نمسکار، گوا کے وزیراعلیٰ جناب پرمود ساونت جی، جل شکتی کے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت جی، گوا سرکار کے دیگر وزراء ، دیگر معززین ، خواتین وحضرات، آج ایک بہت ہی اہم اور مقدس دن ہے۔ ملک بھر میں شری کرشن جنم اشٹھی کی دھوم ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو دنیا بھر میں پھیلے بھگوان شری کرشن کے عقیدت مندوں کو بہت بہت مبارکباد۔ جئے شری کرشن۔
آج کا یہ پروگرام گوا میں ہورہا ہے لیکن آج میں سبھی ہم وطنوں کے ساتھ ملک کی تین بڑی حصولیابیوں کو مشترک کرنا چاہتا ہوں۔ اور یہ بات میں پورے ملک کیلئے کہنا چاہتا ہوں۔ بھارت کی اِن حصولیابیوں کے بارے میں جب میرے ہم وطن جانیں گے، مجھے پورا یقین ہے ان کو بہت فخر ہوگا، اور بالخصوص ہماری ماؤں اور بہنوں کو بہت فخر ہوگا۔ امرت کا ل میں بھارت جن عظیم مقاصد پر کام کررہا ہے ، اس سے منسلک تین اہم پڑاؤ ہم نے آج پار کیے ہیں۔ پہلا پڑاؤ ۔ آج ملک کے 10 کروڑ دیہی کنبے پائپ سے صاف پانی کی سہولت سے جڑ چکے ہیں۔ یہ ہر گھر جل پہنچانے کی سرکار کی مہم کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ سب کی کوشش کی ایک بہترین مثال بھی ہے۔ میں اس حصولیابی کیلئے ہر ہم وطن کو اور بالخصوص ماؤں اور بہنوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
ملک نے اور بالخصوص گوا نے آج ایک کامیابی حاصل کی ہے۔ آج گوا ملک کی پہلی ریاست بنی ہے، جسے ہر گھر جل سرٹیفائی کیا گیا ہے۔ دادر نگر حویلی اور دمن ودیو بھی، ہر گھر جل سرٹیفائیڈ مرکزی انتظام والے علاقے بن گئے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک کے ہر بڑے مشن میں گوا سرگرم رول نبھاتا جارہا ہے۔ میں گوا کے عوام کو ،پرمود جی اور ان کی ٹیم کو، گوا کی سرکار کو، مقامی سوراج کے اداروں کو، ہر کسی کو بہت بہت مبارکباد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ آپ نے جس طرح ہر گھر جل مشن کو آگے بڑھایا ہے وہ پورے ملک کو تحریک دینے والا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آنے والے مہینوں میں کئی اور ریاست اس فہرست میں شامل ہونے والے ہیں۔
ساتھیو،
ملک کی تیسری حصولیابی سوچھ بھارت ابھیان سے جڑی ہے۔ کچھ سال پہلے سبھی ہم وطنو ں کی کوششوں سے، ملک کھلے میں رفع حاجت سے پاک قرار پایا تھا۔ اس کے بعد ہم نے عہد کیا تھا کہ گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا (او ڈی ایف) پلس بنائیں گے۔ یعنی کمیونیٹی ٹوائلٹس، پلاسٹک فضلات کے بندوبست، گرے واٹر مینجمنٹ، گوبردھن پروجیکٹ، ایسی سہولتیں تیار کی جائیں گی۔ اس کو لیکر بھی ملک نے اہم سنگ میل حاصل کیے ہیں۔ اب ملک کے الگ الگ ریاستوں کے ایک لاکھ سے زیادہ گاؤں او ڈی ایف پلس ہوچکے ہیں۔ ان تینوں اہم پڑاؤ کو عبور کرنے والی سبھی ریاستوں کو، سبھی گاؤں کو بہت بہت مبارکباد۔
ساتھیو،
آج دنیا کے بڑے بڑے ادارے کہہ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک چنوتیوں میں سے ایک چنوتی پانی کا تحفظ ہوگا۔ پانی کی قلت، ترقی یافتہ بھارت کے عہد کو حقیقت بنانے میں بھی بہت بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بغیر پانی عام آدمی، غریب طبقہ، کسان اور صنعت کاروبار سب کو نقصان ہوتا ہے۔ اس بڑے چیلنج سے نمٹنے کیلئے خدمت کے جذبے سے، فرض نبھانے کے جذبے سے 24 گھنٹے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری سرکار پچھلے آٹھ برسوں سے اسی جذبے کے ساتھ پانی کے تحفظ کے کاموں کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سرکار بنانے کیلئے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی، لیکن ملک کی تعمیر کیلئے کڑی محنت کرنی ہوتی ہے۔ اور سب کی کوشش سے ہوتی ہے۔ ہم سبھی نے ملک تعمیر کرنے کا راستہ منتخب کیا ہے، اس لئے ملک کے حال اور مستقبل کے چیلنجوں کو لگاتار حل کررہے ہیں۔ جنہیں ملک کی پروا نہیں ہوتی انہیں ملک کا حال بگڑے یا مستقبل کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے لوگ پانی کے لئے بڑی بڑی باتیں ضرور کرسکتے ہیں، لیکن کبھی پانی کیلئے ایک بڑے وِژن کے ساتھ کام نہیں کرسکتے ہیں۔
