بنیادی ڈھانچہ اور رابطہ کاری کسی بھی ملک کی ترقی اور نمو کے لئے جسم میں خون پہنچانے والی دریدوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے بنیادی ڈھانچے کے فروغ کو اولین ترجیح دی ہے۔ نئے ہندوستان کے خواب کی عملی تعبیر کے لئے این ڈی اے حکومت ریلوے، سڑکوں، شاہراہوں، آبی شاہراہوں اور کفایتی شرحوں پر ہوابازی کی سہولت کی فراہمی پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
ریلوے
ہندوستانی ریلوے کا نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ ریل پٹریاں بدلے جانے کے کام کی رفتار فرد کی نگرانی کے بغیر ریلوے کراسنگ اور بڑی پٹری کی لائنیں بچھانے کے کام میں وزیر اعظم مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دور اقتدار میں نمایاں کام ہوا ہے۔
2017-18 کے دوران ایک سال کے عرصے میں محض 100 سے بھی کم ریل حادثوں کے ساتھ ریلوے میں حفاظت کا بہترین نظام ریکارڈ کیا گیا۔ اعداد و شمار شاہد ہیں کہ سال 2013-14 میں 118 ریل حادثے ہوئے جن کی تعداد سال 2017-18 میں ہوکر محض 73 رہ گئی۔ 5,469فرد کی نگرانی کے بغیر لیول کراسنگ کوسال2009-14کی مدت میں 20فیصد کی رفتار سے ختم کر دیا گیا ہے۔ بڑی لائن کے ریل راستوں پر فرد کے بغیر لیول کراسنگ کو بہتر حفاظت کے لئے 2020 تک پوری طرح ختم کر دیا جائے گا۔
ریلوے کی ترقی میں رفتار پیدا کرتے ہوئے 50 فیصد ریل پٹریاں بدلی گئیں جو 2013-14 میں محض 2,926 کلو میٹر تھیں اور اب 2017-18 کی مدت میں بڑھ کر 4,405 کلو میٹر ہوگئی ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دوراقتدار میں بڑی لائن کی 9,528 کلو میٹر طویل ریلوے لائن چالو کی گئی جو 2009-14 کی درمیانی مدت کے 7,600 کلومیٹر سے کہیں زیادہ ہے۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شمال مشرقی ہندوستان بڑی لائن کی ریلوے لائن کے ساتھ باقی ماندہ ملک سے جڑ چکا ہے جس سے 70 برس بعد میگھالیہ، تری پورہ اور میزورم نے ہندوستان کے ریل نقشے پر اپنی جگہ محفوظ کر لی ہے۔
نئے ہندوستان کی ترقی کے لئے ہمیں جدید تکنالوجی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ممبئی سے احمدآباد کا سفر کرنے والی بلیٹ ٹرین کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں احمدآباد سے ممبئی کا سفر آٹھ گھنٹوں سے کم ہو کر دو گھنٹے میں طے ہو سکے گا۔
شہری ہوابازی
ہمارے ملک کا شہری ہوابازی کا شعبہ بھی مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اڑان (اُڑے دیش کا عام ناگرک) کے تحت ملک کے 25 ہوائی اڈوں سے کفایتی ہوائی سفر کی سہولت محض چار برس کی مدت میں دستیاب کرائی جا چکی ہے جبکہ آزادی کے بعد سے سال 2014 تک مصروف عمل ہوائی اڈوں کی تعداد محض 75 ہی تھی۔ غیر مخصوص اور ناکافی پرواز والے ہوائی اڈوں سے علاقائی فضائی رابطہ کاری کی شرح 2,500 روپئے فی گھنٹہ کردی گئی ہے جس سے ان گنت ہندوستانیوں کے ہوائی سفر کا خواب پورا ہونے میں مدد ملی ہے۔ اس طرح پہلی مرتبہ ایئر کنڈیشنڈ ریلوں سے زیادہ لوگوں نے طیاروں میں فضائی سفر کیے۔
گذشتہ تین برسوں کے دوران مسافروں کی آمدورفت کی نمو 18-20 فیصد تک رہی ہے، جس کے ساتھ ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شہری ہوابازی بازار بن چکا ہے۔ 2017 میں تو گھریلو فضائی مسافروں کی تعداد بھی 100 ملین سے زیادہ ہوگئی تھی۔
جہازرانی
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں ہندوستان جہازرانی کے شعبے میں بھی ترقی کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ بندرگاہی ترقیات میں تیزی کے ساتھ ملک کے بڑے بندرگاہوں پر آمدورفت کے اوقات میں بھی کمی ہوگئی ہے جو سال 2013-14 میں 94 گھنٹے تھی اور 2017-18 میں محض 64 گھنٹے رہ گئی ہے۔
بڑے بندرگاہوں پر مال اور سامان کے نقل و حمل کی بات کریں تو سال 2010-11 میں مال کے نقل و حمل کی مقدار 570.32 ملین ٹن تھی جو 2012-13 میں گھٹ کر 545.79 ملین ٹن رہ گئی۔ تاہم این ڈی اے حکومت کے دور اقتدار میں اس میں بہتری پیدا ہوئی اور سال 2017-18 میں ساز و سامان اور مال کے نقل و حمل کی مقدار100ملین ٹن کے اضافے کے ساتھ 679.367 ملین ٹن ہوگئی۔
