Crossing the milestone of 140 crore vaccine doses is every Indian’s achievement: PM
With self-awareness & self-discipline, we can guard ourselves from new corona variant: PM Modi
Mann Ki Baat: PM Modi pays tribute to Gen Bipin Rawat, his wife, Gp. Capt. Varun Singh & others who lost their lives in helicopter crash
Books not only impart knowledge but also enhance personality: PM Modi
World’s interest to know about Indian culture is growing: PM Modi
Everyone has an important role towards ‘Swachhata’, says PM Modi
Think big, dream big & work hard to make them come true: PM Modi

نئی دلّی ،26 دسمبر/  میرے پیارے ہم وطنو ! اس وقت آپ 2021 ء کو الوداع کہنے  اور 2022 ء  کا خیر مقدم کرنے کی تیاری میں مصروف ہوں گے ۔ نئے سال پر، ہر شخص، ہر ادارہ، آنے والے سال میں کچھ  اور بہتر کرنے، بہتر بننے کے عہد  لیتے ہیں ۔ پچھلے سات سالوں سے، ہماری ’ من کی بات ‘بھی ہمیں فرد، سماج، ملک کی بھلائی کو اجاگر کرکے مزید اچھا کرنے اور بہتر بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ ان سات سالوں میں ’من کی بات‘ کرتے ہوئے میں حکومت کی کامیابیوں پر بھی بات کر سکتا تھا۔ آپ  کو بھی اچھا لگتا ، آپ نے بھی سراہا ہوتا  لیکن یہ میرا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے کہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، اخبارات کی سرخیوں سے دور، بہت سے لوگ ایسے ہیں ، جو بہت کچھ اچھا کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنا آج ملک کے مستقبل کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ آج، وہ ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی کوششوں  پر جی جان سے جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی باتیں بہت سکون دیتی ہیں، تحریک دیتی ہیں۔ میرے لئے ’من کی بات‘ ہمیشہ سے ایسے ہی لوگوں کی کوششوں سے بھرا ہوا ، کھلا ہوا ، سجا ہوا ایک خوبصورت باغ رہا ہے اور من کی بات میں تو ہر مہینے میری پوری کوشش ہی اِس بات پر ہوتی ہے ، اس باغ کی کون سی پنکھڑی آپ کے سامنے پیش کروں ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری  خوبصورت  زمین پر نیک کاموں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور آج جب ملک ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے تو یہ جو عوام کی قوت ہے ، ایک ایک شخص کی قوت ہے ، اُس کی تعریف  ، اس کی کوشش ، اس کی محنت بھارت کے اور انسانیت کے تابناک مستقبل کے لئے ایک طرح سے گارنٹی دیتا ہے ۔

