminded of the touching words of Acharya Charak while referring to doctors. And it is so visible in Doctor’s lives today! Acharya Charak had said...
Na Aatmarthan Na Api Kaamartham Atbhoot Dayam Prati
Vartate yat Chikitsaym Sa Savarma Iti Vartate
Which means: The one who strives for his patient’s well being in the spirit of service and compassion, with no desire, monetary or otherwise, is the greatest Doctor.
Friends, today I salute the embodiment of humanity...the Nurse. The selfless spirit of service with which you perform your duty is beyond compare. It’s a coincidence that the world is celebrating year 2020 as the International year of the Nurse and Midwife. This goes back 200 years ago, i.e. 1820, the year that is associated with the birth of Florence Nightingale who lent a new identity, a new paradigm to the term ‘Service to humanity’ and the field of Nursing, taking it to newer heights. Dedicated to the spirit of service of every nurse in the world, this year has come as a challenging examination for the entire Nursing community...I believe, all of you will not only clear the exam successfully, you will also save many lives.
We are able to fight a battle on such a massive scale, only on account of the zeal and grit of frontline warriors like you...Be you a Doctor, a nurse, a para medic, Aasha, an ANM worker, sanitation worker, the country is also concerned about your health. Keeping that in mind , for around 20 lakhs colleagues from these fields, the government has announced a health insurance cover of upto Rs 50 lakhs, so that in this battle, you can lead the country with greater self confidence.
My dear countrymen, in this battle against Corona virus we have many examples of real heroes in the society. People who are at the forefront even in these conditions. On the Narendra Modi app, the Namo app, Niranjan Sudhaakar Hebbaale of BengaLuuru has written, that such people are daily life heroes. And that is quite right too. These are people due to whom our daily life runs smoothly.
Just imagine, if the water in your taps runs dry for just a day, or there is a sudden power outage in your house. At that time, it is these daily life heroes who banish
our troubles. Think about the small retail store in your neighbourhood. In these troubled times, he too is taking a great risk. After all, for whom? Isn't it because he wants to ensure that you do not face any difficulty in buying essential goods? Similar to that, think about those drivers and workers, who are continuing to work ceaselessly, so that the nation's supply chain of essential goods is not disrupted. You might have noticed that the government has kept the banking services open. And those working in the banking sector are there at your service – with full commitment and dedication – leading us in this fight. These services are not trivial at a time like this. We cannot thank these bank personnel enough for their service. Many of our friends are engaged with e-commerce companies as delivery personnel. These people are continuing delivering grocery even in these trying times.
Just think, as you watch television during this lock down, using the phone and internet even while being home bound, someone is working hard to ensure that these services continue uninterrupted. During this time, many of you are able to make digital payments with ease, many people are working hard to facilitate that. These are the people who are bearing the burden of the country's work during this lock down. On behalf of all countrymen, today I wish to express my gratitude to all these people, and request them, that they follow all the safety precautions, take care of themselves and their family members.
My dear countrymen, I have come to know of some instances, that some of those people who were suspected to have corona virus and asked to stay in home quarantine, are being ill-treated by others. I am greatly pained to learn of these instances. This is very unfortunate. We need to understand that in the current circumstances, we need to ensure social distance, not human or emotional distance. These people are not criminals. They are merely suspected to be infected with the virus. These people have isolated and quarantined themselves to protect other people from getting infected. At many places, people have taken
their responsibilities very seriously. They have quarantined themselves even when they were asymptomatic. They did so because they had travelled abroad recently and were being doubly cautious. They wanted to ensure that nobody else got infected by this virus. So when people are behaving so responsibly, it is unfair to ill-treat them. On the contrary, they need to be shown sympathy and cooperation.
Social distancing is the most effective way of fighting against corona virus. But we have to understand that social distancing does not mean ending social interaction. Actually, this is the time to give a new lease of life to all your existing social relationships. To energise these relationships. In a way, this time teaches us to reduce emotional distance and increase social distance. Yashvardhan from Kota have written on the Namo app, that they are increasing family bonding during the lock down. They are playing cricket and board games with kids; p reparing new dishes in the kitchen. Nirupama Harsheya from Jabalpur writes on the Namo app, that she finally got an opportunity to fulfil her wish to make a quilt. On top of that she is also fulfilling her gardening hobby. I also happened to read the posts of Pareekshit from Raipur, Aaryaman from Gurugram and Suraj from Jharkhand, and they have discussed about having an e-reunion with their school friends. Their idea is very interesting. It's possible that you too might not have gotten a chance to talk to your school and college mates for decades. You too can try out this idea. Pratyush of Bhubaneswar and Vasudha of Kolkata have mentioned that they are reading books that they had hitherto not been able to read. I also saw on social media, that many people took out musical instruments like table and Veena that were lying unused for years– and started practising on them. You too can do that.
That will not only give you the joy of music, but also take you on a trip down the memory lane. In this crisis, you have got a rare opportunity to not only connect with yourself but also with your passion. You will also get an opportunity to connect with your old friends and with your family.
Shashi ji from Roorke has asked me on the Namo App - what do I do for my fitness during the lock down? How do I observe the Navaraatri fast in these circumstances? Let me reiterate, that although I have urged you to
avoid stepping out of your houses, I have also given you an opportunity to take a look inwards at yourself. This is your chance, don't go out, but go inside, try to know yourself. As far as the navaraatri fast is concerned, that is between me and my faith and the supreme power. As regards fitness, I think that will be quite a lengthy topic, so what I'll do is, I'll upload some videos on this topic on the social media. You can surely see those videos on the Namo app. What I do, possibly, can aid and inspire some of you. But do remember, that I am not a fitness expert, I am also not a yoga teacher. I am merely a practitioner. I do concede however, that some yogaasanaas have greatly benefited me. It's possible that some of these tips might help you too during the lock down.
Friends, this battle against corona is unprecedented as well as challenging. Hence the decisions being taken during this time are unheard of in the history of the world. The steps being taken by Indians to stop the spread of corona, the efforts that we are currently making, will ensure that India conquers this corona pandemic. The determination and restraint of each Indian will also aid in facing this crisis. In addition, our sympathy for the poor should also be far greater. Our humanity stems from the fact that whenever we see a poor or hungry person, we first try and feed him or her in this time of crisis. We should think of their needs and India can do this. These are a part of our values and culture.
My dear countrymen, today every Indian is confined to the home, to ensure his or her own safety, but in the times to come, the very same Indian will tear down all walls on the road to our progress and take the country forward. Stay at home with your family, be careful and safe, we need to win this battle. And we will win. We will meet in Man ki baat again next month. By then we should have overcome this crisis – with this hope, and this wish, I thank you all.
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ‘من کی بات’ کے توسط سے مجھے کَچھ سے لے کر کوہیما ، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ، ملک بھر کے سبھی شہریوں کو ایک بار پھر نمسکار کا موقع ملا ہے۔ آپ سب کو نمسکار! ہمارے ملک کی عظمت اور تنوع اس کو یاد کرنا، اس کو نمن کرنا ، ہر ہندوستانی کو فخر سے معمور کر دیتا ہے ۔ اور اسی تنوع کے احساس کا موقع تو ہمیشہ ہی مغلوب کر دینا والا ، لطف انگیز ، ایک طرح سے ترغیب کا پھول ہوتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے میں نے دہلی کے ہنر ہاٹ میں ایک چھوٹی سی جگہ میں ، اپنے ملک کی عظمت، ثقافت، روایات، کھانا پینا اور جذبات کی رنگارنگی کا مشاہدہ کیا۔ روایتی ملبوسات، دستکاری، قالین ، برتن، بانس اور پیپل کی پیداوار، پنجاب کی پھلکاری، آندھر پردیش کا شاندار چمڑے کا کام، تمل ناڈو کی خوبصورت پینٹنگ، اتر پردیش کے پیتل کی مصنوعات، بھدوہی کی قالین ، کَچھ کے تانبے کی مصنوعات، متعدد آلات موسیقی، بے شمار باتیں، پورے ہندوستان کی فنکاری اور ثقافت کی جھلک، واقعی انوکھی ہی تھی اور ان کے پیچھے دستکاروں کی لگن اور اپنے ہنر کے تئیں پریم کی کہانیاں بھی ، بہت ہی تحریک کا باعث ہوتی ہیں۔ ہنر ہاٹ میں ایک معذور خاتون کی باتیں سن کر بڑا اطمینان ہوا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پہلے وہ فٹ پاتھ پر اپنی پینٹنگ بیچتی تھی ۔ لیکن ہنر ہاٹ سے جڑنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی۔ آج وہ نہ صرف خود انحصار ہے بلکہ انہوں نے خود کا ایک گھر بھی خرید لیا ہے۔ ہنر ہاٹ میں مجھے کئی اور دستکاروں سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہنر ہاٹ میں حصہ لینے والے کاریگروں میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ اور گذشتہ تین برسوں میں ہنر ہاٹ کے توسط سے تقریباً تین لاکھ کاریگروں، دستکاروں کو روزگار کے متعدد مواقع ملے ہیں۔ ہنر ہاٹ ، فنکاری کی نمائش کے لیے پلیٹ فارم تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ یہ لوگوں کے خوابوں کو بھی پَر دے رہا ہے۔ایک جگہ ہے جہاں اس ملک کے تنوع کو نظر انداز کرنا ناممکن ہی ہے۔ دستکاری تو ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ ہمارے کھانے پینے کا تنوع بھی ہے۔ وہاں ایک ہی قطار میں اِڈلی ڈوسا، چھولے بٹورے، دال باٹی، کھمن کھانڈوی نہ جانے کیا کیا تھا۔ میں نے خود بھی بہار کے ذائقہ دار لِٹّی چوکھا کا لطف اٹھایا، بھرپور لطف اٹھایا۔ ہندوستان کے ہر گوشے میں ایسے میلے ، نمائشوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ ہندوستان کو جاننے کے لیے ، ہندوستان کو محسوس کرنے کے لیے جب بھی موقع ملے ، ضرور جانا چاہیے۔ ‘ایک بھارت –شریشٹھ بھارت’ کو جی بھر جینے کا یہ موقع بن جاتا ہے۔ آپ نہ صرف ملک کی فنکاری اور ثقافت سے جڑیں گے بلکہ آپ ملک کے محنتی کاریگروں کی خاص طور پر خواتین کی خوشحالی میں اپنا حصہ دے سکیں گے – ضرور جائیے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہمارے ملک کی عظیم روایات ہیں ۔ ہمارے اجداد نے ہمیں جو وراثت میں دیا ہے ، جو تعلیم اور شعور ہمیں ملا ہے ، جس میں جانداروں کے تئیں رحم کا جذبہ، فطرت کے تئیں بے پناہ محبت، یہ ساری باتیں، ہماری ثقافتی وراثت ہیں اور ہندوستان کے اس ماحول میں مہمان نوازی کا لطف لینے کے لیےپوری دنیا سے مختلف نسلوں کے پرندے بھی ، ہر سال ہندوستان آتے ہیں۔ ہندوستان پورے سال نقل مکانی کرکے آنے والے کئی پرندوں کا آشیانہ بنا رہتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتےہیں کہ یہ جو پرندے آتے ہیں، پانچ سو سے بھی زیادہ، مختلف قسم کے اور مختلف علاقوں سے آتے ہیں۔ گذشتہ دنوں گاندھی نگر میں ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ جس میں اس موضوع پر کافی غور و خوض بھی ہوا اور ہندوستان کی کوششوں کی بہت ستائش بھی ہوئی ۔ ساتھیو، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ آنے والے تین سالوں تک نقل مکانی کر کے آنے والے پرندوں پر ہونے والے ‘سی او پی – 13 کنونشن ’ کی صدارت کرے گا۔ اس موقع کو کیسے مفید بنائیں ، اس کے لیے آپ اپنے آراء ضرور بھیجیں۔
سی او پی کنونشن پر ہو رہی اس مباحثے کے درمیان میرا دھیان میگھالیہ سے جڑی ایک اہم جانکاری کی طرف بھی گیا۔ حال ہی میں حیاتیات کے ماہرین نے مچھلی کی ایک ایسی نئی نسل کی دریافت کی ہے جو صرف میگھالیہ میں غاروں کے اندر پائی جاتی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ مچھلی غاروں میں زمین کے اندر رہنے والے آبی جانداروں کی نسلوں میں سے سب سے بڑی ہیں۔ یہ مچھلی ایسے گہرے اور اندھیرے زیر زمین غاروں میں رہتی ہے، جہاں روشنی بھی شاید ہی پہنچ پاتی ہے۔ سائنس داں بھی اس بات سے حیران ہیں کہ اتنی بڑی مچھلی اتنے گہرے غاروں میں کیسے زندہ رہتی ہے؟ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ہندوستان اور خاص طور پر میگھالیہ ایک نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہ ہندوستانی کی حیاتیاتی تنوع کو نئی منزل عطا کرنے والا ہے۔ ہمارے اِرد گرد ایسے بہت سے عجوبے ہیں جن کی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہے۔ ان عجائب کا پتہ لگانے کے لیے تلاش کرنے کا جنون ضرور ہوتا ہے۔
عظیم تمل شاعرہ اوویّار نے لکھا ہے ،
‘‘کٹّت کماووں کلّا درو اڈگڑوو، کڈّت کییمن اڑوا کلّادر اولاآڈو’’
اس کا مطلب ہے کہ ہم جو جانتے ہیں ، وہ محض مٹھی بھر ایک ریت ہے لیکن جو ہم نہیں جانتے ہیں ، وہ اپنے آپ میں پوری کائنات کے برابر ہے۔ اس ملک کی تنوع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے جتنا جانیں اتنا کم ہے۔ ہماری حیاتیاتی تنوع بھی پوری انسانیت کے لیے انوکھا خزانہ ہے جسے ہمیں سنوارنا ہے، حفاظت کرنی ہے اور تلاش بھی کرنی ہے۔
میرے پیارے نوجوان ساتھیو، اِن دنوں ہمارے ملک کے بچوں میں ، نوجوانوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کے تئیں دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خلاء میں ریکارڈ سٹیلائٹ کا بھیجا جانا، نئے نئے ریکارڈ، نئے نئے مشن ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کر دیتے ہیں۔ جب میں چندریان-2 کے وقت بنگلورو میں تھا، تو میں نے دیکھا تھا کہ وہاں موجود بچوں کا جوش دیکھنے کے قابل تھا۔ نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ ایک طرح سے پوری رات وہ جاگتے رہے ۔ ان میں سائنس، ٹکنالوجی اور اختراعات کو لے کر جو تجسس تھا وہ ہم کبھی بھول نہیں سکتے ہیں۔ بچوں کے ، نوجوانوں کے ، اسی جوش کو فروغ دینے کے لیے ، ان میں سائنسی رجحان کو بڑھانے کے لیے ایک اور انتظام شروع ہوا ہے۔ اب آپ شری ہری کوٹا سے ہونے والے راکٹ لانچنگ کو سامنے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ حال ہی میں ، اسے سب کے لیے کھول دیا گیا ہے۔وزیٹر گیلری بنائی گئی ہے جس میں 10 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہے ۔ اسرو کی ویب سائٹ پر دیے گئے لنک کے ذریعہ آن لائن بکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کئی اسکول اپنے طالب علموں کو راکٹ لانچنگ دکھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹور پر بھی لے جارہے ہیں۔ میں سبھی اسکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ سے درخواست کروں گا کہ آنے والے دنوں میں وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔
ساتھیو، میں آپ کو ایک اور دلچسپ جانکاری دینا چاہتا ہوں ۔ میں نمو ایپ پر جھارکھنڈ کے دھنباد کے رہنے والے پارس کا کمنٹ پڑھا ۔ پارس چاہتے ہیں کہ میں اسرو کے ‘یوویکا’ پروگرام کے بارے میں نوجوان ساتھیوں کو بتاؤں۔ نوجوانوں کو سائنس سے جوڑنے کے لیے ‘یوویکا’ اسرو کی بہت ہی قابل ستائش کوشش ہے۔ 2019 میں یہ پروگرام اسکول کے طالب علموں کے لیے شروع کیا گیا تھا ۔ ‘یوویکا’ کا مطلب ہے – ‘‘نوجوان سائنس داں پروگرام’’ ۔ یہ پروگرام ہمارے تصور ‘‘جے جوان ، جے کسان ، جے وگیان، جے انو سندھان’’ کے مطابق ہے۔ اس پروگرام میں اپنے امتحان کے بعد، چھٹیوں میں طلباء اسرو کے مختلف مراکز میں جا کر خلائی ٹکنالوجی ، خلائی سائنس اور خلائی اپلی کیشنز کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ آپ کو اگر یہ جاننا ہے ٹریننگ کیسی ہے؟ کس طرح کی ہے؟ کتنی دلچسپ ہے؟ پچھلی بار جنہوں نے اس میں شرکت کی ہے ، ان کے تجربات ضرور پڑھیں۔ آپ کو خود شرکت کرنا ہے تو اسرو سے منسلک ‘یوویکا’ کی ویب سائٹ پر جا کر اپنا رجسٹریشن بھی کرا سکتے ہیں ۔ میرے نوجوان ساتھیوں ، میں آپ کے لیے بتاتاہوں ، ویب سائٹ کا نام لکھ لیجیئے اور ضرور آج ہی وزٹ کیجئے – www.yuvika.isro.gov.in ۔ لکھ لیا نا؟
میرے پیارے ہم وطنوں، 31 جنوری 2020 کو لداخ کی خوبصورت وادیاں ، ایک تاریخی واقعہ کی گواہ بنی۔ لیہ کے کوشوک باکولا رمپوچی ایئر پورٹ سے ہندوستانی فضائیہ کے اے این – 32 جہاز نے جب اڑان بھری تو ایک نئی تاریک رقم ہوئی ۔ اس اڑان میں 10فیصد ہندوستانی بایو جیٹ ایندھن شامل کیا گیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا جب دونوں انجنوں میں محلول کا استعمال کیا گیا ۔ یہی نہیں ، لیہ کے جس ہوائی اڈّے پر جہاز نے اڑان بھری، وہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا میں سب سے بلندی پر واقع ایئر پورٹ میں سے ایک ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بایو –جیٹ ایندھن کو نان ایڈیبل ٹری بورن آئل سے تیار کیا گیا ہے ۔ اسے ہندوستان کے مختلف قبائلی علاقوں سے خریدا جاتا ہے۔ ان کوششوں سے نہ صرف کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی بلکہ کچے تیل کی در آمدات پر بھی ہندوستان کی انحصاریت کم ہو سکتی ہے۔ میں اس بڑے پروگرام سے وابستہ سبھی لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر سی ایس آئی آر، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پٹرولیم، دہرادون کے سائنس دانوں کو جنہوں نے بایو-ایندھن سے جہاز اڑانے کی تکنیک کو ممکن کر دیا۔ ان کی یہ کوشش ‘میک اِن انڈیا’ کو بھی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا نیا ہندوستان، اب پرانے طریقۂ کار کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ خاص طور پر، نیو انڈیا کی ہماری بہنیں اور مائیں تو آگے بڑھ کر ان چیلنجوں کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہیں جن سے پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہار کی پورنیہ کی کہانی پورے ملک کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو کئی دہائیوں سے سانحہ سیلاب سے لڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہاں، کاشتکاری اور دیگر آمدنی کے وسائل کو پیدا کرنا بہت مشکل رہا ہے۔ لیکن ان حالات میں پورنیا کی کچھ خواتین نے ایک مختلف راستے کا انتخاب کیا۔ساتھیو، پہلے اس علاقے کی خواتین، شہتوت یا ملبری کے درختوں پر ریشم کے کیڑوں سے کوکون تیار کرتی تھیں، جس کی انہیں بہت ہی معمولی قیمت ملتی تھی۔ جب کہ اسے خریدنے والے لوگوں نے ان کوکونوں سے ریشمی سوت بنا کر ایک موٹا منافع کمایا۔ لیکن آج پورنیہ کی خواتین نے ایک نئی شروعات کی اور پوری تصویر کو بدل کر رکھ دیا ۔ان خواتین نے حکومت کے ساتھ مل کر شہتوت کی تیاری کی۔ اس کے بعد، انہوں نے کوکونوں سے ریشم کے دھاگے بنائے اور پھر ان سوتوں سے خودہی ساڑیاں بنوانا بھی شروع کردیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پہلے جس کوکون کو فروخت کرکے معمولی رقسم ملتی تھی، وہی اب اس سے بنی ساڑیاں ہزاروں روپئے میں بک رہی ہیں۔ ‘آدرش جیویکا مہیلا ملبری پروڈکشن گروپ’ کی بڑی بہنوں نے جو کمال کئے ہیں، اس کا اثر اب کئی گاؤں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پورنیہ کے متعدد گاؤں کی کسان دیدیاں، اب نہ صرف ساڑیاں تیار کروا رہی ہیں بلکہ بڑے مالوں میں، اپنے اسٹال لگا کر فروخت بھی کر رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال آج کی خواتین کی نئی طاقت، نئی سوچ کے ساتھ کس طرح نئے مقاصدکو حاصل کررہی ہے
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک کی خواتین، ہماری بیٹیوں کا کاروبار، ان کی ہمت، ہر کسی کے لئے باعث فخر ہے۔ اپنے اردگرد ہمیں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹیاں کس طرح پرانی بندشوں کو توڑ رہی ہیں، نئی بلندیوں کو حاصل کر رہی ہیں۔ میں آپ کے ساتھ بارہ سالہ بیٹی کامیا کارتکین کے کارنامے پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ کامیا نے، صرف بارہ سال کی عمر میں ہی، ماؤنٹ ایکونکاگو، اس کو فتح کرنے کا کارنامہ کردکھایا ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے اینڈیس پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی ہے ، جو تقریبا 7000 میٹر اونچی ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس بات کا احساس ہو گا کہ جب اس مہینے کے شروع میں کامیا نے چوٹی کو فتح کیا اور سب سے پہلے وہاں، ہمارا ترنگا لہرایا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کا سر فخر سے اونچا کرنے والی کامیا، ایک نئے مشن پر ہے، جس کا نام ‘مشن ہمت’ ہے۔ اس کے تحت وہ سبھی براعظموں کی سب سے اونچی چوٹیوں کو فتح کرنے میں مصروف ہے۔ اس مہم میں اسے شمالی اور جنوبی قطب پراسکائی بھی کرنا ہے۔ میں کامیا کو ‘مشن ہمت’ کے لئے اپنی مبارکباد دیتا ہوں ۔ ویسے، کامیا کا کارنامہ بھی ہر ایک کو فٹ رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اتنی کم عمری میں، کامیا جس بلندی پر پہنچی ہے اس میں فٹنس کا بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو فٹ ہے، ایک ایسی قوم ہوگی جو ہِٹ رہے گی۔ یعنی، جو ملک فٹ ہے، وہ ہمیشہ ہِٹ بھی رہے گا۔ ویسے، آنے والے مہینے تو ایڈونچر اسپورٹس کے لئے بھی بہت موزوں ہیں۔ ہندوستان کا جغرافیہ ایسا ہے جو ہمارے ملک میں ایڈونچر کھیلوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف، جہاں اونچے ا ونچے پہاڑ ہیں، وہیں دوسری طرف، دور دور تک پھیلا ریگستان ہے۔ ایک طرف جہاں گھنے جنگلات کا بسیرا ہے، تو وہیں دوسری طرف سمندر کی لامحدو توسیع ہے۔ اس لئے میری آپ سب سے خصوصی التجا ہے کہ آپ بھی اپنی پسند کی جگہ کا انتخاب کریں، اپنی دلچسپی کی سرگرمی کا انتخاب کریں اور اپنی زندگی کو ضرور ایڈونچر کے ساتھ شامل کریں۔ زندگی میں ایڈونچر ضرور ہونا چاہئے، ویسے ساتھیو، بارہ سالہ بیٹی کامیا کی کامیابی کے بعد، جب آپ 105 سالہ بھاگیرتھی اماں کی کامیابی کی کہانی سنیں گے تو آپ حیران رہ جائیں گے۔ دوستو، اگر ہم زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر کے طالب علم کو کبھی مرنا نہیں چاہیے۔ ہماری 105 سالہ بھاگیرتھی اماں ہمیں یہی ترغیب دیتی ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھاگیرتھی اماں کون ہیں؟ بھاگیرتھی اماں کیرالہ کے کولم میں رہتی ہیں۔ بچپن میں ہی انھوں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ چھوٹی عمر میں شادی کے بعد شوہر کو بھی کھودیا۔ لیکن، بھاگیرتھی اماں نے ہمت نہیں ہاری، اپنا جذبہ نہیں کھویا۔ دس سال کی عمر میں، انھیں اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے 105 سال کی عمر میں دوبارہ اسکول کا آغاز کیا۔ پڑھنا شروع کیا۔ اتنی عمر ہونے کے باوجود بھاگیرتھی اماں نے لیول 4 کا امتحان دیا اور بے صبری سے نتائج کا انتظار کرنے لگیں۔ انھوں نے امتحان میں 75 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ صرف یہی نہیں، ریاضی میں 100 نمبر حاصل کیے ہیں۔ اماں اب مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مزید امتحانات دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے، بھاگیرتھی اماں جیسے لوگ اس ملک کی طاقت ہیں۔ تحریک کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ میں آج خاص طور پر بھاگیرتھی اماں کو سلام کرتا ہوں۔
دوستو، زندگی کی مشکل گھڑی میں، ہماری ہمت، ہماری مرضی کی طاقت کسی بھی صورتحال کو بدل دیتی ہے۔ حال ہی میں، میں نے میڈیا میں ایک کہانی پڑھی جسے میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سلمان کی کہانی ہے جو مراد آباد کے گاؤں حمیر پور میں رہتے ہیں۔ سلمان پیدائشی طور پر معذور ہے۔ ان کے پاؤں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس مشکل کے باوجود، اس نے ہمت نہیں ہاری اور فیصلہ کیا کہ وہ خود ہی اپنا کام شروع کردے گا۔ ساتھ ہی، انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ، اب وہ، اپنے جیسے مختلف معذور افراد کی بھی مدد کریں گے۔ پھر کیا تھا، سلمان نے اپنے ہی گاؤں میں چپل اور ڈیٹرجنٹ بنانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ساتھ 30 معذور ساتھی اس میں شامل ہوگئے۔ آپ یہ بھی غور کیجیے کہ سلمان کو خود چلنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس نے ایسی چپلیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو دوسروں کے چلنے میں آسان بنائے۔ خاص بات یہ ہے کہ سلمان نے، معذور ساتھیوں خود ہی ٹریننگ دی۔ اب وہ سب مل کر مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ بھی کرتے ہیں۔ اپنی محنت سے، ان لوگوں نے نہ صرف اپنے لئے روزگار کو یقینی بنایا بلکہ اپنی کمپنی کو بھی منافع میں پہنچا دیا۔ اب یہ لوگ ایک ساتھ مل کر ایک دن میں ڈیڑھ سو (150) جوڑی چپل تیار کرلیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، سلمان نے اس سال مزید 100 معذوروں کو روزگار دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ میں ان سب کے کاروبار کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ایسا ہی عزم گجرات کے علاقے کچھ میں ازرک گاؤں کے لوگوں نے بھی دکھایا ہے۔ 2001 میں تباہ کن زلزلے کے بعد ہر کوئی گاؤں چھوڑ رہا تھا، تبھی اسماعیل کھتری نامی شخص نے گاؤں میں ہی رہ کر ‘ازرک پرنٹ’ کی اپنی روایتی طرز دستکاری کو بچانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کیا تھا، قدرت کے رنگوں سے بنا ‘ازرک کالا’ ہر کسی کو پسند آنے لگا اور یہ سارا گاؤں اپنی روایتی طرز دستکاری سے وابستہ ہوگیا۔ گاؤں کے لوگوں نے، نہ صرف سیکڑوں سال پرانے اس فن کو بچایا بلکہ اسے جدید فیشن کے ساتھ بھی جوڑ دیا۔ اب بڑے ڈیزائنرز ، بڑے ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ، ازرک پرنٹ کا استعمال شروع کر چکے ہیں۔ گاؤں کے محنتی لوگوں کی وجہ سے آج ازرک پرنٹ ایک بڑا برانڈ بن رہا ہے۔ دنیا کے بڑے خریدار اس پرنٹ کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں ملک بھر میں مہا شیوراتری کا تہوار منایا گیا ہے۔ بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی برکتوں سے ملک کا شعور بیدار ہوا ہے۔ مہا شیوراتری پر بھولے بابا کا آشیرواد آپ پر بنا رہے، آپ کی تمام خواہشات شیو جی پوری کریں، آپ توانائی سے بھر پور رہیں، صحتمند رہیں، خوش رہیں اور ملک کی طرف اپنے فرائض سرانجام دیں۔
دوستو، مہا شیوارتری کے ساتھ ساتھ، بہار کی چمک میں بھی دن بدن اضافہ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں ہولی بھی ایک تہوار ہے، جلد ہی اس کے بعد گڈی پڈوا بھی آنے والا ہے۔ اس کے ساتھ نوراتری کا تہوار بھی وابستہ ہے۔ رام-نومی کا تہوار بھی آئے گا۔ تہوار اور تہوار ہمارے ملک میں معاشرتی زندگی کا لازمی جزو رہے ہیں۔ کچھ معاشرتی پیغام ہر تہوار کے پیچھے پوشیدہ ہوتا ہے، جو نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو اتحاد کا پابند کرتا ہے۔ ہولی کے بعد، ہندوستانی وکرم نئے سال کا آغاز بھی چیترا شکلا-پرتی پڈا سے ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی، ہندوستانی نیا سال، میں آپ کو نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اگلے ‘من کی بات‘ تک، مجھے لگتا ہے کہ طلباء امتحان میں مصروف ہوں گے۔ جن کا امتحان مکمل ہوچکا ہوگا، وہ خوش ہوں گے۔ جو مصروف ہیں، جو خوش ہیں، ان کو بھی بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے آیئے اگلی ‘من کی بات’ کے لئے بہت سی چیزوں کے ساتھ دوبارہ ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ! نمسکار
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔
آج 26؍ جنوری ہے۔ جشن جمہوریہ کی بہت بہت نیک خواہشات۔2020 کا یہ پہلا ‘ من کی بات’ کی ملاقات ہے۔ اس سال کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے، اس دہائی کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے۔ ساتھیو، اس بار ‘ یوم جمہوریہ’ تقریب کی وجہ سے آپ سے ‘ من کی بات’، اس کے وقت میں تبدیلی کرنا، مناسب لگا اور اِسی لئے، ایک الگ وقت مقرر کرکے آج آپ سے ‘من کی بات’ کر رہا ہوں۔ ساتھیو، دن بدلتے ہیں، ہفتے بدل جاتے ہیں، مہینے بھی بدلتے ہیں، سال بدل جاتے ہیں، لیکن، بھارت کے لوگوں کا جوش اور ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں، ہم بھی کچھ کر کے رہیں گے۔ ‘کین ڈو’، یہ ‘ کین ڈو’ کا جذبہ، عزم کی شکل ابھر رہا ہے۔ ملک اور سماج کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ، ہر دن، پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھیو، ‘ من کی بات’ کے اسٹیج پر ، ہم سب، ایک بار پھر اکٹھا ہوئےہیں۔ نئے نئے موضوعات پر بات چیت کرنے کیلئے اور اہل وطن کی نئی نئی حصولیابیوں کو جشن منانے کیلئے ، بھارت کا جشن منانے کیلئے ‘من کی بات’ شیئرنگ، لرننگ اور گرووِنگ ٹوگیدر، کا ایک اچھا اور آسان پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کی تعداد میں لوگ، اپنے مشورے، اپنی کوششیں، اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ ان میں سے، سماج کو ترغیب ملے، ایسی کچھ باتوں، لوگوں کی غیر معمولی کوششوں پر ہمیں بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔
‘ کسی نے کر کے دکھایا ہے’، تو کیا ہم بھی کر سکتے ہیں؟ کیا اُس تجربے کو پورے ملک میں استعمال کر کےایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ کیا اس کو، سماج کی ایک عام عادت کی شکل میں فروغ دے کر، اس تبدیلی کو ، مستقل بنا سکتے ہیں؟۔ ایسے ہی کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے-کرتے ، ہر مہینے ‘من کی بات’ میں ، کچھ اپیل، کچھ درخواست، کچھ کر دکھانے کے عزائم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں ہم نے بہت سے چھوٹے چھوٹے عہد لئے ہوں گے، جیسےایک ہی بار استعمال میں آ سکنے والی پلاسٹک کومسترد کرنا، کھادی اور مقامی اشیاء خریدنے کی بات، سووچھتا کی بات ہو، بیٹیوں کے احترام اور وقار کی بات ہو، لیس کیش اکنامی کا یہ نیا پہلو، اس پر زوردیناہو، ایسے ڈھیرسارے عزائم کا جنم ہماری ان ہلکی پھلکی من کی باتوں سے ہوا ہے اور اسے طاقت بھی آپ ہی لوگوں نے دی ہے ۔
مجھے ایک بہت ہی پیارا خط ملا ہے۔ بہار کے جناب شیلیش کا۔ ویسے تو ابھی وہ بہار میں نہیں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ دلی میں رہ کر کسی این جی او میں کام کرتے ہیں۔ جناب شیلیش جی لکھتے ہیں ‘‘ مودی جی آپ ہر من کی بات میں کچھ اپیل کرتے ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی چیزوں کو کیا ہے۔ ان سردیوں میں، میں نے لوگوں کے گھروں میں سے کپڑے جمع کر کے ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کئے ہیں۔ میں نے من کی بات سے لے کر کئی چیزوں کو کرنا شروع کیا ہے، لیکن پھر دھیرے دھیرے کچھ میں بھول گیااور کچھ چیزیں چھوٹ گئیں۔ میں نے اس نئے سال پر ایک من کی بات پر چارٹر بنایا ہے، جس میں ان سبھی چیزوں کی ایک فہرست بنا ڈالی ہے۔ جیسے لوگ نئے سال پرنئے سال کے لئے عہد و پیماں تیار کرتے ہیں۔ مودی جی یہ میرے نئے سال کا سماجی پیمان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کیا آپ چارٹرپر اپنا آٹوگراف دے کر مجھے واپس بھیج سکتے ہیں۔ شیلیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ اور مبارکباد۔ آپ کے نئے سال کے عہد کے لئے من کی بات چارٹر ، یہ بہت ہی اختراعاتی ہے۔ میں اپنی طرف سے مبارکباد لکھ کر اسے ضرورآپ کو واپس بھیجوں گا۔ ساتھیوں اس من کی بات چارٹر کو جب میں پڑھ رہا تھا، جب مجھے بھی حیرت ہوئی کہ اتنی ساری باتیں ہیں! اتنے سارے ہیش ٹیگس ہیں ! اور ہم سب نے مل کر ڈھیر ساری کوششیں بھی کی ہیں۔ کبھی ہم نے سندیش ٹوسولجرس کے ساتھ اپنے جوانوں سے جذباتی طورپر اور مضبوطی سے جڑنے کی مہم چلائی۔ ‘کھادی فار نیشن- کھادی فار فیشن’ کے ساتھ کھادی کی فروخت کونئے مقام پر پہنچایا۔ ‘ بائی لوکل’ کا اصول اپنایا۔ ‘ ہم فٹ تو انڈیا فِٹ’ سے فٹنس کے تئیں بیداری پیدا کی۔ ‘مائی کلین انڈیا’ یا ‘ اسٹیچو کلیننگ’ کی کوششوں سے سووچھتا کو عوامی تحریک بنایا۔ ہیش ٹیگ نوٹو ڈرگس، ہیش ٹیگ بھارت کی لکشمی ، ہیش ٹیگ سیلف فار سوسائٹی، ہیش ٹیگ اسٹریس فِری ایگزام، ہیش ٹیگ سرکشا بندھن، ہیش ٹیگ ڈیجیٹل اکنامی، ہیش ٹیگ روڈ سیفٹی، او ہو ہو! بے شمار ہیں۔
شیلیش جی آپ کے اس من کی بات کے چارٹر کو دیکھ کر احساس ہوا کہ واقعی یہ لسٹ بہت لمبی ہے۔ آئیے اس سفر کو مسلسل جاری رکھیں۔ اس من کی بات چارٹر میں سے اپنی دلچسپی کے کسی بھی کاز سے جڑیں۔ ہیش ٹیگ یوز کرکے سب کے ساتھ فخر سے اپنے تعاون کو مشترک کریں۔ دوستوں کو ، اہل خانہ کو اور سبھی کو رغبت دلائیں۔ جب ہر بھارت واسی ایک قدم چلتا ہے، تو ہمارا بھارت وَرش 130کروڑقدم آگے بڑھتا ہے۔ اسی لئے چریویتی-چریویتی-چریویتی، چلتے رہو، چلتے رہو، چلتے رہو، کا منتر لئے اپنی کوشش کرتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہم نے من کی بات چارٹر کے بارے میں بات کی۔ سووچھتا کے بعد جن بھاگیداری کا جذبہ پارٹیسپیٹیو اِسپرٹ آج ایک اور شعبے میں تیزی سے بڑھ رہی ہےاور وہ ہےجَل سنرکشن یعنی آبی تحفظ۔ آبی تحفظ کے لئے کئی وسیع اور اختراعاتی کوششیں ملک کے ہر کونے میں ہو رہی ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ مانسون کے وقت شروع کی گئی یہ جَل شکتی مہم جن بھاگیداری سے انتہائی کامیابی کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ بڑی تعداد میں تالابوں، پوکھروں آدی کی تعمیر کی گئی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس مہم میں سماج کے ہر طبقے کے لوگوں نے اپنا تعاون دیا۔ اب راجستھان کے جھارلو ضلعے کو ہی دیکھ لیجئے۔ یہاں کی دو تاریخی باؤڑیاں کوڑے اور گندے پانی کا ذخیرہ بن گئی تھیں۔ پھر کیا تھا! بھدرایوں اور تھان والا پنچایت کے سیکڑوں لوگوں نے جل شکتی ابھیان کے تحت اس کی بازیابی کا بیڑا اٹھایا۔ بارش سے پہلے ہی وہ لوگ ان باؤڑیوں میں جمعے ہوئے گندے پانی، کوڑے اور کیچڑ کو صاف کرنے میں جُٹ گئے۔ اس مہم کے لئے کسی نے شرم دان کیا، تو کسی نے دھن کا دان کیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ باؤڑیاں آج وہاں کی لائف لائن بن گئی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کہانی ہے، اترپردیش کے بارہ بنکی کی۔ یہاں 43 ہیکٹیئرعلاقے میں پھیلی سَراہی جھیل اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی، لیکن گاؤں والوں نے اپنی قوت ارادی سے اس میں نئی جان ڈال دی۔ اتنے بڑے مشن کے راستے میں انہوں نے کسی بھی کمی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ایک کے بعد ایک کئی گاؤں آپس میں جڑتے چلے گئے۔ انہوں نے جھیل کے چاروں طرف ایک میٹر اونچا پُشتہ بنا ڈالا۔ اب جھیل پانی سے لبالب ہے اورآس پاس کا ماحول پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا ہے۔
اتراکھنڈ کے الموڑہ-ہلدوانی ہائی وے سے متصل سُنیا کوٹ گاؤں سے بھی عوامی شراکت داری کی ایک ایسی ہی مثال سامنے آئی ہے۔ گاؤں والوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کیلئے خود ہی گاؤں تک پانی لانے کا عہد کیا۔پھر کیا تھا لوگوں نے آپس میں پیسے جمع کئے، منصوبہ بنایا، شرم دان ہوا اور تقریباً ایک کلومیٹر دور سے گاؤں تک پائپ بچھائی گئی، پمپنگ اسٹیشن لگایا گیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو دہائی پُرانا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ دوسری طرف تمل ناڈو میں بورویل کو رین واٹر ہارویسٹنگ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کا بہت ہی اختراعاتی تصور سامنے آیا ہے۔ ملک بھر میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایسی بے شمار کہانیاں ہیں، جو نیو انڈیا کے عزائم کو تقویت دے رہی ہیں۔ آج ہمارے جَل شکتی چمپئنس کی کہانیاں سننے کا پورا ملک شائق ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ پانی جمع کرنے اور پانی کے تحفظ کے لئے کئے گئے اپنی یا اپنے قرب و جوار میں ہورہی کوششوں کی کہانیاں، تصاویر اور ویڈیو ہیش جل شکتی فار انڈیا(#jalshakti4India) پر ضرورشیئر کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو! اور خاص طور پر میرےنوجوان ساتھیو!آج من کی بات کے ذریعے میں آسام کی حکومت اور آسام کے لوگوں کو ‘ کھیلو انڈیا’ کی شاندار میزبانی کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو! 22؍ جنوری کو ہی گوہاٹی میں تیسرے کھیلو انڈیا گیمز کا اختتام ہوا ہے۔ اس میں مختلف ریاستوں کے تقریباً 6000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کھیلوں کی اس تقریب کے اندر 80 ریکارڈ ٹوٹے اور مجھے فخر ہے کہ ان میں سے 56 ریکارڈ توڑنے کا کام ہماری بیٹیوں نے کیا ہے۔ یہ حصولیابی بیٹیوں کے نام رہی ہے۔ میں سبھی فاتحین کے ساتھ، اس میں حصہ لینے والے سبھی شرکا کو مبارکباد دیتاہوں۔ ساتھ ہی کھیلو انڈیا گیمز کے کامیاب انعقاد کےلئے اس سے وابستہ سبھی لوگوں تربیت دینے والوں او ر تکنیکی افسروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ہم سب کے لئے بہت ہی خوش آئند ہے کہ سال در سال ‘ کھیلو انڈیا گیمز’ میں کھلاڑیوں کی حصہ داری بڑھ رہی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ 2018 میں جب کھیلو انڈیا گیمز کی شروعات ہوئی تھی، جب اس میں 3500 کھلاڑیوں نے حصہ لیاتھا، لیکن محض 3 برسوں میں کھلاڑیوں کی تعداد 6000سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یعنی تقریباً دو گنی۔ اتنا ہی نہیں، صرف 3برسوں میں کھیلو انڈیا گیمز کے ذریعے 3200ہونہار بچے ابھرکرسامنے آئے ہیں۔ ان میں سے کئی بچے ایسے ہیں، جو محرومی اور غریبی کے درمیان پلے بڑھے ہیں۔ کھیلو انڈیا گیمز میں شامل ہونےوالے بچے ا ور ان کے والدین کے تحمل اور عزم مصمم کی کہانیاں ایسی ہیں، جو ہر ہندوستانی کو ترغیب دیں گی۔ اب گوہاٹی کی پورنیما منڈل کو ہی لے لیجئے۔ وہ خود گوہاٹی میونسپل کارپوریشن میں ایک صفائی ملازمہ ہیں، لیکن ان کی بیٹی مالویکا نے جہاں فُٹ بال میں دَم دکھایا، وہیں ان کے ایک بیٹے سُجیت نے کھوکھو میں ، تو دوسرے بیٹے پردیپ نے ہاکی میں آسام کی نمائندگی کی۔
کچھ ایسی ہی فخر سے بھردینے والی کہانی تملناڈو کے یوگا ننتھن کی ہے۔ وہ خود تو تمل ناڈو میں بیڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی بیٹی پورنا شری نے ویٹ لفٹنگ کا گولڈمیڈل حاصل کر کے ہر کسی کا دل جیت لیا۔ جب میں ڈیوڈ بیکھم کا نام لوں گا، تو آپ کہیں گے، مشہور بین الاقوامی فُٹ بالر، لیکن اب اپنے پاس بھی ایک ڈیوڈ بیکھم ہیں اور اس نے گوہاٹی کے یوتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا ہے، وہ بھی سائکلنگ مقابلے کے 200 میڑ کے اسپرنٹ ایونٹ میں ۔ میں جب انڈمان –نکوبار گیاتھا، کار-نکوبار جزیرے کے رہنے والے ڈیوڈ کے سرسے بچپن میں ہی والدین کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ چچا انہی فُٹ بالر بنانا چاہتے تھے، تو مشہور فٹبالر کے نام پر ان کا نام رکھ دیا، لیکن ان کا من تو سائیکلنگ میں بسا ہوا تھا۔ کھیلو انڈیا اسکیم کے تحت ان کا انتخاب بھی ہو گیا اور آج دیکھئے انہوں نے سائیکلنگ میں ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔
بھوانی کے پرشانت سنگھ کنہیا نے پول وال ایونٹ میں خود اپنا ہی نیشنل ریکارڈ بریک کیا ہے۔ 19 سال کے پرشانت ایک کسان کنبے سے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پرشانت مٹی میں پول والٹ کی پریکٹس کرتے تھے۔ یہ جاننے کے بعد محکمہ کھیل نے ان کے کوچ کو دلی کے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں اکیڈمی چلانے میں مدد کی اور آج پرشانت وہاں پر تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ممبئی کی کرینہ شانکتا کی کہانی میں کسی بھی حالت میں ہار نہیں ماننے کا ایک جذبہ ہر کسی کو تحریک دلاتا ہے۔ کرینہ نے تیراکی میں 100 میٹر بریسٹ –اسٹروک مقابلے کی انڈر-17زمرے میں گولڈ میڈل جیتا اور نیا نیشنل ریکارڈ بنایا۔ 10ویں زیر تعلیم کرینہ کے لئے ایک وقت ایسا بھی آیا، جب گھٹنے کے زخم کے سبب ٹریننگ چھوڑنی پڑی تھی، لیکن کرینہ اور ان کی ماں نے ہمت نہیں ہاری اورآج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ میں سبھی کھلاڑیوں کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنو کی طرف سے ان سب کے والدین کو بھی سلام کرتا ہوں، جنہوں نے غریبی کو بچوں کے مستقبل کا روڑا نہیں بننے دیا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ قومی کھیل مقابلوں کے ذریعہ جہاں کھلاڑیوں کو اپنا پیشن دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہیں وہ دوسری ریاستوں کی ثقافت سے بھی روبرو ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی طرز پر ہی ہر سال کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساتھیو !آئندہ ماہ 22؍ فروری سے یکم مارچ تک اڈیشہ کے کٹک اور بھونیشور میں پہلے کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز منعقد ہو رہے ہیں۔ اس میں حصہ لینے کے لئے 3000سے زیادہ کھلاڑی کوالیفائی کر چکے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! امتحان کا موسم آ چکا ہے، تو ظاہر ہے ، سبھی طلبا اپنی اپنی تیاریوں کو آخری شکل دینے میں جٹے ہوں گے۔ ملک کے کروڑوں طلبہ ساتھیوں کے ساتھ ‘ پریکشا پے چرچا’ کے تجربے کے بعد میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ملک کا نوجوان خود اعتمادی سے لبریز ہے اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہے۔
ساتھیو! ایک طرف امتحانات اور دوسری طرف سردی کا موسم۔ ان دونوں کے درمیان میری گزارش ہے کہ خود کوفِٹ ضرور رکھیں۔ تھوڑی بہت کسرت ضرور کریں، تھوڑا کھیلیں کودیں، کھیل کود فٹ رہنے کا بنیادی اصول ہے۔ ویسے میں ان دنوں دیکھتا ہوں کہ فٹ انڈیا کے تعلق سے کئی سارے ایونٹ ہوتے ہیں۔ 18؍جنوری کو نوجوانوں نے ملک بھر میں سائیکلوتھن کا انعقاد کیا، جس میں شامل لاکھوں ہم وطنوں نے فٹنس کا پیغام دیا۔ ہمارا نیو انڈیا پوری طرح سے فٹ رہے، اس کے لئے ہر سطح پر جو کوشش دیکھنے کو مل رہی ہیں، وہ جوش و جذبے سے بھر دینے والی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوئی ‘فٹ انڈیا اسکول’ کی مہم بھی اب رنگ لا رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اب تک 65000 سے زیادہ اسکولوں نے آن لائن رجسٹریشن کر کے ‘ فٹ انڈیا اسکول’ سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ ملک کے باقی سبھی اسکولوں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ فزیکل ایکٹیویٹی اور کھیلوں کو پڑھائی کے ساتھ جوڑ کر ‘ فٹ اسکول’ ضروربنیں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی معمولات زندگی میں فزیکل ایکٹیویٹی کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوادیں۔ روز اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ ہم فٹ، تو انڈیا فٹ۔
میرے پیارے ہم وطنو! 2 ہفتہ پہلے ہندوستان کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ تہواروں کی دھوم تھی۔ جب پنجاب میں لوہڑی، جوش و جذبے کی گرماہٹ پھیلا رہی تھی، تمل ناڈو کی بہنیں اور بھائی پونگل کا تہوار منا رہے تھے، ترو ولور کی جینتی منا رہے تھے، آسام میں بیہو کا دلفریب نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا، گجرات میں ہر طرف اُتّرائن کی دھوم اور پتنگوں سے بھرا آسمان تھا۔ ایسے وقت میں دلی ایک تاریخی واقعے کی گواہ بن رہی تھی۔ دلی میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً 25 سال پرانے بُرورِیانگ پناہ گزیں بحران کے ایک دردناک باب کا خاتمہ ہوا۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔ اپنے مصروف اوقات اور تہواروں کے موسم کے سبب آپ شائد اس تاریخی معاہدے کے بارے میں تفصیل سے نہیں جان پائے ہوں۔ اس لئے مجھے لگا کہ اس کے بارے میں من کی بات میں آپ سے اس کا ذکر ضرور کروں۔ یہ مسئلہ 90 کی دہائی کا ہے۔ 1997 میں نسلی کشیدگی کے سبب بُروریانگ درج فہرست قبائل کے لوگوں کو میزورم سے نکل تریپورہ میں پناہ لینی پڑی تھی.۔ ان پناہ گزینوں کو شمالی تریپورہ کے کنچن پور واقع عارضی کیمپوں میں رکھا گیا۔ یہ انتۃائی تکلیف دہ ہے کہ گروریانگ برادری کے لوگوں نے پناہ گزینوں کی شکل میں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گنوا دیا۔ ان کے لئے کیمپوں میں زندگی گزارنے کا مطلب تھا، ہر بنیادی سہولت سے محروم ہونا۔ 23 سال تک نہ گھر، نہ زمین، نہ خاندان کے لوگوں کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام اور نا ہی بچوں کی تعلیم کی فکر یا ان کے لئے سہولت۔ ذرا سوچئے کہ 23 سال تک کیمپوں میں مشکل حالات میں زندگی گزارنا ان کے لئے کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ زندگی کے ہر پل ، ہر دن کا ایک غیرمعینہ مستقبل کے ساتھ بڑھنا، کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن اتنی بڑی تکلیف کا حل نہیں نکل پایا۔ تاہم اتنی تکلیف کے باوجود ہندوستانی آئین اور ثقافت کے تئیں ان کا بھروسہ غیر متزلزل رہا اور اسی بھروسے کا نتیجہ ہے کہ ان کی زندگی میں آج ایک نیا سویرا آیا ہے۔ معاہدے کے تحت اب ان کے لئے با وقار زندگی جینے کی راہ کھل گئی ہے۔ آخر کا ر2020 کی نئی دہائی بروریانگ برادری کی زندگی میں ایک نئی امیداورامنگوں کی کرن لے کر آئی ہے۔ تقریباً 34 ہزار برو پناہ گزینوں کو تریپورہ میں بسایا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں ان کی بازآبادکاری اور جامع ترقی کے لئے مرکزی حکومت تقریباً 600کروڑروپے کی مدد بھی دے گی۔ ہر ایک بے گھر ہوئے کنبےکو زمین دی جائے گی۔ گھر بنانے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے راشن کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ وہ اب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ معاہدہ دونوں ریاستوں کے عوام کی رضا مندی اور نیک خواہشات سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس کے لئے میں دونوں ریاستوں کی عوام کا ، وہاں کے وزرائے اعلیٰ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معاہدہ ہندوستانی ثقافت میں شامل رحم اور فیاضی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سبھی کو اپنا مان کر چلنا اور اتحاد کے ساتھ رہنا اس مقدس سرزمین کے سنسکاروں میں رچا بسا ہے۔ ایک بار پھر ان ریاستوں کے باشندوں اور بروریانگ برادری کے لوگوں کو میں خاص طو رپر مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے ہم وطنو! اتنے بڑے کھیلو انڈیا گیمز کا کامیاب انعقاد کرنے والے آسام میں ایک اور بڑا کا م ہو اہے۔ آپ نے بھی نیوز میں دیکھا ہوگا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے آسام میں 8 الگ-الگ ملیٹینٹ گروپوں کے 644 لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ خودسپردگی کی، جو پہلے تشدد کی راہ پر چلے گئے تھے، انہوں نے اپنا یقین امن میں جتایا اور ملک کی ترقی میں شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی دھارے میں واپس آئے ہیں۔ گزشتہ برس تریپور ہ میں بھی 80 سے زیادہ لوگ تشدد کا راستہ چھوڑ کر قومی دھارے میں شام ہوئے۔ جنہوں نے یہ سوچ کر ہتھیار اٹھا لئے تھے کہ تشدد سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ یقین پختہ ہوا ہے کہ امن اور اتحاد ہی کسی بھی تنازعے کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم وطنو کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال-مشرق میں شورش بہت حد تک کم ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقےسے متعلق ہر ایک معاملے کو امن کے ساتھ ، ایمانداری سے، بات چیت کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں اب بھی تشدد اور ہتھیار کے زور پر مسائل کا حل تلاش کرنے والے لوگوں سےآج اس یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرنے میں اپنی اور اس ملک کی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں۔ ہم 21ویں صدی میں ہیں، جو علم و سائنس او ر جمہوریت کا دور ہے۔ کیا آپ نے کسی ایسی جگہ کے بارے میں سنا ہے، جہاں تشدد سے زندگی بہتر ہوئی ہو۔ کیا آپ نےکسی ایسی جگہ کےبارے میں سنا ہے، جہاں امن و ہم آہنگی زندگی کے لئے مصیبت بنے ہوں۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی مسئلے کا حل کوئی دوسرا مسئلہ پیدا کرنے سے نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ حل ڈھونڈ کر ہی ہو سکتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر میں جُٹ جائیں، جہاں امن، ہر سوال کے جواب کی بنیاد ہو۔اتحاد ہر مسئلے کے حل کی کوشش میں ہو اور بھائی چارہ ہر تقسیم اور بٹوارے کی کوشش کو نا کام کرے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر مجھے ‘گگن یان’ کے بارے میں بتاتے ہوئےانتہائی خوشی ہورہی ہے۔ ملک ، اس سمت میں ایک قدم اور آگے کی طرف گامزن ہے۔ 2022 میں، ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہونے والے ہیں اور اس موقع پر ہمیں‘ گگن یان مشن’ کے ساتھ ایک بھارتی شہری کو خلاء میں لے جانے کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے۔ ‘ گگن یان مشن’ 21ویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کی ایک تاریخی حصولیابی ہوگا۔ نئے بھارت کیلئے، یہ ایک ‘میل کا پتھر’ ثابت ہوگا۔
ساتھیو، آپ ک وپتہ ہی ہوگا کہ اس مشن میں ایسٹرناٹ یعنی خلانوردی کیلئے 4 امیدواروں کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ چاروں نوجوان بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ہیں۔ یہ ہونہار نوجوان، بھارت کی ہنرمندی، صلاحیت، اہلیت، ہمت اور سپنوں کی علامت ہیں۔ ہمارے چاروں دوست، اگلے کچھ ہی دنوں میں تربیت کیلئے روس جانے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بھارت اور روس کے درمیان دوستی اور تعاون کا ایک اور سنہرا باب بنے گا۔ انہیں ایک سال سے زیادہ وقت تک تربیت دی جائے گی۔ اس کے بعد ملک کی امیدوں اور توقعات کی پرواز کو خلاء تک لے جانے کا دارومدار، انہیں میں سے کسی ایک پر ہوگا۔ آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر ان چاروں نوجوانوں اور اس مشن سے مربوط بھارت اور روس کے سائنسدانوں اور انجینئروں کو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے عزیز ہم وطنو،
گزشتہ مارچ میں ایک ویڈیو، میڈیا، سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ موضوع یہ تھا کہ کیسے 107 سال کی بزرگ ماں، راشٹر پتی بھون کی تقریب میں پروٹوکول توڑ کر صدر جمہوریہ ہند کو دعائیں دیتی ہے۔ یہ خاتون تھیں، سالو مردا تھمکّا، جو کرناٹک میں ورِکش ماتا کے نام سے معروف ہیں اور وہ تقریب تھی پدم انعامات کی۔ بہت ہی عام قسم کے پس منظر سے آنے والی تھمکا کے غیر معمولی تعاون کو ملک نے جانا، سمجھا اور احترام دیا۔ انہیں پدم شری کا اعزاز مل رہا تھا۔
ساتھیو! آج بھارت ان عزیم شخصیات کو لے کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ زمین سے وابستہ لوگوں کو اعزاز سے نواز کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ ہر سال کی طرح کل شام کو پدم انعامات کا اعلان کیا گیا۔ میرا اصرار ہے کہ آپ سب ان لوگوں کےبارے میں ضرور پڑھیں۔ ان کے تعاون کے بارے میں ذکر کریں۔ 2020 کے پدم انعامات کے لئے اس سال 46 ہزار سے زیادہ نامزدگیاں حاصل ہوئی ہیں۔ یہ تعداد 2014 کے مقابلے 20گنا سے بھی زائد ہے۔ یہ اعداد و شمار عوام الناس کے اس اعتماد کا مظہر ہے کہ پدم انعامات اب عوامی انعامات بن چکے ہیں۔ آج پدم اعزاز سے متعلق سبھی عمل آن لائن ہیں۔ پہلے جو فیصلے محدود لوگوں کے درمیان ہوتے تھے، وہ آج پوری طرح سےعوا م پر منحصر ہے۔ ایک طرح سے کہیں، تو پدم اعزازات کے تئیں ملک میں ایک نیا بھروسہ اور احترام پیدا ہوا ہے۔ اب اعزاز پانےوالوں میں سے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جوسخت جدو جہدکے بعد زمین سے اٹھے ہیں۔ محدود وسائل کی رکاوٹوں اور اپنے آس پاس کی سخت ترین مایوسی کو توڑ کر آگے بڑھے ہیں۔ در حقیقت ، اس کی خدمت کے بے غرض اور بے لوث جذبے، ہم سب کو متاثرکرتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمام پدم ایوارڈ جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوںاور آپ سبھی سے ان کے بارے میں پڑھنے کیلئے اور مزید معلومات کیلئے خاص طور سے اپیل کرتا ہوں۔ ان کی زندگی کی غیر معمولی کہانیاں، معاشرے کو حقیقی معنوں میں متاثر کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو! ایک بار پھر یوم جمہوریہ کی بہت بہت مبارکباد۔ یہ پوری دہائی ، آپ کی زندگی میں ، ہندوستان کیلئے ، نئے عہد والا بنےاور دنیا کو ہندوستان سے جو توقعات ہیں، ان توقعات کو پورا کرنے کی اہلیت، ہندوستان حاصل کر کے رہے۔ یقین کے ساتھ آئیے ہم نئی دہائی کا آغاز کرتے ہیں۔ نئے عزائم کے ساتھ ، ماں بھارتی کیلئے جُٹ جاتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ! نمسکار
نئی دہلی، 29 دسمبر؍ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! 2019 کے وداع ہونے کا لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ تین دن کے اندر اندر 2019 وداع ہوگا اور ہم نہ صرف 2020 میں داخل ہوں گے، نئے سال میں داخل ہوں گے، نئی دہائی میں داخل ہوں گے، 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہوں گے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو 2020 کے لیے دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس دہائی کے بارے میں ایک بات تو یقینی ہے کہ اس میں، ملک کی ترقی کو رفتار دینے میں وہ لوگ سرگرم کردار ادا کریں گے جن کی پیدائش 21ویں صدی میں ہوئی ہے- جو اس صدی کے اہم مسئلوں کو سمجھتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے آج بہت سارے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے، کوئی انھیں ملی نیلس کی شکل میں جانتا ہے تو کچھ انھیں جنریشن زیڈ یا تو جین زیڈ یہ بھی کہتے ہیں اور وسیع طور پر ایک بات تو لوگوں کے دماغ میں فٹ ہوگئی ہے کہ یہ سوشل میڈیا جنریشن ہے۔ ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری یہ نسل بہت ہی باصلاحیت ہے۔ کچھ نیا کرنے کا، الگ کرنے کا، اس کا خواب رہتا ہے۔ اس کی اپنی رائے بھی ہوتی ہیں۔ اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے، اور خاص طور پر ، میں ،ہندوستان کے بارے میں کہنا چاہوں گا، کہ ، ان دنوں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں، تو وہ ، نظام کو پسند کرتے ہیں، سسٹم کو پسند کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ، وہ سسٹم کو ، فالو بھی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور کبھی، کہیں سسٹم صحیح طورپر کام نہ کریں تو وہ بے چین بھی ہوجاتے ہیں اور ہمت کے ساتھ، نظام کو ، سوال بھی کرتے ہیں۔ میں اسے اچھا مانتا ہوں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، انتشار کے تئیں نفرت ہے۔ بدنظمی، عدم استحکام اس کے تئیں ان کو ، بڑی چڑھ ہے۔ وہ کنبہ پروری، ذات پات کے نظام ، اپنا پرایا، مرد وخواتین ان بھید بھاؤ کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہوائی اڈے پر، یا تو سینما کے تھیٹر میں بھی، اگر کوئی قطار میں کھڑا ہے اور بیچ میں کوئی گھس جاتا ہے تو سب سے پہلے آواز اٹھانے والے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے نوجوان فوراً اپنا موبائل فون نکال کر اس کی ویڈیو بنا دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ویڈیو وائرل بھی ہوجاتا ہے اور جو غلطی کرتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ کیا ہوگیا تو ایک نئے قسم کا نظام ، نئے قسم کا دور، نئے طرح کی سوچ، اس کی ہماری نوجوان نسل عکاسی کرتی ہے۔آج ہندوستان کو اس نسل سے بہت امید ہے ان ہی نوجوانوں کو ملک کو ، نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، سوامی وویکانند جی نے کہا تھا کہ “My faith is in the younger generation, the modern generation; out of them will come my workers” انھوں نے کہا تھا کہ ‘‘میرا یقین نوجوان نسل میں ہے، اس جدید نسل میں ہے، موڈرن جنریشن میں ہے، اور انھوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا ان ہی میں سے ، میرے کارکنان نکلیں گے’’نوجوانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘‘جوانی کی قیمت کا نہ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے’’۔ یہ زندگی کا سب سے قیمتی عہد ہوتا ہے۔ آپ کا مستقبل اور آپ کی زندگی اس پر انحصار کرتی ہے کہ آپ اپنی جوانی کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ وویکانند جی کے مطابق جوان وہ ہے جو توانائی اور فعالیت سے بھرپور ہے اور تبدیلی کی طاقت رکھتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہندوستان میں ، یہ دہائی نہ صرف نوجوانوں کی ترقی کا ہوگا بلکہ نوجوانوں کی طاقت سے ملک کی ترقی کرنے والا بھی ثابت ہوگی اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں اس نسل کا بہت بڑا کردار ہونے والا ہے۔ یہ میں صاف طور پر مشاہدہ کرتا ہوں۔ آئندہ 12 جنوری کو وویکانند کی یوم پیدائش پر جب ملک یووا دیوس منا رہا ہو گا تب ہر نوجوان اس دہائی میں اپنے اس فرض پر ضرور غور بھی کرے اور اس دہائی کے لیے ضرور کوئی عہد بھی لے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ میں سے کئی لوگوں کو کنیا کماری میں جس پتھر پر سوامی وویکانند جی نے مراقبہ کیا تھا، وہاں پر جو وویکانند راک میموریل بنا ہے، اس کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ پچھلے پانچ دہائی میں، یہ جگہ ہندوستان کے لیے باعث فخر رہا ہے۔ کنیا کماری، ملک اور دنیا کے لیے ایک قابل توجہ مرکز رہا ہے۔ قوم پرستی سے بھرے ہوئے روحانی شعور کو محسوس کرنے والے، ہر کسی کے لیے، یہ ایک زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سوامی جی کے اسمارک نے ہر پنتھ، ہر عمر کے، طبقہ کے لوگوں کو قوم پرستی کے لیے تحریک بخشا ہے۔ ‘دریدر نارائن کی سیوا’ اس منتر کو جینے کا راستہ دکھایا ہے۔ جو بھی وہاں گیا، اسے طاقت ملی، مثبت جذبات بیدار ہوئے، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا- یہ بہت فطری ہے۔
ہمارے عزت مآب صدر جمہوریہ جی بھی پچھلے دنوں اس پچاس سال پہلے بنے راک میموریل کا دورہ کرکے آئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نائب صدر جمہوریہ جی بھی گجرات کے، کچھ کے رن میں، جہاں ایک بہت ہی عمدہ رن اتسو ہوتا ہے، اس کے افتتاح کے لیے گئے تھے۔ جب ہمارے صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ بھی، ہندوستان میں ہی ایسے اہم سیاحتی مقامات پر جارہے ہیں، ہم وطنوں کو، اس سے ضرور ترغیب ملتی ہے- آپ بھی ضرور جائیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم الگ الگ کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں، اسکولوں میں پرھتے تو ہیں، لیکن، پڑھائی پوری ہونے کے بعدAlumni meet ایک بہت ہی خوشگوار موقع ہوتا ہے اور Alumni meet، یہ سب نوجوان مل کر کے پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں، جن کی 10 سال، 20 سال، 25 سال پیچھے چلی جاتی ہیں، لیکن، کبھی کبھی ایسی Alumni meet، خاص توجہ کا باعث بن جاتے ہیں، اس پر دھیان جاتا ہے اور ہم وطنوں کا بھی دھیان اس طرف جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ Alumni meet، دراصل، پرانے دوستوں کے ساتھ ملنا، یادوں کو تازہ کرنا، اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے اور جب اس کے ساتھ مشترکہ مقصد ہو، کوئی عہد ہو، کوئی جذباتی لگاؤ جڑ جائے پھر تو، اس میں کئی رنگ بھر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سابق طلبا کے گروپ کبھی کبھی اپنے اسکولوں کے لیے کچھ نہ کچھ خدمات پیش کرتے ہیں۔ کوئی کمپیوٹرائز کرنے کے لیےانتظامات فراہم کردیتے ہیں، کوئی اچھی لائبریری بنا دیتے ہیں کوئی پانی کی اچھی سہولتیں فراہم کردیتے ہیں، کچھ لوگ نئے کمرے بنانے کے لیے کرتے ہیں، کچھ لوگ اسپورٹس کمپلیکس کے لیے کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ کرلیتے ہیں، ان کو لطف آتا ہے کہ جس جگہ پر اپنی زندگی سنورا اس کے لیے زندگی میں کچھ کرنا ہے۔ یہ ہر کسی کے دل میں رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے اور اس کے لیے لوگ آگے بھی آتے ہیں، لیکن میں آج کسی ایک خاص موقع کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی پچھلےدنوں میڈیا میں بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے بھیرو گنج ہیلتھ سینٹر کی کہانی جب میں نے سنی مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں آپ لوگوں کو بتائے بغیر رہ نہیں سکتا ہوں۔ اس بھیروگنج ہیلتھ سینٹر کے یعنی صحت مرکز میں، مفت میں ہیلتھ چیک اَپ کروانے کے لیے آس پاس کے گاؤں کے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ جٹ گئی۔ اب یہ کوئی بات سن کرکے آپ کو تعجب نہیں ہوگا۔ آپ کو لگتا ہے، اس میں کیا نئی بات ہے؟ آئے ہوں گے لوگ! جی نہیں! بہت کچھ نیا ہے۔ یہ پروگرام حکومت کا نہیں تھا، نہ ہی حکومت کی پہل تھی۔ یہ وہاں کے ، کے آر ہائی اسکول، اس کے جو سابق طالب علم تھے، ان کی جو Alumni meet تھی، اس کے تحت اٹھایا گیا قدم تھا، اور اس کا نام دیا تھا ‘سنکلپ 95’۔ سنکلپ 95 کا مطلب ہے اس ہائی اسکول کے 1995 بیچ کے طالب علموں کا عہد۔ دراصل، اس بیچ کے طالب علموں نے ایک Alumni meetرکھی اور کچھ الگ کرنے کے لیے سوچا۔ اس میں سابق طالب علموں نے سماج کے لیے، کچھ کرنے کی ٹھانی۔ اور انھوں نے عہد کیا کہ عوامی صحت بیداری کا۔ ‘سنکلپ 95’ کی اس مہم میں بیتیا کے سرکاری میڈیکل کالج اور کئی اسپتال بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بعد تو جیسے عوامی صحت کو لے کر ایک پوری مہم ہی چل پڑی۔ مفت چانچ ہو، مفت میں دوائیں دینا ہو یا پھر بیداری پیدا کرنے کا، ‘سنکلپ 95’ ہر کسی کے لیے ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ ہم اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ جب ملک کا ہر شہری ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو یہ ملک 130 کروڑ قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے باتیں جب سماج میں براہِ راست دیکھنے کو ملتی ہے تو ہر کسی کو مزہ آتا ہے، اطمینان ہوتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ ایک طرف جہاں بہار کے بیتیا میں سابق طالب علموں کے گروپ نے صحت خدمات کا بیڑا اٹھایا ہے وہیں اترپردیش کے پھولپور کی کچھ خواتین نے اپنی مہم جوئی سے پورے علاقے کو تحریک دی ہے۔ ان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ اگر متحد ہوکر کوئی عہد کریں تو پھر حالات کو بدلنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کچھ دنوں پہلے تک، پھولپور کی یہ خواتین معاشی تنگی اور غریبی سے پریشان تھیں، لیکن ان میں اپنے خاندان اور سماج کے لیے کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ ان خواتین نے، کادیپور کے اپنی مدد آپ گروپ، ویمن سیلف ہیلپ گرو، اس کے ساتھ جڑکر چپل بنانے کا ہنر سیکھا، اس سے انھوں نے، نہ صرف اپنے پیروں میں چبھے مجبوری کے کانٹے کو نکال پھینکا بلکہ خود انحصار بن کر اپنے خاندان کی علامت بھی بن گئیں۔ دیہی روزگار مشن کی مدد سے اب تو یہاں چپل بنانے کا پلانٹ بھی قائم ہوگیا ہے۔ جہاں جدید مشینوں سے چپل بنائی جارہی ہیں۔ میں خاص طور سے مقامی پولیس اور ان کے خاندانوں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں، انھوں نے اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے، ان خواتین کے ذریعہ بنائی گئیں چپلیں خریدکر، ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ آج ان خواتین کے عہد سے نہ صرف ان کے خاندان کی اقتصادی حالت مضبوط ہوئی ہے بلکہ زندگی کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔ جب پھولپور کی پولیس کے جوانوں کی یا ان کے خاندانوں کی باتیں سنتا ہوں تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں لال قلعہ سے 15 اگست کو ہم وطنوں کو ایک بات کی اپیل کی تھی اور میں نے کہا تھا کہ ہم مقامی پیداوار خریدیں، آج پھر سے ایک بار میری صلاح ہے ، کیا ہم مقامی سطح پر بنی پیداوار کو حوصلہ دے سکتے ہیں؟ کیا اپنی خریداری میں انھیں ترجیح دے سکتے ہیں؟ کیا ہم مقامی پیداوار کو اپنی شان وشوکت سے جوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس جذبہ کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے لیے خوشحالی لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ ساتھیو، مہاتما گاندھی نے، سودیشی کے اس جذبہ کو، ایک ایسے چراغ کی شکل میں دیکھا جو لاکھوں لوگوں کی زندگی کو روشن کرتا ہوں۔ غریب سے غریب کی زندگی میں خوشحالی لاتا ہوں۔ سو سال پہلے گاندھی جی نے ایک بڑی تحریک شروع کی تھی اس کا ایک مقصد تھا ۔ ہندوستانی پیداواروں کو فروغ دینا۔ خود انحصاری کا یہی راستہ گاندھی جی نے دکھایا تھا۔ 2022 میں، ہم اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کریں گے، جس آزاد ہندوستان میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے بامقصد سپوتوں نے، بیٹے بیٹیوں نے، بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں، بیشمار نےاپنی جانیں قربان کی ہیں۔ بامقصد لوگوں کے تیاگ، قربانی کے باعث، جہاں آزادی ملی، جس آزادی کا ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، آزاد زندگی ہم جی رہے ہیں اور ملک کے لیے مر مٹنے والے، ملک کے لیے زندگی نچھاور کرنے والےمشہور اور غیر مشہور بے شمار لوگ، شاید، مشکل سے ہم، بہت کم ہی لوگوں کے لوگوں کے نام جانتے ہوں گے، لیکن، انھوں نے قربانی دیا، ان خوابوں کو لے کر، آزاد ہندوستان کے خوابوں کو لے کر – خوشحال، پرسکون، آزاد ہندوستان کے لیے!
میرے پیارے ہم وطنو، کیا ہم عہد کرسکتے ہیں، کہ 2022، آزادی کے 75 سال ہو رہے ہیں، کم سے کم، یہ دو تین سال، ہم مقامی پیداوار خریدنے کے پیش قدمی کریں؟ ہندوستان میں بنا، ہمارے ہم وطنوں کے ہاتھوں سے بنا، ہمارے ہم وطنوں کے پسینوں کی جس میں مہک ہو، ایسی چیزوں کو، ہم، خریدنے کی پہل کرسکتے ہیں کیا؟ میں طویل مدت کے لیے نہیں کہتاہوں، صرف 2022 تک، آزادی کے 75 سال ہو تب تک۔ اور یہ کام، سرکاری نہیں ہونا چاہیے۔ جگہ جگہ پر نوجوان آگے آئیں، چھوٹی چھوٹی تنظیم بنائیں، لوگوں کو ترغیب دیں، سمجھائیں اور طے کریں – آؤ ہم مقامی سامان خریدیں گے۔ مقامی پیداوار پر زور دیں گے۔ ہم وطنوں کے پیسنے کی جس میں مہک ہو – وہی، میرے آزاد ہندوستان کا خوشگوار پل ہو، ان خوابوں کو لے کر ہم چلیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ، ہم سب کے لیے بہت ہی اہم ہے، کہ ملک کے شہری، خود انحصار بنیں اور وقات کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔ میں ایک ایسی پہل کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کی طرف میری توجہ گئی اور وہ پہل ہے، جموں-کشمیر اور لداخ کا حمایت پروگرام۔ حمایت دراصل ہنرمندی کے فروغ اور روزگار سے جڑا ہے۔ اس میں 15 سے 35 سال تک کے بچے اور جوان شامل ہوتے ہیں۔ یہ، جموں-کشمیر کے وہ لوگ ہیں جن کی پڑھائی، کسی وجہ سےپوری نہیں ہوپائی، جنھیں، بیچ میں ہی اسکول –کالج چھوڑنا پڑا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو جان کر بہت اچھا لگے گا، کہ اس پروگرام کے تحت، پچھلے دو سالوں میں، اٹھارہ ہزار نوجوانوں کو 77 الگ الگ ٹریڈ میں تربیت دی گئی ہے۔ ان میں سے، تقریباً پانچ ہزار لوگ تو، کہیں نہ کہیں نوکری کررہے ہیں اور بہت سارے خود روزگار کی طرف آگے بڑھے ہیں۔ حمایت پروگرام سے اپنی زندگی بدلنے والے ان لوگوں کی جو کہانیاں سننے کو ملی ہیں وہ سچ مچ دلوں کو چھو لیتی ہیں۔
پروین فاطمہ، تمل ناڈو کے تری پور کی ایک گارمنٹ یونٹ میں ترقی پانے کے بعد سپروائزر- کم- کوآرڈی نیٹر بنی ہیں۔ ایک سال پہلے تک، وہ کارگل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ رہی تھی۔ آج اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی، خوداعتمادی آئی- وہ خود انحصار ہوئی ہے اور اپنے پورے خاندان کے لیے بھی اقتصادی ترقی کا موقع لے کر آئی ہے۔ پروین فاطمہ کی طرح ہی حمایت پروگرام میں لیہہ، لداخ علاقے کے باشندوں، دیگر بیٹیوں کی بھی قسمت بدلی ہے اور یہ سبھی آج تمل ناڈو کی اسی فارم میں کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح حمایت ڈوڈا کے فیاض احمد کے لیے تحفہ بن کے آیا ہے۔ فیاض نے 2012 میں، 12ویں کا امتحان پاس کیا لیکن بیماری کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے۔ فیاض دو سال تک دل کی بیماری میں مبتلا رہے۔ اس درمیان، ان کے ایک بھائی اور ایک بہن کا انتقال بھی ہوگیا۔ ایک طرح سے ان کے خاندان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آخر کار، انھیں حمایت سے مدد ملی۔ حمایت کے ذریعہ آئی ٹی ای ایس یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی انیبل سروسز میں ٹریننگ ملی اور وہ آج پنجاب میں نوکری کر رہے ہیں۔
فیاض احمد کی گریجویشن کی پڑھائی، جو انھوں نے ساتھ ساتھ جاری رکھی وہ بھی اب پوری ہونے والی ہے۔ حال ہی میں، حمایت کے ایک پروگرام میں انھیں اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اپنی کہانی سناتے وقت انھیں آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ اسی طرح اننت ناگ کے رقیب الرحمان، معاشی تنگی کے باعث اپنی پڑھائی پوری نہیں کر پائے۔ ایک دن، رقیب کو اپنے بلاک میں جو ایک کیمپ لگا تھا موبیلائیزیشن کیمپ، اس کے ذریعہ حمایت پروگرام کا پتہ چلا۔ رقیب نے فوراً ریٹیل ٹیم لیڈر کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ٹریننگ پوری کرنے کے بعد آج، وہ ایک کارپوریٹ ہاؤس میں نوکری کر رہے ہیں۔ ‘حمایت مشن’ سے مستفید، باصلاحیت نوجوانوں کی ایسی کئی ہیں جو جموں- کشمیر میں تبدیلی کی علامت بنے ہیں۔ حمایت پروگرام، سرکار، ٹریننگ پارٹنر، نوکری دینے والی کمپنیاں اور جموں کشمیر کے لوگوں کے درمیان ایک بہترین تال میل کی مثال ہے۔
اس پروگرام نے جموں وکشمیر میں نوجوانوں کے اندر ایک نئی خوداعتمادی پیدا کی ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی ہموار کیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! 26 تاریخ کو ہم نے اس دہائی کا آخری سورج گرہن دیکھا۔ شاید سورج گرہن کے اس واقعہ سے ہی مائی گو پر ریپن نے بہت ہی دلچسپ تبصرہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ ‘نمسکار سر، میرا نام ریپن ہے۔ میں شمال مشرق کا رہنے والا ہوں لیکن ان دنوں جنوب میں کام کرتا ہوں۔ ایک بات میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ہمارے علاقے میں آسمان صاف ہونے کی وجہ سے ہم گھنٹوں، آسمان میں تاروں پر ٹکٹکی لگائے رکھتے تھے۔ تاروں پر ٹکٹکی لگانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اب میں ایک پروفیشنل ہوں۔ اور اپنی روزمرہ کے باعث، میں ان چیزوں کے لیے وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔ کیا آپ اس موضوع پر کچھ بات کرسکتے ہیں کیا؟ خاص طور سے علم فلکیات کو نوجوانوں کے درمیان کیسے مقبول بنایا جاسکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، میرے پاس مشورے بہت ہیں لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کا مشورہ شاید پہلی بار میرے پاس آیا ہے۔ ویسے سائنس پر، کئی پہلوؤں پر بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی درخواست پر مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن یہ موضوع تو انوکھا ہی تھا اور ابھی 26 تاریخ کو ہی سورج گرہن ہوا ہے تو لگتا ہے کہ شاید اس موضوع پر آپ کی بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی رہے گی۔ تمام ہم وطنو، خاص طور پر میرے نوجوان دوستوں کی طرح میں بھی، جس دن، 26 تاریخ کو، سورج گرہن تھا، تو ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی اور جیسے میری نوجوان نسل کے دل میں جو جوش تھا ویسے میرے دل میں بھی تھا، اور میں بھی سورج گرہن دیکھنا چاہتا تھا، لیکن، افسوس کی بات یہ رہی کہ اس دن ، دلی میں آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے اور میں وہ لطف تو نہیں لے پایا حالاں کہ ٹی وی پر کوزی کوڈ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں دکھائی دے رہے سورج گرہن کی خوبصورت تصویریں دیکھنے کو ملیں۔ سورج چمکتی ہوئی رنگ کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ اور اس دن مجھے کچھ اس موضوع کے جو ماہرین ہیں ان سے بات کرنے کا موقع بھی ملا اور وہ بتا رہے تھے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ چاند زمین سے کافی دور ہوتا ہے اور اس لیے، اس کی شکل، پوری طرح سے سورج کو ڈھک نہیں پاتی ہے۔ اس طرح سے، ایک دائرہ کی شکل بن جاتی ہے۔ یہ سورج گرہن، ایک دائرہ نما سورج گرہن جسے ‘ولیے گرہن’ یا ‘کنڈل گرہن’ بھی کہتے ہیں۔ گرہن ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ہم زمین پر رہ کر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ خلا میں سورج، چاند اور دیگر سیاروں جیسے فلکیاتی اجسام گھومتے رہتے ہیں۔ چاند کے عکس سے ہی ہمیں، گرہن کی الگ الگ شکل دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ساتھیو، ہندوستان میں Astronomy یعنی علم فلکیات کی بہت ہی قدیم اور قابل فخر تاریخ رہی ہے۔ آسمان میں ٹمٹماتے تاروں کے ساتھ ہمارا رشتہ، اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی ہماری تہذیب ہے۔ آپ میں سے بہت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے الگ الگ جگہوں میں بہت ہی شاندار جنتر منتر ہیں، دیکھنے کے قابل ہیں۔ اور اس جنتر منتر کا علم فلکیات سے گہرا تعلق ہے۔ عظیم آریہ بھٹ کی حیرت انگیز صلاحیت کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ اپنے وقائع نگاری میں انھوں نے سورج گرہن کے ساتھ ساتھ چاند گرہن کی بھی تفصیل وضاحت کی ہے۔ وہ بھی فلسفیانہ اور اعداد وشمار دونوں ہی پہلو سے کی ہے۔ انھوں نے اعداد وشمار کے طور پر بتایا کہ زمین کا عکس یا شیڈو کے سائز کی شماری کیسے کرسکتے ہیں۔ انھوں نے گرہن کے دوران اور ایکس ٹینٹ کی شماری کرنے کی بھی درست جانکاریاں دیں۔ بھاسکر جیسے ان کے شاگردوں نے اس جذبہ کو اور اس جانکاری کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں چودھویں، پندرہویں صدی میں، کیرالہ میں سنگم گرام کے مادھو، انھوں نے کائنات میں موجود سیاروں کی حالات شماری کرنے کے لیے کیلکولس کا استعمال کیا۔ رات میں دکھائی دینے والا آسمان، صرف تجسس کا ہی موضوع نہیں تھا بلکہ علم ریاضی کے نقطہ نظر سے سوچنے والوں اور سائنس دانوں کے لیے ایک اہم ذریعہ تھا۔ کچھ سال پہلے میں ‘‘Pre-modern Kutchi Navigation Techniques and Voyages’’، اس کتاب کی نقاب کشائی کی تھی۔ یہ کتاب ایک طرح سے تو مالم (Maalam) کی ڈائری ہے۔ مالم ایک جہاز راں کے طور پر جو مشاہدہ کرتے تھے، انھوں نے اپنے طریقے سے اس کو ڈائری میں لکھا تھا۔ جدید عہد میں اسی مالم کے مجموعہ کو اور وہ بھی گجراتی رسم الخط کا مجموعہ، جس میں قدیم نیوی گیشن ٹیکنالوجی کی وضاحت کرتی ہے اور اس میں بار بار ‘مالم نی پوتھی’ میں آسمان کی، تاروں کی، تاروں کی رفتار کی وضاحت کی ہے۔ اور یہ، صاف بتایا ہے کہ سمندر میں سفر کرتے وقت، تاروں کے سہارے، سمت طے کیے جاتے ہیں۔ منزل پر پہنچنےکا راستہ تارے دکھاتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، علم فلکیات کے شعبے میں ہندوستان کافی آگے ہے اور ہمارے اقدامات،مشعل راہ بھی ہیں۔ ہمارے پاس پونے کے نزدیک عظیم الشان میٹر ویو ٹیلی اسکوپ ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کوڈئی کنال، اداگھمنڈلم، گروشیکھر اور ہنلے لداخ میں بھی طاقت ور ٹیلی اسکوپ ہیں۔ 2016 میں ، بلجیم کے اس وقت کے وزیر اعظم اور میں نے، نینی تال میں 3.6 میٹر دیواستھل آپٹیل ٹیلی اسکوپ کا افتتاح کیا تھا۔ اسے ایشیا کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ کہا جاتا ہے۔ اسرو کے پاس اسٹرو سیٹ نام کا فلکیاتی سیارچہ ہے۔ سورج کے بارےمیں تحقیق کرنے کے لیے اسرو ‘آدتیہ’ کے نام سے ایک دوسرا سیارچہ بھی لانچ کرنے والا ہے۔ فلکیات سائنس کو لے کر، چاہے ہمارا قدیم علم ہو یا جدید حصولیابیاں، ہمیں انھیں ضرور سمجھنا چاہیے اور ان پر فخر کرنا چاہیے۔ آج ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے نہ صرف اپنی سائنسی تاریخ کو جاننے کی چاہت دکھائی پڑتی ہے بلکہ وہ علم فلکیات کے مستقبل کو لے کر بھی ایک پرعزم خواہش رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پلینٹوریم، نائٹ اسکائی کو سمجھنےکے ساتھ ساتھ اسٹار گیزنگ کو شوق کی شکل میں فروغ دینے کے لیے بھی ترغیب دیتے ہیں۔ کئی لوگ امیچیور ٹیلی اسکوپ کو چھتوں یابالکنی میں لگاتے ہیں۔ اسٹار گیزنگ سے دیہی کیمپس اور دیہی پکنک کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور کئی ایسے اسکول کالجز ہیں جس علم فلکیات کا کلب بھی تشکیل دیتے ہیں اور اس تجربہ کو آگے بھی بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری پارلیمنٹ کو، جمہوریت کے مندر کے روپ میں ہم جانتے ہیں۔ ایک بات کا میں آج بڑے فخر سے ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جن نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے انھوں نے گذشتہ 60 سال کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ پچھلے چھ مہینے یں 17ویں لوک سبھا کے دونوں ایوان بہت ہی بارآور رہے ہیں۔ لوک سبھا نے تو 114 فیصد کام کیا، تو راجیہ سبھا نے 94 فیصد کام کیا۔ اور اس سے پہلے بجٹ اجلاس میں تقریباً 135 فیصد کام کیا تھا۔ دیر رات تک پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سبھی ارکان پارلیمنٹ اس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ نے جن عوامی نمائندوں کو بھیجا ہے، انھوں نے ساٹھ سال کے سارے ریکار توڑ دیے ہیں۔ اتنا کام ہونا، اپنے آپ میں، ہندوستان کی جمہوریت کی طاقت کی بھی، اور جمہوریت کے تئیں یقین کی بھی، پہچان ہے۔ میں دونوں ایوانوں کے پریزائڈنگ افسران، سبھی سیاسی جماعتوں کو، سبھی ارکان پارلیمنٹ کو ان کے اس سرگرم رول کے لیے بہت بہت مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، سورج، زمین، چاند کی رفتار صرف گرہن طے نہیں کرتی ہیں، بلکہ کئی ساری چیزیں بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی رفتار کی بنیاد پر جنوری کے وسط میں، پورے ہندوستان میں مختلف تہوار منائے جائیں گے۔ پنجاب سے لے کر تمل ناڈو تک اور گجرات سے لے کر آسام تک، لوک متعدد تہواروں کا جشن منائیں گے۔ جنوری میں بڑے ہی دھوم دھام سے مکر سنکرانتی اور اتراین منایا جاتا ہے۔ ان کو توانائی کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔اسی دوران پنجاب میں لوہڑی، تمل ناڈو میں پونگل، آسام میں ماگھ بیہو بھی منائے جائیں گے۔ یہ تہوار، کسانوں کی خوشحالی اور فصلوں سے بہت قریب سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تہوار ہمیں ہندوستان کے اتحاد اور ہندوستان کی تنوع کے بارے میں یاد دلاتے ہیں۔ پونگل کے آخری دن، عظیم تروولور کی جینتی منانے کا موقع، ہم ، ہم وطنوں کو ملتا ہے۔ یہ دن، عظیم مصنف، مفکر سنت تروولور جی کو ان کی زندگی کو وقف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 2019 کا یہ آخری ‘من کی بات’ پروگرام ہے۔ 2020 میں ہم پھر ملیں گے۔ نیا سال، نئی دہائی، نئی عہد، نئی توانائی، نئے امنگ، نئے جوش- آیئے چل پڑیں۔ عہد کی تکمیل کے لیے توانائی جٹاتے چلیں۔ دور تک چلنا ہے، بہت کچھ کرنا ہے، ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت پر، ان کی صلاحیت پر، ان کے عہد پر، زبردست یقین رکھتے ہوئے، آؤ، ہم چل پڑیں۔ بہت بہت شکریہ، بہت بہت نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ‘من کی بات’ میں آپ سب کاخیر مقدم ہے ۔ آج من کی بات کی شروعات، نوجوان ملک کے، نوجوان ، وہ گرمجوشی، وہ حب الوطنی، وہ سیوا کے رنگ میں رنگے نوجوان، آپ جانتے ہیں نا۔نومبر مہینے کا چھوتھا اتوار ہر سال این سی سی ڈےکی شکل میں منایا جاتا ہے۔ عام طور پر ہماری نوجوان نسل کو فرینڈ شپ ڈےبرابر یاد رہتا ہے۔ لیکن بہت لوگ ہیں جن کو این سی سی ڈےبھی اتنا ہی یاد رہتا ہے۔ تو چلئے آج این سی سی کے بارے میں باتیں ہو جائے۔ مجھے بھی کچھ یادیں تازہ کرنے کا موق مل جائے گا۔ سب سے پہلے توای سی سی کے سبھی سابق اور موجودہ کیڈیٹ کو این سی سی ڈےکی بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ میں بھی آپ ہی کی طرح کیڈٹ رہا ہوں، اور من سے بھی، آج بھی اپنے آپ کو کیڈٹ مانتا ہوں،۔ یہ تو ہم سب کو معلم ہی ہے این سی سی یعنی نیشنل کیڈٹ کورپس ۔ دنیا کے سب سے بڑے یونیفارم یوتھ آرگنائزیشن میں ہندوستان کی این سی سی ایک ہے۔ یہ ایک ٹری سروس آرگنائزیشن ہے جس میں فوج، بحریہ اور فضائیہ تینوں ہی شامل ہیں۔ قیادت، حب الوطنی، جدوجہد، ڈسپلین، بے لوث خدمت ان سب کو اپنے کردارکا حصہ بنا لیں، اپنی عادت بنانے کی ایک دلچسپ سفر مطلب – این سی سی اس سفرکے بارے میں کچھ اورزیادہ باتیں کرنے کے لیے آج فون کالس سے کچھ نوجوانوں سے، جنہوں نے این سی سی میں بھی اپنی جگہ بنائی ہے۔آئیے ان سے باتیں کرتے ہیں۔
وزیر اعظم: ساتھیوں آپ سب کیسے ہیں۔
ترنم خان: جے ہند پردھان منتری جی۔
وزیر اعظم: جے ہند
ترنم خان: سر میرا نام جونیئر انڈر آفیسر ترنم خان ہے۔
وزیر اعظم: ترنم آپ کہاں سے ہیں۔
ترنم خان: میں دلی کی رہنے والی ہوں، سر۔
وزیر اعظم: اچھا۔ تواین سی سی میں کتنے سال، کیسے کیسے تجربات رہے آپ کے؟
ترنم خان: سر، میں این سی سی میں 2017 میں بھرتی ہوئی تھی اور یہ تین سال میری زندگی کے سب سے بہترین سال رہے ہیں۔
وزیر اعظم: واہ، سن کر کے بہت اچھا لگا۔
ترنم خان: سر، میں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ میرا سب سے اچھا ترجبہ جو رہا وہ ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کیمپ میں رہا تھا۔ یہ ہمارا کیمپ اگست میں ہوا تھا جس میں این ای آر ‘نارتھ ایسٹرن ریجن’ کے بچہ بھی آئے تھے۔ ان کیڈٹوں کے ساتھ ہم 10 دن کے لئے رہے۔ ہم نے ان کا رہن سہن سیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی زبان کیا ہے۔ ان کی روایت ان کی ثقافت ہم نے ان سے ایسی کئی ساری چیزیں سیکھی۔ جیسے وائیزوم کا مطلب ہوتا ہے۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔ ویسے ہی، ہماری کلچرل نائٹ ہوئی تھی،اس کے اندر انہوں نے ہمیں اپنا رقص سکھایا، تیہرا کہتے ہیں ان کے رقص کو۔ اور انہوں نے مجھے ‘میکھالا پہننا بھی سکھایا۔ میں سچ بتاتی ہوں، اس کے اندر بہت خوبصورت ہم سبھی لگ رہے تھے دلی والے اور ہمارے ناگالینڈ کے دوست بھی۔ ہم ان کو دلی درشن پر بھی لیکر گئے تھے ،جہاں ہم نے ان کو نیشنل وار میموریل اور انڈیا گیٹ دکھایا ۔ وہاں پر ہم نے ان کو دلی کی چاٹ بھی کھلائی، بھیل پوری بھی کھلائی لیکن ان کو تھوڑا تیکھا لگا کیونکہ جیسا انہوں نے بتایا ہم کو کہ وہ زیادہ تر سوپ پینا پسند کرتے ہیں، تھوڑی ابلی ہوئی سبزیاں کھاتے ہیں، تو ان کو کھانا تو اتنا اچھا نہیں لگا، لیکن، اس کے علاوہ ہم نے ان کے ساتھ کافی تصویریں کھینچیں، کافی ہم نے تجربہ شیئر کیے اپنے۔
وزیر اعظم : آپ نے ان سے رابطہ بنائے رکھا ہے ؟
ترنم خان : جی سر، ہمارے رابطے ان سے اب تک بنے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم : چلئے ،اچھا کیا آپ نے۔
ترنم خان : جی سر
وزیر اعظم : اور کون ہے ساتھی آپ کے ساتھ؟
شری ہری جی وی : جے ہند سر۔
وزیر اعظم: جے ہند
شری ہری جی وی : میں سینئر انڈر آفیسر شری ہری جی وی بول رہا ہوں۔ میں بنگلورو، کرناٹک کا رہنے والا ہوں۔
وزیر اعظم : اور آپ کہاں پڑھتے ہیں ؟
شری ہری جی وی: سر بنگلورو میں کرسٹوجینتی کالج میں۔
وزیر اعظم : اچھا، بنگلورو میں ہی ہیں !
شری ہری جیوی: یس سر
وزیر اعظم: بتایئے
شری ہری جی وی : سر، میں کل ہی یوتھ ایکسچینج پروگرام سنگاپور سے واپس آیا تھا
وزیر اعظم: ارے واہ!
شری ہری جی وی: ہاں سر
وزیر اعظم: تو آپ کو موقع مل گیا وہاں جانے کا
شری ہری جی وی: ہاں سر
وزیر اعظم: کیسا تجربہ رہا سنگاپور میں ؟
برطانیہ، امریکہ، سنگاپور، برونئی، ہانگ کانک اور نیپال، یہاں پر ہمیں لڑائی کی مشق اور بین الاقوامی فوجی مشق کا ایک ایکسچینج سیکھا تھا۔ یہاں پر ہماری کارکردگی کچھ الگ ہی تھی سر، ان میں سے ہمیں اوٹر اسپورٹس اور مہم جوئی کی سرگرمیاں سکھائی گئی تھی اور واٹرپولو ٹورنامنٹ میں ہندوستانی ٹیم نے جیت حاصل کی تھی سر اور ثقافتی میں ہم مجموعی طور پر کارکردگی کرنے والوں میں سے تھے سر، ہمارا ڈرل اور ورڈ آف کمانڈ بہت اچھا لگا تھا سر ان کو۔
وزیر اعظم: آپ کتنے لوگ تھے ہری ؟
شری ہری جی وی: 20 لوگ سر ہم 10 لڑکے اور 10 لڑکیاں تھے سر۔
وزیر اعظم: ہاں یہی، ہندوستان کے سبھی الگ الگ ریاست سے تھے؟
شری ہری جی وی: ہاں سر۔
وزیر اعظم : چلئے، آپ کے سارے ساتھی آپ کا تجربہ سننے کےلیے بہت بے تاب ہوں گے لیکن مجھے اچھا لگا۔ اور کون ہے آپ کے ساتھ ؟
ونولے کسو : جے ہند سر،
وزیر اعظم: جے ہند
ونولے کسو : میرا نام ہے سینئر انڈر آفیسرونولے کسو۔ میں نارتھ ایسٹرن ریجن ناگالینڈ ریاست سے ہوں سر
وزیر اعظم : ہاں، ونولے، بتائیے کیا تجربہ ہے آپ کا ؟
ونولے کسو : سر، میں جوزف کالج، جکھاما آٹومس میں پڑھائی کر رہا ہے ، بی اے ہسٹری (آنرس) میں۔ میں نے 2017 سال میں این سی سی جوائن کیا اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اور اچھا فیصلہ تھا، سر۔
وزیر اعظم: این سی سی کے باعث ہندستان میں کہاں کہاں جانے کاموقع ملا ہے ؟
ونولے کسو : سر، میں نے این سی سی جوائن کیا اور بہت سیکھا تھااور مجھے مواقع بھی بہت ملے تھے اور میرا ایک تجربہ وہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سال 2019 جون مہینے سے ایک کیمپ میں شریک ہوا اور وہ سازولی کالج کوہیما میں ہوا۔ اس کیمپ میں 400 کیڈٹ نے شرکت کی
وزیر اعظم: تو ناگالینڈ میں سارے آپ کے ساتھی جاننا چاہتے ہوں گے کہ ہندستان میں کہاں گئے، کیا کیا دیکھا ؟ سب تجربہ بتاتے ہو سب کو ؟
ونولے کسو: یس سر
وزیر اعظم: اور کون ہے آپکے ساتھ ؟
اکھل: جے ہند سر، میرا نام جونیئر انڈر آفیسر اکھل ہے۔
وزیر اعظم: ہاں اکھل، بتایئے۔
اکھل: میں روہتک، ہریانہ کا رہنے والا ہوں، سر۔
وزیر اعظم: ہاں۔۔۔۔۔
اکھل: میں دیال سنگھ کالج، دلی یونیورسٹی سے فزکس آنرس کر رہا ہوں،۔
وزیر اعظم: ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔
اکھل: سر، مجھے این سی سی میں سب سے اچھا ڈسپلن لگا ہے، سر۔
وزیر اعظم: واہ۔۔۔۔۔۔
اکھل : اس نے مجھے اور زیادہ ذمہ دارشہری بنایا ہے ، سر این سی سی کیڈٹ کی ڈرل یونیفارم مجھے بیحد پسند ہے۔
وزیر اعظم : کتنے کیمپ کرنے کا موقع ملا، کہاں کہاںجانے کا موقع ملا ؟
اکھل : سر، میں نے 3 کیمپ کیے ہیں سر۔ میں حال ہی میں انڈین ملٹری اکیڈمی، دہرا دون میں اٹیچمنٹ کیمپ کا حصہ رہا ہوں۔
وزیر اعظم: کتنے دنوں کا تھا ؟
اکھل : سر، یہ 13 دن کا کیمپ کا تھا سر۔
وزیر اعظم : اچھا
اکھل : سر، میں نے وہاں پر ہندوستانی فوج میں افسر کیسےبنتے ہیں ،اسکو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور اس کے بعد میراہندستانی فوج میں افسر بننے کاعہد اور زیادہ مستحکم ہوا ہے سر۔
وزیر اعظم : واہ۔۔۔
اکھل : اور سر میں نے یوم جمہوریہ کے پیریڈ میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے بہت ہی فخر کی بات تھی۔
وزیر اعظم: شاباش۔۔۔
اکھل : مجھ سے زیادہ خوش میری ماں تھی سر۔ جب ہم صبح 2 بجے اٹھ کر راج پتھ پر مشق کرنے جاتے تھے تو جوش ہم میں اتنا ہوتا تھا کہ وہ دیکھنے لائق تھا۔ باقی فوجی دستوں کے لوگ جو ہماری اتنی حوصلہ افزائی کرتے تھے راج پتھ پرمارچ کرتے وقت ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے سر۔
وزیر اعظم : چلئے آپ چاروں سے بات کرنے کا موقع ملااور وہ بھی این سی سی ڈے پر۔ میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے کیونکہ میری بھی خوش قسمتی رہی کہ میں بھی بچپن میں اپنے گاؤں کے اسکول میں این سی سی کیڈ ٹ رہا تھا تو مجھے معلوم ہے کہ یہ ڈسپلن، یہ یونیفارم اس کے باعث جو اعتماد کی سطح بڑھتی ہے، یہ ساری چیزیں بچپن میں مجھے ایک این سی سی کیڈٹ کی حیثیت سےتجربہ کرنے کا موقع ملا تھا۔
ونولے : پردھان منتری جی میرا ایک سوال ہے۔
وزیر اعظم: ہاں بتایئے۔۔۔۔
ونولے : کیا آپ بھی ایک این سی سی کا حصہ رہے ہیں؟
وزیر اعظم: کون؛ ونولے بول رہے ہو؟
ونولے یس سر، یس سر
وزیر اعظم: ہاں ونولے بتائیے۔۔۔
ونولے : کیا آپ کو کبھی بھی سزا ملی تھی ؟
وزیر اعظم: (ہنس کر) اس کا مطلب کہ آپ لوگوں کو سزا ملتی ہے؟
ونولے : ہاں سر۔
وزیر اعظم: جی نہیں، مجھے ایسا کبھی ہوا نہیں کیونکہ میں بہت ہی، ایک طرح سے ڈسپلن میں یقین رکھنے والا تھا لیکن ایک بار ضرورغلط فہمی ہوئی تھی۔جب ہم کیمپ میں تھے تو میں ایک پیڑ پر چڑھ گیا تھا۔ تو پہلے تو ایسا ہی لگا کہ میں نے کوئی قانون توڑ دیا ہے لیکن بعد میں سب کو دھیان آیا کہ وہاں، یہ پتنگ کی ڈور میں ایک چڑیا پھنس گئی تھی۔ تو اس کو بچانے کے لیے میں وہاں چڑھ گیا تھا۔ تو خیر، پہلے تو لگتا تھا کہ مجھ پر کوئی ڈسپلن ایکشن ہوں گے لیکن بعد میں میری بڑی واہ واہی ہوئی۔تو اس طرح سے ایک الگ ہی تجربہ ہوا مجھے ۔
ترنم خان : جی سر، یہ جان کر بہت اچھا لگا سر۔
وزیر اعظم : تھینک یو
ترنم خان: میں ترنم بات کر رہی ہوں،۔
وزیر اعظم : ہاں ترنم، بتائیے۔۔۔
ترنم خان : اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گی سر۔
وزیر اعظم : جی۔۔۔ جی۔۔۔ بتائیے۔
ترنم خان : سر، آپ نے اپنے پیغام میں ہمیں کہا ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو 3 سالوں میں 15 جگہ تو جانا ہی چاہیئے۔ آپ ہمیں بتانا چاہیں گے کہ ہمیں کہاں جانا چاہیئے ؟ اور آپ کو کس جگہ جا کر سب سے اچھا محسوس ہوا تھا ؟
وزیر اعظم: ویسے میں ہمالیہ کو بہت پسند کرتا رہتا ہوں،ہمیشہ۔
ترنم خان: جی ۔۔۔۔۔
وزیر اعظم: لیکن پھر بھی میں ہندستان کے لوگوں سے گذارش کروں گا کہ اگر آپ کو فطرت سے محبت ہے ۔
ترنم خان : جی۔۔۔
وزیر اعظم: گھنے جنگل، جھرنے، ایک الگ ہی طرح کا ماحول دیکھنا ہے تو میں سب کو کہتا ہوں، آپ شمال مشرق ضرور جائیں۔
ترنم خان : جی سر۔
وزیر اعظم : یہ میں ہمیشہ بتاتا ہوں، اور اس کے باعث شمال مشرق میں سیاحت بھی بڑھے گا۔ معیشت کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور ‘ایک بھارت شریشٹھ بھارت’ کے خواب کو بھی وہاں مضبوطی ملے گی۔
ترنم خان : جی سر۔
وزیر اعظم : لیکن ہندستان میں ہر جگہ پر بہت کچھ دیکھنے لائق ہے، مطالعہ کرنے کے لائق ہے اور ایک طرح سے روح صاف کرنے جیسا ہے۔
شری ہری جی وی : پردھان منتری جی، میں شری ہری بول رہا ہوں۔
وزیر اعظم : جی ہری بتائیے۔۔۔
شری ہری جی وی: میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں، کہ آپ ایک سیاستداں نہ ہوتے تو آپ کیا ہوتے ؟
وزیر اعظم : اب یہ تو بڑا مشکل سوال ہے کیونکہ ہر بچے کی زندگی میں کئی پڑاؤ آتے ہیں۔ کبھی یہ بننے کا من کرتا ہے، کبھی وہ بننے کا من کرتا ہے لیکن یہ بات صحیح ہے کہ مجھے کبھی سیاست میں آنے کا من نہیں تھا، نہ ہی کبھی سوچا تھا لیکن اب پہنچ گیا ہوں، تو جی جان سے ملک کے کام آؤں، اس کے لیے سوچتا رہتا ہوں، اور اسلئے اب میں ‘یہاں نہ ہوتا تو کہاں ہوتا’ یہ سوچنا ہی نہیں چاہیئے مجھے۔ اب تو جی جان سے جہاں ہوں، وہاں جی بھرکر کے جینا چاہیئے، جی جان سے جٹنا چاہیئے اور جم کر کے ملک کے لیے کام کرنا چاہیئے۔ نہ دن دیکھنا ہے، نہ رات دیکھنی ہے بس یہی ایک مقصد سے اپنے آپ کو میں نے کھپا دیا ہے۔
اکھل : پردھان منتری جی۔۔۔
وزیر اعظم: جی۔۔۔
اکھل : آپ دن میں اتنے مشغول رہتے ہیں تو میرا یہ تجسس تھا جاننے کے لیے کہ آپ کو ٹی وی۔ دیکھنے کا، فلم دیکھنے کا یا کتاب پڑھنے کا وقت ملتا ہے ؟
وزیر اعظم : ویسے مجھے کتاب پڑھنے کی دلچسپی تو رہتی تھی۔
فلم دیکھنے کی کبھی دلچسپی بھی نہیں رہی، اس میں وقت کی بندش تو نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح سے ٹی وی دیکھ پاتا ہوں،۔ بہت کم۔ کبھی کبھی پہلے ڈسکوری چینل دیکھا کرتا تھا، تجسس کے باعث اور کتابیں پڑھتا تھا لیکن ان دنوں تو پڑھ نہیں پاتا ہوں، اور دوسرا گوکل کی وجہ سے بھی عادتیں خراب ہو گئی ہیں کیونکہ اگر کسی حوالے کو دیکھنا ہے تو فوراً شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ تو کچھ عادتیں جو سب کی بگڑی ہیں، میری بھی بگڑی ہے۔چلئے دوستوں، مجھے بہت اچھا لگا آپ سب سے بات کرنے کے لیے اور میں آپ کے توسط سےاین سی سی کے سبھی کیڈٹ کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں،۔ بہت بہت شکریہ دوستوں،تھینک یو
سبھی: این سی سی کیڈٹ بہت بہت شکریہ سر، تھینک یو
وزیر اعظم: تھینک یو، تھینک یو
سبھی: این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر
وزیر اعظم : جے ہند۔
سبھی: این سی سی کیڈٹ جے ہند، سر
وزیر اعظم: جے ہند، جے ہند۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم سبھی ہم وطنوں کو یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ 7 دسمبر کومسلح افواج کے پرچم کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنے بہادر سپاہیوں کو، ان کی طاقت کو، ان کی قربانی کو یاد تو کرتے ہی ہیں لیکن خدمات بھی کرتے ہیں۔ صرف احترام کا جذبہ اتنے سے بات چلتی نہیں ہے۔اشتراک ضروری ہوتا ہے اور 07 دسمبر کو ہر شہری کو آگے آنا چاہیئے۔ ہر ایک کے پاس اس دن مسلح افواج کاپرچم ہونا ہی چاہیئے اور ہر کسی کی شرکت بھی ہونی چاہیئے۔ آئیے، اس موقع پر ہم اپنی مسلح افواج کی بے مثال جرأت، بہادر اور خود سپردگی کے جذبے کے تئیں شکریہ ادا کریں اور بہادر فوجیوں کو یاد کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندستان میں فٹ انڈیا موومنٹ سے تو آپ متعارف ہو ہی گئے ہوں گے۔ سی بی ایس ای نے ایک قابل تعریف پہل کی ہے۔ فٹ انڈیا ہفتہ منانے کی۔ فٹ انڈیا، اسکول ہفتہ دسمبر مہینے میں کبھی بھی منا سکتے ہیں۔ اس میں فٹنس کو لیکر کئی طرح کے پروگرام منعقد کئے جانے ہیں۔ اس میں کوئز، مضامین، ڈرائنگ اور روایتی وعلاقائی کھیل، یوگاسن، رقص جیسے کھیل کود مقابلہ شامل ہیں۔ فٹ انڈیا ہفتہ میں طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ ما والدین بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ مت بھولنا کہ فٹ انڈیاکا مطلب صرف دماغی کسرت، کاغذی کسرت یا لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر یا موبائل فون پر فیٹنس کی ایپ دیکھتے رہنا۔ جی نہیں ! پسینہ بہانا ہے۔ کھانے کی عادتیں بدلنی ہے۔ زیادہ تر توجہ سرگرمی انجام دینے کی عادت بنانی ہے۔ میں ملک کی سبھی ریاستوں کے اسکول بورڈ اور اسکول انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں، کہ ہراسکول میں، دسمبر مہینے میں، فٹ انڈیاہفتہ منایا جائے۔ اس سے فٹنس کی عادت ہم سبھی کی روزمرہ میں شامل ہوگی۔ فٹ انڈیا مؤمنٹ میں فٹنس کو لیکر اسکولوں کی رینکنگ کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ اس رینکنگ کو حاصل کرنے والے سبھی اسکول، فٹ انڈیا لوگو اور پرچم کا استعمال بھی کر پائیں گے۔ فٹ انڈیا پورٹل پر جاکر اسکول خود کو فٹ قرار دے سکتے ہیں۔ فٹ انڈیا تھری اسٹار اور فٹ انڈیا فائیو اسٹار ریٹنگ بھی دی جائیگی۔ میں گذارش کرتا ہوں کہ سبھی اسکول، فٹ انڈیا رینکنگ میں شامل ہوں اور فٹ انڈیا یہ آسان بنے۔ ایک عوامی تحریک بنے۔ بیدار پیدا ہو۔اس کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ہمارا ملک اتنا عظیم ہے اتنے تنوع سے بھرا ہوا ہے کہ بہت سی ہمارے دھیان میں ہی نہیں آتی ہیں اور فطری بھی ہے۔ ویسے ایک بات میں آپ کو شیئر کرنا چاہتا ہوں،۔ کچھ دن پہلے مائی گو پر ایک کمنٹ پر میری نظر پڑی۔ یہ کمنٹ آسام کے نوگاؤں کے شریمان رمیش شرما جی نے لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا برہم پتر ندی پر ایک میلہ چل رہا ہے۔ جس کا نام ہے برہم پتر پشکر۔ 04 نومبر سے 16 نومبر تک یہ میلہ تھا اور اس برہم پتر پشکر میں شامل ہونے کے لیے ملک کے مختلف حصوں کئی لوگ وہاں شامل ہوئے ہیں۔ یہ سن کر آپ کو بھی حیرانی ہوئی نہ۔ ہاں یہی تو بات ہے یہ اہم میلہ اور ہمارے اجداد نے اس کی تخلیق کی ہے کہ جب پوری بات سنو گے تو آپ کو بھی حیرانی ہوگی۔لیکن بدقسمتی سے اس کی جتنی وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہئے۔ جتنی ملک کے گوشے گوشے میں جانکاری ہونی چاہیئے، اتنی تعداد میں نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ بھی بات صحیح ہے اس پورا انعقاد ایک طرح ایک ملک ایک پیغام اور ہم سب ایک ہیں۔ اس جذبے کو بھرنے والا ہے، طاقت دینے والا ہے۔
سب سے پہلے تو رمیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپنے ‘من کی بات’ کے توسط سے ہم وطنوں کے بیچ یہ بات شیئر کرنے کا عہد کیا۔آپ نے دکھ کا بھی اظہار کیا ہے کہ اتنی اہم بات کی کوئی وسیع پیمانے پر چرچا نہیں ہوتی ہے، پرچار نہیں ہوتا ہے۔آپ کا دکھ میں سمجھ سکتا ہوں،۔ملک میں زیادہ لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ ہاں،اگر شاید کسی نے اسکو بین الاقوامی دریا فیسٹیول کہہ دیا ہوتا، کچھ بڑے شاندار لفظوں کا استعمال کیا ہوتا، تو شاید، ہمارے ملک میں کچھ لوگ ہیں جو ضرور اس پر کچھ نہ کچھ رائے کا اظہار کرتے اور تشہیر بھی ہو جاتی۔
میرے پیارے ہم وطنو پشکرم، پشکرالو، پشکر کیا آپ نے کبھی یہ الفاظ سنے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں آپ کو پتہ ہے یہ کیا ہے، میں بتاتا ہوں، یہ ملک کہ بارہ الگ الگ ندیوں پر جو فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں اس کے مختلف نام ہیں۔ہر سال ایک ندی پر یعنی اس ندی کا نمبر پھر بارہ سال کے بعد آتا ہے، اور یہ میلہ ملک کے الگ الگ گوشے کی بارہ ندیوں پر ہوتا ہے، باری باری سے ہوتا ہے اور بارہ دن چلتا ہے کنبھ کی طرح ہی یہ میلہ بھی قومی اتحاد کو فروغ دیتا ہے اور ‘ایک بھارت شریسٹھ بھارت’ کے درشن کراتا ہے۔پشکرم یہ ایسا اتسو ہے جس میں ندی کی اہمیت ، ندی کافخر ، زندگی میں ندی کی اہمیت ایک آسان طریقے سے اجاگر ہوتی ہے!
ہمارے اجداد نے فطرت کو ماحولیات، پانی کو، زمین کو ، جنگل کوبہت اہمیت دی۔انہوں نے ندیوں کی اہمیت کو سمجھا اور سماج کو ندیوں کے تئیں مثبت جذبہ کیسے پیدا ہو، ایک سنسکار کیسے بنیں ، ندی کے ساتھ سنسکرتی کی دھارا، ندی کے ساتھ سنسکار کی دھارا ، ندی کے ساتھ سماج کو جوڑ نے کی کوشش یہ مسلسل چلتا رہا اور مزیدار بات یہ ہے کہ سماج ندیوں سے بھی جڑا اور آپس میں بھی جڑا۔پچھلے سال تمل ناڈو کے تعمیر برنی ندی پر پشکرم ہوا تھا۔اس سال یہ برہم پتر ندی پر منعقد ہوا اور آنے والے سال میں تنگ بھدرا ندی آندھر پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک میں منعقد ہوگا۔ایک طرح سے آپ ان بارہ مقامات کا سفر ایک ٹورسٹ سرکٹ کی شکل میں بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں میں آسام کے لوگوں کی گرم جوشی ان کی ضیافت کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے پورے ملک سے آئے تیرتھ یاتریوں کے ساتھ بہت خوبصورت برتاؤ کیا۔منتظمین نے صفائی کا بھی پورا خیال رکھا۔ پلاسٹک فری زون یقینی بنایا ۔ جگہ جگہ بایو ٹوائلٹ کا بھی انتظام کیا ۔مجھے امید ہے کہ ندیوں کے تئیں اس طرح کے جذبے کو ابھارنے کا یہ ہزاروں سال پرانا ہمارا میلہ آئندہ نسل کو بھی جوڑے۔ فطرت ، ماحولیات ، پانی یہ ساری چیزیں ہماری سیاحت کا بھی حصہ بنیں، زندگی کا بھی حصہ بنیں۔
میرے پیارے ہم وطنو نمو ایپ پر مدھیہ پردیش سے بیٹی شویتا لکھتی ہے، اور اس نے لکھا ہے، سر،میں نویں کلاس میں ہوں، میرے بورڈ کے امتحان میں ابھی ایک سال کاوقت ہے لیکن میں طالب علموں اور ایگزام واریئر کے ساتھ آپ کی بات چیت لگاتار سنتی ہوں، میں نے آپ کو اسلئے لکھا ہے کیونکہ آپ نے ہمیں اب تک یہ نہیں بتایا ہے کہ اگلے امتحان پربات چیت کب ہوگی۔ مہربانی کرکے آپ اسے جلد سے جلد کریں۔اگر، ممکن ہو تو ، جنوری میں ہی اس پروگرام کا انعقاد کریں ۔ ساتھیو،‘من کی بات’ کے بارے میں مجھے یہی بات بہت اچھی لگتی ہے – میرے نوجوان دوست مجھے، جس حق اور محبت کے ساتھ شکایت کرتے ہیں، حکم دیتے ہیں، صلاح دیتے ہیں – یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔شویتا جی، آپ نے بہت ہی صحیح وقت پر اس موضوع کو اٹھایا ہے۔ امتحانات آنے والے ہیں تو، ہر سال کی طرح ہمیں امتحانات کے بارے میں بات چیت بھی کرنی ہے۔ آپ کی بات صحیح ہے اس پروگرام کو تھوڑا پہلے منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے پروگرام کے بعد کئی لوگوں نے اسے اور زیادہ مؤثر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی بھیجی ہیں، اور، شکایت بھی کی تھی کہ پچھلی بار دیر سے ہوا تھا، امتحانات ایک دم قریب آگئے تھے۔ اور شویتا کی رائے صحیح ہے کہ مجھے، اسکو، جنوری میں کرنا چاہیئے۔ ایچ آر ڈی منسٹری اور مائی گو کی ٹیم ملکر، اس پر کام کر رہی ہیں۔ لیکن،میں، کوشش کروں گا، اس بار امتحان پر بات چیت جنوری کے شروع میں یا وسط میں ہو جائے۔ملک بھر کے طالب علم کے پاس دو مواقع ہیں۔ پہلا، اپنے اسکول سے ہی اس پروگرام کا حصہ بننا۔دوسرا، یہاں دلی میں ہونے والے پروگرام میں حصہ لینا۔ دلی کے لیے ملک بھر سے طالب علموں کا انتخاب مائی گو کے توسط سے کیا جائیگا۔ ساتھیو، ہم سب کو ملکر امتحان کے خوف کو بھگانا ہے۔ میرے نوجوان ساتھی امتحانات کے وقت ہنستے کھلکھلاتے دکھیں، والدین تناؤ سے آزاد ہوں، اساتذہ مطمئن ہوں، اسی مقصد کو لیکر، پچھلے کئی سالوں سے، ہم،‘من کی بات’ کے توسط سے ‘پریکشا پر چرچا’ ٹاؤن کے توسط سے یا پھر ایگزام واریئرس بک کے توسط سے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ اس مشن کو ملک بھر کے طلبا نے، والدین نے، اور اساتذ نے رفتار دی اسکے لیے میں ان سب کا شکر گذار ہوں۔ اور، آنے والی امتحان پر بات چیت کا پروگرام ہم سب مل کر کریں گے۔ آپ سب کو دعوت دیتا ہوں۔
ساتھیو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے 2010 میں ایودھیا معاملے میں آئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بات چیت کی تھی، اور، میں نے کہا تھا کہ ملک نے تب کس طرح سے امن اور بھائی چارہ بنائے رکھا تھا۔ فیصلے آنے کے پہلے بھی، اور، فیصلہ آنے کے بعد بھی۔اس بار بھی، جب، 9 نومبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، تو 130 کروڑ ہندوستانی نے،پھر سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے لیے ملک کے مفاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ملک میں امن، اتحاد اور یکجہتی کے اقدار سب سے اوپر ہیں۔ رام مندر پر جب فیصلہ آیا تو پورے ملک نے اسے دل کھول کر گلے لگایا۔ پوری دلجوئی اور امن وامان کے ساتھ قبول کیا۔آج،‘من کی بات’ کے توسط سے میں ہم وطنوں کو مبارکباد دیتا ہوں،شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے جس طرح کے صبر وتحمل اور باشعور ہونے کا ثبوت دیا ہے میں، اسکے لیے خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں،۔ایک طرف، جہاں، طویل عرصے کے بعد قانونی لڑائی ختم ہوئی ہے، وہیں، وہیں دوسری طرف عدلیہ کے تئیں ملک کا احترام اور بڑھا ہے۔ صحیح معنوں میں یہ فیصلہ ہماری عدالیہ کے لیے بھی سنگ میل کا ثابت ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد، اب ملک ، نئی امیدوں اور نئی تمناؤوں کے ساتھ نئے راستے پر، نئے ارادے لیکر چل پڑا ہے۔ جدید ہندوستان اسی جذبے کو اپنا کر امن، ایکتا اور یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھے – یہی میری تمنا ہے، ہم سب کی آرزو ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، ہماری تہذیب، ثقافت اور زبانیں پوری دنیا کو کثرت میں وحدت ، پیغام دیتی ہیں۔ 130 کروڑ ہندوستانیوں کا یہ وہ ملک ہے ہے، جہاں کہا جاتا تھا، کہ، ‘کوس کوس پر پانی بدلے اور چار کوس پر وانی’۔ہمارے ہندوستان کی سرزمین پر سیکڑوں زبانیں صدیوں سے پھل پھول رہی ہیں ۔حالانکہ، ہمیں اس بات کی بھی فکر ہوتی ہے کہ کہیں زبانیں اور بولیاں ختم تو نہیں ہو جائیں گی ! پچھلے دنوں، مجھے، اتراکھنڈ کے دھارچلا کی کہانی پڑھنے کو ملی۔مجھے کافی اطمینان ہوا ۔ اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی زبانوں ، اسے فروغ ا دینے کے لیے، آگے آ رہیں ہے۔ کچھ، اختراعات کر رہیں ہیں دھارچلا خبر میں نے، میرا، دھیان بھی، اسلئے گیا کہ کسی وقت ،میں، دھارچولا میں آتے جاتے رکا کرتا تھا۔ اُس پار نیپال، اِس پار کالی گنگا – تو فطری طور پر دھارچلا سنتے ہی، اس خبر پر، میرا دھیان گیا۔ پتوڑا گڑھ کے دھارچولا میں، رنگ طبقے کے کافی لوگ رہتے ہیں، انکی، آپسی بات چیت کی زبان رگلو ہے۔یہ لوگ اس بات کو سوچ کر بہت دکھی ہو جاتے تھے کہ ان کی زبان بولنے والے لوگ لگاتار کم ہوتے جا رہے ہیں – پھر کیا تھا، ایک دن، ان سب نے، اپنی زبان کو بچانے کا عہد کرلیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس مشن میں رنگ طبقے کے لوگ جڑتے چلے گئے۔آپ حیران ہو جائیں گے، اس طبقے کے لوگوں کی تعداد ، گنتی بھر کی ہے۔موٹا موٹا انداز کر سکتے ہیں کہ شاید دس ہزار ہو، لیکن، رنگ زبان کو بچانے کے لیے ہر کوئی مصروف ہو گیا، چاہے، چوراسی سال کے بزرگ دیوان سنگھ ہوں یا بائیس سال کی نو جوان ویشالی گبریال پروفیسر ہوں یا تاجر ، ہر کوئی،ہر ممکن کوشش میں لگ گیا۔اس مشن میں، سوشل مڈیا کا بھی بھرپور پر استعمال کیا گیا۔ کئی واٹس ایپ گروپ بنائے گئے۔ سیکڑوں لوگوں کو، اس پر بھی، جوڑا گیا۔ اس زبان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔صرف، بول چال میں ہی ایک طرح سے اسکا چلن ہے۔ایسے میں، لوگ کہانیاں، نظمیں اور گانے پوسٹ کرنے لگے۔ ایک دوسرے کی زبان ٹھیک کرنے لگے۔ ایک طرح سے واٹس ایپ ہی کلاس روم بن گیا بن گیا جہاں ہر کوئی استاد بھی ہے اور طالب علم بھی!رنگ لوک زبان کو تحفظ کرنے کی کوشش میں ہے۔ طرح طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ رسالے نکالے جا رہے ہیں۔ اس میں سماجی اداروں کی بھی مدد مل رہی ہے۔
ساتھیو، خاص بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ نے 2019 یعنی اس سال کو ‘مقامی زبانوں کا بین الاقوامی سال’ قرار دیا ہے۔ یعنی ان زبانوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جو ختم ہونےکے قریب ہیں۔ ڈیڑھ سو سال پہلے، جدید ہندی کے بانی ، بھارتیندو ہریش چندر جی نے بھی کہا تھا :-
“نج بھاشا انتی اہے، سب انتی کو مول،
بن نج بھاشا گیان کے، مٹت نہ ہیہ کو سول۔
یعنی ، مادری زبان کے علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں رنگ طبقے کی یہ پہل پوری دنیا کو ایک راہ دکھانے والی ہے۔ اگر آپ بھی اس کہانی سے متاثر ہوئے ہیں، تو، آج سے ہی، اپنی مادری زبان یا بولی کا خود استعمال کریں۔ خاندان کو، سماج کو ترغیب دیں۔
19ویں صدی کے آخری عہد میں عظیم شاعر سبرامنیم بھارتی جی نے کہا تھا اور تمل میں کہا تھا۔ وہ بھی ہم لوگوں کے لیے بہت ہی اثر انگیز ہے۔ سبرمنیم بھارتی جی نے تمل بھاشا میں کہا تھا :
مپدو کو ڈی مگمڈییال
ایر موئمبر اوندڈییال
اول سیپو مولی پدھنیٹوڈییال
اینرسندنیؤندڈ
اور اس وقت یہ 19ویں صدی کے یہ نصف آخر کی بات ہے اور انھوں نے کہا کہ مادر ہند کے 30 کروڑ چہرے ہیں، لیکن جسم ایک ہیں، یہ 18 زبانیں بولتی ہیں، لیکن سوچ ایک ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، کبھی کبھی زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہمیں بہت بڑا پیغام دے جاتی ہیں۔ اب دیکھئے نہ میڈیا میں ہی اسکیوبا ڈائیورس کی ایک کہانی پڑھ رہا تھا۔ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر ہندوستانی کو تحریک دینے والی ہے۔ وشاکھاپٹم میں غوطہ خوری کی تربیت دینے والے اسکیوبا ڈائیورس ایک دن منگاماری پیٹا ساحل پر سمندر سے لوٹ رہے تھے تو سمندر میں تیرتی ہوئی کچھ پلاسٹک کی بوتلیں اور پاؤچ سے ٹکرا رہے تھے۔ اسے صاف کرتے ہوئے انھیں معاملہ بڑا سنجیدہ لگا۔ ہمارا سمندر کس طرح سے کچرے سے بھرا جارہا ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے یہ غوطہ خور سمندر میں ساحل کے قریب 100 میٹر دور جاتے ہیں، گہرے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں اور پھر وہاں موجود کچرے کو باہر نکالتے ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا ہے کہ 13 دنوں میں ہی یعنی دو ہفتہ کے اندر اندر تقریباً چار ہزار کلو سے زائد پلاسٹک فضلا انھوں نے سمندر سے نکالا ہے۔ ان اسکیوبا ڈائیورس کی چھوٹی سی شروعات ایک بڑی مہم کی شکل لیتی جارہی ہے۔ انھیں اب مقامی لوگوں کی بھی مدد ملنے لگی ہے۔ آس پاس کے ماہی گیروں نے بھی انھیں ہر طرح کی مدد دینے لگے ہیں۔ ذرا سوچئے اس اسکیوبا ڈائیورس سے تحریک لے کر اگر ہم بھی صرف اپنے آس پاس کے علاقے کو پلاسٹک کے کچرے سے آزاد کرنے کا عہد کرلیں تو پھر پلاسٹک سے آزاد پوری دنیا کے لیے ایک نئی مثال پیش کرسکتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، دو دن بعد 26 نومبر ہے۔ یہ دن پورے ملک کے بہت خاص ہے۔ ہمارے جمہوریت کے لیے خاص طور سے اہم ہے۔ کیوں کہ اس دن کو ہم یوم آئین کی شکل میں منانے ہیں۔ اور اس بات کا یوم آئین اپنے آپ میں خاص ہے۔ کیوں کہ اس بار آئین کو اپنانے کے 70 سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس بار اس موقع پر پارلیمنٹ میں خاص پروگرام منعقد ہوں گے اور پھر سال بھر پورے ملک میں الگ الگ پروگرام ہوں گے۔ آیئے اس موقع پر ہم آئین ساز اسمبلی کے سبھی ارکان کو بصد احترام سلام کریں۔ اپنی خراج عقیدت پیش کریں۔ ہندوستان کا آئین ایسا ہے جو ہر شہری کے حقوق اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور یہ ہمارے آئین سازوں کی دور اندیشی کی وجہ سے یقینی ہوسکا ہے۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ یوم آئین ہمارے آئین کے اصولوں کو قائم رکھنے اور ملک کی تعمیر میں اپنی خدمت انجام دینے کی ہماری عہد بستگی کو مستحکم کریں۔ آخر، یہی خواب تو ہمارے آئین سازوں نے دیکھا تھا۔
میرے پیارے ہم وطنو! سردی کا موسم شروع ہو رہا ہے۔ گلابی سردی اب محسوس ہو رہی ہے۔ ہمالیہ کے کچھ حصے برف کی چادر اوڑھنا شروع کئے ہیں۔ لیکن یہ موسم فٹ انڈیا مومنٹ کا ہے۔ آپ، آپ کا خاندان، آپ کے دوست واحباب موقع مت گنوایئے، فٹ انڈیا مومنٹ کو آگے برھانے کے لیے موسم کا بھرپور فائدہ اٹھائیے۔
بہت بہت مبارکباد، بہت بہت شکریہ
نئی دہلی،27 اکتوبر/ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! آج دیوالی کا مقدس تہوار ہے۔ آپ سب کو دیوالی کی بہت بہت مبارکباد۔ ہمارے یہاں کہا گیا ہے۔
شبھم کروتی کلیانم آروگیم دھن سمپدا
شترو بدھی وناشیہ ، دیپا جیوتی نمستوتے
کتنا عمدہ پیغام ہے۔ اس شلوک میں کہا ہے — روشنی زندگی میں سکھ، صحت اور خوشحالی لے کر آتا ہے جو منفی سوچ کو ختم کرکے ،مثبت سوچ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی روشنی کو میرا سلام۔ اس دیوالی کو یاد رکھنے کے لیے اس سے بہتر فکر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم روشنی کو بڑھاوا دیں، اثباتیت کی تشہیر کریں اور دشمن کے جذبات کو ہی ختم کرنے کی دعا کریں۔ آج کل دنیا کے متعدد ملکوں میں دیوالی منائی جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف ہندوستانی برادری شامل ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اب کئی ملکوں کی حکومتیں، وہاں کے شہری، وہاں کی سماجی تنظیمیں دیوالی کو پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتی ہیں۔ ایک طرح سے وہاں ہندوستان کھڑا کردیتے ہیں۔
ساتھیو، دنیا میں فیسٹیول ٹورزم کا اپنی ہی کشش ہے۔ ہمارا ہندوستان، جو تہواروں کا ملک ہے، اس میں فیسٹیول ٹورزم کے بھی وسیع امکانات ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہولی ہو، دیوالی ہو، اونم ہو، پونگل ہو، بیہو ہو، ان جیسے تہواروں کو مشتہر کریں اور تہواروں کی خوشیوں میں، دیگر ریاستوں، دیگر ملکوں کے لوگوں کو بھی شامل کریں۔ ہمارے یہاں تو ہر ریاست، ہر علاقے کے اپنے اپنے اتنے مختلف تہوار ہوتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے لوگوں کی تو ان میں بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے، ہندوستان میں فیسٹیول ٹورزم کو فروغ دینے میں، ملک کے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، پچھلے ‘من کی بات’ میں ہم نے طے کیا تھا کہ اس دیوالی پر کچھ الگ کریں گے۔ میں نے کہا تھا ۔ آیئے، ہم سبھی اس دیوالی پر ہندوستان کی ناری شکتی اور ان کی حصولیابیوں کو سیلیبریٹ کریں، یعنی ہندوستان کی لکشمی کا احترام۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر بیشمار ترغیبی کہانیوں کا انبار لگ گیا۔ وارنگل کے کوڈی پاکا رمیش نے نمو ایپ پر لکھا کہ میری ماں میری شکتی ہے۔ 1999 میں ، جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میری ماں نے ہی پانچوں بیٹوں کی ذمے داری اٹھائی۔ آج ہم پانچوں بھائی اچھے پروفیشن میں ہیں۔ میری ماں ہی میرے لیے بھگوان ہے۔ میرے لیے سب کچھ ہے اور وہ صحیح معنوں میں ہندوستان کی لکشمی ہے۔
رمیش جی، آپ کی ماتا جی کو میرا پرنام۔ ٹوئیٹر پر سرگرم رہنے والی گیتیکا سوامی کا کہنا ہے کہ ان کے لیے میجر خوشبو کنور، ‘ہندوستان کی لکشمی ہے’ جو بس کنڈیکٹر کی بیٹی ہے اور انھوں نے آسام رائفل کی کُل خواتین دستے کی قیادت کی تھی۔ کویتا تیواری جی کے لیے تو ہندوستان کی لکشمی، ان کی بیٹی ہیں، جو ان کی طاقت بھی ہے۔ انھیں فخر ہے کہ ان کی بیٹی بہترین پینٹنگ کرتی ہے۔ اس نے سی ایل اے ٹی کے امتحان میں بہت اچھے رینک بھی حاصل کیے ہیں۔ وہیں میگھا جین جی نے لکھا ہے کہ 92 سال کی ایک بزرگ خاتون، سالوں سے گوالیار ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو مفت میں پانی پلاتی ہے۔ میگھا جی، اس ہندوستان کی لکشمی کی سادگی اور ہمدردی سے کافی متاثر ہوئی ہیں۔ ایسے متعدد کہانیاں لوگوں نے شیئر کی ہیں آپ ضرور پڑھیے ، تحریک حاصل کیجیے اور خود بھی ایسا ہی کچھ اپنے آس پاس سے شیئر کیجیے۔ اور میں ہندوستان کی ان سبھی لکشمیوں کو تہہ دل سے سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 17ویں صدی کی مشہور شاعرہ سانچی ہونمّا، انھوں نے 17ویں صدی میں، کنّڑ زبان میں، ایک نظم لکھی تھی۔ وہ جذبہ، وہ الفاظ، ہندوستان کی ہر لکشمی، یہ جو ہم بات کر رہے ہیں نا، ایسے لگتا ہے جیسے کہ اس کی بنیاد 17ویں صدی میں ہی رکھ دی گئی تھی۔ کتنے اچھے الفاظ، کتنے عمدہ جذبے اور کتنے عمدہ خیالات، کنّڑ زبان کی اس نظم میں ہیں۔
(پینندہ پرمیگوندانو ہماونتانو
پینندہ بروہو پرچیدانو
پینندہ جنک رایانو جسوولیندانو)
اس کا مطلب ہیمونت یعنی پہاڑوں کے بادشاہ نے اپنی بیٹی پاروتی کے باعث، رشی بریگھو نے اپنی بیٹی لکشمی کے باعث اور راجا جنک نے اپنی بیٹی سیتا کے باعث شہرت پائی۔ ہماری بیٹیاں، ہمارے لیے باعث فخر ہیں اور ان بیٹیوں کےعظمت سے ہی ہمارے سماج کی ایک مضبوط شناخت ہے اور اس کا روشن مستقبل ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 12 نومبر 2019 یہ وہ دن ہے، جس دن دنیا بھر میں، شری گرونانک دیو جی کا 550واں یوم پیدائش منایا جائے گا۔ گرونانک دیو جی کا اثر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ہمارے سکھ بھائی بہن بسے ہوئے ہیں جو گرونانک دیو جی کے فلسفوں کے تئیں پوری طرح سے سرشار ہیں۔ میں وینکور اور تہران میں گرودواروں کے اپنے دوروں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ شری گرونانک دیو جی کے بارے میں ایسا بہت کچھ ہے جسے میں آپ کے شیئر کرسکتا ہوں، لیکن اس کے لیے من کی بات کے کئی ایپی سوڈ لگ جائیں گے۔ انھوں نے، خدمت کو ہمیشہ سب سے پہلے رکھا۔ گرونانک دیو جی مانتے تھے کہ بے لوث جذبہ سے کی گئی خدمت کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی۔ وہ چھوا چھوت جیسی سماجی برائی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہے۔ شری گرونانک دیو جی نے اپنا پیغام دنیا میں، دو دور تک پہنچایا۔ وہ اپنے وقت میں سب سے زیادہ سفر کرنے والوں میں سے۔ کئی جگہوں پر گئے اور جہاں بھی گئے، وہاں اپنی سادگی، سادہ لوحی سے سب کا دل جیت لیا۔ گرونانک دیو جی نے کئی اہم ترین مذہبی سفر کیے۔ جنھیں ‘اداسی’ کہا جاتا ہے۔ یکجہتی اور مساوات کا پیغام لے کر وہ شمال ہو یا جنوب، مشرق ہو یا مغرب، ہر سمت میں گئے، ہر جگہ لوگوں سے، سنتوں اور رشیوں سے ملے۔ مانا جاتا ہے کہ آسام کے مشہور سنت شنکر دیو بھی ان سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے ہریدوار کی مقدس سرزمین کا سفر کیا۔ کاشی میں ایک مقدس مقام، ‘گروباغ گرودوار’ ہے۔ ایسے کہا جاتا ہے کہ شری گرونانک دیو جی وہاں رکے تھے۔ وہ وہاں بودھ مذہب سے جڑی ‘راج گیر’ اور ‘گیا’ جیسی مذہبی جگہوں پر بھی گئے تھے۔ جنوب میں گرونانک دیو جی، شری لنکا تک کا سفر کیا۔ کرناٹک میں بیدر کے سفر کے دوران، گرونانک دیو جی نے ہی وہاں پانی کی مشکلات کا حل نکالا تھا۔ بیدر میں‘ گرونانک جیرا صاحب’ نام کا ایک مشہور مقام ہے جو گرونانک دیو جی کی ہمیں یاد بھی دلاتا ہے، انھیں کے نام یہ منسوب ہے۔ ایک اداسی کے دوران، گرونانک جی نے جواب میں کشمیر اور اور اس کے آس پاس کے علاقے کا بھی سفر کیا۔ اسے سکھ پیروکاروں اور کشمیر کے بیچ کافی مضبوط رشتہ قائم ہوا۔ گرونانک تبت بھی گئے جہاں کے لوگوں نے انھیں گرو تسلیم کیا۔ وہ ازبیکستان میں بھی قابل پرستش ہیں جس کا انھوں نے سفر کیا تھا۔ اپنی ایک اداسی کے دوران، انھوں نے بڑے پیمانے پر اسلامی ملکوں کا بھی سفر کیا تھا۔ جس میں سعودی عرب، عراق اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں بسے، جنھوں نے پوری عقیدت کے ساتھ ان کے پیغامات کی تعمیل کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی،تقریباً 85 مکلوں کے سفیروں نے، دلّی سے امرتسر کا سفر کیا تھا۔ وہاں انھوں نے امرتسر سے گولڈن ٹیمپل کی زیارت کی اور یہ سب گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو کے تحت ہوا تھا۔ وہاں ان سارے سفیروں نے گولڈ ٹیمپل کی زیارت تو کی ہی۔ انھیں سکھ روایت اور ثقافت کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ اس کے بعد کئی سفیروں نے سوشل میڈیا پر وہاں کی تصویریں شیئر کیں۔ بڑے قابل فخر اور اچھے تجربات کو بھی لکھا۔ میری تمنا ہے کہ گرونانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو ہمیں ان کے خیالات اور فلسفوں کو اپنی زندگی میں اتارنے کی اور زیادہ تحریک دے۔ ایک بار پھر میں سر جھکا کر گرونانک دیو جی کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو، مجھے یقین ہے کہ 31 اکتوبر کی تاریخ آپ سب کو یقینا یاد ہوگی۔ یہ دن ہندوستان کے مردآہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے جو ملک کو اتحاد کے دھاگے میں پرونے والے عظیم ہیرو تھے۔ سردار پٹیل میں جہاں لوگوں کو متحد کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی وہ لوگوں کے ساتھ بھی تال میل بٹھا لیتے تھے جن کے ساتھ فکری اختلاف ہوتے تھے۔ سردار پٹیل باریک سے باریک چیزوں کو بھی بہت گہرائی سے دیکھتے تھے، پرکھتے تھے، صحیح معنوں میں وہ ‘مین آف ڈیٹیل’ تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ منصوبوں کو تیار کرنے اور لائحہ عمل بنانے میں انھیں مہارت حاصل تھی۔ سردار صاحب کے طریقہ کار کے موضوع پر جب پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی پلاننگ کتنی زبردست ہوتی تھی۔ 1921 میں احمد آباد میں کانگریس کے کنوینشن میں شامل ہونے کے لیے پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں وفود پہنچنے والےتھے۔ کنونشن کے سارے انتظامات کی ذمہ داری سردار پٹیل پر تھی۔ اس موقع کا استعمال انھوں نے شہر میں پانی، سپلائی کے نیٹ ورک کو بھی سدھارنے کے لیے کیا۔ یہ یقینی بنایا کہ کسی کو بھی پانی کی دقت نہ ہو۔ یہی نہیں انھیں اس بات کی بھی فکر تھی کہ کنونشن کے مقام سے کسی وفد کا سامان یا اس کے جوتے چوری نہ ہوجائیں اور اسے دھیان میں رکھتے ہوئے سردار پٹیل نے جو کیا وہ جانکر آپ بہت حیران ہوں گے۔ انھوں نے کسانوں سے رابطہ کیا اور ان سے کھادی کے بیگ بنانے کی درخواست کی۔ کسانوں نے بیگ بنائے اور نمائندگان کو فروخت کیے۔ اس بیگ میں جوتے ڈال کر اپنے ساتھ رکھنے سے وفود کے من سے جوتے چوری ہونے کی فکر ختم ہوگئی۔ وہیں دوسری طرف کھادی کے فروخت میں بھی کافی اضافہ ہوا۔ آئین ساز میں قابل ذکر کردار ادا کرنے کے لیے ہمارا ملک، سردار پٹیل کا ہمیشہ احسان مند رہے گا۔ انھوں نے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا اہم ترین کام انجام دیا، جس سے ذات اور فرقہ کے آدھار پر ہونے والے کسی بھی بھید بھاؤ کی گنجائش نہ باقی رہے۔
ساتھیو، ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کی حیثیت سے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، ریاستوں کو ایک کرنے کا، ایک بہت بڑا اور تاریخی کام کیا۔ سردار ولبھ بھائی کی یہی خصوصیت تھی جن کی نظر ہر واقعے پر ٹکی تھی۔ ایک طرف ان کی نظریں حیدرآباد، جوناگڑھ اور دیگر ریاستوں پر مرکوز تھیں وہیں دوسری طرف ان کا دھیان دور دراز جنوب میں لکشدیپ پر بھی تھا۔ دراصل، جب ہم سردار پٹیل کی کوششوں کی بات کرتے ہیں تو ملک کے اتحاد میں کچھ خاص ریاستوں میں ہی ان کے رول کا ذکر ہوتا ہے۔ لکشدیپ جیسے چھوٹی جگہ کے لیے بھی انھوں نے اہم رول نبھایا تھا۔ اس بات کو لوگ شاید ہی یاد کرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لکشدیپ کچھ جزیروں کا مجموعہ ہے۔ یہ ہندوستان کے سب سے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد ہمارے پڑوسی کی نظر لکشدیپ پر تھی اور اس نے اپنے جھنڈے کے ساتھ جہاز بھیجا تھا۔ سردار پٹیل کو جیسے ہی اس بات کی جانکاری ہوئی انھوں نے بغیر وقت ضائع کیے، ذرا بھی دیر کیے بغیر فوراً سخت کارروائی شروع کردی۔ انھوں مدالیئر بھائیوں، آرکوٹ راماسامی مدالیئر اور آرکوٹ لکشمن سوامی مدالیئر سے کہا کہ وہ تراون کور کے لوگوں کو ساتھ لے کر فوراً کوچ کریں اور وہاں ترنگا لہرائیں۔ لکشدیپ میں ترنگا پہلے لہرانا چاہیے۔ ان کے حکم کے فوراً بعد وہاں ترنگا لہرایا گیا اور لکشدیپ پر قبضہ کرنے کے پڑوسی کے ہر منصوبے دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد سردار پٹیل نے مدولیئر بھائیوں سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر یہ یقینی بنائیں کہ لکشدیپ کی ترقی کے لیے ہر ضروری امداد ملے۔ آج لکشدیپ ہندوستان کی ترقی میں اپنی اہم خدمات دے رہا ہے۔ یہ ایک پرکشش سیاحتی مقام بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب بھی اس کے خوبصورت جزیروں اور سمندری ساحلوں کا سفر کریں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر 2018 کا دن، جس دن سردار صاحب کی یاد میں بنا ‘مجسمہ اتحاد’ ملک اور دنیا کے نام وقف کیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے۔ امریکہ میں ‘مجسمہ آزادی’ سے بھی اونچائی میں دوگنا ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہر ہندوستان کو فخر سے معمور کردیتا ہے۔ ہر ہندوستان کا سر شان سے اونچا اٹھ جاتا ہے۔ آپ کو خوشی ہوگی ایک سال میں 26 لاکھ سے زیادہ سیاح ‘مجسمہ اتحاد’ کو دیکھنے کے لیے پہنچے۔ اس کا مطلب ہوا کہ یومیہ اوسطا ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں نے ‘مجسمہ اتحاد’ کی عظمت کا مشاہدہ کیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے تئیں ان کے دل میں جویقین ہے، عقیدہ ہے، اس کا اظہار کیا اور اب تو وہاں کیکٹس گارڈن، بٹرفلائی گارڈن، جنگل سفاری، چلڈرن نیوٹریشن پارک، ایکتا نرسری، ایسے متعدد پرکشش کے مقامات مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اور اس سے مقامی معیشت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ او رلوگوں کو روزگار کے نئے نئے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ اور آنے والے سیاحوں کی سہولتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کئی گاؤں والے اپنے اپنے گھروں میں ہوم اسٹے کی سہولت فراہم کروا رہے ہیں۔ ہوم اسٹے سہولتیں فراہم کرانے والے لوگوں کو پروفیشنل ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اب ڈریگن فروٹ کی کھیتی بھی شروع کردی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ وہاں کے لوگوں کی زندگی کا خاص ذریعہ بھی بن جائے گا۔
ساتھیو، ملک کے لیے، سبھی ریاستوں کے لیے سیاحت کی صنعت کے لیے، یہ مجسمہ اتحاد ایک مطالعہ کا موضوع ہوسکتا ہے۔ ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک سال کے اندر ایک مقام عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام کے طور پر فروغ پاتا ہے۔ وہاں ملک اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی ٹھہرنے کی ، رہنمائی کرنے والوں کی، ماحول دوست انتظامات، ایک کے بعد ایک اپنے آپ بہت سارے انتظامات فروغ پاتے چلے جارہے ہیں۔ بہت بڑی اقتصادی ترقی ہو رہی ہے اور مسافرین کی ضرورتوں کے مطابق لوگ وہاں سہولتیں پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت بھی اپنا رول ادا کر رہی ہے۔ ساتھیو کون ہندوستانی ہوگا جس کو اس بات کا فخر نہیں ہوگا کہ پچھلے دنوں ٹائم میگزین نے دنیا کے سو اہم ترین سیاحتی مقامات میں مجسمہ اتحاد کو بھی اہم مقام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی لوگ اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر مجسمہ اتحاد دیکھنے تو جائیں گے ہی، لیکن میری درخواست ہے کہ ہر ہندوستان جو سفر کرنے کے لیے وقت نکالتا ہے وہ ہندوستان کے کم سے کم 15 مقامات کا سفر اپنے خاندان کے ساتھ کرے جہاں جائے وہاں رات کو رکے، یہ میری درخواست تو برقرار ہی ہے۔
ساتھیو، جیسے کہ آپ جانتے ہی 2014 سے ہر سال 31 اکتوبر کو قومی ایکتا دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں اپنے ملک کے اتحاد، سالمیت اور سلامتی کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ 31 اکتوبر کو ہر بار کی طرح رن فار یونیٹی کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ اس میں سماج کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے۔ رن فار یونیٹی اس بات کی علامت ہے، یہ ملک ایک ہے، ایک سمت میں چل رہا ہے اور ایک مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک مقصد، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان۔
پچھلے پانچ سال دیکھا گیا ہے نہ صرف دلّی لیکن ہندوستان کے سیکڑوں شہروں میں، مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں، راجدھانیوں میں ضلعی مراکز میں چھوٹی چھوٹی ٹیئر ٹو ٹیئر تھری سٹی میں بھی بہت بڑی تعداد میں مرد ہو ، عورت ہو شہر کے لوگ ہوں ، گاؤں کے لوگ ہوں، بچے ہوں، نوجوان ہوں، عمر رسیدہ لوگ ہوں، معذور ہوں، سب لوگ بہت بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی آج کل دیکھیں تو لوگوں میر میراتھن کو لے کر ایک شوق اور جنون دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رن فار یونیٹی بھی تو ایک ایسا ہی انوکھا پروویژن ہے۔ دوڑنا دل، دماغ اور جسم سب کے لیے مفید ہے۔ یہاں تو دوڑنا بھی فٹ انڈیا کے جذبے کو سچ ثابت کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ، ایک ہندوستان، عظیم ہندوستان اس مقصد سے بھی ہم جڑ جاتے ہیں۔ اور اسی لیے صرف جسم نہیں، دل اور سنسکار ہندوستان کی ایکتا کے لیے ہندوستان کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے اور اس لیے آپ جس بھی شہر میں رہتے ہوں وہاں اپنے آس پاس رن فار یونیٹی کے بارے میں پتہ کرسکتے ہیں اس کے لیے ایک پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔ runforunity.gov.in اس پورٹل میں ملک بھر کی ان جگہوں کی جانکاری دی گئی ہے جہاں پر رن فار یونیٹی کا انعقاد ہونا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب 31 اکتوبر کو ضرور دوڑیں گے۔ ہندوستان کی ایکتا کے لیے، خود کی فٹنس کے لیے بھی۔
میرے پیارے ہم وطنو، سردار پٹیل نے ملک کو ایکتا کے دھاگے میں باندھا، ایکتا کا یہ منتر ہماری زندگی میں سنسکار کی طرح ہے اور ہندوستان جیسے تنوع سے بھرپور ملک میں ہمیں ہر سطح پر، ہر ڈگر پر، ہر موڑ پر، ہر پڑاؤ پر ایکتا کے اس منتر کو مضبوطی دیتے رہنا چاہیے۔ میرے پیارے ہم وطنو، ملک کی ایکتا اور آپسی بھائی چارہ کو مضبوط کرنے کے ہمارا سماج ہمیشہ سے بہت سرگرم اور چوکنا رہا ہے۔ ہم اپنے آپس پاس ہی دیکھیں تو ایسی کئی مثالیں ملیں گی جو آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کام کرتے رہے ہیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سماج کی کوشش، اس کی خدمت، یادوں کی سطح سے بہت جلد اوجھل ہوجاتا ہے۔
ساتھیوں مجھے یاد ہے کہ ستمبر 2010 میں جب رام جنم بھومی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ذرا ان دنوں کو یاد کیجیے، کیسے ماحول تھا۔ طرح طرح کے کتنے لوگ میدان میں آگئے تھے۔ کیسے کیسے انٹرسٹ گروپ اس صورتحال کا اپنے اپنے طریقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کھیل کھیل رہے تھے۔ ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لیے کس کس طرح کی زبان بولی جاتی تھی۔ مختلف آوازوں میں تیکھا پن بھرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ کچھ بیان بازوں نے اور کچھ بڑبولوں نے صرف اور صرف خود کو چمکانے کے ارادے سے نہ جانے کیا کیا بول دیا تھا۔ کیسی کیسی غیر ذمہ دارانہ باتیں کی تھیں۔ ہمیں سب یاد ہے۔ لیکن یہ سب پانچ دن، سات دن، دس دن، چلتا رہا، لیکن جیسے ہی فیصلہ آیا، ایک لطف انگیز، حیران کن تبدیلی ملک نے محسوس کی۔ ایک طرف تو دو ہفتے تک گرماہٹ کے لیے سب کچھ ہوا تھا، لیکن جب رام جنم بھومی پر فیصلہ آیا تب حکومت نے، سیاسی جماعتوں نے سماجی تنظیموں نے، سول سوسائٹی نے، سبھی فرقوں کے نمائندوں نے سادھوں سنتوں نے بہت ہی متوازن اور صبر وتحمل سے بھر پور بیان دیئے۔ ماحول سے تناؤ کم کرنے کی کوشش کی، لیکن آج مجھے وہ دن برابر یاد ہے۔ جب بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں من کو خوشی ہوتی ہے۔ عدلیہ کے وقار کو بہت ہی فخر سے احترام بخشا اور کہیں بھی گرماہٹ کا، تناؤ کا ماحول نہیں بننے دیا۔ یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ یہ ہمیں بہت طاقت دیتی ہے۔ وہ دن، وہ پل ہم سب کے لیے ایک فرض شناسی کا لمحہ ہے۔ ایکتا کی آواز، ملک کو کتنی بڑی طاقت دیتا ہے اس کی یہ مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر ہمارے ملک کی سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا جی کا قتل بھی اسی دن ہوا تھا۔ ملک کو ایک بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا۔ میں آج ان کو بھی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج گھر گھر کی اگر کوئی ایک کہانی سب دور سنائی دیتی ہے، ہر گاؤں کی کوئی ایک کہانی سنائی دیتی ہے— شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب، ہندوستان کے ہر گوشے سے، ایک کہانی سنائی دیتی ہے تو وہ ہے سوچھتا کی۔ ہر شخص کو، ہر خاندان کو، ہر گاؤں کو، سوچھتا کے تعلق سے اپنے اچھے مشاہدات کو کہنے کا من کرتا ہے۔ کیونکہ، سوچھتا کی یہ کوشش سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی کوشش ہے۔ انجام کار بھی سوا سو کروڑ بھی ہندوستانی ہیں لیکن ایک اچھا تجربہ اور دلچسپ بھی ہے۔ میں نے سونا، میں سوچتا ہوں، میں آپ کو بھی سناؤ۔ آپ تصور کیجیے، دنیا کا سب سے اونچا میدان جنگ جہاں کا درجہ حرارت صفر سے پچاس ساٹھ ڈگری مائنس میں چلا جاتا ہے، ہوا میں آکسیجن بھی نام کا ہی ہوتا ہے۔ اتنی مخالف صورتحال میں، اتنے چیلنجوں کے بیچ رہنا بھا، کسی کمال سے کم نہیں ہے۔ ایسی مشکل حالت میں ہمارے بہادر جوان نہ صرف سینا تان کر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ وہاں سوچھ سیاچین مہم بھی چلا رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی اس غیر معمولی عہد بستگی کے لیے میں ہم وطنوں کی جانب سے ان کی ستائش کرتا ہوں۔ شکریے کا اظہار کرتا ہوں، وہاں اتنی سردی ہے کہ کچھ بھی ڈی کمپوز ہونا مشکل ہے۔ ایسے میں کوڑے کچرے کو الگ کرنا اور اس کا انتظام کرنا، اپنے آپ میں بہت اہم کام ہے۔ ایسے میں گلیشئر اور ان کے آس پاس کے علاقے سے 130 ٹن اور اس سے بھی زیادہ کچرا ہٹانا اور وہ بھی یہاں کے کمزور ماحولیاتی نظام کے بیچ۔ کتنی بڑی خدمت ہے یہ۔ یہ ایک ایسا ماحولیاتی نظام ہے جو ہیم تیندوے جیسی نایاب نسل کا گھر ہے۔ یہاں آئی بیکس اور بھورے بھالو جیسے نایاب جانور بھی رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سیاچین ایسا گلیشئر ہے جو ندیوں اور شفاف پانی کا منبع ہے۔ اس لیے یہاں سوچھتا مہم چلانے کا مطلب ہے ان لوگوں کے لیے صاف پانی کو یقینی بنانا جو نچلے علاقوں میں رہتے ہیں۔ ساتھ ہی نبرا اور شیوک جیسے ندیوں کے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اتسو ، ہم سب کے جیون میں ایک نئے شعور کو جگانے والا تہوار ہوتا ہے۔ اور دیوالی میں تو خاص طور پر کچھ نہ کچھ نیا خریدنا بازار سے کچھ لانا ہر خاندان میں کم زیادہ مقدار میں ہوتا ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہم کوشش کریں مقامی چیزوں کو خریدیں۔ ہماری ضرورت کی چیز ہمارے گاؤں میں ملتی ہے تو تحصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تحصیل میں ملتی ہے تو ضلع تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنی مقامی چیزیں خریدنے کی کوشش کریں گے ‘‘گاندھی 150’ اپنے آپ میں ایک عظیم موقع بن جائے گا۔ اور میری تو درخواستس رہتی ہی ہے کہ ہمارے بنکروں کے ہاتھ سے بنا ہوا ، ہمارے کھادی والوں کے ہاتھوں سے بنا ہوا کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہی چاہیے۔ اس دیوالی میں بھی، دیوالی سے پہلے تو آپ نے بہت کچھ خرید کر لیا ہوگا۔ لیکن بہت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ دیوالی کے بعد جائیں گے تو تھوڑا سستا بھی مل جائے گا۔ تو بہت لوگ ہوں گے جن کی ابھی خریداری باقی بھی ہوگی۔ تو دیوالی کی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آؤ ہم مقامی چیزیں خریدنے کے خریدار بنیں، مقامی چیزیں خریدیں، دیکھئے، مہاتما گاندھی کے خواب کو سچ کرنےمیں ہم بھی کتنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ میں پھر ایک بار اس دیوالی کے مقدس تہوار پر آپ کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، دیوالی میں ہم طرح طرح کے پٹاخے اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی بے احتیاطی میں آگ لگ جاتی ہے، کہیں زخمی ہوجاتے ہیں۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ خود کو بھی سنبھالیے اور تہوار کو بڑے امنگ سے منایئے۔ میری بہت بہت مبارکباد۔
بہت بہت شکریہ!
My dear countrymen, Namaskar,Friends, in today’s episode of Mann Ki Baat, I shall also talk about a great personality of the country, cherished by all Indians with respect and affection from the core of their hearts. There must be hardly an Indian citizen who does not show deep regard for her, does not revere her. She is elder to most of us and has been a witness to myriad phases, different eras the country has passed through. We address her as “DIDI”, elder sister…. Lata Didi. She turns ninety this 28th of September. Before leaving on the foreign tour, I was blessed with an opportunity to converse with her on the phone. This chat was akin to a younger brother speaking to his elder sister affectionately. I usually refrain from sharing such personal conversations; but today, I want you to listen to the tete a tete; listen to Lata Didi. Listen to it for yourself how Lata Didi is earnestly concerned and eager about everything concerning the country. Her satisfaction and reassurance too, lies in the progress being made by India; the India on the path of change; the India that is gaining newer heights.
Modi Ji : Lata Didi, Pranaam. This is Narendra Modi speaking.
Lata Didi: Pranaam.
Modi Ji : I gave you a call, since on your birthday this time, I would be travelling on a flight.
Lata Didi: Okay.
Modi Ji : So, I thought, before leaving, I would wish you in advance… heartiest best wishes on your birthday. May you stay healthy, may your blessings always be showered upon us, we pray. And I called you up before leaving to greet you.
Lata Didi: I was touched when I came to know that you would be giving me a call. When are you returning?
Modi Ji : I am returning in the intervening night of the 28th & the 29th, slightly past your birthday.
Lata Didi: Okay, Okay. What’s there to celebrate on a Birthday! Just at home with near & dear ones.
Modi Ji : Didi, you see….
Lata Didi: I seek your blessings.
Modi Ji : It is we who seek your blessings, you are much elder to us.
Lata Didi: There are many who are elder just by age, but greater are the blessings of those who do great work, and hence are greater.
Modi Ji : Didi, you are greater, not only in terms of age, but also, in terms of your illustrious work. Your attainment through your glorious achievements are the result of your perseverance, your Sadhana & Tapasya.
Lata Didi: All this is just the fruit of the blessings of my parents; the blessings of my listeners. I am a nobody.
Modi Ji : That is your humility. For everyone from the new generation, it is a lesson. For us it is an immense source of inspiration that even after reaching glorious heights, you have always accorded the highest priority to acknowledge the upbringing, the sanskar bestowed by your parents and also to being humble.
Lata Didi: Jee…
Modi Ji : And it gives me joy when you proudly say that your mother was a Gujarati.
Lata Didi: Yes.
Modi Ji : And whenever I visited you, you offered me a variety of Gujarati dishes.
Lata Didi: You do not have an idea of what you are. I know for sure that your advent is transforming the landscape of India. It gives me joy, feels nice.
Modi Ji : Didi, all we want is that you continue blessing us, blessing the whole country, may we keep on doing the good work. I keep getting your letters and gifts as well. Our close bond feels like family and gives me immense joy.
Lata Didi: Of course. I do not wish to trouble you further, since I can see how busy you are with myriad pressures on the work front. There are so many things that you have to think of. After you had gone to touch your mother’s feet, I too sent someone to her to seek her blessings.
Modi Ji : Yes. My mother remembered. She was telling me that.
Lata Didi: And she blessed me over the telephone. I felt overjoyed.
Modi Ji : Your affection made Mother very happy. And I am extremely thankful to you for the concern that you show towards me. Once again, I extend my heartiest wishes for your birthday. This time when I had come to Mumbai, I felt like meeting you in person.
Lata Didi: Yes, certainly.
Modi Ji : But I could not be there because of paucity of time. But I shall come very soon to your place. And I would love you to feed me a Gujarati dish.
Lata Didi: Of course, sure. I shall feel fortunate & privileged.
Modi Ji : Pranaam, Didi.
Lata Didi: Pranaam.
Modi Ji : Lots of good wishes to you
Lata Didi: Greetings to you.
Modi Ji : Pranaam Didi.
My dear countrymen, with the advent of Navaratri today, the air is bound to be full of new hopes, new energy, newer zest and newer resolves, once again. After all, it’s the festival season. The ensuing weeks shall be witness to the sparkle of festivals throughout the country. All of us shall celebrate the NavaratriMahotsava, Garba, Durga Puja, Dussehra, Diwali, BhaiyaDooj, Chhath Puja…. in fact innumerable festivals. Heartiest greetings to all of you for these festivals to come. During festivals, families come together. Homes will be filled with joy! But… you must have felt this… there are many people around us who remain deprived of these celebrations. And this is what is termed as “Chiragh Tale Andhera”, darkness just beneath the lamp! Perhaps this adage is not just a set of words; for us, it is an order a philosophical thought, or an inspiration. Just think about it; there are some homes, bathed in shimmering lights; on the other hand, just close by, there are some homes mired in darkness.
There are homes where sweetmeats are left to rot; there are homes where children yearn for a sweet; at places almirahs run out of space to store more clothes; elsewhere, people have to slog to earn a decent covering for their bodies. So, is thisnot the darkness, just beneath the lamp? Indeed it is. The true joy radiating out of festivals is only when the darkness subsides and dissipates and a radiant glow emerges. Let us distribute joy, where there is a paucity of it… let it come naturally to us. On the one hand, when we experience the ‘Delivery In’ of sweetmeats, apparel, gifts and so on, let us think for a moment on the process of ‘Delivery Out’. At least in our homes, items that are in excess and thus, not required anymore, could be allocated for ‘Delivery Out’. In many cities, many NGOs run by young friends have formed Start ups for this endeavor. They collect clothes, sweets, food from homes, look for the needy and hand them over discreetly. Can we, this time, during the festival season, dispel some of the darkness beneath the lamp with due awareness and resolve? The smiles thus accrued on the faces of numerous underprivileged families will more than double your joy during festivals… your faces will be lit up with a glow that will brighten your Diwali immensely.
My dear brothers and sisters, Laxmi, the goddess of wealth, makes an entry into each and every household in the form of fortune and prosperity. Of course, Laxmi should be welcomed in the traditional way. Can we, this time, introduce a novelty in welcoming her? In our culture, daughters are considered Laxmi, since they are harbinger of fortune and prosperity. Can we, this time around in society, organize programmes to felicitate daughters in villages, towns and cities? It could be in the form of a public function. There must be numerous daughters amongst us who, through there perseverance, diligence and talent have brought glory to their families, society and the country. This Diwali, can we arrange programmes to honor the Laxmi of India? If you look around, you’ll find many daughters and daughters-in-law who are performing extraordinarily. Some must be engaged in teaching underprivileged children, others could be occupied in spreading awareness in the field of sanitation and health, while many could be doing society a service by working as Doctor and Engineers. Or striving for justice to someone by working as Lawyer!
Our society must recognize such daughters, honor them and feel proud of them. Programmes to felicitate them should be held throughout the country. We could do something more; we could highlight the achievements of these daughters by sharing their achievements on social media, using the hashtag # BHARAT KI LAXMI. The way we jointly ran a mega campaign “Selfi with daughter”, which spread globally. Similarly, this time, let us do a campaign BHARAT KI LAXMI. Encouraging the Laxmi of Bharat amounts to strengthening the paths of prosperity for the country and her citizens.
My dear countrymen, as I have mentioned earlier, a great advantage of Mann Ki Baat is that, I’m blessed with the opportunity to converse with a lot of people, known or unknown, directly or indirectly.A few days ago, AleenaTaayang, a student from far off Arunachal has written an interesting letter to me. And the contents are… Let me read out the letter to you.
Respected Mr. Prime Minister, my name is Aleena Taayang. I hail from Roing, Arunachal Pradesh. On my exam result this time, some people asked me if I had read the book Exam Warriors! I replied in the negative. But on returning, I purchased the book and read it more than twice. My experience after that has been very good. I felt, had I read the book before my exams, I would’ve benefitted a great deal. I liked quite a few aspects of this book, but I noticed that it contains may mantras for students, but for parents and teachers this book does not have much. I wish;if you are thinking anew on a new edition, do include a few mantras for parents and teachers and of course new content.
See… even my young friends bear this trust that whatever they ask the Pradhan Sevak, the principal servant of the country to do; it will be done.
My young student friends, first of all, I thank you for writing to me. Thank you for reading Exam Warriors more than twice and special thanks for pointing out shortcomings in the book. At the same time, my little friend has entrusted me with a task, in fact there are orders for me. I shall certainly comply with your directions. As you have told me, I shall positively try to write something for parents as well as teachers, as and when I get the time to pen a new edition. But I urge all of you… can you be of help to me? It is about experiences in your daily lives. I call upon all students, teachers and parents to come up with your experiences and suggestions on aspects of stress free exams. I shall duly go through them, study them. I’ll give it due thought and whatever comes across as apt, I shall try and incorporate that in my own words. And quite possibly, if the suggestions are sufficiently large in number, it will lend certitude to the idea of a new edition. So, I shall eagerly wait for your thoughts to flow. Once again, I express my gratitude to our little friend, student Aleena Taayang from Arunachal.
My dear countrymen, you update yourselves with the busy schedule of the Prime Minister of the country through newspapers and television, you even discuss the engagements. But, I hope you are aware that I am just as common a being as you are. Being an ordinary citizen, whatever affects you has the same effect on me, since I’m just one amongst you. Just see how on the one hand, victory in the U.S. open was discussed; on the other, runner up Daniil Medvedev’s speech was equally doing the rounds in public discourse, especially on social media. Hence I too heard the speech and watched the match. The sheer simplicity and maturity displayed by the 23 year old Daniil Medvedev touched everyone. It surely stirred me. Moments before this speech, he had suffered defeat at the hands of Tennis legend Rafael Nadal, 19 times grand slam winner. An event such as this would have pushed anyone towards remorse and despair; in the case of Medvedev, there was no sign of the slightest pallor on his countenance. Rather, his expression lit up the faces of those watching him with meaningful smiles. He won hearts with his humility and simplicity; the epitome of the spirit of sportsmanship in the truest sense that he is, in letter and spirit. Spectators welcomed his reflections with warmth and fervor. He also touched upon Nadal being the inspiring force in Tennis for millions of young people, adding how difficult it was to face him in the game.
The way Medvedev heaped praise on his opponent after a defeat in a fierce duel makes him a living example of the true essence of the spirit of sportsmanship. Of course, on the other hand champion Nadal too showered glowing praise on Daniil’s game. The display of the indomitable ardour of the defeated and the sheer humility of the victorious in the same frame was a sight to behold. If you haven’t heard Medvedev’s speech yet, I shall urge you, especially young friends to watch this video. It holds much for people across the age and class spectra to see and learn. These are moments that go way beyond winning and losing, wherevictory and defeat cease to be. It is life that is victory…. This has been beautifully articulated in our scriptures. The wisdom of our ancestors is truly praiseworthy. Our ancient texts observe:
विद्या विनय उपेता हरति
न चेतांसि कस्य मनुजस्य
मणि कांचन संयोग:
जनयति लोकस्य लोचन आनन्दम
Meaning, when ability and humility amalgamate in a person, whose heart will he not be able to win over? As a matter of fact, this young player has won the hearts of people across the globe.
My dear countrymen and especially my young friends, what I am going to tellyou now is directly for your benefit. Discourses and debates will continue, the support and opposition will continue, but, if some things are checked before they proliferate, then there is a huge benefit. Things that spawn and spread a lot are very difficult to stop at later stages. But, if we become aware at an early stage and put a stop to it, then a lot can be saved. Continuing in the same vein, I feel, today, that I should definitely have a talk with my young friends.
We all know that addiction to, tobaccois very harmful for health and it becomes very difficult to quit this addiction. People who consume tobacco are vulnerable to high risk diseases like cancer, diabetes, blood pressure etc. Everyone knows that. Tobacco intoxication occurs due to the nicotine present in it. Brain development is hampered by its consumption during adolescence. But, today, I want to have a discourse with you on a new topic. You must be knowing that, recently the e-cigarette got banned in India. An e-cigarette is a type of electronic device unlike a typical cigarette.In ane-cigarette, theheating of nicotine-containing fluids creates a type of chemical smoke and this is the pathway through which nicotine is consumed. While we all understand the dangers of common cigarettes, a misconception has been generated about e-cigarettes.
The myth that has been spread is that e-cigarettes pose no danger. Like the conventional cigarette, it does not spread odour as fragrant chemicals are added to it. We have seen around us, that, even if the father in any house is a chain smoker, still he tries to stop the rest of the household from smoking and wants his children not to fall prey to the habit of cigarettes or bidis. His effort is that no family member should take to smoking. He knows that smoking or tobacco causes great damage to the body. There is no confusion about the dangers posed by a cigarette. It only causes harm and this even its seller too knows. The smoker also knows this fact and so do people around. But the case of e-cigarettes is quite different. There is little awareness among people about e-cigarette. They are also completely unaware of its danger and for this reason sometimes e-cigarettessneak into the house out of sheer curiosity. And Kids at times pretending to be showing some magical trick, blow smoke in the presence of Peer Company or their parents, without lighting a cigarette or striking a match to light it! And as if a magic show is going on, the family members respond with applause! There is no awareness! There is no knowledge that once the teenagers or our youth get caught in its clutches, then, slowly, they become hookedand fall prey to this noxious addiction.
And our real wealth -the youth become condemned to tread on the path of waste, quite unaware! In fact, many harmful chemicals are added to e-cigarettes, which have a deleterious effect on health. You are aware of the fact that when someone smokes around us, we come to know about it through its odour. Even if there is a packet of cigarettes in someone’s pocket, the smell can be detected. However, this is not the case with an e-cigarette and many teenagers and young people, unknowingly and sometimes proudly displaying an e-cigaretteas a fashion statement, keep itbetwixt their books, in their offices, in their pockets, sometimes hold it in their hands and thus fall prey to it. The younger generation is the future of our country. The e-cigarette has been banned so that this new form of intoxication does not destroy our demographically young country. It does not trample the dreams of a family and waste the lives of our children. This scourge and this obnoxious habit should not become rooted in our society.
I urge all of you to quit the addiction to tobacco and do not harbour any misconceptions about e-cigarettes. Come, let us all build a healthy India.
Oh Yes! Do you still remember Fit India? Fit India does not mean that if we go to the gym for two hours every morning and evening, it will suffice! All these addictions have to be avoided to be a part of Fit India. I am sure you will not misconstrue whatever I’ve said, but rather happily accept my counsel; I will definitely like it.
My dear brothers and sisters, it is a matter of great providence that our India has been the birthplace and work-place of extraordinary denizens, who spent all their lives, not for themselves, but for the good of the society.
Our Mother India, our country is a bountiful land! Many gems of human beings took birth here. India has not only been the birthplace of such extraordinary people, but also the land of their karma. And these are the people who have spent themselves in service of others. One such illustrious Indian is being honoured in Vatican City on 13th October. It is a matter of pride for every Indian that, on the coming 13thOctober, His Holiness Pope Francis will declare Sister MariamThresia a saint. Sister MariamThresia, in her short lifespan of 50 years, worked for the good of humanity becominganoble example for the entire world.Whatever task Sister MariamThresiaundertook and accomplished, she did so withutmost dedication and devotion.She rendered service in the fields of education and social service. She had built many schools, hostels and orphanages, and throughout her life, remained devoted to this cause.
She founded the Congregation of the Sisters of the Holy Family which is still continuing on the path of her life’s philosophy and mission. I once again pay heart felt tributes to Sister MariamThresia and congratulate the citizens of India, and especially our Christian brothers and sisters, for this achievement.
My dear countrymen, it is a matter of pride not only for India but for the entire world today, while we are celebrating ‘Gandhi 150’, our 130 crore countrymen have pledged to be rid from the menace of Single Use Plastic. In view of the kind of lead that India has taken towards environmental protection, today the countries of the entire world are looking towards India as a model example. I am confident that you will all be a part of the campaign for liberation from the menace of Single Use Plastic on 2ndOctober. In India, citizens are contributing in this campaign in their own way. But, a young man from our country has initiated a very unique campaign.
My attention was drawn towards his work, so, I talked to him on the phone and tried to understand the new experiment being attempted by him. It could be that this attempt of his may work for other people of our country. Mr. RipudamanBelviji is making an unique effort by attemptingplogging! When I first encountered the term Plogging, it was novel even to me. Perhaps this word is in usage in certain measure in foreign lands. But, in India, RipudamanBelviji has promoted it to a great extent. Let's talk to him.
PM’S PHONE CALL WITH RIPUDAMAN BELVI
That is why you are worthy of praise. Ripudaman ji, I felt nice talking to you. You have designed this entire programme in a very innovative manner, in a way that it will be liked, especially by young people. Heartiest congratulation to you. And friends this time on the anniversary of revered Bapu, the Ministry of Sports too is organizing a ‘Fit India Plogging Run’. On the 2nd of October, plogging for two kilometers; and it will be held across the country. We heard through the experiences of Ripudaman Ji, how this programme should be organised; what it should consist of. What we have to do in this campaign that commences on 2nd of Octoberis that while we jog for 2 kilometers; and on the way, collect all kinds of plastic waste. Through endeavor, we shall not only pay better attention to our health; we shall also take a step towards ensuring protection for Mother Earth. This campaign is resulting in raising awareness levels in people; as far as sanitation and cleanliness, along with fitness levels. I do believe that a single step towards freedom from single use plastic taken by 130 crore countrymen will give India a lead by a 130 crore steps. Ripudaman ji, once again, many thanks to you. And to your team, and your imaginative, innovative bent of mind, heartiest congratulations from my side. Thank you.
My dear countrymen, groundwork for 2ndOctober is going on all over the country and also the world over, but we want to transmute 'Gandhi 150' as a task on the path of our duty. We want to move forward devoting our lives in the interest of the nation. I would like to remind you one thing in advance. Although in the next episode of 'Mann Ki Baat' I shall dwell upon it in detail, still today I am telling this ina advance so that you get time to prepare. You do remember that, 31stOctober is the birth anniversary of Sardar Vallabhbhai Patel and that ‘Ek Bharat Shreshth Bharat’ is our common dream; hence for that reason, every year on 31 October, we run for fostering unison in the country as 'Run for Unity', all over the nation. We have to run for the unity of the country on that day in in large numbers; elders, everyone, schools, colleges, all of us have to run for unity in lakhs of villages across the span of Hindustan. So, better start preparing from this instant onwards! I shall talk about it in detail later, but right now we have time on our hands; some people can begin their practice, whereas some can chalk out a plan.
My dear countrymen, you will remember, that on 15 August, I had in my address said from the ramparts of Red Fort that by 2022, you should visit 15 tourist destinations in India. At least 15 places and if possible, make a program to stay over there for an over night, two-night stay. You should observe, understand and experience India. We have so much diversity. And when holidays come in the shape of Diwali and allied festivals, people do travel and that's why I urge you to visit any 15 such places in India.
My dear countrymen, the 27th of September, two days prior to today, was celebrated as World Tourism Day and you will be happy to know that certain reputed tourism agencies of the world which rank standards of travel & tourism have shown that India has displayed a lot of improvement in the Travel & Tourism Competitive Index. And all this has been possible due to your cooperation and especially because understanding the importance of tourism has increased. The Swachhata Abhiyan also has a big role to play in all of this. And you will be delighted to know that today our rank is thirty four on this index whereas five years ago we were ranked65th, which in a way is a big jump. If we tried all that harder, then by the 75th year of our independence, we would have carved a place for ourselves amidst the major tourist destinations of the world.
My dear countrymen, once again I wish you all the best for various festivals that would be celebrated in the oncoming season in India, which is filled with diversity! Yes! Also, please see to it that during the celebration of Diwali, firecrackers do not lead to incidents of fire or loss of a life. Whatever precautions or preventive care is to be taken, should be taken during Diwali. Happiness should co-exist with joy, and of course there must also be enthusiasm and our festivals do indeed bring the aroma of collectiveness, and also the rituals connected with communal harmony. Symbiotic living provides us with renewed vigour and the festive season is the symbol of culmination of that renewed vigour. Come! Together brimming with enthusiasm, renewed dreams and resolutions we should celebrate. Once again here’s wishing many felicitations to you all. Thank you.
میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ! ہمارا ملک ان دنوں ایک طرف بارش سے لطف اندوز ہورہا ہے ، تو دوسری طرف ، ہندوستان کے گوشے گوشے میں کسی نہ کسی طرح سے تہوار اور میلے، دیوالی تک سب کچھ یہی چلتا ہے اور شاید ہمارے آباؤ اجداد نے ، موسم چکر ، زمینی چکر اور معاشرتی زندگی کے نظام کو بخوبی اس طرح سے ڈھال ہے کہ معاشرے میں کسی بھی حالت میں، کبھی بھی خالی پن نہ آئے۔ گزشتہ دنوں ، ہم لوگوں نے کئی تہوار منائے۔ کل پورے ہندوستان میں ، شری کرشن جنم اشٹمی کا تہوار منایا گیا۔ کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ کیسی شخصیت ہوگی کہ آج ہزاروں سالوں کے بعد بھی ہر تہوار نیا پن لے کر آتا ہے ، نئی ترغیب لے کر آتا ہے ، نئی توانائی لاتا ہے اور ہزاروں سال پرانی زندگی ایسی کہ جو آج بھی مشکلات کے کے حل کے لیے تحریک دے سکتا ہو۔ ہر فرد شری کرشن کی زندگی میں ایسے حال کی مشکلات کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اتنی صلاحیت کے باوجود بھی کبھی وہ راس میں رم جاتے تھے تو کبھی گایوں کے بیچ ، تو کبھی گالوں کے بیچ، کبھی کھیل کود کرنا تو کبھی بانسری بجانا۔ نہ جانے تنوع سے بھرپور یہ شخصیت بے مثال صلاحیت کا حامل، لیکن سماجی قوت کو وقف، عوامی قوت کو وقف، عوام کو یکجا کرنے والے کی صورت میں، نیا کارنامہ انجام دینے والی شخصیت، دوستی کیسے ہو، تو سوداما والا واقع کون بھول سکتا ہے اور میدان جنگ میں اتنی ساری عظمتوں کے باوجود بھی سارتھی کا کام منظور کر لینا۔ کبھی چٹان اٹھانے کا، کبھی کھانے کا برتن اٹھانے کا کام، یعنی ہر چیز میں ایک نیا پن سا محسوس ہوتا ہے اور اس لیے آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو میں دو موہن کی طرف میرا دھیان جاتا ہے ایک سودرشن چکر والے موہن تو دوسرے چرخہ والے موہن ۔ سودرشن چکر والے موہن جمنا کے کنارے کو چھوڑ کر گجرات میں سمندر کے ساحل پر جاکر دوارکا بستی میں قیام کیا اور سمندر کے ساحل پر پیدا ہوا موہن جمنا کے کنارے آکر دلی میں زندگی کی آخری سانس لیتے ہیں۔ سودرشن چکر والے موہن نے اُس وقت کی صورتحال میں ہزاروں سال پہلے بھی جنگ کو ٹالنے کے لیے ، اپنی دانشمندی کا، اپنے فرض کا، اپنی صلاحیت کا، اپنی عقل مندی کا بھرپور استعمال کیا تھا اور چرخہ والے موہن نے بھی تو ایک ایسا راستہ منتخب کیا، آزادی کے لیے انسانی اقدار کی کوشش کے لیے ، شخصیت کی بنیادی عنصر کوتقویت دے ، اس کے لیے آزادی کی جنگ کو ایک ایسی شکل دی، ایسا موڑ دیا جو پوری دنیا کے لیے آج بھی عجوبہ ہے۔بے لوث خدمت کی اہمیت ہو ، علم کی اہمیت ہو یا پھر زندگی میں تمام نشیب و فراض کے بیچ مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کی اہمیت ہو، یہ ہم بھگوان کرشن کے پیغام سے سیکھ سکتے ہیں اور اسی لیے تو شری کرشن جگت گرو کے روپ میں بھی جانے گئے ہیں۔
‘‘کرشن وندے جگد گروم’’
آج جب ہم تہواروں کا ذکر کر رہے ہیں تب ہندوستان ایک اور بڑے تہوار کی تیاری میں مصروف ہے اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں بھی اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے پیارے ہم وطنو، میں بات کر رہا ہوں مہاتما گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش کی۔ 2 اکتوبر 1869، پوربندر ، سمندر کے ساحل پر ، جسے آج ہم کرتی مندر کہتے ہیں، اُس چھوٹے سے گھر میں ایک شخص نہیں ، ایک عہد کا جنم ہوا تھا۔ جس نے انسانی تاریخ کو نیا موڑ دیا، نیا کارنامہ انجام دیئے۔ مہاتما گاندھی سے ایک بات ہمیشہ منسلک رہی ، ایک طرح سے ان کی زندگی کا وہ حصہ بنی رہی اور وہ تھی ، خدمت، خدمت کا جذبہ اور خدمت کے تئیں فرض کی ادائیگی۔ اُن کی پوری زندگی دیکھیں تو جنوبی افریقہ میں اُن طبقوں کے لوگوں کی خدمت کی جو نسلی عصبیت کا شکار تھے۔ اُس عہد میں وہ بات چھوٹی نہیں تھی ، جی! انہوں نے ، اُن کسانوں کی خدمت کی جنہیں چمپارن میں عصبیت کا شکار بنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے ، اُن مل مزدروں کی خدمت کی جنھیں مناسب اجرت نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے غریب، بے سہارا ، کمزور اور بھوکے لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین فرض سمجھا۔ جذام کے سلسلے میں کتنی غلط فہمیاں تھیں۔ ان غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے خود جذام کے مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور خود کے ، زندگی میں ، خدمت کے توسط سے مثال پیش کرتے تھے۔ خدمت، انہوں نے لفظوں میں نہیں – زندگی گزار کر سکھائی تھی۔ سچائی کے ساتھ گاندھی کا جتنا اٹوٹ رشتہ رہا ہے ، خدمت کے ساتھ بھی گاندھی کا اتنا ہی اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ جس کسی کو جب بھی ، جہاں بھی ضرورت پڑی مہاتما گاندھی خدمت کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ انہوں نے نہ صرف خدمت پر زور دیا بلکہ اس کے ساتھ منسلک اپنی خوشی پر بھی زور دیا۔ خدمت لفظ کی اہمیت اسی معنی میں ہے کہ اُسے خوشی کے ساتھ کیا جائے۔ خدمت ہی سب سے بڑا مذہب ہے (سیوا پرمو دھرم)۔ لیکن ساتھ ساتھ ، گہری اندرونی خوشی ،‘سوانتہ سکھایہ’ کا جوہر خدمت کے جذبے سے ہمکنار ہے۔ یہ ، بابائے قوم کی زندگی سے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، بے حساب ہندوستانیوں کی آواز بنے ہی، لیکن ، انسانی اقدار اور انسانی وقار کے لئے ، دنیا کی آواز بن گئے تھے۔ مہاتما گاندھی کے لئے ،انسان اور معاشرہ ، انسان اور انسانیت ، یہی سب کچھ تھا۔ خواہ، افریقہ میں فونکس فارم ہو، یا ٹالسٹائے فارم، سابرمتی آشرم ہو یا وردھا سبھی مقامات پر ، اپنے ایک منفرد انداز میں، معاشرتی متحرک کمیونٹی کو متحرک کرنے کے لیے ایک قوت رہا ہے۔ یہ میرے لیے بہت ہی خوشی کی بات ہے ، کہ ، مجھے عزت مآب مہاتما گاندھی سے منسلک متعدد اہم مقامت پر جا کر نمن کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ گاندھی، خدمت کے جذبے سے تنظیم کے جذبے پر بھی زور دیتے تھے۔ معاشرتی خدمت اور سماجی فروغ اور سمانی متحرک جذبہ یہ وہ جذبہ ہے جسے ہم اپنے روز مرہ کی زندگی میں لانا ہے۔ صحیح معنی میں ، یہی مہاتما گاندھی کو سچی خراج عقیدت ہے، سچی کاریانجلی ہے۔ اس طرح کے مواقع تو بہت آتے ہیں، ہم منسلک بھی ہوتے ہیں، لیکن کیا گاندھی 150؟ ایسے ہی آکر کے چلا جائے، ہمیں منظور ہے کیا؟ جی نہیں ہم وطنوں۔ ہم سب اپنے آپ سے ؛سوال کریں، غور و فکر کریں، اجتماعی طور پر بات چیت کریں۔ ہم معاشرے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ، سبھی زمروں کے ساتھ مل کر ، سبھی عمر کے لوگوں کے ساتھ مل کر – گاؤں ہو، شہر ہو، مرد ہو ، خواتین ہو، سب کے ساتھ مل کر ، معاشرے کے لیے ، کیا کریں – ایک شخص کے ناطے، میں ان کوششوں میں کیا جوڑوں۔ میری طرف سے ویلیو ایڈیشن کیا ہو؟ اور اجتماعیت کی اپنی ایک قوت ہوتی ہے۔ ان سبھی ، گاندھی 150، کے پروگراموں میں، اجتماعیت بھی ہو، اور خدمت بھی ہو۔ کیوں نہ ہم مل کر پورا گاؤں نکل پڑیں۔ اگر ہماری فٹبال کی ٹیم ہے، تو فٹبال کی ٹیم ، فٹبال تو کھیلیں گے ہی لیکن ایک –آدھ گاندھی کے نظریات کے مطابق بھی خدمات انجام دے گی۔ہماری خواتین کلب ہے۔ جدید دور کی خواتین کلب کے جو کام ہوتے ہیں وہ کرتے رہیں گے لیکن خواتین کلب کی سبھی سہیلیاں مل کر کوئی نہ کوئی ایک خدمت کا کام ساتھ مل کر کریں گی۔ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ کتابیں اکٹھا کریں، پرانی، غریبوں کو باٹیں، علم کی اشاعت کریں اور میں مانتا ہوں شاید 130 کروڑ ہم وطنوں کے پاس ، 130 کروڑ تصورات ہیں۔ 130 کروڑ انٹرپرائزز ہو سکتے ہیں۔ کوئی تحدید نہیں ہے، جو من میں آئے ، بس خواہش ہو ، نیک نیتی ہو اور پوری لگن ہو اور وہ بھی سوانتہ سُکھائیہ – ایک انوکھے جذبے کے احساس کے لیے ہو۔
میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ مہینے پہلے میں گجرات میں ڈانڈی گیا تھا۔ آزادی کی تحریک میں، نمک ستیہ گرہ، ڈانڈی ایک بہت ہی بڑا اور اہم موڑ ہے۔ ڈانڈی میں، میں نے مہاتما گاندھی کے نام وقف نہایت جدید ایک میوزیم کا افتتاح کیا تھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آنے والے وقت میں مہاتما گاندھی سے منسلک کسی نہ کسی ایک جگہ کا سفر ضرور کریں۔ یہ کوئی بھی مقام ہو سکتا ہے۔ جیسے پوربندر ہو، سابرمتی آشرم ہو، چمپارن ہو، وردھا کا آشرم ہو اور دلی میں مہاتما گاندھی سے منسلک مقامات ہوں۔ آپ جب ایسے مقامات پر جائیں تو اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر ضرور کریں تاکہ دیگر لوگ بھی اُس سے ترغیب حاصل کرے اور اس کے ساتھ اپنے جذبے کا اظہار کرنے والے دو چار جملے بھی لکھیں۔ آپ کے دل کے اندر سے اٹھے ہوئے جذبے کسی بھی بڑے ادب کی تخلیق سے زیادہ طاقتور ہوں گے اور ہو سکتا ہے آج کے وقت میں، آپ کی نظر میں ، آپ کے قلم سے لکھے ہوئے گاندھی کا روپ شاید یہ زیادہ موزوں بھی لگے۔ آنے والے وقت میں بہت سارے پروگراموں، مقابلوں، نمائشوں کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے لیکن اس تعلق سے ایک بات بہت دلچسپ ہے جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وینس بی نیل نام کا ایک بہت مشہور آرٹ شو ہے جہاں دنیا بھر کے فن کار جمع ہوتے ہیں۔ اس بار وینس بی نیل کے انڈیا پویلین میں گاندھی جی کی یادوں سے جڑی بہت سی دلچسپ نمائشیں لگائی گئیں، اس میں ہری پوراپینل خاص طور سے دلچسپ تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گجرات کے ہری پورا میں کانگریس کا اجلاس ہوا تھا جہاں سبھاش چندر بوس کے صدر منتخب ہونے کا واقعہ تاریخ میں رقم ہے۔ ان آرٹ پینلوں کا ایک بہت ہی خوبصورت ماضی ہے۔ کانگریس کے ہری پورا اجلاس سے پہلے 38-1937 میں مہاتما گاندھی نے شانتی نکیتن کلا بھون کے اُس وقت کے پرنسپل نند لال بوس کو مدعو کیا تھا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی طرز زندگی کو آرٹ کے توسط سے دکھائیں اور ان کی اس آرٹ ورک کی نمائش اجلاس کے دوران ہو۔ یہ وہی نند لال بوس ہیں جن کا آرٹ ورک ہمارے آئین کی زینت بڑھاتا ہے۔ آئین کو ایک نئی شناخت دیتا ہے اور ان کے اس آرٹ نے آئین کے ساتھ ساتھ نند لال بوس کو بھی لافانی بنا دیا ہے۔ نند لال بوس نے ہری پورہ کے آس پاس کے گاؤں کا دورہ کیا اور آخر میں دیہی ہندوستان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کچھ آرٹ کینوس بنایا۔ اس انمول فن کاری کی وینس میں زبردست ذکر ہوا۔ ایک بار پھر، گاندھی جی کی 150ویں یوم پیدائش کی مبارکبادیوں کے ساتھ میں ہر ہندوستانی سےکسی نہ کسی عزم کی توقع کرتا ہوں۔ ملک کے لیے ، معاشرے کے لیے، کسی اور کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے، یہی باپو کو اچھی، سچی ، مستند خراج عقیدت ہوگی۔
مادرِ وطن کے سپوتوں، آپ کو یاد ہوگا کی گذشتہ کچھ سالوں میں 2 اکتوبرسے پہلے تقریبا دو ہفتہ تک ملک بھر میں ‘سوچھتا ہی سیوا ’ مہم چلاتے ہیں۔ اس بار ےیہ 11 ستمبر سے شروع ہوگا۔ اس دوران ہم اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر شرم دان کے ذریعہ مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ گھر ہو یا گلیاں، چوک چوراہے ہوں یا نالیاں، اسکول، کالج سے لے کر سبھی عوامی مقامات پر سوچھتا کی بڑی مہم چلانی ہے۔ اس بار پلاسٹک پر خصوصی زور دینا ہے۔ 15 اگست کہ لال قلعہ سع میں نے یہ کہا کہ جس جوش اور توانائی کے ساتھ سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے سوچھتا کے لیے مہم چلائی ۔ کھلے میں رفع حاجت سے نجات کے لیے کام کیا۔ اسی طرح ہمیں ساتھ مل کر سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال کو ختم کرنا ہے۔ اس مہم کو لے کر معاشرے کے سبھی طبقوں میں جوش ہے ۔ میرے متعدد بیوپاری بھائی –بہنوں نے دکان میں ایک تختی لگا دی ہے، ایک پلے کارڈ لگا دیا ہے۔ جس پر یہ لکھا ہے کہ خریدار اپنا تھیلا ساتھ لے کر ہی آئیں۔ اس سے پیسہ بھی بچے گا اور ماحول کے تحفظ میں وہ اپنا تعاون بھی دے پائیں گے۔ اس بار 2 اکتوبر کو جب باپو کے 150 ویں یوم پیدائش منائیں گے تو اس موقع پر ہم انہیں نہ صرف کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہندوستان وقف کریں گے بلکہ اس دن پورے ملک میں پلاسٹک کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک کی بنیاد رکھیں گے۔ میں معاشرے کے سبھی طبقوں سے ، ہر گاؤں، قصبے میں اور شہر کے مکینوں سے اپیل کرتا ہوں ، درخواست کرتا ہوں کہ اس سال گاندھی جینتی ایک طرح سے ہماری اس بھارت ماتا کو پلاسٹک کچڑے سے نجات کے روپ میں منائیں۔ 2 اکتوبر کو خاص دن کے روپ میں منائیں ۔ مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش ایک خاص شرم دان کا تہوار بن جائے ۔ ملک کی سبھی نگر پالیکا، نگر نگم ، ضلع انتظامیہ ، گرام پنچایت، سرکاری و غیر سرکاری سبھی انتظامات ، سبھی ادارے ، ایک ایک شہری ہر کسی سے میری گذارش ہے کہ پلاسٹک کچڑے کے کلکشن اور اسٹوریج کے لیے معقول انتظام ہو۔ میں کارپوریٹ سیکٹر سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ جب پلاسٹک کے یہ سارے فضلہ جمع ہو جائیں تو اسے مناسب طور پر ٹھکانے لگانے کے لیے آگے آئیں، ڈسپوزل کے انتظامات کریں۔ اسے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس دیوالی تک ہم اس پلاسٹک کچڑے سے محفوظ طریقے سے نمٹنے کا بھی کام پورا کر سکتے ہیں۔ بس عزم کرنا ہے۔ تحریک کے لیے ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، گاندھی سے بڑی تحریک کیا ہو سکتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ہمارے سنسکرت سبھاشت میں ایک طرح سے علم کے جوہر موجود ہیں ۔ ہمیں زندگی میں جو چاہیے وہ اس میں مل سکتا ہے۔ ان دنوں تو میرا رابطہ بہت کم ہو گیا ہے لیکن پہلے میرا رابطہ تھا۔ آج میں سنسکرت سے ایک بہت اہم بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور یہ صدیوں پہلے لکھی گئی باتیں ہیں، تاہم آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔ ایک عمدہ سبھاشت ہے اور اسے سنسکرت کے سبھاشت نے کہا ہے :
‘‘پرتھویان ترینی رتنانی جلامنن سبھاشیتم۔
مودھے: پاشان کھنڈیشو رتن سنگیا پرادیتے’’۔
یعنی کہ زمین میں پانی، اناج اور سبھاشت – یہ تین رتن ہیں۔ احمق لوگ پتھر کو رتن کہتے ہیں۔ ہماری ثقافت میں اناج کی بہت زیادہ عظمت رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے اناج کے علم کو بھی سائنس میں بدل دیا ہے۔ متوازن اور قوت بخش غذا ہم سبھی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے ، کیونکہ یہ ہی ہمارے معاشرے کے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ ‘قوت بخش مہم’ کے تحت پورے ملک بھر میں جدید سائنسی طریقوں سے تغذیہ کو عوامی تحریک بنایا جا رہا ہے ۔ لوگ نئے اور دلچسپ انداز سے غذائی قلت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی میری توجہ ایک بات کی دلائی گئی تھی۔ ناسک میں ‘مٹھی بھر دھان’ ایک بڑی تحریک بن گئی ہے۔ اس میں فصل کی کٹائی کے دنوں میں آگن واڑی سے جڑی رضاکارخواتین لوگوں سے ایک مٹھی اناج جمع کرتی ہیں۔ اس اناج کا استعمال بچوں اور خواتین کے لیے گرم کھانا بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں عطیہ دینے والا شخص ایک طرح سے باشعور شہری معاشرہ خدمتگار بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ خود کو اس مقصد کے لیے وقف کردیتا ہے۔ اس تحریک کا وہ ایک سپاہی بن جاتا ہے ۔ ہم سبھی نے کنبوں میں ہندوستان کے ہر خطے میں‘ اَنّ پراشن سنسکار’ کے بارے میں سنا ہے۔ یہ سنسکار تب کیا جاتا ہے جب بچے کو پہلی بار ٹھوس اناج کھلانا شروع کرتے ہیں۔ لیکوئیڈ فوڈ نہیں سولڈ فود۔ گجرات نے 2010 میں سوچا کہ کیوں نہ‘ اَنّ پراشن سنسکار’ کے موقع پر بچوں کو کمپلمنٹری فوڈ دیا جائے تاکہ لوگوںکو اس سلسلے میں بیدارکیا جا سکے ۔ کئی ریاستوں میں لوگ ‘تیتھی بھوجن ابھیان’ چلاتے ہیں۔ اگر خاندان میں یوم پیدائش ہو، کوئی مبارک دن ہو، کوئی یادگار دن ہو، تو خاندان کے لوگ قوت بخش اور لذیذ کھانا بنا کر آگن واڑی میں جاتے ہیں، اسکولوں میں جاتے ہیں اور خاندان کے لوگ خود بچوں کو پیش کرتے ہیں، کھلاتے ہیں۔ اپنی خوشی بھی بانٹتے ہیں اور خوشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ خدمت کے جذبے اور خوشی کے جذبے کا انوکھا ملن نظر آتا ہے۔ ساتھیوں، ایسی کئی ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے ہمارا ملک غذائی قلت کے خلاف ایک مؤثر لڑائی لڑ سکتا ہے۔ آج بیداری کی کمی کے باعث غذائی قلت سے غریب بھی اور خوشحال بھی دونوں طرح کے خاندان متاثر ہیں۔ پورے ملک میں ستمبر کا مہینہ ‘غذائی مہم’ کے طور پر منایا جائے گا۔ آپ ضرور اس سے جڑیں، معلومات حاصل کریں، کچھ نیا کریں، آپ بھی تعاون دیں۔ اگر آپ ایک فردکو بھی غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں تو مطلب ہم ملک کو غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں۔
‘‘ہیلو سر، میرا نام سرشٹی ودّیا ہے اور میں سکنڈ ایر کی اسٹوڈنٹ ہوں، سر میں نے 12 اگست کو آپ کا اپیسوڈ دیکھا تھا ، بیئر گریلس کے ساتھ، جس میں آپ آئے تھے۔ تو سر مجھے وہ آپ کا اپیسوڈ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ سب سے پہلے تو یہ سن کر اچھا لگا کہ آپ کو ہمارے نیچر ، وائلڈ لائف اور انوارنمنٹ کی کتنی فکر ہے ، کتنی زیادہ کیئر ہے اور سر مجھے بہت اچھا لگا آپ کو اس نئے روپ میں، ایک ایڈونچرس روپ میں دیکھ کر۔ تو سر ، میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کا اس اپیسوڈ کے دوران تجربہ کیسا رہا اور سر لاسٹ میں ایک بات اور جوڑنا چاہوں گی کہ آپ کا فٹنیس لیول دیکھ کر ہم جیسے ینگسٹر بہت زیادہ امپریس اور بہت زیادہ موٹیویٹ ہوئے ہیں، آپ کو اتنا فٹ اور فائن دیکھ کر ۔’’
سریشٹی جی آپ کے فون کال کا شکریہ۔ آپ ہی کی طرح ، ہریانہ میں ، سوہنا سے کے کے پانڈے جی اور سورت کے ایشوریا شرما جی کے ساتھ ، بہت سارے لوگوں نے ڈسکوری چینل پر دکھائے گئے ‘مین ورسز وائلڈ’ اپیسوڈ کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ اس بار جب من کی بات کے لیے میں سوچ رہا تھا تو مجھے پورا بھروسہ تھا کہ اس موضوع پر بہت سارے سوال آئیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی اور پچھلے کچھ ہفتوں میں میں جہاں بھی گیا لوگوں سے ملا ہوں وہاں ‘‘مین ورسز وائلڈ’’ کا بھی ذکر آ ہی جاتا ہے۔ اس ایک اپیسوڈ سے میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے جڑ گیا ہوں۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ دلوں میں اس طرح سے میرے لیے جگہ بن جائے گی۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے ملک کے اور دنیا کے نوجوان کتنی متنوع چیزوں کی طرف دھیان دیتے ہیں ۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کبھی دنیا بھر کے نوجوان کے دل کو چھونے کا میری زندگی میں موقع آئے گا۔ اور ہوتا کیا؟ ابھی پچھلے ہفتہ میں بھوٹان گیا تھا ۔ میں نے دیکھا ہے کہ وزیر اعظم کے روپ میں مجھے جب سے جہاں بھی جانے کا موقع ملا اور بین الاقوامی یوگ دیوس کی وجہ سے صوتحال یہ ہوگئی ہے کہ دنیا میں جس کسی کے پاس جاتا ہوں ، بیٹھتا ہوں، کوئی نہ کوئی پانچ سات منٹ تو یوگ سے متعلق مجھ سے سوال جواب کرتے ہی کرتے ہیں۔ شاید ہی دنیا کا کوئی بڑا ایسا لیڈر ہوگا جس نے مجھ سے یوگ سے متعلق پوچھا نہ ہو اور یہ پوری دنیا میں میں میرا تجربہ آیا ہے۔ لیکن ان دنوں ایک تجربہ ہو رہا ہے ۔ جو بھی ملتا ہے ، جہاں بھی بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ وائلڈ لائف کے موضوع پر بات کرتا ہے، ماحولیات سے متعلق بات کرتا ہے۔ ٹائیگر ، لائن ، جاندار فطرت اور میں حیران ہوں کہ لوگوں کی کتنی دلچسپی ہوتی ہے۔ ڈسکوری نے اس پروگرام کو 165 ملکوں میں ان کی زبان میں نشر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آج جب ماحولیات ، عالمی حدت، ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی فکر کا دور چل رہا ہے، مجھے امید ہے کہ ایسے میں یہ پروگرام ہندوستان کا پیغام ، ہندوستان کی روایت، ہندوستان کے سنسکار کے سفر میں قدرت کے تئیں جذباتیت، اتنی ساری باتوں سے دنیا کو متعارف کرانے میں یہ ڈسکوری چینل کی یہ قسط بہت معاون ہوگا۔ ایسا میرا پختہ یقین ہو گیا ہے اور ہمارے ہندوستان میں ماحولیاتی انصاف اور صاف ماحولیات کی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کو لوگ اب جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک اور دلچسپ بات ہے کچھ لوگ تذبذب کے ساتھ مجھے ایک بات ضرور پوچھتے ہیں کہ مودی جی بتائیے آپ ہندی بول رہے تھے اور بیئر گریلس ہندی جانتے نہیں ہیں تو اتنی تیزی سے آپ کے درمیان بات چیت کیسے ہوتی تھی؟ یہ کیا بعد میں ایڈٹ کیا ہوا ہے؟ یہ بار بار شوٹنگ ہوئی ہے؟ کیا ہوا ہے؟ بڑے تجسس کے ساتھ پوچھتے ہیں۔ دیکھئے اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ کئی لوگوں کے من میں یہ سول ہے، تو میں اس راز کو کھول ہی دیتا ہوں۔ ویسے وہ راز ہے ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیئر گریلس کے ساتھ بات چیت میں ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا ۔ جب میں کچھ بھی بولتا تھا تو فوراً ہی انگریزی میں بیک وقت ترجمہ ہوتا تھا ۔ بیک وقت تشریح ہوتا تھا اور بیئر گریلس کے کان میں ایک کورڈ لیس چھوٹا سا اوزار لگا ہوا تھا ۔ تو میں بولتا تھا ہندی لیکن اس کو سنائی دیتا تھا انگریزی اور اس کی وجہ سے بات چیت بہت آسان ہو جاتی تھی اور ٹکنالوجی کا یہی تو کمال ہے۔ اس شو کے بعد بڑی تعداد میں لوگ مجھے جم کاربوٹ، نیشنل پارک کے موضوع پر بات چیت کرتے نظر آئے ۔ آپ لوگ بھی نیچر اور وائلڈ لائف ، فطرت اور حیوانات سے جڑے مقامات پر ضرور جائیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا ، میں ضرور کہتا ہوں آپ کو۔ اپنی زندگی میں شمال مشرقی خطے میں ضرور جائیں۔ کیا فطرت ہے وہاں۔ آپ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ آپ کے اندر کی توسیع ہوجائے گی۔ 15 اگست کو لال قلعہ سے میں آپ سبھی سے اپیل کی تھی کہ آئندہ تین سال میں کم از کم 15 مقامات اور ہندوستان کے اندر 15 مقامات اور پوری طرح سو فیصد سیاحت کے لیے ہی ایسے 15 مقامات پر جائیں، دیکھیں، مطالعہ کریں، خاندان کو لے کر جائیں، کچھ وقت وہاں گزاریں۔ تنوع سے بھرپور ملک آپ کو بھی یہ تنوع ایک استاذ کی شکل میں ، آپ کو بھی ، اندر سے تنوع سے بھر دیں گے۔ آپ کی اپنی زندگی کی توسیع ، نئی توانائی ، نیا امنگ، نئی تحریک لے کر آئیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ مقامات پر تو بار بار جانے کا دل آپ کو بھی ہوگا، آپ کے خاندان کو بھی ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنوں، ہندوستان میں ماحولیات کے تحفظ اور تشویش یعنی دیکھ بھال کی فکر فطری نظر آ رہی ہے۔ پچھلے مہینے مجھے ملک میں شیروں کی شماری جاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کتنے شیر ہیں ؟ ہندوستان میں شیروں کی آبادی 2967ہے۔ کچھ سال پہلے اس سے آدھے بھی بڑی مشکل سے تھے ۔ ہم شیروں کو لے کر 2010 میں روس کے سینٹ پیٹرس برگ میں ٹائیگر چوٹی کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں دنیا میں شیروں کی گھٹتی تعداد کو لے تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک عہد کیا گیا تھا ۔ یہ عہد تھا 2022 تک پوری دنیا میں شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنا ۔ لیکن یہ نیو انڈیا ہے ہم ہدف کو جلدی سے جلدی پورا کرتے ہیں ۔ ہم نے 2019 میں ہی اپنے یہاں شیروں کی تعداد دوگنی کر دی۔ ہندوستان میں صرف شیروں کی تعداد ہی نہیں بلکہ محفوظ مقامات اور کمیونٹی ریزورس کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ جب میں شیروں کا ڈاٹا ریلیز کر رہا تھا تو مجھے گجرات کے گیر کے شیر کی بھی یاد آئی ۔ جب میں نے وہاں وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ تب گیر کے جنگل میں شیروں کی آباد کم ہور ہی تھی۔ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہم نے گیر میں ایک کے بعد ایک کئی قدم اٹھائے ۔ 2007 میں وہاں خواتین گارڈس کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائی ۔ جب بھی ہم فطرت اور حیوانات کی بات کرتے ہیں تو صرف کنزرویشن کی ہی بات کرتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں کنزرویشن سے آگے بڑھ کر کمپیشن کو لے کر سوچنا ہی ہوگا۔ ہمارے شاستروں سے اس موضوع پر بھی اچھی رہنمائی ملی ہے۔ صدیوں پہلے اپنے شاستروں میں ہم نے کہا ہے :
نرونو بدھیتا ویاگھرو، نرویاگھرن چھدیتے ونم
تسماد ویاگھرون ونن رکچھتو، ون ویاگھرن نہ پالیتہ
یعنی ، اگر جنگل نہ ہوں تو شیر انسانوں کی آبادی میں آنے کو مجبور ہو جاتے ہیں اور مارے جاتے ہیں اور اگر جنگل میں شیر نہ ہوں ت انسان جنگل کاٹ کر اسے برباد کر دیتے ہیں۔ اس لیے حقیقت میں شیر جنگل کی حفاظت کرتا ہے، نہ کہ جنگل شیر کی۔ کتنے عمدہ طریقے سے موضوع کو ہمارے آباء اجداد نے سمجھا یا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے جنگلوں ، نباتات اور حیوانات کا نہ صرف تحفظ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسا ماحول بھی بنانا ہوگا جس سے وہ صحیح طریقے سے پھل پھول سکیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جی کی تاریخی تقریر کون بھلا سکتا ہے۔ پوری دنیا کی انسانی برادری کے جھنجھوڑ دینے والے ہندوستان کا یہ نوجوان سنیاسی دنیا کے اندر ہندوستان کی ایک شاندار شناخت چھوڑ کر آگیا۔ جس غلام ہندوستان کی طرف دنیا بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہی تھی، اس دنیا کہ 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جیسی عظیم شخصیت کے الفاظ نے دنیا کو ہندوستان کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدلنے کے لیے مجبور کر دیا ۔ آئیے ، سوامی وویکانند جی نے جس ہندوستان کے روپ کو دیکھا تھا۔ سوامی وویکانند جی نے ہندوستان کی جس صلاحیت کو جانا تھا ، ہم اسے جینے کی کوشش کریں ۔ ہمارے اندر ہے ، سب کچھ ہے۔ خود اعتمادی کے ساتھ چل پڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سبھی کو یاد ہوگا کہ 29 اگست کو ‘قومی کھیل کے دن’ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر ملک بھر میں ‘فٹ انڈیا موومنٹ’ لانچ کرنے والے ہیں۔ خود کو فٹ رکھنا ہے، ملک کو فٹ بنانا ہے۔ ہر ایک کے لیے بچے ، بزرگ، نوجوان ، خواتین سب کے لیے یہ بڑی دلچسپ مہم ہوگی اور یہ آپ کی اپنی ہوگی۔ لیکن اس کی باریکیاں آج میں بتانے نہیں جا رہا ہوں۔ 29 اگست کا انتظار کیجئے ۔ میں خود اس دن تفصیل سے اس موضوع پر بتانے والا ہوں اور آپ کو جوڑے بغیر رہنے والا نہیں ہوں۔ کیونکہ آپ کو میں فٹ دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو فٹنس کے لیے بیدار بنانا چاہتا ہوں اور فٹ انڈیا کے لیے ملک کے لیے ہم مل کر کچھ ہدف کا بھی تعین کریں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، مجھے آپ کا انتظار رہے گا 29 اگست کو فٹ انڈیا میں۔ ستمبر مہینے میں ‘غذائی مہم’ میں اور خاص طور پر 11 ستمبر سے 02 اکتوبر ‘سوچھتا ابھیان’ میں ۔ اور 02 اکتوبر پوری طرح سے پلاسٹک کے لیے وقف ۔ پلاسٹک سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہم سب ، گھر گھر کے باہر سبھی جگہوں پر پوری طاقت سے لگیں گے اور مجھے پتہ ہے کہ یہ سبھی مہم سوشل میڈیا میں تو دھوم مچا دیں گے۔ آئیے ، ایک نئے امنگ ، نئے عزم نئی طاقت کے ساتھ چل پڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، آج ‘من کی بات’ میں اتنا ہی ۔ پھر ملیں گے۔ میں آپ کی باتوں کا ، آپ کے مشوروں کا انتظار کروں گا۔ آئیے ہم سب مل کر آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لیے گاندھی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے چل پڑیں۔ ‘سوانتہ: سوکھائے:’۔ باطن کی خوشی کو خدمت کے جذبے سے ظاہر کرتے ہوئے چل پڑیں۔
بہت بہت شکریہ
نمسکار!
نئی دہلی،28 جولائی/ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ‘من کی بات’ ہمیشہ کی طرح میری طرف سے بھی اور آپ کی طرف سے بھی انتظار رہتا ہے۔ اس بار بھی میں نے دیکھا کہ بہت سے سارے خطوط، کمینٹس، فون کال ملے ہیں۔ ڈھیرے ساری کہانیاں ہیں، سجھاؤ ہیں، ترغیب ہیں، ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور کہنا بھی چاہتا ہے۔ ایک جذبہ محسوس ہوتا ہے اور ان سبھی میں بہت کچھ ہے جو میں سمیٹنا چاہوں گا لیکن وقت کی تحدید ہے اس لیے سمیٹ بھی نہیں پاتا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ میری بہت کسوٹی کر رہے ہیں۔ پھر بھی آپ ہی کی باتوں کو اس ‘من کی بات’ کے دھاگے میں پروکر پھر سے ایک بار آپ کو بانٹنا چاہتا ہوں۔
آپ کو یاد ہوگا پچھلی بار میں نے پریم چند جی کی کہانیوں کی ایک کتاب کے بارے میں ذکر کیا تھا اور ہم نے طے کیا تھا کہ جو بھی کتاب پڑھے اس کے بارے میں کچھ باتیں نریندر مودی ایپ کے توسط سے سب کے ساتھ شیئر کریں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے مختلف قسم کی کتابوں کی جانکاری شیئر کی ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ لوگ سائنس، ٹیکنالوجی، اختراعات، تاریخ، ثقافت، کاروبار، زندگی کا فلسفہ ایسےکئی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں پر اور اس کو لے کر غور وفکر کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو مجھے یہ بھی صلاح دی ہے کہ میں کئی اور کتابوں کے بارے میں بات کروں۔ ٹھیک ہے! میں ضرور کچھ مزید کتابوں کے بارے میں آپ سے بات کروں گا لیکن ایک بات مجھے تسلیم کرنی ہوگی کہ اب میں بہت زیادہ کتاب پڑھنے میں وقت نہیں صرف کر پا رہا ہوں لیکن ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آپ لوگ جو لکھ کر بھیجتے ہیں تو کئی کتابوں کے بارے میں مجھے جاننے کا موقع ضرور مل رہا ہے لیکن یہ جو پچھلے ایک مہینے کا تجربہ ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ اس کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔ کیوں نہ ہم نریندر مودی ایپ پر ایک پرماننٹ بک کارنر ہی بنا دیں۔ اور جب بھی ہم نئی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں وہاں لکھیں، بحث کریں اور آپ ہمارے اس بک کارنر کے لیے کوئی اچھا سا نام بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بک کارنر قارئین اور قلمکاروں کے لیے ایک سرگرم پلیٹ فارم بن جائے۔ آپ پڑھتے لکھتے رہیں اور ‘من کی بات’ کے سبھی ساتھیوں کے ساتھ شیئر بھی کرتے رہیں۔
ساتھیوں؛ ایسا لگتا ہے کہ آبی تحفظ-‘من کی بات’ میں جب میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا، لیکن شاید آج میں تجربہ کر رہا ہوں کہ میرے کہنے سے پہلے بھی آبی تحفظ یہ آپ کے دل کو چھونے والا موضوع تھا،عام انسانوں کا پسندیدہ موضوع تھا اور میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ پانی کے موضوع پر ان دنوں ہندوستان کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ آبی تحفظ کو لے کر ملک بھر میں مختلف قسم کی مؤثر کوششیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں نے روایتی طور طریقوں کے بارے میں جانکاریاں تو شیئر کی ہیں، میڈیا نے آبی تحفظ پر کئی اختراعی مہم شروع کی ہیں۔حکومت ہو، غیرسرکاری تنظیموں ہوں- جنگی سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ اجتماعیت کی حمایت کو دیکھ کر دل کو بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بہت اطمینان ہو رہا ہے۔ جیسے جھارکھنڈ میں رانچی سے کچھ دور اورمانجھی بلاک کے آرا کیرم گاؤں میں وہاں کے گاؤں والوں نے آبی بندوبست کو لے کر جو حوصلہ دکھایا ہے وہ ہر کسی کے لیے مثال بن گیا ہے۔ گاؤں والوں نے شرم دان کرکے پہاڑ سے بہتے جھرنے کو ایک متعین سمت دینے کا کام کیا ہے۔ وہ بھی خالص دیسی طریقہ۔ اس سے نہ صرف مٹی کا کٹاؤ اور فصل کی بربادی رکی ہے بلکہ کھیتوں کو بھی پانی مل رہا ہے۔ گاؤں والو ںکا یہ شرم دان اب پورے گاؤں کے لیے جیون دان سے کم نہیں۔ آپ سب کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال مشرق کی خوبصورت ریاست میگھالیہ ملک کی پہلی ایسی ریاست بن گئی ہے جس نے اپنی آبی پالیسی تیار کی ہے۔میں وہاں کی حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں۔
ہریانہ میں ان فصلوں کی کھیتی کو فروغ دیا جارہا ہے جن میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور کسان کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔ میں حکومت ہریانہ کو خاص طور سے مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انھوں نے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انھیں روایتی زراعت سے ہٹ کر کم پانی والی فصلوں کے لیے آمادہ کیا۔
اب تو تہواروں کا موسم آگیا ہے۔ تہواروں کے موقع پر کئی میلے بھی لگتے ہیں۔ آبی تحفظ کے لیے کیوں نہ اس میلوں کا بھی استعمال کریں۔ میلوں میں سماج کے ہر طبقہ کے لوگ پہنچتے ہیں ان میلوں میں پانی بچانے کا پیغام ہم بڑے ہی مؤثر ڈھنگ سے دے سکتے ہیں۔ نمائش لگا سکتے ہیں، نکڑناٹک کرسکتے ہیں۔ جشن کے ساتھ ساتھ آبی تحفظ کا پیغام بہت آسانی سے ہم پہنچا سکتے ہیں۔
ساتھیو؛ زندگی میں کچھ باتیں ہمیں جوش سے بھر دیتے ہیں اور خاص طور سے بچوں کی حصولیابیاں ان کے کارنامے ہم سب کو نئی توانائی دیتے ہیں۔ اور اس لیے آج مجھے کچھ بچوں کے بارے میں بات کرنے کا من کرتاہے اور یہ بچے ہیں ندھی بائی پوٹو منیش جوشی، دیوانشی راوت، تنش جین، ہرش دیودھرکر، اننت دیواری، پریتی ناگ، اتھرودیش مکھ، ارون تیش، گنگولی اور ہریتک الا مندا۔
میں ان کے بارے میں جو بتاؤں گا اسے آپ بھی فخر اور جوش سے بھر جائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کینسر ایک ایسا لفظ ہے جس سے پوری دنیا ڈرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موت دروازےپر کھڑی ہے۔ لیکن ان سبھی دس بچوں نے اپنی زندگی کی جنگ میں نہ صرف کینسر کو کینسر جیسی مہلک بیماری کو شکست دیا ہے بلکہ اپنے کارناموں سے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔ کھیلوں میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کھلاڑی ٹورنامنٹ جیتنے یا میڈل حاصل کرنے کے بعد چمپئن بنتے ہیں لیکن یہ ایک انوکھا موقع رہا جہاں یہ لوگ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لینے سے پہلے ہی چمپئن تھے اور وہ بھی زندگی کی جنگ کے چمپئن۔
دراصل اسی مہینے ماسکو میں ورلڈ چلڈرن ونرس گیمس کا انعقاد ہوا۔ یہ ایک ایسا انوکھا اسپورٹس ٹورنامنٹ ہے جس میں ینگ کینسرسروائورس یعنی جو لوگ اپنی زندگی میں کینسر سے لڑکر باہر نکلے ہیں وہیں حصہ لیتے ہیں۔ اس مقابلہ میں شوٹنگ، شطرنج، تیراکی، دوڑ، فٹ بال اور ٹیبل ٹینس جیسے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا۔ ہمارے ملک کے ان سبھی دس چمپئن نے اس ٹورنامنٹ میں میڈل جیتے۔ ان میں سے کچھ کھلاڑیوں نے ایک سے زیادہ میڈل جیتے۔
میرے پیارے ہم وطنو؛ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو آسمان کے بھی پار، خلا میں ہندوستان کی کامیابی کے بارے میں ضرور فخر محسوس ہوا ہوگا۔ چندریان-2۔
راجستھان کے جودھپور سے سنجیو ہری پورا، کولکاتہ سے مہندرکمار ڈاگا، تلنگانہ سے پی اروند راؤ ایسے متعدد، ملک بھر کے مختلف حصوں سے کئی لوگوں نے مجھے نریندر مودی ایپ اور مائی گو پر لکھا ہے اور انھوں نے ‘من کی بات’ میں چندریان-2 کے بارے میں ذکر کرنے کی اپیل کی ہے۔
دراصل خلا کے نقطہ نظر سے 2019 ہندوستان کے لیے بہت اچھا سال رہا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے مارچ میں، اے سیٹ لانچ کیا تھا اور اس کے بعد چندریان-2۔ چناؤ کی گہماگہمی میں اس وقت اے سیٹ جیسی بڑی اور اہم خبر کی زیادہ چرچا نہیں ہوپائی تھی جبکہ ہم نے اے سیٹ میزائل سے ، صرف تین منٹ میں، 300 کلو میٹر دور سیٹلائٹ کو مارگرانے کی صلاحیت حاصل کی۔ یہ کامیابی حاصل کرنے والا ہندوستان دنیا کا چوتھا ملک بنا اور اب 22 جولائی کو پورے ملک نے فخر کے ساتھ دیکھا کیسے چندریان-2 نے سری ہری کوٹہ سے خلا کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔ چندریان-2 کے تجربے کی تصویروں نے ہم وطنوں کو فخر اور جوش سے خوشی سے بھر دیا۔
چندریان-2 یہ مشن کئی معنوں میں خاص ہے۔چندریان-2، چاند کے بارے میں ہماری سمجھ کو اور بھی واضح کرے گا۔ اس سے ہمیں چاند کے بارے میں زیادہ تفصیل سے جانکاریاں مل سکیں گی لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ چندریان-2 سے مجھے کون سا دو بڑاسبق ملا تو میں کہوں گا یہ دو سبق ہیں، یقین اور بے خوفی۔ ہمیں اپنی صلاحیت اور قابلیت پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت پر اعتماد کرنا چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ چندریان-2 پوری طرح سے ہندوستانی رنگ میں ڈھلا ہے۔ یہ روح اور جذبے سے ہندوستانی ہے۔پوری طرح سے ایک سودیشی مشن ہے۔ اس مشن نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ جب بات نئے نئے شعبوں میں کچھ نیا کر گزرنے کی ہو، اختراعی جذبے کی ہو تو ہمارے سائنسداں سب سے آگے ہیں، عالمی سطح کے ہیں۔
دوسرا، اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی رکاوٹ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جس طرح ہمارے سائنسدانوں نے ریکارڈ وقت میں دن رات ایک کرکے سارے تکنیکی مسائل کو درست کر چندریان-2 کو لانچ کیا وہ اپنے آپ میں غیرمعمولی ہیں۔ سائنسدانوں کی اس عظیم تپسیا کو پوری دنیا نے دیکھا اس پر ہم سبھی کو فخر ہونا چاہیے۔ اور رکاوٹ کے باوجود بھی پہنچنے کا وقت انھوں نے بدلا نہیں۔ اس بات کی بھی بہتوں کو حیرانی ہے۔ ہمیں اپنے زندگی میں بھی عارضی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیشہ یاد رکھئے اس سے نجات پانے کا حوصلہ بھی ہمارے اندر ہی ہوتا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ چندریان-2 مہم ملک کے نوجوانو ں کو سائنس اور اختراع کے لیے راغب کرے گا۔ آخر کار سائنس ہی تو ترقی کا راستہ ہے۔ اب ہمیں بے صبری سے ستمبر مہینے کا انتظار ہے جب چاند کی سطح پر اترنے والے وکرم اور روورپرگیان کی لینڈنگ ہوگی۔
آج ‘من کی بات’ کی بات کے توسط سے میں ملک کے طلبا دوستوں کے ساتھ، نوجوانوں ساتھیوں کے ساتھ ایک بہت ہی دلچسپ مقابلہ کے بارے میں، کمپٹیشن کے بارے میں جانکاری شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اور ملک کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مدعو کرتا ہوں- ایک کوئز کمپٹیشن خلا سے متعلق تجسس، ہندوستان کا خلائی مشن سائنس اور ٹیکنالوجی- اس کوئز کمپٹیشن کے خاص موضوع ہوں گے، جیسے کہ راکٹ لانچ کرنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ سیٹلائٹ کو کیسے مدار میں قائم کیا جاتا ہے اور سیٹلائٹ سے ہم کیا کیا جانکاریاں حاصل کرتے ہیں۔ اے سیٹ کیا ہوتا ہے۔ بہت ساری باتیں ہیں۔ مائی گو ویپ سائٹ پر یکم اگست کو مقابلہ کی تفصیلات دی جائیں گی۔ میں نوجوان ساتھیوں سے، طالب علموں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کوئز کمپٹیشن میں حصہ لیں اوراپنی حصے داری سے اسے دلچسپ، پر لطف اور یادگار بنائیں۔ میں اسکولوں سے ، سرپرستوں سے جوشیلے آچاریوں اور اساتذہ سے خاص اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے اسکول کو کامیاب بنانے کے لیے پوری محنت کریں۔ سبھی طالب علموں کو اس سے جوڑنے کے لیے ترغیب دیں۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر ریاست سے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے طالب علموں کو حکومت ہند اپنے خرچ پر سری ہری کوٹہ لے کر جائے گی اور ستمبر میں انھیں اُس پل کا گواہ بننے کا موقع ملے گا جب چندریان چاند کی سطح پر اتر رہا ہوگا۔ ان کامیاب طالب علموں کے لیے ان کی زندگی کا تاریخی لمحہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے آپ کو کوئز کمپٹیشن میں حصہ لینا ہوگا۔ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے آپ کو کامیاب ہونا ہوگا۔
ساتھیو؛ میرا یہ مشورہ آپ کو ضرور اچھا لگا ہو۔ ہے نہ مزیدار موقع! تو ہم کوئز میں حصہ لینا نہ بھولیں اور زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو بھی ترغیب دلائیں۔ میرے پیارے ہم وطنوں آپ نے ایک بات محسوس کی ہوگی کہ ہماری ‘من کی بات’ کی باتوں نے صفائی مہم کو لمحہ بہ لمحہ رفتار دی ہے اور اسی طرح سے صفائی کے لیے کی جارہی کوششوں میں بھی من کی بات کو ہمیشہ ہی تحریک دی ہے۔پانچ سال پہلے شروع ہوا سفر آج عوام کی شراکت سے صفائی کے نئے نئے معیارقائم کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے صفائی میں مثالی صورت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جس طرح سے او ڈی ایف سے لے کر عوامی مقامات تک صفائی مہم میں کامیابی ملی ہے وہ 130 کروڑ ہم وطنوں کے عزم کی طاقت ہے لیکن ہم اتنے پر رکنے والے نہیں ہیں۔ یہ تحریک اب سوچھتا سے سندرتا کی طرف بڑھ چلا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میں میڈیا میں جناب یوگیش سینی اور ان کی ٹیم کی کہانی دیکھ رہا تھا۔ یوگیش سینی انجینئر ہیں اور امریکہ میں اپنی نوکری چھوڑ کر ماں بھارتی کی خدمت کے لیے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے کچھ وقت پہلے دلی کو صاف ہی نہیں بلکہ سندر بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ لودھی گارڈن کے کوڑے دانوں سے شروعات کی۔ اسٹریٹ آرٹ کے ذریعے دلّی کے کئی علاقوں کو خوبصورت پینٹنگ سے سجانے سنوارنے کا کام کیا۔ اوور برج اور اسکول کی دیواروں سے لے کر جھگی جھونپڑیوں تک انھوں نے اپنا ہنر دکھانا شروع کیا تو لوگوں کا ساتھ بھی ملتا چلا گیا اور ایک طرح سے یہ سلسلہ چل پڑا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کنبھ کے دوران پریاگ راج کو کس طرح اسٹریٹ پینٹنگ سے سجایا گیا تھا۔ مجھے پتہ چلا بھائی یوگیش سینی نے اور ان کی ٹیم نے اس میں بھی بہت بڑا کردار انجام دیا تھا۔ رنگ اور لکیروں میں کوئی آواز بھلے نہ ہوتی ہو لیکن ان سے بنی تصویروں سے جو قوس وقزح بنتے ہیں ان کا پیغام ہزاروں الفاظ سے بھی کہیں زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتا ہے۔ اور صفائی مہم کی خوبصورتی میں بھی یہ بات ہم محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ویسٹ ٹو ویلتھ بنانے کا کلچر ہمارے سماج میں فروغ پائے۔ ایک طرح سےکہیں تو ہمیں کچرے سے کنچن بنانے کی جانب آگے بڑھنا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، پچھلے دنوں مائی گو پر میں نے ایک بڑا ہی دلچسپ تبصرہ پڑھا۔ یہ تبصرہ جموں وکشمیر کے شوپیاں کے رہنے والے بھائی محمد اسلم کا تھا۔
انھوں نے لکھا-‘من کی بات’ پروگرام سننا اچھا لگتا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے اپنی ریاست جموں وکشمیر میں کمیونٹی موبیلائیزیشن پروگرام – بیک ٹو ولیج کے انعقاد میں سرگرم رول ادا کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد جون کے مہینے میں ہوا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے پروگرام ہر تین مہینے کے وقفے سے منعقد کیے جانے چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام کی آن لائن مانیٹرنگ کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ میرے خیال سے یہ اپنی طرح کا ایسا پہلا پروگرام تھا جس میں عوام نے سرکار سے براہِ راست مذاکرہ کیا۔
بھائی محمد اسلم جی نے یہ جو پیغام مجھے بھیجا اور اس کو پڑھنے کے بعد بیک ٹو ولیج پروگرام کے بارے میں جاننے کی میرا تجسس بڑھ گیا اور جب میں نے اس کے بارے میں تفصیل سے جانا تو مجھے لگاکہ پورے ملک کو بھی اس کی جانکاری ہونی چاہیے۔ کشمیر کے لوگ ترقی کے قومی دھارے سے جڑنے کے لیے اتنے بیتاب ہیں، کتنے متحرک ہیں، اس کا مذکورہ پروگرام سے پتہ چلتاہے۔ اس پروگرام نے پہلی بار بڑے بڑے افسران سیدھے گاؤں تک پہنچے۔ جن افسروں کو کبھی گاؤں والوں نے دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ خود چل کر ان کے دروازے تک پہنچے تاکہ ترقی کے کام میں آرہی رکاوٹوں کو سمجھا جاسکے۔ مسائل کو دور کیا جاسکے۔ یہ پروگرام ہفتہ بھر چلا اور ریاست کی سبھی لگ بھگ ساڑھے چار ہزار پنچایتوں میں سرکاری حکام نے گاؤں والوں کو سرکاری یوجناؤں اور پروگراموں کی تفصیل سے جانکاری دی۔ یہ بھی جانا کہ ان تک سرکاری خدمات پہنچتی بھی ہیں یا نہیں۔ پنچایتوں کو کیسے مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟ ان کی آمدنی کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ ان کی خدمات عام لوگوں کی زندگی میں کیسے اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ گاؤں والوں نے بھی مل کر اپنے مسائل کو بتایا۔ خواندگی جنسی شرح، صحت، صفائی، آبی تحفظ، بجلی ، پانی، بچیوں کی تعلیم، عمر رسیدہ افراد کے سوال ایسے کئی موضوعات پربات چیت ہوئی۔
ساتھیوں یہ پروگرام کوئی سرکاری خانہ پری نہیں تھا کہ حکام دن بھر گاؤں میں گھوم کر واپس لوٹ آئیں لیکن اس بار ادھیکاریوں نے دو دن اور ایک رات میں پنچایت میں ہی گزاری۔ اس میں انہیں گاؤں میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ہر کسی سے ملنے کی کوشش کی۔ ہر مقام تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس پروگرام کو دلچسپ بنانے کے لیے کئی اور چیزوں کو بھی شامل کیا گیا۔ کھیلو انڈیا کے تحت بچوں کے لیے کھیلوں کا مقابلہ کرایا گیا۔ وہیں اسپورٹس کٹس، منریگا کے جاب کارڈس اور ایس سی ایس ٹی سرٹیفکیٹس بھی بانٹے گئے۔ مالی خواندگی کیمپس لگائے گئے۔ زراعت، باغبانی جیسے سرکاری محکموں کی طرف سے اسٹال لگائے گئے۔ اور سرکاری یوجناؤں کی جانکاری دی گئی۔ اس طرح سے یہ انعقاد ایک ترقی کا جشن بن گیا۔ عوامی شراکت داری کا جشن بن گیا۔ عوامی بیداری کا تہوار بن گیا۔ کشمیر کے لوگوں نے ترقی کے اس جشن میں کھل کر شامل ہوئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ‘بیک ٹو ولیج’ پروگرام کا انعقاد ایسے دور دراز گاؤں میں بھی کیا گیا جہاں پہنچنے میں سرکاری حکام کو دشوار گزار راستوں سے ہوکر پہاڑیوں کو چڑھتے چڑھتے کبھی کبھی ایک دن ڈیڑھ دن پیدل سفر بھی کرنا پڑا۔ یہ حکام ان سرحدی پنچایتوں تک بھی پہنچے جو ہمیشہ سرحد پار فائرنگ کے سایے میں رہتے ہیں۔ یہی نہیں شوپیاں ، پلوامہ، کلگام اور اننت ناگ اضلاع کے انتہائی حساس علاقوں میں بھی حکام بغیر کسی خوف کے پہنچے۔ کئی افسر تو اپنے استقبال سے اتنےشرابورہوئے کہ وہ دو دنوں سے زیادہ وقت تک گاؤں میں رکے رہے۔ ان علاقوں میں گرام سبھاؤں کا انعقاد ہونا، اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا حصہ لینا اور اپنے لیے منصوبے تیار کرنا یہ سب بہت ہی خوش آئند ہے۔ نیا عزم، نیا جوش اور شاندار نتیجے ایسے پروگرام اور اس میں لوگوں کی شرکت یہ بتاتی ہے کہ کشمیر کے ہمارے بھائی بہن اچھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ ترقی کی طاقت بم اور بندوق کی طاقت پر ہمیشہ غالب آتی ہے۔ یہ صاف ہے کہ جو لوگ ترقی کی راہ میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں، رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں وہ کبھی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
میرے پیارے ہم وطنوں، گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ جناب دتّاترے رام چندر بیندرے نے اپنی ایک نظم میں ساون کے مہینے کی عظمت کچھ اس طرح پیش کی ہے۔ اس کویتا میں انھوں نے جوکہا ہے اس کا مطلب یہ ہے:
بارش کی پھوہار اور پانی کی دھار کارشتہ انوکھا ہے اور اس کی خوبصورتی دیکھ کر زمین مگن ہے۔
پورے ملک میں الگ الگ ثقافت اور زبانوں کے لوگ ساون کے مہینے کو اپنے اپنے طریقے سے مناتے ہیں۔ اس موسم میں ہم جب بھی اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے گویا زمین نے ہریالی کی چادر اوڑھ لی ہو۔ چاروں طرف ایک نئی توانائی کی تخلیق ہونے لگتی ہے۔ اس مقدس مہینے میں کئی شردھالو کانوڑ یاترا اور امرناتھ یاترا پر جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ باضابطہ اُپواس رکھتے ہیں۔ اور پورے جوش سے جنم اشٹمی اور ناگ پنچمی جیسے تہواروں کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران ہی بھائی بہن کے پیار کی علامت رکشا بندھن کا تہوار بھی آتا ہے۔ ساون کے مہینے کی جب بات ہو رہی ہے تو آپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ اس بار امرناتھ یاترا نے پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ شردھالو شامل ہوئے ہیں۔ یکم جولائی سے اب تک تین لاکھ سے زیادہ تیرتھ یاتری مقدس امرناتھ گپھا کے درشن کرچکے ہیں۔ 2015 میں پورے ساٹھ دنوں تک چلنے والی اس یاترا میں جتنے تیرتھ یاتری شامل ہوئے تھے اس سے زیادہ اس بار صرف 28 دنوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
امرناتھ یاترا کی کامیابی کے لیے میں خاص طو رپر جموں وکشمیر کے لوگوں اور ان کی مہمان نوازی کی تھی ستائش کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ بھی سفر سے لوٹ کر آتے ہیں وہ ریاست کے لوگوں کی گرم جوشی اور اپنا پن کے جذبے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مستقبل میں سیاحت کے لیے بہت مفید ثابت ہونے والے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں بھی اس سال جب سے چار دھام یاترا کا آغاز ہوا ہے تب سے ڈیڑھ مہینے کے اندر آٹھ لاکھ سے زیادہ زائرین کیدار ناتھ دھام کے درشن کرچکے ہیں۔ 2013 میں آئے بھیانک سیلاب کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں زائرین وہاں پہنچے ہیں۔
میری آپ سبھی سے اپیل ہے کہ ملک کے اُن حصوں میں آپ ضرور جائیں جن کی خوبصوری مانسون کے دوران دیکھتے ہی بنتی ہے۔
اپنے ملک کی اس خوبصورتی کو دیکھنے اور اپنے ملک کے لوگوں کے جذبے کو سمجھنے کے لیے سیاحت اور سفر شاید اس سے بڑی کوئی تعلیم نہیں ہوسکتی ہے۔
میری جانب سے آپ سبھی کو نیک خواہشات کہ ساون کا یہ خوبصورت اور زندگی سے بھرپور مہینے آپ سب میں نئی توانائی، نئی امید اور نیا یقین پیدا کرے۔ اسی طرح سے اگست کا مہینہ ‘بھارت چھوڑو’ اس کی یاد لے کر آتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ 15 اگست کی کچھ خاص تیار کریں آپ لوگ۔ آزادی کے اس تہوار کو منانے کا نیا طریقہ ڈھونڈیں۔ عوامی شراکت داری بڑھائیں۔ 15 اگست عوامی تہوار کیسے بنے؟ جن اُتسو کیسے بنے؟ اس کی فکر ضرور کریں آپ۔ دوسری طرف یہی وہ وقت ہے جب ملک کے کئی حصوں میں زبردست بارش ہو رہی ہے۔ کئی حصوں میں ہم وطن سیلاب سے متاثر ہیں۔ سیلاب سے کئی قسم کے نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ سیلاب کے بحران میں گھرے اُن سبھی لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مرکز، ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر متاثرین کو ہر قسم کی امداد فراہم کرانے کا کام بہت تیز رفتاری سے کر رہا ہے۔ ویسے جب ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو بارش کا ایک ہی پہلو دکھتا ہے۔ ہر طرف سیلاب، بھرا ہوا پانی، آمد ورفت میں ٹریفک جام۔ مانسون کی دوسری تصویر- جس میں خوش ہوتا ہوا ہمارا کسان، چہکتے پرندے، بہتے جھرنے، ہریالی کی چادر اوڑھے زمین- یہ دیکھنے کے لیے تو آپ کو خود ہی اپنے خاندان کے ساتھ باہر نکلنا پڑے گا۔ بارش ، تازگی اور خوشی دونوں ہی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ میری تمنا ہے کہ یہ مانسون آپ سب کو مسلسل خوشیوں سے بھرتا رہے۔ آپ سبھی صحت مند رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو؛ ‘من کی بات’-کہاں شروع کریں، کہاں رکیں- بڑا مشکل کام لگتا ہے لیکن آخر وقت کی تحدید ہوتی ہے ایک مہینے کے انتظار کے بعد پھر آؤں گا، پھر ملوں گا، مہینے بھر آپ مجھے بہت کچھ باتیں بتانا، میں آنے والی ‘من کی بات’ میں اس کو جوڑنے کی کوشش کروں گا۔ اور میرے نوجوان ساتھیوں پھر سے یاد دلاتا ہوں۔ آپ کوئز کمپٹیشن کا موقع مت چھوڑیئے آپ سری ہری کوٹہ جانے کا جو موقع ملنے والا ہے اس کو کسی بھی حالت میں جانے مت دینا۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ! نمسکار
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! ایک لمبے وقفے کے بعد، پھر سے ایک بار، آپ سب کے بیچ، ‘من کی بات’، جن کی بات، جن-جن کی بات، جن-من کی بات اس کا ہم سلسلے وار شروعات کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں بہت مشغولیت تھی لیکن ‘من کی بات’ کا جو مزہ ہے، وہ غائب تھا۔ ایک کمی محسوس کر رہا تھا۔ اپنوں کے بیچ بیٹھ کے، ہلکے پھلکے ماحول میں، 130 کروڑ ہم وطنو کے باشندوں کےخاندانوں کے ایک رکن کے طور پر، کئی باتیں سنتے تھے، دہراتے تھے اور کبھی کبھی اپنی ہی باتیں، اپنوں کے لیے تحریک بن جاتی تھی۔آپ تصور کرسکتے ہیں اس بیچ کاوقت گیا ہوگا، کیسے گیا ہوگا۔اتوار، آخری اتوار-11 بجے، مجھے بھی لگتا تھا کہ ارے، کچھ چھوٹ گیا – آپ کو بھی لگتا تھا نا! ضرور لگتا ہوگا۔ شاید، یہ کوئی بے جان پروگرام نہیں تھا۔ اس پروگرام میں زندگی تھی ،، اپنا پن تھا، من کا لگاؤ تھا، دلوں کو جڑاؤ تھا، اور اس کی وجہ، بیچ کا جو وقت تھا، وہ وقت بہت ہی مشکل لگا مجھے۔ میں ہر پل کچھ کھویا ہوا محسوس کر رہا تھا اور جب میں ‘من کی بات’ کرتا ہوں تب، بولتا بھلے میں ہوں، الفاظ شاید میرے ہیں، آواز میری ہے، لیکن، داستان آپ کی ہے، خواہشات آپ کے ہیں، طاقت آپ کی ہے، میں تو صرف، اپنے الفاظ، اپنی آواز کا استعمال کرتا تھا اور اس کی وجہ سے اس پروگرام کو نہیں، آپ کویاد کر رہا تھا۔ ایک خالی پن محسوس کر رہا تھا۔ ایک بار تو من کر گیا تھا کہ انتخاب ختم ہوتے ہی فوراً آپ کے بیچ ہی چلا جاؤں۔ لیکن پھر لگا نہیں، وہ اتواروالا سلسلہ بنا رہنا چاہیے۔ لیکن اس اتوار نے بہت انتظار کروایا۔ خیر ، آخر موقع مل ہی گیا ہے۔ ایک خاندانی ماحول میں ‘من کی بات’، چھوٹی- چھوٹی، ہلکی-پھلکی، سماج، زندگی میں، جو بدلاؤ کی وجہ بنتی ہے ایک طرح سے اس کا یہ سلسلہ، ایک نئے جذبے کو جنم دیتا ہوا اور ایک طرح سے نیو انڈیا کی روح کو طاقت دیتا ہوا یہ سلسلہ آگے بڑھے۔
کئی سارے پیغام پچھلے کچھ مہینوں میں آئے ہیں جس میں لوگوں نے کہا کہ وہ ‘من کی بات’ کو یاد کر رہے ہیں۔ جب میں پڑھتا ہوں، سنتا ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں اپناپن محسوس کرتا ہوں، کبھی کبھی مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ میری خود سے روح کا سفر ہے۔ یہ میری اہم سے ویم کا سفر ہے۔ میرے لیے آپ کے ساتھ میرا یہ خاموش پیغام ایک طرح سے میرے روحانی سفر کے احساس کا بھی حصہ تھا۔ کئی لوگوں نے مجھے انتخابات کی مشغولیت میں، میں کیدارناتھ کیوں چلا گیا؟ بہت سارے سوالات پوچھے ہیں۔ آپ کا حق ہے، آپ کا تجسس بھی، میں سمجھ سکتا ہوں اور مجھے بھی لگتا ہے کہ کبھی اپنے ان جذبات کو آپ تک کبھی پہنچا ہوں، لیکن آج مجھے لگتا ہے کہ اگر میں اس سمت میں چل پڑوں گا تو شاید ‘من کی بات’ کی تصویر ہی بدل جائے گی۔ اور اس لیے انتخابات کی اس مشغولیت، ہار جیت کے تخمینے، ابھی پولنگ بھی باقی تھی اور میں چل پڑا۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کا سیاسی مطلب نکالا ہے۔ میرے لیے خود سے ملنے کا وہ موقع تھا۔ ایک طرح سے میں خود سے ملنے چلا گیا تھا۔ میں اور باتیں تو آج نہیں بتاؤں گا لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ ‘من کی بات’ کے کس مختصر وقفے کے باعث جو خالی پن تھا کیدار کی گھاٹی میں اُس تنہائی والے غار میں شاید اس میں کچھ بھرنے کا موقع ضرور دیا تھا۔ باقی آپ کا تجسس ہے۔ سوچتا ہوں کبھی اس پر بھی بات کروں گا۔ کب کروں گا میں نہیں کہ سکوں گا، لیکن کروں گا ضرور، آپ کا مجھ پر حق بنتا ہے۔ جیسے کیدار کے حوالے سے لوگوں نے جاننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ویسے ایک مثبت چیزوں کو مستحکم کرنے کی آپ کی کوشش، آپ کی باتوں میں لگاتار میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ کے لیے جو خطوط آتے ہیں، جو ان پٹ حاصل ہوتے ہیں وہ حسب معمول سرکاری کام کاج سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے آپ کے خطوط بھی میرے لیے کبھی ترغیب کا باعث بن جاتے ہیں تو کبھی توانائی کی وجہ بن جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو میرے فطری عمل کو دھار دینے کا کام آپ کے کچھ الفاظ کر دیتے ہیں۔ لوگ، ملک اور سماج کے سامنے درپیش چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہیں۔تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے حل بھی بتاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ خطوط میں لوگ مسائل کی تو وضاحت کرتے ہی ہیں لیکن یہ بھی خصوصیات ہیں کہ ساتھ ساتھ حل کا بھی کچھ نہ کچھ مشورے، کچھ نہ کچھ تصور، بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ظاہر کردیتے ہیں۔اگر کوئی صفائی کے بارے میں لکھتا ہے تو گندگی کے تئیں اپنی ناراضگی تو ظاہر کر رہا ہے لیکن صفائی کی کوششوں کی ستائش بھی کرتاہے۔ کوئی ماحولیات کی باتیں کرتاہے تو اپنی تکلیف تو محسوس کرتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس نے ، خود نے جو تجربہ کئے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ جو استعمال اس نے دیکھے ہیں وہ بھی بتاتا ہے۔ اور جو تصورات اس کے ذہن میں ہیں اسے بھی پیش کرتاہے۔ یعنی ایک طرح سے مسائل کا حل پورے سماج کے لیے کیسے ہو اس کی جھلک آپ کی باتوں میں میں محسوس کرتا ہوں۔ ‘من کی بات’ ملک اور سماج کے لیے ایک آئینے کی طرح ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم وطنوں کے اندر باطنی مضبوطی طاقت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ضرورت ہے، ان مضبوطیوں اور صلاحیتوں کو شامل کرنے کی، موقع فراہم کرنے کی، اس کو بروئے کار لانے کی ۔ ‘من کی بات’ یہ بھی بتاتا ہے کہ ملک کی ترقی میں سبھی 130 کروڑ ہم وطن مضبوطی اور فعال طریقے سے جڑنا چاہتے ہیں اور میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ ‘من کی بات’ میں مجھے اتنے خطوط آتے ہیں، اتنے ٹیلی فون کال آتے ہیں، اتنے پیغامات حاصل ہوتے ہیں لیکن شکایات کا عنصر بہت کم ہوتا ہے۔ اور کسی نے کچھ مانگا ہو، اپنے لیے مانگا ہو، ایسی تو ایک بھی بات گذشتہ پانچ برسوں میں، مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، ملک کے وزیر اعظم کو کوئی خط لکھے لیکن خود کے لیے کچھ مانگے نہیں یہ ملک کے کروڑوں لوگوں کا جذبہ کتنا بلند ہوگا۔ میں جب ان چیزوں کا تجزیہ کرتا ہوں ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں میرے دل کو کتنا سکون ہوتا ہوگا۔ مجھے کتنی توانائی ملتی ہوگی۔ آپ تصور نہیں کرسکتے کہ آپ مجھے چلاتے ہیں، آپ مجھے دوڑاتے ہیں، آپ مجھے لمحہ بہ لمحہ کتنا اہم بناتے رہتے ہیں۔ اور یہی ناطہ میں کچھ مس کرتا تھا۔ آج میرا من خوشیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جب میں نے آخر میں کہا تھا کہ ہم تین چار مہینے کے بعد ملیں گے تو لوگوں نے اس کے بھی سیاسی مطلب نکالے تھے اور لوگوں نے کہا کہ ارے! مودی جی کو کتنا یقین ہے، کتنا بھروسہ ہے۔ یقین مودی کو نہیں تھا۔ یہ اعتماد آپ کے اعتماد کی بنیاد کا تھا۔ آپ ہی تھے جس نے اعتماد کی شکل اختیار کر لی تھی اور اس کے باعث آسانی سے آخری ‘من کی بات’ میں ، میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کچھ مہینوں کے بعد پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ درحقیقت میں آیا نہیں ہوں آپ نے مجھے لایا ہے، آپ نے ہی مجھے بٹھایا ہے اور آپ نے پھر سے مجھے ایک بار بولنے کا موقع دیا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ چلیے ‘من کی بات’ کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوا تب اس کی مخالفت صرف سیاسی دائرے تک محدود نہیں رہی تھی، سیاسی قائدین تک محدود نہیں رہی تھی، جیل کی سلاخوں تک آندولن سمٹ نہیں گیا تھا۔ جن جن کے دل میں ایک غصہ تھا، کھوئی ہوئی جمہوریت کی ایک تڑھ تھی، دن رات جب وقت پر کھانا کھاتے ہیں تب بھوک کیا ہوتی ہے اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے۔ ویسے ہی عام زندگی میں جمہوریت کے حقوق کا کیا مزہ ہے وہ تو تب پتہ چلتا ہے جب کوئی جمہوری حقوق کو چھین لیتا ہے۔ ایمرجنسی میں ملک کے ہر شہری کو لگنے لگا تھا کہ اس کا کچھ چھین لیا گیا ہے۔ اس کا اس نے زندگی میں کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ وہ اگر چھن گیا ہے تو اس کا درد اس کے دل میں تھا اور یہ اس لئے نہیں تھا کہ ہندوستان کے آئین میں کچھ انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت فروغ پایا ہے۔ سماجی انتظام کو چلانے کے لیے، آئین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، قاعدے قانون اور ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، حقوق اور فرائض کی بھی بات ہوتی ہے لیکن ہندوستان فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے لیے قانون وضوابط سے پرے، جمہوریت ہمارے سنسکار ہیں۔جمہوریت ہماری ثقافت ہے، جمہوریت ہماری وراثت ہے اور اس وراثت کو لیکر ہم پلے بڑھے لوگ ہیں۔ اور اس لیے اس کی کمی ہم وطن محسوس کرتے ہیں۔ اور ایمرجنسی میں ہم نے محسوس کیا تھا کہ اسی لیے ملک ، اپنے لیے نہیں، ایک مکمل انتخاب اپنے مفاد کے لیے نہیں جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف کرچکاتھا۔ شاید دنیا کے کسی ملک نے وہاں کے عوام میں جمہوریت کے لیے اپنے باقی حقوق کی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف جمہوریت کے لیے رائے دہی کی ہو۔ تو ایسا ایک انتخاب اس ملک میں 77 نے دیکھا تھا۔ حال ہی میں جمہوریت کا بڑا تہوار بہت بڑی انتخابی مہم ہمارے ملک میں اختتام پذیر ہوئی ہے۔ امیر سے لے کر غریب سبھی لوگ اس تہوار میں خوشی سے ہمارے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مستعد تھے۔
جب کوئی چیز ہمارے بہت قریب ہوتی ہے تو ہم اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں، اس کے حیرت انگیز حقائق بھی نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ ہمیں جو قیمتی جمہوریت ملی ہے اسے ہم بہت آسانی سے مان لیتےہیں لیکن، ہمیں خود کو یہ یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ ہماری جمہوریت بہت ہی عظیم ہے اور اس جمہوریت کو ہماری رگوں میں جگہ ملی ہے۔ صدیوں کی محنت سے نسل در نسل کے سنسکاروں سے ایک عظیم وسیع ذہنی رجحان سے۔ ہندوستان میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، 61 کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیئے، 61 کروڑ۔ یہ اعداد وشمار ہمیں بہت ہی معمولی لگ سکتا ہے لیکن اگر دنیا کے حساب سے میں کہوں اگر ایک چین کو ہم چھوڑ دیں تو ہندوستان میں دنیا کے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ کی تھی۔ جتنے رائے دہندگان نے 2019 کے انتخابات میں ووٹ دیئے ان کی تعداد امریکہ کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے تقریباً دوگنی ہے۔ ہندوستان میں مجموعی رائے دہندگانوں کی جتنی تعداد ہے وہ پورے یوروپ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کی عظمت اور وسعت کا ثبوت ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اب تک کی تاریخ میں دنیا کا سب سے بڑا جمہوری انتخاب تھا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، اس قسم کے انتخابات کرانے میں کتنی بڑی سطح پر وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت ہوئی ہوگی۔ لاکوں اساتذہ، افسران اور حکام کی دن رات محنت سے انتخابات ممکن ہوا۔ جمہوریت کے اس عظیم تہوار کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جہاں نیم فوجی دستوں کے تقریباً تین لاکھ عملوں نے اپنا فرض نبھایا وہیں الگ الگ ریاستوں کے 20 لاکھ پولیس حکام نے بھی، بڑی جدوجہد کی۔ انھیں لوگوں کی کڑی محنت کے نتیجے میں اس بار پچھلی بار سے بھی زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے لیے پورے ملک میں تقریباً 10 لاکھ پولنگ مراکز تقریباً 40 لاکھ سے زیادہ ای وی ایم مشین، 17 لاکھ سے زیادہ وی وی پیٹ مشین، آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کتنا بڑا تام جھام۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی رائے دہندہ اپنے حق رائے دہندگی سے محروم نہ ہو۔ اروناچل پردیش کے ایک دور دراز علاقے میں صرف ایک خاتون رائے دہندہ کے لیے پولنگ اسٹیشن بنایا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انتخابی کمیشن کے افسران کو وہاں پہنچنے کے لیے دو دو دن تک سفر کرنا پڑا- یہی تو جمہوریت کی سچی عزت افزائی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بلندی پر قائم پولنگ مرکز بھی ہندوستان میں ہی ہے۔ یہ پولنگ مرکز ہماچل پردیش کے لاہول اسپتی علاقے میں 15000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس انتخاب میں فخر سے معمور کردینے والی ایک اور حقیقت بھی ہے۔ شاید تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین نے مردوں کی طرح جوش وخروش کے ساتھ ووٹنگ کی ہے۔ اس انتخاب میں خواتین اور مردوں کا ووٹنگ فیصد تقریباً برابر تھا۔ اسی سے جڑا ایک اور حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ آج ایوان میں ریکارڈ 78 خواتین اراکین پارلیمان ہیں۔میں انتخابی کمیشن کو اور انتخابی عمل سے جڑے ہر فرد کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ اور ہندوستان کے باشعور رائے دہندگان کو سلام کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے کئی بار میرے منھ سے سنا ہوگا ‘بُکے نہیں بک’ میری درخواست تھی کہ کیا ہم استقبال کرنے میں پھولوں کے بجائے کتابیں دے سکتے ہیں ۔ تب سے کافی جگہ لوگ کتابیں دینے لگے ہیں۔ مجھے حال ہی میں کسی نے ‘پریم چند کی مقبول کہانیاں’ نام کی کتاب دی۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ حالاں کہ، بہت وقت تو نہیں مل پایا، لیکن سفر کے دوران مجھے ان کی کچھ کہانیاں پھر سے پڑھنے کا موقع مل گیا۔ پریم چند نے اپنی کہانیوں میں سماج کی سچائی کی جو تصویر کشی کی ہے، پڑھتے وقت اس کی تصویر آپ کے ذہن میں بننے لگتی ہے۔ ان کی لکھی ایک ایک بات زندہ ہو اٹھتی ہے۔ آسان، سادہ زبان میں انسانی جذبات کو اظہار کرنے والی ان کی کہانیاں میرے من کو بھی چھو گئی۔ ان کی کہانیوں میں پورے ہندوستان کے جذبات شامل ہیں۔ جب میں ان کی لکھی ‘نشہ’ نام کی کہانی پڑھ رہا تھا تو میرا ذہن اپنے آپ ہی سماج میں موجود اقتصادی مساوات پر چلا گیا۔ مجھے اپنی جوانی کے دن یاد آگئے کہ کیسے اس موضوع پر رات رات بھر بحث ہوتی تھی۔ زمین دار کے بیٹے ایشوری اور غریب خاندان کے بیر کی اس کانی سے سبق ملتا ہے کہ اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو بری صحبت کا اثر کب پڑ جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ دوسری کہانی جس نے میرے دل کو اندر تک چھو لیا وہ تھی ‘عیدگاہ’، ایک بچے کی حساسیت، اس کا اپنی دادی کے لیے بے لوث محبت اتنی کم عمر میں اتنا پختہ جذبہ، 5-4 سال کا حامد جب میلے سے چمٹا لے کر اپنی دادی کے پاس پہنچتا ہے تو صحیح معنوں میں انسانی حساسیت اپنے بلندی پر پہنچ جاتی ہے اس کہانی کی آخری سطر بہت ہی جذبات انگیز ہے۔ کیونکہ اس میں زندگی کی ایک بہت بڑی سچائی ہے، ‘‘بچے حامد نے بورھے حامد کا کردار ادا کیا تھا – بوڑھی امینہ، بچی امینہ بن گئی تھی’’۔
ایسی ہی ایک بڑی جذباتی کہانی ہے ‘‘پوس کی رات’’۔ اس کہانی میں ایک غریب کسان زندگی کی ستم ظریفی کی زندہ تصویر دیکھنے کو ملی۔ اپنی فصل برباد ہونے کے بعد بھی ہلدو کسان اس لیے خوش ہوتا ہے کیوں کہ اب اسے کڑاکے کی سردی میں کھیت میں نہیں سونا پڑے گا۔ حالاں کہ یہ کہانیاں تقریباً صدی بھر پہلے ہی لیکن ان کی موزونیت آج بھی اتنی ہی محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پڑھنے کے بعد مجھے ایک الگ قسم کا احساس ہوا۔
جب پڑھنے کی بات ہو رہی ہے تبھی کسی میڈیا میں ، میں کیرل کی اکشرا لائبریری کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ لائبریری ایڈوکی کے گھنے جنگل کے درمیان بسے ایک گاؤں میں ہے یہاں کے پرائمری اسکول کے استاد پی کے مرلی دھرن اور چھوٹی سی چائے دکان چلانے والے چنا تھمپی، ان دونوں نے اس لائبریری کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی رہا جب گٹھر میں بھر کر اور پیٹھ پر لاد کر کتابیں لائی گئیں، آج یہ لائبریری قبائلی بچوں کے ساتھ ہر کسی کو ایک نئی راہ دکھا رہی ہے۔
گجرات میں وانچے گجرات مہم ایک کامیاب تجربہ رہا۔ لاکھوں کی تعداد میں ہر عمر، طبقہ کے لوگوں نے کتابیں پڑھنے کی اس مہم میں حصہ لیا تھا۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں، گوگل گرو کے وقت میں میں آپ سے بھی درخواست کروں گا کہ کچھ وقت نکال کر روز مردہ کے معمول میں کتاب کو بھی ضرور جگہ دیں۔ آپ سچ مچ بہت لطف اندوز ہوں گے اور جو بھی کتاب پڑھیں اس کے بارے میں نریندر مودی ایپ پر ضرور لکھیں تاکہ من کی بات کے سبھی سامعین بھی اس کے بارے میں جان پائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ ان مسئلوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے لیے بھی بڑی چیلنج ہے۔ میں نریندر مودی ایپ اور مائی گوو پر آپ کے رد عمل پڑھ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ پانی کے مسئلے کو لے کر کئی لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ بیل گاوی کے پون گورائی، بھوبنیشور کے سیتانشو موہن پریدا۔ اس کے علاوہ یش شرما ، شہاب الطاف اور بھی کئی لوگوں نے مجھے پانی سے جڑے چیلنجوں کے بارے میں لکھا ہے۔پانی کا ہماری ثقافت میں بہت اہمیت ہے۔ ری گریٹ کے آپہ سکتمے میں پانی کے بارے میں کہا گیا ہے:
आपो हिष्ठा मयो भुवः, स्था न ऊर्जे दधातन, महे रणाय चक्षसे,
यो वः शिवतमो रसः, तस्य भाजयतेह नः, उषतीरिव मातरः |
یعنی پانی ہی زندگی دینے والی طاقت، توانائی کی وسیلہ ہے۔ آپ ماں کو احترام یعنی ماں جیسا آشیرواد دیں۔ اپنی رحمت ہم پر برساتے رہیں۔ پانی کی کمی سے ملک کے کئی حصے ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ سال بھر میں بارش سے جو پانی حاصل ہوگا ہے اس کا صرف آٹھ فیصد ہمارے ملک میں بچایا جاتا ہے۔ صرف اور صرف آٹھ فیصد۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلہ کاحل نکالا جائے۔ مجھے یقین ہے ، ہم دوسرے اور مسائل کی طرح ہی عوامی شراکت داری سے، عوامی طاقت سے 130 کروڑ ہم وطنوں کی صلاحیت، تعاون اور عزم سے اس بحران کو بھی حل کرلیں گے۔ پانی کی اہمیت کو سب سے عزیز رکھتے ہوئے ملک میں نئی آبی طاقت وزارت بنائی گئی ہے۔ اس سے پانی سے متعلق سبھی موضوعات پر تیزی سے فیصلے لیے جاسکیں گے۔ کچھ دن پہلے میں نے کچھ الگ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ملک بھر کے سرپنچوں کو خط لکھا۔ گرام پردھان کو۔ میں نے گرام پردھان کو لکھا کہ پانی بچانے کے لیے ، پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے، بارش کے بوند بوند پانی کو بچانے کے ، وہ گرام سبھا کی میٹنگ بلا کر گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھ کر غور وفکر کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے اس کام میں پوری سرگرمی دکھائی ہے۔ اور اس مہینے کی 22 تاریخ کو ہزاروں پنچایتوں میں کروڑوں لوگوں نے شرمدان کیا۔ گاؤں گاؤں میں لوگوںن ے پانی کی ایک ایک بوند کو جمع کرنے کا عزم کیا۔
آج ‘من کی بات’ پروگرام میں میں آپ کو ایک سرپنچ کی بات سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع کے کٹکم سانڈی بلاک کی لوپنگ پنچایت کے سرپنچ نے ہم سب کو کیا پیغام دیا ہے۔
میرا نام دلپ کمار روی داس ہے۔ پانی بچانے کے لیے جب وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا تو ہمیں یقین ہی نہیں ہوا کہ وزیر اعظم نے ہمیں خط لکھا ہے۔ جب ہم نے 22 تاریخ کو گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے وزیر اعظم کا خط پڑھ کر سنایا تو گاؤں کے لوگ بہت جوش میں آگئے اور پانی بچانے کے لیے تالاب کی صفائی اور نیا تالاب بنانے کے لیے شرمدان کرکے اپنی اپنی حصہ داری نبھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ بارش سے پہلے یہ کام کرکے آنے والے وقت میں ہمیں پانی کی کمی نہیں ہوگی۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمارے وزیر اعظم نے ہمیں صحیح وقت پر آگاہ کردیا’’۔
برسا منڈا کی سرزمین جہاں فطرت کے ساتھ تال میل بٹھا کر رہنا ثقافت کا حصہ ہے، وہاں کے لوگ ایک بار پھر پانی کے تحفظ کے لیے اپنا سرگرم کردار نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ میری طرف سے سبھی گرام پردھانوں کو ، سبھی سرپنچوں کو ، ان کی اس سرگرمی کے لیے بہت بہت مبارکباد۔ ملک بھر میں ایسے کئی سرپنچ ہیں جنھوں نے پانی کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ایک طرح سے پورے گاؤں کا ہی وہ موقع بن گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ گاؤں کے لوگ اب اپنے گاؤں میں جیسے پانی کا مندر بنانے کے کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اجتماعی کوشش سے بڑے مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ پورے ملک میں پانی کے بحران سے نمٹنے کا کوئی ایک فارمولہ نہیں ہوسکتا ہے اس کے لیے ملک کے الگ الگ حصوں میں الگ الگ طریقے سے کوشش کئے جارہے ہیں۔ لیکن سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے پانی بچانا، آبی تحفظ۔
پنجاب میں ڈریمج لائن کو ٹھیک کیا جارہا ہے۔ اس کوشش سے پانی کے جماؤ کے مسئلہ سے نجات مل رہا ہے۔ تلنگانہ کے تھیمائی پلی میں ٹینک کی تعمیر سے گاؤں کے لوگوں کی زندگی بدل رہی ہے۔ راجستھان کے کبیر دھام میں کھیتوں میں بنائے گئے چھوٹے تالابوں سے ایک بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ میں تمل ناڈو کے ویلور میں ایک اجتماعی کوشش کے بارے میں پڑھ رہا تھا جہاں ناگ ندی کے از سر نو احیا کے لیے 20000 خواتین ایک ساتھ آئیں۔ میں نے گڑھوال کی ان خواتین کے بارے میں بھی پڑھا ہے جو آپس میں مل کر رین واٹر ہار ویسٹنگ پر بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کئی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور اب ہم متحد ہوکر مضبوطی سے کوشش کرتے ہیں تو ناممکن کو بھی ممکن کرسکتے ہیں۔ جب جن جن جڑے گا جل بچے گا۔ آج من کی بات کے توسط سے میں ہم وطنوں سے تین درخواست کر رہا ہوں۔
میری پہلی درخواست ہے۔ جیسے ہم وطنوں نے سوچھتا کو ایک عوامی تحریک کا روپ دے دیا۔ آیئے ویسے ہی پانی کے تحفظ کے لیے ایک عوامی تحریک کی شروعات کریں۔ ہم سب ساتھ مل کر پانی کے ہر بوند کو بچانے کا عزم کریں۔ اور مجھے تو یقین ہے کہ پانی خدا کا دیا ہوا عطیہ ہے۔ پانی پارس کا روپ ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ پارس کے لمس سے لوہا سونا بن جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں پانی پارس ہے اور پارس سے پانی کے لمس سے نئی زندگی تعمیر ہوجاتی ہے۔ پانی کے ایک ایک قطرے کو بچانے کے لیے ایک بیداری مہم کی شروعات کریں اس میں پانی سے جڑے مسئلوں کے بارے میں بتائیں۔ ساتھ ہی پانی بچانے کے طریقوں کی تشہیر کریں۔ میں خاص طور سے الگ الگ علاقوں کی ہستیوں سے پانی کے تحفظ کے لیے اختراعی مہم کی قیادت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ فلمی دنیا ہو، کھیل کی دنیا ہو، میڈیا کے ہمارے ساتھی ہوں، سماجی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، ثقافتی تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ ہوں، کتھا کرتن کرنے والے لوگ ہوں، ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اس تحریک کی قیادت کرے۔ سماج کو بیدار کریں، سماج کو جوڑیں، سماج کے ساتھ جڑیں۔ آپ دیکھئے اپنی آنکھوں کے سامنے ہم تبدیلی دیکھ پائیں گے۔
ہم وطنوں سے میری دوسری درخواست ہے ۔ ہمارے ملک میں پانی کے تحفظ کے لیے کئی روایتی طور طریقے صدیوں سے استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ میں آپ سبھی سے پانی کے تحفظ کے ان روایتی طریقوں کو شیئر کرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔ آپ میں سے کسی کو اگر پور بندر قابل پرستش باپو کی جائے پیدائش پر جانے کا موقع ملا ہوگا تو قابل پرستش باپو کے گھر کے پیچھے ہی ایک دوسرا گھر ہے وہاں پر 200 سال پرانی پانی کی ٹنکی ہے اور آج بھی اس میں پانی ہے۔ اور برسات کے پانی کو روکنے کا انتظام ہے۔ تو میں ہمیشہ کہتا تھا کہ جو بھی کرتی مندر جائیں وہ اس پانی کے ٹینک کو ضرور دیکھیں۔ ایسے کئی قسم کے استعمال ہرجگہ ہوں گے۔
آپ سبھی سے میری تیسری درخواست ہے۔ پانی کے تحفظ کی سمت میں اہم خدمات دینے والے افراد کا، خود سے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا اور اس شعبہ میں کام کرنے والے ہر کسی کا ان کی جو جانکاری ہو اسے آپ شیئر کریں تاکہ ایک بہت ہی خوشحال پانی کے لیے وقف ، پانی کے سرگرم سنگٹھن کا، لوگوں کا ایک ڈاٹا بیس بنایا جاسکے۔ آیئے ہم پانی کے تحفظ سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ طریقوں کی ایک فہرست بناکر لوگوں کو پانی کے تحفظ کے لیے ترغیب دیں۔ آپ سبھی # JanShakti4JalShakti کا استعمال کرکے اپنا مواد شیئر کرسکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! مجھے اور ایک بات کے لیے بھی آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور دنیا کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ 21 جون کو پھر سے ایک بار یوگ دیوس میں جس سرگرمی کے ساتھ امنگ کے ساتھ ایک ایک خاندان کے تین- تین، چار- چار نسل ایک ساتھ آکر یوگ دیوس کو منایا۔ مجموعی حفظان صحت کے لیے جو بیداری آئی ہے اس میں یوگ دیوس کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہر کوئی دنیا کے ہر خطے میں سورج طلوع ہوتے ہی اگر کوئی یوگ سے پریم کرنے والا استقبال کرتا ہے تو سورج ڈھلتے کا پورا سفر ہے۔ شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہوگی جہاں انسان ہو اور یوگ کے ساتھ جڑا ہوا نہ ہو۔ اتنا بڑا، یوگ نے روپ لے لیا ہے۔ ہندوستان نے ہمالیہ سے بحر ہند تک ، سیاچین سے لے کر سب مرین تک ، ایئرفورس سے لے کر ایئرکرافٹ کیریئر تک، اے سی جیم سے لے کر تپتے ریگستان تک، گاؤں سے لے کر شہروں تک۔ جہاں بھی ممکن تھا ایسی ہر جگہ پر نہ صرف یوگ کیا گیا بلکہ اس کی تقریب اجتماعی طور پر بھی منائی گئی۔
دنیا کے کئی ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم، جانی مانی ہستیاں، اہم شہریوں نے مجھے ٹوئٹر پر دکھایا کہ کیسے انھوں نے اپنے اپنے ملکوں میں یوگ منایا۔ اس دن دنیا ایک بڑے خوشحال خاندان کی طرح لگ رہی تھی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایک صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے صحتمند اور حساس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یوگ یہی یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے یوگ کی تشہیر سماجی خدمت کا ایک عظیم کام ہے۔ کیا ایسی خدمت کو تسلیم کرکے اس کی عزت افزائی نہیں کی جانی چاہیے؟ سال 2019 میں یوگا کے فروغ اور ترقی میں زبردست خدمات دینے کے لیے وزیر اعظم ایوارڈ کا اعلان اپنے آپ میں میرے لیے ایک بہت ہی اطمینان کی بات تھی۔ یہ ایوارڈ دنیا بھر کی ان تنظیموں کو دیا گیا ہے جس کے بارے میں آپ نے سوچا تک نہیں ہوگا کہ انھوں نے کیسے یوگا کی تشہیر میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔ مثال کے طور پر جاپان یوگ نکیتن کو لیجیے جس نے یوگا کو پورے جاپان میں مقبول بنایا ہے۔ جاپان یوگ نکیتن وہاں کے کئی ادارے اور تربیتی کورسز چلاتا ہے۔ یا پھر اٹلی کی مسز اینٹونی ایٹا روزی انہیں کا نام لے لیجیے جنھوں نے سرو یوگ انٹرنیشنل کی شروعات کی اور پورے یورپ میں یوگ کی تشہیر کی۔ یہ اپنے آپ میں ترغیب دینے والی مثالیں ہیں۔ اگر یہ یوگا سے جڑے وشے ہیں تو کیا ہندوستانی اس میں پیچھے رہ سکتے ہیں؟ بہار یوگ ودیالیہ مونگیر اس کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ پچھلے کئی دہائیوں سے یوگا کے لیے وقف ہے۔ اسی طرح سوامی راج شری منی کو بھی اعزاز سے نوازا گیا۔ انھوں نے لائیف مشن اور لکولش یوگا یونیورسٹی قائم کی۔ یوگا کو وسیع پیمانے پر منانا اور یوگا کا پیغام گھر گھر پہنچانے والوں کو اعزاز بخشنا دونوں نے ہی اس یوگا دیوس کو خاص بنا دیا۔
میرے پیارے ہم وطنو! یہ سفر آج شروع ہو رہا ہے۔ نئے جذبے، نئے احساس، نئے تصور، نئی صلاحیت لیکن ہاں میں آپ کے مشوروں کا انتظار کرتا رہوں گا۔ آپ کی رایوں سے وابستہ رہنا میرے لیے ایک بہت اہم سفر ہے۔ من کی بات تو مسلسل ہے۔ آیئے ہم ملتے رہیں، باتیں کرتے رہیں، آپ کے جذبات کو سنتا رہوں، سنوارتا رہوں، سمجھتا رہوں۔ کبھی کبھی ان جذبوں کو جینے کی کوشش کرتا رہوں ۔ آپ کا آشیرواد بنا رہے۔ آپ ہی میری ترغیب ہیں، آپ ہی میری توانائی ہیں۔آؤ مل بیٹھ کر من کی بات کا مزہ لیتے لیتے زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھاتے چلیں۔ پھر ایک اگلے مہینے من کی بات کے لیے پھر سے ملیں گے۔ آپ سب کو میری جانب سے بہت بہت شکریہ۔
نمسکار!
نئی دہلی،24 فروری / میرے پیارے اہل وطن ، آداب! من کی بات شروع کرتے ہوئے آج من بھرا ہوا ہے۔ 10 دن قبل بھارت ماتا نے اپنے بہادر سپوتوں کو کھو دیا۔ ان بلند اقبال بہادروں نے ہم سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی حفاظت میں خود کو کھپا دیا۔ اہل وطن چین کی نیند سو سکیں اس لئے ہمارے ان بہادروں سپوتوں نے رات دن ایک کر رکھا تھا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے میں بہادر جوانوں کی شہادت کے بعد ملک بھر میں لوگوں کو اور لوگوں کے من میں زخم اور غصہ ہے۔ شہیدوں اور ان کے کنبوں کے تئیں چاروں طرف احساسات امڈ پڑے ہیں۔ اس دہشت گردانہ تشدد کی مخالفت میں جو غصہ آپ کے اور میرے من میں ہے وہی جذبہ ہر اہل وطن کے من میں ہے۔ اور انسانیت میں یقین کرنے والی دنیا کے بھی انسانیت نواز برادریوں میں ہے۔ بھارت کی حفاظت کرنے میں اپنے جان نچھاور کرنے والے ملک کے سبھی بہادر سپوتوں کو میں سلام کرتا ہوں۔ یہ شہادت دہشت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہمیں مسلسل ترغیب دیتی رہے گی، ہمارے عزم کو اور مضبوط کرے گی۔ ملک کے سامنے آئے اس چیلنج کا سامنا ہم سب کو ذات پات ، فرقہ پرستی ، علاقائیت اور دیگر سبھی طرح کے اختلافات کو بھولا کر کرنا ہے۔ تاکہ دہشت کے خلاف ہمارے قدم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوں، طاقت ور ہوں اور فیصلہ کن ہوں ۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ ہی غیر معمولی حوصلہ اور ہمت کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ امن کے قیام کے لئے جہاں انہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہیں حملہ آوروں کو بھی ان ہی کی زبان میں جواب دینے کا کام کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حملے کے سو گھنٹے کے اندر ہی کس قدر سے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ فوج نے دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔ بہادر فوجیوں کی شہادت کے بعد میڈیا کے ذریعے سے ان کے رشتے داروں کی جو حوصلہ افزا باتیں سامنے آئی ہیں اس نے پورے ملک کےحوصلے کو مزید تقویت دی ہے۔ بہار کے بھاگل پور کے شہید رتن ٹھاکر کے والد رام نرنجن جی نے دکھ کی اس گھڑی میں بھی جس جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھیجیں گے اور ضرورت پڑی تو خود بھی لڑنے جائیں گے۔ اڈیشہ کے جگت سنگھ پور کے شہید پرسنہ ساہو کی بیوی مینا جی کے غیر معمولی حوصلے کو پورا ملک سلام کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی سی آر پی ایف جوائن کرانے کا عہد کیا ہے۔ جب ترنگے میں لپٹے شہید وجے شورین کی لاش جھارکھنڈ کے گملا پہنچی تو معصوم بیٹے نے یہی کہا کہ میں بھی فوج میں جاؤں گا۔ اس معصوم کا جذبہ آج بھارت کے بچے بچے کی جذبے کو ظاہر کرتا ہے ۔ایسے ہی جذبات ہمارے بہادر ، حوصلہ مند ، شہیدوں کے گھر گھر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارا ایک بھی بہادر شہید اس کا استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے وہ دیوریا کے شہید وجے موریہ کا خاندان ہو ، کانگڑا کے شہید تلک راج کے والدین ہوں یا پھر کوٹہ کے شہید ہیمراج کا 6 سالہ بیٹا ہو ، شہیدوں کے ہر خاندان کی کہانی ترغیب سے بھری ہوئی ہے۔ میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کنبوں نے جو جذبہ دکھایا ہے جن جذبات کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کو جانیں ، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ، وطن سے محبت کیا ہوتی ہے، ایثار وقربانی کیا ہوتی ہے ، اس کے لئے ہمیں تاریخ کے پرانے واقعات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جیتی جاگتی مثالیں ہیں اور یہی روشن بھارت کے مستقبل کے لئے باعث تحریک ہے۔
میرے پیارے اہل وطن ! آزادی کے اتنے طویل عرصے تک ہم سب کو جس وار میموریل کا انتظار تھا وہ اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں اہل وطن کا تجسس ، ان کا شوق انتہائی فطری ہے۔ نریندر مودی ایپ پر اُڈوپی ، کرناٹک کے جناب اونکار شیٹی جی نے نیشنل وار میموریل تیار ہونے پر اپنی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے حیرت بھی ہوتی تھی اور درد بھی کہ ہندوستان میں کوئی نیشنل وار میموریل (قومی جنگی یادگار) نہیں تھا۔ ایک ایسا میموریل جہاں قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والے بہادر جوانوں کی بہادری کی کہانیوں کو سنبھال کر رکھا جا سکے ۔ میں طے کیا کہ ملک میں ایک ایسی یادگار ضرور ہونی چاہئے ۔
ہم نے نیشنل وار میموریل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ یادگار اتنے کم وقت میں بن کر تیار ہو چکی ہے۔ کل یعنی 25 فروری ہو ہم کروڑوں اہل وطن اس قومی فوجی یادگار کو ، اپنی فوج کے سپرد کریں گے۔ ملک اپنا قرض ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرے گا۔
دلی کے دل یعنی وہ جگہ جہاں پر انڈیا گیٹ اور امر جوان جیوتی موجود ہے ، بس اس کے بالکل قریب یہ ایک نئی یادگار بنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہل وطن کے لئے قومی فوجی یادگار جانا کسی تیرتھ استھل جانے کے برابر ہوگا۔ قومی فوجی یادگار آزادی کے بعد عظیم ترین قربانی دینے والے جوانوں کے تئیں قوم کی احسان مندی کی علامت ہے۔ یادگار کا ڈیزائن ، ہمارے لافانی فوجیوں کے غیر معمولی حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی فوجی یادگار کا تصور چار کنسنٹرک سرکل یعنی چار چکروں پر مرکوز ہے۔ جہاں ایک فوجی کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے سفر کا بیان ہے۔ اگر چکر کی لو ، شہید فوجی کے امر ہونےکی علامت ہے۔ دوسرا سرکل ویرتا چکر کا ہے جو فوجیوں کے حوصلے اور بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی گیلری ہے جہاں دیواروں پر فوجیوں کی بہادری کے کارناموں کو ابھارا گیا ہے ۔ اس کے بعد تیاگ چکر ہے۔ یہ سرکل فوجیوں کی قربانی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس میں ملک کے لئے عظیم ترین قربانی دینے والے فوجیوں کے نام سنہرے الفاظ میں لکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد رکشک چکر ہے جو سیکورٹی کو ظاہرکرتا ہے۔ اس سرکل میں گھنے پیڑوں کی قطار ہے۔ یہ پیڑ فوجیوں کی علامت ہیں اور ملک کے شہریوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے پیغام دے رہےہیں کہ ہر پہر فوجی سرحد پر تعینات ہے اور اہل وطن محفوظ ہیں۔ کل ملاکر دیکھیں تو قومی فوجی یادگار کی پہچان ایک ایسے مقام کے طور پر بنے گی جہاں لوگ ملک کے عظیم شہیدوں کے بارے میں جانکاری لینے ، اپنے احسان مندی ظاہر کرنے ، اس پر ریسرچ کرنے کے مقصد سے آئیں گے۔ یہاں ان بلیدانیوں (قربانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں ) کی کہانی ہے جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی ، تاکہ ہم زندہ رہ سکیں ، تاکہ ملک محفوظ رہے اور ترقی کر سکے۔ ملک کی ترقی میں ہماری مسلح افواج ، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے عظیم تعاون کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں مجھے نیشنل پولیس میموریل ، (قومی پولیس یادگار ) کو بھی ملک کے نام وقف کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی تھی۔ وہ بھی ہمارے اس خیال کا عکس تھا جس کے تحت ہم مانتے ہیں کہ ملک کو ان مرد اور خاتون پولیس اہلکاروں کا احسان مند ہونا چاہئے جو مسلسل ہماری حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ قومی فوجی یادگار اور نیشنل پولیس میموریل کو دیکھنے ضرور جائیں گے۔ آپ جب بھی جائیں وہاں لی گئی اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے ترغیب ملے اور وہ بھی اس مقدس مقام ، اس یادگار کو دیکھنے کے آرزور مند بنیں ۔
میرے پیارے اہل وطن! من کی بات کے لئے آپ کے ہزاروں خطوط اور کمنٹ مجھے الگ الگ ذرائع سے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں اس بار جب میں آپ کے کمنٹ پڑھ رہا تھا تب مجھے آتش مکھو پادھیائے جی کاایک بہت ہی دلچسپ کمنٹ میرے دھیان میں آیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سال 1900 میں 3 مارچ کو انگریزوں نے برسا منڈا کو گرفتار کیا تھا تب ان کی عمر صرف 25 سال کی تھی ۔ اتفاق ہی ہے کہ 3 مارچ کو ہی جمشید جی ٹاٹا کی جینتی ہوئی ہے اور وہ آگے لکھتے ہیں کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ خاندانی پیس منظر سے ہیں جنہوں نے جھارکھنڈ کی وراثت اور تعریف کو خوشحال بنایا۔ من کی بات میں برسا منڈا اور جمشید جی ٹاٹا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مطلب ایک طرح سے جھارکھنڈ کی قابل فخر تاریخ اور وراثت کو سلام کرنے جیسا ہے۔ آتش جی میں آپ سے متفق ہوں ان دو عظیم شخصیات نے جھارکھنڈ کا ہی نہیں پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ پورا ملک ان کے تعاون کے لئے ان کا احسان مند ہے ۔ آج ہمارے نوجوانوں کو رہنمائی کے لئے کسی باعث تحریک شخصیت کی ضرورت ہے تو وہ ہیں بھگوان برسا منڈا ۔ انگریزوں نے چھپ کر بڑی ہی چالاکی سے انہیں اُس وقت پکڑا تھا جب وہ سو رہے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسی بزدلانہ کارروائی کا سہارا کیوں لیا؟ کیوں کہ اتنی بڑی سلطنت کھڑی کرنے والے انگریز بھی ان سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بھگوان برسا منڈا نے نہ صرف اپنے روایتی تیر کمان سے ہی بندوقوں اور توپوں سے لیس انگریزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ در اصل جب لوگوں کو ایک تحریک افزا قیادت ملتی ہے تو پھر ہتھیاروں کی طاقت پر لوگوں کی اجتماعی قوت ارادی بھاری پڑتی ہے۔ بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں سے نہ صرف سیاسی آزادی کے لئے جدو جہد کی بلکہ آدیواسیوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑی۔
اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے یہ سب کر دکھایا ۔ محروموں اور استحصال زدہ لوگوں کی تاریکی سے پُر زندگی میں سورج کی طرح روشنی بکھیری۔ بھگوان برسا منڈا نے 25 سال کی مختصر عمر میں ہی اپنی قربانی دے دی ۔ برسا منڈا جیسے بھارت ماں کے سپوت ملک کے ہر حصے میں ہوئے ہیں ۔ شاید ہندوستان کا کوئی کونا ایسا ہو گا جہاں صدیوں تک چلی ہوئی آزادی کی اس جنگ میں کسی نے تعاون نہ دیا ہو۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے ایثار ، بہادری اور قربانی کی کہانیاں نئی نسل تک پہنچی ہی نہیں ۔ اگر بھگوان برسا منڈا جیسی شخصیت نے ہمیں اپنے وجود کا احساس کرایا تو جمشید جی ٹاٹا جیسی شخصیت نے ملک کو بڑے بڑے ادارے دیئے۔ جمشید جی ٹاٹا صحیح معنوں میں ایک دور اندیش شخص تھے جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا بلکہ اس کی مضبوط بنیاد بھی رکھی۔ وہ اچھی طرح واقف تھے کہ ہندوستان کو سائنس ، ٹیکنالوجی اور صنعتی مرکز بنانا مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ یہ ان کا ہی ویژن تھا جس کے نتیجے میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا قیام عمل میں آیا جسے اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے ٹاٹا اسٹیل جیسے کئی عالمی معیار کے ادارےاور صنعتیں بھی قائم کیں۔ جمشید جی ٹاٹا اور سوامی وویکا نند جی کی ملاقات دورۂ امریکہ کے دوران جہاز میں ہوئی تھی تب ان دونوں کی گفتگو میں ایک اہم موضوع ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی نشر و اشاعت تھی۔ کہتے ہیں اسی گفتگو سے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی بنیاد پڑی۔
میرے پیارے اہل وطن! ہمارے ملک کے سابق وزیراعظم جناب مرار جی دیسائی کی پیدائش 29 فروری کو ہوئی تھی ۔جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ یہ دن چار سال میں ایک بار ہی آتا ہے۔ سادہ، پر امن شخصیت کے دھنی ، مرار جی دیسائی ملک کے سب سے ڈسپلنڈ لیڈروں میں سے تھے ۔ آزاد ہندوستان میں پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ مرار جی بھائی دیسائی کے ہی نام ہے ۔ مرار جی دیسائی نے اس مشکل وقت میں ہندوستان کی صلاحیت مندی کے ساتھ قیادت کی جب ملک کے جمہوری تانے بانے کو خطرہ لاحق تھا۔ اس کے لئے ہماری آنے والی نسلیں بھی ان کی احسان مند رہیں گی۔ مرار جی بھائی دیسائی نے جمہوریت کی حفاظت کے لئے ایمرجنسی کے خلاف تحریک میں خود کو جھونک دیا۔ اس کے لئے انہیں ضعیفی میں بھی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔ اس وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ لیکن 1977 میں جب جنتا پارٹی نے انتخاب جیتا تب وہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ان کی مدت کار کے دوران ہی 44 واں آئینی ترمیمی بل لایا گیا ۔یہ اہم اس لئے ہے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران جو 42 ویں ترمیم لائی گئی تھی ، جس میں سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنے اور دوسرے ایسے التزامات تھے ، جو ہماری جمہوری قدروں کے منافی تھے، ان کو واپس لیا گیا۔ جیسے 44 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کارگزاری کو اخبارات میں شائع کرنے کا التزام کیا گیا۔ اسی کے تحت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو بحال کیا گیا۔ اسی ترمیم میں یہ بھی التزام کیا گیا کہ آئین کی دفعی 20 اور 21 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ایمرجنسی کے دوران بھی نہیں کی جاسکتی۔ پہلی مرتبہ ایسا نظم کیا گیا کہ کابینہ کی تحریری سفارش پر ہی صدر جمہوریہ ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ ایمرجنسی کی مدت کو ایک بار میں چھ مہینے سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے مرار جی بھائی نے یہ یقینی بنایا کہ ایمرجنسی نافذ کرکے 1975 میں جس طرح جمہوریت کا قتل کیا گیا تھا ۔ مستقبل میں اس کا اعادہ پھر نہ ہوسکے۔ ہندستانی جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنے میں ان کے گراں قدر تعاون کو آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ایک بار پھر ایسے عظیم لیڈر کو میں خراج عقید ت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو!
ہر سال کی طرح اس بار بھی پدم ایوارڈ کے تعلق سے لوگوں میں بڑا اشتیاق تھا۔ آج ہم ایک نیو انڈیا کی طرف مائل ہیں۔ اس میں ہم ان لوگوں کا احترام کرنا چاہتے ہیں جو زمینی سطح پر اپنا کام بے لوث جذبے سے کررہے ہیں۔ اپنی محنت کی دم پر الگ الگ طریقے سے دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لارہے ہیں۔ دراصل وہ سچے کرم یوگی ہیں جو عوامی خدمت ، سماج کی خدمت اور ان سب سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں بے لوث جذبے کے ساتھ مصروف رہتےہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب پدم ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ ایک طرح سے اسے میں بہت بڑی کامیابی مانتا ہوں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹی وی، میگزین یا اخباروں کے فرنٹ پیج پر نہیں ہیں۔یہ چکاچوند کی دنیا سے دور ہیں لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے نام کی پروا ہ نہیں کرتے بس زمینی سطح پر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ‘یوگہ کرم سو کوشلم ’ گیتا کے پیغام کو وہ ایک طرح سے جیتے ہیں۔ میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اڈیشہ کے دیتاری نائیک کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ انہیں کینال مین آف دی اڈیشہ یونہی نہیں کہا جاتا۔ دیتاری نائیک نے اپنے گاؤں میں اپنے ہاتھوں سے پہاڑ کاٹ کر تین کلو میٹر تک نہر کا راستہ بنادیا۔ اپنی محنت سے سنچائی اور پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دور کردیا۔ گجرات کے عبدالغفور کھتری جی کو ہی لیجیئے، انہوں نے کچھ کے روایتی روغن پیٹنگ کے احیا کا بے مثال کام کیا۔ وہ اس نایاب پیٹنگ کو نئی نسل تک پہچانے کا بڑا کام کررہے ہیں۔ عبدالغفور کے ذریعہ بنائی گئی ‘ٹری آف لائف، فن پارے ’’ کو ہی میں نے امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کو تحفہ میں دیا تھا۔ پدم ایوارڈ پانے والوں میں مراٹھواڑہ کے شبیر سید گئو ماتا کے سیوک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح اپنی پوری زندگی گئو ماتا کی خدمت میں کھپا دی ، یہ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ مدورے چنا پلئی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے تمل ناڈو میں کلن جیئم تحریک کے ذریعہ مصیبت زدوں اور استحصال زدوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی کمیونٹی چھوٹے مالی نظام کی شروعات کی ۔ امریکہ کی ٹاؤپورچون ۔ لینچ کے بارے میں سن کرآپ حیرت سے بھر جائیں گے لینچ آج یوگ کا جیتا جاگتا ادارہ بن گیا ہے۔ سو برس کی عمر میں بھی وہ دنیا بھر کے لوگوں کو یوگ کی ٹریننگ دے رہی ہیں اور اب تک ڈیڑھ ہزار لوگوں کو یوگ ٹیچر بناچکی ہیں۔جھاڑکھنڈ میں لیڈی ٹارزن کے نام سے مشہور جمنا ٹوڈو نے ٹمبر مافیا اور نکسلیوں سے لوہا لینے کا جرات مندانہ کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف پچاس ہیکٹر جنگل کو اجڑنے سے بچایا بلکہ دس ہزار خواتین کو متحد کرکے پیڑوں اور جاندار وں کے تحفظ کے لئے آمادہ کیا۔ یہ جمنا جی کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج گاؤں والے ہر بچے کی پیدائش پر 18 پیڑ اور لڑکی کی شادی پر دس پیڑ لگاتے ہیں۔ گجرات کی مکتا بین پنکج کمار دگلی کہانی آپ کو تحریک سے بھر دے گی۔ خود دیویانگ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دیویانگ خواتین کی ترقی کے لئے جو کام کئے ، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ چکشو مہیلا سیوا گنج نام کا ادارہ قائم کرکے وہ بینائی سے محروم بچوں کو خود کفیل بنانے کے مقدس کام میں مصروف ہیں۔ بہار کے مظفر پور کی کسان چاچی یینی راج کماری دیو کی کہانی بھی بہت حوصلہ افزا ہے۔ خواتین امپاورمنٹ اور زراعت کو نفع بخش بنانے کی سمت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی ہے۔ کسان چاچی نے اپنے علاقے کی تین سو خواتین کو خود امدادی گروپ سے جوڑا اور اقتصادی اعتبار سے خودکفیل بنانے کے لئے راغب کیا۔ انہوں نے گاؤں کی خواتین کو کھیتی کے ساتھ ہی روزگار کے دیگر وسائل کی ٹریننگ دی۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کھیتی کے ساتھ ٹکنالوجی کوجوڑنے کا کام کیا اور میرے ہم وطنو ، شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس سال جو پدم ایوارڈ دیئے گئے ہیں ان میں سے بارہ کسانوں کو پدم ایوارڈ ملے ہیں۔ عام طو رپر زرعی شعبے سے وابستہ بہت ہی کم لوگ اور براہ راست زراعت کا کام کرنے والے بہت ہی کم لوگ پدم شری کی فہرست میں آئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بدلتے ہوئے ہندستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں آج آپ سب کے ساتھ ایک ایسے دل کو چھو لینے والے تجربے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ چند دنوں سے میں محسوس کررہا ہوں۔ آج کل ملک میں جہاں بھی جارہا ہوں ، میری کوشش رہتی ہے کہ ‘ آیوشمان بھارت’ کی اسکیم پی ایم ۔جے اے وائی یعنی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کے کچھ مستفدین سے ملاقات کروں۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے ۔ اکیلی ماں اس کے چھوٹے بچے ، پیسوں کی کمی کی سبب علاج نہیں کراپارہی تھی۔ اسکیم سے اس کا علاج ہوا اور وہ صحت مند ہوگئی ۔ گھر کا سربراہ ، محتنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے والا حادثہ کا شکا ہوگیا، کام نہیں کرپارہا تھا، اس اسکیم سے اس کو فائدہ ملا اور وہ دوبارہ صحت مند ہوگیا، نئی زندگی جینے لگا۔
بھائیوں-بہنوں! گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران تقریباً 12 لاکھ کنبے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ غریب کی زندگی میں اس سے کتنی تبدیلی آرہی ہے۔ آپ سب بھی اگر کسی بھی ایسے غریب شخص کو جانتے ہیں جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے علاج نہیں کرا پارہا ہے تو ، اسے اس اسکیم کے بارے میں ضرور بتائیں۔ یہ اسکیم ہر ایسے غریب شخص کے لئے ہی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! اسکولوں میں امتحانات کا وقت شروع ہونے والا ہے۔ پورے ملک میں علیحدہ علیحدہ ایجوکیشن بورڈ آئندہ کچھ ہفتوں میں دسویں اور بارہویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کا عمل شروع کردیں گے۔ امتحانات میں شامل ہونے والے تمام طلباء کو ان کے گارجین کو تمام اساتذہ کو میری جانب سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
کچھ قبل دہلی میں ‘پریکشا پہ چرچا ’ کا ایک بہت بڑا انعقاد ٹاؤن ہال کے فارمیٹ میں ہوا ۔ اس ٹاؤن ہال کے پروگرام میں مجھے ٹیکنالوجی کی وساطت سے اندرون اور بیرون ملک کے کروڑوں طلباء کے ساتھ ان کے گارجین، اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ‘پریکشا پہ چرچا’ ، اس کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ امتحان سے متعلق مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی۔کئی ایسے پہلو سامنے آئے کہ یقینی طورپر طلباء کے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ تمام طلباء ، ان کے اساتذہ ، والدین یوٹیوب پر اس پروگرام کی پوری ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں تو آنے والے امتحان کے لئے میرے سبھی ایگزام ویریئرز کو ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنوں! بھارت کی بات ہو تو تیوہار کی بات نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید ہی ہمارے ملک میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس کی اہمیت نہ ہو، جس کا کوئی تیوہار نہ ، کیونکہ ہزار وں سال پرانی تہذیب و ثقافت کی وراثت ہمارے پاس ہے۔ کچھ ہی دن بعد مہاشیو راتری کا تیوہار آنے والا اور اس بار تو شیو راتری تو سوموار کو ہے اور جب شیو راتری سوموار کو ہوتو اس کی ایک خاص اہمیت ہمارے دل و ماغ پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اس شیوراتری کے مبارک تیوہار پر میری آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنوں! کچھ دن قبل میں کاشی گیا تھا۔ وہاں مجھے دِویانگ بھائی -بہنوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا ۔ ان سے کئی موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ان کا اعتماد واقعی متاثر کرنے والا اور تحریک دینے والا تھا۔بات چیت کے دوران ان میں سے ایک نوجوان کے ساتھ جب میں بات کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو ایک اسٹیج آرٹسٹ ہوں۔ میں تفریحی پروگراموں میں می میکری کرتا ہوں، تو میں نے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کس کی می میکری کرتی ہو تو اس نے بتایا کہ میں پردھان منتری کی می میکری کرتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ذرا کر کے دیکھائیے۔ میرے لیے یہ بڑا خوشگوار اور حیرت انگیز واقع تھا۔ انہوں نے‘ من کی بات’ میں جس طرح میں بات کرتاہوں اسی کی پوری می میکری کی اور من کی بات کی ہی می میکری کی۔ مجھے یہ سن کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ لوگ نہ صرف من کی بات سنتے ہیں، بلکہ اسے کئی موقع پر یاد بھی کرتے ہیں۔ میں سچ مچ اس دویانگ نوجوان کی صلاحیت سے بہت ہی متاثر ہوا۔
میرے پیارے ہم وطنوں! من کی بات پروگرام کے ذریعے میں آپ سب کے ساتھ جڑنا میرے لئے ایک انوکھا تجربہ رہا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے سے میں ایک طرح سے کروڑوں کنبوں کے ساتھ ہر مہینے روبرو ہوتا ہوں۔ کئی بارتو آپ سب سے بات کرتے ، آپ کے خطوط پڑھتے یا آپ کے ذریعے فون پر بھیجے گئے خیالات کو سنتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ مان لیا ہے۔ یہ میرے لئے ایک انتہائی خوشگوار تجربہ رہا ہے۔
دوستوں!انتخابات جمہوریت کا سب سے بڑا جشن ہوتا ہے۔ آئندہ دو ماہ ہم سب الیکشن کی گہما گہمی میں مصروف عمل رہیں گے۔ میں خود بھی اس الیکشن میں امیدوار رہوں گا۔ صحت مند جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے اگلا من کی بات مئی مہینے کے آخری اتوار کو ہوگا ۔یعنی مارچ ، اپریل اور مئی کا مہینہ ، ان تینوں مہینے ہمارے جو جذبات ہیں ان سب کو انتخابات کے بعد ایک بار نئے اعتماد کے ساتھ ، آپ کی دعاؤں کی طاقت کے ساتھ پھر ایک بار من کی بات کے ذریعے اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کروں گا اور برسوں تک آپ سے بات چیت کرتا رہوں گا۔ پھر ایک بار آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نئی دہلی 27جنوری ؛ میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار، اس مہینے کی 21 تاریخ کو ملک کو ایک بہت ہی افسوسناک خبر ملی۔ کرناٹک میں ٹمکور ضلع کے شری سدھ گنگا مٹھ کے ڈاکٹر شری شری شری شیوکمار سوامی جی ہمارے درمیان نہیں رہے۔ شیو کمار سوامی جی نے اپنی پوری زندگی معاشرے کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ بھگوان بسویشور نے ہمیں سکھایا ہے۔ ‘کائے کوے کیلاس’۔ یعنی سخت محنت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبھاتے جانا، بھگوان شیو کی رہائش گاہ کیلاش دھام میں ہونے کے برابر ہے۔ شیو کمار سوامی جی اسی فلسفے کو مانتے تھے اور انھوں نے اپنی 111 برسوں کی زندگی میں ہزاروں لوگوں کی سماجی، تعلیمی اور مالیاتی ترقی کے لیے کام کیا۔ ان کی شہرت ایک ایسے عالم کے روپ میں تھی جن کی انگریزی، سنسکرت اور کنڑ زبانوں پر حیرت انگیز گرفت تھی۔ وہ ایک سماج سدھارک تھے انھو ں انے اپنی پوری زندگی اس بات میں لگا دی کہ لوگوں کو کھانا، پناہ، تعلیم اور روحانی علم ملے۔ کسانوں کی ہر طرح سے فلاح ہو، یہ سوامی جی کی زندگی میں اوّلیت رہتی تھی۔ سدھ گنگا مٹھ مستقل طورپر مویشیوں اور زرعی میلوں کا انعقاد کرتا تھا۔ مجھے کئی بار پرم پوجیہ سوامی جی کا آشیرواد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ سال 2007 میں شری شری شری شیو کمار سوامی جی کے صد سالہ جشن کے موقع پر ہمارے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ٹمکور گئے تھے۔ کلام صاحب نے اس موقع پر پوجیہ سوامی جی کے لیے ایک نظم سنائی تھی۔ انھوں نے کہا
“O my Fellow Citizens – In giving, you receive happiness,
In Body and Soul- You have everything to give,
If you have knowledge – share it,
If you have resources – share them with the needy,
You, your mind and heart.
To remove the pain and suffering, and cheer the sad hearts.
