25 اپریل کی شام کو جب مجھے سردار پرکاش سنگھ بادل جی کے انتقال کی خبر ملی تو میں شدید قسم کے حزن و ملال سے بھر گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ان کے انتقال سے میں نے ایک مشفق باپ کی طرح کی ایک شخصیت کو کھو دیا جس نے کئی دہائیوں تک میری رہنمائی کی۔ انھوں نے ایک سے زیادہ طریقوں سے بھارت اور پنجاب کی سیاست کی شکل کو انتہائی مثبت انداز سے تبدیل کردیا ، جسے بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔


بادل صاحب ایک بڑے لیڈر تھے، اس کا وسیع طور پر اعتراف کیا جاتاہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک بڑے دل والے انسان تھے۔ ایک بڑا لیڈر بننا تو آسان ہے ، لیکن ایک بڑے دل والا انسان بننے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ پورے پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ ’بادل صاحب کی تو بات ہی کچھ اور تھی‘)


یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سردار پرکاش سنگھ بادل صاحب کا شمار ہمارے دور کے سب سے بڑے کسان لیڈروں میں ہوتا ہے۔ زراعت ان کا اصل شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی موقع پر تقریر کرتے تو ان کی تقاریر حقائق، تازہ ترین معلومات اور ذاتی بصیرت سے مملو ہوتی تھیں۔


1990کی دہائی میں، جب میں شمالی بھارت میں پارٹی کے کام میں مصروف تھا تب میرا بادل صاحب سے قریبی رابطہ ہوا۔ بادل صاحب کی شہرت پہلے سے ہی تھی – وہ ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو پنجاب کے سب سے کم عمر وزیر اعلیٰ، مرکزی کابینہ کے وزیر اور دنیا بھر میں کروڑوں پنجابیوں کے دلوں پر راج کرنے والے تھے۔ دوسری طرف، میں ایک عام سا کارکن تھا۔ اس کے باوجود، اپنی فطرت کے مطابق، انھوں نے کبھی بھی اس بات سے ہمارے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ وہ گرم جوشی اور شفقت سے بھرے رہتے تھے۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو ان کی آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ بادل صاحب کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والا ہر شخص ان کی ذہانت اور حس مزاح کو یاد کرے گا۔

1990 کی دہائی کے وسط اور اواخر میں پنجاب کی سیاسی فضا بہت مختلف تھی۔ ریاست میں خاصی افراتفری کا ماحول تھا اور 1997میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ہماری پارٹیاں ایک ساتھ لوگوں کے پاس گئیں اور بادل صاحب ہمارے لیڈر تھے۔ ان کی مضبوط ساکھ کا ہی کرشمہ تھا کہ لوگوں نے ہمیں زبردست جیت دلوائی۔ صرف یہی نہیں، ہمارے اتحاد نے چنڈی گڑھ میں میونسپل انتخابات اور لوک سبھا سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی شخصیت کا جادو ایسا تھا کہ ہمارا اتحاد 1997 سے 2017 تک 15سال تک ریاست کی خدمت کرتا رہا۔


ایک واقعہ ہے جسے میں کبھی نہیں بھلاسکتا۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد بادل صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ساتھ امرتسر جائیں گے، جہاں ہم رات کو قیام کریں گے اور اگلے دن متھا ٹیکیں گے اور لنگر کے ذریعے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے میں تھا ، جب انھیں علم ہوا تو وہ میرے کمرے میں آئے اور میرا سامان اٹھانے لگے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ اس کمرے میں جانا ہے جو وزیر اعلیٰ کے لیے مختص ہے اور وہیں رہنا ہے۔ میں انھیں برابر کہتا رہا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ مصر رہے۔ آخر کار ایسا ہی ہوا ، اور بادل صاحب نے دوسرے کمرے میں قیام کیا۔ میں اپنے جیسے ایک بہت ہی معمولی کارکن کے تئیں ان کی اس ادا کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔


بادل صاحب کو گئو شالہ میں خصوصی دلچسپی تھی اور وہ مختلف نسلوں کی گایوں کو پالتے تھے۔ ہماری ایک میٹنگ کے دوران، انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ گیر کی گائے پالیں۔ میں نے ان کے لیے 5 گایوں کا انتظام کیا اور اس کے بعد جب بھی ہم ملتے تو وہ گایوں کے بارے میں بات کرتے اور مذاق بھی کرتے کہ وہ گائیں ہر طرح سے گجراتی ہیں، کبھی غصے میں نہیں آتیں، مشتعل نہیں ہوتیں یا کسی پر حملہ نہیں کرتیں، چاہے ان کے آس پاس بچے کھیل رہے ہوں۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ گجراتی اتنے نرم مزاج ہوتے ہیں... آخر وہ گیر کی گایوں کا دودھ جو پیتے ہیں۔


سنہ 2001 کے بعد مجھے بادل صاحب کے ساتھ ایک مختلف حیثیت سے رابطے کا موقع ملا – اب ہم اپنی اپنی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ تھے۔
مجھے بادل صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا، خاص طور پر زراعت سے متعلق امور میں جیسے پانی کاتحفظ، مویشی پروری اور ڈیری ۔ وہ ایک ایسے شخص بھی تھے جو تارکین وطن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں یقین رکھتے تھے کیونکہ بہت سارے محنتی پنجابی بیرون ملک آباد ہیں۔


ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ الانگ شپ یارڈ کیا ہوتا ہے۔ پھر وہ وہاں آئے اور سارا دن الانگ شپ یارڈ میں گزارا اور یہ سمجھنے کی بھرپور کوشش کی کہ ری سائیکلنگ کیسے کی جاتی ہے۔ پنجاب کوئی ساحلی ریاست نہیں ہے اس لیے ایک طرح سے ان کے لیے شپ یارڈ کی براہ راست کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن نئی چیزیں سیکھنے کی ان کی خواہش ایسی تھی کہ انھوں نے سارا دن وہاں گزارا اور اس شعبے کے مختلف پہلوؤں کو سمجھا۔

میں گجرات حکومت کے ذریعے کچھ کے مقدس لکھپت گردوارے ، جسے 2001 کے زلزلے کے دوران نقصان پہنچا تھا ، کی مرمت اور بحالی کی کوششوں کے تئیں ان کے ستائشی الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔
2014 میں مرکز میں این ڈی اے حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنے شان دار حکومتی تجربے کی بنیاد پر قابل قدر اور بصیرت افروز تجربات سے فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے تاریخی جی ایس ٹی سمیت کئی اصلاحات کی بھرپور حمایت کی۔


میں نے, ہمارے تعلق کے محض چند پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ وسیع سطح پر ہماری قوم کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایمرجنسی کے سیاہ دنوں کے دوران جمہوریت کی بحالی کے لیے بہادر ترین سپاہیوں میں سے ایک تھے۔ جب ان کی حکومتوں کو برطرف کیا گیا تو انھیں خود کانگریس کلچر کی ہٹ دھرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان تجربات نے جمہوریت میں ان کے یقین کو مزید مستحکم کیا۔


پنجاب میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں کے ہنگامہ خیز دور میں بادل صاحب نے پنجاب کو اور بھارت کو پہلے نمبر پر رکھا۔ انھوں نے کسی بھی ایسے منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جو بھارت کو کمزور کرے یا پنجاب کے عوام کے مفادات سے سمجھوتہ کرے، خواہ اس کا مطلب اقتدار کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔


وہ عظیم گرو صاحبان کی تعلیمات پر عمل پیرا اور ان سے گہری وابستگی رکھنے والے شخص تھے۔ انھوں نے سکھ ورثے کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے بھی قابل ذکر کوششیں کیں۔ 1984 کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے میں ان کے کردار کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟


بادل صاحب ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ وہ تمام نظریات کے لیڈروں کے ساتھ کام کر سکتے تھے۔ بادل صاحب نے کبھی بھی کسی بھی تعلق کو سیاسی نفع یا نقصان سے نہیں جوڑا۔ یہ بات قومی اتحاد کے جذبے کو آگے بڑھانے میں خاص طور پر مفید تھی۔


بادل صاحب کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا مشکل ہوگا۔ آپ ایسے معتبر سیاست داں تھے جن کی زندگی بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما رہی لیکن آپ نے نہ صرف ان پر قابو پایا بلکہ ققنس پرندے کی طرح اسی آگ سے دوبارہ جوان ہوکر اٹھے۔ ان کی کمی عرصے تک محسوس کی جائے گی ۔ وہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے اور گذشتہ دہائیوں کے دوران کیے گئے اپنے شاندار کارناموں کی بنا پر بھی یاد کیے جائیں گے۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Modi blends diplomacy with India’s cultural showcase

Media Coverage

Modi blends diplomacy with India’s cultural showcase
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
شری رتن ٹاٹا کو خراج عقیدت
November 09, 2024

It has been a month since Shri Ratan Tata Ji left us. From bustling cities and towns to villages, his absence is deeply felt across every segment of society. Seasoned industrialists, budding entrepreneurs and hardworking professionals mourn his loss. Those passionate about the environment and devoted to philanthropy are equally saddened. His absence has been deeply felt not only across the nation but also around the world.

For the youth, Shri Ratan Tata was an inspiration, a reminder that dreams are worth pursuing and that success can coexist with compassion as well as humility. For others, he represented the finest traditions of Indian enterprise and a steadfast commitment to the values of integrity, excellence and service. Under his leadership, the Tata Group ascended to new heights, embodying respect, honesty and credibility worldwide. Despite this, he wore his achievements lightly, with humility and kindness.

Shri Ratan Tata’s unwavering support for the dreams of others was one of his most defining qualities. In recent years, he became known for mentoring India’s StartUp ecosystem, investing in many promising ventures. He understood the hopes and aspirations of young entrepreneurs and recognised the potential they had to shape India’s future. By backing their efforts, he empowered a generation of dreamers to take bold risks and push boundaries. This has gone a long way in creating a culture of innovation and entrepreneurship, which I am confident will continue to positively impact India for decades to come.

He constantly championed excellence, urging Indian enterprises to set global benchmarks. This vision, I hope, will inspire our future leaders to make India synonymous with world-class quality.

His greatness was not restricted to the boardroom or helping fellow humans. His compassion extended to all living beings. His deep love for animals was well-known and he supported every possible effort focused on animal welfare. He often shared photos of his dogs, who were as much a part of his life as any business venture. His life was a reminder to us all that true leadership is measured not just by one’s achievements, but by one’s ability to care for the most vulnerable.

For crores of Indians, Shri Ratan Tata’s patriotism shone brightest in times of crisis. His swift reopening of the iconic Taj Hotel in Mumbai after the 26/11 terror attacks was a rallying call to the nation—India stands united, refusing to yield to terrorism.

On a personal note, I had the privilege of knowing him very closely over the years. We worked closely in Gujarat, where he invested extensively, including in many of the projects he was very passionate about. Just a few weeks ago, I was in Vadodara with the President of the Government of Spain, Mr. Pedro Sánchez and we jointly inaugurated an aircraft complex where C-295 aircrafts would be made in India. It was Shri Ratan Tata who started working on this. Needless to say, Shri Ratan Tata’s presence was greatly missed.

I remember Shri Ratan Tata Ji as a man of letters—he would frequently write to me on various issues, be it matters of governance, expressing appreciation for government support, or sending congratulatory wishes after electoral victories.

Our close interactions continued when I moved to the Centre and he remained a committed partner in our nation-building efforts. Shri Ratan Tata’s support for the Swachh Bharat Mission was particularly close to my heart. He was a vocal advocate of this mass movement, understanding that cleanliness, hygiene and sanitation are vital for India’s progress. I still remember his heartfelt video message for the Swachh Bharat Mission’s tenth anniversary at the start of October. It was among his final public appearances.

Another cause close to his heart was healthcare and especially the fight against cancer. I recall the programme in Assam two years ago, where we had jointly inaugurated various cancer hospitals in the state. In his remarks that time, he had categorically stated that he wishes to dedicate his final years to healthcare. His efforts to make health and cancer care accessible and affordable were rooted in a profound empathy for those battling diseases, believing that a just society was one that stood by its most vulnerable.

As we remember him today, we are reminded of the society he envisioned—where business can serve as a force for good, where every individual’s potential is valued and where progress is measured in the well-being and happiness of all. He remains alive in the lives he touched and the dreams he nurtured. Generations will be grateful to him for making India a better, kinder and more hopeful place.