’وسودھیو کٹمبکم‘ – یہ دو الفاظ ایک عمیق فلسفے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا مطلب ہے ’دنیا ،ایک خاندان ہے‘۔ یہ ایک ہمہ گیر نقطہ نظر ہے جو ہمیں سرحدوں، زبانوں اور نظریات سے بالاتر ہو کر،ایک عالمگیر خاندان کے طور پر ترقی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہندوستان کی جی20 صدارت کے دوران، اس نے انسان پر مرکوز ترقی کے مطالبے کی ترجمانی کی ہے۔ ایک کرۂ ا رض کے طور پر، ہم اپنے سیارے کی پرورش کے لیے یکجا ہو رہے ہیں۔ ایک خاندان کے طور پر، ہم ترقی کے حصول میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور ہم ایک ساتھ مل کر ایک مشترکہ مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں - ایک ایسا مستقبل - جو کہ ان باہم مربوط اوقات میں، ایک ناقابل تردید سچائی ہے۔

وبا کے بعد کا عالمی نظام ،اس سے قبل کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ اس میں دیگر کے علاوہ تین اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

اوّلین طور پر ، یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ دنیا کے جی ڈی پی پر مرکوز نظریہ سے ہٹ کر، اب انسانوں پر مرکوز نظریہ کی طرف تبدیلی کی ضرورت ہے۔

دوسرے یہ کہ دنیا ،عالمی فراہمی کے سلسلوں میں لچک اور بھروسے کی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہے۔

تیسرا یہ کہ عالمی اداروں میں اصلاحات کے ذریعے کثیرالجہتی رجحان کو فروغ دینے کا اجتماعی مطالبہ ہے۔

ہماری جی20 صدارت نے ان تبدیلیوں میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

دسمبر 2022 میں، جب ہم نے انڈونیشیا سے صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا، میں نے لکھا تھا کہ جی20 کے ذریعے ذہنیت کی تبدیلی کو متحرک کرنا چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک، عالم جنوب اور افریقہ کی پسماندہ خواہشات کو مرکزی دھارے میں لانے کے تناظر میں، اس کی خاص طور پر ضرورت تھی۔

وائس آف گلوبل ساؤتھ سربراہ کانفرنس، جس میں 125 ممالک نے شرکت کی تھی، ہماری صدارت کے تحت ہونے والے اولین اقدامات میں سے ایک تھا۔ عالم جنوب سے نتائج اور نظریات اکٹھا کرنے کے لیے، یہ ایک اہم مشق تھی۔ مزید یہ کہ ہماری صدارت نے نہ صرف افریقی ممالک کی اب تک کی سب سے بڑی شرکت دیکھی ہے ،بلکہ اس نے افریقی یونین کوجی20 کے مستقل رکن کے طور پر شامل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

ایک دوسرے سے وابستہ دنیا کا مطلب ہے کہ شعبہ جات میں ہمارے چیلنجز آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ 2030 کے ایجنڈے کا وسط ِسال ہے اور بہت سے لوگ بڑی تشویش کے ساتھ اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ ایس ڈی جیزسے متعلق پیشرفت سست روی کاشکار ہے۔ایس ڈی جیز پر پیشرفت کو تیز کرنے سے متعلق جی20 کا سال 2023 کا ایکشن پلان،ایس ڈی جیز کو لاگو کرنے کے تئیں ،جی20 کے مستقبل کی سمت کی رہنمائی کرے گا۔

ہندوستان میں، فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنا، زمانۂ قدیم سے ایک معمول رہا ہے اور ہم جدید دور میں بھی، آب و ہوا کے عمل میں اپنی حصہ رسدی کررہے ہیں۔

عالم جنوب کے بہت سے ممالک، ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں اور آب و ہوا سے متعلق کارروائی کو ایک تکمیلی تعمیلی اقدام ہونا چاہیے۔ آب و ہوا کی کارروائی کے عزائم کو موسمیاتی مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اقدامات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

ہمارا ماننا ہے کہ کیا نہیں کیا جانا چاہیے، اس رجحان کے مکمل طور پر پابندی والے رویے کو ترک کرکے ، ایک زیادہ تعمیری ایسا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آب وہوا کی تبدیلیوں سے جدوجہد کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

ایک پائیدار اور لچکدار نیلگوں معیشت کے لیے چنئی کے ایچ ایل پیز،ہمارے سمندروں کو صحت مند رکھنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

ہماری صدارت میں، ایک سبز ہائیڈروجن اختراعی مرکز کے ساتھ ساتھ، صاف اور سبز ہائیڈروجن کے لیے، ایک عالمی ماحولیاتی نظام وضع ہو گا۔