ساتھیو ،  یہ عوام کی ہی طاقت ہے ، سب کی کوشش ہے کہ بھارت 100 سال میں آئی سب سے بڑی وباء سے لڑ سکا ہے ۔ ہم ہر مشکل وقت میں ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ اپنے محلے یا شہر میں کسی کی مدد کرنے کے لئے ، جس سے جو ہو سکا ، اُس سے زیادہ کرنے کی کوشش کی ۔ اگر ہم آج دنیا میں ویکسینیشن کے اعداد و شمار کا موازنہ بھارت کے ساتھ کریں تو لگتا ہے کہ اس ملک نے ایسا بے مثال کام کیا ہے، کتنا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ ویکسین کی 140 کروڑ خوراکوں کا سنگ میل عبور کرنا ہر  ہندوستانی کی اپنی کامیابی ہے۔ یہ نظام پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے، سائنس پر اعتماد ظاہر کرتا ہے، سائنس دانوں پر بھروسہ ظاہر کرتا ہے اور یہ ہم ہندوستانیوں کی قوت ارادی کا بھی ثبوت ہے، جو معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں لیکن دوستو ں ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ کورونا کی ایک نئی شکل نے دستک دی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کا ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس عالمی وبا کو شکست دینے کے لئے بحیثیت شہری ہماری کوشش بہت ضروری ہے۔ ہمارے سائنسداں ، اس نئے اومیکرون قسم کا مسلسل مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ نیا ڈیٹا مل رہا ہے، ان کی تجاویز پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں خود آگاہی، خود نظم و ضبط، ملک کے پاس کورونا کے اس قسم کے خلاف بڑی طاقت ہے۔ ہماری اجتماعی طاقت کورونا کو شکست دے گی، اس ذمہ داری کے ساتھ ہمیں 2022 ء میں داخل ہونا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، مہابھارت کی جنگ کے دوران، بھگوان کرشن نے ارجن سے کہا تھا – ’نبھہ سپرشم دیپتم‘ ، یعنی فخر کے ساتھ آسمان کو چھونا۔ یہ ہندوستانی فضائیہ کا نعرہ بھی ہے۔ ماں بھارتی کی خدمت میں مصروف کئی زندگیاں ہر روز فخر کے ساتھ آسمان کی ان بلندیوں کو چھوتی ہیں، ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ گروپ کیپٹن ورون سنگھ کی زندگی ایسی ہی تھی۔ ورون سنگھ ، اس ہیلی کاپٹر کو اڑا رہے تھے ، جو اس ماہ تمل ناڈو میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں، ہم نے ملک کے پہلے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت اور ان کی اہلیہ سمیت کئی بہادروں کو کھو دیا۔ ورون سنگھ بھی  کئی دن تک موت کے ساتھ بہادری سے لڑے  لیکن پھر وہ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جب ورون اسپتال میں تھے، میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا دیکھا ، جو میرے دل کو چھو گیا۔ انہیں اس سال اگست میں شوریہ چکر سے نوازا گیا تھا۔ اس اعزاز کے بعد ، انہوں نے اپنے اسکول کے پرنسپل کو خط لکھا تھا ۔ اس خط کو پڑھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ، وہ جڑوں کو سیراب کرنا نہیں بھولے۔ دوسرا یہ کہ جب ان کے پاس جشن منانے کا وقت تھا  تو انہوں نے آنے والی نسلوں کی فکر کی۔ وہ چاہتے تھے  کہ جس اسکول میں وہ پڑھے  تھے ، وہاں کے طلباء کی زندگی بھی ایک جشن کی طرح بنیں ۔ ورون سنگھ نے اپنے خط میں اپنی بہادری کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح  ، انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو قابلیت میں تبدیل کیا۔ اس خط میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے - 

“ It is ok to be mediocre. Not everyone will excel at school and not everyone will be able to score in the 90s. If you do, it is an amazing achievement and must be applauded. However, if you don't, do not think that you are meant to be mediocre. You may be mediocre in school but it is by no means a measure of things to come in life. Find your calling - it could be art, music, graphic design, literature, etc. Whatever you work towards, be dedicated, do your best. Never go to bed, thinking, I could have put-in more efforts.

دوستو، اوسط سے غیر معمولی بننے کا ،  انہوں نے  ، جو منتر دیا ہے ، وہ بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ اس خط میں ورون سنگھ نے لکھا ہے۔

“Never lose hope. Never think that you cannot be good at what you want to be. It will not come easy, it will take sacrifice of time and comfort. I was mediocre, and today, I have reached difficult milestones in my career. Do not think that 12th board marks decide what you are capable of achieving in life. Believe in yourself and work towards it."

ورون نے لکھا کہ اگر وہ ایک طالب علم کو بھی ترغیب دے سکے  تو یہ بہت  ہوگا لیکن، آج میں کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے پوری قوم کو ترغیب دی ہے۔ ان کا خط بھلے ہی  صرف طالب علموں  کے نام ہے  لیکن انہوں نے ہمارے پورے معاشرے کو پیغام دیا ہے ۔

دوستو، میں ہر سال امتحانات کے موقع پر طلبا  کے ساتھ پریکشا پر چرچا کرتا ہوں ۔ اس سال بھی میں امتحانات سے پہلے طلبا سے بات کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ اس پروگرام کے لئے رجسٹریشن بھی دو دن بعد MyGov.in پر 28 دسمبر سے شروع ہونے والے ہے۔ یہ رجسٹریشن 28 دسمبر سے 20 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس کے لئے 9ویں سے 12ویں جماعت کے طلبا، اساتذہ اور والدین کے لئے آن لائن مقابلہ بھی منعقد کیا جائے گا۔ میں چاہوں گا کہ آپ سب اس میں حصہ لیں۔ آپ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ ہم ایک ساتھ مل کر امتحان، کیریئر، کامیابی اور طالب علم کی زندگی سے متعلق بہت سے پہلوؤں پر غور و فکر کریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب میں آپ کو ایک ایسی بات بتانے جا رہا ہوں ، جو بہت دور، سرحد پار سے آئی ہے۔  اس سے  آپ کو خوشی بھی ہو گی اور حیرانی بھی ہو گی:

(Instrumental + Vocal (VandeMatram)

 

वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम्

सुजलां सुफलां मलयजशीतलाम्

शस्यशामलां मातरम् । वन्दे मातरम्

शुभ्रज्योत्स्नापुलकितयामिनीं

फुल्लकुसुमितद्रुमदलशोभिनीं

सुहासिनीं सुमधुर भाषिणीं

सुखदां वरदां मातरम् ।। १ ।।

वन्दे मातरम् । वन्दे मातरम् ।

 

مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو یہ سن کر بہت اچھا لگا ہو گا ، فخر محسوس ہوا ہوگا ۔ وندے ماترم میں  ، جو بھی جذبہ چھپا ہوا ہے ، وہ ہمیں فخر اور جوش سے بھر دیتا ہے ۔

ساتھیو ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ خوبصورت ویڈیو کہاں کی ہے، کس ملک سے آئی ہے؟ جواب آپ کی حیرت میں اضافہ کر دے گا۔ وندے ماترم پیش کرنے والے یہ طلبا یونان سے ہیں۔ وہاں وہ الیا کے ہائی اسکول میں پڑھ ر ہے ہیں ۔  انہوں نے  ،  جس خوبصورتی اور جذبے  کے ساتھ ’وندے ماترم‘ گایا ہے ، وہ حیرت انگیز اور قابل تعریف ہے۔ اس طرح کی کوششیں دونوں ملکوں کے لوگوں کو قریب لاتی ہیں۔ میں یونان کے ، ان طلباء اور طالبات  کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران کی گئی ، ان کی کوشش کی ستائش کرتا ہوں۔

ساتھیو ،  میں لکھنؤ کے رہنے والے نیلیش جی کی ایک پوسٹ پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ نیلیش جی نے لکھنؤ میں منعقد ہونے والے انوکھے ڈرون شو کی بہت تعریف کی ہے۔ یہ ڈرون شو لکھنؤ کے ریذیڈنسی علاقے میں منعقد کیا گیا تھا۔ 1857 ء کی پہلی جدوجہد آزادی کی شہادت آج بھی ریذیڈنسی کی دیواروں پر نظر آتی ہے۔ ریزیڈنسی میں منعقدہ ڈرون شو میں ہندوستانی جدوجہد آزادی کے مختلف پہلوؤں کو زندہ کیا گیا۔ ’چوری چورا آندولن‘ ہو، ’کاکوری ٹرین‘ کا واقعہ ہو یا نیتا جی سبھاش کی بے مثال ہمت اور بہادری، اس ڈرون شو نے سب کا دل جیت لیا۔ اسی طرح آپ اپنے شہروں، دیہاتوں کی تحریک آزادی سے متعلق منفرد پہلوؤں کو بھی لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی  کی بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ آزادی کا امرت مہوتسو ہمیں جدوجہد آزادی کی یادوں کو جینے کا موقع فراہم کرتا ہے، ہمیں اس کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا تہوار ہے، ملک کے لئے کچھ کرنے کے عزم کو ظاہر کرنے کا ایک متاثر کن موقع ہے۔ آئیے ، ہم جدوجہد آزادی کی عظیم ہستیوں سے ترغیب پاوتے رہیں اور  ملک کے لئے اپنی کوششوں کو مضبوط کرتے رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارا ہندوستان بہت سی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، جن کی تخلیقی صلاحیت دوسروں کو کچھ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک شخص تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کوریلا وٹھلاچاریہ ہیں۔ ان کی عمر 84 سال ہے۔ وٹھلاچاریہ جی اس کی ایک مثال ہیں کہ جب آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ دوستو، وٹھلاچاریہ جی کی بچپن سے ہی خواہش تھی کہ وہ ایک بڑی لائبریری کھولیں۔ ملک تب غلام تھا، کچھ حالات ایسے تھے کہ بچپن کا خواب پھر خواب ہی رہ گیا۔ وقت کے ساتھ، وٹھلاچاریہ ایک لیکچرر بن گئے، تیلگو زبان کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس میں بہت سی کمپوزیشنز تخلیق کیں۔ 6-7 سال پہلے  وہ  ایک بار پھر اپنا خواب پورا کرنے   میں لگ گئے ۔ انہوں نے لائبریری کا آغاز اپنی کتابوں سے کیا۔ اپنی زندگی کی کمائی اس میں لگا دی۔ آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہو کر  اپنا تعاون کرنے لگے۔ یدادری  - بھوناگیری ضلع کے رمناّ پیٹ منڈل کی ، اس لائبریری میں تقریباً 2 لاکھ کتابیں ہیں۔ وٹھلاچاریہ جی کہتے ہیں کہ پڑھائی کے سلسلے میں انہیں  جن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ، وہ کسی اور کو نہ کرنا پڑے ۔ انہیں آج یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ بڑی تعداد میں طلباء کو ، اِس کا فائدہ مل رہا ہے ۔ ان کی کوششوں سے ترغیب پاکر کئی دوسرے گاؤوں کے لوگ بھی لائبریری بنانے میں لگ گئے ہیں ۔