ساتھیو،
آزادی کے امرت کال میں واٹر سیکورٹی ، پانی کاتحفظ ، بھارت کی ترقی کے سامنے چیلنج نہ بنے، اس کے لئے پچھلے 8 برسوں سے آبی تحفظ پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ کیچ دی رین ہو، اٹل بھوجل یوجنا ہو، ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سرووروں کی تعمیر ہو، ندیوں کو جوڑنا ہو، یا پھر جل جیون مشن، ان سب کا ہدف ہے ملک کے ایک ایک شخص کو پانی کا تحفظ۔ کچھ دن پہلے ہی ایک خبر آئی ہے کہ بھارت میں اب رامسر مقامات یعنی دلدلی زمینوں کی تعداد بھی بڑھ کر 75 ہوگئی ہے۔ ان میں سے بھی 50 مقامات پچھلے 8 برسوں میں ہی جوڑے گئے ہیں۔ یعنی آبی تحفظ کیلئے بھارت چوطرفہ کوششیں کررہا ہے اور اس کے ہر سمت میں نتیجے بھی حاصل ہورہے ہیں۔
ساتھیو،
پانی اور ماحولیات کے تئیں یہی عہد بستگی جل جیون مشن کے 10 کروڑ کے پڑاؤ میں بھی جھلکتی ہے۔ امرت کال کی اس سے بہتر شروعات نہیں ہوسکتی ہے۔ صرف 3 سال کے اندر جل جیون مشن کے تحت 7 کروڑ دیہی کنبوں کو پائپ کے پانی کی سہولت سے جوڑا گیا ہے۔ یہ کوئی عام حصولیابی نہیں ہے۔ آزادی کی سات دہائیوں میں ملک کے صرف تین کروڑ دیہی کنبوں کے پاس ہی پائپ سے پانی کی سہولت دستیاب تھی۔ ملک میں لگ بھگ 16 کروڑ دیہی کنبے ایسے تھے، جن کو پانی کے لئے باہر کے ذرائع پر منحصر رہنا پڑتا تھا۔ گاؤں کی اتنی بڑی آبادی کو ہم اس بنیادی ضرورت کیلئے جدوجہد کرتے نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اس لئے تین سال پہلے میں نے لال قلعے سے اعلان کیا تھا کہ ہر گھر پائپ سے پانی پہنچایا جائیگا۔ نئی حکومت بننے کے بعد ہم نے جل شکتی کی الگ وزارت تشکیل دی۔ ا س مہم پر 3 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جارہے ہیں۔ 100 سال کی سب سے بڑی وبا کی وجہ سے جو روکاوٹیں آئیں، اس کے باوجود اس مہم کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ اسی مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے کہ 7 دہائیوں میں جتنا کام ہوا تھا، اس سے دوگنے سے زیادہ کام ملک نے پچھلے 3 سال میں ہی کردکھایا ہے۔ یہ اسی انسانیت پر مرکوز ترقی کی مثال ہے، جس کی بات میں نے اس بار لال قلعہ سے کی ہے۔ ہر گھر جل جب پہنچتا ہے، تو سب سے زیادہ فائدہ ہماری بہنوں کو ہوتا ہے، آنے والی نسلوں کو ہوتا ہے، تغذیے کی کمی کے خلاف ہماری لڑائی مضبوط ہوتی ہے۔ پانی سے جڑے ہر مسائل کی سب سے زیادہ مستفیدین بھی ہماری مائیں اور بہنیں ہوتی ہیں، اس لئے اس مشن کے مرکز میں بھی ہماری بہنیں- بیٹیاں ہی ہیں۔ جن گھروں میں صاف پینے کا پانی پہنچا ہے، وہاں اب بہنوں کا وقت بچ رہا ہے۔ کنبے کے بچوں کو خراب پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں بھی کم ہورہی ہیں۔
ساتھیو،
جل جیون مشن، سچی جمہوریت کا، قابل تعظیم باپو نے جس گرام سوراج کا خواب دیکھا تھا، اس کی بھی بہترین مثال ہے۔مجھے یاد ہے، جب میں گجرات میں تھا تو کچھ ضلع میں ماؤں-بہنوں کو پانی سے جڑے ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ اسے بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ آج یہی تجربہ جل جیون مشن کی بھی اہم تحریک ہے۔ جل جیون مشن صرف سرکاری اسکیم نہیں ہے، بلکہ یہ کمیونیٹی کے ذریعے، کمیونیٹی کے لئے چلائی جارہی اسکیم ہے۔
