نئی دہلی،28/ اکتوبر میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سب کو نمسکار! 31 اکتوبر ہم کے پیارے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سالگرہ اور ہر سال کی طرح ‘رن فار یونیٹی’ کے لیے ملک کا نوجوان یکجہتی کے لیے دوڑنے کو تیارہوگیا ہے۔ اب تو موسم بھی بہت سہانا ہوتا ہے۔ یہ ‘رن فار یونیٹی’ کے لیے جوش کو اور بڑھانے والا ہے۔ میرا اصرار ہے کہ آپ سب بہت بڑی تعداد میں یکجہتی کی اس دوڑ میں ‘رن فار یونیٹی’ میں ضرور حصہ لیں۔ آزادی سے تقریبا ساڑھے چھ مہینے پہلے 27 جنوری 1947 کو دنیا کی مشہور انٹرنیشنل میگزین‘ٹائم میگزین’ نے جو ایڈیشن شائع کیا تھا، اس کے کور پیج پر سردار پٹیل کا فوٹو لگا تھا، اپنی لیڈ اسٹوری میں انھوں نے ہندوستان کا ایک نقشہ دیا تھا اور یہ ویسا نقشہ نہیں تھا جیسا ہم آج دیکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ہندوستان کا نقشہ تھا جو کئی حصوں میں تقسیم تھا تب 550 سے زیادہ دیسی ریاستیں تھیں۔ بھارت کو لے کر انگریزوں کی دلچسپی ختم ہوچکی تھی لیکن وہ اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوڑنا چاہتے تھے۔‘ٹائم میگزین’ نے لکھا تھا کہ بھارت پر تقسیم تشدد، اشیائے خوردنی کا بحران، مہنگائی اور اقتدار کی سیاست سے جیسے خطرے منڈلا رہے تھے، آگے ‘ٹائم میگزین’ لکھتا ہے کہ ان سب کے درمیان ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں پرونے اور زخموں کو بھرنے کی اہلیت اگر کسی میں ہے تو وہ ہیں سردار ولبھ بھائی پٹیل۔ ‘ٹائم میگزین’ کی اسٹوری آئرن مین کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ کیسے انھوں نے 1920 کی دہائی میں احمدآباد میں آئے سیلاب کو لے کر راحت رسانی کا انتظام کیا۔ کیسے انھوں نے بارڈولی میں ستیہ گرہ کو سمت دی۔ ملک کے لیے ان کی ایمانداری اور عہد بندی ایسی تھی کہ کسان مزدور سے لے کر صنعت کار تک سب ان پر اعتماد کرتے تھے۔ گاندھی جی نے سردار پٹیل سے کہا کہ ریاستوں کے مسائل اتنے پیچیدہ ہیں کہ صرف آپ ہی ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ اور سردار پٹیل نے ایک ایک کر حل نکالا اور ملک کو یکجہتی کے دھاگے میں پرونے کے ناممکن کام کو پورا کردکھایا۔ انھوں نے سبھی ریاستوں کو بھارت میں ضم کرایا۔ چاہے جونا گڑھ کو یا حیدرآباد، تراون کور ہو یا پھر راجستھان کی ریاستیں۔ وہ سردار پٹیل ہی تھے جن کی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کی مہارت سے آج ہم ایک ہندوستان دیکھ پا رہے ہیں۔ یکجہتی کے دھاگے میں بندھے اس ملک کو ہماری بھارت ماں کو دیکھ کرکے ہم فطری طور پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کو عقیدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اس طرح 31 اکتوبر کو سردار پٹیل کی سالگرہ تو اور بھی خاص ہوگی۔ اس دن سردار پٹیل کو سچا خراج عقیدت دیتے ہوئے ہم ‘اسٹیچو آف یونیٹی’ قوم کے نام وقف کریں گے۔ گجرات میں دریائے نرمدا کے ساحل پر قائم کیے گئے اس مجسمے کی اونچائی امریکہ کے ‘اسٹیچو آف لبرٹی’ سے دوگنی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا فلک بوس مجسمہ ہے۔ ہر ہندوستانی اس بات پر اب فخر کرپائے گا کہ دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ بھارت کی سرزمین پر ہے۔ وہ سردار پٹیل جو زمین سے جڑے تھے اب آسمان کی بھی رونق بڑھائے گے۔ مجھے امید ہے کہ ملک کا ہر شہری ‘ماں بھارتی’ کے اس عظیم کارنامے کو لے کر کے دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ سینہ تان کرکے ، سر اونچا کرکے اس کی شان میں گیت گائے گے۔ اور فطری ہے ہر ہندوستانی کو ‘اسٹیچو آف یونیٹی’ دیکھنے کا من کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ ہندوستان سے ہر کونے سے لوگ اب اس کو بھی ایک بہت ہی پسندیدہ سیاحتی مقام کے طور پر پسند کریں گے۔