In giving, you receive happiness Almighty will bless, all your actions”
ڈاکٹر کلام صاحب کی یہ نظم شری شری شری شیو کمار سوامی جی کی زندگی اور سدھ گنگا مٹھ کے مشن کو خوبصورت طریقے سے پیش کرتی ہے۔ ایک بارپھر میں ایسے عظیم شخص کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، 26 جنوری 1950 کو ہمارے ملک میں آئین نافذ ہوا اور اس دن ہمارا ملک جمہوری بنا اور کل ہی ہم نے آن بان شان کے ساتھ یوم جمہوریہ بھی منایا۔ لیکن میں آج کچھ اور بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک میں ایک بہت ہی اہم ادارہ ہے جو ہماری جمہوریت کا تو اٹوٹ حصہ ہے ہی اور ہماری جمہوریت سے بھی پرانا ہے۔ میں ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ 25 جنوری کو الیکشن کمیشن کا یوم تاسیس تھا جسے قومی یوم رائے دہندگان، نیشنل ووٹرس ڈے، کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں جس پیمانے پر انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اُسے دیکھ کر دنیا کے لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور ہمارا الیکشن کمیشن جس خوبی سے اس کا انعقاد کرتا ہے اسے دیکھ کر ہر ایک ہم وطن کو الیکشن کمیشن پر فخر ہونا فطری بات ہے۔ ہمارے ملک میں یہ یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے کہ ہندوستان کا ہر ایک شہری جو ایک رجسٹرڈ ووٹر ہے، رجسٹرڈ رائے دہندہ ہے، اسے رائے دہندگی کا موقع ملے۔
جب ہم سنتے ہیں کہ ہماچل پردیش میں سمندری سطح سے 15 ہزار فٹ کی بلندی والے علاقے میں بھی پولنگ سینٹر قائم کیا جاتا ہے تو انڈمان ونکوبار جزائر میں دور دراز کے جزائر میں بھی ووٹنگ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور آپ نے تو گجرات کے بارے میں ضرور سنا ہوگا کہ گیر کے جنگل میں ایک دور دراز علاقے میں ایک پولنگ بوتھ جو صرف ایک ووٹر کے لیے ہے۔ تصور کیجئے صرف ایک ووٹر کے لیے، جب ان باتوں کو سنتے ہیں تو الیکشن کمیشن پر فخر ہونا بہت فطری بات ہے۔ اس ایک ووٹر کا خیال رکھتے ہوئے اُس ووٹر کو اُس کے حق رائے دہی کا موقع ملے، اس کے لیے الیکشن کمیشن کے ملازمین کی پوری ٹیم دور دراز علاقوں میں جاتی ہے اور ووٹنگ کا انتظام کرتی ہے اور یہی تو ہماری جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔
میں ہندوستان کی جمہوریت کو مضبوط بنانے کی مسلسل کوشش کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ستائش کرتا ہوں۔ میں سبھی ریاستوں کے الیکشن کمیشن کی ،تمام سکیورٹی ملازمین، دیگر ملازمین کی بھی ستائش کرتا ہوں، جو ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیتے ہیں اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کو یقینی بناتے ہیں۔
اس سال ہمارے ملک میں لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جہاں 21ویں صدی میں جنم لینے والے نوجوان لوک سبھا انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان کے لیے ملک کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کا موقع آگیا ہے۔ اب وہ ملک میں فیصلہ لینے کے عمل کے حصے دار بننے جارہے ہیں۔ اپنے خوابوں کو ملک کے خوابوں کے ساتھ جوڑنے کا وقت آچکا ہے۔ میں نوجوان پیڑھی سے اصرار کرتا ہوں کہ اگر وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں تو خود کو ضرور ووٹر کے طور پر رجسٹر کروائیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو احساس ہونا چاہیے کہ ملک میں ووٹر بننا، حق رائے دہی حاصل کرنا، وہ زندگی کی اہم حصولیابیوں میں سے ایک اہم پڑاؤ ہے۔ ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنا یہ میرا فرض ہے۔ یہ جذبہ ہمارے اندر پنپنا چاہیے۔ زندگی میں کبھی کسی بھی وجہ سے اگر ووٹ نہیں ڈال پائے تو بڑی تکلیف ہونی چاہیے۔ کبھی کہیں ملک میں کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھیں تو افسوس ہونا چاہیے۔ ہاں! میں نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ اس دن میں ووٹ دینے نہیں گیا تھا۔ اس کا ہی خمیازہ آج میرا ملک بھگت رہا ہے۔ ہمیں اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ہمارا طریقہ یہ ہماری فطرت بننی چاہیے یہ ہمارے سنسکار ہونے چاہئیں۔ میں ملک کی جانی مانی ہستیوں سے اصرار کرتا ہوں کہ ہم سب ملک کر ووٹر رجسٹریشن ہو، یا پھر پولنگ کے دن ووٹ دینا ہو، اس بارے میں مہم چلا کرکے لوگوں کو بیدار کریں۔ مجھے امید ہے کہ بھاری تعداد میں نوجوان رائے دہندگان کے طور پر رجسٹرڈ ہوں گے۔ اور اپنی حصے داری سے ہماری جمہوریت کو اور مضبوطی دیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہندوستان کی اس عظیم سرزمین نے بہت سی عظیم شخصیتوں کو جنم دیا ہے اور ان عظیم شخصیتوں نے انسانیت کے لیے کچھ حیرت انگیز ناقابل فراموش کام کیے ہیں۔ ہمارا ملک ‘‘بہورتنا وسندھرا ہے’’۔ ایسی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے، نیتا جی سبھاش چندر بوس۔ 23 جنوری کو پورے ملک نے ایک الگ انداز میں ان کا یوم پیدائش منایا۔ نیتا جی کے یوم پیدائش پر مجھے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے بہادروں کے لیے وقف ایک میوزیم کا افتتاح کرنے کا موقع ملا۔ آپ جانتے ہیں کہ لال قلعہ کے اندر آزادی سے اب تک کئی ایسے کمرے، عمارتیں بند پڑی تھیں۔ ان بند پڑے لال قلعہ کے کمروں کو بہت خوبصورت عجائب گھروں میں تبدیل کیا گیا۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس اور انڈین نیشنل آرمی کو وقف کئے گئے عجائب گھر ؛یادِ جلیاں؛ اور 1857ایٹین ففٹی سیون، ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کو وقف عجائب گھر اور اس پورے احاطے کو‘ کرانتی مندر’ کے طور پر ملک کو وقف کیا گیا ہے۔ ان عجائب گھروں کی ایک ایک اینٹ میں ہماری شاندار تاریخ کی خوشبو بسی ہے۔ عجائب گھر کے چپے چپے پر ہماری جنگ آزادی کے بہادروں کی کہانیوں کو بیان کرنے والی باتیں ہمیں تاریخ کے اندر جانے کی تحریک دیتی ہیں۔ اسی جگہ پر بھارت ماں کے بہادر بیٹوں، کرنل پریم سہگل، کرنل گربخش سنگھ ڈھلّوں اور میجرجنرل شاہنواز خاں پر انگریز حکومت نے مقدمہ چلایا تھا۔
جب میں لال قلعہ میں، کرانتی مندر میں، وہاں نیتاجی سے جڑی یادوں کا دیدار کر رہا تھا تب مجھے نیتا جی کے خاندان کے ارکان نے ایک بہت ہی خاص کیپ ، ٹوپی تحفتاً پیش کی۔ کبھی نیتا جی اسی ٹوپی کو پہنا کرتے تھے۔ میں نے عجائب گھر میں ہی اس ٹوپی کو رکھوا دیا، جس سے وہاں آنے والے لوگ بھی اس ٹوپی کو دیکھیں اور اس سے حب الوطنی کی ترغیب حاصل کریں۔ دراصل اپنے قومی ہیرو کی بہادری اور حب الوطنی کو نئی نسل تک بار بار الگ الگ شکل میں مسلسل پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی مہینے بھر پہلے ہی 30 دسمبر کو میں انڈومان اور نکوبار جزائر گیا تھا۔ ایک پروگرام میں ٹھیک اسی مقام پر ترنگا لہرایا گیا جہاں نیتا جی سبھاش بوس نے 75 سال قبل ترنگا لہرایا تھا۔ اسی طرح سے اکتوبر 2018 میں لال قلعہ پر جب ترنگا لہرایا گیا تو سب کو حیرت ہوئی کیوں کہ وہاں تو 15 اگست کو ہی یہ روایت ہے۔ یہ موقع تھا آزاد ہند سرکار کے قیام کے 75 برس پورے ہونے کا۔
سبھاش بابو کو ہمیشہ ایک بہادر فوجی اور ماہر تنظیم کار کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ ایک ایسا بہادر فوجی جس نے آزادی کی لڑائی میں اہم کردار نبھایا ‘‘دلّی چلو، تم مجھے خون دو میں تمھیں آزادی دوں گا’’ جیسے عظیم نعروں سے نیتا جی نے ہر ہندوستانی کے دل میں جگہ بنائی۔ کئی برسوں تک یہ مطالبہ رہا کہ نیتا جی سے متعلق فائلوں کو عام کیا جائے اور مجھے اس بات کی خوشی ہے یہ کام ہم لوگ کرپائے، مجھے وہ دن یاد ہے جب نیتا جی کا سارا خاندان وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر آیا تھا ہم نے مل کر نیتا جی سے متعلق بہت ساری باتیں کیں اور نیتاجی سبھاش بوس کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان کی عظیم شخصیتوں سے متعلق کئی مقامات کو دلّی میں یادگار بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ چاہے وہ بابا صاحب امبیڈکر سے متعلق 26 علی پور روڈ ہو یا پھر سردار پٹیل میوزیم ہو یا وہ کرانتی مندر ہو۔ اگر آپ دلّی آئیں تو ان مقامات کو ضرورت دیکھنے جائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! آج جب ہم سبھاش چندر بوس کے بارے میں چرچا کر رہے ہیں اور وہ بھی ‘من کی بات’ میں تو میں آپ کے ساتھ نیتاجی کی زندگی سے متعلق ایک قصہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ سے ریڈیو کو لوگوں کے ساتھ جڑنے کا ایک اہم ذریعہ مانا ہے۔ اسی طرح نیتاجی کا بھی ریڈیو کے ساتھ کافی گہرا تعلق تھا اور انھوں نے بھی ملک کے لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے ریڈیو کو منتخب کیا تھا۔
سن 1942 میں سبھاش بابو نے آزاد ہند ریڈیو کی شروعات کی تھی اور ریڈیو کے ذریعے سے وہ ‘‘آزاد ہند فوج’’ کے فوجیوں سے اور ملک کے لوگوں سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ سبھاش بابو کا ریڈیو پر بات چیت کرنے کا ایک الگ ہی انداز تھا وہ بات چیت شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے کہتے تھے ۔ “This is Subhash Chandra Bose speaking to you over the Azad Hind Radio...”. اور اتنا سنتے ہی سامعین میں گویا ایک نیا جوش، ایک نئی توانائی بھر جاتی تھی۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ ریڈیو اسٹیشن ہفتہ وار خبروں کا بلیٹن بھی نشر کرتا تھا جو انگریزی، ہندی ، تمل، بنگلہ، مراٹھی، پنجابی، پشتو اور اردو وغیرہ زبانوں میں ہوتے تھے، اس ریڈیو اسٹیشن کو چلانے میں گجرات کے رہنے والے ایم آر ویاس جی نے بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ آزاد ہند ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام عام لوگوں کے درمیان کافی مقبول تھے اور ان پروگراموں سے ہمارے جنگ آزادی کے مجاہدین کو بہت تقویت ملی۔
اسی کرانتی مندر میں ایک ویژول آرٹس میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ ہندوستانی آرٹ اور ثقافت کے بارے میں بہت ہی جاذب نظر طریقے سے بتانے کی یہ کوشش ہوئی ہے۔ میوزیم میں چار تاریخی نمائشیں ہیں اور وہاں تین صدیوں پرانی 450 سے زیادہ پینٹنگز اور آرٹ ورکس موجود ہیں۔ میوزیم میں امرتا شیر گل، راجا روی ورما، اونیندر ناتھ ٹیگور، گگنیندر ناتھ ٹیگور، نند لال بوس، جامنی رائے، سیلوج مکھرجی جیسے عظیم فنکاروں کے اعلیٰ درجے کے فن پاروں کی بہت اچھی طرح سے نمائش کی گئی ہے۔ اور میں آپ سب سے خصوصی طورپر اصرار کروں گا کہ آپ وہاں جائیں اور گرو دیورویندر ناتھ ٹیگور جی کے فن پاروں کو ضرور دیکھیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں بات آرٹ کی ہو رہی ہے اور میں آپ سے گرودیو ٹیگور کے اعلیٰ درجے کی تخلیقات کو دیکھنے کی بات کر رہا ہوں آپ نے ابھی تک گرودیو رویندر ناتھ ٹیگور کو ایک مصنف اور ایک موسیقار کے طور پر جانا ہوگا لیکن میں بتانا چاہوں گا کہ گرودیو ایک مصور بھی تھے۔ انھوں نے کئی موضوعات پر پینٹنگز بنائی ہیں۔ انھوں نے جانوروں، پرندوں کی بھی تصویریں بنائی ہیں۔ انھوں نے کئی خوبصورت منظروں کی بھی تصویریں بنائیں ہیں۔ اور اتنا ہی نہیں انھوں نے انسانی کرداروں کو بھی آرٹ کے ذریعے کینوس پر اتارنے کا کام کیا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ گرودیو ٹیگور نے اپنے زیادہ تر فن پاروں کو کوئی نام ہی نہیں دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کی پینٹنگز دیکھنے والا خود ہی اس پینٹنگ کو سمجھے، پینٹنگ میں ان کے ذریعے دیئے گئے پیغام کو اپنے نظریے سے جانے۔ ان کی پینٹنگز کی یوروپی ملکوں میں، روس اور امریکہ میں بھی نمائش کی گئی ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کرانتی مندر میں ان کی پینٹنگز کو ضرور دیکھنے جائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو! ہندوستان سنتوں کی سرزمین ہے، ہمارے سنتوں نے اپنے خیالات اور اپنے کاموں سے ہم آہنگی، برابری اور معاشرتی تفویض اختیارات کا پیغام دیا ہے۔ ایسے ہی ایک سنت تھے سنت روی داس۔ 19 فروری کو روی داس جینتی ہے۔ سنت روی داس جی کے دوہے بہت مشہور ہیں۔ سنت روی داس جی چند ہی سطروں میں بڑے سے بڑا پیغام دیتے تھے۔ انھوں نے کہا تھا:
‘‘جاتی-جاتی میں جاتی ہے،
جو کیتن کے پات،
رے داس منش نہ جڑ سکے
جب تک جاتی نہ جات’’۔
جس طرح کیلے کے تنے کو چھیلا جائے تو پتّے کے نیچے پتّہ، پھر پتّے کے نیچے پتّہ اور آخر میں کچھ نہیں نکلتا ہے لیکن پورا پیڑ ختم ہوجاتا ہے ٹھیک اسی طرح انسان کو بھی ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور انسان رہا ہی نہیں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر حقیقت میں بھگوان ہر انسان میں ہوتے ہیں، تو انھیں ذات پنتھ اور دیگر سماجی بنیادوں پر تقسیم کرنا مناسب نہیں ہے۔
گرو روی داس جی کا جنم وارانسی کی پاکیزہ سرزمین پر ہوا تھا۔ سنت روی داس جی نے اپنے پیغامات کے ذریعے اپنی پوری زندگی میں محنت اور محنت کشوں کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی، یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے دنیا کو محنت کے احترام کا حقیقی مطلب سمجھایا ہے۔ وہ کہتے تھے۔
‘‘من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا’’۔
یعنی اگر آپ کا من اور دل پاک ہے تو ساکشات ایشور آپ کے دل میں قیام کرتے ہیں۔ سنت روی داس جی کے پیغام نے ہر طبقے ، ہر کلاس کے لوگوں کو متاثر کیا ہے چاہے چتوڑ کے مہاراجا اور رانی ہوں یا پھر میرا بائی ہوں سبھی ان کے معتقد تھے۔
میں ایک بار پھر سنت روی داس جی کی تعظیم میں سر جھکاتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو! کرن سِدر نے MyGov پر لکھا ہے کہ میں ہندوستان کے خلائی پروگرام اور اس کے مستقبل سے جڑے پہلوؤں پر روشنی ڈالوں۔ وہ مجھ سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ میں طلبا سے خلائی پروگراموں میں دلچسپی لینے اور کچھ الگ ہٹ کر آسمان سے بھی آگے جاکر سوچنے کا اصرار کروں۔ کرن جی ، میں آپ کے اس خیال اور خاص طور سے ملک کے بچوں کے لیے دیئے گئے پیغام کی ستائش کرتا ہوں۔
کچھ دن پہلے میں احمد آباد میں تھا، جہاں مجھے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کے مجسمے کی نقاب کشائی کا موقع ملا۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی نے ہندوستان کے خلائی پروگرام میں بہت ہی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے خلائی پروگرام میں ملک کے لاتعداد نوجوان سائنسدانوں کا تعاون رہا ہے۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج ہمارے طلبا کے ذریعے تیار کئے گئے سیٹلائٹ اور ساؤنڈنگ راکٹس خلاء تک پہنچ رہے ہیں۔ اسی 24 جنوری کو ہمارے طلبا کے ذریعے بنایا گیا ‘‘کلام- سیٹ’’ لانچ کیا گیا ہے، اڈیشہ میں یونیورسٹی کے طلبا کے ذریعے بنائے گئے ساؤنڈنگ راکٹس نے بھی کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک آزاد ہونے سے لے کر 2014 تک جتنے خلائی مشن ہوئے ہیں لگ بھگ اتنے ہی خلائی مشن کی شروعات گزشتہ چار برسوں میں ہوئی ہے۔ ہم نے ایک ہی اسپیس کرافٹ سے ایک ساتھ 104 سیٹلائٹ لانچ کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ہم جلد ہی چندریان-2 مہم کے ذریعے سے چاند پر ہندوستان کی موجودگی درج کرانے والے ہیں۔
ہمارا ملک خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال جان ومال کی حفاظت میں بھی بخوبی کر رہا ہے۔ چاہے سائیکلون ہو یا پھر ریل اور سڑک حفاظت۔ ان سب میں خلائی ٹیکنالوجی سے کافی مدد مل رہی ہے۔۔ ہمارے ماہی گیر بھائیوں کے درمیان ناوِک ڈوائسز تقسیم کئے گئے ہیں۔ جو ان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی میں بھی مددگار ہیں۔ ہم خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال سرکاری خدمات کی ڈلیوری اور احتساب کو اور بہتر کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ‘‘ہاؤس فار آل’’ یعنی ‘‘سب کے لیے گھر’’۔ اس اسکیم میں 23 ریاستوں کے قریب 10 لاکھ گھروں کو جیو ٹیگ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی منریگا کے تحت قریب ساڑھے تین کروڑ جائیدادوں کو بھی جیو ٹیگ کیا گیا۔ ہمارے سیٹلائٹس آج ملک کی بڑھتی ہوئی طاقت کی علامت ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ ہمارے بہتر تعلقات میں اس کا بڑا رول ہے۔ ساؤتھ ایشیا سیٹلائٹس تو ایک انوکھی پہل رہی ہے جس نے ہمارے پڑوسی دوست ملکوں کو بھی ترقی کا تحفہ دیا ہے۔اپنی بیحد مسابقتی لانچ خدمات کے ذریعے ہندوستان آج نہ صرف ترقی پذیر ممالک کے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے سیٹلائٹس کو بھی لانچ کرتا ہے۔ بچوں کے لیے آسمان اور ستارے ہمیشہ قابل رغبت ہوتے ہیں۔ ہمارا خلائی پروگرام بچوں کو بڑا سوچنے اور ان حدود سے آگے بڑھنے کا موقع دیتا ہے جو اب تک ناممکن سمجھی جاتی تھیں۔ یہ ہمارے بچوں کے لیے ستاروں کو دیکھتے رہنے کے ساتھ نئے نئے ستاروں کی کھوج کرنے کی طرف راغب کرنے کا ویژن ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! میں ہمیشہ کہتا ہوں جو کھیلے وہ کھلے اور اس بار کے کھیلو انڈیا میں بہت سارے نوعمر اور نوجوان کھلاڑی کِھل کے سامنے آئے ہیں۔ جنوری مہینے میں پُنے میں کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں 18 کھیلوں میں تقریبا 6 ہزاروں کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ جب ہمارا اسپورٹس کا مقامی ایکوسسٹم مضبوط ہوگا یعنی جب ہماری بنیاد مضبوط ہوگی تب ہی ہمارے نوجوان ، ملک اور دنیا بھر میں اپنی صلاحیت کا بہترین مظاہرہ کر پائیں گے۔ جب مقامی سطح پر کھلاڑی بہترین مظاہرہ کرے گا تب ہی وہ عالمی سطح پر بھی بہترین مظاہرہ کرے گا۔ اس بار ‘کھیلو انڈیا’ میں ہر ریاست کے کھلاڑیوں نے اپنی اپنی سطح پر اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ میڈل جیتنے والے کئی کھلاڑیوں کی زندگی زبردست تحریک دینے والی ہے۔
مکے بازی میں نوجوان کھلاڑی آکاش گورکھا نے سلور میڈل جیتا۔ میں پڑھ رہا تھا آکاش کے والد رمیش جی پُنے میں ایک کمپلیکس میں واچ مین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک پارکنگ شیڈ میں رہتے ہیں۔ وہیں مہاراشٹر کی انڈر-21 خواتین کبڈی ٹیم کی کپتان سونالی ہیلوی ستارا کی رہنے والی ہیں، انھوں نے بہت کم عمر میں ہی اپنے والد کو کھو دیا اور ان کے بھائی اور ان کی ماں نے سونالی کے ہنر کو فروغ دیا۔ اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ کبڈی جیسے کھیلوں میں بیٹیوں کو اتنا بڑھاوا نہیں ملتا ہے اس کے باوجود سنالی نے کبڈی کو چنا اور بہترین مظاہرہ کیا۔ آسن سول کے 10 سال کے ابھینوشا کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں سب سے کم عمر کے گولڈ میڈل جیتنے والے ہیں۔کرناٹک سے ایک کسان کی بیٹی، اکشتا باسوانی کمتی نے ویٹ لفٹنگ میں گولڈ میڈل جیتا۔ انھوں نے اپنی جیت کا کریڈٹ اپنے والد کو دیا۔ ان کے والد بیل گام میں ایک کسان ہیں۔ جب ہم انڈیا کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں تو وہ نوجوانوں کی طاقت کے عزم کا ہی تو نیو انڈیا ہے۔ کھیلو انڈیا کی یہ کہانیاں بتا رہی ہیں کہ نیو انڈیا کی تعمیر میں صرف بڑے شہروں کے لوگوں کا ہی رول نہیں رہا ہے بلکہ چھوٹے شہروں، گاؤں، قصبوں سے آنے والے نوجوانوں، بچوں، ینگ اسپورٹنگ ٹیلنٹ، ان کا بھی بہت بڑا رول ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ نے بہت سے مؤقر بیوٹی کنٹیسٹ کے بارے میں سنا ہوگا لیکن کیا آپ نے ٹوائلیٹ چمکانے کے کنٹیسٹ کے بارے میں سنا ہے۔ پچھلے تقریبا ایک مہینے سے چل رہے اس انوکھے کنٹیسٹ میں 50 لاکھ سے زیادہ ٹوائیلٹس نے حصہ لے بھی لیا ہے۔ اس انوکھے کنٹیسٹ کا نام ہے ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’۔ لوگ اپنے ٹوائلیٹ کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُسے رنگ روغن کرکے کچھ پینٹنگز بنا کر خوبصورت بھی بنا رہے ہیں۔ آپ کو کشمیر سے کنیا کماری، کَچھ سے کامروپ تک کی ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’ کی بہت ساری فوٹو سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو مل جائیں گی۔ میں سبھی سرپنچوں اور گرام پردھانوں سے اپنی پنچایت میں اس مہم کی قیادت کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ اپنے ‘‘سوچھ سندر شوچالیہ’’ کی فوٹو کو #MylzzatGhar پر ضرور شیئر کریں۔
ساتھیو! 2 اکتوبر 2014 کو ہم نے اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے اور کھلے میں رفع حاجت سے پاک کرنے کے لیے ایک ساتھ مل کر ایک یادگار سفر کی شروعات کی تھی۔ ہندوستان کے عوام کے تعاون سے آج ہندوستان 2 اکتوبر 2019 سے کافی پہلے ہی کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس سے کہ باپو کو ان کی 150ویں جینتی پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔
سوچھ بھارت کے اس یادگار سفر میں ‘من کی بات’ کے سامعین کا بھی بہت بڑا رول رہا ہے۔ اور اسی لیے اور آپ سب سے یہ بات شیئر کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ گاؤوں نے اور چھ سو ضلعوں نے خود کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک قرار دیا ہے۔ اور دیہی ہندوستان میں صفائی ستھرائی کا کوریج 98 فیصد کو پار کر گیا ہے۔ قریب 9 کروڑ خاندانوں کو ٹوائلیٹ کی سہولت فراہم کرائی گئی ہے۔
میرے ننھےمنے ساتھیو! امتحانات کے دن آنے والے ہیں۔ ہماچل پردیش کے رہنے والے انشل شرما نے MyGov پر لکھا ہے کہ مجھے امتحانات اور ایگزام واریئرس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ انشل جی یہ معاملہ اٹھانے کے لیے آپ کا شکریہ۔ ہاں، کئی خاندانوں کے لیے سال کا پہلا حصہ ایگزام سیزن ہوتا ہے۔ طلبا، ان کے والدین سے لے کر ٹیچرس تک سب لوگ امتحانات سے متعلق کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔
میں سبھی طلبا، ان کے والدین اور ٹیچرس کو نیک خواہشات دیتا ہوں۔ میں اس موضوع پر آج ‘من کی بات’ کے اس پروگرام میں چرچا کرنا ضرور پسند کرتا لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں دو دن بعد ہی 29 جنوری کو سویرے گیارہ بجے ‘‘پریکشا پہ چرچا’’ پروگرام میں ملک بھر کے طلبا کے ساتھ بات چیت کرنے والا ہوں۔ اس بار طلبا کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ بھی اس پروگرام کا حصہ بننے والے ہیں اور اس بار کئی دیگر ملکوں کے طلبا بھی اس پروگرام میں شرکت کریں گے۔ اس ‘پریکشا پہ چرچا’ میں امتحانات سے متعلق تمام پہلوؤں، خصوصی طور پر اسٹریس فری ایگزام یعنی تناؤ سے پاک امتحان، کے بارے میں اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ بہت ساری باتیں کروں گا۔ میں نے اس کے لیے لوگوں سے اِن پٹ اور آئیڈیا بھیجنے کا اصرار کیا تھا اور مجھے بہت خوشی ہی کہ MyGov پر بڑی تعداد میں لوگ اپنے خیالات شیئر کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ خیالات اور تجاویز کو میں یقینی طور پر ٹاؤن ہال پروگرام کے دوران آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپ ضرور اس پروگرام کا حصہ بنیں۔ سوشل میڈیا اور نمو ایپ کے ذریعے سے آپ اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو! 30 جنوری پوجیہ باپو کا یوم وفات ہے۔ گیارہ بجے پورا ملک شہیدوں کو خراج عقیدت دیتا ہے۔ ہم بھی جہاں ہوں دو منٹ شہیدوں کو ضرور خراج عقیدت پیش کریں۔ پوجیہ باپو کو یاد کریں اور پوجیہ باپو کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنا ، نئے بھارت کی تعمیر کرنا، شہری ہونے کے ناطے اپنے فرائض کو پورا کرنا اس عزم کے ساتھ آؤ ہم آگے بڑھیں۔ 2019 کے اس سفر کو کامیابی سے آگے بڑھائیں۔ میری جانب سے آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔
My Dear countrymen, Namaskar. The year 2018 is about to conclude. We shall soon enter 2019. At such a juncture, it is natural to reflect on the year gone by; it is equally so, to hear about resolutions for the year being ushered in. Whether it be the life of an individual, the life of a society at large or the life of a Nation collectively, everybody has to look back & ponder; at the same time one has to try & look forward to the best extent possible. Only then can the gains of experience be availed of, only then can one’s self-confidence renew further. What exactly should we do in order to ensure a change in our lives, simultaneously contributing our bit in taking our country & society forward? Many good wishes to all of you for the year 2019. You must have wondered how to keep 2018 etched in your memory! It is important to bear in mind HOW India as a country, as a collective entity powered by the might of a hundred & thirty crore people remembers the year 2018; something that swells our hearts with pride.
The year 2018 saw the launching of the world’s biggest health insurance scheme ‘Ayushman Bharat’. Electricity reached each & every village of the country this year. Noted world institutions have accepted that the country has taken strides in the area of poverty alleviation at a record pace. On account of the unwavering resolve of our countrymen, swachchata, sanitation coverage is rapidly advancing towards crossing the 95% mark.
After Independence, for the first time ever, the tricolor was hoisted at Red Fort on the 75th anniversary of the formation of the Azad Hind Government. In honour of SardarVallabhbhai Patel who bonded the entire country around a common thread of unity, India witnessed the coming up of the tallest statue in the world, ‘Statue of Unity’. The country secured a place of pride & glory in the entire world. The highest United Nations Environment Award ‘Champions of the Earth’ was conferred upon India. The world duly took notice of India’s efforts in the areas of Solar Energy & Climate Change. The first General Assembly of the International Solar Alliance was held in India. It is due to our collective efforts that our country has seen unprecedented improvement in the ‘Ease of doing business’ rankings. The country’s self defence mechanism got further reinforced. It was during this very year that our country has successfully accomplished the Nuclear Triad, which means we are now armed with nuclear capabilities-in water, on land and in the sky as well. Daughters of the country have done her proud by circumnavigating the globe through the NavikaSagarParikrama. India’s first inland waterway was launched in Varanasi. This has laid the foundation of a new revolution in the waterways sector.
The longest rail-road bridge, Bogibeel Bridge was dedicated to the Nation- Sikkim’s first & India’s hundredth airport, Pakyong commenced operations. India scripted a thumping win in the under- 19 Cricket World Cup and the Blind Cricket World Cup. This time, India clinched a large number of medals in the Asian Games. India also performed very well in the Para Asian Games too. By the way, if I continue enumerating examples of the Purusharth, the character & the mettle of Indians, or those of our collective endeavour, this episode of Mann Ki Baat will go on and on, perhaps to the point when 2019 makes an entry! And all this has been possible due to the relentless efforts of a 130 crore countrymen. I sincerely hope that India’s journey on the path of advancement & progress continues through 2019 too. Taking her to newer heights with her inner strengths.
My dear countrymen, this December we had to bear the loss of some extraordinary, exemplary countrymen. On the 19th of December, Dr. Jayachandran passed away in Chennai. People fondly called him ‘MakkalMaaruthuvar’ since he had a special place in their hearts. Dr. Jayachandran was known for his efforts of making the most economical treatment possible available to the poor. People tell us that he would be ever ready & eager, when it came to treatment of patients. In the case of elderly patients, he would even bear the cost of their travelling to and fro. On the betterindia.com website, I have read about many of his endeavours that serve as an inspiration to society.
On similar lines, on the 25th of December, I learnt of the loss of SulagittiNarsamma in Karnataka. SulagittiNarsamma was a midwife, aiding pregnant women during childbirth. In Karnataka, especially in far-off, remote places, thousands of women availed of her services. In the beginning of this year, she was honoured with a Padma Shri. There are many exemplary personalities such as Dr. Jaya Chandran and SulagittiNarsamma, who dedicated their lives to the welfare of all in society. Since we are referring to healthcare, I would like to mention the social endeavour of doctors in Bijnor, Uttar Pradesh. Recently, I was told by some of our party workers that a few young doctors in the town set up camps offering free treatment for the underprivileged. Every month, the Heart Lungs Critical Centre there organizes such camps, where free diagnosis and treatment for a host of ailments is done. Every month, hundreds of poor patients are benefitting from these camps. The dedication of these doctor friends engaged in selfless service is truly worthy of praise. Today, I’m saying it with pride that it was collective efforts that made the ‘Swachch Bharat Mission’ a successful campaign. I was told that a few days ago, in Jabalpur, Madhya Pradesh, over three lakh people came together to work for the sanitation campaign.
In this ‘Mahayagya’, grand undertaking, the Municipal Corporation, voluntary bodies, School- College students, the people of Jabalpur; in fact everyone participated with enthusiasm & Zest. I just referred to the betterindia.com, where I got to read about Dr. Jaya Chandran. Whenever I get the opportunity, I visit the better India website and try to know more about such shining, inspiring deeds. I am glad to observe that these days, there are many websites apprising us of inspiring life- stories of such remarkable gems. Just as thepoitiveindia.com is doing great work in spreading positivity and infusing more sensitivity into society. Similarly, success stories of young innovators & entrepreneurs are women beautifully on yourstory.com. In the same way, you can easily learn the Sanskrit language sitting at home through samskritabharati.in. Can we join hands in one endeavour?.. Let us share such websites amongst ourselves. Let’s come together to make positivity viral.
I do believe that by doing so more and more people will get to know about our heroes who brought a change in society. Spreading negativity is fairly easy. But some really good work is being done around us, in our society. And all this has been possible through the collective efforts of a 130 crore countrymen.
Sports has its own significance in every society. When a game is being played, the spectators too experience a rush of energy in their beings. We observe name, fame and laurels when it comes to sportspersons. But, at times, in the background, there exist many things that are much higher, much greater than the world of sports. Let me tell you about one of our daughters from Kashmir who won a gold medal in a Karate Championship in Korea. Hanaya is 12 years old and lives in Anantnag, Kashmir. Hanaya trained hard in Karate with perseverance & fervor, studied its nuances and proved herself. On behalf of all countrymen, I wish her a bright future. Best wishes and blessings to Hanaya. Similarly, the media discussed extensively about the 16 year old Rajani. You too must have read it. Rajani has won a gold medal at the Junior Women’s Boxing Championship. The moment Rajani won the medal she rushed to a nearby milk stall & drank a glass of milk. After that, she wrapped a cloth around the medal & kept it in a bag. You must be wondering why Rajani did that ! She did it in honour of her father Jasmer Singh ji who sells lassi, at a stall in Panipat. According to Rajani, her father has sacrificed a lot, undergone hardships to help her reach where she is. Early every morning, Jasmer Singh used to leave for work before Rajani and her siblings woke up. When Rajani approached her father, expressing her wish to learn boxing, he encouraged her, arranging for whatever possible resources that he could. Rajani had to start her training in boxing with old gloves, since those days, the family was not too well, financially. Despite so many hurdles, Rajani did not lose heart & went ahead with her training in boxing. She has won a medal in Serbia too.
My best wishes and blessings to Rajani. I also congratulate her parents Jasmer Singh ji and Usha Rani Ji for supporting & encouraging Rajani. This very month, 20 year old Vedangi Kulkarni from Pune became the fastest Asian to traverse the globe riding a bicycle. She rode for 159 days, covering around 300 kilometres every day. Just imagine… 300 kms of cycling every day ! Her passion for cycling is indeed commendable. Don’t news of such achievements, such accomplishments inspire us? Especially my young friends, when we hear about such feats, we derive inspiration to touch heights despite obstacles.
If your resolve is strong, if your fervor, your enthusiasm is without bounds, all your hurdles halt in their tracks. Hardships can never turn into obstacles. When we come to know of such examples, we too feel inspired every moment of our life.
My dear countrymen, the month of January ushers in many festivals filled with hope & joy- such as Lohri, Pongal, MakrSankranti, Uttarayan, MaghBihu, Maaghi; on the occasion of these festivities, the length & breadth of India will be replete… with the verve of traditional dances at places, the embers of Lohri symbolizing the joy of a bountiful harvest at others. Somewhere the skies dotted with colourful flying kites, elsewhere the funfilled air of a mela or carnival. The spirit of Sports & games will come to the fore… and at places, people will joyfully feed each other til&gur… sesame &jaggery… people will be heard exchanging the greeting phrase ‘Tilgurghyaaanigorgor bola’!
All these festivals may carry different names but the underlying or inherent feeling of celebrating them is singular - these are harvest festivals and somewhere or the other are connected with crops and farming, connected with the farmer, with the village and with our barns. It is during this period that the sun enters Uttarayan due to Northward movement of the earth on the celestial sphere and enters the Makardasha. It is during this period that days begin to lengthen and the winter harvesting of our crops begins. Best wishes to our food providers, the farming brothers and sisters.
Our festivals are replete with fragrance of the essence of Unity in Diversity and the spirit of One India Great India. We can witness how closely our festivals are interlinked with nature. In Indian culture society and nature are indistinguishable, in our culture the person and his environment are considered in totality. A great example of the interconnection between us and Nature is the calendar based on our festivals. It comprises festivals all around the year as well as the movements of the celestial bodies. This traditional calendar depicts our bonding with natural and astronomical events. The lunar and solar Calendars based on the movement of earth with respect to moon and sun decide the occurrence and dates of our festivals. It is also dependant on the fact which calendar you follow. In many regions the position of the planetary constellations determines the occurrence and celebration of festivals. GudiPadva, Chettichand, Ugadi and others are all celebrated according to the lunar Calendar, whereas Tamil PutanduVishnu, Baisakh, Baisakhi, PoilaBoisakh, Bihu are all celebrated in accordance with solar calendar.
The sagacity of conserving rivers and water is inherently reflected in many of our festivals. Chhath festival is associated with the worship of the sun, rivers and ponds. Millions of people take a dip in the holy rivers on theoccasion of MakarSankranti. Our festivals, impart to us many social values. On the one hand, where they have mythological significance, on the other, every festival quite easily in itself teaches the important lesson of life - the value of staying together, imbued with a feeling of brotherhood. I wish all of you a great year 2019 and do hope that you all to enjoy the oncoming festive season. Doo share the photographs taken on these festivals with one another so that everyone can witness the diversity of India and the beauty of Indian culture.
My dear countrymen, there is an abundance of events in our culture, of which we can be proud and display them in the entire world with pride - and one of them is the Kumbh Mela. You must have heard a lot about Kumbh. Even in films, a lot is exhibited regarding its grandeur and magnificence and most truly so, the dimensions ofKumbh are vast – supremely divine, as much magnificent. People from all over the country and around the world come and participate in the Kumbh. In the Kumbh Mela, there is a tidal upsurge of faith and reverence. Millions and millions of people from India and around the world congregate at one place.
The tradition of Kumbh has bloomed and flourished as part of our great cultural heritage. This time the world famous Kumbh Mela is going to be held in Prayagraj from January 15, and many of you might be waiting eagerly for it to take place. The process of Sant- Mahatmas converging at the Kumbh Mela has already started. It is a measure of its global importance that last year UNESCO has marked Kumbh Mela in the list of Intangible Cultural Heritage of Humanity. A few days ago the Ambassadors of many countries witnessed for themselves the preparations for Kumbh. The national flags of many countries were together hoisted at the Kumbh. The festival of Kumbh, to be organized in Prayagraj, is expected to have footfalls from more than 150 countries; the divinity emanating from Kumbhwill spread the colours of India's splendour throughout the world.
Kumbh Mela is also a huge medium of self discovery, where every visitor experiences a unique feeling and learns to look at the worldly things from a spiritual perspective. This can be a huge learning experience especially for the youth. I myself went to Prayagraj a few days ago and saw that the preparations for the Kumbh were progressing on a war footing. People of Prayagraj are also very enthusiastic about the Kumbh. I inaugrated the Integrated Command & Control Center at the Kumbh which will be of great benefit to the devotees.
This time much emphasis is being laid on cleanliness during Kumbh. If during the course of this event sanitation prevails along with reverence, then it will lead to a positive message reaching far and wide. This time every devotee will be able to have a darshan of the pious Akshayavat after the holy dip in the confluence. This great symbol of people’s faith was locked up in the fort for hundreds of years, due to which the devotees despite a deep seated desire could not get a glimpse of. Now the entrance gate of Akshayavat have been opened for everyone. I urge all of you to share different aspects of Kumbh and photos on social media when you go to Kumbh so that more and more people feel inspired to go to Kumbh.
May this Kumbh of Spirituality become Mahakumbh of Indian Philosophy.
May this Kumbh of faith also become Mahakumbh of ofnationalism.
And a Mahakumbh of National integration
May this Kumbh of the devotees also become Mahakumbh of global tourists.
May this Kumbh of aesthetics also become the Mahakumbh of creativity.
My dear countrymen, there is a lot of curiosity regardingthe celebration of RepublicDay on 26th January, when we remember those great men who gave us our Constitution.This year we are celebrating the 150th birth anniversary of revered Bapu. We are fortunate that South African President Mr. Cyril Ramaphosa is going to grace the Republic Day celebrations as chief guest. Our revered Bapu and South Africa shared an unbreakable bond. It was South Africa, where Mohan transformed into the 'Mahatma'. It was in South Africa, where Mahatma Gandhi had started his first Satyagraha and stood rock steady in protest of apartheid. He also founded the Phoenix and Tolstoy Farms, from where the demand for peace and justice echoed to the whole world.
The year2018 is also being celebrated as Birth centenary of Nelson Mandela,also known as 'Madiba'. We all know that Nelson Mandela was the role model of struggle against racism all over the world and who was the inspiration for Mandela? He derivedinspiration and endurancefor spending many years in jail from Bapu himself. Mandela said this about Bapu - "Mahatma is an integral part of our history, because it was here that he used his first experiment with truth; It was here, That he had displayed a great deal of determination for justice; It was here, he developed the philosophy of his satyagraha and his methods of struggle. "Mandela used to consider Bapu as his role model. Both Bapu and Mandela are not only sources of inspiration for the entire world, but their ideals have always encouraged us to create a society full of love and compassion.
My dear countrymen, a few days ago, a DGP conference was held at Kevdia on the banks of Narbada in Gujarat, where the world's highest statue 'Statue of Unity' is situated, there I had a meaningful discussion with the top policemen of the country. What kind of steps should be taken to strengthen the security of the country and that of the countrymen, was discussed in detail. At the same conference, I also announced the awarding of 'Sardar Patel Award' for National Integration to be given to those who have contributed for national unity in any form. Sardar Patel dedicated his entire life for the unity of the country. He always remained engaged in keeping India's integrity intact. SardarSaheb believed that the power of India lay in the diversity of the land. It is our way of paying homage to Sardar Patel's aspirations through this award for National Integration.
My dear countrymen, January 13 is the date ofthe sacred festival observed in honour of Guru Gobind Singh ji’s birth anniversary. Guru Gobind Singh Ji was born in Patna. For most of his life, his work was centred in North India and he sacrificed his life in Nanded, Maharashtra. His birthplace was Patna, Karmabhoomi was north India and the last moments were spent in Nanded. In a way, entire India received his blessings. A glimpse of his life span reflects a glimpse of the entire India. After the martyrdom of his father Shri Guru TeghBahadurji, Guru Gobind Singh Ji attained the hallowed position of the Guru at a tender ageof nine years. Guru Gobind Singh ji had inherited courage to fight for justice from the legacy of Sikh Gurus. He was bestowed with a quiet and simple personality, but whenever, an attempt was made to suppress the voice of the poor and the weak, or injustice was done to them, then Guru Gobind Singh ji raised his voice firmly for the poor and the weak and therefore it is said -
"I can make one fight against one hundred and fifteen thousands,
I can make the sparrow fight against the hawk
That be the reason that Gobindsingh be my name.”
He used to preach that strength cannot be demonstrated by fighting against the weaker sections. Shri Gobind Singh Ji believed that the biggest service is to alleviate human suffering. He was a divine figure full of heroism, valor, courage, sacrifice and devotion. He had beatific knowledge of both weapons andShaastras. He was an archer, and a pundit of Gurmukhi, BrajBhasha, Sanskrit, Persian, Hindi and Urdu and many other languages. I once again bow paying my obeisance to Shri Guru Gobind Singh ji.
My dear countrymen, there are many good events happening in the country, which are not widely discussed. Such a unique effort is being attempted by F.S.S.A.I viz Food Safety and Standard Authority of India. Many programs are being organized across the country in celebration of the 150th birth anniversary of Mahatma Gandhi. In this regard F.SA.A.I. is engaged in promoting good eating or Safe and Healthy Diet habits. Under the aegis of "Eat Right India" campaign, ‘Swasth Bharat’ trips are being carried out across the country. These campaigns will last till Jan 27th. At times, government organizations are tagged as a regulator, but it is commendable that F.SA.A.I has been working beyond this brief for public awareness and public education. A clean and healthy India will spell a prosperous India also. Nutritious food is most essential for good health. In this context, I extend hearty greetings to F.S.S.A.I for this initiative. I urge you to the utmost, let's join this initiative. You should participate in this initiative and especially I urge you to make you children witness these campaigns. The education regarding importance of food is essential right from childhood.
My dear countrymen, this is the last episode of the year 2018, we will meet again in 2019, and will engage in another episode of Mann Ki Baat. Whether it is the life of a person, life of a nation, or the lifespan of a society, inspiration, is the basis of progress. Come, imbued with renewed inspiration, renewed zeal, renewed resolution, new accomplishments, loftier goals – let’s move on, keep moving, change oneself and change the country too.
Thank you very much.
My dear countrymen, Namaskar. On the 3rd of October, 2014, the pious occasion of Vijayadashmi, we embarked upon a journey together through the medium of ‘Mann Ki Baat’. This journey has reached its 50th episode today. Thus, this Golden Jubilee Episode is indeed gilt-edged in every sense of the term. Your letters and phone calls this time pertain mostly to these 50 episodes. Anshu Kumar & Amar Kumar from Delhi on Mygov, Vikas Yadav from Patna; on similar lines Monica Jain from Delhi, Prosenjit Sarkar from Bardhaman, West Bengal and Sangeeta Shastri from Nagpur converge in asking a shared question. They are of the view that broadly speaking, their Prime Minister being associated with the latest in technology, Social Media and Mobile Apps; WHY did he choose radio as a medium to connect with his countrymen? Your curiosity is but natural; in this age when Radio was fading into oblivion, why did Modi opt for the airwaves? Let me quote an incident.
The year was 1998. I was then a party worker with the Bharatiya Janata Party organization in Himachal. It was the month of May; and I was travelling to a certain place. Evenings tend to get cold in the hilly terrain of Himachal Pradesh, and I stopped by at a wayside tea stall and placed an order for tea. It was a tiny joint; there was only one person who would make & serve tea. He was not even adequately clad; it was a standalone kiosk on the edge of the road. He first picked up a Laddoo from a glass container, offered the sweetmeat to me & said, “Sir, eat this before the tea get ready”. I was taken aback and asked him “What is the matter? Is it in celebration of an occasion like a wedding?” He replied, “No brother, nothing like that! Don’t you know? It’s a momentous, joyous occasion”. On seeing his rather jubilant exuberance, I asked him, “But what exactly happened?” And he replied, “India has exploded the bomb today!” I exclaimed, “India has exploded the bomb! I don’t get it!” Said he “Sir, just listen to the radio”. Indeed, that exactly was the topic of discussion on the radio. It was then that he elaborated on how on the day of the nuclear test, the then Prime Minister Atal Bihari Vajpayee had announced to the Media and how he broke into a dance on listening to it on the radio. It was matter of great intrigue to me to see a lone tea seller in a remote, snow - clad hilly place, who possibly kept listening to the radio the entire day… watching that particular effect of the news on radio led me to realize & internalise that this was a medium that was truly connected with the masses… and that it was a mighty means of getting across.
In terms of the reach & depth of communication, radio has been incomparable. I have been nursing that feeling ever since, acknowledging its power & strength. Hence when I became the Prime Minister, it was natural for me to turn towards a strong, effective medium. And in 2014, when I took charge as the Pradhan Sevak, Principal Servant, it was my wish to reach out to the masses with the glorious saga of our country’s unity, her grand history, her valour, India’s diversity, our cultural diversity, virtues embedded in our society such as Purusharth, Tapasya, Passion & sacrifice; in a nutshell, the great story of India. From remote villages to Metro cities, from farmers to young professionals … the array just prompted me to embark upon this journey of ‘Mann Ki Baat’.
Every month, we would read letters to the tune of lakhs, listen to phone calls, watch comments on the App & Mygov. Weaving a common thread comprising them all into a fabric of informal conversation, we have been able to travel together, over this rather long distance of 50 episodes. Recently, All India Radio got a survey done on ‘Mann Ki Baat’. I came across some feedback that is very interesting. Out of the designated sample in the survey, 70% of respondents on an average happen to be listeners who regularly tune in to ‘’Mann Ki Baat’. Most people believe that the greatest contribution of ‘Mann Ki Baat’ has been the enhancement of a feeling of positivity in our society. The medium of ‘Mann Ki Baat’ has promoted many a mass revolution. #indiapositive has been the subject of quite an extensive discussion. This is an exemplary glimpse of the feeling of positivity, innate to our countrymen. People have shared their experiences, conveying the rise of selfless volunteerism as a consequence of ‘Mann Ki Baat’. It is a change where people are increasingly willing to contribute for the sake of service to society. I am overjoyed on account of the fact that through ‘Mann Ki Baat’, radio is rising as a popular medium, more than ever before. But it’s not about just radio… people are connecting with this programme and ensuring their participation through T.V., FM Radio, Mobile, Internet, Facebook Live; along with periscope, through the NarendraModiApp too. I express my gratitude to the entire family of ‘Mann Ki Baat’ for being a part of it & trusting it wholeheartedly.
Thank you very much for your phone call. Your apprehension is not misplaced. The fact is, if a leader gets hold of a microphone with assured listeners to the tune of millions, what else does he need? Significantly, some young friends have attempted a study on the myriad subjects touched upon, over the many episodes of ‘Mann Ki Baat’. They did a lexical analysis of all the episodes to calculate the frequency of occurrence of particular words; whether there were some words that were oft-repeated! One of their findings was that, this programme has remained apolitical. When ‘Mann Ki Baat’ commenced, I had firmly decided that it would carry nothing political, or any praise for the Government, nor Modi for that matter anywhere. The greatest bulwark in ensuring adherence to my resolve; in fact my highest inspiration, have been YOU. As a run up to each episode of ‘Mann Ki Baat’, the expectations & aspirations of listeners through their letters, online comments & phone calls are crystal clear. Modi may come and go, but this country will never let go of its UNITY & permanence, our culture will always be immortal. These minute stories encompassing a 130 crore countrymen will always stay alive. This new inspiration & zest will keep taking her to greater heights. At times, when I look back, I am taken aback. Sometimes people who write in from different corners of the country say, “We should not haggle beyond limits with marginal shopkeepers, auto drivers, vegetable sellers et al”. I read a letter & then try to weave it with the essence of a similar letter. I would like to share a couple of personal experiences with you … who knows how soon these will reach our families; who knows when social media will circulate them to usher in a revolution!. The stories that you’ve sent across in the context of cleanliness, myriad examples of common folk… you never know where a tiny brand ambassador of cleanliness comes into being in various homes; someone who reprimands elders at home; or even admonishingly orders the Prime Minister through a phone call!
Who would have imagined that a small campaign “selfie with daughter” starting from a small village in Haryana would spread not only throughout the country but also across other countries as well. Every section of the society including celebrities joined in to ignite a process of transformation in a new modern language of change that the present generation understands and follows. At times Mann Ki Baat is also sneered at but 130 crore countrymen ever occupy a special pleace in my heart. Their hearts and my heart beat to the same rhythm. Mann Ki Baat is not about the Government it is about the society. Mann Ki Baat addresses an aspirational India, an ambitious India. Politics or Political Power are not intrinsic to the Indian ethos; on the contrary social values and society are. In fact, Politics is one of the numerous other aspects of social life. Making politics an all pervasive, powerful factor is not an effective way for a healthy society. At times, political developments and political people assume such overriding prominence that other talents and courageous deeds get overshadowed. For ensuring a bright future for a country such as India, it is our collective responsibility to acknowledge and honour the common man’s talent and deeds and Mann Ki Baat is a humble and modest effort in this direction.
Many thanks for your phone call. In a way your question were the a personal, amiable touch. I believe that the biggest achievement of the 50 episodes of Mann Ki Baat is that one feels like talking to a close acquaintance and not to the Prime Minister, and this is true democracy. If I reply to the question asked by you straightaway then I will say that I do not make any preparation. Actually, Mann Ki Baat is a very simple task for me. Every time before Mann Ki Baat, letters are received from people; people share their ideas and view points on Mygov and Narendra Modi Mobile App and there is also a toll free number – 1800117800; and by calling on this number, people record messages in their own voice. My effort is that I read the maximum number of these letters and comments myself before Mann Ki Baat. I listen to many phone calls too. And as the episode of Mann Ki Baat draws closer, I read ideas and inputs sent by you very minutely while travelling.
My countrymen stay in my heart every moment and that is how the writer’s situation and ideas expressed in the letter become part of my thought process. That letter does not remain a mere a piece of paper for me. As it is I have spent close to 40 to 45 years as a travelling mendicant and have been to most of the districts in our country including the remotest once where I spent a lot of time. That is why I am able to relate myself to the place and context of the letter. Then, I note down facts like the name of the village and of the person. Honestly speaking, Mann Ki Baat carries my voice but the examples, emotions and spirit represent my countrymen, I thank every person contributing to Mann Ki Baat. There are lakhs of persons whose names I have not been able to include in Mann Ki Baat but without any disappointment, they continue to send in their letters and comments. I firmly believe that your ideas and your views will continue reaching me in even greater numbers and will help make Mann Ki Baat more interesting, effective and useful. An effort is also made that the concerned department should pay attention to such letters and comments which, somehow, could not be included in Mann Ki Baat. I also thank my colleagues from All India Radio, FM Radio, Doordarshan, other TV Channels and the Social Media. It is due to their hard work that Mann Ki Baat reaches maximum number of people. The team from All India Radio prepares each episode for broadcast in a number of regional languages.
Some of them very aptly narrate in a voice and style resembling that of Modi’s. In this way for those 30 minutes they become Narendra Modi. I congratulate and thank those persons for their talent and skills. I would request all of you also to kindly listen to this programme in your regional language as well. I sincerely thank from the core of my heart my friends in the media who regularly telecast Mann Ki Baat on their channels. No political person is ever happy with the media, he feels that he is getting a very little coverage or the coverage given to him is negative. But many issues raised in Mann Ki Baat have been adopted by the media. Issues such as cleanliness, Road safety, drugs free India, selfie with daughter have been taken up by the media and turn into campaigns. TV channels made it the most watched radio programme – I sincerely thank and congratulate the media. Without your contribution and cooperation, this journey of Mann Ki Baat would have been incomplete.
Nidhi ji, many thanks for your phone call! To tell you the truth, I have no such secret. What I am doing must be happening in families as well. In simple words, I may say that I try to cast myself into the mould of that young man, and put myself under his conditions and try to adjust and match the wave length accordingly. There are old baggage’s of our own lives and when they do not come in the way, it becomes easier to understand others. Sometimes our inhibitions or prejudices become a big hurdle in communication. I prefer to understand the other man’s point of view rather than going through the process of acceptance, rejection and reaction. My experience has been that by adopting this approach, the other side also tries to come to our wave length rather than arguing or creating pressure in order to convince thereby removing the communication gap and both sides become co-travelers in our journey of idea-sharing. None of the two even realizes that how and when one other’s has abandoned its idea and accepted and owned the idea of the other side.
Today’s youths have this special quality that they won’t do anything which they do not believe themselves and whenever they believe in something, they follow that leaving everything else. People generally talk of a communication gap between the elders and teenagers in the family. In fact, the scope of discussion with teenagers is quite limited in most of the families. Most of the time these talks remain limited to studies, habits or life style and the “do’s” and “don’ts”. An open discussion without any expectations is gradually on the decline and this too is a matter of concern.
Communication will be more effective if we “accept” instead of “expect” and “discuss” instead of “dismiss”. My effort is to have a continuous dialogue with the youth in various programmes or through social media. I try to learn from whatever they are doing or whatever they are thinking. They are storehouse of ideas. They are extremely energetic, innovative and focused. I try to share the efforts and achievements of the youth as much as possible through “Mann Ki Baat”. There is a general complaint that the younger generation asks too many questions. I say it is good that the youth ask questions.
It is good as it shows that they want to analyse everything from its very root. Some people say that the youth do not have patience but my belief is that the youth do not have any time to waste- this is the point which helps the present day youth become more innovative because they want to accomplish things quickly. We feel that the youths are very ambitious today and they plan big. I feel it is good, dream big and achieve bigger successes; after all, this is “the New India”. Some people say that the younger generation wants to accomplish a many things at a time. I say what is wrong in it. They do so because they are adept in multitasking. If we just look around, we find that it is the youth who are bringing in transformation of society in a big way, may it be social entrepreneurship, start-ups, sports or any other field. Those youth who have dared to ask questions and have had the courage to dream big. If we put these ideas of our youth into practice and provide them conducive environment to express themselves, they surely will bring about a constructive and a positive change in the country- they are already doing so.
My dear countrymen, Vineeta ji from Gurugram- has posted on MyGov that in Mann Ki Baat I should talk about the “Constitution Day” which falls on the 26th November. She says that this day is special because we are going to enter into the 70th year of our Constitution adoption. Thank you very much for your suggestion Vineeta ji.
Yes, tomorrow is the Constitution Day. A day to remember those great personalities who drafted our Constitution. Our Constitution was adopted on 26th November, 1949. The Constituent Assembly took 2 years 11 months and 17 days to accomplish this stupendous task of drafting the Constitution. Just imagine, these luminaries gave us such a comprehensive and detailed Constitution within a period of just less than 3 years. The extraordinary pace at which they drafted the Constitution is an example of Time Management and productivity to emulate even today. This also inspires us to accomplish our responsibilities within a record time. The Constituent Assembly was an amalgamation of the great talents of the country, each one of them was committed to provide a Constitution to the country which empowers the people of India and enriches even the poorest of the poor.
The unique point in our Constitution is that the rights and duties have been very comprehensively detailed. A balance between these two in the lives of our citizens will take our nation forward. If we respect the rights of others, our rights will automatically get protected and similarly if we fulfill our duties, then also our rights will get automatically protected. I still remember that in 2010 when 60 years of the adoption of the Constitution were being celebrated, we had taken out a procession by placing our Constitution atop an elephant. This has been a memorable incident to increase awareness about our Constitution among the youth and to connect them to the various aspects of the Constitution. In the year 2020, we shall complete 70 years as a Republic and in 2022, we shall enter 75th year of our Independence.
Let us all take forward the values enshrined in our Constitution and ensure Peace, Progress and Prosperity in our country.
My dear countrymen, while talking about the Constituent Assembly, the contribution of that great man cannot be forgotten who played a pivotal role in the Constituent Assembly. This great man was none other than our revered Dr. Baba Saheb Ambedkar. His death anniversary or mahaparirvan divas falls on 6th December. I, on behalf of all countrymen, pay my homage to Baba Saheb who gave the right to live with dignity to crores of Indians. Democracy was embedded deep in Baba Saheb’s nature and he used to say that India’s democratic values have not been imported from outside. What is a republic and what is a parliamentary system- are nothing new to India. He had made a very moving appeal in the Constituent Assembly that we have to safeguard our hard fought democracy till the last drop of our blood. He also used to say that we, Indians may be from different background but, yes, we shall have to keep the national interest above all the other things. “India First” was the basic doctrine of Dr. Baba Saheb Ambedkar. Once again my humble tribute to revered Baba Saheb.
My dear countrymen, two days back on 23rd November, we all celebrated Shri Guru Nanak Dev Jayanti and next year in 2019 we shall be celebrating his 550th Prakash Parv. Guru Nanak Dev Ji always envisaged the welfare of entire humanity. He always showed the path of truth, work, service, kindness and amity to the society. The country will observe Guru Nahak Dev Ji’s 550th birth anniversary in a grand way, its soothing colours will not only spread in India alone but will get sprinkled the world over. All states and Union Territories have been requested to celebrate the occasion in a grand manner. Guru Nanak Dev Ji’s 550th Prakash Parv will be celebrated in a similar manner in all the countries of the world as well. Besides, a train will be run on a route joining all the holy places connected with Guru Nanak Dev ji. Recently, while holding a meeting in this regard I remembered about of Lakhpat Saheb Gurudwara. This Gurudwara suffered severe damage due to the devastating earth quake of 2001 in Gujarat. But, the manner in which the local people joined hands with the state Government in renovating it, is an example even today.
The Government of India has taken a significant decision of building Kartarpur corridor so that our countrymen could easily visit Kartarpur in Pakistan to pay homage to Guru Nanak Dev Ji at that holy sight.
My dear countrymen, we shall meet once again in the next episode after this 50th episode of Mann Ki Baat and I am sure that in this episode of Mann Ki Baat today I got an opportunity for the first time to talk to you about the spirit behind this programme because of your questions. But our journey shall continue. The more you connect with us, our journey will gain greater depth, providing, satisfaction to one and all. At times a question arises in the minds of people’s as to what I achieved through Mann Ki Baat. I would like to say today that of the feedback of this programme, one of the points that touches my heart most- is when people tell me that when we sit with all our family members to listen to Mann Ki Baat, we feel that the head of our family is sitting with us and sharing his ideas with us.
When I heard this comment in a larger circle, I felt satisfied to know that I am yours, I am one amongst you, I am with you, you elevated me and in a way, and in this way I will continue to remain connected with you as a family member through Man Ki Baat. Your joys and sorrows are my joys and sorrows too; your expectations are my expectations also; your ambitions are my ambitions.
Come on, let us take this journey further.
Many many thanks.
My dear countrymen, Namaskar. The 31st of October is the birth anniversary of our beloved Sardar Vallabhbhai Patel. This year too, the youth of the country is all set, to take part in the ‘Run for Unity’. The weather too these days is pleasant. I urge you to participate in the largest possible numbers in this run for unity. Six months or so before Independence, on the 27th of January, 1947, the world – famous international Magazine ‘Time’ had a photograph of Sardar Patel on the cover page of that edition. In their lead story, they had depicted a map of India; it was nowhere close to what the map looks like now. It was the map of an India that was divided into myriad fragments. There existed over 550 princely states. The English had lost interest in India; they wanted to leave India fragmented into pieces. Time Magazine had opined that hovering over India then were the dangers of problems like partition, violence, food scarcity, price rise and power-politics. The magazine further observed that amidst that plethora of problems, if there was anyone who possessed the capability to unite the country and heal wounds, it was Sardar Vallabhbhai Patel. The story also brings to the fore other aspects of the life of the Iron Man of India… the manner in which he had managed relief operations during the Ahmedabad floods in the 1920s; the way he steered the Bardoli Satyagrah. Such was his sense of honesty & commitment that the farmer, the worker right up to the industrialist trusted him with full faith. Gandhiji considered Sardar Patel as the only one capable of finding a lasting solution to the vexed issue of the states and asked him to act. Sardar Patel formulated solutions one by one, weaving the warp & weft of unity on the axis of a single thread. He ensured the merger of all princely states with the Dominion of India. Whether Junagadh, Hyderabad, Travancore, or for that matter the princely states of Rajasthan, if we are able to see a United India now, it was entirely on account of the sagacity & strategic wisdom of Sardar Patel. It is but natural for us to solemnly remember Sardar Vallabhbhai Patel as we exalt the spirit of unity that binds our Nation, our Mother India. The 31st of October this year will be special on one more account- on this day, we shall dedicate the statue of unity of the nation as a true tribute to Sardar Patel. Erected on the banks of river Narmada in Gujarat, the structure is twice the height of the Statue of Liberty. This is the world’s tallest scyscraping statue. Every Indian will now be proud to see the world’s tallest statue here on Indian soil. Sardar Patel, a true son of the soil will adorn our skies too. I hope every Indian being will swell with pride on this remarkable feat of mother India… and will sing paeans of glory in its praise with the head held high. Of course, the inner wish to visit the statue of unity will come naturally to every Indian. I am sure this will turn out to be a described destination for one & all across the country.
My dear brothers & sisters, we celebrated ‘Infantry Day’ yesterday. I respectfully bow before all of them who are part of the Indian Armed Forces. I also salute the families of our soldiers. But, do you know why we Indian citizens commemorate this day as Infantry Day? This is the very day when Indian Forces landed in Kashmir and saved the valley from the clutches of aggression. This incident too is directly related to Sardar Vallabhbhai Patel. I was reading an old interview with the celebrated Army officer sam Manekshaw. In that interview, field Marshal Sam Manekshaw was reminiscing on times when he was a Colonel. Around this time, military operations commenced in Kashmir. Field Marshal Manekshaw has mentioned how in a meeting, Sardar Vallabhbhai Patel was irked on the delay in sending troops to Kashmir During the proceedings, Sardar Patel gave him a characteristic glance and reiterated that there should be no delay in our Army operation and that a solution should be sought swiftly. And immediately after that, our troops flew to Kashmir… we’ve seen how our Army was successful. The 31st of October also is the death anniversary of our former Prime Minister Indira Gandhi. Our respectful tributes to Indira ji too.
My dear countrymen, who doesn’t love sports? Elements like spirit, strength, skill, stamina are extremely important in the world of sports. They are the ultimate test for a sportsperson’s mettle… all four of these virtues form the core foundation of nation – building universally. If the youth of a country possess these qualities, that country will progress not only in areas such as Economy and Science & Technology but also bring laurels home in the field of sports. Just recently I had two memorable meetings. First, I got an opportunity to meet our Para Athletes who participated in the Asian Para Games 2018 held at Jakarta. These athletes bagged a tally of 72 medals, creating a new, unprecedented record, bringing glory to the nation. I was fortunate to get an opportunity to meet all these talented athletes personally. I congratulated them. Their grit & determination; their resolve to overcome all odds in the path of success is indeed inspiring for all our countrymen. Similarly, I was blessed with a chance to meet our winners of the Summer youth Olympics 2018 held in Argentina. You will be pleased to know that in the Summer Youth Olympics 2018, the performance of our youth was the best ever. At this event we won 13 medals besides 3 in mixed events. You may recall that even, in the recent Asian Games, India’s performance was par excellence. Have you observed the way I have frequently used terms such as ‘the best ever’ or ‘new, unprecedented record’? This is the real story of Indian Sports which are witnessing an upswing with each passing day. India is setting new records not just in the field of sports but also in hitherto uncharted areas. To give you an example, I would like to mention about Para Athlete Narayan Thakur, who won a gold medal for the country in the 2018 Para Asian Games. He is a Divyang by birth. When he turned eight he lost his father. Then he spent another eight years in an orphanage. After leaving the orphanage, he eked out a living cleaning DTC buses and working as waiter at roadside eateries. The same Narayan is winning medals for India at International events. Not just that, just observe the rapidly enhancing levels of excellence in Indian sports ! Hitherto, India had never won a medal in a Judo event, at the junior or senior level. But Tabaabi Devi created history by bagging the silver medal at the youth Olympics. 16 year old player Tabaabi Devi hails from a village in Manipur. Her father is a labourer and mother a fish-seller. There were times when the family had no money to buy food. Even such hardships were not able to cow down her zest & devotion. And she has created history by winning a medal for the country. Stories like these are innumerable. Every life, every being is a source of inspiration. Every young sportsperson’s passion & dedication is the hallmark of New India.
My dear countrymen, you may recall that we had successfully organized FIFA Under- 17 World Cup in the year 2017. The whole world acclaimed this as a very successful tournament. FIFA Under -17 World Cup had created a record in terms of the number of viewers on the ground. More than 12 lakh enthusiasts enjoyed the romance of Football matches in various stadia across the country and boosted the morale of the young players. This year also, we have been fortunate to be the hosts of the Men’s Hockey World Cup 2018 in Bhubaneshwar. The Hockey World Cup will commence on the 28th November to be concluded on the 16th December. Each Indian who plays any game or has interest in any game has a definite interest in Hockey. India has a golden history in Hockey. India has won gold medals in various tournaments and has been the World Champion once. India has produced many great hockey players. Whenever there will be reference to Hockey,the story will remain incomplete without a mention of these legends. Hockey maestro Major Dhyan Chand is a renowned name all over the world. Then, from Balbeer Singh Senior, Leslie Claudius, Mohammad Shahid, Udham Singh to Dhan Raj Pillai, Indian Hockey has had a very long journey. Even today, players of Team India are encouraging the younger generation through their hard work and focused attention.
It is a good chance for the sport lovers to witness closely contested matches. Go to Bhubaneshwar and cheer up the Indian team and also encourage each team there. Odisha has a dignified historical background and has a very rich cultural tradition. People of the state are full of warmth. This is a chance for the sports lovers to see Odisha. They can visit the world famous holy places like the Sun Temple of Konark, Lord Jagannath Temple in Puri and Chilka Lake along with enjoying the games there. I convey my best wishes to our Men’s Hockey Team for this tournament and assure them that 125 crore Indians are supporting them. I also convey my wishes to all the teams from around the world coming to participate in the tournament.
My dear countrymen, the way people are coming forward and volunteering for social works is really inspirational and encouraging for all our countrymen. “Service is Supreme” has been India’s tradition since centuries and we can feel the scent of this tradition in each and every sector today as well. But, in this new era, the new generation is coming forward in a new way with a fresh vigour and spirit to fulfill their new dream. Recently, I attended a programme where a portal was launched, its name is ‘Self 4 Society’, MyGov and the IT and Electronics industry of the country have launched this portal with a view to motivating their employees for social activities and providing them with opportunities to perform in this field. Their dedication and vigour can make each Indian feel proud. A fresh and pleasant air of IT to society, We-not I, a transformation from the individual to the community is imbibed in this. Someone is teaching the old people; someone is involved in the campaign of cleanliness whereas someone is helping out the farmers. And there is no vested interest behind all these activities but a pure feeling of dedication and resolve is the driving force. One young person learned to play wheelchair basket ball in order to be able to help the wheelchair basket ball team of differently abled, divyang players. This spirit, this dedication is a mission mode activity. Will this not make every Indian feel proud. This spirit of ‘We, not I’ will surely inspire all of us.
My dear brothers and sisters, when I was going through your suggestion for Mann Ki Baat this time, I found a very interesting comment from Shri Manish Mahapatra from Pudducherry. He wrote on Mygov- Please take up the topic “in Mann Ki Baat” as to how the tribes and their traditions and rituals are the best examples of coexistence with the nature. How do we need to adopt their traditions in our lives for achieving sustainable development and learn from those traditions? Manishji, I appreciate you for bringing this subject among the listeners of Mann Ki Baat. This is one subject that inspires us to look into our dignified past and our ancient traditions, Today, the whole world and specially the western countries are discussing about environment protection and are trying to find new ways to adopt a balanced life style. Our country is also facing this problem. But, for its solution we only have to look inwards, to look into our glorious past and our rich traditions and have especially to understand the lifestyle of our tribal communities. To live in consonance and closed coordination with the nature has been an integral part of our tribal communities. Our tribal brethren worship trees and plants and flowers like gods and goddesses. The Bhil tribes of Central India and specially those in Madhya Pradesh and Chhattisgarh worship Peepal and Arjun trees religiously. The Bishnoi community in the desert land of Rajasthan has shown us a way of environment protection. Specially, in the context of serving trees, they prefer laying down their lives but cannot tolerate any harm to a single tree. Mishmi tribes of Arunachal Pradesh claim their relationship with tigers. They even treat them like their brothers and sisters. In Nagaland as well, tigers are seen as the forest guardians. People of Warli Community in Maharashtra consider tigers as their guests and for them the presence of tigers is a good omen indicating prosperity. There is a belief among the Kol community in Central India that their fortune is directly connected with the tigers and they firmly believe that if the tigers do not get food, the villagers will have to face hunger . The Gond tribes in Central Indai stop fishing in some parts of Kaithan river during the breeding season. They consider this area as a fish reserve and they get plentiful of healthy fishes because of this belief of theirs. Tribal communities make their dwelling units from natural material which are strong as well as eco-friendly. In the isolated regions of the Nilgiri plateau in South India, a small wanderer community Toda make their settlements using locally available material only.
My dear brothers and sisters, this is a fact that the tribal community believes in very peaceful and harmonious co-existence but, if somebody tries to harm and cause damage to their natural resources, they do not shy away from fighting for their rights. There is no wonder that our foremost freedom fighters were the brave people from our tribal communities. Who can forget Bhagwan Birsa Munda who struggled hard against the British Empire to save their own forest land. Besides whatever I have said, there is a very long list of examples of the tribal communities which teach us how to keep a close coordination and make adjustments with the nature and the nation is indebted to our tribal people for the forest land that is still remaining with us. Come on, let us express our gratitude towards them.
My dear countrymen, in “Mann Ki Baat”, we talk about those persons and institutions who make extra-ordinary contribution for the society. These works may seem small but have a very deep impact in changing our thinking and in giving a new direction to the society. A few days ago, I was reading about a farmer brother Gurbachan Singh from Punjab. The son of this hard working farmer Gurbachan Singh ji was to be married. Gurbachan Singh ji had told the bride’s parents that the marriage would be performed in a solemn manner. There is absolutely no need to spend much on wedding reception or any other item. We have to keep it a very very simple event. But then he suddenly said that he had one condition. And, when a condition is put these days, generally it is thought that the other side is going to make a big demand which will be really difficult for the bride’s family to fulfill. But, you will be surprised to know that Bhai Gurbachan Singh was a simple farmer and what he told the bride’s father and the condition he placed reflects the true strength of our society. Gurbachan Singh ji asked him to promise that they will not burn parali or stubble in their fields. You can well imagine the social strength this statement had. This point made by Gurbachan Singh ji appears quite ordinary but this reveals how tall and strong his personality is and we have seen that there are many families in our society who connect their individual matters with the benefit of the society as a whole. Shriman Gurbachan Singh ji’s family has presented one such example before us. I have also read about a village Kallar Majra which is near Nabha in Punjab. Kallar Majra came into lime light as the farmers there mix the stubble with the sand by ploughing their fields rather than burning the stubble and adopt the necessary technology for the process. Congratulations to bhai Gurbachan Singh ji ! Congratulations to the people of Kallar Majra and of all those places who are making their best efforts to keep the environment clean and pollution free. All of you are carrying forward the Indian tradition of a healthy life style as a true successor. Just as a sea is formed by collection of tiny drops, similarly,a small constructive step, plays a vital role in creating a positive environment.
My dear countrymen, it has been told in our epics:-
ॐ द्यौ: शान्तिः अन्तरिक्षं शान्तिः,
पृथिवी शान्तिः आपः शान्तिः ओषधयः शान्तिः |
वनस्पतयः शान्तिः विश्वेदेवाः शान्तिः ब्रह्म शान्तिः,
सर्वं शान्तिः शान्तिरेव शान्तिः सामा शान्तिरेधि ||
ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति: ||
It means- O, Lord, peace should prevail all around in all three “Lokas”,in water, in air, in space, in fire, in wind, in medicines, in vegetation, in gardens, in sub conscious, in the whole creation. Grant peace to each soul, each heart, in me, in you, in every particle and everywhere in the Universe. Om Shanti: Shanti: Shanti:.
Wherever there will be a talk of world peace, India’s name and contribution will be written in golden letters. For India, 11th of November this year has a special significance because on 11th November a hundred years back the World War I had ended. Ending of that war is completing one hundred years meaning thereby that a century of ending of the vast devastation and human loss would also get completed. For India, World War I was an important event. Rightly speaking we had no direct connection with that war. Despite this, our soldiers fought bravely and played a very big role and made the supreme sacrifice. Indian soldiers showed it to the world that they are second to none if it comes to war. Our soldiers have displayed great valour in difficult areas and adverse conditions. There has just been a single objective behind it- Restoration of peace. The world witnessed a dance of death and devastation during the World War I; According to estimates, around one crore soldiers and almost the same number of civilians lost their lives. This made the whole world realize and understand the importance of peace. The definition of peace has changed in the last hundred years. Today, peace does not only mean ‘no war’. There is a need to work unitedly to address issues such as terrorism, climate change, economic development to social justice through universal cooperation and co-ordination. Development of the poorest of the poor is the real indicator of peace.
My dear countrymen, our North-East has a unique distinction of its own. The natural beauty of North –East has no parallel and the people of this area are extremely talented. Now our North-east is also known for all best deeds. North east is one region that has made grand progress in organic farming. A few days ago Sikkim won the prestigious Future Policy Gold Award, 2018 for encouraging the sustainable food system. This award is given by the UN body ‘Food & Agriculture Organisation’ – FAO. You will be delighted to know that this best policy making award is equivalent to an Oscar in the sector. Not only this, our Sikkim outperformed 51 nominated policies of 25 countries to win this award. For this, I heartily compliment the people of Sikkim.
My dear countrymen, October is about to end. Quite a change is being felt in the weather. Winter has set in and with the changing weather, the season of festivals has also set in - Dhanteras, Deepawali, Bhaiya Dooj, Chhatth – in a way it can be said that the month of November is the month of festivals. I extend my best wishes to all countrymen for these festivals.
I would request all of you to take best care of yourselves and take care of your health as well and also take care of social interests. I am sure these festivals are an opportunity to make new resolves. These festivals prove a chance to advance in a mission mode and to make firm resolves in your life. Your progress is a vital part of the country’s progress. The more you progress, the more will the country progress. My best wishes to you all. Thank you very very much.
My dear countrymen, Namaskar. There must be hardly any Indian who doesn’t feel proud of our Armed Forces, our army jawans, our soldiers. Every Indian, irrespective of region, caste, religion, sect or language, is ever eager to express joy and show solidarity with our soldiers. Yesterday, one hundred and twenty-five crore Indians celebrated the Paraakram Parva, the festival of Valour. We remembered that surgical strike carried out in 2016, where our soldiers gave a befitting reply to the audacity of a proxy war under the garb of terrorism. At various places in the country, exhibitions have been organised by our Armed Forces in order to apprise the maximum number of citizens, especially the younger generation, of the might we possess; how capable we are and how our soldiers risk their lives to protect us citizens. A day such as Paraakaram Prava reminds our youth of the glorious heritage of our Army. It also inspires us to maintain the unity & integrity of the country. I too participated in a programme held at Jodhpur in the land of the valiant, Rajasthan. It has now been decided that our soldiers will give a befitting reply to whosoever makes an attempt to destroy the atmosphere of peace and progress in our Nation.
We staunchly believe in peace; we are committed to taking it forward… but NOT at the cost of compromising our self-respect and sovereignty of our Nation. India has always been resolutely committed to peace. In the two world-wars fought in the 20th century, over a lakh of our soldiers made the Supreme Sacrifice; that too in a war where we were not involved in any way.
We have never eyed someone else’s territory maliciously. This in itself was our commitment & dedication towards peace. A few days ago, on the 23rd of September, on the occasion of the centenary of the Battle of Haifa in Israel, we remembered & paid tributes to our brave soldiers of Mysore, Hyderabad & Jodhpur Lancers who had freed Haifa from the clutches of oppressors. This too was an act of valour on part of our soldiers on the path to peace. Even today, India is one of the largest contributors to various United Nations Peace Keeping Forces in terms of sending forces personnel. For decades, our brave soldiers wearing blue helmets have played a stellar role in ensuring maintenance of World Peace.
My dear countrymen, the sky offers the rarest of hues. It is not at all surprising that the Indian Air Force has proved itself to be the cynosure of every citizen’s eye, through the display of sheer might in the skies. It has bestowed upon us a sense of security. One of the notable features eagerly awaited by spectators during the Republic Day Parade is the Flypast comprising the magnificent display of the might of our Air Force through their breath taking aerobatic manoeuvres.
We celebrate Air Force Day on the 8th of October. Making a humble beginning in 1932 with six pilots and 19 Airmen, our Air Force has emerged as one of mightiest and the bravest Air Force of the 21st century today. From the core of my heart, I congratulate those Air Warriors and their families who rendered service to the nation. In 1947, when Pakistani attackers resorted to an unprecedented attack, it was indeed our Air Force which ensured that Indian Soldiers and armaments reached the battlefield promptly. The Air Force also retaliated befittingly in 1965 too. Who does not know about the Bangladesh Freedom Struggle of 1971? The Air Force played a very significant role in 1999 by pushing back the intruders and liberating Kargil from their clutches.
The Air Force defeated the enemy at Tiger Hill by carrying out air sorties on their positions round the clock. Be it the relief and rescue work or disaster management, our country is indebted to our Air Force for the commendable efforts of our Air Warrior. They have always displayed a unique spirit in times of natural calamities like storms, cyclones, floods and forest fires to extend full assistance to our countrymen. The Air Force has set an example in ensuring gender equality and has opened its doors for our daughters of India. Now, the Air Force is offering the option of Permanent Commission to Women besides the Short Service Commission, which I had announced on the 15th of August this year from the Red Fort.
Indian can proudly claim that in the armed forces, our Army not only man-power but woman-power too is contributing equally. Women are already empowered and now getting armed too.
My dear countrymen, a few days ago, Officer Abhilash Tomy of our Navy was struggling between life and death. The whole country was concerned about saving Tomy. You know, Abhilash Tomy is a very courageous, brave soldier. He was the first Indian who set on a global voyage in a small boat without any modern technology. For the last 80 days, he was moving ahead in South Indian Ocean to participate in the Golden Globe Race maintaining his speed but suddenly a severe cyclonic storm landed him in trouble. Yet, this brave heart from the Navy kept struggling for many days in mid-ocean. He fought to be afloat without food or drink. He did not accept defeat and continued to fight death. A rare example of courage, determination, strength and bravery – a few days ago I talked to Abhilash over the telephone after he was rescued and brought safely ground. I had met Tomy earlier too Despite having faced such a tough situation; his grit & spirit, his determination to make another similar attempt is an inspiration for our younger generation. I pray for Tomy’s sound health and I am sure that his courage, bravery and resolve to fight and emerge a winner will inspire our younger generation.
My dear countrymen, every child in our country knows the importance of the 2nd of October for our nation. The 2nd of October, this year, has a special significance. For two years from now on, we are going to organise various programmes throughout the world on the 150th birth anniversary of Mahatma Gandhi. Mahatma Gandhi’s philosophy has inspired the whole world.
Everyone including great personalities like Dr. Martin Luther King and Nelson Mandela derived strength from Gandhiji’s ideology to be able to fight a long battle to ensure right of equality and dignity for the people. In today’s Mann Ki Baat, I want to talk about another important work of revered Bapu which maximum countrymen should know. In 1941, Mahatma Gandhi started penning down a few thoughts in the shape of a constructive Programme. Later, in 1945, when the Freedom Struggle gained momentum, he prepared an amended copy of those ideas. Revered Bapu, put forth his ideas on various subjects like Farmers, villages, securing of labour rights, cleanliness and promoting of education. This is also known as the Gandhi Charter. Revered Babu was a people’s person. Getting connected with people or connecting people with him was Bapu’s special quality, this was in his nature. Everyone has experienced this as a most unique part of his personality. He made everyone feel that he or she was very important and absolutely necessary for the country. His biggest contribution in the Freedom struggle was that he made it an expansive “Jan-Aandolan” (People’s Movement).
During the Freedom Struggle people from all sections and all regions dedicated themselves at Mahatma Gandhi’s call. Bapu gave an inspirational mantra to all of us which is known as Gandhiji’s Talisman. In that, Gandhiji had said, “I give you one mantra, whenever you are in doubt or whenever your ego gets over your personality, undergo this test; remember the face of the poorest or the weakest person that you have seen, recall his looks and ask your inner self how useful your intended step would be for that person. Will this, in anyway, benefit him! Will he be able to get some control over his life and destiny through your step ! Meaning thereby that will your step help millions of those people in getting Swaraj who have an empty stomach and a dissatisfied soul! Then, you will see that your doubt is waning away and your ego is also getting quelled.
My dear countrymen, one of Gandhiji’s mantras is very relevant event today. The swelling middle class of the country, its increasing economic power, increasing purchasing power; can we remember revered Bapu for a moment while going out for shopping! Can we remember that mantra of Bapu!” Can we spare a thought while purchasing anything as to who in my country will be benefitted by this purchase! Whose face will sport a smile! Who will be the fortunate one to get a direct or indirect benefit from your purchase! I will feel much happier if my purchase will benefit the poorest of the poor. Keeping this mantra of Gandhiji in mind while making any purchases during the 150th Anniversary of Gandhiji, we must make it a point to see that our purchase must benefit one of our countrymen and in that too, one who has put in physical labour, who has invested money, who has applied skill must get some benefit. This is the mantra of Gandhiji, this is the message of Gandhiji and I firmly believe that a small step of yours can surely bring about a very big benefit in the life of the poorest and the most underprivileged person.
My dear countrymen, when Gandhiji said that by maintaining cleanliness, freedom will be won then he probably was not aware how this would happen. But this did happen and India got freedom. In the same way today we may feel that even by making a tiny contribution I may be contributing in a big way to help in the economic upliftment and economic empowerment of my country and help fight a battle against poverty by lending strength to the poor. I feel that this is true patriotism, and a perfect tribute to revered Bapu’s work. For example, think of purchasing Khadi and handloom products on special occasions; this will benefit many weavers. It is said that Lal Bahadur Shastriji used to preserve old and worn out Khadi clothes because some one’s labour could be felt in the making of those clothes. He used to say that all these Khadi clothes have been woven after putting in a hard labour, every thread of these clothes must be utilized. This spirit of attachment towards the country and fellow countrymen was deeply imbibed in that great person of a very short physical stature. Two days later, we shall celebrate the birth anniversary of Shastriji along with respected Bapu’s birth anniversary. The very name of Shastriji evokes a feeling of eternal faith in the hearts of us, Indians. His mild persona always fills every Indian with a sense of pride.
Lal Bahadur Shastriji had a unique quality in that, he was very humble outwardly but he was rock solid from inside. His slogan “Jai Jawan, Jai Kisan” is the hall mark of his grand personality. It was the result of his selfless service to the nation that in a brief tenure of about one and a half years he gave to our jawans and farmers the mantra to reach the pinnacle of success.
My dear countrymen, while remembering revered Bapu today, it is quite natural not to skip talking of cleanliness. A movement “Swachhta Hi Sewa” was launched on the 15th of September. Crores of people got connected with this movement and luckily I also got a chance to participate in the voluntary cleanliness shramdaan with the children of Delhi’s Ambedkar School. I went to the school, the foundation of which had been laid by none other than respected Baba Saheb himself. On the 15th of September, people from all sections across the country connected themselves to this voluntary cleaning movement. Institutions also extended their contribution enthusiastically. School children, college students, NCC, NSS, youth organisations, media groups, the corporate world, all of them offered voluntary cleanliness service on a large scale. I heartily congratulate all these cleanliness-loving countrymen for their efforts. Come on, let us listen to a phone call.
Many many thanks, you’ve made a significant remark that cleanliness has a specific meaning in every one’s life and what could be a matter of immense joy for all of us than the fact that a toilet has been built in your house under the “Swachh Bharat Abhiyan” and that, all of you have the facility now. And possibly those connected with this movement may not be able to guess that you cannot see because of your visual challenge. But one understands the difficulties you were facing when there was no toilet and that the construction of this toilet has really proved to be a big boon for you. If you had not made a call about this aspect, perhaps those connected with this cleanliness movement might have also not thought about such a sensitive issue. I specially thank you for your phone call.
My dear countrymen, Swachh Bharat Mission or Clean India Mission has become a success story not only in our country but in the whole world and everyone is talking about this movement. This time India is hosting the biggest Sanitation Convention of the world so far, the Mahatma Gandhi International Sanitation Convention. Sanitation Ministers from countries across the world and experts on the subject of sanitation will converge and share their experiments and experiences. Mahatma Gandhi International Sanitation Convention will conclude on 2nd October, 2018 with the commencement of Bapu’s 150th Birth Anniversary celebrations.
My dear countrymen, there is a Sanskrit quote- U;k;ewya LojkT;a L;kr~ (Nyayamoolam Swarajyam Syat) meaning justice lies at the root of swaraj and while discussing the subject of justice, the spirit of human rights is inherent in that. This is specially essential for the freedom and peace of the exploited, victimised and deprived people and to ensure justice for them.
In the Constitution drafted by Dr. Baba Saheb Ambedkar, many provisions were inserted to protect the fundamental rights of the poor. Inspired by his vision, the 'National Human Rights Commission' (NHRC) was formed on 12th October 1993. A few days later NHRC would complete 25 years of its existence.The NHRC has not only protected human rights but has also promoted respect for human dignity over the years. Our most beloved leader, Shri Atal Bihari Vajpayee, the former Prime Minister of our country, had clearly said that human rights are not analien concept for us.
In the emblem of our National Human Rights Commission, the ideal mantra harking back to Vedic period- "Sarve Bhavantu Sukhinah" is inscribed. NHRC has instilled widespread awareness of human rights and has played an important role in preventing their misuse. In its journey of 25 years, it has created an atmosphere of hope and confidence in the countrymen. For a healthy society, and for lofty democratic values I feel that, it is a very hope inspiring event. Today, with NHRC operating at the national level, 26 State Human Rights Commissions have also been constituted. As a society, we need to understand the importance of human rights and inculcate them into practice - this is the very basis of Sab ka Saath–Sab ka Vikas'.
My dear countrymen, the month of October heralds, Jai Prakash Narayan ji's birth anniversary, the beginning of the birth centenary of Rajmata Vijayaraje Scindiaji. These luminaries have been infusing inspiration in all of us and we offer our heartfelt tributes to them. 31 October happens to be the birth anniversary of Sardar sahib, I shall dwell upon his birth anniversary in detail in the next episode of Mann Ki Baat but today I want to mention that for the past few years, the occasion of Sardar Sahib’s birth anniversary on October 31 is marked in every small town and district by organizing the 'Run for Unity' race.
Even this year, we should try to organize 'Run for Unity' in our village, town, city or metropolis. This is the best way to remember Sardar Saheb, because he worked for the unity of our nation throughout his lifetime. I urge you all that on October 31, through 'Run for Unity', to strengthen our efforts and bind every section of the society as a unified unit. This will be a great tribute to Sardar Sahib.
My dear countrymen, be it Navratri, Durgapuja or Vijayadashmi, I offer all my heartfelt greetings to all of you on account of these holy festivals. Thank you
My dear countrymen, Namaskar. Today, the entire country is celebrating Rakshabandhan. Heartiest greetings to all fellow citizens on this auspicious occasion. The festival of Rakshabandhan symbolizes the bond of love & trust between a brother & a sister. For centuries, this festival has proved to be a shining example of social harmony. In the nation’s history, there are innumerable accounts of this sacred thread, binding together people of distant lands, different religions, around a spindle of trust. In a few days from now, we shall celebrate the festive occasion of Janmashtami. The whole atmosphere will reverberate to the sonorous chants & calls of ‘Hathi, Ghoda, Palki’, ‘Jai Kanhaiya Lal ki’ and ‘Govinda-Govinda’. It is indeed an extremely joyous experience to imbue the essence of Bhagwan Krishna & revel blissfully. In other parts of the country, especially Maharashtra, our young friends must be busy with preparations of the ‘Dahi-Handi’…. the festive ritual of the human pyramid breaking the curd filled earthen pot. Heartiest greetings to all countrymen on the festive occasions of Rakshabandhan and Janmashtami.
Bhagini Chinmayee, भवती संस्कृत – प्रश्न पृष्टवत्ती | Sister Chinmayee has asked a question in Sanskrit. Excellent, extraordinary. My salutations to you. On the occasion of Sanskrit week, I extend my best wishes to all countrymen.
I am extremely thankful to young Chinmayee for touching upon this subject. Friends, apart from Rakshabandhan, Shravan Poornima is also celebrated as Sanskrit Day.
I congratulate all those actively involved in preserving & conserving this glorious heritage, helping it to reach out to the masses. Every language has its own significance, sanctity. India takes great pride in the fact that Tamil is the most ancient of world languages. We Indians also feel proud that from Vedic times to the modern day, Sanskrit language has played a stellar role in the universal spread of knowledge.
Sanskrit language & literature encompasses a storehouse of knowledge pertaining to every facet of life. Science & technology, agriculture & health, Mathematics & Management, economy & environment, the entire spectrum has been touched upon. It is said that our Vedas have detailed reference on Mantras, on ways & means to counter the challenges of global warming. You will be pleased to know that even today, residents of village Mattur in Shivamoga district of Karnataka use Sanskrit as their lingua franca.
You will be astonished to know that Sanskrit is a language that possesses the capacity for infinite word formation with two thousand verb roots, 200 suffixes & 22 prefixes; coupled with compounds, the possibility of word-creation is limitless. And that is why the minutest nuance of an expression or subject can be accurately described. This has been the core speciality of Sanskrit. Today, at times, in order to communicate more assertively, we tend to make use of English Quotations or even sher-o-shayari-urdu poetry. But those who are well acquainted with Sanskrit Subhashitas – epigrammatic verses, know very well that it is possible to make a crisp, precise statement, using very few words through the usage of subhashitas. And since there is a sense of geographical & cultural belonging, they are easy to understand & assimilate.
For example, in order to illustrate the significance of the Guru in one’s life, it has been said
एकमपि अक्षरमस्तु गुरु: शिष्यं प्रबोधयेr~ |
प्रथिव्यां नास्ति तद- दृव्यं, यद – दत्त्वा ह्यu`.kh Hkosr~ ||
Thereby meaning, when a guru imparts even an iota of knowledge to the student, there is no material or wealth on the entire earth that the student can make use of, to repay the guru. We must abide by the same essence, the same spirit as we celebrate Teachers’ Day. Knowledge & the guru are incomparable, invaluable, priceless, On the occasion of Teachers’ Day, we remember the great philosopher, former President of India Dr. Sarvapalli Radhakrishnan ji. His birth anniversary is celebrated as Teacher’ Day across the country. I felicitate all the teachers in the country on this occasion. I also salute your sense of commitment towards science, education and students.
My dear countrymen, the monsoon comes along, bringing a new ray of hope to our toiling farmers. It provided much needed succor to the scorched trees & shrubs, and to parched water bodies; on the other hand excessive rainfall causes devastating floods. It’s a vagary of Nature that some places have received higher rainfall compared to other places. We just saw how the terrible floods in Kerala have affected human lives. In today’s pressing, hard times, the entire Nation is with Kerala. Our sympathies are with those families who lost their loved ones. Loss of lives cannot be compensated, but I assure the grief-stricken families that in this moment of suffering & misery, a hundred & twenty five crore Indians stand by them, shoulder to shoulder. I earnestly pray for those injured in this natural disaster to get well soon. I firmly believe that the sheer grit and courage of the people of the state will see Kerala rise again.
Disasters, unfortunately leave behind a trail of destruction. But one gets to witness facets of humanity, humaneness during disasters. From Kutch to Kamrup, from Kashmir to Kanyakumari, everyone is endeavoring to contribute in some way or the other so that wherever a disaster strikes, be it Kerala or any other part of India, human life returns to normalcy. Irrespective of age group or area of work, people are contributing. Everyone is trying to ensure speedy mitigation of the sufferings people in Kerala are going through, in fact sharing their pain. We know that jawans of our armed forces are the vanguards of rescue & relief operations in Kerala. They have left no stone unturned as saviors of those trapped in the floods. The Air Force, Navy, Army, BSF, CISF, RAF, every agency has played an exemplary role in the rescue & relief operations. I would like to specially mention the arduous endeavors of the NDRF daredevils. At this moment of hardship & agony, their service stands out as a shining example. The capability, commitment & controlling situation through rapid decisions of the NDRF have made them a cynosure of every Indian’s eye, worthy of respect & admiration. Yesterday was the festival of Onam. We pray for Onam to provide strength to the country, especially Kerala so that it returns to normalcy on a newer journey of development. Once again on behalf of all Indians, I would like to re assure each & everyone in Kerala and other affected places that at this moment of calamity, the entire country stands by them.
My dear countrymen ! I was looking into the suggestions received for “Mann Ki Baat”. The subject about which most of the people from across the country have written is “Our revered Atal Behari Vajpayee”. Kirti from Ghaziabad, Swati Vats from Sonepat, brother Praveen from Kerala, Dr. Swapan Banerjee from West Bengal, Akhilesh Pandey from Katihar, Bihar and numerous others have written on Narendra Modi Mobile App and MyGov asking me to speak on various aspects of Atalji’s life. As soon as the people in our country and abroad heard of the demise of Atalji on 16th August, everyone drowned in sadness. He was a leader who gave up his position as Prime Minister fourteen years ago. In a way, he was cut-off from active politics for the last 10 years. He was neither seen in the news nor in public life.
Ten years is a huge gap but on 16th August our country and the whole world witnessed that there was not a gap of even a single moment in the common man’s heart. The wave of love and faith that spread across the nation is an indicator of his great personality. During these last days, many great aspects of Atalji came up to the fore. People remembered him as the best member of Parliament, sensitive writer, best orator and most popular Prime Minister and will continue to remember him. The country will ever remain grateful to Atalji for bringing good governance in the main stream. But, I just want to touch upon one more facet of Atalji’s legendary personality and that is the political culture which Atalji gave to India, his efforts in the direction of bringing about the changes in our political culture, his efforts to mould it into an organized framework and which proved very beneficial for India and a bigger benefit will accrue in days to come. This is certain. India will remain ever grateful to Atalji for bringing the 91st Amendment Act, 2003. This change brought about two important changes in India’s politics.
First one is that the size of the cabinet in states was restricted to 15% of the total seats in the state Assembly.
And the second one is that the limit under the Anti Defection Law was enhanced from one-thirds to two-thirds. Besides, clear guidelines were defined to disqualify the defector.
For many years in India, the political culture of forming a very large cabinet was being misused to constitute jumbo cabinets not only to create a divide but also to appease political leaders. Atalji changed it. This effort of his resulted in saving of money as well as of resources. This also helped in improving efficiency. It could only be a visionary like Atalji who brought in this transformation and as a result of this, healthy traditions blossomed in our polity.
Atalji was a true patriot. It was during his tenure that the timing of presenting the budget was changed. Earlier, as was the British tradition, the Budget used to be presented at 5 pm because in London, Parliament used to start working at that time. In the year 2001, Atalji changed the time of presenting the budget from 5 pm to 11 am. One more freedom- the Indian Flag Code was framed in Atalji’s tenure and it came into effect in 2002. A number of such rules have been included in this code which made it possible to unfurl the tricolor in public places. This provided a chance to more and more of our countrymen to unfurl our national flag. Thus, he brought our beloved tricolor closer to the common man. You must have noticed how Atalji took bold steps to bring about fundamental reforms, whether in our election process or about the shortcomings concerning the people’s representatives. Similarly, you can see that presently efforts are afoot and discussions are being held about simultaneously holding the elections for Lok Sabha and for state assemblies. The Government and the opposition – both are putting forth their view points. This is a good development and a healthy sign for our democracy. I must say that developing healthy traditions for a sound democracy, making constant efforts to strengthen democracy, encouraging open-minded debates would also be a appropriate tribute to Atalji. Reiterating our resolve to fulfill his dream of a prosperous and developed India, I along with all of you pay tributes to Atalji.
My dear countrymen ! whenever a discussion about Parliament is there nowadays, it is about hold-ups, noisy scenes and stalling the proceedings but when something good happens, it is not given much importance. The monsoon session of Parliament ended just a few days back. You will be glad to know that the productivity of Lok Sabha remained 118 percent and that of Rajya Sabha was 74 percent. All the members rose above party interests to make the Monsoon session most productive and this is why Lok Sabha passed 21 bills and in Rajya Sabha fourteen bills were passed. This Monsoon session of Parliament will always be remembered as a session for social justice and youth welfare. A number of important bills beneficial to the youth and the backward classes were passed during this session. As you know, a demand to constitute an OBC Commission similar to SC/ST commission was long pending for decades. The country fulfilled its resolve this time to make an OBC Commission and also granted it Constitutional powers. This step will prove to be the one to move forward our march towards achieving the goal of social justice. An amendment bill to secure the rights of scheduled castes and scheduled tribes also were passed in this session. This Act will give more security to the interests of SC and ST communities. This will also forbid criminals from indulging in atrocities and will instill confidence among the dalit communities.
No civil society can tolerate any kind of injustice towards the woman-power of the country. The nation will not tolerate those committing rapes. With this point in view Parliament has made a provision of strictest punishment by passing the Criminal Act Amendment Bill. Those guilty of rape will get a minimum sentence of ten years and those found guilty of raping girls below the age of 12 years will be awarded the death sentence. Recently, you might have read in newspapers, that a court in Mandsaur in Madhya Pradesh, after a brief hearing of two months, pronounced the death sentence on two criminals found guilty of raping a minor girl. Earlier, a court in Katni in Madhya Pradesh awarded the death sentence to the guilty after a hearing of just five days. Courts in Rajasthan have also taken similar quick decisions. This Act will play an effective role in curbing crimes against women and girls. Economic growth will be incomplete without a social transformation. The Triple Talaq Bill has been passed by the Lok Sabha although it could not be passed in the Rajya Sabha, I assure the Muslim women that the whole country stands by them to provide them social justice. When we move ahead in the national interest, a change in the lives of the poor, the backward, the exploited and the deprived ones can also be brought about. In the Monsoon session, this time, everyone jointly presented an ideal approach. Today, I publicly express my heartfelt gratitude to all MP’s.
My dear countrymen! The attention of crores of Indians is focused on the Asian Games being held in Jakarta. Every morning, first of all, people look for newspapers, Television, News and Social Media to check Indian players winning medals. The Asian Games are going on. I wish to congratulate all players who have won medals for the country. I extend my best wishes to those players who are yet to compete. Indian players are performing exceedingly well in shooting and wrestling but our players are winning medals in those competitions too, in which our performance has not been so good earlier-like WUSHU and ROWING. These are not just medals but an evidence of the sky high spirits of the Indian players.
Among those winning medals for our country are a large number of our daughters which is a very positive sign; so much so, that youngsters of only 15-16 years of age have brought honour to our country by winning medals. This too is a very positive indication that most of the medal-winners hail from small towns and villages and these players have achieved this success by putting in sheer hard work.
We shall celebrate National Sports Day on 29th August and I extend my best wishes to all sport lovers and also pay my tributes to the legendary hockey wizard Shri Dhyanchandji.
I request every citizen to make it a point to play and take care of their fitness because only a healthy India will build a developed and prosperous India. When India will be fit, only then India’s future will be bright. Once again, I congratulate the medal winners at the Asian Games and also wish the remaining players perform well. Many good wishes to you all on the National Sports Day.
Namaste Bhawnaji, I respect your sentiments. All of us have seen houses and buildings being constructed of bricks and stones but can you imagine that about twelve hundred years ago, a giant mountain which was a single stone mountain was give the shape of an elegant, huge and a unique –temple –this may be difficult to imagine, but this happened and that temple is Kailash Nath Mandir in Ellora, Mahrashtra. Would you believe if someone tells you that about a thousand years ago, an over sixty metres tall pillar of granite was built and another granite rock weighing about 80 tonnes was placed over its top. But, Brihdeshwar temple of Thanjavur in Tamil Nadu is the place where this unbelievable combination of Engineering and Architecture can be seen. Anybody will feel overawed on seeing Rani Ki Vaav of the 11th Century in Patan in Gujarat. Our land has been an engineering laboratory. There have been several engineers in India who made the unimaginable possible and presented such marvels of engineering before the world. In this lineage of great engineers, we were blessed with a diamond whose work is still a source of wonder for all. He was Bharat Ratna Dr. M. Visvesvaraya. Lakhs of farmers and common people continue to benefit from the Krishna Raj Sagar Dam built by him. He is greatly revered in that part of our country and the whole nation remembers him with great respect and regard. In his memory, 15th September is observed as Engineers Day. Following his footsteps, our engineers have created their own identity in the world.
When I talk of wonders in the Engineering world, I am reminded of an incident of 2001 when a devastating earth quake hit Kutch in Gujarat. I used to work as a volunteer there during those days, I got a chance to go to a village and had a chance to meet a lady of more than a hundred years of age. And she was looking at me and mockingly, saying, “Look at my house. It is called Bhoonga in Kutch. This house has faced three earthquakes. I myself have seen three in this house itself. But, you did not find any damage anywhere. These houses were built by our ancestors in sync with nature and surroundings of this place”. And she was saying all this with such a feeling of pride that it made me think that engineers in that era had constructed such structures according to the local situations which kept the common man safe and secured. While observing Engineers Day, we should think of the future as well. Workshops should be held at different places. What are the things we need to learn in the changing times? What do we need to teach? What do we need to connect to? Nowadays, disaster management has assumed immense significance. The world is facing natural calamities. What then should be the new form of structural engineering? What courses should be designed to that end? What should be taught to the students? How do we keep construction eco friendly? How can we enhance the quality of construction by making value addition through local materials? How do we make zero waste our priority? All such points need to be pondered upon when we observe Engineers Day.
My dear countrymen! There is a mood of festivity and with this the preparations for Diwali also begin. We will keep meeting through Mann Ki Baat, and will keep sharing matters close to our hearts. We will join hands in taking our country forward with heartfelt vigor. With these feelings, I extend my best wishes to you all. Thanks. We shall meet.
نئیدہلی۔29جولائی 2018؛ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ان دنوں بہت سے مقامات پر اچھی بارش ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں پر زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے تشویش کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں اور کچھ مقامات پر ابھی بھی لوگ بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی وسعت، تنوع، کبھی کبھی بارش بھی پسند – ناپسند یدگی کے طور پر دکھائی دیتی ہے، لیکن ہم بارش کو کیا الزام دیں، انسان ہی ہے جس نے ماحولیات سے جدوجہد کا راستہ منتخب کر لیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی کبھی فطرت ہم سے خفا ہو جاتی ہے۔ اور اسلیے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے – ہم ماحولیات سے پیار کریں، ہم ماحولیات کا تحفظ کریں، ہم ماحولیات کے محافظ بنیں، تو فطرت میں جو چیزیں ہیں ان میں توازن اپنے آپ بنا رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں ویسے ہی ایک قدرتی آفت نے پوری دنیا کی توجہ اپنے جانب مبذول کی، انسانی دماغ کو جھنجھوڑ دیا۔ آپ سب لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، تھائی لینڈ میں 12 نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کی ٹیم اور ان کے کوچ گھومنے کے لیے ایک غار میں گئے۔ وہاں عام طور پر غار میں جانے اور اس سے باہر نکلنے، ان سب میں کچھ گھنٹوں کا وقت لگتا ہے۔ لیکن اس دن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب وہ غار کے اندر کافی اندر تک چلے گئے – اچانک بھاری بارش کی وجہ سے غار کا دروازے کے پاس کافی پانی جمع ہو گیا۔ ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا۔ کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے غار کے اندر کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر رکے رہے۔ اور وہ بھی ایک دو دن نہیں 18 دنوں تک۔ آپ تصور کر سکتے ہیں نوجوان کی دنیا میں جب سامنے موت دکھتی ہو اور لمحہ لمحہ گزارنی پڑتی ہے تو وہ لمحہ کیسا ہوگا۔ ایک جانب وہ مصیبت میں مبتلا تھے، تو دوسری جانب پوری دنیا میں انسانیت متحد ہوکر کے خدا داد انسانی خصوصیات کو ظاہر کر رہی تھی۔ دنیا بھر میں لوگ ان بچوں کو محفوظ باہر نکالنے کےلیے دعائیں کر رہے تھے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ بچیں ہیں کہاں، کس حالت میں ہیں۔ انہیں کیسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اگر راحت رسانی کا کام مناسب وقت پر نہیں ہوتا تو مانسون کے سیزن میں انہیں کچھ مہینوں تک نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ خیر جب اچھی خبر آئی تو دنیا بھر کو سکون ملا، لیکن اس پورے عمل کو ایک اور نظریے سے بھی دیکھنے کا میرا من کرتا ہے کہ پوری کارروائی کیسے چلی۔ ہر سطح پر ذمہ داری کا جو احساس ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ سبھی نے چاہا ، چاہے حکومت ہو، ان بچوں کے والدین ہوں، ان کے خاندان کے لوگ ہوں، میڈیا ہو، ملک کے عوام ہوں – ہر کسی نے امن اور صبر کا حیرت انگیز نظارہ پیش کیا۔ سب کے سب لوگ ایک ٹیم کی شکل میں اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کسی کا یکساں سلوک – میں سمجھتا ہوں کہ سیکھنے جیسا موضوع ہے، سمجھنے جیسا ہے۔ ایسا نہیں کہ ماں باپ پریشان نہیں ہوئے ہوں گے، ایسا نہیں کہ ماں کی آنکھ سے آنسو نہیں نکلے ہوں گے، لیکن صبر و ضبط، پورے سماج کا امن سے بھرپور سلوک – یہ اپنے آپ میں ہم سب کے لیے سیکھنے جیسا ہے۔ اس پورے عمل میں تھائی لینڈ کی بحریہ کے ایک جوان کو اپنی جان بھی گنوانی پڑی۔ پوری دنیا اس بات پر حیران ہے کہ اتنی مشکل حالات کے باوجود پانی سے بھرے ایک اندھیرے غار میں اتنی بہادری اور صبر کے ساتھ انہوں نے اپنی امید نہیں چھوڑی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب انسانیت ایک ساتھ آتی ہے، حیرت انگیز چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ بس ضرورت ہوتی ہے ہم پرسکون من سے اپنے ہدف پر توجہ دیں، اس کے لیے کام کرتے رہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے مشہور شاعر نیرج جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ نیرج جی کی ایک خاصیت رہی تھی – امید، ایمان، عزم، خود پر اعتماد۔ ہم ہندوستانیوں کو بھی نیرج جی کی ہر بات بہت قوت دے سکتی ہے، ترغیب دے سکتی ہے – انہوں نے لکھا تھا –
’اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا،
آندھیاں چاہے اُٹھاؤ،
بجلیاں چاہے گراؤ،
جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا۔‘
نیرج جی کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
’’نمستے وزیراعظم جی میران نام ستیم ہے۔ میں نے اس سال دہلی یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ ہمارے اسکول کے بورڈ امتحان کے وقت آپ نے ہم سے ایگزام اسٹریس اور ایجوکیشن کی بات کی تھی۔ میرے جیسے طالب علم کے لیے اب آپ کا کیا پیغام ہے۔‘‘
ویسے تو جولائی اور اگست کا مہینہ کسانوں کے لیے اور سبھی نوجوانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب کالج کا پیک سیزن ہوتا ہے۔ ’ستیم‘ جیسے لاکھوں نوجوان اسکول سے نکل کر کے کالجز میں جاتے ہیں۔ اگر فروری اور مارچ ایگزام، پیپرس، جوابات میں جاتے ہیں تو اپریل اور مئی چھٹیوں میں مستی کرنے کے ساتھ ساتھ ریزلٹ ، زندگی میں مستقبل کی سمت طے کرنے، کیریئر کو منتخب کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ جولائی وہ مہینہ ہے جب نوجوان اپنی زندگی کے اس نئے مرحلے میں قدم رکھتے ہیں جب سوالات کے مرکوزیت سے ہٹ کر کٹ آف پر چلا جاتا ہے۔ طالب علموں کی توجہ گھر سے ہوسٹل پر چلی جاتی ہے۔ طالب علم والدین کی زیر نگرانی سے پروفیسر کی نگرانی میں آ جاتے ہیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ میرا نوجوان دوست کالج کی زندگی کی شروعات سے کافی پرجوش اور خوش ہوں گے۔ پہلی بار گھر سے باہر جانا، گاؤں سے باہر جانا، ایک حفاظتی ماحول سے باہر نکل کر خود کو ہی اپنا سارتھی بننا ہوتا ہے۔ اتنے سارے نوجوان پہلی بار اپنے گھروں کو چھوڑ کر، اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دینے لیے نکل آتے ہیں۔ کئی طالب علموں نے ابھی تک اپنے اپنے کالج جوائن کر لیے ہوں گے، کچھ جوائن کرنے والے ہوں گے۔ آپ لوگوں سے میں یہی کہوں گا ، پرسکون رہیے، زندگی سے لطف لیجیے، زندگی سے بھرپور زندگی کا لطف اٹھائیں۔ کتابوں کے بغیر کوئی راستہ تو نہیں ہے، پڑھائی تو کرنی پڑتی ہے، لیکن نئی نئی چیزوں کو تلاشنے کی فطرت ہونی چاہیے۔ پرانے دوستوں کی قدر ہے۔ بچپن کے دوست بیش قیمتی ہوتے ہیں، لیکن نئے دوست کا انتخاب، بنانا اور بنائے رکھنا، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی سمجھداری کا کام ہوتا ہے۔ کچھ نیا سیکھیں، جیسے نئے نئے ہنر، نئی نئی زبان سیکھیں۔ جو نوجوان اپنے گھر چھوڑ کر باہر کسی اورمقامات پر پڑھنے گئے ہیں ان جگہوں کو ڈسکور کریں، وہاں کے بارے میں جانیں، وہاں کے لوگوں کو ، زبان کو، ثقافت کو جانیں، وہاں کے سیاحتی مقامات ہوں گے – وہاں جائیں، ان کے بارے میں جانیں۔ نئی زندگی کی شروعات کر رہے ہیں سبھی نوجوانوں کو میری مبارکباد۔ ابھی جب کالج سیزن کی بات ہو رہی ہے تو میں نیوز میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے مدھیہ پردیش کے ایک بیحد غریب خاندان سے جڑے ایک طالب علم آشارام چودھری نے زندگی کے مشکل چیلنجوں کو پار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے جودھ پور ایمس کےایم بی بی ایس کے امتحان مین اپنی پہلے ہی کوشش میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے والد کچڑا چُن کر اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ میں ان کی اس کامیابی کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے انہوں نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے، جو ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ چاہے وہ دلی کے پرنس کمار ہوں، جن کے والد ڈی ٹی سی میں بس ڈرائیور ہیں یا پھر کولکتہ کے ابھئے گپتا جنہوں نے فُت پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ کے نیچے اپنی پڑھائی کی ۔ احمد آباد کی بیٹی آفرین شیخ ہو، جن کے والد آٹو رکشا چلاتے ہیں۔ ناگپور کی بیٹی خوشی ہو، جن کے والد بھی اسکول بس میں ڈرائیور ہیں یا ہریانہ کے کارتک ، جن کے والد چوکیدار ہیں یا جھارکھنڈ کے رمیش ساہو جن کے والد اینٹ بھٹا میں مزدوری کرتے ہیں۔ خود رمیش بھی میلے میں کھلونا بیچا کرتے تھے یا پھر گڑگاؤں کی معزور بیٹی انوشکا پانڈا، جو جنم سے ہی اسپائنل مسکیولر اٹروپھی نام کے ایک پیدائشی بیماری میں مبتلا ہیں، ان سب نے اپنے عزم مصمم اور حوصلے سے مشکلات کو پار کر – دنیا دیکھے ایسی کامیابی حاصل کی۔ ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو ہم کو ایسے کئی مثال مل جائیں گی۔
ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی اچھا واقعہ میرے من کو توانائی دیتا ہے، ترغیب دیتی ہے اور جب ان نوجوانوں کی کہانی آپ کو کہہ رہا ہوں تو اس کے ساتھ مجھے نیرج جی کی بھی وہ بات یاد آتی ہے اور زندگی کا وہی تو مقصد ہوتا ہے۔ نیرج جی نے کہا ہے –
’گیت آکاش کو دھرتی کا سنانا ہے مجھے،
ہر اندھیرے کو اجالے میں بُلانا ہے مجھے،
پھول کی گندھ سے تلوار کو سر کرنا ہے،
اور گا-گا کے پہاڑوں کو جگانا ہے مجھے‘
میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ دن پہلے میری نظر ایک خبر پر گئی، لکھا تھا – ’دو نوجوانوں نے کیا مودی کا سپنا ساکار‘ ۔ جب اندر خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ کیسے آج ہمارے نوجوان ٹیکنالوجی کا اسمارٹ اور کریٹیو یوز کر کے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک بار امریکہ کے سین جونس شہر، جسے ٹکنالوجی ہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں میں ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ میں نے ان سے اپیل کی تھی۔ وہ ہندوستان کے لیے اپنے ٹیلینٹ کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں، یہ سوچیں اور وقت نکال کر کے کچھ کریں۔ میں نے برین – ڈرین کو برین – گین میں تبدل کرنے کی اپیل کی تھی۔ رائے بریلی کے دو آئی ٹی پروفیشنلس، یوگیش ساہو جی اور رجنیش واجپئی جی نے میرے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک کوشش کی۔ اپنے پروفیشنل اسکلس کا استعمال کرتے ہوئے یوگیش جی اور رجنیش جی نے مل کر ایک اسمارٹ گاؤں ایپ تیار کیا ہے۔ یہ ایپ نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو پوری دنیا سے جوڑ رہا ہے بلکہ اب وہ کوئی بھی جانکاری اور خبر خود کے موبائل پر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ رائے بریلی کے اس گاؤں تودھک پور کے شہریوں، گرام – پردھان، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، سی ڈی او، سبھی لوگوں نے اس ایپ کے استعمال کے لیے لوگوں کو بیدار کیا۔ یہ ایپ گاؤں میں ایک طرح سے ڈیجیتل تحریک لانے کا کام کر رہا ہے۔ گاؤں میں جو ترقی کے کام ہوتے ہیں، اسے اس ایپ کے ذریعے ریکارڈ کرنا، ٹریک کرنا، مانیٹر کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس ایپ میں گاؤں کی فون ڈائریکٹری، نیوز سیکشن ایوینٹ لسٹ، ہیلتھ سینٹر اور انفارمیشن سینٹر موجود ہے۔ یہ ایپ کسانوں کے لیے بھی کافی فائدہ مند ہے ۔ ایپ کا گرامر فیچر ، کسانوں کے درمیان فیکٹ ریٹ، ایک طرح سے ان کی پیداواریت کے لیے ایک مارکیٹ پیلیس کی طرح کام کرتا ہے۔ اس واقعہ کو اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو ایک بات ذہن میں آئے گی وہ نوجوان امریکہ میں، وہاں کے رہن سہن، سوچ وچار اس کے درمیان زندگی جی رہا ہے۔ کئی سالوں پہلے ہندوستان چھوڑا ہوگا لیکن پھر بھی اپنے گاؤں کی باریکیوں کو جانتا ہے، چیلنجوں کو سمجھتا ہے اور گاؤں سے جذباتی طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے، وہ شاید گاؤں کو جو چاہیے ٹھیک اس کے مطابق کچھ بنا پائے۔ اپنے گاؤں، اپنی جڑوں سے وہ جڑاؤ اور وطن کےلیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہر ہندوستانی کے اندر فطری طور پر ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی وقت کی وجہ سے، کبھی دوریوں کی وجہ سے ، کبھی حالات کی وجہ سے، اس پر ایک ہلی سی راکھ جم جاتی ہے، لیکن اگر کوئی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی، اس کو چھو لے تو ساری باتیں پھر ایک بار ابھر کر کے آ جاتی ہیں اور وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کی طرف کھینچ کر لے آتی ہیں۔ ہم بھی ذرا تحقیق کر لیں کہیں ہمارے کیس میں بھی تو ایسا نہیں ہوا ہے، حالات، دوریوں نے کہیں ہمیں الگ تو نہیں کر دیا ہے، کہیں راکھ تو نہیں جم گئی ہے۔ ضرور سوچیے۔
’’معزز وزیراعظم جی نمسکار، میں سنتوش کاکڑے کولہاپور، مہاراشٹر سے بات کر رہا ہوں۔ پنڈھر پور کی واری یہ مہاراشٹر کی پرانی روایت ہے۔ ہر سال یہ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تقریباً 7-8 لاکھ ورکری اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس عجیب پروگرام کے بارے میں ملک کے باقی عوام بھی بیدار ہوں، اس لیے آپ واری کے بارے میں جانکاری دیجیے۔‘‘
سنتوش جی آپ کے فون کال کے لیے بہت بہت شکریہ۔
صحیح معنی میں پنڈھر پور واری اپنے آپ میں ایک اہم سفر ہے۔ ساتھیوں اشاڈھی ایکادشی جو اس بار 23 جولائی، کو تھی اس دن کو پنڈھرپور واری کی عالیشان پارینیتی کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ پنڈھر پور مہاراشٹر کے سولاپور ضلعے کا ایک مقدس شہر ہے۔ آشاڑھی ایکادشی کے تقریباً 20-15دن پہلے سے ہی وارکرنی یعنی ترتھ یاتری پالکیوں کے ساتھ پنڈھر پور کے سفر کے لیے پیدل نکلتے ہیں۔ اس سفر، جسے واری کہتے ہیں، میں لاکھوں کی تعداد میں وارکری شامل ہوتے ہیں۔ سنت گیانیشور اور سنگ تکارام جیسے مہان سنتوں کی پادوکا، پالکی میں رکھ کر وٹھل وٹھل گاتے، ناچتے ، بجاتے پیدل پنڈھرپور کی جانب چل پڑتے ہیں۔ یہ واری تعلیم، سنسکار اور شردھا کی تروینی ہے۔ ترتھ یاتری بھگوان وٹھل ، جنہیں وٹھوا یا پانڈورنگ بھی کہا جاتا ہے ان کے درشن کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ بھگوان وٹھل غریبوں، پسماندوں، متاثروں کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ مہاراشٹر، کرناٹک، گوا، آندھرا پردیش، تلنگانہ وہاں کے لوگوں میں کافی یقین ہے، بھگتی ہے۔ پنڈھرپور میں ویٹھوا مندر جانا اور وہاں کی خاصیت، خوبصورتی اور روحانی خوشی کا اپنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ ’من کی بات‘ سننے والوں سے میری درخواست ہے کہ موقع ملے تو ایک بار ضرور پنڈھر پور واری کا تجربہ کریں۔ گیانیشور، نام دیو، ایک ناتھ، رام داس، تکارام – لاتعداد سنت مہاراشٹر میں آج بھی لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اندھ وشواس کے خلاف لڑنےکی قوت دے رہے ہیں اور ہندوستان کے ہر کونے میں یہ سنت رواج ترغیب دیتا رہا ہے۔ چاہے وہ ان کے بھاروڈ ہو یا ابھنگ ہو ہمیں ان سے ہم آہنگی ، محبت اور بھائی چارے کا اہم پیغام ملتا ہے۔ اندھ شردھا کے خلاف شردھا کے ساتھ سماج لڑ سکے اس کی تعلیم ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت وقت پر سماج کو روکا، ٹوکا اور آئینہ بھی دکھایا اور یہ یقینی بنایا کہ پرانے رواج ہمارے سماج سے ختم ہوں اور لوگوں میں محبت، مساوات اور انصاف کے عادت آئیں۔ ہماری یہ ہندوستانی سرزمیں بیش قیمتی سرزمیں ہے جیسے سنتوں کی ایک عظیم روایت ہمارے ملک میں رہی، اسی طرح سے مضبوط ماں بھارتی کو وقف شدہ عظیم شخصیات نے، اس سرزمین کو اپنی زندگی وقف کر دی۔ ایک اسے ہی عظیم شخصیت ہیں لوک مانیہ تلک جنہوں نے کئی ہندوستانیوں کے من میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ہم 23 جولائی کو تلک جی کی یوم پیدائش اور 01 اگست کو ان کی برسی میں ان کو یاد کرتے ہیں۔ لوک مانیہ تلک بہادری اور اعتماد سے لبریز تھے۔ ان میں برطانوی حکومتوں کو ان کی غلطیوں کا آئینہ دکھانے کی قوت تھی۔ انگریز لوک مانیہ تلک سے اتنا زیادہ ڈرے ہوئے تھے کہ انہوں نے 20 سالوں میں ان پر تین بار غداری کا الزام لگانے کی کوشش کی، اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں، لوک مانیہ تلک اور احمد آباد میں ان کے ایک مجسمہ کے ساتھ جڑی ہوئی ایک حیرت انگیز واقعہ آج ہم وطنوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اکتوبر 1916 میں لوک مانیہ تلک جی احمد آباد جب آئے، اس زمانے میں آج سے تقریباً سو سال پہلے 40000 سے زیادہ لوگوں نے ان کا احمد آباد میں استقبال کیا تھا اور یہیں سفر کے دوران سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل لوک مانیہ تلک جی سے بہت زیادہ متاثر تھے اور جب 01 اگست ، 1920 کو لوک مانیہ تلک جی کا انتقال ہوا اسی وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ احمد آباد میں ان کا مجسمہ بنائیں گے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل احمد آباد نگر نیگم کے میئر منتخب ہوئے اور فوراً ہی انہوں نے لوک مانیہ تلک کے مجسمے کے لیے وکٹوریا گارڈن کو چنا اور یہ وکٹوریا گاڑدن جو برطانیہ کی مہارانی کے نام پر تھا۔ ظاہر طور پر برطانوی حکومت اس سے ناخوش تھے اور کلکٹر اس کے لیے منظوری دینے سے مسلسل منع کرتا رہا لیکن سردار صاحب، سردار صاحب تھے۔ وہ اٹل تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ چاہے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑے، لیکن لوک مانیہ تلک جی کا مجسمہ بن کر رہے گا۔ آخر کار مجسمہ بن کر تیار ہو گیا اور سردار صاحب نے کسی اور سے نہیں بلکہ 28 فروری 1929 – اس کا افتتاح مہاتما گاندھی سے کرایا اور سب سے بڑے مزے کی بات ہے اس افتتاحی اجلاس میں، اس تقریر میں پوجیہ باپو نے کہا کہ سردار پٹیل کے آنے کے بعد احمد آباد نگر نگم کو نہ صرف ایک آدمی ملا ہے بلکہ اسے وہ ہمت بھی ملی ہے جس کی وجہ سے تلک جی کے مجسمہ کی تعمیر ممکن ہو پائی ہے۔ اور میرے پیارے ہم وطنوں، اس مجسمہ کی خاصیت یہ ہے کہ تلک کی ایسی انمول مورتی ہے جس میں وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس میں تلک کے ٹھیک نیچے لکھا ہے ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے’ اور یہ سب انگریزوں کے اس دور کی بات تو سنا رہا ہوں۔ لوک مانیہ تلک جی کی کوششوں سے ہی گنیش اتسو کی روایت شروع ہوئی۔ عوامی گنیش اتسو روایتی شردھا اور جشن کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری، جمعیت، لوگوں میں یکسانیت کے جذبہ کو آگے بڑھانے کی ایک متاثر کن ذریعہ بن گیا تھا۔ ویسے وہ ایک وقت تھا جب ضرورت تھی کہ ملک انگریزوں کےخلاف لڑائی کے لیے ایک جٹ ہو، ان تہواروں نے ذات پات کے بندھنوں کو توڑتے ہوئے سبھی کو ایک جٹ کرنے کا کام کیا۔ وقت کے ساتھ ان تہواروں کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیمی وراثت اور تاریخ کے ہمارے بہادر ہیروؤں کے تئیں آج بھی ہماری نوجوان نسل میں کریز ہے۔ آج کئی شہروں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو تقریباً ہر گلی میں گنیش پنڈال دیکھنے کو ملتا ہے۔ گلی کے سبھی کنبے ساتھ مل کر کے اسے منعقد کرتے ہیں۔ ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی ایک بہترین موقع ہے، جہاں وہ لیڈرشپ اور آرگنائزیشن جیسے ہنر سیکھ سکتے ہیں، انہیں خود کے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! میں نے پہلے بھی یہ درخواست کی تھی اور جب لوک مانیہ تلک جی کو یاد کر رہا ہوں تب پھر سے ایک بار آپ سے درخواست کرونگا کہ اس بار بھی ہم گنیش اتسو منائیں، دھوم دھام سے منائیں، جی جان سے منائیں لیکن ایکو فرینڈلی گنیش اتسو منانے کی کوشش کریں۔ گنیش جی کی مورتی سے لے کر سجانے کا سامان سب کچھ ایکو فرینڈلی ہو اور میں تو چاہوں گا ہر شہر میں ایکو فرینڈلی گنیش اتسوکے الگ مقابلہ ہوں، ان کو انعام دئے جائیں اور میں تو چاہوں گا کہ مائی گوو پر بھی اور نریندر مودی ایپ پر بھی ایکو فرینڈلی گنیش اتسو کی چیزیں وسیع پرچار کے لیے رکھی جائیں۔ میں ضرور آپکی بات لوگوں تک پہنچاؤنگا۔ لوک مانیہ تلک نے ہم وطنوں میں خود اعتمادی بیدار کر کے انہوں نے نعرہ دیا تھا – ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم لے کر رہیں گے‘۔ آج یہ کہنے کا وقت ہے سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم اسے لے کر رہیں گے۔ ہم ہندوستانی کی پہنچ بہتر حکمرانی اور ترقی کے اچھے نتائج تک ہونی چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جو ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرے گی۔ تلک کے جنم کے 50 سالوں بعد ٹھیک اسی دن یعنی 23 جولائی کو بھارت ماں کے ایک اور سپوت کا جنم ہوا، جنہوں نے اپنی زندگی اس لیے قربان کر دی تاکہ ہم وطن آزادی کی ہوا میں سانس لے سکے۔ میں بات کر رہا ہوں چندر شیکھر آزاد کی۔ ہندوستان میں کون سا ایسا نوجوان ہوگا جو ان لائنوں کو سن کر ترغیب حاصل نہیں کرے گا –
’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے،
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘
ان جملوں نے اشفاق اللہ خاں، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد جیسے مختلف نوجوانوں کو ترغیب دی۔ چندر شیکر آزاد کی بہادری اور آزادی کے لیے ان کا جنون، اس نے کئی نوجوانوں کو ترغیب دی۔ آزاد نے اپنی زندگی کو داؤں پر لگا دیا، لیکن غیر ملکی حکومت کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکے۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے مدھیہ پردیش میں چندر شیکھر آزاد کے گاؤں علی راج پور جانے کا موقع بھی حاصل ہوا۔ الہ آباد کے چندر شیکھر آزاد پارک میں بھی گلہائے عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا اور چندر شیکھر آزاد جی وہ بہادر شخص تھے جو غیرملکیوں کی گولی سے مرنا نہیں چاہتے تھے –جیئیں گے تو لڑتے لڑتے اور مریں گے تو بھی آزاد بنے رہ کر کے مریں گے یہی تو خاصیت تھی ان کی۔ ایک بار پھر سے بھارت ماتا کے دو عظیم سپوتوں – لوک مانیہ تلک جی اور چندر شیکھر آزاد جی کو شردھا کے ساتھ نمسکار کرتا ہوں۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے فن لینڈ میں چل رہی جونیئر انڈر -20 عالمی ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں 400 میٹر کی دوڑ، اس مقابلہ میں ہندوستان کی بہادر بیٹی اور کسان کی بیتی ہیما داس نے گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رچ دی ہے۔ ملک کی ایک اور بیٹی ایکتا بھیان نے میرے خط کے جواب میں انڈونیشیا سے مجھے ای میل کیا ابھی وہ وہاں ایشئن گیمز کی تیاری کر رہی ہیں۔ ای میل میں ایکتا لکھتی ہیں – ’کسی بھی ایتھلیٹ کی زندگی میں سب سے اہم لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ ترنگا پکڑتا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میں نے وہ کر دکھایا۔‘ ایکتا ہم سب کو بھی آپ پر فخر ہے۔ آپ نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ٹیونیشیا میں عالمی پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس 2018 میں ایکتا نے گولڈ اور کانسے کے تمغہ جیتے ہیں۔ ان کی یہ حصولیابی خاص اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے چیلنج کو ہی اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا دیا۔ بیٹی ایکتا بھیان 2003 میں ، روڈ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے اس کے جسم کا آدھا حصہ نیچے کا حصہ ناکام ہو گیا، لیکن اس بیٹی نے ہمت نہیں ہاری اور خود کو مضبوط بناتے ہوئے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک اور ویویانگ یوگیش کٹھونیا جی نے، انہوں نے برلن میں پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس میں ڈسکس تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر عالمی ریکارڈ بنایا ہے۔ ان کے ساتھ سندر سنگھ گرجر نے بھی جیولین میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ میں ایکتا بھیان جی، یوگیش کٹھونیا جی اور سندر سنگھ جی آپ سبھی کے حوصلے اور جذبے کو سلام کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ اور آگے بڑھیں، کھیلتے رہیں، کھلتے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، اگست مہینہ تاریخ کے مختلف واقعات، تہواروں کی گہما گہمی سے بھرا رہتا ہے، لیکن موسم کی وجہ سے کبھی کبھی بیماری بھی گھر میں گھس آتی ہے۔ میں آپ سب کو بہتر صحت کے لیے ، حب وطنی کی ترغیب جگانے والے، اس اگست مہینے کے لیے اور صدیوں سے چلے آ رہے مختلف تہواروں کے لیے، بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ پھر ایک بار من کی بات کے لیے ضرور ملیں گے۔
بہت بہت شکریہ۔
نمسکار! میرے پیارے ہم وطنوں آج پھر ایک بار ’من کی بات‘ کے اس پروگرام میں آپ سب کے ساتھ روبہ رو ہونے کا موقع ملا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے بینگلورو میں ایک تاریخی کرکٹ میچ ہوا۔ آپ لوگ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں کہ میں ہندوستان اور افغانستان کے ٹیسٹ میچ کی بات کر رہا ہوں۔ یہ افغانستان کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا اور یہ ہندوستان کے لیے فخر کی بات ہے کہ افغانستان کا یہ تاریخی میچ ہندوستان کے ساتھ تھا۔ اس میچ میں دونوں ہی ٹیموں نے بہترین مظاہرہ کیا اور دوسرے افغانستان کے ہی ایک بالر راشد خان نے تو اس سال آئی پی ایل میں بھی کافی اچھا مظاہر کیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی نے مجھے ٹیگ کر اپنے ٹوئیٹر پر لکھا تھا –’’ افغانستان کے لوگوں کو اپنے ہیرو راشد خان پر بہت فخر ہے‘‘ میں اپنے ہندوستانی دوستوں کا بھی شکرگزار ہوں، جنہوں نے ہمارے کھلاڑیوں کو اپنا ہنر دکھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ افغانستان میں جو افضل ہے راشد خان اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ کرکٹ کی دنیا کا ایسٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تھوڑا مزاحیہ انداز میں یہ بھی لکھا ’’نہیں ہم اسے کسی کو دینے والے نہیں ہیں۔‘‘ یہ میچ ہم سبھی کے لیے ایک یادگار رہے گا۔ خیر یہ پہلا میچ تھا اس لیے یاد رہنا تو بہت قدرتی بات ہے لیکن مجھے یہ میچ کسی ایک خاص وجہ سے یاد رہے گا۔ ہندوستانی ٹیم نے کچھ ایسا کیا، جو پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ہندوستانی ٹیم نے ٹرافی لیتے وقت ایک فاتح ٹیم کیا کر سکتی ہے – انہوں نے کیا کیا! ہندوستانی ٹیم نے ٹرافی لیتے وقت ، افغانستان کی ٹیم جو کہ پہلی بار بین الاقوامی میچ کھیل رہی تھی، افغانستان کی ٹیم کو بلایا دیا اور دونوں ٹیموں نے ساتھ میں فوٹو لی۔ اسپورٹس مین اسپریٹ کیا ہوتی ہے، اسپورٹس مین شپ کیا ہوتی ہے – اس ایک واقعہ سے ہم محسوس کر سکتے ہیں۔ کھیل سماج کو ایک جٹ کرنے اور ہمارے نوجوانوں کا جو ہنر ہے، ان میں جو ہنرمندی ہے، اسے ڈھونڈھ نکالنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ہندوستان اور افغانستان دونوں ٹیموں کو میری مبارکباد ۔ مجھے امید ہے ہم آگے بھی اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پورے اسپورٹس مین اسپریٹ کے ساتھ کھیلیں گے بھی، کھلیں بھی۔
میرے پیارے ہم وطنوں! اس 21 جون کو چوتھے ’یوگا دیوس‘ پر ایک الگ ہی نظارہ تھا۔ پوری دنیا ایک جٹ نظر آئی۔ دنیا بھر میں لوگوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ یوگ ابھیاس کیا۔ بروسیلز میں یوروپین پارلیمنٹ ہو، نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہو، جاپانی بحری فوج کے لڑاکو جہاز ہوں، سبھی جگہ لوگ یوگ کرتے نظر آئے۔ سعودی عرب میں پہلی بار یوگ کا تاریخی پروگرام ہوا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ بہت سارے آسنوں کا ڈیمونسٹریشن تو عورتوں نے کیا۔ لداخ کی اونچی برفیلی چوٹیوں پر ہندوستان اور چین کے فوجیوں نے ایک ساتھ مل کر یوگاابھیاس کیا۔ یوگ سبھی سرحدوں کو توڑ کر ، جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ سینکڑوں ممالک کے ہزاروں پرجوش لوگوں نے ذات، دھرم، حلقہ، رنگ یا جنس ہر طرح کے تفریق سے باہر جاکر اس موقعے کو ایک بہت بڑا تہوار بنا دیا۔ اگر دنیا بھر کے لوگ اتنے پرجوش ہوکر ’یوگ دوس‘ کے پروگراموں میں حصہ لے رہے تھے تو ہندوستان میں اس کی خوشی کئی گنا کیوں نہیں ہوگی۔
ملک کو فخر ہوتا ہے، جب سوا سو کروڑ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حفاظتی دستوں کے جوانوں نے، بری – بحری اور فضائیہ تینوں جگہ یوگ ابھیاس کیا۔ کچھ بہادر فوجیوں نے جہاں آبدوز میں یوگ کیا، وہیں کچھ فوجیوں نے سیاچین کے برفیلے پہاڑوں پر یوگ ابھیاس کیا۔ فضائیہ کے ہمارے لڑاکوں نے تو آساھن میں زمین سے 15 ہزار فٹ کی اونچائی پر یوگاسن کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ دیکھنے والا نظارہ یہ تھا کہ انہوں نے ہوا میں تیرتے ہوئے کیا، نہ کی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کے۔ اسکول ہو، کالج ہو، دفتر ہو، پارک ہو، اونچی عمارت ہو یا کھیل کا میدان ہو، سبھی جگہ یوگ کا مشق ہوا۔ احمد آباد کا ایک منظر تو دل کو چھو لینے والا تھا۔ وہاں پر تقریباً 750 معذور بھائی – بہنوں نے ایک جگہ پر، ایک ساتھ جمع ہوکر یوگ ابھیاس کر کے عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ یوگ نے ذات، پنتھ اور جغرافیہ سے پرے جاکر دنیا بھر کے لوگوں کو جمع کرنے کا کام کیا ہے۔ ’واسودھیو کُٹمبکم‘ کے جس تاثر کو ہم صدیوں سے جیتے آئے ہیں۔ ہمارے رشی، منی، سنت جس پر ہمیشہ زور دیتے ہیں، یوگ نے اسے صحیح معنی میں ثابت کر کے دکھایا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ آج یوگ ایک ویلنیس، انقلاب کا کام کر رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یوگ سے ویل نیس کی جو ایک مہم چلی ہے، وہ آگے بڑھے گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ! مائی گوو اور نریندر مودی ایپ پر کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ میں اس بار کی ’من کی بات‘ میں ایک جولائی کو آنے والے ڈاکٹرس ڈے کے بارے میں بات کرو ں۔ صحیح بات ہے۔ ہم مصیبت کے وقت ہی ڈاکٹر کو یاد کرتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا دن ہے، جب ملک ہمارے ڈاکٹرس کی حصولیابیوں کو سیلیبریٹ کرتا ہے اور سماج کے تئیں ان کی خدمات اور عہد بندی کے لیے انہیں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم وہ لوگ ہیں، جو فطری طور پر ماں کو بھگوان کے طور ر پوجتے ہیں، بھگوان کے برابر مانتے ہیں کیونکہ ماں ہمیں زندگی دیتی ہے، ماں ہمیں جنم دیتی ہے، تو کئی بار ڈاکٹر ہمیں دوبارہ زندگی دیتا ہے۔ ڈاکٹر کا رول صرف بیماریوں کا علاج کرنے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اکثر ڈاکٹر خاندان کے دوست کی طرح ہوتے ہیں۔ ہمارے لائف اسٹائل گائڈس ہیں۔ ’’دے ناٹ اونلی کیور بٹ السو ہیل‘‘۔ آج ڈاکٹر کے پاس میڈیکل ایکسپرٹیز تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی ان کے پاس جنرل لائف اسٹائل ٹرینڈس کے بارے میں، اس کا ہمارے صحت پر کیا اثر پڑتا ہے، ان سب کے بارے میں گہرا تجربہ ہوتا ہے۔ ہندوستانی ڈاکٹروں نے اپنی قابلیت اور مہارت سے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ میڈیکل پروفیشن میں مہارت، سخت محنت کے ساتھ ساتھ ہمارے ڈاکٹر کمپلیکس میڈیکل پروبلیمس کو سالو کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے سے میں سبھی ہم وطنوں کی جانب سے ہمارے سبھی ڈاکٹر ساتھیوں کو آئندہ 1 جولائی کو آنے والے ڈاکٹرس ڈے کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! ہم ایسے قسمت والے لوگ ہیں جو کا اس ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی ایک ایسی وسیع تاریخ رہی ہے، جب کوئی ایسا مہینہ نہیں ہے، کوئی ایسا دن نہیں ہے، جس میں کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ نہ ہوا ہو۔ دیکھیں تو ہندوستان میں ہر جگہ کی اپنی ایک وراثت ہے۔ وہاں سے جڑا کوئی سنت ہے، کوئی مہاپرش ہے، کوئی مشہور آدمی ہے، سبھی کا اپنا اپنا تعاون ہے، اپنی قابلیت ہے۔
آ پ کے فون کال کے لیے بہت بہت شکریہ۔ یہ صحیح ہے کہ میں 28 تاریخ کو مگہر آ رہا ہوں اور ویسے بھی جب میں گجرات میں تھا، گجرات کا کبیروڈ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب میں وہاں کام کرتا تھا تو میں نے ایک سنت کبیر کی روایت سے جڑے لوگوں کا ایک بڑا، ایک قومی اجلاس بھی کیا تھا۔ آپ لوگ جانتے ہیں، کبیر داس جی مگہر کیوں گئے تھے؟ اس وقت ایک کہاوت تھی کہ مگہر میں جس کی موت ہوتی ہے، وہ سورگ نہیں جاتا۔ اس کے الٹ کاشی میں جس کی موت ہوتی ہے وہ سورگ جاتا ہے۔ مگہر کو ناپاک مانا جاتا تھا لیکن سنت کبیرداس اس پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اپنے وقت کی ایسی ہی غلط رواج کو انہوں نے توڑنے کا کام کیا اور اس لیے وہ مگہر گئے اور وہیں ان کی موت ہوئی۔ سنت کبیرداس جی نے اپنی ساکھیوں اور دوہوں کے ذریعے سے سماجی یکسانیت، امن اور بھائی چارے پر زور دیا۔ یہی ان کے نظریات تھے۔ ان کی تخلیقات میں ہمیں یہی نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں اور آج کے دور میں بھی وہ اتنے ہی تحریک دینے والے ہیں۔ ان کا ایک دوہا ہے:
کبیر سوئی پیر ہے، جو جانے پر پیر۔ |
جو پر پیر نہ جان ہی ، سو کا پیر میں پیر۔ ||
مطلب سچا پیر سنت وہی ہے جو دوسروں کے دکھ کو جانتا اور سمجھتا ہے، جو دوسرے کے دکھ کو نہیں جانتے وہ بے درد ہے۔ کبیر داس جی نے سماجی یکسانیت پر خاص توجہ دی تھی۔ وہ اپنے وقت سے بہت آگے سوچتے تھے۔ اس وقت جب دنیا میں گراوٹ اور جدوجہد کا دور چل رہا تھا انہوں نے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا اور لوگوں کو ایک ساتھ کر کے من مٹاؤں کو دور کرنے کا کام کیا۔
“’’جگ میں بیری کوئی نہیں، جو من شیتل ہوئے۔
یہ آپا تو ڈال دے، دیا کرے سب کوئے۔‘‘”
There will be no enmity in the world if the inner being is at peace.
Compassion should be the universal way of life.
ایک دوسرے دوہے میں کبیر لکھتے ہیں –
’’جہاں دیا تہم دھرم ہے، جہاں لوبھ تہاں پاپ۔
جہاں کرودھ تہاں کال ہے، جہاں چھما تہاں آپ۔‘‘
Compassion leads to righteousness,
Greed leads to sin.
Anger is sure to devour you,
Forgiveness is a great virtue.
انہوں نے کہا :
’’ذات نہ پوچھو سادھو کی، پوچھ لیجیے گیان۔
Never ask a saint his caste or creed;
Ask him about his repository of knowledge.
اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ذات پات سے اوپر اٹھ کر لوگوں کو علم کے طور پر مانیں، ان کی عزت کریں، ان کی باتیں صدیوں بعد بھی اتنی ہی اثردار ہے۔ ابھی جب ہم سنت کبیرداس جی کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو مجھے ان کا ایک دوہا یاد آتا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں :
“’’گرو گووند دو او کھڑے ، کاکے لاگو پا ئے|
بلیہاری گرو آپ نے، , گووند دیو بتائے۔‘‘“||
ایسی ہوتی ہے گرو کی مہانتا اور ایسے ہی ایک گرو ہیں، جگت گرو – گرو نانک دیو۔ جنہوں نے کوٹی کوٹی لوگوں کو سچا راستہ دکھایا، صدیوں سے ترغیب دیتے رہے۔ گرو نانک دیو نے سماج میں ذات پات کے تفریق کو ختم کرنے اور بنی نوع انسان کو ایک مانتے ہوئے انہیں گلے لگانے کی تعلیم دی۔
ایسی ہوتی ہے گرو کی مہانتا اور ایسے ہی ایک گرو ہیں، جگت گرو – گرو نانک دیو۔ جنہوں نے کوٹی کوٹی لوگوں کو سچا راستہ دکھایا، صدیوں سے ترغیب دیتے رہے۔ گرو نانک دیو نے سماج میں ذات پات کے تفریق کو ختم کرنے اور بنی نوع انسان کو ایک مانتے ہوئے انہیں گلے لگانے کی تعلیم دی۔ گرو نانک دیو کہتے تھے غریبوں اور ضرورتمنوں کی خدمت ہی بھگوان کی خدمت ہے۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے سماج کی بھلائی کے لیے کئی پہل کی۔ سماجی تفریق سے پاک رسوئی کا انتظام جہاں ہر ذات، مذہب یا کمیونٹی کا فرد آکر کھانا کھا سکتا تھا۔ گرو نانک دیو نے ہی تو اس لنگر نظام کی شروعات کی۔ 2019 میں گرو نانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو منایا جائے گا۔ میں چاہتا ہوں ہم سب لوگ جوش کے ساتھ اس سے جڑیں۔ آپ لوگوں سے بھی میری درخواست ہے گرو نانک دیو جی کے 550ویں پرکاش پرو پر پورے سماج میں اور دنیا بھر میں اسے کیسے منایا جائے، نئے نئے آئیڈیا کیا ہوں، نئے نئے مشورہ کیا ہوں، نئے نئے خیالات کیا ہوں، اس پر ہم سوچیں، تیاریاں کریں اور فخر کے ساتھ اس کو ہم سب، اس پرکاش پرو کو پریرنا پرو بھی بنائیں۔ .
میرے پیارے ہم وطنوں! ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد بہت لمبی ہے، بہت وسیع ہے، بہت گہری ہے، بے حساب شہادتوں سے بھری پڑی ہے۔ پنجاب سے جڑی ایک اور تاریخ ہے۔ 2019 میں جلیاں والا باغ کی اس خوفناک واقعہ کے بھی 100 سال پورے ہو رہے ہیں جس نے پورے بنی نوع کو شرم سار کر دیا تھا۔ 13 اپریل ، 1919 کا وہ کالا دن کون بھول سکتا ہے جب طاقت کا غلط استعمال کر کے بے رحمی کی ساری حدیں پار کر کے بے گناہ اور معصوم لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعہ کے 100 سال پورے ہونے والے ہیں۔ اسے ہم کیسے یاد کریں، ہم سب اس پر سوچ سکتے ہیں، لیکن اس واقعہ نے جو امر پیغام دیا، اسے ہم ہمیشہ یار رکھیں۔ یہ تشدد اور ظلم سے کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں کیا جا سکتا۔ جیت ہمیشہ امن اور عدم تشدد کی ہوتی ہے، قربانی کی ہوتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! دلی کے روہنی کے جناب رمن کمار نے نریندر مودی موبائل ایپ پر لکھا ہے کہ آنے والی 6 جولائی کو ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا یوم پیدائش ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس پروگرام میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے بارے میں ہم وطنوں سے بات کروں۔ رمن جی سب سے پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ۔ ہندوستان کی تاریخ میں آپ کی دلچسپی دیکھ کر کافی اچھا لگا۔ آپ جانتے ہیں، کل ہی ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی سالگرہ تھی 23 جون کو۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کئی شعبوں سے جڑے رہے لیکن جو شعبہ ان کے سب سے قریب رہے وہ تھے تعلیم، انتظامیہ اور پارلیمنٹری افیئرس ، بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ وہ کولکتہ یونیورسٹی کے سب سے کم عمر کے وائس چانسلر تھے۔ جب وہ وائس چانسلر بنے تھے تب ان کی عمر صرف 33 سال تھی۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ 1937 میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی دعوت پر جناب گرو دیو رویندر ناتھ ٹیگور نے کولکتہ یونیورسٹی میں کونووکیشن کو بنگلہ زبان میں خطاب کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب انگریزوں کی سلطنت تھی اور کولکتہ میں کسی نے بنگلہ زبان میں کونووکیشن کو خطاب کیا تھا۔ 1947 سے 1950 تک ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ہندوستان کے پہلے صنعت کے وزیر رہے اور ایک معنی میں کہیں تو انہوں نے ہندوستان کی صنعتی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی تھی ، ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کیا تھا۔ 1948 میں آئی آزاد ہندوستان کی پہلی صنعتی پالیسی ان کے آئڈیاز اور ویژن کی چھاپ لے کر کے آئی تھی۔ ڈاکٹر مکھرجی کا خواب تھا کہ ہندوستان ہر شعبے میں صنعتی طور سے خود مختار ہو، ہنرمند اور وسیع ہو۔
وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان بڑی صنعتوں کو ڈیولپ کریں اور ساتھ ہی ایم ایس ایم ای ، ہتھ کرگھا، کپڑا اور چھوٹی صنعت پر بھی پوری توجہ دیں۔ کٹیر اور چھوٹی صنعتوں کی پوری ترقی کے لیے انہیں فنانس اور آرگنائزیشن سیٹ اپ ملے، اس کے لیے 1948 سے 1950 کے درمیان آل انڈیا ہینڈی کرافٹس بورڈ، آل انڈیا ہینڈلوم بورڈ اور کھادی اینڈ ویلیج انڈسٹریز بورڈ قائم کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر مکھرجی کا ہندوستان کے دفاعی پروڈکشن کے سودیشی کرن پر بھی خاص زور تھا۔ چترنجن لوکوموٹیو ورکس فیکٹری، ہندوستان ایئرکرافٹ فیکٹری، سندری کا کھاد کارخانہ اور دامودر گھاٹی نگم، یہ چار سب سے کامیاب اور بڑے پروجیکٹس اور دوسرے ریور ویلی پروجیکٹس کے قیام میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کا بہت بڑا تعاون تھا۔ مغربی بنگال کی ترقی کو لے کر وہ کافی جذباتی تھے۔ ان کی سمجھ، دانش مندی اور سرگرمی کا ہی نتیجہ ہے کہ بنگلہ کا ایک حصہ بچایا جا سکا اور وہ آج بھی ہندوستان کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے لیے، جو سب سے اہم بات تھی، وہ تھی ہندوستان کی صداقت اور اتحاد – اور اسی کے لیے 52 سال کی کم عمر میں ہی انہیں اپنی جان گنوانی پڑی۔ آیئے۔ ہم ہمیشہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے یکجہتی کے پیغام کو یاد رکھیں، یکجہتی اور بھائی چارے کی سوچ کے ساتھ ، ہندوستان کی ترقی کے لیے جی جان سے جڑے رہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! گزشتہ کچھ ہفتوں میں مجھے ویڈیو کال کے ذریعے سے حکومت کی مختلف منصوبوں کے استفادہ کنندگان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ فائلوں سے باہر جاکر لوگوں کی زندگی میں جو تبدیلی آ رہی ہے، ان کے بارے میں براہ راست انہیں سے جاننے کا موقع ملا۔ لوگوں نے اپنے عزم، اپنے سکھ دکھ ، اپنی حصولیابیوں کے بارے میں بتایا۔ میں مانتا ہوں کہ میرے لیے یہ محض ایک سرکاری پروگرام نہیں تھا بلکہ یہ ایک الگ طرح کا لرننگ تجربہ تھا اور اس دوران لوگوں کے چہرے پر جو خوشیاں دیکھنے کو ملیں، اس سے بڑا سکون کا لمحہ کسی کی بھی زندگی میں کیا ہو سکتا ہے؟ جب ایک عام انسان کی کہانیاں سنتا تھا۔ ان کے بھولے بھالے جملے اپنے تجربے کی کہانی وہ جو کہہ رہے تھے، دل کو چھو جاتی تھی۔
دور دراز کے گاؤوں میں بیٹیاں کامن سروس سینٹر کے ذریعے سے گاؤوں کے بزرگوں کی پنشن سے لے کر پاسپورٹ بنوانے تک کے خدمات دستیاب کروا رہی ہیں۔ جب چھتیس گڑھ کی کوئی بہن سیتاپھل کو جما کر اس کی آئس کریم بنا کر روزگار کرتی ہے۔ جھارکھنڈ میں انجن پرکاش کی طرح ملک کے لاکھوں نوجوان ادویاتی مرکز چلانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے گاؤوں میں جاکر سستی دوائیاں دستیاب کروا رہے ہوں۔ وہیں مغربی بنگال کا کوئی نوجوان دو تین سال پہلے نوکری ڈھونڈھ رہا ہو اور اب وہ صرف اپنا کامیاب روزگار کر رہا ہے؛ اتنا ہی نہیں، دس پندرہ لوگوں کو اور نوکری بھی دے رہا ہے۔ ادھر تمل ناڈو، پنجاب، گوا کے اسکول کے طالب علم اپنی چھوٹی عمر میں اسکول کی ٹنکرنگ لیب میں ویسٹ مینجمنٹ جیسے اہم موضوع پر کام کر رہے ہوں۔ نہ جانے کتنی کتنی کہانیاں تھیں۔ ملک کا کوئی کونا ایسا نہیں ہوگا جہاں لوگوں کو اپنی کامیابی کی بات کہنی نہ ہو۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے ان تمام پروگرام میں حکومت کی کامیابی سے زیادہ عام انسان کی کامیابی کی باتیں ملک کی قوت، نئے ہندوستان کے خوابوں کی طاقت، نئے ہندوستان کے عزم کی قوت – اسے میں محسوس کر رہا تھا۔
سماج میں کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جب تک مایوسی کی باتیں نہ کریں، غیریقینی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں، جوڑنے کے بجائے توڑنے کے راستے نہ کھوجیں، تب تک ان کو سکون نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں عام انسان جب نئی امید، نئے جوش اور اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کی بات لے کر کے آتا ہے تو وہ سرکار کا کریڈٹ نہیں ہوتا۔ دور دراز ایک چھوٹے سے گاؤں کی چھوٹی سی بچی کا واقعہ بھی سوا سو کروڑ ہم وطنوں کے لیے ترغیب بن جاتا ہے۔ میرے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے، ویڈیو بریج کے ذریعے سے استفادہ کنندگان کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک لمحہ بہت ہی سکون دینے والا ، بہت ہی ترغیب دینے والا رہا اور اس سے کام کرنے کا سکون تو ملتا ہی ہے لیکن اور زیادہ کام کرنے کا جذبہ بھی ملتا ہے۔ غریب سے غریب شخص کے لیے زندگی گزارنے کا ایک اور نیا خوشی، ایک اور نئی جوش اور نئی ترغیبات حاصل ہوتی ہیں۔
میں ہم وطنوں کا بہت شکر گزار ہوں۔ 40-40، 50-50 لاکھ لوگ اس ویڈیو بریج کے پروگرام میں جڑے اور مجھے نئی قوت دینے کا کام آپ نے کیا۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں، اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اچھا ہوتا ہے۔ اچھا کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھائی کی خوشبو ہم بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بات میرے ذہن میں آئی اور یہ بڑا منفرد مجموعہ ہے۔ اس میں ایک جانب جہاں پروفیشنلز اور انجینئرس ہیں وہیں دوسری جانب کھیت میں کام کرنے والے ، کھیتی سے جڑے ہمارے کسان بھائی بہن ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو دو بالکل الگ الگ صنعت ہیں – ان کا کیا تعلق؟ لیکن ایسا ہے، بینگلورو میں کارپوریٹ پروفیشنلس، آئی ٹی انجینئرس ساتھ آئے۔ انہوں نے مل کر ایک آسان ’سمردھی ٹرسٹ‘ بنایا ہے اور انہوں نے کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو، اس کے لیے اس ٹرسٹ کو ایکٹیویٹ کیا۔ کسانوں سے جڑتے گئے، منصوبے بناتے گئے اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کامیاب کوشش کرتے رہے۔ کھیتی کی نئی تکنیک سکھانے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی کھیتی کیسے کی جائے؟ کھیتوں میں ایک فصل کے ساتھ ساتھ اور بھی فصل کیسے اگائی جائے؟ یہ ٹرسٹ کے ذریعے ان پروفیشنلز ، انجینئر، ٹیکنوکریٹ کے ذریعے کسانوں کو ٹریننگ دی جانے لگی۔ پہلے جو کسان اپنے کھیتوں میں ایک ہی فصل پر منحصر ہوا کرتے تھے۔ اپج بھی اچھی نہیں ہوتی تھی اور منافع بھی زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ آج وہ نہ صرف سبزیاں اگا رہے ہیں اور بلکہ اپنی سبزیوں کی مارکیٹنگ بھی ٹرسٹ کے ذریعے سے کر کے، اچھی قیمت حاصل کر رہے ہیں۔ اناج پیدا کرنے والے کسان بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
ایک طرف فصل کی پیداوار سے لے کر مارکیٹنگ تک پوری چین میں کسانوں کا ایک اہم رول ہے تو دوسری جانب منافع میں کسانوں کی حصہ داری کو یقینی بنانا ان کے حق کو یقینی بنانے کی کوشش ہے۔ فصل اچھی ہو، اس کے لیے اچھی نسل کے بیج ہوں۔ اس کے لیے الگ سیڈ بینک بنایا گیا ہے۔ خواتین اس سیڈ بینک کا کام دیکھتی ہیں۔ خواتین کو بھی جوڑا گیا ہے۔ میں ان نوجوانوں کو اس اہم تجربہ کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ پروفیشنلس، ٹیکنوکریٹ، انجینئرنگ کی دنیا سے جڑے ان نوجوانوں نے اپنے دائرے سے باہر نکل کر کے کسان کے ساتھ جڑنا، گاؤں کے ساتھ جڑنا، کھیت کے ساتھ جڑنے کا جو راستہ اپنایا ہے۔ میں پھر ایک بار اپنے ملک کی نوجوان نسل کو ان کے ان اہم تجربوں، کو کچھ جو شاید میں نے جانا ہوگا، کچھ نہیں جانا ہوگا، کچھ لوگوں کو پتہ ہوگا، کچھ پتہ نہیں ہوگا لیکن مسلسل لوگ کچھ نہ کچھ اچھا کر رہے ہیں، ان سب کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ۔
میرے پیارے ہم وطنوں ! جی ایس ٹی کو ایک سال پورا ہونے والا ہے۔ ’ون نیشن، ون ٹیکس‘ ملک کے لوگوں کا خواب تھا، وہ آج حقیقت میں بدل چکا ہے۔ ون نیشن ون تیکس ریفارم، اس کے لیے اگر مجھے سب سے زیادہ کسی کو کریڈٹ دینا ہے تو میں ریاستوں کو کریڈٹ دیتا ہوں۔ جی ایس ٹی کوآپریٹیو فیڈرالزم کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں سبھی ریاستوں نے مل کر ملک کے حق میں فیصلہ لیا اور تب جاکر ملک میں اتنا بڑا ٹیکس ریفارم نافذ ہو سکا۔ اب تک جی ایس ٹی کونسل کی 27 میٹنگ ہوئی ہیں اور ہم سب فخر کر سکتے ہیں کہ مختلف سیاسی سوچ والے لوگ وہاں بیٹھتے ہیں، مختلف ریاستوں کے لوگ بیٹھتے ہیں، الگ الگ پرائیوریٹی والے ریاست ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی جی ایس ٹی کونسل میں اب تک جتنے بھی فیصلہ کیے گئے ہیں، وہ سارے سب کی مرضی سے کیے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی سے پہلے ملک میں 17 الگ الگ طرح کے ٹیکس ہوا کرتے تھے لیکن اس نظام میں اب صرف ایک ہی ٹیکس پورے ملک میں نافذ ہے۔ جی ایس ٹی ایمانداری کی جیت ہے اور ایمانداری کا ایک تہوار بھی ہے۔ پہلے ملک میں کافی بار ٹیکس کے معاملے میں انسپکٹر راج کی شکایتیں آتی رہتی تھیں۔
جی ایس ٹی میں انسپکٹر کی جگہ آئی ٹی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ ریٹرن سے لے کر ریفنڈ تک سب کچھ آن لائن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتا ہے۔ جی ایس ٹی کے آنے سے چیک پوسٹ ختم ہو گئی اور مال سامانوں کی آمد و رفت تیز ہو گئی، جس سے نہ صرف وقت بچ رہا ہے بلکہ لاجسٹکس کے شعبے میں بھی اس کا کافی فائدہ مل رہا ہے۔ جی ایس ٹی شاید دنیا کا سب سے بڑا ٹیکس ریفارم ہوگا۔ ہندوستان میں اتنا بڑا ٹیکس ریفارم کامیاب اس لیے ہو پایا کیونکہ ملک کے عوام نے اسے اپنایا اور اتنا بڑا ریفارم ، اتنا بڑا ملک، اتنی بڑی آبادی اس کو پوری طرح سے مستحکم ہونے میں 5 سے 7 سال کا وقت لگتا ہے لیکن ملک کے ایماندار لوگوں کا جوش ، ملک کی ایمانداری کا تہوار لوگوں کی حصہ داری کا نتیجہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر یہ نیا ٹیکس نظام اپنی جگہ بنا چکا ہے، استحکام حاصل کر چکا ہے اور ضرورت کے مطابق اپنی ان بلٹ نظام کے ذریعے وہ اصلاح بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے حاصل کی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! پھر ایک بار ’من کی بات‘ کو ختم کرتے ہوئے اگلے من کی بات کا انتظار کر رہا ہوں، آپ سے ملنے کا، آپ سے باتیں کرنے کا۔ آپ کو بہت بہت مبارکباد۔
بہت بہت شکریہ۔
Namaskar. Through ‘Mann Ki Baat’, I once again have been blessed with the opportunity to be face-to-face with you. I am sure you distinctly remember that for the last many months, a naval team comprising six women Commanders was on a voyage. I want to tell you something about the ‘Naavika Saagar Parikrama’. These six illustrious daughters of India circumnavigated the globe for over more than 250 days on board the INSV Tarini, returning home on the 21st of May. The entire country welcomed them with open arms, with high spirits. They traversed a multitude of oceans, many a sea, over a distance of almost twenty two thousand nautical miles. This was a first of its kind event in the entire world. Last Wednesday, I got an opportunity to meet these daughters and listen to their experiences. Once again, I congratulate these daughters and their spirit of adventure for bringing laurels to the country, for raising the glory of the Navy and significantly so, for conveying to the world that India’s daughters are no less. Who does not know of the sense of adventure? If you view the journey of human evolution, you will notice that breakthroughs in progress have taken birth in the womb of some adventure or the other. There is an umbilical link between development and adventure; the resolve to achieve something, the burning desire to do something unparalleled, the sentiment proclaiming “I too can do it”. The number of such people may be miniscule, but they turn out to be sources of inspiration for millions of others, spanning an array of eras. Recently, you must have come across quite a few notable happenings pertaining to mountaineers attempting to scale Mount Everest. For centuries, Everest has been throwing the gauntlet at humankind. And for long, brave hearts have been responding to the challenge.