ساتھیو،
جل جیون مشن کی کامیابی کی وجہ اس کے چار مضبوط ستون ہیں۔ پہلا، عوامی حصہ داری، عوامی شرکت، دوسرا۔ ساجھیداری، ہر اسٹیک ہولڈر کی شراکت داری ، تیسرا۔ سیاسی قوت ارادی، سیاسی عزم اور چوتھی۔ وسائل کا پورا استعمال۔
بھائیو اور بہنو،
جل جیون مشن میں جس طرح پنچایتوں کو، گرام سبھاؤں کو، گاؤں کے مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جس طرح انہیں مختلف ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، یہ اپنے آپ میں غیرمعمولی ہے۔ ہر گھر پائپ سے پانی پہنچانے کیلئے جو کام ہوتے ہیں، اس میں گاؤں کے لوگوں کی مدد لی جاتی ہے۔ گاؤں کے لوگ ہی اپنے گاؤں میں آبی تحفظ کیلئے ولیج ایکشن پلان بنارہے ہیں۔ پانی کی جو قیمت لی جانی ہے، وہ بھی گاؤں کے لوگ ہی طے کررہے ہیں۔ پانی کی جانچ میں بھی گاؤں کے لوگ جڑے ہیں، 10 لاکھ سے زیادہ خواتین کو اس کی تربیت دی گئی ہے۔ پانی کمیٹی میں بھی کم سے کم 50 فیصد خواتین کو جگہ دی گئی ہے جو قبائلی علاقے ہیں وہاں تیزی سے کام ہو، اسے ترجیح دی جارہی ہے۔ جل جیون مشن کا دوسرا ستون ساجھیداری ہے۔ ریاستی سرکاریں ہوں، پنچایتیں ہوں،خود امدادی گروپ ہوں،تعلیمی ادارے ہوں، سرکار کے مختلف محکمے اور وزارت میں سبھی ملکر کام کررہے ہیں۔ اس کا زمینی سطح پر بہت بڑا فائدہ مل رہا ہے۔
ساتھیو،
جل جیون مشن کی کامیابی کا تیسرا اہم ستون سیاسی عزم ہے۔ پچھلے 70 سالوں میں جتنا کام ہو سکا اس سے کئی گنا زیادہ کام 7 سال سے بھی کم عرصے میں کیا جانا ہے۔ ایک مشکل ہدف ہے، لیکن ایسا کوئی ہدف نہیں ہے جسے بھارت کے لوگ طے کر سکیں اور حاصل نہ کر سکیں۔ مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں، پنچایتیں، سبھی اس مہم کو تیزی سے مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔ جل جیون مشن وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال، وسائل کے صحیح استعمال پر برابر زور دے رہا ہے۔ منریگا جیسی اسکیموں کے ان کاموں میں بھی مدد کی جارہی ہے جو جل جیون مشن کو تقویت دیتی ہیں۔ اس مشن کے تحت جو کام کیا جا رہا ہے اس سے گاؤں میں بڑے پیمانے پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس مشن کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ جب ہر گھر کو پائپ کا پانی ملے گا، سیرابی کی کیفیت آئے گی، تب تفرقہ و امتیاز کا دائرہ بھی یکساں طور پر ختم ہو جائے گا۔
ساتھیو،
اس مہم کے دوران پانی کے نئے ذرائع، ٹینک بنائے جا رہے ہیں، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، پمپ ہاؤسز بنائے جا رہے ہیں، سب کو جیو ٹیگ بھی کیا جا رہا ہے۔ پانی کی فراہمی اور معیار کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی یعنی انٹرنیٹ آف تھنگ سلوشنز کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے۔ یعنی افرادی قوت، خواتین کی طاقت اور ٹیکنالوجی مل کر جل جیون مشن کی طاقت کو بڑھا رہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جس طرح پورا ملک محنت کر رہا ہے، ہم ہر گھر کے لیے پانی کا ہدف ضرور حاصل کر لیں گے۔
ایک بار گوا کو، گوا کی حکومت کو، گوا کے شہریوں کو اس پرمسرت موقع پر، اور اس عظیم کامیابی پر بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میں اپنے تمام ہم وطنوں کو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ تین سال پہلے لال قلعہ سے جو خواب دیکھا تھا، گرام پنچایتوں سے لیکر تمام اداروں کی مدد سے اسے کامیاب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کرشن جنم اشٹمی کی مبارکباد دے کر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ.