نئی دہلی 11ستمبر ۔ ڈاکٹر پرمود کمار مشرا کو بھارت کے وزیراعظم کا پرنسپل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے آج اپنا چارج سنبھا ل لیا ۔
ڈاکٹر مشرا پروگراموں کے انتظام میں طویل تجربہ رکھتے ہیں ، جن میں زراعت ،بحران کا بندوبست ، بجلی کاشعبہ ، بنیادی ڈھانچے کی فائننسنگ اور انضباطی مسائل شامل ہیں۔ ان کا کیرئیر بہت نمایاں رہا ہے ۔ جس میں تحقیق ، اشاعت ، پالیسی سازی اور پروگرام /پروجیکٹ کا بندوبست بھی شامل رہا ہے ۔ وہ پالیسی سازی اور انتظامیہ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور انہوں نے بہت سی اہم ذمہ داریاں سنبھالی ہیں مثلاََ وزیر اعظم کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری ، سکریٹری زراعت اورتعاون ، بھارت سرکار ، چیئرمین اسٹیٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن اور بحران کے بندوبست کا شعبہ ۔ زراعت اور تعاون کے سکریٹری کے طور پر وہ نیشنل ایگری کلچر ڈیولپمنٹ پروگرام ( آر کے وی وائی ) اور نیشنل فوڈ سکیورٹی مشن ( این ایف ایس ایم ) جیسی اہم قومی اسکیموں میں سرگرم رہے ۔
2014 سے 2019 کے درمیان وزیر اعظم کے ایڈیشنل پرنسپل سکریٹری کی حیثیت سے انہیں انسانی وسائل کے بندوبست ،خاص طور پر سینئیر عہدوں پر تقرر کے معاملے میں اختراعی نوعیت کی اور انقلابی تبدیلیاں کرنے کا فخر حاصل رہا ہے ۔
ان کے بین الاقوامی تجربے میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز (برطانیہ ) میں چار سال سے زیادہ کا تحقیقی اور علمی کام ، اے ڈی بی اور عالمی بینک کے پروجیکٹوں کے سلسلے میں بات چیت اوران پرعمل درآمد ، انٹر نیشنل کراپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار سیمی ایرڈ ٹراپکس (آئی سی آر آئی ایس اے ٹی ) کے گورننگ بورڈ کا ممبر ہونا اور بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں میں ماہر / ریسورس پرسن کے طور پر شرکت کرنا شامل ہے۔
انہیں حال ہی میں اقوام متحدہ کا ایس اے ایس اے کے اے ڈبلیو اے ایوارڈ 2019 دیا گیا ہے ،جو بحران کے بندوبست کا سب سے مایہ ناز بین الاقوامی ایوارڈ ہے ۔
ڈاکٹر مشرا نے یونیورسٹی آف سیسکس سے معاشیات / ترقیاتی مطالعات میں پی ایچ ڈی کی ہے ، یونیورسٹی آف سیسکس سے ڈیولپمنٹ اکنامکس میں ایم اے کیا ہے اور دہلی اسکول آف اکنامکس سے پہلےدرجے میں معاشیات میں ایم اے کیا ہے ۔ نیز 1970 میں جی ایم کالج (سامبل پور یونیورسٹی ) سے بی اے آنرز (معاشیات ) پہلےدرجے میں پاس کیا اور دیگر مضامین میں ڈسٹنکشن حاصل کی ۔ وہ اوڈیشہ کی تمام یونیورسٹیوں میں معاشیات میں اول درجہ حاصل کرنے والے واحد طالبعلم تھے ۔
انہوں نے تین کتابیں بھی لکھی ہیں اس کے علاوہ بہت سے بین الاقوامی رسالوں میں ان کے مضامین اور جائزے بھی شائع ہوئے ہیں۔