میرے پیارے بھائیو۔بہنو، کل ہی ہم ، ہم وطنو نے ‘انفینٹری ڈے’ منایا ہے۔ میں ان سبھی کو سلام کرتا ہوں جو ہندوستانی فوج کا حصہ ہیں۔ میں اپنے فوجیوں کے خاندان کو بھی ان کی ہمت کے لیے سلام کرتا ہوں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم سب ہندوستان کے شہری یہ ‘انفینٹری ڈے’ کیوں مناتے ہیں۔ یہ وہی دن ہے جب ہندوستانی فوج کے جوان کشمیر کی زمین پر اترے تھے اور دراندازوں سے وادی کی حفاظت کی تھی۔ اس تاریخی واقعے کا بھی سردار ولبھ بھائی پٹیل سے سیدھا تعلق ہے۔ میں ہندوستان کے عظیم فوجی افسر سیم مانک شاہ کا ایک پرانا انٹرویو پڑھ رہا تھا اُس انٹرویو میں فیلڈ مارشل مانک شاہ اُس وقت کو یاد کر رہے تھے جب وہ کرنل تھے۔ اسی دوران اکتوبر 1947 میں کشمیر میں فوجی مہم شروع ہوئی تھی۔ فیلڈ مارشل مانک شاہ نے بتایا کہ کس طرح سے ایک میٹنگ کے دوران کشمیر میں فوج بھیجنے میں ہونے والی تاخیر کو لے کر سردار ولبھ بھائی پٹیل ناراض ہوگئے تھے۔ سردار پٹیل نے میٹنگ کے دوران اپن خاص انداز میں ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ کشمیر میں فوجی مہم میں ذرا بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیے اور جلد سے جلد اس کا حل نکالا جائے۔ اسی کے بعد فوج کے جوانوں نے کشمیر کے لیے اڑان بھری اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے فوج کو کامیابی ملی۔ 31 اکتوبر کو ہماری سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی کی بھی برسی ہے۔ اندرا جی کو بھی احترام کے ساتھ خراج عقیدت۔
میرے پیارے ہم وطنو، کھیل کس کو پسند نہیں ہے۔ کھیل کی دنیا میں جذبہ، طاقت، ہنرمندی، اسٹیمنا۔ یہ ساری باتیں بہت ہی اہم ہیں۔ یہ کسی کھلاڑی کی کامیابی کی کسوٹی ہوتے ہیں۔ اور یہی چاروں صفات کسی قوم کی تعمیر کے لیے بھی اہم ہوتی ہیں کسی ملک کے نوجوانوں کے اندر اگر یہ ہیں تو وہ ملک نہ صرف معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ترقی کرے گا بلکہ کھیلوں میں بھی اپنا پرچم لہرائے گا۔ حال ہی میں میری دو یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی جکارتہ میں ہوئی ۔ ایشیئن پیراگیمز 2018 کے ہمارے پیرا ایتھیلٹس سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کھیلوں میں بھارت نے کُل 72 تمغے جیت کر نیا ریکارڈ بنایا اور بھارت کی شان بڑھائی۔ ان سبھی لائق پیرا یتھلیٹ سے مجھے ذاتی طور پر ملاقات کا موقع ملا اور میں نے انھیں مبارکباد دی۔ ان کی مضبوط قوت ارادی اور ہر مخالف صورتحال سے لڑکر آگے بڑھنے کا ان کا جذبہ ہم سبھی ہم وطنو ں کو تحریک دینے والا ہے۔ اسی طرح سے ارجنٹینا میں ہوئی سمر یوتھ اولمپکس 2018 میں جیتنے والوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ یوتھ اولمپکس 2018 میں ہمارے نوجوانوں نے اب تک کا سب سے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں ہم نے 13 تمغوں کے علاوہ مکس ایونٹ میں 3 اور تمغے حاصل کئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس بار ایشیئن گیمز میں بھی بھارت کا مظاہرہ بہترین رہا ہے۔ دیکھئے پچھلے کچھ منٹوں میں میں نے کتنی بار اب تک کا سب سے اچھا ، اب تک کا سب سے شاندار ایسے لفظوں کا استعمال کیا۔ یہ ہے آج کے ہندوستانی کھیلوں کی کہانی جو دنوں دن نئی اونچائیاں چھو رہی ہے۔ بھارت صرف کھیلوں میں ہی نہیں بلکہ ان شعبوں میں بھی نئے ریکارڈ بنا رہا ہے جن کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں گیا تھا۔ مثال کے طور پر میں آپ کو پیرا ایتھلیٹ نارائن ٹھاکر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جنھوں نے 2018 کے ایشیئن پیراگیمز میں ملک کے لیے ایتھلٹکس میں سونے کا تمغہ جیتا ہے۔ وہ جنم سے ہی دویانگ ہیں۔ جب آٹھ برس کے ہوئے تب انھوں نے اپنے والد کو کھو دیا۔ پھر اگلے آٹھ برس انھوں نے یتیم خانے میں بتائے۔ یتیم خانہ چھوڑنے کے بعد زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ڈی ٹی سی کی بسوں کو صاف کرنے اور دلّی میں سڑک کے کنارے ڈھابوں میں ویٹر کے طورپر کام کیا۔ آج وہی نارائن بین الاقوامی تقریبات میں بھارت کے لیے سونے کا تمغہ جیت رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بھارت کی کھیلوں میں بہترین کارکردگی کے بڑھتے دائرے کو دیکھئے۔ بعد میں جوڈو میں کبھی بھی، چاہے وہ سینئر سطح ہو یا جونیئر سطح۔ کوئی اولمپک تمغہ نہیں جیتا ہے لیکن تبابی دیوی نے یوتھ اولمپکس میں جوڈو میں چاندی کا تمغہ جیت کر تاریخ رقم کردی۔ 16 سال کی نوجوان کھلاڑی تبابی دیوی منی پور کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہیں، ان کے والد ایک مزدور ہیں جبکہ ماں مچھلی بیچنے کا کام کرتی ہے۔ کئی بار ان کے خاندان کے سامنے ایسا بھی وقت آیا جب ان کے پاس کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ایسے حالات میں بھی تبابی دیوی کا حوصلہ ڈگمگایا نہیں اور انھوں نے ملک کے لیے تمغہ جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ ایسے تو لاتعداد واقعات ہیں، ہرایک زندگی تحریک کا ذریعہ ہے۔ ہر نوجوان کھلاڑی اس کا جذبہ، نیو انڈیا کی پہچان ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کو یاد ہوگا کہ ہم نے 2017 میں فیفا انڈر 17 ورلڈ کپ کا کامیاب انعقاد کیا تھا پوری دنیا نے بیحد کامیاب ٹورنامنٹ کے طور پر اس کی تعریف بھی کی تھی۔ فیفا انڈر 17 ورلڈ کپ میں ناظرین کی تعداد کے معاملے میں بھی ایک نیا ریکارڈ تیار ہوا تھا۔ ملک کے الگ الگ اسٹیڈیم میں 12 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے فٹ بال میچوں کا لطف اٹھایا اور نوجوان کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اس سال بھارت کو بھوونیشور میں مرد ہاکی ورلڈ کپ 2018 کے انعقاد کا موقع ملا ہے۔ ہاکی ورلڈ 28 نومبر سے شروع ہوکر 16 دسمبر تک چلے گا۔ ہر ہندوستانی چاہے وہ کوئی بھی کھیل کھیلتا ہو یا کسی بھی کھیل میں اس کی دلچسپی ہو، ہاکی کے لیے ایک لگاؤ اور کے من میں ضرور ہوتا ہے۔ ہندوستان کی ہاکی میں ایک سنہری تاریخ رہی ہے ماضی میں بھارت کو کئی مسابقتوں میں سونے کے تمغے ملے ہیں اور ایک بار ورلڈ کپ بھی جیتا ہے۔ بھارت نے ہاکی کو کئی عظیم کھلاڑی بھی دیئے ہیں۔ دنیا میں جب بھی ہاکی کا ذکر ہوگا تو بھارت کے ان عظیم کھلاڑیوں کے بغیر ہاکی کی کہانی ادھوری رہے گی۔ ہاکی کے جادو گر میجر دھیان چند سے پوری دنیا واقف ہے۔ اس کے بعد بلوندر سنگھ سینئر، لیسلی کلوڈیس، محمد شاہد، اودھم سنگھ سے لے کر دھنراج پلئی تک ہاکی نے ایک بڑا سفر طے کیا ہے۔ آج بھی ٹیم انڈیا کے کھلاڑی اپنی محنت اور لگن کی بدولت ملنے والی کامیابیوں سے ہاکی کی نئی نسل کو تحریک دے رہے ہیں۔ کھیل کے شائقین کے لیے دلچسپ میچوں کو دیکھنا ایک اچھا موقع ہے۔ بھوونیشور جائیں اور نہ صرف ہندوستانی ٹیم کا حوصلہ بڑھائیں بلکہ سبھی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اڈیشہ ایک ایسی ریاست ہے جس کی اپنی شاندار تاریخ ہے۔ مالامال ثقافتی وراثت ہے اور وہاں کے لوگ بھی گرمجوشی بھرے ہوتے ہیں۔ کھیل کے شائقین کے لیے یہ اڈیشہ دیکھنے کا بھی ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اس دوران کھیلوں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ہی آپ کونارک کے سوریہ مندر پوری میں بھگوان جگن ناتھ مندر اور چلکا لیک سمیت کئی عالمی شہرت یافتہ قابل دید اور پاکیزہ مقامات بھی ضرورت دیکھ سکتے ہیں۔ میں اس مسابقت کے لیے ہندوستانی مرد ہاکی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور انھیں یقین دلاتا ہو ں کہ سوا سو کروڑ ہندوستانی ان کے ساتھ اور ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ اور بھارت آنے والی دنیا کی سبھی ٹیموں کے لیے بھی بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، سماجی کام کے لیے جس طرح سے لوگ آگے آرہے ہیں اس کے لیے رضاکار کے طور پر کام کر رہے ہیں وہ سبھی ہم وطنو کے لیے محرک ہے، جوش بھرنے والا ہے، ویسے سیوا پرمودھرمہ، یہ بھارت کی وراثت ہے۔ صدیوں پرانی ہماری روایت ہے اور معاشرے میں ہر کونے میں ، ہر زمرے میں اس کی خوشبو آج بھی ہم محسوس کرتے ہیں لیکن نئے دور میں، نئے طریقے سے، نئی نسل، نئی امنگ سے، نئےجوش سے، نئے خواب لے کر کے ان کاموں کو کرنے کے لیے آگے آرہی ہے۔ گذشتہ دنوں میں ایک پروگرام میں گیا تھا جہاں ایک پورٹل لانچ کیا گیا ہے۔ جس کا نام ہے‘سیلف 4 سوسائٹی’ MyGov اور ملک کی آئی ٹی اور الیکٹرانکس صنعت نے اپنے ملازمین کو سماجی سرگرمیوں کے لیے ترغیب دینے اور انھیں اس کے مواقع فراہم کرانے کے لیے اس پورٹل کو لانچ کیا ہے۔ اس کام کے لیے ان میں جو جوش اور لگن ہے اسے دیکھ کر ہر ہندوستانی کو فخر محسوس ہوگا۔ آئی ٹی ٹو سوسائٹی میں نہیں ہم، اہم نہیں ویم، ذاتیت سے اجتماعیت کے سفر کی اس میں مہک ہے۔ کوئی بچوں کو پڑھا رہا ہے تو کوئی بزرگوں کو پڑھا رہا ہے، کوئی صفائی میں لگا ہے، تو کوئی کسانوں کی مدد کر رہا ہے اور یہ سب کرنے کے پیچھے کوئی لالچ نہیں ہے بلکہ اس میں سپردگی اور عزم کا بے غرض جذبہ ہے۔ ایک نوجوان نے تو دویانگوں کی وھیل چیئرباسکٹ بال ٹیم کی مدد کے لیے خود وھیل چیئرباسکٹ بال سیکھا۔ یہ جو جذبہ ہے، یہ جو سپردگی ہے، یہ مشن موڈ ایکٹیویٹی ہے۔ کیا کسی ہندوستانی کو اس بات کا فخر نہیں ہوگا ! ضرور ہوگا! ‘میں نہیں ہم’ کا یہ جذبہ ہم سبھی کو تحریک دے گا۔
میرے پیارے بھائیو بہنو، اس بار جب میں ‘من کی بات’ کو لے کر آپ لوگوں کے مشورے دیکھ رہا تھا تو مجھے پڈوچیری سے جناب منیش مہاپاتر کا ایک بہت ہی دلچسپ بات دیکھنے کو ملی۔ انھوں نے MyGov پر لکھا ہے برائے مہرانی آپ من کی بات میں اس بارے میں بات کیجئے کہ کیسے ہندوستان کے قبائل اور ان کے طور طریقے اور روایتیں قدرت کے ساتھ بقائے باہمی کی بہترین مثالیں ہیں۔ پائیدار ترقی کے لیے کیسے ان کی روایتوں کو ہمیں اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ان سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ منیش جی۔ اس موضوع کو من کی بات کے سامعین کے درمیان رکھنے کے لیے میں آپ کی تعریف کرتا ہوں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہمیں اپنے شاندار ماضی اور ثقافت کی جانب دیکھنے کے لیے تحریک دیتا ہے۔ آج ساری دنیا خصوصی طور پر مغربی ممالک ماحولیات کے تحفظ کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اور متوازن اطوار زندگی ، بیلنسڈ لائف کے لیے نئے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ویسے آج ہمارا ہندوستان بھی اس مسئلے سے اچھوتا نہیں ہے، لیکن اس کے حل کے لیے ہمیں بس اپنے اندر جھانکنا ہے۔ اپنی مالا مال تاریخ، روایتوں کو دیکھنا ہے اور خاص طور سے اپنے قبائلی لوگوں کی طرز زندگی کو سمجھنا ہے۔ قدرت کے ساتھ ہم آہنگی بناکرکے رہنا ، ہمارے آدی واسی لوگوں کی ثقافت میں شامل رہا ہے۔ ہمارے آدی واسی بھائی بہن پیڑ پودوں اور پھولوں کی پوجا دیوی دیوتاؤں کی طرح کرتے ہیں۔ وسطی ہندوستان کے بھیل قبیلے خاص طور سے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں لوگ پیپل اور ارجن جیسے پیڑوں کی عقیدت کے ساتھ پوجا کرتے ہیں۔ راجستھان جیسے ریگستان میں بشنوئی سماج نے ماحولیات کے تحفظ کا راستہ ہمیں دکھایا ہے خاص طور سے درختوں کے تحفظ کے ضمن میں انھیں اپنی زندگی کی قربانی کرنا منظور ہے لیکن ایک بھی پیڑ کو نقصان پہنچے یہ انھیں منظور نہیں ہے۔ اروناچل کے مشمی، شیروں کے ساتھ خود کا رشتہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں انھیں وہ اپنا بھائی بہن تک مانتے ہیں۔ ناگالینڈ میں بھی شیروں کو جنگلوں کے محافظ کے طور پر دیکھ جاتا ہے۔ مہاراشٹر کے وارلی کمیونٹی کے لوگ شیر کو مہمان مانتے ہیں۔ ان کے لیے شیر کی موجودگی دولتمندی لانے والی ہوتی ہے۔ وسطی ہندوستان کول کمیونٹی کے درمیان یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی خود کی قسمت شیروں سے جڑی ہے۔ اگر شیروں کو نوالہ نہیں ملا تو گاؤں والوں کو بھی بھوکا رہنا پڑے گا۔ ایسی ان کی عقیدت ہے۔ وسطی ہندوستان کے گونڈ قبیلے ‘بریڈنگ سیزن’ میں کیتھن ندی کے کچھ حصوں میں مچھلی پکڑنا بند کردیتے ہیں۔ ان علاقوں کو وہ مچھلیوں کو پناہ دینے والی جگہ مانتے ہیں۔ اسی رواج کے چلتے انھیں صحت مند اور بھرپور مچھلیاں ملتی ہے۔ آدی واسی کمیونٹی اپنے گھروں کو قدرتی سامان سے بناتے ہیں۔ یہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول کے موافق بھی ہوتے ہیں۔ مغربی ہندوستان کے نیل گری پٹھار کے سنسان علاقوں میں ایک چھوٹا گھومنتو فرقہ توڑا، روایتی طور پر ان کی بستیاں علاقائی طور پر دستیاب چیزوں سے ہی بنی ہوتی ہیں۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو، یہ سچ ہے کہ قبائلی کمیونٹی بہت پرامن اور آپس میں میل جول کے ساتھ رہنے میں یقین رکھتی ہے۔ لیکن جب کوئی ان کے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچاتا ہے، تو وہ اپنے حقوق کے لئے لڑنے سے ڈرتے بھی نہیں ہیں۔یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہمارے سب سے پہلے مجاہدین آزادی میں قبائلی لوگ ہی ۔ بھگوان برسا منڈا کو کون بھول سکتا ہے جنھوں نے اپنی جنگلات کی زمین کی حفاظت کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف سخت جدوجہد کی۔ میں نے جو بھی باتیں کہیں ہیں ان کی فہرست کافی لمبی ہے۔آدی واسی کمیونٹی کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ قدرت کے ساتھ ہم آہنگی بناکر کیسے رہا جاتا ہے۔ اور آج ہمارے پاس جو جنگلوں کی جائیداد بچی ہے اس کے لیے ملک ہمارے آدی واسیوں کا مقروض ہے۔ آیئے ہم ان کے تئیں احترام کے جذبے کا اظہار کریں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ‘من کی بات’ میں ہم ان اشخاص اور اداروں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں جو سماج کے لیے کچھ غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔ ایسے کام جو دیکھنے میں تو معمولی نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہمارے ذہنیت بدلنے میں ، معاشرے کی سمت بدلنے میں۔ کچھ دن پہلے میں پنجاب کے کسان بھائی، گوربچن سنگھ جی کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ ایک معمولی اور محنتی کسان گربچن سنگھ جی کے بیٹے کی شادی تھا۔ اس شادی سے پہلے گربچن جی نے دلہن کے والدین سے کہا تھا کہ ہم شادی سادگی سے كریںگےبارات ہوں اور چیزیں ہوں، خرچہ کوئی زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اسے ایک بہت سادہ تقریب ہی رکھنا ہے، پھر اچانک انہوں نے کہا لیکن میری ایک شرط ہے اور آج کل جب شادی بیاہ کے وقت شرط کی بات آتی ہے تو عام طور پر لگتا یہی ہے کہ سامنے والا کوئی بڑی مانگ کرنے والا ہے۔ کچھ ایسی چیزیں مانگے گا جو شاید بیٹی کے خاندان والوں کے لئے مشکل ہو جائیں، لیکن آپ کو جان کر کے حیرت ہوگی یہ تو بھائی گربچن سنگھ تھے سیدھے سادے کسان، انہوں نے دلہن کے والد سے جو کہا، جو شرط رکھی، وہ ہمارے معاشرے کی حقیقی طاقت ہے ۔گربچھن سنگھ نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے وعدہ کیجئے کہ اب آپ کھیت میں پرالی نہیں جلائیں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کتنی بڑی سماجی طاقت ہے اس میں گوربچن سنگھ جی کی یہ بات لگتی تو بہت معمولی ہے لیکن یہ بتاتی ہے کہ ان کی شخصیت کتنی بڑی ہے، اور ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت خاندان ہوتے ہیں جو ذاتی مفاد کو سماجی مفاد کے تناظر میں تبدیل کرتے ہیں۔ جناب گوربچن سنگھ جی کے خاندان نے ہمیں ایسی ایک مثال دی ہے۔ میں نے پنجاب کے ایک اور گاؤں كللر ماجرا کے بارے میں پڑھا ہے جو نابھا کے پاس ہےكللر ماجرا اس لئے مشہور ہوا کیونکہ وہاں کے لوگ دھان کی پرالی جلانے کی بجائے اس جوت كر اسی مٹی میں ملا دیتے ہیں اس کے لئے جو ٹیکنالوجی استعمال میں لانی ہوتی ہے وہ ضرور لاتے ہیں۔ بھائی گوربچن سنگھ جی کو مبارکباد۔ کللرماجرا اور ان سبھی جگہوں کے لوگوں کو مبارک جو ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے اپنی بہترین کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سب صحت مند طرز زندگی کی ہندوتانی وراثت کو ایک سچے وارث کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس طرح بوند بوند سے سمندر بن جاتا ہے اسی طرح چھوٹے چھوٹے بیداری والے اور سرگرمی والےمثبت کام ہمیشہ مثبت ماحول پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے گرنتھوں میں کہا گیا ہے:
ॐ द्यौः शान्तिः अन्तरिक्षं शान्तिः,
पृथिवी शान्तिः आपः शान्तिः औषधयः शान्तिः।
वनस्पतयः शान्तिः विश्वेदेवाः शान्तिः ब्रह्म शान्तिः,
सर्वं शान्तिःशान्तिरेव शान्तिः सामा शान्तिरेधि||
ॐ शान्ति: शान्ति:शान्ति:||
اس کا مطلب ہے اے ایشور تینوں لوکوں میں ہر طرف امن کا قیام ہو، پانی میں، زمین میں، آسمان میں ، خلا میں، آگ میں، ہوا میں، دوا میں ، نباتات میں، باغ میں، لاشعور میں، پوری کائنات میں امن قائم کرے۔
اوم شانتی: شانتی: شانتی۔۔
