وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اپنی اپنی تشکیل کے بعد سے ہی بدعنوانی کے خاتمے کے لئے عہد بستہ رہی ہے۔اس کا مقصد بدعنوانی کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ ایمانداری کو پروان چڑھانا اور ادارہ جاتی بنانا ہے۔
حکمرانی کو شفاف بنانے کی غرض سے سرکار کے ذریعہ کیے گئے متعدد اقدامات کے قریبی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جس طریقے سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان سے نہ صرف ہماری معیشت داخلی طور پر مستحکم ہوئی ہے بلکہ سرکار پر عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
معیشت کی پیداواریت میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے ذریعہ غریب ترین لوگوں کو ترقی کے فوائد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی غرض سے بدعنوانی اور کالے دھن کی دوجڑواں برائیوں کے خاتمے کے لئے ہمہ جہت طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ بیرونی ممالک کی سرکاروں سے معاہدات طے کرنے کی غرض سے قانون سازی کے اقدامات کے ساتھ زبردست عملی اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ حکومت کے نظام کے طریقے کو جوابدہ اور ذمہ دار بنایا جا سکے۔
سرکار نے اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کالے دھن پر ایک خصوصی تفتیشی ٹیم ایس آئی ٹی تشکیل دی تاکہ کالے دھن کی پیداوار اور اس کی ذخیرہ اندوزی کے ذرائع کا پتہ لگا کر اس کے خاتمے کے طریقے تجویز کیے جا سکیں۔ اس کمیٹی کی متعدد سفارشات سرکار نے منظور کر لی ہیں۔ سرکار کو درپیش ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ سرکار 2014 میں اس وقت برسر اقتدار آئی جب ملک میں کوئلے کا بحران جاری تھا۔ سپریم کورٹ نے کوئلے بلاکوں کی تخصیص کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد ایک صاف ستھرے اور شفاف نیلامی کا عمل ضروری ہو گیا تھا۔ سرکار نے اس سلسلے میں وقت ضائع کیے بغیر کام شروع کیا جس کے نتیجے میں شفاف نیلام ممکن ہو سکے۔جس کے نتیجے میں ملک و قوم کو زبردست غیر متوقع فوائد حاصل ہوئے۔
ٹیلی کام الوکیشن کے لئے بھی اسی سے ملتا جلتا طریقہ اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو خطیر سرمایہ حاصل ہوا ہے۔ اسپیکٹرم کی نیلامی میں بھی سرکار نے ماضی کی قطعی نقصان نہ برداشت کرنے والے نظریے کے برعکس زبردست مالی فوائد حاصل کیے۔
بے نامی اثاثہ جات کےذریعہ کالے دھن کی پیداوار کے مسئلے کے تدارک کے لئے مدت مدید سے التوا میں پڑا ہوا بینامی پراپرٹی ایکٹ منظور کیا گیا۔ فیوجی ٹو اکنامک آفینڈرس بل کو بھی منظوری دے دی گئی تاکہ تفتیش کار ایجنسیاں فرار معاشی مجرمین کے معاملات کی تفتیش کر سکیں۔ اس کے تحت قانون کا اطلاق کرنے والی ایجنسیوں کو فرار معاشی مجرمین کے املاک اور اثاثہ جات ضبط کرنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے اور بینکوں کو قرض ادا نہ کرنے والے کھاتے داروں سے زیادہ سے زیادہ وصولی کرنے کے لئے مجاز قرار دیا گیا ہے۔
سرکار نے تلافی کے اقدامات تک محدود نہ رہتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس وبا سے مقابلے کے لئے ایک قومی اتحاد قائم کیا ہے۔ سرکار نے ماریشس، سنگاپور اور قبرص کے ساتھ ڈبل ٹیکس اوائڈینس اگریمنٹ (ڈی ٹی اے اے) اگریمنٹ میں ترمیم کر دی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں کالادھن چھپایا جاتا ہو، اس کے ساتھ ہی حکومت نے سوئیٹزلینڈ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں تاکہ سوئز بینک میں بھارتی باشندوں کے ذریعہ کھولے گئے کھاتوں کے بارے میں بروقت اطلاعات حاصل ہو سکیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے نوٹ بندی کے اعلان کے ذریعہ کالے دھن پر زبردست چھاپے مارے۔ اس تاریخی اقدام کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غیر اعلان شدہ آمدنی، مشکوک سودوں اور کھاتوں کا پتہ لگایا جا سکا۔ جس کے نتیجے میں تین لاکھ جعلی کمپنیوں کے خلاف کاروائی کی گئی اور ان کے اندراج کو منسوخ کیا گیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں صاف ستھری معیشت کے فروغ اور اسے مستحکم بنانے میں زبردست معاونت حاصل ہوئی اور ٹیکس کی بنیاد میں بھی اضافہ ہوا۔
کالے دھن کی باز پیداواری کے خاتمے کے عزم محکم کے ساتھ ایک مزید شمولیت پر مبنی معیشت کے لئے مضبوط اقدامات کیے گئے۔ نقدی کے بغیر سودوں، عملے کو اجرتوں کی شفاف منتقلی کے لئے پچاس لاکھ نئے بینک کھاتے کھولے گئے۔ اس سے پہلے سرکاری سرمایے کا ایک بڑا حصہ، سرکاری کاروائی میں رساؤ کی نظر ہو جاتا تھا۔ فلاحی اسکیموں کو آدھار کارڈ سے جوڑنے اور اسے ایک قانونی نظام دیے جانے کے ساتھ سرکار نے سرکاری نظام تقسیم میں رساؤ کے مقامات کا پتہ لگانے اور سرکاری سرمایے کی تقسیم کے لئے ایک تبادلے کے ایک قابل قبول متبادل تلاش کرنے کی نیک نیت کوششیں کی ہیں۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران 431 استفادہ کنندگان کے بینک کھاتوں میں 3.65 لاکھ کروڑ روپئے منتقل کیے جا چکے ہیں۔
سرکار پر بڑھتے اعتماد کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی تعداد میں ٹیکس دہندگان اپنے واجد الادا ٹیکسوں کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ بات باعث افتخار ہے کہ مالی سال 2017-2018 میں داخل کی جانے والی انکم ٹیکس ریٹرن کی تعداد 6.85 کروڑ رہی ہے اور جو مالی سال 2013-14 میں محض 3.85 کروڑ تھی۔ اس طرح ٹیکس کی بنیاد وسیع تر ہوگئی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد ای پی ایف او میں ایک کروڑ نئے اندراجات کیے گئے ہیں۔ جبکہ ایمپلائز اسٹیٹ انشیورینس کارپوریشن (ای ایس آئی سی) میں 1.3 کروڑ اندراج کیے گئے ہیں۔ وسیع تر شفافیت اور رسم بندی کے نتیجے میں محنت کش شہریوں کو حفاظت کے دائرے میں شامل کیا جا چکا ہے۔اس طرح ان کی بچت اور آمدنی کی سلامتی میں اضافہ ہوا ہے۔
آزادی کے بعد کی سب سے بڑی معاشی اصلاح جی ایس ٹی نے اپنی بے روک عمل آوری، شفافیت اور تعمیل کے عمل میں توقعات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہندوستانی عوام نے کھلے دل کے ساتھ اسے قبول کیا ہے جو جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد محض ایک سال کی مدت میں 50 لاکھ نئے کاروباریوں کے اندراج سے بخوبی ظاہر ہے۔ پچھلے ستر برسوں کے دوران یہ تعداد محض 65 لاکھ ہی رہی تھی۔
شفافیت کو یقینی بنانے کی غرض سے ایک جدت طراز اقدام کے تحت وزارت ماحولیات نے ماحولیاتی منظوریوں کے لئے آن لائن درخواستیں جمع کرانے کا عمل شروع کیا ہے جس کے نتیجے میں منظوری میں صرف ہونے والا وقت 600 یوم سے کم ہو کر محض 180 دن رہ گیا ہے۔ مزید برآں پروجیکٹ کی منظوری کے لئے رشوت لینے کی غرض سے انسانی مداخلت کے امکانات کو کم سے کم کرنا اور درخواستوں کا آن لائن پتہ لگانا بہ آسانی ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح غیر گزٹڈ اسامیوں کے لئے انٹرویو کی روایت ختم کیے جانے کے نتیجے میں حقیقی امیدواروں کا ان کی لیاقتوں کی بنیاد پر انتخاب یقینی بنایا جا سکا ہے۔
ایک فیصلہ کن ہمہ جہت اقدام نے نہ صرف معیشت کی نمو کے لئے ایک ٹھوس بنیاد تیار کی ہے بلکہ معاشرے کے آخری آدمی کی زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس لئے ایک صاف ستھری، شفاف اور معیشت نے نئے ہندوستان کے چہرہ کاری کے لئے میدان ہموار کرنا شروع کر دیا ہے۔