وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی صدارت  میں مرکزی کابینہ نے ماہی گیری کے شعبے کو باضابطہ بنانے اور ماہی گیری کے  بہت چھوٹے  اور چھوٹے کاروباری اداروں  کی مدد کرنے کے لیے پردھان منتری متسیا سمپدا کے تحت مرکزی سیکٹر کی ذیلی اسکیم ’’ پردھان منتری متسیا کسان سمردھی سہ یوجنا (پی ایم – ایم کے ایس ایس وائی )  ‘‘  کو منظوری دی ، جس میں  تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مالی سال 24-2023 ء  سے مالی سال 27-2026 ء  کے اگلے چار  برسوں  کے دوران 6000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری  کی گنجائش ہو گی ۔

اسکیم کے  لیے اخراجات

پی ایم  ایم ایس وائی  کی مرکزی  سیکٹر کی اسکیم کے تحت  یہ ذیلی اسکیم 6000 کروڑ روپے  کے اخراجات سے نافذ کی جائے گی ، جس میں  50 فی صد یعنی 3000 کروڑ روپے عالمی بینک اور اے ایف ڈی  برونی فائنانسنگ سمیت  سرکاری  فنڈ  پر مشتمل ہوں گے ، جب کہ باقی 50 فی صد یعنی 3000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری فیض یافتگان  /  پرائیویٹ سیکٹر سے حاصل ہونے کی امید ہے ۔ اس اسکیم کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مالی سال 24-2023 ء سے مالی سال 27-2026 ء تک چار برسوں کے لیے نافذ کیا جائے گا۔

مطلوبہ مستفیدین :

  • ماہی گیر، مچھلی  پالنے والے کسان (ایکوا کلچر) ، مچھلی  کی صنعت میں کام کرنے والے، مچھلی فروش  یا  مچھلی کے کاروبار میں براہ راست شامل دیگر افراد ۔
  • مالکانہ فرم ، ساجھیداری فرموں اور کمپنیوں کی شکل میں بھارت میں رجسٹرڈ بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری ادارے ، سوسائٹیاں ، محدود  ذمہ داری والی ساجھیداریاں ( ایل ایل پیز ) ، امدادِ باہمی کے ادارے ، فیڈریشن،  خود امدادی گروپوں ( ایس ایچ جیز ) جیسے گاؤں کی سطح کے ادارے،  مچھلی پالنے والے کسانوں کی تنظیمیں  ( ایف ایف پی اوز ) اور  ماہی گیری  اور ایکوا کلچر کی قدر میں اضافہ کرنے والے اسٹارٹ اَپس وغیرہ ۔
  • ایف ایف پی اوز میں  میں  کسانوں کے پیداواری ادارے ( ایف پی اوز ) بھی شامل ہیں ۔
  • دیگر  کوئی بھی  فیض یافتگان ، جنہیں حکومت کے ماہی گیری کے  محکمے کے ذریعے مستفیدین کے طور پر شامل کیا گیا ہو ۔

روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت سمیت اہم اثرات

  • 40 لاکھ چھوٹے اور   بہت چھوٹے  کاروباری اداروں  کو کام کی بنیاد پر شناخت فراہم کرنے کے لیے ایک نیشنل فشریز ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنانا۔
  • ماہی گیری کے شعبے کو بتدریج باقاعدہ بنانا اور ادارہ جاتی قرض تک رسائی فراہم کرنا۔ یہ اقدام 6.4 لاکھ  بہت چھوٹے کاروباری اداروں  اور 5500  فشریز کوآپریٹیو کو ادارہ جاتی قرض تک رسائی فراہم کرنے  میں مدد کرے گا۔
  • ماہی پروری میں روایتی سبسڈی سے بتدریج کارکردگی پر مبنی مراعات کی طرف منتقلی  ۔
  • یہ پروگرام ویلیو چین کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور 55000  ہدف شدہ  بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں کی مدد کرکے محفوظ، معیاری مچھلی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔
  • ماحولیات اور پائیداری کے اقدامات کا فروغ ۔
  • کاروبار کرنے میں آسانی اور شفافیت  کو آسان بنانا۔
  • پیداوار، پیداواری صلاحیت کو  مستحکم کرنے کے لیے ایکوا کلچر کے لیے انشورنس کوریج کے ذریعے بیماریوں کی وجہ سے آبی زراعت کے فصلوں کے نقصانات کے مسائل کو حل کرنا ۔
  • ویلیو ایڈیشن، ویلیو ریلائزیشن اور ویلیو تخلیق کے ذریعے برآمدی مسابقت کو بڑھانا ۔
  • ویلیو چین کی افادیت کی وجہ سے بڑھے ہوئے منافع کے مارجن کی وجہ سے آمدنی میں اضافہ  کرنا ۔
  • مقامی مارکیٹ میں مچھلی اور فشریز کی مصنوعات کے معیار میں بہتری لانا ۔
  • ملک میں موجود  منڈیوں کو مضبوط اور  مستحکم کرنا ۔
  • کاروبار کی ترقی،  روزگار  کی تخلیق اور کاروباری مواقع کی  تشکیل  میں سہولت فراہم کرنا۔
  • ملازمتوں اور محفوظ کام کی جگہوں کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانا ۔
  • 75000 خواتین کو ملازمت دینے پر خصوصی زور دینے کے ساتھ 1.7 لاکھ نئے روزگار  پیدا کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کا مقصد بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں کی ویلیو چین میں مسلسل 5.4 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔

 

پی ایم – ایم کے ایس ایس وائی  کے اغراض و مقاصد:

  1. ماہی گیروں، مچھلی کاشتکاروں اور معاون کارکنوں کی خود رجسٹریشن کے ذریعے غیر منظم ماہی گیری کے شعبے کو ایک قومی ماہی گیری سیکٹر کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے باضابطہ بنانا  ،جس میں بہتر خدمات کی فراہمی کے لیے مچھلیوں کے کارکنوں کی کام پر مبنی ڈیجیٹل شناخت کی تخلیق شامل ہے۔
  2. بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں  کو ماہی گیری  کے ادارہ جاتی  قرضے  کی  رسائی میں سہولت فراہم کرنا۔
  3. ایکوا کلچر انشورنس خریدنے کے لیے فائدہ اٹھانے والوں کو ایک بار کی ترغیب فراہم کرنا۔
  4. ماہی پروری اور آبی زراعت کے بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کو پرفارمنس گرانٹس کے ذریعے مراعات دینا  ، جس میں ماہی گیری کے شعبے کی ویلیو چین کی افادیت کو بہتر بنانے سمیت ملازمتوں کی تخلیق اور دیکھ بھال شامل ہے۔
  5. بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں کو پرفارمنس گرانٹس کے ذریعے مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کے تحفظ اور کوالٹی ایشورنس کے نظام کو اپنانے اور بڑھانے کے لیے ترغیب دینے سمیت  روزگار کی تشکیل اور دیکھ بھال کے مواقع فراہم کرنا ۔

 

نفاذ کی حکمت عملی:

ذیلی اسکیم میں درج ذیل اہم اجزاء  شامل ہیں:

اے ۔ جزو 1 – اے : ماہی گیری کے شعبے کو باضابطہ بنانا اور ماہی گیری کے بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کو حکومت ہند کے پروگراموں تک رسائی میں سہولت فراہم کرنا۔

ماہی پروری، ایک غیر منظم شعبہ ہونے کی وجہ سے ، مچھلی پالنے والوں اور دیگر معاون اداروں جیسے مچھلی کے کارکنوں،  مچھلی فروشوں اور پروسیسرز کے انداراج  کے ذریعے بتدریج رسمی شکل دینے کی ضرورت ہے  ، جس میں قومی سطح پر  ، اس شعبے میں کام کرنے والے بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری ادارے شامل ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک نیشنل فشریز ڈیجیٹل پلیٹ فارم ( این ایف ڈی پی )  بنایا جائے گا اور تمام  متعلقہ فریقوں  کو  ، اس پر رجسٹر کرنے کے لیے متحرک کیا جائے گا۔ انہیں مالی مراعات فراہم کرنے کے ذریعے ایسا کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔  این ایف ڈی پی  مالی مراعات کی تقسیم سمیت متعدد کام انجام دے گا۔  اس میں تربیت اور توسیعی معاونت، مالی خواندگی میں بہتری، مالی معاونت کے ذریعے پروجیکٹ کی تیاری اور دستاویزات کی سہولت فراہم کرنے، پروسیسنگ فیس اور اس طرح کے دیگر چارجز کی ادائیگی، اگر کوئی ہو تو اور موجودہ فشریز کوآپریٹو سوسائٹیز کو مضبوط کرنے جیسی سرگرمیاں کرنے کی بھی تجویز ہے۔

 

بی ۔ جزو 1 – بی :  ایکوا کلچر بیمہ کی سہولت:

بیمے کی مختلف اقسام کی تخلیق میں سہولت فراہم کرنے اور پروجیکٹ کی مدت کے دوران کم از کم 1 لاکھ ہیکٹر آبی زراعت کے فارموں کا احاطہ کرنے کی تجویز ہے تاکہ آپریشن کا پیمانہ فراہم کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ 4 ہیکٹر  پر مشتمل تالاب اور اس سے کم کے فارم کے ساتھ  بیمہ کے لیے تیار کسانوں کو ایک بار کی ترغیب دینے کی تجویز ہے۔ ’ایک بار کی ترغیب ‘پریمیم کی لاگت کے 40 فی صد  کی شرح سے ہوگی  ، جس کی حد 25000 روپے فی ہیکٹر آبی زراعت فارم کے واٹر اسپریڈ ایریا کے ساتھ ہوگی۔ واحد کسان کو زیادہ سے زیادہ مراعات قابل ادائیگی ہوگی ، 100000 روپے اور ترغیب کے لیے زیادہ سے زیادہ فارم کا سائز 4 ہیکٹر  پر مشتمل تالاب  کا علاقہ  ہے۔ فارموں کے علاوہ ایکوا کلچر کے زیادہ گہرے مقامات  والی   اقسام  جیسے کیج کلچر، ری سرکولیٹری ایکوا کلچر سسٹم  ( آر اے ایس ) ، بایو فلوک، ریس ویز وغیرہ کے لیے قابل ادائیگی مراعات پریمیم کا 40 فی صد ہے۔ قابل ادائیگی زیادہ سے زیادہ ترغیب 1 لاکھ ہے اور زیادہ سے زیادہ یونٹ سائز  1800  ایم 3  کا ہوگا۔  ’ ایک بار کی ترغیب ‘ کا مذکورہ بالا فائدہ صرف ایک فصل کے لیے خریدے گئے ایکوا کلچر انشورنس کے لیے فراہم کیا جائے گا یعنی ایک فصل سائیکل کے لیے ہو گا ۔ ایس سی، ایس ٹی اور خواتین استفادہ کنندگان کو عام زمرہ جات کے لیے قابل ادائیگی مراعات کے 10 فی صد  پر اضافی مراعات فراہم کی جائیں گی۔ اس سے آبی زراعت کی انشورنس مصنوعات کے لیے ایک مضبوط مارکیٹ  کی تشکیل  کی امید ہے اور انشورنس کمپنیوں کو مستقبل میں پرکشش بیمہ مصنوعات کے ساتھ آنے کے قابل بنایا جا سکے گا۔

سی ۔ جزو 2 : ماہی گیری کے شعبے کی ویلیو چین کی افادیت کو بہتر بنانے کے لیے  بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کی مدد کرنا:

یہ جزو متعلقہ تجزیات اور آگاہی مہموں کے ساتھ کارکردگی گرانٹس کے نظام کے ذریعے ماہی گیری کے شعبے میں ویلیو چین کی افادیت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تجویز ہے کہ  بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کو خواتین کے لیے ترجیح کے ساتھ ملازمتوں کی پیداوار، تخلیق اور دیکھ بھال میں دوبارہ شامل ہونے کی ترغیب دی جائے اور قابل پیمائش پیرامیٹرز کے ایک سیٹ کے تحت منتخب ویلیو چینز کے اندر کارکردگی گرانٹس کی فراہمی کے ذریعے ویلیو چین کی افادیت کو بڑھایا جائے۔

کارکردگی پر امداد دینے کا پیمانہ اور کار کردگی سے متعلق امداد کی فراہمی  کا پیمانہ مندرجہ ذیل ہے:

  1. بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کے لیے  کارکردگی سے متعلق گرانٹ کل سرمایہ کاری کے 25 فی صد   یا 35 لاکھ روپے، جو بھی کم ہو، جنرل زمرے کے لیے اور کل سرمایہ کاری کا 35 فی صد    یا 45 لاکھ روپے، جو بھی کم ہو،  ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کے ملکیت والے بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کے لیے  ہو گی۔
  2. گاؤں کی سطح کی تنظیموں اور  ایس ایچ جیز ، ایف ایف پی اوز  اور کوآپریٹیو کی فیڈریشنوں کے لیے پرفارمنس گرانٹ کل سرمایہ کاری کے 35 فی صد   یا 200 لاکھ روپے سے زیادہ  ہو گی، جو بھی کم ہو۔
  3. مندرجہ بالا مقصد کے لیے کل سرمایہ کاری (i، ii اور iii) نئے پلانٹ اور مشینری، آلات بشمول ٹیکنیکل سول/الیکٹریکل ورکس اور متعلقہ  بنیادی ڈھانچہ ، ٹرانسپورٹ اور ڈسٹری بیوشن  بنیادی ڈھانچہ ، توانائی کے موثر آلات بشمول تجدید پر کی گئی سرمایہ کاری پر ہونے والے اخراجات پر مشتمل ہوگی۔ توانائی کے آلات، ٹیکنالوجی کی مداخلتیں، ایسی دوسری مداخلتیں  ، جو ویلیو چین کی کارکردگی میں بہتری کا باعث بنتی ہیں  ؛  اور اسکیم کے تحت  ان کو استعمال کرنے والے پہلے سال میں اضافی ملازمتوں کے لیے تنخواہوں کا بل ۔

 ڈی ۔  جزو  3: مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کی حفاظت اور کوالٹی ایشورنس کے نظام کو اپنانا اور پھیلانا:

یہ تجویز ہے کہ ماہی گیری کے بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں کو پیمائش کے قابل پیرامیٹرز کے ایک سیٹ کے تحت کارکردگی گرانٹس کی فراہمی کے ذریعے مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کی مارکیٹنگ میں  تحفظ  اور معیار کی یقین دہانی کے نظام کو اپنانے کی ترغیب دی جائے۔ اس سے مچھلی کی مارکیٹ میں وسعت اور خاص طور پر خواتین کے لیے  روز گار  پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کی امید ہے۔ اس مداخلت سے درست  مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کی سپلائی میں اضافہ کے ذریعے مچھلی کے لیے مقامی مارکیٹ میں توسیع کی توقع ہے  ، جو نئے صارفین کو راغب کرے گی۔ کارکردگی کا پیمانہ کارکردگی گرانٹ فراہم کرنے کے معیار کو ذیل میں ظاہر کرتا ہے:

  1. بہت چھوٹے کاروباری اداروں  کے لیے کارکردگی پر مبنی گرانٹ کل سرمایہ کاری جنرل زمرے کے لیے  25 فی صد  یا، 35 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گی ، جو بھی کم ہو، اور ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کی ملکیت  والے بہت چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے  کل سرمایہ کاری کا 35 فی صد  یا، 45 لاکھ روپے، جو بھی کم ہو۔
  2. چھوٹے کاروبار کے لیے  کار کردگی پر مبنی  گرانٹ کا زیادہ سے زیادہ سائز جنرل زمرے کے لیے کل سرمایہ کاری کے 25 فی صد  یا 75 لاکھ روپے  ، جو بھی کم ہو  ، سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور ایس سی ، ایس ٹی اور خواتین چھوٹے کاروباری اداروں کے  لیے  کل سرمایہ کاری کا 35 فی صد  یا 100 لاکھ روپے، جو بھی کم ہو۔
  3. گاؤں کی سطح کی تنظیموں اور  ایس ایچ جیز ،  ایف ایف پی اوز  اور  کوآپریٹیو کی فیڈریشنوں کے لیے پرفارمنس گرانٹ کا زیادہ سے زیادہ سائز کل سرمایہ کاری کے  35 فی صد  یا 200 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، جو بھی کم ہو۔
  4. مندرجہ بالا مقصد کے لیے کل سرمایہ کاری  ( اے ) نئے پلانٹ اور مشینری پر کی گئی سرمایہ کاری، ( بی )  آلات بشمول ٹیکنیکل سول/الیکٹریکل ورکس اور اس سے منسلک  بنیادی ڈھانچہ  ، ( سی )  ٹرانسپورٹ اور ڈسٹری بیوشن  بنیادی ڈھانچہ (  ڈی)  کچرے کو جمع کرنے اور  اس کے ٹریٹمنٹ  کی سہولت پر ہونے والے اخراجات پر مشتمل ہوگی ، ( ای ) بیماریوں کے انتظام، بہترین انتظامی طریقوں، معیارات، سرٹیفیکیشن اور ٹریس ایبلٹی، ٹیکنالوجی کی مداخلت اور ایسی دوسری سرمایہ کاری  ، جس سے  درست  مچھلی کی پیداوار اور فراہمی ہوتی ہے اور ( ایف )   اسکیم کے تحت  ان کو استعمال کرنے والے پہلے سال میں اضافی ملازمتوں کے لیے تنخواہوں کا بل ۔

 ای   ۔  جزو 2 اور 3 کے لیے پرفارمنس گرانٹ کی تقسیم کا معیار

  1. تشکیل  اور برقرار رکھنے والے روزگار  کی تعداد میں  خواتین کے لیے پیدا کردہ اور برقرار رکھنے والا روزگار بھی شامل ہیں۔  خواتین کے لیے  تشکیل اور دیکھ بھال کی گئی ہر نوکری کے لیے 15000 روپے سالانہ ادا کیے جائیں گے، اسی طرح مرد کے لیے  تشکیل اور برقرار رکھنے والی ہر نوکری کے لیے 10000 روپے سالانہ ادا کیے جائیں گے، جو کہ کل اہل گرانٹ کے   50  فی صد کی حد کے ساتھ مشروط ہے۔
  2. جزو 2 کے لیے ویلیو چین کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ویلیو چین میں کی گئی سرمایہ کاری اور جزو 3 کے تحت مچھلی اور ماہی گیری کی مصنوعات کی حفاظت اور کوالٹی ایشورنس کے نظام کو اپنانے اور بڑھانے کے لیے کی گئی سرمایہ کاری اہل گرانٹ کے 50 فی صد  کی حد تک ، کی گئی سرمایہ کاری کے لیے کارکردگی گرانٹ سرمایہ کاری کے موضوع کی تکمیل کے بعد تقسیم کی جائے گی۔

ایف ۔  جزو 4 : پروجیکٹ کا  بندوبست ، نگرانی اور رپورٹنگ:

اس جزو کے تحت، پروجیکٹ کی سرگرمیوں کا  بندوبست ، نفاذ، نگرانی اور جائزہ لینے کے لیے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹس  ( پی ایم یوز )  قائم کرنے کی تجویز ہے۔

پس منظر:

سال 14-2013 ء  سے  24-2023 ء   کی مدت کے دوران، مچھلی کی پیداوار کے لحاظ سے ماہی گیری کے شعبے میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس میں 79.66 لاکھ ٹن کا اضافہ ہوا ہے ؛ (1971 ء سے 2014 ء ) تک  43 سالوں میں اضافے کے برابر ،   ساحلی ایکوا کلچر میں 14-2013 ء  سے  23-2022 ء  تک  جھینگے کی پیداوار 3.22 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 11.84 لاکھ ٹن  پہنچی (270 فی صد )  کا اضافہ ،  جھینگے کی برآمدات 19368 کروڑ سے  بڑھ کر 43135 کروڑ روپے  پہنچی (123 فی صد  اضافہ )، روز گار میں  تقریباً 63 لاکھ ماہی گیروں اور مچھلی  پالنے والوں کو  مواقع حاصل ہوئے  ۔  گروپ ایکسیڈنٹ انشورنس اسکیم ( جی اے آئی ایس )  کے تحت فی ماہی گیر   کوریج  ایک لاکھ روپے سے بڑھ کر پانچ لاکھ روپے  ہوا ، جس سے مجموعی طور پر 267.76 لاکھ ماہی گیروں کو فائدہ پہنچا۔  روایتی ماہی گیر خاندانوں کے لیے ذریعہ معاش اور غذائی امداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے، جو کہ 340397 سے بڑھ کر 597709  تک پہنچ گیا ہے۔ ترجیحی شعبے  کے  لیے قرض میں 34332 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ14-2013 ء  میں علیحدہ   سے کوئی فنڈ مختص نہیں تھا۔ 2019 ء  میں ماہی پروری کے لیے کسان کریڈٹ کارڈ  ( کے سی سی )  کی توسیع کے نتیجے میں 1.8 لاکھ کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔

نمایاں کامیابیوں کے باوجود، اس شعبے میں متعدد شعبہ جاتی چیلنجوں  کا سامنا ہے۔ یہ شعبہ غیر رسمی نوعیت کا ہے، فصلوں کے خطرے میں کمی، کام کی بنیاد پر شناخت کی کمی، ادارہ جاتی قرض تک ناقص رسائی، بہت چھوٹے اور چھوٹے کاروباری اداروں کے ذریعہ فروخت کی جانے والی مچھلی کی سب سے زیادہ حفاظت اور معیار شامل ہیں ۔ موجودہ پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا  ( پی ایم ایم ایس وائی )  کے تحت نئی ذیلی اسکیم کا مقصد 6000 کروڑ روپے کے مجموعی اخراجات کے ساتھ ان مسائل کو حل کرنا ہے۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Media Coverage

"91.8% of India's schools now have electricity": Union Education Minister Pradhan
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Why India’s Public Sector Banks Are Thriving Like Never Before - Inside the Modi Era Banking Success Story
December 18, 2024

A competitive advantage that sets the Modi era apart from its predecessors has not only been sustaining successful policies but also amplifying and expanding upon them for the national good at the right time.

Such an approach has driven Indian banks to enhance their performance—whether spurred by pressure or competition to sustain public trust.

The MODI ERA-BANKING PERFORMANCE- ON A UPSWING

The Modi era is defined by strong cohesiveness and clarity in governance, fostering upward pressure on banks to perform better in their areas of public accountability.

• The Centre introduced a comprehensive 4Rs strategy—comprising transparent recognition of non-performing assets (NPAs), resolution and recovery measures, recapitalisation of public sector banks (PSBs), and financial system reforms—to address the challenges (PSBs)face.

• An Asset Quality Review, which was completed in 2015 enabled the start of the Swacch Balance Sheet Abhiyaan of Banking Sector.

• The PM in a strong message to the nation and the banking sector mentioned the following:
o “ना खाऊंगा ना खाने दूंगा” (August 12, 2014)
o “It is important to report NPA for even a day rather than sweeping it under the carpet or fudging entries to escape” (Feb 26, 2021)

• The rules have been rewritten for the better. Such advancements were made to ensure better service deliveries and inclusive growth.

• Better monitoring of doubtful accounts, better recovery, and reduced non-performing assets followed consequently.

• Gross NPAs of PSBs 

As banking accountability soared to new heights, a conducive environment for manufacturing and investment was set in place, as they thrived, further it set off an off-an cycle of immense opportunities for banks to capitalise on the investment and manufacturing growth. In consequence,

• India’s growth is no longer episodic (a phenomenon during pre-2014) discounting COVID-19 years.

• Structural reforms spearheaded by the Centre have ensured stability and resilience despite global disruptions like geopolitical wars and recession.

• Overall, the capital adequacy ratio of PSBs improved significantly to 15.43% in September 2024, compared to 11.45% in March 2015, as shown below.

• Indian banks remained well insulated from the fallout of global banking contagion.

• Instead, due to the vibrant domestic market, the public sector bank branches rose from 1.17 lakhs in March 2014 to 1.60 lakhs in September 2024 as shown in the picture below.

• The profitability of PSBs rose from Rs. 36, 270 crore in FY 14 to 1.41 lakh crore in 2023-24 as shown below

• Public trust in the PSBs has strengthened during the Modi era, re-enforcing improved liquidity and financial health of PSBs. The gross advances and deposits of PSBs jumped by 87% and 64% respectively for the decade ending March 2024 as shown below.

On December 9th, 2024, RBI released its Handbook of Statistics on Indian States (2023-24) which shares insights into the performance metrics of banks. It includes the shaping of credit demand in India and the strengthening of bank fundamentals.

PRIORITISED LENDING DISCARDS RIGIDITY, IS INCLUSIVE & PROMISING

The structural reforms undertaken during the Modi era led to a revamp of prioritised lending, shifting focus towards the long-overlooked rural economy. A new approach to priority lending, which had been historically capped at 40% to align banks' actions with national interests, generated more attention and interest from bankers.

Before 2014, the targeted sectors for priortised lending were restricted to only agriculture, small-scale enterprises, and export credit. Due to mismanagement and a lack of accountability, most lending targets remained only on paper with banks riddled with NPAs and poor risk management practices.

After 2014, the lending targets were made more flexible. Some banks were allowed to handle additional appetite for prioritised lending, and permitted to lend finances for other segments such as MSMEs, housing, education, etc.

• The banking ecosystem was nursed and nurtured back from the ills that pulled it back during pre-2014 times. It was supplemented with new schemes that boosted financial inclusion.

• Assessing the market uptick, banks too prioritised personal loans over corporate lending to mitigate risks associated with large NPAs. Smaller, diversified loans reduced volatility and enhanced the financial sector's stability. Digital platforms aided lending with faster approvals and flexible terms, fueling demand.

• The All India rising credit-deposit (CD) ratio of Regional Rural Banks (RRBs) during this phase reflects active utilisation of deposits for lending, reflecting vibrant economic conditions.

• High ratios signal vibrant lending and rural development, while low ratios hint at financial hurdles, directly impacting agriculture, infrastructure, and living standards in RRB-driven regions.

• The southern states have excelled in this area benefitting the most from banking reforms, reflecting a quick movement up the learning curve.

The Centre’s proactiveness has propelled India's development narrative, with more depth. The above trends confirm that the last decade witnessed sustained credit flow to priority sectors, be it agriculture, MSMEs, education, or housing that were crucial for regional economic growth. Southern states have effectively leveraged reforms in priority sector lending, embracing it both in policy and practice.

The Centre has ushered a real change by incentivising banks to innovate and prioritise people-centric policies. In such a manner, the spirit of competitiveness and cooperation has helped banking goals be aligned with national objectives, ensuring benefits reach citizens directly.

Based on the above factors, the national leadership has seen a majestic rise in support base across India in the last three terms, which contrasts with that of the Opposition which has seen a significant dip in its vote bank(indicative of erosion of public trust).