ساتھیو ، کتابیں نہ صرف علم دیتی ہیں بلکہ شخصیت کو سنوارتی ہیں اور زندگی کی تشکیل بھی کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ایک عجیب سی تسکین دیتا ہے۔ آج کل میں دیکھتا ہوں کہ لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے اس سال اتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ اب میں ان کتابوں کو مزید پڑھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے، جس میں مزید اضافہ ہونا چاہیئے۔ میں ’من کی بات’ کے سننے والوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ہمیں اس سال کی آپ کی پانچ کتابوں کے بارے میں بتائیں ، جو آپ کی پسندیدہ رہی ہیں۔ اس طرح آپ دوسرے قارئین کو بھی 2022 ء میں اچھی کتابوں کا انتخاب کرنے میں مدد کر سکیں گے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب ہمارا اسکرین ٹائم بڑھ رہا ہے، کتابوں کا مطالعہ بھی زیادہ سے زیادہ مقبول بنیں ، اس کے لئے بھی ہمیں مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔

میرے پیارے ہم وطنو، حال ہی میں میرا دھیان ایک اور دلچسپ کوشش کی طرف گیا ہے۔ یہ کوشش ہمارے قدیم گرنتھوں اور تہذیبی اقدار کو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبول بنانے کی ہے ۔ پونے میں بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک مرکز ہے۔ اس ادارے نے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مہابھارت کی اہمیت سے واقف کرانے کے لئے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اگرچہ یہ کورس ابھی ابھی شروع ہوا ہے لیکن اس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے  ،  اسے تیار کرنے کا آغاز  100 سال سے بھی پہلے ہوا تھا ، جب ادارے نے اس سے جڑا کورس شروع کیا تو اسے زبردست رد عمل حاصل ہوا ۔  میں اس شاندار  پہل کی بات اس لئے کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہماری روایات کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح جدید انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں تک ، اس کا فائدہ کیسے پہنچے ، اس کے لئے بھی اننوویٹیو طریقے اپنائے جا رہے ہیں ۔

