نئی دہلی،12اکتوبر، 2021 / وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج دن کے اوائل میں افغانستان کے بارے میں جی 20 کی غیرمعمولی سربراہ کانفرنس میں ورچوئل وسیلے سے شرکت کی۔ یہ میٹنگ اٹلی نے بلائی تھی جو فی الحال جی 20 کی صدارت کر رہا ہے اور اٹلی کے وزیراعظم جناب ماریو دراغی اس کے صدر ہیں۔ میٹنگ میں جن موضوعات پر غور و خوض کیا گیا ان کا تعلق افغانستان میں انسانی ہمدردی کی صورتحال ، دہشت گردی سے متعلق تشویش اور انسانی حقوق سے ہے۔
وزیراعظم نے اپنے کلمات میں افغانستان میں تازہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے میٹنگ بلانے میں اٹلی کی جی 20 کی صدارت کی پہل کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے بھارت اور افغانستان کے درمیان صدیوں سے جاری عوام سے عوام کے رشتوں پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں سے بھارت نے افغانستان میں سماجی اور اقتصادی ترقی اور نوجوانوں اور خواتین کی صلاحیت سازی کو فروغ دینے میں تعاون کیا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں بھارت کی طرف سے 500 سے زیادہ ترقیاتی پروجیکٹوں کا ذکر کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ افغان عوام میں، بھارت کیلئے دوستی کا ایک گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر بھارتی، فاقہ کشی اور تغذیہ کی کمی سے دو چار افغان عوام کے درد کو محسوس کرتاہے۔ جناب مودی نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس بات کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا کہ افغانستان کو انسانی ہمدردی پر مبنی امداد تک فوری اور بلارکاوٹ رسائی حاصل ہو۔
وزیر اعظم نے اِس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا کہ افغان خطہ، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا، علاقائی یا عالمی سطح پر ماخذ نہ بنے۔ انھوں نے اِس ضرورت پر بھی زور دیا کہ خطے میں بنیاد پرستی، دہشت گردی اور منشیات اور ہتھیاروں کی غیرقانونی تجارت کے نیٹ ورک کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کو بڑھاوا دیا جائے۔
پچھلے 20 سال سے سماجی واقتصادی فائدوں کے تحفظ کی خاطر اور بنیاد پرستانہ نظریات کو پھیلنے سے روکنے کیلئے وزیر اعظم نے، افغانستان میں سب کی شمولیت والی انتظامیہ پر زور دیا جس میں خواتین اور اقلیتیں بھی شامل ہوں۔ جناب مودی نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے اہم رول کی خاطر حمایت کیلئے کہا اور افغانستان سے متعلق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر دو ہزار 593 میں دیئے گئے پیغام کیلئے جی 20 کی تازہ حمایت کیلئے کہا۔ وزیراعظم نے بین الاقوامی برادری سے کہا کہ وہ ایک متحدہ بین الاقوامی کارروائی تشکیل دے جس کے بغیر افغانستان کی صورتحال میں مطلوبہ تبدیلی لانا مشکل ہوگا۔