اندرون ملک آبی شاہراہوں سے نہ صرف ٹرانسپورٹ پر آنے والے خرچ میں کمی ہوئی ہے بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران 106 قومی آبی شاہراہیں آمدورفت کے لئے جوڑی گئیں جبکہ گذشتہ 30 برسوں کے دوران اندرون ملک قومی آبی شاہراہوں کی تعداد محض پانچ سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
سڑک ترقیات
کثیر رخی ارتباط کے ساتھ شاہراہوں کی توسیع کا کام انقلابی پروجیکٹ بھارت مالا پریوجنا کے تحت کیا جا رہا ہے۔ قومی شاہراہوں کے نیٹ ورک میں بھی 2013-14 کے 92,851 کلو میٹر سے بڑھ کر 2017-18 میں 1,20,543 کلو میٹر کی توسیع ہوئی ہے۔
محفوظ سڑکوں کے لئے سیتو بھارتم پروجیکٹ پر 20,800 کروڑ روپئے کی کل تخصیص کے ساتھ کام جاری ہے، جس کے تحت ریلوے اووَر برج یا انڈر پاس راستوں کی تعمیر کی جا رہی ہے تاکہ قومی شاہراہوں کو ریلوے کی لیول کراسنگ سے بچایا جا سکے۔
سڑکوں کی تعمیر کی رفتار بھی تقریباً دوگنی ہو چکی ہے۔ سال 2013-14 میں سڑکو کی تعمیر کی رفتار 12 کلو میٹر یومیہ تھی جو 2017-18 میں بڑھ کر 27 کلو میٹر یومیہ ہوگئی ہے۔
جموں میں ہندوستان کی سب سے طویل سرنگ چینانی ۔ نشری اور ملک کا طویل ترین پل دھولہ ۔ سادیہ اروناچل پردیش سے اضافہ شدہ رابطہ کاری دراصل ان علاقوں کو ترقی دینے کی ہماری عہد بستگی کا ثبوت ہیں جن میں اب تک کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا تھا۔ بہروچ میں دریائے نرمدا پر پل کی تعمیر اور کوٹا میں دریائے چمبل پر پل کی تعمیر سے اس خطے کی سڑک رابطہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
سڑکیں دیہی ترقیات کے لئے عمل انگیزی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے گذشتہ چار برس کی مدت میں 1.69 لاکھ کلو میٹر طویل سڑکیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کی اوسط رفتار 2013-14 میں 69 کلو میٹر یومیہ تھیں جو 2017-18 میں بڑھ کر 134 کلو میٹر یومیہ ہوگئی ہے۔اب دیہی سڑک رابطہ کاری کی مقدار 82 فیصد تک ہوگئی ہے جو 2014 میں محض 56 فیصد تھی۔ دیہی سڑک رابطہ کاری میں اس اضافے سے ہمارےگاؤں بھی ملک کی ترقی کے راہِ عمل میں شامل ہوگئے ہیں۔
ملازمتوں کے مواقع میں اضافے کے لئے سیاحت میں وافر امکانات موجود ہیں۔ تیرتھوں کے اضافہ شدہ سفر کے تجربات کے ساتھ سیاحت کے شعبے میں بھی زبردست ترقی ہوئی ہے۔ چاردھام مہامارگ وکاس پریوجنا سیاحت کے شعبے کو بڑھاوا دینے کے لئے شروع کی گئی تھی جس کے تحت سفر محفوظ، تیزرفتار اور آسان بنایا جا سکے گا۔ اس سے تقریباً 12,000 کروڑ روپئے کی لاگت سے تقریباً 900 کلومیٹر طویل قومی شاہراہوں کی تعمیر ہو سکے گی۔
بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ مال اور سازو سامان کے نقل و حمل سے ہماری معیشت کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ این ڈی اے حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں سال 2017-18 کے دوران کل 1,160 ملین ٹن مال اور ساز و سامان کی لدان ہوئی جو اب تک کی سب سے زیادہ مقدار ہے۔
شہری تغیر
اسمارٹ سٹیز کے ذریعہ شہروں کی ہیئت میں تبدیلی کے لئے سو شہری مراکز کا انتخاب معیار زندگی میں بہتری، پائیدار شہری منصوبہ بندی اور ترقی کو یقینی بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ ان شہروں میں مختلف ترقیاتی منصوبے تقریباً دس کروڑ ہندوستانیوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ ان منصوبوں پر 2,01,979 کروڑ روپیوں کی لاگت آئے گی۔
پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت شہری اور دیہی دونوں طرح کے علاقوں میں تقریباً ایک کروڑ کفایتی مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ متوسط طبقے اور نو متوسط طبقے کے فائدے کے لئے 9 اور بارہ لاکھ روپئے تک کے قرض کی فراہمی کا انتظام کیا گیا ہے جن کی شرح سود میں 4 اور 3 فیصد کی رعایت دی جائے گی۔