On the 16th of May, a team comprising five tribal students of an Ashram School in Chandrapur, Maharashtra- Maneesha Dhurve, Pramesh Ale, Umakant Madhavi, Kavidas Katmode and Vikas Soyam- scaled the world’s highest peak. These Ashram School students began training in August, 2017, covering Wardha, Hyderabad, Darjeeling and Leh-Ladakh. These young boys & girls had been selected under ‘Mission Shaurya’. True to its name, they brought glory to the country with their brave deed of conquering the Everest. I congratulate these young friends and members of the school in Chandrapur, from the core of my heart. Just a while ago, 16 year old Shivangi Pathak became the youngest Indian woman to scale Everest from the Nepal side. Heartiest congratulations, Beti Shivangi.
Ajit Bajaj and his daughter became the first ever father-daughter duo to ascend Everest. And it’s not that only the young are climbing Everest. On the 19th of May, Sangeeta Bahal, aged more than 50, scaled the Everest. There are some mountaineers who have shown that apart from possessing skills, they are sensitive too.
A few days ago, under the ‘Clean Ganga Campaign’, a group from the BSF Scaled the Everest and while returning, removed loads of trash littered there and brought it down. This deed is commendable indeed; it also displays their commitment towards cleanliness and the environment. People have been ascending the Everest for years & many have managed to reach the peak successfully. I congratulate these daredevils, especially the daughters from the core of my heart.
My dear countrymen, especially my young friends, just a couple of months ago, when I mentioned ‘Fit India’, I did not think it would draw such a good response; that a large number of people would come forward to support it. When I say ‘Fit India’, I believe that the more we play, the more we will inspire the country to come out & play. People are sharing videos of Fitness Challenge on social media; they are tagging each other to spread the challenge. Everybody is now getting connected with this Fit India Campaign. People from the film fraternity, from the world of Sports, common citizens of the country, members of the armed forces, school teachers or even those toiling in fields and farms, their rising notes are building up a crescendo ‘Hum Fit toh India Fit’… ‘If we are fit, India is fit’. For me, it’s heartwarming that the captain of the Indian Cricket team Virat Kohli ji has included me in his challenge… and I too have accepted his challenge. I believe this is gainful and this kind of a challenge will inspire us to be fit along with others, as well.
My dear countrymen, many a time in ‘Mann Ki Baat’, you must have heard me mention a thing or two about sports & sportspersons. And in the last episode, our heroes of the Commonwealth Games shared with us their ‘Mann Ki Baat’, matters close to their hearts through this programme.
Chhavi Yadav ji, thank you very much for your phone call. It is true that sports & games that were once a part & parcel of every child’s life, in every lane in the neighbourhood, are fading into oblivion. These games used to be a special feature of summer holidays. Sometimes in scorching afternoons; at times after dinner, children used to play with exuberant abandon for hours together, leaving all worries behind. Some games saw the participation of the whole family. Aiming the ball at the crooked column of stone slats- Pitthoo, playing marbles, testing one’s agility in Kho kho, spinning the top, Lattoo, or applying skills in swiftly flicking the tapered- edged wooden peg and hitting it aloft-Gilli-Danda, innumerable games were an inseparable part of each & every child’s life from Kashmir to Kanyakumari, from Kutch to Kamrup. Of course, those games were known by different names, depending on the place. Pitthoo is one such game. Some called it Lagori, at other places it was Satoriya, Saat Pathar, Dikori, Satodiya… one game with many names! Traditional sports and games comprise both varieties… outdoor and indoor as well. The unity, intrinsic to our country’s diversity can be witnessed in these games. A single game is known by distinct names at different places. I am from Gujarat. I known of a game played in Gujarat called Chomal Isto. It is played with cowries or tamarind seeds or dice on an eight by eight square board. It used to be played in almost every state. Known as Chowkabara in Karnataka, Attoo in Madhya Pradesh, Pakidakaali in Kerala, Champal in Maharashtra, Daayaam and Thaayaam in Tamilnadu, Changaa Po in Rajasthan, it had innumerable names. One realizes after playing, despite not knowing the language of a particular state, “Oh! We used to play this game in our state as well!” Who amongst us would not have enjoyed playing Gilli-Danda in our childhood? This is a game that is played across villages and cities. It is also known by different names. In Andhra Pradesh it is called Gotibilla or Karrabilla. In Odisha it’s called Gulibadi and in Maharashtra, Vittidaaloo. Some games are seasonal. There is a season for flying kites. While flying a kite or playing a game, one freely expresses one’s inherent unique qualities. You must have seen many a child, shy by nature, leap up with zest, the moment a game begins. Even children with a seemingly serious countenance start expressing themselves; while playing, the innate child within them comes to the fore. Traditional sports and games are structured in such a manner that along with physical ability, they enhance our logical thinking, concentration, alertness and energy levels. Games are not just games; they teach us values in life, such as, setting targets, building up determination, developing team spirit and fostering mutual co-operation. I recently noticed in a training programme in Business Management, our traditional sports and games being used for improving overall personality development and interpersonal skills. These games are proving to be handy in overall development. And then, there is no prescribed age limit for participating in them. From tiny tots to Grandfather-Grandmother, when we all play these games together then the term ‘Generation Gap’ disappears on its own. At the same time, we also come to know about our culture and traditions. Many games also make us aware about our society, environment and other spheres.
It is a matter of concern, whether these sports & games will fade away to the point of extinction. It will not just be a loss of a game; it will be the loss of the spirit of childhood, something that will exist only in the verses of poetry.
Ye daulat bhi le lo
Ye shohrat bhi le lo
Bhale chheen lo mujhse meri jawani
Magar mujhko lauta do bachpan ka sawan
Wo kagaz ki kashti, wo baarish ka paani
Take away all my riches
Bereave me of all this fame
Snuff out my youth if you so wish
But do return the monsoon that drenched me as a child
The puddles & my paper boats, the magic of my rains.
And we will be forever reduced to listening to this song, hence we must keep our traditional sports alive. It is crucial that today schools, neighbourhoods and youth congregations should come forward and promote these games. Through crowd sourcing we can create a very large archive of our traditional games. The Videos of these games can be shot, outlining the way to play these games along with the mandatory rules and regulations. Animation films can also be made so that our young generations for whom these games played in our streets are something to marvel about, can see, play for themselves and thus bloom.
My dear countrymen, on the 5th of June, our nation, India will officially host the World Environment Day Celebrations. This is a very important achievement for India and it is also an acknowledgement as well as recognition of India's growing leadership in the direction of tackling climate change.
This time the theme is 'Beat Plastic Pollution'. I appeal to all of you, that while trying to understand the importance of this theme, we should all ensure that we do not use low grade polythene and low grade plastics and try to curb the negative impact of plastic pollution on our environment, on our wild life and our health. Let us all visit the World Environment Day website ‘wed-india 2018’ and try to imbibe and inculcate the many interesting suggestions given there into our everyday life.
Whenever we face a torrid summer, or floods, incessant rains or unbearable cold, everybody becomes an expert, analyzing global warming and climate change. But does empty talk bring about any solutions? Being sensitive towards nature, protecting nature, should come naturally to us; these virtues should be embedded in our sanskar.
In the past few weeks, we all witnessed that there were dust storms in the different regions of the country, along with heavy winds and unseasonal heavy rains. There was also loss of life and property. These calamities are basically the result of the change in weather patterns. Our culture, our traditions have never taught us to be at loggerheads with nature.
We have to live in harmony and in synchronicity with nature, we have to stay in touch with nature. Mahatma Gandhi had advocated this wisdom at every step of his life. Today when India speaks of climate justice or plays a major role in the Cop21 and Paris agreements or when we unite the whole world through the medium of International Solar Alliance, they all are rooted in fulfilling that very dream of Mahatma Gandhi.
On this environment day, let all of us give it a good thought as to what can we do to make our planet cleaner and greener? How can we progress in this direction? What innovative things can we do? The rainy season is fast approaching; we can set a target of achieving record plantation of trees this time and not only plant trees but also nurture and maintain the saplings till they grow.
My dear countrymen and especially my young friends, you do remember the 21st of June now; not only you and I, June 21st remains a part of the entire world’s collective consciousness. The 21st of June has been mandated and is celebrated as the International Yoga Day in the entire world and people start preparing for it months in advance. The news being received these days is that there are preparations afoot in the whole world to celebrate 21st June as International Yoga Day.
Yoga for unity and a harmonious society conveys a message that has permeated the world over. Centuries ago, the great Sanskrit Poet Bhartahari had written in his ‘Shataktrayam’.
धैर्यं यस्य पिता क्षमा च जननी शान्तिश्चिरं गेहिनी
सत्यं सूनुरयं दया च भगिनी भ्राता मनः संयमः।
शय्या भूमितलं दिशोSपि वसनं ज्ञानामृतं भोजनं
एते यस्य कुटिम्बिनः वद सखे कस्माद् भयं योगिनः।।
[A man whose father is patience, mother is forgiveness and peace as consort, Truth as his friend, compassion as his sister and restraint for brother as family members and whose bed is the great earth, is clothed by the great sky and whose food is only knowledge. Is indeed a Yogi who won't know any fear.]
This observation expressed centuries ago, straightaway implies that practicing yogic exercises on a regular basis leads to imbibing benefic attributes which stand by our side like relatives and friends. The practice of yoga leads to building up of courage, which always protects us like a father. The practice of yoga leads to germination of a sense of forgiveness in the same manner as a mother has for her children and mental peace becomes our permanent friend. Bhartahari has said that with regular yogic exercise, truth becomes our child, mercy becomes our sister, self restraint our brother, earth turns in to our bed and knowledge satiates our hunger. When so many attributes become one's partner, then that yogi conquers all forms of fear. Once again, I appeal to all the citizens to adopt their legacy of yoga and create a healthy, happy and harmonious nation.
My dear countrymen, today is the 27th of May, the death anniversary of the first Prime Minister of India, Pandit Jawaharlal Nehru ji. I render my pranam to Pandit ji. Memories of this month are also linked with Veer Savarkar. This was the very month, the month of May 1857, when Indians had displayed their strength against the British. In many parts of the country, our youth and farmers demonstrated their bravery whilst standing up against the injustice. It is indeed sad that we kept on calling the events of 1857 only as a rebellion or a soldiers’ mutiny for a very long time.
In fact, May 1857 was not only evaluated as a minor historical incident but was also an attempt to dent our self-respect. It was Veer Savarkar who boldly expostulated by writing that whatever happened in 1857 was not a revolt but was indeed the First War of Independence. Savarkar along with his band of brave hearts celebrated the 50th anniversary of the First War of Independence with great fanfare at India house in London. It is also an amazing coincidence that the month which witnessed the First Struggle for Independence was the month in which Veer Savarkar ji was born. Savarkar ji’s personality was full of special qualities; he was a worshipper of both weapons or shashtra and Knowledge or shaashtras.
Generally Veer Savarkar is renowned for his bravery and his struggle against the British Raj. But besides these sterling qualities, he was also a striking poet and a social reformer who always emphasized on goodwill and unity. A wonderful account about Savarkarji has been given by our dear honorable Atal Bihari Vajpayee Ji. Atal ji had said - Savarkar means brilliance, Savarkar means sacrifice, Savarkar means penance, Savarkar means substance, Savarkar means logic, Savarkar means youth, Savarkar means an arrow, and Savarkar means a Sword! Behold! What an accurate depiction of Savarkar by Atal ji! Savarkar marched along with both poetry and revolution. Besides being a sensitive poet, he was also a courageous revolutionary.
My dear brothers and sisters, I was watching a story on TV about our underprivileged daughters of certain slums in Sikar, Rajasthan. Our daughters, who were forced to sift through garbage and beg from home to home in order to earn a living - today they are learning sewing and stitching clothes to cover the impoverished. This is an example where the daughters are stitching ordinary to good quality clothes for themselves and other families. Along with this, they are undergoing a training course in skill development.
These daughters have become self-reliant today and are living their lives with respect and have become a strong support to their families. I wish all these daughters, brimming with hope and trust, a very bright future. They have demonstrated that if you have the desire to do something and if you are determined towards that goal then success can be achieved despite all odds! And this is not only about Sikar, but in every corner of India, you will witness something akin to this. If you observe in your neighbourhood, then you will witness for yourselves how people overcome the difficulties in their lives!
You must have realized that whenever we go to a tea shop, and enjoy tea there, a discussion with some of the customers automatically ensues. These discussions are also political and social in nature, can be about movies, sports and sportspersons or can focus even on the problems of the country – any problem with probable solutions are discussed at length – but often the problems and their solutions remain limited to such animated discussions only.
But there are some people who go ahead with their work, to bring about a change through their hard work and dedication; they make it a reality. Such is the story of D. Prakash Rao, living in the slums of Cuttack, Orissa, who gave up everything of his in order to adopt and realize the dreams of others! Just yesterday I’ve had the good fortune of meeting D. Prakash Rao.
Shriman D. Prakash Rao has been a tea vendor in the city of Cuttack for the past five decades. A meagre tea vendor; today you will be surprised to know that the lives of more than 70 children are being illuminated through education due to his efforts. He has opened a school named 'Asha Ashvaasan', spending 50% of his income for children living in slums and hutments. He ensures education, health and meals for all the children coming to this school. I congratulate D. Prakash Rao for his hard work, his persistence and for providing a new direction to the lives of those poor children attending his school. He has banished the darkness from their lives. Who amongst us does not know the Vedic shloka 'Tamso Ma Jyotirgamaya'! However, it has been put into practice by D. Prakash Rao. His life is an inspiration to us, our society and the whole country. Your surroundings too must be full of such inspiring happenings. There must be innumerable incidents. Come, let us take positivity forward.
The month of June is so hot that people anxiously wait for the rains, gazing towards the sky for the clouds to appear. People will wait for the moon in a few days from now onwards. Witnessing the moon means that the festival of Eid can be celebrated. After an entire month of fasting during Ramzan, the festival of Eid is a harbinger of celebrations.
I hope and believe that everyone will celebrate Eid with gaiety and fervor and on this occasion children will specially get a grand ‘Eidi’. I hope that the festival of Eid will further strengthen the bonds of harmony in our society. Heartiest felicitations to all of you. My dear countrymen, many thanks to you all. We shall meet once again in another episode of ‘Mann Ki Baat’ next month.
Namaskar
My dear countrymen, Namaskar. Just a while ago, from the 4th of April to the 15th of April, the 21st Commonwealth Games were held in Australia. 71 countries, including India, participated therein. With an event of such scale & magnitude, which saw the participation of thousands of sportspersons from myriad corners of the world, can you imagine the mood that must have pervaded the atmosphere there? An air of excitement, zeal, enthusiasm, hope, aspirations, the determination to achieve – who would want to stay away from an atmosphere like that? These were the times when people all over the country pondered eagerly everyday on the line-up of sportspersons, scheduled for their respective performances. How will India’s performance be, what will our medal tally look like? These questions were but natural. Our sportspersons too lived up to the countrymen’s expectations and displayed stellar performances, winning one medal after another. Shooting or Wrestling, Table Tennis or Badminton, it was a record performance for India. 26 Gold, 20 Silver, 20 Bronze, India bagged a tally of around 66 medals. This success makes every Indian swell with pride. Of course, winning medals is a moment of joy & glory for a sportsperson; it is equally so as a festival of laurels for the country & her countrymen. After the conclusion of a match, representing India, when the athletes draped in the tricolor rise, displaying their medals, the notes of the National Anthem being played evoke a sense of joy and fulfillment, glory and honour. This is very, very special in itself. It is a touching moment that fills one’s heart with thrill; it is a moment full of zest & warmth. It is a wave of emotions that engulfs all of us simultaneously. Perhaps, to express those sentiments I’ll run short of words. But I want to share with you what I heard from these heroes. I feel immensely proud; you too will feel so.
India’s performance in the Commonwealth Games was par excellence. At the same time, it was special. Special in the sense that this time there were many pathbreaking ‘firsts’. Are you aware that out of the wrestlers who represented India, each one of them returned with a medal? Manika Batra won a medal in each of the events that she competed in. She is the first Indian woman to win a gold in the individual table tennis category too. India clinched the maximum number of medals in shooting. Deepak Lather of Haryana became the youngest Indian Weight-Lifter to win a medal at Commonwealth games. 15 year old Indian shooter Anish Bhanwala became the youngest sportsperson to win a gold for India. Sachin Chowdhary is the sole Indian Para Power Lifter to win a medal at the Commonwealth Games.
This edition of the games was special on one more count- a majority of the medalists was women athletes. In squash, boxing, weightlifting and shooting – the performance of women turned out to be par excellence. The final contest in Badminton took place between two Indian Shuttlers, Saina Nehwal and P.V. Sindhu. Everyone was thrilled for the fact that despite there being competition, the ultimate medal winner had to be India. The whole country watched it with abated breath. I too enjoyed watching the match. This year, India fared well in Athletics too. Indian sprinters Mohammad Anas & Hema Das missed a medal narrowly, but their record performance has brought glory to the nation. I congratulate them too… my best wishes to them. Athletes who participated in these games hail from various parts of the country, even from smaller towns. They have reached this pinnacle, crossing a great deal of hurdles and hardships. Today, the positions they have secured for themselves, the targets they have achieved, owes a lot to the efforts & contribution of their parents, guardians, coaches, support staff, schools, teachers, the atmosphere provided by their Schools, during this journey in their lives. Even their friends have contributed by boosting their morale under all circumstances. I also congratulate them along with the sportspersons, my good wishes to them. I feel all these athletes have brought laurels to the country with their stellar performances; the fact is, their performances are not mere displays… they are sources of encouragement for upcoming Sportspersons and the young generation of the country alike.
Last month during ‘Mann Ki Baat’, I had urged our countrymen, especially the youth to espouse ‘Fit India’. I had invited everyone to join ‘Fit India’, lead ‘Fit India’. I was overjoyed to see people getting connected to it with a lot of enthusiasm. Expressing support for this, many people have written to me, sent me letters, shared ‘fitness mantra- Fit India’ stories on social media.
A gentleman Shriman Shashikant Bhonsale, sharing his photo by the swimming pool, has written, ‘My weapon is my body, my element is water, my world is swimming’.
Rooma Devnath writes, “I truly feel happy & healthy through my Morning Walks. She further adds,” For me, fitness comes with a smile and we should smile, when we are happy.
Devnathji, indeed, happiness is fitness, and there’s no doubt about it.
Dhawal Prajapati, sharing a photograph of himself trekking, has written; ‘For me, travelling & trekking is ‘Fit India’.
It was heartening to see many eminent personalities encouraging our youth in interesting ways for Fit India. Cine artiste Akshay Kumar has shared a video on Twitter. Even I have gone through it, you too should view it- it shows him exercising with wooden beads. He has mentioned that this exercise benefits muscles of the back and the stomach, to a great extent. Another video of his has gained popularity; in this he’s trying his hand on the volleyball with others. Many other young people have shared their experiences, having joined the ‘Fit India’ efforts. I feel movements like these are beneficial for all of us, for the entire country. I would additionally like to mention, that the movement of ‘Fit India’, without any expense, is called ‘YOG’. Yog has a special significance in the ‘Fit India’ campaign. You too must be busy with preparations… the significance, the merit of 21st June, International Yog Day has been accepted & welcomed globally. Do begin preparing for the Day rightaway. And not just yourself- your city, village, neighbourhood, school, college, men, women, everyone should make an attempt to connect with yog. Nowadays, the benefits of yog in one’s holistic physical & mental development does not need to be told… neither in India nor elsewhere in the world. You must have viewed an animated video depicting me, that has been widely circulated. I congratulate those from the field of animation for highlighting nuances, just the way a teacher does. You too will benefit from it.
My young friends, you now must be out of the tread mill of exams, exams & more exams; you must be wondering about spending your holidays. You must be contemplating on ways to enjoy your vacations and places to travel to! I would like to talk to you today, to invite you on a new task. I’ve seen a lot of young people these days, spending time in learning new things. The significance of Summer Internship is soaring; as it is, an altogether new experience in itself. One gets an opportunity to experience life anew, away from closeted walls, away from paper & pen and computers. Dear young friends, today I urge you to undergo a special internship. Three Ministries of the Government of India; maybe four- Sports, HRD, Department of Drinking water have come together to launch a ‘Swachch Bharat Summer Internship 2018’. College students, young people from the NCC and Nehru Yuva Kendra, whoever want to do something substantial & learn something for the sake of society, & the country, those who want to get connected with transforming the country and be a reason for it, those who want to do something or the other for society with a positive energy- for them, there is a great opportunity! Even the cause of the cleanliness campaign will get a boost, and when we celebrate the 150th birth anniversary of Mahatma Gandhi, we’ll surely attain a sense of fulfillment. And let me tell you, the best out of the best interns who have strived in schools & colleges with excellent work will be rewarded with recognition at the national level. Not just that, those interns who accomplish their tasks well, will be awarded two credit points each, by the UGC. Once again, I invite students & young people, boys & girls to avail of the benefits of the internship. You can register yourselves for the ‘Swachch Bharat Summer Internship’ on Mygov. I hope our youth will lend a hand in taking this movement of cleanliness forward. I too am eager to know more about your efforts. Do send in your learning experience, do post your stories, photos and videos. Come. Let us turn this vacation into a learning opportunity, for a totally new experience.
My dear countrymen! I try to watch “Good News India” programme on Doordarshan whenever I get a chance and I would appeal to my countrymen that we all should also watch this “Good News India” programme wherein we get to know as to how many people in various parts of our country are doing many good things and that such good things are happening.
Recently, I saw that they were presenting the story of some youth from Delhi who are selflessly working in a dedicated manner to help in educating the poor children. This group of youngsters has started a big campaign in Delhi for providing education to the street children and slum dwellers. Initially, shocked to see the condition of children begging around or doing some menial jobs that this group of youngsters got dedicatedly, selflessly involved into this creative mission. Starting with just 15 children from the slums near Geeta Colony in New Delhi it is now being run at 12 places and two thousand children have been brought under its fold. Young teachers associated with this campaign find out a free time of two hours from their busy schedule and contribute in this stupendous mission of bringing out a social transformation.
Dear brothers and sisters, in this very way, some farmers from hilly areas of Uttarakhand have become a source of inspiration for the farmers across the country. With their collective efforts, they have not only changed their own fortunes but have changed fortunes of the whole region. In Bageshwar in Uttarakhand, main crops sown are Mandwa, Chaulai, Corn or Barley. This being a hilly area, the farmers did not get a fair price of their produce. But, the farmers in Kapkot tehsil decided to come out of this situation and adopted a value- addition process and changed the loss incurring equation into a profit-earning one. What they did was that they started production of biscuits from their agricultural produce and sold those biscuits directly in the market. Consequently, Chaulai which the farmers were forced to sell at Rs. 25 per Kg was now selling at Rs. 50 per Kg as biscuits.
Besides, there is a strong belief that the land in this area is iron-rich and these iron rich biscuits are very good for pregnant women as they overcome the deficiency of iron. These farmers have formed a cooperative society in Munar village and set-up a biscuit factory there. Impressed by the bold initiative of these farmers, the administration has also linked this to the National Livelihood Mission. These biscuits are now being supplied upto Almora and Kousani besides being sold to about fifty Aanganwadi kendras in Bagheshwar district. With the hard work of these farmers, the annual turnover of the society has gone up from 10 to 15 lakh rupees and with more than 900 families getting employment here, people have stopped migrating to other places.
My dear countrymen, we often hear that in, times to come, the world will face a war because of water. Everyone talks about this but do we not have any responsibility towards conservation of water? Do we not feel that water conservation must be a social responsibility? This must be a collective responsibility. How can we conserve each single drop of rain water? And, we all know this. And, water conservation is not a new topic for us; it is neither a part of the academic curriculum nor a part of our languages. Our forefathers have lived this as a way of life for centuries together. They gave due priority and importance to each single drop of water. They found out newer methods in order to conserve every single drop of water. Those of you who might be getting a chance to visit Tamilnadu might have noticed that in some temples in the state, there are carvings on stone depicting irrigation system, water conservation methods and drought management. There are vast stone inscriptions in these temples and devotees get a chance to read these educative messages. May it be Mannarkovil, Chiran Mahadevi, Kovilpatti or Pudukottai – you will get to see massive stone inscriptions to this effect. Several baodis (stepwells) are famous as tourist spots but please do not forget that these are the living symbols of the water conservation campaigns which our forefathers had accomplished.
Adalaj and Patan Ki Raniki Vaav (Baodi) in Gujarat is a UNESCO World Heritage site and its grandeur is to be seen to be believed. Baodis are water temples in a way. If you happen to go to Rajasthan, you must visit Chand Baodi. This is one of the biggest and the most beautiful baodis of India and the point to be noted is that this is situated in a water-scarce area. April, May, June and July is the most suitable time when rain water harvesting can be done and if we make preparations in advance, we can reap a rich harvest. Budget under MNREGA is also utilized for this water conservation activity. During the last three years, everyone in his or her own way has contributed towards water conservation and water management. An average of 32,000 crore rupees have been spent besides the MNREGA budget each year on water conservation and water management. If we talk of 2017-18, 55 percent of the total outlay of Rupees 64 thousand crores, which comes to around rupees 35 thousand crores, has been spent on works like water conservation. In last three years, nearly 150 lakh hectares of land got more benefit through water conservation and water management measures. Some people have really benefitted very well from MNREGA budget provisions made by the Government of India for water conservation and water management works. A project of reviving the rivers which had dried out was undertaken in Kerala. Seven thousand workers under MNREGA worked very hard for seventy days and finally succeeded in reviving Kuttumperoor river there. The Ganges and the Yamuna have plentiful of water but there are many other places in Uttar Pradesh like Fatehpur district where two small rivers namely Sasur-Khaderi got dried out. After receiving the reports of Remote Sensing Imagery and Inter Department Coordination, the district administration took up the responsibility of soil and water conservation on a massive scale. They succeeded in reviving the dried out Sasur Khaderi river with the help and cooperation of people from 40-45 villages of the area. This grand achievement is a big boon for animals, birds, farmers, crops and villages. I emphasis that once again April, May, June and July are before us and we must also take up some responsibility for water harvesting and water conservation, we should also chalk out some schemes, we should also do and show something.
My dear countrymen! When “Mann Ki Baat” approaches I receive messages, letters and phone calls from all sides. Aayan Kumar Banerjee from Devi Tola village of North 24 Parganas in West Bengal in his comment on My Gov has written – “We celebrate Rabindra Jayanti every year but many people are not aware of the Nobel Laureate Rabindra Nath’s philosophy of living peacefully, aesthetically and with integrity. Kindly discuss this point in “Mann Ki Baat” programme so that more and more people may get to know about this.”
I thank Aayanji for drawing the attention of all listeners of “Mann Ki Baat” towards this point. Gurudev Tagore was a personality full of knowledge and intellect whose writings left an indelible mark on everyone. Rabindra Nath was a personality full of talent, a multi – directional personna but a teacher in his inner self can always be felt. He has written in Gitanjali – “ He, who has the knowledge has the responsibility to impart it to the students.”
I do not know Bangla but had the habit of rising early since my childhood and in Eastern India, radio broadcasts start early while in Western India these start a bit late. I have a faint memory that probably around 5:30 in the morning, Rabindra Sangeet used to be broadcast on radio and I had developed a habit to listen to Rabindra Sangeet on radio. And, whenever I got a chance to listen to poems like Anandloke and Aaguner, Poroshmoni, I used to feel as if my mind was being energised. You must also have been impressed by Rabindra Sangeet and his poems. I pay my respectful homage to Rabindra Nath Tagore.
My dear countrymen! Within a few days from now the holy month of Ramazan will dawn upon us. The month of Ramazan is celebrated with full reverence and respect throughout the world. The sociological and collective aspect of fasting is that when a person experiences hunger himself, he comes to realize the hunger of others. When he is thirsty, he realizes the thirst of others. This is an opportunity to remember the teachings of Prophet Muhammad-peace be upon him- and his message. It is our responsibility to follow the path of equality and brotherhood as morals from his life. Once a person asked the Prophet (peace be upon him): "Which is the best thing in Islam?" The Prophet Saab said, "feeding a poor and needy and meeting everyone cordially, whether you know him or not!"
Prophet Mohammad Sahib (peace be upon him) believed in twin principles of knowledge and compassion. He did not possess an iota of ego regarding himself. He preached that knowledge alone defeats ego. Prophet Mohammad Sahib(peace be upon him) believed that if you possessed anything more than your requirement, then donate it to the needy, thus donation or giving alms is important during Ramzan. People donate generously to the needy during this holy month. Prophet Muhammad Sahib believed that a person is rich because of his inherent spirituality, and not materialistic wealth. I wish all the citizens an auspicious month of Ramazan and I hope this opportunity will inspire people to follow the Prophet’s message of peace and goodwill.
My dear countrymen! Buddha Purnima is a special day for every Indian. We must be proud of the fact that India is the birthplace of Lord Buddha, the very synonym of power of compassion, service and sacrifice, who guided millions of people around the world. This Buddha Purnima reminds us of all of our obligation to emulate Lord Buddha’s teaching as well as, pledge ourselves to follow his footsteps. Lord Buddha was the fountainhead of egalitarianism, peace, harmony and brotherhood. These are human values, which are most desired in the world today. Baba Saheb Dr. Ambedkar stressed that Lord Buddha has been a great inspiration in his social philosophy. Baba Saheb had said –“My Social philosophy may be said to be enshrined in three words; liberty, equality and fraternity. My Philosophy has roots in religion and not in political science. I have derived them from the teaching of my master, The Buddha.”
Baba Saheb strengthened the oppressed, exploited, deprived and crores of people standing on the brink of marginalization via the Constitution of India. There cannot be a bigger example of compassion than this. This form of compassion was one of the greatest qualities of Lord Buddha for the alleviation of suffering of the people. The Buddhist monks used to travel to different countries carrying with them the rich ideals of Lord Buddha and this has been occurring throughout the ages. We have inherited the wisdom of Lord Buddha throughout Asia as part of our legacy.
It forges a link between us and many Asian countries like China, Japan, Korea, Thailand, Cambodia, and Myanmar where Buddhist traditions and his preaching are a part of their origins. And this is the very reason that we are developing Infrastructure for Buddhist Tourism, which is going to connect Southeast Asia with the important Buddhist sites of India. I am also very pleased that the Government of India is a partner in the restoration of many Buddhist temples which also includes the centuries old magnificent Anand Temple in Bagan in Myanmar. Today, when there is confrontation and human suffering prevalent everywhere in the world, Lord Buddha's teachings show the way to rid hatred from the world with compassion. I wish people spread all over the world who revere Lord Buddha and believe in the principles of compassion- I wish all of them an auspicious Buddha Purnima.
I seek benediction from Lord Buddha for the entire world, so that we can fulfill our responsibility in building a peaceful and compassionate world based on his teachings. Today, as we remember Lord Buddha, you must have heard about the idols of laughing Buddha, it is said that laughing Buddha brings one good fortune, but very few people know that smiling Buddha is also associated with an important event in India's defense history. Now you will be wondering what is the connection between smiling Buddha and India's military might?
You must remember, 20 years ago today, on 11th May 1998, the Prime Minister of India, Shri Atal Bihari Vajpayee had said while addressing the nation and his words filled the whole country with pride, courage and elation. The Indian diaspora was infused with new confidence. That day also was the day of Buddha Purnima. On May 11, 1998, at India’s western end a nuclear test was conducted in Pokhran, Rajasthan. It has been 20 years since Pokhranand this test was done on Buddha Purnima with the blessings of Lord Buddha. India's test was not only successful but in a way, India had demonstrated its might in the field of science and technology. We can also say 11 May 1988 is engraved in the history of India as a demonstration of her military power.
Lord Buddha has shown the world- that the power of inner strength or that of the soul is necessary for peace. Similarly, when you are sturdy as a nation, you can be at peace with others. The month of May, 1998 is not just important for the country from the aspect that nuclear tests were conducted this very month, but the manner in which they were carried out is also important. It has revealed to the entire world that India is the land of great scientists and with a strong leadership, India can reach loftier destinations and earn new laurels. On that day, Shri Atal Bihari Vajpayee ji had given the mantra - "Jai-Jawan Jai-Kisan, Jai-Vigyan.’
Now that when we are going to celebrate the 20th anniversary of the Pokhran test conducted on May 11, 1998, I ask the younger generations of our nation to imbibe the mantra of 'Jai-Vigyan' given by Atalji for enhancing the might and the power of India, to build a modern India, a powerful India and a self-reliant India. Synergize your energy with the strength of India. Witnessing the journey that Atal ji started, we while continuing onwards on that very path with a renewed joy will derive great satisfaction in getting ahead.
My dear countrymen, looking forward to our conversation when we will meet for another episode of Mann Ki Baat. Thank you very much.
My dear countrymen, Namaskar. Today is the holy day of Ram Navami. My heartiest greetings to countrymen on this pious, festive occasion. We have seen how closely the power of ‘Ram Naam’, the chant of Lord Ram’s name, permeated every moment of revered Bapu’s life. A while ago, when distinguished dignitaries of all ASEAN Countries were here on the 26th of January, they were accompanied by cultural troupes from their respective countries. And it’s a matter of immense pride that a majority of these countries presented the Ramayan in front of us. This signifies that Ram & Ramayan continues to inspire and have a positive impact, not just in India, but in that part of the world too. Once again, my best wishes to all of you on the occasion of Ramnavami.
My dear countrymen, just like every time earlier, I have received a rather large number of letters, e mails, phone calls and comments from you. I read a post written on MyGov by Komal Thakkar ji, where she has referred to starting on-line courses for Sanskrit. Alongwith being IT professional, your love for Sanskrit has gladdened me. I have instructed the concerned department to convey to you efforts being made in this direction. I shall also request listeners of Mann Ki Baat who are engaged in the field of Sanskrit, to ponder over ways & means to take Komalji’s suggestion forward.
Shriman Ghanshyam Kumar ji of Village Baraakar, District Nalanda, Bihar – I read your comments written on the Narendra Modi App. The concerns you have raised on the depleting ground water levels is indeed of great importance.
Shriman Sakal Shastriji, you mentioned ‘Karnataka’… you beautifully maintained a delicate balance between words when you wrote ‘Ayushman Bharat’; ‘Long live India’ will be possible only when we express ‘Ayushman Bhoomi; ‘Long live the land’; and that will be conceivable only when we begin feeling concerned about every living being on this land. You have urged one and all to retain and keep aside some water for birds & animals, during summer time. Sakal ji, I have conveyed your sentiments to our listeners.
Shriman Yogesh Bhadresha Ji has asked me to speak to the youth concerning their health. He feels that our youth are physically weak, compared to those of other Asian countries. Yogesh ji, I feel I should speak in detail to all of you on ‘Fit India’. In fact, all you young people can come together to launch a movement of Fit India.
Recently, the President of France paid a visit to Kashi, Varanasi based Shriman Prashant Kumar has written that glimpses of that visit were extremely touching, appealing & left a deep impact. And it is his heart felt desire to see all those photos & videos being shared on social media. Prashant ji, the Government of India has already done that on social media and the Narendra Modi App, beginning that very day. You may now like them, re-tweet them, post them to your friends.
Anagha, Jayesh and many other children from Chennai have written & posted to me their heartfelt thoughts on the gratitude cards, the post script to the book ‘Exam Warriors’. Let me tell Anagha, Jayesh & other children that these letters enliven me up after a hard day’s work. Now, if I start including all those phone calls, comments, whatever I could read or hear, many of which touched my heart; if I exclusively speak about them, perhaps I’ll require a few months to respond to them in some way or the other.
This time, maximum number of letters are from children who have written about exams. They have shared their vacation plans. They’ve expressed their concern on the availability of water for birds & animals. Our farmer brothers & sisters have written on Kisan Melas, Farmer Carnivals and activities revolving around farming, being held across the country. Quite a few active citizens have sent in suggestions on the subject of water conservation. Ever since we have begun conversing with each other in ‘Mann Ki Baat’ through the medium of radio, I have noticed a pattern that in the sweltering heat of this season, most letters focus around topic pertaining to summer time. Just before examinations, letter pour in, touching on the anxieties of our young student friends who are about to appear. During the festival season, our festivals, our culture, our traditions are focused upon. This means, Mann Ki Batein, matters close to our hearts, alter with the change in season. And it’s equally true that our heartfelt thoughts do bring about a change of season in someone’s life, figuratively speaking. And why should not things change? In utterances of yours, in your experiences, in the examples that you quote, there exists immense inspiration, unfathomable energy, unparalleled warmth; a resolve to bring about something new for the country. In a way, this is endowed with the might to transform the entire season-cycle of the country. When I get to read in your letters how a rickshaw puller from Karimgunj in Assam, Ahmed Ali, has built nine schools for underprivileged children, I witness firsthand the indomitable will-power this country possesses. When I heard the story of Kanpur based Dr. Ajit Mohan Choudhary, of how he visits the underprivileged on footpaths and offers free medicines to them, it gives one an opportunity to feel the sense of brotherhood that prevails in the country. Thirteen years ago, on account of a delay in medical treatment, a Cab driver from Kolkata, Saidul Laskar lost his sister. He vowed to construct a hospital in order to ensure that none of the underprivileged face a similar situation due to lack of medical aid. In this mission of his, Saidul sold off family jewellery and raised funds through charity. His cab passengers too contributed large-heartedly. A young engineer girl donated her first salary for this noble cause. This way, after mobilizing funds for twelve long years, Saidul’s mammoth efforts paid rich dividends. Today, through sheer hard work and a firm resolve, a thirty bedded hospital has finally come up at Punri Village near Kolkata. This is the power of New India. In Uttar Pradesh, when a woman builds 125 toilets after overcoming steep challenges, inspiring women to exercise their due rights, it gives us a glimpse of ‘Matri- Shakti’, the power of maternal love & caring. Innumerable shining examples like these are the hallmark of our country. Today the whole world has changed the way it looks at India. The name ‘India’ now evokes a sense of awe & respect; the reason behind it is the ‘Purusharth’, the resolute yet selfless inner strength of such illustrious sons & daughters of Mother India. Today, the entire country, the youth, women, the marginalized, the underprivileged, the middle class, in fact every section has awakened to a new confidence … YES, we can go forward, the country can take great strides. An atmosphere of positivity built on a self confidence filled with hope has pervaded all over. This self confidence, this very positivity will by a catalyst in realising our resolve of New India, of making our dream come true.
My dear countrymen, the coming months are very crucial for our farming brothers and sisters. That is why a large number of letters on agriculture have been received. This time, I requisitioned and viewed videos of discussions with our farmers on DD Kisan Channel of Doordarshan and I feel that each farmer should get connected to this DD Kisan Channel of Doordarshan, view it and adopt those practices in his/ her own farm. From Mahatma Gandhi to Shastri ji, Lohia ji, Chaudhari Charan Singh ji, Chaudhari Devi Lal ji – they all recognized agriculture and the farmer as vital aspects of the nation’s economy and also for the common man’s life. How attached was Mahatma Gandhi attached to the soil, they farms and the farmer is reflected from this sentence in which he said- “To forget how to dig earth and to tend the soil, is to forget ourselves. Similarly, Lal Bahadur Shastriji generally insisted on conservation of trees, plants and vegetation and also highlighted the importance of an improvised agricultural infrastructure. Dr. Ram Manohar Lal ji had talked of creating a mass awakening on an extensive scale about the necessary measures to ensure a better income for our farmers and provide better irrigation facilities and to increase food and milk production. Chaudhari Charan Singh in his speech in 1979 had urged our farmers to use new technology and to adopt new innovations and underlined their vital significance. I recently visited the Krishi Unnati Mela organized in New Delhi.
It was a pleasant experience for me to talk to our farmer brothers and sisters and scientists and to listen and understand their experiences in farming and getting to know about innovations in the agricultural sector. But one thing that impressed me most was Meghalaya and the hard work of the farmers of the state. This state has a small area but it has attained a grand success. Our farmers in Meghalaya, in the year 2015-16, achieved record production as compared to the last five years. They have showed that if once the targets are set, spirits are high and with a strong resolve, the set targets can most certainly be attained. Today, the farmers have technology to help them while they work hard in their fields. This has provided a big boost to our agro- producers. I have received a number of letters in which a large number of farmers have written about MSP and they wanted that I should talk to them at length over this.
Brothers and sisters, in this year’s budget a big decision has been taken to ensure that farmers get a fair price for their produce. It has been decided that the MSP of notified crops will be fixed at least one and a half times of their cost. If I may elaborate on this, MSP will include labour cost of other workers employed, expenses incurred on own animals and cost of animals and machinery taken on rent, cost of seeds, cost of each type of fertilizer used, irrigation cost, land revenue paid to the State Government, interest paid on working capital, ground rent in case of leased land and not only this but also the cost of labour of the farmer himself or any other person of his family who contributes his or her labour in agricultural work will also be added to the cost of production. Moreover, an extensive exercise on agricultural reforms is being undertaken across the country in order to ensure that our farmers get a fair price for their crop. Efforts are on to connect local village mandis to wholesale market and then on with the global market. Twenty- two thousand rural haats in the country will be upgraded by creating the necessary infrastructure and these will be integrated with APMC and e-NAM platform- so that the farmers would not have to go to distant places for selling their produce. In other words, such a system is being set up where in farms in any part of the country will have a market-connect.
My dear countrymen, this year Mahatma Gandhi’s 150th birth anniversary celebrations will begin. How should the country celebrate it? Swachch Bharat is already our resolve; besides this, how can our 125 crore countrymen pay the best tribute to Gandhiji by working in close harmony? Which newer programmes can be initiated? What new practices or procedures can be adopted? I request you all to share your opinions and suggestions with everyone via MyGov. What should be the logo for ‘Gandhi 150’? What should be the slogan, mantra or a catch-phrase? Send your suggestions on all of these. We all have to pay a memorable tribute to Bapu and have to take the country to newer heights by drawing inspiration from Bapu.
Thanks, you have rightly said it and I believe that Swachch Bharat and Swasth Bharat are supplementary to each other. In the health sector the nation has now moved ahead from the conventional approach. Earlier, every aspect regarding health used to be a responsibility of the Health Ministry alone. But now, all departments and ministries- be it the Sanitation Ministry or Ayush Ministry or Ministry of Chemicals & Fertilizers, Consumer Affairs Ministry or the Women & Child Welfare Ministry or even the State Governments- they are all working together for Swasth Bharat and stress is being laid on affordable health alongside preventive health. Preventive health care is the least costly and the easiest one as well. And, the more we become aware about preventive health care, the more beneficial will it be for the individuals, the family and the society. The first necessity for a healthy life is cleanliness. All of us took up the responsibility and the result is that in the last four years or so, sanitation coverage has almost doubled and risen to around 80 percent. Also, extensive work is going on to set up Health Wellness Centres across the country. Yoga has attained worldwide recognition as a measure of preventive health care. Yoga is a guarantee of both fitness and wellness. It is the result of our concerted efforts and commitment that Yoga has now become a mass movement and reached every house. Less than a hundred days are now left for the International Yoga Day on 21st June. On the previous three International Yoga Days, people in our country and people all over the world participated with great zeal and enthusiasm. This time too, we need to ensure that we do yoga ourselves and motivate our family, friends and all others from now itself to do yoga. Yoga has to be made popular among the youth, the senior citizens, men and women from all age groups through interesting ways. Usually, the country’s Television and electronic media do a variety of programmes on Yoga the whole year. Can we, beginning now, till the Yoga Day, devise a campaign to spread awareness on Yoga?
My dear countrymen, I am not a Yoga teacher. But yes, I surely am a Yoga practitioner and yet some people, through their creativity, have made me a Yoga teacher as well and 3-D animated videos of my yoga practice sessions have been prepared. I will share these videos with you so that we may do aasans and pranayam together. Efforts are being extensively undertaken to make health care accessible and affordable, make it easily accessible and affordable for the common man. Presently, more than three thousand Jan Aushadhi Kendras have been opened across the country and more than eight hundred medicines are being made available there at an affordable price. More such centres are being opened. I appeal to the listeners of ‘Mann Ki Baat’ to provide this information about Jan Anshadhi Kendras to the needy ones – it will cut their expense on medicines. This will be a big help to them. The cost of heart stent for heart patients has been reduced to 85%. Knee implants cost has also been regulated and reduced by 50% to 70%. Under ‘Ayushman Bharat Yojana ‘, the Government of India and insurance companies will jointly provide 5 lakh repees for treatment to about 10 crore families or say 50 crore citizens per year. In the present 479 medical colleges, MBBS seats have been increased to about 68 thousand. New AIIMS are being opened in various states with a view to providing better treatment and health facilities to people across the country. One new medical college will be set up for every three districts. A target has been fixed to make the country TB-free by 2025. This is an enormous task. Your cooperation is needed to create public awareness. All of us will need to make united efforts to become TB-free.
My dear countrymen, April 14 is the birth anniversary of Dr. Baba Saheb Ambedkar. Years ago, Dr. Baba Saheb Ambedkar spoke of India’s industrialization. According to him the industry was an effective medium by which jobs could be made available to the poorest of the poor and the poorer. Today, the campaign of Make in India is progressing successfully in consonance with Dr. Ambedkarji’s dream of India as an industrial super power-that vision of his has become our inspiration today.
Today India has emerged as a bright spot in the global economy and today the highest foreign direct investment or FDI in the world, is flowing to India. The whole world is looking at India as a hub for investment innovation and development. That the development of industries could only be possible in the cities, was the kernel of the idea of Dr. Baba Sahib Ambedkar and that was the reason he banked upon urbanization of India. In continuance with his vision, smart city mission and urban mission were kick-started in the country so that all kinds of amenities whether good roads, water supply, health facilities, Education or digital connectivity are available in the big cities and small towns of the country. Baba Saheb had strong faith in self-reliance. He did not want anybody to languish in poverty forever. He also believed that poverty cannot be ameliorated by mere distribution of capital among the impoverished. Today our monetary policy, Start Up India, Stand Up India initiative have become seedbed for our young innovators and young entrepreneurs. In the 30s and 40s when only roads and railways were being talked about in India, Baba Saheb Ambedkar mentioned about ports and waterways. It was Dr. Baba Saheb who envisaged water power as ‘nation power’. He stressed the utilization of water for the development of the nation The genesis of different river valley authorities, different water related commissions - all these were possible due to the vision of Baba Saheb Ambedkar. Today there are landmark efforts, being embarked upon for waterways and ports in our country. New seaports are being constructed on a number of seaways of India and infrastructure is being strengthened at old ports.
In the era of 40s, while most of the discussions were centred around the Second World War, the looming Cold war and the partition –it was during those times Dr. Ambedkar had laid the foundation of Team India's spirit in a way. He had talked about the importance of federalism, federal system and stressed on Center and states working together for the upliftment of the country. Today, we have adopted in all aspects of governance the mantra of co-operative federalism and going a step further, we have adopted competitive cooperative federalism but most importantly, Dr. Baba Saheb Ambedkar is an inspiration for millions of people like me, who belong to backward classes.
He showed us that to succeed it is not necessary for the person to be born in an illustrious or rich family, but even those who are born to poor families in India can also dare to dream their dreams and realize those dreams by achieving success. And of course, this is exactly what happened as many people mocked Dr. Baba Saheb Ambedkar, tried to pull him back and made every possible effort to ensure that the son of an impoverished and backward family would not progress in life, be something and succeed in life. But, the picture of New India is altogether different.
It is an India which is Ambedkar’s India, of the poor and the backward. On the occasion of the birth anniversary of Dr. Ambedkar from April 14 to May 5 ‘Gram-Swaraj Abhiyan,’ is being organized. Under the aegis of this campaign, separate programmes on village development, poverty amelioration and social justice will be held throughout India. I urge you all to be a part of this campaign.
My dear countrymen, a spectrum of many festivals would dawn upon us in the next few days- Bhagwan Mahavir Jayanti, Hanuman Jayanti, Easter and the Baisakhi. The day of Bhagwan Mahavir's birth anniversary is a day to remember his sacrifice and penance.
The life and philosophy of Lord Mahavirji, the apostle of non-violence will inspire us all. I extend felicitations to all on the occasion of Mahavir Jayanti. The very mention of Easter reminds us of the inspirational preaching of Lord Jesus Christ which has always impressed on mankind the message of peace, harmony, justice, mercy and compassion. Vaisakhi will be celebrated in Punjab and in parts of western India in April; simultaneously, the twin festive connects of Jud -Sheetal and Satuwain in Bihar, and Poila Vaisakh in West Bengal will envelop everyone with joy and delight. All of these festivals are connected in one way or another to our fields and granaries, and through these festivals, we thank nature for the priceless gifts we receive as produce. Once again, my best wishes to you all on the occasion of the festivals coming our way. Many many thanks.
My dear countrymen, Namaskar.
Let us begin today’s Mann Ki Baat with a phone call.]
Phone Call...
Thank you very much for your phone call. My young friends have asked me many questions related to Science; they keep writing on quite a few points. All of us have seen that the sea appears blue, but we know from routine life experiences that water has no colour at all. Have we ever thought why water acquires colour in rivers and seas? The same thought occurred to a young man in the 1920s. The same question gave rise to a great scientist of modern India. When we talk about Science, the first name that strikes us is that of Bharat Ratna Sir C.V.Raman. He was awarded the Nobel Prize for his outstanding work on light scattering. One of his discoveries is famous as the Raman Effect.
We celebrate the 28th of February as National Science Day since on this very day, he is said to have discovered the phenomenon of light scattering, for which the Nobel Prize was conferred upon him. This land has given birth to many a great scientist. On the one hand, there has been a tradition of great Mathematicians like Bodhayan, Bhaskar, Brahmagupt and Aryabhatt; on the other, in the field of medicine, Sushrut & Charak have bestowed upon us a place of pride. Right from Sir Jagdish Chandra Bose and Hargobind Khurana to Satyendranath Bose have brought laurels to India. The famous particle BOSON has been named after Satyendranath Bose. Recently I got an opportunity to take part in a programme in Mumbai – the inauguration of the Wadhwani Institute for Artificial Intelligence. It was interesting to know about the ongoing miraculous accomplishments in the field of Science. Artificial Intelligence aids in making robots, Bots and other machines meant for specific tasks. Through self learning, machines today can enhance their intelligence to a smarter level. This technology can be harnessed to better the lives of the underprivileged, the marginalized and the needy. In that programme on Artificial Intelligence, I urged the scientific community to deliberate on how Artificial Intelligence could help us make life easier for our divyang brothers & sisters. Can we make better predictions of natural disasters using Artificial Intelligence? Can we use it to provide assistance to farmers on crop yield? Can Artificial Intelligence be used as tool to simplify the outreach of health services and modernize medical treatment?
A few days ago, I got an opportunity to accompany the Prime Minister of Israel to Ahmedabad, Gujarat for the inauguration of ‘I create’. There a young person referred to developing a digital instrument that converts the written word into voice. This is to aid those who are incapable of speech to converse normally like any other person. I feel we can harness Artificial Intelligence in many such fields.
Science and Technology are value neutral. They don’t possess any value in themselves. Any machine will work the way we want it to. It entirely depends on us what task we want it to perform. Here human objectives assume significance; the use of Science for the sole purpose of human welfare, with the endeavour to assist human lives touch the greatest heights.
Thomas Alva Edison, the inventor of the light bulb, failed many a time in his experiments. Once, on being asked about it, he quipped, “I have devised ten thousand ways of how NOT to make a light bulb”. What I mean to say is, Edison transformed even his failures into his own strength. Coincidentally, I am fortunate today to be in Auroville, the land, the karmabhoomi of Maharshi Arvind. As a revolutionary, he challenged British rule, fought against them and questioned subjugation. Thus, as a great sage, he questioned every facet of life. Extracting answers, he showed the right path to humanity. The relentless quest to ask questions for knowing the truth is very important. And this is the very essence, the real inspiration behind scientific inventions and discoveries. Never rest till every ‘why’, ‘what’ & ‘how’ are answered. I congratulate our scientists, and all those connected with Science on the occasion of National Science Day. May our young generation be inspired for the quest of truth & knowledge; may they be motivated to serve society through Science. I wish them the best.
Friends, safety in the times of crises, disasters are topics on which many messages keep coming in- people keep writing to me. In a comment posted on Narendra Modi Mobile App, Shriman Ravindra Singh from Pune has referred to occupational safety. He writes that in our country, safety standards at factories and construction sites are not upto the mark. Since the 4th of March is National Safety Day, the Prime Minister should include safety in the Mann Ki Baat programme in order to raise awareness on safety. When we refer to public safety, two aspects are very important- proactiveness and preparedness. Safety is of two kinds – one is safety during disasters and the other is safety in everyday life. If we are not aware of safety in daily life, if we are not able to attain a certain level, it will get extremely difficult during the time of disasters. We often read signboards on streets bearing lines such as – ‘सतर्कता हटी – दुर्घटना घटी’ – ‘Lose alertness – invite mishaps’ or ‘एक भूल करे नुकसान, छीने खुशियां और मुस्कान’ – ‘One mistake can cost you dear- rob you of your joy & smile’ or इतनी जल्दी न दुनिया छोड़ो, सुरक्षा से अब नाता जोड़ो – ‘Don’t be in a hurry to leave this world – embrace the culture of safety’ or सुरक्षा से न करो कोई मस्ती वर्ना जिन्दगी होगी सस्ती – ‘Don’t play around with safety, your life will be treated cheap’. Beyond that, these sentences serve no purpose in our lives. Leave aside natural disasters; most of the mishaps are a consequence of some mistake or the other on our part. If we stay alert, abide by the prescribed rules & regulations, we shall not only be able to save our own lives but we can prevent catastrophes harming society. There are times when we come across many slogans on safety at the work place but none following their letter and spirit. I urge the fire brigade under corporations and municipalities to visit school children once a week or once a month and perform mock drills for them. This will have a dual benefit – the fire brigade will undergo an exercise in readiness and the new generation will get lessons in alertness. And all this at no added cost. In a way it will a natural part of the overall learning curve. India is a land of geographic and climatic diversities. As far as disasters are concerned, this country has borne the brunt of many a natural as well as man made disaster, such as chemical & industrial mishaps. Today, the National Disaster Management Authority, NDMA is the vanguard when it comes to dealing with disasters in the country. During earthquakes, floods, cyclones, landslides, NDMA reaches the area within no time. They have issued guidelines; simultaneously they keep imparting training on a regular basis for capacity building. In Districts prone to floods and cyclones, an initiative names ‘Aapada Mitra’ has been launched for training Volunteers. Training and awareness have a very important role to play. Two- three years ago, thousands of people would lose their lives every year due to heat-wave. After that, NDMA organized workshops on heat wave management as part of a campaign to raise awareness in people. Mass participation led to good results. In 2017, the death toll on account of heat wave remarkably came down to around 220 or so. This proves that if we accord priority to safety, we can actually attain safety. I laud the role played by innumerable individuals, citizens who immediately embark upon rescue and relief operations wherever a disaster strikes. And there are numerous such unnamed, unsung heroes. Our Fire & Rescue services, National Disaster Response Forces Armed Forces, Paramilitary Forces… these brave hearts go beyond the call of duty to help people in distress, often risking their own lives. Organisations like NCC and Scouts are also contributing in this task; they are getting trained too. Recently we have made an attempt to have joint exercise for disaster management between countries on the lines of joint military exercise involving different countries of the world. India has made a pioneering effort – BIMSTEC, Bangladesh, India, Myanmar, Sri Lanka, Thailand, Bhutan & Nepal – a joint disaster management exercise involving these countries was undertaken. It was a novel humanitarian experiment on a large scale. We’ll have to turn ourselves into a risk conscious society. In our culture, we often talk of safety of values; we now need to realize the values of safety. We’ll have to make it part of our life, our being. In day to day life, during air travel, we must have frequently come across air hostesses giving out a rather longish speech, safety instructions at the beginning of a flight. We must have heard it hundreds of times. But today if one of us is taken inside an aircraft and asked about the location of equipments, say life jackets, and how to use them, I can say for sure that none of us will be able to give the right answer. So, was there a provision for giving our information? Yes, there was. Was there a scope of direct visibility when the information was given? Of course there was. But we did not respond actively. WHY? Because by nature, we are not conscious. And that is why our ears hear when we sit in the aircraft, but no one realizes that ‘these instructions are for me’. We experience this in all walks of life. Let us not think that safety is only meant for someone else. If all of us become conscious and aware of our own safety, the essence of safety of society will be inbuilt.
My dear countrymen, in the current budget, emphasis has been laid on turning ‘waste to wealth’ and ‘waste to energy’ through Bio gas, under the Swachch Bharat Campaign. An effort was initiated which was named GOBAR-Dhan - Galvanizing Organic Bio Agro Resources. The aim of this GOBAR- DHAN scheme is ensuring cleanliness in villages and generating wealth and energy by converting cattle dung and solid agricultural waste into Compost and Bio Gas. India is home to the highest cattle population in the world, close to 300 million in number, with a daily output of 3 million tonnes of dung. Some European countries and China use animal dung and other Bio-waste to produce energy. But India was lacking full capacity utilization. Under the Swachch Bharat Mission (Rural), we are taking rapid strides in this direction.
A target has been set to use cattle dung, agricultural waste, kitchen waste to produce Bio gas based energy. Under the Gobardhan Scheme our farmer brothers & sisters in rural India will be encouraged to consider dung and other waste not just as a waste but as a source of income. Under the aegis of 'GobarDhanYojana', many benefits will accrue to rural areas. It will be easier to keep the village clean and sanitized, livestock health will improve and farm yields will increase. Biogas generation will increase self-reliance in energy utilized for cooking and lighting. Farmers and cattle herders will be helped in augmenting their income. There will be novel opportunities for newer jobs linked to waste collection, transportation, biogas sales etc. An online trading platform will be created for better implementation of 'Gobar Dhan Yojana', it will connect farmers to buyers so that farmers can get the right price for dung and agricultural waste. I urge entrepreneurs, especially our sisters residing in rural India, to step forward, and through creation of self-help groups and cooperative societies extract full advantage from this opportunity. I invite you to become part of the movement comprising clean energy and green jobs, to become a part of the initiative to convert waste in your village to wealth and by converting dung into ‘Gobar dhan.’
My dear countrymen, till date, we have been hearing about the myriad types of festivals - be it music festivals, food festivals, film festivals and many other kinds of festivals. But in a unique endeavor in Raipur, Chhattisgarh, the state's first 'Trash Mahotsav' was organized. The objective behind this festival sponsored by Raipur Municipal Corporation was to generate awareness about cleanliness and the methods using which city's waste can be creatively used and inculcate awareness about various ways to recycle the garbage. A plethora of activities were organized during this festival, which found full participation of students and adults. Different types of artifacts were made utilizing garbage. Many Workshops were organized to inform people on the entire aspects of waste management. Music performances linked to the theme of hygiene were held and art works were created. Raipur inspired various types of such garbage or trash festivals in other districts too. Many individuals taking initiative on their own behalf shared innovative ideas, held discussions, conducted poetry recitals. A festive atmosphere regarding cleanliness got geared up. The way the school children took part in the entire endeavor was amazing. For the innovative manner in which importance of waste management and cleanliness were displayed in this festival, I congratulate the people of Raipur Municipal Corporation, the entire populace of Chhattisgarh, its government and administration.
Every year on March 8, 'International Women's Day' is celebrated. There are many programs that are held in our country and the world. On this day, women are also felicitated with 'Nari Shakti Puraskar' who have performed exemplary tasks in different sectors in the past. Today the country is moving forward from the path of Women development to women-led development. On this occasion, I remember the words of Swami Vivekananda. He’d said 'The idea of perfect womanhood is perfect independence' - This idea of Swami ji about one hundred and twenty five years ago expresses the contemplation of woman power in Indian culture. Today, it is our duty to ensure the participation of women in every field of life, be it social or economic life, it is our fundamental duty. We are part of a tradition where men were identified due to women-Yashoda-Nandan, Kaushalya-Nandan, Gandhari-Putra, these were identities of a son. Today our woman power has shown inner fortitude and self-confidence, has made herself self-reliant. Not only has she advanced herself but has carried forward the country and society to newer heights.
After all, our dream of 'New India' is the one where women are strong and empowered and are equal partners in the development of the country. A few days ago, a gentleman had given me a very sound proposition. He had suggested that on 8th March myriad events herald 'Women's Day' Why cannot we felicitate mothers and sisters who have completed 100 years in every Indian village or city,? Can a program of paying respect for such centenarians be held and cannot we reflect upon a life lived long? I liked the idea and I’m bouncing it with you will find many examples of what woman power can achieve, If you look around near yourself many such inspiring stories will appear. I just received news from Jharkhand wherein under the 'Swachh Bharat Abhiyan', about 1.5 million women in Jharkhand – and this figure is not a small one organized a hygiene campaign for an entire month! Under the auspices of this campaign starting from January 26, 2018, these women constructed 1 lakh 70 thousand toilets in just 20 days and made a record of sorts. There were about one lakh ‘Sakhi Mandals,’ 14 lakh women, 2 thousand women Panchayat representatives, 29 thousand water carriers, 10 thousand female cleaners and 50 thousand women masons were involved in this campaign. You can imagine what a mammoth undertaking it was! These women of Jharkhand have shown that women power is an integral component of ‘Swachh Bharat Abhiyan’, which will change the course of the campaign of cleanliness in general life, the effective role of hygiene in the nature of the people ingeneral.
My dear Brothers and sisters, I was just watching the TV news two days ago that electricity has reached three villages of the Elephanta island after 70 years of independence, and this has led to much joy and enthusiasm among the people there. You all know very well, that Elephanta is located 10 kms by the sea from Mumbai. It is a very important tourist destination. The caves of Elephanta are marked as the World Heritage sites by UNESCO and draw tourists from all over the country and abroad. I was surprised to know that despite being such a prominent center of tourism its close proximity from Mumbai, electricity hadn’t reached Elephanta after so many years of independence. For 70 years, the lives of the denizens of three villages of the Elephanta Island, Rajbunder, Morbandar and Centabandar, were engulfed by darkness, which has got dispelled now and there is brightness in their lives. I congratulate the administration and the populace there. I am glad that now the villages of Elephanta and the caves of Elephanta will be lighted due to electrification. This is not just electricity, but a new beginning of a period of development. There is no greater contentment and joy than the fact that the lives of the countrymen be full of shine and there be happiness in their lives.
My dear brothers and sisters, we just celebrated the festival of Shivaratri. And now the month of March beckons us with ripe crops in the fields, playful golden earrings of wheat and the captivating blossom of mango pleasing to the mind are the highlights of this month. But this month is also very special to all of us because of the festival of Holi. On 2nd March the entire country immersed in joy will celebrate the festival of Holi. In The festival of Holi, the importance of colors is as important as the ceremony of 'HolikaDahan' because it is the day when we burn our inherent vices in the fire. Holi makes us forget our rancours and gives us an opportunity to be a part of each other's happiness and glad tidings, and it conveys the message of love, unity and brotherhood. I wish a very joyous festival of Holi to all my countrymen, I further wish you colour laden felicitations. I wish and hope that this festival forever remains a festival of colourful cheer in the lives of all the countrymen- this is my wish. My dear countrymen, thank you very much
My dear countrymen, Namaskar. This is the first episode of ‘Mann Ki Baat’ in the year 2018. Just a couple of days ago, we celebrated our Republic Day festival with gaiety & fervour. This is the very first time in history that heads of 10 Nations attended the ceremony.
My dear countrymen, Shriman Prakash Tripathi has written a rather long letter on the Narendra Modi App, urging me to touch upon the subjects he has referred to. He writes, “The 1st of February is the death anniversary of astronaut Kalpana Chawla. She left us in the Columbia space shuttle mishap, but not without becoming a source of inspiration for millions of young people the world over”. I am thankful to Bhai Prakash ji for beginning his long letter with the sad departure of Kalpana Chawla. It’s a matter of sorrow for all of us that we lost Kalpana Chawla at that early age, but her life, her work is a message to young women across the world, especially to those in India, that there are no upper limits for Nari Shakti …. the power of women. If one possesses the will & the determination, a firm resolve to achieve something, nothing is impossible. It’s a matter of joy that women in India are taking rapid strides of advancement in all fields, bringing glory to the Nation.
In our country, respect for women, their status in society and their contribution has proved to be awe inspiring to the entire world, since ancient times. There has been a long tradition of Vidushis… women exponents or women champions. Many Vidushis of India have contributed in composing the verses of the Vedas. Lopamudra, Gargi, Maitreyee…it’s a long list of names. Today, we talk about ‘Beti Bachao, Beti Padhao’, ‘save the girl child, educate her’. But centuries ago, it has been mentioned in our ancient texts, in the Skand Puran :
दशपुत्र-समाकन्या, दशपुत्रान् प्रवर्धयन्
यत फलम् लभते मRर्य:, तत् लभ्यम् कन्यकैकया ॥
This means, a daughter is the equivalent of ten sons. The ‘Punya’ that you earn through ten sons amounts to the same earned through just one daughter. This underscores the importance that has been given to women in our society. And that is why, in our society, women have been accorded the status of ‘Shakti’. This woman power binds closely together society as a whole, the family as a whole, on the axis of unity & oneness. Be it the erudition of the Vidushis of the Vedic Period… Lopamudra, Gargi, Maitreyee; be it the learning & devotion of Akka Mahadevi or Meerabai, be it the governance of Ahilyabai Holkar or the valour of Rani Lakshmibai, woman power has always inspired us. They have always brought glory to the Nation.
Shriman Prakash Tripathi has further cited some examples. He writes that the flight of our courageous Defence Minister Nirmala Seetharaman in a Sukhoi 30 fighter plane is inspirational for him. He also refers to INSV Tarini, with an all women crew on board under the command of Vartika Joshi, which is currently circumnavigating the globe. Three braveheart women Bhavna Kanth, Mohana Singh and Avani Chaturvedi have become fighter pilots and are undergoing training on the Sukhoi- 30. An Air India Boeing jet with an all woman crew led by Kshamata Vajpayee flew from Delhi to San Francisco, USA and back. These are all women achievers. You are absolutely right. Today women are not just advancing in myriad fields; they are leaders. Today there are many sectors where our woman power is playing a pioneering role, establishing milestones. A few days ago, Hon’ble President took an initiative. He met a group of extraordinary women who have achieved something significanty new in their respective fields. Women achievers of our country… the first female Merchant Navy Captain, the first female passenger train driver, the first female fire fighter, the first female Bus Driver, the first woman to set foot on Antarctica, the first woman to reach Mount Everest… ‘First Ladies’ in every field. Our woman power achieved extraordinary feats, breaking the age old shackles of social mores, creating new records. They proved that through perseverance, grit and a firm resolve, all kinds of obstacles and barriers can be broken & crossed, to chart out an all new path… a path that could act as a beacon of inspiration not just to their contemporaries, but for generations to come. It will infuse a fresh energy, newer enthusiasm into them. A book has been compiled on these women achievers, first ladies, so that, the entire country comes to know about the power of these women and derive inspiration from their life & work. This is also available as an e-book on the Narendra Modi Website.
The country’s woman power has contributed a lot in the positive transformation being witnessed in our country & society these days. Today, as we speak of women empowerment, I would like to refer to a railway station. You must be wondering what a railway station has got to do with women empowerment. Matunga station in Mumbai is the first station in India which is run by an all woman staff. All departments have women performing duties… the commercial department, Railway Police, Ticket checking, Announcing, Point persons, it’s a staff comprising over 40 women. This time, after watching the Republic Day Parade, many people wrote on Twitter and other social media that a major highlight of the parade was the BSF biker contingent comprising women participants. Daredevil stunts performed by them was awe inspiring for our foreign guests. Empowerment is another form of self reliance. Today our Nari Shakti is assuming leadership roles. It is becoming self reliant. By the way, this also reminds me of tribal women of Chattisgarh, who have done something extraordinary and set a remarkable example. When we refer to Adivasi women, a stereotypical image comes to our minds, comprising jungles, pathways in the woods and women carrying kindlewood on their heads.But the woman power of Chattisgarh, the tribal women there broke this stereotype & presented an all new picture of themselves. Dantewada in Chattisgarh is a Maoist infested region. Violence, torture, explosives, guns, pistols… the Maoists have created a scary reign of terror. In this dangerous atmosphere, Adivasi women are becoming self reliant by driving e-rickshaws. In a short span of time, a number of women have become part of this phenomenon. This has three benefits- on the one hand self-employment has empowered them; on the other, the Maoist infested region is witnessing a transformation. And simultaneously as a consequence, it is strengthening efforts towards protecting the environment. I laud the efforts of the District Administration which has played a significant role in the successful endeavour of these women by ensuring availability of grants & imparting training to them.
Time and again we keep hearing people utter ‘There is something special that we as a people possess… no threat is big enough to annihilate our existence’. What is that ‘Special Something’? That ‘Something’ is flexibility, the ability of transformation. Leaving out things that are beyond the constraints of time and accepting betterment in things wherever necessary. And this is a salient feature of our society… relentless efforts towards self-improvement, self correction. We have inherited this Indian tradition as a cultural legacy. The benchmark of any living society is its self correcting mechanism. In our country, there have been unending endeavours against social ills and evil practices, both individually & collectively. Just a while ago, Bihar launched an interesting initiative. In order to uproot social ills in the state, the world’s longest human chain spanning over thirteen thousand kilometers was formed.
This campaign made people aware of social maladies such as child-marriage and the dowry system. The entire state thus resolved to fight against these social evils. Children, the elderly, the youth full of energy and enthusiasm, women, girls turned out to participate in this battle. The human chain that commenced formation from Gandhi Maidan in Patna gained momentum, touching the state borders. In order to ensure that the fruits of progress rightly reach all sections of society, it is imperative that our society is freed of these ills. Come, let us pledge to come together to wipe out these evil customs from our social fabric… let us build an empowered, capable New India. I appreciate the people of Bihar, the Chief Minister, the administration, in fact every member of the human chain for this massive, special initiative towards social welfare.
My dear countrymen, Shriman Darshan from Mysore, Karnataka has written on My gov. He was undergoing an expenditure of six thousand rupees a month on medicines alone for the treatment of his father. Earlier, he wasn’t aware of the Pradhan Mantri Jan Aushadhi Yojana. But now that he’s come to know of the Jan Aushadhi Kendra, he has begun purchasing medicines from there and his expenses have been reduced by about 75%. He has expressed his wish that I mention this in ‘Mann Ki Baat’, so that it reaches the maximum number of people and they can benefit from it. Over some time lately, many have written on this subject; many of them have been telling me about it. I too have seen videos put up on social media by beneficiaries of this scheme. It is a matter of joy learning about happenings like these. It gives you inner satisfaction. I felt good to see Shriman Darshan ji think about sharing with others what he gained from it. The motive behind this scheme is making healthcare affordable and encouraging Ease of Living. Medicines available at the Jan Aushadhi Centres are 50% to 90% cheaper than branded drugs available in the market. This is great help for the common man, especially for senior citizens who require medicines on a daily basis and results in a lot of savings. Generic medicines sold under this scheme strictly conform to prescribed standards set by the World Health Organisation. That is why good quality medicines are made available at affordable prices. Today, over three thousand Jan Aushadhi Kendras have been set up across the country. This has led to not only availability of cheaper medicines, but also new employment opportunities for individual entrepreneurs. Affordable medicines are now available at ‘Amrit Stores’ at Pradhan Mantri Bharatiya Jan Aushadhi Centres & at hospitals. The sole aim behind this step is ensuring availability of Quality & affordable health service to the poorest of the poor, so that a healthy & prosperous India comes into being.
My dear countrymen, Shri Mangesh from Maharashtra has shared a photo on the Narendra Modi Mobile App. It was such a striking photo that my attention was magnetically drawn towards it. The photo showed that a grandson was participating in the 'Clean Morna River' along with his grandfather. I came to know that the citizens of Akola had organized a cleanliness campaign to clean the Morna river under the 'Swachh Bharat Abhiyan'. The Morna river was a perennial river flowing throughout the twelve months of the year but now it has become seasonal. The second painful fact was that the river was completely filled with wild grass and hyacinth. A lot of garbage was being dumped into the river and along its banks. An action plan was chalked out and on January 13th a day before Makar-Sankranti, in the first phase of 'Mission Clean Morna' sanitation of the two sides of the bank of the Morna river at fourteen places spread over an area of four kilometers, was carried out.
This noble and grand task named 'Mission Clean Morna', involved more than six thousand denizens of Akola, more than 100 NGOs, Colleges, Students, children, the elderly, mothers, sisters, almost everybody participated in this task. On January 20th, 2018, this Sanitation Campaign continued in the same vein and I’ve been told that this campaign will continue every Saturday morning till the Morna river is completely cleaned. 'Mission Clean Morna' shows that if a person is determined to do something, then nothing is impossible. Huge social reforms can be brought about through mass movements. I congratulate the people of Akola, the district and the municipal corporation’s administration, all the citizens who were associated with this mass movement, I laud your efforts which are not only very much appreciated but this will inspire the other citizens of the country.
My dear countrymen, these days you must be hearing a lot about the Padma Awards. These awards also attract attention in newspapers and television also. But if you scrutinize, then you will be proud of the fact that there many loftier personalities amidst us and you will naturally be proud of the very fact that today the common man is being cited for Padma awards without any recommendations. There was a certain methodology of awarding Padma Awards every year, but this entire process has been changed for the past three years. Now any citizen can nominate any person in our country. Transparency has been brought about in the entire process by making it operable online. In a way, the selection of these awards has been transformed completely. You may have noticed that many ordinary people not visible in big cities, in newspapers or on TV are being awarded with Padma citations. Now the identity of the awardee is not the deciding factor of the award, rather the importance of his work is increasing. You must have heard the name of Arvind Gupta ji. It will gladden your heart to know, that Arvind ji, a student of IIT Kanpur, spent all his life creating toys for children. He has been making toys from garbage for over four decades so that children can increase their curiosity towards science.
He has been trying to get children inspired to conduct scientific experiments using waste; towards this end he has been encouraging children by showing them films made in 18 languages in three thousand schools across the country. What a wonderful life, what a dedicated mission! A similar story is that of Sitavaa Jodatti from Karnataka. She has not been hailed as 'Goddess of women empowerment' just for nothing! For the past three decades, in Belagavi, she has made a great contribution towards changing the lives of countless women. At the age of seven she had dedicated herself as a Devadasi but in a turnaround, for the welfare of the Devdasis, she has spent her entire life. Not only this, she has done unprecedented work for the welfare of Dalit women too. You must have heard the name of Bhajju Shyam of Madhya Pradesh, Shri Bhajju Shyam was born in a very poor tribal family. He was employed in a small job for eking out his living, but he was also fond of painting in the traditional tribal art form. Today, due to this hobby, he garnered respect not only in India but the entire world. He has exhibited his paintings in many countries like Netherlands, Germany, England and Italy. The talent of Bhajju Shyam ji, who made India proud in many nations abroad, was also recognized and he was awarded the Padma Shri.
You will be pleasantly surprised listening to the story of Kerala's tribal lady Lakshmikutti. Laxmikutty is a teacher in Kallar and still resides in a hut made of palm leaves in a tribal tract amidst dense forests. She has created five hundred herbal medicines relying solely on her memory. She has mastery in synthesizing medicines used for treatment of snake bites. Lakshmi Ji is continuously serving society with her knowledge of herbal medicines. Identifying her anonymous persona, she has been honoured with the Padma Shri for her contribution to society. I would like to mention another name today, that of 75 year old Subhasini Mistri, hailing from West Bengal, who was selected for the award. Subhasini Mistri is a woman who, in order to construct a hospital, cleaned utensils in the homes of others and also sold vegetables. At the age of 23 she lost her husband due to lack of proper treatment, and this incident inspired her to build a hospital for the poor. Today, thousands of poor people are treated free of cost in this hospital that has come up through hard-work. I am convinced that there are many men and women in our land filled with gems, Bahuratna-Vasundhara, many gifted women and men who remain faceless or unknown. The failure to identify such people is also a loss to the society, the Padma awards are only a medium of acknowledgement, but I would also like to tell the countrymen that people serving the society around us, people giving up all that they have got for the sake of society, millions of people who have worked for a life time for us bestowed with one or the other useful attribute should be acknowledged in our midst. They do not labour for any honor, but their work inspires us. These people should be invited to schools and colleges to share their experiences. Beyond awards, there should be some more efforts from our society in acknowledging their contribution.
My dear countrymen, we celebrate Pravasi Bharatiya Divas on January 9th every year. It was on the 9th of January, when our revered Mahatma Gandhi returned to India from South Africa. On this day, we celebrate the unbreakable bond that exists between Indians in India and Indians living around the globe. This year we organized a program on Pravasi Bharatiya Divas, where all MPs and Mayors of Indian origin were invited. You will be pleased to know that in this programme, Malaysia, New Zealand, Switzerland, Portugal, Mauritius, Fiji, Tanzania, Kenya, Canada, Britain, Surinam, South Africa and America, and many other countries wherever our Mayors or MPs of Indian Origin exist, all of them participated. I am happy that the people of Indian origin who live in different countries continue to serve those countries and at the same time they have maintained their strong relationship with India as well
This time, the European Union, has sent me a calendar, in which they have displayed the contributions by Indians in various fields of life living in different countries of Europe; whether working in the field of cyber security, or dedicated to Ayurveda, entertaining the society through music, or through poetry; someone researching on climate change or working on ancient Indian texts, someone driving a truck for livelihood, who went on to construct a Gurudwara or has built a mosque – wherever our people are, they have in their own way embellished or adorned the land of their adoption. I would thus like to thank the European Union, for recognizing the people of Indian origin and through them in making people in India and people the world over aware of their exemplary work.
The 30th of January is the death anniversary of our revered Bapu, who showed us a new path. On that day we also observe 'martyrs day' in solemn memory of the great martyrs who sacrificed their lives for the defense of the country and pay our homage at 11 in the morning. The path of peace and non-violence, is the path of Bapu and this is applicable not only for India or the world, but also for a person or a family or a society. The ideals which Bapu practiced in his life, things that he imparted are relevant even today. They were not just mere theories. At present we witness at every step how accurate Bapu's words were. What can be a bigger tribute than taking a vow that we shall tread the path of Bapu - and walk, as far as possible?
My dear countrymen, with my best wishes to all of you for 2018, my speech draws to a close. Thank you very much. Namaskar.
My dear countrymen, Namaskar. This is the last edition of ‘Mann Ki Baat’ this year and it’s a coincidence that this day happens to be the last day of the year of 2017. You and I shared many thoughts and ideas the entire year. Your steady stream of letters to ‘Mann Ki Baat’, your comments, this exchange between minds always infuses new energy in me. A few hours later, the year will change, but this sequence of our conversation will go on, just the way it is. We will renew this exchange of thoughts on newer topics in the year to come, we’ll share new experiences. Heartiest New Year greetings to all of you. Over the last few days, the festival of Christmas was celebrated across the world with gaiety and fervor. People in India too celebrated Christmas with warmth and cheer. The pious occasion of Christmas reminds us of the great teachings of Jesus Christ who laid much emphasis on the spirit of service, ‘Sewa bhaav’. The essence of the spirit of service can be felt in the Bible too.
The Son of Man has come, not to be served
But to serve’
And to give his life, as blessing
To all humankind.
This conveys the immense significance attached to the sanctity of service. Be it any religion, caste or creed, tradition or colour in this world; the spirit of service is an invaluable hallmark of the highest human values. In our country we refer to ‘NishKaam Karma’, selfless deeds, meaning a service done without any expectations. It is mentioned in our land ‘Sewa Parmo Dharmah’… service is the noblest way of life, ‘Jeev Seva hi Shiv Seva’… Service to living beings is service to god. Gurudev Ramkrishna Paramhans used to cite, ‘serve living beings as if worshipping the almighty. The inference is that the world over, these are shared, common human values. Come, let us remember great men & their ideals; let us be reminded of the essence of holy occasions; let us infuse a new awakening, a new drive into our great value system. Let us try & live, abiding by them.
My dear countrymen, this year was also the 350th ‘Prakash Parv’ of Guru Gobind Singh ji. The illustrious life of Guru Gobind Singh ji, full of instances of courage & sacrifice is a source of inspiration to all of us. Guru Gobind Singh ji preached the virtues of sublime human values and at the same time, practiced them in his own life in letter & spirit. A guru, a poet, a philosopher, a great warrior, Guru Gobind Singh ji, in all these roles, performed the great task of inspiring people. He fought against oppression & injustice. His teachings to people focused on breaking the cordons of caste and religion. In this endeavour, he stood to lose a lot on his personal front. But he never let antagonism raise its ugly head in his path. In every moment of his life, the message of love, sacrifice & peace was palpable. His personality was filled to the brim with the greatest of virtues. I’m fortunate that at the beginning of this year, I got an opportunity to participate in the 350th birth anniversary celebration organized at Patna Sahib. Come, let us all resolve to imbibe & abide by lessons from his great teachings & exemplary life and mould our own life in accordance with them.
The 1st of January, 2018, i.e. tomorrow, in my view, is a special day. You’ll be surprised, since the New Year comes every year, the 1st of January arrives every year! But, when I refer to it as special, I really mean it as special. People born in the year 2000 or later; those born in the 21st century will gradually begin to become eligible voters from the 1st of January, 2018. The Indian Democracy welcomes the voters of the 21st century, the ‘New India Voters’. I congratulate our youth & urge them to register themselves as voters. The entire nation is eager to welcome you as voters of the 21st century. As voters of this century, you too must be feeling proud. Your vote will prove to be the bedrock of New India. The power of the vote is the greatest strength of a democracy. The vote is the most effective tool in bringing about a positive change in the lives of millions of people. And it’s not just about you acquiring the right to Vote. It’s about you determining & deciding the course of the nation in the 21st century, your dreams in the India of the 21st century. You too can be the makers of 21st century India and this opportunity comes into being, very specially, on the 1st of January. And today, in this edition of Mann Ki Baat, I wish to speak to our successful young men & women between 18 & 25, all infused with energy and resolve.
I consider them ‘New India Youth’, ‘New India Youth’ stands for aspirations, enthusiasm & energy. I firmly believe that the dream of our ‘New India’ will be realized through the skill & fortitude of these energetic youth.
When we talk of new India then that new India will be free from the poison of casteism, communalism, terrorism and corruption; free from filth and poverty. In the New India everyone will have equal opportunity and aspirations and wishes of everyone will be fulfilled. New India will be a place where peace, unity and amity will be our guiding force. My New India Youth should come forward and deliberate on how this New India would be formed. One should decide one’s own path and also decide a way for connecting along those attached to one and the Caravan should get going. You should move forward and thus should the country move ahead. Right now, while taking to you I got an idea whether we could organize a mock parliament in every district of India? Where the youth between 18 and 25 could sit together and brain storm about new India, find ways and chalk our plans. How could we realize our resolves before 2022? How could we build an India of the dreams of our freedom fighters? Mahatma Gandhi had transformed the freedom movement into a mass movement. My young friends, the need of the hour is that we build up a mass movement for making a magnificent- glorious 21st century India; a mass movement of development, a mass movement to build a capable and strong India.
I propose that a mock Parliament be organized around 15th August in Delhi comprising one young person selected from each district who would participate and deliberate on how a new India could be formed in the next five years. How can resolve be transformed into reality? Today, a lot of new opportunities have been created for the youth. Our youth are coming forward in areas like skill development, innovation and entrepreneurship and are achieving success. I wish that the New India Youth get information and details of all these new opportunities and plans at one place and a system be created so that every young person on turning 18 should automatically get to know all this and benefit from it.
My dear countrymen, I had talked about positivity during the previous episode of Mann Ki Baat. I am being reminded of one Sanskrit Shloka-
Utsaaho balwaanarya, Naastyutsaahaatparam balam |
Sotsaahasya cha lokeshu na kinchidapi durlabham ||
This means that a man full of enthusiasm is very strong since there is nothing more powerful than zest. Nothing is impossible for a man having positivity and zeal. In English too, it is said, ‘Pessimism leads to weakness, optimism to power’. During the previous episode of Mann Ki Baat, I had appealed to the countrymen to share their positive moments of 2017 and to welcome 2018 in a positive atmosphere.
I am very glad that a large number of people gave positive responses on social media platform, MyGov and the Narendra Modi App and shared their experiences. Lakhs of tweets were posted on Positive India hashtag (#), which reached out to more than nearly 150 crore people. In a way, a wave of positivity which emanated from India spread all over the world. All tweets and responses received were really inspiring. It was indeed a delightful experience. Some countrymen shared those incidents of this year which left a special impact on their minds, a very positive one at that. Some people even shared their personal achievements.
# SOUND BITE #
# My name is Meenu Bhatia. I reside in Mayur Vihar, Pocket-1, Phase- I, Delhi. My daughter wanted to do M.B.A. I needed to take a bank loan which I got very easily and my daughter was able to continue her studies.
# My name is Jyoti Rajendra Waade. I am speaking from Bodal. One rupee per month was being deducted towards insurance premium which my husband had subscribed to. He died in an accident. Only we know of the situation we faced at that time. Assistance from the government helped us a lot and I could gather the strength to stand myself.
# My name is Santosh Jadhav. A national highway has been constructed in 2017 through our village Bhinnar. As a result of this, our roads have improved a lot and business there will surely get a boost.
# My name is Deepanshu Ahuja. I live in Mohalla Saadatganj, district Saharanpur, Uttar Pradesh. Two actions taken by our Indian soldiers deserve a special mention – one was the Surgical Strike carried out in Pakistan which destroyed launching pads of terrorists and the second was the unique valour displayed by Indian soldiers in Doklam. These are without parallel.
# My name is Satish Bewani. We had a problem of water scarcity in our area and we used to depend on an army pipeline for the last forty years. Now an Independent pipeline has been constructed. So, this is our achievement in 2017.
There are a large number of such persons who have brought in positive transformation in the lives of many people through endeavour at their own level. In fact, this is the New India which we are all collectively building. Let us enter into the New Year with such little achievements, begin our New Year and take a concrete steps in the journey from ‘Positive India’ to ‘Progressive India’. When we all talk of positivity, I also feel like sharing one experience. Recently, I came to know about the inspiring story of Anjum Bashir Khan Khattak who is a topper in Kashmir Administrative Service Examination. He actually extricated himself from the sting of terrorism and hatred and topped in the Kashmir Administrative Examination. You will be surprised to know that terrorists had set his ancestral home on fire in 1990.
Terrorism and violence were so widespread there that his family had to leave their ancestral land and flee from there. For a young child, such an atmosphere of violence could easily create darkness and bitterness in the heart, but Anjum did not let it be so. He never gave up hope. He chose a different path for himself – a path of serving the people. He overcame the adverse situation and scripted his own success story. Today, he has become a source of inspiration not only in Jammu & Kashmir but for the youth of the whole country. Anjum has proved that however adverse the circumstances be, the clouds of despair and disappointment can easily be cleared by taking positive steps.
Just last week, I had a chance of meeting some daughters of Jammu & Kashmir. I was amazed at the spirit that they had, the enthusiasm that was there in their hearts and the dreams they nurtured. I was listening to them on how they wanted to make progress in various facets of life and, how their lives were filled with hope. I talked to them, there was no sign of despair; there was only enthusiasm, optimism, energy, dreams and a sense of resolve. Whatever little time I spent with these daughters, I got inspired myself. These are the strength of our nation, they are my youth, they are the future of my country.
My dear countrymen, whenever there is a reference to famous religious places, not only of India but of the whole world, it is very natural to mention about the Sabrimala temple of Kerala. Millions of devotees come to this world famous temple, seeking blessings of Lord Ayyappa Swami. It is a huge challenge maintaining cleanliness around such a large religious place where devotees in such huge number come. And especially, since this place is situated in the midst of hills and forests. But, Sabrimala temple in itself is an example to show how this challenge could be converted into a sanskar, a habit and what a tremendous strength public participation has! One police officer P. Vijayan initiated a programme Punyam Poonkavanam and commenced a voluntary campaign of creating awareness on cleanliness. And, he began a tradition that the yatra of devotees will remain incomplete if they do not contribute by performing some physical labour or the other in the cleanliness programme. No one is big or small in this campaign. Every devotee considers doing physical labour in the cleanliness drive as a part of the Lord’s worship. Every morning, there is a uniquely pleasant scene of cleanliness here when all devotees join in the drive. However big a celebrity be, or however rich one might be or however high an official be – each one contributes as an ordinary devotee in this Punyan Poonkavanam programme and becomes a part of this cleanliness drive.
There are many such examples before us. This cleanliness drive in Sabrimala and the contribution of Punyan Poonkavanam in this are so immense that each devotee contributes and participates in it.
Here, a strong resolve of maintaining cleanliness also is as important as the strict discipline observed during worship.
My dear countrymen, all of us made a resolve on Bapu’s birth anniversary on October 2, 2014 to take forward Bapu’s unfinished task of building a ‘Clean India’ and ‘a filth- free India’. Revered Bapu fought for this cause all through his life and made all out efforts. And, all of us took a resolve that on the 150th birth anniversary of revered Bapu, we shall make some contribution in the direction of making Clean India which he had dreamt of. Efforts in the direction of cleanliness are being widely taken across the whole country. A change can now be seen in the form of public participation in rural and urban areas alike. Cleanliness Survey 2018, the largest in the world, will be conducted from the 4th of January to 10th of March, 2018 to evaluate achievements in cleanliness level of our urban areas. This survey will cover a population of more than 40 crores in more than four thousand cities.
During this survey, the matters to be surveyed include freedom from defecation in the open in cities, collection of garbage, transport facilities to lift garbage, processing of garbage using scientific methods, efforts to usher in behavioural changes, innovative steps taken for capacity building to maintain cleanliness and public participation in this campaign. Separate teams will go to cities for inspection. They will talk to the people there and gather their reactions. They will analyse the use of the Cleanliness App and also about bringing reforms and improvements in various kinds of service centres. It will also be observed whether the cities have created a system wherein cleanliness of cities will became public habit, or the city’s habit for that matter. It is not for the government alone to maintain cleanliness. Every citizen and people’s organizations have a big responsibility. And I appeal to every citizen to actively participate in the Cleanliness Survey to be undertaken in the coming days. And take the full onus to ensure that your city should not lag behind and your street or mohalla should not look to be wanting. I am very sure that using blue and green dustbins to collect dry and wet garbage respectively must have become your habit by now.
For waste- collection the principle of reduce, reuse and re-cycle is very effective. Now ranking of cities will be done on the basis of this survey- if your city has a population of more than one lakh, ranking will be done on the national level and if the population of your city is less than one lakh than it will be ranked on regional level. Achieving the highest ranking must be your dream and you should put all out efforts in this direction. Be sure that you do not remain lagging behind in the Cleanliness Survey to be conducted from 4th January to 10th March, 2018. This should become the talking point in every city. And all of you must have a dream – ‘Our city – our efforts’, ‘Our progress – country’s progress’. Let us all, once again remembering revered Bapu and taking a resolve to build a Clean India, put in our best endeavours.
My dear countrymen, there are a few things which appear small but they have a far reaching impact on our image as a society. Today, in this episode of Mann Ki Baat, I want to share one such thing with you. It has come to our notice that if a Muslim woman wants to go on Haj Pilgrimage, she must have a ‘Mehram’ or a male guardian, otherwise she cannot travel.
When I first heard about it, I wondered how it could be possible! Who would have drafted such rules? Why this discrimination? And when I went into the depth of the matter I was surprised to find that - even after seventy years of our independence, we were the ones who had imposed these restrictions. For decades, injustice was being rendered to Muslim women but there was no discussion on it. Even in many Islamic countries this practice does not exist. But Muslim women in India did not have this right. And I'm glad that our government paid heed to this matter.
Our Ministry of Minority Affairs issued corrective measures and we ameliorated this restriction by phasing out a tradition that had been in practice for the past seventy years. Today, Muslim women can perform Haj without 'mahram' or male Guardian and I am happy to note that this time about thirteen hundred Muslim women have applied to perform Haj without 'mahram' and women from different parts of the country from Kerala to North India, have expressed their wish to go for the Haj pilgrimage. I have suggested to the Ministry of Minority Affairs that they should ensure that all women who have applied to travel alone be allowed to perform Haj. Usually there is a lottery system for selection of Haj pilgrims but I would like that single women pilgrims should be excluded from this lottery system and they should be given a chance as a special category. I not only reiterate this wholeheartedly but it is my firm belief that the journey of India’s progress has been possible due to women-power and on the basis of their talent and we will continue to march onwards on this path of progress. It should be our constant endeavor that our women also get equal rights and equal opportunities just like men get so that they can proceed simultaneously on the path of progress.
My dear countrymen, 26th January is a historic festival for all of us. But 26th January, 2018, will especially be remembered through the ages. The Republic Day will be celebrated with leaders of all ten ASEAN countries coming to India as Chief Guests.
This time, not one but Ten chief guests would grace the Republic Day. This is unprecedented in India's history. The year 2017 has been special for both ASEAN and India. ASEAN completed its 50 years of formation in 2017 and in 2017 25 years of India's partnership with ASEAN were completed. On 26th January the arrival of great leaders of 10 nations of the world as a unit is a matter of pride for all Indians.
My Dear countrymen, this is the season of festivals, by the way our country is a country of festivals. There is hardly a day which does not have a festival ascribed to it. All of us have just celebrated Christmas and the New Year is on its way. May the New Year bring greater happiness, glad tidings and prosperity for all of you. Let us move forward with all renewed zeal, enthusiasm, fervor and new resolve. The month of January is the period of the northward movement of the Earth on the celestial orbit around sun and in this month Makar-Sankranti is also celebrated. This is a festival linked with nature. Though all of our festivals are associated with nature in one way or the other, but in our country blessed with the bounty of cultural diversity, there are different ways to celebrate this wonderful episode of nature in different forms. Lohdi is celebrated in Punjab and North-India, while UP-Bihar eagerly await for Khichdi and Til-Sankranti. In Rajasthan, it is called Sankrant, Magh-bihu in Assam and Pongal in Tamil Nadu - all these festivals are special in their own right and they have their own importance. All of these festivals are usually celebrated between 13th and 17thJanuary.
These festivals may have different names, but their origins stems from attachment to nature and agriculture. Felicitations to all of you on the occasion of these festivals. And once again, best wishes for the New Year 2018 to all of you.
I Thank you my dear countrymen. We shall converse again in 2018.
Thank you
My dear countrymen, namaskar! A while ago, I had a chance to have an indirect dialogue, with young friends from Karnataka. The Times Group Newspaper “Vijaya Karnataka” started a new initiative urging the children to write a letter to the Prime Minister of the country. And, then they published some selected letters. I read those letters and liked the initiative. Even these little children are conversant with problems confronting the nation; aware of the deliberations going on in the country. Kirti Hegde from North Kannada had appreciated Digital India and Smart City schemes and she put forth a suggestion that we need to transform our education system and said that the present-day children do not like classroom reading, they love to know more and more about nature. And if we impart knowledge about nature to our children then in future they may prove very useful in protecting the environment.
A child Reeda Nadaf from Laxmeshwara has written that she is the daughter of an army man and feels proud of being so. Which Indian would not be proud of our soldiers? And, you being a soldier’ daughter should naturally take pride in that. Irfana Begum from Kalburgi has written that her school is 5 Kilometres away from her village and she has to start early in the morning and it gets quite late in the evening by the time she returns home. She says that as such she does not find time to spend with her friends and has suggested that there should be a school nearby. But, my countrymen, I liked this initiative taken by a newspaper that helped these letters reach me and I got an opportunity to go through these. This was a very good experience for me.
My dear countrymen, today is 26/11. The 26th of November is our Constitution Day. The Constitution of India was adopted by the Constituent Assembly on this day in the year nineteen forty-nine. Our constitution was implemented on the 26th of January, 1950 which we celebrate as our Republic Day. The Constitution of India is the spirit of our democracy. This is the day to remember the members of the Constituent Assembly. They all worked hard for about three years to draft the Constitution. And, whoever reads that debate will feel proud about what actually the vision of a life dedicated to the nation is. Can you imagine how hard their task would have been to frame the Constitution of our country which has such big diversities? They must have shown a great sense of understanding and farsightedness and that too at a juncture when the country was getting rid of the bondage of slavery. Now, this is the responsibility of all of us to make a New India in the light of the thinking of the makers of our Constitution. Our Constitution is all encompassing. There probably is no area, no aspect of nature which remained untouched.
Equality for all and sensitivity towards all is the unique characteristic of our Constitution. It guarantees fundamental rights to each & every citizen, whether underprivileged or oppressed, backward or deprived, a tribal or a woman. It protects their fundamental rights and safeguards their interests. It is our duty that we abide by our Constitution in letter and spirit. Citizens and administrators alike must move ahead in accordance with the spirit of our Constitution. The message that our Constitution conveys is that no one should be harmed in any way. It is but natural to remember Dr. Babasaheb Ambedkar on the Constitution Day today. Seventeen separate committees were constituted by the Constituent Assembly on various important issues. One of most significant of these was the drafting committee and Dr. Babasaheb Ambedkar was the Chairman of this drafting committee. He was playing a pivotal role in it. The Constitution of India, which we feel so very proud of, bears an indelible stamp of his able leadership. He ensured the welfare of every section of society. We remember him and bow before him on his Mahaparinirvan Diwas on 6th of December. Babasaheb’s contribution in making the country prosperous and strong can never be forgotten. 15th of December is the death anniversary of Sardar Vallabh Bhai Patel. Sardar Patel rose from being a farmer’s son to be known as the Iron Man of the country, undertaking the extraordinary task of uniting India into one nation. Sardar Saheb was also a member of the constituent Assembly. He was also the Chairman of the Advisory Committee on fundamental rights, minorities and tribals.
26/11 is our Constitution Day but how can the nation forget that on this very day nine years ago, terrorists had launched an attack on Mumbai. The country remembers and bows to those brave citizens, policemen, security men and each one who lost their lives then. This country can never forget their sacrifice. Terrorism has taken an ugly shape and has become a global threat almost as a daily routine. We, in India, are facing to lot for the last 40 years on account of terrorism. Thousands of our innocent people have lost their lives. But, a few years ago, when India used to talk about the severe threats of terrorism many people in the world were not ready to take it seriously, Now that, terrorism is knocking at their doors, every Government in the world, those who believe in humanity, Governments having faith in democracy are seeing this as one of the biggest challenges. Terrorism has threatened humanity across the globe. Terrorism has challenged humanity. It is bent upon destroying the humanitarian forces. So, not only India but all humanitarian forces will have to keep fighting unitedly to defeat the menace of terrorism. Lord Budha, Lord Mahavir, Guru Nanak, Mahatma Gandhi – this is the land which gave the message of love and non-violence to the world.
Terrorism and extremism are trying to weaken and destroy our social fabric. That is why, the need of the hour is that humanitarian forces should become more alert and cautious.
My dear countrymen, we shall observe Navy Day on the 4th of December. Indian Navy secures and protects our maritime boundaries. I congratulate all those who belong to the Navy. All of you must be knowing that our civilization developed along river banks. Be it the Indus, the Ganges, the Yamuna or the Saraswati – our rivers and seas are both economically and strategically important. These are our gateway to the whole world. This country, our land has an unbreakable bond with oceans. And as we peep into our history, we come to know that about 800 to 900 (eight to nine hundred) years ago, during the rule of the Cholas, the Chola Navy was considered one of the strongest navies. This navy had a big role in the expansion of the Chola-rule and in making it an economic super power. Numerous references of voyages and expeditions of the Chola-Navy are found even today in “Sangam - literature”. Very few people might be aware that most navies of the world allowed women on their warships pretty later. But in the Chola Navy, a large number of women played leading roles and that too about eight to nine hundred years ago; to the extent that women actively took part in battles. The Chola rulers possessed a very rich and sound knowledge of ship building. When we talk of navy, who can ignore Chhatrapati Shivaji Maharaj and the capabilities & might of his navy. Konkan coast, where the sea has a significant role, was under Shivaji Maharaj’s realm. Many forts associated with Shivaji Maharaj like Sindhu Durg, Murud Janjira, Swarn Durg, etc were either situated on the sea coast or were encircled by sea. The security of these forts was the responsibility of the Maratha Navy. There was a combination of large ships and small boats in the Maratha Navy. His naval forces were very efficient and skilled in attacking the enemy and in defending their attacks. And how can we refer to the Maratha Navy and not remember Kanhoji Aangre! He took the Maratha Navy to newer heights and established Maratha Naval Bases at a number of places. After Independence, our Indian Navy showed its valour on various occasions; be it the liberation struggle of Goa or the Indo-Pak war. When we talk of the Navy, we see only war but the Indian Navy has come forward in humanitarian ventures as well. In June this year when Cyclone Mora hit Bangladesh and Myanmar, our naval ship INS SUMITRA rendered a big help in rescue operations; many fishermen were rescued from the sea and handed over to Bangladesh.
In May-June this year when there was a severe flood in Sri Lanka, three ships of our navy reached there immediately and helped the government and the people there. In September, during the Rohingya crisis in Bangladesh, our naval ship INS GHADIYAL delivered humanitarian assistance there. The Government of Papua New Guinea sent an SOS-message to us in June and our navy rendered help in saving the fishermen of a fishing boat. On 21st November, during an incident of piracy in a merchant vessel in the Western Gulf, our naval ship INS TRIKAND reached there to help them. Carrying medical services to FIJI, sending urgent relief, or delivering humanitarian aid during crisis to a neighbouring country – our navy has always rendered glorious service. We Indians, always nurture a feeling of pride and respect towards our security forces- be it the army, the navy or the air force and every countryman salutes the courage, bravery, valour, chivalry and sacrifice of our soldiers. They sacrifice their youth for the country so that 125 crore countrymen may live in peace. We observe ARMED FORCES FLAG DAY every year on 7th December. This is a day to feel proud of and show respect to our country’s armed forces.
I am happy that the Ministry of Defence has decided to run a campaign from December 1 to December 7 during which they will reach out to the people of the country to disseminate information about our ARMED FORCES and to make them aware. Throughout the week every one, old or young, should wear the flag. A movement to instill respect for our forces will come into being in the country. We can distribute ARMED FORCES FLAGS on this occasion. Experiences and acts of valour of those from the armed forces who are our neighbours or acquaintances and related videos and pictures can be posted on hash-tag armed forces flag day (#armedforcesflagday). People from the forces could be invited to schools and colleges to share information about the forces. Our new generation can get a good opportunity to get information about the forces. This is also an occasion to collect funds for the welfare of the jawans of our armed forces. This amount is spent through the Sainik Kalyan Board on the dependents of those who lost their lives and also for those who got injured during wars, for their rehabilitation. More information about sending in monetary contributions can be had on kbs.gov.in. You can also make cashless payment for this. Come, let us do something on this occasion which may raise the morale of our armed forces. We should also contribute towards their welfare.
My dear countrymen, World Soil Day is on the 5th of December. I want to tell something to my farmer brothers and sisters. An important component of the Earth is “soil”. Whatever we eat is linked only to this soil. In a way, the complete food chain is connected to soil. Just imagine, what will happen if there is no fertile soil in the world? The very thought is dreadful. There will be no soil, no plants and trees will grow; how will human life be possible? How will animals and birds survive? This concern was touched upon a long time ago in our culture and that is why we are aware of the significance of soil since ancient times. In our culture, there has been efforts to foster a feeling of devotion and gratitude towards our farms, our soil among the people and at the same time scientific farming methods and techniques have been adopted which provide nutrients to the soil. In the life of the farmer of this country both aspects have been important- reverence to his soil and preserving & nurturing it scientifically. We all feel proud of the fact that the farmers of our country are rooted to traditions and also take interest in modern science, they keep trying and resolve. I had heard about the farmers, of Tohoo village in Bhoranj block of Hamirpur district in Himachal Pradesh.
Farmers here were earlier using chemical fertilizers indiscriminately which deteriorated the soil-health. Produce reduced which resulted in lower income and gradually the productivity of the soil also was going down. Some enlightened and alert farmers in the village noticed and understood the gravity of the situation, and after that got their soil tested on time and followed the advice about the quantity of fertilizers, micro-nutrients and organic fertilizers to be used. And, you will be surprised to know about the results achieved after the farmers received the information and guidelines about soil health. In the Rabi season of 2016-17, wheat production per acre increased three to four times and their income also increased by four to six thousand rupees per acre. Besides, the soil quality also improved. Cut in fertilizer usage resulted in monetary saving. I am very glad to see that my farmer brothers have come forward to implement the suggestions made in the soil health card and as better results are showing, they are getting more and more inspired. And, now the farmer also realizes that proper soil care is needed if production is to be increased and that if we take care of our soil, it will also care for all of us.
Our farmers across the country have got more than 10 crore soil health cards made so that they may understand their soil better and accordingly sow the crop.
We worship mother Earth but have we ever thought as to how much damage is caused to the health of our mother- Earth because of the usage of fertilizers like Urea? This has been proved by all scientific methods that a serious damage is caused because of an excessive use of urea. The Farmer is the son of the soil, how can a farmer see the mother Earth falling sick? The need of the hour is to revive the mother-son relationship. Can our farmers, the sons of our soil make a resolve that by the year 2022, when we complete 75 year of our independence, they will cut down the urea usage to half of what is being used presently? If this son of the soil, my farmer brother once make this resolve then we will see the health of mother Earth improve and production will increase. A transformation shall start to usher into the life of the farmer.
All of us are experiencing Global warming, climate change now. There was a time when winter would set in even before Diwali. And now, December is knocking on our doors, yet winter is advancing at a leisurely pace. But the moment winter sets in, we all have experienced that we don’t like coming out of our quilts one bit. Despite such inclement weather there are some extraordinarily aware people who deliver results that are exemplary and inspiring for all of us. You will be amazed to learn that Tushar, an eight year old differently - abled, divyang lad from Madhya Pradesh had taken a firm resolve to make his village Open defecation free. It was a young boy vis-à-vis an enormous task at hand. But his grit and determination were exponentially greater and mightier. The eight year old is speech impaired, but he used a whistle as an armament. He would wake up at 5 in the morning, visit households one by one, awaken them and used gesticulations to wean them away from Open defecation. Covering 30 to 40 homes everyday, spreading the message of cleanliness, this boy transformed the village into Open defecation free. Promoting the virtues of cleanliness, this little lad has done inspiring work. This proves that cleanliness suffers from no barriers of age; there are no boundaries. A child or an elderly person, a woman or a man, everyone needs cleanliness. And everyone should contribute towards the cause of cleanliness. Our Divyang brothers and sisters are firm in their resolve; they are competent, capable, courageous and determined.
We get to learn something or the other every moment. They are performing well in every walk of life. Whether it be the field of sports, any kind of competition or a social initiative, our Divyang brethren are second to none. You must be aware that our Divyang sportspersons won 4 medals in the Rio Olympics through their stellar performances. They also emerged champions in the T-20 Cricket World Cup for the Visually Challenged. Myriad competitions take place all over the country. Recently, the 17th National Para-Swimming Competition was held in Udaipur. Divyang brothers & sisters from different parts of the country participated & displayed their stellar skills. One of them happens to be 19 year old Jigar Thakkar from Gujarat, whose body suffers from 80% muscle atrophy.
Just look at his fortitude, resolve & perseverance. Despite his 80% muscle atrophy, the 19 year old Jigar Thakkar won 11 medals in the National Para Swimming Competition. It is on account of this feat that he has been chosen as one of the 32 Para Swimmers for the 20-20 Paralympics by the Sports Authority of India. They will be imparted training at the Centre for excellence at Gandhinagar in Gujarat. I salute the spirit of the young Jigar Thakkar & wish him the best. These days special emphasis is being laid on accessibilities & opportunities for persons with disabilities, our Divyang brethren. Our endeavour is to ensure that each & every person in the country is empowered. Let the essence of ‘Sama’ & ‘Mama’, that is a confluence of collective & the individual, foster a sense of syncretic harmony in our society; let us move forward with each other, together.
A few days from now, the pious occasion of Id-e-milad-un-nabi will be observed. Paighambar Hazrat Mohammad Sahab was born on this day. I extend best wishes to all countrymen. And I hope that this holy occasion of Id gives us new inspiration, fresh energy and the strength to resolve anew, to foster peace & communal amity.
(Phone call)
'Hello Mr. Prime Minister, I am Neerja Singh calling from Kanpur. I request you that out of the entire gamut of your thoughts reflected during the programme ‘Mann Ki Baat’ throughout the year, if you could share ten of your best thoughts, so that we all remember these opinions and we get to learn something from them. Thank you
(End of phone call)
You are quite right that 2017 is near completion, and the year 2018 is knocking on the door. And you have given some sound advice. But continuing from your point of view I feel like adding something more to it and modifying it a bit. And as in our villages, our elders, the old people of the village are always reminding us - forget the sorrow but also do not forget the joy. You too forget your sorrow and also do not forget the joy. I think we should propagate this wisdom. We must usher in the auspicious in 2018, enter the New Year with the resolution of the auspicious
We know that in our part of the world, and probably all around the world around the ending of the year we take a stock, contemplate, and draw plans for the next year. In our media many interesting events of the year gone by are broadcast again to reflect on the previous year. The previous year is both a mixture of both positive and negative memories. But don’t you think that we should enter into the year 2018, remembering the positive events, to do some good?
I suggest to all of you that of all the 5-10 positive things that you might have heard, seen or would have had experienced were to be disseminated, so that other people would get to know of them and this would lead to a spirit of benevolence. Can we not contribute in this endeavour? Can’t we share 5 of our positive life experiences of the past year? Whether they be conveyed through photographs, in the form of a small story, or as a small video, I invite all of you to welcome the year 2018 in a benefic atmosphere, with positive memories, with positive thinking and with positive tidings.
Come, let us share our positive experiences with #PositiveIndia (Hashtag Positive India) on the Narendra Modi App or MyGov portal. Remember to recollect the incidents that inspire others. If you remember positive events, then you will be in a mood to do good around you. Positive events provide energy to do good. Positive thoughts beget positive resolve, positive resolve takes you forward towards auspicious results.
Let all of us together witness the strength of this collective momentum and its impact. And I will definitely share the positive thoughts that arrive on #positiveindia (hashtag positive India) with the rest of our denizens in the next episode of ‘Mann Ki Baat.’
My dear countrymen, I will be back amidst you next month, with another episode of ‘Mann Ki Baat.’ We will have another opportunity to talk a lot. Many - Many thanks!
My dear countrymen, Namaskar. The mega festival of Chatth, celebrated 6 days after Diwali, is one of those festivals which are celebrated in accordance with strict rituals & regimen. In everything associated with it like cuisine or attire, traditional norms are adhered to. The unique festival Chhath Pooja is deeply linked with nature & worshipping nature. Surya & Jal –The Sun & Water are central to the veneration in Chhath, whereas utensils made of bamboo & clay and tubers are an essential part of the Pooja articles. In this mega festival of faith, veneration of the rising sun and worship of the setting sun convey a message that is replete with unparalleled Sanskar. The world respects & venerates those who rise; the Chatth Pooja bestows upon us the sanskaar to respect & revere those whose setting, whose dusk is imminent. The expression of the significance of cleanliness in our lives is intrinsic to this festival. Before the advent of Chatth, people come together to clean up their homes, and along with that cleansing of rivers, lakes, pond banks and pooja locations, that is ghats, with utmost enthusiasm & fervour. Sun worship or Chhath Pooja is a festival of protecting the environment, ushering in wellness and discipline.
Usually, people shy away from borrowing from others. But in Chhath Pooja, it is specially customary to ask for Prasad after the morning Arghya ritual. It is believed that the rationale behind this tradition is that, it destroys his ego that proves to be an impediment in one’s path of progress. It is natural for each one of us to feel proud of this great tradition of India.
My dear countrymen, ‘Mann - Ki - Baat’ has garnered accolades; it has also attracted criticism. But whenever I look at the overall outcome of ‘Mann Ki Baat’, it reinforces my belief, that it is intrinsically, inseparably woven into the warp & weft of our common citizens’ lives, cent per cent. Take the examples of Khadi and handloom. On Gandhi Jayanti I have always advocated the use of handloom and Khadi. What has it led to? You will be glad to know that on the 17th of this month on the day of Dhanteras, the Khadi Gramodyog Bhavan store in Delhi witnessed a record sale of Rupees one crore, twenty lakhs. You too must be feeling happy with a sense of satisfaction at this mega sale in just one Khadi & Handloom store. During Diwali, Khadi gift coupon sales recorded an overwhelming 680 per cent rise. Compared to last year, the total sales of Khadi & Handicrafts have risen almost by 90%. One can clearly see that today, the youth, the elderly, women, in fact every age group is taking to Khadi & handloom.
I can imagine how many weaver families, poor families, and the families working on handlooms must have benefitted from this. Khadi was Khadi foundation earlier and we talked of Khadi fashion but with my recent experience I can say that after Khadi for nation and Khadi for fashion now, it is becoming Khadi for transformation. Khadi and handloom have transformed the lives of the poorest of the poor and are emerging as a powerful means of empowering them. It is playing a very important role for gramodaya.
Shriman Rajan Bhatt has written on NarendramodiApp that he wants to know about my experience of celebrating Diwali with security forces and he also wants to know how the security forces celebrate Diwali. Shriman Tejas Gaikwad has also written on NarendramodiApp whether there could be an arrangement to send our homemade sweets to the security forces. We also remember our brave security forces. We also feel that our homemade sweets must reach our country’s soldiers. All of you must have celebrated Deepawali with traditional fervour. To me, Diwali brought a special experience. Luckily I got another chance to celebrate Deepawali with our courageous and brave heart security personnel. Memories of Diwali celebrations with our security forces in Gurez sector of Jammu & Kashmir will stay long cherished in my heart. On behalf of all our countrymen, I salute every soldier of our security forces who guard the country’s borders with utmost dedication and a spirit of sacrifice, braving all odds. Whenever we get a chance or whenever there is an opportunity we must try to know the experiences of our soldiers and listen to their tales of valour. Many of us may not be aware that the jawans of our security forces play an important role not only on our borders but they play a very vital role in establishing peace the world over. As UN Peacekeepers, they are bringing glory to the nation in the comity of nations. United Nations Day was observed recently all over the world on the 24th of October.
Everybody recalls the efforts and constructive role of the UN in establishing peace throughout the world. And, we are believers in “Vasudhaiv Kutumbakam” which means the whole world is our family. And with this belief, India has been cooperating very actively in various important initiatives taken by the UN. You may be aware that the preface of the Indian Constitution and the preface of the UN Charter; both start with the words ‘We the people’. India has always stressed on the importance of equality for women and the UN Declaration of Human Rights is a living example of this.
In its initial phrase, it was proposed as ‘all men are born free and equal’ which was amended and adopted as ‘all human beings are born free and equal’ with the efforts of the Indian representative Hansa Mehta. It appears to be a minor change but it reflects a vision of a healthy thought. India’s most important contribution under the UN umbrella is its role in UN Peacekeeping Operations. India has always been extending active support to UN Peace Missions.
Many of you may be getting to know this for the first time. More than 18 thousand Indian security personnel have lent their services in UN Peacekeeping Operations. Presently, about seven thousand Indian soldiers are associated with UN Peacekeeping initiatives which is the third highest number of soldiers from any country. Till August 2017, Indian soldiers had lent their services in about 50 of the total of 71 Peacekeeping operations undertaken by the UN the world over. These operations have been carried out in Korea, Cambodia, Laos, Vietnam, Congo, Cyprus, Liberia, Lebanon, Sudan and many other parts of the world. In Congo and Southern Sudan more than twenty thousand patients were treated in hospitals of the Indian army and countless lives were saved.
Indian security forces have not only saved people in various countries but also won their hearts with their people friendly operations. Indian women have played a leading role in peace keeping efforts. Very few people may know that India was the first country which sent a female police unit to Liberia for the United Nations Peace Mission. And see how this initiative from India became a big source of motivation for other countries too. Later, all countries started sending their women police units. You will surely feel proud to know that India’s contribution is not limited to just peacekeeping operations but it is also providing training to peacekeepers from about eighty five countries. The brave peacekeepers from this land of Mahatma Gandhi and Gautam Budha have sent a message of peace and amity around the world. Peacekeeping operation is not an easy task. Jawans from our security forces have to perform duties in difficult and remote areas. They have to live amongst many different people. They need to know and adapt to various situations and different cultures. They have to mould themselves according to the local needs and environment. While remembering our brave UN Peacekeepers today, who can forget the sacrifice of Captain Gurbachan Singh Salaria who laid down his life while fighting in Congo in Africa?
Every Indian feels proud while remembering him. He was the only UN peacekeeper, a brave-heart, who was awarded the Param Veer Chakra. Lieutenant General Prem Chand ji is one among those Indian Peacekeepers who carved a special niche for themselves in Cyprus. In 1989, at the age of 72, he was appointed the Force Commander for an operation in Namibia and he gave his services to ensure the Independence of that country. General Thimaiyya, who had been India’s army chief, lead the UN Peacekeeping force in Cyprus and sacrificed everything for those peace efforts. India has always been giving a message of peace, unity and harmony to the world. We believe that everyone must live in peace and harmony and move ahead to carve a better and peaceful tomorrow.
My dear countrymen, our holy land has given great souls who selflessly served humanity. Sister Nivedita, whom we also know as Bhagini Nivedita, was one such extraordinary person. She was born in Ireland as Margret Elizabeth Noble but Swami Vivekanand gave her the name NIVEDITA. And Nivedita means the one who is fully dedicated. She later proved herself true to her name. Yesterday was the 150th birth anniversary of Sister Nivedita.
She was so impressed by Swami Vivekanand that she renounced her happy- prosperous life and dedicated herself to the service of the poor. Sister Nivedita felt very hurt by the atrocities of the British rule. The Britishers not only made us slaves but they tried to enslave us mentally as well. Constant efforts to belittle our culture and make us feel inferior were on. Bhagini Nivedita ji revived the dignity and pride of Indian culture. She brought the people together by infusing a sense of national-awakening. She travelled to various countries and raised her voice against the mischievous propaganda against Sanatan Dharma and ideology. Renowned nationalist and Tamil poet Subramanya Bharati is well known for his revolutionary poem Pudhumai Penn or New woman and is renowned for his efforts for Women empowerment.
It is said that Bhagini Nivedita was the inspiration. Bhagini Nivedita ji also helped the great scientist Jagdish Chandra Basu. She helped publication of Basu’s research and publicity through her articles and conferences.
This is India’s unique beauty that spirituality and science complement each other in our culture.
Sister Nivedita and Scientist Jagdish Chandra Basu are a powerful testimony to this. In 1899, plague broke out in Calcutta and hundreds of people lost their lives in no time. Sister Nivedita, without caring for her health, started cleaning drains and roads. She was a woman who could live a luxurious life but she dedicatedly worked for the poor. Getting inspiration from her sacrifice, people came forward and joined her.
Through her work, she spread the message of the importance of cleanliness and service to mankind. And, it is inscribed on her grave – “Here reposes Sister Nivedita who gave her all to India”. Undoubtedly, she did so. There cannot be any other befitting tribute to this great soul than every Indian taking a lesson from her life and emulating her.
Thank you for your phone call. First of all, many felicitations to all the children on the occasion of Children's Day celebrated on the birthday of our first Prime Minister Jawaharlal Nehru ji. Children are the emerging heroes in the creation of new India. Your concern is correct that the diseases which surfaced in old age, or emerged around the last lap of life - have started to appear in children nowadays. It is indeed surprising today, when we hear that children are suffering from diabetes.
In earlier times, such diseases were known as 'Raj-Rog' which means diseases that used to afflict only the rich or those who lived a life of luxury. Such diseases were very rare in young people. But our lifestyle has changed. Today these diseases are known as ‘lifestyle disorders.’ One of the main reasons for being afflicted with such diseases at a young age is the lack of physical activity in our lifestyle and the changes in our eating habits.
Society and the family need to pay attention towards this crisis. If you’ll start paying attention to it, you will see that there is no need to do anything extraordinary. You just need to make small regular changes in order to transform your habits, making them a part of your way of life. I would like the family to consciously try to inculcate in children the habit of playing in open grounds. If possible, we can make the elder family members accompany these children to the playground and play with them.
The children can be made to take the stairs instead of taking the lift. After dinner, the entire family can go for a walk with the children. Yoga for Young India. Yoga will be helpful for especially our young friends, in maintaining a healthy lifestyle and protecting them from lifestyle disorders. The practice of Yoga 30 minutes before school can impart much benefit. It can also be practised at home and the specialty of Yoga is that it is easy, simple and accessible to all. I am saying this because a person of any age can easily practise it. It is simple because it can be easily learned and it is accessible, since it can be done anywhere.
No special tools or fields are needed. There are several studies being conducted on how Yoga is effective in curbing diabetes. These studies are being carried out in AIIMS too and the results that have emerged so far are very encouraging. Do not look at Ayurveda and Yoga as a means of medical treatment only; instead of this we should make them a part of our life.
My dear countrymen, especially my young friends, we have been getting glad tidings from the field of sports. In different games, our athletes have made the country proud. In hockey, India has won the Asia Cup hockey title through its dazzling performance. Our players performed magnificently and on the basis of their sterling efforts, India has become the Asia Cup champion after an interval of ten years. India had earlier won the Asia Cup in Hockey in the years 2003 and 2007. I extend felicitations on behalf of the entire nation to the entire team and support staff.
After hockey, good news for India also came in badminton. Badminton star Kidambi Srikanth has filled every Indian’s heart with pride by clinching the Denmark Open title with his excellent performance. After Indonesia Open and Australia Open, this win has completed the triad of the super series premiere title. I congratulate our young friend, Kidambi Srikanth for this feat and enhancing the prestige of India.
Friends, the FIFA Under-17 World Cup was organized this month. Teams from all over the world came to India and all of them exhibited their skills on the football field. I also got an opportunity to go and watch a match. There was a lot of enthusiasm among the players and the spectators. This world cup was a super event where the whole world was watching you. Such a big spectacle, I was astounded to see the energy, enthusiasm, and zeal of all the young players. The world cup was successfully organized and all the teams performed their best.
Regardless of the fact that India could not win the title, the young players of India won the hearts of everyone. The whole world including India enjoyed this mega festival of sports and this whole tournament was both full of interest and entertainment for football lovers. The signs that the future of football is very bright have started to appear. I extend my congratulations and good wishes to all the players, their colleagues, and all the sports lovers once again.
My dear countrymen, a multitude of people write to me about ‘Swachch Bharat’, I feel that if I have to do justice to their feelings then I will have to do the program ‘Mann Ki Baat’ every day and every day ‘Mann Ki Baat’ will be dedicated solely to the subject of cleanliness. Some listeners send photo graphs of the efforts undertaken by children whereas others mention the role of youth in these efforts. Sometimes there is a story of an innovation to bring about cleanliness or winds of change that get ushered due to an official’s zeal.
A few days ago I received a very detailed report highlighting the story of transformation of Chandrapur Fort in Maharashtra. An NGO called Ecological Protection Organization launched a cleanliness campaign in Chandrapur Fort. In this campaign lasting for two hundred days, people performed the task of cleaning the fort, non-stop, without any fatigue and with team-work. Just think Two-hundred-days of continuous labour! They sent me photographs with a caption- ‘Before and After’! I was overwhelmed on seeing these and whoever will see these photographs, no matter how upset he is on witnessing the filth around him, and wondering how the mission of cleanliness will be fulfilled - then I have to tell such people that you can see for yourself the toil, resolve and determination of the members of the Ecological Protection Organization, in these living pictures.
Just on seeing these pictures, your disappointment will transform into hope. This mammoth effort of bringing about cleanliness is a wonderful example of fostering aesthetics, co-operation and continuum. Forts are symbols of our heritage. And it is the duty of all countrymen to keep our historical heritage safe and clean. I congratulate Ecological Protection Organization, their entire team and the people of Chandrapur.
My dear countrymen, we’ll celebrate Guru Nanak Jayanti on the 4th of November. Guru Nanak Dev ji is not only the first guru of Sikhs; he’s guru to the entire world. He envisioned the welfare of all humanity and considered all castes to be equal. He stressed on women empowerment and respect for women. Guru Nanak Dev ji undertook a 28 thousand kilometre journey on foot and throughout the journey spread the message of true humanity. He entered into a dialogue with people and showed them the path of truth, sacrifice & dedication. He advocated the message of equality in society, not through mere words but through concrete endeavour. He ran a LANGAR which sowed the seeds of the spirit of service amongst fellow beings. Partaking of LANGAR together created a feeling of unity & oneness in people. Guru Nanak Dev ji voiced three messages for a meaningful, fulfilling life- Chant the name of the Almighty, work hard and help the needy. In order to convey his ideals, Guru Nanak Dev ji composed the Gurbani. Come 2019, we are going to celebrate the 550th PRAKASH VARSH of Guru Nanak Dev ji. Come, let us try & advance on the path of his ideals & teachings.
My dear countrymen, we shall celebrate the birth anniversary of Sardar Vallabhbhai Patel ji, two days from now, on the 31st of October. All of us know that he was the one who laid the foundation stone of modern, unified India. We can learn a lot from the unparalleled saga of this great son of Mother India. The 31st of October was also the day on which Smt. Indira Gandhi left this world. Sardar Vallabhbhai Patel’s speciality was that he not only put forth revolutionary ideas; he was immensely capable of devising practical solutions to the most complicated problems in the way. Translating a thought into reality was his forte’. Sardar Vallabhbhai Patel took on the reins of weaving a unified India. He ensured that millions of Indians were brought under the ambit of one nation & one constitution. His decision making ability infused in him the strength to overcome all obstacles. Wherever respectful coercion was needed, he proceeded gently. Wherever the use of force was imperative, he did not hesitate. He set a definite goal and moved forward on its path with grit & determination. It was only he who could achieve this task of uniting India. He conceived a nation where everyone was equal. One ideal of Sardar Vallabhbhai Patel will always be inspiring to all of us. He had said “No division of caste or creed should be able to stop us, all are the sons & daughters of India, all of us should love our country and we should carve out our destiny on the foundation of mutual love & harmony.
These lofty ideals of Sardar Sahab are relevant to and inspiring for our vision for a New India, even today. And that is why his birthday is celebrated as National Unity Day. His contribution in giving a unified texture to the nation is without parallel. On the occasion of the birth anniversary of Sardar Sahab, Run for Unity will be organized throughout the country, which will see the participation of children, youth, women, in fact people of all age groups. I urge you to participate in Run for Unity, the festival of mutual harmony.
My dear countrymen, you must’ve returned to your respective routines after the Diwali vacation, with a new resolve, with a new determination. May all your dreams come true, my best wishes to you.
Many many Thanks.
My dear countrymen, Namaskar to all of you! It is now a full three years since I started speaking to you over “Mann Ki Baat”. This is the 36th episode today. “Mann Ki Baat” has provided me with a unique opportunity to get connected with various feelings and positive energy of the country; emotions of our people which include their desires, expectations and at times, even grievances, which come to their minds. And I have never said that these are the expressions of my mind; Mann Ki Baat reflects our countrymen’s minds, their expressions, their expectations. And when I say things in Mann Ki Baat, people from across the country send their ideas, experiences and feelings to me. I am probably not able to convey all these to you but still I get a treasure-full of ideas over e-mail, over telephone, over mygov. or over Narendra Modi App. I receive a multitude of such ideas and suggestions. Most of these are inspiring to me.
A large number of these ideas are regarding improvements in the functioning of our government. There are personal grievances and complaints and sometimes attention is drawn to community problems. I just take half an hour of your time in a month but people keep sending suggestions, ideas and other material over Mann Ki Baat during all 30 days of the month. And, the result of this whole exercise is that the government has started realizing the sensitivities and powerful ideas of the people of far off places. And, this is why the three-year journey of Mann Ki Baat is in fact a journey of our countrymen, their emotions and their feelings. I am thankful to our countrymen for having provided me an opportunity to understand the feelings of the common man. In Mann Ki Baat, I have always remembered one sentence of Acharya Vinoba Bhave. He always used to say ‘A- sarkari, Asarkari’, meaning non government is effective. I have also tried to focus on the people of the country in Mann Ki Baat, have kept it away from political hues & tried to remain connected with you with a stable mind rather than being diverted by the heat of the moment or anguish.
I surely believe and feel that now after three years, social scientists, universities, research scholars, media experts would undertake its analysis and highlight its every aspect, positive as well as negative. And I am sure that this brainstorming could be useful for Mann Ki Baat in future and will infuse a new energy into it. And, in one episode of Mann Ki Baat I had said that while having our food, we must also be conscious of consuming only as much as we need and see to it that there is no wastage. But, later, I received letters from all corners of the country. Many social organizations and many youth are already observing this in practice. I come to know about a lot many people who were involved in ensuring that leftover food was best utilized. I derived much satisfaction and joy to learn this.
Once, in Mann Ki Baat, I had mentioned about a retired teacher from Maharashtra Shriman Chandrakant Kulkarni who donated 51 post - dated cheques of Rs. 5,000/- each for the cleanliness drive out of his total monthly pension of Rs. 16,000/-. And then I saw that a lot many people came forward to donate for this cause.
Once, I saw a selfie of a sarpanch with a daughter and referred to the same in Mann Ki Baat. In no time, “Selfie with Daughter” became a big campaign not only in India but across the whole world. This is not only an issue of social media. It became an incident to create a new self-confidence and a feeling of self pride in every daughter. Every parent started feeling that they should take a selfie with their daughter. Every daughter started regaining her own self confidence & self esteem.
I was in a meeting with the Tourism Department recently. I asked people who were planning to go travelling that where-ever they visit ‘Incredible India’, they must send photographs of those places. Lakhs of photographs from every corner of India were received which actually became a treasure for those working in the tourism sector. I’ve experienced through ‘Mann Ki Baat’ that even a tiny incident can launch a massive campaign. Today I felt like sharing it, since I thought that it has been three years, and events & incidents over those three years ran across my mind. The nation is always ready to move in the right direction. Every citizen of the country wants to do something for the benefit of others, for social good, for the country’s progress. This is what I gathered, learnt and understood from our countrymen during three years of the Mann Ki Baat campaign. This is the most valuable capital and enormous strength for any country. I heartily bow to my countrymen.
In one episode of Mann Ki Baat I had discussed about Khadi and Khadi is not a fabric but an idea, a principle. I have noticed that these days interest in Khadi has increased very much and I had just said that I was not asking people to makeover into wearing Khadi permanently; rather, since there are a number of fabrics then why not Khadi also be one of the fabrics of your choice? May be a bed-sheet in the house, a handkerchief or a curtain, it has been felt that the younger generation has got interested in Khadi. Sale of Khadi has increased and as a result of this, the poor man’s household has directly got connected to employment. Discount is offered on Khadi from 2nd October and people get quite a good rebate. I once again urge that we should try and take forward the Khadi movement. We should follow the spirit of helping the poor to be able to light a Diwali lamp. The poor of our country will derive strength from this and we must do it. The increasing interest in Khadi has infused a new thinking in those working in the Khadi sector as well as those connected, in any way, with Khadi. How do we bring in new technology, how do we increase productivity, how do we introduce looms driven by solar power? How do we rejuvenate our traditional heritage which was lying inactive for 20, 25 or 30 years?
Sewapuri Khadi Ashram at Varanasi in Uttar Pradesh was lying closed for 26 years but has got a fresh lease of life now. A number of thoughts were implemented. New employment opportunities were created for a number of people. Khadi Gramodyog revived its training centre at Pampore in Kashmir and in this sector Kashmir has so much to offer. With the reopening of this training centre, the new generation will get a boost in jobs in manufacturing , in weaving, in creating new things and it feels so good to see that even big corporate Houses have started including Khadi items as Diwali gifts. Even people have started exchanging Khadi items as gifts. We now experience how something grows naturally.
My dear countrymen, we had taken a resolve in last month’s Mann Ki Baat and had decided to observe a 15-day Cleanliness Festival before Gandhi Jayanti. We shall connect people through cleanliness. Our Honourable President inaugurated this programme and the country got connected. The old or the young, men or women, city or village everyone has become a part of this Cleanliness campaign now. And when I say “Sankalp Se Siddhi”, we can see for ourselves as to how a Cleanliness Campagin is advancing towards Sankalp Siddhi, that is Attainment through Reslove. Everyone accepts this, co-operates in this and makes a contribution in realizing this. I am grateful to our Honourable President. But, every section of society has taken this as its own campaign, everyone has got connected to this. Whether it be people from the sports world, academicians, schools, colleges, universities, farmers, workers, officers, government employees, police, or army jawans – every one has got connected with this. A kind of a pressure has been created in public places and now people resist if someone tries to spoil or to make a public place dirty in any way and even those spoiling public places are also feeling this pressure. It is a good thing and I am pleased to know that just in the first four days of “Swachhata Hi Sewa Abhiyan” more than 75 lakh people joined these activities with more than 40 thousand initiatives..
I have seen that some people are continuously working and are determined to bring out results. I noticed something else this time – one is that we clean up a place, and the second is that we become aware and do not spread filth; but if we have to inculcate cleanliness as a habit, we must start an idea- based movement also. This time a number of competitions were organized on the theme “Cleanliness is Service”. More than two and a half crore children took part in an Essay Competition on cleanliness. Thousands of children made paintings. They drew pictures based on their own imaginations. Many people wrote poems and these days I post drawings made by our young children on social media and praise their efforts. Whenever there is a reference to cleanliness, I do not forget to express my gratitude to media persons. They have taken this campaign in a religious manner. They have made a big contribution in creating a positive environment and are leading the Cleanliness Campaign in their own ways.
We can see in “Swachhata Hi Sewa” movement as to how the electronic media and the print media in our country can render a big service to the country. Just a few days ago some one drew my attention towards Bilal Dar, a young man of 18 years from Srinagar. And you will be glad to know that Srinagar Municipal Corporation has made him their brand ambassador and when there is a talk of brand ambassador, there is a general feeling that he/she must be a Cine artist or a sports-personality. But not in this case. Bilal Dar got connected to the ‘Swachhata Abhiyan’ or Cleanliness Campaign since the age of 12-13 years and has been working for the last 5 to 6 years. He clears plastic, polythene, used bottles, dry or wet waste – every piece of dirt from Aisa’s biggest lake near Srinagar. He also earns from this activity. His father had died of cancer at a very young age but he connected his livelihood with cleanliness. I congratulate Srinagar Municipal Corporation for taking this initiative towards sanitation and for their imagination to appoint an ambassador for this cause of cleanliness because Srinagar is a tourist destination and every Indian wants to go there; and if such attention is given to Cleanliness it is a very big achievement in itself. And I am glad that they have not only appointed Bilal as their ambassador but also given him a vehicle, and also a uniform and he goes to other areas and educates people about cleanliness and inspires them and keeps tracking them till results are achieved. Bilal is very young age wise but is a source of inspiration for all of us who are interested in cleanliness.
I congratulate Bilal Dar.
My dear countrymen, we will have to accept the fact that history begets history and when there is a reference to history, it is but natural to recall our great men. The month of October is a month to remember so many of our titans. From Mahatma Gandhi to Sardar Patel, there are many great leaders who gave us the direction towards the 20th and 21st century, led us, guided us and faced so many hardships for the country. 2nd October is the birth anniversary of Mahatma Gandhi and Lal Bahadur Shastri, 11th October is the birth anniversary of Jai Prakash Narain and Nanaji Deshmukh and Pandit Deen Dayal Upadhyay’s birth anniversary falls on 25th September. This is the centenary year of Nanaji and Deen Dayal ji. And, what was the main focus of all these great men? One thing was common and that was to live for the country, do something for the nation; they led the people not by mere sermons but by their actions. Gandhiji, Jai Prakashji, Deen Dayalji were such great personalities who remained far away from the corridors of power but lived every moment for the people, kept fighting all odds following the principle “Sarv Jan Hitay – Sarv Jan Sukhay”, they kept endeavouring tirelessly. Nanaji Deshmukh left politics and joined the Gramodaya Movement and while celebrating his Centenary year, it is but natural to honour his contribution towards Gramodaya.
India’s former President Shriman Abdul Kalamji used to speak of Nanaji’s contribution in rural development while talking to the youth. He used to mention Nanaji’s contribution with great respect and he even went to a village to see Nanaji’s work there.
Like Gandhiji, Deen Dayal Upadhyayji also talked about the last person at the farthest fringes. Deen Dayalji talked about the poorest of the poor the deprived, distressed ones and spoke of how, through education, employment or otherwise his life could be transformed. We are not obliging these great men by remembering them but we remember them so that we may be able to foresee our forays into the future and the direction we choose.
In the next Mann Ki Baat, I will surely mention Sardar Vallabh Bhai Patel but on 31st October, Run for Unity - Ek Bharat Shreshth Bharat - will be organized throughout the country. There should be a number of Run for Unity programmes in every city, every town and the weather is also such that one would enjoy running – It is essential for developing a will power of steel, like that of Sardar Saheb. Sardar Saheb unified the country. We also have to run for unity in order to promote the mantra of unity.
The element of Unity in diversity being India’s speciality comes naturally to us. We feel proud of diversity but have you ever tried to feel this diversity? I would like to re-iterate to my countrymen, and specially to my young friends that we are alive & aware beings. We should feel India’s diversity, touch it, feel its fragrance. You may see for yourself, that for your inner development also, these diversities of our country work as a big teaching tool. There are vacations, Diwali is drawing near, all around in our country, there is an inclination to travel to some place or the other; people go as tourists and it is very natural. But, it is a matter of concern when we do not see our own country, we do not know about its diversities nor do we understand them. Impressed by mere superficial glitter we have started enjoying touring foreign countries only. You travel around the world, I have no issues but have a look at your own country too. People of North India may not be knowing what all is there in the South! People of West India may not be knowing what all is there in the East! Our country is full of such myriad diversities.
If you refer to Mahatma Gandhi, Lokmanya Tilak, Swami Vivekanand, our former President Abdul Kalamji then you will notice that when they toured around India, they got to see and understand India and they got inspired to do and die for the country. All these great men travelled widely in India. At the beginning of their endeavour, they tried to know and understand India; tried to live India within themselves. Can we make an effort as a student to learn, understand and try to live as per the traditions, culture, attire, eating habits and beliefs of different states, different societies, different groups of our country?
There will be a value addition in tourism only when we travel not only as a visitor but also like a student and make efforts to assimilate, understand & adapt. This is my personal experience, I had a chance of visiting more than five hundred districts of India. In more than four hundred & fifty districts, I had a night stay too. And now, when I am shouldering this responsibility in India, that travel is coming in very handy and proving to be very useful. That helps me a lot in understanding things. I request you too, to feel the “Unity in Diversity” which is not a mere slogan but is a storehouse of enormous energy. The dream of “Ek Bharat – Shreshtha Bharat” is inherent in this. How many varieties of cuisines there are ! If we eat a new dish every day, we won’t have to repeat any variety throughout our life. This is the power of our tourism. I would request that during these vacations do not go out just for a change but leave with the intention to know, understand –& gain something. Internalize India within yourselves. Internalize the diversities of millions of denizens of India within you. These experiences will enrich your lives. Your vision will expand. And, who can be a better teacher than experience!
Generally, October to March is the suitable time for tourism. People travel. I am sure that even this time if you go, you will lend further fillip to my campaign. Wherever you go, share your experiences, share photographs. You must send photographs on # incredibleindia. If you happen to meet people there, send their photos too. Write not only about architecture or natural beauty but write something about their daily life too. Write good travelogues. Send on Mygov. And on Narendra Modi App. A thought comes to my mind, that in order to promote tourism in India what could be the seven best tourist destinations in your state – every Indian must know about these seven tourist spots of his state. If possible, one must visit these seven places. Can you provide some information about that? Can you post on Narendra Modi App? Can you post on #incredibleindia? You see, if all the people of one state will do this, then I will ask the government to do a scrutiny of it and prepare publicity material based on seven common things received from each state. In other words, how can tourist destination be developed keeping public aspirations in mind? Similarly, whatever you have seen throughout India and whichever seven out of these you liked the best and you wish that someone should see these things, or should go there, should get information about them, then you must send photos and information of seven such tourist spots on Mygov. Or on Narendra Modi App. The Government of India will work on that. The government will accept suggestions about making films, videos or preparing publicity material and about promoting that destination. Come, get connected with me. You can also act as a major catalyst in promoting the tourism of our country by utilizing the time from this October to March. I invite you.
My dear countrymen, being a human being, there are many things that touch me too. They agitate my heart. They leave a deep impression on my heart. After all I am also a human being just like you. You might have noticed one recent incident, a unique example of grit, determination and patriotism that was witnessed by all countrymen. The Indian Army has got two extraordinary brave women officers; they are Lieutenant Swati and Nidhi. Their husbands laid down their lives in the service of mother India. One can imagine one’s agonizing mental state if her world gets shattered at such a early age! But Swati Mahadik, the wife of martyr colonel Santosh Mahadik – resolved to face the difficult situations and she joined the Indian Army. She received training for 11 months putting in great efforts and she put her life at stake to fulfill her husband’s dreams. Similarly, Nidhi Dubey’s husband Mukesh Dubey was a Naik in the army and attained martyrdom while fighting for his country. His wife Nidhi also took a resolve and joined the army. It is very natural for every countryman to have a deep sense of respect for these two bravehearts, our Matri Shakti. I convey my heartiest congratulations to both of them. They have evoked a new inspiration and a new awakening among millions of our countrymen. Many congratulation to these two sisters.
My dear countrymen, there is a big opportunity for our younger generation between Navratra festivities and Diwali. FIFA under- 17 world cup is being organized in our country. I am sure reverberations of the spirit of football will be heard all around. It will evince more interest in Football in every generation. There should not be a single school-college ground in India where we will not see our youngsters at play. Come on, the whole world is coming to play on Indian soil, let us make sports a part of our lives.
My dear countrymen, Navratras are going on. It is a time for praying to Ma Durga. The whole environment is filled with sacred fragrance. All around there is an atmosphere of spirituality, an air of festivities, an atmosphere of bhakti, of reverence. This is revered as a festival of Shakti Sadhana. This is also known as Sharadiya Navratri, the beginning of autumn. On this pious occasion of Navratri, I convey my best wishes to our countrymen and pray to Ma Shakti to let our country attain newer heights so that the desires and expectations of all our countrymen get fulfilled. May our nation be blessed with the strength to face any challenge.
May the nation move forward and may the year two thousand twenty two- 75 years of India’s Independence be an attempt to realize the dreams of our freedom fighters, the resolve of 125 crore countrymen, with their tremendous hard work, courage and determination to fulfill our resolve and prepare a roadmap for five years. We have moved on; may ma-shakti shower her blessings upon us. My good wishes to all of you. Celebrate festivities, enjoy with enthusiasm.
Many Many thanks.
My dear countrymen, Saadar Namaskar. When on the one hand, a sense of festivity pervades the land, and on the other, news of violence comes in, from one part of the country, it is only natural of be concerned. Ours is the country of Buddha and Gandhi, it is the land of Sardar Patel who gave up his all for the unity of the nation. For centuries, our forefathers have imbibed community values, nonviolence, mutual respect – these are inherent to us. We have been hearing and saying Ahimsa ParmoDharmah from our childhood. In my address from the ramparts of the Red Fort, I had said that violence in the name of faith will not be tolerated, whether it is communal belief systems, whether it is subscribing to political ideologies, whether it is allegiance to a person or customs and traditions. No one has the right to take the law into one’s own hands in the name of one’s beliefs. In the Constitution given to us by Dr. Baba Saheb Ambedkar there is every provision for ensuring justice for each and every person. I want to assure my countrymen that people who take the law into their own handsand are on the path of violent suppression – whether it is a person or a group –neither this country nor any government will tolerate it. Each and every person will have to abide by the law; the law will fix accountability and the guilty will unquestionably be punished.
My dear countrymen,our country is a land of diversities – these diversities are not limited to our cuisine, life style and attire. We observe diversity in every walk of life. Even our festivals are replete with diversity. Ours is arich cultural heritage, spanning thousands of years – when we look at our cultural traditions, social customs, historical events, there would hardly be a day left in the year which is not connected with a festival. You would have noticed, that all our festivals follow the almanac of nature. There is a direct connect with nature. Many of our festivals are linked straightaway with farmers and fishermen.
Speaking about festivals today, I would first like to wish you all michhamidukkadam. The Jain community celebrated the SamvatsariParva yesterday. In the month of Bhadra, ParyushanParva is celebrated by the Jain Community. The last day of ParyushanParva is observed as Samvatsari. This is indeed a remarkable tradition. The festival of Samvatsari is symbolic of forgiveness, non-violence and brotherhood. It is also known as the KshamavaniParva, and on this day, people traditionally greet each other with, ‘michhamidukkadam.’ We have been hearing in our shaastras, our holy texts, “KshamaVeerasya Bhushanam”, that is, forgiveness is the adornment of the brave. The one who forgives is valiant. And Mahatma Gandhi always said, that forgiveness is the quality of great men.
Shakespeare in his play, “The Merchant of Venice”, while explaining the importance of forgiveness, has written, “Mercy is twice blest, It blesseth him that gives and him that takes,” meaning, the forgiver and the forgiven both stand to receive divine blessing.
My dear countrymen, Ganesh Chaturthi is being celebrated with great fervor all across the country. When we speak of Ganesh Chaturthi, it is but natural to talk about SarvajanikGaneshotsav, that is, community celebrations of the Ganesh Festival. This tradition was established by Bal Gangadhar Tilak 125 years ago, and it was 125 years ago thatSarvajanikGaneshotsav became a symbol of India’s struggle for freedom. And after Independence, this festival has become a vehicle of raising social and educational awareness. Ganesh Chaturthi is a ten-day festival. This Mahaparva, mega-festival stands for unity, equality, integrity and honesty. My heartiest greetings to all of you on the occasion of Ganeshotsav.
The festival of Onam is being celebrated in Kerela. Of the numerous colourful festivals of India, Onam is a prime festival of Kerela. This festival is known for its social and cultural significance. This festival showcases the rich cultural heritage of Kerala. It gives the message of love and harmony - awakens new hopes and aspirations, and gives new confidence to the people. Our festivals are now becoming great attractions for tourism. And I would like to mention to my countrymen, that festivals like Navaratri in Gujarat, or Durga Utsav in Bengal are tremendous tourist attractions. Other festivals of our country too, provide an opportunity to attract foreign visitors. We should think about what more can be done in this direction.
In this series of festivals, Eid-ul-Zuha will be celebrated in a few days from now. Heartiest felicitations and best wishes to all countrymen on the occasion of Eid-ul-Zuha. Festivals are of course symbols of faith and belief; in the New India, we should transform them into symbols of cleanliness as well. In individual households, festivals and cleanliness are linked together. In fact, preparationsfor festivals always begin with cleaning. This is nothing new for us, but it is important to convert it into a social character. Public cleanliness must be insisted upon not just in our homes but in our villages, towns, cities, states and in our entire country – Cleanliness has to be inextricably linked to our festivals.
My dear countrymen, definitions of being modern are perpetually changing. These days, a new measure to gauge a new dimension, a new parameter, has come in to being. It determines what your upbringing has been, how modern you are, how modern your thinking is. And that measure is your level of environment consciousness. Are your activities ecofriendly, environment friendly or otherwise?It is considered to be unacceptable in society today, of you are not environment friendly. And as a result of this I find that, the ecofriendly Ganpati, in this Ganesh Festival has turned into a huge campaign.If you go on YouTube, you will see that children in every home are making earthen Ganesh idols and are colouring them. Some are using vegetable colours, while some are pasting bits and pieces of paper. All sorts of experiments are being carried out in every family. This is probably the first of its kind, the most widespread experiment in environment consciousness. Media houses too, are making a great effort in training people, inspiring them and guiding them towards ecofriendly Ganesh idols. What a massive transformation this has been; a pleasant one at that. And as I mentioned, our country is blessed with millions and millions of the brightest of brains. And it is nice to see all sorts of new innovations. Someone told me about a gentleman who is an engineer and who has collected and combined special varieties of clay, to give training in making Ganesh idols. The Ganesh Visarjan or immersion is done in a small bucket of water, where the idol dissolves within no time. And he didn’t stop there. A tulsi, Holy Basil, sapling was sowed in it. The campaign for Cleanliness which was initiated three years ago will be marking its third anniversary on the 2nd of October. And the positive results are now being seen. Toilets have increased from 39% to almost 67% of the population? More than two lakh thirty thousand villages have declared themselves open defecation free.
Gujarat saw devastating floods recently. Many people lost their lives. When the waters receded, there was so much filth everywhere. That is when, in Dhanera in the Banaskantha District of Gujarat, volunteers of Jamiat-Ulema-e-Hind cleaned twenty-two affected temples and two mosques in a phased manner. They came together and toiled collectively. The volunteers of Jamiat-Ulema-e-Hindset a fine, inspiring example of unity for cleanliness. If this committed effort towards cleanliness become inherent to us, our country will certainly take our nation to greater heights.
My dear countrymen, I call upon you to begin a campaign, Swachchata Hi Sewa, Cleanliness is Service, at least fifteen-twenty days prior to Gandhi Jayanti on 2nd October – on the lines of the age-old belief, Jal SevaYahiPrabhuSeva, Service to Water is Service to God. Let’s create an environment of cleanliness in the entire country. Whenever and wherever possible, let’s look for the opportunity. But we must all come together. We could look at this as preparations for Diwali, preparations for Navaratri, preparations for Durga Puja. Do Shramdan, Donate through labor. Come together on Sundaysand Holidays. Go to settlements in your neighborhood, go to nearby villages, but do this in the form of a movement. I urge all NGOs, schools, colleges, social, cultural and political leaders, people in the government, collectors and sarpanches, to begin creating an environment of cleanliness at least fifteen days ahead of Gandhi Jayanti on the 2nd of October so that it turns out to be the 2nd October of Gandhi’s dreams. The Ministry of Drinking Water and Sanitation has created a section on MyGov.in where after constructing a toilet you can register your name and the name of the beneficiary family, who you helped. My friends from the social media can run a few creative campaigns and thus become a source of inspiration in the virtual world, to see results in the real world. The Ministry of Drinking Water and Sanitation has organized, the Swachch Sankalp se Swachcha Siddhi Pratiyogita, From the resolve of Cleanliness to attaining Cleanliness Competition comprising an essay competition, a short film making competition and a painting competition. You can write essays in various languages and there is no age limit. You can make a short film even with your mobile phone. You can film a two-three-minute movie that inspires cleanliness. It can be in any language; it could be silent too. The best three participants – three at the district level, three at the state level will be given prizes. I invite one and all – Come, join the Cleanliness Campaign in this manner as well.
I would like to reiterate, let’s resolve to celebrate, 2nd October Gandhi Jayanti this year as Swachch Do Aktoobar, Clean 2nd October. And to this end beginning 15th September let us take the mantra, the message, Swachchata Hi Seva, Cleanliness is Service to each and every home. Take one or another step towards cleanliness. Make your effort to be a part of it. You will see how the Gandhi Jayanti of this 2nd October shines. You can imagine the inner bliss of paying homage to our revered Bapu, with fifteen days of this cleanliness campaign, Swachchata Hi Seva, when we celebrate Gandhi Jayanti on the 2nd of October.
My dear countrymen, I want to specially express my indebtedness to you. I want to thank you from the core of my heart, not because you have been connected with Mann Ki Baat, for such a long time – I want to express my gratitude and indebtedness as millions of people from across the country come together with Mann kiBaat. The number of listeners are in crores out of which lakhs of people write letters to me, send messages, and get their messages recorded on phone, which is a huge treasure for me. This has become a great opportunity for me to understand the hearts and minds of one and all. Much as you wait for Mann ki Baat, I await your messages with greater eagerness. I always look forward with anticipation, because I find so much to learn from all that you share. It is an opportunity to test my endeavors on this touchstone. Even the smallest of your suggestions help me in thinking anew on a wide variety of subjects. I therefore express my heartfelt gratitude for your contributions and also my indebtedness to you. My endeavor always is to see for myself, hear, read and understand your thoughts. All sorts of things come to me. Now take this phone call for example. You will be able to correlate with it. You too would feel that, you would’ve committed the same mistake. Sometimes certain things become a part of our habits, that we don’t even realize that we are doing something wrong.
“Pradhan Mantri ji, I am Aparna from Pune. I want to tell you about a friend of mine. She always tries to help others, but one habit of hers amazes me. I went for shopping with her at a mall. She coolly spent two thousand rupees on a sari, and four hundred and fifty rupees on a pizza. Whereas, she haggled for a long time, over merely five rupees, with the auto driver, who took us to the mall. On the way back, we stopped to buy vegetables, and again she haggled with the vendors to save 4-5 rupees. I feel very bad. We spend extravagantly in high places, without a single thought, but when it comes to our hardworking brethren, we quarrel with them over small amounts. We don’t trust them. Please speak about this on Mann kiBaat.”
Now after listening to this phone call, I am certain that you would have been shocked and awakened and would probably have resolved not to repeat such a mistake. Don’t you feel that whenever a vendor comes to your door to sell something, on his rounds, when we come into contact with small shopkeepers, vegetable sellers, auto rickshaw drivers - in fact any person who earns through sheer hard work – we start bargaining with him, haggling with him: “No not so much, make it two rupees less, five rupees less!” And it is us, the same people, who go to dine at a fine restaurant, we don’t even bother to check the bill, we just go ahead and pay the money, without thinking twice. Not just this, when we go to a showroom to buy a saree, we don’t bargain, but when it comes to someone poor, we just cannot resist bargaining. Have you ever wondered what a poor man goes through? It is not a matter of two or five rupees, it hurts him deeply, when he feels that you are questioning his honesty. Two or five rupees make no difference to your life, but have you thought how much heartache this petty habit of yours can cause him. Madam I am grateful to you for calling me with this touching message. I am certain that my countrymen, if they are in the habit of behaving in this way with the poor will now stop doing so.