سن 2015 میں، ہم نے بین الاقوامی شمسی اتحاد کا آغاز کیا۔ اب، گلوبل بائیو فیولز الائنس کے ذریعے، ہم مرغولاتی معیشت کے فوائد کے مطابق، توانائی کی منتقلی کو فعال کرنے کے لیے، دنیا کی معاونت کریں گے۔

آب و ہوا کی کارروائی کو جمہوری بنانا، اس تحریک کو رفتار بخشنے کا بہترین طریقہ ہے۔ جس طرح افراد اپنی طویل مدتی صحت کی بنیاد پر روزانہ فیصلے کرتے ہیں، اسی طرح وہ طرز زندگی کے فیصلے، کرۂ ارض کی طویل مدتی صحت پر پڑنے والے اثرات کی بنیاد پر، کر سکتے ہیں۔ جس طرح یوگا صحت وتندرستی کے لیے ایک عالمی عوامی تحریک بن گیا ہے، اسی طرح ہم پائیدار ماحول کے لیے طرز زندگی (لائیف)کے ساتھ دنیا کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔

آب وہوا کی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے، خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اہم ہوگا۔ جوار، یا شری اَنّ، اس میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ،موسمیاتی اسمارٹ زراعت کو بھی فروغ دےسکتا ہے۔ جوار باجرے کے بین الاقوامی سال میں، ہم باجرے کو عالمی سطح پر لے گئے ہیں۔ خوراک کے تحفظ اور غذائیت سے متعلق، دکن کے اعلیٰ سطحی اصول بھی اس ضمن میں مددگار ہیں۔

ٹیکنالوجی تبدیلی کا باعث ہوتی ہے لیکن اسے جامع بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ماضی میں، تکنیکی ترقی کے ثمرات سے معاشرے کے تمام طبقوں کو یکساں طور پر فائدہ نہیں پہنچا۔ ہندوستان نے پچھلے کچھ سالوں میں یہ دکھایا ہے کہ ٹیکنالوجی کو عدم یکسانیت کو ختم کرنے کے لیے نہ کہ ان میں اضافہ کرنے کے لیے،کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، دنیا بھر میں اربوں لوگ جو بینک کی سہولیت سے محروم ہیں، یا ڈیجیٹل شناخت سے محروم ہیں، انھیں ڈیجیٹل سرکاری بنیادی ڈھانچے (ڈی پی آئی)) کے ذریعے مالی طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے اپنے ڈی پی آئی کا استعمال کرتے ہوئے جو حل تیار کیے ہیں ، انھیں اب عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ اب،جی20 کے ذریعے، ہم ترقی پذیر ممالک کو شمولیاتی فروغ کی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے ڈی پی آئی کو ڈھالنے، بنانے اور اسکیل کرنے میں مدد کریں گے۔

یہ امرکہ ہندوستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے، کوئی ناگہانی واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے سادہ، قابل توسیع اور پائیدار حل نے، کمزور اور پسماندہ لوگوں کو ہماری ترقی کی کہانی کی قیادت کرنے کے لیے، بااختیار بنایا ہے۔ خلاء سے لے کر کھیل تک، معیشت سے لے کر انٹرپرینیورشپ تک، ہندوستانی خواتین نے مختلف شعبوں میں برتری حاصل کی ہے۔ انہوں نے خواتین کی ترقی سے وابستہ بیانیہ کو خواتین کی زیر قیادت ترقی کے امر کی جانب منتقل کیا ہے۔ ہماری جی20 صدارت، صنفی ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے، لیبر فورس میں شرکت کے فرق کو کم کرنے اور قیادت اور فیصلہ سازی میں خواتین کے لیے وسیع تر کردار کو فعال کرنے پر کام کر رہی ہے۔

ہندوستان کے لیے، جی20 صدارت ،محض ایک اعلیٰ سطحی سفارتی کوشش نہیں ہے۔ جمہوریت کی ماں اور تنوع کے نمونے کے طور پر، ہم نے اس تجربے کے دروازے دنیا کے لیے کھولے ہیں۔

آج، بڑے پیمانے پر کاموں کو پورا کرنا ایک خوبی ہے، جو ہندوستان سے وابستہ ہے۔ جی20 صدارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔ ہماری مدت کے اختتام تک، 125 ممالک کے تقریباً 100000 مندوبین کی میزبانی کرنے والے ہمارے ملک کے طول و عرض کے 60 ہندوستانی شہروں میں، 200 سے زیادہ اجلاسوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اتنی وسیع اور متنوع جغرافیائی وسعت کو کسی بھی صدارت نے اپنے اندر نہیں سمویاہے۔