جب کبھی بھی عالمی امن کی بات ہوتی ہے تو اس کو لے کر بھارت کا نام اور اس کا تعاون سنہرے الفاظ میں لکھا دکھائی دے گا۔ بھارت کے لیے اس سال 11 نومبر کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ 11 نومبر کو آج سے 100 سال قبل، پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی، اس کے اختتام کو 100 سال پورے ہو رہے ہیں۔ یعنی اس دوران ہوئی بھارتی تباہی اور جانی نقصان کے اختتام کی بھی ایک صدی پوری ہوجائے گی۔ ہندوستان کے لئے پہلی عالمی جنگ ایک اہم واقعہ تھیں۔ صحیح معنوں میں کہا جائے تو ہمارا اس جنگ سے کوئی سیدھا لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہمارے فوجی بہادری سے لڑے اور بہت بڑا رول نبھایا۔ سب سے بڑی قربانی دی۔ ہندوستانی فوجیوں نے دنیا کو دکھایا کہ جب جنگ کی بات آتی ہے تو وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں ہمارے فوجیوں نے دشوار گذار علاقوں میں مخالف حالات میں بھی اپنی بہادری دکھائی ہے۔ ان سب کے پیچھے ایک ہی مقصد رہا - امن کا دوبارہ قیام۔ پہلی جنگ عظیم میں دنیا نے تباہی کا ننگا ناچ دیکھا۔ تخمینوں کے مطابق، تقریبا ایک کروڑ فوجی اور تقریبا اتنے ہی شہریوں نے اپنی جان گنوائی۔ اس سے پوری دنیا نے امن کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کو سمجھا۔ پچھلے 100 برسوں میں امن کی تشریح بدل گئی ہے۔ آج امن اور ہم آہنگی کا مطلب صرف جنگ کا نا ہونا نہیں ہے۔ دہشت گردی سے لیکر تبدیلی آب وہوا، اقتصادی ترقی سے لے کر سماجی انصاف ان سب کے لیے عالمی تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب سے غریب آدمی کی ترقی ہی امن کی سچی علامت ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے شمال مشرقی بات کی کچھ اور ہے۔ شمال مشرق کی قدرتی خوبصورتی بے مثال ہے۔ اور یہاں کے لوگ بہت قابلیت رکھتے ہیں۔ ہمارا شمال مشرق اب تمام بہترین کاموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ شمال مشرق ایک ایسا علاقہ ہے جس نے آرگینک کھیتی میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ کچھ دن پہلے سکم میں پائیدار نظام خوراک کی حوصلہ افزائی کے لیے معزز فیوچر پالیسی گولڈ ایوارڈ 2018 حاصل کیا ہے۔ یہ ایوارڈ اقوام متحدہ سے منسلک ایف اے او یعنی فوڈ ایند ایگریکلچر آرگنائزیشن کی طرف سے دیا جاتاہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس شعبے نے بہترین پالیسی سازی کے لیے دیئے جانے والا یہ انعام اس شعبےمیں آسکر کے برابر ہے۔ یہی نہیں ہمارے سکم میں 25 ملکوں کی 51 نامزد پالیسیوں کو پچھاڑ کر یہ ایوار جیتا۔ اس کے لیے میں سکم کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر اختتام پر ہے۔ موسم میں بھی بہت تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ اب ٹھنڈک کے دن شروع ہوچکے ہیں اور موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ تہواروں کا بھی موسم آگیا ہے۔ دھن تیرس، دیوالی، بھیادوج، چھٹ ایک طریقے سے کہا جائے تو نومبر کا مہینہ تہواروں کا ہی مہینہ ہے۔ آپ سبھی ہم وطنوں کو ان سبھی تہواروں کے لیے ڈھیر ساری نیک خواہشات۔
میں آپ سب سے اصرار کروں گا ان تہوروں میں اپنا بھی دھیان رکھیں، اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں اور سماج کے مفاد کا بھی دھیان رکھیں، مجھے یقین ہے کہ یہ تہوار نئے عزم کا موقع ہے۔ یہ تہوار نئے فیصلوں کا موقع ہے۔ یہ تہوار ایک مشن موڈ میں آگے جانے کا، مضبوط عزم کرنے کا، آپ کی زندگی میں بھی موقع بن جائے۔ آپ کی ترقی ملک کی ترقی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کی جتنی زیادہ ترقی ہوگی اتنی ملک کی ترقی ہوگی۔ میری آپ سب کے لیے بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ
This 31st October, Let us 'Run For Unity': PM#MannKiBaat pic.twitter.com/O4vWDInmNP
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
A @TIME Magazine story from 1947 on Sardar Patel gave us various insights: PM #MannKiBaat pic.twitter.com/AKRyOJBC3w
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
इस 31 अक्तूबर को सरदार पटेल की जयन्ती तो और भी विशेष होगी - इस दिन सरदार पटेल को सच्ची श्रद्धांजलि देते हुए हम Statue of Unity राष्ट्र को समर्पित करेंगे : PM#MannKiBaat pic.twitter.com/BH25j2LqYn
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
कल ही हम देशवासियों ने ‘Infantry Day’ मनाया है |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
क्या आप जानते हैं कि हम सब हिन्दुस्तान के नागरिक ये ‘Infantry Day’ क्यों मनाते हैं: PM#MannKiBaat pic.twitter.com/gwOV87d6MJ
खेल जगत में spirit, strength, skill, stamina - ये सारी बातें बहुत ही महत्वपूर्ण हैं |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
यह किसी खिलाड़ी की सफलता की कसौटी होते हैं और यही चारों गुण किसी राष्ट्र के निर्माण के भी महत्वपूर्ण होते हैं : PM pic.twitter.com/zBotJPF6md
इस वर्ष भारत को भुवनेश्वर में पुरुष हॉकी वर्ल्ड कप 2018 के आयोजन का सौभाग्य मिला है | Hockey World Cup 28 नवम्बर से प्रारंभ हो कर 16 दिसम्बर तक चलेगा |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
भारत का हॉकी में एक स्वर्णिम इतिहास रहा है : PM pic.twitter.com/Uaz01HzDqX
पिछले दिनों मैं एक कार्यक्रम में गया था जहाँ एक portal launch किया गया है, जिसका नाम है- ‘Self 4 Society’.
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
इस कार्य के लिए उनमें जो उत्साह और लगन है उसे देख कर हर भारतीय को गर्व महसूस होगा: PM pic.twitter.com/TwZTIQD3pp
IT to Society,
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
मैं नहीं हम,
अहम् नहीं वयम्,
स्व से समष्टि की यात्रा की इसमें महक है: PM pic.twitter.com/jPNIuAenec
आज सारा विश्व पर्यावरण संरक्षण की चर्चा कर रहे हैं और संतुलित जीवनशैली के लिए नए रास्ते ढूंढ रहे हैं |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
प्रकृति के साथ सामंजस्य बनाकर के रहना हमारे आदिवासी समुदायों की संस्कृति में शामिल रहा है
हमारे आदिवासी भाई-बहन पेड़-पौधों और फूलों की पूजा देवी-देवताओं की तरह करते हैं : PM pic.twitter.com/updxxuAaZc
यह आश्चर्य की बात नहीं है कि हमारे सबसे पहले स्वतंत्र सेनानियों में आदिवासी समुदाय के लोग ही थे |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
भगवान बिरसा मुंडा को कौन भूल सकता है: PM pic.twitter.com/URgNsCUfKR
जब कभी भी विश्व शान्ति की बात होती है तो इसको लेकर भारत का नाम और योगदान स्वर्ण अक्षरों में अंकित दिखेगा : PM#MannKiBaat pic.twitter.com/ntPB9yaYXp
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
हमारे North East की बात ही कुछ और है |
— PMO India (@PMOIndia) October 28, 2018
पूर्वोत्तर का प्राकृतिक सौन्दर्य अनुपम है और यहाँ के लोग अत्यंत प्रतिभाशाली है |
हमारा North East अब तमाम best deeds के लिए भी जाना जाता है : PM pic.twitter.com/2bNXEc5Dq6