My dear young friends, the country celebrates National Sports Day on the 29th of August. This is the birth anniversary of the great hockey player, hockey wizard, Major Dhyan Chand ji. His contribution to hockey was unparalleled. I am reminding you of this because I want the younger generation of our country to take part in sports. Sports should become a part of our lives. If we are a young nation, our youth should get manifested in the field sports as well. Sports means, physical fitness, mental alertness and personality enhancement. What else does one need? Sports, in a way, is a recipe that brings people together. The young generation of our country should come forward in the world of sports – and in today’s computer era I would like to alert you to the fact that the playing field is far more important than the play station. Play FIFA on the computer, but sometimes show your skills with the football out in the field. You must be playing cricket on the computer but the pleasure of actually playing cricket in an open field under the sky is something else. There was a time when the children in the family went out to play, the mother would first ask, “When will you come back home?” Now the times are such that children, when they come home, they either start watching cartoons in a corner, or are glued to mobile games. And the mother has to shout, “When will you go out?” How times have changed! There was a time when the mother would demand to know when her son would be back. And today, she demands to know when he will go out.
Young friends, the Sports Ministry is launching a Sports Talent Search Portal to search for sporting talent and to groom them. Any talented child who has an achievement in sports, can upload his biodata or video on this portal. The Ministry of Sports will impart training to selected emerging players. The Ministry is launching the portal tomorrow. The good news for our young friends is that the FIFA Under 17 World Cup is being organized in India, from the 6th to the 28th of October. Twenty-four teams from all over the world will be making India their home.
Come, let’s welcome the young visitors from all across the world with the festival of Sports, let’s enjoy the sport, and create a conducive sporting atmosphere in the country. I speak about sports today, and just last week, a heartwarming incident took place, which I would like to share with my countrymen. I had the opportunity to meet some young daughters, some of who, were born in the Himalayas, who had absolutely no connection with the sea. Six of these young daughters are in the Navy. Their grit and zeal, is inspiring for all of us. These six young women will embark on a voyage across the seas, in a small boat, INS Tarini. The expedition has been named, NavikaSagar Parikrama. They will circumnavigate the globe and return home, after many months. Sometimes they will spend 40 days on the seas in one go; at times, thirty. Our six daughters riding the waves of the high seas, with courage, is the first instance of its kind in the world. Each and every Indian would be proud of these daughters. I salute their valour and I have asked them to share their experiences with the entire country. I too am making a separate arrangement for their experiences on the NarendraModiApp to ensure that you can read it. For this is a tale of heroism, a tale of personal experiences, and I would be happy to bring you the stories of these daughters. My best wishes and blessings to these daughters.
My dear countrymen, we celebrate 5th September as Teacher’s Day. It is the birthday of our former President, Dr. Radhakrishnan ji. He was the President, but all through his life, he saw himself as a teacher. He preferred to live a teacher’s life. He was committed to being a teacher. He was a scholar, a diplomat, the President of India and yet, quintessentially a teacher. I salute him.
The great scientist Albert Einstein said, “It is the supreme art of the teacher to awaken joy in creative expression and knowledge.” The most important quality of a teacher, is to awaken in his students, a sense of creativity and the joy of learning. As we celebrate Teacher’s Day this year can we come together and take a resolve? Can we run a campaign in mission mode? Teach to Transform, Educate to Empower, Learn to Lead. Can we move ahead with this resolve? Get someone committed to a five-year resolve. Show him the path of attainment, which he can achieve in five years - so that he can experience the joy of success in life. Such an atmosphere can be created by our schools, our colleges, our teachers, our educational institutions. When we speak about transformation in our country, we must think of our teachers as we do of our mothers. The teacher plays a vital role in transformation. In the life of every teacher, there are incidents of simple efforts that succeeded in bringing about a transformation in somebody’s life. We will play a big role in the transformation of the nation, if we make a collective effort. Come, let’s move forward with the mantra, Teach to Transform.
“Pranam Pradhan Mantri ji, I am Dr. Ananya Awasthi. I am a resident of Mumbai and work for the India Research Centre of Harvard University. As a researcher, I have been specially interested in Financial Inclusion. With reference to the social schemes related to Financial Inclusion, my question to you is: In the backdrop of the Jan DhanYojna launched in 2014, can you say that, do the statistics show thattoday, three years later, India is financially more secure and stronger, and whether this empowerment and benefits have percolated down to our women, farmers and workers, in villages and small towns. Thank you.”
My dear countrymen, the Pradhan Mantri Jan DhanYojna, financial inclusion, had been a point of discussion amongst Financial Pundits, not just in India, but all over the world. On the 28th of August 2014, we had launched this campaign with a dream in our hearts. Tomorrow on the 28th of August, the Pradhan Mantri Jan DhanYojna will complete three years. Thirty crore new families have been linked to this scheme, bank accounts have been opened. This number is larger than the population of many countries of the world. And today I feel a great sense of fulfilment, that within three years, the last man on the fringes of society has become a part of the mainstream economy of the country. His ways have changed, he has now started going to the bank. He has started saving his money. He feels financially secure. When there is cash in the hand, or in the pocket or at home, one is tempted to indulge in wasteful expenditure. There is now an air of prudence. He is now beginning to understand that the money can be of use for his children. The money can be used productively in the days to come. Not just this, when a poor person sees a RuPay Card, in his pocket, he finds himself to be equal to the privileged – that if they have a credit card in their pockets, I too have a RuPay Card in mind. He feels a sense of dignity.
In the Pradhan Mantri Jan DhanYojna, almost 65 thousand crore rupees have deposited in banks by our underprivileged brethren. In a way, this is a saving for the poor, this is his empowerment for the future. And those who opened their accounts under the Pradhan Mantri Jan DhanYojna, have received the benefit of insurance as well. Schemes like, Pradhan Mantri Jeewan Jyoti BimaYojna, Pradhan Mantri Suraksha BimaYojna, with a small premium of one rupee or thirty rupees, are giving a new sense of confidence to the poor. For many families, in times of adversity, or on the demise of the head of the family, through the one-rupeeinsurance,they received two lakh rupees in a matter of days. Pradhan Mantri Mudra Yojna, Start Up Yojna, Stand Up Yojna – for Dalits, Adivasis, women, educated youth, youth who want to stand on their own feet - for millions and millions through Pradhan Mantri Mudra Yojna, they have been able to get loans from banks without any guarantee. They have been able to stand on their own feet and have succeeded in giving employment to one or two other people as well. Banks have conducted surveys about how the common man has benefitted from Jan DhanYojna, from Insurance Schemes, from RuPay Card and Pradhan Mantri Mudra Yojna. I recently met a few bankers, who shared inspiring stories from their survey. There isn’t enough time today, but I would certainly like request the bankers to upload these inspiring stories, on MyGov.in, so that people can read them and be inspired by how a scheme can bring about transformation in the life of a person, how it can bring a new energy, a new confidence – hundreds of examples have come before me. I will try my best to bring these to you; and the media can also take advantage of these inspiring stories. They too, can interview such people, and inspire the young generation.
My dear countrymen, once again, I wish you “michchamidukkadm.” Thank you very much.
My dear countrymen, Namaskar. We human beings have a natural inclination to be enchanted by the delights of the rainy season. Animals, birds, flora – nature in its entirety, is filled with the joys of the season. But sometimes, when the rain unleashes full force of its fury, we come to realise the extent of the destructive might of water. Mother Nature gives us life and nurtures us, but at times natural catastrophes such as floods and earthquakes wreak havoc on a massive scale. Climate change, altered weather cycles, and transformations in the environment, are also having a big negative impact.
Recently, in certain parts of India, particularly, Assam, North-East, Gujarat, Rajasthan and some areas of Bengal, have had to bear the brunt of natural disasters, caused by excessive rains. Flood affected areas are being closely monitored. Relief efforts have been undertaken on an extensive cale. Wherever possible, my colleagues in the Council of Ministers are also personally visiting affected areas. The state governments too are making maximum possible efforts on their part to provide relief to the flood affected people. Social organisations, cultural organizations and common citizens charged with the spirit of service are also making their utmost efforts to help the affected people in this situation. The Government of India, Army personnel, Air Force personnel, NDRF personnel, Paramilitary forces – everybody does his or her best in providing succour to the disaster stricken people.
Life goes completely topsy-turvy as a result of the floods. Crops, livestock, infrastructure, roads, electricity, communication links – everything gets affected. In particular, our Farmer brethren have to bear a lot of losses because of the damage to their crops and fields. Therefore, we have formulated a scheme for the insurance companies, especially crop insurance companies, to make them more proactive, to ensure quick settlements of claims for farmers.
A 24×7 control room helpline number 1078 is functioning continuously to deal with the flood situation. People are also voicing their difficulties. Before the monsoons, the entire government machinery was brought into a state of preparedness through mock drills undertaken at most of the places. NDRF teams were deployed. Aapada Mitra, or Friends during Disaster were identified at various places and these were then trained in the Do’s and Don’ts; volunteers were enlisted, and a people’s organisation set up to work in this situation. Weather forecasts are available these days and the concerned technology has become so advanced these days, and space science also plays a very big role, that these weather forecasts turn out to be mostly accurate now. We should also gradually make it our nature to set our work patterns according to the weather predictions, which could safeguard us against losses.
Whenever I prepare myself for ‘Mann Ki Baat’, I find that the citizens of our country prepare themselves even more. This time around, there have been innumerable letters and phone calls in regard to GST. People are still expressing their happiness about GST, and are also eager to know more about it. I would like you to hear one such phone call: –
“Namaskar, Pradhan Mantri ji, this is Neetu Garg from Gurgaon. I heard your speech on the Chartered Accountants Day and was deeply impressed. In the same manner, Goods and Services Tax, GST, was launched on this very day last month. Could you please elaborate whether its results after one month are matching the expectations of the Government? I would like to hear your views on this. Thank you.”
It has been one month since GST was implemented and its benefits can be seen already. I feel very happy and satisfied when a poor person writes to say how because of GST prices of various items essential for him have come down, and commodities have become cheaper. When a person from the North-East, someone living in the remote areas, in the hills or forests, writes a letter to communicate that in the beginning, he used to be apprehensive about GST wondering what it was all about, but now that he has begun to understand it, he feels that things have become much easier than before. Doing business has become so much easier. And most important of all, the trust of customers for the traders is increasing.
I have been observing how GST has impacted the transport and logistics sector; how the movement of trucks has increased. The time required to cover distances has come down drastically. Highways have become clutter-free. Pollution levels have come down with the increased speeds of the trucks. Goods are also being transported much faster. This indeed is a convenience, but at the same time it is also bolstering the economic progress. Earlier, because of the multiple tax structures, maximum resources of the transport and logistics sector were expended in maintaining paperwork and that also led to the need for construction of new warehouses in each state.
I call GST, Good and Simple Tax. Indeed, it has produced a big positive effect on our economy in a very short time span. The speed at which the smooth transition has taken place, along with rapid migration and new registrations, has instilled a new sense of confidence in the entire country. And some day, the Pundits of Economics, Pundits of Management and Pundits of Technology, will certainly undertake researches and write about India’s GST experiment as a model for the world. It will become a case study for universities across the world. The implementation and furtherance of such a phenomenal change on such a monumental scale, with the involvement of so many tens of millions of people in such a vast country, is in itself a pinnacle of success. The world will definitely make a study of it. And this implementation has had all the states participating in it and sharing the responsibility. All decisions have been taken unanimously by the states and the Centre together. And as a result, one overriding priority for every government has been to ensure that there is no burden on the plate of the poor on account of GST.
And using the GST App all information is available on your mobile phone as to how much the price of an item was earlier and how much will it be now in the new situation. The lofty dream of One Nation – One Tax has finally been fulfilled. In the matter of GST I have seen how everyone, right from the Government functionaries at the Tehsil level to the officers in the top echelons of Government of India have toiled tirelessly with great dedication. The manner in which the friendly environment was created between the Government and traders, between the government and consumers, played a very significant role in enhancing mutual trust.
I extend my heartiest felicitations to each and every ministry, every department and all employees of the Central and State governments involved with this process. GST is a fine example of the collective strength of the people of India. This is a historic achievement. And this is not just a tax reform; it is a new economic order that will strengthen a new culture of honesty. In a way, it is also a campaign for social reformation. I would like to once again express my deep gratitude to the millions of my countrymen who have contributed to the successful achievement of this great feat with such felicity.
My dear countrymen, the month of August is the month of Revolution. We have been hearing this as a natural fact right from our childhood and the reason is, the Non-Cooperation Movement was launched on the 1st of August 1920; the Quit India Movement, which is also known as ‘Agast Kranti’ began on the 9th of August 1942; and on 15thAugust 1947 India became independent. In a way, there are many events in the month of August that are closely associated with the history of our freedom movement. This year, we are going to observe the 75th Anniversary of the Quit India Movement. But very few people know the fact that the slogan, ‘Quit India’ was coined by Dr. Yusuf Meher Ali. Our young generation must know what had happened on the 9th of August 1942.
From 1857 to 1942, the people of India, with their ardent desire for freedom, came together, fought together, and suffered hardships; these pages of history are an inspiration to us for building a glorious India. The heroes of our freedom struggle with their single-minded devotion did a ‘Tapasya’, endured hardships, made great sacrifices and even laid down their lives; what greater inspiration could there be! The ‘Quit India Movement’ was an important milestone in the Indian Freedom Movement. It was this movement that had made the entire nation determined to attain freedom from the British Rule. This was the time when the people of India, in every part of the country – be it a village or city, the educated or illiterate, the rich or poor, everyone came together shoulder to shoulder and became a part of the ‘Quit India Movement.’ People’s anger was at its peak. Millions of Indians responded to Mahatma Gandhi’s clarion call and the mantra of ‘Do or Die’; they flung themselves into the struggle. Millions of the youth of the country renounced their studies, gave up their books. They set out on the march to the sound of the bugle for freedom. Mahatma Gandhi gave a call for the ‘Quit India Movement’ on 9th August, but each and every prominent leader had been imprisoned by the British Government, and it was during this time that the second generation of leadership comprising great men like Dr. Lohia, Jaiprakash Narain played a leading and pivotal role.
In the ‘Non-Cooperation Movement’ of 1920 and the ‘Quit India Movement’ of 1942, two different personas of Mahatma Gandhi can be seen. The whole scenario of the ‘Quit India Movement’ was different and in 1942 things rose to such a point, there was such a heightened sense of intensity, that a Mahapurush like Mahatma Gandhi gave the mantra of “Do or Die.” The reason for this entire success was the people’s support, people’s resolve, and people’s struggle. The entire country had come together as one to fight for the cause. And I sometimes think that if we link the pages of history, it is seen that the First War of Independence took place in 1857. The freedom struggle which began in 1857, continued to be manifested in one or the other corner of the country till 1942. This long time period ignited the intense longing for freedom in the hearts of the people. Each one became committed to do something. The determination did not diminish with each passing generation. New people kept coming forward each time in place of those who departed and the country kept on every moment endeavouring tirelessly to uproot the British Rule. This perseverance, this struggle from 1857 to 1942 created a situation which reached its climax in 1942; the clarion call of ‘Quit India’ was such that within five years, in 1947 the British were compelled to leave India. 1857 to 1942 – the yearning for freedom had reached the grassroots, had reached everybody. And 1942 to 1947 – these decisive five years became integral for the masses to successfully attain through resolve, freedom for the country. These five years were indeed decisive.
I would now like to connect you with its mathematical manifestation. We became free in 1947. This is 2017. It has been almost 70 years. Governments have come and gone. Systems have been made, changed, nurtured, and expanded. Everyone has tried to rid the country of its problems in one’s own way. There have been efforts towards increasing employment, poverty alleviation, and development. These efforts were also driven with hard work in their different ways. There have been successes. Expectations have also risen. The way, the years from 1942 to 1947 were the decisive years for attainment through resolve. I can see that 2017 to 2022 presents itself as a new time segment of five years for attainment through resolve. We should celebrate 15th August 2017 as the Sankalp Parva or the Day of Resolve, and in 2022 marking 75 years of Freedom, we will certainly transform that resolve into ‘Siddhi’ or attainment.
If 1.25 billion Indians, commemorate Agast Kranti Day of 9th August, and each person resolves on 15th August, that he or she will do for the country, this much as an individual, as a citizen, this much as a family, this much as a society, this much as a village, this much as a city, this much as a government department, and this much as the government; let there be millions and millions of resolves; let there be strivings for the realisation of these millions and millions of resolves.
Just as the five years from 1942 to 1947 were decisive for the country’s Independence, these five years from 2017 to 2022 can and must play a decisive role for the future of India. Five years from now, we will celebrate 75 years of India’s Independence. Therefore, we must take a firm resolve today. We must make 2017 our Year of Resolve. In this month of August, we have to come together and resolve: Filth – Quit India; Poverty – Quit India; Corruption – Quit India; Terrorism – Quit India; Casteism – Quit India; Communalism – Quit India!
The need for today is not ‘Do or Die’, instead it is to resolve, to come together, persevere, and work relentlessly with our utmost strength towards the making of a new India. Let us live by and strive for this resolve. Come let’s launch a mega campaign Sankalp se Siddhi – Attainment through Resolve, from the 9th of this August. Every Indian, social organisations, Local Self-Government Institutions, schools, colleges, various organizations – all should take one resolve or the other for a New India. A resolve that we will positively fulfil in the next five years. Youth organisations, student organisations, NGOs, etc. can organise group discussions, to bring forth new ideas. Where do we want to reach as a nation? What can be my contribution for this as an individual? Let us come together and make this a Festival of Resolve.
I would particularly like to call upon the online world, since wherever we may be, we are almost always online; so I would like to invite the online community and specially my young friends to come forward and contribute innovatively for building of the New India. They can use technology – videos, posts, blogs, scripts, novel ideas – to put forward all these. Transform this campaign into a peoples’ movement. A Quit India Quiz is also being launched for my young friends on NarendraModiApp. This quiz is an attempt to familiarise the youth with India’s glorious history and the heroes of the freedom movement. It is my belief that you will surely publicise and spread awareness about this quiz.
My dear countrymen, on August 15, as the nation’s ‘Pradhan Sewak’, I get an opportunity to communicate with the country from the ramparts of the Red Fort. I am merely an instrument. It is not one single person who makes that address, but it is the collective voice of 1.25 billion of my countrymen that resounds from the Red Fort. I try to give words to their dreams, and I am glad that for the past 3 years, I get suggestions from every corner of the country for August 15, as to what I should speak on the 15th August and which issues should I include in my address on the occasion. This time too, I invite you to share your thoughts either on MyGov or on NarendraModiApp. I read these myself and shall try to express them in whatever time I have with me on 15th August. For the previous three 15th August speeches, one consistent complaint has been that my speeches tend to be a little lengthy. I have planned to keep my speech short this time – not more than 40-45-50 minutes. I have tried to draw these rules for myself, but I don’t know whether I’ll be able to stick to them. But I do intend to try this time to shorten my speech. Let’s see whether I succeed or not.
My countrymen, I would like to say one more thing to you. India’s economy has in itself an element of social economics. And we should never underestimate its value. Our festivals, our celebrations are not merely occasions of joy and merriment. Our festivals are in themselves campaigns of social reform too. And each of our festivals are directly linked with the financial conditions of the poorest of the poor. Rakshabandhan, Janmashtami, Ganesh Utsav, Chauth Chandra, Anant Chaturdashi, Durga Pooja, Diwali – these will be observed one after the other. And this is also the time when the poor get an opportunity to earn an income and of course this adds a spontaneous joy to the festivities.
Festivals lend a sweetness to our relationships, bring a warmth of togetherness in the family and foster brotherhood in society. They connect the individual with society. It is a natural journey from the self to the collective. And the ‘I’ gets an opportunity to transform into a ‘We’. As far as the economy is concerned, hundreds of families start making Rakhis in small household units, many months before the festival of Rakhi. A variety of Rakhis are made in a whole range of materials, from ‘khadi’ to silken threads. People prefer homemade Rakhis these days. Rakhi makers and their sellers, sweets shops vendors – the professions of hundreds, thousands flourish on the occasion of a festival. The households of our poor brethren and their families are dependent in a way on these activities. When we light a ‘diya’, an earthen lamp on Deepawali, it is not merely a festival of lights, a festival that illuminates the entire house; it is directly connected with those poor families who make small ‘diyas’ or earthen lamps. Today as I speak about festivals and how they are linked to the economy of the poor, I want to touch upon the subject of environment as well.
I have observed and sometimes think that the citizens of our country are more aware and active than me. For the last one month, environmentally conscious citizens have constantly written letters to me. And they have requested that I talk about eco-friendly Ganesha idols, well in time for people to plan for clay Ganesha idols during the festival of Ganesh Chaturthi. Firstly, I am most grateful to such conscientious citizens. They have urged me to speak on this subject well before the festival of Ganesh Chaturthi. This time around, there is a special significance to the observance of community Ganesh festival as a public celebration.
Lokmanya Tilak ji started this great tradition, and this year marks the 125th anniversary of community Ganesh festival. 125 years and 1.25 billion countrymen! Lokmanya Tilak ji started the Sarvjanik Ganeshotsav with the basic aim to inculcate the spirit of unity, enhance awareness in society, and promote the culture of togetherness. So this year we should again, during the Ganesh festival, organise essay competitions, have open discussions and remember the contributions of Lokmanya Tilak. And we must think anew ways to steer Community Ganesh Festivals in consonance with the sentiments of Tilak ji. How we must lend strength to that spirit and at the same time resolve to use eco-friendly clay Ganesha idols, to protect the environment. And this time I have spoken about it well in time. I am sure that all of you will join me. This will surely benefit our poor artisans, and artists, and provide employment to those who make idols. The poor will be able to earn a living and feed themselves. Come, let us link our festivities with the economic welfare of the poor, let the joys of our festivals connect with the households of the underprivileged, bringing monetary happiness to the have-nots. This should be the endeavor of all of us. I extend my best wishes to all my countrymen for the various upcoming festivals and celebrations.
My dear countrymen, we are continually seeing that our daughters are bringing laurels to the country in all the fields – be it education, economic activities, social spheres or in sports – they are scaling new heights. We as a nation take great pride in our daughters. Recently our daughters performed brilliantly in the Women’s Cricket World Cup. This week I had the opportunity to meet our daughters, the members of our Women’s Cricket team. I felt happy talking to them, but I had a feeling that they felt burdened by the fact that they could not win the World Cup. This stress, this tension was evident on their faces also. So while speaking to these daughters, I put forth a different viewpoint before them. I said, “Look, this is the age of the media. So expectations get hyped up to such an extent that if corresponding success is not achieved, these turn into despair and even resentment. We have seen during many such events where if the Indian players fail, the anger of the country is vented towards the players. Some people cross all limits of decency and say and write things that inflict pain and hurt. But it happened for the first time that when our daughters did not succeed in winning the World Cup, the hundred and twenty-five million people took this defeat on their own shoulders, never letting the burden weigh down these daughters of ours. Not only this, they lauded them and showered them with high praise for their brilliant performance. I view this as a healthy and pleasant change and I told these daughters that only they were blessed with such good fortune, and hence they should banish any thought of not having been successful. You may not have won the final match but you have won the hearts of 1.25 billion Indians. Truly our young generation, especially the daughters of our country are doing so much to bring glory to the nation. I once again extend my heartiest congratulations and best wishes to the young generation of our country, especially our daughters.
My dear countrymen, I remind you once again of ‘Agast Kranti’, of 9th August, I remind you once again of 15th August. And I am reminding you once again of 2022, 75 years of India’s Independence. Every countryman should make a resolve, every countryman should prepare a 5-year roadmap to realise that resolve. All of us have to take our nation to newer heights. We must strive tirelessly to do so. Come, let’s march together as we do our bit. The destiny, the future of the country shall be brighter, let us move ahead with this belief. Lots and lots of good wishes to you all. Thank you!
My Dear Countrymen. Namaskar. The weather is changing. It has been extremely hot this year. But it is good that the monsoon is moving ahead on schedule on its natural course. The weather has become pleasant in several parts of the country with abundant showers. As a result of the rains, the cool breeze has brought about some respite from the oppressive heat of past few days. One has seen that no matter how hectic the life is, no matter how tense we are, whether its one’s personal or public life, the arrival of the rains does lift one’s spirits.
The Car festival of Lord Jagannath, the Rath Yatra, is being celebrated in several parts of the country with great piety and fervour. This festival is now also celebrated in some parts of the world. The underprivileged of the country are deeply connected to Lord Jagannath. Those who have studied the life and works of Dr. Baba Saheb Ambedkar, would have observed that he had wholeheartedly praised the Lord Jagannath temple and its traditions, since, social justice and social equality were inherent to these. Lord Jagannath is the God of the poor. But few would know that in English, there is a word, ‘juggernaut’ which means, a magnificent chariot, that is unstoppable. In the dictionary, the etymology of the word ‘juggernaut’ traces its roots to the chariot of Lord Jagannath. And therefore, we can observe that the world has in its own way accepted the significance of the Car Festival of Lord Jagannath, The Rath Yatra. On the occasion of Lord Jagannath’s Car Festival, I extend my heartiest greetings to all my fellow countrymen, and offer my obeisance to Lord Jagannath.
India’s diversity is its unique characteristic, and India’s diversity is also its strength. The holy month of Ramzan is observed all across, in prayer with piety. And now the festival of Eid is here. On the occasion of Eid-ul-Fitr, my heartiest greetings to one and all. Ramzan is a month of charity, and sharing joy. The more you share joy, the more it multiplies. Let us come together and take inspiration from these holy festivals and share their joyous treasures, and take the nation forward.
In this holy month of Ramzan, I came across a very inspiring incident at Mubarakpur village of Bijnor in Uttar Pradesh. About three and a half thousand families of our Muslim brethren reside in that little village and in a way, form a majority of its population. During this Ramzan the villagers decided to get together and construct toilets. Now, to construct these household toilets, the government gives financial assistance, under which, they were provided a sum of 17 lakh rupees. You will be pleasantly surprised and happy to know that, during this holy month of Ramzan, these Muslim brothers and sisters, returned this money to the government, saying, they would construct these toilets with their own labour and their own money; and that this sum of 17 lakh rupees be used for providing other facilities in the village. I felicitate the residents of Mubarakpur, for transforming the pious occasion of Ramzan into an opportunity for the welfare of society on. Each and everything about them is inspiring. And the most important of it all is that they have freed Mubarakpur of the scourge of open defecation. We know that in our country there are three states that have already been declared Open Defecation Free states, that is, Sikkim, Himachal Pradesh and Kerala. Uttarakhand and Haryana have also been declared ODF, this week. I express my gratitude to the administration, government and especially the people of these five states, for achieving this objective.
We know very well, that tremendous hard work is required to achieve anything worthwhile, whether it is in one’s own life or for the society. If we have bad handwriting, and we want to improve it, we have to consciously practice for a long time. Only then will the habit of the body and mind will change. Cleanliness is also similar to this. These bad habits have become a part of our nature. We have become accustomed to them. To free ourselves of these habits we will have to constantly strive and persevere. Everyone’s attention will have to be drawn. We will have to repeatedly remind ourselves of good inspirational incidents. And I’m happy to see that cleanliness is no longer confined to being a government programme. It is getting transformed into a movement by the society and the people. And when government functionaries take this initiative forward with the participation of the masses, it becomes even stronger.
Recently I came across a wonderful incident, which I would like to share with you. This happened in the Vizianagaram District of Andhra Pradesh. The district administration there undertook a huge task with people’s participation. From 6 a.m. on the 10th of March, till 10 am of the 14th of March. A hundred-hour non-stop campaign. And what was the objective? To construct 10,000 household toilets in 71 gram panchayats in those hundred hours. And my Dear Countrymen, you will be happy to learn that the administration and the people together did construct 10,000 toilets in hundred hours successfully. 71 villages became ODF. I congratulate the people in the government, government officials and the citizens of Vizianagaram district on this great accomplishment of achieving this feat through immense hard work and setting a very inspiring example in the process.
These days, people have been regularly sending their suggestions for ‘Mann Ki Baat’, on the NarendraModiApp, on MyGov.in, through letters and Akashvani.
Shri Prakash Tripathi reminiscing about the Emergency, has written, presenting 25thof June as a Dark period in the history of Democracy. Prakash Tripathi ji’s commitment to democracy is praiseworthy. Not only is Democracy a system, but also a ‘sanskar’- a part of our ethos. Eternal Vigilance is the Price of Liberty. One needs to be constantly alert about our Democracy, that is why we must also keep remembering the events that inflicted harm upon our democracy; and at the same time move ahead, carrying forward the virtues of democracy. 1975 – 25th June – it was a dark night that no devotee of democracy can ever forget. No Indian can ever forget. The country had virtually become a prison. The voice of the opposition had been smothered. Several prominent leaders including Jai Prakash Narayan had been jailed. The judicial system too could not escape the sinister shadows of the Emergency. The press was completely muffled. The present-day students of journalism and the champions of democracy have been endeavouring towards raising awareness about that dark period, by constant reminders, and should continue to do so. Atal Bihari Vajpayee ji was also in jail at that time. After one year of Emergency, Atal ji wrote a poem, in which he describes the state of mind during those turbulent times.
The scorching summer month,
The sad winter moonlight,
The sobbing monsoon,
An emptiness pervading within
An entire year has gone by.
The world confined behind bars,
But the soul like a restless bird
The freedom song resonates
From the earth to the sky,
An entire year has gone by.
The eyes are in anticipation
Counting days and moments
The beloved who went away,
Shall return one day,
An entire year has gone by.
The believers of democracy fought a prolonged war, and the great nation that India is, where the spirit of democracy pervades the very being of all its people, the strength of that spirit was demonstrated when the opportunity of elections came. We have to further fortify that legacy.
My dear countrymen, every Indian today, is proud and holds his head high. 21st June 2017 – Yoga has permeated the entire world. From the seashores to the mountains, people welcomed the first rays of the sun, with Yoga. Which Indian wouldn’t be proud of this! It isn’t as if Yoga didn’t exist before, but now the threads of Yoga have bound everyone together, and have become the means to unite the world. Almost all the countries in the world made Yoga Day their own. In China, Yoga was practiced on the Great Wall of China, and on the World Heritage site of Machu Picchu in Peru, at 2400 metres above sea level. In France, yoga was performed in the vicinity of the Eiffel Tower. In Abu Dhabi in UAE, more than 4000 persons participated in mass yoga. In Herat, in Afghanistan, on the India Afghan Friendship Dam, Salma Dam, Yoga added a new aspect to India’s friendship. In a small country like Singapore, programs were organised in 70 places, with a week long campaign. On the occasion of International Day of Yoga, the UN released ten stamps. A ‘Yoga Session with Yoga Masters’ was organised at the UN headquarters. The staff of the UN and diplomats from across the world participated.
Yoga has created a world record again this time also. In Ahmedabad in Gujarat, around 55 thousand people performed Yoga together and created a new world record. I too had the opportunity to participate in the Yoga event held in Lucknow. But I also had the good fortune to practice Yoga in the rain for the first time. Our soldiers practiced yoga in Siachen where temperatures reach minus 20, 25, 40 degrees. Whether it is our armed forces, or the BSF, ITBP, CRPF and CISF, each one of them, apart from their duties has made Yoga a part of their lives. On this Yoga Day, since this was the third International Day of Yoga, I had asked you to share photos of three generations of the family doing yoga together. Some TV channels also took this idea forward. I received a lot of photographs out of which, selected photographs are compiled and uploaded on the NarendraModiApp. One significant outcome of the way the yoga is being talked about all around the world is the portent that today’s health conscious society is now taking steps from fitness to wellness, and they have realised that fitness is, of course, important, but for true wellness, yoga is the best way.
Sound bite.
“Respected Prime Minister Sir, I am Dr. Anil Sonara speaking from Ahmedabad, Gujarat. Sir, I have a question. Recently in Kerala, we heard you speak about replacing bouquets that we give as gifts, with good books as mementos. You had started this practice while you were in office in Gujarat, Sir, but in the recent days we have not been seeing much of this. So, can we do something about it? Is there nothing we can do to have this implemented throughout the country, Sir?”
Recently, I had the opportunity to go to one of my favorite events. A very good programme is being run in Kerala for the past few years, by the P.N. Panicker Foundation, which encourages people to cultivate the habit of reading books and to enhance their awareness towards this, by organising celebrations such as ‘Reading Day’, and ‘Reading Month’. I had the opportunity to go for the inaugural function, where I was told that instead of bouquets, they gift books. I liked it. Thus I was also reminded of what had slipped my mind. Because when I was in Gujarat, I had set this tradition of welcoming, by not giving bouquets, but books or handkerchiefs instead. And that too, a ‘Khadi’ handkerchief, so that it promotes ‘Khadi’. Till the time I was in Gujarat, this habit had been ingrained in us, but after coming here, I had lost that habit. When I went to Kerala, it was rekindled. I have already begun to issue instructions in the government. Here too we can gradually nurture this habit. And the life span of a bouquet is very short. You receive it in your hand for a moment and then abandon it. But when you present a book, it becomes a part of the household, a part of the family. One can also use a ‘Khadi’ handkerchief to welcome people, and be a support to the innumerable underprivileged. The expenses are reduced as well, and the gift is well utilized too. I say this, thinking of the historical value of such gifts. During my past UK visit, in London, the Queen of Britain, Queen Elizabeth had invited me to dine with her. The atmosphere was imbued with maternal warmth, and I was served with great affection. Afterwards when she showed me a small thread-spun khadi handkerchief, her eyes lit up. With great respect and in an emotion filled voice, she said, that Mahatma Gandhi had sent this handkerchief to her as a wedding gift. So many years have passed and yet, Queen Elizabeth has treasured the handkerchief gifted by Mahatma Gandhi. And she was happy to show it to me, when I went there. As I gazed at it, the Queen encouraged me to touch it. A small gift by Mahatma Gandhi, has become a part of her life and a part of history. I know that these habits do not change overnight, and when we talk about it, we invite criticism. Despite that, one should keep talking about it, and keep making the effort. Now, I cannot say that if I go somewhere and somebody brings a bouquet I will refuse it. No, I won’t do that, but we will talk about it even though there is criticism, and then gradually, the change will happen.
My dear countrymen, as Prime Minister, there are numerous tasks to be handled. I have to remain deeply absorbed in files, but for my own self, I have developed a habit of reading daily, at least a few of the letters I receive and because of that I get a chance to connect with the common man. I get a variety of letters, written by all sorts of people. Recently, I had the opportunity to read a letter, which I feel, I should share with you. From the far south, in Madurai, Tamil Nadu, Arulmozhi Sarvanan, a housewife, sent me a letter. And what was in that letter? She wrote, that she thought about engaging in some economic activity keeping in mind her responsibilities such as children’s education, to lend some financial assistance to her family. She got some money from the bank, under the ‘Mudra’ Scheme and commenced working towards procuring some items from the market for sale. Then she came to know of the ‘Government E-Marketplace’ system initiated by the government. She tried to find out the details, and asked people about it. And then she registered herself for the scheme. Here I want to tell my countrymen, that if you get the opportunity, you should also visit, the E-G-E-M, E-GEM website on the Internet. This is a great new system. Whoever wants to supply any item to the government, small things such as electric bulbs, dustbins, brooms, chairs and tables, they can register themselves. They can mention the quality of the goods, the rate at which they sell, and it is compulsory for the government departments to visit the site and see whether the supplier can supply the goods at reasonable prices without compromising on the quality. And then the orders can be placed. That is how the middlemen can be removed from the system. The entire process becomes transparent. There is no interface. Everything is done through technology. So, when people register in E-GEM, all the government departments become aware of them. As there are no middlemen, the goods are available at very reasonable rates. Now whatever goods Arulmozhi Madam could supply, she got all those registered on this government website. And the best part is, what she has written in this letter is very interesting. She has written that she got the money from the ‘Mudra’ Scheme and started her business, then she registered the inventory of all her products on the E-GEM website, and then she got an order from the Prime Minister’s Office. It was news to me also, I wondered what the PMO would have ordered. She wrote that the PMO had ordered two thermoses, and she was paid Rupees 1600/-. This is empowerment. This is an opportunity for encouraging entrepreneurship. Had Arulmozhi not written to me I wouldn’t have realised that because of E-GEM, a housewife living far away and running a small business can have the items on her inventory purchased directly by the Prime Minister’s Office. This is the nation’s strength. This has transparency, this has empowerment, this has entrepreneurship too. Government E-Marketplace - GEM. I would certainly like that whoever wishes to sell their products or business items to the government, should increasingly get connected with this website. I believe that this is an excellent example of Minimum Government and Maximum Governance, and it’s objective is Minimum Price and Maximum Ease, Efficiency and Transparency.
My dear countrymen, on the one hand, we take pride in Yoga, on the other we can also take pride in our achievements in space science. And this is the unique attribute of India, that whereas we have our feet firmly on the ground with Yoga, we have our dreams to soar beyond horizons to far away skies. Recently, India has had many achievements in sports, as well as science. Today, India’s flag is flying high not only on earth but also in space. Just two days ago, ISRO launched 30 Nano satellites with the ‘Cartosat-2 Series Satellite.’ And besides India, these satellites are of France, Germany, Italy, Japan, Britain and America, nearly 14 such countries. And with India’s Nano Satellite Mission, we will get a lot of help in the field of agriculture, farming, and dealing with natural disasters. We are all aware that a few days ago, ISRO has successfully launched the GSAT-19. And of all the satellites launched by India, this was the heaviest satellite. The newspapers of our country have compared it with elephantine weights. You can well imagine the magnitude of the achievement of our scientists in space. On the 19th of June, our Mars Mission completed one thousand days. You may be aware that when we had successfully created a place for the Mars Mission in orbit, this entire mission was planned for a duration of 6 months. It had a life expectancy of 6 months. But I’m happy that the strength of the endeavours of our scientists has been such that not only has this crossed six months; even after a thousand days, our Mangalyaan Mission is at work, sending images, providing information, collating scientific data, way beyond its expected duration and life expectancy. The completion of one thousand days, is an important milestone in our scientific journey, our space odyssey.
These days we see that our youth are getting increasingly inclined to the field of sports. It is becoming evident that along with studies, our new generations can see a future in sports as well. And our sportspersons, through their prowess, skills and accomplishments win laurels for the country as well. Recently India’s Badminton player, Kidambi Shrikant has brought glory to the nation by winning Indonesia Open. I extend my heartiest congratulations to him and his coach for this victory. I had the opportunity, a few days ago to be associated with the inaugural function of the Synthetic Track of the renowned athlete, P.T. Usha’s Usha School of Athletics. The more we promote sports, the more we see the spirit of sportsmanship. Sports play an important role in personality development also. There is a great significance of sports in overall personality development. There is no dearth of talent in our country. If the children in our family are interested in sports, they should be given opportunities. They should not be forced off the playing fields to be locked in rooms with books. They should study as well, if they can do well in studies, they should certainly do so, but if they have the potential and the inclination to do well in sports, that should be encouraged and supported by the school, college, family and all the people around them. Each one should nurture dreams for the next Olympics.
My dear countrymen, let me mention once again, that this Season of Rains, with its abundance of festivals and festivities, brings with it a unique new feeling of the times. I extend my heartiest greetings to you all, until the next episode of ‘Mann Ki Baat’, when I shall share my thoughts with you once again. Namaskar.
My dear countrymen, Namaskar. It will perhaps be difficult for us to forget the year’s summer.. But, we are now awaiting the rains. As I am talking to you today , the holy month of Ramzan has already commenced . I convey my hearty greetings to all fellow Indians and everyone across the world, especially the Muslim brethren at the advent of this auspicious month of Ramazan. Prayer, spirituality and charity are accorded the highest priority during Ramzan. We, Indians, are very lucky that our ancestors have created such a tradition that today India and its 1.25 billion people can take pride in the fact that people from all communities and faith are available here.. This is a country where both theists and atheists ; idolaters and those loathing idol-worship co-exist. We have adapted ourselves to myriad kinds of ideologies, different ways of worshipping and all types of traditions and imbibed the art of co-existential living . In the ultimate , any religion, faith, ideology or tradition- give us the message of peace, unity and goodwill. This holy month of Ramzan will definitely be helpful in further strengthening these values of peace, unity and goodwill. I, once again convey my best wishes to all.
Last time around while sharing my thoughts in Mann ki Baat I had mentioned) a new word and had specially exhorted our youth to do something new, to come out of the comfort zone, experience new things; as this is the age when one can experiment and take risks and accept new challenges of life. I am glad that many people have given me feedback. All of them showed enthusiasm by personally speaking out their minds to me. I could not read them all nor could listen to all the messages because there were such a large number of messages.But whatever I could see from a cursory look that while some made efforts to learn music, some tried hands on a new musical instrument, some of them are trying to learn new things by using YouTube, some are trying to learn a new language. Some are learning cooking, some others are learning dance and drama ; Some have written that they have now started to write poems. They are making efforts to know about nature and are learning the art of living and trying to understand the world. I am extremely happy and want to share one of the phone-calls with you.
“I am Diksha Katiyal speaking. I had almost left the habit of reading. Therefore I decided to pick up the habit during vacations. When I started reading about the freedom struggle , it was then I realized that how much struggle was involved in getting India freed, how much sacrifices were given and how so many freedom fighters spent years in prison. I am particularly inspired by Bhagat Singh, who achieved so much at such a young age. Therefore I request you that you tell something to the younger generation today on this topic.”
I am delighted that younger generation is taking interest in knowing about our history, about our freedom fighters and about those who made sacrifices for the country. Countless great men spent their youth in jails. Several youngsters went to the gallows . They suffered despicable miseries and that is how we can now breathe in a free India. We see all those great men who spent their time in jails did a great job of writing and reading. Their writings provided a great strength and inspiration to our Freedom Movement.
Many years ago, I visited Andaman & Nicobar Islands. I went to see the Cellular Jail there. Today is the birth anniversary of Veer Savarkarji. Veer Savarkarji had written a book “Majhi Jannmathep” while in incarceration . He used to write poems on the walls of his prison cell. He was confined to a very small cell. These seekers freedom must have gone through immense torture. I was inspired to visit the Cellular Jail only after reading Savarkarji’s book “Maazi Janmthep”.
A light and sound show is also shown there which is very inspiring. There was hardly any state in India youths from which were not exiled to the dark waters of Andamans and were forced to spend their youth in this Cellular Jail during the freedom movement. included people of every language, every state and every generation had faced tortures during this struggle
Today is the birth anniversary of Veer Savarkarjee. I would definitely want to tell our younger generation that to even perceive what kind of torture and trouble these freedom fighters had suffered to achieve freedom for us one must visit this Cellular Jail. Once we go there We come to know as to why this was called Kaalaa Paani or the dark waters If you get a chance, please pay a visit to this place which is actually a pilgrimage of our freedom struggle.
My dear countrymen, 5th of June is the first Monday of the month. Everything is otherwise normal. Yet, 5th of June is a special day as this is observed as “World Environment Day”. This year the United Nations have chosen the theme ‘Connecting People to Nature’. In other words, we may say “back to basics”. And What’s the meaning of connecting with nature?? In my view, it means getting connected with one’s own self. Connecting with nature means nurturing a better planet. And, who can explain this in a better way than Mahatma Gandhi? Mahatma Gandhi often used to say, “One must care about a world one will not see”. This means that it is our duty to be concerned about the world which we shall not see and to care for that. Nature possesses a special power. You might have also observed that whenever we feel tired and exhausted, splashing a glass of water on our face has a wonderful rejuvenating effect. If you return after a tiring day’s work, just open the windows and doors of the room and take a deep breath of fresh air – this will fill you with fresh energy. Our body is made up of five basic elements and whenever we come in contact with these elements we get fresh energy. All of us have experienced this but we do not register this, we do not connect this in a single thread of sequence.
Now on, kindly make it a point to notice that whenever you come in contact with a natural condition , a new spirit emerges from within you. So, the global campaign of connecting with nature on 5th June should become our individual campaign as well. And we are reaping the benefits of the efforts made by our ancestors to save the environment. And if we shall protect the environment, our future generations will reap the benefits. Vedas, describe the Earth and the Environment as the basic sources of energy. And, Atharva Veda, written thousands of years ago, is the most authentic guiding scripture about nature and environment. In India, it has been said – “Earth is the mother and I am her son”. According to Vedas, the purity within us is because of the Earth. The Earth is our mother and we all are her children. If we recall Lord Buddha, a fact comes to light that his birth, his enlightenment and his Mahaparinirvana, all three happened under a tree. We have many festivals and religious rituals which are based on worshiping nature and affection towards nature is a part of our everyday life. This is true in case of all sections of society whether lettered or unlettered , rural or urban and even tribal communities. But we need to present this in modern language and integrate with modern arguments.
These days , I keep receiving news from our states. Almost in every state, a big plantation campaign gets underway with the onset of monsoon. Millions of trees are planted. School children, social organizations and NGOs also get connected with the campaign. Even State Governments take an initiative. Let us also make our contribution in enhancing this campaign.
My dear countrymen, 21st June has become a well known day world over. The whole world observes this as World Yoga Day. In a very short time, 21st June has got worldwide recognition as World Yoga day and is connecting people. At a time when separatist forces are raising their ugly heads this has been India’s great contribution to the world.. We have successfully connected the whole world through Yoga. Like Yoga connects body, mind, heart and soul: similarly it is connecting the world now. Because of life style, because of the mad race to achieve success and because of increasing responsibilities, leading a stress- free life has become very difficult. It is seen, this situation is coming up even at a comparatively younger age. At a time when People are gobbling up medicines indiscriminately and passing their days, Yoga plays a very vital role in helping people to lead a stress-free life. Yoga is a guarantee of wellness and fitness both. Yoga is not merely an exercise. How to mount on the journey of life with the inter-play of body, mind, thoughts and behavior can be better realized and understood through Yoga. Just two days back, I have written letters to all governments and all leaders of the world about the Yoga Day.
Last year, I made announcements of some Yoga competitions and some awards as well. We shall gradually advance in that direction. I have received one suggestion and I compliment the gentleman who has made this creative suggestion. It is a very interesting suggestion. He has said since this is the Third International Yoga Day I should make an appeal that on this third international Yoga Day, three generations of the family should do yoga together. Grand parents, parents and children should together perform Yoga and also upload their photos. It will be such pleasant blend of Yesterday, today and tomorrow that it will lend a new dimension to Yoga. I express my gratitude for this suggestion and I feel that as our ‘Selfie with Daughter’ campaign had proved to be a very inspiring experience. So will this campaign of posting pictures of three generations together performing yoga will evoke curiosity across the nation as well as across the world. You should certainly send the pictures of three generations doing yoga together to me on Narendra ModiApp or on Mygov. This will be the picture of “yesterday, today and tomorrow” and will be a guarantee of a brighter tomorrow. I invite all of you. We are still left with about three weeks for the International Yoga Day. Start practicing from today itself.
From 1st June, I will post something or the other about Yoga on twitter and continue to do so till 21st June. I will share with you. You too kindly spread the message of Yoga and connect people with it. This, in a way, is a movement on preventive health care. I invite you all to get connected to it. Ever since you entrusted me with the responsibility of being the Pradhan Sewak- the Chief Servant of the people and when for the first time when I got a chance to address from the ramparts of Red Fort on 15th August, I had talked of cleanliness. From then onwards, I get a chance to stay in different parts of the country. And, I have seen that people closely follow as to what Modi does, where does Modi go, what all has Modi done. I received a very interesting phone call and I had also not visualized from this angle. But, I am thankful to him for having seen the campaign in this way. This phone call will also attract your attention.
“Pranam Modi ji, I’m Naina from Mumbai. Modi ji I watch whether on TV or Social Media, wherever you go, one can see people in that city pay special attention to cleanliness. Mumbai or Surat, your clarion call has led people to adopt cleanliness as a mission. Not only the elders but children also have become aware about cleanliness. Many a time we see them telling elders not to litter on the roads. The cleanliness drive that you had begun from the Ghats or Banks of the Ganges in Kashi has now taken the shape of a movement inspired by you.”
You are right, that wherever I go, the government machinery does the cleaning but nowadays cleanliness also turns into a social event. Five, seven or ten days before my visit a large number of cleanliness drives are held. Media also prominently highlights such programmes, A few days ago, I went to Kutch in Gujarat. A big cleanliness drive was conducted there. I also did not see a connect is in this. But, after receiving this phone call, I also started thinking that the point made there was pertinent. You can very well imagine how much pleasure I derive by knowing this fact and also by noticing that the country is also closely monitoring the programme. There cannot be any bigger pleasure for me than to know that my visit has been connected with the cleanliness campaign. Besides usual arrangements to welcome the Prime Minister, cleanliness will also be high on the agenda. This is very pleasing and inspiring for any cleanliness loving person. I congratulate everyone connected with this Cleanliness programme providing strength to it.
Someone gave me a suggestion. This is in a way a humorous suggestion. I do not know whether I would be able to do it or not. Modi ji, when someone asks for your visit , your stay, you should ask as to what would be the standard of cleanliness, if they wish to invite you. How many tonnes of waste would you present to me so that I may accordingly decide the duration of stay. The idea is very good but I will have to think. But, one thing is right that this movement should be encouraged and it would definitely be better if cleaning tonnes of waste are cleaned and and given as presents in place of other gifts. How many people shall we be able to save from ill health. This will be a big service to humanity. One thing I would certainly like to say is that we should always consider these waste as resources and wealth. Do not see it as just garbage. Once we start looking at garbage and waste as a wealth, we shall also find newer, techniques of waste management. Young persons connected with Start-ups will also come forward with newer schemes and also come forward with new equipments.
The Central Government has along with State Governments and with the cooperation of municipal representatives of cities decided to launch a massive and important campaign of waste management. On the occasion of World Environment Day on 5th June, there are going to be litter bins made available to collect solid waste and liquid waste in 4000 towns of the country.
Two types of waste bins will be available, one would be of green colour and the other blue. There are two types of waste generated, is the liquid waste and the other is dry waste. If we follow discipline, then the waste bins that are going to be placed in these 4 thousand towns will collect dry garbage in blue waste bins and liquid garbage in green waste bins. The waste from our kitchens, be it vegetable peels, leftover food, egg shells or leaves are all part of liquid waste and are to be placed in green litter bins. This waste can be utilized in fields, and if you will remember that fields are green then you will remember what to place in the green litter bins. The second type of waste is like old newspapers, cardboard, iron, glass, cloth, plastic, leather, polythene, broken boxes, rubber, metals and other kind of waste are all dry waste or litter which can be recycled by machines but cannot be directly used and has to be placed in the blue waste bin. I’ve a firm belief that we will develop a culture and the new steps that we take towards achieving cleanliness will continue, only then will we achieve the dream of Gandhiji, achieve the kind of cleanliness that he dreamt of, today. I must admit with pride that if a single individual decides it in his heart then a huge Public campaign can be launched . Cleanliness is also one such drive.
A few days ago, you must have heard that the Versova beach in Mumbai, which was infamous for its filth has now transformed into a a clean and beautiful beach. People toiled for about 80-90 weeks, unceasingly and turned Versova beach around by extracting thousand of tonnes of waste materials and today Versova beach is clean and beautiful. This campaign was owned by Versova Residence volunteer or VRV. A gentleman called Afroz Shah started this mission from October, 2015 whole heartedly with all his might, slowly people started joining his bandwagon and turned into a people’s movement. For this outstanding work, United Nations Environment Programme or UNEP awarded ‘Champion of the Earth’ Award to Sh. Afroz Shah, and thus he has become the first Indian to achieve this distinction. I congratulate Sh. Afroz Shah, and felicitate this people’s movement. The manner in which Sh. Afroz Shah gathered the people of the area into a people’s collective and gave it the shape of a People’s movement in itself an inspiring example.
Brothers and Sisters, it is with great happiness that I wish to tell you, that I am given to understand that under the aegis of ‘Swachch Bharat Campaign’, the Riyasi Block in Jammu and Kashmir has become completely free of open defecation. I wish to congratulate the people of Riyasi Block and also the public servants of Riyasi Block. Jammu & Kashmir has presented an excellent example. I congratulate one and all in the state. I have been told that this movement found maximum leadership amidst women. The women of that area took out torch rallies to spread awareness, went from house to house, street to street and inspired the people towards this goal. I felicitate the mothers and sisters of Riyasi from the bottom of my heart. I also congratulate the administrators there for making an excellent beginning by turning one block in the state of Jammu and Kashmir open defecation free.
My dear countrymen, an audit and assessment of the performance of the present government in the last three years is happening all over on newspapers, social media or TV for the last 15 days.. Three years ago you vested the responsibility of ‘Pradhan Sewak’- the Chief Servant of the People upon me. There have been many surveys and several opinion polls. I see this entire process as a very healthy sign. The works done during these years were tested on every touch stone . It was analyzed by every segment of society. And this is a great process in democracy. I firmly believe that governments must be accountable in democracy and the public at large must be provided with report card of works done. I wish to congratulate those who took out time for an in depth analysis of our work, there were some praises some support and sometimes shortcomings were also pointed out, I understand the importance of all these things. I thank those people, who provided critical and important feedback. The mistakes and the shortcomings once highlighted can be rectified. Whether something is good, little less effective or bad, whatever it is, one has to learn from it and move ahead in life putting the learning from it into practice.
Constructive criticism strengthens democracy; for an aware nation, an awakened nation, this churning is very important.
My dear countrymen, I too am an ordinary citizen like you and like any ordinary citizen I too am influenced by good or bad things. Some people take ‘Mann Ki Baat’ as a monologue and some criticize it from a political angle but after a long experience, I now feel, that when I had first started ‘Mann Ki Baat,’ I had not given thought to the fact that ‘Mann Ki Baat’ would make me a member of every family in India. Now I feel as if I’m conversing with my family while sitting at home. And there are many families who have written to me these very feelings. And as I said, as an ordinary citizen, I too get affected emotionally. Two days ago there was a launch of an analytical book on ‘Mann Ki Baat’ at Rashtrapati Bhavan, it was attended by the Hon’ble President, Hon’ble Vice President , Madam Speaker of the Lok sabha and as an ordinary citizen and as an individual this was very inspirational event for me. I’m grateful to the Hon’ble President, Hon’ble Vice President and Madam Speaker that inspite of their such high stature they took out time and they accorded importance to ‘Mann Ki Baat’. In fact it in itself has given a new dimension to ‘Mann Ki Baat’. Some of our friends, while working on this book had discussed it with me also. And some time ago, I was pleasantly surprised when this book was in the news again because Akbar Sahab an artist living in Abu Dhabi, proposed that he wishes to sketch the topics on which various episodes of ‘Mann Ki Baat’ were based, and without taking a single rupee Akbar sahab transformed ‘Mann Ki Baat’ into art as a gesture of his love. I am grateful to Akbar Sahab.
My dear countrymen, when we shall meet next time by then monsoon rains would be lashing every corner of the country, the weather would have changed, examination results would have arrived, the journey of education will begin anew and the rains would bring a hope, pleasant fragrance, a new aroma ! Come let us move ahead while loving nature in such a pleasant atmosphere.
My many felicitations and best wishes to you. Thank you.
My dearest countrymen namaskar. Before each episode of ‘Mann Ki Baat, ’suggestions pour in Aakashvani, on NarendraModiApp, come through on MyGov, by the phone and come by the means of recorded messages from every corner of the country and people of every age group, And sometimes when I take the time to view them, for me it becomes an extremely pleasant experience.
One comes across such a wide spectrum of information, one finds that every corner of the country is filled with talented people. Like a selfless seeker, these countless people are consumed by desire to contribute something to the society, on the other hand there are mounds of problems that perhaps even the government does not notice! Maybe the system has also become accustomed in dealing with these problems, and so do have the people become accustomed to them. I have come across the inquisitiveness of children, the ambitions of the youth, and the gist of the experience of elders! Myriad kind of facts emerges. Every time the inputs that come in response to every episode of ‘Mann Ki Baat’, are analyzed in detail by the government.
What are the kinds of suggestions, what are the kinds of complaints and what are the experiences of the people? It is an inherent human nature to advise others. While travelling in the train or the bus if someone coughs, the next person immediately advises a cure. To offer advice or suggest a solution, are part of our nature. In the beginning, when suggestions came in response to a certain episode of ‘Mann Ki Baat’ , one could discern words of advice, and you could read them too, so our team always felt that many people might have had this particular habit of proffering advice. But when we analyzed the suggestions minutely, I really became quite emotional.
Most of those who give suggestions or try to reach to me are those who are really doing something in their lives. They are making efforts and are engrossed as per their intellect, capacity, ability and circumstances so that something good must happen. And when these things came to my notice I felt that these suggestions are extraordinary. These are suggestions that have emerged out of a certain squeeze of life’s experiences. Some people also give suggestions thinking that if an idea has the potential to work then more people would listen to it if it is heard on a wider platform and hence many people can benefit. And therefore it is their natural desire that it gets a mention in ‘Mann Ki Baat’
According to me all of these things are extremely positive steps. First of all, I express my gratitude to the Karma yogis and those people who have offered some or the other service to the society and recommend maximum suggestions. And not only this, when I mention something positive, such memories come to recall, it is very much a pleasant experience. In the previous ‘Mann Ki Baat’, some people had suggested to me that food was being wasted; not only had I expressed my concern but mentioned it too. And upon my mention, there were mentions of many innovative ideas to save food from being wasted that are being put into practice employed in many corners of the country on NarendraModiApp and also on MyGov.
I had never even imagined that in our country especially the young generation has been doing this kind of work from a long time. Some social institutions have been involved in this activity for many years was common knowledge, but the youth of my country are engaged in this task, I only came to know later. Many have sent me the videos of their work in this field. There are many places where ‘Roti Banks’ are operating. In the Roti Banks, the leftover rotis are deposited by people, they also deposit the leftover vegetables and the needy can obtain food from these banks. The person who donates rotis feels a sense of satisfaction also, the recipient also does not feel humiliated. These are examples of how work can be achieved with the help of society.
Today is the last day of month of April. 1st May is the foundation day of the states of Gujarat and Maharashtra. On this occasion, many felicitations to the citizens of these two states on my behalf. Both states have made constant strides to scale newer heights of development and have contributed toward the advancement of the country. And both the states had a steady stream of great men whose lives and sterling contributions in every sphere of society is a source of inspiration for us.. In remembrance of these great men, on the foundation day of these two states, we should take the pledge of taking our state, our country, our society, our city, and our family to glorious heights in 2022, when we celebrate 75 years of independence.
Plans should be drawn to achieve that pledge and taken forward with the cooperation of all citizens. I wish the very best to these two states.
There used to be a time when climate change was a subject confined to the domain of the academic world, it used to be the topic for seminars, but today, we experience it in our everyday life and it also astounds us. Nature has also changed the rules of the game. The heat that we used to experience in months of May-June in our country is being felt in March-April this year. So, when I was taking suggestions for ‘Mann Ki Baat’, most of the suggestions offered related to what should be done to beat the heat during summer time. Most of the suggestions or practices to beat summer are not new but are prevalent for a long time, however it is very useful to remember them from time to time.
Shri Prashant Kumar Mishra, Shri T. S. Kartik and many such friends have expressed their concern about birds during the summer. They’ve mentioned that water should be kept in trays and utensils on the balcony and on the terrace. I have seen that small children of the family do this very enthusiastically. Once they understand why they should fill the pots with water they would go and inspect 10 times in a day to ensure there is water in the tray. And also watch if the birds came or not. We think as if it is a game going on , but in actuality, this is a novel way of instilling empathy in the child's mind. You can also experience for yourself that a little attachment to an animal or a bird makes you feel very happy.
Some time back, Shri Mr. Jagat Bhai from Gujarat, had sent his book, 'Save the Sparrows' in which he not only expressed concern about the continuously declining number of sparrows, but also what steps he has taken in a mission mode for the conservation of the sparrow which is very nicely described in that book. In our country, we are traditionally imbued with a sense of symbiotic co-existence with animals, birds and nature yet it is necessary that collective efforts in this regard should be emphasized.
When I was Chief Minister of Gujarat, Syedna Sahib the religious leader of Dawoodi Bohra Community had completed his hundred years. He lived till 103 years. As part of the celebration of his 100th year the Bohra community society had launched a huge campaign to save the sparrow under the aegis of Burhani Foundation. I had the opportunity to inaugurate it. Nearly 52 thousand bird feeders were distributed in every nook and corner of the world. This effort also found a mention in the Guinness book of World Records.
Sometimes we are so busy, that we even forget to offer water to the newspaper boy, the milkman, the vegetable seller, the postman or anybody else who come to our house in peak summer days.
Young friends, I want to have a chat with you too. I am sometimes worried that much of our younger generation prefer leading life in their comfort zones. Parents also raise their children in a very protective manner. True there are other extremes also but most are brought up in this comfort zone syndrome . Now the examinations have ended and you must be done with your plans to enjoy the vacation.
Summer vacations feel good inspite of scorching heat. But as a friend, I want to suggest you certain tips about of how to utilize your vacation. I believe some people will put them to use and they will tell me about that too. Would you like to use this time of vacation gainfully, I offer three suggestions, it will be good if you follow all of the three but then try to do atleast one of the three. See that you gain a new experience. Try to take the opportunity of acquiring a new skill. Try to experience something that you have neither heard before , nor seen, nor thought of and yet there is a curiosity in your mind. You must try new places, new experiences and new skills.
There is huge difference between to sometime to see something on television or reading about it in the book or listening about it from acquaintances and to experiencing the same thing yourself. I will urge you to try to experience and satiate your curiosity on any subject during this vacation. Try a new experiment. The experiment must be positive and a little out of your comfort zone. We all belong to the middle class and happy comfortable families. Friends have you ever thought of travelling in a Second Class railway Compartment without a reservation, and going for atleast a 24 hours ride?
What great experience it will be? How are the lives of your co- passengers, what do they do at the station when they alight from the train? What you cannot learn in a year, you will learn in that crowded train travelling without any reservation for 24 hours! You might not get to sleep and have to travel standing. Try it, just experience it once, I am not asking you to try it again and again, do it once. In the evening, take your football or your volleyball or any other sports item and go to a colony of poor and lesser privileged people. Play with those poor kids, you will experience a new kind of joy, the kind you would have never experienced in your life before-that’s the kind of joy you’ll experience!
Have you ever thought what changes would come in the lives of those kids who live in abject poverty when get the opportunity to play with you. And I believe that if you go there once, your heart will tell you to go back again and again. This experience will teach you a lot. Many volunteer organizations are engaged in this kind of work. You are connected to Google Guru, try searching on it and get associated with any such organization for 15 days or 20 days. Go, explore, go to the jungles. Sometimes there are summer camps, for development of different facets of your personality. You can participate in these camps.
But at the same time, don’t you feel that after you’ve attended such summer camps, you have participated in the courses for development of personality and you reach out to those people who have no such opportunity and teach them what you have learned without taking any money. It is possible that you can teach them. I am also worried that technology evolved to reduce the distance, technology came in to being to end the boundaries. But the end result of this is that six people in the same house are sitting in the same room but they are separated by unimaginable distances! Why? Everyone has become so busy with technology in his or her own way. Collectivity is also a way of life, collectivity is power in itself. Secondly I had mentioned about skill acquisition, don’t you feel that you should learn something new!
Today is the era of competition. You get so submerged in the preparation for the examinations, get so consumed to obtain the best grades, there are coaching classes going on even in vacations and you’re worrying about the next exam! Sometimes you feel scared that our youth have become robot like, living life like a machine.
Friends, dreams of making it big in life is a good thing, it is good to have some purpose in life, and you must achieve your goals. But also self-evaluate whether the human element within yourself is getting frustrated, are we not moving away from our human qualities.
Can’t a little emphasis be given on this aspect in Skill development? Get away from technology, and try to spend some time with yourself. Learn a musical instrument or learn a few sentences of a new language, Tamil, Telugu, Assamese, Bengali, Malayalam, Gujarati, Marathi or Punjabi. This is a country full of diversity and if you look, then there can be someone who can teach us something new is just around the corner. If you don’t know how to swim, then learn swimming, try doing some drawing, even if you do not end up making the best drawing, try to practice putting hand to the paper!
The empathy within you will begin to appear. Sometimes if our heart desires to learn the trade of so called ‘small people’ then let us learn it, why not? You want to learn to drive a car but then do you ever want to learn how to drive an auto-rickshaw? You’re able to ride a bicycle but have you ever tried to operate the three-wheeler cycle or rickshaw which transports people? You see, all these new experiments, these skills are such that they will bring you joy and will remove you from the limitations of life to which you’re tied down!
Do something out of the box, my Friends. This is the only time to make something of your life. And if you think that after appearing in all exams, at a new threshold of your career you will learn some new skill, then you won’t get a chance. At that time you will be tangled into other things and therefore I tell you if you have a passion to learn magic then learn the card tricks! Keep showing the tricks to your friends. Try to know about things about which you have no prior knowledge, it will definitely benefit you. Your inner human potential will awaken and this will provide a great opportunity for development. I can tell you from my experience of going around the world, that the amount we can learn by seeing the world is something we cannot even imagine. New places, new cities, new towns, new villages, new areas. But before leaving for a particular place, preparing for the journey and upon reaching your destination gathering information about it like a seeker of knowledge, understanding about the place and having discussions with the local people, if you make an effort in this manner then the pleasure of visiting the particular place would be something else!
Do try to do it; of course do not travel too much in one go. Go to a destination and spend three to four days there. Then go to the next and spend a like duration there. You will get to learn a lot that way. I wish you share your travel photographs with me, it will be nice. What new did you see ! Where did you travel to ! Make good use of the hash tag Incredible India and share your experiences.
Friends, this time around, the government of India has provided you with a great opportunity. The new generation is more or less freeing itself from the shackles of cash. It does not need cash. It has begun adopting digital currency. I know you do it, but have you ever wondered that you can earn using this very scheme? It is a scheme of the Government of India. You must be downloading the BHIM App and using it. But do refer it to others; make others join you in that.
If the new member does three transactions, performs financial business thrice, you stand to earn ten rupees for that. Ten rupees will be credited to your account from the government. If you involve twenty persons in a day, by evening, you would’ve earned two hundred rupees. The traders can earn, so can students. And this scheme is valid till the 14th of October. It will be your contribution towards making of a digital India. You’ll become a sentinel of New India. The joy of a vacation coupled with income ! Refer and earn.
Generally speaking, in our country there exists an atmosphere of disdain towards the VIP culture. But that it runs so very deep, I just experienced, when the government recently decided that no person in India, whatsoever his status might be, will not move with a red beacon atop his vehicle. In a way it had become a symbol of the VIP culture. Experience tells us that whereas the red beacon used to be fixed atop the vehicle, atop the car, slowly & steadily it permeated into the psyche and got firmly entrenched in the mindset. The red beacon now has gone for good but nobody can say with certainty that the same in the mindset has also disappeared. I have received a very interesting phone call. Though the caller has expressed the same apprehension. One can discern from this phone call that common men detest these tendencies. They feel distanced.
“Namaskar Pradhan Mantri ji, I am Shivaa Choubey calling from Jabalpur, Madhya Pradesh. I wish to say something on the government’s ban on red beacons. I read a line in a newspaper, ‘Every Indian is a VIP on the road’. It made me feel very proud. I am glad that today, even my time is equally important. I don’t have to be caught in a traffic jam and I don’t have to stop for anyone as well. I want to thank you from the core of my heart for this decision. And the Swachch Bharat Campaign that you have launched will not only clean our country, it will get rid of the VIP hegemony from our roads. Many thanks for that.”
The exit of the red beacon through a government decision is part of a system. But we have to make efforts to cleanse it out of our minds. If we collectively strive to do it with eternal vigilance , it surely can be flushed out. Our concept of New India precisely is that in place of VIP, more priority should be accorded to EPI. And when I’m saying EPI in place of VIP, the essence of my sentiment is clear – every person is important. Every person has his or her own importance, every person possesses a sagacious aura, Mahaatmya, in a unique manner. Let us warmly accept the importance of a hundred & twenty five crore countrymen, let us respectfully embrace the Mahaatmya, the divine greatness of a hundred & twenty five crore Indians and we’ll garner strength of immense magnitude. We have to do this together.
My dear countrymen, I maintain time & again that we should keep re - visiting the annals of our history, traditions and culture. That lends us energy and inspiration. This year, we the hundred & twenty five crore countrymen are celebrating the thousandth birth anniversary of Saint Ramanujacharya. For one reason or the other, we confine ourselves to celebrating and observing centenaries of events mostly. For other countries of the world, a century may be of immense significance. But India is such an ancient Nation that we are the proud inheritors of thousands and thousands of years of heritage, knowledge and civilized existence and have an opportunity to observe and celebrate a memorial heritage of over thousand years. Just try and imagine it. Even today breaking the shackles Social orthodoxy is so difficult. How would society be a thousand years ago? What kind of a mindset would be prevalent then? Not many would know that Ramanujacharya relentlessly struggled against rampant social evils such as the class divide, the chasm between touchable and untouchables and the caste system. Through his own conduct, he embraced those who were ostracized by society. A thousand years ago, he launched an agitation allowing their entry into temples and succeeded in facilitating the same. We are indeed fortunate that in every era, for eradicating social evils, noble souls, great men were born in this society itself. Now that we are celebrating the 1000th birth anniversary of Ramanujacharya, we should gain inspiration from him in our endeavour to foster social unity, to bolster the adage ‘unity is strength’.
In memory of Saint Ramanujacharya, the government of India is releasing a stamp tomorrow, the 1st of May. I respectfully salute Saint Ramanujacharya and pay tributes to him.
My dear countrymen, tomorrow, that is the 1st of May, carries one more significance. In many parts of the world, it is observed as ‘Labour Day’. And when ‘Labour Day’ is referred to, labour is discussed, labourers are discussed, it is but natural for me to remember Babasaheb Ambedkar. You would be aware that for the facilities and respect that workers have earned, we are grateful to Babasaheb. One can never forget the contribution of Babasaheb towards the welfare of the working class. Today when I refer to Babasaheb, when I talk about Ramanujacharya, I’m also reminded of the great 12th century saint & social reformer from Karnataka Jagat Guru Basaveshwar. Yesterday I got the opportunity to be part of a function. It was the occasion of dedication to the nation of his collection of Vachana Amrit, the elixir of his spoken words. In the 12th century, he had laid down his profound thoughts on labour & workers. He had mentioned in Kannada “Kaay Kave Kailas”… it means, it is just through your perseverance that you can obtain Kailash, the abode of Shiva. This means, it is only endeavour or Karma that leads you to attain Swarga, or heaven. In other words, labour, hard work is Shiva. I repeatedly mention ‘Shrameva Jayate’, and Dignity of Labour. I distinctly remember the words of Shriman Dattopant Thengdi, the founder of Bharatiya Mazdoor Sangh, the thinker, who deliberated a lot on the working class. He used to remark, on the one hand, inspired by Maoism, ‘Workers of the world unite’, on the other he would say, workers, come, unite the world. Today when I refer to workers, it is but natural to remember Dattopant Thengdi.
My dear countrymen, a few days from now, we shall celebrate Budha Purnima. Followers of Lord Budha across the world celebrate the festival. The world today is undergoing a plethora of problems such as violence, war, annihilation, the arms race et al. Amidst this atmosphere, the philosophy of Buddha comes across as extremely relevant. And in India, Ashok’s life perfectly epitomizes the transformation from war to enlightenment. I feel fortunate that the occasion of the great festival of Budha Purnima is celebrated as Vesak day by the United Nations. This year it will take place in Sri Lanka. On this holy event I shall get an opportunity to pay tributes to Lord Budha in Sri Lanka. It will be an opportune moment to re-visit his ideals.
My dear countrymen, India has always advanced on the path of progress in the spirit of Sabka Saath, Sabka Vikas… inclusive development for all. And when we say Sabka Saath, Sabka Vikas, it is not limited to the confines of India. It applies to the global context too. And very specially to our neighbouring countries. May our neighbouring countries be with us in our journey, may they develop equally. There are many projects under way. On the 5th of May, India will launch the South Asia Satellite. The capacities of this satellite and the facilities it provides will go a long way in addressing South Asia’s economic and developmental priorities. Natural resources mapping, tele medicine, the field of education, deeper IT connectivity or fostering people to people contact - this satellite will prove to be a boon in the progress of the entire region. It is an important step by India to enhance co-operation with the entire South Asia… it is an invaluable gift. This is an appropriate example of our commitment towards South Asia. I welcome all the South Asian countries who have joined us on the South Asia Satellite in this momentous endeavour…. My best wishes to them.
My dear countrymen, the weather is too hot and inhospitable , take care of your loved ones and take care of yourselves.
Wish you all the best.
Thank you
My dear countrymen, Namaskar. Parents in most parts of the country must be busy with their children’s examinations. There would be a sense of relief where the examinations are over, but where the examinations are still on, there certainly would still be some amount of pressure. However, at a time like this I would only say that students may listen again to what I had said in my ‘Mann Ki Baat’ last time. I am sure that my suggestions there will be of substantial help while they sit for their examinations.
Today is the 26th of March. 26th March is the Independence Day of Bangladesh. It was a historic war against injustice, which was fought under the leadership of “Banga-Bandhu” and led to the unprecedented victory of the people of Bangladesh. I extend my heartfelt greetings to the brothers and sisters of Bangladesh, on this significant day. And I hope that Bangladesh marches ahead on the path of progress. I also assure the citizens of Bangladesh that India is a strong partner, and a good friend, and we will continue to work together shoulder to shoulder to contribute towards the peace, security and development of this entire region.
It is a matter of great pride for all of us that Rabindranath Tagore and his memories are a shared heritage. The National Anthem of Bangladesh too, has been composed by Gurudev Rabindranath Tagore. There is a very interesting fact about Gurudev that in 1913 he was not only the first Asian to receive the Nobel Prize, but Knighthood was also conferred upon him by the British. After the Jallianwallah Massacre by the British in 1919, Rabindranath Tagore was one of the legendary figures, who raised their voices in protest. And it was at the same time, that this event left a very deep impact on a twelve-year-old boy. The inhuman massacre at Jallianwalla Bagh, provided a new inspiration and mission in life to that young teenager, who until then had spent his days playing merrily in his fields. And Bhagat, that 12-year old boy in 1919, evolved to be the martyr Bhagat Singh, our dear hero and inspiration. On the 23rd of March, Bhagat Singh Ji and his comrades, Sukhdev and Rajguru, were hanged to death by the British, and we are all aware of that. There was a sense of fulfillment on the faces of Bhagat Singh, Sukhdev and Rajguru for having served Mother India - - there was no fear of death. They had sublimated all their dreams for the freedom of Mother India. These three heroes inspire us to this day. It would be impossible to express in words the story of the supreme sacrifice of Bhagat Singh, Sukhdev and Rajguru. And the entire British Empire feared these three young men. They were in jail, certain to be hanged, but still the British remained anxious about how to deal with them. That is why, though the scheduled date was the 24th, they were hanged on the 23rd of March. This was done clandestinely, which is not the usual practice. And later, their remains were brought to present day Punjab, and were secretly cremated. Many years ago, when I first got the chance to go there, I could feel a certain vibration in that place. And I would certainly urge the youth of our country to go to Punjab, whenever they get the chance, and visit the ‘samadhi’ of Bhagat Singh, Sukhdev, Rajguru, Bhagat Singh’s mother and Batukeshwar Dutt.
That was the period when the desire for freedom, its intensity, and spread were on the rise. On the one hand, brave hearts like Bhagat Singh, Sukhdev and Rajguru, were inspiring the youth towards an armed revolution. And on the other hand, exactly one hundred years ago on the 10th of April, 1917, Mahatma Gandhi had launched the Champaran Satyagraha. This year marks the centenary of the Champaran Satyagraha. In India’s struggle for freedom, Gandhian thought and Gandhian practice became manifest for the first time in Champaran. This was a turning point in the entire journey of India’s freedom struggle, especially in the context of the methodology of the struggle. This was the period when, in the Champaran Satyagraha, Kheda Satyagraha, and the mill-workers’ strike in Ahmedabad, the deep impact of Mahatma Gandhi’s thoughts and practices was amply and clearly visible. Gandhi returned to India in 1915, and in 1917, he went to a small village in Bihar and gave the country a new inspiration. We cannot evaluate the Champaran Satyagraha on the basis of the image of Mahatma Gandhi that we cherish in our hearts today. Just imagine that one man, who came to India in 1915, and had been in the country for barely two years. The country didn’t know of him, he bore no influence then; it was just the beginning. We can only imagine the hardships that he must have endured, how hard he must have had to toil. And it was the Champaran Satyagraha that brought to the fore, Mahatma Gandhi’s organisational skills, and his strong ability to gauge the pulse of Indian society. Mahatma Gandhi, through his demeanour and deeds, could inspire the poorest of the poor, the most illiterate, to unite and come together out into the open for the struggle against the British Rule; this was a manifestation of an incredible inner strength, through which we can experience the vastness of Mahatma Gandhi’s great persona. But if we reflect upon the Gandhi of a hundred years ago, the Gandhi of the Champaran Satyagraha, that would be a subject of deep study for anyone about to enter public life. We can all learn from Gandhi Ji what it means to begin a life of public service, how hard one has to work, as Gandhi did. And that was the period when all the stalwarts, that we hear about today: Rajendra Babu, Acharya Kripalani Ji, and others were all sent to the villages by Gandhi Ji. Ways and means to connect with the people and lending hues of freedom to their day to day work were taught. And the British were simply unable to comprehend Gandhi Ji’s unique style of working, which encompassed both struggle and creation together. In a way, Gandhi created two sides of the same coin; one being struggle and the other, creativity. To get themselves arrested voluntarily to fill jails, on the one hand, and on the other to immerse themselves in creative work. Gandhi’s style of working had an incredible balance. What the word, ‘Satyagraha’ means, what disagreement can mean, what Non-Cooperation in the face of such a vast Empire could be –Gandhi Ji established a completely new vision of resistance, not through mere words, but through a successful experiment.
Today, as the nation observes the centenary of the Champaran Satyagraha, the immense power of the common man, so visible in the struggle for freedom, manifests again in the journey from Swaraj to Suraaj, the resolve, the perseverance of the 125 crore countrymen, following the tenet of ‘Sarvyajan Hitaay, Sarvajan Sukhaay’ i.e. for the benefit of all, for the happiness of all, and the ceaseless enterprise to achieve something for the country, the society, would bring about the realisation of the dreams of the great souls who laid down their lives for the sake of Freedom.
Today, as we live in the 21st century, which Indian wouldn’t want to see India change, which Indian wouldn’t want to be a partner in the transformation of the country! This desire of 125 crore countrymen for change, the effort to change, is what will lay a strong foundation of a ‘New India’. ‘New India’ is neither a government programme, nor is it the manifesto of a political party, nor is it a project. ‘New India’ is the clarion call of 125 crore countrymen. It is the essence of the emotions of the 125 crore Indians wanting to come together and create a magnificent India. 125 crore Indians nurture a hope, a zeal, a resolve, a desire.
My dear countrymen, if we, for a moment, pause to look with empathy at the happenings in society around us, and if we try to understand these, we would be amazed to see that there are lakhs of people, who besides their own personal responsibilities are working selflessly, for society - the exploited, victimised, deprived; for the poor and the oppressed. That too silently, and with devotion, as if they are performing ‘tapasya’ or ‘sadhana’. There are many who regularly go to hospitals to serve patients. There are many who rush to donate blood, when required. There are many who try to provide food to the hungry. Our country is a many splendoured land. The belief that Service to humanity is service to God, is innate to us. If we look at it in its collectiveness, in an organised manner, it comes across as a major force. When there is a talk of ‘New India’, its criticism, its analysis, it counter views, are but natural, and that is a fundamental of democracy. But it is true that if 125 crore countrymen resolve, and decide to walk step by step on a path to realise that resolve, the dream of ‘New India’ can be fulfilled in our lifetime. And all these things are not necessarily achieved through the Budget, government projects, or government money. If every citizen resolves to obey traffic rules, if every citizen resolves that he will discharge his duties honestly, if every citizen resolves that he will not use petrol or diesel one day in a week - - these are not very big things. But these will contribute to the realisation of the dream of this country, this ‘New India’, that is being nurtured by 125 crore countrymen, and this realisation will be achieved before their eyes. In essence, every citizen must discharge his civic duties and responsibilities. This in itself would be a good beginning to the New India.
As India gets ready to celebrate 75 years of Independence in 2022, come let us remember Bhagat Singh, Sukhdev, Rajguru. Let us remember the Champaran Satyagraha. Why don’t we too, be a part of this journey from ‘Swaraj to Suraaj’ by making our lives disciplined, and filled with resolve. Come, I invite you.
My dear countrymen, today I want to express my gratitude to all of you. Over the last few months the country has witnessed a certain atmosphere in which people in large numbers have participated in the digital payment, ‘Digidhan’ movement. There has also been an increase in curiosity about cashless transactions. The poorest of the poor are making an attempt to learn, and people are gradually moving towards doing businesses without cash. There has been a surge in various modes of digital payment after demonetisation. The BHIM-App was launched just about two to two and a half months ago, but approximately one and half crore people have downloaded it.
My dear countrymen, we must take our fight against black money and corruption to the next level. Can 125 crore countrymen resolve to undertake 2500 crores digital transactions during this year? We have made an announcement in the Budget. Our 125 crore countrymen, if they wish to do so, they need not wait for a year; they can do it in six months. 2500 crore digital transactions - - - if we pay school fees, we shall do so not by cash but digitally, if we travel by train, travel by air, we shall pay digitally, if buy medicines, we shall pay digitally, if we run fair price shops, we will use the digital mode. We can do this in our day to day lives. You can’t imagine how you can serve the country in this way and become a brave soldier in the fight against black money and corruption. Recently, several Digidhan-mela programmes were organised to educate the people and to increase public awareness. The resolve was to organise 100 such programmes all over the country. About 80-85 programmes have already been conducted. There was also a reward scheme. Close to 12 and half lakh people have won prizes. Seventy thousand traders also won the prizes instituted for them. Each and every one of them also resolved to carry this mission forward. The birth anniversary of Dr. Baba Saheb Ambedkar is on the 14th of April. And as was decided much earlier, the Digimela will be brought to a culmination on the 14th of April, the birth anniversary of Baba Saheb Ambedkar. On the completion of a hundred days, a grand closing ceremony will be held. There is a provision of a bumper draw also in that. I believe that in whatever time that is left before Baba Saheb Ambedkar’s birth anniversary, we should popularise and promote the BHIM-App. We should contribute towards ensuring reducing the use of cash, of currency notes.
My dear countrymen, I am glad that every time, I request people for suggestions in Mann Ki Baat, numerous suggestions pour in. But I have seen that there is always an emphasis on the topic of cleanliness.
Gayatri, a young girl from Dehradun, who is a student of class 11, has phoned in with a message: -
“Esteemed Principal, Prime Minister Sir, my respectful greetings to you. To begin with, heartiest congratulations on your victory in the elections, with a huge margin. I wish to share the issue close to my heart with you. I want to say that people will have to be made aware about the importance of cleanliness. Every day I pass by a river, in which people dump a lot of garbage and pollute rivers. The river flows under the Rispana Bridge before passing by my home. For the sake of this river we went to settlements on its banks, spoke to people and took out rallies too, but to no avail. I want to request you to kindly highlight this issue by sending a team there, or through the newspapers. Thank you.”
Brothers and sisters, look at the agony of this young daughter, the 11th class student. How enraged she is by seeing the river strewn with trash. I consider this to be a good omen. This is exactly what I want - - that 125 crore countrymen be angered by filth. Once there is anger, dissatisfaction, rage, we will be compelled to act against this scourge. The good thing is that Gayatri is expressing her own anger, and giving suggestions to me, but she also goes on to say, that she has made several efforts but could not succeed. There has been an awareness ever since the launch of the Cleanliness Movement. Each person has become associated with it in a positive manner. This has now truly taken the form of a movement. There has been an increase in the disgust towards squalor. When there is awareness and active participation in the movement, it has its own significance. But cleanliness is more about a habit than a movement. This movement is geared towards bringing about a change in the habit, a movement to inculcate the HABIT of cleanliness. This movement can be accomplished collectively. It is a difficult task, but we have to do it. I am sure that this resolve that has arisen in the younger generation, in children, in students, in the youth, augurs well for achieving good results. I would urge my fellow countrymen, who have heard Gayatri’s message in my ‘Mann Ki Baat’ today, that it should be a message to all of us.
My dear Countrymen, right from the beginning since I have started the programme ‘Mann Ki Baat’, I have been receiving a lot of suggestions on one issue, and in most of those, people have expressed concern about food wastage. We know that at home and at feasts and social gatherings, we tend to serve ourselves more food than we need. We put each and everything on offer, on our plates, but we fail to finish what we have taken. We can’t even finish half of what is on our plates and then leave it uneaten. Have you ever thought about how much food we waste? Have you ever thought how many poor people can be fed if we don’t thus waste our food? This is not something that needs to be taught. As it is, in our families, mothers always tell their children to take only as much food they can eat. There is always some effort made in this direction, but still the apathy on this issue is a crime against society. It is an injustice to the poor. On the other hand, if we are able to avoid wastage, the family too benefits economically. So while it is good to care about society, this is beneficial to the family as well. I am not urging too much on this issue, but I would like this awareness to spread. I do know some young persons, who are active in such campaigns. They have created Mobile Apps. And when people call them about there being leftover food anywhere, they collect it and put it to good use. They work hard, and these are our own young people. You will find such people somewhere in each and every state of India. The lives of these people can inspire us not to waste food. We should take only as much as we can eat.
See, these are the pathways leading towards change. And those who are health conscious always say that, there should always be some space left both in the stomach and on the plate. Now that we are talking about health, 7th April is World Health Day. United Nations has resolved to provide universal health coverage for all by 2030. This year on the occasion of World Health Day on the 7th of April, United Nations has focused on Depression, which is the theme this year. We are familiar with this word, depression. According to one estimate, more than 35 crore people in the world suffer from depression. The problem is that we are unable to fully comprehend it even amongst those around us, and perhaps we also hesitate to talk about it openly, with our family and friends. The person suffering from depression too doesn’t speak out himself as he feels a sense of shame about it.
I want to tell my countrymen, that depression is not incurable. There is a need to create a psychologically conducive environment to begin with. The first mantra is the expression of depression instead of its suppression. Share openly what you are going through, with your colleagues, friends, parents, brothers, and teachers. Sometimes one is overcome by a sense of loneliness - - - students living in hostels are particularly vulnerable to it. We are fortunate that we have been raised in joint families, large families, where there is communication, which eliminates the chances of getting into depression. But I would still like to tell parents that if you notice your son or daughter or any other member of your family - - - earlier the entire family used to dine together. But if someone in the family says, “No, I will eat later.” He doesn’t come to the dining table. When the entire family is going on an outing, he just says, “No, I don’t want to come today.” He professes a desire to be alone. Have you ever wondered why he does so? You can be sure that this the first step towards depression. If he prefers to stay away from a group, and tends to be all by himself, do make an effort to ensure that this does not happen. He should be given an opportunity to be amongst people with whom he speaks openly. Try to encourage him to express himself, to reveal and bring out his insecurities and complexes while engaging him in light-hearted happy conversation. This is a very good way of dealing with it. Depression can be the root cause of many mental and physical ailments. Just as diabetes can be the root cause of all sorts of diseases, depression too, destroys all our abilities to sustain, to fight, to display courage and to take a decision. Your friends, your family, your surroundings, and environment, all these can prevent you from going into depression and if you unfortunately has gone into it, they can also pull you out of it. There is another way. If you are unable to express yourself to your family and friends, then do one thing, go out in society with a sense of service. Devote yourself with all your heart into helping others and sharing their joys and sorrows. You will find that along with it your own inner sufferings will go on disappearing. If you try to sympathise with the sufferings of others with a sense of service, a new self-confidence will be born within you. By connecting with others, serving them and serving them selflessly, you will easily be able to shed the weight oppressing your own heart and mind.
Yoga too is a good means for mental wellbeing. Yoga helps in relieving tension and stress, and leads one towards a happy state of mind. 21st June is the International Day of Yoga. This will be the third year of its observance. You all should start preparing for it right away. Collective Yoga festivals should be celebrated with the participation of millions. If you have any ideas for the Third International Yoga Day, please do send me your suggestions and guidance through my mobile Application. You could compose as many songs and poems on Yoga, as possible, as these can be easily understood by the masses.
Today I would like to say something especially to mothers and sisters also, since health and wellbeing have been a major part of our conversation today. Recently, the Government of India has taken a very important decision. The working-class women in our country - their numbers are increasing day by day, their participation is increasing and this is a welcome trend. But women also shoulder certain special responsibilities. They look after the family. They also have to share the financial responsibilities of running the household, and because of that sometimes, the newborn has to bear some injustice of neglect. The Government of India has taken a very important decision. These working women will now be given maternity leave of 26 weeks, instead of the earlier 12 weeks, for their pregnancy and delivery. There are now only two or three countries in the world that are ahead of us in this matter. India has taken a very important decision for these working women sisters of ours. The basic aim is to ensure proper care of the newborn, the future citizen of India, from the time of birth. The newborn should get the complete love and attention of the mother. That is how these children will become true assets of the country when they grow up. Mothers too will remain healthy. And that is why, this is such a landmark decision, and this will benefit 18 lakh women working in the formal sector.
My dear countrymen, we will celebrate the auspicious day of Ram Navami on the 5th of April, Mahavir Jayanti is on the 9th of April, and on the 14th of April is the birth Anniversary of Baba Saheb Ambedkar. May the lives of all these great luminaries inspire us, and give us the strength to resolve ourselves to the cause of New India. My heartiest new year greetings for Chaitra Shukla Pratipada, Varsh Pratipada, and Nav Samvatsar, which are two days from now. After Vasant Ritu or the season of Spring, it is now the time for the ripening of the crops, and the time for the farmers to reap the benefits of their hard work. The new year is celebrated in different ways in different parts of our country. New year is Gudi Padva in Maharashtra, Ugadi in Andhra and Karnataka, for the Sindhi it is Cheti Chand, Navreh in Kashmir, Samvatsar Pooja in the Awadh Region, Jud-Sheetal in the Mithila region of Bihar and the festival of Satuvani in the Magadh region. India is a country blessed with rich diversity. My heartiest greetings and best wishes to you all on this New Year. Many thanks.
My dear countrymen, Namaskar. Winter is on its way out. Vasant, the season of spring has just started to step into our lives. After the departure of PATJHAD, when old and withered leaves fall, new leaves begin to sprout on the trees. Flowers bloom. Gardens and orchards sport a verdant green. The melodious chirping of birds warms the cockles of our hearts. Not just flowers, fruits too appear to be shining bathed in the sun rays on tree branches. The flower heads of the summer fruit mango manifest themselves in the spring season itself. At the same time bright yellow flowers of mustard swaying in their fields kindle hope in the hearts of the farmers. Blossoming of bright red Jungle Flame flowers, better known as Tesu or Palash heralds the advent of Holi. Amir Khusro has portrayed these moments of change of season in a very interesting manner. Amir Khusro has written:
Phool rahi sarson sakal ban
Ambwa phoote, Tesu phoole
Koyal bole, daar daar,
that is,
Behold the mustard blooming everywhere, all around
Here the inflorescence on the mango tree, there the Jungle Flame blossoms
The nightingale can’t help but sing merrily on the branches.
When nature is at her joyous best, when the season is enchanting, we human beings too enjoy this to the fullest. The festivals of Vasant Panchami, Mahashivratri and Holi, impart hues of happiness to a person’s life. In an ambience of love, brotherhood and humanity, we are about to bid adieu to the last month of Phalgun and are eagerly awaiting to welcome the arrival of the new month of Chaitra. The Ritu of Vasant, that is, the season of spring is indeed the confluence of these two months.
At the outset, I express my gratitude to lakhs of citizens of our country for sending in a multitude of suggestions when I ask for them before ‘Mann Ki Baat’. On the NarendraModiApp, on Twitter, on Facebook, by post - I thank all of you for that.
Shobha Jalan has written to me on the NarendraModiApp that many in the public are not aware of the achievements of ISRO. And therefore she wants me to provide some information on the recent launch of 104 satellites and the Interceptor Missile. Shobha Ji, thank you very much for paying attention to this shining example of India’s pride. Whether it is eradicating poverty, preventing diseases, connecting with the world, or disseminating knowledge and information, technology and science have made a mark for themselves. 15th February, 2017 is a day of immense pride for India. Our scientists have brought laurels to the nation, witnessed by the whole world. And we know that over the last few years, ISRO has accomplished various unprecedented missions with flying colours. After the successful mission of sending Mangalyaan to planet Mars, recently ISRO scripted a world record in the arena of space. In a mega mission, ISRO has successfully launched 104 satellites simultaneously into space. These satellites belonged to various countries such as America, Israel, Kazakhstan, Netherlands, Switzerland, UAE and, of course, India. India has created history by becoming the first country to launch successfully 104 satellites into space at one go. And what is further heartening is the fact that this was PSLV’s 38th successive successful launch. This is a historic achievement for not just ISRO but for all of India. This cost effective, efficient space programme of ISRO has become a marvel for the entire world; the world has admired this success of Indian scientists of India whole-heartedly.
Brother & sisters, one out of these 104 satellites is extremely important. It is Cartosat 2D, which is India’s satellite and the pictures clicked through it will be of great help in mapping of resources and infrastructure, evaluating development and planning for urban development. Particularly for my farmer brothers and sisters, our new Satellite Cartosat 2D will be immensely helpful on a whole lot of subjects such as knowing how much water is there in our existing water sources, how this should be best put to use, what things to keep in mind in this regard. Almost immediately after its launch, our satellite has sent back some pictures. It has commenced functioning. It is also a matter of exultation for us that this entire campaign was led and steered by our young scientists, our women scientists. This tremendous participation of youth and women is a major glorious dimension in ISRO’s success. On behalf of our countrymen, I heartily congratulate the scientists at ISRO. Adhering consistently to the objective of bringing Space Science to the common man, for the service of the nation, they are creating one record after another. One runs short of words in complimenting and congratulating our scientists, their entire team.
Shobha Ji has asked one more question and that pertains to the security of India. It is about India having acquired a great capability. This important matter has not been discussed much, but it has drawn Shobha Ji’s attention. In the field of defence also, India has successfully test fired the Ballistic Interceptor Missile. During its trial, this missile, based on interceptor technology, destroyed an enemy missile at an altitude of about 100 km above the surface of the earth and thus marked its success. This is a significant, cutting edge competency in the arena of security. And you will be happy to know that hardly four or five countries in the world possess this capability. India’s scientists have demonstrated this prowess. Its core strength lies in the fact that if, even from a distance of 2000 km, a missile is launched to attack India, our missile can pre-emptively destroy it in the space itself.
When we witness new technology, or a new scientific feat, we are left overwhelmed with joy. Inquisitiveness has played a significant role in the journey of progression of human life and development. And those gifted with extra-ordinary intelligence do not let inquisitiveness to remain just that; they begin further questioning it, look around for newer queries, and try to create new realms in the spirit of enquiry. This incessant spirit of enquiry leads to new inventions. They do not rest till they obtain an answer. If we try to take a bird’s eye view of thousands of years of the onward march of human life and progress, we can easily say that this great journey has no point of culmination. A full-stop is impossible. Attempting to know the universe, the laws of Nature, the inner recesses of the human mind is an unending process. This is what begets new Science, new technology. And every technology, every new form of Science gives birth to a new era.
My dear young friends, while we refer to Science and the sheer perseverance of scientists, I have many a time said in ‘Mann Ki Baat’, that the attraction of Science for our young generation should increase. The country needs more and more scientists. Today’s scientist becomes a potent catalyst for enduring change in the lives of our future generations.
Mahatma Gandhi used to say, “No Science has dropped from the skies in a perfect form. All Sciences develop and are built up through experience”.
Revered Bapu had also remarked, “I have nothing but praise for the zeal, industry and sacrifice that have animated the modern scientists in the pursuit after truth”.
When Science is harnessed keeping in minds the needs of common folk, when ways and means to naturally use those principles for people’s requirements are devised, when appropriate mediums and technologies are deliberated upon, it paves the way for it to be considered the most valuable contribution for general humanity. Recently, during the 14th Pravasi Bharatiya Diwas, Niti Aayog and India’s Foreign Ministry had organized a unique competition. Socially useful innovations had been invited. These innovations were identified and showcased, and people were being informed about them, along with touching upon such issues as harnessing them for the use by the common people and their mass production and commercial utilization. I saw the volume of remarkable work done in that area. To give you an example, I came across an innovation for our poor fishermen brethren. It is a simple mobile App. But it is so powerful that when a fisherman goes to sea for fishing, this App is able to provide guidance for direction to locate the most productive fishing zones and also provide multifarious types of information such as the direction and speed of the wind, the height of waves and so on. This whole array of information is available on this mobile App which can be utilised by our fishermen brethren for moving to those areas with maximum fish presence in a very short time and thus earning their livelihood.
There are times when a problem portrays the importance of Science for finding its solution. In 2005, there was a very heavy downpour in Mumbai, which resulted in flooding, and even high tides in the sea, leading to terrible hardships. Whenever a natural calamity strikes, it is the underprivileged, who are the first in bearing its brunt. In that situation, two persons worked in right earnest and developed a dwelling structure that saves the house and its occupants, mitigates the water-logging and can prevent water borne diseases also. There were a large number of such innovations.
What I’m trying to infer is that in society, in the country, there are many who take on such roles. And our society is also increasingly turning out to be technology driven. Systems are getting technology driven. In a way, technology is becoming an inseparable part of our lives. In the recent days, one can see a lot of emphasis being laid on Digi-Dhan. Gradually, people are shedding their hard currency mindset and moving towards digital currency. Digital transactions in India are witnessing a very rapid surge. The young generation, in particular, is getting habituated to digital payments through its mobile handsets. I believe this to be a good portent. In recent times, Lucky Graahak Yojana and Digi-Dhan Vyapari Yojana have received overwhelming support. For about two months now, everyday fifteen thousand people have been winning a prize of a thousand rupees each. And through these two schemes, the process to make digital payment a mass movement has been initiated; it has received a rousing welcome in the entire country. It is a delight to learn that till now, under the Digi-Dhan Yojana, ten lakh people have been rewarded, over fifty thousand traders have won prizes and an amount of almost over a hundred & fifty crores rupees has been earned as prize money by people who have promoted and carried forward this great campaign. Under this scheme, there are more than a hundred customers who have received prizes of one lakh rupees each. There are more than four thousand traders who have got prizes of fifty thousand rupees each. Be they farmers, traders, small entrepreneurs, professionals, housewives, students – all are enthusiastically participating and also getting benefits from it. When I wanted to know the analysis, as to whether it’s only the young people who come forward or there are elders persons too, I was heartened to learn that among the recipients, there were 15 year old young persons, as well as elderly people aged 65-70.
Shriman Santosh Ji from Mysore, expressing joy, has written on the NarendraModiApp that under the Lucky Grahak Yojana, he received a reward of a thousand rupees. But I feel I must share with you what he has written most prominently. He says that when he received this reward, it struck him that a poor old woman had lost all her belongings because of a fire that broke out in her house. He felt she had more a rightful claim on the reward he had got and gave away the thousand rupees to her. And he derived a lot of Santosh, that is, satisfaction through his deed. Santosh Ji, your name and your deed – both are sources of SANTOSH, satisfaction for all of us. You have done something that is exemplary and inspiring.
A 22-year old cab driver brother Sabir from Delhi adopted the digital mode in his transactions after demonetisation and went on to win a prize of one lakh rupees under the ‘Lucky Grahak Yojana’ of the Government. Though he continues to be a driver, in a way, he has now become an ambassador for this scheme. He keeps imparting knowledge about digital usage to his passengers all the time. He is extremely enthusiastic and motivates others also to go digital.
One young post-graduate student Pooja Nemade from Maharashtra keeps sharing her experience with friends about how her family members are using RuPay Card and e-wallet facilities and deriving enjoyment out of it and also as to how important the prize of rupees one lakh is for her. She has taken up this in a mission mode and is bringing others into its fold.
I urge my countrymen, especially the youth of our country and those who have won prizes under ‘Lucky Grahak Yojana’ or ‘Digi-Dhan Vyapar Yojana’ to become ambassadors of these schemes on their own. Lead this movement. Take it further as it has a very major and prominent role in the fight against corruption and black money. To me, each and every individual involved in this mission constitute a new anti-corruption cadre in the country. In a way you are a soldier in the cause of cleanliness and purity. You know that this scheme will complete its 100 days on 14th April, the birth anniversary of Dr. Babasaheb Ambedkar, a truly memorable day. There is going to be a very big draw of prizes worth crores of rupees on 14th April. There are still about 40-45 days left for that. Can you do one thing in the memory of Babasaheb Ambedkar? We have recently celebrated 125th birth anniversary of Baba Saheb Ambedkar. Remembering him, you teach at least 125 persons about downloading the BHIM App. Also teach them about the procedure of making transactions through this App; teach this specially to small traders in your neighbourhood. Give special importance to Baba Saheb Ambedkar’s birth anniversary this time and the BHIM App. For this, I would like to say that we have to strengthen the foundation laid by Dr. Baba Saheb. We have to go from door to door associating everybody in order to place the BHIM App in 125 crore hands. Since its beginning about two-three months ago, this movement has had a clear impact and has been a very big success in many townships, villages and cities.
My dear countrymen, agriculture makes a very major contribution to the fundamentals of our country’s economy. Economic prowess of villages imparts momentum to the nation’s economic progress. I wish to share a very happy news with you today. Our farmer brothers and sisters have toiled hard to fill our granaries. The hard work of the farmers has resulted in a record production of food grains. All signals indicate that our farmers have broken all previous records. There has been such bountiful crop this time in the fields of our farmers that every day has appeared to be a celebration of Pongal and Baisakhi. More than two thousand seven hundred lakh tonnes of food grains have been produced in the country this year. This is 8 percent more than the last record set up by our farmers. Thus, it is an unprecedented achievement in itself. I want to specially thank the farmers of the country. I also want to thank our farmers for keeping the poor in mind and adopting cultivation of various pulse crops also besides the traditional crops because pulses are the biggest source of protein for poor people. I am happy that the farmers of my country heeded the needs of our poor people and cultivated various pulse crops on about 290 lakh hectare land. This is not merely the production of pulses but a yeoman service rendered by the farmers to the poor of my country. My farmer brothers and sisters deserve special gratitude for the way they whole-heartedly accepted my request, my prayer and put in their hard labour to get a record production of pulses.
My dear countrymen, the government, society, institutions, organizations, in fact everyone, is making some or the other effort towards greater cleanliness. In a way, everyone is seen working towards the cause of cleanliness in a conscious manner. The government is continuously making efforts in this regard. Recently, an event was organised in Telengana under the leadership of the Secretary of our Ministry of Water and Sanitation of the Government of India, in which senior officers from 23 state governments participated. And, this was not confined to having just a closed door seminar, but the importance of cleanliness was practically demonstrated at Warangal in Telangana. Toilet pit emptying exercise was carried out in Hyderabad on 17th and 18th February. Toilet pits in six houses were emptied and cleaned and the officers personally demonstrated that the used up pits of twin pit toilet can be emptied and then re-used. They also displayed as to how convenient these new technique toilets are and there is absolutely no inconvenience or hesitation in emptying or cleaning these toilets and even the psychological barrier does not come in the way at all. And, we can ourselves clean these toilet pits just as we do other general cleaning. And, this exercise showed results, media in the country gave it wide publicity and highlighted its importance. And it is quite natural also because when people see an IAS officer cleaning a toilet pit himself, the fact is naturally noticed by the country. And we consider the waste taken out from a toilet pit as sheer useless garbage but if considered from the angle of its use as a fertiliser, this, in a way, is black gold. We can clearly see the conversion of waste to wealth. This has been proved too. For a family of six members, the model of one standard Twin Pit Toilet gets filled in about five years. After that the waste can easily be redirected to the other pit. This waste deposited in the pit gets completely decomposed in six to twelve months time. This decomposed waste can be safely handled quite conveniently and can be used as ‘NPK’ which is a very useful fertilizer. Our farmers know ‘NPK’ very well. It contains nutritious elements Nitrogen, Phosphorous and Potassium in abundance and is considered a fertiliser of very good quality in the agriculture sector.
Others must also have experimented with initiatives similar to those undertaken by the Government. Now Doordarshan is broadcasting a special programme of ‘Swachchhta Samachar’, that is ‘Cleanliness News’. Highlighting such things in this programme will be very beneficial. Various government departments regularly observe Cleanliness Fortnight. During the first fortnight of March, Women and Child Development Ministry along with the Ministry of Tribal Affairs will be laying stress on the Cleanliness Campaign. And two other ministries, the Ministry of Shipping and the Ministry of Water Resources, River Development and Ganga Rejuvenation will take the Cleanliness Campaign forward during the last two weeks of March.
We know that whenever an Indian achieves something notable, the whole country feels a new energy and the self-confidence gets a boost. We all hailed the commendable performance by our Divyang Players at Rio Paralympics. India defeated Pakistan in the final of the Blind T-20 World Cup held earlier this month to become World Champions for the second consecutive time and thus raised our national prestige to a new height. I once again congratulate all players of our team. The country is really proud of these Divyang friends for their achievement. I always believe that Divyang brothers and sisters are capable, strongly determined, courageous and possess tremendous resolve. We get to learn something each moment from them.
Be it the field of sports or space science, the women of our country lag behind none. They are moving ahead shoulder to shoulder and are bringing glory to the nation with their commendable achievements. Our women players won a silver medal at the Asian Rugby Sevens Trophy recently. My heartiest congratulations to all these players.
The whole world celebrates 8th March as Women’s Day. In India also more importance needs to be given to our daughters along with increased awareness and sensitivity towards them. ‘Beti Bachao - Beti Padhao’ movement is moving forward with rapid strides. This is no longer just a government programme. It has now become a campaign of societal empathy and public education. During the last two years this programme involved the common man; it has forced people from all corners of the country to think and ponder over this burning issue; and brought about a change in people’s thinking about our traditional beliefs and customs which have been prevalent for many years. It gives us great joy and happiness when we hear the news of festive celebration on the birth of a daughter. In a way, a positive mindset towards our daughters is leading towards societal acceptance. I have heard that in Cuddalore district of Tamil Nadu, child marriage has been banned under a special campaign. About 175 child marriages have been prevented so far. The district administration has opened bank accounts of over 55-60 thousand daughters under ‘Sukanya Samridhi Yojana’. In Kathua district in Jammu & Kashmir, all departments have been connected with ‘Beti Bachao – Beti Padhao Yojana’ under the Convergence Model and in addition to the convening of Gram-Sabhas, all efforts are being made by the district administrations for adoption of orphan baby girls and to ensure their education. In Madhya Pradesh, under the “Har Ghar Dastak” programme a campaign is being run to go to every village and every house to encourage education of daughters. In Rajasthan ‘Apna Bachcha, Apna Vidyalaya’ campaign is being run to readmit those girls into schools, who had dropped out, in order to encourage and motivate them to start studying again. I mean to say that ‘Beti Bachao - Beti Padhao’ movement has also developed in many shapes and forms. This entire movement has become a people’s movement. New imagination and new concepts have been linked and connected with it. This movement has been moulded as per local requirements. This, I believe, is a healthy sign. As we get ready to celebrate ‘Women’s Day’ this 8th March, there is only one sentiment: -
With Strength, with Vitality, the Indian woman comes to the fore
Rightfully deserves equality - neither less, nor more.
My dear countrymen, all of you get an opportunity to express your views from time to time in ‘Mann Ki Baat’. You also connect actively with this programme. I get to know so many things from you. I get to know as to what all is happening on the ground, in our villages and in the hearts and minds of the poor. I am very grateful to you for your contribution. Thank you very much.
My fellow citizens, my namaskar to all of you! 26th January, our Republic Day was celebrated with joy and enthusiasm in every nook and corner of the nation by all of us. The Constitution of India, the duties of citizens, the rights of citizens and our commitment to democracy - these in a way make Republic Day also a festival of ‘sanskaars’, which makes our future generations cognizant of democracy and their democratic responsibilities, and also imparts to them the culture, moral values and norms inherent in our democracy. But still in our country, the duties and rights of citizens are not being debated and discussed as intensively and extensively as it should be done. I hope that the amount of emphasis that is given to the rights at every level during most of the time, is also given to discussing duties of citizens in an emphatic manner. The rights and duties of the citizens constitute the railway track, on which the train of democracy in India can move ahead at a fast pace.
Tomorrow is 30th January, the death anniversary of our revered Bapu. All of us pay tributes to the martyrs who sacrificed their lives for the motherland, by observing silence for 2 minutes at 11 am on 30th January. As a society, as a nation, the 2 minute tribute of silence on 30th January at 11 am, should become our instinctive nature. This 2 minutes silence is an expression of our collective resolve and reverence for the martyrs.
In our country there is an innate respect for the military and the security forces. I congratulate and felicitate the young heroes and their families who were honoured with various gallantry awards on the eve of this Republic Day. There are various categories of these gallantry awards like Kirti Chakra, Shaurya Chakra, Vishisht Seva Medal and Param Vishisht Seva Medal. I want to urge the youth especially that since you are very active on social media, you can do one thing. Surf the Net to do some research on the valiant bravehearts, who have been bestowed with these honours, compose a few good lines about them and share these with your friends and companions. When we get to know the in depth details of their courage, bravery, valour in detail, we are filled with astonishment and pride and we also get inspired!
While we were all delighted with the tidings of enthusiasm and celebration of 26th January, at the same time, some of our army Jawans posted in Kashmir for the defense of the country, achieved martyrdom due to the avalanche. I respectfully pay my homage to all these brave soldiers, I bow to them.
My young friends, you know very well that I regularly do my ‘Mann Ki Baat’. January, February, March, April – all these are for every family, months of most severe test! Normally it is one or two children in a home due to appear at their exams, but the entire family feels the burden of it. This led me to believe that this is the right time for me to talk to my student friends, their guardians and their teachers, because for many years now, wherever I have gone, whomsoever I have met, examination appeared to be a great source of anxiety. Troubled families, harassed students, tense teachers – one sees a very strange psychological atmosphere prevailing in each home! And I have always felt that we should come out of this situation and, therefore, today I want to talk in some detail with my young friends. When I’d declared that I would talk on this topic, many teachers, guardians and students sent me their messages, questions, suggestions and also expressed their anguish and narrated their problems. And after going through all these outpourings, some ideas came to my mind, which I want to share with you today. I received a telephonic message from Srishti. You too listen to what Srishti has to say: -
“Sir, I want to tell you that during exam time, very often in our homes, in the neighbourhood and in our society, a very terrifying and scary atmosphere pervades. This leads to a situation, where the students instead of feeling inspired feel tremendously down. So I just want to ask you this, can’t this be transformed into a pleasant atmosphere?”
Well, the question has been posed by Srishti, but it is a question that must be there in the minds of all of you. Exams in themselves, should be a joyous occasion. After a year of hard work, one has the opportunity to display one’s capabilities, so this should be a festival of joy and enthusiasm. But there are very few people for whom there is pleasure in the exam; for most people exam means pressure! Now, it is up to you to decide whether you consider the exams pleasure or pressure. Those who will consider it a pleasure, will have achievements, while those who will consider exams a pressure, will have to repent. And therefore my opinion is that exams are like a festival and, hence, must be celebrated. And when there is a festive mood of celebration, the best within us comes out. The true realisation of the strength of a society also takes place during festivals. The best of everything finds a manifestation. Usually, we think of ourselves as a highly undisciplined lot, but if we just look at the arrangements made during the Kumbh Melas, which are celebrated for about 40-45 days, these despite being essentially make-shift arrangements, display the great discipline practised by people. This is the inherent strength of a festival. Hence, during examinations too, an atmosphere of festivity should be created in the whole family, amongst friends and around the neighbourhood. And you will see for yourself, that the pressure will be converted into pleasure. The festive atmosphere will lead to a burden-free environment. And I especially urge the parents to create a festive atmosphere during these 3-4 months. All the family members have to work as a team and play with zeal their respective roles to make this festival of examination a success. You will witness for yourself the ensuing change. Actually from Kashmir to Kanyakumari and from Kutch to Kamrup and from Amreli to Arunachal Pradesh, these 3-4 months have examinations galore. It is the responsibility of each one of us that in our own ways, observing our respective traditions and in tune with our respective family surroundings, we should strive to transform every year these 3-4 months into a festival. And therefore I shall say to you 'Smile More Score More'! The more time these days you will spend being happy, the more will be the number of marks you will earn! Just try and see for yourselves! And you must have noticed that when you are happy, you are smiling, you become relaxed automatically, and when you relax instinctively, you’re able to recollect very old things also quite effortlessly! A year ago, what the teacher had taught in the classroom, the whole scenario reappears in front of you. And you must know that the power of memory to recall is greatest when we are relaxed. If you are tense, then all the doors seem to be closed, nothing can enter from outside and nothing can come out from inside. The thought process comes to a standstill and that in itself becomes a burden. You must have seen for yourself that during the examinations also, you’re able to recall everything else - the book, the chapter, the page number, whether what you want is there on the top of the page or at its bottom, you can recall everything but not the particular word you want to. But as soon as you finish the examination and exit from the examination hall, suddenly you recollect that very word. And you say to yourself – Yes, Man, that was the word I wanted! Why you could not remember the word inside the hall, was due to the pressure. And how you could recall it outside? It was the same you, nobody had now told you the answer! What happened was that whatever was inside, came out immediately and the reason was that you were now relaxed. And therefore the most effective medicine that exists for memory recall is relaxation. And it is by my own personal experience that I’m telling you that if you’re under pressure then you forget even your own things but if you are relaxed, then you can’t even imagine the kind of things you are able to remember, and these become extremely useful. It is not that you do not have the knowledge, it is not that you do not have the information, and it is not that you have not worked hard! But when there is tension, your knowledge, your wisdom, your information – all these buckle under and the tension rides over you. And therefore it is necessary to remember that 'a happy mind is the secret for a good mark sheet’! Sometimes it also appears that we are not able to perceive examinations in a proper perspective. It seems to become a question of life and death. See, the exam you are going to appear at is the exam of what you have studied during this whole year. But it is not a test of your life. It is not a test of what kind of life have you lived, how is the life you are living now and what is the life you aspire to live. There must have been many occasions in your life, when, besides the examinations that you appeared at inside the classrooms with notebooks, you had to encounter and endure many tests and trials. And thus success and failure in life is not determined at all by how one has done at the examination; this is a burden from which you must free yourself. We all have before us the extremely inspiring example of our former President Dr. A.P.J. Abdul Kalam. He appeared at the test for recruitment into the Air Force, and failed in that. Now suppose that this failure had caused him to become dejected, to concede defeat in his life, then would India have found such a great scientist and such a glorious President? No, never! One Richa Anand Ji has sent me this question: -
“Today what I see as the biggest challenge facing the education is that it has come to focus solely on examinations. Marks have become all important. As a result, the competition has multiplied leading to a very high increase of stress in the students also. So I would like to know your views concerning the current direction of education and its future course.”
Although she herself has given the answer to her query, but Richa Ji wishes that I too must put forth my views on the matter. Marks and mark-sheet serve a limited purpose. Life is not confined to these only. Life truly means what is the knowledge that you have acquired! Life truly goes on in terms of whether whatever you have learned, you have tried to live that also! Life moves ahead depending upon the condition that whatever the sense of mission you have achieved and whatever is the sense of ambition that you nurture, whether there is any ongoing co-ordination between your sense of mission and your sense of ambition! If you will have faith in these things, then marks will automatically follow you and you will never have to chase marks! It is the knowledge that is going to be of use to you in life, so are skill, self-confidence and determination. You tell me, you must be having a family doctor to whom all the members of your family must be going whenever needed. There would not be a single person in your family who might have asked that family doctor as to how many marks did he score while passing his exam. None could have raised this question. All of you would have thought that as a doctor he was good, you were finding relief in his treatment and thus you started taking his services regularly. When you have to fight a big law suit and you go to a lawyer to engage his services, do you look at the mark-sheet of that lawyer? You only look at his experience, his knowledge, and the graph of his success. And therefore this burden of hankering for marks hinders us sometimes from going in the right direction. But that does not mean that I’m implying that you don’t have to study at all. Studies are definitely useful for testing our own mettle; to know where I stood yesterday and where I stand today. But this also happens sometimes and if you analyse minutely the journey of your own life, you will realise that if you start running after marks, you will look for the shortest ways, and will identify a few selected things and focus on those only. But if something comes from outside those few things you had touched upon; a question comes which is outside the bunch of selected questions that you had prepared; you will be find yourself slipping to the rock bottom. If you have pursuit of knowledge as your focal point, then by itself you try to acquire and attain a lot more. However if you concentrate and focus only on getting marks, then you gradually go on limiting yourself and confine yourself to certain areas for earning more marks. Thus, you may find that despite becoming brilliant in passing the exams, you have sometimes failed in life.
Richa Ji had also mentioned about ‘PRATISPARDHA’, meaning 'competition with others'. It is a huge psychological battle. In reality, it is not the competition with others that takes us ahead in life but it is competing with ourselves or ‘ANUSPARDHA’, which takes our life forward. How can tomorrow be made better than yesterday! How can a future occasion be used to improve upon the past results. To make myself instantly clear, I shall cite an example from the field of sports. It is a feature in the life of most of the successful players that they compete with themselves. Let us take the example of Mr. Sachin Tendulkar. He kept on breaking his own records consecutively and consistently for about twenty years, everytime surpassing and outdoing himself and thus continuously forging ahead. What a wonderful journey of life he has had, only because he followed the route of competing with himself rather than competing with others!
Friends, in every field of life and when taking exams, if you were able to study peacefully for two hours earlier, then are you now able to do so for three hours? If you couldn’t wake up at the decided time in the morning and were thus delayed, now can you get up early on time? You couldn’t sleep earlier due to exam tension, are you able to sleep now? Put yourself to test, and you’ll find that a defeat in competition with others results in frustration, disappointment, despair and jealousy, but ‘Anuspardha’ or ‘competition with self’ leads to self-analysis and introspection and makes our determination stronger and more resolute. And when we prevail over ourselves, then the motivation to do better becomes innate, you don’t need any external sources of energy. That energy is generated from within on its own. If I have to put it in a simple language, then I would say that when you compete with someone else, there are three broad possibilities that arise - first, that you are much better than him; second, that you are much worse than him; and the third that you are equal to him. If you are better than your competitor, then you will become complacent,as you will be filled with over-confidence. If you perform poorly against him, you will become distressed and disappointed, will be filled with envy, that will devour and consume you. And if you are equal to your competitor, then you will never feel the need to improve, life will just go on at its own pace. Therefore I urge you to engage in ‘Anuspardha’, or ‘competition with self’. You must focus on how to improve upon your past performance and how to perform even better. And you’ll witness for yourself the positive change that it will bring about in you.
Shriman S. Sunder Ji has expressed his feelings on the role of parents. He says that during exams, parents have a vital role to play. He further writes, “My mother was not educated. Yet, she would sit by me and ask me to solve problems in Mathematics. She would then compare answers and thus be of great help to me. She would help me rectify errors. My mother did not clear the Class 10 exam, yet without her aid, it would have been impossible for me to pass the CBSE exam.”
Sunder Ji, what you say is absolutely correct. And you must have observed today also that women are a majority amongst those who ask me questions or send in suggestions. Mothers who are consciously aware of and actively alert to their children’s future, play a big role in assuaging the atmosphere at home. I shall urge parents to lay emphasis on just three points - acceptance, mentoring and sharing time. Accept things as they are. Whatever capabilities you posses, use these to mentor your children, and, howsoever occupied you might be, spare time for them, be with them. Once you learn to accept, maximum number of problems will be solved there and then. Every parent must be experiencing this. Expectation on the part of parents and teachers is the root cause of the problem. Acceptance brings about new avenues in finding solutions to problems. Expectations make the path difficult. Accepting a certain state provides us with the opportunity of opening up newer vistas. Just accept things as they are. You will feel much lighter. We keep deliberating on the heavy weight of our tiny tots‘ school bags, but there are times when I feel that expectations and aspirations on the part of parents are far too heavier compared to those school bags.
Once, many years ago, one of our acquaintances was admitted to a hospital, following a heart attack. Former M.P. Purushottam Mavlankar, son of India’s first Lok Sabha Speaker Ganesh Dada Mavlankar, had come to the hospital to see him. I was present there and I saw that he did not ask a single question on the state of his health; he just sat down with no reference to the ailment or to the situation. He started cracking jokes and lightened the atmosphere in a matter of just a few minutes. In a way, we terrify a patient with constant references to his ailment. I would like to convey to parents that we do exactly the same with our children. Have you ever thought of creating an atmosphere of joy and laughter for children during exams? See it for yourself, the whole ambience will be transformed.
I have received an incredible phone call. The gentleman does not wish to reveal his name. When you listen to the call, you will come to know why he does not want to identify himself!
“Namaskar, Pradhan Mantriji, I cannot divulge my name because of something that I did in my childhood. Once, when I was young, I had made an attempt to cheat in my exams. And I started preparing most thoroughly for that. I tried to explore and find out various methods of copying and wasted a lot of time because of that. I could have very well secured the same marks by devoting that time to studying, which I wasted while pondering how to copy. Moreover, when I tried to use unfair means to pass the exam, I got caught and a lot of my friends around me also had to undergo distress because of me.”
What you say is right. These shortcut ways become the reason for using unfair means. There are times when not having enough confidence in oneself makes one crave to peep into a fellow student’s answer sheet, may be just to confirm if one has written the correct answer. Sometimes it happens that our own answer is correct and the other’s answer is wrong. But we somehow believe that the other’s actually wrong answer is the right one, which leads to our own undoing as well. Thus unfair means lead us nowhere. ‘To cheat is to be cheap, so please do not cheat’. Cheating makes you bad, so stay away from it. Time and again you must have heard advisories on staying away from unfair means. I am reiterating the same, once again. Look at the scourge of cheating, copying and such unfair means from any angle and in any form; it is surely going to drag you into the abyss of failure in life. Over and above that, if the invigilator catches you cheating during the exam, you will be utterly ruined. And suppose, you are not caught, even then your own conscience will be burdened for lifetime. When the time will come to counsel your own children, you will not be able to look them clearly in the eye, burdened as you will be with your own sense of guilt. And once you are habituated to using unfair means, you will never feel the desire to actually learn anything in life. Where will you reach then?
It is as if you are yourself digging holes in your pathways. And, I have seen that there are people who squander so much of their talent, invest their entire creativity in finding ingenious ways and means in designing unfair methods. If one devotes the same time and the same creativity in addressing issues pertaining to exams, one would never require any unfair means in the first place. Results that you achieve through your own hard work and diligence will invest you with a phenomenal and extra-ordinary self-confidence.
Now listen to this phone call, which I have received: -
“Namaskar, Pradhan Mantri Ji, my name is Monica and since I am a class 12th student, I wanted to ask you a couple of questions regarding the Board Exams. My first question is, what can we do to reduce the stress that builds up during our exams and my second question is, why are exams all about work and no play. Thank you.”
During exam days, if I talk about sports and games, your teachers, your parents will be angry with me. “What kind of a Prime Minister is this, who is asking children to come out and play during exams,” they might say! People generally nurse the notion that if students indulge in sporting activities, they become careless about their studies. This notion is basically unfounded. It is the root cause of this problem. If one has to achieve holistic development, the fact is that there exists a huge world, a life beyond books; and this precisely is the time to learn living that life also. If someone says, “Let me finish with all exams first, I will play and do other things later”; well, that is impossible. This is THE time for moulding one’s life. This is what upbringing is all about. As a matter of fact, in my opinion, three things are crucial – proper rest, the other is the requisite amount of sleep, the third is the body, which is a major component, way beyond mental activity. Other parts of the body too require physical activity. With so much to do, have you ever thought of spending a couple of moments gazing at the sky, looking with wonder at the flora around you, lightening your spirits a bit! You will notice that you will return to your study room and be amongst your books with a renewed freshness. Whatever you are doing, take a break, have a stroll outside, enter the kitchen, look for something that you relish to eat, munch on your favourite biscuit if possible, tell or listen jokes and laugh for a while. If only for five minutes, give yourself a break. You will feel the onset of a certain ease in your work. I do not know if everyone likes this or not, but I am saying it out of personal experience. Deep breathing during these times is very beneficial. It relaxes you. And for deep breathing you do not need to confine yourself to your room. Just be under the open sky, go to the roof top, do deep breathing for five minutes and return to your studies. You will experience relaxation in your body. A relaxed body equally relaxes your mental organs. Some of you feel like studying more and more, keeping awake for late hours in the night. No. Ensure adequate sleep for the body that is required. It will help you avoid wastage of study time; it will enhance your ability to study well. Your concentration will increase. You will feel a certain freshness. Your overall efficiency will rise by leaps and bounds. When I address election rallies, sometimes I suffer from a sore throat or a hoarse voice. Once a folk singer came to meet me. He asked me, “How many hours do you sleep?” I asked him if he was a doctor. He said, “No, but it is linked with your voice problem brought on by delivering so many election speeches. Only when you get adequate sleep, your vocal chords will be able to rest fully.” Well, I had never given a thought to a possible connection between my sleep, my speeches and my voice. It was as if he had given me a herbal panacea. Actually, we should understand the importance of these things, it will surely benefit you. But this does not mean that you keep sleeping all the time. Some might remark that since the Prime Minister has said so, just keep sleeping, there is no need to wake up and study. Please, do not do that, else your family members will be displeased with me. And when your mark sheet arrives, if they are not happy with that, they will not see you but only me. So, avoid doing that. And hence I will say, “P for prepare and P for play’, one who plays blossoms, the person who plays, shines. This is a wonderful remedy for maintaining the vigour of the mind, brain and body.
Anyway, young friends, you are engrossed in preparing for your exams and here I am, engaging you in matters close to my heart. Of course, it is quite possible that my words this morning will act as a relaxant for you. In the same breath, I will add that do not let these remarks of mine be a burden on you. Do it only if you can. If you cannot do it, please do not do it, else this too will weigh heavily on you. Just as I advise your parents not to be burdensome to you, the same applies to me too. Keeping your resolve in mind, with confidence in yourself, set out for your exams. My best wishes to your. In order to clear a test, treat the test as a festive occasion. You will never feel a test, a test again. Make headway with this Mantra.
My dear countrymen, on 1st February 2017, Indian Coast Guard is completing 40 years. On this occasion I extend my heartfelt gratitude to all the officers and jawans of Coast Guard for their service to the Nation. It is a matter of pride and honour that with its indigenously built 126 ships and 62 aircrafts, it has carved a coveted place for itself amongst the 4 biggest Coast Guards of the world. The motto of Coast Guard is ‘Vayam Rakshaamaha.’ We protect. True in letter and spirit to the motto, securing the country’s maritime borders and maritime environment, the jawans of Coast Guard are relentlessly at work night and day, braving the most adverse conditions. Last year, personnel of Coast Guard undertook a campaign of cleaning up of our coastal areas also, over and above their routine duties. Thousands participated in this campaign. Along with coastal security, they displayed concern towards coastal cleanliness and deserve accolades for their act. Not many people would be aware that in our Coast Guard, not just men, but women too are discharging their duties and responsibilities shoulder to shoulder, and most successfully. Our Coast Guard women officers are pilots, work as Observers, and not just that, they command Hovercrafts as well. In the backdrop of the fact that maritime security today has become an issue of global concern and the excellence displayed by Coast Guard in securing India’s coast line, I extend my heartiest felicitations to them on their 40th birthday.
1st February is the festival of Vasant Panchami. Vasant, that is Spring, is acknowledged as the best of seasons. Vasant is RITURAJ, the king of seasons. In our country, Saraswati Pooja is done on Vasant Panchami; Vasant Panchmi is a major festival. It is considered an occasion to worship Vidya, knowledge. And not just that, it is a celebration of inspiration for brave hearts. ‘Mera Rang de Basanti Chola’ is a perfect example of that. I extend my best wishes to my countrymen on the pious occasion of Vasant Panchami.
My dear countrymen, in ‘Mann Ki Baat’, All India Radio too infuses myriad novel hues of creativity and imagination. Last month onwards, they have started broadcasting versions in regional languages, immediately after the broadcast of my ‘Mann Ki Baat’. This has gained wide acceptance. People are writing in from far and wide. I felicitate All India Radio for this self-inspired initiative from the core of my heart. ‘Mann Ki Baat’ gives me a great opportunity to be connected with you. Best wishes to you. Thank you.
My fellow countrymen, Namaskar, many felicitations and season’s greetings to you on the occasion of Christmas. Today is the day to give importance in our lives to service, sacrifice and compassion. Jesus had said - “The poor do not need our favours but our acceptance with affection.” In the Gospel According to Saint Luke, it is written that – “Jesus not only served the poor but also praised the service done by the poor,” and this is what real empowerment is. A tale associated with this incident is also very popular. It has been mentioned in that story that Jesus was standing near the treasury of a temple; many rich people came and donated bountifully; then a poor widow came and parted with only two copper coins. Now just two copper coins really do not amount to much. Thus it was natural that there was a lot of curiosity in the minds of the disciples gathered there. Then, Jesus declared that the widow was the greatest of those donors because while the others had donated substantially, that widow had given away all she possessed.
Today, 25th December, is also the birth anniversary of Mahamana Madan Mohan Malviyaji, who kindled resolve and self confidence in the psyche of the Indian people and gave a new direction to modern education. My most sincere and heartfelt tributes to Malviyaji on his birth anniversary. About two days ago, I had the opportunity to launch many a developmental work in Banaras, the sacred workplace of Malviyaji. I also laid the foundation stone of Mahamana Madan Mohan Malviya Cancer Centre in BHU at Varanasi. This Cancer Centre is going to be a boon for the people of not only eastern Uttar Pradesh but for the people of Jharkhand and Bihar also.
Today is also the birthday of Bharat Ratna and former Prime Minister Venerable Atal Bihari Vajpayee Ji. This country can never forget Atalji’s contributions. Under his leadership, the country proudly grew in stature in the field of nuclear power also. Whether in the role of a party leader, Member of Parliament, a minister or the Prime Minister, Atalji always established an ideal. I salute Atalji on his birthday and pray to God for his good health. As a party worker I had the privilege of working with Atalji. Many memories emerge before my eyes. This morning when I tweeted, I shared a video, in which you can see for yourself how as a small party worker one had the fortune of having affection showered upon him by Atalji.
Today, on Christmas Day, as a gift the countrymen are going to get the benefit of two schemes. In a way it is the beginning of two new schemes. Throughout the entire country, be it villages or towns, the educated or the illiterate, there is an atmosphere of curiosity as to what is cashless, how cashless business can take place, how can one make purchases without using cash! Everybody wants to understand and learn from each other. To encourage this trend, to strengthen mobile banking and to inculcate the habit of making e-payments, the Government of India is launching from today encouragement schemes for consumers as well as traders. To encourage customers, the scheme is ‘Lucky Grahak Yojana’ and to encourage traders the scheme is ‘Digi Dhan Vyapaar Yojana’.
Today, on 25th December, as a Christmas gift, fifteen thousand people will get rewards through a draw system, whereby each of the fifteen thousand winners will have one thousand rupees into their accounts and this will be not for today only; starting today this scheme will continue for the next 100 days. Everyday fifteen thousand people are going to receive rewards of one thousand rupees each. In the next 100 days, lakhs of families are going to receive crores of rupees as gift, but you will be entitled to this gift only if you make use of mobile banking, e-banking, RuPay Card, UPI, USSD - such means and methods of digital payment. The draw for rewards will be done based on your use of such digital payment methods. In addition, there would be a grand draw once every week for such customers in which the prize money will be in lakhs of rupees and three months later on April 14th, on the occasion of the birth anniversary of Dr. Baba Saheb Ambedkar, there would be a mega bumper draw where rewards would be in crores of rupees.
‘Digi Dhan Vyapar Yojana’ is mainly for traders and businessmen. Traders should adopt this scheme themselves and should encourage their customers too in order to make their business cashless. Such traders will also be rewarded separately and there would be thousands of these rewards. The traders will run their business activities smoothly and will also have an opportunity to win rewards. This scheme has been designed keeping all sections of society in mind, with a special focus on the poor and the lower middle class segments. Therefore only those will get its benefits who make a purchase worth more than 50 rupees but less than three thousand rupees. Those who make purchases of more than three thousand rupees will not be entitled to rewards under this scheme.
Even the poor people can use USSD on simple feature or ordinary mobile phones to buy and sell goods as well as make payments and thus all of them can also become prospective beneficiaries of this reward scheme. In rural areas too, people can buy or sell through AEPS and they can also win rewards. Many will be surprised to know that now there are about 30 Crore, i.e. 300 million RuPay Cards in India, out of which 200 million RuPay Cards belong to poor families which have ‘Jan Dhan’ accounts. These 300 million people can immediately become part of this rewards scheme. I have confidence that the countrymen will evince interest in this system and if you enquire from the young people around you, they would surely be aware of these things and on your asking will tell you about these. Come on, if there is a child studying in 10th or 12th standard in your family, he or she will also be able to teach you well about this. It is as simple as sending WhatsApp messages on the mobile.
My dear countrymen, I feel delighted to learn that the awareness about how to use technology, making e-payments, making online payments is spreading very fast. During the past few days, the cashless transactions, or cashless trading has increased by 200 to 300%. To give cashless trading a big impetus, Government of India has taken a very major decision. The business community, our traders can well comprehend how momentous this decision is. Those businessmen who adopt digital transactions, who develop online payment process instead of cash transactions in their trade activities will get Income Tax rebate.
I congratulate all the states and union territories, who have promoted this campaign in their own way. The Chief Minister of Andhra Pradesh, Mr. Chandrababu Naidu is the head of a committee which is considering various schemes under this. However, I have seen that the governments also have initiated and implemented many schemes. I’ve been told that Assam Government has decided to grant a 10% discount on property tax and business license fee if payments are made through digital transaction. The branches of Grameen, that is, Rural Banks there getting 75% of their customers to make at least two digital transactions between January and March will get 50 thousands rupees rewards from the government. They have announced that under the ‘Uttam Panchayat for Digi-Transaction’, rewards of 5 lakh rupees will be given to villages doing 100% digital transaction till 31st March, 2017. Assam Government has decided to reward 5 thousand rupees to the first 10 farmers as ‘Digital Krishak Shiromani’, who will buy seeds and fertilizers entirely through digital payments. I congratulate Assam Government and also all those state governments who have taken such initiatives.
A number of organisations have also successfully carried out many experiments to promote digital transactions amongst the rural folk and poor farmers. I have been told that GNFC or Gujarat Narmada Valley Fertilizers & Chemicals Limited, which primarily manufactures fertilizers, has installed a thousand PoS machines for sale of fertilizers for the convenience of farmers and in just a few days 35 thousand farmers were sold 5 lakh sacs of fertilizers on digital payment and this was accomplished in only two weeks! And the interesting fact is that compared to last year the fertilizer sales of GNFC have gone up by 27 percent.
Brothers and sisters, the informal sector occupies a major segment in our economy and in our pattern of life and mostly these people are paid wages for their labour and hard work in cash. They are paid their salaries in cash and we know that due to this, they are exploited also. If they are to receive 100 rupees, they get only 80 rupees, if they are to be paid 80 rupees, they are given only 50 rupees. They are deprived of facilities like insurance and those associated with health sector. But now the practice of cashless payment is being adopted; the money is being directly deposited into banks. In a way, the informal sector is getting converted into the formal sector, exploitation is coming to an end, the cut, which had to be paid earlier, has stopped now and it has become possible for the worker, the artisan, such poor persons to get their full amount of money. In addition, they are also becoming entitled to the other benefits due to them.
Our country is blessed with the maximum number of young people. Thus, we are favourably placed for using technology. A country like India should be ahead of everybody else in this field. Our youth have benefitted quite a lot from ‘Start-Ups’. This digital movement is a golden opportunity for our youth. They should impart to this as much strength as they can with their new ideas, technology and processes. But we must also connect with the drive to rid the country of black money and corruption with all our might.
My dear countrymen, I request every month before ‘Mann Ki Baat’ that you please give your suggestions, share your thoughts; and of the thousands of such suggestions received this time on MyGov, on NarendraModiApp, I can definitely say that 80 to 90% suggestions were pertaining to the war against corruption and black money, there was mention of demonetization. After I examined all the suggestions, I can say that these can macroscopically be roughly divided into three categories. Some have written in detail about people facing difficulties and encountering inconveniences. The other group of correspondents have stressed that this is such a good work being carried out for the welfare of the country, such a sacred task but they have also noted that in spite of this there are many scams being committed and new avenues of dishonesty are being explored. The third group is the one which has, while wholeheartedly supporting the action being taken, clearly stressed that this fight must be carried forward; corruption and black money must be completely destroyed and if this requires even more tough steps to be taken, those must be taken. We have many people writing this most emphatically.
I am thankful to the countrymen for helping me by writing these innumerable letters to me. Shriman Gurumani Kewal has written on MyGov - “This step of reigning in black money is praiseworthy. We citizens are facing some difficulties, but we are all fighting against corruption and we are happy that we are making a contribution in this fight. We are battling corruption, black money etc on the lines of Military Forces.” The sentiment behind Gurumani Kewalji’s text is being echoed in every nook and corner of the country. All of us are experiencing it. When the people face problems, undergo hardships, rare will be a fellow human being who will not empathise. I feel as much pain as you do. But when a task is taken up with a noble objective, to realise a lofty intent, with a clear conscience, the countrymen stay firm courageously amidst all these trials and tribulations. These people are the real Agents of Change, pioneers of transformation. I thank people for one more reason. They have not only braved hardships, but have also powerfully given a retort to those limited few who have been trying to mislead them.
So many rumours were spread, even the fight against corruption and black money was sought to be tainted with shades of communalism. Somebody spread a rumour that the spelling on the currency note was faulty, someone said salt prices had spiraled, someone proclaimed that the 2000 rupee note would also be withdrawn, even 500 and 100 rupee denominations notes were rumoured to be on their way out. But I have seen that despite rampant rumour mongering, citizens have stood firm with their faith intact. And not just that, many people came to the fore and through their creativity and intelligence, exposed the rumour mongers, brought out the falsity of the rumours and established the truth. I salute this great ability of the people also from the core of my heart.
My dear countrymen, I am experiencing one thing every moment. When a hundred and twenty five crore countrymen are standing by you, nothing is impossible. The people represent the will of the Almighty and their blessings become His blessings. I thank the people of this country and salute them for participating in this Mahayagya against black money and corruption with utmost zeal. It was my earnest wish that the ongoing campaign against corruption and black money, including the realm of political parties and political funding, be discussed extensively in the Parliament. Had the House functioned properly, there would have been comprehensive deliberation. Some people are spreading rumours that political parties enjoy all kinds of concessions. These people are absolutely in the wrong. The law applies equally to all. Whether it is an individual, an organisation or a political party, everyone has to abide by law and one will have to. People, who cannot endorse corruption and black money openly, resort to searching for faults of the government relentlessly.
Another issue which comes up is this. Why are rules changed time and again? This government is for the sake of the people. The government continuously endeavours to take a feedback from them. What are the areas of difficulty for the people? What are the rules that are creating hindrances? And what are the possible solutions? The government, being a sensitive government, amends rules as required, keeping the convenience of the people as its foremost consideration, so that citizens are not subjected to hardships. On the other hand, as I’d said earlier, on the 8th to be precise, this drive, this war is an extraordinary one. For the past 70 years, what kind of forces are involved in this murky enterprise of perfidy and corruption? How mighty are they? When I have resolved to wage battle against them, they too come up with new tactics everyday to thwart the government’s efforts. To counter these new offensives, we too have to devise appropriate new responses and antidotes. When the opponents keep on trying out new tactics, we have to counteract decisively, since we have resolved to eradicate the corrupt, shady businesses and black money.
On the other hand, many people have mentioned in their letters all kinds of wrongdoing which are going on; how newer wily ways and means are being devised. In this context, I offer my heartiest salutations to my dear countrymen for one very remarkable thing. These days you must be seeing on T.V. and newspapers, everyday many new people are being taken into custody, currency notes are being seized, raids are being carried out. Influential persons are being caught. How has all this been made possible? Should I let out the secret? The secret is that my sources of such information are people themselves. Information being received from common citizens is many times higher than that being obtained through government machinery. And we are by and large being successful in our operations on account of the awareness and alertness that the people have displayed. Can anyone imagine the level of risk, which the aware citizen of my country is taking to expose such elements! The information received has largely proved to be fruitful. For those of you wanting to share such information, you can send it on an e-mail address set up by the government for this purpose. You can also provide it on MyGov. The government is committed to fight all such wrongdoings and maladies. And when we have your active support, this fight becomes much easier.
Thirdly, there is another group of letter writers, also existing in large numbers. They say - Modiji, do not feel exhausted, do not stop and take the most stringent measures that you can. Now that you have chosen this path, the journey should culminate at its intended and logical destination. I specially thank writers of such letters, since their writing exudes a certain confidence, fortified with blessings. I sincerely assure you that this is in no way going to be a full stop. This is just the beginning. We have to win this battle and the question of feeling exhausted or stopping simply does not arise. Armed with the good wishes of a hundred and twenty five crore countrymen, there is no question of a retreat. You are possibly aware of a Law about Benami Property in our country which came into being in 1988, but neither were its rules ever framed, nor was it notified. It just lay dormant gathering dust. We have retrieved it and turned it into an incisive law against ‘Benami Property’. In the coming days, this law will also become operational. For the benefit of the Nation, for the benefit of the people, whatever needs to be done will be accorded our top priority.
My dear countrymen, I had mentioned in last month’s ‘Mann Ki Baat’ that even amidst these hardships our farmers toiled tirelessly and broke last year’s record in sowing. It is a sign of good times for the agricultural sector. The diligent hard work by this country’s workers, and farmers, and youth has scripted a new chapter of success with flying colours. Recently India proudly inscribed her name in various sectors of the global economic scenario. It is solely on account of the tireless exertions of our countrymen that on myriad indicators, India has charted an upward trajectory in global rankings. India’s ranking has gone up in the Doing Business Report of the World Bank. We are trying our best to raise the level of the business practices in India to match the best practices in the world on equal footing. And we are succeeding in that. In the World Investment Report released by UNCTAD, India’s position has risen to third in the Top Prospective Host Economies for 2016-18. In the Global Competitive Report of the World Economic Forum, India has made a big leap upwards by 32 ranks. In the Global Innovation Index 2016, we have moved up 16 rungs and in the Logistics Performance Index 2016 of the World Bank, we have risen by 19 ranks. There are many reports whose evaluation indicate that India is taking rapid strides ahead.
My dear countrymen, this time the session of Parliament became the object of ire of our countrymen. Indignation was expressed everywhere about the activities in the Parliament. The President and Vice President also explicitly expressed their displeasure. But even in such a situation, sometimes good things also take place which create a sense of satisfaction in the mind. Amid the din in Parliament, an excellent task was accomplished, which has not attracted due attention of the country. Brothers and sisters, today with pride and joy I would like to mention that a bill in connection with my government’s mission on Divyangjan, that is, differently or specially abled people was passed in Parliament. For this, I extend my heartfelt gratitude to all the members of Lok Sabha and Rajya Sabha. On behalf of millions of Divyangjan of the country I express my thanks. Our government is committed to the welfare of Divyaangs. Personally too, I have strived to lend momentum to this campaign. My intention was to ensure that the Divyangjan secure their due rights and also the honour and dignity that they are entitled to. Our efforts and our trust were fortified by our Divyaang brothers and sisters when they returned with 4 medals from the Paralympics. With their triumph, not only did they do the Nation proud, they pleasantly surprised many people through their capabilities and prowess. Our Divyaang brothers and sisters are an invaluable heritage, a precious endowment, just as every citizen of the country is. Today I am immensely delighted that the passing of this Law for the welfare of the Divyaangjan will open up additional avenues of employment for them. In government jobs, the extent of reservation for them has been enhanced to 4%. Special provisions have been provided for in this Law for their education, facilities and also for grievances. The extent of sensitivity of the government towards the Divyaangs can be assessed by the fact that during the last two years, the central government set up 4350 camps for Divyaangs, spent 352 crore rupees for distributing implements to 5,80,000 Divyaang brothers and sisters. The government has passed the new law in consonance with the spirit expressed by the United Nations. Earlier there were seven Divyaang categories; now adding fourteen new categories this has been expanded to twenty-one categories. Many such new categories of Divyaangs have been included thereby providing them for the first time justice and opportunities. For example, categories like Thalassemia, Parkinson’s, or for that matter Dwarfism have been included.
My young friends, during the last few weeks, news items coming in from the world of sports have made all of us proud. Being Indians, it is but natural for us to feel elated. In the cricket series against England, India has triumphed 4-0. In this, the performance of some of the younger players deserves a special word of praise. The young Karun Nair scored a triple century and K. L. Rahul played a brilliant 199 run innings. Test captain Virat Kohli batted extremely well and also provided inspiring leadership. Indian Cricket team’s off-spin bowler R. Ashwin has been declared ‘Cricketer of the Year’ as well as ‘Best Test Cricketer’ by the ICC for the year 2016. My heartiest congratulations and many good wishes go to all of them. After a gap of 15 years, there was good news, in fact grand news from the hockey arena too. The Junior Hockey Team lifted the World Cup. This festive occasion came to us after fifteen years as the Junior Hockey team won the World Cup. Heartiest congratulations to these young players for this grand feat. This achievement is a very good omen for the future of our Hockey team. Last month our Women players too won laurels. Indian Women’s Hockey Team won the Asian Champions Trophy and just a few days ago in the under-18 Asia Cup, Indian Women’s Hockey Team secured the Bronze Medal. I congratulate all our Cricket and Hockey team players from the core of my heart.
My dear countrymen, may 2017 be a year full of joy and enthusiasm; may all your resolves be crowned with success; let us scale newer heights of progress; may the poorest of the poor get an opportunity to lead a better and fuller life of happiness and contentment; may 2017 be like this for all of us. For the year 2017, my best and brightest wishes to all my countrymen. Many, many thanks.
My dear countrymen, Namaskar. Last month, all of us were celebrating Diwali. Like every year, this Diwali too, I had gone to the border, to the China border, to celebrate the occasion with our soldiers, our jawans. I celebrated Diwali with ITBP men and army jawans on the lofty heights of the Himalayas. I do it every time, but this Diwali was an entirely different experience. The heartening effect of the novel way in which our 1.25 billion countrymen dedicated this Diwali to soldiers of our army, to our defence forces, was clearly evident on their faces. They appeared charged with emotions, and not just that, the act of our countrymen of sending greeting messages, including the defence forces of the nation in their rejoicing had elicited a wonderful response. And it is not that people merely sent messages. There was an earnest heartfelt connect. Some wrote poems, some drew pictures, a few created cartoons, others made videos; it was as if every home had been transformed into an army post. And when I saw those letters, I used to be amazed at the magnitude of creativity and emotions behind this endeavour. And this gave rise to a thought in MyGov that out of these, selected items could be compiled to make a coffee table book. Work is under way on that. Your collective contribution, the sentiments of soldiers, your emotional universe dedicated to our security forces as expressed in your creativity will form the content of this volume.
A soldier wrote to me – Mr. Prime Minister, we soldiers have all the festivals like Holi and Diwali on the borders. We are devoted to defending the country every moment. Bu we do miss our near and dear ones back home during festivals. But, to tell you the truth, this time we did not feel so. Never did it appear to us even once that we are not at home for the festivities. It felt as if we were celebrating Diwali together with a hundred and twenty five crore Indians.
My dear countrymen, this warmth of emotion, this fervour that has been kindled in the hearts of our defence forces, our soldiers this Diwali, should this be confined to only a few occasions? I appeal to you that we should make it our nature, our characteristic as a society, as a Nation that whether it be a celebration of a festival or any joyous occasion, we should keep the soldiers, the jawans of the military of our nation in our hearts and minds. When the entire nation stands by the armed forces, their might mutiplies a hundred and twenty five crore times.
A few days ago, all Pradhans from the villages of Jammu & Kashmir had come to see me. They were from the Jammu & Kashmir Panchayat Conference. They had come from different villages of the Kashmir valley, there were around 40-50 Pradhans. I got an opportunity to speak to them at length. They had come to discuss a few points on the development of their villages; they had some demands. But when the deliberations began, issues such as conditions in the valley, the law and order situation, the future of children came up in a natural manner. These village Pradhans spoke about these topics with such affection and openness that everything touched my heart. In the course of the conversation, there was also a mention of schools in Kashmir that had been set afire. And I felt these Pradhans were as saddened as our other countrymen were, at that. They too felt that it was not just schools, it was the future of the children, that had been set ablaze. I had urged them to focus on these children’s future, on their return home. I am feeling happy today that these Pradhans, who had come from the Kashmir valley, kept their word in letter and spirit. They returned to their villages and made people from far and wide aware on this issue. Recently, just a few days ago, when the Board examinations were held, 95% of the sons and daughters of Kashmir, the young students appeared in the examinations. The sheer volume of students, who appeared in the Board Examinations, is a clear indication that our children from Jammu & Kashmir are committed to attain newer heights of progress, to build a bright future through the medium of education. For their resolute zeal I congratulate these students and I also felicitate their parents, their kith and kin, their teachers and all the Gram Pradhans as well from the depths of my heart.
My dear brothers and sisters, this time when I asked people for suggestions for ‘Mann ki Baat’, I can say that almost all the suggestions that were received echoed one theme. Everyone wanted me to speak in more detail about the 500 & 1000 rupee notes. On the 8th of November at 8 in the evening, in my Address to the Nation, I had talked about launching a mega campaign to bring about reforms in the country. When I had taken this decision and presented it before you, then also I had said openly that it was not an ordinary decision, it was one fraught with difficulties. It was a very important decision but implementation of that decision is equally important. And I had also foreseen that this would result in all of us having to face various new difficulties in our day-to-day lives. And I had stated then also that this decision was so enormous that it would take us at least 50 days to come out of its after effects and only then would we be able to move towards normalcy. These maladies have been afflicting us for the past 70 years and the campaign for getting rid of these can never be an easy task. I can very well understand the problems you are going through! But when I see your support, when I look at your co-operation; although numerous efforts are on to misguide you, despite that, and despite witnessing some disturbing incidents, you have whole heartedly comprehended the path of righteousness and truth, you have favourably accepted this step taken in the best national interest.
500 and 1000 rupee notes and such a vast country, wide proliferation of currencies, billions and trillions of bank notes and amidst that, this decision – the whole world is minutely observing, every economist is analysing it, evaluating it. The whole world is watching – will hundred and twenty-five crore Indians finally attain success after facing numerous hardships? This question may be there in the world community. However, India has nothing but faith and faith only and supreme confidence in her hundred and twenty five crore countrymen that they will certainly fulfill their resolve. And our country will emerge shining like gold does after a test by fire. And the reason for that is you, the citizens of this country. The route to this success also has been paved only because of you.
Across the country, central government, state governments, all units of the local self government institutions, one lakh thirty thousand bank branches, lakhs of bank employees, over one and a half lakh post offices, over a lakh Bank-Mitras are relentlessly at work, day and night, with complete dedication. In the midst of immense and varied stress, all these individuals are working hard, maintaining a calm and composed demeanour, taking it as a Yagya of Service to the Nation, an attempt towards a great transformation.
They begin work early in the morning, not knowing when they will wind up at night. Everyone is busy working. And as a precise consequence of this diligence, there are clear indications that India will succeed handsomely in this endeavour. And I have seen that in the midst of such difficulties, all personnel of banks and post offices are working very hard. And when it comes to the practice of humanity, they appear two steps ahead. Someone told me that in Khandwa, an old gentleman met with an accident. Money was needed urgently. This came to the knowledge of local bank personnel, and I was happy to learn that they personally carried and handed over cash at his home, for help in treatment. Innumerable such incidents come to light everyday through television, media, newspapers and mutual conversations. I profusely thank all such compatriots who have striven hard to perform this MAHAYAGYA, and lived up to the lofty virtue of PURUSHARTH. The greatest validation of SHAKTI, strength, comes when the same is put to test. I distinctly remember, when the Prime Minister’s Jan Dhan Yojana was launched, bank personnel earnestly and zealously shouldered their responsibilities and showed that they could achieve what had not been accomplished during the last 70 years. Their capabilities were manifested. Today, once again, they have accepted the challenge and I do believe that the steely resolve of one hundred and twenty five crore countrymen, their collective demonstration of PURUSHARTH will go a long way in investing our nation with a new power and strength on its path of progress.
But vices are so widespread and deep-rooted that even today there are people whose vicious habits refuse to die. Even now, some people think that they can re-introduce into the system, money from corruption, black money, unaccounted wealth and Benami money (money in unknown person’s name), using some route or the other. They seek illegal means to save their ill-gotten wealth. The saddest part is that, for this too, they have chosen to misuse the poor, the underprivileged people. By misguiding the poor, enticing them through the vices of avarice and temptation, wrongfully pumping money into their bank accounts, or getting them to undertake some wrong activities, some people are trying to save their black money. I want to tell such people today - whether you reform or not is up to you, whether you respect and follow the law or do otherwise is again up to you; of course, the law will take its own course to decide on the requisite action; but, for God’s sake, please do not play with the lives of poor people. Do not do anything that may bring the names of the poor on record for wrong reasons and land my dear poor people into trouble during the investigation later on account of your foul deeds. And the law regarding Benami property that has been enacted and is being implemented is very stringent and it is going to be extremely tough on wrong doers. The government does not wish that our countrymen should face undue hardships.
One Mr. Aashish has called me up and appreciated the fight against corruption and black money through the action on 500 and 1000 Rupee notes: -
“Sir, Namaste. My name is Aashish Paare. I am an ordinary citizen of Village Tiraali of Tehsil Tiraali in District Harda of Madhya Pradesh. Your move to demonetize 1000 and 500 rupee notes is a commendable step. I wish that in Mann Ki Baat, you quote instances of people, who, despite facing hardships, have welcomed this step for the nation’s progress. This will further enhance people’s zeal. A cashless economy is necessary for nation building. And I am with the whole country on this. I am truly happy that you have done away with 1000 and 500 rupee notes.”
I have received a similar call from Mr. Yellappa Velankar Ji from Karnataka: -
“Modi Ji, Namaste. I am calling from a village in Koppal district of Karnataka. My name is Yellappa Velankar. I want to thank you wholeheartedly because you had said that good days will come, but nobody had ever thought that you would take such a big step. You have taught a lesson to black money mongers and the corrupt through the demonetization of 1000 and 500 rupee notes. For each and every citizen of India there could be no better days than these. For this I thank you from the core of my heart.”
We get to know certain things through media, through the people and through government sources which add to our enthusiasm for work. It gives us such a great happiness and a sense of pride to know that the common man in my country has such a wonderful capability. A restaurant on the National Highway-6 in Akola in Maharashtra has displayed a board saying that if you have only old currency notes in the pocket and want to have food, please, do not worry about money and do not leave hungry from this place. Please, do have your food and pay later whenever you happen to pass through this place. So people go and eat there and make payments on their next visit after 2, 4 or 6 days. This is the strength of my country which encompasses the spirit of service, of sacrifice and also of genuineness and honesty.
During elections, I used to have ‘चाय पर चर्चा’, that is discussions over tea and this got publicised around the whole world. People in many countries of the world even learnt to utter the phrase – ‘Chai Par Charcha’. But, I did not know ‘Chai Par Charcha’ could be linked to a marriage also. I learnt that on 17th November, a marriage was solemnised with ‘Chai Par Charcha’ in Surat. One daughter at Surat in Gujarat served only tea to all the guests who had come to her wedding. There was no big function, no feast or banquet because there was a shortage of cash due to demonetisation. Guests from the bridegroom’s side also gracefully accepted it as their ceremonial welcome. Bharat Maaroo and Dakshaa Parmar from Surat, through their marriage, have made a valuable contribution in the ongoing fight against corruption and black money and set up a very inspiring example. I convey my blessings to the newlyweds Bharat and Dakshaa and profusely compliment them also for having transformed their wedding occasion into an offering for the great task and thereby converting it into a new opportunity. Whenever confronted by such difficult times, people do succeed in exploring and finding good avenues and solutions.