کسی اور سے ہندوستان کی آبادی، جمہوریت، تنوع اور ترقی کے بارے میں سننا ایک الگ بات ہے۔ اس کا بذاتِ خود تجربہ کرنا بالکل مختلف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے جی20 مندوبین اس کی تائید کریں گے۔

ہماری جی 20 صدارت ،تقسیم کو ختم کرنے، رکاوٹوں کو ختم کرنے اور تعاون کے بیج بونے کی کوشش کررہی ہے ،جو ایک ایسی دنیا کو پروان چڑھاتی ہے جہاں اختلاف پر اتحاد غالب ہوتا ہے، جہاں مشترکہ تقدیر تنہائی کو گرہن لگاتی ہے۔ جی20 صدر کے طور پر، ہم نے عالمی میز کو وسیع کرنے کا عہد کیا تھا؛ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہر آواز کو سنا جائے اور ہر ملک اپنی اپنی حصہ رسدی کرے۔میں پُر یقین ہوں کہ ہم نے اعمال اور نتائج کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا ہے۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
شری رتن ٹاٹا کو خراج عقیدت
November 09, 2024

It has been a month since Shri Ratan Tata Ji left us. From bustling cities and towns to villages, his absence is deeply felt across every segment of society. Seasoned industrialists, budding entrepreneurs and hardworking professionals mourn his loss. Those passionate about the environment and devoted to philanthropy are equally saddened. His absence has been deeply felt not only across the nation but also around the world.

For the youth, Shri Ratan Tata was an inspiration, a reminder that dreams are worth pursuing and that success can coexist with compassion as well as humility. For others, he represented the finest traditions of Indian enterprise and a steadfast commitment to the values of integrity, excellence and service. Under his leadership, the Tata Group ascended to new heights, embodying respect, honesty and credibility worldwide. Despite this, he wore his achievements lightly, with humility and kindness.

Shri Ratan Tata’s unwavering support for the dreams of others was one of his most defining qualities. In recent years, he became known for mentoring India’s StartUp ecosystem, investing in many promising ventures. He understood the hopes and aspirations of young entrepreneurs and recognised the potential they had to shape India’s future. By backing their efforts, he empowered a generation of dreamers to take bold risks and push boundaries. This has gone a long way in creating a culture of innovation and entrepreneurship, which I am confident will continue to positively impact India for decades to come.

He constantly championed excellence, urging Indian enterprises to set global benchmarks. This vision, I hope, will inspire our future leaders to make India synonymous with world-class quality.

His greatness was not restricted to the boardroom or helping fellow humans. His compassion extended to all living beings. His deep love for animals was well-known and he supported every possible effort focused on animal welfare. He often shared photos of his dogs, who were as much a part of his life as any business venture. His life was a reminder to us all that true leadership is measured not just by one’s achievements, but by one’s ability to care for the most vulnerable.

For crores of Indians, Shri Ratan Tata’s patriotism shone brightest in times of crisis. His swift reopening of the iconic Taj Hotel in Mumbai after the 26/11 terror attacks was a rallying call to the nation—India stands united, refusing to yield to terrorism.

On a personal note, I had the privilege of knowing him very closely over the years. We worked closely in Gujarat, where he invested extensively, including in many of the projects he was very passionate about. Just a few weeks ago, I was in Vadodara with the President of the Government of Spain, Mr. Pedro Sánchez and we jointly inaugurated an aircraft complex where C-295 aircrafts would be made in India. It was Shri Ratan Tata who started working on this. Needless to say, Shri Ratan Tata’s presence was greatly missed.

I remember Shri Ratan Tata Ji as a man of letters—he would frequently write to me on various issues, be it matters of governance, expressing appreciation for government support, or sending congratulatory wishes after electoral victories.

Our close interactions continued when I moved to the Centre and he remained a committed partner in our nation-building efforts. Shri Ratan Tata’s support for the Swachh Bharat Mission was particularly close to my heart. He was a vocal advocate of this mass movement, understanding that cleanliness, hygiene and sanitation are vital for India’s progress. I still remember his heartfelt video message for the Swachh Bharat Mission’s tenth anniversary at the start of October. It was among his final public appearances.

Another cause close to his heart was healthcare and especially the fight against cancer. I recall the programme in Assam two years ago, where we had jointly inaugurated various cancer hospitals in the state. In his remarks that time, he had categorically stated that he wishes to dedicate his final years to healthcare. His efforts to make health and cancer care accessible and affordable were rooted in a profound empathy for those battling diseases, believing that a just society was one that stood by its most vulnerable.

As we remember him today, we are reminded of the society he envisioned—where business can serve as a force for good, where every individual’s potential is valued and where progress is measured in the well-being and happiness of all. He remains alive in the lives he touched and the dreams he nurtured. Generations will be grateful to him for making India a better, kinder and more hopeful place.