I once saw in the news on TV, when I had returned late in the night, a report about a small village called Dhekiajulli (धेकियाजुली) in Assam, where tea workers reside. These tea workers get their wages on weekly basis. Now, what they did when they received a 2000 rupee note as wages? Four women from the neighborhood got together and jointly made purchases and made the payment with the 2000 Rupee note; they did not need small currency as they had jointly made their purchases and had decided that they would settle accounts later when they were to meet next week. People are themselves finding ways. And just look at this change. The government received a message that people of tea gardens in Assam are demanding setting up of ATMs in their areas. See, how the village life is also getting transformed. Some people are getting instant benefits from this campaign. The nation will reap these benefits in the days to come but some people have got benefits instantly. On asking how things were going on, I got to know about the impact in small towns. On the basis of reports received from about 45-50 cities, I gathered that demonetisation had encouraged people there to pay their arrears accumulated due to non-payment of dues earlier; many people were in the habit of not making tax payments such as water tax, electricity bills, etc., they just did not pay. Now all of us know very well that the poor people always like to clear their dues 2-3 days in advance. It is the well-off people, who do not pay their taxes and bills as they have higher connections and know that nobody is going to ask or do anything against them. Thus there are big arrears of payments, which remain pending. All municipalities receive hardly 50% of their tax revenues. But, this time after the decision taken on the 8th instant, people rushed to deposit their old currency notes. 47 urban institutions had received about 3 to 3.5 thousand crore rupees in taxes last year. You will be surprised and also happy to know that during this one week, these institutions received 13 thousand crore rupees. Imagine the difference - from 3 to 3.5 thousand crores to 13 thousand crores. And, that too with the self initiative of those making payments. Now that these municipalities have received 4 times the money, it is quite natural that poor localities and slums will get better drainage facilities, better water supply and better Aanganbari system. Many such examples are coming to light where direct benefits of this demonetisation can clearly be seen.
Brothers and sisters, our villages and our farmers are strong pillars of our economy. Every citizen is making requisite adjustments amidst the difficulties as a result of the new changes. But, I especially wish to compliment the farmers of our country. I was just gathering data of the sowing of this crop season. I am glad that be it wheat, be it pulses, be it oilseeds, the data received till 20th November indicates that sowing has increased substantially as compared to sowing during the last year. Our farmers have discovered new avenues amidst the present difficulties. The government has also taken many important decisions, wherein priority has been accorded to our farmers and villages. Despite these measures, some difficulties persist but I am confident that our farmer who bravely faces every difficulty, including natural calamities, is standing firm in the face of present odds also.
Small traders and businessmen of our country provide employment opportunities besides adding to the economic activities. In the last budget we had taken an important decision that just like the big malls, small shopkeepers in the villages will also be allowed to operate round the clock and no rule will stop them from doing so because I felt that when the big malls can function 24 hours, why the poor village-shopkeepers should not get the same facility? A number of initiatives were taken to grant them loans under Mudra Yojana. These small traders were provided loans worth lakhs and crores of rupees under Mudra Yojana because there are crores of such small traders and they impart momentum to the business activities worth billions of rupees. But naturally they too had to face difficulties due to this decision. However, I have seen that these small businessmen too have kept providing services to their customers in their own ways through the use of technology such as Mobile App, Mobile Bank and Credit Card and on the basis of mutual trust also. And, I want to tell our small trader brothers and sisters that this is a ripe opportunity for them too to make their entry into the digital world. You too download Apps of Banks on your mobile phones. You too keep a POS machine for transactions in Credit Cards. You too learn to do cashless business. You can see how the big malls are expanding their business with the help of latest technology. A small trader can also expand the business with the help of this user friendly technology. There is no possibility of things going wrong, but there certainly is an opportunity to grow. I invite you all. You can make a very big contribution in creating a cashless society. You can create a full-fledged banking facility on your mobile phone and there are many ways now to run our business without using paper currency. There are technological methods which are safe, secure and instantaneous. I want that you not only extend your cooperation in making this campaign successful but also lead the process of transformation and I have full confidence that you can be the leader for this change. I am sure you can handle the entire business in your village using this technology.
I want to tell my worker brothers and sisters too that you have faced heavy exploitation. Wages shown on paper are much higher than the wages actually paid to you. If sometimes full wages are paid, someone stands outside to forcibly take his cut and the worker is compelled to accept this as his fate. We want that under this new system you should have a bank account; your wages should be deposited directly into your bank so that payment of minimum wages is ensured. You get your due wages in full, without anybody extracting a cut. No one should exploit you. And, once the money is credited into your bank account, you can use your mobile phone as an e-wallet and you do not need any hi-fi smart phone for this, because even with the help of your ordinary mobile phone itself you can make purchases from the neighbourhood shops and make payments as well. That is why, I specially urge our worker brothers and sisters to participate in this scheme because after all I took such a momentous decision for the benefit of the poor people, the farmers, the workers, the deprived and the suffering people of the country and, hence, these benefits must reach them.
I specially want to talk to our young friends today. We keep telling with great fanfare the whole world that India is a country where 65% of the population is below the age of 35 years. I know, dear young men and women of my country, that you have liked my decision. I also know that you support my decision. I even know that you are making a big contribution in positively taking this mission forward. But dear friends, you are my true soldiers, my true partners. We have got a wonderful chance to serve our mother India and to take our country to new economic heights. Dear youngsters, can you please help me? You will be with me but that alone is not enough. The older generation does not have the exposure and experience of the new world which you possess. Possibly your elder brother and even your parents and uncles and aunts also may not know. You know what an ‘App’ is, what ‘online banking’ is and how ‘online ticket booking’ is done. For you these are routine things and you also make use of them. But, the great task that the country wants to accomplish today is the realisation of our dream of a ‘Cashless Society’. It is true that a hundred percent cashless society is not possible. But why should India not make a beginning in creating a ‘less-cash society’? Once we embark on our journey to create a ‘less-cash society’, the goal of ‘cashless society’ will not remain very far. And I require your physical help, your own time, your own resolve and I am sure that you will not disappoint me because we are the ones nurturing the desire to change for better the life of the poor people of India. You know how many opportunities there are today for a cashless society, for digital banking or for mobile banking. Every bank provides online banking facility. Every bank in India has its own ‘mobile App’. Every bank has its wallet. Wallet simply means an e-purse. Various types of cards are available. Under Jan Dhan Yojana, crores of poor families in India have Rupay Cards. Used scarcely earlier, after 8th November the poor people have started using Rupay Cards and this usage has seen almost 300% surge. Just as there is a prepaid card for mobile phones, prepaid cards are also available in banks to facilitate expenditure. UPI is a very useful platform for carrying on trade activities which enables you to make purchases, send money and even receive money. And, this procedure is as simple as sending messages through WhatsApp. Even an illiterate person today knows how to send and also forward WhatsApp messages. Not only this, with the simplification of technology, we do not require any big smart phones for this purpose.
Cash can be transferred even with a phone with ordinary features. A washerman, vegetable vendor, milk supplier, newspaper vendor, tea stall owner or a chanaa vendor, everyone can easily use this facility. I have provided further impetus to simplifying this system even more. All banks are engaged in this and are doing their best. We have now cancelled the online surcharge and you might have seen in the newspapers during last 2-4 days that all extra charges for such cards have been abolished in order to strengthen the movement towards achieving a ‘cashless society’.
My dear young friends, despite all these things, there is an entire generation which is ignorant in these matters. And I know it very well that all of you are actively contributing in this great task. The kind of creative messages that you send on WhatsApp - slogans, poems, anecdotes, cartoons, new imagination, jokes – I am seeing all these signifying the creative power of our young generation amidst the present challenges. This is the speciality of our ‘Bharat Bhoomi’, our motherland where GITA was created on a battlefield. Today when we are passing through the times of such gigantic changes, your original creativity is manifesting itself within you. But, my dear young friends, I once again tell you that I need your help in this task. Yes, yes, yes – I repeat that I NEED YOUR HELP and I am very sure that millions of young people of our country will accomplish this tremendous task.
You just do one thing, take a resolve today itself that you will yourself become a part of the ‘cashless society’. Every technology needed for online spending will definitely be available on your mobile phone. But not only this, you must devote half an hour, one hour or two hours daily to educate at least 10 families about what this technology is, how this technology is to be used, how to download the Apps of your banks, how to spend money from one’s account, how to make payment to shopkeepers. Also teach the shopkeepers to conduct their business with this technology. You have to voluntarily lend your leadership to this great campaign, this Maha Abhiyan, to create a ‘cashless society’, to eradicate corruption from our country, to abolish the scourge of black money and to help people in overcoming their difficulties and problems. Once you teach the poor people about the usage of Rupay Card, they will shower their blessings upon you. When you teach the common citizen these new techniques, he will probably become free from all his worries. And if all the young people of India join in this great endeavour, I don’t think it will take much time. We can emerge and take our place in the world as a new modern India within a period of one month. And you can do this through your mobile phone by going to 10 houses daily and bringing 10 families daily under the ambit of this campaign. I invite you – come, do not just support this transformation but become one of its leading soldiers and ensure that we achieve the desired transformation. We shall carry forward this struggle to free our country from the evils of corruption and black money. There are many countries in the world where the youth have changed the nation’s life and it has to be accepted that it is the youth which brings about the great changes, which creates revolutions. Kenya made a resolve and set up a mobile based system M-PESA, adopted appropriate technology which was named M-PESA and today in Kenya, in this region of Africa, total business is ready to shift to this system. That country has brought about a big revolution.
My dear young friends, I once again earnestly appeal to you to take forward this campaign. I invite you to work for this mission individually and collectively in every school, in every college, in every university, in NCC and in NSS. We must take this forward. We have got an opportunity to render a great service to our nation; this chance must not be missed.
Dear brothers and sisters, today is the birth anniversary of a great poet of our country – Shriman Harivansh Rai Bachchan Ji and on this occasion today, Shriman Amitabh Bachchan Ji has given a slogan for Swachhta Mission. You must have noticed, that Amitabh Ji, the most popular actor of this century, has been whole-heartedly promoting the campaign for cleanliness. It appears as if the subject of cleanliness has become so dear to him that even on his father’s birth anniversary he remembered the Cleanliness Mission. He has quoted one line from a poem written by Harivansh Rai Bachchan Ji wherein he said: “Mitti Ka Tann, Masti Ka Mann, Kshan Bhar Jeewan, Mera Parichay. (feV~Vh dk ru] eLrh dk eu] {k.kHkj thou] esjk ifjp;)” Harivansh Rai Ji used to give his introduction through this line. His son Shriman Amitabh Ji, who has the cleanliness mission running in his veins, has written to me –“Swachchh Tann, Swachchh Mann, Swachchh Bharat, Mera Parichay. LoPN ru] LoPN eu] LoPN Hkkjr] esjk ifjp; ” based on Harivansh Rai Ji’s lines. I respectfully bow to Harivansh Rai Ji. I also thank Shriman Amitabh Ji to connect in such a warm manner with ‘Mann Ki Baat’ and for taking forward the Cleanliness Campaign.
My dear countrymen, now your views and your sentiments on ‘Mann Ki Baat’ though your letters, on MyGov, on NaarendraModiApp keep me constantly connected with you. Presently Mann Ki Baat is broadcast at 11 AM but we are going to start its broadcast in regional languages immediately after my Hindi broadcast. I am grateful to Akashvani for taking up this initiative which will definitely provide an opportunity to connect our countrymen even in those areas, where Hindi language is not prevalent. Many thanks to all of you.
My dear countrymen, my heartiest and best Deepawali wishes to all of you. Deepawali is celebrated with great fervor and enthusiasm throughout our country. In India almost on all 365 days of the year, one festival or the other is celebrated in some part of the country. Somebody watching from a distance would genuinely feel that festivity is a synonym for the Indian way of life, and this is natural too. Right from the vedic period to the present day, there has been a tradition of festivities in India which, of course, has matched the occasions at different periods of time. We have also witnessed the courage to do away with outdated traditions. And, the transformations in the manner of celebrating these festivals according to changing times and changing social mores have been accepted and adopted very naturally.
However, we can very well discern one characteristic that this entire journey of Indian festivals, its widespread effect, its depth, its reach to each individual are all interlinked with one spirit which exhorts evolution from the ‘self’ to the ‘whole’, the ‘collective existence’. The idea is that there should be a development of individuals and their personalities, the limited scope of thinking must expand and cover not only the whole society but, in fact, the whole universe. And this is achieved through these festivals. Indian festivals at times appear like community feasts but in that also the consciousness has been to there as to what should be or should not be eaten during that particular season. What crop has been harvested by the farmers and how that yield is to be made a part of the festivities, what food habits will be appropriate in a particular season from the health point of view.
Our ancestors had very scientifically encompassed all these aspects in our festivals. Today, the whole world is talking about the environment. Destruction of nature is a matter of great concern. India’s tradition of celebrating festivals has been one to strengthen our love for nature and to develop each individual, right from childhood, as a cultured person. Festivals have evoked a sense of responsibility towards everything, be it trees, plants, rivers, animals, mountains, birds, etc. Nowadays we observe Sunday as a holiday but in our older generations, labourers, fishermen and others from such sections of society used to observe holidays on New Moon, that is Amavasya and Full Moon, that is Poornima. And science has proved that on these days changes take place impacting the sea-water; other factors affect nature and these also influence the human mind. Thus we had developed the tradition to observe our holidays also intertwined with the phenomena of the Universe keeping the scientific aspects in focus.
Now when we celebrate Diwali, as I said, each of our festivals carries a message and teaches us something. The festival of lights Deepawali conveys the message of ‘TAMSO MA JYOTIRGAMAYA’, to move from darkness to light. And, this darkness here does not merely signify the absence of light; it is also the darkness of superstition and blind-faith, darkness of ignorance, darkness of poverty and also darkness of social evils. By lighting lamps on Diwali, we try to overcome the darkness of these social shortcomings and individual blemishes – attaining freedom from this darkness is the real essence of the festival of lights Deepawali, which we celebrate by lighting an earthen lamp, a ‘diya’.
One thing that all of us know very well is that wherever in India we go, whether to the home of the richest of the rich or to the humble dwelling of the poorest of the poor, during the Diwali festival we can see a cleanliness campaign going on in every household. Every nook and corner of the house is cleaned. The less privileged also put in all their efforts to clean their modest earthen utensils because it is Diwali time. Thus, Diwali also encompasses a campaign of cleanliness. But the need of the hour is that not only individual houses but the entire premises, all the neighbourhood, the whole village be cleaned. We have to expand and spread this habit and tradition.
Now, the festival of Deepawali is not confined to the borders of India. In almost all countries of the world, Deepawali is celebrated in one way or the other. Many Governments in the world, their Parliaments and also their ruling classes are joining Deepawali festivities. From countries of the East to those of the West, from developed nations to developing nations and from countries of Africa to Ireland – everywhere we can see the glow and revelry of Deepawali. You may be aware that in America, the US Postal Service has released a special postage stamp on Deepawali this time. The Prime Minister of Canada has shared on Twitter a picture of him lighting a lamp on the occasion of Diwali. British premier Theresa May organised a reception in London involving all communities on Deepawali in which she herself participated. And, there would hardly be a city in UK where Diwali is not celebrated with a great pomp and show. The Prime Minister of Singapore has posted a picture on Instagram and has shared it proudly with the whole world. And, what is that picture about! It shows 16 women MPs of Singapore Parliament standing outside the Parliament all clad in Indian Sarees and this photo has gone viral. All this has been done on the occasion of Deepawali. In Singapore, Diwali celebrations are in full swing in almost all neighbourhoods. The Australian Prime Minister has conveyed his greetings to the Indian community and has called upon all sections of societies to join in the Diwali festivities in various Australian cities. The Prime Minister of New Zealand had recently come to India. He told me that he would have to go back soon as he had to participate in Diwali celebrations there. What I mean to say is that the festival of lights, Deepawali is becoming a festival of inspiration for the world community also to move from darkness to light.
On Deepawali people adorn good clothes, enjoy delicious food items and along with these there is also the bursting of fire-crackers in a big way. The children and the young people very much enjoy this bursting of crackers. But, at times children indulge in reckless bravado and take unnecessary risks. They unwittingly invite a mishap in trying to create a big blast by joining and bursting many crackers together. They are not even mindful of their surroundings, which might have incendiary items leading to fire accidents. News of such mishaps, fire breakouts and even tragic casualties become a cause of big concern on Deepawali. To add to these woes, there is a situation of even the doctors in big numbers being unavailable as they too are away celebrating Deepawali with their families. I specially urge the parents and guardians to be with their children with a watchful eye when they burst firecrackers, so that there is no carelessness or undue audacity and accidents and mishaps are avoided.
In India, the celebration of Diwali lasts for a number of days. It is not restricted to just one day. With a string of festive events such as Govardhan Puja, Bhai Dooj, Laabh Panchmi till Kartik Purnima – this festival of lights goes on for quite a long period of time. Alongside the festivities of Deepawali, we also prepare to celebrate Chhathh Pooja. This Chhathh Pooja is a very important festival in the Eastern parts of our country. It is a big occasion there which lasts for four days. But this also has a unique significance in that it gives a very special message to society. Chhathh Upasana is actually an occasion to pray to the Sun God who gives us so much directly and indirectly that it cannot even be measured by us. And this Chhathh Pooja is for paying obeisance to the almighty Sun. But the adage is that people only pray to the rising sun. However, during the Chhathh Pooja, people worship the setting Sun as well. There is a very profound social message behind this tradition.
When I speak of the Deepawali festival or about the Chhathh Pooja – this is actually an occasion to convey my best wishes to you. But, there is one more thing I have to do. I have to specially thank my countrymen and express my gratitude to them. In the backdrop of the disturbing incidents taking place during the past few months, the soldiers of our defence forces have been sacrificing their all for our peace and happiness. The sacrifice, devotion and zeal of the Jawans of our security forces occupies my mind and heart, my emotional universe all the time. And from that emanated my feeling and resolve that this Diwali must be dedicated to our security forces. I invited my countrymen to join the ‘Sandesh to Soldiers’ campaign. And today, in all humility, I wish to proclaim that there would not be a single soul in India who would not have unbounded love for our Jawans, a sense of deep pride in the members of our security forces. The way these sentiments have been expressed is surely giving strength to each of our countrymen. Your messages to the Jawans of our security forces have proved to be a great morale booster which cannot be easily imagined. Schools, colleges, students, villages, the underprivileged, traders, shopkeepers, political leaders, sportspersons, people from the cine world have all lit a lamp for the country’s Jawans, have joined in this campaign of sending a message of greetings and salutation to our Jawans. The media also made this festival of lights into an opportunity and an occasion to express gratitude towards our armed forces. And why should it not be so? Our Jawans from BSF, CRPF, Indo Tibetan Border Police, Assam Rifles, Navy, Army, Air Force, Coast Guard and many more as I am not able to include all by names are valiantly facing great hardships in the line of duty. While we are celebrating Diwali in the comforts of our homes, some of these Jawans are deployed in the desert areas, others are guarding the towering Himalayan peaks, some are guarding our industrial establishments and some are maintaining security vigil at the airports. What great responsibilities they have on their shoulders! And so if we remember them also while we are in our festive mood, our remembrance gets a new vigour which gets imparted to them also and they feel a new strength. Just one message can enhance their capability and our country has shown it. I earnestly express my gratitude to all our countrymen and women for this gesture. Those who are artistically talented, have expressed themselves through their art. Some persons prepared drawings, made Rangolis, drew cartoons. Those blessed with the blessings of Goddess Saraswati composed poems and couplets. Some came up with inspiring and motivating slogans. It appears that my NarendraModiApp and MyGov have been overwhelmingly filled with emotional messages, in the shape of words, in the form of ‘Pinchhi’, colours, compositions, etc., encompassing innumerable emotions from all; I can imagine how proud our soldiers feel at this moment. Many messages and other expression forms have been received on ‘Sandesh to Soldiers’ hashtag. As a symbol of these, I would like to read a poem which has been sent by Shriman Ashwani Kumar.
Ashwani ji has written: –
I celebrate the festival, feel happy and smile
I celebrate the festival, fee happy and smile
All this is because you are there,
I want to tell you today that you are the guardian of my freedom,
My gift of joy is there just because you are there
I sleep peacefully;
I sleep peacefully, because you are guarding the borders there
The mountains, the skies and the country bow to you
The mountains, the skies and the country bow to you
I too bow in gratitude to you O brave soldier!
I too bow in gratitude to you O brave soldier!
My dear countrymen, sister Shivani, whose parental side of the family as well as her family on the side of her in- laws is full of army soldiers, has sent me a telephone message. Let’s hear what this representative of a military family says:
“Hello Mr. Prime Minister, I am Shivani Mohan calling. The “Sandesh to Soldiers” campaign has been launched on this Deepawali and is proving to be a morale booster for our brothers. I’m from an Army family. My husband is an Army officer. My Father and Father-in-law both served as Army Officers also. So we are full of soldiers on both sides of the family. Our Soldiers and Officers who are guarding our border have been receiving these affectionate messages and all in the Army circle are getting tremendous inspiration and encouragement. I would also like to say that along with Army Officers and soldiers their families and their wives also make sacrifices. Hence the entire army community is receiving a wonderful message and I would also like to wish you a Happy Diwali. Thank you. ”
My fellow citizens, it is true that military personnel guard not only our borders, but they stand as sentinels and fighters on every front of life. Be it a calamitous natural disaster or a law and order crisis or having to deal with enemies or to display courage in motivating misguided youth to return to the mainstream of life, Our Jawans are motivated by a sense of patriotism while rendering service to the nation.
One incident has been brought to my attention and I also want to tell you that how at the core of success small things gather and become a force to reckon with. You must have heard that Himachal Pradesh as a State is now Open Defecation Free, has attained the status of OFD. The first state to achieve this was Sikkim, then Himachal Pradesh accomplished it and Kerala is going to be OFD on November 1st.
But how is this success achieved? Well, I’ll tell you the reason, one of the security personnel of ITBP called Vikas Thakur is from a small village in Sirmour district of Himachal. This village is called ‘Badhana’. Now this ITBP Jawan of ours was in his village on holidays from his duty. In the village at that time there was supposed to be a meeting of the Gram Sabha, so he went to the meeting where a discussion about construction of toilets was in progress. And he found that some of the families were unable to construct toilets due to lack of funds. So, Vikas Thakur of our ITBP, brimming with patriotism felt that no! No! This stigma must be eradicated! See his patriotism for the country; it is not that he serves the nation only by firing bullets on the enemies! Out came his cheque book, and a cheque of Fifty-Seven thousand rupees was handed to the head of the village Panchayat with a request that the 57 households having no toilets be give one thousand rupees each from his side, so that 57 toilets can get constructed and Badhana becomes an Open Defecation Free village! Vikas Thakur demonstrated his heroics by contributing one thousand rupees each from his pocket to the 57 families and thus strengthening the Cleanliness Campaign. And that is how Himachal Pradesh has been empowered to become an Open Defecation Free state.
And similarly in Kerala, I really want to thank young people. It came to my attention, that in the remote forests of Kerala where there is no path to tread upon and only after walking an entire day, some villages can be reached with difficulty; a tribal village panchayat named Idmalakudi is there. It is rarely visited by people. It came to the attention of Engineering students from the nearby urban areas that this village was in dire need of the toilets. NCC cadets, NSS volunteers, Engineering students – all together decided that the toilets will be constructed by them. The building material needed to construct the toilets whether it was bricks or cement, the entire construction material was carried by the young men on their shoulders, spending an entire day walking in those forests. And they themselves worked hard to construct toilets in that village, thus achieving the goal of making a remote village in faraway forests Open Defecation Free! So that is the reason why Kerala is on the verge of being declared free from open defecation. The Municipal Councils and Corporations in Gujarat, numbering over 150 have been declared free from open defecation. 10 districts have also been declared free of open defecation. There is also good news coming from Haryana, Haryana is going to celebrate its Golden jubilee on 1st November and in next few months, Haryana as an entire state will be freed from the stigma of open defecation. As of now, seven districts in Haryana have got rid of open defecation.
Work is progressing at a very rapid pace in all of these states. I have mentioned the work being carried out in some of the places. I convey my heartfelt thanks to all the citizens in these states who have joined in the task of eliminating from our country the darkness resulting from filth.
My fellow citizens, the government plans for the welfare of the people through many of its schemes, and usually when the second scheme follows the first one then the previous scheme is supposed to be discontinued. But generally due attention is not paid to this. The old schemes continue along with the newly implemented schemes and there is also a wait for the next scheme on the anvil. This keeps on happening. Now in our country houses having a gas stove, or those having electricity in the houses do not have a requirement for Kerosene. But who bothers about such things in the government? What happens is that Kerosene is also being provided, so is cooking gas and so is electricity and then middlemen get a chance to usurp their cut from this. I wish to greet the state of Haryana, which has pioneered a method of making Haryana Kerosene free by identifying homes having cooking gas connections or electricity through ‘Aadhar’ numbers. And so far I’ve heard that Haryana has managed to make seven or eight districts absolutely Kerosene free. And with the pace at which this job has been undertaken, I believe that the entire state will soon be completely Kerosene free. Just imagine the change that would be ushered in, theft will stop, the environment would benefit, and we will save our precious foreign exchange and the common folk will get facilities. The only people feeling uncomfortable would be the dishonest persons and the middle-men.
My dear countrymen, Mahatma Gandhi is our guide forever. Even today, his words guide us in setting up the standards and determining the direction that our nation must follow. Gandhiji used to say that when you chalk out a plan, you must first recall the face of the poor and weak and then decide whether the scheme you are going to be implementing will be of any benefit to the poor or not, it should not bring any loss to him! Your decisions should be based on such a benchmark. It is the need of the times that we’ve to address the aspirations that have been arisen in the poor of our nation. We have to help them in getting freed from their troubles in a stepwise manner. Whatever the old dogmatic thinking might have been, but the society now must be freed from discrimination between our sons and daughters. Now our schools are having toilets for girls as well as for boys. For our daughters this is the opportunity to experience an India free from discrimination.
The government undertakes massive immunization programs for our children and yet millions of children are still left out from being immunized and fall prey to diseases. ‘Mission Indradhanush’ is one such operation that involves a vaccination program covering those kids who got left out during previous immunization campaigns and empowers them with immunity against serious diseases. In the twenty-first century, having darkness still prevailing in our villages is something that is not acceptable now. And the rural electrification drive to free the villages of darkness, this major campaign of electrification is proceeding successfully; in fact it is proceeding as per the time-schedule! What will happen to the health of a poor mother how has to inhale smoke equal to that from 400 cigarettes while cooking food on a Chulha which burns wood as fuel. And all this even after so many years of attaining freedom! We are trying to provide a smoke free life to 5 crore such families and we are successfully advancing in that direction.
The small trader, the small businessman, the vegetable vendor, the milk vendor, the one running a hair cutting salon has always been entrapped in the grip of the money lender, repaying interest all his life. The stand up scheme and Jan Dhan account scheme are aimed at freeing these people from the clutches of notorious moneylenders. Crediting money directly into bank accounts via Aadhar aims at directly sending money to the beneficiaries. For the common man this is an opportunity to come out of the grip of middlemen. A campaign has to be started where the target will not only be limited to bring in reforms and transformation but also to obtain freedom from the problem. And this is happening!
My dear countrymen, tomorrow, the 31st October is the birth anniversary of Sardar Vallabhbhai Patel, the great son of India who vowed to unite India and made this the sole object of his life. On the one hand, 31st October is the birth anniversary of Sardar Saheb, the living legend of national unity and on the other; this is also the death anniversary of Smt. Gandhi. We should and do pay homage to the memories of our great personalities. But a phone call from a gentleman from Punjab and his pain touched me: –
“Pradhan Mantriji namaskar, Sir, I am Jasdeep speaking from Punjab. Sir, as you know, 31st October is Sardar Patel ji’s birthday. Sardar Patel is the great personality who devoted his whole life to unite the country and, I think, he succeeded fully in this mission of his, he brought everybody together. But we may call it the country’s misfortune that on this day itself Indira Gandhi ji was assassinated. And, as we all know, what terrible events took place after her assassination. Sir, I want to know how we can check such unfortunate events and incidents from taking place”.
My dear countrymen, this is not the pain of an individual person. One Sardar, as history goes, Sardar Vallabhbhai Patel was the second great man after Chanakya who carried on the stupendous job of uniting our country. Bringing independent India under one banner and accomplishing such a herculean task – what a great man he was! We bow a hundred times to that great soul. But the pain remains that Sardar Patel, who lived for India’s unity, strove tirelessly for it, had to even endure some unpleasantness on account of it, but never ever abandoned the path of unity; but on the birth anniversary of this great SARDAR, thousands of Sardars, the family members of thousands of Sardars were killed in the aftermath of the assassination of Smt. Gandhi. These atrocities against Sardars on the birth anniversary of that great personality who lived for unity, that SARDAR, is a page of history, which causes pain to all of us.
But amidst all these turmoils, we have to march forward chanting the Mantra of Unity. Unity in diversity is the strength of our country. Different languages, different castes, different attires, different food habits and despite all these, unity in diversity remains our binding strength. That is India’s great characteristic quality. Each generation has this responsibility, the governments have this responsibility to explore possibilities of integration in each corner of the country and highlight the elements of our integration. We should keep away from the idea of separatism or the attitude of separatism and also guard the country from any such ideology. Sardar Saheb gave us one India, now this is our collective responsibility to develop a Great India, a Shreshtha Bharat. The Mantra of national unity is the very foundation of a strong and great India.
Sardar Saheb’s journey started with a struggle for farmers. He was the son of a farmer. Sardar Saheb had a big role in taking the Freedom movement to the farmers. Making the freedom movement a source of strength in the villages was Sardar Saheb’s big achievement, a result of his organizational capacity and capability. But, Sardar Saheb was not just a man of struggle but also a man who created great things. He believed in the cooperative movement. Today, we often hear the name AMUL. People of India and even those in other countries are familiar with every product of AMUL. But, only a few people would know that it was only through his farsightedness that Sardar Saheb envisioned the creation of a Cooperative Milk Producers Union in Khera district, which was at that time called Kaira district. He had given this idea in 1942 which now is before us in the shape of AMUL. It is a living example as to how Sardar Saheb had foreseen the way to prosperity of the farmers. I pay my respectful homage to Sardar Saheb. And on 31st October, on National Unity Day, we must remember Sardar Saheb wherever we may be and take a resolve to preserve national unity.
My dear countrymen, during Diwali festivities, Kartik Purnima is also a festival of lights called PRAKASH UTSAV. Guru Nanak Dev, his teachings and blessings are very relevant even now and are a source of inspiration for humanity as a whole. Service, truth and everybody’s well-being was the message of Guru Nanak Dev. Peace, unity and harmony were his principal teachings. Every teaching of Guru Nanak Dev preached that a campaign should be carried on to abolish superstitions, social disparities and social evils from the society. It was then an era when evils such as untouchability, casteism and the chasm between the rich and the poor were at their peak. Guru Nanak Dev picked Bhai Laalo, as his co-worker at that crucial juncture. Let us also follow the light of knowledge bestowed upon us by Guru Nanak Dev which inspires us to end social disparities, exhorts us to do our bit to fight against the evil of disparity.
In our march to achieve ‘Sab Ka Saath, Sab Ka Vikas’, Co-operation from ALL, Development of ALL, we cannot have a better guiding force than Guru Nanak Dev. I pay my deeply felt respectful homage to Guru Nanak Dev on the occasion of the forthcoming Prakashotsav.
My dear countrymen, once again let us dedicate this Diwali to our Jawans. My best wishes and greetings on Diwali to all of you. I wish that all your dreams and resolves get fulfilled in every possible way! May your lives be blessed with success and happiness. Many, many thanks.
My dear countrymen, Namaskar! We recently lost 18 brave sons of our country in a terrorist attack in Uri Sector in Jammu and Kashmir. I salute these valiant soldiers and pay my tributes to them. This cowardly act has shocked the entire Nation. There are strong emotions of widespread grief as well as anger across the country. And, this is not only a loss for the families who have lost a son, a brother or a husband. In fact, it is a national loss. And, therefore, I will just reiterate to you, my countrymen, what I had said that very day, that the guilty will certainly be punished.
My dear countrymen, we have full faith in our armed forces. They will foil with their valour every such conspiracy, and they are the ones to reach the pinnacle of bravery so that we, their 1.25 billion fellow countrymen, can live peacefully and be happy. We are proud of our army. We politicians have many opportunities to speak our mind and we do speak. But, the forces do not speak, they take action.
I also wish today to specially talk to those living in Kashmir. Kashmiris are now beginning to recognize well the true face of the anti-national forces. And as they understand the truth better, they are now separating themselves from such elements and have started moving on the path of peace. Every parent wants the schools and colleges to be functioning properly at the earliest. Farmers also feel that their ripened crops and fruits should reach markets across the country. Economic activities too should be back on track. And during the last few days there has been a movement towards restoration of trading activities. We all know that peace, unity and harmony are the only way to solve our problems and also the way to our progress and development. We have to scale greater heights of development for the sake of our future generations. I am very sure that by sitting together we shall definitely find solutions to our problems, find ways to move ahead and also pave a better path for future generations in Kashmir. Providing security to people in Kashmir is the responsibility of the administration. The government has to take some steps to maintain law and order. I shall also tell the security forces that all our capabilities, power, laws, rules and regulations are basically meant to maintain law and order in order to provide a life of peace and happiness for the common people of Kashmir. We shall strictly abide by this. At times, people thinking differently from us also provide new ideas. These days I get to learn quite a lot through social media. I get an opportunity to know and understand views of different people from all corners of the country and this actually adds to the strength of our democracy. Recently, Harshvardhan, a young student of Eleventh Class has put before me a different type of thought. He has written – “I was very much distressed after the Uri attack and strongly felt like doing something. But, I did not know how to go about it as what could a young student like me possibly do. So, I was trying to find some way to be of some service to the nation. And I have resolved that I would devote three more hours daily towards my studies. I shall become a capable citizen so that I can serve the country well.
Brother Harshvardhan, I am happy to know that despite this atmosphere charged with anger, you are able to think in a healthy manner at such a young age. But, dear Harshvardhan, I shall also like to add that the anger in the hearts of our countrymen is of a very high value. It symbolises our national consciousness. This anger has the resolve to do something. Yes! You have presented that with a constructive approach. But, you must be aware that during the 1965-war, Lal bahadur Shastri Ji was leading us and then also similar feelings of rage, anger and patriotic fervour were sweeping the nation. Everyone wanted that something must happen, must be done. Then, Lal Bahadur Shashtri Ji had very aptly tried to touch the emotional universe of the country. He gave the mantra-“Jai Jawan, Jai Kisan” which inspired the common people of the country to work for the nation. Lal Bahadur Shashtri Ji showed that even amidst the deafening sounds of gunfire and bombardment, there existed an alternative way for every citizen for expressing patriotism. During the freedom movement, Mahatma Gandhi also used to mount highly successful experiments to divert the strong energy of that movement towards constructive social work, whenever a lull was needed amidst the extreme intensity in that movement. Now, if all of us, that is, our armed forces, people in the government, fulfill our respective responsibilities sincerely, and all of us countrymen, each citizen make some constructive contribution imbued with the feeling of patriotism, our country will most definitely scale greater heights.
My dear countrymen, Shri T.S. Kartik has written on NarendraModiApp that our athletes who participated in the Paralympics have created a new history and their performance is a triumph of the human spirit. Shri Varun Vishwanathan has also written on NarendraModiApp that our athletes did a commendable job and that I should talk about this in ‘Mann Ki Baat’. Not only the two of you but each one of our countrymen has felt an emotional attachment with our athletes who participated at the Paralympics. Perhaps going beyond sporting achievements, these Paralympics and the performance by our athletes have transformed our attitude towards humanity, towards specially-abled, DIVYANG people. And, I shall never be able to forget what our victorious sister Deepa Malik had to say. When the medal was awarded to her, she said – “Through this medal I have actually defeated the disability itself.” There is great strength in this remark. This time 19 athletes, including three women, took part in Paralympics from our country. Compared to normal sporting activities, when the DIVYANG play, in addition to physical ability and sporting skills, what are needed even more are will power and resolve.
You will be pleasantly surprised to learn that our sportspersons put up their best ever performance this time and won 4 medals including two gold, one silver and one bronze. Brother Devendra Jhajharia won the gold medal in Javelin throw and repeated his gold winning performance after 12 years. One gets older over a period of 12 years and after having won the gold medal once, the passion for the same is also somewhat reduced. Yet, Devendra displayed that physical condition and increasing age could not dent his strong determination and he successfully claimed his second gold medal after a gap of 12 years. And, he was not born a DIVYANG. He lost one of his hands due to suffering electric current shock. Just think about the perseverance and the huge effort put in by him in repeating the feat of winning a second gold medal at 35 years of age 12 years after winning the first one at 23. Mariyappan Thangavelu won a gold medal in High Jump. Thangavelu had lost his right leg when he was just 5. Even poverty could not come in the way of his resolve. He is not from a big city, he does not come from a middle class or rich family. Yet despite facing all sorts of difficulties and physical challenges, at the age of 21, through his unwavering determination he won the medal for the country. As far as Athlete Deepa Malik is concerned, she has won laurels many a times by emerging victorious repeatedly.
Varun C. Bhati won a bronze medal in High Jump. Medals in Paralympics have a significance of their own, but going beyond that these medals have made a very big contribution in transforming the attitude towards our DIVYANG brothers and sisters in our country, our society and our neighborhoods. These have not only inspired our empathy but also changed the way of looking at the DIVYANG people. Only very few people might be knowing as to what stupendous feats were performed by these DIVYANG people in the Paralympics this time. Olympic Games were held at the same venue only a few days ago. Can anyone ever imagine the DIVYANG athletes breaking a record set during the general Olympic Games? It happened this time. In the 1500 meter race, Abdellatif Baka of Algeria set a new record by completing the 1500 meters race taking 1.7 seconds less than the time taken by the gold medalist in the same event at the general Olympics. Not only this, what really surprised me was the fact that the athlete, who finished fourth in this event amongst DIVYANG persons and thus missed winning any medal, actually took less time than the gold medalist of general category in completing the race. I once again congratulate all our Paralympic athletes and India is progressing in the direction of preparing an effective plan for developing our athletes and also the facilities for the Paralympics.
My dear countrymen, last week I had many wonderful experiences in Navsari, Gujarat. It was a very emotional moment for me. Government of India had organized a Mega Camp for DIVYANG persons and a number of world records were established that day. A visually challenged little girl child Gauri Shardul, hailing from far flung forest area in the Dang District, can recite the complete Ramayana epic as she has learnt it by heart. She rendered certain portions before me and when I presented her performance before other persons there, everyone was amazed. I got an opportunity to publicly release a book that day wherein success stories from the lives of some DIVYANG persons had been compiled. These were very inspiring incidents. Government of India created a world record in Navsari which I believe to be very important. The task of fitting hearing aids to 600 hearing impaired DIVYANG people in just eight hours was completed successfully. This deed found a mention in Guinness Book of World Records. Three world records in a single day by DIVYANG people is a matter of great pride for our countrymen.
My dear countrymen, we had launched ‘Swachha Bharat Mission’ two years ago on 2nd October, the birth anniversary of our revered Bapu. That day too I had said that cleanliness should become our nature, a duty for every citizen and there should be an atmosphere harbouring a sense of revulsion against filth. Now it is going to be nearly two years on 2nd October and I can confidently say that one hundred and twenty five crore people of the country have now become more aware about cleanliness. I had said ‘one step towards cleanliness’ and today we can say that each one of us has definitely tried to take one step further. This means that the country has taken 125 crore steps in the direction of achieving cleanliness. This affirms that the direction we have taken is correct and also fruits of the action are very sweet. It has also been seen as to how much can be achieved through making small efforts. Everyone, be it a common citizen, an administrator, in Government offices or roads, bus stops or railways, schools or colleges, religious places, hospitals, from children to old persons, rural poor, farming women- everyone is contributing something in achieving cleanliness. Friends in the media have also played a constructive role. I also know that we still have to go much farther. Yet, the beginning has been good so far. Whole-hearted efforts have been made and a conviction has now set in that we shall indeed succeed. This conviction is important. If we talk of rural India, so far 2 crore 48 lakh or say about two and a half crore toilets have been constructed and we intend to build another one and a half crore toilets in the coming one year. From the point of view of sanitation and keeping in mind the dignity of our citizens, especially the dignity of our mothers and sisters, it is necessary to put an end to the habit of defecating in the open. And, with this in view ‘Open Defecation Free’ or ODF Campaign has been launched. A healthy competition towards achieving liberation from the habit of defecating in open has started at the levels of states, districts and the villages. Andhra Pradesh, Gujarat and Kerala will achieve very soon cent percent ODF targets. I visited Gujarat recently and the officers there informed me that Porbandar, the birth place of Mahatma Gandhi, will achieve the target of total ODF on 2nd October, 2016. My congratulations to those who have made it possible, and best wishes to those who are trying to reach the target. I appeal to all of my countrymen that to maintain the dignity of our mothers and sisters and for the sake of health of our children, our country needs to get rid of this scourge. Let us forge ahead with a strong resolution. I specially want to suggest a scheme to my young friends who are currently technology savvy. Every citizen has a right to know about the status of the cleanliness mission in his city and the Government of India has provided a dedicated telephone number – 1969 for this purpose. We know that Mahatma Gandhi was born in 1869. In 1969, we celebrated his birth centenary and in 2019 we are going to celebrate the 150th birth anniversary of Mahatma Gandhi. By dialing this number 1-9-6-9 you will be able to know the progress of construction of toilets in your city and will also be able to submit an application for construction of a toilet. You must avail this facility. Not only this, a cleanliness, that is Swachchhata App has been launched for people to lodge complaints concerning cleanliness and also to know about the progress in resolving these complaints. Please make full use of this facility; especially the younger generation must utilize it optimally. Government of India has also appealed to the corporate world to come forward in this endeavour. They can sponsor young professionals willing to work for Swachchhata Mission. They can also be sent to various districts as Swachchha Bharat Fellows.
It will not be sufficient to keep this Cleanliness Campaign confined to beliefs and habits. Imbibing cleanliness as a nature is not enough. In this age, just as cleanliness is related to health, connecting cleanliness to a revenue model is also equally necessary. Waste to wealth should also be one of its components. It is, therefore, imperative that we need to move towards ‘Waste to Compost’ along with the Cleanliness Mission. Solid waste should be processed and be converted into Compost and the government has initiated a policy intervention in this regard. Fertilizer companies have been asked to buy the Compost made out of waste. They should supply this to the farmers who are willing to adopt organic farming. This should also be supplied to those farmers who care about the health of their soil and are willing to improve its quality and also to those farmers whose soil quality has deteriorated because of over use of chemical fertilizers. And for this, Shrimaan Amitabh Bachchan Ji is making a significant contribution as a brand ambassador. I invite youngsters to set up new ‘start ups’ also in this ‘Waste to Wealth’ movement to develop the means and processes, to develop the suitable technology and accomplish mass production at an affordable cost. This is a task worth doing. There is also a big scope of employment generation and an opportunity for tremendous economic activity and wealth creation from waste is achievable. This year a special programme ‘INDOSAN’ – India Sanitation Conference is being organized from 25th September to 2nd October. Ministers, Chief Ministers as also Mayors and Commissioners of metropolitan cities will participate in brainstorming sessions on the sole issue of cleanliness. What can be achieved with technology? What can be the financial model? How to mobilize public participation? How can employment opportunities be increased in this sphere? All these topics will be discussed. And I see clearly that the news about cleanliness keeps pouring in. I recently read in a newspaper that students of Gujarat Technological University launched a Jagran Abhiyan (Awereness Campaign) to build toilets in 107 villages. They themselves put in physical labour and contributed significantly in constructing around 9000 toilets. It might have come to your notice some time ago that under the leadership of Wing Commander Param Veer Singh, a team covered a distance of 2800 kilometres by swimming in Ganga from Dev Prayag to Ganga Sagar to spread the message of cleanliness. Government of India has also chalked out an annual calendar for its departments. Each department is to focus exclusively on cleanliness for a period of 15 days. In the coming October month, from 1st October to 15th October, Drinking Water and Sanitation Department, Panchayati Raj Department and Rural Development Department – these three are going to work under a designated roadmap in their respective areas. Then during last two weeks of October from 16th October to 31st October, three more departments, namely – Agriculture and Farmer Welfare, Food Processing Industries and Consumer Affairs are going to take up cleanliness campaigns in the concerned areas. I request the citizens also to get involved, wherever they feel that they too can pitch in these programmes. You might have seen that a cleanliness survey campaign is also carried out these days. Earlier, the cleanliness status was presented before the countrymen after conducting a survey of 73 cities. Now, this survey will be conducted in about 500 cities with a population of more than 1 lakh. Each city will imbibe a sense of confidence that, well, we have lagged behind but we will surely perform better next time. In this manner an atmosphere of competition for cleanliness has been created. I expect that all of us citizens should contribute as much as we can in the cleanliness mission. 2nd October is the birth anniversary of Mahatma Gandhi and Lal Bahadur Shastri Ji. Swachchh Bharat Mission is completing two years on this day. I keep on urging everyone to buy some khadi items between Gandhi Jayanti to Diwali. This year also I request that each family should buy one or the other khadi item so that the poor may also be able to light an earthen lamp and celebrate Diwali. This year 2nd October is a Sunday so can we involve ourselves in the cleanliness mission in some way? You involve yourself physically for 2 hours, 4 hours with cleaning work and I request you to share your cleanliness drive photo on NarendraModiApp. If it is a video, then share the video. You will see that with our joint efforts, this movement will get a fresh boost, a new dynamism. Let us all remember Mahatma Gandhi and Lal Bahadur Shastri and take a pledge to do something for the country.
My dear countrymen, one gets a special pleasure in giving, one may not realize it, but the pleasure of giving is divine. I witnessed it some time back when I asked the countrymen to give up their cooking gas subsidy and they responded whole-heartedly. This in itself was a very inspirational event in India’s national life. Now, many youngsters, small groups, people from the corporate world, schools and some NGOs are jointly going to organize ‘Joy of Giving Week’ from 2nd October to 8th October. Under this campaign, food items and clothes will be collected and supplied to the needy persons. When I was in Gujarat, all our workers used to walk the streets seeking donations of old toys from families and then presented these toys to Anganwadis in poor neighbourhoods. These toys provided great pleasure to the poor children, which was a great sight to behold. I feel that we should encourage and help these young people who are organising ‘Joy of Giving Week’ in many cities. This is a kind of a ‘Donation Festival’, a Daan Utsav. I convey my best wishes to all those young persons who are undertaking this mission.
My dear countrymen, today is 25th September, the birth anniversary of Pandit Deen Dayal Upadhyay Ji and his birth centenary year commences from today. Pandit Deen Dayal Upadhyay undertook the tremendous task of defining and elaborating upon the political ideology being followed by lakhs and lakhs of workers like me. He was a supporter of a political ideology connected with the roots of India, he presented his own soul stirring political philosophy, the EKAATM-MAANAV DARSHAN alongside the ideology to uphold India’s great cultural heritage. The centenary year of Pandit Deen Dayal Upadhyay is commencing from today. ‘Sarvajan Hitay – Sarvajan Sukhay’, the principle of ANTYODAY – these are his gifts to us. Mahatma Gandhi also talked about the last man standing in the queue. How can the poorest of the poor avail of benefits of development? ‘Work for every hand, water to every field’ – through only these two words he presented his entire economic agenda. The country should celebrate his centenary year as GARIB KALYAN VARSH, ‘Year for Welfare of the Poor’. We can alleviate poverty when everyone including society and governments focuses attention on measures to provide benefits of development to the poor. The place where I live was known as Race Course Road since British rule but now in the centenary year of Pandit Deen Dayal Updhyay this has been named ‘Lok Kalyan Marg’. This is a symbolic representation of the ‘Year for the Welfare of the Poor’, the centenary year of Pt. Deen Dayal Upadhyay. I respectfully pay my homage to revered Pandit Deen Dayal Upadhyay, who has been a source of inspiration to all of us, and an embodiment of our intellectual heritage.
My dear countrymen, I had started ‘Mann Ki Baat’ on Vijayadashmi two years ago. My sincere effort was that ‘Mann Ki Baat’ should not become a programme of praising and highlighting only government’s achievements; Mann Ki Baat should not become a programme of political oneupmanship, allegations and counter allegations. and sometimes passionate advocacy. Despite numerous pressures during these past two years – sometimes being tempted due the surrounding atmosphere, at times with provocations to say something with indignation – overcoming all such impulses over these two years with your blessings, I have moved through these obstacles and earnestly tried to connect with the common man through Mann Ki Baat. How the common man of this country keeps on inspring me all the time? What are the hopes and aspirations of the common man in the country? And this common man, who occupies my mind all the time, always gets projected in Mann Ki Baat. For our countrymen, Mann Ki Baat may be a source of information. For me, Mann Ki Baat has been the means to feel the strength of my 1.25 billion countrymen, to recall their great capabilities and power and to draw inspiration from the same for my own endeavours and initiatives. On completion of two years of Mann Ki Baat this week, I wish to express my sincere gratitude from the core of my heart to all you listeners who appreciated it, who contributed to improving it and thus blessed me. I am grateful to All India Radio also which not only broadcast my views but also put in their best efforts to transmit it in all languages. I am also thankful to those countrymen who knocked on the doors of the government by writing letters and by sending in suggestions and highlighting shortcomings of the government and All India Radio mounted special programmes on these letters by inviting concerned government functionaries and thus provided a platform to address the problems. Thus, Mann Ki Baat became a new opportunity of social transformation rather than just remaining a mere talk show of 15-20 minutes. What can be more satisfying than this for any one? And therefore, I thank everyone and express my gratitude to all who contributed in making it a successful programme.
My dear countrymen, from next week festive season will be ushered in with Navratri and Durga Puja, Vijayadashmi, preparations for Deepavali and all such activities. This is an occasion for praying to SHAKTI, Unity in society is the power or SHAKTI of the country. Be it Navratri or Durga Puja – how can this SHAKTI-UPASANA become the festival of celebrating social unity? How to make it a festival of social bonding? And that would be the true prayer to Shakti, only then can we celebrate together the festival of victory. Let us bow before Shakti, nurture it, march forward with the mantra of unity. Come, let us celebrate Navratri and Durga Puja festivals with peace, unity and harmony to enable our nation to scale newer heights. Let us celebrate victory on Vijayadashmi.
Thank you very much.
My dear countrymen, Namaskar,
Tomorrow, 29th August is the birth anniversary of hockey wizard Dhyan Chand. This occasion is celebrated as ‘National Sports Day’ throughout the country. I offer my tributes to Dhyan Chand ji and wish to remind you all about his invaluable contribution. He played a pivotal role in helping India win Hockey Gold Medals in Olympic Games of 1928, 1932 and 1936. All of us cricket lovers know Bradman’s name very well. He had complimented Dhyan Chand ji by saying that ‘he scores goals like runs’. Dhyan Chand ji was a living example of sportsman spirit and nationalism. During a match in Kolkata one player from the opposite team hit him on the head with the hockey stick. At that point, only 10 minutes were left in the game. And, Dhyan Chand ji scored three goals in just those ten minutes and said – “I avenged the hit by scoring goals”.
Dear countrymen, as the time of Mann Ki Baat draws near, a very large number of suggestions are received on MyGov or NarendraModiApp. These are on diverse topics. But, I saw that this time in most of these suggestions, people had asked me to say something about the Rio Olympics. I find it a very positive sign that our common people have such attachment and awareness about Rio Olympics and they are insisting that the Prime Minister of the country says something on this matter. It shows that besides Cricket, our people have so much involvement in and awareness and knowledge about other sports and games also. For me, even reading these messages proved to be a source of inspiration. One Shri Ajit Singh ji has written on NarendraModiApp – “Please, this time in ‘Mann Ki Baat’ do talk about the education of our daughters, our ‘Betis’ and their participation in sports because they have brought laurels for the country by winning medals at the Rio Olympics.” One Shri Sachin has written to urge that in ‘Mann Ki Baat’ this time a mention may please be made about Sindhu, Saakshi and Deepa Karmakar. Whatever medals we got have been earned by our daughters. These Betis have once again proved that they are second to none in any respect. One of these daughters is from North India while there is one who belongs to South India and then there is one from the Eastern part. All in all, they represent all corners of our country. It seems that our daughters in the whole of India have decided to take up the responsibility of bringing glory to the nation.
Shikhar Thakur has written on MyGov that we could have performed better at the Olympics. He has written – “Respected Modi Sir, first of all, congratulations on our winning two medals at Rio. However, I want to draw your attention to the question – was our performance really good? And, the answer is ‘No’. We have to go a long way in the field of sports. Our parents, even today, insist on focusing on studies and academics. Sports are considered a waste of time in our society. We need to change this mindset. Society needs motivation for this. And, no one can do this better than you.”
Similarly, one Shri Satya Prakash Mehra ji has written on NarednraModiApp – “In Mann Ki Baat, there is a need to focus on extra-curricular activities, especially on encouraging children and youth to play.” Thousands of people have expressed similar sentiments. There is no denying the fact that we could not perform up to the expectations. Some of our players could not even touch during these Games their own performance level which they had achieved during the domestic events in India. In the medals chart, our tally was only two medals. However, it is also a fact that if we look closely, we shall find that despite missing medals, Indian players gave a very good account of themselves for the first time in some of the events.
See, our Abhinav Bindra very narrowly missed the medal and got fourth place in Shooting. Dipa Karmakar produced a superb performance in Gymnastics, although she remained at the fourth place and missed a Bronze by a very narrow margin. But, how can we forget that she is India’s first daughter to qualify in Gymnastics for the Olympics and also to reach the final round. The pair of Sania Mirza and Rohan Bopanna met almost a similar fate in Tennis. Our athletes this time gave a creditable performance. After 32 years of P.T. Usha’s feat, Lalita babar qualified for the finals in track and field. Our Women’s Hockey Team qualified for the Olympic Games after a space of 36 long years. Men’s Hockey Team reached knock out stage after 36 years. Our team is quite strong. And the interesting part is that Gold Medalist Argentina lost just one match in the entire tournament and the team which defeated them was INDIA. Thus, the future surely seems bright for us.
Vikas Krishna Yadav reached the quarter finals in Boxing but could not win Bronze. Many players like Aditi Ashok, Dattu Bhokanal, Atanu Das gave a very good performance. But my dear countrymen, we do have to go a long way. And if we stick to the same routine, we may perhaps keep facing the same disappointment. I have announced setting up of a committee. The Government of India will make an in depth in-house analysis and will study the practices being followed around the world. We shall prepare a roadmap on how we can do better. We have to prepare a far reaching plan keeping in view the Olympics in 2020, 2024, 2028. I urge the State Governments also to set up similar committees to find out as to what we can do in sports. What can each state do? The states can take up one or two sports of their choice and display their strength.
I urge our sports associations also to do objective and impartial brainstorming on this. And, I also request all citizens of the country who have interest in this matter to mail their suggestions on NarendraModiApp. They may write to the government; associations may discuss these issues and submit their memoranda to the government. State governments too should deliberate on this matter and provide their suggestions. But, we must prepare ourselves fully and thoroughly. And, I am confident that we, the nation of 125 crore people comprising 65 percent youth population can reach an exalted status in the world of sports too. We have to move ahead with this resolve.
My dear countrymen, 5th September is ‘Teachers Day’. For many years, I have been spending a lot of time with students on Teachers Day and that too as a student myself. I used to learn quite a lot from those young children. For me, 5th September was Teachers Day as well as an Education Day. But, this time I have to leave for G-20 Summit and so felt in my heart that I should express my feelings in this regard in ‘Mann Ki Baat’ today.
In our life, a teacher holds the same place which a mother does. We have also seen such teachers who care more for their pupils than for themselves. They devote their lives for their disciples, their students. These days, after Rio Olympics, Pulela Gopi Chand ji is being talked about everywhere. He is a player first but he has set up a glorious example of what a good coach, that is, a teacher should be. I see Gopi Chand ji today as an excellent teacher besides being a very accomplished player. And, on Teachers Day, I salute Pulela Gopi Chand ji for his hard work, his dedication towards sports and his manner of finding happiness in the success of his disciples. We always feel the contribution of our teachers in our lives. 5th September happens to be the birthday of India’s former President Dr. Sarvapalli Radhakrishnan ji and the country celebrates this as Teachers Day. Whatever post he held in his life, he always tried to live like a teacher, an educator. Not only this, he always said that “a good teacher can only be one who keeps the student within always alive”. Dr. Radhakrishnan ji showed this by living as a teacher and by keeping alive the student within him despite holding the highest office of the President.
Some times when I think of it, I remember so many incidents related with my teachers because they were our heroes in our small village. However, I can happily say that even now I receive a hand written letter every month from one of my teachers, who has turned 90 now. In this letter, he mentions books read by him during that month along with quotations. He also gives his comments on what he deems correct or otherwise in whatever I have done during the month. It is as if he is, even now, teaching me in the class room. In a way, he is conducting a correspondence course for me even today. And, about his handwriting even at the age of 90, I marvel that he writes so beautifully whereas my own handwriting is very poor. That is why, whenever I look at somebody’s good handwriting, I have a great respect for it. You may also be having similar experience. If you tell the world about whatever good has happened in your life because of your teachers, people’s attitude towards teachers would change. It will be a matter of pride and it is our duty to enhance the honour of our teachers in the society. If you have a photograph with your teacher or an incident connected with your teacher or an inspirational thing associated with your teacher, please do share the same on NarendraModiApp. Looking at the contribution of teachers in the country from the point of view of students is also immensely valuable in itself.
My dear countrymen, Ganesh Utsav is drawing near. Ganesh ji removes all obstacles and let us all wish that our country, our society, our families, and each one of us may lead a life free of obstacles. But, when we mention Ganesh Utsav, it is natural to remember Lokmanya Tilak ji. The tradition of public celebration of Ganesh Utsav is Lokmanya Tilak’s gift to us. By publicly celebrating Ganesh Utsav, he turned this religious occasion into a festival of national awakening and social refinement. These Ganesh festivities included holding wide-ranging discussions on the issues that touched our lives and society, and comprised such programmes which provided a new vigour and vitality to our social fabric. Also, his mantra “Swaraj, that is, freedom is my birthright” should have the main focus thereby strengthening the freedom movement. Now, not in Maharashtra alone but in each corner of India, Ganesh Utsav is celebrated publicly. Young people make elaborate preparations, they are full of vigour. Some people even now try to follow the path shown by Lokmanya Tilak ji. They organise debates on topics of public interest, and hold essay competitions and rangoli competitions. Tableus depict the issues of social concern in a very artistic manner. In a way, a mass campaign of public education gets underway through these Ganesh festivities. Lokmanya Tilak ji gave us the inspirational mantra – “Swaraj, that is, freedom is our birthright.” But now we live in independent India. So do we through these public Ganesh festivals move now to SURAAJ, that is, good governance by proclaiming ‘SURAAJ is my birthright’. Good governance, SURAAJ, should be our priority; can we not recite this mantra and give a message for it in the public Ganesh festival celebrations? Come on, I invite you all.
It is true that festivals express the vitality of a society. Festivals infuse new life into individuals as well as the society. Life seems to be impossible without festivals but these have to be moulded according to the needs of the changing times. I have seen that this time, many people have written to me mentioning Ganeshotsav and Durga Puja. They are worried about environment. One Shri Shankar Narayan Prashant has strongly urged –“Modi ji, kindly tell the people through your Mann Ki Baat that they should not use Ganesh idols made of Plaster of Paris. Why should we not use Ganeshji idols made of the clay from the village pond. POP idols are not environment friendly”. He has expressed a great pain, others have also. I request you all as to why should we not use clay in making Ganesh and Durga idols and revert to our old tradition. This will help in environment preservation, prevent pollution of our rivers and ponds and also provide protection to small creatures living in water. This is also the service of God. Ganesh ji removes obstacles. So, we should not make such Ganeshji idols, which create problems. I do not know how you will take my suggestions but it is not just me but many other people saying the same thing. I have heard about many such people including Pune based sculptor Shri Abhijit Dhondphale, Kolhapur institutions Nisarg-Mitra and Vigyan Prabodhini, Nisarg Katta in Vidarbh, Gyan Prabodhini of Pune, and Girgaoncha Raja of Mumbai. Many such institutions work hard to promote Ganesh idols made from clay and they also propagate it. Eco-friendly Ganeshotsav is also social service. There is still time left before the start of Durga Pooja festivities. If we resolve now, our efforts will lead to employment generation for those families which traditionally used to make clay idols in the past. Also the clay will go back and get dissolved in the pond or the river and will thus help in protecting the environment. I offer my best wishes to you all for Ganesh Chaturthi.
My dear countrymen, Bharat Ratna Mother Teresa will be canonized, that is, accorded sainthood on 4th September. Mother Teresa devoted her entire life to the service of the poor in India. Though she was born in Albania and her mother tongue was not English, yet she transformed her life and did everything to be able to serve the poor. When Mother Teresa, who served the poor in India all through her life, is accorded Sainthood, it is quite natural for we Indians to feel proud. Indian government will send an official delegation under the leadership of our External Affairs Minister Sushma Swaraj to represent 125 crore Indians at the canonization ceremony to be held on 4th September. We keep learning something or the other from great men and women, saints, sages, holy people. We shall continue to receive something, learn something from them and keep on doing some good things.
My dear countrymen, when development becomes a mass movement, a big transformation takes place. Peoples’ power is, in a way, considered to be a divine incarnation. Government of India has made a successful effort to clean the Ganga and involve the people for this project with the cooperation of five State governments. Pradhans of villages situated on the banks of the river Ganga were invited to Allahabad on the 20th of this month. They included men as well as women. They came to Allahabad and took an oath before Mother Ganga that they will make all out efforts to immediately stop the practice of open defecation in their villages situated on the banks of Ganga, start a campaign of building toilets and also that these villages will make their full contribution in cleaning up Ganga and will ensure that Ganga is not polluted now. I congratulate all the Pradhans who had assembled in Allahabad with this resolve from different States; they had come from Uttrakhand, from Uttar Pradesh, from Bihar, from Jharkhand and from West Bengal. I also congratulate all those Ministries of the Government of India and also those ministers who turned this vision into reality. I also want to thank the Chief Ministers of these five States for taking the vital step in the direction of making Ganga clean by involving people’s power.
My dear countrymen, certain things touch me very deeply and my heart bows in respect to those who visualize such heartwarming initiatives. In Kabirdham district of Chhatisgarh more than 1.25 lakh students from about 1700 schools collectively wrote letters to their parents. Some students wrote in English, some wrote in Hindi and some in Chhatisgarhi to their parents telling them that there should be toilets in their houses. They demanded building toilets. Some students even wrote that they would rather go without celebrating birthday but the toilet must be constructed.
Students of age between seven to seventeen took up this task. And this had such an impact, such an emotional impact that while the students were going to school the next day, their parents handed over reply letters to them addressed to the teacher in which they promised to build toilets by a certain date positively. My compliments to those who visualized this idea, compliments to these students and special compliments to those parents who took their childrens’ letters so seriously and also took a decision to construct a toilet. This is what inspires us.
In Koppal district of Karnataka, a sixteen year old girl Mallamma started a Satyagrah against her own family. She launched the Satyagrah and stopped eating and she did that not to ask something for herself, not to demand good clothes or have sweets. This daughter Mallamma was adamant to have a toilet built in her house. But, the family was not in a good position economically. The daughter stuck to her demand and was not prepared to end her Satyagrah. The village pradhan Mohammad Shafi came to know about this. He was told that Mallamma had protested to press for her demand for getting a toilet built in her house. Now, look at the gesture of village Pradhan Mohammad Shafi, he arranged eighteen thousand rupees and got a toilet built within a week. Just see the power and strength in Mallamma’s protest, and also consider the grand gesture of a village Pradhan like Mohammad Shafi. Look how the solutions to problems are found, this is the power of the people.
My dear countrymen, Swachha Bharat has become the dream of each Indian. Some Indians have made it their resolve. Some Indians have made it their aim and purpose. But, each one is connected to it in one or the other way and everyone is making a contribution. Daily we hear about the various innovative efforts in this direction. Acting on one such idea, the Government of India has called upon the people to make short films of 2 to 3 minutes duration on Swachhta, that is, cleanliness and send these to the Government. You can find details of this plan on website. A competition will be held and the winners will be awarded prizes on Gandhi Jayanti Day on 2nd October. I request TV channels also to invite such films and hold a competition. Creativity can give a new strength to Swachhata Abhiyan or cleanliness campaign. New slogans will emerge, newer methods will come to knowledge, a new inspiration will be generated and all this will happen with the great support of the people. Lesser known artists could be taken and it is not necessary to have a big studio and a big camera. You can even shoot a film these days using your mobile phone camera. I call upon you all to come forward and participate.
My dear countrymen, India has always tried its best to have close, cordial and vibrant relations with its neighbours. A very important event took place recently. The Honourable President of India Shri Pranab Mukherjee inaugurated a new radio channel named ‘Akashvani Maitree Channel’ at Kolkata. Now, some people may wonder whether Honourable President should inaugurate a Radio Channel? But this is no ordinary Radio Channel, it is a very big and very important step. We have Bangladesh as our neighbour. We know that both Bangladesh and West Bengal continue to have a common cultural heritage. So, Akashvani Maitree on this side and Bangladesh Betaar on that side will mutually share the content and Bengali speaking people on both sides will enjoy the programmes of Akashvani, that is, All India Radio. This people to people contact is a big contribution of Akashvani. The President launched this radio channel. I extend my thanks to Bangladesh also for collaborating with us in this initiative. I congratulate the friends in All India Radio too for making their contribution in our foreign policy also.
My dear countrymen, although you have entrusted me with the responsibilities of Prime Minister but I also am a human being just like you. At times, sensitive events touch me a little too deeply. Such sentimental incidents generate new energy, give new inspiration and this is what motivates us Indians to do some remarkable things. I received a letter recently which touched my heart. A motherly lady of about 84 years of age who is a retired teacher wrote that letter to me. If she had not forbidden me from revealing her name, I from the core of my heart wanted to announce her name while talking to you. She wrote in her letter that after my appeal to the people to forego their cooking gas subsidy, she had given up her subsidy and then she even forgot about it. However, a few days ago a person on my behalf went to her and delivered a letter in which she was thanked for her giving up the subsidy. And, she has said that a letter from the Prime Minister was no less than a Padma Shree honour for her.
Dear countrymen, you may be knowing that I have tried to send a letter, to be delivered personally through my representatives, to all those who surrendered their cooking gas subsidy on my appeal. My effort is to send letters to more than one crore people. Under this plan my letter had reached this mother who wrote back to me saying that I was doing a good work under the campaign of providing relief to those poor ladies who are getting freedom from the smoke of a Chulha. I am a retired teacher and will cross the age of 90 years within a few years and I am sending you a donation of fifty thousand rupees which you can use in this mission of providing relief from the Chulha smoke to the poor women. You may well imagine the missionary spirit of this retired teacher living on pension and donating an amount of fifty thousand rupees for the sake of provision of gas connection to the other poor mothers and sisters, in order to save them from the ill effects of Chulha smoke. It is not a question of 50 thousand rupees but the basic question is of the empathy in this old lady and it is because of the blessings of this lady and of crores of our other mothers and sisters which strengthens my confidence in the future of the country. And, she did not write to me this letter as a Prime Minister but she straightforwardly wrote – “Modi Bhaiya!” I salute this wonderful mother and I also salute crores of similar mothers in India who keep doing something or the other all the time for the benefit of others despite facing many difficulties themselves.
My dear countrymen, we were struggling with drought-like conditions last year but this August we have been facing the fury of floods all through. In some parts of the country, there have been repetitive floods. State governments, Union government, local self-government bodies, social organisations and the citizens did whatever best could be done. Yet, even amidst the reports of these floods, some such events happened which should be remembered. Which show the power of unity, and how big results can be achieved by working together? The month of August this year has become memorable. In August 2016, about 90 political parties in the country, many of these parties in the Parliament, which were staunch opponents of each other and which do not miss the slightest opportunity against each other, all these parties got united and passed the GST Act. The credit for this goes to all the parties. And, this is an example which shows that great tasks can be accomplished by working in unison to move ahead. Similarly, about the incidents that took place in Kashmir and all that happened in Kashmir, all political parties in the country collectively expressed their views in one voice. A massage was sent to the whole world, a massage also went to the separatist forces and our sympathy was expressed towards the people of Kashmir. Whatever interaction with whomsoever I had on Kashmir resounded with these views quite prominently and if I may try to summarise these views and comments, the gist and essence were unity and affection; these two were the fundamental points. And, we all are of the view, and this is the view of all 125 crore Indians, right from the village Pradhan to the Prime Minister that every loss of life in Kashmir – whether it is of a young man or of a security personnel – it is our own loss, a loss of our people, a loss for the nation! Those trying to disturb peace in Kashmir by putting small children in the front and hiding behind them will have to be answerable to these very innocent children some day.
My dear countrymen, ours is a vast nation, full of diversities. To keep this country of manifold diversities united, we all as citizens, as society and as the government, have a responsibility to encourage things which strengthen our national unity and highlight these with full vigour, only then we can make our country’s future bright, and, of course, this will be achieved. I have full faith in the power of my 125 crore countrymen. That is all for today, many many thanks.
My dear countrymen, Namaskar!
Early this morning, I had an opportunity to spend some time with some young people from Delhi. And I believe, in the days to come, the spirit and fervor of sports will envelop every young person in the country. All of us know that in a few days time, the world’s largest sports event, the biggest sports carnival will take place. RIO is going to resound in our ears time and again. The entire world will be at play… every country in the world will keep a close watch on the performance of its sportspersons; you too will be doing the same. All of us harbour a lot of hopes and expectations, but keeping the morale of our sports contingent at RIO high is also the solemn duty of us 1.25 billion countrymen. In Delhi this morning, the Government of India had organised a very good event, ‘Run for RIO’, ‘Play and Live’, ‘Play and Blossom’. In the days to come, wherever we are, let us do our bit to encourage our sportspersons. A sportsperson, who makes it to this stage, does so after putting in a lot of hard work. It’s a kind of severe and dedicated ‘tapasya’. However much one cherishes all kinds of food, one has to sacrifice that. However much one would like to snuggle up in warmth during a harsh winter, one has to just get up and leave for the track and field. And this happens not just to the players. Even their parents leave no stone unturned for the sake of their children. Sportsperson are not made overnight; it takes long and sustained perseverance to attain that stature. Victory and defeat are certainly important, but what is even more important is reaching this level in a game or sports discipline and, therefore, let all of us Indians join hands in wishing our RIO contingent the very best. I’m also ready to do this on your behalf; the prime minister of the country is ready to be a postman to convey your good wishes to these players. Do send your best wishes to our sportspersons in Rio on the ‘NarendraModi App’. I’ll convey these to our contingent. Just like 1.25 billion Indians I too as a citizen would like to join you in encouraging them, cheering them up. Come, over the next few days, let us try to the fullest extent possible to make each one of our sportspersons feel proud, to reward them for their endeavours and exertions; and today, as I speak on the Rio Olympics, I would like to mention the name of a poetry lover, Suraj Prakash Upadhyay a student of the Punjab Central University, who has sent me a poem. It’s possible that many poets would have written poems, some may be planning to write, some may even compose their verses into songs, in all languages. But here I would like to share with you the poem sent by Suraj Ji.
”The games bugle’s been sounded
The festivities of competitions
In this mega sporting odyssey
Amidst the melodious chimes of RIO
May India commence on a grand note
May it rain gold, silver and bronze!
May India commence on a grand note
May it rain gold, silver and bronze!
May the turn be ours also this time
May we be amply prepared this time
Set your sight straight at the Gold
But let a loss not deject you
You are a hero to a billion hearts
You are the heartbeat of your sport
March ahead and set records
Let our tricolour flutter with pride in RIO
Let our tricolour flutter with pride in RIO.
Suraj Ji, I dedicate your sentiments to all our sportspersons and extend to them the warmest and heartiest wishes from my side and on behalf of us 1.25 billion countrymen, that our tricolour indeed flutters with joy and pride in the skies of RIO.
A young man Mr. Ankit has reminded me of the death anniversary of President Abdul Kalamji, which was observed last week. The country, in fact the world paid glowing tributes to him. The mere mention of Abdul Kalamji’s name brings to mind vivid images of science, technology, missiles – in fact the entire spectrum of strengths and capabilities of India in the days to come. And that’s why Ankit asks me… What is your government doing to ensure that Abdul Kalamji’s dreams come true? You are right. The future is going to be technology driven. And technology is extremely dynamic. Day by day, technology keeps updating, changes form, transforms its impact. You cannot shackle technology. If you strive to hold it still, it would move beyond your grasp assuming new looks and forms. If we have to match its strides and move ahead, research and innovation are the keys, these are its lifelines and moving spirit. In the absence of research and innovation, technology will become a burden, just as still water stagnates and even stinks. And if we go on just using old technology without recourse to research and innovation, we will become outdated in this rapidly changing world and age. And that is why the government too has taken steps to attract the new generation toward science and research & innovation in the field of technology. And that is why I say ‘let us aim to innovate’. And when I say “let us aim to innovate’ my AIM stands for “Atal Innovation Mission’. This Mission is being promoted by the Niti Aayog. The purpose is to create an eco-system in the entire country through the Atal Innovation Mission, to forge a vibrant chain of innovation, experiment and entrepreneurship, which would also enhance the possibilities of new employment generation. If we have to develop the next generation innovators, we shall have to link our children with it. And that is why the Government of India has taken the initiative of ‘Atal Tinkering Labs’. Wherever such Tinkering Labs are established in schools, those would be given 10 Lakh rupees and further 10 Lakh rupees will be provided for maintenance during the period of five years. Similarly, innovations are directly connected to Incubation Centres. If we have strong and well-equipped Incubation Centres, a system comes into place for innovations, for start-ups, for experimentation and to bring these efforts to a certain level. Creation of new Incubation Centres is essential just as it is necessary to strengthen the older Incubation Centres. And when I talk of Atal Incubation Centres, the government has considered allocating the huge sum of 10 crore rupees for this also. India is grappling with diverse challenges. We see problems in daily life. We shall now have to look for technological solutions for these. Through the ‘Atal Grand Challenges’ we have exhorted the young generation of the country that if they see problems, they should search for solutions taking the path of technology, doing research, applying innovations and bring those on board. The Government of India wants to specially reward technology developed to find solutions to our problems. And I am happy that people have evinced interest in these things. When we spoke of Tinkering Labs, about 13 thousand schools applied and when we talked of Incubation Centres, over four thousand academic and non-academic institutions came forward. I firmly believe that the real tribute to Abdul Kalamji will consist of harnessing research and innovation for developing technology to find solutions to problems we face in day to day life, and ridding us of the difficulties we face to make things easier for us all. The more the new generation devotes itself to this task, the greater will be their contribution with immense significance for the modern India of the 21st century. That will be the real tribute to Abdul Kalamji.
My dear countrymen, while some time ago, we were concerned about a drought like situation, these days, on the one hand, we are enjoying the rains, but on the other, reports of floods are also coming in. Central government and State Governments are working hand in hand with their utmost efforts to provide relief and assistance to the flood-affected. Despite causing some hardships, rains make every human heart rejoice since rains, and agriculture, are the focal point of our entire sphere of economic activities.
There are times when one has to face an illness that leaves a scar for a lifetime. But if we are aware, alert and active, the prevention is also very easy. Take the case of Dengue. It is preventable. Pay attention to cleanliness, be alert, try and be safe and take special care of children. And the mindset that such diseases strike poor neighborhoods only, is not valid in the case of Dengue. Dengue first enters affluent localities and we should try and understand it. You must be watching advertisements on TV but there are times when we neglect taking proactive and informed action on it. The government, hospitals, doctors will of course do their job, but I urge that we should also be alert in ensuring that Dengue doesn’t enter our homes, locality, family, for that matter, any illness connected with stagnant water.
I would like to draw the attention of my dear countrymen to another menace. In today’s fast paced, rat race of life, at times we don’t have time to think about ourselves. When we fall sick, we want to get well as soon as possible and as a result pop in just any antibiotic that we can lay our hands on. It may give you instant relief, but my dear countrymen, this random pill popping habit can land you in deep trouble. It may give you temporary succor, but we should completely stop taking antibiotics without the advice of a doctor. Avoid it till a doctor gives you a prescription. Do not use the short cut method; it can lead to serious complications. Although random and rampant use of antibiotics gives immediate relief to the patient, but gradually the disease causing bacteria get accustomed to that drug. The drug then loses its efficacy and one has to fight the battle anew, develop new medicines, do new research; it takes years and till then these diseases create other complications. That’s why we have to be very aware about that. One more problem has presented itself. Suppose the doctor advises that brother, take this antibiotic and he tells that 15 tablets of that to be taken over a period of five days. I urge you to complete the entire course of medication as prescribed by the doctor. Because if the treatment is abandoned halfway, it would benefit the bacteria. If the medicine is taken more than what is required, that too would be in the favour of the bacteria. And that is why, it is utmost essential to take the entire course of antibiotic medicine in terms of number of tablets as well as days. If we leave the treatment halfway due to improvement in our condition, we are only helping that bacteria getting more sturdy and difficult to treat. Microbes spreading TB and malaria are bringing about rapid mutations in themselves, rendering medicines ineffective. In medical parlance it is called antibiotic resistance. Hence it is indeed necessary to follow rules in the administration of antibiotics. The government is committed to prevent antibiotic resistance. You must have seen, these days, on the antibiotic medicine strips there is a red line to make you aware. You must pay attention to that.
While we are on the subject of health, I would like to talk about one more issue. I feel very concerned about the lives of pregnant women of our country. In our country, close to 3 crore women become pregnant every year but some of these mothers die during childbirth. Sometimes the mother loses her life, at times the infant does. There are times when both die. It is true that in the last decade there has been a decline in maternal mortality rates but even now, we are not able to save the lives of a large number of pregnant women. Anemia during or after pregnancy, pregnancy related infections, high BP, any such complication can have devastating effect. Keeping in view these issues, in the last few months, the Government of India has launched a new campaign ‘Prime Minister Safe Motherhood Campaign’. Under this, on the 9th of every month, all pregnant women will get a check-up at government health centers free of cost. I urge all poor families to ensure that all pregnant women avail of this benefit on the 9th of every month, so that if by the time they reach the 9th month any complication arises, it can be dealt with suitably in time and the lives of both mother and child can be saved. I have specially asked the gynecologists whether they could offer their services free on the 9th of every month, for the sake of under privileged mothers! Can’t my doctor brothers and sisters spare just 12 days in a year for this service to the under privileged? Over the last few days, many have written to me. There are thousands of doctors who have implemented what I said. But India is such a vast country. We need lakhs of doctors to join this campaign. I do believe that you will indeed do so.
My dear countrymen, today, the whole world is concerned deeply about climate change, global warming and the environment. These are discussed collectively in the country and across the world. In India, this has been accorded great importance for centuries. In the battlefield of Kurukshetra too, Bhagwan Shri Krishna talks of trees. Showing concern towards trees even in the midst of a battle, underlines how much importance was attached to trees. In the Gita, Bhagwan Shri Krishna says, ‘ashwatth sarvvrikshanam’ which means amongst all trees, I am the Peepal Tree. It is proclaimed in Shukracharya Neeti that ‘naastimulam anaushadham’ meaning that there is no plant that does not have medicinal values; the Anushasan Parv of the Mahabharta elaborates this concept at greater length. It is stated in the Anushasan Parv that whosoever plants a tree begets an offspring in the form of that tree. There can be no doubt about this fact. He who donates a tree, that tree in return becomes a ladder to salvation just like children. Therefore it is appropriate that parents desiring their well-being should plant tree and rear them like their own children.
Our scriptures like Gita, Shukracharya Niti and Anushasan Parv of the Mahabharta contain such lofty ideals. However, there are certain individuals in the present generation also, who live up to these ideals. A few days ago, I came across a mention of Sonal, a young daughter from Pune. It touched my heart. It is mentioned in Anushasan Parv in Mahabharata that a tree is like an offspring and becomes means of salvation in after life, Sonal has not only taken it upon herself to fulfill her parents’ wishes but society’s expectations also. Shri Khandu Maruti Mhatre, a farmer of Narayanpur village of of Junner Taluka of Pune got his granddaughter Sonal married in a very inspiring manner. What did Mhatre Ji do in Sonal’s marriage? He gifted all his relatives, guests and friends with a sapling of ‘Kesar’ variety of mango. I saw a picture of this marriage in social media. I was surprised to see that in the marriage festivities, instead of members of the wedding party, saplings were more visible! That picture really touches one’s heart. I think that Sonal, who herself is an agriculture graduate, came upon this idea. And to present Mango saplings in the marriage, just think, reflects the love for nature in a brilliant manner. In a way, Sonal’s marriage in an everlasting story of love for nature, I congratulate Sonal and Shriman Mhatre Ji for this innovative effort. And such experiments are done by many people. I remember, when I was the Chief Minister of Gujarat – the temple of Ambaji there is visited in the month of Bhadrapad by lakhs of devotees travelling by foot. A certain NGO decided to distribute saplings as ‘Prasad’ to the devotees, and the devotees were told that Mata Ambaji will keep on showering her grace, if they took care of the saplings, till their maturity into trees in their homes and villages. And lakhs of such saplings were distributed to the devotees traveling on foot to Ambaji temple that year. Other temples too can start the practice of distributing saplings instead of ‘prasad’ during this rainy season. It can easily grow into a people’s movement for planting trees. I repeatedly tell my farmer brethren that instead of wasting our land in building fences around our fields, why don’t we start planting timber trees there. Today India has to spend billions and trillions of rupees to import timber wood from abroad for construction of houses and furniture. If we plant on the boundaries of our fields timber trees that can be utilised for construction of homes and furniture and which can also be cut and sold after 15 to 20 years with the permission of the government. This way, not only can these become a new source of your income, but can also save India from importing timber.
Some days ago, a few states taking advantage of this weather have started many campaigns in this direction and the Government of India has also passed CAMPA law, under which about 40 thousand crores rupees will go to the states for planting trees. I have been told that the Maharashtra government planted about 2 crores sapling in the entire state on 1st July and next year they have taken a pledge to plant about 3 crores trees. The Maharashtra government has transformed this activity into a people’s movement. Rajasthan, desert area, has celebrated Van Mahotsav in a very big way and pledged to plant 25 lakhs trees. To plant 25 lakhs of sapling in Rajasthan is not a small matter! Those who know the soil conditions of Rajasthan would know how mammoth this task is going to be. Andhra Pradesh, too has decided to increase its green cover by 50% by the year 2029. Under the central government’s ongoing ‘Green India Mission’, Railways too have joined in this endeavour. Gujarat too has an illustrious tradition of observing Van Mahotsav. This year Gujarat has undertaken many projects like ‘Aamra Van’, ‘Ekata Van’ and ‘Shaheed Van’ as a part of Van Mahotsav and launched a campaign to plant crores of trees. I am not able to mention every state but all deserve to be appreciated.
My dear countrymen, I had the opportunity to visit South Africa for the first time some time back. During a foreign visit, diplomacy is practiced, there are trade deliberations, discussions about security and as is customary, many MoUs are concluded. But for me the visit to South Africa was more like a pilgrimage. When we think of South Africa, it is very natural to remember Mahatma Gandhi and Nelson Mandela. Whenever we hear the words – non-violence, love and forgiveness, the inspiring faces of Gandhi and Mandela appear before us. During my South Africa tour, I visited Phoenix settlement where Mahatma Gandhi’s home is known as ‘Sarvodaya’. I also had the good fortune of traveling from Pietermaritzburg station in the train in which Mahatma Gandhi had travelled, and which was the site of the incidence that sowed the seed of the transformation of a Mohandas into Mahatma Gandhi. But what I want to tell you is the fact that this time I had an opportunity to meet those great men who had devoted their young lives for society fighting shoulder to shoulder with Nelson Mandela for the ideals of equality and equal opportunity; who had spent 20 to 22 years of their lives in prison with Nelson Mandela, effectively sacrificing the entire period of their youth for the society. I had the privilege of meeting these grat personalities, these close associates of Nelson Mandela such as Shriman Ahmed Kathrada, Shriman Laloo Chiba, Shriman George Bizos and Ronnie Kasrils. All were Indian by origin but dedicated themselves to wherever they settled and decided to offer their lives for those amidst whom they lived. So much strength they had! And the greatest thing was that while I was talking to them and listening about the experiences of their imprisonment, they had no bitterness or ill will for anyone. There was not a single trace of desire, to get something, to become somebody even after living such a great life of ‘Tapasaya’. The essence of performing one’s duty as explained in Gita was embodied in their persona. I will remember that meeting forever. Equality and equal opportunity are the two biggest ‘mantras’ for any society and government. Equality and equal opportunity, compassion and fraternity, these are the paths leading us to a bright future. We all want a good future for our children. Everybody has different needs and different priorities but there is one common path of development, equality, compassion and fraternity. Come, let us be proud about these Indians who have lived their lives in South Africa embodying our highest and fundamental ideals.
My dear countrymen, I have received a message from Shilpi Varma, to whom I am grateful. Her concern is very genuine. She has made me aware of an incident: –
“Pradhan Mantri Ji, I am Shilpi Varma speaking from Bengaluru. Some days ago, I read in a news article that a lady became a victim of fraud and cheat email, lost 11 lakh rupees and committed suicide. Being a woman, I feel an empathy with her family. What is your opinion about such cheat and fraud emails.”
She has pointed a certain incident, and you must also be aware that we get messages on our mobile phones and emails, proclaiming attractive offers that you have won a jackpot of so many rupees; if you pay a certain amount then you become eligible for the greater amount. People get duped by this money trap. These are new methods of technology that are spreading in the entire world for cheating people. And just as technology plays an increasingly bigger role in our economic system, it also invites those who misuse it. A retired gentlemen, who not only had to get his daughter married but also to build his home, one day he received an SMS, that there was a gift that had arrived from abroad and could be obtained if he deposited 2 lakh rupees as custom duty in a bank account and this gentlemen without giving any thought took out 2 lakh rupees from his hard earned life savings and sent it to some stranger. That too on the strength of just an SMS! And in very little time, he understood that he had been looted! You too must be getting similarly confused sometimes! These people write a letter in such style that it seems perfect. They use fake letter pads while sending these letters. They obtain your credit card number and debit card number and empty your bank account through technology. And this new means of fraud is digital fraud. I believe that we must be aware against such lure, must remain cautious and if such false communications come to our notice, then we must share them with our friends and make them aware also. Shilpi Varma has brought this important thing to my notice, which although even you must have encountered, but may be you did not take it that seriously, but I feel there is need to look at it seriously.
My dear countrymen these days, the Parliament Session is going on, and during the Parliament Session, I get to meet many people from across our nation. Our MPs also bring people from their constituencies and introduce them to me; they tell me many things, their difficulties also. But recently I had a pleasant experience, real pleasant experience! Student from Aligarh had come to meet me. You should have seen the enthusiasm of those boys and girls. They had brought a big photo album with them and their faces were lit with joy. They showed me the pictures of how they had beautified the Aligarh railway station! These were artistic painting done on the station. What is more, they had searched for and collected the plastic bottles and oil cans lying in the garbage in the villages and by filling those with soil and planting saplings, they have transformed those pots into a vertical garden. And by creating this vertical garden on the site of railway station, they have given it a new look. If you go to Aligarh, do visit the railway station. I am receiving news from many railway stations in the country where the local populace has taken to depicting on the walls of the railway stations, their area’s identity, through means of their arts. They have brought about a refreshing feeling. This is a prime example of the great transformation, which can be brought about through people’s participation. I felicitate all such citizens involved in these kinds of activities and especially congratulate friends from Aligarh.
My dear countrymen, with the onset of rainy season, there is also an onset of festival season in our country. There would be fairs everywhere, festivities would be observed in temples and places of worship. You too will become a participant at home and outside during the festive celebrations. The festival of Raksha Bandhan is a festival of special significance. Just like last year, can’t you gift on the occasion of Raksha Bandhan Pradhan Mantri Suraksha Bima Yojna or Jeevan Jyoti Bima Yojna to mothers and sisters of our country. Think about it, we should gift such a present to our sisters, which really provides her security in future. Not only that, we may be having in our homes a lady making food for us or a lady who cleans our house, a daughter of an impoverished mother! To them also, you can gift Pradhan Mantri Suraksha Bima Yojna or Jeevan Jyoti Bima Yojna on this festival of Raksha Bandhan. And this is what social security in reality is all about; this is the true meaning of Raksha Bandhan.
My dear countrymen there are many among us who were born after independence. And I am the first Prime Minister of this nation who was born in free India. ‘Quit India movement’ started on 8th august, and this year would be the 75th year of ‘Quit Hind -Quit Bharat” and on 15th august, it would be 70th year of our independence. We are enjoying our independence and are proud to be free citizens, but this is an occasion to remember those who sacrificed their all for winning our independence. The 75th year of Quit India and 70th year of Independence can be source of new inspiration, source of new enthusiasm and an occasion to take a pledge to do something for our nation. The whole nation should be imbued with the spirit of those great patriots and we should once again experience anew the fragrance of freedom. Let us all create such an atmosphere. Independence Day should not be a government event, it should be the celebration of the entire people. Just like Diwali, it should be our own festival. I hope that you too become inspired with the spirit of patriotism and do something good in that vein. Do send a picture of it on ‘Narendra Modi app. Let us create such an atmosphere in the nation.
Dear countrymen, I have the good fortune to talk to the nation from ramparts of Red Fort on 15thAugust, it is a tradition. You too must be having certain thoughts that you wish were proclaimed from Red Fort. I invite you to write to me about your thoughts that I, as your representative, as your Pradhan Sevak should talk about from the Red Fort. Send me suggestions, your advice and new thoughts, I will try to convey your thoughts to rest of the countrymen. I do not wish that whatever I speak from the ramparts of Red Fort should just be the opinion of the Prime Minister; it should be the collective voice of 125 crores countrymen. Do send me something, either on ‘Narendra Modi app’ or on MYGOV.IN. Today the platforms of technology are such that your message can reach me very easily. I invite you once again, come, let us remember and salute our great freedom fighters, who sacrificed their lives for India and let us move ahead with the pledge to do something for our nation. My best wishes to you all and many thanks.
My dear countrymen, Namaskar!
Early this morning, I had an opportunity to spend some time with some young people from Delhi. And I believe, in the days to come, the spirit and fervor of sports will envelop every young person in the country. All of us know that in a few days time, the world’s largest sports event, the biggest sports carnival will take place. RIO is going to resound in our ears time and again. The entire world will be at play… every country in the world will keep a close watch on the performance of its sportspersons; you too will be doing the same. All of us harbour a lot of hopes and expectations, but keeping the morale of our sports contingent at RIO high is also the solemn duty of us 1.25 billion countrymen. In Delhi this morning, the Government of India had organised a very good event, ‘Run for RIO’, ‘Play and Live’, ‘Play and Blossom’. In the days to come, wherever we are, let us do our bit to encourage our sportspersons. A sportsperson, who makes it to this stage, does so after putting in a lot of hard work. It’s a kind of severe and dedicated ‘tapasya’. However much one cherishes all kinds of food, one has to sacrifice that. However much one would like to snuggle up in warmth during a harsh winter, one has to just get up and leave for the track and field. And this happens not just to the players. Even their parents leave no stone unturned for the sake of their children. Sportsperson are not made overnight; it takes long and sustained perseverance to attain that stature. Victory and defeat are certainly important, but what is even more important is reaching this level in a game or sports discipline and, therefore, let all of us Indians join hands in wishing our RIO contingent the very best. I’m also ready to do this on your behalf; the prime minister of the country is ready to be a postman to convey your good wishes to these players. Do send your best wishes to our sportspersons in Rio on the ‘NarendraModi App’. I’ll convey these to our contingent. Just like 1.25 billion Indians I too as a citizen would like to join you in encouraging them, cheering them up. Come, over the next few days, let us try to the fullest extent possible to make each one of our sportspersons feel proud, to reward them for their endeavours and exertions; and today, as I speak on the Rio Olympics, I would like to mention the name of a poetry lover, Suraj Prakash Upadhyay a student of the Punjab Central University, who has sent me a poem. It’s possible that many poets would have written poems, some may be planning to write, some may even compose their verses into songs, in all languages. But here I would like to share with you the poem sent by Suraj Ji.
”The games bugle’s been sounded
The festivities of competitions
In this mega sporting odyssey
Amidst the melodious chimes of RIO
May India commence on a grand note
May it rain gold, silver and bronze!
May India commence on a grand note
May it rain gold, silver and bronze!
May the turn be ours also this time
May we be amply prepared this time
Set your sight straight at the Gold
But let a loss not deject you
You are a hero to a billion hearts
You are the heartbeat of your sport
March ahead and set records
Let our tricolour flutter with pride in RIO
Let our tricolour flutter with pride in RIO.
Suraj Ji, I dedicate your sentiments to all our sportspersons and extend to them the warmest and heartiest wishes from my side and on behalf of us 1.25 billion countrymen, that our tricolour indeed flutters with joy and pride in the skies of RIO.
A young man Mr. Ankit has reminded me of the death anniversary of President Abdul Kalamji, which was observed last week. The country, in fact the world paid glowing tributes to him. The mere mention of Abdul Kalamji’s name brings to mind vivid images of science, technology, missiles – in fact the entire spectrum of strengths and capabilities of India in the days to come. And that’s why Ankit asks me… What is your government doing to ensure that Abdul Kalamji’s dreams come true? You are right. The future is going to be technology driven. And technology is extremely dynamic. Day by day, technology keeps updating, changes form, transforms its impact. You cannot shackle technology. If you strive to hold it still, it would move beyond your grasp assuming new looks and forms. If we have to match its strides and move ahead, research and innovation are the keys, these are its lifelines and moving spirit. In the absence of research and innovation, technology will become a burden, just as still water stagnates and even stinks. And if we go on just using old technology without recourse to research and innovation, we will become outdated in this rapidly changing world and age. And that is why the government too has taken steps to attract the new generation toward science and research & innovation in the field of technology. And that is why I say ‘let us aim to innovate’. And when I say “let us aim to innovate’ my AIM stands for “Atal Innovation Mission’. This Mission is being promoted by the Niti Aayog. The purpose is to create an eco-system in the entire country through the Atal Innovation Mission, to forge a vibrant chain of innovation, experiment and entrepreneurship, which would also enhance the possibilities of new employment generation. If we have to develop the next generation innovators, we shall have to link our children with it. And that is why the Government of India has taken the initiative of ‘Atal Tinkering Labs’. Wherever such Tinkering Labs are established in schools, those would be given 10 Lakh rupees and further 10 Lakh rupees will be provided for maintenance during the period of five years. Similarly, innovations are directly connected to Incubation Centres. If we have strong and well-equipped Incubation Centres, a system comes into place for innovations, for start-ups, for experimentation and to bring these efforts to a certain level. Creation of new Incubation Centres is essential just as it is necessary to strengthen the older Incubation Centres. And when I talk of Atal Incubation Centres, the government has considered allocating the huge sum of 10 crore rupees for this also. India is grappling with diverse challenges. We see problems in daily life. We shall now have to look for technological solutions for these. Through the ‘Atal Grand Challenges’ we have exhorted the young generation of the country that if they see problems, they should search for solutions taking the path of technology, doing research, applying innovations and bring those on board. The Government of India wants to specially reward technology developed to find solutions to our problems. And I am happy that people have evinced interest in these things. When we spoke of Tinkering Labs, about 13 thousand schools applied and when we talked of Incubation Centres, over four thousand academic and non-academic institutions came forward. I firmly believe that the real tribute to Abdul Kalamji will consist of harnessing research and innovation for developing technology to find solutions to problems we face in day to day life, and ridding us of the difficulties we face to make things easier for us all. The more the new generation devotes itself to this task, the greater will be their contribution with immense significance for the modern India of the 21st century. That will be the real tribute to Abdul Kalamji.
My dear countrymen, while some time ago, we were concerned about a drought like situation, these days, on the one hand, we are enjoying the rains, but on the other, reports of floods are also coming in. Central government and State Governments are working hand in hand with their utmost efforts to provide relief and assistance to the flood-affected. Despite causing some hardships, rains make every human heart rejoice since rains, and agriculture, are the focal point of our entire sphere of economic activities.
There are times when one has to face an illness that leaves a scar for a lifetime. But if we are aware, alert and active, the prevention is also very easy. Take the case of Dengue. It is preventable. Pay attention to cleanliness, be alert, try and be safe and take special care of children. And the mindset that such diseases strike poor neighborhoods only, is not valid in the case of Dengue. Dengue first enters affluent localities and we should try and understand it. You must be watching advertisements on TV but there are times when we neglect taking proactive and informed action on it. The government, hospitals, doctors will of course do their job, but I urge that we should also be alert in ensuring that Dengue doesn’t enter our homes, locality, family, for that matter, any illness connected with stagnant water.
I would like to draw the attention of my dear countrymen to another menace. In today’s fast paced, rat race of life, at times we don’t have time to think about ourselves. When we fall sick, we want to get well as soon as possible and as a result pop in just any antibiotic that we can lay our hands on. It may give you instant relief, but my dear countrymen, this random pill popping habit can land you in deep trouble. It may give you temporary succor, but we should completely stop taking antibiotics without the advice of a doctor. Avoid it till a doctor gives you a prescription. Do not use the short cut method; it can lead to serious complications. Although random and rampant use of antibiotics gives immediate relief to the patient, but gradually the disease causing bacteria get accustomed to that drug. The drug then loses its efficacy and one has to fight the battle anew, develop new medicines, do new research; it takes years and till then these diseases create other complications. That’s why we have to be very aware about that. One more problem has presented itself. Suppose the doctor advises that brother, take this antibiotic and he tells that 15 tablets of that to be taken over a period of five days. I urge you to complete the entire course of medication as prescribed by the doctor. Because if the treatment is abandoned halfway, it would benefit the bacteria. If the medicine is taken more than what is required, that too would be in the favour of the bacteria. And that is why, it is utmost essential to take the entire course of antibiotic medicine in terms of number of tablets as well as days. If we leave the treatment halfway due to improvement in our condition, we are only helping that bacteria getting more sturdy and difficult to treat. Microbes spreading TB and malaria are bringing about rapid mutations in themselves, rendering medicines ineffective. In medical parlance it is called antibiotic resistance. Hence it is indeed necessary to follow rules in the administration of antibiotics. The government is committed to prevent antibiotic resistance. You must have seen, these days, on the antibiotic medicine strips there is a red line to make you aware. You must pay attention to that.
While we are on the subject of health, I would like to talk about one more issue. I feel very concerned about the lives of pregnant women of our country. In our country, close to 3 crore women become pregnant every year but some of these mothers die during childbirth. Sometimes the mother loses her life, at times the infant does. There are times when both die. It is true that in the last decade there has been a decline in maternal mortality rates but even now, we are not able to save the lives of a large number of pregnant women. Anemia during or after pregnancy, pregnancy related infections, high BP, any such complication can have devastating effect. Keeping in view these issues, in the last few months, the Government of India has launched a new campaign ‘Prime Minister Safe Motherhood Campaign’. Under this, on the 9th of every month, all pregnant women will get a check-up at government health centers free of cost. I urge all poor families to ensure that all pregnant women avail of this benefit on the 9th of every month, so that if by the time they reach the 9th month any complication arises, it can be dealt with suitably in time and the lives of both mother and child can be saved. I have specially asked the gynecologists whether they could offer their services free on the 9th of every month, for the sake of under privileged mothers! Can’t my doctor brothers and sisters spare just 12 days in a year for this service to the under privileged? Over the last few days, many have written to me. There are thousands of doctors who have implemented what I said. But India is such a vast country. We need lakhs of doctors to join this campaign. I do believe that you will indeed do so.
My dear countrymen, today, the whole world is concerned deeply about climate change, global warming and the environment. These are discussed collectively in the country and across the world. In India, this has been accorded great importance for centuries. In the battlefield of Kurukshetra too, Bhagwan Shri Krishna talks of trees. Showing concern towards trees even in the midst of a battle, underlines how much importance was attached to trees. In the Gita, Bhagwan Shri Krishna says, ‘ashwatth sarvvrikshanam’ which means amongst all trees, I am the Peepal Tree. It is proclaimed in Shukracharya Neeti that ‘naastimulam anaushadham’ meaning that there is no plant that does not have medicinal values; the Anushasan Parv of the Mahabharta elaborates this concept at greater length. It is stated in the Anushasan Parv that whosoever plants a tree begets an offspring in the form of that tree. There can be no doubt about this fact. He who donates a tree, that tree in return becomes a ladder to salvation just like children. Therefore it is appropriate that parents desiring their well-being should plant tree and rear them like their own children.
Our scriptures like Gita, Shukracharya Niti and Anushasan Parv of the Mahabharta contain such lofty ideals. However, there are certain individuals in the present generation also, who live up to these ideals. A few days ago, I came across a mention of Sonal, a young daughter from Pune. It touched my heart. It is mentioned in Anushasan Parv in Mahabharata that a tree is like an offspring and becomes means of salvation in after life, Sonal has not only taken it upon herself to fulfill her parents’ wishes but society’s expectations also. Shri Khandu Maruti Mhatre, a farmer of Narayanpur village of of Junner Taluka of Pune got his granddaughter Sonal married in a very inspiring manner. What did Mhatre Ji do in Sonal’s marriage? He gifted all his relatives, guests and friends with a sapling of ‘Kesar’ variety of mango. I saw a picture of this marriage in social media. I was surprised to see that in the marriage festivities, instead of members of the wedding party, saplings were more visible! That picture really touches one’s heart. I think that Sonal, who herself is an agriculture graduate, came upon this idea. And to present Mango saplings in the marriage, just think, reflects the love for nature in a brilliant manner. In a way, Sonal’s marriage in an everlasting story of love for nature, I congratulate Sonal and Shriman Mhatre Ji for this innovative effort. And such experiments are done by many people. I remember, when I was the Chief Minister of Gujarat – the temple of Ambaji there is visited in the month of Bhadrapad by lakhs of devotees travelling by foot. A certain NGO decided to distribute saplings as ‘Prasad’ to the devotees, and the devotees were told that Mata Ambaji will keep on showering her grace, if they took care of the saplings, till their maturity into trees in their homes and villages. And lakhs of such saplings were distributed to the devotees traveling on foot to Ambaji temple that year. Other temples too can start the practice of distributing saplings instead of ‘prasad’ during this rainy season. It can easily grow into a people’s movement for planting trees. I repeatedly tell my farmer brethren that instead of wasting our land in building fences around our fields, why don’t we start planting timber trees there. Today India has to spend billions and trillions of rupees to import timber wood from abroad for construction of houses and furniture. If we plant on the boundaries of our fields timber trees that can be utilised for construction of homes and furniture and which can also be cut and sold after 15 to 20 years with the permission of the government. This way, not only can these become a new source of your income, but can also save India from importing timber.
Some days ago, a few states taking advantage of this weather have started many campaigns in this direction and the Government of India has also passed CAMPA law, under which about 40 thousand crores rupees will go to the states for planting trees. I have been told that the Maharashtra government planted about 2 crores sapling in the entire state on 1st July and next year they have taken a pledge to plant about 3 crores trees. The Maharashtra government has transformed this activity into a people’s movement. Rajasthan, desert area, has celebrated Van Mahotsav in a very big way and pledged to plant 25 lakhs trees. To plant 25 lakhs of sapling in Rajasthan is not a small matter! Those who know the soil conditions of Rajasthan would know how mammoth this task is going to be. Andhra Pradesh, too has decided to increase its green cover by 50% by the year 2029. Under the central government’s ongoing ‘Green India Mission’, Railways too have joined in this endeavour. Gujarat too has an illustrious tradition of observing Van Mahotsav. This year Gujarat has undertaken many projects like ‘Aamra Van’, ‘Ekata Van’ and ‘Shaheed Van’ as a part of Van Mahotsav and launched a campaign to plant crores of trees. I am not able to mention every state but all deserve to be appreciated.
My dear countrymen, I had the opportunity to visit South Africa for the first time some time back. During a foreign visit, diplomacy is practiced, there are trade deliberations, discussions about security and as is customary, many MoUs are concluded. But for me the visit to South Africa was more like a pilgrimage. When we think of South Africa, it is very natural to remember Mahatma Gandhi and Nelson Mandela. Whenever we hear the words – non-violence, love and forgiveness, the inspiring faces of Gandhi and Mandela appear before us. During my South Africa tour, I visited Phoenix settlement where Mahatma Gandhi’s home is known as ‘Sarvodaya’. I also had the good fortune of traveling from Pietermaritzburg station in the train in which Mahatma Gandhi had travelled, and which was the site of the incidence that sowed the seed of the transformation of a Mohandas into Mahatma Gandhi. But what I want to tell you is the fact that this time I had an opportunity to meet those great men who had devoted their young lives for society fighting shoulder to shoulder with Nelson Mandela for the ideals of equality and equal opportunity; who had spent 20 to 22 years of their lives in prison with Nelson Mandela, effectively sacrificing the entire period of their youth for the society. I had the privilege of meeting these grat personalities, these close associates of Nelson Mandela such as Shriman Ahmed Kathrada, Shriman Laloo Chiba, Shriman George Bizos and Ronnie Kasrils. All were Indian by origin but dedicated themselves to wherever they settled and decided to offer their lives for those amidst whom they lived. So much strength they had! And the greatest thing was that while I was talking to them and listening about the experiences of their imprisonment, they had no bitterness or ill will for anyone. There was not a single trace of desire, to get something, to become somebody even after living such a great life of ‘Tapasaya’. The essence of performing one’s duty as explained in Gita was embodied in their persona. I will remember that meeting forever. Equality and equal opportunity are the two biggest ‘mantras’ for any society and government. Equality and equal opportunity, compassion and fraternity, these are the paths leading us to a bright future. We all want a good future for our children. Everybody has different needs and different priorities but there is one common path of development, equality, compassion and fraternity. Come, let us be proud about these Indians who have lived their lives in South Africa embodying our highest and fundamental ideals.
My dear countrymen, I have received a message from Shilpi Varma, to whom I am grateful. Her concern is very genuine. She has made me aware of an incident: –
“Pradhan Mantri Ji, I am Shilpi Varma speaking from Bengaluru. Some days ago, I read in a news article that a lady became a victim of fraud and cheat email, lost 11 lakh rupees and committed suicide. Being a woman, I feel an empathy with her family. What is your opinion about such cheat and fraud emails.”
She has pointed a certain incident, and you must also be aware that we get messages on our mobile phones and emails, proclaiming attractive offers that you have won a jackpot of so many rupees; if you pay a certain amount then you become eligible for the greater amount. People get duped by this money trap. These are new methods of technology that are spreading in the entire world for cheating people. And just as technology plays an increasingly bigger role in our economic system, it also invites those who misuse it. A retired gentlemen, who not only had to get his daughter married but also to build his home, one day he received an SMS, that there was a gift that had arrived from abroad and could be obtained if he deposited 2 lakh rupees as custom duty in a bank account and this gentlemen without giving any thought took out 2 lakh rupees from his hard earned life savings and sent it to some stranger. That too on the strength of just an SMS! And in very little time, he understood that he had been looted! You too must be getting similarly confused sometimes! These people write a letter in such style that it seems perfect. They use fake letter pads while sending these letters. They obtain your credit card number and debit card number and empty your bank account through technology. And this new means of fraud is digital fraud. I believe that we must be aware against such lure, must remain cautious and if such false communications come to our notice, then we must share them with our friends and make them aware also. Shilpi Varma has brought this important thing to my notice, which although even you must have encountered, but may be you did not take it that seriously, but I feel there is need to look at it seriously.
My dear countrymen these days, the Parliament Session is going on, and during the Parliament Session, I get to meet many people from across our nation. Our MPs also bring people from their constituencies and introduce them to me; they tell me many things, their difficulties also. But recently I had a pleasant experience, real pleasant experience! Student from Aligarh had come to meet me. You should have seen the enthusiasm of those boys and girls. They had brought a big photo album with them and their faces were lit with joy. They showed me the pictures of how they had beautified the Aligarh railway station! These were artistic painting done on the station. What is more, they had searched for and collected the plastic bottles and oil cans lying in the garbage in the villages and by filling those with soil and planting saplings, they have transformed those pots into a vertical garden. And by creating this vertical garden on the site of railway station, they have given it a new look. If you go to Aligarh, do visit the railway station. I am receiving news from many railway stations in the country where the local populace has taken to depicting on the walls of the railway stations, their area’s identity, through means of their arts. They have brought about a refreshing feeling. This is a prime example of the great transformation, which can be brought about through people’s participation. I felicitate all such citizens involved in these kinds of activities and especially congratulate friends from Aligarh.
My dear countrymen, with the onset of rainy season, there is also an onset of festival season in our country. There would be fairs everywhere, festivities would be observed in temples and places of worship. You too will become a participant at home and outside during the festive celebrations. The festival of Raksha Bandhan is a festival of special significance. Just like last year, can’t you gift on the occasion of Raksha Bandhan Pradhan Mantri Suraksha Bima Yojna or Jeevan Jyoti Bima Yojna to mothers and sisters of our country. Think about it, we should gift such a present to our sisters, which really provides her security in future. Not only that, we may be having in our homes a lady making food for us or a lady who cleans our house, a daughter of an impoverished mother! To them also, you can gift Pradhan Mantri Suraksha Bima Yojna or Jeevan Jyoti Bima Yojna on this festival of Raksha Bandhan. And this is what social security in reality is all about; this is the true meaning of Raksha Bandhan.
My dear countrymen there are many among us who were born after independence. And I am the first Prime Minister of this nation who was born in free India. ‘Quit India movement’ started on 8th august, and this year would be the 75th year of ‘Quit Hind -Quit Bharat” and on 15th august, it would be 70th year of our independence. We are enjoying our independence and are proud to be free citizens, but this is an occasion to remember those who sacrificed their all for winning our independence. The 75th year of Quit India and 70th year of Independence can be source of new inspiration, source of new enthusiasm and an occasion to take a pledge to do something for our nation. The whole nation should be imbued with the spirit of those great patriots and we should once again experience anew the fragrance of freedom. Let us all create such an atmosphere. Independence Day should not be a government event, it should be the celebration of the entire people. Just like Diwali, it should be our own festival. I hope that you too become inspired with the spirit of patriotism and do something good in that vein. Do send a picture of it on ‘Narendra Modi app. Let us create such an atmosphere in the nation.
Dear countrymen, I have the good fortune to talk to the nation from ramparts of Red Fort on 15thAugust, it is a tradition. You too must be having certain thoughts that you wish were proclaimed from Red Fort. I invite you to write to me about your thoughts that I, as your representative, as your Pradhan Sevak should talk about from the Red Fort. Send me suggestions, your advice and new thoughts, I will try to convey your thoughts to rest of the countrymen. I do not wish that whatever I speak from the ramparts of Red Fort should just be the opinion of the Prime Minister; it should be the collective voice of 125 crores countrymen. Do send me something, either on ‘Narendra Modi app’ or on MYGOV.IN. Today the platforms of technology are such that your message can reach me very easily. I invite you once again, come, let us remember and salute our great freedom fighters, who sacrificed their lives for India and let us move ahead with the pledge to do something for our nation. My best wishes to you all and many thanks.
My dear countrymen, namaskar!
Once again I have got an opportunity to talk to you about matters close to my heart, through ‘Mann Ki Baat’. For me, ‘Mann Ki Baat’ is not a matter of ritual; I myself am very eager to talk to you. And I am really happy that I am able to connect with you all in every corner of India, through this programme ‘Mann Ki Baat’. I am grateful to All India Radio that they have also been successfully broadcasting ‘Mann Ki Baat’ in regional languages at 8 pm. I am also very happy that the people who listen to me, later communicate their feelings to me through letters, telephone calls, the website MyGov.in and also through the NarendraModiApp. A lot of what you say is of great help to me in the functioning of the government. How active should the government be in terms of public service? How much priority should be given to public welfare activities? In terms of these matters, this dialogue, this link that I have with you all, is of great use. I hope that you will now be even more actively and enthusiastically involved in ensuring that our democracy should function with people’s participation.
The summer heat is increasing day by day. We were hoping for some respite, instead we are experiencing continual rise in temperature. And in the midst of this came the information that the monsoon will perhaps be delayed by a week, which has added to the worry. Almost the entire country is reeling under the scorching impact of severe heat. The mercury continues to soar. Be it animals, birds or humans…everyone is suffering. These problems have been getting increasingly worse due to environmental degradation. Forest cover has kept receding due to indiscriminate felling of trees. In a way, the human race itself has paved the way for self-annihilation by destroying the environment.
5th June is World Environment Day. On this day, discussions expressing concern on the issue are held all over the world for saving the environment. This time on the occasion of World Environment Day, the United Nations has given the theme “Zero Tolerance for Illegal Wildlife Trade”. This topic will, of course, be discussed, but we also must talk about saving our flora and fauna, conserving water, and how to expand our forest cover. You must have seen in the last few days how forest fires raged in the lap of the Himalayas in Uttarakhand, Himachal Pradesh and Jammu and Kashmir. The main cause of these forest fires was dry leaf littering combined with carelessness, which led to the massive inferno. And so, it becomes the bounden duty of each one of us, to save forests and save water.
Recently, I convered at length with the Chief Ministers of eleven states, reeling under severe drought- Uttar Pradesh, Rajasthan, Gujarat, Maharashtra, Madhya Pradesh, Chhattisgarh, Jharkhand, Karnataka, Andhra Pradesh, Telangana and, Odisha.
As per the conventional Government precedent, I could have had a combined meeting with all the drought affected states, but I chose not to do so. I had a one-on-one meeting with each state, devoting about two to two and a half hours with each one. I carefully heard what each state had to say. Usually such talks do not go beyond discussion on how much money was granted by the Central Government state-wise, and how much money was actually spent by each state. Thus, it came as a surprise even to the officers of the Central Government that some states have indeed made some very commendable efforts related to water, environment, tackling drought, caring for animals as well as affected human beings. Based on inputs from all corners of the country, irrespective of the ruling party there, we found that we had to give a thought to finding not only permanent solutions but also devising practical ways and means to deal with this long-standing problem. In a way, It was a kind of a learning experience too for me. And I have told the Niti Aayog that they should work on how to incorporate the best practices across all the states.
Some states, especially Gujarat and Andhra Pradesh have made full use of technology. I would like that in future, through the Niti Aayog, the exceptionally successful efforts of these states should be applied to other states also. People’s participation is a strong base for solving such problems. And for this, I believe that if there is a confluence of perfect planning, use of appropriate technology, and time-bound action, then we can achieve optimum results in drought management, for water conservation, to save every single drop of water. My faith is that water is a Gift from God. When we go to a temple, we are given an offering of Prasad and even if a small bit of that spills, we feel bad in our hearts. We not only pick it up but also pray five times for God’s forgiveness. Water is also an offering form the God. Even if a drop of water is wasted, then we should feel remorse and pain. And so water storage, water conservation and proper water irrigation are all of equal importance. And so there is need for implementing the maxim ‘Per Drop More Crop’ through Micro-Irrigation and cultivating crops that require minimal water intake. At present, it is indeed good news that in many states, even sugarcane farmers are using micro irrigation, some are using drip irrigation and some are using sprinklers. When I discussed with the eleven states, I noticed that even for cultivating paddy for production of rice, some of them had employed drip irrigation successfully and got higher yields, thereby also reducing the requirement for water as well as for labour. I also found that there were many states which had taken on very big targets, especially, Maharashtra, Andhra Pradesh and Gujarat- these three states have done massive work in the field of drip irrigation. And they are striving to bring every year 2 to 3 lakh hectares additional land under micro- irrigation. If this campaign gets underway in all the states, then not only will it benefit cultivation, but more water will also be conserved. Our farmer brothers in Telangana, through ‘Mission Bhagirathi’ have made a commendable effort to optimally use the waters of Godavari and Krishna rivers. In Andhra Pradesh, ‘Neeru Pragati Mission’ has been using technology for ground water recharging. People are devoting hard work and contributing financially as well to the mass movement that has been started in Maharashtra,. ‘Jal Yukt Shivir’ is one such people’s movement which is really going to be of great help in saving Maharashtra from water crisis in the future- this is what I feel. Chhattisgarh has started the ‘Lok-Suraj, Jal-Suraj’ campaign. Madhya Pradesh has started the ‘Balram Talaab Yojana’- and dug nearly 22,000 ponds, which is no small figure, work is also being carried out on their ‘Kapil Dhara Koop Yojana.’ In Uttar Pradesh there is ‘Mukhya Mantri Jal Bachao Abhiyaan’. In Karnataka water conservation efforts are in the form of ‘Kalyani Yojana’, under which they are trying to revive wells once again. In Rajasthan and Gujarat there are many ancient baodis – deep tanks or masonry wells with steps going down to the water. These states are making a very big effort to revive these as ‘water temples’. Rajasthan has started the Chief Minister’s Jal Swawalamban Abhiyan – Water Self Sufficiency Campaign. Jharkhand, although being a predominantly forest area, still has some parts which face water problem. They have launched a very big campaign for building ‘Check Dams’. They have started an exercise to check and stop the flow of water. Some states have started a campaign and made a number of small dams at distances of 10 to 20 kilometres in the rivers themselves to check the flow of water.
This is a wonderful experience. I urge the people of India that during this June, July, August September, we should resolve that we shall not let a single drop of water be wasted. We should decide right now upon the places where we can conserve water and where we can check the flow of water. The Almighty blesses us with water according to our needs, nature fulfils our needs. But if we become careless during the abundance of water and then during the lean water season land into trouble due to water scarcity, how can this be allowed? And the issue of water is not just for the farmers. This concerns everybody – the villages, the poor, the labourers, the farmers, the urban people, the country folk, the rich and the poor. And for this reason, now that the rainy season is approaching, saving water should be our priority. And when we celebrate Diwali this time, then we should also revel in how much water did we save; how much water we stopped from flowing out. You will see for yourselves that our joy will increase manifold. Water has this power, no matter how tired one is, just a bit of water splashed on the face makes one feel so refreshed. No matter how tired we are; when we see a large lake or an ocean, how magnificent that sight is. What a priceless treasure it is bestowed upon us by the Almighty! Just connect to it with your heart. Conserve it! We should harvest water. We should also store water. We should also modernise water irrigation. This I say as an earnest appeal. We should not let this season go waste. The coming four months should be transformed into a Save the Water Campaign, to save every drop of water. And this is not just for the governments, not just for the politicians, it is a work to be carried out by the people at large. Recently the Media reported about the water crisis in great detail. I hope that the Media will show the path to the people on how to save water, start a campaign, and also share the responsibility to free us from the water crisis forever; I invite then as well.
My dear Countrymen, we have to build a modern India. We have to make a transparent India. We have to make many services uniformly available across the entire country from one corner to another. So we will have to change some of our old habits as well. Today I want to touch upon one topic in which if you can be of help to me, then we can together achieve progress in that direction. We all know and we were taught about it in school that there was a time when there were no coins, no currency notes; there was a barter system. If you wanted vegetables you could give wheat in return. If you wanted salt, you could give vegetables in exchange. Business was carried out only through the barter system. Then gradually came currency, coins came, notes came. But now times have changed. The whole world is moving towards a cashless society. Through the facility of electronic technology, we can get money and also give money; we can buy things and pay our bills too. And with this there is no question of our wallets getting stolen from our pocket. We need not worry about keeping an account; the account will be maintained automatically. In the beginning it may appear to be a bit difficult, but once we get used to it, then this arrangement will seem very easy for us. And this possibility is there because under the Pradhan Mantri Jan Dhan Yojana that we have started recently, nearly all the families in the country have had their bank accounts opened. On the other hand, they have also got their Aadhar numbers. And the mobile phone has reached the hands of almost every Indian. So Jan Dhan, Aadhar and Mobile – Jam – J. A. M. Synchronising these three, we can move ahead towards a cashless society. You must have seen that along with the Jan Dhan account people have been given a RuPay card. In the coming days this card is going to be useful as both- a credit and a debit card. And now-a-days a very small instrument has come which is called ‘point of sale’- P. O. S. – ‘Pos’. With the help of that, be it your Aadhar number or your RuPay card, if you have to pay money to someone, you can do it through that. There is no need to take out any money from your pocket and count it; there is no need to carry around any cash with you. One of the initiatives in this regard taken by the Government of India is about how to make payments through ‘Pos’, how to receive money. The second endeavour we have started is Bank on Mobile. The ‘Universal Payment Interface’ banking transaction- UPI will change the way things work. It will become very easy to do money transactions through your mobile phone. And I’m happy to tell you that the N.P.C.I. and banks are working together to launch this platform through a mobile app. If this happens, perhaps you may not even need to carry a RuPay card with you.
Across the country, nearly 1.25 lakh young people have been recruited as banking correspondents. In a way we have worked towards providing the bank at your door step. Post offices have also been geared up for banking services. If we learn and adapt ourselves to use these services, then we will not require the currency, we will not need notes, we will not need coins. Businesses will function automatically, resulting in a certain transparency. Under-hand dealings will stop; the influence of black money will be reduced. So I appeal to my countrymen, that we should at least make a beginning. Once we start, we will move ahead with great ease. Twenty years ago who would have thought that so many mobiles would be in our hands. Slowly we cultivated a habit and now we can’t do without those. Maybe this cashless society assumes a similar form. But the sooner this happens, the better it will be.
My dear countrymen, whenever the Olympic games come around, and when these begin, we sit and clutch our heads and sigh, “we were left so far behind in the tally of gold medals… did we get a silver or not… should we do with just a bronze or not…” This happens. It is true that in the field of sports we face a lot of challenges. But an atmosphere for sports should be created in the country.
To encourage the sportspersons who are leaving for the Rio Olympics, to boost their morale, everyone should try in one’s own way. Someone could write a song, someone could draw cartoons, someone could send messages with good wishes, somebody could cheer a particular sport, but on the whole a very positive environment should be created in the entire country for these sportspersons. Whatever may be the result, a game is a game, one can win or lose, medals are won sometimes and sometimes not; our spirits should always soar high. And as I speak, I would like to mention our Sports Minister Shri Sarbanand Sonowal for a gesture that has touched my heart. Last week all of us were busy in the ups & downs of Assam election results. Shri Sarbanandji himself was leading the campaign. He was the Chief Ministerial candidate; but he was also the Union Minister. And I was very happy when I came to know that one day before the Assam election results, he discreetly reached Patiala in Punjab. You must be aware of the Netaji Subhash National Institute of Sports- N.I.S. – where the sportspersons going for the Olympics are trained. They all are there. He suddenly reached there, much to the surprise of the sportspersons. And it was a matter of surprise for the world of sports as well, that a Minister personally cares for our sportspersons. What are the arrangements for them? How is the food? Are they getting nutritious food according to their needs or not? Are the appropriate trainers for their body fitness present there? Are all the training machines functioning properly? He surveyed everything in great detail. He personally inspected each and every sportsperson’s room. He spoke to all the players in great detail. He had a word with the management and trainers; he himself ate with the sportspersons. With election results being due, with the distinct possibility of a new responsibility as a Chief Minister, and yet if one of my colleagues, in the capacity of a Sports Minister, displays such concern for his work, then it gives me great joy. And I am confident that like this, we should all realize the importance of sports, we should encourage the people in the world of sports, encourage our sportspersons. This becomes a source of strength in itself, when the sportsperson feels that his 125 crore countrymen are with him, his morale gets boosted.
Last time I spoke to you about the FIFA Under 17 World Cup and recently I got to see the suggestions that have come pouring in. And these days I have noticed that a conducive atmosphere for Football can be seen in the whole country. Many people are taking an initiative to form their own teams. I have received thousands of suggestions on the NarendraModi Mobile App. Maybe many people don’t play the game themselves, but hundreds of thousands of young Indians have displayed such keen interest in the sport, this by itself was a very delightful experience for me. We all know the bond that India has with Cricket, but I saw the same passion for Football as well, and this by itself heralds a very positive signal for the future. For all the selected candidates for the Rio Olympics, and for our favourite sportspersons, we should create a cheerful and positive atmosphere. We should not judge everything in terms of victory and defeat. India should be known in the world for its spirit of sportsmanship. I appeal to my countrymen to contribute their bit in creating an atmosphere that boosts the spirits and enthusiasm of our athletes.
In the last week or so, results have been pouring in from all over the country…. and I am not talking about election results… I am talking about those students who slogged for the entire year, those of 10th and 12th Class. It is clear that our daughters are marching ahead triumphantly. It is a matter of joy. To those who have succeeded in these exams, I extend my congratulations and felicitations. And those who were not able to succeed, I would like to tell them once again that there is a lot to do in life. Life does not get stuck if we do not get results according to our expectations. We should live with hope, we should move ahead with confidence.
But I have been confronted with a new type of question, about which earlier I had never given a thought. I’ve received one email on MyGov.in site, which drew my attention. One Mr. Gaurav, Gaurav Patel of Madhya Pradesh writes that in the M.P. Board exam he has secured 89.33% marks. Reading this I felt elated. But in his continued narration, he tells us his tale of woes. Gaurav Patel says that Sir, afte securing 89.33% marks when I reached home, I was thinking that I would be congratulated by my family and friends, I would be applauded. But I was amazed when everybody in the house, friends and my teachers said the same thing, “Oh Dear, if your had secured just 4 more marks, you would have made it to 90%”. So it seems that my family, my friends, my teachers, nobody was pleased with my 89.33% marks. Everyone was lamenting that I missed my 90% by four marks. Now I’m perplexed and don’t know how to handle the situation. Is this all to life. Was what I did not good enough? Did I not prove myself? I don’t know but I feel a burden on my heart and mind.
Gaurav, I have read your letter very carefully. And I feel that perhaps this pain is not just yours; like you there are many lakhs and crores of other students who share the same pain. Because nowadays there is a trend that instead of finding satisfaction in what we have achieved, we tend to express our dissatisfaction in not achieving unrealistic goals. This is another form of negativity. We can never guide society towards the path of satisfaction if we always find dissatisfaction in everything. It would have been better if your family members, your class mates and your friends had appreciated your 89.33%. Then you would have felt motivated enough to do a lot more. I would like to urge guardians, parents and people all around, to please accept, welcome and express your satisfaction over your children’s results, and motivate them to surge ahead in life. Else, it might happen that a day will come when he brings 100% marks and you will say that, “you have got 100 percent! But still, had you done something more, it would have been better!” There is a limit to everything and that should be accepted.
Santosh Giri Goswami has written to me from Jodhpur something similar, almost along the same lines. He says that the people around him just don’t accept the results. They say that you should have done something better. There was a poem I had read long ago. I don’t remember the complete poem. The poet had written something like this – “I painted a picture of my anguish on the canvas of life. And when it was exhibited, almost all the visiting people commented that it needed some touching up. Someone said, ‘yellow here would have been better in place of blue.’ Someone said, ‘This line would have been better situated there instead of here.’ I wish some odd visitor had also shed a tear or two over the picture of my anguish.” I don’t remember if these were the exact words of the poem, as I read this poem way back. But nobody was able to grasp the pain depicted in that picture; everyone just spoke of touching it up.
Santosh Giriji, you have the same problem that Gaurav has. And there must be crores of students like you. You have the burden on yourself of fulfilling the expectations of millions of others. All that I would like to say to you is that in such a situation, don’t lose your balance. Everyone expresses their expectations; just keep listening, but stick to your point and make an effort to do something even better. But if you are not satisfied over what you have got, you will never be able to create something new. The strong foundation of one success becomes the foundation for another greater success. The dissatisfaction arising out of success never becomes a ladder to success; it guarantees failure. And so I would like to appeal that you should sing in celebration of the success that you have achieved. Possibilities of newer successes will arise out of success achieved earlier. I would like to appeal to parents, friends and neighbours that please don’t impose your expectations upon your children. And friends, does our life come to a standstill if we meet with failure sometimes. Sometimes one is not able to score good marks in exams, but he or she surges ahead in sports, or does well in music, or excels in the fine arts, or forges ahead in business. God has gifted each one of us with a unique talent. Please recognize your internal strength, build upon it and you will be able to march ahead. And this happens everywhere in life.
You must have heard of the musical instrument called santoor. There was a time when the santoor was associated with the folk music of the Kashmir valley. But it was Pandit Shiv Kumar (Sharma) whose magical touch transformed it into one of the prime musical instruments of the world. Shehnai once had a limited space in the world of music. It was mostly played at the threshold of the courts of emperors and kings. But Ustad Bismillah Khan’s mastery over the Shehnai made it one of the finest musical instruments in the world; it has now carved an identity of its own. And so you should stop worrying about what you have and how is that. Just concentrate on what you have and devote your utmost with that you are sure to reap handsome rewards.
My dear countrymen, sometimes I notice that the money that our poor families have to spend on their healthcare, throws their life off the track. It is true that while one has to spend little on preventing illness, the expenditure incurred on regaining health after you have fallen ill, is a lot more. Why can’t we lead life in such a way that we don’t ever fall sick and no financial burden falls upon the family. Cleanliness is one of the strongest protections from disease. The greatest service that can be rendered to the poor is by maintaining cleanliness. And the second thing that I constantly urge you to do is Yog. Some people also call it Yoga. 21st June is the International Day for Yog. People are not only attracted to Yog the world over, they have implicit faith in it and the whole world has embraced it. This is a priceless gift handed over to us by our ancestors, which we have given to the world. To the world which is filled with stress, Yog gives the power to lead a balanced life. Prevention is better than cure. A person practicing Yog, can easily have the achievements of staying healthy, maintaining balance, being richly endowed with a strong will power, nurturing supreme self confidence and to have concentration in every task one does. 21st June, International Yog Day is not just a mere event. It should spread wide, it should find a place in every person’s life. Each person should take 20-25-30 minutes out from his daily routine and spend it on practicing Yog. And for this, the International Yog day on 21st June gives us the inspiration. These collective occasions do become a reason for effecting positive change in an individual’s life. I do hope that on 21st June, wherever you may be, please take the initiative; you have a month with you. If you visit the website of the Government of India, the syllabus for this time, which ‘asanas’ you have to do, how one has to do them, all that has been described in it. Have a look at it. Do get these followed in your village, in your mohallas, in your city, in your school, in your institution, even in offices. Start it from now, one month in advance and you will be a participating partner on 21st June. I have read it several times that there are offices where on a regular basis, when they first meet in the morning, they begin with Yog and Pranayam and the efficiency of the entire office increases. The whole culture of the office gets transformed and the environment also undergoes a positive change. Can we make use of 21st June to bring Yog into our lives? Can we use it to bring Yog into our social life? Can we use it to bring Yog into our surroundings? I will be going this time to Chandigarh to participate in the programme on 21st June. I shall be doing Yog with the people of Chandigarh. You too must connect yourself with it when the whole world will be doing Yog on that day. I urge you all not to get left behind. Your staying healthy is very important to make India healthy.
My dear country men, through Mann Ki Baat, I connect with you regularly. I had given all of you a mobile number earlier, which you could use for listening to ‘Mann Ki Baat’ by giving a missed call on that number. But now we have made it a lot simpler. Now, to be able to listen to this programme, all you have to do is to dial just four digits. That four digit number is 1-9-2-2 . I repeat …One- Nine- Two -Two. By giving a missed call on this number, you will be able to listen to ‘Mann Ki Baat’ at any time, wherever you are and in any language of your choice.
My dear countrymen, Namaskar to all of you once again! Please don’t forget what I had said about water. You will remember it, won’t you? Okay! Thank You. Namaste!
My dear fellow citizens, Namaskar!
It’s summer. Everybody makes plans for their summer holidays. Since this is the season of mangoes, we crave for the flavour and taste of this fruit. Sometimes we feel a nap in the afternoon would be nice. But this year the sweltering heat has spoilt the fun for everybody.
It is quite natural for the nation to feel concerned about the unrelenting heat. On top of it, due to continuous drought over the past couple of years, the usual water storage facilities have been adversely affected. Sometimes due to encroachment, sometimes due to silting, the inflow of water into reservoirs and other water bodies gets blocked. As a result, the reservoirs store much less water than their capacity. Worse, because of this cycle that has been going on for years, the capacity itself of these reservoirs is gradually reduced. To cope with the drought and to provide relief from the water crisis, governments are making efforts. But that’s not all. I have noticed that citizens are doing commendable work to help deal with the situation. Awareness is now seen in many villages. Only those who have faced shortage of water know the real value of water. Hence, in such places they are very sensitive about water and are equally active in doing something to deal with the shortage of water.
I was recently told that in Ahmednagar district of Maharashtra, the Hivrebazaar Gram Panchayat and its villagers have addressed the problem of water shortage by treating it as a major and delicate issue. One can find many villages where there is a desire to store water. At Hivrebazaar the farmers tackled the issue by changing the cropping pattern. They have decided to give up cultivation of those crops that require a lot of water, like sugarcane and banana. It sounds very simple, but in reality it is not so. What a big collective decision this must have been? If one tells the owners of factories that consume a lot of water about the consequences of this consumption and requests them to shut down their units, one can well imagine what the response would be. But see the sensibility of these farmer brothers. When they realised that the cultivation of the sugarcane should be given up because it consumed a lot of water, they went ahead and did it. Instead of sugarcane, they have taken to such crops like fruits and vegetables that require much less water. Farmers in this village have taken so many initiatives such as using sprinklers, drip irrigation techniques, water harvesting and water recharging, that today their village is strong enough to cope with the water crisis that they face. I might be talking of a small place like Hivrebazaar, but there must be many other such villages. I extend my hearty felicitations to such villagers for their fine work.
I was told that in Devas district of Madhya Pradesh, the Gorva Gram Panchayat took up the drive to create farm ponds. They have already created 27 farm ponds. Due to this there has been an increase in the ground water level. Whenever water was required for crops, farmers had access to it. This panchayat has given a rough estimate that their agricultural production has increased by 20 per cent. Not only has water been saved, the quality of water has also vastly improved with the water level increasing. World over it is said that potable water can contributing factor for GDP growth. It certainly contributes to better health.
When the government used railways to transport water to Latur, it became news for the world. There is no doubt that the swift manner in which Indian Railways has acted is praiseworthy. But villagers who have taken various initiatives to save water also deserve equal amount of praise. Indeed, I would say they deserve greater praise. There are several such schemes and programmes that are run by citizens but these doesn’t get our attention. The good work done by the government sometimes does come to our notice. If we look around us, we will see that people are making an effort to combat the menace of drought by trying to find solutions that are new and innovative.
It is human nature that no matter how many perils people face, when they hear a good news from any corner, they feel as if the entire crisis is over. Thus ever since the day it became public knowledge that rainfall this year is expected to be between 106% and 110% it seems as if tidings of peace and happiness have come. There is still some time for the monsoon to arrive, but the news of good rains has already brought joy. At the same time we must remember that a good monsoon offers both an opportunity and a challenge. Can we start a drive to save water in every village from now on itself? Farmers need fertile soil in their fields to grow crops. This time why can’t we take the soil from the bottom of ponds for our fields? If we were to do this, the quality of the soil in our fields would improve and the capacity of ponds to store water would increase. Can we fill empty cement and fertiliser bags with pebbles and sand and use them to stop water from flowing out through breaches? If we were to stop water from draining out for five days, for seven days, it would seep into the ground and the water level would come up. There would be sufficient water in our water-wells. Thus we should strive to retain as much water as possible. The water of a village will be preserved there if we work for it in a determined manner collectively. Therefore, notwithstanding the current water scarcity and drought situation, we have an opportunity during coming one and half months to prepare to harvest rainwater.
I have always said that people who visit Porbandar, the birthplace of Mahatma Gandhi, can also see there the underground tanks constructed about 200 years ago, that were built to save rain water. Water collected in these tanks remained pure.
Mr. Kumar Krishna has asked on MyGov whether “the cleaning of Ganga will be possible while we our alive”. His concern is quite natural because it has been nearly 30 years since work began in this direction. Many governments came, plans were made to clean Ganga, and a lot of expenditure was incurred without showing results. For this reason there must be crores of Indians like Kumar Krishna who have the same question in their hearts. For those who are religiously inclined, Ganga is the path to salvation for them. I too accept this importance of Ganga. But more than that, Ganga is the giver of life. We get our daily bread from Ganga, we get our earnings from Ganga, and we get a new source of energy from Ganga to live our lives. The flow of Ganga adds momentum to the economic pace of the country. Bhagirath did bring down the river Ganga for us, but to save it, we need crores of Bhagiraths. The project to clean Ganga cannot be successful without mass participation by the people. So we all will have to become agents of change to achieve cleanliness. We shall have to continuously keep on repeating this thing. There are many efforts being made by the government. We are seeking the full cooperation of all the states through which Ganga flows. We are also trying to get voluntary organisations to join us in this effort. We have taken several steps for surface cleaning and to stop industrial pollution. Every day, effluents and garbage in a large quantity flow into Ganga through drains. At Varanasi, Allahabad, Kanpur, Patna – trash skimmers have been deployed which clean the river while floating on it. All local bodies have been given this facility and they have been urged to carry on with this work continuously and clean all the garbage from the river. I have been told a few days ago that in places where this work is being carried out properly nearly 3 to 11 tonnes of garbage are being taken out of the river every day. So it would be correct to say that pollutants in such a large quantity are being stopped from getting into the river. In the coming days, we have plans to deploy such trash skimmers at other places also and the benefits of it will be felt by the people living on the banks of Ganga and Yamuna.
To monitor and control industrial pollution, an action plan has been prepared with the pulp and paper, distillery and sugar industries, and it has also been implemented to some extent. I feel it will yield good results. I am very happy that in Uttarakhand and Uttar Pradesh, where there was discharge from distilleries, there has been a change for the better. Officers have told me that they have been successful in securing zero liquid discharge. The discharge from the pulp and paper industry or the liquor industry is almost coming to an end. All these things are a sign that we are moving in the right direction and awareness has also increased. I have seen that not just on the banks of Ganga, even in far off South if one meets a person, he is sure to ask, “ Sir, will Ganga be cleaned?” This faith and hope of the common people is going to ensure success in the cleaning of Ganga. People are even giving donations for this. Thus this effort is being made quite meticulously.
My dear fellow citizens, today is the 24th of April. This is observed as Panchayati Raj Day in India. On this day, the Panchayati Raj system was implemented in our country. Panchayati Raj system has gradually spread to the entire country and is functioning successfully as an important unit of our democratic system of governance.
We celebrated 14th April as the 125th birth anniversary of Babasaheb Ambedekar and today we celebrate 24th April as Panchayati Raj Day. This was such a fortunate coincidence. From the birth anniversary of the great man who gave us the Constitution of India, to 24th April, the day Panchayati Raj was introduced in our country to empower our villages, which are the strongest link of our Constitution. It inspired linking these two dates. For this reason, the Government of India, along with the cooperation of the State Governments, has launched a campaign – “From Gram Uday to Bharat Uday” – From the Rise of Villages to the Ascent of India, over the 10-day period between 14th April and 24th April.
It was my good fortune that on 14th April, the birth anniversary of Babasaheb Ambedkar, I got the opportunity to visit his birthplace Mhow and pay my respects at that sacred place. And today, on 24th April, I am going to Jharkhand, where mostly my tribal brothers and sisters stay. In Jharkhand I am going to celebrate Panchayati Raj Divas. At 3 in the afternoon I shall be talking to all panchayats of the country. This campaign has worked in a major way to generate awareness. How can the democratic institutions at the village level, in every corner of India, be strengthened? How can the villages become self-reliant? How can villages plan programmes for their own development? There should be due importance laid on physical and social infrastructure. There should be no school dropouts in villages and the campaign to educate the girl child (Beti Bachao, Beti Padhao Abhiyan) should be successfully carried out. The birth of the girl child should be celebrated in a big way. There should be some plans to do that. In some villages people organised food donation on this occasion. It happens very rarely that so many different programmes go on at the same time in so many villages of India. I congratulate all the State Governments and the village heads. They have gone about these programmes in a very novel way for the welfare of villages, for the development of villages and for the strengthening of democracy. The awareness that has come about in villages guarantees a new progress for India. The foundation for the progress of India is the rise of its villages; so if we all keep laying stress on the progress of the villages, we shall continue to get the desired results.
Sharmila Dharpure from Mumbai has expressed her concern to me through her phone call. Sound byte-
“Mr. Prime Minister Namaskar. I am Sharmila Dharpure speaking from Mumbai. I have a question for you about the school and college education. For the last so many years, a strong need for reforms has been felt in the education sector. Either the required amount of schools and colleges are not there or else the quality in education is lacking. It has been often found that the children complete their schooling but they still don’t have knowledge about the most basic things and so they lag behind in this competitive world. What are your views? How do you wish to bring about reforms?”
Sharmilaji, your concern is quite genuine. Today in every home, the first thing that the parents dream of is to give their children good education. A house, a car – all that comes later. And for a country like India, this common sentiment of the people is a very big force. To educate their children and educate them well, this concern for the children to get good education should increase further and a greater awareness should come about. I believe that when there is awareness in the family, it impacts the school and has an impact on teachers as well. The child is also aware of the purpose for which he or she goes to school. So I would appeal to all guardians and parents to give not just enough time and attention to their children but also to everything that’s happenings in their school. And if something strikes your attention, please go to the school and discuss it with the teachers yourself. Vigilance can be of help to reduce many shortcomings in the education system. People’s participation will go a long way in achieving this.
Every Government in our country has laid stress on education and every Government has made efforts for it in its own way. It is true that for a long time our focus has been on setting up educational institutions, expanding the system of education, building schools, building colleges, recruiting teachers, ensuring maximum attendance of children. So priority has been given in a way to the spread of education. This was necessary. But today more than expanding education what is necessary is to improve the quality of education. We have already done a lot towards expanding education. Now we will have to focus on quality education. We will have to shift our priority from literacy campaign to good education. Till now we concentrated on the outlay for education. The time has come to focus on the outcome of it. Till now the stress has been on how many are attending school. From now onward, more than schooling, we will have to lay stress on learning. Till now we have heard the echo of the mantra of Enrolment! Enrolment! Enrolment! But now we will have to turn our attention to providing good education, worthy education to children who have made it to schools. You must have seen the Budget of the present government. An effort is being made to provide quality education. But it is true we still have a long way to go. If we, 125 crore Indians, resolve, we can cover that distance. Sharmila ji has rightly said that we do need to bring reforms for quality education.
You must have noticed in the Budget that we have decided to do something unconventional. In the Budget, we have made 10 government universities and 10 private universities free from government control and asked them to accept the challenge to flourish on their own. We have asked them to come up with what they would like to do to become the best universities. We have done this with the intention of giving them a free hand. Indian universities can also compete with world class universities, and they should. Along with importance to education, there is importance to skill. Likewise, technology plays a very big role in education. Long distance education and technology will make the task of education simpler. I believe that the results of this move are going to be seen in the near future.
Since a long time people have been asking me questions on one topic. Some have written on my web portal mygov.in, others have written to me on NarendraModiApp. It’s mostly the youth who write to me.
Sound Byte-
“Mr. Prime Minister Namaskar, I am Mona Karnwal from Bijnore. For the youth in today’s age, along with studies, sports are also of great importance. They should have a feeling of team spirit and the qualities of a good leader for their overall holistic development. I state this from my own experience because I have served in the Bharat Scouts and Guides and this had a very good impact upon my life. I want you to motivate the youth as much as you can, and I want the government to also promote NCC, NSS and the Bharat Scouts and Guides as much as possible.”
You people have been sending me so many suggestions that one day I felt that first of all I must talk to these people. It was under pressure from you people, following your suggestions, that I recently called for a meeting with the chiefs of NCC, NSS, Bharat Scouts and Guides, Red Cross and the Nehru Yuva Kendra. I asked them if they have ever had a meeting before, and they said that since Independence, this was the first time that they were attending a meeting like this. So first I would like to felicitate my young friends who put pressure on me, the result of which was that I held this meeting. I felt glad that I met them. I felt the need for greater coordination. They are doing a lot in their own way but if work is done collectively, in an organized manner, then these various organizations of ours can bring about huge results. They are spread so wide, reaching out to so many families. I saw an answer in the way they had spread far and wide and were filled with enthusiasm, they had the resolve to do something. It’s true that I myself have been a cadet in the NCC and so I know firsthand how one acquires a fresh perspective through such organizations. Children draw inspiration and develops a national perspective. I did get the benefit of that in my childhood. I believe that we should infuse a new life, a new force into these organizations. This time I put some issues before them. I told them that for this season why don’t all these organizations and our youth make an effort for water conservation. We could collectively try and stop open defecation in so many blocks and so many districts. What kind of programmes can we make to unite our country? Can we have a common youth song for all these organizations? We spoke on many issues.
Today, I appeal to you all as well. Please suggest the perfect ideas for these youth organizations. Do we need to add anything new in their functioning and their programmes? If you write to me on my NarendraModiApp , I will send them to the right place. After this meeting, I feel they are going to gain a new momentum. Now even you will wish to join one of them.
My dear fellow citizens, I now wish to talk about something that will compel us all to think. I view it also as something that is going to shake us all. You must have seen for yourself that the political situation in our country is such that in the previous elections political parties made promises of giving each household 9 to 12 gas cylinders. And each political party felt that if they had to politically approach the middle class society, then gas cylinder was a major issue. On the other hand, economists have put constant pressure to reduce the subsidy on gas cylinders. For this reason, many committees would sit which would receive many proposals and suggestions on the issue of lessening the gas subsidy. Crores of rupees would be spent on these committees. But the matter would remain at a standstill. This has been everybody’s experience. No one ever thought beyond this.
Today, my dear fellow citizens, I have utmost pleasure in placing before you all my own account on this. I have chosen the third way out and that is the path of placing trust and confidence in the people and the masses. At times we political leaders should trust our people more than we trust ourselves. We should have implicit faith in the people. I had once said to you that if you can bear the expense of 1500-2000 rupees per year, then why don’t you give up your subsidy on gas? This could be of use to poor households. I had said it just like that, but today I can say with confidence that I am indeed very proud of you all. One crore families have voluntarily given up their subsidy on gas cylinders. These one crore are not wealthy families. Among them are retired teachers, retired clerks, farmers, small shopkeepers. These are middle class and lower middle class families that have given up their subsidy. Now look at the other, rather unique, side of it. They could have given up their subsidy through the App on their mobile, going online or by giving a missed call over the telephone. There were many options. But it has been estimated that more than 80% of these one crore families chose to go to the distributor, stand in a queue and give in writing that they wish to surrender their subsidy.
My dear fellow citizens, this is not a small matter. If the government gives even a small concession on tax or exemption from tax, then for a whole week we hear praise for that government being splashed on TV channels and in newspapers. Here, these one crore families have given up their subsidy. And in our country subsidy has turned into a kind of a right that people expect. A thing like that they have chosen to give up.
I would like to salute those one crore families. I humbly bow to them because they have compelled political leaders to think of coming up with something new. This has also forced the economists of the country to think differently. Even the global economic experts who used to live in a world of their calculations would find this phenomenon to be beyond their limits of traditional wisdom. At some point of time they will also have to think of this novel experience that has defied conventional thinking. One crore families giving up their subsidy on gas cylinders and in return one crore poor families getting gas cylinders with the money that is saved from the one crore families that have given up their subsidy. Externally, it appears just an incident But, its extraordinary lesson is that if you place faith in the people, it leads to most handsome achievements.
I would like to specially appeal to the entire political class to place implicit faith in the people. That will fetch such terrific results that one could have never ever imagined. We should move in this direction. I have always felt this way, like when I felt why Class 3 and Class 4 employees should be made to go through interviews. We should trust the person who has given the exams and submitted the marks.
Sometimes I feel that we should publicly announce that today on this route of the railways there will be no ticket checker. Let’s see what happens when we place faith in the people of India. We can undertake several such experiments. Once we place faith and trust in the people of India, we can get incomparable results. Anyway, these are just some personal thoughts. We cannot make these into government rules but we can certainly create that kind of an atmosphere. This atmosphere has not been created by any political leader but by one crore families of India.
A person called Ravi has written to me – “Good News Everyday — he writes — please ask your officials to post about one good incident every day. Each newspaper and news channel has bad news for its every ‘breaking news’. Is there not anything good happening around in this country populated by 125 crore people? Please change this situation.”
Ravi ji has expressed his anger but I think he is not venting his anger on me but on the prevailing conditions. You may remember that the former President of India, Dr A.P.J. Abdul Kalam, used to always say, “Please print only positive news on the front page of the newspaper”. He used to continuously repeat that.
Some days back a newspaper had written a letter to me saying that they had decided that on Mondays they would not give any negative news but only positive news. These days I have noticed that some T.V. channels have begun setting aside some time for positive news.
So it is right to say that there is an atmosphere all around of positive news. And everybody feels that the people should get the right news and good news. It is true that even if the most highly placed men and women relate the best possible things in the best possible words and in the best possible manner, good news has a better impact than that. Good news becomes the greatest reason and inspiration to do something good.
It is true that the more we give prominence to good things, the less space there will be for bad things. If we light a lamp, the darkness is sure to be dispelled. You all must be aware that the government has started a website,transforming india. On this you get news of positive happenings, not just of the government but also of the people around. This is a portal where even you can send news of any good thing that’s happened to you. You can contribute to the site.
Raviji you have given a good suggestion, but please don’t get angry with me. We all should strive together to do something positive, talk about something positive, to spread something positive.
There is one great speciality of our country — the Kumbh Mela. The Kumbh Mela can become the centre of tourist attraction as well. Very few know that since a long time, crores and crores of people have gathered on the river-banks for this festival. The peaceful atmosphere at the Kumbh Mela gives moments of tranquillity to the soul. These festivals, from the point of view of organization, event management and people’s participation, set new and high standards. I have been noticing for the last two days that many people have uploaded pictures of the Simhastha Kumbh Mela. I would like the Tourism Department of the Government of India and the State Government to hold a photo competition on this occasion. People should be encouraged to take the finest photographs and upload them. What an atmosphere that would create. People will also come to know of the myriad and different activities going on in every corner of the Kumbh Mela. This can surely be done.
It’s true that I met the Chief Minister of Madhya Pradesh recently and he told me that they have laid special emphasis on cleanliness. It is not that the cleanliness remains confined to that place. People should carry back the message of cleanliness with them. I believe that even if the Kumbh Mela is a religious and spiritual occasion, we can turn it into a social occasion. We can turn it into an occasion of imbibing good values. It can become a reason to carry good resolutions and good habits to all the villages. We should use each Kumbh Mela to make people aware of how we can increase our value for water, our faith in water; how we can spread the message of water conservation. We should do this.
My dear fellow citizens, I will surely meet you all once in the evening on this important occasion of Panchayati Raj Divas today. My heartiest thanks to you all. As always, the unshakeable bond between your inner thoughts and those of mine gives me immense pleasure.
My Dear Fellow Citizens,
Let me begin by wishing ‘Namaskar’ to all of you. Today, the world over, Christians are observing Easter. I extend my warmest greetings to everybody on the occasion of Easter.
Some of my young friends must be busy with their examinations. Some of them must have gotten over with their examinations by now. For those of you who still have examinations, it must be a testing time with exams on one hand and T-20 Cricket World Cup on the other. I am sure you are eagerly waiting for the match between India and Australia this evening.
Some days ago India won two fine matches against Pakistan and Bangladesh. We are seeing a fine momentum building up in this T-20 Cricket World Cup. Today, as India and Australia get ready to play, I convey my best wishes to both the teams.
With the young comprising 65% of our population, there should be no reason why we should be absent from the world of sports. This won’t do. We need to usher revolutionary changes in sports. We can see that happening in India. As with Cricket, there’s now increasing interest in Football, Hockey, Tennis, and Kabaddi.
You must have come to know that India will be hosting the FIFA Under-17 World Cup next year. Twenty-four teams from all over the world are coming to play in our country. The Indian Football team won the gold medal at the Asian Games in 1951 and 1962, and came fourth in the 1956 Olympics. Unfortunately, over the decades we have slipped from there to the lowest rungs. Today our ranking in FIFA is so low that I feel reluctant even to mention it.
On the other hand, I have been noticing that interest in Football among the youth in India has been rising – be it the English Premier League, Spanish League or the Indian Super League matches. Young Indians take time out to get the latest information on these matches and watch them on television. What I mean to say is, given this rising popular interest in Football and the opportunity of hosting FIFA Under-17 World Cup, shall we just play the role of a host and fulfil our responsibility? Or will we use the opportunity to our advantage to promote sports?
We should create an atmosphere of Football, Football, Football all around for this whole year – in schools, colleges, indeed, all over India. Our youth, the children in our schools, should be drenched in sweat just playing Football. If that happens, we shall have real fun playing the host. So, all of us should make the effort to ensure Football reaches every village, street and alley. Between now and the FIFA Under-17 World Cup in 2017, we should infuse a spirit of enthusiasm in the youth. One advantage of playing the host for this event is that a whole lot of infrastructure will get created with addition of sports facilities. But I personally shall be happy when we are able to link every youth of our country to this game.
Friends, I would like to hear your views on how best to use the 2017 FIFA Under-17 World Cup to our advantage. How should this event be? What kind of programmes should we organise the whole year to help the event gain momentum? How should it be publicised? What improvements do we need to make? How can we increase the interest of our youth in sports through the 2017 FIFA under-17 World Cup? How can we introduce an element of competitiveness in governments, educational institutes and social organisations to associate with the game?
We can see all this happening in relation to cricket; we should now try to bring these elements in relation to other sports disciplines as well. The FIFA event offers us a unique opportunity to do so. Can you send me your suggestions on how best to use that opportunity? I view the FIFA event as a great opportunity to establish India as a brand at a global level. I consider this to be an opportunity to let the world know of India’s youth power – not in the sense of winning or losing a match. In the run-up to and preparation for the 2017 FIFA event, we can harness and display our many strengths; while doing so, we can do image-branding for India as well.
I look forward to your suggestions on the 2017 FIFA Under-17 World Cup which you can send me through NarendraModiApp. Do let me know what should be the logo and the slogans. How should we propagate this throughout India? What should the songs be like? What should be in the souvenirs? Think about it friends. I would like every youth of mine to become an ambassador for the 2017 FIFA Under-17 World Cup. You should robustly participate in this event. It’s a golden chance to build India’s image.
My dear students, you must have thought of travelling to places during your holidays. There are very few people who go abroad; most people visit places within their own states for a week or so. Some people also go outside their states. Last time too, I had requested all of you to upload photographs of the places you visit. And I have noticed that the kind of work which our Department of Tourism, our Department of Culture, State Governments and the Government of India can’t do, that kind of work has been accomplished by millions and millions of Indian tourists. Photos of such magnificent places were uploaded that it was truly a delight to view them.
We have to take this task forward. Do it this time as well. But this time, along with a photo, please write and send a small piece about the place, thus displaying your creative prowess. One gets to learn a lot by visiting new places. Things we can’t learn in a classroom, within our family, from our friends, sometimes we can learn those things by travelling. We get to experience something fresh with each new place we visit – we learn about people, their languages, foods and lifestyles. Someone has rightly said that “A traveller without observation is a bird without wings”. “If you have a desire to truly view, you should also develop an insight.” India is full of diversities. Once you set out to see the country, for the rest of your life you will keep seeing new things and still never get enough of it. I have been fortunate that I had a lot of opportunities to travel. When I was neither Chief Minister nor Prime Minster, and I was young like you, I travelled a lot. Perhaps there isn’t a district in India which I have not visited.
Travel plays a very strong role in shaping our lives. These days the youth of India are being driven by a spirit of adventure and curiosity. Unlike before, they don’t want to go to the same old places or tread the oft beaten track. They want to do something new, see something new. I see this as a good sign. Our youth should be bold. They should be brave. They should have the courage to set foot on places where no one has been before.
In this context, I would like to specially congratulate Coal India. Western Coalfields Limited at Savaner near Nagpur, where there are coal mines, has developed an Eco-friendly Mine-Tourism Circuit. Generally we don’t think of coal mines as places to be visited. When we see pictures of miners, we wonder what it must be like out there. We even have a saying, “Coal blackens your hands”, hence people tend to stay away from coal mines. But Western Coalfields Limited has made these same coal mines a destination for tourism. This is only the beginning, but already nearly 10,000 people have visited this Eco-friendly Mine-tourism site at Savaner near Nagpur. This in itself gives us an opportunity to see something new.
I hope that when you set out on a journey during the coming holidays you can contribute something to cleanliness too. There is greater awareness about cleanliness and people are making an effort to keep tourism destinations litter-free. Both tourists and local residents of these places are contributing to it. Maybe it is not being done in a very scientific way, but it is being done. Can you too, being a tourist, lay stress on cleanliness at tourist destinations? I am confident that our youth will definitely help me in this task.
Tourism is a sector that provides maximum employment. Even the poorest person gets a chance to earn from tourism. When tourists visit a place, even the not-so-well-off among them spend money. Rich tourists are bound to spend more money. There are many employment opportunities created by tourism. India lags far behind in tourism when compared to the world. But if we, 125 crore Indians, decide that we have to give importance to our tourism sector, we can attract the world. We can draw a very large number of tourists to our side. Through this we can provide new employment opportunities to several million young people in India. Be it the government, institutions, society, citizens – we all have to come together to make this happen. Come, let’s make an endeavour in this direction.
My dear young friends, I don’t like it when holidays are just frittered away. You too should think along these lines. Will you let your holidays during the most important years of your life slip away just like that? I will give you something to ponder upon. Can you resolve to add one skill, one special attribute to your personality, during your holidays? If you don’t know how to swim, can you resolve to learn swimming during the holidays? If you don’t know how to cycle, can you resolve to learn cycling during the holidays? Or you could tell yourself, “I type with just two fingers on the keyboard, so shouldn’t I learn proper way of typing?” There are so many skills to develop our personality. Why not learn them? Why not overcome some of our shortcomings? Why not add to our strengths? Do give it a thought.
It is not like you need lots of classes, a great trainer, hefty fees or a big budget for this. You can find something around you. Let’s say you decide to make the ‘best’ out of ‘waste’. Just look for some waste material and start creating something from it. You will enjoy it. By the time evening falls, you will marvel at what you have created from that rubbish. Suppose you are fond of painting and you don’t know how to paint. Just start painting and gradually you will get better at it. You must spend your holidays on building your personality by developing some new talent, acquiring some new skill. There can be countless areas where you could do so; it is not as if these are confined to only the ones that I am spelling out for you. This will help you in carving out your own identity and raising your self-confidence tremendously. Just try it for yourself. When you return to school or college and tell your classmates about what you learned during the holidays, and when your friends find that they have not learned anything new, they will realise that they wasted their time. They will admire you, “You are a very determined man, my friend, you have accomplished something concrete.” This will perhaps become a big thing among friends. I am confident that you will surely do it and, yes, do share with me what you have learned.
This time a lot of suggestions have come for Mann Ki Baat on www.mygov.in: –
Sound Byte- “My name is Abhi Chaturvedi. Namaste dear Prime Minister, you had said during the last summer holidays that even birds feel the summer heat so we should fill a bowl with water and place it in the balcony or the terrace so that the birds can come to have water. I did this and enjoyed it and in this way I made friends with a lot of birds. I request you to repeat this task in Mann Ki Baat. Thank You.”
My dear fellow citizens, I would like to express my gratitude to this little boy Abhi. He called me up and reminded me of what I had said. Frankly, I had forgotten about it. And I did not have it in my mind that I would say something on this topic, but Abhi has reminded me that last year I had asked you to put an earthen bowl filled with water for the birds.
Friends, I want to thank this boy Abhi Chaturvedi. He has reminded me of a good deed by calling me. Last summer I had remembered it and asked you to put water in earthen bowls for the birds during summers. Abhi has told me that he has been doing this for a whole year and many birds have now become his friends. The great Hindi poetess Mahadevi Verma used to love birds. She wrote this in one of her poems, “We shall not let you fly far way, we shall fill the courtyard with grains and fill the tank with sweet and cool water…” Come, let us also do what Mahadevi Ji used to do. I greet Abhi and thank him for reminding me of this very important thing.
Shilpa Kukke from Mysore has raised a very humane issue. She says milkmen, newspaper vendors, postmen come close to our homes. Sometimes utensil hawkers and cloth sellers too pass by our homes. Have we ever offered them some drinking water during the summer days? Have we ever given them water to drink? Shilpa, I am very grateful to you that you have articulated something so sensitive in so simple a manner. It is a small gesture but when the postman comes and we offer him water, he will feel good. Of course, it is a part of our nature in India. But I am glad, Shilpa, that you have observed these things.
My dear farmer brothers and sisters, you must have repeatedly heard the term – Digital India. Some people feel that Digital India is to do with the world of the youth in our cities. No, it’s not like that. You will be happy to learn that a ‘Kisan Suvidha App’ has been launched to serve your interests. If you download this ‘Kisan Suvidha App’ on your mobile phone, you will receive a lot of information related to agriculture and weather at your fingertips. There are many topics on this App, such as what is the state of the market, what is the position of the wholesale market, which crops are doing well these days, which are the appropriate pesticides. Not just this. There is a button on the App which will connect you directly with agricultural scientists and link you with the experts. If you pose a question to them, they will reply to it; they will explain things to you. I hope that my farmer brothers and sisters will download the ‘Kisan Suvidha App’ on their mobile phones. Why don’t you have a look at this gift for you and give it a try to see if something in it is of use to you? If you feel it lacks in anything then you can complain to me also.
My dear farmer brothers and sisters, summer is holiday time for the rest of the people, but for you it is the time to sweat it out even more. A farmer waits for the rains. Before that, he puts in his life and soul to get his field ready so that not even a single drop of rain water goes waste. For farmers, the season just before onset of farming is of utmost importance. We will have to give a thought to what will happen if there’s no water. Can we utilise this time to visit ponds, check the routes through which water flows into these ponds and spot the places where garbage or something else blocks the water from flowing, because of which reservoirs get depleted. Can we not remove the blockage and clean the inlets so that more water gets collected? If we manage to save and collect more water during the first rainfall and fill up our ponds, rivers and streams, then even if the rains fail later, our losses will be reduced. But this can be possible only when we conserve each and every drop of water.
You must have noticed that this time it has been decided to construct five lakh ponds and farm water reservoirs. Under MNREGA also a stress has been given to create assets for water conservation. Every village should save water. How can we save every drop of water during the coming rains? How do we begin an exercise to ensure that every drop of water in the village stays within the village? You should devise a plan and get connected with Government schemes so that we can start a people’s movement which will help us understand the importance of water. Then everyone can join in the campaign for water conservation. There must be many such villages in the country, many progressive farmers and many conscientious citizens who have already done this kind of work. But we still need to do much more in this direction.
My dear farmer brothers and sisters, a few days ago the Government of India had organised a very big Kisan Mela, ‘Farmers’ Fair’. There I saw the modern technology that is now available for farmers and how much change has come in agriculture. But we have to ensure that this technology reaches the fields. Now even the farmers have started saying the use of fertilisers should be curtailed. I welcome this. Excessive use of fertilisers has made our Mother Earth unwell. We are the children of our soil, so how can we watch our Mother Earth suffering? When we add spices and condiments while cooking our food, it adds to the taste. But if we add too much of even the best of the spices and condiments, then would one want to eat that food? The same food would taste so bad, isn’t it? The same thing happens with fertilisers as well.
No matter how good fertilisers may be, if we use them beyond a limit they will become the cause of ruination. There should be a balance in everything. This will reduce your expenses and you will end up saving money. Our stand is clear: Less Cost, More Output. Invest Less and Reap More. We should move forward with this ‘mantra’ and improve our agriculture sector by using scientific methods. I hope we will do, with full concentration, whatever is necessary for water conservation. We have a couple of months till the onset of monsoon. Do remember, the more we save water, the more the farmers will benefit and more lives will be saved.
My dear fellow citizens, the World Health Day is on 7th April. This year the theme of the World Health Day is ‘Beat Diabetes’. I call upon all of you to defeat Diabetes which plays host to so many diseases. Once it enters yours body, a whole lot of undesirable guests in the form of illnesses follow it. It is said that in 2014 India had about six and a half crore Diabetics. Diabetes was found to be the cause of death in three per cent of all deaths. Diabetes is of two types — Type 1 and Type 2. Type 1 is hereditary; if the parents have it, so shall their child. Type 2 is due to your habits, age and obesity. The world is worried about Diabetes and so it has been chosen as the theme for World Health Day on 7th April.
We all know that our lifestyle is the biggest cause for Diabetes. Physical labour is getting reduced. There is not a trace of sweat; there is just no walking around. Even if we play games, we play them online; very little happens offline. Can we not, drawing inspiration from this year’s World Health Day and its theme, do something to defeat Diabetes in our personal life? If you are interested in Yoga, then do Yoga. Or else, the least you can do is to go for a walk or a run. If every citizen of my country is healthy, then my country will be healthy. Sometimes we are reluctant to get our medical check-up done. When the condition worsens then only does it come to our notice that it is Diabetes to blame. What do you lose in getting a check-up done? Please get this much done at least. Everything is available and a check-up can be done easily. Please do be concerned about this.
On March 24th, the world observed Tuberculosis Day. When I was a child we would be scared by the very mention of the word TB. It would seem death was inevitable for anybody suffering from this dreaded disease. But now we are not scared of it because everybody knows TB is curable and can be easily cured. Paradoxically, when TB was linked to death we used to be duly afraid of it; but now that it is curable, we have become almost careless about it. Compared to the world, we still have a large number of TB patients. If we want to free ourselves and our country from TB, then we need correct treatment, we need complete treatment. If we leave the treatment mid-way, it can create new complications for us. Tuberculosis is one disease that even the neighbours can spot. “Oh look! You have a persistent cough and fever and you have lost weight. Go get it checked. You must have got TB.” This shows TB is one illness that can be detected fast.
My dear fellow citizens, there is a lot of work being done in this direction. There are more than 13,500 Microscopy Centres, more than four lakh DOTS providers, various advanced laboratories. And all these services are free. Please go and get a check-up done. This disease can be got rid of. All one needs is the correct treatment and the treatment must continue till the illness is gone completely. I would like to appeal to you all, whether it is TB or Diabetes, we have to conquer these. We have to eradicate these diseases from India. But this cannot happen with just the efforts of the government or by doctors or medicines till you don’t do something about it. So I call upon all of you today to defeat Diabetes and free ourselves from Tuberculosis.
My dear fellow citizens, a number of important occasions are coming up in April, especially on 14th of April which happens to be the birth anniversary of Baba Saheb Bhimrao Ambedkar. His 125th birth anniversary was celebrated all over the country. The five pilgrimage spots associated with him – Mhow, his birthplace; London, where he was educated, Nagpur, where he had his ‘Deeksha’; 26, Alipur Road, Delhi, where his soul left him for its heavenly abode; and the cremation ground in Mumbai where his last rites were performed. We are making a constant effort to develop these five pilgrimage spots. I am fortunate to get the chance to visit Mhow, the birthplace of our revered Baba Saheb Ambedkar, on 14th April this year. Baba Saheb has given us a lot to help shape us into ideal citizens. We can pay our best homage to him by following the path set by him and becoming good citizens.
In a few days from now, the new year of Vikram Samvat will begin. It is celebrated in different states in different forms. Some call it Nav Samvatsar, some call it Gudi Padva, some Varsh Pratipada, some Ugadi, but it holds importance in nearly all the states of India. My greetings to everybody on this auspicious occasion of New Year.
As you know and I had said it last time also, you can now listen to my Mann Ki Baat in about 20 languages whenever you wish to. You can choose your own convenient time to listen to it. You can listen to it on your own mobile handset. All you have to do is to give a missed call. I am happy to state that although it has been barely a month since this service was launched, 35 lakh people have availed of it. You too can note down the number. 81908-81908. I repeat – 81908-81908. Give a missed call on this number whenever it is convenient for you. Even if you wish to listen to any previous episode of Mann Ki Baat, you can listen to it in the language of your choice. I will be happy to remain connected with you.
My dear fellow citizens, my heartiest best wishes to you all. Many, many thanks.
My dear fellow citizens, Namaskar.
While listening to this month’s Mann Ki Baat, my inner thoughts, your mind must also be on your children’s exams which begin soon. Some of them have their 10th and 12th board exams starting from the 1st of March. That must be playing on your mind. I wish to be a part of this journey along with you. I am concerned about your children’s exams as much as you are, but I am not worried. If we were to change the way we look at exams then we would be tension-free.
When I shared my inner thoughts with you during last month’s Mann ki Baat, I had requested everybody to send their experiences and suggestions to me on Narendra Modi App. It makes me immensely happy that teachers and students who have had successful careers, as also parents and social thinkers, have shared their experiences and suggestions with me.
There are two things that have moved me. First, those who have written to me have a good grip on the subject; and, second, the sheer volume of the response to my request shows dealing with exams is an extremely important matter. Usually the issue of exams has largely remained confined to schools, teachers, students and their families. But the way suggestions have come pouring in through my App, it seems this should be a subject of constant discussion for the entire nation.
Today, during my Mann ki Baat, I would like to share my inner thoughts on exams with parents, students and teachers. I will share some of the things that I have heard, what I have read, and what I have been told. I will add my views on some exam-related issues about which I feel strongly. I am confident that students who will be appearing for exams will find what I have to say immensely useful to them. That’s how I feel about it.
My dear students, before I begin, why not let a well-known world opener make the opening comments about the things and experiences that helped him achieve heights of success in his life? That would definitely be useful for you. He is someone the young generation is proud of and inspired by — Bharat Ratna Sachin Tendulkar. He has sent a message that I will read out to you:
“Namaskar, I am Sachin Tendulkar speaking. I know that the 10th Board Exams are going to commence in a few days from now. Many of you are going to be tense about them. I have only one message for you all. Your parents, your teachers, your family members and your friends have a lot of expectations from you. Wherever you go, you will be asked ‘How are the preparations going? How many marks are you likely to score?’ I would like to say that you should set a target for yourself. Don’t come under the pressure of someone else’s expectations. You should definitely work hard but set a realistic and achievable target for yourself, and then try to achieve that target. When I used to play cricket, there were a lot of expectations from me as well. I faced a lot of difficult moments in these last 24 years and many a times there were good moments too. But people always had high expectations from me. As time passed, their expectations kept growing. So it was necessary for me to find a solution to this. That’s when I decided that I would set expectations for myself and set my own targets. If I set my own targets and I am able to achieve them, then I am sure to do something good for my country. And those were the targets that I would always try to achieve for myself. My focus would be on the ball, and slowly-slowly targets were achieved on their own. I would like to tell all of you that you must have a positive thinking. Positive results will follow. So you must be positive and God will surely give you good results. I am hopeful of that. My best wishes to you all. Please go write your exams, free from tension,and get good results. Good luck!”
Friends, you heard what Tendulkar-ji had to say. Don’t buckle under the pressure of expectations. It is you who have to shape your own future. So set your own targets for yourselves. Keep an open mind, think freely, and assess your own abilities. I am sure that what Sachin-ji has said will prove very helpful for you. Also, why should there be rivalry? Why not healthy competition? Why do we waste our time competing with others? Why don’t we compete with ourselves? Why don’t we decide to break our own previous record? If you were to do that, none would be able to stop you from moving ahead. When you break your own record, you will not have to depend on others for happiness and satisfaction. There will be a sense of inner satisfaction.
Friends, don’t look at exams as a game of numbers. “How much did I score, where did I score?” – don’t get trapped in this score-keeping. You should think of a greater purpose in life. You should have a dream to realise and a goal that you are committed to. Exams are there to only gauge whether we are going the right way or not, whether we are moving at the right speed or not. So, if our dreams are big and magnificent, exams will become a joyful experience. Each exam will then become just one more step towards realizing that dream; each success will turn into a key of realizing that goal. So don’t brood over what is going to happen in these exams this year. Have a large perspective and a goal, and move ahead. Once you do that, even if you achieve less than what you had expected, you will not be disappointed. Rather, it will give you the strength and confidence to try harder and better the next time.
Thousands of people have used their mobile phones to post small messages on my app. Shrey Gupta has stressed the point that a healthy mind resides in a healthy body only. Students should care for their health along with their studies so that they are able to write their exams well, in good health and spirit. On the last day before exams begin, I would not really urge you to start doing push-ups, get down on the field, or go for a 3 to 5 km walk. But one thing is for sure, especially during the days when examinations are held. And that is, your schedule matters. In any case, our daily schedule for all the 365 days in a year should be in line with achieving our dreams and goals.
I agree with the message posted by Shri Prabhakar Reddy — he has specially urged that one should go to sleep at a proper time and get up early in the morning to revise one’s preparation. One should arrive at the examination centre equipped with the admit-card and other things well before time. This is what Prabhakar Reddy has said, something which I would have perhaps dared not to say because I am not very particular when it comes to sleeping. My friends complain to me often that I sleep very little. This is my shortcoming which I will try to overcome.
I do agree that a fixed time to go to sleep and a sound sleep are as important as other activities during the day. This is possible. I am fortunate that although I sleep very less, I sleep very soundly and thus am able to manage with that little sleep. But I would like to request you all to get proper sleep. There are some who are in the habit of chatting over the phone for long hours before going to sleep. And then they ponder over things they chatted about. How can they get proper sleep? When I talk of sleep, please don’t think I am asking you to sleep at the cost of your preparation for the exams. At the time of exams, you should get a good sleep so that you are free from stress and tension. I am not saying that you should keep on sleeping. It should not be that you score low marks and when your mother asks you why you have fared so badly, you reply that it’s because Modiji had asked us to sleep, so I dozed off. I hope you will not do that. I am sure you won’t do anything like that.
Discipline plays a major role in laying the foundation of success in our lives. A strong foundation comes from discipline. Those who are un-organized and undisciplined, do those things in the evening that they should have done in the morning and then the work they had to do in the afternoon is done late at night. They might feel that their job is somehow done but it results in so much wastage of energy and they are also saddled with unnecessary tension each moment. You must have experienced that when one part of your body feels a little bit of pain, the entire body doesn’t feel well. Not just that, our entire routine collapses. So we should not view anything as trivial or unimportant. Please see to it that you don’t compromise on the time you have set for things. Don’t get into this mess. Do things the way you have planned them.
Friends, I have seen that there are two types of students. There are students who focus their attention on what they have studied, what they have learnt, and what are their strong points. The other kind are those students who keep worrying about which type of questions will be asked during exams, whether they will be able to attempt answering them, will the question paper be easy or difficult. You must have noticed this too. Those who are tense and worry about what kind of questions will be asked, end up having a negative impact on their results as well. On the other hand, students who have the confidence in what they know are able to tackle whatever comes in the question paper. Someone who can express this better than me is the person who is a master at checkmating others, who has checkmated some of the greatest minds in the world. He is chess champion Vishwanathan Anand and he will relate his experiences. Come, why don’t you learn how to checkmate in exams from him!
“Hello, this is Viswanathan Anand. First of all, let me start off by wishing you all the best for your exams. I will next talk a little bit about how I went to my exams and my experiences for that. I found that exams are very much like problems you face later in life. You need to be well rested, get a good night’s sleep, you need to be on a full stomach, you should definitely not be hungry and the most important thing is to stay calm. It is very, very similar to a game of Chess. When you play, you don’t know, which pawn will appear, just like in a class you don’t know, which question will appear in an exam. So if you stay calm and you are well nourished and have slept well, then you will find that your brain recalls the right answer at the right moment. So stay calm. It is very important not to put too much pressure on yourself, don’t keep your expectations too high. Just see it as a challenge – do I remember what I was taught during the year, can I solve these problems. At the last minute, just go over the most important things and the things you feel, the topics you feel, you don’t remember very well. You may also recall some incidents with the teacher or the students, while you are writing an exam and this will help you recall a lot of subject matter. If you revise the questions you find difficult, you will find that they are fresh in your head and when you are writing the exam, you will be able to deal with them much better. So stay calm, get a good night’s sleep, don’t be over-confident but don’t be pessimistic either. I have always found that these exams go much better than you fear before. So stay confident and all the very best to you.”
Vishwanathan Anand has really said something very important. You must have also seen that when he plays in international tournaments, he sits with such a healthy composure. He is so focussed. You must have seen his eyes don’t wander off the chess board. We have all heard of how Arjun focussed his attention on the eye of the bird. In the same way, when we watch Vishwanathan playing chess we see his eyes set on the target, focussed on the game very attentively, and that is a reflection of his inner tranquillity. It is difficult to bring that inner peace within you just by someone merely asking you to do so, but one should try. Why don’t we try to do that in a light-hearted manner? If we were to keep smiling and laughing all through the exam days, we would find inner peace. If you don’t speak to your friends, walk alone, and your face droops flipping through the pages of so many books at the last moment, then you cannot have peace of mind. Laugh a lot along with your friends, share jokes with them, and just see how a calm atmosphere is created on its own.
Just imagine yourself standing at the edge of a pond and you can see beautiful things at its bottom. Suddenly someone throws a stone into the water and there are ripples on the surface. Would you be able to see those beautiful things at the bottom like before? If the water is still, then no matter how deep it is, everything at the bottom can be seen. But if the water is agitated, we can see nothing through it.
There is a lot within you, the treasure as a result of the hard work of a whole year is filled inside you, but if your mind is troubled, you will not be able to discover that wealth. If you have a peaceful mind, then that treasure of yours is going to surface to the top and your exam will turn so very simple for you.
I would like to tell you a little thing about myself. There are times when while listening to a lecture or trying to understand some aspect of governance about which I need to know more, I have to concentrate on what is being said. There are occasions when if I have to strain myself to concentrate, I feel an inner stress building up. Then I realize that if I relax a bit, I will feel better. So here is a technique I have developed for myself. I do deep-breathing. I breathe deeply three to five times. Not more than 50 seconds are spent on this but my mind is at rest and ready to be focused on matters at hand. This is my experience and it might be of help to you as well.
Rajat Agarwal has told us something good. He wrote on my app that we should spend half an hour every day with friends and family to feel relaxed. We should chat with them. This is something very important Rajat-ji has told us because what most of us do is that when we return after an exam, we sit down to calculate what we did right and what we did wrong. And if we have educated parents, on top of it parents who are teachers themselves, then they almost end up making us re-write the entire paper. They ask us what we wrote, then start adding numbers to calculate how much we will score, whether it will be 40, 80 or 90. In this way, your mind is totally consumed by what is already over. And what do you do? You also talk about the same thing with your friends over the phone. “What did you write, what was your answer, what did you do, what do you think… Oh! I got that one wrong… I made a mistake there… Oh dear, I knew the answer to that question but I couldn’t remember it then…” We just get caught in all that. Friends, please don’t do this. What happens in the examination hall is over and done there itself. Please chat about otherthings with your family, talk of other topics, refresh your mind with some light banter. If you have gone on holidays with your parents, then try and remember what you saw. Just come out of that exam mindset and spend half an hour with your parents. What Rajat ji has said is worth pondering over.
Friends, what can I tell you about peace of mind today, before you go for your exams. A message has come for you from someone, who is essentially a teacher-turned-a-value educator. From giving interpretations of the Ram Charit Manas in the present day context, he is now involved with trying to spread its values in the country and to the whole world. Our revered Murari Bapu has sent some important tips for students. He is a teacher and a thinker, and for this reason what he has to say is a blend of both.
“I am Murari Bapu speaking and I would like to tell my student friends not to carry any load on their minds during the exams. Decide upon clear thinking, focus your mind wholly and go sit for the exam. And whatever situation appears, accept it. My experience has been that we can remain happy by accepting the circumstances. If you progress ahead in your exams fearlessly and happily, you are sure to gain success. And even if you are not successful, you will not have any remorse. Nor will you be arrogant of your success. I would like to conclude my message with a couplet – ‘It cannot be that one succeeds each time. Learn to also live with failures’. I felicitate this program Mann ki Baat presented by our honorable Prime Minister and my best wishes to all.”
I am also grateful to our revered Murari Bapu for such a nice message.
Friends I want to tell you about another thing today. I see that in the experiences that people have shared with me, they have spoken a lot about Yoga. And this is a matter of joy to me. Everybody I meet, no matter for how short a time, has something to say about Yoga. This is irrespective of whether the person is from another country or from India. It’s nice to hear that so much attraction has grown for Yoga, so much curiosity has developed for Yoga.
Just see how many people on my mobile App… Shri Atanu Mandal, Shri Kunal Gupta, ShriSushant Kumar, Shri K.G. Anand, ShriAbhijeet Kulkarni… countless people have spoken about meditation and emphasized the beneficial effect of Yoga. Friends, if I ask you to start doing Yoga from tomorrow morning then that would be unfair. But those who are already practising Yoga should not stop it during exam time. If you do Yoga, keep doing it. One thing is for sure, whether it is your student days or any other phase of your life, Yoga is a major key to the development of your inner mind. It is one of the simplest keys; you must pay more attention to it.
Yes, if you have someone nearby who knows Yoga, and if you ask them during your exams, and even if you have never done Yoga before, they will surely be able to tell you a few things to do in Yoga that can very easily be done in a few minutes. See if you can do it. I have a lot of faith in Yoga.
My dear young friends, you are in a great hurry to enter the examination hall, you are in a rush to quickly be seated in your place. But why should you do these things in a hurry. Why can’t you manage your time in such a way that even if you are held up in traffic, you can still reach in time for your exam. Otherwise such hurdles can cause new stress. One more thing: With the limited time that we have, we feel that going through the question paper with all the instructions is going to consume a lot of our time. It is not like that dear friends. You must read those instructions very carefully, at most five minutes will be spent in that, but it will not cause any loss. In fact, it will be quite profitable as things become clearer for you and later you won’t have any regrets. I have seen that when we get the question paper, sometimes we find that it has been modelled on a new pattern. But if we have read the instructions with due attention, we can cope well with it. We know – Ah! Yes, that’s the way we have to go about it! I urge you all that even though it takes 5 minutes of your time, you must go through the question paper carefully.
Yash Nagar writes on my mobile App that when he read a question paper for the first time he found it quite difficult, but when he read the same paper with self-confidence telling himself, “this is the only paper I have got and no other questions are going to be given, I have to deal with just these many questions, and so when I started thinking over them again”, he writes, “I was able to understand this paper quite easily… When I read the questions the first time, I felt I did not know the answers to them, but when I read them again, then I realised that the questions had been posed in a different way.” It is very important to understand the questions. When we don’t understand the questions, that’s when we sometimes find them difficult. I forcefully support the point that Yash Nagar has made. You must read the questions twice, thrice, four times over and try to match them with the things that you know and you will find that answering them becomes simple even before you have actually answered them.
It gives me great joy to share with you a message from Bharat Ratna C N R Rao, our most esteemed scientist. He has emphasized the virtue of patience. He has given a brief but very beautiful message to all students. Come,let me tell you the message of Shri Rao.
“This is C.N.R. Rao from Bangalore. I fully realise that the examinations cause anxiety. That too competitive examinations. Do not worry, do your best. That’s what I tell all my young friends. At the same time remember, that there are many opportunities in this country. Decide what you want to do in life and don’t give it up. You will succeed. Do not forget that you are a child of the universe. You have a right to be here like the trees and the mountains. All you need is doggedness, dedication and tenacity. With these qualities you will succeed in all examinations and all other endeavours. I wish you luck in everything you want to do. God Bless.”
See the style of talking that a scientist has! What I take half an hour to say, he says in a few minutes. This is the strength of science and this is the strength that the mind of a scientist possesses. I am grateful to Shri Raofor inspiring the children of the country. The things that he mentioned about dedication, determination, diligence… just keep at it my friends. If you keep going, then even fear will be afraid. And a golden future awaits you for doing well.
Ruchika Dabas has sent a message on my App and shared her experience. She writes that in her family during exams there is a constant effort to create a positive atmosphere. This is true for the neighbouring families as well. All contributed to a positive environment. This is the way it should be. Sachin ji also talked of a positive approach, a positive frame of mind. We have to radiate a positive energy.
There are many things that inspire us, and don’t think that they inspire only students. No matter at which point of life you are at, fine examples and true stories give great inspiration, great strength, and pave a new path in times of trouble. We have all read about the inventor of the electric bulb, Thomas Alva Edison. But friends, have you ever thought how many years he spent on his work, how many times he met with failure, how much time had to be devoted, how much money was spent, how much disappointment he must have faced when he met with failures. But today that electric bulb illuminates our lives. This is what is called the seeds of success inherent in failures.
Who doesn’t know of Srinivas Ramanujam, one of the greatest names among modern Indian mathematicians? Do you know that he had no formal education in Mathematics? Yet he made a significant contribution to various topics like mathematical analysis, number theory, etc. He had a life riddled with difficulties. Despite that, he gave a lot to this world before passing away. J.K. Rowling is a fine example to show that success can come in anyone’s life at any time. The Harry Potter series is now popular worldwide. But it was not like that from the start. She had to face many difficulties, many problems. J. K. Rowling has herself said that in times of trouble she would channelize all her energies into tasks that had real significance for her.
Exams are not just for the students, they also put the students’ families, schools and teachers to test. Without the support system of parents and teachers, the students would not stand a good chance. If teachers, parents and even senior students all combine to form a team, a unit with a common thinking, and in a planned way move forward, then exams become a lot easier.
Keshav Vaishnav has written to me on my App, complaining that parents should never put pressure on their children to score more marks. They should only motivate them to prepare well for their exams. They should think about the need for their child to stay relaxed.
Vijay Jindal writes that parents should not burden their children with their own expectations. They should boost the confidence of their children as much as possible. They should help maintain their children’s faith in themselves. And this is so right.
Today, I don’t want to say much to the parents. Please don’t create any pressure for your children. If they are talking to any friend of theirs, please don’t stop them. Build a light-hearted environment for them, a positive environment, and see for yourself, be it your son or daughter, what confidence they are infused with. You will be able to see that confidence in your child yourself.
Friends, one thing is for sure, and I want to say this especially to my young friends, that our life has become very different from what it was for the previous generations. Every moment there is a new innovation, a new technology. We get to see new facets of science all the time. Its impact is overwhelming; we all want to link ourselves to science and technology. We also want to move ahead with the speed of science. I say all this because, friends, today is National Science Day, the festival of science in this country. Every year this day is observed on 28th February. On 28th February 1928, Sir C.V. Raman had declared his discovery of the “Raman Effect”. This was the discovery for which he received the Nobel Prize. And so the nation celebrates this day as National Science Day. Curiosity is the mother of science. Each person should have a scientific thinking, should be attracted to science. Each generation should lay stress on innovation. And innovation is not possible without science and technology. Today on National Science Day we should resolve that innovation should gain importance. Science, knowledge, technology… all these things should be a part of our journey to development. This year the theme for National Science Day is ‘Make in India Science and Technology-driven Innovations’. I humbly pay my homage to Sir C.V. Raman and I appeal to you all to raise the level of your interest in science.
Friends, sometimes success comes very late and when it does come to us, our way of looking at life changes completely. As you have been kept very busy with the coming exams, it might be possible that many news stories may not have registered on your minds. But I want to repeat this for all fellow citizens as well. You must have heard recently there has been a major and important discovery in the world of science. Scientists have labored hard, generations of them have persevered, and after nearly 100 years they have gained a huge success. Gravitational Wave has been brought to light with the efforts of our scientists. This is a success for science which was very difficult to achieve. This discovery not only proves the theory of our greatest scientist of the previous century, Albert Einstein, but is also considered a great discovery for the world of physics. It is going to be of use for the whole of humankind. But being Indians, we should all feel happy that in the entire process of this discovery, the sons of our country, our worthy Indian scientists, were also a part of it. I would like to extend my hearty congratulations to all those scientists. Our scientists will be involved in the future as well to take this discovery forward; India will be a part of future international efforts.
My dear fellow citizens, in the last few days we have taken an important decision. To gain more success about this discovery, the Government of India has decided to install a Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory, in short it is called LIGO, here in India. This kind of a facility exists only in two places in the world. India is going to be the third. This process is going to gain fresh momentum and strength with India joining hands with others. India, with its reputed resources, will surely be an active participant in this superior science discovery which is for the welfare of humankind. I once again congratulate all scientists and send them my best wishes.
My dear fellow citizens, I would like you to note down one number. From tomorrow, you can give a missed call on this number and listen to Mann ki Baat. You can even listen to it in your mother tongue. The number to give a missed call on is 81908-81908. I repeat 81908-81908.
Friends, your exams begin from day after tomorrow. I have to take an exam tomorrow. 125 crore people of this country are going to take my exam. You know it, don’t you? Tomorrow is Budget Day. 29th February. It is a leap year. But, you must have noticed and felt it while you heard me speak how fit and brimming with confidence I am. My exam gets over tomorrow and yours begin the dayafter. Let us hope we all are successful, then the country will surely succeed.
So friends lots of good wishes to you all. Free from all tension of success and failure, move ahead with a free mind. Keep going at it.
Thank You.
मेरे प्यारे देशवासियो, 2016 की ये पहली ‘मन की बात’ है। ‘मन की बात’ ने मुझे आप लोगों के साथ ऐसे बाँध के रखा है, ऐसे बाँध के रखा है कि कोई भी चीज़ नज़र आ जाती है, कोई विचार आ जाता है, तो आपके बीच बता देने की इच्छा हो जाती है। कल मैं पूज्य बापू को श्रद्धांजलि देने के लिये राजघाट गया था। शहीदों को नमन करने का ये प्रतिवर्ष होने वाला कार्यक्रम है। ठीक 11 बजे 2 मिनट के लिये मौन रख करके देश के लिये जान की बाज़ी लगा देने वाले, प्राण न्योछावर करने वाले महापुरुषों के लिये, वीर पुरुषों के लिये, तेजस्वी-तपस्वी लोगों के लिये श्रद्धा व्यक्त करने का अवसर होता है। लेकिन अगर हम देखें, हम में से कई लोग हैं, जिन्होंने ये नहीं किया होगा। आपको नहीं लगता है कि ये स्वभाव बनना चाहिए, इसे हमें अपनी राष्ट्रीय जिम्मेवारी समझना चाहिए? मैं जानता हूँ मेरी एक ‘मन की बात’ से ये होने वाला नहीं है। लेकिन जो मैंने कल feel किया, लगा आपसे भी बातें करूँ। और यही बातें हैं जो देश के लिये हमें जीने की प्रेरणा देती हैं। आप कल्पना तो कीजिए, हर वर्ष 30 जनवरी ठीक 11 बजे सवा-सौ करोड़ देशवासी 2 मिनट के लिये मौन रखें। आप कल्पना कर सकते हैं कि इस घटना में कितनी बड़ी ताक़त होगी? और ये बात सही है कि हमारे शास्त्रों ने कहा है –
“संगच्छध्वं संवदध्वं सं वो मनांसि जानताम” - “हम सब एक साथ चलें, एक साथ बोलें, हमारे मन एक हों।” यही तो राष्ट्र की सच्ची ताक़त है और इस ताक़त को प्राण देने का काम ऐसी घटनायें करती हैं।
मेरे प्यारे देशवासियो, कुछ दिन पहले मैं सरदार पटेल के विचारों को पढ़ रहा था। तो कुछ बातों पर मेरा ध्यान गया और उनकी एक बात मुझे बहुत पसंद आई। खादी के संबंध में सरदार पटेल ने कहा है, हिन्दुस्तान की आज़ादी खादी में ही है, हिन्दुस्तान की सभ्यता भी खादी में ही है, हिन्दुस्तान में जिसे हम परम धर्म मानते हैं, वह अहिंसा खादी में ही है और हिन्दुस्तान के किसान, जिनके लिए आप इतनी भावना दिखाते हैं, उनका कल्याण भी खादी में ही है। सरदार साहब सरल भाषा में सीधी बात बताने के आदी थे और बहुत बढ़िया ढंग से उन्होंने खादी का माहात्म्य बताया है। मैंने कल 30 जनवरी को पूज्य बापू की पुण्य तिथि पर देश में खादी एवं ग्रामोद्योग से जुड़े हुए जितने लोगों तक पहुँच सकता हूँ, मैंने पत्र लिख करके पहुँचने का प्रयास किया। वैसे पूज्य बापू विज्ञान के पक्षकार थे, तो मैंने भी टेक्नोलॉजी का ही उपयोग किया और टेक्नोलॉजी के माध्यम से लाखों ऐसे भाइयों–बहनों तक पहुँचने का प्रयास किया है। खादी अब एक symbol बना है, एक अलग पहचान बना है। अब खादी युवा पीढ़ी के भी आकर्षण का केंद्र बनता जा रहा है और खास करके जो-जो holistic health care और organic की तरफ़ झुकाव रखते हैं, उनके लिए तो एक उत्तम उपाय बन गया है। फ़ैशन के रूप में भी खादी ने अपनी जगह बनाई है और मैं खादी से जुड़े लोगों का अभिनन्दन करता हूँ कि उन्होंने खादी में नयापन लाने के लिए भरपूर प्रयास किया है। अर्थव्यवस्था में बाज़ार का अपना महत्व है। खादी ने भी भावात्मक जगह के साथ-साथ बाज़ार में भी जगह बनाना अनिवार्य हो गया है। जब मैंने लोगों से कहा कि अनेक प्रकार के fabrics आपके पास हैं, तो एक खादी भी तो होना चाहिये। और ये बात लोगों के गले उतर रही है कि हाँ भई, खादीधारी तो नहीं बन सकते, लेकिन अगर दसों प्रकार के fabric हैं, तो एक और हो जाए। लेकिन साथ-साथ मेरी बात को सरकार में भी एक सकारात्मक माहौल पनप रहा है। बहुत सालों पहले सरकार में खादी का भरपूर उपयोग होता था। लेकिन धीरे-धीरे आधुनिकता के नाम पर ये सब ख़त्म होता गया और खादी से जुड़े हुए हमारे ग़रीब लोग बेरोज़गार होते गए। खादी में करोड़ों लोगों को रोज़गार देने की ताकत है। पिछले दिनों रेल मंत्रालय, पुलिस विभाग, भारतीय नौसेना, उत्तराखण्ड का डाक-विभाग – ऐसे कई सरकारी संस्थानों ने खादी के उपयोग में बढ़ावा देने के लिए कुछ अच्छे Initiative लिए हैं और मुझे बताया गया कि सरकारी विभागों के इस प्रयासों के परिणामस्वरूप खादी क्षेत्र में काम करने वाले लोगों के लिए, इस requirement को पूरा करने के लिए, सरकार की आवश्यकताओं को पूरा करने के लिए, अतिरिक्त – extra - 18 लाख मानव दिन का रोज़गार generate होगा। 18 lakh man-days, ये अपने आप में एक बहुत बड़ा jump होगा। पूज्य बापू भी हमेशा Technology के up-gradation के प्रति बहुत ही सजग थे और आग्रही भी थे और तभी तो हमारा चरखा विकसित होते-होते यहाँ पहुँचा है। इन दिनों solar का उपयोग करते हुए चरखा चलाना, solar energy चरखे के साथ जोड़ना बहुत ही सफल प्रयोग रहा है। उसके कारण मेहनत कम हुई है, उत्पादन बढ़ा है और qualitative गुणात्मक परिवर्तन भी आया है। ख़ास करके solar चरखे के लिए लोग मुझे बहुत सारी चिट्ठियाँ भेजते रहते हैं। राजस्थान के दौसा से गीता देवी, कोमल देवी और बिहार के नवादा ज़िले की साधना देवी ने मुझे पत्र लिखकर कहा है कि solar चरखे के कारण उनके जीवन में बहुत परिवर्तन आया है। हमारी आय double हो गयी है और हमारा जो सूत है, उसके प्रति भी आकर्षण बढ़ा है। ये सारी बातें एक नया उत्साह बढ़ाती हैं। और 30 जनवरी, पूज्य बापू को जब स्मरण करते हैं, तो मैं फिर एक बार दोहराऊँगा - इतना तो अवश्य करें कि अपने ढेर सारे कपड़ों में एक खादी भी रहे, इसके आग्रही बनें।
प्यारे देशवासियो, 26 जनवरी का पर्व बहुत उमंग और उत्साह के साथ हम सबने मनाया। चारों तरफ़, आतंकवादी क्या करेंगे, इसकी चिंता के बीच देशवासियों ने हिम्मत दिखाई, हौसला दिखाया और आन-बान-शान के साथ प्रजासत्ताक पर्व मनाया। लेकिन कुछ लोगों ने हट करके कुछ बातें कीं और मैं चाहूँगा कि ये बातें ध्यान देने जैसी हैं, ख़ास-करके हरियाणा और गुजरात, दो राज्यों ने एक बड़ा अनोखा प्रयोग किया। इस वर्ष उन्होंने हर गाँव में जो गवर्नमेंट स्कूल है, उसका ध्वजवंदन करने के लिए, उन्होंने उस गाँव की जो सबसे पढ़ी-लिखी बेटी है, उसको पसंद किया। हरियाणा और गुजरात ने बेटी को माहात्म्य दिया। पढ़ी-लिखी बेटी को विशेष माहात्म्य दिया। ‘बेटी बचाओ-बेटी पढ़ाओ’ - इसका एक उत्तम सन्देश देने का उन्होंने प्रयास किया। मैं दोनों राज्यों की इस कल्पना शक्ति को बधाई देता हूँ और उन सभी बेटियों को बधाई देता हूँ, जिन्हें ध्वजवंदन, ध्वजारोहण का अवसर मिला। हरियाणा में तो और भी बात हुई कि गत एक वर्ष में जिस परिवार में बेटी का जन्म हुआ है, ऐसे परिवारजनों को 26 जनवरी के निमित्त विशेष निमंत्रित किया और वी.आई.पी. के रूप में प्रथम पंक्ति में उनको स्थान दिया। ये अपने आप में इतना बड़ा गौरव का पल था और मुझे इस बात की खुशी है कि मैंने अपने ‘बेटी बचाओ-बेटी पढ़ाओ’ अभियान का प्रारंभ हरियाणा से किया था, क्योंकि हरियाणा में sex-ratio में बहुत गड़बड़ हो चुकी थी। एक हज़ार बेटों के सामने जन्म लेने वाली बेटियों की संख्या बहुत कम हो गयी थी। बड़ी चिंता थी, सामाजिक संतुलन खतरे में पड़ गया था। और जब मैंने हरियाणा पसंद किया, तो मुझे हमारे अधिकारियों ने कहा था कि नहीं-नहीं साहब, वहाँ मत कीजिए, वहाँ तो बड़ा ही negative माहौल है। लेकिन मैंने काम किया और मैं आज हरियाणा का ह्रदय से अभिनन्दन करता हूँ कि उन्होंने इस बात को अपनी बात बना लिया और आज बेटियों के जन्म की संख्या में बहुत तेज़ी से वृद्धि हो रही है। मैं सचमुच में वहाँ के सामाजिक जीवन में जो बदलाव आया है, उसके लिए अभिनन्दन करता हूँ।
पिछली बार ‘मन की बात’ में मैंने दो बातें कही थीं। एक, एक नागरिक के नाते हम महापुरुषों के statue की सफाई क्यों न करें! statue लगाने के लिये तो हम बड़े emotional होते हैं, लेकिन बाद में हम बेपरवाह होते हैं। और दूसरी बात मैंने कही थी, प्रजासत्ताक पर्व है तो हम कर्तव्य पर भी बल कैसे दें, कर्तव्य की चर्चा कैसे हो? अधिकारों की चर्चा बहुत हुई है और होती भी रहेगी, लेकिन कर्तव्यों पर भी तो चर्चा होनी चाहिए! मुझे खुशी है कि देश के कई स्थानों पर नागरिक आगे आए, सामाजिक संस्थायें आगे आईं, शैक्षिक संस्थायें आगे आईं, कुछ संत-महात्मा आगे आए और उन सबने कहीं-न-कहीं जहाँ ये statue हैं, प्रतिमायें हैं, उसकी सफ़ाई की, परिसर की सफ़ाई की। एक अच्छी शुरुआत हुई है, और ये सिर्फ़ स्वच्छता अभियान नहीं है, ये सम्मान अभियान भी है। मैं हर किसी का उल्लेख नहीं कर रहा हूँ, लेकिन जो ख़बरें मिली हैं, बड़ी संतोषजनक हैं। कुछ लोग संकोचवश शायद ख़बरें देते नहीं हैं। मैं उन सबसे आग्रह करता हूँ – MyGov portal पर आपने जो statue की सफ़ाई की है, उसकी फोटो ज़रूर भेजिए। दुनिया के लोग उसको देखते हैं और गर्व महसूस करते हैं।
उसी प्रकार से 26 जनवरी को ‘कर्तव्य और अधिकार’ - मैंने लोगों के विचार माँगे थे और मुझे खुशी है कि हज़ारों लोगों ने उसमें हिस्सा लिया।
मेरे प्यारे देशवासियो, एक काम के लिये मुझे आपकी मदद चाहिए और मुझे विश्वास है कि आप मेरी मदद करेंगे। हमारे देश में किसानों के नाम पर बहुत-कुछ बोला जाता है, बहुत-कुछ कहा जाता है। खैर, मैं उस विवाद में उलझना नहीं चाहता हूँ। लेकिन किसान का एक सबसे बड़ा संकट है, प्राकृतिक आपदा में उसकी पूरी मेहनत पानी में चली जाती है। उसका साल बर्बाद हो जाता है। उसको सुरक्षा देने का एक ही उपाय अभी तो ध्यान में आता है और वो है फ़सल बीमा योजना। 2016 में भारत सरकार ने एक बहुत बड़ा तोहफ़ा किसानों को दिया है - ‘प्रधानमंत्री फ़सल बीमा योजना’। लेकिन ये योजना की तारीफ़ हो, वाहवाही हो, प्रधानमंत्री को बधाइयाँ मिलें, इसके लिये नहीं है। इतने सालों से फ़सल बीमा की चर्चा हो रही है, लेकिन देश के 20-25 प्रतिशत से ज़्यादा किसान उसके लाभार्थी नहीं बन पाए हैं, उससे जुड़ नहीं पाए है। क्या हम संकल्प कर सकते हैं कि आने वाले एक-दो साल में हम कम से कम देश के 50 प्रतिशत किसानों को फ़सल बीमा से जोड़ सकें? बस, मुझे इसमें आपकी मदद चाहिये। क्योंकि अगर वो फ़सल बीमा के साथ जुड़ता है, तो संकट के समय एक बहुत बड़ी मदद मिल जाती है। और इस बार ‘प्रधानमंत्री फ़सल बीमा योजना’ की इतनी जनस्वीकृति मिली है, क्योंकि इतना व्यापक बना दिया गया है, इतना सरल बना दिया गया है, इतनी टेक्नोलॉजी का Input लाए हैं। और इतना ही नहीं, फ़सल कटने के बाद भी अगर 15 दिन में कुछ होता है, तो भी मदद का आश्वासन दिया है। टेक्नोलॉजी का उपयोग करके, उसकी गति तेज़ कैसे हो, बीमा के पैसे पाने में विलम्ब न हो - इन सारी बातों पर ध्यान दिया गया है। सबसे बड़ी बात है कि फ़सल बीमा की प्रीमियम की दर, इतनी नीचे कर दी गयी, इतनी नीचे कर दी गयी हैं, जो शायद किसी ने सोचा भी नहीं होगा। नयी बीमा योजना में किसानों के लिये प्रीमियम की अधिकतम सीमा खरीफ़ की फ़सल के लिये दो प्रतिशत और रबी की फ़सल के लिए डेढ़ प्रतिशत होगी। अब मुझे बताइए, मेरा कोई किसान भाई अगर इस बात से वंचित रहे, तो नुकसान होगा कि नहीं होगा? आप किसान नहीं होंगे, लेकिन मेरी मन की बात सुन रहे हैं। क्या आप किसानों को मेरी बात पहुँचायेंगे? और इसलिए मैं चाहता हूँ कि आप इसको अधिक प्रचारित करें। इसके लिए इस बार मैं एक आपके लिये नयी योजना भी लाया हूँ। मैं चाहता हूँ कि मेरी ‘प्रधानमंत्री फ़सल बीमा योजना’ ये बात लोगों तक पहुँचे। और ये बात सही है कि टी.वी. पर, रेडियो पर मेरी ‘मन की बात’ आप सुन लेते हैं। लेकिन बाद में सुनना हो तो क्या? अब मैं आपको एक नया तोहफ़ा देने जा रहा हूँ। क्या आप अपने मोबाइल फ़ोन पर भी मेरे ‘मन की बात’ सुन सकते हैं और कभी भी सुन सकते हैं। आपको सिर्फ़ इतना ही करना है – बस एक missed call कर दीजिए अपने मोबाइल फ़ोन से। ‘मन की बात’ के लिये मोबाइल फ़ोन का नंबर तय किया है – 8190881908. आठ एक नौ शून्य आठ, आठ एक नौ शून्य आठ। आप missed call करेंगे, तो उसके बाद कभी भी ‘मन की बात’ सुन पाएँगे। फ़िलहाल तो ये हिंदी में है, लेकिन बहुत ही जल्द आपको अपनी मातृभाषा में भी ‘मन की बात’ सुनने का अवसर मिलेगा। इसके लिए भी मेरा प्रबन्ध जारी है।
मेरे प्यारे नौजवानो, आपने तो कमाल कर दिया। जब start-up का कार्यक्रम 16 जनवरी को हुआ, सारे देश के नौजवानों में नयी ऊर्जा, नयी चेतना, नया उमंग, नया उत्साह मैंने अनुभव किया। लाखों की तादाद में लोगों ने उस कार्यक्रम में आने के लिए registration करवाया। लेकिन इतनी जगह न होने के कारण, आखिर विज्ञान भवन में ये कार्यक्रम किया। आप पहुँच नहीं पाए, लेकिन आप पूरा समय on-line इसमें शरीक हो करके रहे। शायद कोई एक कार्यक्रम इतने घंटे तक लाखों की तादाद में नौजवानों ने अपने-आप को जोड़ करके रखा और ऐसा बहुत rarely होता है, लेकिन हुआ! और मैं देख रहा था कि start-up का क्या उमंग है। और लेकिन एक बात, जो सामान्य लोगों की सोच है कि start-up मतलब कि I.T. related बातें, बहुत ही sophisticated कारोबार। start-up के इस event के बाद ये भ्रम टूट गया। I.T. के आस-पास का start-up तो एक छोटा सा हिस्सा है। जीवन विशाल है, आवश्यकतायें अनंत हैं। start-up भी अनगिनत अवसरों को लेकर के आता है।
मैं अभी कुछ दिन पहले सिक्किम गया था। सिक्किम अब देश का organic state बना है और देश भर के कृषि मंत्रियों और कृषि सचिवों को मैंने वहाँ निमंत्रित किया था। मुझे वहाँ दो नौजवानों से मिलने का मौका मिला – IIM से पढ़ करके निकले हैं – एक हैं अनुराग अग्रवाल और दूसरी हैं सिद्धि कर्नाणी। वो start-up की ओर चल पड़े और वो मुझे सिक्किम में मिल गए। वे North-East में काम करते हैं, कृषि क्षेत्र में काम करते हैं और herbal पैदावार हैं, organic पैदावार हैं, इसका global marketing करते हैं। ये हुई न बात!
पिछ्ली बार मैंने मेरे start-up से जुड़े लोगों से कहा था कि ‘Narendra Modi App’ पर अपने अनुभव भेजिए। कइयों ने भेजे हैं, लेकिन और ज़्यादा आयेंगे, तो मुझे ख़ुशी होगी। लेकिन जो आये हैं, वो भी सचमुच में प्रेरक हैं। कोई विश्वास द्विवेदी करके नौजवान हैं, उन्होंने on-line kitchen start-up किया है और वो मध्यम-वर्गीय लोग, जो रोज़ी-रोटी के लिए आये हुए हैं, उनको वो on-line networking के द्वारा टिफ़िन पहुँचाने का काम करते हैं। कोई मिस्टर दिग्नेश पाठक करके हैं, उन्होंने किसानों के लिए और ख़ास करके पशुओं का जो आहार होता है, animal feed होता है, उस पर काम करने का मन बनाया है। अगर हमारे देश के पशु, उनको अच्छा आहार मिलेगा, तो हमें अच्छा दूध मिलेगा, हमें अच्छा दूध मिलेगा, तो हमारा देश का नौजवान ताक़तवर होगा। मनोज गिल्दा, निखिल जी, उन्होंने agri-storage का start-up शुरू किया है। वो scientific fruits storage system के साथ कृषि उत्पादों के लिए bulk storage system develop कर रहे हैं। यानि ढेर सारे सुझाव आये हैं। आप और भी भेजिए, मुझे अच्छा लगेगा और मुझे बार-बार ‘मन की बात’ में अगर start-up की बात करनी पड़ेगी, जैसे मैं स्वच्छता की बात हर बार करता हूँ, start-up की भी करूँगा, क्योंकि आपका पराक्रम, ये हमारी प्रेरणा है।
मेरे प्यारे देशवासियो, स्वच्छता अब सौन्दर्य के साथ भी जुड़ रही है। बहुत सालों तक हम गंदगी के खिलाफ़ नाराज़गी व्यक्त करते रहे, लेकिन गंदगी नहीं हटी। अब देशवासियों ने गंदगी की चर्चा छोड़ स्वच्छता की चर्चा शुरू की है और स्वच्छता का काम कहीं-न-कहीं, कुछ-न-कुछ चल ही रहा है। लेकिन अब उसमें एक कदम नागरिक आगे बढ़ गए हैं। उन्होंने स्वच्छता के साथ सौन्दर्य जोड़ा है। एक प्रकार से सोने पे सुहागा और ख़ास करके ये बात नज़र आ रही है रेलवे स्टेशनों पर। मैं देख रहा हूँ कि इन दिनों देश के कई रेलवे स्टेशन पर वहाँ के स्थानीय नागरिक, स्थानीय कलाकार, students - ये अपने-अपने शहर का रेलवे स्टेशन सजाने में लगे हैं। स्थानीय कला को केंद्र में रखते हुए दीवारों का पेंटिंग रखना, साइन-बोर्ड अच्छे ढंग से बनाना, कलात्मक रूप से बनाना, लोगों को जागरूक करने वाली भी चीज़ें उसमें डालनी हैं, न जाने क्या-क्या कर रहे हैं! मुझे बताया किसी ने कि हज़ारीबाग़ के स्टेशन पर आदिवासी महिलाओं ने वहाँ की स्थानीय सोहराई और कोहबर आर्ट की डिज़ाइन से पूरे रेलवे स्टेशन को सज़ा दिया है। ठाणे ज़िले के 300 से ज़्यादा volunteers ने किंग सर्किल स्टेशन को सजाया, माटुंगा, बोरीवली, खार। इधर राजस्थान से भी बहुत ख़बरें आ रही हैं, सवाई माधोपुर, कोटा। ऐसा लग रहा है कि हमारे रेलवे स्टेशन अपने आप में हमारी परम्पराओं की पहचान बन जायेंगे। हर कोई अब खिड़की से चाय-पकौड़े की लॉरी वालों को नहीं ढूंढ़ेगा, ट्रेन में बैठे-बैठे दीवार पर देखेगा कि यहाँ की विशेषता क्या है। और ये न रेलवे का Initiative था, न नरेन्द्र मोदी का Initiative था। ये नागरिकों का था। देखिये नागरिक करते हैं, तो कैसा करते हैं जी। लेकिन मैं देख रहा हूँ कि मुझे कुछ तो तस्वीरें मिली हैं, लेकिन मेरा मन करता है कि मैं और तस्वीरें देखूँ। क्या आप, जिन्होंने रेलवे स्टेशन पर या कहीं और स्वच्छता के साथ सौन्दर्य के लिए कुछ प्रयास किया है, क्या मुझे आप भेज सकते हैं? ज़रूर भेजिए। मैं तो देखूँगा, लोग भी देखेंगे और औरों को भी प्रेरणा मिलेगी। और रेलवे स्टेशन पर जो हो सकता है, वो बस स्टेशन पर हो सकता है, वो अस्पताल में हो सकता है, वो स्कूल में हो सकता है, मंदिरों के आस-पास हो सकता है, गिरजाघरों के आस-पास हो सकता है, मस्जिदों के आस-पास हो सकता है, बाग़-बगीचे में हो सकता है, कितना सारा हो सकता है! जिन्होंने ये विचार आया और जिन्होंने इसको शुरू किया और जिन्होंने आगे बढ़ाया, सब अभिनन्दन के अधिकारी हैं। लेकिन हाँ, आप मुझे फ़ोटो ज़रूर भेजिए, मैं भी देखना चाहता हूँ, आपने क्या किया है!
मेरे प्यारे देशवासियो, अपने लिए गर्व की बात है कि फ़रवरी के प्रथम सप्ताह में 4 तारीख़ से 8 तारीख़ तक भारत बहुत बड़ी मेज़बानी कर रहा है। पूरा विश्व, हमारे यहाँ मेहमान बन के आ रहा है और हमारी नौसेना इस मेज़बानी के लिए पुरजोश तैयारी कर रही है। दुनिया के कई देशों के युद्धपोत, नौसेना के जहाज़, आंध्र प्रदेश के विशाखापत्तनम के समुद्री तट पर इकट्ठे हो रहे हैं। International Fleet Review भारत के समुद्र तट पर हो रहा है। विश्व की सैन्य-शक्ति और हमारी सैन्य-शक्ति के बीच तालमेल का एक प्रयास है। एक joint exercise है। बहुत बड़ा अवसर है। आने वाले दिनों में आपको टी.वी. मीडिया के द्वारा इसकी जानकारियाँ तो मिलने ही वाली हैं, क्योंकि ये बहुत बड़ा कार्यक्रम होता है और सब कोई इसको बल देता है। भारत जैसे देश के लिए ये बहुत महत्वपूर्ण है और भारत का सामुद्रिक इतिहास स्वर्णिम रहा है। संस्कृत में समुद्र को उदधि या सागर कहा जाता है। इसका अर्थ है अनंत प्रचुरता। सीमायें हमें अलग करती होंगी, ज़मीन हमें अलग करती होगी, लेकिन जल हमें जोड़ता है, समुद्र हमें जोड़ता है। समंदर से हम अपने-आप को जोड़ सकते हैं, किसी से भी जोड़ सकते हैं। और हमारे पूर्वजों ने सदियों पहले विश्व भ्रमण करके, विश्व व्यापार करके इस शक्ति का परिचय करवाया था। चाहे छत्रपति शिवाजी हों, चाहे चोल साम्राज्य हो - सामुद्रिक शक्ति के विषय में उन्होंने अपनी एक नई पहचान बनाई थी। आज भी हमारे कई राज्य हैं कि जहाँ समुन्दर से जुड़ी हुई अनेक परम्पराएँ जीवित हैं, उत्सव के रूप में मनाई जाती हैं। विश्व जब भारत का मेहमान बन रहा है, नौसेना की शक्ति का परिचय हो रहा है। एक अच्छा अवसर है। मुझे भी सौभाग्य मिलेगा इस वैश्विक अवसर पर उपस्थित रहने का।
वैसे ही भारत के पूर्वी छोर गुवाहाटी में खेल-कूद समारोह हो रहा है, सार्क देशों का खेल-कूद समारोह। सार्क देशों के हज़ारों खिलाड़ी गुवाहाटी की धरती पर आ रहे हैं। खेल का माहौल, खेल का उमंग। सार्क देशों की नई पीढ़ी का एक भव्य उत्सव असम में गुवाहाटी की धरती पर हो रहा है। ये भी अपने आप में सार्क देशों के साथ नाता जोड़ने का अच्छा अवसर है।
मेरे प्यारे देशवासियो, मैंने पहले ही कहा था कि मन में जो आता है, मन करता है, आपसे खुल करके बांटूं। आने वाले दिनों में दसवीं और बारहवीं की परीक्षायें होंगी। पिछली बार ‘मन की बात’ में मैंने परीक्षा के संबंध में विद्यार्थियों से कुछ बातें की थीं। इस बार मेरी इच्छा है कि जो विद्यार्थियों ने सफलता पाई है और तनावमुक्त परीक्षा के दिन कैसे गुज़ारे हैं, परिवार में क्या माहौल बना, गुरुजनों ने, शिक्षकों ने क्या role किया, स्वयं ने क्या प्रयास किये, अपनों से सीनियर ने उनको क्या बताया और क्या किया? आपके अच्छे अनुभव होंगे। इस बार हम ऐसा एक काम कर सकते हैं कि आप अपने अनुभव मुझे ‘Narendra Modi App’ पर भेज दीजिये। और मैं मीडिया से भी प्रार्थना करूँगा, उसमें जो अच्छी बातें हों, वे आने वाले फ़रवरी महीने में, मार्च महीने में अपने मीडिया के माध्यम से प्रचारित करें, ताकि देशभर के students उसको पढ़ेंगे, टी.वी. पर देखेंगे और उनको भी चिंतामुक्त exam कैसे हो, तनावमुक्त exam कैसे हो, हँसते-खेलते exam कैसे दिए जाएँ, इसकी जड़ी-बूटी हाथ लग जाएगी और मुझे विश्वास है कि मीडिया के मित्र इस काम में ज़रूर मदद करेंगे। हाँ, लेकिन तब करेंगे, जब आप सब चीज़ें भेजेंगे। भेजेंगे न? पक्का भेजिए।
बहुत-बहुत धन्यवाद, दोस्तो। फिर एक बार अगली ‘मन की बात’ के लिए अगले महीने ज़रूर मिलेंगे। बहुत धन्यवाद।
Fellow citizens, Namaskar to all . This will be the last edition of Mann ki Baat in 2015. The next edition of Mann ki Baat will be in 2016. We celebrated Christmas and preparations are now on to ring in the New Year.
India is land of diversities. We celebrate a whole lot of festivals. One is not done with one festival, in the mean time the second one comes along. In a way one festival leaves us waiting for another. At times it feels India is one such country which has a ‘festival driven economy’. It becomes a source of the economic activities for even the poor sections of the society. Greetings from my end for a Merry Christmas to all Indians and I also wish you all a Happy New Year. May 2016 usher in lots of joys in your lives. I hope that new zeal, new excitement and new pledges may take you to new heights. May the world be free of crises, be it from terrorism, from global warming or from natural calamities or manmade tragedies. There can be no greater happiness than the humanity having a peaceful existence.
You are aware that I use a lot of technology which provides me lots of information. I keep a watchful eye on my portal “My Gov”.
Mr. Ganesh V. Savleshwarkar has written to me from Pune that this season is a tourist season. A large number of foreign and domestic tourists travel across the country. People also travel to celebrate Christmas vacations. He says most of the facilities related to tourism are catered to but special emphasis should be laid on cleanliness at all places which are tourist destinations or famed tourist places, religious destinations or stay over’s. India’s image will be enhanced if the tourist destinations are clean. I appreciate the views of Ganesh jee and convey this message to the people of our country. We say, “Atithi devo bhava” and just imagine how we strive to keep our homes neat and clean when a guest is due to arrive. In a similar manner, the onus is on us to maintain our tourist destinations and pilgrim tourism sites neat and clean. I am very happy that a lot of news stories related to cleanliness keep appearing in the media space. From day one, I have thanked our media friends since they have brought may such small and good success stories before the people. I have come across a nice story in the newspaper and I would like to narrate it with the fellow citizens.
Dileep Singh Malviya is an elderly artisan from Bhojpura village in Sehore district of Madhya Pradesh. He is a mason by profession to earn his livelihood. He did something so different that the newspapers printed his story. And when it came to my notice, I wanted to share this story with you. Hailing from a small village, Dileep Singh Malviya decided that if anyone provides materials for toilet in the village, he will render his labour services free of cost. And hats off to him, he has constructed 100 toilets in Bhojpura village so far taking it as a divine cause and providing his labour services without charging a penny. My heartfelt congratulations to Dileep Singh Malviya for his earnest efforts. Sometimes we hear disappointing news about our nation. But there are thousands of people like Dilip Singh who are doing something good for the nation on their own.This is the power of the nation. This is the hope of the nation and these are the things which carry the nation forward and it is natural that we applaud Dilip Singh and his efforts in Mann ki Baat.
Due to tireless efforts of many people the nation is making rapid progress. 125 crores Indians are not only marching together but they are taking the country forward too. Better education, best talent and new opportunities of employment are being created. Be it providing insurance cover to citizens or providing them banking facilities, be it the ‘Ease of Doing Business’ in the world horizon or making facilities available for new businesses, we have done it all. People from normal backgrounds who could not step inside banks can now avail loan facilities from the “Mudra” Yojana.
Every Indian is proud to know how the world is accepting and getting attracted towards Yoga. When the world celebrated “International Yoga Diwas” and the entire world got associated with it, we became proud of our country. Such emotions arise when we see the enormity of our nation. No one can forget the story of Krishna and Yashoda where he opened his mouth and the mother was able to see the entire universe, and then only his power could be realized. The Yoga incident was a similar reminder.
The concept of cleanliness is being echoed in every household. The participation of citizens is also increasing. Many villages receive an electric pole after so many years of Independence. Those of us who live in cities and are so accustomed to using electricity that we don’t realize the extent of happiness and excitement when darkness is removed from our lives. The power department of the state and Indian government were functional earlier as well but from the day 1000 day target to provide electricity to every village has been set, we get news everyday that power supply is available in some or the other village and the happiness of the inhabitants’ knows no bounds. The media has not discussed this topic. But I am sure that media will definitely reach such villages and will inform the nation about the happiness and excitement of the people there.
The biggest achievement of this task is that the government officials involved in this task will have immense satisfaction that they have done something which will bring about such a big change in the lives of the people and the village itself. Be it the farmers, poor, young or women, should such things reach them or not? Such news should reach them not to highlight any government’s achievement, but to make them aware of their rights. They should not let go if it is their right. People should get information in order to avail their rights. We should all make efforts that right information, good information and information useful to the common man should reach as many people as possible. This is also a kind of service. I too have tried to do this work from my end. I cannot do everything alone by myself. But if I am saying then I should at least do something. Even a common man can download the Narendra Modi App and get connected to me. And I can share these small things with you through the app. And it is a matter of happiness for me that people share all the things with me. You too get connected with this initiative, we have to reach 125 crore Indians. How will I reach without your help? Come, let us collectively do such things of interest for the common man in their language and inspire them to avail things which are their rights.
My dear young friends, I had some preliminary discussions about “Start-up India, Stand-up India” in my speech on 15th August from the Red Fort. After that all government departments started discussing it. Can India become a “Start-up Capital’? Can our states work together for new Start-ups for youth, and encourage innovations with start-ups, be it in the manufacturing sector, service sector or agriculture. Everything should be new, new ways and new thinking - after all the world does not move ahead without innovation. “Start-up India, Stand-up India” brings in a huge opportunity for the young generation. My dear young friends, the government will launch the entire action plan for “Start-up India, Stand-up India on 16th January. What it will be, how it will be and why it will be? You will be presented with a structure. In this program all the IIT’s, IIM’s, Central Universities, NIT’s, wherever there is young generation, they will be brought together via live connectivity.
There is an established thinking regarding the Start-ups that they are meant only for the digital world or the IT profession. This is not true at all, we need to modify it according to the needs of India. For example, when a poor person works somewhere as a labourer and there is a lot of physical effort involved but if a young man innovates something which can reduce the physical effort and help the labourer- I will call it as a Start-up. I will ask the bank to help such an individual and I will tell him to move ahead with courage. You will get the Market. Similarly is the intellectual wealth limited to a few selected cities or what? This thinking is wrong. The Indian youth all over the country has talent, all they need is opportunities. This “Start-up India, Stand-up India should not be limited to a few cities only. It should spread to every corner of India. And I will request the state governments to take this forward. I will definitely interact with you on 16th January and will discuss this in detail. Your suggestions are always welcome.
Dear young friends, 12th January is the birth anniversary of Swami Vivekananda. There are thousands like me who draw inspiration from him. Since 1995, 12th January, the birth Anniversary of Vivekananda is celebrated as the National Youth Festival. This year it will be organized from 12-16th January in Raipur district of Chhattisgarh. This is a theme based event and I have got the information that this time they have a very good theme and that is “Indian Youth on Development Skill and Harmony”. I have been told that 10,000 young people will gather from all over India. A mini-India will be created there. They will share dreams together. A feeling of determination will be experienced. Can you give me suggestions regarding this youth festival? I would request the youth to send me their suggestions directly on the ‘Narendra Modi App”. I want to gain an insight into your understanding. And that it gets reflected in the Youth Festival, for that I will give the government reasonable suggestions and information. So I will wait dear friends for your suggestions on the youth festival on the ‘Narendra Modi App’.
Dilip Chauhan, from Ahmedabad, Gujarat, who is a visually challenged teacher celebrated ‘Accessible India Day’ in his school. He called me up to express his feelings:
“Sir, we celebrated Accessible India Campaign in our school. I am a visually challenged teacher and I addressed 2000 children on the issue of disability and how we can spread awareness and help differently-abled people. And the students’ response was fantastic, we enjoyed in the school and the students were inspired and motivated to help the disabled people in the society. I think it was a great initiative by you.”
Dilip ji, thank you very much. You are yourself working in this field. You understand everything and you must have faced a lot of difficulties too. Sometimes when we meet someone with different ability in the society then a lot of things come to our mind. We express our perception of him based on our thinking. There are some people who lose a limb or body part in an accident. Some people are born with some defects. And for these people different terms are used and a lot of thought goes on behind the usage of these terms. All the time people feel that this kind of identification does not sound nice and respectable. At some point we heard handicapped, then it was disabled and somewhere it is specially-abled, so many terms have been used. It is true that words have their own significance. This year when the government of India started the ‘Sugamya India’ programme. I was supposed to attend it, but could not make it, because of severe floods in Chennai and other areas of Tamil Nadu. However, since I had to attend that program some thoughts kept coming iin my mind. That time, I thought that we call or know those people as handicapped since they are lacking in some ways in terms of their body structure or whose organs do not function properly. However, at times when we interact with them, we realize that we see only the deficits with our eyes but God has certainly bestowed them with some extra powers. God has bestowed upon them some different power which we cannot see with our eyes, but it is only when we see them working do we realize their talent. We think O Great! Look how he works. So I thought that upon looking at them with our eyes we feel that they are handicapped, but experiences tell us that they have some extra power. So I thought why not use the term ‘Divyang’ instead of ‘viklang’ in our country. They are those people who have one or more such organs which have divinity, where divine power flows which we normal bodied people do not have. I like this term. My dear countrymen can we make it a habit to use the word ‘Divyang’ and make it popular. I hope that you will take this forward.
That day we started the ‘Sugamya Bharat’ campaign. Under this campaign we will improve both the physical and virtual infrastructure and make it accessible for the “Divyang’ people. Be it schools, hospitals, government offices, bus depots, railway stations, everywhere ramps, accessible parking, accessible lifts, Braille, many amenities will be made available. To make things Sugamya - we need innovation, we need technology, we need systems and we also need empathy from people. We have taken the initiative. We are receiving public participation too. People like it. You too can join in the manner you deem fit.
My dear countrymen, the government schemes will continue exist and run, but it is necessary that these schemes always remain operational. The schemes should be operational till the last the mile individual has benefitted from them. They should not have a dead existence in government files. After all, these schemes are meant for common man, the poor people. In the past few days the government has made an effort to ensure that the benefits of schemes reach out to the rightful owners. In our country, we give subsidy for the gas cylinders. Crores of rupees were spent on it but we did not know if it reached the right people or not. If this subsidy reached people on time or not? The Government has made some changes in the scheme. The government undertook the largest ‘Direct Benefit Transfer Scheme’ to provide subsidy directly in the bank accounts of the beneficiaries with the help of ‘Jan Dhan Account’ or ‘Aadhar Card’ etc. I am happy to share with the countrymen that this scheme has earned a place in Guinness Book of World Records as the largest Direct Benefit Transfer Scheme which has been implemented successfully. This scheme is known as ‘Pehel’ and this experiment has been very successful. Till November end, around 15 crore LPG customers have become its beneficiaries. The government money is being directly transferred to the accounts of 15 crore beneficiaries. No middlemen nor any recommendation, nor any possibility of corruption. On one hand was the Aadhar Card Scheme, and on the other was the Jan Dhan Account. Thirdly the state and Indian government compiled the lists of beneficiaries. That was connected to account and Aadhar. This work is still in progress. Nowadays, even the MNREGA scheme, which provides employment opportunities in villages, is being connected to it. There were lots of complaints about this scheme. In many places the wages of the labourers is now being directly transferred into their accounts. There were complaints about student scholarships too, they too are being transferred into their accounts. This has been started and will be gradually taken forward. Till now around 40,000 crore rupees are directly reaching the beneficiaries through various schemes. According to my rough estimate, around 35-40 schemes are now under ‘Direct Benefit Transfer.’
My dear countrymen, 26th January is the golden moment in the life of Indian democracy. This is a beautiful co-incidence that Baba Saheb Ambedkar, the maker of the Indian Constitution, his 125th birth anniversary will be celebrated this year. We organized a two day special discussion on the constitution and it was a very good experience. All the parties and all the members deliberated on the sanctity of the constitution, its importance to understand the true interpretation of the constitution. It was an excellent discussion. We should take this thing forward. Can Republic Day be an opportunity to connect the masses with the system? Our constitution grants us several rights and there are many discussions on it and it should be so and it is equally important. But constitution equally emphasizes on duty also. But it is seen that duties are hardly discussed. At the most, whenever there are elections, then we see advertisement all around us, they write on the walls and hoardings are put to tell that to vote is our sacred duty. There is a lot of talk about duties during elections, but why not discuss our duties in general life too. This year when we are celebrating the 125th birth anniversary of Babasaheb Ambedkar then can we make 26th January a medium to organize debates, poetry, slogan competition regarding duties in our own schools, colleges, villages, cities and various organizations and societies. If 125 crore Indians take dutiful steps one after the other, they can make history. But at least let’s start with discussions. I have An iidea – Send me an essay or poem before 26th January about duty in Hindi or English or your native language. Can you send me? I want to know your views. Send them on my portal ‘My Gov”. I would like to know what my young generation thinks about their duties.
I want to give a small suggestion. On 26th January we celebrate Republic Day. Can we citizens and school and college students take up the initiative of cleaning the statue of any great men installed in our city, of cleaning the premises, we can do best of cleanliness and best of decoration on the occasion of 26th January. And I am not saying this on government lines. We become so emotional about getting the statues of great men erected but become equally complacent when it comes to maintaining them. As a society, as a nation can we make it a natural tendency to respect the statues of our great men? On this 26th January let us make an effort that we will respect such great men and keep the premises clean. But this should be done by the citizens willfully.
Dear Countrymen, greetings to you for a Happy New Year 2016. Thank You Very Much!
My dear countrymen, Namaste!
I believe you must have had a great time during your Diwali vacations amidst all festivities. You must have had the opportunity to visit some other places. The new trades and jobs would have commenced with renewed vigour. On the other hand Christmas preparations must have started too. Festivals have their own significance in social life. Sometimes festivities help to heal wounds and sometimes they are source of renewed energy. But sometimes when a calamity strikes during festivities then it is very painful and it feels even more. There is continuous news of natural calamities from various parts of the world. And sometimes the news is very bizarre, never seen or never heard of. We are now realizing the effects of climate change very rapidly. In our country itself, we have experienced torrential rains, that too without season and for a very long duration. Tamil Nadu has suffered heavy losses and other states suffered too. Many people lost their lives. My heart goes out to all those people in this hour of crisis. The state governments have braced themselves up for rescue and relief work. The Central government too has joined them in their efforts. Right now, a team of the Central government officials are in Tamil Nadu. But I have full faith in Tamil Nadu’s potential and know that post this crisis it will rise again and speedily move forward and will continue to deliver in its role of taking the country forward.
Now when there are talks of such crisis all around, we feel the need to bring in a lot of change. About 15 years back natural calamity was a part of the Agricultural Ministry’s realm because most of the calamities were limited to famine. But today, its form and format has changed. It has become important to work on our capacity building at every level. The government, civil society, the citizens, and the small organizations will all have to work for capacity building through scientific temperament. After the Nepal earthquake I talked to Pakistan’s Prime Minister Nawaz Sharif. I suggested that the SAARC nations should come together for a joint exercise on disaster preparedness. I am happy that a seminar workshop on table talk exercises and best practices was organized in Delhi. This is a good beginning.
Today, I received a phone call from Lakhwinder Singh from Jalandhar, Punjab. “I am Lakhwinder Singh from Jalandhar, Punjab. We do organic farming in our fields and also guide a lot of others regarding it. I have a question “how to guide people that burning of farm remains or straw not only destroys the micro organisms of the soil but also contributes to the pollution in Delhi, Punjab and Haryana. Lakhwinder Singh ji, ‘I am happy to hear your message. I am happy that, you are a farmer engaged in organic farming. And not just that, you also understand the problems of the farmers really well. Your concerns are right but this just does not happen in Punjab and Haryana alone. It is a practice in the entire country and traditionally we follow this method of burning off the remains of the crops or the straw. Initially we were not aware of the damage. We did it because the others did it. Secondly, people are not aware of the available solutions. They have not been trained about it. And this practice kept on spreading and now it is contributing to global climate change. And now we are hearing more about it because it is affecting the city life too. But the concern you have expressed is genuine. So the first solution is that the brothers and sisters engaged in agriculture need to be trained. They will need to face the truth on their thinking that burning the remains of crops helps save time and effort and prepares the field for the next crop. But this is not the truth. The remains of the crop are themselves very valuable. They are organic fertilizer themselves. We are wasting them. Not only this, if they are chopped into small bits, they can act as a dry fruit for cattle. Secondly because of burning this the top soil gets burnt.
My dear farmer brothers and sisters, just think that if we have strong bones, strong heart, strong kidney, an overall good system but our upper skin gets burnt then what will happen? Even if the heart is strong, we will not be able to survive. So burning the stump of crops not only burns them, it burns the skin of our motherland. The top soil of our land is burnt which pushes our fertile soil to death. Hence, some positive efforts need to be made. If these remains are once again buried inside the soil, then it will turn into fertilizers. If they are put in a pit and left with earth worms and little water, good quality organic fertilizer can be made. So it can be used not only to feed the animals, and save our land but also to create good fertilizer. If this is added to the soil, it will be doubly beneficial.
Once I had the opportunity of talking to farmers involved in Banana cultivation. And they shared a very good experience. Earlier as they cultivated banana, when the crop was over, the stumps of the tree would remain. To clear the stumps from the fields they had to spend 5,000, 10,000 or 15,000 rupees per hectare. And till the time the people who would clear these stumps would not come with tractors, the stumps would remain standing for long. But some farmers chopped those stumps into 6-6, 8-8 inch pieces and buried them inside the soil. They experienced that the banana stumps held so much water in them that no external water supply was needed for three months. Any plant or any crop sown over those stumps could flourish without water. The water in the stumps kept the crops alive. And now even their stumps are expensive. They are now a source of income. Earlier they had to spend money on clearing those stumps, now those very stumps are a source of revenue. A small experiment can turn lucrative, our farmers are no less than scientists.
Dear countrymen, the entire world will remember 3rd December as “International Day of Persons with Disabilities”. Last time in ‘Mann ki Baat’ I talked about organ donation. I talked about the NOTO helpline for ‘Organ donation’. I have been told that after that session the number of phone calls increased 7 times and the number of hits on the website increased 2.5 times. 27th November was celebrated as ‘Indian Organ Donation Day’. Many famous personalities including actress Raveena Tandon became a part of it. ‘Organ Donation’ can save many valuable lives. Organ donation can bring about immortality. When an organ moves from one body to another it gets a new life but the person receiving it gets a new lease of life. There can be no greater donation than this. I would like to inform those waiting for organs and those willing to donate that a national registry for organ transplantation has been launched on 27th November. Mygov.in organized a logo, donor card and slogan design competition for NOTO and it was surprising to me that so many people participated and presented their ideas in such innovative ways with such compassion. It is my faith that awareness in this field will increase and the needful will receive the best of help in true sense. This help cannot be obtained till someone donates their organs.
Like I said earlier, 3rd December is being celebrated as “International Day of People with Disability”. People with physical and mental disabilities are capable of unparalleled courage and capability. Sometimes it hurts when they are laughed at. Sometimes someone expresses pity and sympathy. But if we change our outlook and our perspective towards them, then these people can inspire us to live. They can inspire us to do a lot. We start crying even when small misfortune befalls us. Then we realize, our problem is so small but how does he survive? How does he live? How does he learn? And hence all of them are a source of inspiration to us. Their will power, their struggle with life and their zeal to transform crisis into opportunity is worth lot of praise.
Today, I want to talk about Javed Ahmed. He is 40-42 years old. In 1996, the terrorists had shot Jawed Ahmed in Kashmir. He was a victim of the terrorists but he survived. But the bullet damaged his kidney and a part of the intestine was lost. He suffered serious spinal injury. He lost the ability to stand on his own feet, but Jawed Ahmed did not concede defeat. The grave injury caused by terrorism could not deter him. His zeal is commendable, but above all is the fact that an innocent man had to face such a predicament, his youth is in danger yet he harbors no grudge and no anger. He turned this crisis into compassion and dedicated his life to social work. The body does not support him but for the past 20 years he has devoted himself to child education. How to improve the infrastructure for the physically challenged? How to develop systems for the disabled in government offices and public spaces? He is working on those issues. He turned the focus of his educational qualification in those areas. He took a masters degree in social work and is now leading a silent revolution as a messiah of the disabled, working as an informed citizen. Is his life not enough to inspire us in every corner of India? I especially remember the life of Jawed Ahmed, his dedication and devotion especially on every 3rd December. I am mentioning just the case of Jawed because of lack of time but such lights of inspiration are prevalent in every corner of the country. They are giving a new lease of life and illuminating the path for others. 3rd December is a day to remember all such people and get inspired by them.
Our country is very large. There are many things for which we are dependent on the government. Be it someone from middle class, lower middle class, dalit, exploited, victim or deprived, they have to continuously be in touch with the government or its various organizations. And as a citizen we surely have a bad experience with a government official in our lifetime. And that one experience shapes our perception of the government system for a lifetime. There is some truth to it. But at the same time within this governmental system there are lakhs of people who by their sense of duty, their dedication do some amazing work which does not get recognized. Sometimes it happens so naturally, it is so organic that one does not realize some government employee has done it.
In our country there is a network of ASHA workers. We have never discussed them in our country and I too have neither heard about them nor would you have. The success of the works of the entrepreneur couple Bill and Melinda Gates through their foundation has become an inspiration. Last year we honoured them with a joint Padma Vibhushan. They do a lot of social work in India. They are spending their entire retirement time and whatever they have earned on working for the poor. They are so full of praise for the ASHA workers they work with. They talk about their dedication and hard work and their zeal to learn about new things. They are full of such stories. In the past, the Orissa government especially facilitated an ASHA worker on Independence Day. She hails from a small village Tenda Gaon in Balasore district where most of the population is scheduled tribe. There the people are poor and the area is malaria infested. The ASHA worker Jamuna Manisingh decided that she will not let anyone die of malaria. She would go to each household and would be the first one to reach if there was news of fever in any household. She would put to use the primary training she received and give treatment accordingly. She would reach out to every household to use mosquito repellent and mosquito nets. The way we care for our kids and their sound sleep, Jamuna Manisingh would work with the same dedication for the entire village. She fought with Malaria and prepared the entire village to fight against it. There might be so many “Jamuna Mani”. There might be lakhs and lakhs of people around us. Let us show respect to such individuals. Such individuals lend power to our nation. They are partners to the joys and sorrows of others. I applaud all such ASHA workers through the story of Jamuna Mani.
My dear young friends, who are especially active on the internet and the social media, I want to inform that I have kept 3 e-books on mygov.in. These e-books are about inspiring stories of Swatch Bharat, health sector and the Sansad Aadarsh Gram Yojana. I request you to see it. Just don’t see it, show it to others too. Read it and may be you may find something to connect with it. Please do send it to Mygov.in. Such things do happen though we may miss them, but they are the actual strength of our nation. Positive power is the biggest energy. You also share good episodes. Share these e-books, discuss these books and some enthusiastic young man can narrate these to the students of VIII, IX or X standard in the nearby schools. So you can become a social teacher in the truest sense. I invite you to come and become a part of nation building.
My dear countryman, the entire world is worried about climate change. Climate change, global warming is being discussed at every nook and corner and now it has become an accepted standard for embarking on any new task. The earth’s temperature should not rise anymore. This is everyone’s concern and responsibility too. And to save us from rising temperatures, the first step is “energy conservation. 14th December is “National Energy Conservation day”. The government is running many schemes. There is a scheme of increasing L.E.D bulb usage. I had once mentioned to switch off the street lights on a full moon night and enjoy the moonlight for an hour. One should enjoy the moonlight. Some friend of mine had sent me a link and I had the opportunity to see it. I really wanted to share it with you. The actual credit goes to Zee News because the link was of Zee News. There is a woman Noor Jahan in Kanpur. Watching her on television it seemed that she did not have much of a chance to get education. But she is doing something which no one would have thought of. She is utilizing the Solar Energy of the Sun to illuminate the houses of the poor. She is fighting darkness and bringing light to her own name. She has formed a Samiti (committee) of women who manufacture lanterns that run on Solar Energy. They rent the lantern for Rs. 100/- per month. People take the lanterns in the evening and return them in the mornings for recharging. I have heard that people in large numbers around 500 people are using these lanterns. In an expense of Rs. 3-4 per day the entire house is illuminated. Noor Jehan works the entire day to recharge the lanterns in the solar energy plant. See what the big people of the world do for climate change. Maybe Noor Jehan can act as an inspiration to many for the kind of work she is doing. And actually, Noor Jehan means the light of the world. She is spreading light through her work. I congratulate Noor Jehan and Zee TV that they presented this effort which was going on in a remote corner of Kanpur to the country and the world. Many congratulations to you.
I received a phone call from Mr. Abhishek Kumar Pandey from Uttar Pradesh. “Namaste! I am Abhishek Kumar Pandey calling from Gorakhpur. I am working here as an entrepreneur. I want to congratulate the Prime Minister for starting a programme MUDRA bank. I would like to know from the Prime Minister how this MUDRA bank can support entrepreneurs like us. What kind of cooperation can we expect? Thank you, Abhishek ji. You sent me a message from Gorakhpur. The Prime Minister MUDRA fund is about funding the unfunded. Those who do not get funds may get funds. To put plainly the objective is 3E; Enterprises, Earning, Empowerment. MUDRA is meant to encourage enterprise; it is about creating earning opportunities. MUDRA will empower in the truest sense. It is meant to help the small scale enterprises. This initiative is yet to achieve the speed that I have aimed for. But the start has been good. Till now 66 lakh people have received 42,000 crore rupees through Pradhan Mantri Mudra Yojana. It can be a washer man, a barber, a newspaper vendor, milkman, just about anybody engaged in small enterprise. I am happy that out of the 66 lakh recipients 24 lakh were women. And most of the beneficiaries are from the SC, ST, OBC category who want to work hard and run their families independently. Abhishek has himself narrated his excitement. I too keep receiving various news. Someone just told me that there is one Shailesh Bhosle in Mumbai. He received a loan of 8.5 lakhs from MUDRA scheme. He started the sewage dress and cleanliness business. I had told about my cleanliness campaign that it will create new entrepreneurs. And Shailesh Bhonsle proved it. He has purchased a tanker and I have been told that he has already returned 2 lakh rupees in such a short span of time. This is our intention behind the MUDRA scheme. I have been told about Mamta Sharma from Bhopal. She received Rs 40,000 from the MUDRA Yojana. She is into the business of making purses. But earlier she would borrow money at high rates and barely manage her business. Now that she has a large sum of money in her hand, her work is going on smoothly. Earlier the money that was lost in paying high interest and for other reasons could now be saved. She was able to save around 1000 rupees every month. The family’s new enterprise started developing. But I want that this scheme is promoted more. Our banks should become more sensitized and should help more and more people. Actually, it is this people who run the economy. The people engaged in small enterprises give strength to the nation’s economy. We want to strengthen these people. Whatever has happened is good, but more good needs to be done.
My dear countrymen, on 31st October on the Anniversary of Sardar Patel I had discussed about – “Ek Bharat Shreshtha Bharat” (One India, Best India). Conducting such events creates continuous awareness in social life. “Rashtram Jagryam Vyayam: means “internal vigilance is the prize of liberty”. This tradition should be followed for national unity. I want to give “Ek Bharat Shreshtha Bharat” (One India, Best India) the form of a specific scheme. Mygov had invited suggestions about it. What should the structure of the programme be like? What should be the logo? How to increase public participation? What should be its structure? I have been told that many suggestions have been received. But I am expecting more suggestions. I expect more specific schemes. I have been told that the participants will all receive a certificate. Many big prizes have been announced. You also utilize your creative mind. How can we make this mantra of Ek Bharat Shreshtha Bharat (One India, Best India) that connects each and every Indian? What should be the programme and what should be the plan. It should be grand and full of life. It should be simple and effective to be able to connect everyone. What should the government do? What should be done by the Civil Society? There can be many ideas. I have complete faith that your ideas will be really useful.
My dear brothers and sisters, the winters are about to start. But it is also the season to enjoy eating and enjoy dressing. But I would request you to do exercises. I request you to utilize this good season for some kind of physical activity and exercise. Create this type of mood in the family, make it a celebration, all should get together for an hour to do these exercises. See how there will be an awakening. And see how your body helps you throughout the day. So make a good habit in this good season. My good wishes again to all my dear countrymen.
Jai Hind!
Namaskar to all my fellow citizens!
Once again I have the opportunity of connecting with you through Mann ki Baat. Today the fifth “one day” cricket match is being played between India and South Africa in Mumbai. This series has been named as the ‘Gandhi-Mandela’ series. It is at an interesting point with both teams having won 2 matches each. So the last game is significantly important. My best wishes to all the players.
Today I would like to congratulate the friends at the Kannur centre of Akashwani. I started the Mann ki Baat and people started connecting with it. One of them was Shraddha Thamban from Kerala a grade 12 student. Kannur Centre invited her for a ceremony and a lot of feedback was received. It created an environment of belonging. Kannur centre appreciated the awareness of Shraddha and she was rewarded. The development at Kannur centre inspired me. I wish all the Akashwani centers pay attention to raise the level of awareness among the members and make them active in their region so that our aim of governance with public participation gets a boost. My heartfelt greetings and congratulations to the team at Kannur station of Akashwani centre for their efforts.
I would like to talk about Kerala again. The girl students from Saint Mary Upper primary School from Chittoor in Kerala have sent me a letter. This letter is special in many ways. Firstly, these girls have created an image of Mother India by thumb prints on a huge piece of cloth. They have sent me the image of mother India. Initially I was surprised to see why they created a map of India using thumb prints. But when I read their letter, I realized how beautifully a symbolic message was given. It is not as if these girls have tried to just awaken the Prime Minister alone. They are trying to create awareness among the people in their region and their mission is organ donation. They are organizing a public awareness campaign for organ donation. They have organized plays for creating an understanding about organ donation. Organ donation should become a habit as well as an instinct. They have asked me in their letter to appeal to people about Organ Donation in Mann ki Baat. The octogenarian Vasantrao Sudke Guru ji from Maharashtra has been running a movement from a long time. He says that organ donation should be a celebrated as a festival. These days I get a lot of messages on phone calls also. Devesh from Delhi gas also sent me a similar message. ‘I am very happy with the government’s initiative on the organ donation and steps towards creating a policy on the same. The country really needs support in these things where people need to go out and help each other and the ambitious target of one per million organ donation is a very productive steps taken by the government.’
I feel that this topic is very important. The country needs more than 2.5 lakh kidneys, hearts and livers for donation per year. However in a country with 125 crore people, only 5000 transplants could take place. Each year about one lakh eyes are in need of a vision. And we are able to reach upto only 25,000 people who need it .It implies that we are able to provide eye transplant services to only one out of the four needy persons. We should also know that if someone is killed in a road accident, then also the organs can be donated. There are some legal hassles involved. And efforts have been made to guide the states in this direction.
By reducing the paper work, some of the states have made a good effort in speeding up the process involved in organ donation. Today, I can say that Tamil Nadu today ranks first in the field of organ donation. Many social organizations and NGO’s are doing commendable job in this direction. National Organ and Tissue transplant Organization (NOTO) has been established to encourage organ transplant. A 24x7 helpline facility is also available. Its number is 1800 114 770. And there is a saying ‘Tain Tyakten Bhunjhita’ ("What is given by Him, allotted to you, you enjoy that"). The joy of sacrifice is beautifully described in this mantra ‘Tain Tyakten Bhunjhita’. In the past few days we saw on television that the wife of a poor hawker in Delhi received a transplant in Delhi’s G.B. Pant Hospital. This liver was brought from Lucknow by making special arrangements. The transplant was successful. A life was saved. Organ donation is the biggest donation. Let us all realize the mantra of ‘Tain Tyakten Bhunjhita’ .
Dear countrymen, we recently celebrated the festival of Navratri and Vijayadashmi. And after some days we will celebrate Diwali too. We celebrated Eid and Ganesh Chaturthi too. But amongst all these another big festival is being organized which all our countrymen should be proud of. In the National Capital of Delhi an ‘India Africa Foreign Summit’ is being organized from 26th to 29th October. For the first time a program of this scale is being organized on the Indian soil. Leaders of 54 African countries and unions have been invited. This is the biggest conference of African countries outside Africa. India-Africa ties are deep. The African nations have a population equal to that of India. If both are combined together they make for a third of the world population. And it is said that lakhs of years ago it was all one landmass. Later from the Indian Ocean two parts got separated. There are a lot of similarities amongst us. The bio diversity of both the nations is similar. Our natural resources are similar. And almost 27 lakh Indians have settled in these nations from a long time. India shares a lot of economic, cultural and political ties with the African Nations. But India plays the largest role in training the youth of the African countries. More than 25,000 African youths have studied human resource development and capacity building in India. And many leaders from Africa have studied in India. So you can understand the depth of our relationship. And from that perspective this summit is very important. Generally when there is a summit, leaders of various countries meet. Similarly, in this summit the leaders will be meeting. We are making efforts that the people should also meet.
And this time, the Government of India, especially the HRD ministry has done something really commendable. An essay competition was organized among all the CBSE affiliated schools. A poetry competition was organized to increase their participation. Almost 1600 schools participated in the event. It included schools within and outside India. And thousands of children wrote on topics about strengthening the Indo Africa ties. On the other hand, a mobile exhibition called “Memories of Mahatma” starting from his birth place Porbander and travelling through North is about to reach Delhi on 29th October. Lakhs of school children enjoyed this exhibition. The villagers also had a glimpse. People realized the importance of the role of Mahatma Gandhi in developing the ties of both India and Africa and also the effect of his personality on these nations. Some excellent creations were received in this competition. One of the creations drew my attention and I want to share it with you. It reflects the talent, the broad vision and the depth of thoughts of students from small cities. Garima Gupta from Muzzafarnagar, UP writes beautifully and says-
The river in Africa is Nile and the name of the sea is Red,
The Continent is Huge and the Indian Diaspora Happy
Like the Indus Valley is recognition of India civilization
River Nile and Carthage are synonymous with African civilization
Gandhi ji started his revolution in Africa
He wove a spell and won everybody’s heart
Be it Johannesburg or Kingston, Zimbabwe or Chad
In each African nation, we can find our Aloo chat
To write, a thousand lines can be written
But I want to mention that I love African jungles
The poem is very long, but I have read a few lines to you. Though it is an Indo – Africa summit but how this too can become an opportunity to connect people is clearly evident here. I heartily congratulate Garima, the students and more than 1600 schools who participated and HRD Ministry for this initiative.
Last time on 15th August I had proposed the Sansad Adarsh Gram Yojana. Since then, many parliamentarian friends have adopted it. They were deeply involved. Last month a workshop was organized in Bhopal. All the pradhans, collectors, parliamentarians of villages adopted under Adarsh Gram, the representatives of Indian government and state government, all had an in-depth discussion on this program. Many new and encouraging things came to our attention. I would like to bring to your attention a few things. Jharkhand, a huge state is primarily tribal. Unfortunately whenever one talks of Jharkhand what comes to mind is Maoism, violence, guns and blood soaked land. Many regions in the state have been ruined by these communist terrorists. But the MP from that place, a senior member who has also been our Deputy S peaker, Shri Karia Munda has dedicated his life for the tribals. He chose Parsi Gram Panchayat from Khunti district to be adopted for Adarsh Gram. It is difficult for government officials to go to places ruled by the Maoists. Even the doctors cannot visit those places. He himself started travelling to this village, to instill faith and give a new lease of life to governmental organizations. He encouraged the officials to visit. He tried to change the mood of despondency and create a mood to achieve something. A successful effort has been made in Parsi village to create awareness along with infrastructure and organizational development. I would like to congratulate our Honourable parliamentarian Sri Karia Munda ji for the same.
I got similar information from Andhra too. The MP from Andhra Sri Ashok Gajapati Raju became involved in this plan and chose Dwarapudi Gram Panchayat from Vijaynagram district for the same. Other arrangements are in progress, but he did something really innovative. He gave a task to the students in the village school. The new generation in the village is fortunate to be educated but the older generation is not literate. So he asked the students of a higher age group to educate the parents. So in the morning they are students and by evening they become educators. And so, nearly 550 adults were taught by these children and made literate. Just see, no budget, no circular, no special arrangements but just will power brought about such a big change. This is amply demonstrated by the Dwarapudi Gram Panchayat.
Similarly, another respectable parliamentarian Sri C. L Ruwala ji, he is an MP from Mizoram, our North East. He chose Khwalahilung village for Adarsh Gram and ran a special initiative. This village is famous for sugarcane production and a Kurtayi jaggery. Sri Ruwala ji started a Sugarcane Festival on 11th March. All the people from the region came together for it. Senior members from social public life, retired government officials from the region also participated. They put up an exhibition on increasing sugarcane production. They discussed how the village could be made the centre of economic activities and how it could market for its produce. I congratulate Ruwala ji for his efforts to make this village not only an Adarsh gram but self dependent village too.
My dear brothers and sisters, it is not possible that there be an episode of Mann ki Baat and we do not discuss cleanliness. Savita Rai from Mumbai has sent me a telephonic message - “each year on Diwali we clean our houses. This Diwali let us clean our environment along with our homes and maintain that cleanliness even after Diwali”. She has drawn attention to this issue. I want to remind you my dear countrymen that last year in our country, the media ran a special campaign and showed all the places where crackers were lying and told that it was not the right thing. This was an awareness campaign launched by the media. As a result of it, soon after Diwali a cleanliness drive got initiated all by itself. So what you are saying is true that our concern before and after the festival should be the same. And we should express this concern on every public platform. And today, I especially congratulate all the members of the Indian media fraternity.
This 2nd October, on Gandhi ji’s anniversary and also on the completion of one year of ‘Clean India Campaign’, I had the fortune of participating in the ‘Safaigiri Campaign’ of the India today group. They gave away the Clean India Awards and I could see several initiatives being carried out. Different people were working as ‘One Like, One Mission’. There are so many places in our country that have been kept so clean. All these things were brought to light and I offered my heartfelt appreciation to India Today group for their commendable efforts. Since the inception of the cleanliness drive I have seen that from Andhra and Telangana, ETV, Eanadu have participated whole heartedly and specially Sri Ramoji Rao who is very aged but beats any youth in his enthusiasm. He has made cleanliness his personal program, his mission. He has been promoting the cleanliness program through ETV for the past one year. The newspapers carry news about them and he has emphasized on positive news about cleanliness. He has been successful in bringing together around 51 lakh children from 55-56 thousand schools of Andhra and Telangana to this mission. Be it public places, stations, religious places, hospitals, parks or other places, he ran a cleanliness drive. All these news exhibit the power to realize the dream of a Clean India.
ABP news has started a program called ‘Ye Bharat Desh Hai Mera’. In this program they have shown how people have become aware towards cleanliness and through this they are trying to train people about keeping their surroundings clean. NDTV has started a campaign called ‘Banega Swachh India’. Dainik Jagaran has also encouraged this campaign, so has Zee TV, and India TV also started ‘Mission Clean India’. Thousands of channels and newspapers in our country, I am unable to name them all due to time constraints, but they all have helped run this campaign. This is why, Savita Rai ji, the suggestion that you have given us; the whole nation has taken it upon them to do this work and taking it forward. The Governor of Meghalaya, Mr. Shanmuganthan, wrote me a letter and talked about a village in Meghalaya called Mavalyannong. He has written that from last many years, this village has set out on a mission for cleanliness and more or less every generation is completely dedicated towards this cause. He has also mentioned that a few years ago they also got the award for the ‘cleanest village’ of Asia. The idea of a far-flung village situated in the north-eastern region in Meghalaya, which has been particular about cleanliness since years, makes me extremely happy. This has become the habit and the culture of the village. This is what reinforces our belief that our nation will be clean one day, for sure. This will be possible because of the efforts of the people, and by the time we celebrate the 150th anniversary of Mahatma Gandhi, the 125 crore people of the country should be able to proudly proclaim that we have made India clean.
My dear countrymen, I said this from the Red Fort on the 15th of August that there are few places where corruption is deep rooted. When a poor man goes for an ordinary job, he faces so many problems to get a decent reference and has to go through through a team of agents who take money from him in exchange for the position he is applying for. He loses money whether he gets the job or not. We keep hearing things like these and this is when I had an idea, why do we need to interview people for ordinary jobs. I have never heard of any psychologist in the world who can analyze a person completely in a 1-2 minute long interview. With this thought I decided to do away with the tradition of interviews for small positions.
My dear young friends, I feel very proud to tell you all that the government has completed all the formalities and now there will not be any interview for the non-gazetted posts of group ‘D’, group ‘C’, and group ‘B’ in the Central Government. This will come into effect from January 1st 2016. We will not interrupt the ongoing procedures now but from January 1st, 2016, this will come into play. So, let me congratulate all my young friends for the same.
We had, anyways, declared an important scheme in the last budget. In our country, gold has become a part of our social life. Gold is considered the medium of financial security. Gold is considered to be the solution for difficult times. This has been an age old tradition. I don’t believe that anyone can reduce this love for gold that we have developed but keeping gold as dead-money does not suit today’s generation. Gold can become our strength. It can become our financial strength. Gold can become the financial property of the nation and every Indian must contribute to this. I am happy that the promise that we made of introducing important schemes, we will do so around Diwali and Dhanteras when people buy specially buy gold. We have introduced a ‘Gold Monetization Scheme’. Under this scheme, you can deposit your gold in a bank and the bank will give you interest, same as you deposit your money and get interest from the bank.
Earlier, we used to keep our gold in the lockers and paid for the lockers ourselves. Now, when you keep your gold in the bank, the bank will give you money as interest. Now, tell me countrymen, can gold become a property or not?
Can gold be converted from dead-money to a live strength or not? This is exactly what we have to do and you must stand with me. Do not keep your gold in your homes. Avail dual benefits, its security and interest on the gold. You must avail this opportunity. Another thing is, in Sovereign Gold Bonds, you do not really get a physical gold in your hand. You get a sheet of paper and the value of that paper is equivalent to that of the amount of gold and the day you return that paper, you will get the amount that is equivalent to the value of gold on that particular day. Let us assume, you buy a gold bond worth Rs. 1000 and five years later you go to return that bond and at that time the rate of gold is Rs. 2500, you will receive an amount of Rs. 2500 in exchange of that bond. So, we are introducing this scheme now. Due to this scheme, we will not have to buy gold now. We will not have to secure our gold now. We will not have to worry about where to put the gold and no one will come to steal the papers. In the coming week, I will certainly put forward this scheme that guarantees security to the people of this country. I feel very glad to tell you that we are also introducing Gold Coin, a gold coin with Ashok Chakra. It has been around 70 years of independence but we are still using a foreign gold coin only or the Gold Bullion Bars, these are also used by the foreigners. Why should it not have the national emblem of our country? This is why we are introducing it in the market and it will be available for the citizens in the coming week, before Dhanteras - 5gm and 10gm of gold coins with Ashok Chakra are being introduced. Along with it a 20 gm Gold Gunion will also be available for the people. I have full faith that this new scheme will usher a new change in the financial development of the country and I will get your support in this.
My dear countrymen, 31st October is the birth anniversary of the Iron-Man of India, Sardar Vallabh Bhai Patel. “Ek Bharat, Shreshtha Bharat.” A complete layout of India unfolds in front of us when we talk about Sardar Vallabh Bhai Patel. This great man has contributed a lot in building the unity of India. He has proven his capabilities as the Iron-Man of India. We will certainly pay tribute to Sardar Sahab but along with that his dream of seeing India integrated, he made it possible geographically. But this mantra of unity should be a continuously present in our thoughts in our minds, behaviour and our expressions. India is full of diversities. Many sects, communities, languages, castes, attires, and it is this diversity that adds to its charm. If it was not for this diversity, we wouldn’t have been this proud of our country. This is why diversity is the mantra of unity. Peace, social harmony, unity, these are essential elements of a society. Since last many years, ‘Run for Unity’ programs have been organized in various parts of the country on the 31st of October. ‘Ekta ki Daud’ - I also had a chance to run in one of these earlier. I have heard this year also, this race is being planned at many places. People are excited to be preparing for this race. In the true sense ‘Ekta ki Daud’ is the true race for development. In other words, the guarantee for the race of development lies in the race of unity. Come, let us pay tribute to Sardar Sahab. Let us take forward the mantra of unity.
Dear brothers and sisters, you must all be busy in the preparations for Diwali, houses must be getting cleaned. You must be shopping for new things. The festival of Diwali is celebrated in various ways all over the country. I extend my good wishes to you on this pious festival. We also get to hear of a few accidents around the time of Diwali. Fire breaks out due to firecrackers or lamps. Especially children suffer a lot because of fire crackers. I will suggest all the parents to be careful along with enjoying Diwali and see to it that the kids should not get hurt or any untoward incident should not happen and we lose our child due to accidents. I know you will be careful about this and of course about keeping the environment clean.
My dear countrymen, I have to leave for a trip to Britain on the next day of Diwali. I am very excited about my Britain trip this time. There is a reason behind my excitement. A few weeks back I went to Mumbai to inaugurate a magnificent memorial of Dr. Baba Bhimrao Ambedkar near his ‘Chaitya Bhoomi’. Now, I am going to London to formally inaugurate the house where Babasaheb used to stay, which has now become the property of India, an inspiration for 125 crore countrymen. Be it a dalit, an underprivileged, a victim, a bereaved, or any Indian who is leading a difficult life. This house inspires us to believe in the fact that if one has a strong will power, we can overcome the difficulties to tread on the path of success, one can get educated and this is the very place where Babasaheb Ambedkar used to meditate. The Indian government and the government of different Indian states give scholarships to such promising students who go abroad to study and who belong to the dalit community, the tribal community or any other under privileged community. I believe that when these kids go to Britain to study, this memorial of Babasaheb will become a pilgrimage for them, it will become a source of inspiration. Whatever you learn in life, you must use it later for the nation and live for your nation, Babasaheb gave this message and even lived it himself.
This is why I am saying that I am very excited about my Britain trip this time. This issue has been lying entangled since many years, now it has become the property of 125 crore countrymen and if the name of Babasaheb Ambedkar is attached, you can imagine how happy it makes me.
I am going to get another opportunity in London, the unveiling of the statue of Lord Vishweshwara. Many years ago, what Lord Vishweshwara had done for democracy and empowerment of women can make for a very good subject to study in the world. The unveiling of the statue of Lord Vishweshwara on the land of London is in itself a perfect example of the fact that the great men of India were very far-sighted. Now you see, when such incidents are connected, how excited we get.
My dear countrymen, you are connected with us through “Mann ki Baat.” I keep getting your suggestions through telephone and mygov.in. Your letters are also discussed on Akashvani. Government officials are called in and discussions are held. Some people write down their grievances, there are efforts to solve their problems as well. We should learn more than one language in a country like India. I am fortunate enough to have learned a few languages, but still there are so many languages that I could not learn. I am indebted to Akashvani because they broadcast this program of “Mann ki Baat” by 8 O’clock in every state in their regional languages. Even though a different voice is used but the thoughts are mine.
I will try to make it reach out to you in your language. We have formed a beautiful bond between us. Last time I had completed a year in power. This year we are entering a new year. A heartfelt congratulations to all my countrymen once again!
Jai Hind.
My dear countrymen, greetings to you all. This is the twelfth episode of “Mann Ki Baat” and in a way it means that we have completed one year. Last year on 3rd October I had an opportunity to conduct my first ever “Mann Ki Baat”. “Mann Ki Baat” – one year, many thoughts. I am not sure of what you gained, but I can certainly say that I gained a lot.
In a democracy the power of the people is of great significance. This thought has been fundamental to my thinking and that is why I have immense faith in the power of the people. But with Mann Ki Baat whatever I was taught, whatever I was explained and the experiences I had, made me realize that the power of the people is limitless and it far exceeds our thinking. Our ancestors would say that there is a divine element in each individual. My experience of “Mann Ki Baat” made me realize that the thinking of our ancestors was very powerful and had great authenticity in them as I have myself experienced them. I asked for suggestions for “Mann Ki Baat” and yet could touch upon just 3-4 of them. But people continued to contribute actively in lakhs. This in itself is a great power. I did not feel that anyone got disheartened thinking that I wrote a letter to the PM or posted on mygov.in, yet my suggestions were not accepted even once.
Yes …. these lakhs of letters did teach me something more. I became aware of very minute problems associated with governance. I would like to congratulate Akashwani for not treating these suggestions as mere bits of paper but considered them as expectations of the people. They conducted programmes after that. They called in various departments and put across them the issues that the people had raised. They tried to get certain problems resolved. The various departments of the government analyzed these letters and segregated them as the ones related to policy matters, others to personal issues, some others as pointers that the government was not even aware of. Many things arose from the grass root level and reached the government. It is true, the basic principle of governance is that information should percolate upwards from bottom and guidance should percolate from the top to the bottom. Who would have thought that the “Mann Ki Baat” will become a source of information? But this has happened.
In the same way “Mann Ki Baat” became a platform to express the power of society. I had just casually mentioned about selfie with daughter and what a movement it became. The whole world was amazed. Lakhs of people, perhaps from all the countries of the world posted a selfie with their daughters. What dignity did it lend to our daughters? Anyone who clicked this selfie not only boosted their daughter’s confidence but also made a commitment to themselves. Whosoever saw it realized that they will now have to give up the indifferent attitude towards daughters. This was a kind of a silent revolution.
I had casually mentioned to my fellow citizens, keeping in mind the tourism industry of India to send me good pictures of the destination they travel to on the lines of Incredible India so that I can also see them. People sent pictures in lakhs from every corner of India. Neither the Government of India nor the state tourism departments were aware of such heritage. All things were brought together on a platform and the government did not have to spend a single penny. The people themselves took the task forward.
In October last year, I did my first “Mann Ki Baat”. In that edition I had mentioned about Gandhi Jayanti. I told people that we are celebrating Gandhiji’s birth Anniversary on 2nd October. There was a time when there was Khadi for Nation? Isn’t it the need of the hour that there be Khadi for fashion? I requested the people to buy Khadi and to do their bit. Today, I can say with great satisfaction that in the past one year the sales of Khadi have almost doubled. Now see, there was no government advertisement. Nor were lakhs and crores spent. A simple feeling and realization by the people has brought this change.
Once I had mentioned in Mann Ki Baat” about the problem of poor families, how their children cry due to the pollution when the wooden stove are lit. Shouldn’t they be getting gas cylinders? And I had requested the affluent to surrender their gas subsidy. Just think……………..today I can say with great pride that 30 lakh families have given up their gas subsidy and these are not the rich people. I saw on T.V, a retired teacher, a widow lady standing in a queue to give up her subsidy. The common people from the society belonging to the middle and lower middle class have difficulty in giving up subsidy. But then they did give up their subsidy. Isn’t it a silent revolution? Isn’t it a demonstration of the people’s power?
The governments too will need to learn a lesson that there lies a powerful society which has tremendous capabilities, energy and the determination beyond the realms of their administration. There is more likelihood of the government being a catalytic agent of change if it is better connected to the society. “Mann Ki Baat” has turned my faith into belief and reverence and once again I would like to salute this immense power of the people through this platform. They took up every small cause and made it their own and tried to contribute to the welfare of the country. Can there be a bigger satisfaction than this?
This time I thought of conducting a new experiment through Mann Ki Baat. I had requested the citizens to call up telephonically and get their suggestions or queries recorded. I told them that I will take it up in Mann Ki Baat. I am happy that we received more than 55,000 calls from across the country - be it Siachen, Kutch or Kamrup, be it Kashmir or Kanyakumari. There is no part of India from which I did not receive a phone call. This is a pleasant experience in itself. People of all age groups have sent messages. I listened to some message personally and I liked them. My team is working on the others. You must have spent just a minute or two but for me your phone calls are very important. The entire government will work on your suggestions.
But there was something which surprised me and made me equally happy. It feels as if there is negativity all around us. But my experience was different. These 55,000 people expressed themselves in their own way. It was frank interaction where they could say anything but I am surprised that all the things were in the shadow of Mann Ki Baat. They were totally positive, suggestion oriented and constructive. Just see how the citizens of the country are moving with a positive attitude, this is the nation’s greatest wealth. There were serious complaints in about 1-2% phone calls. But more than 90% things were energizing and pleasant.
Another thing came to my mind, for the specially–abled. And among them especially from the kin of visually impaired, they made quite a number of phone calls. The reason may be that they are not able to watch T.V, but they must definitely be listening to the radio. This made me realize how important the radio is for the visually impaired people. I am seeing a new aspect and they put forth such good suggestions that they are enough to make the governments more sensitive.
Pawan Acharya form Alwar, Rajasthan has sent me a message. I believe that all of you should hear it and follow it. Please hear what he wants to say-
“My name is Pawan Acharya and I belong to Alwar, Rajasthan. I want to give the message to Prime Minister, Shri Narendra Modi ji to request all the people of India through his programme “Mann Ki Baat” to use as much earthen lamps (diya) as they can this Diwali. This will not only help the environment, but will also provide employment to many potter families. Thank you.
Pawan, I believe that this sentiment will definitely reach every corner of India. It is a good suggestion and the soil is priceless. So the earthen lamps will be valuable too. It is important from environmental point of view and it is made in a poor man’s home. Poor people earn their living this way. I request the citizens to follow Pawan’s advice in the coming festivals. If we do so then the lamp may well be lit not only in our homes but it will illuminate the house of the poor.
My dear countrymen, on the day of Ganesh Chaturthi, I had the privilege of spending 2-3 hours with the jawans of the armed forces. The jawans from our Army, Navy and Air force guarding our land, waters and skies. We have completed 50 years of our war with Pakistan in 1965. To commemorate this event an exhibition named “Shouryanjali” had been organized near India Gate. I saw it with immense interest. I went there for half an hour but when I came out it was more than 2.5 hours and I felt like seeing more. What was it that was not there? The entire history has been brought to life. From aesthetic perspective it was excellent, from historical perspective it was very educative and if we see it from inspirational point of view from the perspective to serve the motherland then there can be no greater inspiration than this. At that time there was not much photography or videography but still those proud moments of war, those tales of valour and sacrifice of our great soldiers, which we had heard can all be experienced here through this exhibition.
Whether it is the battle of Haji Pir, Chaminda or Asal Uttar and the visuals of our victory near Haji Pir, we feel thrilled and immensely proud of our soldiers. I had the opportunity to meet the brave families, families of those who had sacrificed their lives and also those who had participated in the war who are in the twilight years of their lives. They too had come and when I was shaking hands, it was filled with great energy was very inspiring. If you want to create history, then it is necessary to understand the nuances of the past. History binds us to our roots. If we are detached from our history then the possibilities of creating history comes to an end. This exhibition on valour and gallantry helps us to experience our past. It gives us knowledge about our history. And this is an opportunity to inspire people to sow seeds for creating a new history. This exhibition will last a few days. I request you and your relatives living in Delhi and nearby areas to definitely visit it. And do not be in haste like me. I came back in 2-2.5 hours but you will need 3-4 hours, do see it.
Look at the power of democracy, a young kid has ordered the Prime Minister, although the kid forgot to tell his name in a hurry. I do not have his name with me but what he said is worth giving a thought, not only should the Prime Minister think about what he said but every Indian citizen should listen to what this child has to say:
“Prime Minister, Modi ji, I want to tell you that, for the Swachhta Abhiyan (Cleaniness Drive) that you started, you should get dustbins installed in every street and every corner”.
This child is absolutely right. We should adopt cleanliness as a habit and should make provisions for cleanliness. I got great satisfaction from this child’s message. On the 2nd of October, I declared this cleanliness drive and I think something like this has happened for the first time after Independence because even in the parliament, cleanliness is being discussed for hours these days. Our government is criticized as well. I even have to listen to a lot of things; people say things like “Modi ji used to talk big about cleanliness, but what really happened?” I don’t get offended by all this. I look at the positive side of it, which is that even the parliament of the country is discussing about the issue of cleanliness in India.
Look at the other side, on one hand the parliament and on the other hand this child of the country, both are talking about cleanliness, a country cannot be more fortunate than this. This ongoing movement of thoughts, the environment that’s building against filth, there has been an awareness towards cleanliness. This will also compel the governments to work. The self-governing regional bodies, be it Panchayats, municipal corporations, municipalities, municipal corporations of metropolitan cities, central government or state government - everybody will have to work on this. We will have to take this movement forward despite its shortcomings and when in India in 2019, when we celebrate the 150th birthday of Mahatma Gandhi, we should aspire to work in the direction of fulfilling his dream.
Do you know what Mahatma Gandhi used to say? He once said, “if I have to choose between freedom and cleanliness, I will choose cleanliness first and freedom later”. Cleanliness was more important for Gandhi than freedom. Come let us all follow what Mahatma Gandhi said and take a few steps towards fulfilling his wish. Mr. Gulshan Arora from Delhi has left a message on MyGov.
He has written that he wants to know about the birth centenary of Dindayal ji.
My dear fellow citizens, the lives of great men will always inspire us. It is not our responsibility to figure out the ideology of these great men. Everyone who lives and dies for our nation inspires us. In the coming days, we will get to remember a lot of these great men. 25th September we shall remember Pandit Deendayal Upadhaya, Mahatma Gandhi and Lal Bahadur Shastri on the 2nd of October, Jai Prakash Narayan ji on 11th October, Sardar Vallabh Bhai Patel on 31st October and there are innumerable names, I have mentioned just a few because our country has an unending list of such gems.
You pick any date, you will certainly find a name of one or the other great personality from the kaleidoscope of history. We must all try to remember these great personalities in the coming days, take their message to every house and we should try to learn something from them ourselves.
I would like to request you for 2nd October specially. It’s the birth anniversary of Honorable Bapu Mahatma Gandhi. I had told you last year as well that you all must have all kind of fashionable clothing, all kinds of fabric, a lot of things, but you must also own Khadi. I am saying it again, that Khadi begins a discounted sale from 2nd October onwards for one whole month. You must all avail this sale. Along with Khadi, handloom must also be given equal importance. Our weavers put in a lot of hard work. If we, 1.5 billion Indians buy a handloom product or Khadi for even Rs. 5, 10 or Rs. 50 then ultimately that money will reach the poor weaver. It will reach the poor widow who weaves Khadi and this is why we must all spare some place for Khadi at our homes and on our bodies this Diwali. I just have this small request, I do not insist that you only wear Khadi. But have a few collection.... this is my only request. Look, last year we almost doubled the Khadi sale. A lot of the poor have been benefitted. Advertisements worth crores, by the government, cannot achieve what has been achieved through your help. This is the power of the masses and this is why I request you to come forward and help once again.
Dear countrymen, my heart is filled with joy because of this one thing. I wish to share this joy with you as well. I visited Kolkata in the month of May and the family members of Subhash Chandra Bose came to meet me. His nephew Chandra Bose had organized everything. I got the opportunity to spend quality time with Subhash babu’s family members. That day I decided to invite his great family to the Prime Minister’s residence. Mr. Chandra Bose and his family members were in the process of organising this and last week I received the confirmation that around 50 members of the Bose family are coming to the Prime Minister’s residence for a meeting.
You can imagine how happy I must have been on hearing this news. Netaji’s family members, probably, must have been invited together to the Prime Minister’s residence for the first time. More than that, I feel honoured to realize that this opportunity that I will get in October must be a one of a kind opportunity for the Prime Minister’s residence to offer its hospitality. More than 50 family members of Subhash babu’s family who stay in different countries are specially coming down to attend this meeting. It is going to be a joyous moment for me. I am very excited to welcome them and feel extremely happy.
I received a message from Bhargavi Kande and after listening to the way she speaks, her voice, I felt she is a leader herself or she is going to be a leader probably.
“My name is Bhargavi Kande. I want to request the Prime Minister to make the young generation aware about voter’s registration, which will increase the participation of the young generation in the times to come and in the future the young generation will provide its important contribution in selecting as well as running a government. Thank you”
Bhargavi talked about registering the names in the voter’s list and the voting process. In a democracy, every voter determines the destiny of a country and this awareness is spreading gradually. The voting percentage is also increasing and for this I want to congratulate the Election Commission of India. Up until a few years back we saw that our election commission worked only as a regulator but it has changed a lot in the last few years. Today, our election commission does not work only as a regulator but has become a facilitator, has become voter-friendly and the voter is at the centre of all its policies and its ideologies. It is a great change but we need more than what election commission can do. We must mobilize schools, colleges and societies - we must spread awareness always, not only during the time of elections. The voter’s list must be updated, we must also keep a watch on it. This priceless right that I have, is it safe? Am I using it or not? We must all develop this habit. I hope that all the youngsters who have not been registered in the voter’s list yet, get themselves registered and must vote too. I publically say during elections that one must cast his vote before he eats his food. This is a holy act, everyone must do it.
I have returned from a visit to Kashi, day before yesterday. I met a lot of people and attended a lot of events. I met many people there but these two kids I met have told me something that I want to share with you today. One of the boys, Kshitij, is a student of class 7. He studies in the Kendriya Vidyalaya of Banaras Hindu University. He is a very smart kid with a surprising high confidence level. At such a young age I saw that he was interested in research in the field of Physics. I thought he must be reading a lot books, must be surfing internet, must be watching new experiments. He was talking about things like, how to stop railway accidents, which technology to use, how to save money in producing energy, how to develop feelings in robots and what not. He was an amazing kid. Although I could not follow what he was saying, very closely, but I liked his confidence and his interest in so many things. I want that kids in our country should develop more and more interest in science. Kids should be very inquisitive, why? How? When? A kid should always ask these questions.
Similarly, I met a small girl named, Sonam Patel. She is 9 years old. She is the daughter of Sadavrat Patel, a resident of Sundarpur, Varanasi. Her family is very poor. I was surprised that the girl had memorized the Bhagvada Geeta completely but the most interesting thing was that she kept reciting the shlokas along with its English interpretation and its definition in English as well as Hindi. When I asked, her father told me that she started reciting these shlokas since she was only five years old. I asked where she learned it from. They said, “we do not have any idea.” Then I asked if she only reads Geetha or does she read something else as well? Her father then told me that if she picks up mathematics once, she has everything memorized by the evening. If she picks history, she knows everything by the evening. He told me that the whole family is surprised at this amazing talent the girl has. I was really very impressed. Sometimes, kids become obsessed with celebrities, Sonam did not have any such obsessions. I felt this girl is God-gifted.
Meeting these kids was a very special experience that I had on my Kashi visit. So, I thought I must share it with you. We do a lot of things, other than what you see on the TV and read in the newspapers. Sometimes, we enjoy doing these things as well. Similarly, I will always cherish the memories of this encounter with these kids.
I noticed that a few people get a lot of work for me in ‘Mann Ki Baat.’
Look what Sandeep from Haryana has to say, “Sir, I want you to do ‘Mann ki Baat’ a weekly chore rather than a monthly program because we get very inspired by your words.”
Sandeep ji, what all will you make me do? I have to struggle even to make it to the monthly program, have to make adjustments to my time-table. Sometimes, our friends at Akashwani have to wait for an hour or so. I still respect your feelings. I am thankful to you for your suggestion. For now, we will stick to the one month program only.
‘Mann Ki Baat’ in a way has completed a year. Do you know, how much did Subhash babu use the Radio? He started his own show from Germany and he would constantly update the Indian citizens about the Independence movement through radio. He started the Azad Hind Radio through a weekly news bulletin. English, Hindi, Bengali, Marathi Punjabi, Pashto, Urdu, he used to run the radio in all these languages.
I have also completed a year since I started ‘Mann Ki Baat.’ My ‘Mann Ki Baat’ has in the true sense become your ‘Mann Ki Baat.’ I listen to you, I think for you, I look into your suggestions and that triggers a thought process in me which reaches you through Akashvani. I speak, but the words are yours and this gives me immense satisfaction. We shall meet next month again for ‘Mann Ki Baat.’ Your suggestions should keep coming in. The government gets benefited by your suggestions. It helps to initiate improvement. Your contribution is priceless for me.
Once again, many congratulations to all of you. Thank you!
My dear countrymen, greetings to all of you! I have the opportunity to be amongst you to share my Mann Ki Baat once again. Far south, the people are engrossed in Onam festivities and yesterday the entire nation celebrated the holy festival of Raksha Bandhan. The government of India has launched various schemes of social security for the common man. I am happy that in a very short span of time all these schemes have been accepted in large numbers.
I had made a humble request that on the occasion of Raksha Bandhan we give our sisters these insurance schemes as a gift. The preliminary information that I have, notifies me that from launch till date around 11 crore families have joined this scheme. And I have been told that almost half the beneficiaries are women, the mothers and the daughters. I consider this as a positive sign. I offer my best wishes to all mothers and sisters on this blessed occasion of Raksha Bandhan.
Today when I talk to you, I want to mention that around a year back the Jan Dhan Yojana was started at a large scale. A task which could not be achieved in the past 60 years, would it be possible to achieve it in such a small span of time? Many questions were being raised but I am happy to tell you that all the units of the government and all the banks put in tremendous effort and as per my knowledge till date close to 18 crore people have opened their bank accounts, 17 crore 74 lakh to be precise. I saw the richness of the poor. They had to open zero balance accounts. But these poor people saved money and deposited a sum of 22,000 crores. Banks are the mainstream of the economy and to reach this facility to the homes of the poor, the programme of Bank Mitra is being strengthened. Today more than 1.25 lakh Bank Mitras are serving in the country. The youth have got employment this way. You will be pleased to know that in this one year to connect the Banking sector, Economy and the Poor People, over 1 lakh 31 thousand Financial Literacy camps have been organized. One just does not have to open account and get stuck. Thousands of people under the Jan Dhan Yojana are now eligible to take an overdraft and they have availed it too. Now the poor have this faith that they too can get money from the bank. I would again like to congratulate all the people associated with this initiative and I would like to request the poor brethren who have opened an account to never severe this relationship. These are your banks and now you should never leave them. I have brought them to you, now it is your job to keep them going. All of our accounts should be kept active. I have the faith that you will definitely continue operating the bank accounts.
In the past few days the events in Gujarat, the violence unsettled the entire country. It is natural that if something of this sort happens in the land of Mahatma and Sardar Patel, then the nation is definitely shocked and hurt. But in a very short span of time, the intelligent brothers and sisters of mine in Gujarat brought the entire situation under control. They played an important role in preventing the situation form worsening further and once again Gujarat started its peaceful march. Peace, unity and brotherhood is the right way forward. We have to walk together towards the path of development. Development is the key to our problems.
Sometime back, I had the opportunity to meet the scholars of the Sufi tradition. I had the opportunity to hear them speak. And truly speaking of the experience and the manner in which they presented their views sounded as if some music was being played. Their choice of words, their way of talking, the generosity of the Sufi tradition, its sublimity, its lyricism, I could experience it all. I felt very nice. I think it has become imperative to present Islam in its true form to the world. I am confident that the Sufi tradition which is associated with love and generosity will take this message far and wide and will thus benefit not only the humanity but also benefit Islam. And I would like to tell all that whatever faith one follows, we should definitely experience Sufism once.
I am about to get another opportunity in the coming days and I consider myself fortunate to receive this invitation. Various Buddhist scholars from across the globe are coming together at Bodh Gaya and will discuss issues relating to humanity at a global level. I have been extended an invitation to be a part of this event and I am glad to be invited at Bodh Gaya. Pandit Nehru, the first Prime Minister of India visited Bodh Gaya. And now, I will be going there with these scholars, this gives me immense happiness.
My dear farmer brothers and sisters, today I would again like to especially share my Mann Ki Baat with you. I have already mentioned this in the previous sessions of Mann Ki Baat. You must have heard me speak in the parliament, in public forums or Mann Ki Baat about it. I have always said that the government is open to all views and suggestions on the issue of Land Acquisition Act, on which a debate is going on. I have reiterated again and again that I am open to any suggestion in the interest of the farmers. But today, I want to tell all my farmer brothers and sisters that the request to reform the ‘Land Acquisition Act’ was raised by the states very emphatically. Everyone felt that if the welfare of the farmers is to be achieved, if the water has to reach the fields, if poles are to be erected to provide electricity, if roads have to be constructed in the village, if houses are to be made for the poor in the village, if employment opportunities are to be provided to the poor youth of rural areas then we have to free the land from legal hassles and bureaucratic hurdles. And hence this reformed proposal was introduced. But I saw how the framers were being misled and a fear psychosis created. My dear farmers, you should not be misled and definitely never be scared. And I do not wish to give anyone the opportunity to mislead you and scare you. For me, every single voice in the nation is important but most important to me is the voice of the farmer. We had issued an ordinance. Tomorrow, on August 31st the deadline for this ordinance ends. I have decided that let this ordinance be lapsed. This means that now same situation exists as it was prior to the formation of my government. But in the same act, there was a job which was incomplete. This job was related to 13 points which were to be completed within a year and so we brought the ordinance, but due to these disputes the issue got stuck. The ordinance is coming to an end but those 13 points which were to benefit farmers which is directly connected to the monetary issues of the farmers will be made into a law and will be implemented today itself so that the farmers do not suffer any losses, especially monetary losses. And hence the task of implementing the 13 points which was left incomplete in the earlier act is being accomplished today. I want to reassure my farmer brothers and sisters that ‘Jai Jawan Jai Kisan’ is not merely a slogan, it is our guiding Mantra. The guiding mantra is the welfare of the villages and the poor farmers. That is why I declared on 15th August that it is not just an agricultural department but an agricultural and farmer welfare department will be created. We are steadily working on it. So my dear farmers there is no need to be misled now and especially there is no need for you to fear anything. Do not be scared even if someone tries to scare you.
I have to say something more. Two days back we completed the 50 years of the 1965 war. And whenever we talk of the 65 war it is natural that we remember Lal Bahadur Shastri. It is also but natural that we remember his slogan ‘Jai Jawan Jai Kisan’. It is also natural that we remember our Jawans who sacrificed their lives to maintain the pride and honour of our Tricolor Flag. I salute all those associated with the victory of the 1965 war. I pay my tribute to the brave soldiers. May we continue to be inspired by such incidents of our history.
Like I had the chance of meeting the Sufi scholars similarly I had another great experience. I had the opportunity to interact for hours with the distinguished scientists of the country. I had the opportunity to hear them and I was very happy to know that India is doing commendable research in the field of science. Our scientists are doing some excellent work. Now the challenge is to take these researches to the common man. How to convert these theories into machineries? How to connect laboratory to the land? We have to take this forward as an opportunity. I got a lot of new information. I can say that it was both inspiring and educative experience for me. And I saw how the young scientists were eager to explain their work and their eyes were full of dreams. In the previous episode of Mann Ki Baat I had expressed the view that our students should be drawn towards science. After this meeting I felt that there are numerous options and endless possibilities. I would like to reiterate once again that our young friends take interest in science and our educational institutions should also encourage the students for the same.
I receive many letters from the citizens. Mr. Parimal Shah from Thane talks about educational reforms on my portal ‘MyGov.in’. They have written about Skill Development. Mr. Prakash Tripathi from Chidambaram in Tamil Nadu emphasizes the need for good teachers at primary level. They have emphasized on reforms in the educational set ups.
I especially want to make a point to my young friends. I had mentioned from the Red Fort that why should there be interviews for the lower posts. And when they do get the interview letter - the poor, the widowed mother start thinking who to reach for recommendation, who can help get the job, whose jack could be useful to get that job. I do not know what all kind of words are being used? Every one rushes and that seems to be one reason for corruption at the lower levels. I had mentioned in my speech on 15th August 2015 that this tradition of interview should at least end at some level. I am happy that in such a short span of time, it has just been 15 days but the government is moving at a very fast pace. Information is being disseminated and soon the decision will be enforced and small jobs will be made free of interviews. Now the poor will not have to run for recommendation. This will end exploitation and corruption.
These days many guests from foreign countries have arrived in India. 24 countries from across the globe discussed on the Indian soil a ‘Call to Action’ to reduce Maternal Mortality and Infant Mortality rates. It was the first time that this programme was organized in any other country outside America. And it is true that in our country about 50,000 mothers and almost 13 lakh children die during delivery or immediately after it every year. This is a cause of worry and these figures are scary. Although a lot of improvement has taken place. India is being appreciated at the International level for its efforts but this statistics is not low. Like we became polio free similarly we became free from tetanus as a cause of maternal and child mortality. The world has accepted this. But we still have to work to save our mothers and our children.
Dear countrymen, there is news of dengue everywhere. It is true that dengue is dangerous but prevention of dengue is easier. It is directly related to the Swatch Bharat Campaign that I talk about. We watch the advertisement on TV but do not pay attention. There are advertisements in the newspapers but it escapes our attention. There are several ways of keeping the smallest thing in the household clean by using pure water. A lot of Public Education Programmes are being conducted but we do not pay attention. We feel that we live in very good houses with proper arrangements being totally unaware that water is collecting at some location in the house and that we are inviting dengue. I would request you all that do not make death so cheap. Life is very precious. A little carelessness about cleanliness and accumulated water can cause death, which I believe is not right. In the entire country about 514 centers have facilities for testing dengue cases absolutely free of cost. It is necessary to get ourselves tested on time to save precious lives. Cooperation from all of you is very important for this menace. And cleanliness should be given great importance. From Raksha Bandhan to Diwali there will be many festivals. Why don’t we associate each festival with cleaniness? You will see how a tradition becomes your habit.
My dear countrymen I want to share good news with you. Like I said we may not get a chance to die for our nation, but we can be fortunate to live for the country. There are two young brothers and that too from Nashik in our own state of Maharashtra. Dr. Hitendra Mahajan and Dr. Mahendra Mahajan, both with a keen desire to help our tribal population. These two brothers have brought pride to the nation. In America a difficult cycle race of about 4800 kms known as Race Across America is organized. This year both these brothers have won this race. They have made us proud. I would like to congratulate both these brothers and send my best wishes. But I was happier to know that they do all this for their campaign “Team India – Vision for Tribals”. See everyone is doing their bit for taking the country forward. And this it, when you hear such things the heart swells with pride.
Sometimes we do injustice to our youth guided by a certain perception. The old generation feels that the new generation does not understand anything and I understand that this has been going on for ages. My experience regarding youth is different. Sometimes when we talk to the youth we learn so many things. I have met so many youth who have taken the pledge ‘Sunday on Cycle’. Some say that I keep one day a week as Cycle-Day as it is good for my health. It is good for the environment. And I enjoy my youth too. Nowadays many cities in our country are witnessing cycle use and there are many people promoting its use. But this is a good initiative both for improving health and saving the environment. And today when two youths of my country made India proud in the US, I thought of it worth mentioning.
Today I especially want to congratulate the Maharashtra government. It makes me happy. The task for erecting a memorial for Baba Sahib Ambedkar in the Indu Mill compounds had been stuck for long. The new government in Maharashtra completed this task and now a grand memorial will be erected which will inspire us to work for the dalits, exploited and the marginalized. But along with this, the house in UK where Baba Saheb lived – 10 King Henry Road has been purchased too. The globetrotting Indians on their trip to UK can visit the memorial being erected by the Maharashtra government. It will be inspirational to many. I congratulate the Maharashtra government on the accomplishment of both these tasks.
My dear brothers and sisters do share your views before the next Mann Ki Baat for I believe that democracy runs through public participation. We can take the nation forward when we work together. I send my best wishes to you.
Thank You.
My Dear Countrymen, Namaskar!
This year the rains have started on a good note. This will definitely prove beneficial to our farmer brothers and sisters in sowing of kharif crops. I am very pleased to share an immensely good news with you all. We have always faced scarcity of pulses and oilseeds in our country. Poor people require pulses and some amount of oil to prepare vegetables for their food. The good news for me is that there has been an increase of approximately 50% in the production of pulses and an increase of around 33% in the production of oilseeds. I would especially like to congratulate and compliment all my farmer brothers and sisters for this achievement.
My dear countrymen, 26th July is marked as Kargil Vijay Diwas in the history of our country. The intensity with which the farmers are connected with their land, our soldiers too are connected with the land in the same degree. During the Kargil war, each one of our soldier proved mightier than hundreds of soldiers of our enemies. I would like to salute all our brave soldiers who thwarted the attempts by our enemies without caring for their lives. Kargil war was not limited to just our borders, but each of our cities, villages contributed in this war. This war was fought by those mothers and sisters whose sons and brothers were fighting against the enemies at the border. This war was also fought by the daughters of our country, who were newly married and their henna were still fresh on their hands. Also, by the proud fathers, who saw themselves as soldiers, seeing their sons fighting for the country, and also by that infant who had not even learnt to walk catching his father’s fingers. It is because of these unmatchable sacrifices that our country is proudly standing on its feet in front of the entire world. Hence, I would like to salute all these valiant warriors on this occasion of Kargil Vijay Diwas.
There is another reason why I consider 26th July quite important because MyGov.in was launched a few months after our government was formed. Our pledge was to promote citizen participation in democracy and connect every citizen in the development work. And today I am pleased to share this after one year that nearly two crore people have visited MyGov website. We have received comments from five and a half lac people and I am extremely glad to mention that more than fifty thousand people took out time from their precious schedule to apply their mind and provide their suggestions on PMO applications as they considered this work important. And we have received quite significant suggestions. One of the suggestions sent from Mr. Akhilesh Vajpayee from Kanpur is to provide separate quota to the disabled for booking tickets on IRCTC website. It is quite unfair that the disabled citizens have to go through the same tiring procedure and buy tickets at the railway station. Though this is a very minor issue but the government never took note of it or thought about the same previously. But on the suggestion of our brother Akhilesh Vajpayee, our government looked into this suggestion seriously and we have implemented this facility in our system for our disabled brothers and sisters. We are receiving quite positive suggestions on MyGov, it is helping in getting assistance in creating logos, tag-lines and formulating policies by yourselves. We are experiencing fresh air in the administrative system. We are experiencing a new sense of consciousness. I am even receiving suggestion on MyGov that what should be my speech on 15th of August.
We have received quite a few suggestions from Suchitra Raghavachari from Chennai in this regard. She has suggested me to speak on the topics like Save our Daughters, Educate a Girl Child, Clean Ganges, Swachh Bharat. With this I got an idea and I am requesting you all to send suggestions about what should be the topics for my 15th August speech. You can send in your suggestions through MyGov, letters to Radio or write letters to the PM’s office. Look, I believe that this will be a great initiative to include people’s suggestion in framing my speech for 15th August. I believe that you will send your good suggestions.
I would like to talk about an issue which is a matter of great concern. I neither want to sermonize nor I am trying to find an escape route towards my responsibilities pertaining to state government, central government or units of local self-government institutions.
Two days ago a visual of an accident in Delhi caught my attention, wherein the victim on scooter was fighting for his life for ten minutes post the accident. He did not receive any help from the passers-by. In general also I have noticed that I have been receiving suggestions to speak on road safety and make the people aware of this. Be it Hoshakote Akshay from Bengaluru, Ameya Joshi from Pune or Prasanna Kakunje from Mudbidri, Karnataka - all these all people have written to me… there are many other names which I am not being able to mention and have raised their concerns. I agree that whatever you have put forth is valid.
My heart shivers when I look at the statistics of accidents. We are witnessing an accident every minute in our country. Due to these road accidents we are witnessing one death every four minutes in our country. It is a matter of huge concern that out of these deaths, nearly one third of the victims comprise the youth ranging from 15 to 25 years of age group, and such death shakes the very foundation of an entire family. The government system will continue to work towards this but I would like to request all the parents to make their children aware of all the Safety Rules pertaining to driving a two-wheeler or a four-wheeler – the families should encourage discussion of road safety at home and create an atmosphere about the same to promote road safety. We have seen few lines written at the back of auto-rickshaws, “Papa, come home early” and after reading it we are so touched by it. And therefore I say that the government has taken a lot of new initiatives in this regard, be it the initiative of education on Road Safety, initiative related to road engineering or of enforcement of road safety laws and the discussion on Emergency Care to be provided post accidents. We are going to implement Road Transport and Safety Bill to adopt these safety measures in our country. In the coming days, we are also planning to take many important measures for implementing National Road Safety Policy and Road Safety Action Plan.
We have undertaken another project called Cashless Treatment in Gurgaon, Jaipur and Vadodara to Mumbai, Ranchi, Rangaon and Mundiya national highway and it will be further extended. The Cashless Treatment refers to the policy for the first fifty hours post-accident – one need worry if one has money or not, who will pay the bills, leaving all this worry – one has to give primary importance to the road accident victim who is injured so that he is treated and provided the best hospital facilities at the earliest. We have started a toll-free number 1033 for providing information about incidents across the country and ambulance service but all these are services are for post accidents. One must strive to avoid accidents first but it is also important for us to see from the perspective that each and every soul, each and every life is precious.
Sometimes I say that the government employees to be Karma Yogis or selfless workers. I recalled a few incidents in the last few days which I liked and hence would like to share with you. Sometimes people get tired of their continuous jobs. In the initial few years the attitude is “okay, I get my salary so I will work”. However, I came across an incident of a railway department a few days ago, wherein a railway TTE Vijay Biswal from Nagpur division who is gifted with painting prowess could have has chosen to showcase his skills related to any field but he continues to work with the railways and paints various scenes related to railways only. Through this he gets an inner satisfaction for his job and also enjoys his hobby at the same time. Using his example, we can learn how to bring more life to our own jobs. Vijay Biswal has shown us how we can connect our jobs with our hobbies, interests or skills. Who knows, Vijay Biswal’s work may get recognised by his paintings across the nation in the near future.
I have come to know about a very inspiring work started by the entire team of government officials in Harda district, Madhya Pradesh. These bunch of officials with their entire team have started such a work which has touched me immensely and I really liked it – and the work they have started is ‘Operation Malyuddh’, and upon hearing this you will feel that this subject will go in a certain direction. But the key focus of this operation is to give a new direction to Swachh Bharat Abhiyaan. They are working on ‘Brother Number One’ operation in which the best brother has to gift one toilet to his sister. On the occasion of Raksha Bandhan, they are influencing all the brothers to gift toilet to their sisters, so that all the mothers and sisters of the district avoid going to toilet in the open. This operation has given a new meaning to Raksha Bandhan and I would like to congratulate the entire government team of Harda district for this initiative.
I came across a news a few days back and these small news really gives me immense pleasure and I would like to share the same with you. There exists a small village called Keshla in Rajnandgaon, Chhattisgarh. The inhabitants of this village from last few months tried and lead a campaign for building toilets in the village. Now, nobody from this village has to go to toilet in the open. After the completion of this campaign, the entire village celebrated this accomplishment just like a mega festival. These finest examples coming up to me show how our society is bringing change in human values and human mind and how the citizens of this country are taking the nation forward.
Bhavesh Deka from Guwahati has written to me on the North-East related issues and problems. I must say that North-East people are quite active. I really appreciate that they write about a lot of issues. I would like to tell them with great pleasure that we have a separate ministry for North-Eastern region. During the government of Atal Bihari Vajpayee as our Prime Minister, a DONER Ministry called “Development of North-East Region” was formed. After our government was formed, the DONER Department took an important decision of not staying in Delhi and working from centre for the North-East regions? Instead it was decided to send the government officials and their team on a seven days camp to North-East states like Nagaland, Arunachal Pradesh, Tripura, Assam and Sikkim. These officials would visit the districts, villages and meet the local government officials and talk to people’s representatives and the citizens of those regions. They will listen to their problems and direct the government in taking appropriate measures in solving those problems. This initiative will bring a fruitful result in the near future. The officials who will visit these states would realize the beauty of these states and will feel very determined to work for the development of these states and to fix the problems of these states. When they return with this pledge, they can easily understand the problems of these states even when they reach Delhi. This is a great initiative to go far-off from Delhi to East, and this act is called “Act East Policy”.
My dear countrymen, we are extremely delighted and proud of the “Mars Mission” success. India’s PSLV C-28 has launched five UK satellites, which are the heaviest satellites launched by India till date. Such news remain in the flashlight for few moments and are gone. We often do not remember these achievements for a long time. I am often worried by this thought that we speak to the youth of our nation and ask about their dream job, only one out of 100 would express their interest in becoming a scientist. Youth is losing their interest in science, which is a matter of great concern.
Science and Technology is a type of DNA for development. The youth of our country should dream about becoming a scientist and imbibe interests in the field of research and innovation. Their capabilities should be monitored and must be assisted in the right direction to achieve success in this field. Ministry of Human Resource Development, Govt. of India has initiated a National Discovery Campaign. It was inaugurated by India’s ex-President Dr. A.P.J Abdul Kalam. As a part of this campaign, IIT, NIT, Central and State Universities being their mentor and guide are going to educate and motivate the aspiring students to choose the right path in their career. I always press upon the IAS officers of our government, who have reached such heights with their vast intellect and education that they should visit the nearby schools and colleges and share their knowledge for just two to four hours in a week. Your experience and intellect would certainly help the new generation to some extent.
We have raised a very big issue regarding the supply of 24 hours electricity in the villages of our country. This work is difficult but it must be done. We have auspiciously inaugurated this scheme and the villages will get a supply of 24 hours electricity in the coming years. The students of the villages should not be affected with the shortage of electricity during their exams. There should be enough electricity for starting a small industry. Today, the villagers have to go to other villagers for charging their mobile phones. The villages should be provided with all the facilities that are available in the cities. For this purpose, we have launched “Deendayal Upadhyaya Gram Jyoti Programme”. I am aware that this country is quite vast and we have to reach the villages and far off corners of the country. We have to run for the development of the Poor. We will achieve this goal and it is already in progress. We will certainly achieve this. Today, through Mann ki Baat, I felt like expressing these myriad of thoughts.
In a way, in our country the months of August and September are the months for celebration of festivals. There are lots of festivals in these months. My greetings to all of you for the same. Please do send your suggestions for 15th August. Your opinions will really help me.
Thank you very much to you all!
Namaskar, My Dear Countrymen!
Last time in Mann ki Baat I had requested you to send me memorable pictures if you go out on a vacation anywhere in India and if you happen to find them, kindly post them under the ‘Incredible India’ hashtag. When Isaid that, I had never imagined that it would get such an immense response. Lakhs of people have posted photos on Twitter, Facebook and Instagram. I can say that India is full of diversities and I was able to witness so many magnificent scenes in those pictures; be it of architecture, art, nature, waterfalls, mountains, rivers or seas. Government of India had never thought that in terms of tourism you all could contribute in such a massive way. I liked some pictures so much that I re-tweeted them. And as I understand, if some one would not have posted the picture of Belum caves in Andhra Pradesh many people would have never come to know that something like that exists in our country. Madhya Pradesh’s Orcha Fort is another example of that. We assume Rajasthan to be a state with scarcity of water, but when someone sends a photo of Menal waterfall, it is a matter of great surprise. Really, a tremendous work has been done. We will promote and also continue doing such work and the entire world will watch it, entire nation will watch it and our new generation will also watch it.
My beloved countrymen, though you have elected me as the Prime Minister of the country but at times, the human in me shuns all posts and prestige associated with it and submerges oneself within it. I can say that 21st June, the International Yoga Day affected me in the same manner. At that time, when I proposed the International Yoga Day, it was just an idea. But the scene that was witnessed on 21st June was such that wherever the sun dawned, wherever its rays reached, there was not a single landmass wherein it was not welcomed by way of Yoga. We can say with conviction that the sun never sets in the world of Yoga practitioners.
The way Yoga was received and was welcomed with open arms around the world, there would not be any Indian who would not be proud of it. I too got delighted. And when the people of France chose River Seine and Eiffel Tower in which they take pride to do Yoga, they gave an equal status to it as River Siene and Eifel Tower. In New York people did yoga at Times Square. If we think about Sydney, Australia then the picture of Opera House comes to our mind. The citizens of Australia gave equal respect to yoga and did yoga at the Opera House. Whether it is North America, Silicon Valley or Milan’s Duomo Cathedral it is a matter of great pride for us. On 21st June when I saw Mr. Ban Ki-Moon, UN Secretary General doing yoga at UN Headquarters, I was really delighted. Similarly, UN Peace Keeping Force did a spectacular display of Yoga. In India, our soldiers too were doing yoga in Siachen on white sheet of snow and on sea too, wherever our naval ships are posted, the yoga program was being carried out by Indian Navy. Delhi made it to the Guinness Book of World Records . Rajpath turned into the Yogpath that day. I am thankful to India and the rest of the world and can say that the International Yoga Day was not for namesake. It seemed as if that from every corner of the world, there was a new inquisitiveness, new joy, new hope and new connection.
Few days back, when I tweeted a photo of a Vietnamese child doing yoga, it was such a sweet photo that it got a lot of attention from the entire world. Everybody, be it men-women, old-young, village-city, developed or developing countries, everybody got connected with it. Yoga in true terms, became the core reason to connect the entire world. I do not know how the intellectual class, elites of the world would analyze this event. But I can feel and every Indian can experience that the whole world is very curious to know more about India. Curiosity towards India has increased. The world wants to know about the values, the rituals and the heritage of India. It is our responsibility that without any artificiality we share our legacy and introduce ourselves to the world. We can only do this when we ourselves are proud of our traditions.
At times, we are so familiar with our values that we don’t feel there is anything new in them but we ourselves do not know that our family values are considered to be a big thing in the entire world. Why don’t we familiarize the outside world with our family values? The world would be very surprised to know about them. I am sure, they would be intrigued. There are many things that our forefathers have given to us which are the best and the entire world also has the right on those things. The success of International Yoga day has brought in a new responsibility along with it. It is our responsibility that we gift supreme Yoga teachers to the world. It is our responsibility that we can see the entire tradition of Yoga on one platform from the Universe.
I request the youngsters, especially the IT professionals, that all of you should come together to create an Online Yoga Activity program. We all should come to know about all the Yoga organizations, Yoga teachers and all the necessary information about the Yoga from this online program. One database must be prepared and I believe you can do it. One must start from somewhere and it would surely turn out to be a great power. I have seen and learnt from the perspective of recent occurrences that a government that works and the government that is action-oriented can bring in results if the targets are set. We should not forget that the only voice that could be heard one year ago was that nothing happens, nothing happens, nothing happens.
Can you imagine that there is a department under Government named Ayush. Nobody has paid attention towards this department. The only mention Ayush in some corner of the newspaper being a small department is once in 2 to 5 years. But it led on the International Yoga Day. It was this small department that organized this event in the entire world. Therefore, this is an example that if there is an aim then even a small department can do a supreme job.
In the last few days, the world saw how we saved people from Yemen to Afghanistan. In a few hours-, we reached Nepal and helped people over there. When people wanted to open an bank account under the Government’s new scheme of Jan Dhan Yojana, how the people working in bank helped them to do so and connected millions of Indians to the bank.
On 15th August last year, when I appealed from the Red Fort for toilets in schools, I had said that by next 15th August we have to complete this task. The work which could not be completed in last 60 years was promised to be completed by the end of one year. The promise was really daring. Almost four and half lakh toilets were to be built but I can say it with satisfaction that though 15th August is still far off, the work of constructing toilets by the people is on the verge of completion.
This means that the Government, people and Government workers, all want to work for the country. If we pledge to work in an unselfish manner “Welfare for All, Happiness for All” then the Government will also work efficiently. The people who are a part of the government will also work efficiently and the people of the nation will welcome them with open arms.
I have experienced this. This is the true strength that drives a nation forward. Last month, we had launched three Insurance schemes. I had launched them from Kolkata and it has received such a commendable response in such a short span of time. There have been very few steps which have been taken from the perspective of social security but by way of these three schemes we are taking a big leap. In such a short time span more than 10 crore people have become a part of these schemes but we have to take it further. I have a thought which I want to put forth before you. Rakshabandhan comes in the month of August. Can’t we start a massive movement before this festival and make every women, be it our mother or sister, a part of this, thereby giving benefit to them under this Insurance program. Be it a sister who is a domestic help in your home or your own sister why can’t we gift them a Rs. 12 or Rs. 330 scheme on Rakshabandhan for their entire life. This can be a big gift for a sister from their brother. Why can’t we set the eve of rakshabandhan as a target and in a number of 2 crore, 5 crore, 7 crore and 10 crore … try to reach the sisters so that they can reap the benefit of this scheme. Let’s come together and try to work together towards the completion of this pledge.
Whenever I hold a Mann ki Baat session, many people send me suggestions. This time many people have suggested that I say something about the monsoons. Yogesh Dandekar from Nagpur, Harshvardhan ji from Mysore, Praveen Nadkarni ji, Divyanshu Gupta ji have all asked me to say something about the monsoon in this session of Mann ki Baat. They have sent in some really good suggestions. And this is a season of happiness. And each one of us, whatever the age is… definitely tempted to enjoy the first showers of the monsoon. I am sure, you too might be enjoying the rains with bhajiyas, pakoras, corn and a hot cup of tea. Just as the rays of the sun give us life, similarly rainfall provide us life and sustenance. Every drop of water is precious. As a responsible citizen and as a member of the society, we will have to cultivate the habit of conserving every drop of water. It should be our pledge that water from the villages stays in the villages and water for the cities remains available for them. If the rain water does not flow away, it goes into the earth , then the aquifers get recharged and the year long water woes get resolved. Rain water harvesting is not a new concept. It is being practiced over the centuries. Be it check dams, watershed development, small lakes or the small ponds in fields, we need to save the precious waters everywhere. I always tell people, that if you go to Porbander, the birth place of Mahatma Gandhi, you will be able to see a two hundred year old underground water tank which got directly recharged with the rain water. You can still see it. If you ever go there, do visit the place. And you will find that even after two hundred years it is still functional, brimming with water and the water does not even stagnate. Porbander is a coastal city, so potable water was collected through the rains for the entire year. Even in those times such a lot of care was taken. We can too do the same. This should in fact become a mass movement. Each and every village should have the facilities for rain water harvesting.
Similarly, we find greenery so pleasing to our eyes. We all like greener surroundings. Gardens and trees bring in an element of freshness in our lives. This monsoon season, there should be mass plant sowing campaigns conducted by youth and social organizations. And I can take a leaf from my personal experience and offer you a suggestion which has been very successful. This is an intensely rural technology. Whenever you sow a plant, place an earthen pot near it. You just need to fill it once or twice in a month. You will see how fast the plant grows into a lush green tree. I have even been telling the farmers to plant trees on the boundaries of their fields instead of putting barricades. These will become your biggest asset in the long run.
It is true that rains are enjoyable and bring in a lot of fun at the same time. It is also true that rains also bring in many diseases. Doctors get to see so many patients that they hardly get the time to breathe. We all know that rains cause many water borne diseases. Increased moisture in the environment leads to bacterial growth and so, keeping the environment clean becomes important. Cleanliness is very important in monsoons. It is often requested to consume safe drinking water. Most of the people boil and drink water during this season. It has its own benefits. And this is true that the more care we take, healthier we would be. We need monsoons and we need water but we also need to stay healthy.
Dear citizens, we have recently launched three schemes for the people in the cities. We have around 500 small cities. Our policy is ‘Waste to Wealth’. We can earn from waste too. Garbage can be recycled to make fertilizers, bricks and even electricity. Contaminated water can be recycled to make it clent and be used for irrigation in the fields. We have to take this movement forward.
In the Amrut scheme, we have launched a massive campaign and taken up initiatives to improve the quality of life in our cities. We should become a country which is able to match the living standards of the world. We should have smart cities, comparable to world standards. And yet at the same time, the poorest of poor person should have an accommodation of his own and that too complete with water, electricity, sanitation and access to a school. In 2022 when India celebrates its 75 years of Independence, we wish that every Indian has a house of his own. Keeping all this in mind, we have launched three major schemes. I am positive that these schemes will bring about a qualitative difference in the lives of the urban people.
I am myself connected to you via the social media. I keep getting many new suggestions and new ideas and also good and bad information about our government. And sometimes it so happens that a small comment from an individual in some remote village in India conveys something that just touches our hearts. You are aware that the government has launched “Beti Bachao Beti Padhao” programme. But you can’t imagine the force that is lent to the programme when a village or a society adopts it. A few days back a Sarpanch in a small remote village of Haryana, Sri Sunil Jaglan ji launched ‘Selfie with Daughter’ campaign. Such an environment was created that every father wished to click a selfie of himself with his daughter and post it on the social media.
I liked this idea, and that too for a special reason. In Haryana, the number of girls in comparison to boys is dismally low. Around another 100 districts in the country have a similar dismal situation of skewed sex ratio. But it is the worst in Haryana. In that very same Haryana, if a Sarpanch of a small indistinct village lends this meaning to the “Beti Bachao Beti Padhao” programme, then I certainly get overwhelmed. It makes me so happy and it gives me a new hope and I do express my happiness. I request you all to take a selfie with your daughter and post it on #selfie with daughter. And do not forget to post a tagline around the theme of “Beti Bachao Beti Padhao” with it, whatever be the language it can be in Hindi, English, your mother tongue or your native language. And I promise to re-tweet the most inspirational tagline with you and your daughter’s selfie. We can turn “Beti Bachao Beti Padhao” into a mass movement. I urge you all to take forward the programme launched by Sri Sunil in Bibipur village of Haryana. I request you all to post on #selfie with daughter. Lets us all enjoy the rising honour and prestige of our daughters and see how joyful this entire experience of “Beti Bachao Beti Padhao” becomes. Let us all rid ourselves of this bad name that we have for not respecting our daughters.
So my best wishes to you for the coming monsoon season. May all of you enjoy the rains. Make our country clean and green. And remember, the International Yoga day was not a single day initiative. Continue practicing Yoga, then see what difference it makes to you and your life. And I say this from my experience. Please take this forward. Make Yoga a part of your life. And that initiative regarding Incredible India, do keep posting a picture of whichever part of the country you go to. The country and the world will awaken to our diversity. I felt that the handicrafts did not receive due attention. Do make it a point to post the handicrafts of the local region you visit. There are so many things that people around you might be making, the poor as well as the skilled might be creating. Do keep posting their pictures regularly. We have to expand our reach to the world and make India known to the world. We have an easy medium at our disposal and so we will all do it.
My dear countrymen, that is all for today. I shall meet you again in the next edition of Mann ki Baat. Many people expect me to announce some huge schemes during this programme. But I am working day and night towards those. This is my time for some light conversation with you all. This gives me immense pleasure.
Thank You Very Much!
मेरे प्यारे देशवासियो, पिछली बार जब मैंने आपसे मन की बात की थी, तब भूकंप की भयंकर घटना ने मुझे बहुत विचलित कर दिया था। मन बात करना नहीं चाहता था फिर भी मन की बात की थी। आज जब मैं मन की बात कर रहा हूँ, तो चारों तरफ भयंकर गर्म हवा, गर्मी, परेशानियां उसकी ख़बरें आ रही हैं। मेरी आप सब से प्रार्थना है कि इस गर्मी के समय हम अपना तो ख़याल रखें... हमें हर कोई कहता होगा बहुत ज़्यादा पानी पियें,शरीर को ढक कर के रखें... लेकिन मैं आप से कहता हूँ, हम अपने अगल-बगल में पशु-पक्षी की भी दरकार करें। ये अवसर होता है परिवार में बच्चों को एक काम दिया जाये कि वो घर के बाहर किसी बर्तन में पक्षियों को पीने के लिए पानी रखें, और ये भी देखें वो गर्म ना हो जाये। आप देखना परिवार में बच्चों के अच्छे संस्कार हो जायेंगें। और इस भयंकर गर्मी में पशु-पक्षियों की भी रक्षा हो जाएगी।
ये मौसम एक तरफ़ गर्मी का भी है, तो कहीं ख़ुशी कहीं ग़म का भी है। एग्ज़ाम देने के बाद जब तक नतीजे नहीं आते तब तक मन चैन से नहीं बैठता है। अब सी.बी.एस.ई., अलग-अलग बोर्ड एग्ज़ाम और दूसरे एग्ज़ाम पास करने वाले विद्यार्थी मित्रों को अपने नतीजे मिल गये हैं। मैं उन सब को बधाई देता हूँ। बहुत बहुत बधाई। मेरे मन की बात की सार्थकता मुझे उस बात से लगी कि जब मुझे कई विद्यार्थियों ने ये जानकारी दी, नतीजे आने के बाद कि एग्ज़ाम के पहले आपके मन की बात में जो कुछ भी सुना था, एग्ज़ाम के समय मैंने उसका पूरी तरह पालन किया था और उससे मुझे लाभ मिला। ख़ैर, दोस्तो आपने मुझे ये लिखा मुझे अच्छा लगा। लेकिन आपकी सफलता का कारण कोई मेरी एक मन की बात नहीं है... आपकी सफलता का कारण आपने साल भर कड़ी मेहनत की है, पूरे परिवार ने आपके साथ जुड़ करके इस मेहनत में हिस्सेदारी की है। आपके स्कूल,आपके टीचर, हर किसी ने प्रयास किया है। लेकिन आपने अपने आप को हर किसी की अपेक्षा के अनुरूप ढाला है। मन की बात, परीक्षा में जाते-जाते समय जो टिप मिलती है न, वो प्रकार की थी। लेकिन मुझे आनंद इस बात का आया कि हाँ, आज मन की बात का कैसा उपयोग है, कितनी सार्थकता है। मुझे ख़ुशी हुई। मैं जब कह रहा हूँ कहीं ग़म, कहीं ख़ुशी... बहुत सारे मित्र हैं जो बहुत ही अच्छे मार्क्स से पास हुए होंगे। कुछ मेरे युवा मित्र पास तो हुए होंगे, लेकिन हो सकता है मार्क्स कम आये होंगे। और कुछ ऐसे भी होंगे कि जो विफल हो गये होंगे। जो उत्तीर्ण हुए हैं उनके लिए मेरा इतना ही सुझाव है कि आप उस मोड़ पर हैं जहाँ से आप अपने करियर का रास्ता चुन रहे हैं। अब आपको तय करना है आगे का रास्ता कौन सा होगा। और वो भी, किस प्रकार के आगे भी इच्छा का मार्ग आप चुनते हैं उसपर निर्भर करेगा। आम तौर पर ज़्यादातर विद्यार्थियों को पता भी नहीं होता है क्या पढ़ना है, क्यों पढ़ना है, कहाँ जाना है, लक्ष्य क्या है। ज़्यादातर अपने सराउंन्डिंग में जो बातें होती हैं, मित्रों में, परिवारों में, यार-दोस्तों में, या अपने माँ-बाप की जो कामनायें रहती हैं, उसके आस-पास निर्णय होते हैं। अब जगत बहुत बड़ा हो चुका है। विषयों की भी सीमायें नहीं हैं, अवसरों की भी सीमायें नहीं हैं। आप ज़रा साहस के साथ आपकी रूचि, प्रकृति, प्रवृत्ति के हिसाब से रास्ता चुनिए। प्रचलित मार्गों पर ही जाकर के अपने को खींचते क्यों हो? कोशिश कीजिये। और आप ख़ुद को जानिए और जानकर के आपके भीतर जो उत्तम चीज़ें हैं, उसको सँवारने का अवसर मिले, ऐसी पढ़ाई के क्षेत्र क्यों न चुनें? लेकिन कभी ये भी सोचना चाहिये, कि मैं जो कुछ भी बनूँगा, जो कुछ भी सीखूंगा, मेरे देश के लिए उसमें काम आये ऐसा क्या होगा?
बहुत सी जगहें ऐसी हैं... आपको हैरानी होगी... विश्व में जितने म्यूज़ियम बनते हैं, उसकी तुलना में भारत में म्यूज़ियम बहुत कम बनते हैं। और कभी कभी इस म्यूज़ियम के लिए योग्य व्यक्तियों को ढूंढना भी बड़ा मुश्किल हो जाता है। क्योंकि परंपरागत रूप से बहुत पॉपुलर क्षेत्र नहीं है। ख़ैर, मैं कोई, कोई एक बात पर आपको खींचना नहीं चाहता हूँ। लेकिन, कहने का तात्पर्य है कि देश को उत्तम शिक्षकों की ज़रूरत है तो उत्तम सैनिकों की भी ज़रूरत है, उत्तम वैज्ञानिकों की ज़रूरत है तो उत्तम कलाकार और संगीतकारों की भी आवश्यकता है। खेल-कूद कितना बड़ा क्षेत्र है, और खिलाडियों के सिवाय भी खेल कूद जगत के लिए कितने उत्तम ह्यूमन रिसोर्स की आवश्यकता होती है। यानि इतने सारे क्षेत्र हैं, इतनी विविधताओं से भरा हुआ विश्व है। हम ज़रूर प्रयास करें, साहस करें। आपकी शक्ति, आपका सामर्थ्य, आपके सपने देश के सपनों से भी मेलजोल वाले होने चाहिये। ये मौक़ा है आपको अपनी राह चुनने का।
जो विफल हुए हैं, उनसे मैं यही कहूँगा कि ज़िन्दगी में सफलता विफलता स्वाभाविक है। जो विफलता को एक अवसर मानता है, वो सफलता का शिलान्यास भी करता है। जो विफलता से खुद को विफल बना देता है, वो कभी जीवन में सफल नहीं होता है। हम विफलता से भी बहुत कुछ सीख सकते हैं। और कभी हम ये क्यों न मानें, कि आज की आप की विफलता आपको पहचानने का एक अवसर भी बन सकती है, आपकी शक्तियों को जानने का अवसर बन सकती है? और हो सकता है कि आप अपनी शक्तियों को जान करके, अपनी ऊर्जा को जान करके एक नया रास्ता भी चुन लें।
मुझे हमारे देश के पूर्व राष्ट्रपति श्रीमान ए.पी.जे. अब्दुल कलाम जी की याद आती है। उन्होंने अपनी किताब‘माई जर्नी – ट्रांस्फोर्मिंग ड्रीम्स इनटू एक्शन’, उसमें अपने जीवन का एक प्रसंग लिखा है। उन्होंने कहा है कि मुझे पायलट बनने की इच्छा थी, बहुत सपना था, मैं पायलट बनूँ। लेकिन जब मैं पायलट बनने गया तो मैं फ़ेल हो गया, मैं विफल हो गया, नापास हो गया। अब आप देखिये, उनका नापास होना, उनका विफल होना भी कितना बड़ा अवसर बन गया। वो देश के महान वैज्ञानिक बन गये। राष्ट्रपति बने। और देश की आण्विक शक्ति के लिए उनका बहुत बड़ा योगदान रहा। और इसलिये मैं कहता हूँ दोस्तो, कि विफलता के बोझ में दबना मत। विफलता भी एक अवसर होती है। विफलता को ऐसे मत जाने दीजिये। विफलता को भी पकड़कर रखिये। ढूंढिए। विफलता के बीच भी आशा का अवसर समाहित होता है। और मेरी ख़ास आग्रहपूर्वक विनती है मेरे इन नौजवान दोस्तों को, और ख़ास करके उनके परिवारजनों को, कि बेटा अगर विफल हो गया तो माहौल ऐसा मत बनाइये की वो ज़िन्दगी में ही सारी आशाएं खो दे। कभी-कभी संतान की विफलता माँ-बाप के सपनों के साथ जुड़ जाती है और उसमें संकट पैदा हो जाते हैं। ऐसा नहीं होना चाहिये। विफलता को पचाने की ताक़त भी तो ज़िन्दगी जीने की ताक़त देती है। मैं फिर एक बार सभी मेरे सफल युवा मित्रों को शुभकामनाएं देता हूँ। और विफल मित्रों को अवसर ढूँढने का मौक़ा मिला है, इसलिए भी मैं इसे शुभकामनाएं ही देता हूँ। आगे बढ़ने का, विश्वास जगाने का प्रयास कीजिये।
पिछली मन की बात और आज जब मैं आपके बीच बात कर रहा हूँ, इस बीच बहुत सारी बातें हो गईं। मेरी सरकार का एक साल हुआ, पूरे देश ने उसका बारीकी से विश्लेषण किया, आलोचना की और बहुत सारे लोगों ने हमें डिस्टिंक्शन मार्क्स भी दे दिए। वैसे लोकतंत्र में ये मंथन बहुत आवश्यक होता है, पक्ष-विपक्ष आवश्यक होता है। क्या कमियां रहीं, उसको भी जानना बहुत ज़रूरी होता है। क्या अच्छाइयां रहीं, उसका भी अपना एक लाभ होता है।
लेकिन मेरे लिए इससे भी ज़्यादा गत महीने की दो बातें मेरे मन को आनंद देती हैं। हमारे देश में ग़रीबों के लिए कुछ न कुछ करने की मेरे दिल में हमेशा एक तड़प रहती है। नई-नई चीज़ें सोचता हूँ, सुझाव आये तो उसको स्वीकार करता हूँ। हमने गत मास प्रधानमंत्री सुरक्षा बीमा योजना, प्रधानमंत्री जीवन ज्योति बीमा योजना, अटल पेंशन योजना - सामाजिक सुरक्षा की तीन योजनाओं को लॉन्च किया। उन योजनाओं को अभी तो बीस दिन नहीं हुए हैं, लेकिन आज मैं गर्व के साथ कहता हूँ... शायद ही हमारे देश में, सरकार पर भरोसा करके, सरकार की योजनाओं पर भरोसा करके, इतनी बड़ी मात्रा में सामान्य मानवी उससे जुड़ जाये... मुझे ये बताते हुए ख़ुशी होती है कि सिर्फ़ बीस दिन के अल्प समय में आठ करोड़, बावन लाख से अधिक लोगों ने इन योजनाओं में अपना नामांकन करवा दिया, योजनाओं में शरीक हो गये। सामाजिक सुरक्षा की दिशा में ये हमारा बहुत अहम क़दम है। और उसका बहुत लाभ आने वाले दिनों में मिलने वाला है।
जिनके पास अब तक ये बात न पहुँची हो उनसे मेरा आग्रह है कि आप फ़ायदा उठाइये। कोई सोच सकता है क्या, महीने का एक रुपया, बारह महीने के सिर्फ़ बारह रूपये, और आप को सुरक्षा बीमा योजना मिल जाये। जीवन ज्योति बीमा योजना - रोज़ का एक रूपये से भी कम, यानि साल का तीन सौ तीस रूपये। मैं इसीलिए कहता हूँ कि ग़रीबों को औरों पर आश्रित न रहना पड़े। ग़रीब स्वयं सशक्त बने। उस दिशा में हम एक के बाद एक क़दम उठा रहे हैं। और मैं तो एक ऐसी फौज बनाना चाहता हूँ, और फौज भी मैं ग़रीबों में से ही चुनना चाहता हूँ। और ग़रीबों में से बनी हुई मेरी ये फौज, ग़रीबी के खिलाफ लड़ाई लड़ेगी, ग़रीबी को परास्त करेगी। और देश में कई वर्षों का हमारे सर पर ये बोझ है, उस ग़रीबी से मुक्ति पाने का हम निरंतर प्रयास करते रहेंगे और सफलता पायेंगे।
दूसरी एक महत्वपूर्ण बात जिससे मुझे आनंद आ रहा है, वो है किसान टीवी चैनल । वैसे तो देश में टीवी चैनेलों की भरमार है, क्या नहीं है, कार्टून की भी चैनलें चलती हैं, स्पोर्ट्स की चैनल चलती हैं, न्यूज़ की चलती है, एंटरटेनमेंट की चलती हैं। बहुत सारी चलती हैं। लेकिन मेरे लिए किसान चैनल महत्वपूर्ण इसलिए है कि मैं इससे भविष्य को बहुत भली भांति देख पाता हूँ।
मेरी दृष्टि में किसान चैनल एक खेत खलियान वाली ओपन यूनिवर्सिटी है। और ऐसी चैनल है, जिसका विद्यार्थी भी किसान है, और जिसका शिक्षक भी किसान है। उत्तम अनुभवों से सीखना, परम्परागत कृषि से आधुनिक कृषि की तरफ आगे बढ़ना, छोटे-छोटे ज़मीन के टुकड़े बचे हैं। परिवार बड़े होते गए, ज़मीन का हिस्सा छोटा होता गया, और तब हमारी ज़मीन की उत्पादकता कैसे बढ़े, फसल में किस प्रकार से परिवर्तन लाया जाए - इन बातों को सीखना-समझना ज़रूरी है। अब तो मौसम को भी पहले से जाना जा सकता है। ये सारी बातें लेकर के,ये टी० वी० चैनल काम करने वाली है और मेरे किसान भाइयों-बहिनों, इसमें हर जिले में किसान मोनिटरिंग की व्यवस्था की गयी है। आप उसको संपर्क ज़रूर करें।
मेरे मछुवारे भाई-बहनों को भी मैं कहना चाहूँगा, मछली पकड़ने के काम में जुड़े हुए लोग, उनके लिए भी इस किसान चैनल में बहुत कुछ है, पशुपालन भारत के ग्रामीण जीवन का परम्परागत काम है और कृषि में एक प्रकार से सहायक होने वाला क्षेत्र है, लेकिन दुनिया का अगर हिसाब देखें, तो दुनिया में पशुओं की संख्या की तुलना में जितना दूध उत्पादन होता है, भारत उसमें बहुत पीछे है। पशुओ की संख्या की तुलना में जितना दूध उत्पादन होना चाहिए, उतना हमारे देश में नहीं होता है। प्रति पशु अधिक दूध उत्पादन कैसे हो, पशु की देखभाल कैसे हो, उसका लालन-पालन कैसे हो, उसका खान पान क्या हो - परम्परागत रूप से तो हम बहुत कुछ करते हैं,लेकिन वैज्ञानिक तौर तरीकों से आगे बढ़ना बहुत ज़रूरी है और तभी जा करके कृषि के साथ पशुपालन भी आर्थिक रूप से हमें मजबूती दे सकता है, किसान को मजबूती दे सकता है, पशु पालक को मजबूती दे सकता है। हम किस प्रकार से इस क्षेत्र में आगे बढें, किस प्रकार से हम सफल हो, उस दिशा में वैज्ञानिक मार्गदर्शन आपको मिले।
मेरे प्यारे देश वासियों! याद है 21 जून? वैसे हमारे इस भू-भाग में 21 जून को इसलिए याद रखा जाता है कि ये सबसे लंबा दिवस होता है। लेकिन 21 जून अब विश्व के लिए एक नई पहचान बन गया है। गत सितम्बर महीने में यूनाइटेड नेशन्स में संबोधन करते हुए मैंने एक विषय रखा था और एक प्रस्ताव रखा था कि 21 जून को अंतरराष्ट्रीय योग-दिवस के रूप में मनाना चाहिए। और सारे विश्व को अचरज हो गया, आप को भी अचरज होगा, सौ दिन के भीतर भीतर एक सौ सतत्तर देशो के समर्थन से ये प्रस्ताव पारित हो गया, इस प्रकार के प्रस्ताव ऐसा यूनाइटेड नेशन्स के इतिहास में, सबसे ज्यादा देशों का समर्थन मिला, सबसे कम समय में प्रस्ताव पारित हुआ, और विश्व के सभी भू-भाग, इसमें शरीक हुए, किसी भी भारतीय के लिए, ये बहुत बड़ी गौरवपूर्ण घटना है।
लेकिन अब जिम्मेवारी हमारी बनती है। क्या कभी सोचा था हमने कि योग विश्व को भी जोड़ने का एक माध्यम बन सकता है? वसुधैव कुटुम्बकम की हमारे पूर्वजों ने जो कल्पना की थी, उसमें योग एक कैटलिटिक एजेंट के रूप में विश्व को जोड़ने का माध्यम बन रहा है। कितने बड़े गर्व की, ख़ुशी की बात है। लेकिन इसकी ताक़त तो तब बनेगी जब हम सब बहुत बड़ी मात्रा में योग के सही स्वरुप को, योग की सही शक्ति को, विश्व के सामने प्रस्तुत करें। योग दिल और दिमाग को जोड़ता है, योग रोगमुक्ति का भी माध्यम है, तो योग भोगमुक्ति का भी माध्यम है और अब तो में देख रहा हूँ, योग शरीर मन बुद्धि को ही जोड़ने का काम करे, उससे आगे विश्व को भी जोड़ने का काम कर सकता है।
हम क्यों न इसके एम्बेसेडर बने! हम क्यों न इस मानव कल्याण के लिए काम आने वाली, इस महत्वपूर्ण विद्या को सहज उपलब्ध कराएं। हिन्दुस्तान के हर कोने में 21 जून को योग दिवस मनाया जाए। आपके रिश्तेदार दुनिया के किसी भी हिस्से में रहते हों, आपके मित्र परिवार जन कहीं रहते हो, आप उनको भी टेलीफ़ोन करके बताएं कि वे भी वहाँ लोगो को इकट्ठा करके योग दिवस मनायें। अगर उनको योग का कोई ज्ञान नहीं है तो कोई किताब लेकर के, लेकिन पढ़कर के भी सबको समझाए कि योग क्या होता है। एक पत्र पढ़ लें, लेकिन मैं मानता हूँ कि हमने योग दिवस को सचमुच में विश्व कल्याण के लिए एक महत्वपूर्ण क़दम के रूप में, मानव जाति के कल्याण के रूप में और तनाव से ज़िन्दगी से गुजर रहा मानव समूह, कठिनाइयों के बीच हताश निराश बैठे हुए मानव को, नई चेतना, ऊर्जा देने का सामर्थ योग में है।
मैं चाहूँगा कि विश्व ने जिसको स्वीकार किया है, विश्व ने जिसे सम्मानित किया है, विश्व को भारत ने जिसे दिया है, ये योग हम सबके लिए गर्व का विषय बनना चाहिए। अभी तीन सप्ताह बाकी है आप ज़रूर प्रयास करें,ज़रूर जुड़ें और औरों को भी जोडें, ये मैं आग्रह करूंगा।
मैं एक बात और कहना चाहूँगा खास करके मेरे सेना के जवानों को, जो आज देश की सुरक्षा में जुटे हुए उनको भी और जो आज सेना से निवृत्त हो करके अपना जीवन यापन कर रहे, देश के लिए त्याग तपस्या करने वाले जवानों को, और मैं ये बात एक प्रधानमन्त्री के तौर पर नहीं कर रहा हूँ। मेरे भीतर का इंसान, दिल की सच्चाई से, मन की गहराई से, मेरे देश के सैनिकों से मैं आज बात करना चाहता हूँ।
वन-रैंक, वन-पेंशन, क्या ये सच्चाई नहीं हैं कि चालीस साल से सवाल उलझा हुआ है? क्या ये सच्चाई नहीं हैं कि इसके पूर्व की सभी सरकारों ने इसकी बातें की, किया कुछ नहीं? मैं आपको विश्वास दिलाता हूँ। मैंने निवृत्त सेना के जवानों के बीच में वादा किया है कि मेरी सरकार वन-रैंक, वन-पेंशन लागू करेगी। हम जिम्मेवारी से हटते नहीं हैं और सरकार बनने के बाद, भिन्न-भिन्न विभाग इस पर काम भी कर रहे हैं। मैं जितना मानता था उतना सरल विषय नहीं हैं, पेचीदा है, और चालीस साल से उसमें समस्याओं को जोड़ा गया है। मैंने इसको सरल बनाने की दिशा में, सर्वस्वीकृत बनाने की दिशा में, सरकार में बैठे हुए सबको रास्ते खोज़ने पर लगाया हुआ है। पल-पल की ख़बरें मीडिया में देना ज़रूरी नहीं होता है। इसकी कोई रनिंग कमेंट्री नहीं होती है। मैं आपको विश्वास दिलाता हूँ यही सरकार, मैं फिर से कहता हूँ - यही सरकार आपका वन-रैंक, वन-पेंशन का मसला, सोल्यूशन लाकर के रहेगी - और जिस विचारधारा में पलकर हम आए हैं , जिन आदर्शो को लेकर हम आगे बढ़ें हैं, उसमें आपके जीवन का महत्व बहुत है।
मेरे लिए आपके जीवन के साथ जुड़ना आपकी चिंता करना ये सिर्फ़ न कोई सरकारी कार्यक्रम है, न ही कोई राजनितिक कार्यक्रम है, मेरे राष्ट्रभक्ति का ही प्रकटीकरण है। मैं फिर एक बार मेरे देश के सभी सेना के जवानों को आग्रह करूंगा कि राजनैतिक रोटी सेंकने वाले लोग चालीस साल तक आपके साथ खेल खेलते रहे हैं। मुझे वो मार्ग मंज़ूर नहीं है, और न ही मैं कोई ऐसे क़दम उठाना चाहता हूँ, जो समस्याओं को जटिल बना दे। आप मुझ पर भरोसा रखिये, बाक़ी जिनको बातें उछालनी होंगी, विवाद करने होंगे, अपनी राजनीति करनी होगी, उनको मुबारक। मुझे देश के लिए जीने मरने वालों के लिए जो कर सकता हूँ करना है - ये ही मेरे इरादे हैं, और मुझे विश्वास है कि मेरे मन की बात जिसमें सिवाय सच्चाई के कुछ नहीं है, आपके दिलों तक पहुंचेगी। चालीस साल तक आपने धैर्य रखा है - मुझे कुछ समय दीजिये, काम करने का अवसर दीजिये, और हम मिल बैठकर के समस्याओं का समाधान करेंगे। ये मैं फिर से एक बार देशवासियों को विश्वास देता हूँ।
छुट्टियों के दिनों में सब लोग कहीं न कहीं तो गए होंगे। भारत के अलग-अलग कोनों में गए होंगे। हो सकता है कुछ लोग अब जाने का कार्यक्रम बनाते होंगे। स्वाभाविक है ‘सीईंग इज़ बिलीविंग’ - जब हम भ्रमण करते हैं,कभी रिश्तेदारों के घर जाते हैं, कहीं पर्यटन के स्थान पर पहुंचते हैं। दुनिया को समझना, देखने का अलग अवसर मिलता है। जिसने अपने गाँव का तालाब देखा है, और पहली बार जब वह समुन्दर देखता है, तो पता नहीं वो मन के भाव कैसे होते हैं, वो वर्णन ही नहीं कर सकता है कि अपने गाँव वापस जाकर बता ही नहीं सकता है कि समुन्दर कितना बड़ा होता है। देखने से एक अलग अनुभूति होती है।
आप छुट्टियों के दिनों में अपने यार दोस्तों के साथ, परिवार के साथ कहीं न कहीं ज़रूर गए होंगे, या जाने वाले होंगे। मुझे मालूम नहीं है आप जब भ्रमण करने जाते हैं, तब डायरी लिखने की आदत है कि नहीं है। लिखनी चाहिए, अनुभवों को लिखना चाहिए, नए-नए लोगों से मिलतें हैं तो उनकी बातें सुनकर के लिखना चाहिए, जो चीज़ें देखी हैं, उसका वर्णन लिखना चाहिए, एक प्रकार से अन्दर, अपने भीतर उसको समावेश कर लेना चाहिए। ऐसी सरसरी नज़र से देखकर के आगे चले जाएं ऐसा नहीं करना चाहिए। क्योंकि ये भ्रमण अपने आप में एक शिक्षा है। हर किसी को हिमालय में जाने का अवसर नहीं मिलता है, लेकिन जिन लोगों ने हिमालय का भ्रमण किया है और किताबें लिखी हैं उनको पढ़ोगे तो पता चलेगा कि क्या आनन्ददायक यात्राओं का वर्णन उन्होंने किया है।
मैं ये तो नहीं कहता हूँ कि आप लेखक बनें! लेकिन भ्रमण की ख़ातिर भ्रमण ऐसा न होते हुए हम उसमें से कुछ सीखने का प्रयास करें, इस देश को समझने का प्रयास करें, देश को जानने का प्रयास करें, उसकी विविधताओं को समझें। वहां के खान पान कों, पहनावे, बोलचाल, रीतिरिवाज, उनके सपने, उनकी आकांक्षाएँ,उनकी कठिनाइयाँ, इतना बड़ा विशाल देश है, पूरे देश को जानना समझना है - एक जनम कम पड़ जाता है,आप ज़रूर कहीं न कहीं गए होंगे, लेकिन मेरी एक इच्छा है, इस बार आप यात्रा में गए होंगे या जाने वाले होंगे। क्या आप अपने अनुभव को मेरे साथ शेयर कर सकते हैं क्या? सचमुच में मुझे आनंद आएगा। मैं आपसे आग्रह करता हूँ कि आप इन्क्रेडिबल इंडिया हैश टैग, इसके साथ मुझे अपनी फोटो, अपने अनुभव ज़रूर भेजिए और उसमें से कुछ चीज़ें जो मुझे पसंद आएंगी मैं उसे आगे औरों के साथ शेयर करूँगा।
देखें तो सही आपके अनुभवों को, मैं भी अनुभव करूँ, आपने जो देखा है, मैं उसको मैं दूर बैठकर के देखूं। जिस प्रकार से आप समुद्रतट पर जा करके अकेले जा कर टहल सकते हैं, मैं तो नहीं कर पाता अभी, लेकिन मैं चाहूँगा आपके अनुभव जानना और आपके उत्तम अनुभवों को, मैं सबके साथ शेयर करूँगा।
अच्छा लगा आज एक बार फिर गर्मी की याद दिला देता हूँ, मैं यही चाहूँगा कि आप अपने को संभालिए, बीमार मत होना, गर्मी से अपने आपको बचाने के रास्ते होतें हैं, लेकिन उन पशु पक्षियों का भी ख़याल करना। यही मन की बात आज बहुत हो गयी, ऐसे मन में जो विचार आते गए, मैं बोलता गया। अगली बार फिर मिलूँगा, फिर बाते करूँगा, आपको बहुत बहुत शुभकामनाएं, बहुत बहुत धन्यवाद।
मेरे प्यारे देशवासियो,
नमस्कार,
मन की बात करने का मन नहीं हो रहा था आज। बोझ अनुभव कर रहा हूँ, कुछ व्यथित सा मन है। पिछले महीने जब बात कर रहा था आपसे, तो ओले गिरने की खबरें, बेमौसमी बरसात, किसानों की तबाही। अभी कुछ दिन पहले बिहार में अचानक तेज हवा चली। काफी लोग मारे गए। काफी कुछ नुकसान हुआ। और शनिवार को भयंकर भूकंप ने पूरे विश्व को हिला दिया है। ऐसा लगता है मानो प्राकृतिक आपदा का सिलसिला चल पड़ा है। नेपाल में भयंकर भूकंप की आपदा। हिंदुस्तान में भी भूकंप ने अलग-अलग राज्यों में कई लोगों की जान ली है। संपत्ति का भी नुकसान किया है। लेकिन नेपाल का नुकसान बहुत भयंकर है।
मैंने 2001, 26 जनवरी, कच्छ के भूकंप को निकट से देखा है। ये आपदा कितनी भयानक होती है, उसकी मैं कल्पना भली-भांति कर सकता हूँ। नेपाल पर क्या बीतती होगी, उन परिवारों पर क्या बीतती होगी, उसकी मैं कल्पना कर सकता हूँ।
लेकिन मेरे प्यारे नेपाल के भाइयो-बहनो, हिन्दुस्तान आपके दुःख में आपके साथ है। तत्काल मदद के लिए चाहे हिंदुस्तान के जिस कोने में मुसीबत आयी है वहां भी, और नेपाल में भी सहाय पहुंचाना प्रारंभ कर दिया है। सबसे पहला काम है रेस्क्यू ऑपरेशन, लोगों को बचाना। अभी भी मलबे में दबे हुए कुछ लोग जीवित होंगे, उनको जिन्दा निकालना हैं। एक्सपर्ट लोगों की टीम भेजी है, साथ में, इस काम के लिए जिनको विशेष रूप से ट्रेन किया गया है ऐसे स्निफ़र डॉग्स को भी भेजा गया है। स्निफर डॉग्स ढूंढ पाते हैं कि कहीं मलबे के नीचे कोई इंसान जिन्दा हो। कोशिश हमारी पूरी रहेगी अधिकतम लोगों को जिन्दा बचाएं। रेस्क्यू ऑपरेशन के बाद रिलीफ का काम भी चलाना है। रिहैबिलिटेशन का काम भी तो बहुत लम्बा चलेगा।
लेकिन मानवता की अपनी एक ताकत होती है। सवा-सौ करोड़ देश वासियों के लिए नेपाल अपना है। उन लोगों का दुःख भी हमारा दुःख है। भारत पूरी कोशिश करेगा इस आपदा के समय हर नेपाली के आंसू भी पोंछेंगे, उनका हाथ भी पकड़ेंगे, उनको साथ भी देंगे। पिछले दिनों यमन में, हमारे हजारों भारतीय भाई बहन फंसे हुए थे। युद्ध की भयंकर विभीषिका के बीच, बम बन्दूक के तनाव के बीच, गोलाबारी के बीच भारतीयों को निकालना, जीवित निकालना, एक बहुत बड़ा कठिन काम था। लेकिन हम कर पाए। इतना ही नहीं, एक सप्ताह की उम्र की एक बच्ची को जब बचा करके लाये तो ऐसा लग रहा था कि आखिर मानवता की भी कितनी बड़ी ताकत होती है। बम-बन्दूक की वर्षा चलती हो, मौत का साया हो, और एक सप्ताह की बच्ची अपनी जिन्दगी बचा सके तब एक मन को संतोष होता है।
मैं पिछले दिनों विदेश में जहाँ भी गया, एक बात के लिए बहुत बधाइयाँ मिली, और वो था यमन में हमने दुनिया के करीब 48 देशों के नागरिकों को बचाया था। चाहे अमेरिका हो, यू.के. हो, फ्रांस हो, रशिया हो, जर्मनी हो, जापान हो, हर देश के नागरिक को हमने मदद की थी। और उसके कारण दुनिया में भारत का ये “सेवा परमो धर्मः”, इसकी अनुभूति विश्व ने की है। हमारा विदेश मंत्रालय, हमारी वायु सेना, हमारी नौसेना इतने धैर्य के साथ, इतनी जिम्मेवारी के साथ, इस काम को किया है, दुनिया में इसकी अमिट छाप रहेगी आने वाले दिनों में, ऐसा मैं विश्वास करता हूँ। और मुझे खुशी है कि कोई भी नुकसान के बिना, सब लोग बचकर के बाहर आये। वैसे भी भारत का एक गुण, भारत के संस्कार बहुत पुराने हैं।
अभी मैं जब फ्रांस गया था तो फ्रांस में, मैं प्रथम विश्व युद्ध के एक स्मारक पर गया था। उसका एक कारण भी था, कि प्रथम विश्व युद्ध की शताब्दी तो है, लेकिन साथ-साथ भारत की पराक्रम का भी वो शताब्दी वर्ष हैI भारत के वीरों की बलिदानी की शताब्दी का वर्ष है और “सेवा परमो-धर्मः” इस आदर्श को कैसे चरितार्थ करता रहा हमारा देश , उसकी भी शताब्दी का यह वर्ष है, मैं यह इसलिए कह रहा हूँ कि 1914 में और 1918 तक प्रथम विश्व युद्ध चला और बहुत कम लोगों को मालूम होगा करीब-करीब 15 लाख भारतीय सैनिकों ने इस युद्ध में अपनी जान की बाजी लगा दी थी और भारत के जवान अपने लिए नहीं मर रहे थेI हिंदुस्तान को, किसी देश को कब्जा नहीं करना था, न हिन्दुस्तान को किसी की जमीन लेनी थी लेकिन भारतीयों ने एक अदभुत पराक्रम करके दिखाया थाI बहुत कम लोगों को मालूम होगा इस प्रथम विश्व युद्ध में हमारे करीब-करीब 74 हजार जवानों ने शहादत की थी, ये भी गर्व की बात है कि इस पर करीब 9 हजार 2 सौ हमारे सैनिकों को गैलेंट्री अवार्ड से डेकोरेट किया गया थाI इतना ही नहीं, 11 ऐसे पराक्रमी लोग थे जिनको सर्वश्रेष्ठ सम्मान विक्टोरिया क्रॉस मिला थाI खासकर कि फ्रांस में विश्व युद्ध के दरमियान मार्च 1915 में करीब 4 हजार 7 सौ हमारे हिनदुस्तानियों ने बलिदान दिया था। उनके सम्मान में फ्रांस ने वहां एक स्मारक बनाया है। मैं वहाँ नमन करने गया था, हमारे पूर्वजों के पराक्रम के प्रति श्रध्दा व्यक्त करने गया था।
ये सारी घटनायें हम देखें तो हम दुनिया को कह सकते हैं कि ये देश ऐसा है जो दुनिया की शांति के लिए, दुनिया के सुख के लिए, विश्व के कल्याण के लिए सोचता है। कुछ न कुछ करता है और ज़रूरत पड़े तो जान की बाज़ी भी लगा देता है। यूनाइटेड नेशन्स में भी पीसकीपिंग फ़ोर्स में सर्वाधिक योगदान देने वालों में भारत का भी नाम प्रथम पंक्ति में है। यही तो हम लोगों के लिए गर्व की बात है।
पिछले दिनों दो महत्वपूर्ण काम करने का मुझे अवसर मिला। हम पूज्य बाबा साहेब अम्बेडकर की 125 वीं जयन्ती का वर्ष मना रहे हैं। कई वर्षों से मुंबई में उनके स्मारक बनाने का जमीन का विवाद चल रहा था। मुझे आज इस बात का संतोष है कि भारत सरकार ने वो जमीन बाबा साहेब अम्बेडकर के स्मारक बनाने के लिए देने का निर्णय कर लिया। उसी प्रकार से दिल्ली में बाबा साहेब अम्बेडकर के नाम से एक इंटरनेशनल सेंटर बने, पूरा विश्व इस मनीषी को जाने, उनके विचारों को जाने, उनके काम को जाने। ये भी वर्षों से लटका पड़ा विषय था, इसको भी पूरा किया, शिलान्यास किया, और 20 साल से जो काम नहीं हुआ था वो 20 महीनों में पूरा करने का संकल्प किया। और साथ-साथ मेरे मन में एक विचार भी आया है और हम लगे हैं, आज भी हमारे देश में कुछ परिवार हैं जिनको सर पे मैला ढ़ोने के लिए मजबूर होना पड़ता है।
क्या हमें शोभा देता है कि आज भी हमारे देश में कुछ परिवारों को सर पर मैला ढोना पड़े? मैंने सरकार में बड़े आग्रह से कहा है कि बाबा साहेब अम्बेडकर जी के पुण्य स्मरण करते हुए 125 वीं जयन्ती के वर्ष में, हम इस कलंक से मुक्ति पाएं। अब हमारे देश में किसी गरीब को सर पर मैला ढोना पड़े, ये परिस्थति हम सहन नहीं करेंगे। समाज का भी साथ चाहिये। सरकार ने भी अपना दायित्व निभाना चाहिये। मुझे जनता का भी सहयोग चाहिये, इस काम को हमें करना है।
बाबा साहेब अम्बेडकर जीवन भर शिक्षित बनो ये कहते रहते थे। आज भी हमारे कई दलित, पीड़ित, शोषित, वंचित समाज में, ख़ास करके बेटियों में, शिक्षा अभी पहुँची नहीं है। बाबा साहेब अम्बेडकर के 125 वीं जयन्ती के पर्व पर, हम भी संकल्प करें। हमारे गाँव में, नगर में, मोहल्ले में गरीब से गरीब की बेटी या बेटा, अनपढ़ न रहे। सरकार अपना कर्त्तव्य करे, समाज का उसमें साथ मिले तो हम जरुर संतोष की अनुभूति करते हैं। मुझे एक आनंद की बात शेयर करने का मन करता है और एक पीड़ा भी बताने का मन करता है।
मुझे इस बात का गर्व होता है कि भारत की दो बेटियों ने देश के नाम को रौशन किया। एक बेटी साईना नेहवाल बैडमिंटन में दुनिया में नंबर एक बनी, और दूसरी बेटी सानिया मिर्जा टेनिस डबल्स में दुनिया में नंबर एक बनी। दोनों को बधाई, और देश की सारी बेटियों को भी बधाई। गर्व होता है अपनों के पुरुषार्थ और पराक्रम को लेकर के। लेकिन कभी-कभी हम भी आपा खो बैठते हैं। जब क्रिकेट का वर्ल्ड कप चल रहा था और सेमी-फाइनल में हम ऑस्ट्रेलिया से हार गए, कुछ लोगों ने हमारे खिलाड़ियों के लिए जिस प्रकार के शब्दों का प्रयोग किया, जो व्यवहार किया, मेरे देशवासियो, ये अच्छा नहीं है। ऐसा कैसा खेल हो जिसमें कभी पराजय ही न हो अरे जय और पराजय तो जिन्दगी के हिस्से होते हैं। अगर हमारे देश के खिलाड़ी कभी हार गए हैं तो संकट की घड़ी में उनका हौसला बुलंद करना चाहिये। उनका नया विश्वास पैदा करने का माहौल बनाना चाहिये। मुझे विश्वास है आगे से हम पराजय से भी सीखेंगे और देश के सम्मान के साथ जो बातें जुड़ी हुई हैं, उसमें पल भर में ही संतुलन खो करके, क्रिया-प्रतिक्रिया में नहीं उलझ जायेंगे। और मुझे कभी-कभी चिंता हो रही है। मैं जब कभी देखता हूँ कि कहीं अकस्मात् हो गया, तो भीड़ इकट्ठी होती है और गाड़ी को जला देती है। और हम टीवी पर इन चीजों को देखते भी हैं। एक्सीडेंट नहीं होना चाहिये। सरकार ने भी हर प्रकार की कोशिश करनी चाहिये। लेकिन मेरे देशवासियो बताइये कि इस प्रकार से गुस्सा प्रकट करके हम ट्रक को जला दें, गाड़ी को जला दें.... मरा हुआ तो वापस आता नहीं है। क्या हम अपने मन के भावों को संतुलित रखके कानून को कानून का काम नहीं करने दे सकते हैं? सोचना चाहिये।
खैर, आज मेरा मन इन घटनाओं के कारण बड़ा व्यथित है, ख़ास करके प्राकृतिक आपदाओं के कारण, लेकिन इसके बीच भी धैर्य के साथ, आत्मविश्वास के साथ देश को भी आगे ले जायेंगे, इस देश का कोई भी व्यक्ति...दलित हो, पीड़ित हो, शोषित हो, वंचित हो, आदिवासी हो, गाँव का हो, गरीब हो, किसान हो, छोटा व्यापारी हो, कोई भी हो, हर एक के कल्याण के मार्ग पर, हम संकल्प के साथ आगे बढ़ते रहेंगे।
विद्यार्थियों की परीक्षायें पूर्ण हुई हैं, ख़ास कर के 10 वीं और 12 वीं के विद्यार्थियों ने छुट्टी मनाने के कार्यक्रम बनाए होंगे, मेरी आप सबको शुभकामनाएं हैं। आपका वेकेशन बहुत ही अच्छा रहे, जीवन में कुछ नया सीखने का, नया जानने का अवसर मिले, और साल भर आपने मेहनत की है तो कुछ पल परिवार के साथ उमंग और उत्साह के साथ बीते यही मेरी शुभकामना है।
आप सबको मेरा नमस्कार।
धन्यवाद।
मेरे प्यारे किसान भाइयो और बहनो, आप सबको नमस्कार!
ये मेरा सौभाग्य है कि आज मुझे देश के दूर सुदूर गाँव में रहने वाले मेरे किसान भाइयों और बहनों से बात करने का अवसर मिला है। और जब मैं किसान से बात करता हूँ तो एक प्रकार से मैं गाँव से बात करता हूँ, गाँव वालों से बात करता हूँ, खेत मजदूर से भी बात कर रहा हूँ। उन खेत में काम करने वाली माताओं बहनों से भी बात कर रहा हूँ। और इस अर्थ में मैं कहूं तो अब तक की मेरी सभी मन की बातें जो हुई हैं, उससे शायद एक कुछ एक अलग प्रकार का अनुभव है।
जब मैंने किसानों के साथ मन की बात करने के लिए सोचा, तो मुझे कल्पना नहीं थी कि दूर दूर गावों में बसने वाले लोग मुझे इतने सारे सवाल पूछेंगे, इतनी सारी जानकारियां देंगे, आपके ढेर सारे पत्र, ढेर सारे सवाल, ये देखकर के मैं हैरान हो गया। आप कितने जागरूक हैं, आप कितने सक्रिय हैं, और शायद आप तड़पते हैं कि कोई आपको सुने। मैं सबसे पहले आपको प्रणाम करता हूँ कि आपकी चिट्ठियाँ पढ़कर के उसमें दर्द जो मैंने देखा है, जो मुसीबतें देखी हैं, इतना सहन करने के बावजूद भी, पता नहीं क्या-क्या आपने झेला होगा।
आपने मुझे तो चौंका दिया है, लेकिन मैं इस मन की बात का, मेरे लिए एक प्रशिक्षण का, एक एजुकेशन का अवसर मानता हूँ। और मेरे किसान भाइयो और बहनो, मैं आपको विश्वास दिलाता हूँ, कि आपने जितनी बातें उठाई हैं, जितने सवाल पूछे हैं, जितने भिन्न-भिन्न पहलुओं पर आपने बातें की हैं, मैं उन सबके विषय में, पूरी सरकार में जागरूकता लाऊँगा, संवेदना लाऊँगा, मेरा गाँव, मेरा गरीब, मेरा किसान भाई, ऐसी स्थिति में उसको रहने के लिए मजबूर नहीं किया जा सकता। मैं तो हैरान हूँ, किसानों ने खेती से संबधित तो बातें लिखीं हैं। लेकिन, और भी कई विषय उन्होंने कहे हैं, गाँव के दबंगों से कितनी परेशानियाँ हैं, माफियाओं से कितनी परेशानियाँ हैं, उसकी भी चर्चा की है, प्राकृतिक आपदा से आने वाली मुसीबतें तो ठीक हैं, लेकिन आस-पास के छोटे मोटे व्यापारियों से भी मुसीबतें झेलनी पड़ रही हैं।
किसी ने गाँव में गन्दा पानी पीना पड़ रहा है उसकी चर्चा की है, किसी ने गाँव में अपने पशुओं को रखने के लिए व्यवस्था की चिंता की है, किसी ने यहाँ तक कहा है कि पशु मर जाता है तो उसको हटाने का ही कोई प्रबंध नहीं होता, बीमारी फैल जाती है। यानि कितनी उपेक्षा हुई है, और आज मन की बात से शासन में बैठे हुए लोगों को एक कड़ा सन्देश इससे मिल रहा है। हमें राज करने का अधिकार तब है जब हम इन छोटी छोटी बातों को भी ध्यान दें। ये सब पढ़ कर के तो मुझे कभी कभी शर्मिन्दगी महसूस होती थी, कि हम लोगों ने क्या किया है! मेरे पास जवाब नहीं है, क्या किया है? हाँ, मेरे दिल को आपकी बातें छू गयी हैं। मैं जरूर बदलाव के लिए, प्रामाणिकता से प्रयास करूंगा, और उसके सभी पहलुओं पर सरकार को, जगाऊँगा, चेताऊंगा, दौडाऊंगा, मेरी कोशिश रहेगी, ये मैं विश्वास दिलाता हूँ।
मैं ये भी जानता हूँ कि पिछले वर्ष बारिश कम हुई तो परेशानी तो थी ही थी। इस बार बेमौसमी बरसात हो गयी, ओले गिरे, एक प्रकार से महाराष्ट्र से ऊपर, सभी राज्यों में, ये मुसीबत आयी। और हर कोने में किसान परेशान हो गया। छोटा किसान जो बेचारा, इतनी कड़ी मेहनत करके साल भर अपनी जिन्दगी गुजारा करता है, उसका तो सब कुछ तबाह हो गया है। मैं इस संकट की घड़ी में आपके साथ हूँ। सरकार के मेरे सभी विभाग राज्यों के संपर्क में रह करके स्थिति का बारीकी से अध्ययन कर रहे हैं, मेरे मंत्री भी निकले हैं, हर राज्य की स्थिति का जायजा लेंगे, राज्य सरकारों को भी मैंने कहा है कि केंद्र और राज्य मिल करके, इन मुसीबत में फंसे हुए सभी किसान भाइयों-बहनों को जितनी ज्यादा मदद कर सकते हैं, करें। में आपको विश्वास दिलाता हूँ कि सरकार पूरी संवेदना के साथ, आपकी इस संकट की घड़ी में, आपको पूरी तत्परता से मदद करेगी। जितना हो सकता है, उसको पूरा करने का प्रयास किया जायेगा।
गाँव के लोगों ने, किसानों ने कई मुददे उठाये हैं। सिंचाई की चिंता व्यापक नजर आती है। गाँव में सड़क नहीं है उसका भी आक्रोश है। खाद की कीमतें बढ़ रही हैं, उस पर भी किसान की नाराजगी है। बिजली नहीं मिल रही है। किसानों को यह भी चिंता है कि बच्चों को पढ़ाना है, अच्छी नौकरी मिले ये भी उनकी इच्छा है, उसकी भी शिकायतें हैं। माताओं बहनों की भी, गाँव में कहीं नशा-खोरी हो रही है उस पर अपना आक्रोश जताया है। कुछ ने तो अपने पति को तम्बाकू खाने की आदत है उस पर भी अपना रोष मुझे व्यक्त करके भेजा है। आपके दर्द को मैं समझ सकता हूँ। किसान का ये भी कहना है की सरकार की योजनायें तो बहुत सुनने को मिलती हैं, लेकिन हम तक पहुँचती नहीं हैं। किसान ये भी कहता है कि हम इतनी मेहनत करते हैं, लोगों का तो पेट भरते हैं लेकिन हमारा जेब नहीं भरता है, हमें पूरा पैसा नहीं मिलता है। जब माल बेचने जाते हैं, तो लेने वाला नहीं होता है। कम दाम में बेच देना पड़ता है। ज्यादा पैदावार करें तो भी मरते हैं, कम पैदावार करें तो भी मरते हैं। यानि किसानों ने अपने मन की बात मेरे सामने रखी है। मैं मेरे किसान भाइयों-बहनों को विश्वास दिलाता हूँ, कि मैं राज्य सरकारों को भी, और भारत सरकार के भी हमारे सभी विभागों को भी और अधिक सक्रिय करूंगा। तेज गति से इन समस्याओं के समाधान के रास्ते खोजने के लिए प्रेरित करूँगा। मुझे लग रहा है कि आपका धैर्य कम हो रहा है। बहुत स्वाभाविक है, साठ साल आपने इन्तजार किया है, मैं प्रामाणिकता से प्रयास करूँगा।
किसान भाइयो, ये आपके ढेर सारे सवालों के बीच में, मैंने देखा है कि करीब–करीब सभी राज्यों से वर्तमान जो भूमि अधिग्रहण बिल की चर्चा है, उसका प्रभाव ज्यादा दिखता है, और मैं हैरान हूँ कि कैसे-कैसे भ्रम फैलाए गए हैं। अच्छा हुआ, आपने छोटे–छोटे सवाल मुझे पूछे हैं। मैं कोशिश करूंगा कि सत्य आप तक पहुचाऊं। आप जानते हैं भूमि-अधिग्रहण का कानून 120 साल पहले आया था। देश आज़ाद होने के बाद भी 60-65 साल वही कानून चला और जो लोग आज किसानों के हमदर्द बन कर के आंदोलन चला रहे हैं, उन्होंने भी इसी कानून के तहत देश को चलाया, राज किया और किसानों का जो होना था हुआ। सब लोग मानते थे कि कानून में परिवर्तन होना चाहिए, हम भी मानते थे। हम विपक्ष में थे, हम भी मानते थे।
2013 में बहुत आनन-फानन के साथ एक नया कानून लाया गया। हमने भी उस समय कंधे से कन्धा मिलाकर के साथ दिया। किसान का भला होता है, तो साथ कौन नहीं देगा, हमने भी दिया। लेकिन कानून लागू होने के बाद, कुछ बातें हमारे ज़हन में आयीं। हमें लगा शायद इसके साथ तो हम किसान के साथ धोखा कर रहे हैं। हमें किसान के साथ धोखा करने का अधिकार नहीं है। दूसरी तरफ जब हमारी सरकार बनी, तब राज्यों की तरफ से बहुत बड़ी आवाज़ उठी। इस कानून को बदलना चाहिए, कानून में सुधार करना चाहिए, कानून में कुछ कमियां हैं, उसको पूरा करना चाहिए। दूसरी तरफ हमने देखा कि एक साल हो गया, कोई कानून लागू करने को तैयार ही नहीं कोई राज्य और लागू किया तो उन्होंने क्या किया? महाराष्ट्र सरकार ने लागू किया था, हरियाणा ने किया था जहां पर कांग्रेस की सरकारें थीं और जो किसान हितैषी होने का दावा करते हैं उन्होंने इस अध्यादेश में जो मुआवजा देने का तय किया था उसे आधा कर दिया। अब ये है किसानों के साथ न्याय? तो ये सारी बातें देख कर के हमें भी लगा कि भई इसका थोडा पुनर्विचार होना ज़रूरी है। आनन–फानन में कुछ कमियां रह जाती हैं। शायद इरादा ग़लत न हो, लेकिन कमियाँ हैं, तो उसको तो ठीक करनी चाहिए।…और हमारा कोई आरोप नहीं है कि पुरानी सरकार क्या चाहती थी, क्या नहीं चाहती थी? हमारा इरादा यही है कि किसानों का भला हो, किसानों की संतानों का भी भला हो, गाँव का भी भला हो और इसीलिए कानून में अगर कोई कमियां हैं, तो दूर करनी चाहिए। तो हमारा एक प्रामाणिक प्रयास कमियों को दूर करना है।
अब एक सबसे बड़ी कमी मैं बताऊँ, आपको भी जानकर के हैरानी होगी कि जितने लोग किसान हितैषी बन कर के इतनी बड़ी भाषणबाज़ी कर रहें हैं, एक जवाब नहीं दे रहे हैं। आपको मालूम है, अलग-अलग प्रकार के हिंदुस्तान में 13 कानून ऐसे हैं जिसमें सबसे ज्यादा जमीन संपादित की जाती है, जैसे रेलवे, नेशनल हाईवे, खदान के काम। आपको मालूम है, पिछली सरकार के कानून में इन 13 चीज़ों को बाहर रखा गया है। बाहर रखने का मतलब ये है कि इन 13 प्रकार के कामों के लिए जो कि सबसे ज्यादा जमीन ली जाती है, उसमें किसानों को वही मुआवजा मिलेगा जो पहले वाले कानून से मिलता था। मुझे बताइए, ये कमी थी कि नहीं? ग़लती थी कि नहीं? हमने इसको ठीक किया और हमने कहा कि भई इन 13 में भी भले सरकार को जमीन लेने कि हो, भले रेलवे के लिए हो, भले हाईवे बनाने के लिए हो, लेकिन उसका मुआवजा भी किसान को चार गुना तक मिलना चाहिए। हमने सुधार किया। कोई मुझे कहे, क्या ये सुधार किसान विरोधी है क्या? हमें इसीलिए तो अध्यादेश लाना पड़ा। अगर हम अध्यादेश न लाते तो किसान की तो जमीन वो पुराने वाले कानून से जाती रहती, उसको कोई पैसा नहीं मिलता। जब ये कानून बना तब भी सरकार में बैठे लोगों में कईयों ने इसका विरोधी स्वर निकला था। स्वयं जो कानून बनाने वाले लोग थे, जब कानून का रूप बना, तो उन्होंने तो बड़े नाराज हो कर के कह दिया, कि ये कानून न किसानों की भलाई के लिए है, न गाँव की भलाई के लिए है, न देश की भलाई के लिए है। ये कानून तो सिर्फ अफसरों कि तिजोरी भरने के लिए है, अफसरों को मौज करने के लिए, अफ़सरशाही को बढ़ावा देने के लिए है। यहाँ तक कहा गया था। अगर ये सब सच्चाई थी तो क्या सुधार होना चाहिए कि नहीं होना चाहिए? ..और इसलिए हमने कमियों को दूर कर के किसानों का भला करने कि दिशा में प्रयास किये हैं। सबसे पहले हमने काम किया, 13 कानून जो कि भूमि अधिग्रहण कानून के बाहर थे और जिसके कारण किसान को सबसे ज्यादा नुकसान होने वाला था, उसको हम इस नए कानून के दायरे में ले आये ताकि किसान को पूरा मुआवजा मिले और उसको सारे हक़ प्राप्त हों। अब एक हवा ऐसी फैलाई गई कि मोदी ऐसा कानून ला रहें हैं कि किसानों को अब मुआवजा पूरा नहीं मिलेगा, कम मिलेगा।
मेरे किसान भाइयो-बहनो, मैं ऐसा पाप सोच भी नहीं सकता हूँ। 2013 के पिछली सरकार के समय बने कानून में जो मुआवजा तय हुआ है, उस में रत्ती भर भी फर्क नहीं किया गया है। चार गुना मुआवजा तक की बात को हमने स्वीकारा हुआ है। इतना ही नहीं, जो तेरह योजनाओं में नहीं था, उसको भी हमने जोड़ दिया है। इतना ही नहीं, शहरीकरण के लिए जो भूमि का अधिग्रहण होगा, उसमें विकसित भूमि, बीस प्रतिशत उस भूमि मालिक को मिलेगी ताकि उसको आर्थिक रूप से हमेशा लाभ मिले, ये भी हमने जारी रखा है। परिवार के युवक को नौकरी मिले। खेत मजदूर की संतान को भी नौकरी मिलनी चाहिए, ये भी हमने जारी रखा है। इतना ही नहीं, हमने तो एक नयी चीज़ जोड़ी है। नयी चीज़ ये जोड़ी है, जिला के जो अधिकारी हैं, उसको इसने घोषित करना पड़ेगा कि उसमें नौकरी किसको मिलेगी, किसमें नौकरी मिलेगी, कहाँ पर काम मिलेगा, ये सरकार को लिखित रूप से घोषित करना पड़ेगा। ये नयी चीज़ हमने जोड़ करके सरकार कि जिम्मेवारी को Fix किया है।
मेरे किसान भाइयो-बहनो, हम इस बात पर agree हैं, कि सबसे पहले सरकारी जमीन का उपयोग हो। उसके बाद बंजर भूमि का उपयोग हो, फिर आखिर में अनिवार्य हो तब जाकर के उपजाऊ जमीन को हाथ लगाया जाये, और इसीलिए बंजर भूमि का तुरंत सर्वे करने के लिए भी कहा गया है, जिसके कारण वो पहली priority वो बने।
एक हमारे किसानों की शिकायत सही है कि आवश्यकता से अधिक जमीन हड़प ली जाती है। इस नए कानून के माध्यम से मैं आपको विश्वास दिलाना चाहता हूँ कि अब जमीन कितनी लेनी, उसकी पहले जांच पड़ताल होगी, उसके बाद तय होगा कि आवश्यकता से अधिक जमीन हड़प न की जाए। कभी-कभी तो कुछ होने वाला है, कुछ होने वाला है, इसकी चिंता में बहुत नुकसान होता है। ये Social Impact Assessment (SIA) के नाम पर अगर प्रक्रिया सालों तक चलती रहे, सुनवाई चलती रहे, मुझे बताइए, ऐसी स्थिति में कोई किसान अपने फैसले कर पायेगा? फसल बोनी है तो वो सोचेगा नहीं-नहीं यार, पता नहीं, वो निर्णय आ जाएगा तो, क्या करूँगा? और उसके 2-2, 4-4, साल खराब हो जाएगा और अफसरशाही में चीजें फसी रहेंगी। प्रक्रियाएं लम्बी, जटिल और एक प्रकार से किसान बेचारा अफसरों के पैर पकड़ने जाने के लिए मजबूर हो जाएगा कि साहब ये लिखो, ये मत लिखों, वो लिखो, वो मत लिखो, ये सब होने वाला है। क्या मैं मेरे अपने किसानों को इस अफसरसाही के चुंगल में फिर एक बार फ़सा दूं? मुझे लगता है वो ठीक नहीं होगा। प्रक्रिया लम्बी थी, जटिल थी। उसको सरल करने का मैंने प्रयास किया है।
मेरे किसान भाइयो-बहनो 2014 में कानून बना है, लेकिन राज्यों ने उसको स्वीकार नहीं किया है। किसान तो वहीं का वहीं रह गया। राज्यों ने विरोध किया। मुझे बताइए क्या मैं राज्यों की बात सुनूं या न सुनूं? क्या मैं राज्यों पर भरोसा करूँ या न करूँ? इतना बड़ा देश, राज्यों पर अविश्वास करके चल सकता है क्या? और इसलिए मेरा मत है कि हमें राज्यों पर भरोसा करना चाहिये, भारत सरकार में विशेष करना चाहिये तो, एक तो मैं भरोसा करना चाहता हूँ, दूसरी बात है, ये जो कानून में सुधार हम कर रहे हैं, कमियाँ दूर कर रहे हैं, किसान की भलाई के लिए जो हम कदम उठा रहे हैं, उसके बावजूद भी अगर किसी राज्य को ये नहीं मानना है, तो वे स्वतंत्र हैं और इसलिए मैं आपसे कहना चाहता हूँ कि ये जो सारे भ्रम फैलाए जा रहे हैं, वो सरासर किसान विरोधी के भ्रम हैं। किसान को गरीब रखने के षड्यन्त्र का ही हिस्सा हैं। देश को आगे न ले जाने के जो षडयंत्र चले हैं उसी का हिस्सा है। उससे बचना है, देश को भी बचाना है, किसान को भी बचाना है।
अब गाँव में भी किसान को पूछो कि भाई तीन बेटे हैं बताओ क्या सोच रहे हो? तो वो कहता है कि भाई एक बेटा तो खेती करेगा, लेकिन दो को कहीं-कहीं नौकरी में लगाना है। अब गाँव के किसान के बेटों को भी नौकरी चाहिये। उसको भी तो कहीं जाकर रोजगार कमाना है। तो उसके लिए क्या व्यवस्था करनी पड़ेगी। तो हमने सोचा कि जो गाँव की भलाई के लिए आवश्यक है, किसान की भलाई के लिये आवश्यक है, किसान के बच्चों के रोजगार के लिए आवश्यक है, ऐसी कई चीजों को जोड़ दिया जाए। उसी प्रकार से हम तो जय-जवान, जय-किसान वाले हैं। जय-जवान का मतलब है देश की रक्षा। देश की रक्षा के विषय में हिंदुस्तान का किसान कभी पीछे हटता नहीं है। अगर सुरक्षा के क्षेत्र में कोई आवश्कता हो तो वह जमीन किसानों से मांगनी पड़ेगी।..और मुझे विश्वास है, वो किसान देगा। तो हमने इन कामों के लिए जमीन लेने की बात को इसमें जोड़ा है। कोई भी मुझे गाँव का आदमी बताए कि गाँव में सड़क चाहिये कि नहीं चाहिये। अगर खेत में पानी चाहिये तो नहर करनी पड़ेगी कि नहीं करनी पड़ेगी। गाँव में आज भी गरीब हैं, जिसके पास रहने को घर नहीं है। घर बनाने के लिए जमीन चाहिये की नहीं चाहिये? कोई मुझे बताये कि यह उद्योगपतियों के लिए है क्या? यह धन्ना सेठों के लिए है क्या? सत्य को समझने की कोशिश कीजिये।
हाँ, मैं एक डंके की चोट पर आपको कहना चाहता हूँ, नए अध्यादेश में भी, कोई भी निजी उद्योगकार को, निजी कारखाने वाले को, निजी व्यवसाय करने वाले को, जमीन अधिग्रहण करने के समय 2013 में जो कानून बना था, जितने नियम हैं, वो सारे नियम उनको लागू होंगे। यह कॉर्पोरेट के लिए कानून 2013 के वैसे के वैसे लागू रहने वाले हैं। तो फिर यह झूठ क्यों फैलाया जाता है। मेरे किसान भाइयो-बहनो, एक भ्रम फैलाया जाता है कि आपको कानूनी हक नहीं मिलेगा, आप कोर्ट में नहीं जा सकते, ये सरासर झूठ है। हिंदुस्तान में कोई भी सरकार आपके कानूनी हक़ को छीन नहीं सकती है। बाबा साहेब अम्बेडकर ने हमें जो संविधान दिया है, इस संविधान के तहत आप हिंदुस्तान के किसी भी कोर्ट में जा करके दरवाजे खटखटा सकते हैं। तो ये झूठ फैलाया गया है। हाँ, हमने एक व्यवस्था को आपके दरवाजे तक लाने का प्रयास किया है।
एक Authority बनायी है, अब वो Authority जिले तक काम करेगी और आपके जिले के किसानों की समस्याओं का समाधान उसी Authority में जिले में ही हो जायेगा।..और वहां अगर आपको संतोष नहीं होता तो आप ऊपर के कोर्ट में जा सकते हैं। तो ये व्यवस्था हमने की है।
एक यह भी बताया जाता है कि भूमि अधिग्रहित की गयी तो वो पांच साल में वापिस करने वाले कानून को हटा दिया गया है। जी नहीं, मेरे किसान भाइयो-बहनो हमने कहा है कि जब भी Project बनाओगे, तो यह पक्का करो कि कितने सालों में आप इसको पूरा करोगे। और उस सालों में अगर पूरा नहीं करते हैं तो वही होगा जो किसान चाहेगा। और उसको तो समय-सीमा हमने बाँध दी है। आज क्या होता है, 40-40 साल पहले जमीने ली गयी, लेकिन अभी तक सरकार ने कुछ किया नहीं। तो यह तो नहीं चल सकता। तो हमने सरकार को सीमा में बांधना तय किया है। हाँ, कुछ Projects ऐसे होते हैं जो 20 साल में पूरे होते हैं, अगर मान लीजिये 500 किलोमीटर लम्बी रेलवे लाइन डालनी है, तो समय जाएगा। तो पहले से कागज़ पर लिखो कि भाई कितने समय में पूरा करोगे। तो हमने सरकार को बाँधा है। सरकार की जिम्मेवारी को Fix किया है।
मैं और एक बात बताऊं किसान-भाइयो, कभी-कभी ये एयरकंडीशन कमरे में बैठ करके जो कानून बनाते हैं न, उनको गाँव के लोगों की सच्ची स्थिति का पता तक नहीं होता है। अब आप देखिये जब डैम बनता है, जलाशय बनता है, तो उसका नियम यह है कि 100 साल में सबसे ज्यादा पानी की सम्भावना हो उस हिसाब से जमीन प्राप्त करने का नियम है। अब 100 साल में एक बार पानी भरता है। 99 साल तक पानी नहीं भरता है। फिर भी जमीन सरकार के पास चली जाती है, तो आज सभी राज्यों में क्या हो रहा है की भले जमीन कागज़ पर ले ली हो, पैसे भी दे दिए हों। लेकिन फिर भी वो जमीन पर किसान खेती करता है। क्योंकि 100 साल में एक बार जब पानी भर जाएगा तो एक साल के लिए वो हट जाएगा। ये नया कानून 2013 का ऐसा था कि आप खेती नहीं कर सकते थे। हम चाहते हैं कि अगर जमीन डूब में नहीं जाती है तो फिर किसान को खेती करने का अवसर मिलना चाहिये।..और इसीलिये वो जमीन किसान से कब्ज़ा नहीं करनी चाहिये। ये लचीलापन आवश्यक था। ताकि किसान को जमीन देने के बावजूद भी जमीन का लाभ मिलता रहे और जमीन देने के बदले में रुपया भी मिलता रहे। तो किसान को डबल फायदा हो। ये व्यवस्था करना भी जरूरी है, और व्यावहारिक व्यवस्था है, और उस व्यावहारिक व्यवस्था को हमने सोचा है।
एक भ्रम ऐसा फैलाया जाता है कि ‘सहमति’ की जरुरत नहीं हैं। मेरे किसान भाइयो-बहनो ये राजनीतिक कारणों से जो बाते की जाती हैं, मेहरबानी करके उससे बचिये! 2013 में जो कानून बना उसमे भी सरकार नें जिन योजनाओं के लिए जमीन माँगी है, उसमें सहमती का क़ानून नहीं है।...और इसीलिए सहमति के नाम पर लोगों को भ्रमित किया जाता है। सरकार के लिए सहमति की बात पहले भी नही थी, आज भी नहीं है।..और इसीलिये मेरे किसान भाइयों-बहनो पहले बहुत अच्छा था और हमने बुरा कर दिया, ये बिलकुल सरासर आपको गुमराह करने का दुर्भाग्यपूर्ण प्रयास है। मैं आज भी कहता हूँ कि निजी उद्योग के लिए, कॉर्पोरेट के लिए, प्राइवेट कारखानों के लिए ये ‘सहमति’ का कानून चालू है, है...है।
...और एक बात मैं कहना चाहता हूँ, कुछ लोग कहतें है, PPP मॉडल! मेरे किसान भाइयो-बहनो, मान लीजिये 100 करोड रुपए का एक रोड बनाना है। क्या रोड किसी उद्योगकार उठा कर ले जाने वाला है क्या? रोड तो सरकार के मालिकी का ही रहता है। जमीन सरकार की मालिकी की ही रहती है। बनाने वाला दूसरा होता है। बनाने वाला इसीलिए दूसरा होता है, क्योंकि सरकार के पास आज पैसे नहीं होते हैं। क्योंकि सरकार चाहती है कि गाँव में स्कूल बने, गाँव में हॉस्पिटल बने, गरीब का बच्चा पढ़े, इसके लिए पैसा लगे। रोड बनाने का काम प्राइवेट करे, लेकिन वो प्राइवेट वाला भी रोड अपना नहीं बनाता है। न अपने घर ले जाता है, रोड सरकार का बनाता है। एक प्रकार से अपनी पूंजी लगता है। इसका मतलब ये हुआ कि सरकार का जो प्रोजेक्ट होगा जिसमें पूंजी किसी की भी लगे, जिसको लोग PPP मॉडल कहतें हैं। लेकिन अगर उसका मालिकाना हक़ सरकार का रहता है, उसका स्वामित्व सरकार का रहता है, सरकार का मतलब आप सबका रहता है, देश की सवा सौ करोड़ जनता का रहता है तो उसमें ही हमने ये कहा है कि सहमति की आवश्यकता नहीं है और इसीलिये ये PPP मॉडल को लेकर के जो भ्रम फैलाये जातें हैं उसकी मुझे आपको स्पष्टता करना बहुत ही जरुरी है।
कभी-कभार हम जिन बातों के लिए कह रहे हैं कि भई उसमें ‘सहमति’ की प्रक्रिया एक प्रकार से अफसरशाही और तानाशाही को बल देगी। आप मुझे बताईये, एक गावं है, उस गॉव तक रोड बन गया है, अब दूसरे गॉव के लिए रोड बनाना है, आगे वाले गॉव के लिए, 5 किलोमीटर की दूरी पर वह गॉव है। इस गॉव तक रोड बन गया है, लेकिन इन गॉव वालों की ज़मीन उस गॉव की तरफ है। मुझे बताईये उस गॉव के लोगों के लिए, रोड बनाने के लिए, ये गॉव वाले ज़मीन देंगे क्या? क्या ‘सहमति’ देंगे क्या? तो क्या पीछे जो गॉव है उसका क्या गुनाह है भई? उसको रोड मिलना चाहिए कि नहीं, मिलना चाहिये? उसी प्रकार से मैं नहर बना रहा हूँ। इस गॉव वालो को पानी मिल गया, नहर बन गयी। लेकिन आगे वाले गॉव को पानी पहुंचाना है तो ज़मीन तो इसी गावंवालों के बीच में पड़ती है। तो वो तो कह देंगे कि भई नहीं, हम तो ज़मीन नहीं देंगे। हमें तो पानी मिल गया है। तो आगे वाले गावं को नहर मिलनी चाहिए कि नहीं मिलनी चाहिए?
मेरे भाइयो-बहनो, ये व्यावहारिक विषय है। और इसलिए जिस काम के लिए इतनी लम्बी प्रक्रिया न हो, हक और किसान के लिए, ये उद्योग के लिए नहीं है, व्यापार के लिए नहीं है, गावं की भलाई के लिए है, किसान की भलाई के लिए है, उसके बच्चों की भलाई के लिए है।
एक और बात आ रही है। ये बात मैंने पहले भी कही है। हर घर में किसान चाहता है कि एक बेटा भले खेती में रहे, लेकिन बाकी सब संतान रोज़ी–रोटी कमाने के लिए बाहर जाये क्योंकि उसे मालूम है, कि आज समय की मांग है कि घर में घर चलाने के लिए अलग-अलग प्रयास करने पड़ते हैं। अगर हम कोई रोड बनाते है और रोड के बगल में सरकार Industrial Corridor बनाती है, प्राइवेट नहीं। मैं एक बार फिर कहता हूँ प्राइवेट नहीं, पूंजीपति नहीं, धन्ना सेठ नहीं, सरकार बनाती है ताकि जब Corridor बनता है पचास किलोमीटर लम्बा, 100 किलोमीटर लम्बा तो जो रोड बनेगा, रोड के एक किलोमीटर बाएं, एक किलोमीटर दायें वहां पर अगर सरकार Corridor बनाती है ताकि नजदीक में जितने गाँव आयेंगे 50 गाँव, 100 गाँव, 200 गाँव उनको वहां कोई न कोई, वहां रोजी रोटी का अवसर मिल जाए, उनके बच्चों को रोजगार मिल जाए।
मुझे बताइये, भाइयों-बहनो क्या हम चाहतें हैं, कि हमारे गाँव के किसानों के बच्चे दिल्ली और मुंबई की झुग्गी झोपड़ियों में जिन्दगी बसर करने के लिए मजबूर हो जाएँ? क्या उनके घर और गाँव के 20-25 किलोमीटर की दूरी पर एक छोटा सा भी कारखाना लग जाता है और उसको रोजगार मिल जाता है, तो मिलना चाहिये की नहीं मिलना चाहिये? और ये Corridor प्राइवेट नही है, ये सरकार बनाएगी। सरकार बनाकर के उस इलाके के लोगों को रोजगार देने का प्रबंध करेगी। ..और इसीलिए जिसकी मालिकी सरकार की है, और जो गाँव की भलाई के लिए है, गाँव के किसानो की भलाई के लिए है, जो किसानों की भावी पीड़ी की भलाई के लिए हैं, जो गाँव के गरीबों की भलाई के लिए हैं, जो गाँव के किसान को बिजली पानी मोहैया कराने के लिए उनके लिए हैं, उनके लिए इस भूमि अधिग्रहण बिल में कमियाँ थी, उस कमियों को दूर करने का हमारे प्रामाणिक प्रयास हैं।...और फिर भी मैंने Parliament में कहा था की अभी भी किसी को लगता है कोई कमी हैं, तो हम उसको सुधार करने के लिए तैयार हैं।
जब हमने लोकसभा में रखा, कुछ किसान नेताओं ने आ करके दो चार बातें बताईं, हमने जोड़ दी। हम तो अभी भी कहतें कि भाई भूमि अधिग्रहण किसानों की भलाई के लिए ही होना चाहिये। ..और ये हमारी प्रतिबद्धता है, जितने झूठ फैलाये जाते हैं, कृपा करके मैं मेरे किसान भाइयों से आग्रह करता हूँ कि आप इन झूठ के सहारे निर्णय मत करें, भ्रमित होने की जरुरत नहीं है। आवश्यकता यह है की हमारा किसान ताकतवर कैसे बने, हमारा गाँव ताकतवर कैसे बने, हमारा किसान जो मेहनत करता है, उसको सही पैसे कैसे मिले, उसको अच्छा बाज़ार कैसे मिले, जो पैदा करता है उसके रखरखाव के लिए अच्छा स्टोरेज कैसे मिले, हमारी कोशिश है कि गाँव की भलाई, किसान की भलाई के लिए सही दिशा में काम उठाएं।
मेरे किसान भाइयो-बहनो, हमारी कोशिश है कि देश ऐसे आगे बढ़े कि आपकी जमीन पर पैदावार बढ़े, और इसीलिए हमने कोशिश की है, Soil Health Card. जैसे मनुष्य बीमार हो जाता है तो उसकी तबीयत के लिए लेबोरेटरी में टेस्ट होता हैं। जैसा इंसान का होता है न, वैसा अपनी भारत-माता का भी होता हैं, अपनी धरती- माता का भी होता है। और इसीलिए हम आपकी धरती बचे इतना ही नहीं, आपकी धरती तन्दुरूस्त हो उसकी भी चिंता कर रहे हैं।
....और इसलिये भूमि अधिग्रहण नहीं, आपकी भूमि अधिक ताकतवर बने ये भी हमारा काम है। और इसीलिए “Soil Health Card” की बात लेकर के आये हैं। हर किसान को इसका लाभ मिलने वाला है, आपके उर्वरक का जो फालतू खर्चा होता है उससे बच जाएगा। आपकी फसल बढ़ेगी। आपको फसल का पूरा पैसा मिले, उसके लिए भी तो अच्छी मंडियां हों, अच्छी कानून व्यवस्था हो, किसान का शोषण न हो, उस पर हम काम कर रहे हैं और आप देखना मेरे किसान भाइयो, मुझे याद है, मैं जब गुजरात में मुख्यमंत्री था इस दिशा में मैंने बहुत काम किया था। हमारे गुजरात में तो किसान की हालत बहुत ख़राब थी, लेकिन पानी पर काम किया, बहुत बड़ा परिवर्तन आया। गुजरात के विकास में किसान का बहुत बड़ा योगदान बन गया जो कभी सोच नही सकता था। गाँव के गाँव खाली हो जाते थे। बदलाव आया, हम पूरे देश में ये बदलाव चाहते हैं जिसके कारण हमारा किसान सुखी हो।
...और इसलिए मेरे किसान भाइयो और बहनो, आज मुझे आपके साथ बात करने का मौका मिला। लेकिन इन दिनों अध्यादेश की चर्चा ज्यादा होने के कारण मैंने ज़रा ज्यादा समय उसके लिए ले लिया। लेकिन मेरे किसान भाइयो बहनो मैं प्रयास करूंगा, फिर एक बार कभी न कभी आपके साथ दुबारा बात करूंगा, और विषयों की चर्चा करूँगा, लेकिन मैं इतना विश्वास दिलाता हूँ कि आपने जो मुझे लिख करके भेजा है, पूरी सरकार को मैं हिलाऊँगा, सरकार को लगाऊंगा कि क्या हो रहा है। अच्छा हुआ आपने जी भरके बहुत सी चीजें बतायी हैं और मैं मानता हूँ आपका मुझ पर भरोसा है, तभी तो बताई है न! मैं ये भरोसे को टूटने नहीं दूंगा, ये मैं आपको विश्वास दिलाता हूँ।
आपका प्यार बना रहे, आपके आशीर्वाद बने रहे। और आप तो जगत के तात हैं, वो कभी किसी का बुरा सोचता, वो तो खुद का नुकसान करके भी देश का भला करता है। ये उसकी परंपरा रही है। उस किसान का नुकसान न हो, इसकी चिंता ये सरकार करेगी। ये मैं आपको विश्वास दिलाता हूँ लेकिन आज मेरी मन की बातें सुनने के बाद आपके मन में बहुत से विचार और आ सकते हैं। आप जरुर मुझे आकाशवाणी के पते पर लिखिये। मैं आगे फिर कभी बातें करूँगा। या आपके पत्रों के आधार पर सरकार में जो गलतियाँ जो ठीक करनी होंगी तो गलतियाँ ठीक करूँगा। काम में तेजी लाने की जरुरत है, तो तेजी लाऊंगा और और किसी को अन्याय हो रहा है तो न्याय दिलाने के लिए पूरा प्रयास करूँगा।
नवरात्रि का पावन पर्व चल रहा है। मेरी आपको बहुत-बहुत शुभकामनाएं।
नमस्ते, युवा दोस्तो। आज तो पूरा दिन भर शायद आपका मन क्रिकेट मैच में लगा होगा, एक तरफ परीक्षा की चिंता और दूसरी तरफ वर्ल्ड कप हो सकता है आप छोटी बहन को कहते होंगे कि बीच - बीच में आकर स्कोर बता दे। कभी आपको ये भी लगता होगा, चलो यार छोड़ो, कुछ दिन के बाद होली आ रही है और फिर सर पर हाथ पटककर बैठे होंगे कि देखिये होली भी बेकार गयी, क्यों? एग्जाम आ गयी। होता है न! बिलकुल होता होगा, मैं जानता हूँ। खैर दोस्तो, आपकी मुसीबत के समय मैं आपके साथ आया हूँ। आपके लिए एक महत्वपूर्ण अवसर है। उस समय मैं आया हूँ। और मैं आपको कोई उपदेश देने नहीं आया हूँ। ऐसे ही हलकी - फुलकी बातें करने आया हूँ।
बहुत पढ़ लिया न, बहुत थक गए न! और माँ डांटती है, पापा डांटते है, टीचर डांटते हैं, पता नहीं क्या क्या सुनना पड़ता है। टेलीफोन रख दो, टीवी बंद कर दो, कंप्यूटर पर बैठे रहते हो, छोड़ो सबकुछ, चलो पढ़ो यही चलता है न घर में? साल भर यही सुना होगा, दसवीं में हो या बारहवीं में। और आप भी सोचते होंगे कि जल्द एग्जाम खत्म हो जाए तो अच्छा होगा, यही सोचते हो न? मैं जानता हूँ आपके मन की स्थिति को और इसीलिये मैं आपसे आज ‘मन की बात’ करने आया हूँ। वैसे ये विषय थोड़ा कठिन है।
आज के विषय पर माँ बाप चाहते होंगे कि मैं उन बातों को करूं, जो अपने बेटे को या बेटी को कह नहीं पाते हैं। आपके टीचर चाहते होंगे कि मैं वो बातें करूँ, ताकि उनके विद्यार्थी को वो सही बात पहुँच जाए और विद्यार्थी चाहता होगा कि मैं कुछ ऐसी बातें करूँ कि मेरे घर में जो प्रेशर है, वो प्रेशर कम हो जाए। मैं नहीं जानता हूँ, मेरी बातें किसको कितनी काम आयेंगी, लेकिन मुझे संतोष होगा कि चलिये मेरे युवा दोस्तों के जीवन के महत्वपूर्ण पल पर मैं उनके बीच था. अपने मन की बातें उनके साथ गुनगुना रहा था। बस इतना सा ही मेरा इरादा है और वैसे भी मुझे ये तो अधिकार नहीं है कि मैं आपको अच्छे एग्जाम कैसे जाएँ, पेपर कैसे लिखें, पेपर लिखने का तरीका क्या हो? ज्यादा से ज्यादा मार्क्स पाने की लिए कौन - कौन सी तरकीबें होती हैं? क्योंकि मैं इसमें एक प्रकार से बहुत ही सामान्य स्तर का विद्यार्थी हूँ। क्योंकि मैंने मेरे जीवन में किसी भी एग्जाम में अच्छे परिणाम प्राप्त नहीं किये थे। ऐसे ही मामूली जैसे लोग पढ़ते हैं वैसे ही मैं था और ऊपर से मेरी तो हैण्डराइटिंग भी बहुत ख़राब थी। तो शायद कभी - कभी तो मैं इसलिए भी पास हो जाता था, क्योंकि मेरे टीचर मेरा पेपर पढ़ ही नहीं पाते होंगे। खैर वो तो अलग बातें हो गयी, हलकी - फुलकी बातें हैं।
लेकिन मैं आज एक बात जरुर आपसे कहना चाहूँगा कि आप परीक्षा को कैसे लेते हैं, इस पर आपकी परीक्षा कैसी जायेगी, ये निर्भर करती है। अधिकतम लोगों को मैंने देखा है कि वो इसे अपने जीवन की एक बहुत बड़ी महत्वपूर्ण घटना मानते हैं और उनको लगता है कि नहीं, ये गया तो सारी दुनिया डूब जायेगी। दोस्तो, दुनिया ऐसी नहीं है। और इसलिए कभी भी इतना तनाव मत पालिये। हाँ, अच्छा परिणाम लाने का इरादा होना चाहिये। पक्का इरादा होना चाहिये, हौसला भी बुलंद होना चाहिये। लेकिन परीक्षा बोझ नहीं होनी चाहिये, और न ही परीक्षा कोई आपके जीवन की कसौटी कर रही है। ऐसा सोचने की जरुरत नहीं है।
कभी-कभार ऐसा नहीं लगता कि हम ही परीक्षा को एक बोझ बना देते हैं घर में और बोझ बनाने का एक कारण जो होता है, ये होता है कि हमारे जो रिश्तेदार हैं, हमारे जो यार - दोस्त हैं, उनका बेटा या बेटी हमारे बेटे की बराबरी में पढ़ते हैं, अगर आपका बेटा दसवीं में है, और आपके रिश्तेदारों का बेटा दसवीं में है तो आपका मन हमेशा इस बात को कम्पेयर करता रहता है कि मेरा बेटा उनसे आगे जाना चाहिये, आपके दोस्त के बेटे से आगे होना चाहिये। बस यही आपके मन में जो कीड़ा है न, वो आपके बेटे पर प्रेशर पैदा करवा देता है। आपको लगता है कि मेरे अपनों के बीच में मेरे बेटे का नाम रोशन हो जाये और बेटे का नाम तो ठीक है, आप खुद का नाम रोशन करना चाहते हैं। क्या आपको नहीं लगता है कि आपके बेटे को इस सामान्य स्पर्धा में लाकर के आपने खड़ा कर दिया है? जिंदगी की एक बहुत बड़ी ऊँचाई, जीवन की बहुत बड़ी व्यापकता, क्या उसके साथ नहीं जोड़ सकते हैं? अड़ोस - पड़ोस के यार दोस्तों के बच्चों की बराबरी वो कैसी करता है! और यही क्या आपका संतोष होगा क्या? आप सोचिये? एक बार दिमाग में से ये बराबरी के लोगों के साथ मुकाबला और उसी के कारण अपने ही बेटे की जिंदगी को छोटी बना देना, ये कितना उचित है? बच्चों से बातें करें तो भव्य सपनों की बातें करें। ऊंची उड़ान की बातें करें। आप देखिये, बदलाव शुरू हो जाएगा।
दोस्तों एक बात है जो हमें बहुत परेशान करती है। हम हमेशा अपनी प्रगति किसी और की तुलना में ही नापने के आदी होते हैं। हमारी पूरी शक्ति प्रतिस्पर्धा में खप जाती है। जीवन के बहुत क्षेत्र होंगे, जिनमें शायद प्रतिस्पर्धा जरूरी होगी, लेकिन स्वयं के विकास के लिए तो प्रतिस्पर्धा उतनी प्रेरणा नहीं देती है, जितनी कि खुद के साथ हर दिन स्पर्धा करते रहना। खुद के साथ ही स्पर्धा कीजिये, अच्छा करने की स्पर्धा, तेज गति से करने की स्पर्धा, और ज्यादा करने की स्पर्धा, और नयी ऊंचाईयों पर पहुँचने की स्पर्धा आप खुद से कीजिये, बीते हुए कल से आज ज्यादा अच्छा हो इस पर मन लगाइए। और आप देखिये ये स्पर्धा की ताकत आपको इतना संतोष देगी, इतना आनंद देगी जिसकी आप कल्पना नहीं कर सकते। हम लोग बड़े गर्व के साथ एथलीट सेरगेई बूबका का स्मरण करते हैं। इस एथलीट ने पैंतीस बार खुद का ही रिकॉर्ड तोड़ा था। वह खुद ही अपने एग्जाम लेता था। खुद ही अपने आप को कसौटी पर कसता था और नए संकल्पों को सिद्ध करता था। आप भी उसी लिहाज से आगे बढें तो आप देखिये आपको प्रगति के रास्ते पर कोई नहीं रोक सकता है।
युवा दोस्तो, विद्यार्थियों में भी कई प्रकार होते हैं। कुछ लोग कितनी ही परीक्षाएं क्यों न भाए बड़े ही बिंदास होते हैं। उनको कोई परवाह ही नहीं होती और कुछ होते हैं जो परीक्षा के बोझ में दब जाते हैं। और कुछ लोग मुह छुपा करके घर के कोने में किताबों में फंसे रहते हैं। इन सबके बावजूद भी परीक्षा परीक्षा है और परीक्षा में सफल होना भी बहुत आवश्यक है और में भी चाहता हूँ कि आप भी सफल हों लेकिन कभी- कभी आपने देखा होगा कि हम बाहरी कारण बहुत ढूँढ़ते हैं। ये बाहरी कारण हम तब ढूँढ़ते हैं, जब खुद ही कन्फ्यूज्ड हों। खुद पर भरोसा न हो, जैसे जीवन में पहली बार परीक्षा दे रहे हों। घर में कोई टीवी जोर से चालू कर देगा, आवाज आएगी, तो भी हम चिड़चिड़ापन करते होंगे, माँ खाने पर बुलाती होगी तो भी चिड़चिड़ापन करते होंगे। दूसरी तरफ अपने किसी यार-दोस्त का फ़ोन आ गया तो घंटे भर बातें भी करते होंगें । आप को नहीं लगता है आप स्वयं ही अपने विषय में ही कन्फ्यूज्ड हैं।
दोस्तो खुद को पहचानना ही बहुत जरुरी होता है। आप एक काम किजीये बहुत दूर का देखने की जरुरत नहीं है। आपकी अगर कोई बहन हो, या आपके मित्र की बहन हो जिसने दसवीं या बारहवी के एग्जाम दे रही हो, या देने वाली हो। आपने देखा होगा, दसवीं के एग्जाम हों बारहवीं के एग्जाम हों तो भी घर में लड़कियां माँ को मदद करती ही हैं। कभी सोचा है, उनके अंदर ये कौन सी ऐसी ताकत है कि वे माँ के साथ घर काम में मदद भी करती हैं और परीक्षा में लड़कों से लड़कियां आजकल बहुत आगे निकल जाती हैं। थोड़ा आप ओबजर्व कीजिये अपने अगल-बगल में। आपको ध्यान में आ जाएगा कि बाहरी कारणों से परेशान होने की जरुरत नहीं है। कभी-कभी कारण भीतर का होता है. खुद पर अविश्वास होता है न तो फिर आत्मविश्वास क्या काम करेगा? और इसलिए मैं हमेशा कहता हूँ जैसे-जैसे आत्मविश्वास का अभाव होता है, वैसे वैसे अंधविश्वास का प्रभाव बढ़ जाता है। और फिर हम अन्धविश्वास में बाहरी कारण ढूंढते रहते हैं। बाहरी कारणों के रास्ते खोजते रहते हैं. कुछ तो विद्यार्थी ऐसे होते हैं जिनके लिए हम कहते हैं आरम्म्भीशुरा। हर दिन एक नया विचार, हर दिन एक नई इच्छा, हर दिन एक नया संकल्प और फिर उस संकल्प की बाल मृत्यु हो जाता है, और हम वहीं के वहीं रह जाते हैं। मेरा तो साफ़ मानना है दोस्तो बदलती हुई इच्छाओं को लोग तरंग कहते हैं। हमारे साथी यार- दोस्त, अड़ोसी-पड़ोसी, माता-पिता मजाक उड़ाते हैं और इसलिए मैं कहूँगा, इच्छाएं स्थिर होनी चाहिये और जब इच्छाएं स्थिर होती हैं, तभी तो संकल्प बनती हैं और संकल्प बाँझ नहीं हो सकते। संकल्प के साथ पुरुषार्थ जुड़ता है. और जब पुरुषार्थ जुड़ता है तब संकल्प सिद्दी बन जाता है. और इसीलिए तो मैं कहता हूँ कि इच्छा प्लस स्थिरता इज-इक्वल टू संकल्प। संकल्प प्लस पुरुषार्थ इज-इक्वल टू सिद्धि। मुझे विश्वास है कि आपके जीवन यात्रा में भी सिद्दी आपके चरण चूमने आ जायेगी। अपने आप को खपा दीजिये। अपने संकल्प के लिए खपा दीजिये और संकल्प सकारात्मक रखिये। किसी से आगे जाने की मत सोचिये। खुद जहां थे वहां से आगे जाने के लिए सोचिये। और इसलिए रोज अपनी जिंदगी को कसौटी पर कसता रहता है उसके लिए कितनी ही बड़ी कसौटी क्यों न आ जाए कभी कोई संकट नहीं आता है और दोस्तों कोई अपनी कसौटी क्यों करे? कोई हमारे एग्जाम क्यों ले? आदत डालो न। हम खुद ही हमारे एग्जाम लेंगें। हर दिन हमारी परीक्षा लेंगे। देखेंगे मैं कल था वहां से आज आगे गया कि नहीं गया। मैं कल था वहां से आज ऊपर गया कि नहीं। मैंने कल जो पाया था उससे ज्यादा आज पाया कि नहीं पाया। हर दिन हर पल अपने आपको कसौटी पर कसते रहिये। फिर कभी जिन्दगी में कसौटी, कसौटी लगेगी ही नहीं। हर कसौटी आपको खुद को कसने का अवसर बन जायेगी और जो खुद को कसना जानता वो कसौटियों को भी पार कर जाता है और इसलिए जो जिन्दगी की परीक्षा से जुड़ता है उसके लिए क्लासरूम की परीक्षा बहुत मामूली होती है।
कभी आपने भी कल्पना नहीं की होगी की इतने अच्छे अच्छे काम कर दिए होंगें। जरा उसको याद करो, अपने आप विश्वास पैदा हो जाएगा। अरे वाह! आपने वो भी किया था, ये भी किया था? पिछले साल बीमार थी तब भी इतने अच्छे मार्क्स लाये थे। पिछली बार मामा के घर में शादी थी, वहां सप्ताह भर ख़राब हो गया था, तब भी इतने अच्छे मार्क्स लाये थे। अरे पहले तो आप छः घंटे सोते थे और पिछली साल आपने तय किया था कि नहीं नहीं अब की बार पांच घंटे सोऊंगा और आपने कर के दिखाया था। अरे यही तो है मोदी आपको क्या उपदेश देगा। आप अपने मार्गदर्शक बन जाइए। और भगवान् बुद्ध तो कहते थे अंतःदीपो भव:।
मैं मानता हूँ, आपके भीतर जो प्रकाश है न उसको पहचानिए आपके भीतर जो सामर्थ्य है, उसको पहचानिए और जो खुद को बार-बार कसौटी पर कसता है वो नई-नई ऊंचाइयों को पार करता ही जाता है। दूसरा कभी- कभी हम बहुत दूर का सोचते रहते हैं। कभी-कभी भूतकाल में सोये रहते हैं। दोस्तो परीक्षा के समय ऐसा मत कीजिये। परीक्षा समय तो आप वर्तमान में ही जीना अच्छा रहेगा। क्या कोई बैट्समैन पिछली बार कितनी बार जीरो में आऊट हो गया, इसके गीत गुनगुनाता है क्या? या ये पूरी सीरीज जीतूँगा या नहीं जीतूँगा, यही सोचता है क्या? मैच में उतरने के बाद बैटिंग करते समय सेंचुरी करके ही बाहर आऊँगा कि नहीं आऊँगा, ये सोचता है क्या? जी नहीं, मेरा मत है, अच्छा बैट्समैन उस बॉल पर ही ध्यान केन्द्रित करता है, जो बॉल उसके सामने आ रहा है। वो न अगले बॉल की सोचता है, न पूरे मैच की सोचता है, न पूरी सीरीज की सोचता है। आप भी अपना मन वर्तमान से लगा दीजिये। जीतना है तो उसकी एक ही जड़ी-बूटी है। वर्तमान में जियें, वर्तमान से जुड़ें, वर्तमान से जूझें। जीत आपके साथ साथ चलेगी।
मेरे युवा दोस्तो, क्या आप ये सोचते हैं कि परीक्षा आपकी क्षमता का प्रदर्शन करने के लिए होती हैं। अगर ये आपकी सोच है तो गलत है। आपको किसको अपनी क्षमता दिखानी है? ये प्रदर्शन किसके सामने करना है? अगर आप ये सोचें कि परीक्षा क्षमता प्रदर्शन के लिए नहीं, खुद की क्षमता पहचानने के लिए है। जिस पल आप अपने मन्त्र मानने लग जायेंगे आप पकड़ लेंगें न, आपके भीतर का विश्वास बढ़ता चला जाएगा और एक बार आपने खुद को जाना, अपनी ताकत को जाना तो आप हमेशा अपनी ताकत को ही खाद पानी डालते रहेंगे और वो ताकत एक नए सामर्थ्य में परिवर्तित हो जायेगी और इसलिए परीक्षा को आप दुनिया को दिखाने के लिए एक चुनौती के रूप में मत लीजिये, उसे एक अवसर के रूप में लीजिये। खुद को जानने का, खुद को पह्चानने का, खुद के साथ जीने का यह एक अवसर है। जी लीजिये न दोस्तो।
दोस्तो मैंने देखा है कि बहुत विद्यार्थी ऐसे होते हैं जो परीक्षाओं के दिनों में नर्वस हो जाते हैं। कुछ लोगों का तो कथन इस बात का होता है कि देखो मेरी आज एग्जाम थी और मामा ने मुझे विश नहीं किया. चाचा ने विश नहीं किया, बड़े भाई ने विश नहीं किया। और पता नहीं उसका घंटा दो घंटा परिवार में यही डिबेट होता है, देखो उसने विश किया, उसका फ़ोन आया क्या, उसने बताया क्या, उसने गुलदस्ता भेजा क्या? दोस्तो इससे परे हो जाइए, इन सारी चीजों में मत उलझिए। ये सारा परीक्षा के बाद सोचना किसने विश किये किसने नहीं किया। अपने आप पर विश्वास होगा न तो ये सारी चीजें आयेंगी ही नहीं। दोस्तों मैंने देखा है की ज्यादातर विद्यार्थी नर्वस हो जाते हैं। मैं मानता हूँ की नर्वस होना कुछ लोगों के स्वभाव में होता है। कुछ परिवार का वातावरण ही ऐसा है। नर्वस होने का मूल कारण होता है अपने आप पर भरोसा नहीं है। ये अपने आप पर भरोसा कब होगा, एक अगर विषय पर आपकी अच्छी पकड़ होगी, हर प्रकार से मेहनत की होगी, बार-बार रिवीजन किया होगा। आपको पूरा विश्वास है हाँ हाँ इस विषय में तो मेरी मास्टरी है और आपने भी देखा होगा, पांच और सात सब्जेक्ट्स में दो तीन तो एजेंडा तो ऐसे होंगे जिसमें आपको कभी चिंता नहीं रहती होगी। नर्वसनेस कभी एक आध दो में आती होगी। अगर विषय में आपकी मास्टरी है तो नर्वसनेस कभी नहीं आयेगी।
आपने साल भर जो मेहनत की है न, उन किताबों को वो रात-रात आपने पढाई की है आप विश्वाश कीजिये वो बेकार नहीं जायेगी। वो आपके दिल-दिमाग में कहीं न कहीं बैठी है, परीक्षा की टेबल पर पहुँचते ही वो आयेगी। आप अपने ज्ञान पर भरोसा करो, अपनी जानकारियों पर भरोसा करो, आप विश्वास रखो कि आपने जो मेहनत की है वो रंग लायेगी और दूसरी बात है आप अपनी क्षमताओं के बारे में बड़े कॉंफिडेंट होने चाहिये। आपको पूरी क्षमता होनी चाहिये कि वो पेपर कितना ही कठिन क्यों न हो मैं तो अच्छा कर लूँगा। आपको कॉन्फिडेंस होना चाहिये कि पेपर कितना ही लम्बा क्यों न होगा में तो सफल रहूँगा या रहूँगी। कॉन्फिडेंस रहना चाहिये कि में तीन घंटे का समय है तो तीन घंटे में, दो घंटे का समय है तो दो घंटे में, समय से पहले मैं अपना काम कर लूँगा और हमें तो याद है शायद आपको भी बताते होंगे हम तो छोटे थे तो हमारी टीचर बताते थे जो सरल क्वेश्चन है उसको सबसे पहले ले लीजिये, कठिन को आखिर में लीजिये। आपको भी किसी न किसी ने बताया होगा और मैं मानता हूँ इसको तो आप जरुर पालन करते होंगे।
दोस्तो माई गोव पर मुझे कई सुझाव, कई अनुभव आए हैं । वो सारे तो मैं शिक्षा विभाग को दे दूंगा, लेकिन कुछ बातों का मैं उल्लेख करना चाहता हूँ!
मुंबई महाराष्ट्र के अर्णव मोहता ने लिखा है कि कुछ लोग परीक्षा को जीवन मरण का इशू बना देते हैं अगर परीक्षा में फेल हो गए तो जैसे दुनिया डूब गयी हैं। तो वाराणसी से विनीता तिवारी जी, उन्होंने लिखा है कि जब परिणाम आते है और कुछ बच्चे आत्महत्या कर देते हैं, तो मुझे बहुत पीड़ा होती है, ये बातें तो सब दूर आपके कान में आती होंगी, लेकिन इसका एक अच्छा जवाब मुझे किसी और एक सज्जन ने लिखा है। तमिलनाडु से मिस्टर आर. कामत, उन्होंने बहुत अच्छे दो शब्द दिए है, उन्होंने कहा है कि स्टूडेंट्स worrier मत बनिए, warrior बनिए, चिंता में डूबने वाले नहीं, समरांगन में जूझने वाले होने चाहिए, मैं समझता हूँ कि सचमुच मैं हम चिंता में न डूबे, विजय का संकल्प ले करके आगे बढ़ना और ये बात सही है, जिंदगी बहुत लम्बी होती है, उतार चढाव आते रहते है, इससे कोई डूब नहीं जाता है, कभी कभी अनेच्छिक परिणाम भी आगे बढ़ने का संकेत भी देते हैं, नयी ताकत जगाने का अवसर भी देते है!
एक चीज़ मैंने देखी हैं कि कुछ विद्यार्थी परीक्षा खंड से बाहर निकलते ही हिसाब लगाना शुरू कर देते है कि पेपर कैसा गया, यार, दोस्त, माँ बाप जो भी मिलते है वो भी पूछते है भई आज का पेपर कैसा गया? मैं समझता हूँ कि आज का पेपर कैसा गया! बीत गयी सो बात गई, प्लीज उसे भूल जाइए, मैं उन माँ बाप को भी प्रार्थना करता हूँ प्लीज अपने बच्चे को पेपर कैसा गया ऐसा मत पूछिए, बाहर आते ही उसको कह दे वाह! तेरे चेहरे पर चमक दिख रही है, लगता है बहुत अच्छा पेपर गया? वाह शाबाश, चलो चलो कल के लिए तैयारी करते है! ये मूड बनाइये और दोस्तों मैं आपको भी कहता हूँ, मान लीजिये आपने हिसाब किताब लगाया, और फिर आपको लगा यार ये दो चीज़े तो मैंने गलत कर दी, छः मार्क कम आ जायेंगे, मुझे बताइए इसका विपरीत प्रभाव, आपके दूसरे दिन के पेपर पर पड़ेगा कि नहीं पड़ेगा? तो क्यों इसमें समय बर्बाद करते हो? क्यों दिमाग खपाते हो? सारी एग्जाम समाप्त होने के बाद, जो भी हिसाब लगाना है, लगा लीजिये! कितने मार्क्स आएंगे, कितने नहीं आएंगे, सब बाद में कीजिये, परीक्षा के समय, पेपर समाप्त होने के बाद, अगले दिन पर ही मन केन्द्रित कीजिए, उस बात को भूल जाइए, आप देखिये आपका बीस पच्चीस प्रतिशत बर्डन यूं ही कम हो जाएगा
मेरे मन मे कुछ और भी विचार आते चले जाते हैं खैर मै नहीं जानता कि अब तो परीक्षा का समय आ गया तो अभी वो काम आएगा। लेकिन मै शिक्षक मित्रों से कहना चाहता हूँ, स्कूल मित्रों से कहना चाहता हूँ कि क्या हम साल में दो बार हर टर्म में एक वीक का परीक्षा उत्सव नहीं मना सकते हैं, जिसमें परीक्षा पर व्यंग्य काव्यों का कवि सम्मलेन हो. कभी एसा नहीं हो सकता परीक्षा पर कार्टून स्पर्धा हो परीक्षा के ऊपर निबंध स्पर्धा हो परीक्षा पर वक्तोतव प्रतिस्पर्धा हो, परीक्षा के मनोवैज्ञानिक परिणामों पर कोई आकरके हमें लेक्चर दे, डिबेट हो, ये परीक्षा का हव्वा अपने आप ख़तम हो जाएगा। एक उत्सव का रूप बन जाएगा और फिर जब परीक्षा देने जाएगा विद्यार्थी तो उसको आखिरी मोमेंट से जैसे मुझे आज आपका समय लेना पड़ रहा है वो लेना नहीं पड़ता, वो अपने आप आ जाता और आप भी अपने आप में परीक्षा के विषय में बहुत ही और कभी कभी तो मुझे लगता है कि सिलेबस में ही परीक्षा विषय क्या होता हैं समझाने का क्लास होना चाहिये। क्योंकि ये तनावपूर्ण अवस्था ठीक नहीं है
दोस्तो मैं जो कह रहा हूँ, इससे भी ज्यादा आपको कईयों ने कहा होगा! माँ बाप ने बहुत सुनाया होगा, मास्टर जी ने सुनाया होगा, अगर टयूशन क्लासेज में जाते होंगे तो उन्होंने सुनाया होगा, मैं भी अपनी बाते ज्यादा कह करके आपको फिर इसमें उलझने के लिए मजबूर नहीं करना चाहता, मैं इतना विश्वास दिलाता हूँ, कि इस देश का हर बेटा, हर बेटी, जो परीक्षा के लिए जा रहे हैं, वे प्रसन्न रहे, आनंदमय रहे, हसंते खेलते परीक्षा के लिए जाए!
आपकी ख़ुशी के लिए मैंने आपसे बातें की हैं, आप अच्छा परिणाम लाने ही वाले है, आप सफल होने ही वाले है, परीक्षा को उत्सव बना दीजिए, ऐसा मौज मस्ती से परीक्षा दीजिए, और हर दिन अचीवमेंट का आनंद लीजिए, पूरा माहौल बदल दीजिये। माँ बाप, शिक्षक, स्कूल, क्लासरूम सब मिल करके करिए, देखिये, कसौटी को भी कसने का कैसा आनंद आता है, चुनौती को चुनौती देने का कैसा आनंद आता है, हर पल को अवसर में पलटने का क्या मजा होता है, और देखिये दुनिया में हर कोई हर किसी को खुश नहीं कर सकता है!
मुझे पहले कविताएं लिखने का शौक था, गुजराती में मैंने एक कविता लिखी थी, पूरी कविता तो याद नहीं, लेकिन मैंने उसमे लिखा था, सफल हुए तो ईर्ष्या पात्र, विफल हुए तो टिका पात्र, तो ये तो दुनिया का चक्र है, चलता रहता है, सफल हो, किसी को पराजित करने के लिए नहीं, सफल हो, अपने संकल्पों को पार करने के लिए, सफल हो अपने खुद के आनंद के लिए, सफल हो अपने लिए जो लोग जी रहे है, उनके जीवन में खुशियाँ भरने के लिए, ये ख़ुशी को ही केंद्र में रख करके आप आगे बढ़ेंगे, मुझे विश्वास है दोस्तो! बहुत अच्छी सफलता मिलेगी, और फिर कभी, होली का त्यौहार मनाया कि नहीं मनाया, मामा के घर शादी में जा पाया कि नहीं जा पाया, दोस्तों कि बर्थडे पार्टी में इस बार रह पाया कि नहीं रह पाया, क्रिकेट वर्ल्ड कप देख पाया कि नहीं देख पाया, सारी बाते बेकार हो जाएँगी , आप और एक नए आनंद को नयी खुशियों में जुड़ जायेंगे, मेरी आपको बहुत शुभकामना हैं, और आपका भविष्य जितना उज्जवल होगा, देश का भविष्य भी उतना ही उज्जवल होगा, भारत का भाग्य, भारत की युवा पीढ़ी बनाने वाली है, आप बनाने वाले हैं, बेटा हो या बेटी दोनों कंधे से कन्धा मिला करके आगे बढ़ने वाले हैं!
आइये, परीक्षा के उत्सव को आनंद उत्सव में परिवर्तित कीजिए, बहुत बहुत शुभकामनाएं!
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Today, Shri Barack Obama, President of the United States, joins us in a special programme of Mann Ki Baat. For the last few months, I have been sharing my "Mann Ki Baat" with you. But today, people from various parts of the country have asked questions.
But most of the questions are connected to politics, foreign policy, economic policy. However, some questions touch the heart. And I believe if we touch those questions today, we shall be able to reach out to the common man in different parts of the country. And therefore, the questions asked in press conferences, or discussed in meetings – instead of those – if we discuss what comes from the heart, and repeat it, hum it, we get a new energy. And therefore, in my opinion, those questions are more important. Some people wonder, what does "Barack" mean? I was searching for the meaning of Barack. In Swahili language, which is spoken in parts of Africa, Barack means, one who is blessed. I believe, along with a name, his family gave him a big gift.
African countries have lived by the ancient idea of ‘Ubuntu’, which alludes to the ‘oneness in humanity’. They say – “I am, because we are”. Despite the gap in centuries and borders, there is the same spirit of Vasudhaiva Kutumbakam, which speak of in India. This is the great shared heritage of humanity. This unites us. When we discuss Mahatma Gandhi, we remember Henry Thoreau, from whom Mahatma Gandhi learnt disobedience. When we talk about Martin Luther King or Obama, we hear from their lips, respect for Mahatma Gandhi. These are the things that unite the world.
Today, Barack Obama is with us. I will first request him to share his thoughts. Then, I and Barack will both answer the questions that have been addressed to us.
I request President Barack Obama to say a few words.
(Hon’ble Shri Barack Obama):
Namaste! Thank you Prime Minister Modi for your kind words and for the incredible hospitality you have shown me and my wife Michelle on this visit and let me say to the people of India how honoured I am to be the first American President to join you for Republic Day; and I’m told that this is also the first ever Radio address by an Indian Prime Minister and an American President together, so we’re making a lot of history in a short time. Now to the people of India listening all across this great nation. It’s wonderful to be able to speak you directly. We just come from discussions in which we affirmed that India and the United States are natural partners, because we have so much in common. We are two great democracies, two innovative economies, two diverse societies dedicated to empowering individuals. We are linked together by millions of proud Indian Americans who still have family and carry on traditions from India. And I want to say to the Prime Minister how much I appreciate your strong personal commitment to strengthening the relationship between these two countries.
People are very excited in the United States about the energy that Prime Minister Modi is bringing to efforts in this country to reduce extreme poverty and lift people up, to empower women, to provide access to electricity, and clean energy and invest in infrastructure, and the education system. And on all these issues, we want to be partners. Because many of the efforts that I am promoting inside the United States to make sure that the young people get the best education possible, to make sure that the ordinary people are properly compensated for their labour, and paid fair wages, and have job security and health care. These are the same kinds of issues that Prime Minister Modi, I know cares so deeply about here. And I think there’s a common theme in these issues. It gives us a chance to reaffirm what Gandhi ji reminded us, should be a central aim of our lives. And that is, we should endeavour to seek God through service of humanity because God is in everyone. So these shared values, these convictions, are a large part of why I am so committed to this relationship. I believe that if the United States and India join together on the world stage around these values, then not only will our peoples be better off, but I think the world will be more prosperous and more peaceful and more secure for the future. So thank you so much Mr. Prime Minister, for giving me this opportunity to be with you here today.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Barack the first question comes from Raj from Mumbai
His question is, the whole world knows about your love for your daughters. How will you tell your daughters about youre experience of India? Do you plan to do some shopping for them?
(Hon’ble Shri Barack Obama):
Well first of all they very much wanted to come. They are fascinated by India, Unfortunately each time that I have taken a trip here, they had school and they couldn’t leave school. And in fact, Malia, my older daughter, had exams just recently. They are fascinated by the culture, and the history of India, in part because of my influence I think, they are deeply moved by India’s movement to Independence, and the role that Gandhi played, in not only the non-violent strategies here in India, but how those ended up influencing the non-violent Civil Rights Movement in the United States. So when I go back I am going to tell them that India is as magnificent as they imagined. And I am quite sure that they are going to insist that I bring them back the next time I visit. It may not be during my Presidency, but afterwards they will definitely want to come and visit.
And I will definitely do some shopping for them. Although I can’t go to the stores myself, so I have to have my team do the shopping for me. And I’ll get some advice from Michelle, because she probably has a better sense of what they would like.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Barack said he will come with his daughters. I extend an invitation to you. Whether you come as President, or thereafter, India looks forward to welcoming you and your daughters.
Sanika Diwan from Pune, Maharashtra has asked me a question. She asks me, whether I have sought assistance from President Obama for the Beti Bachao, Beti Padhao Mission
Sanika you have asked a good question. There is a lot of worry because of the sex ratio in India. For every 1000 boys, the number of girls is less. And the main reason for this is that, there is a defect in our attitudes towards boys and girls.
Whether or not I seek help from President Obama, his life is in itself an inspiration. The way he has brought up his two daughters, the way he is proud of his two daughters.
In our country too, I meet many families who have only daughters. And they bring up their daughters with such pride, give them such respect, that is the biggest inspiration. I believe that inspiration is our strength. And in response to your question, I would like to say, to save the girl child, to educate the girl child, this is our social duty, cultural duty, and humanitarian responsibility. We should honour it.
Barack, there is a question for you. The second question for President Obama comes through e-mail: Dr. Kamlesh Upadhyay, a Doctor based in Ahmedabad, Gujarat - Your wife is doing extensive work on tackling modern health challenges like obesity and diabetes. These are increasingly being faced in India as well. Would you and the First Lady like to return to India to work on these issues after your Presidency, just like Bill and Melinda Gates?
(Hon’ble Barack Obama):
Well, we very much look forward to partnering with organizations, and the government and non-governmental organizations here in India, around broader Public Health issues including the issue of obesity. I am very proud of the work that Michelle has done on this issue. We’re seeing a world-wide epidemic of obesity, in many cases starting at a very young age. And a part of it has to do with increase in processed foods, not naturally prepared. Part of it is a lack of activity for too many children. And once they are on this path, it can lead to a life time of health challenges. This is an issue that we would like to work on internationally, including here in India. And it is a part of a broader set of issues around global health that we need to address. The Prime Minister and I have discussed, for example, how we can do a better job in dealing with issues like pandemic. And making sure that we have good alert systems so that if a disease like Ebola, or a deadly flu virus, or Polio appears, it is detected quickly and then treated quickly so that it doesn’t spread. The public health infrastructure around the world needs to be improved. I think the Prime Minister is doing a great job in focusing on these issues here in India. And India has a lot to teach many other countries who may not be advancing as rapidly in improving this public health sector. But it has an impact on everything, because if children are sick they can’t concentrate in school and they fall behind. It has a huge economic impact on the countries involved and so we think that there is a lot of progress to be made here and I am very excited about the possibilities of considering this work even after I leave office.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Mr. Arjun asks me a question. An interesting question. He says he has seen an old photo of me as a tourist outside the White House. He asks me what touched me when I went there last September.
It is true that when I first went to America, I was not lucky enough to visit the White House. There is an iron fence far from the White House. We stood outside the fence and took a photograph. White House is visible in the background. Now that I have become Prime Minister, that photo too has become popular. But at that time, I had never thought that sometime in my life, I would get a chance to visit the White House. But when I visited the White House, one thing touched my heart. I can never forget that. Barack gave me a book, a book that he had located after considerable effort. That book had become famous in 1894. Swami Vivekananda, the inspiration of my life, had gone to Chicago to participate in the World Religions Conference. And this book was a compilation of the speeches delivered at the World Religions Conference. That touched my heart. And not just this. He turned the pages of the book, and showed me what was written there. He had gone through the entire book! And he told me with pride, I come from the Chicago where Swami Vivekananda had come. These words touched my heart a lot. And I will treasure this throughout my life. So once, standing far from the White House and taking a photo, and then, to visit the White House, and to receive a book on someone whom I respect. You can imagine, how it would have touched my heart.
Barack there is a question for you. Himani from Ludhiana, Punjab. Question is for you ……:
(Hon’ble Shri Barack Obama):
Well the question is “Did you both imagine you would reach the positions that you’ve reached today?”
And it is interesting, Mr. Prime Minister, your talking about the first time you visited White House and being outside that iron fence. The same is true for me. When I first went to the White House, I stood outside that same fence, and looked in, and I certainly did not imagine that I would ever be visiting there, much less living there. You know, I think both of us have been blessed with an extraordinary opportunity, coming from relatively humble beginnings. And when I think about what’s best in America and what’s best in India, the notion that a tea seller or somebody who’s born to a single mother like me, could end up leading our countries, is an extraordinary example of the opportunities that exist within our countries. Now I think, a part of what motivates both you and I, is the belief that there are millions of children out there who have the same potential but may not have the same education, may not be getting exposed to opportunities in the same way, and so a part of our job, a part of government’s job is that young people who have talent, and who have drive and are willing to work for, are able to succeed. And that’s why we are emphasizing school, higher education. Making sure that children are healthy and making sure those opportunities are available to children of all backgrounds, girls and boys, people of all religious faiths and of all races in the United States is so important. Because you never know who might be the next Prime Minister of India, or who might be the next President of United States. They might not always look the part right off the bat. And they might just surprise you if you give them the chance.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Thank you Barack.
Himani from Ludhiana has also asked me this question – did I ever imagine I would reach this high office?
No. I never imagined it. Because, as Barack said, I come from a very ordinary family. But for a long time, I have been telling everyone, never dream of becoming something. If you wish to dream, dream of doing something. When we do something, we get satisfaction, and also get inspiration to do something new. If we only dream of becoming something, and cannot fulfil the dream, then we only get disappointed. And therefore, I never dreamt of becoming something. Even today, I have no dream of becoming something. But I do dream of doing something. Serving Mother India, serving 125 crore Indians, there can be no greater dream than this. That is what I have to do. I am thankful to Himani.
There is a question for Barack from Omprakash. Omprakash is studying Sanskrit at JNU. He belongs to Jhunjunu, Rajasthan. Om Prakash is convener of special centre for Sanskrit Studies in JNU.
(Hon’ble Shri Barack Obama):
Well this is a very interesting question. His question is, the youth of the new generation is a global citizen. He is not limited by time or boundaries. In such a situation what should be the approach by our leadership, governments as well as societies at large.
I think this is a very important question. When I look at this generation that is coming up, they are exposed to the world in ways that you and I could hardly imagine. They have the world at their fingertips, literally. They can, using their mobile phone, get information and images from all around the world and that’s extraordinarily powerful. And what that means, I think is that, governments and leaders cannot simply try to govern, or rule, by a top-down strategy. But rather have to reach out to people in an inclusive way, and an open way, and a transparent way. And engage in a dialogue with citizens, about the direction of their country. And one of the great things about India and the United States is that we are both open societies. And we have confidence and faith that when citizens have information, and there is a vigorous debate, that over time even though sometimes democracy is frustrating, the best decisions and the most stable societies emerge and the most prosperous societies emerge. And new ideas are constantly being exchanged. And technology today I think facilitates that, not just within countries, but across countries. And so, I have much greater faith in India and the United States, countries that are open information societies, in being able to succeed and thrive in this New Information Age; than closed societies that try to control the information that citizens receive. Because ultimately that’s no longer possible. Information will flow inevitably, one way or the other, and we want to make sure we are fostering a healthy debate and a good conversation between all peoples.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Omprakash wants me too, to answer the question that has been asked to Barack.
Barack has given a very good answer. It is inspiring. I will only say, that once upon a time, there were people inspired primarily by the Communist ideology. They gave a call: Workers of the world, Unite. This slogan lasted for several decades. I believe, looking at the strength and reach of today's youth, I would say, Youth, Unite the world. I believe they have the strength and they can do it.
The next question is from CA Pikashoo Mutha from Mumbai, and he asks me, which American leader has inspired you
When I was young, I used to see Kennedy's pictures in Indian newspapers. His personality was very impressive. But your question is, who has inspired me. I liked reading as a child. And I got an opportunity to read the biography of Benjamin Franklin. He lived in the eighteenth century. And he was not an American President. But his biography is so inspiring – how a person can intelligently try to change his life.
If we feel excessively sleepy, how can we reduce that?
If we feel like eating too much, how can we work towards eating less?
If people get upset with you that cannot meet them, because of the pressure of work, then how to solve this problem?
He has addressed such issues in his biography. And I tell everyone, we should read Benjamin Franklin's biography. Even today, it inspires me. And Benjamin Franklin had a multi-dimensional personality. He was a politician, he was a political scientist, he was a social worker, he was a diplomat. And he came from an ordinary family. He could not even complete his education. But till today, his thoughts have an impact on American life. I find his life truly inspiring. And I tell you too, if you read his biography, you will find ways to transform your life too. And he has talked about simple things. So I feel you will be inspired as much as I have been.
There is a question for Barack, from Monika Bhatia.
(Hon’ble Shri Barack Obama):
Well the question is “As leaders of two major economies, what inspires you and makes you smile at the end of a bad day at work?”
And that is a very good question. I say sometimes, that the only problems that come to my desk are the ones that nobody else solves. If they were easy questions, then somebody else would have solved them before they reached me. So there are days when it’s tough and frustrating. And that’s true in Foreign Affairs. That is true in Domestic Affairs. But I tell you what inspires me, and I don’t know Mr. Prime Minister if you share this view - almost every day I meet somebody who tells me, “You made a difference in my life.”
So they’ll say, “The Health-Care law that you passed, saved my child who didn’t have health insurance.” And they were able to get an examination from a Physician, and they caught an early tumour, and now he is doing fine.
Or they will say “You helped me save my home during the economic crisis.”
Or they’ll say, “I couldn’t afford college, and the program you set up has allowed me to go to the university.”
And sometimes they are thanking you for things that you did four or five years ago. Sometimes they are thanking you for things you don’t even remember, or you’re not thinking about that day. But it is a reminder of what you said earlier, which is, if you focus on getting things done as opposed to just occupying an office or maintaining power, then the satisfaction that you get is unmatched. And the good thing about service is that anybody can do it. If you are helping somebody else, the satisfaction that you can get from that, I think, exceeds anything else that you can do. And that’s usually what makes me inspired to do more, and helps get through the challenges and difficulties that we all have. Because obviously we are not the only people with bad days at work. I think everybody knows what it is like to have a bad day at work. You just have to keep on working through it. Eventually you make a difference.
(Hon’ble Shri Narendra Modi):
Indeed Barack has spoken words from the heart (Mann Ki Baat). Whatever position we may hold, we are human too. Simple things can inspire us. I also wish to narrate an experience. For many years, I was like an ascetic. I got food at other people's homes. Whoever invited me, used to feed me as well. Once a family invited me over for a meal, repeatedly. I would not go, because I felt they are too poor, and if I go to eat at their place, I will become a burden on them. But eventually, I had to bow to their request and love. And I went to eat a meal at their home. It was a small hut, where we sat down to eat. They offered me roti made of bajra (millet), and mik. Their young child was looking at the milk. I felt, the child has never even seen milk. So I gave that small bowl of milk to the child. And he drank it within seconds. His family members were angry with him. And I felt that perhaps that child has never had any milk, apart from his mother's milk. And maybe, they had bought milk so that I could have a good meal. This incident inspired me a lot. A poor person living in a hut could think so much about my well-being. So I should devote my life to their service. So these are the things that serve as inspiration. And Barack has also spoken about what can touch the heart.
I am thankful to Barack, he has given so much time. And I am thankful to my countrymen for listening to Mann Ki Baat. I know radio reaches every home and every lane of India. And this Mann Ki Baat, this special Mann Ki Baat will echo forever.
I have an idea. I share it with you. There should be an e-book made of the talk between Barack and me today. I hope the organizers of Mann Ki Baat will release this e-book. And to you all, who have listened to Mann Ki Baat, I also say, do participate in this. And the best hundred thoughts that emerge out of this, will also be added to this e-book. And I want you to write to us on Twitter, on Facebook, or online, using the hashtag #YesWeCan.
• Eliminate Poverty - #YesWeCan • Quality Healthcare to All - #YesWeCan • Youth empowered with Education - #YesWeCan • Jobs for All - #YesWeCan • End to Terrorism - #YesWeCan • Global Peace and Progress - #YesWeCan
I want you to send your thoughts, experiences and feelings after listening to Mann Ki Baat. From them, we will select the best hundred, and we will add them to the book containing the talk that Barack and I have had. And I believe, this will truly become, the Mann Ki Baat of us all.
Once again, a big thank you to Barack. And to all of you. Barack's visit to India on this pious occasion of 26th January, is a matter of pride for me and for the country.
Thank you very much.
My Dear Fellow Countrymen,
Today I have this great opportunity of interacting with you again. You must be wondering why a Prime Minister should be interacting the way I am doing it. Well, first and foremost, I am a less of your Prime Minister and more of a Pradhan Sewak (serving the people). Since childhood I have been hearing that by sharing, our intensity of pain become less while the intensity of our joys grow manifold. Well I think, this is the guiding thought behind Mann ki Baat. It is an opportunity for me to sometimes share my concern and sometimes my joy. Sharing my deepest concerns with you makes me feel light hearted and sharing my joy just doubles my happiness.
Last time, I mentioned my concern about the youth of the country. It is not because you chose me as the Prime Minister but because I feel concerned as an individual. Sons and daughters of many families are caught in the trap of drugs. It just does not destroy the person involved, but his entire family, the society and the Nation at large. Drug is such a grave menace which destroys the most powerful individuals.
While serving as the Chief Minister of Gujarat, my officers with good records would often come to ask for leave. Initially they would hesitate to spell out the reasons, however on insisting they revealed that their child had fallen into the drug trap and they now need to spend time with their kids and rehabilitate them. I could see the bravest of my officers struggling to control their tears. I met suffering mothers too. In Punjab I had the chance to meet some mothers who were very angry and yet concerned about their children who had fallen into the trap of drugs.
We have to work together as a society to tackle this menace. I understand that the youth who fall into this drug trap are often blamed. We blame these youth as being careless and irresponsible. We perceive that the victims are bad but the fact is that the drugs are bad. The youth are not wrong; it is this addiction which is wrong. Let us not blame and wrong our kids. Let us get rid of this habit of addiction and not victimize our kids. Blaming the kids would push them further into addiction. This is in fact a psycho-socio-medical issue and let us treat it as such a problem. This menace needs to be handled carefully as its solution is not limited to medical intervention only. The individual concerned, his family, friends, the society, the government and the legal system all have to work in tandem to tackle this menace. Each one of us have to contribute to get rid of this menace.
A few days ago, I had organized a DGP level conference in Assam. I expressed my concern over this issue and my displeasure at the non-serious attitude of the people concerned. I have asked the police department to seriously discuss this issue and come out with relevant solutions. I have suggested the department to launch a toll free helpline. The families often feel ashamed to come out in open about the addiction problem of their children. They have no one to confide in. Parents from any part, any corner of the country can freely approach the police if their children have fallen a victim to addiction. The department has taken this suggestion seriously and working towards its fulfillment.
The drug menace brings about the Three D’s. These Three D’s are not the ones related to entertainment but I am talking about the Three D’s related to the three vices.
First D is Darkness, the second D is Destruction and the third D is Devastation.
Drugs lead a person to a blind path of destruction. There is nothing left in its trail but devastation. This is a topic of great concern and demands total attention.
I had mentioned this topic in my last address in Mann ki Baat. We received more than 7000 letters on our Akashvani address. Some letters were received in the government offices. We received responses on government portal, Mygov.in, online and through e-mails. Lakhs of comments were received on twitter and facebook. Hence, a deep rooted concern in the society’s psyche has found a voice.
I am especially thankful to the media of our country for carrying this concern forward. Many channels conducted hour long programs. These programs were not just meant to criticize the government. They were forums for open discussion, a concern and an effort to come out with workable solutions. These initiatives created background for healthy discussions. The government was also sensitized to its responsibilities in this direction. The government can no longer remain neutral to these concerns.
There is a question I want to ask these youth caught in the drug trap. I want to ask these youth that when for three or four hours they are in a state of intoxication, they might be feeling free of all concerns, free of all tensions and in a different world altogether. But have you ever lent a thought to the fact that when you buy drugs where does this money go to? Have you ever thought about it? Just make a guess. What if this drug money goes to the terrorists? What if this money is spent by the terrorists to procure weapons? And with this weapon the very same terrorist might be pumping bullets in the heart of my soldiers. The soldier of my country gets martyred. Have you ever thought about our soldiers- a soldier who is so dear to his mother, the treasured son of Mother India, the brave son of the soil is hit by a bullet probably funded by the money spent on purchasing drugs. I know and firmly believe that you too love your motherland and have tremendous respect for our soldiers. Then how can you support a habit which funds drug mafia and the terrorists.
Some people feel that when a person is in despair, faces failures and when he is directionless, he is an easy prey to drugs. But I feel that people who lack ambition, do not have any set goals and targets, who have a deep vacuum in their lives, are the ones where drugs will have an easy access. If you want to avoid drugs and save your children from this menace then foster ambition in them, give them dreams to pursue and make them individuals with a desire to achieve something in life. Then you will see that they will not be easily distracted. Their aim then will be to achieve something in life.
Have you ever followed a sportsman’s life? A sportsman is motivated forever. In the bleak winters everyone feels like sleeping in the warmth of a quilt but a sportsman will still rise at 4 or 5 and go for his workouts. Why? because the goal is set. Similarly, if your child would be aimless, there are chances of him/her to fall prey to menace like drugs.
I remember the words of Vivekananda. These words are very apt for all the young people. Just keep repeating this thought over and over again. “Take a thought, make it your life. Ponder on it and dream about it. Make it an integral part of your dreams. Make it a part of your mind, brain, veins and each and every part of your body and forget everything else”.
This thought of Vivekananda is apt for every young person and that is why I say that each person should have an ambition in life. Having an ambition does not allow your focus on unnecessary things.
Some take it under peer pressure because it looks “cool”, some consider it as a style statement. So sometimes the youth inadvertently fall into this serious trap, due to the wrong mental perception. Addiction is neither cool nor a style statement. In reality, it is a precursor to destruction. So whenever your friends boast about their drug habits, do not applaud and enjoy such conversation. Do not be a mute spectator to such absurdities. Have the courage to stand against such conversations and say NO. Have the guts to despise such a conversation, reject such a conversation and have the guts to tell the person that he is wrong.
I would like to share some views with the parents too. These days none of us have time. All of us are running against time to earn our livelihood. We are racing against time to improve the quality of our lives. But in this blind race, do we have the time to spare for our kids. Do we ever work for our kid’s spiritual progress and discuss it with them, rather we discuss only material progress. How are they doing in their studies, what has been their progress in exam, what to eat and what not to eat, where to go and where not to go – majorly these topics form the core of the entire interactions. Do we share such a relationship that our children can bare their hearts to us? I request all of you to do this. If your children share a frank relationship then you can very well know what is going on in their life. Children do not take to bad habits suddenly. It happens gradually and it also impacts the home. Observe the changes that are happening in your home. If you observe closely then I believe that you may be successful in detecting the problem at the very beginning. Be aware of your child’s friend circle and don’t keep your conversations focused just about progress. Your concern should extend to their inner depths, their thoughts, their logic, their books, their friends and their mobiles - how and where are they spending their time. These need to be taken care of. I believe that no one else can do what a parent can for their kids. Our ancestors have left us certain pearls of wisdom and that is why they are known as statesmen. A saying goes like this:
Paanch Varsh Laaw Lijiye
Dass Laaw Tadan dei
Paanch Varsh Laaw Lijiye
Dass Laaw Tadan dei
Sut Hi Solah Varsh Mein
Mitra Sarij Gani Dei
This means that till 5 years of age a child should grow in the loving and tender care of his parents, by the time he is 10 the values of discipline should be inculcated in him. Sometimes we see that an intelligent mother gets angry and does not speak with her child throughout the day. This is a big punishment for the child. The mother punishes herself but the child too gets punished in turn. The mother just has to say that I will not talk and the 10 year old will remain worried the whole day long. He changes his habit and by the time he is of 16 years then the relationship should turn like a friend towards him. There should be an open conversation with him. This is a brilliant advice which has been passed on by our ancestors. I would like to see this inculcated in our family life.
Another thing brought to our notice is the role of the pharmacists. Some of the medicines lead to addiction. So such medicines should not be distributed without a doctor’s prescription. Sometimes a simple thing like a cough syrup can trigger addiction. It becomes the starting point for addiction. There are quite a few things that I would not like to raise from this platform. But we will have to follow and accept this discipline.
These days many children from villages go to city for higher education and start living in a hostel or a boarding school. I have heard that sometimes these avenues become the entry point of such addiction. For this the education system, the society and the security force will have to act as a vigilante. Each one will have to fulfill their roles and responsibilities. The government will fulfill the responsibilities on its end. We should constantly strive to fulfill our obligations.
I would also like to mention about the letters we have received. Some of them are interesting, some are filled with grief and some are inspiring. I cannot mention all, but I would like to mention one. There was a certain Mr. Dutt. He was deep into addiction .He was also jailed where he had several restrictions. Then later his life changed. He studied in jail and then his life was transformed. His story is very famous. He was in Yerawada Jail. There might be many such inspiring stories. Many people have been victorious in their fight against addiction. We too can come out of such habits and so we should definitely try. We should make efforts for de-addiction and rehabilitation. I would ask celebrities to be a part of this initiative - be it from the field of cinema, sports or someone concerned with public life. Be it the cultural or spiritual world, we should use every possible platform to create awareness. There should be constant messages in public interest. They will certainly have an effect. Those active on the social media, I would request them to create a continuous online movement by joining #DrugsFreeIndia hash-tag. This is more relevant because most of the addicted youth are a part of the social media. If we take this #DrugsFreeIndia hash-tag movement forward then we will do a great service for public awareness and education.
I want to take this concern forward. I would request all those who have successfully come out of this addiction to share their stories. I touched this topic because like I said in the beginning grief becomes less on sharing. This is a topic of national concern and I am not here to sermonize. And neither am I entitled to preach. I am just sharing my grief with you. Those families who are suffering from this menace, I want to share their pain as well. I want to create a responsible environment. There can be difference of opinions but let us make a beginning somewhere.
Like I mentioned before, I want to share happiness. Last week I had the opportunity to meet the Blind Cricket Team. They had won the world cup. What joy and excitement, they were exuding great self confidence. God has given us everything, eyes, hands, legs i.e. we are totally capable yet we lack this kind of determination and passion which I could see in the blind cricketers. What zeal and enthusiasm, really it was contagious. I felt super charged after meeting them. Such incidents bring great pleasure in life.
In the past few days there was yet another important news. The cricket team from Kashmir defeated Mumbai on their home ground. I do not view it as a matter of someone’s victory and other’s loss. I view it differently. All the stadiums in Kashmir have been inundated after the floods. Kashmir is passing through a tough phase. The circumstances have been extremely grim with these boys not standing any chance to practice. But the Team Spirit shown by these boys, their conviction and determination is awe inspiring. These boys have shown us that one can overcome the most trying and testing circumstances if one remains focused on our goals. This news gave me immense pleasure and I take this opportunity to congratulate all these players on their victory.
Two days back, the United Nations has decided to celebrate June 21st as International Yoga Day. It is a matter of great pride and honour for India. Our ancestors developed a beautiful tradition and today the entire world is associated with it. It does not merely benefit one personally but it has the potential to bring all the people together globally. The entire world came together on the issue of Yoga in the UN and a unanimous resolution was passed just two days back. 177 countries became the co-sponsors. In the past when it was decided to celebrate the birthday Mr. Nelson Mandela, 165 countries became co-sponsors. Before that efforts were on for International Toilet Day and 122 nations became co-sponsors to that initiative too. For celebrating Oct 2nd as Non Violence Day 140 Countries became co-sponsors, before that. But 177 countries co- sponsoring Yoga is a world record of sorts. I am thankful to all the countries that have come out in support and have honored the sentiments of the Indians and decided to observe World Yoga Day. It is now our duty that Yoga reaches out to the masses in its true essence.
Last week I had the chance to have a meeting with the Chief Ministers of all the states. This tradition has been going on for the past 50-60 years. This time it was organized at the Prime Minister’s residence. We started it as a retreat program with no papers, no files and no officers. It was a simple interaction where the Prime Minister and Chief Minister were all the same, seated together like friends. For an hour or two, matters of national concern were seriously discussed in a friendly atmosphere. Everyone just poured their hearts out. There was no political agenda involved. This too was a memorable experience that I wanted to share with you.
Last week I had the chance to travel to the North East. I had been there for three days. Many a times youth express their desire to see the Taj, Singapore or Dubai. But I would urge all the nature lovers, all who want to experience the divinity in nature, to take a tour of the North East. I had gone earlier too. This time when I went as the Prime Minister, I tried to explore its potential. Our North east has tremendous potential and possibilities. It’s a land of beautiful people and beautiful surroundings. I was filled with immense joy visiting that place. Sometimes people ask Modi ji don’t you get tired? I want to say that whatever little fatigue I had, well the North East took it away completely, I am thoroughly rejuvenated. Such is the pleasure that I derived from that visit. The love and respect accorded by the people there is something that will stay with me forever. The kinship and affinity showed by the people of the North East touched me deeply. I will also tell you, it is not a joy for only Modi to enjoy, it is there for you to enjoy too. So do travel to the North East and enjoy.
The next edition of Mann Ki Baat will happen in 2015. This is probably my last program in 2014. I wish you all a Merry Christmas. I would like to wish all the very best of New Year hes in advance. It gives me immense pleasure to know that this program Mann Ki Baat is broadcast in regional languages by the Local Radio stations that same night at 8 pm. And it is surprising to know some of the regional voice-over artists also speak in the voice very similar to me. I am surprised at the brilliant work being done by the artists associated at Akashvani and I would like to congratulate them. I consider this as an effective medium to connect to the masses. We have had tremendous response. Seeing the response Akashvani has devised a new method. They have taken a new Post Box number. So now if you wish to write into me you can write on this Post Box number.
Mann Ki Baat
Post Box no 111, Akashvani
New Delhi.
I will be awaiting your letters. You do not realize that your letters become my inspiration. Some suggestions penned down can do good to the entire nation. I am thankful to you all. We will meet next in 2015 and on some Sunday morning we will again have our own Mann Ki Baat.
Thank you very much.
My dear fellow countrymen,
I am with you again almost after a month. A month is quite a long time. Lots of things keep happening in the world. You all have recently celebrated the festival of Diwali with great fervour and joy. It is these festivals which bring happiness in our daily lives from time to time. Be it poor or rich, people from village or from urban areas, festivals hold a different significance in everyone’s lives. This is my first meeting after Diwali, so I convey my very warm wishes to you all.
Last time we had some general conversation. But then I came to some new realizations after that conversation. Sometimes we think leave it… nothing is going to change, people are indifferent, they will not do anything, our country is like this. From my last conversation in Mann Ki Baat to this one, I would urge you all to change this mindset. Neither is our country is like this nor our people indifferent. Sometimes I feel the Nation is way ahead and the government is lacking behind. And from my personal experience I will say that the governments too needs to change their mindsets. And I say that because I can see tremendous sense of commitment in the Indian youth. They are very eager to do their bit and are just seeking an opportunity where they can do their bit. And they are making efforts at their own end. Last time I had asked them to buy at least one khadi outfit. I had not asked anyone to be Khadidhari, But the feedback I got from Khadi stores was that in a week’s time the sales had jumped up by 125%. In this way, as compared to last year the sales this year is more than double in the week following 2nd Oct. This means, the people of our country is many times more than we think of. I salute all my fellow Indians.
Cleanliness……….. Can anyone imagine that cleanliness will become a such a huge public movement. The expectations are high and they should be so. I can see some good results, cleanliness can now be witnessed in two parts. One is those huge garbage piles which keep lying in the city; well the people in the government will work to remove those. It is a big challenge but you cannot run away from your responsibilities. All state governments and all municipalities will now have to take concrete actions due to the rising public pressure. Media is playing a very positive role in this. But there is the second aspect which gives me immense pleasure, happiness and a sense of satisfaction that the general public has started feeling that leave what happened in the past, now they will not dirty their surroundings. We will not add to the existing dirt. A gentleman Mr Bharat Gupta has sent me a mail on mygov.in from Satna, Madhya Pradesh. He has related his personal experience during his tour of the railways. He said that people eat on trains and usually litter around. He continues to say that he has been touring from the past many years but it is this time around no one was littering, rather they were looking for dustbins to throw their trash. When they could not see any arrangements they collected all their litter in a corner. He says that it was a very gratifying experience for me. I thank Bharat ji for sharing this experience with me.
What I am seeing is that this campaign has had a great influence on kids. Many families mention that now whenever kids eat a chocolate they themselves pick the wrapper and disposes it. I was seeing a message on the social media. Someone had posted a picture with the Title “My hero of the Day”. This picture was that of a little kid who, picks up trash, wherever he goes, even when going to school. He is himself motivated to do this. Just see…people now feel it is their country and they will not make it dirty. We will not add to the existing dirt pile. And those do litter feel ashamed for someone is around to point it out to them. I consider all these to be good omens.
Another thing is that many people come to meet me who are from all the sections of the society. They can be government officers, from film world, sports world, industrialists, scientists ……. All of them, whenever they interact with me, in ten minutes discussion, about four to five minutes the discussion is on social issues. Someone talks about cleanliness, while some others talk about education, while someone talks about social reforms. Some people discuss the ruining of family life. I initially thought if a businessman comes, he will definitely talk of things of his personal interest. But I am seeing a major change.
They talk less about their interest and more about taking on some or the other social responsibility. When I add up all these small incidents I see a larger picture and I realize that we are moving in the right direction. It is true that unhealthy environment leads to diseases and sickness, but where does sickness strike first. It first strikes the poor household. When we work towards cleanliness, we make a major effort in the direction of helping the poor. If the poor families are saved from diseases, then they will be saved from a lot of financial problems. If a person is healthy, then he will work hard, earn for the family and help in running the family smoothly. And so this cleanliness drive is directly related to the health and welfare of my poor brethren. We may not be able to do something to help the poor, but even keeping the environs clean helps the poor in a big way. Let us view it from this perspective; it will be very beneficial.
I receive different kinds of letters. Last time I had mentioned about our specially abled children. Whom God has given some kind of deficiencies; I had expressed my feelings regarding those people. I see that people who work in this field are sending me their success stories. But I came to know about two things from my people in the government. The people from the HRD ministry after hearing my talk, felt the need to do something. And the officers came together to work out an action plan. This is an example of how changes are coming about in governance. One they have decided that those specially abled who want to pursue technical education, a thousand of them who are good will be selected for Special Scholarships, and a plan has been made. I congratulate the officials who could think in those lines. Another important decision is that all the Kendriya Vidyalaya’s and all Central Universities will have a special infrastructure for the specially abled, for example if they can’t climb stairs then there will be provision for ramps to facilitate movement by wheel chair. They need different kinds of toilets. The HRD ministry has decided to allocate an additional Lakh rupees to the Kendriya Vidyalays and Central universities. This fund will be used by these institutions to create infrastructure for the specially abled. This is an auspicious beginning……………these things will lead us to change.
I had the chance to visit Siachin a few days back. I spent Diwali with the Jawans who are ready to lay down their lives for the nation. When the nation was celebrating Diwali I was at Siachin. It is because of them that we were able to celebrate Diwali, so I wanted to be with them. I experienced the difficulties in which they spent their time there. I salute all my Jawans. But I want to share another matter of great pride with you. Our Jawans work in the field of security. In calamities, they risk their lives to save our life. They also fetch medals for us in sporting events. You will be glad to know that these Jawans have won a gold medal in a very prestigious event in Britain called Cambrian Patrol, defeating contestants from 140 nations. I offer these Jawans my heartiest congratulations.
I also got an opportunity to meet, the young and dynamic students, boys and girls over tea who had won medals in Sports. They give me renewed energy. I was seeing their zeal and enthusiasm. The facilities in our country are quite less as compared to other nations, but instead of complaining they were just sharing their joy and excitement. For me, this tea programme for these players was very inspiring, and I felt really good.
I would like to tell you something more and that too from my heart. I truly believe that people of my country trust my words and my intentions. But, today one more time, I want to reiterate my commitment. As far as black money is concerned, my people, please trust your Prime Servant, for me this is the Article of Faith. This is my commitment that the hard-earned money of the poor people stashed abroad, every penny of that should be brought back. The ways and means to be followed can be different. And this is very obvious in a democratic country, but on the basis of as much I understand and as much I know, I assure you that we are on the right track. Today, nobody, neither me, nor the government, nor you, nor even the previous government knew how much money is stashed abroad. Everyone gives estimate calculated in his/her own way. I don’t want to get lost in some such figures and estimates, Its my commitment that, be it 2 rupees, or 5 rupees, or millions or even billions, this is the hard-earned money of the poor people of my country and it has to come back. And I assure you that I will keep trying till the end. No efforts will be spared. I want your blessings to be always with me. I assure you that I will do whatever and whenever something is required to be done for you. I give my commitment to you.
I have received a letter. It has been sent by Sri Abhishek Pareekh. The same sentiments were expressed to me by many mothers and sisters when I was not even the Prime Minister. Some doctor friends had also expressed their concern and I too have expressed my views on this issue a number of times in the past. Mr. Parikh has drawn my attention towards the increase of drug addiction that is fast catching up with our young generation. He has asked me to discuss this topic in “Mann ki Baat.” I agree with his concern and I will definitely include this topic, in my next edition of Mann Ki Baat. I will discuss the topic of drugs, drug addiction and drug mafia and how they are a threat to our country’s youth. If you have some experience, any information in this regard, if you have ever rescued any child from this drug addiction, if you know of any ways and means to help, if any government official has played a good role, if you give me any such information, I will convey such efforts to the public and together we will try to create an environment in each family that no child ever thinks of choosing this vice out of sheer frustration. I will definitely discuss this in detail in the next edition.
I know I am choosing those topics which put the government in the dock. But how long will we keep these things hiding? How long will we brush these important concerns under the carpet? Some day or the other we need to take a call, follow our instincts and for grand intentions tough calls are equally important. I am mustering the courage to do so because your love inspires me to do so. And I will continue to do such things because of your love.
Some people told me “ Modi ji you asked us to send you suggestions on Facebook, twitter or email. But a large section of the social class does not have access to these facilities, so what can they do. Your point is very valid. Everyone does not have this facility. Well then, if you have something to say related to Mann Ki Baat, that you hear on the radio even in the villages then do write into me on the following address
Mann Ki Baat
Akashvani
Sansad Marg
New Delhi.
Even if you send some suggestions through letters they will definitely reach me. And I will take them seriously as active citizens are the biggest asset for development. You write one letter, it indicates that you are very active. When you give your opinion, it means that you are concerned with national issues and this is strength of the nation. I welcome you.
For my Mann Ki Baat, your mann ki baat sould also reach me. Maybe you will definitely write a letter. I will try and interact with you again next month. I will try, that whenever I talk, it is Sunday, around 11 am. So I am getting closer to you.
The weather is changing. Winters are slowly setting in. This is a good month for health. Some find it a good season for eating. Some find it good for wearing nice clothes. Besides food and clothes it is a good season for health. Don’t let it go waste. Make the most of it.
Thank You.
My Dear Countrymen,
Today is the holy festival of Vijay Dashami. My heartiest greetings on this occasion of Vijay Dashami to one and all.
Through the medium of radio, I would like to share few heartfelt thoughts with you today. And, I hope that not only today, this series of conversation may be carried out regularly in future. I will try my best, if possible, to take out time twice a month or even once to speak with you. In future, I have also decided that whenever I will speak to you, it would be on Sunday morning at 11am. It would be convenient for you too and I will be content to have shared my thoughts with you.
We are celebrating the festival of Vijaya Dashami today, which is a symbol of victory of Good over Evil. A gentleman named Ganesh Venkatadari, a native of Mumbai, has sent me a mail writing that we must take a vow to eliminate ten bad habits from within ourselves on the occasion of Vijaya Dashami. I express my gratitude to him for this suggestion. As individuals, all of us must be thinking to put an end to our bad habits and win over them. For the sake of our nation, I believe all of us should come together and take a vow in getting rid of the dirt and filth from our country. On the occasion of Vijaya Dashami, we must take a vow to eliminate dirt and filth and we can do so.
Yesterday, on 2nd October on the eve of Mahatma Gandhi’s birth anniversary, more than 1.25 crore countrymen have started the ‘Swachh Bharat’ movement. I had shared one thought yesterday that I will nominate nine people and they need to upload their videos of cleaning the nation on social media websites, and nominating nine more people to do the same. I want you all to join me, clean up the nation, and nominate nine more people in this drive. Eventually, the entire nation will be filled with this atmosphere. I strongly believe that all of you will join hands with me to carry this movement forward.
Whenever we think of Mahatma Gandhi, we are reminded of Khaadi. You may be wearing variety of clothes with different fabrics and company brands in your family. But is it not possible to include Khaadi too? I am not telling you to use only Khaadi products. I am just insisting to use, at least one Khaadi product, like handkerchief, or a bath towel, a bed sheet, a pillow cover, a curtain or anything of that kind. If you have an inclination for all kinds of fabrics and clothes in your family, you can also buy Khaadi products on a regular basis. I am saying this as when you buy Khaadi products, it helps poor people to light lamps on Diwali. Also, you can avail a special discount on Khaadi products from 2nd October for a month. It is a very small thing, but has a very big impact which binds you with the poor. How you see this as a success. When I speak of 1.25 crore countrymen and assess the outcome, we might assume that government will take care of everything and as individuals we stand nowhere. We have seen that if we intend to move ahead, we need to identify our potential, understand our strengths and I can swear that we form the incomparable souls of this world. You all know that our own scientists have been successful in reaching Mars, with least expenditure. We do not lack in our strengths, but have forgotten our fortes. We have forgotten ourselves. We have become hopeless. My dear Brothers and Sisters I cannot let this happen. I always remember one of the sayings by Swami Vivekananda Ji as he always used to emphasize on one thought and possibly, he might have shared this thought with many others.
Vivekananda ii used to say, once a lioness was carrying her two cubs on the way and came upon a flock of sheep from a distance. She got a desire to prey upon them and started running towards the flock. Seeing her running, one of the cub too, joined her. The other cub was left behind and the lioness moved on, post preying upon the flock. One of the cub went with the lioness but the other cub was left behind, and was brought up by a mother sheep. He grew among the sheep, started speaking their language and adapted their ways of life. He used to sit, laugh and enjoy with them. The cub who went with the lioness, was a grown-up now. Once, he happened to meet his brother and was shocked to see him. He thought in his mind,” He is a lion and is playing with sheep, talking like sheep. What is wrong with him? “He felt that his ego was at stake and went to talk to his brother. He said,” What are you doing, brother? You are a lion.” He gets a reply from his brother, “No, I am a sheep. I grew up with them. They have brought me up. Listen to my voice and the way I talk.” He said, “Come, I will show you, who you really are.” He took his brother to a well and told him to look in the water his own reflection, and asked him, if both of them had similar faces. “I am a lion, you, too, are a lion.” His brother’s self-esteem got awakened; he attained self-realization through this and even a lion brought up among sheep started roaring like a lion. His inner soul was awakened. Swami Vivekananda Ji used to say the same. My countrymen, 1.25 crore Indians have infinite strength and capabilities. We need to understand ourselves. We need to identify our inner strengths and like Swami Ji always used to say, we need to carry our self-respect, identify ourselves and move forward in life and be successful, which in turn, make our nation a winning and successful country. I believe, all our countrymen with a population of 1.25 crores are efficient, strong and can stand against any odds with confidence.
These days, I have been getting many letters through social media websites, like Facebook, from my friends. One of them, Mr. Gautam Pal, has addressed an issue regarding the specially-abled children. He has floated the idea of a separate Municipality, Municipal Corporation or councils for them. We need to plan something for them and extend moral support. I liked his suggestion and I have experienced this during my tenure as the Chief Minister of Gujarat. A Special Olympics was held in Athens in 2011. After the Olympics, I invited all the participants and winners of specially abled category from Gujarat to my home. I spent two hours with them, and it was the most emotional and inspiring incident in my life. As I believe, a specially-abled child in not only the responsibility of the parents in a family, it is the responsibility of the entire society. God has chosen this family to support a specially abled child, but a child is a responsibility of the entire nation. After this incident, I got so emotionally attached with them, that I started organizing separate Olympics for them in Gujarat. Thousands of children with their parents used to come and attend, I, too, used to attend the Olympics. There was an atmosphere of trust and, this is the reason, I liked the suggestion given by Mr. Gautam Pal and felt like sharing it with you.
It reminds me of another story. Once, a traveller was sitting at the corner of a road, and was asking everyone the way to a specific place. He continued asking the route from many people. A man, sitting beside him was observing. The traveller stood up and started asking passers-by again. He stood up and said,” The way to your destination is here.” The traveller, then, said,” Brother, you were sitting next to me for so long, saw me asking the route from everyone. If you knew the route, why didn’t you tell me before?” The man answered,” I was waiting to verify if you really intend to reach your destination or you are asking people just for your knowledge. But, when you stood up, I was assured that you truly wish to reach your destination, and decided to give confirm the address”.
My countrymen, till the time we do not decide to walk, stand on our own, we will also not get the guidance from others in our journey. We will not get the people to hold our fingers and help us in walking. We need to take the initiative in walking and I trust all my 1.25 crore Indians, who are capable of walking on their own and will keep moving.
For the past few days, I have been getting very interesting suggestions from people. I am aware, when to adapt to these suggestions. But, I want everyone to actively participate in these suggestions as we all belong to our nation, the nation does not only belong to any Government. We are the citizens of our Nation and we all need to unite without any exceptions. Some of you have suggested simplifying the registration process for Small Scale Industries. I will definitely put this under government’s notice. Some of you have written to me to incorporate skills development courses in the school curriculum from 5th standard. This will help the students to learn various skills and crafts. I loved this idea. They have also suggested that even the adults should learn skills development courses along with their studies. One of the suggestions given was to keep a dustbin at every 100 meters and a putting in place a cleaning system.
Some of you have written to me, to abolish the use of plastic bags. I am receiving numerous suggestions from people. I have always been telling you, to write to me and narrate a true incident, which is positive and inspiring to me and our Countrymen, along with the evidence. If you do this, I can promise this to you, that I will share all those heartfelt thoughts or suggestions with all our Countrymen, through Mann ki Baat.
I have only one intention in speaking with you all,” Come, let us serve our Mother India. Let us all take our nation to the new heights. Let us all take a step forward. If you take one step, our nation takes 1.25 crore steps to move forward, and for this purpose, on this auspicious occasion of Vijaya Dashami, we all need to defeat all of our inner evils and pledge to do something good for the nation. A beginning has been made today. I will be sharing my heartfelt thoughts with one and all. Today, I have shared all the thoughts coming directly from my heart. I will meet you all next at 11 am on Sundays, but I trust our journey shall never end and will continue receiving love and suggestions from you.
After listening to my thoughts, please do not hesitate in sharing your thoughts or advice to me, I will appreciate that your suggestions keep flowing coming. I am glad to talk with you through this simple medium of Radio, which serves each and every corner of the nation. I can reach the poorest homes, as mine, my nation’s strength lies within the hut of Poor, within the villages; my nation’s strength lies with the Mothers, Sisters and Youths; my nation’s strength lies with the Farmers. Nation will only progress, if you believe in it. I am expressing my trust towards the nation. I believe in your strength, hence, I believe in our nation’s future.
I would once again, like to thank one and all for taking out time and listening to me. Thank you all!