ساتھیو ، آج پوری دنیا میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگ ہماری ثقافت کے بارے میں نہ صرف جاننے کے لئے بے تاب ہیں بلکہ اسے بڑھانے میں مدد بھی کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت سربیا کے اسکالر ڈاکٹر مومیر نکیچ ہیں ( سربائی دانشور ڈاکٹر مومیر نیکیچی )۔ انہوں  نے ایک دو لسانی سنسکرت-سربیائی ڈکشنری تیار کی ہے۔ اس ڈکشنری میں شامل سنسکرت کے 70 ہزار سے زیادہ الفاظ کا سربیائی زبان میں ترجمہ کیا گیا  ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹر نکیچ نے 70 سال کی عمر میں سنسکرت زبان سیکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں مہاتما گاندھی کے مضامین پڑھ کر تحریک ملی۔ اسی طرح کی ایک مثال منگولیا کے 93 سالہ پروفیسر جے گینڈوارم بھی ہے۔ پچھلی 4 دہائیوں میں، انہوں نے تقریباً 40 قدیم تحریروں، نظموں  اور ہندوستان کے کاموں کا منگول زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ملک میں بھی بہت سے لوگ اس قسم کے جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مجھے گوا کے ساگر مولے جی کی کوششوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے، جو سینکڑوں سال پرانی ’کاوی‘ پینٹنگ کو معدوم ہونے سے بچانے میں مصروف  ہیں۔ ’کاوی‘ پینٹنگ اپنے آپ میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل، ’ کاویہ‘ کا مطلب سرخ مٹی ہے۔ قدیم زمانے میں ، اس فن میں سرخ مٹی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ گوا میں پرتگالی دور حکومت میں ، وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں نے دوسری ریاستوں کے لوگوں کو ، اس شاندار پینٹنگ سے متعارف کرایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پینٹنگ ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن ساگر مولے جی نے ، اس فن کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کی کاوشوں کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ ساتھیو ،  ایک چھوٹی سی کوشش، یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا قدم بھی ہمارے شاندار فنون کے تحفظ میں بہت بڑا  تعاون کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ عزم کر لیں تو ملک بھر میں اپنے قدیم فنون کو سجانے، سنوارنے اور بچانے کا جذبہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ میں نے یہاں صرف چند کوششوں کے بارے میں بات کی ہے۔ ملک بھر میں ایسی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ،  ان کی معلومات نمو ایپ کے ذریعے  مجھ تک ضرور پہنچائیں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، اروناچل پردیش کے لوگ ایک سال سے ایک انوکھی مہم چلا رہے ہیں اور اسے’’اروناچل پردیش ایئرگن سرینڈر مہم ‘  کا نام دیا ہے۔ اس مہم میں، لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی ایئرگنز  حوالے کر رہے ہیں  ۔  جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ اروناچل پردیش میں پرندوں کے اندھا دھند شکار کو روکا جاسکے۔ دوستو، اروناچل پردیش پرندوں کی 500 سے زیادہ اقسام کا گھر ہے۔ ان میں کچھ دیسی پرندوں کی اقسام بھی شامل ہیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں لیکن آہستہ آہستہ اب جنگلوں میں پرندوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔ اب اس کو سدھارنے کے لئے یہ ایئرگن سرینڈر مہم چلائی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، پہاڑ سے لے کر میدانوں تک، ایک کمیونٹی سے دوسری کمیونٹی تک، پوری ریاست کے لوگوں نے اسے کھلے دل سے اپنایا ہے۔ اروناچل کے لوگوں نے اپنی مرضی سے 1600 سے زیادہ ایئرگنس سپرد کر دی ہیں۔ میں اس کے لئے اروناچل کے لوگوں کی تعریف اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آپ سب کی طرف سے 2022 ء سے متعلق بہت سے پیغامات اور مشورے آئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، زیادہ تر لوگوں کے پیغامات میں ایک موضوع ہوتا ہے۔ یہ ہے صفائی اور صاف بھارت کا۔ صفائی کا یہ عزم نظم و ضبط، بیداری اور لگن سے ہی پورا ہو گا۔ اس کی ایک جھلک این سی سی کیڈٹس کے ذریعہ شروع کی گئی پونیت ساگر ابھیان میں بھی دیکھی  جا سکتی ہے ۔ اس مہم میں 30 ہزار سے زیادہ این سی سی کیڈٹس نے حصہ لیا۔ این سی سی کے ان کیڈٹس نے ساحلوں کی صفائی کی، وہاں سے پلاسٹک کا کچرا ہٹایا اور اسے ری سائیکلنگ کے لئے جمع کیا۔ ہمارے ساحل، ہمارے پہاڑ تبھی  گھومنے کے قابل ہوتے ہیں ، جب وہاں صفائی ستھرائی ہو ۔ بہت سے لوگ زندگی بھر کسی نہ کسی جگہ جانے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن جب وہ وہاں جاتے ہیں تو جانے  انجانے کچرا بھی پھیلا آتے ہیں ۔ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ جو جگہ ہمیں اتنی خوشی دیتی ہے ، ہم اُسے گندا نہ کریں ۔

ساتھیو ، مجھے صاف واٹر نام  کے ایک اسٹارٹ اپ کے بارے میں معلوم ہوا ہے ، جسے کچھ نوجوانوں نے شروع کیا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے لوگوں کو اپنے علاقے میں پانی کی صفائی اور معیار سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔ یہ صرف صفائی کا اگلا مرحلہ ہے۔ لوگوں کے صاف اور صحت مند مستقبل کے لئے اس سٹارٹ اپ کی اہمیت کے پیش نظر اسے گلوبل ایوارڈ بھی ملا ہے۔

ساتھیو ،  ’ ایک قدم صفائی کی جانب ‘ ، اس کوشش میں ادارے ہوں یا حکومت، سب کا اہم کردار ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر میں کتنی پرانی فائلوں اور کاغذات کا ڈھیر لگا رہتا  تھا۔ جب سے حکومت نے پرانے طریقوں کو تبدیل کرنا شروع کیا ہے، یہ فائلیں اور کاغذ کے ڈھیر ڈیجیٹل ہو کر کمپیوٹر کے فولڈر میں محفوظ ہو رہے ہیں۔ وزارتوں اور محکموں میں پرانے اور زیر التوا مواد کو ہٹانے کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم سے کچھ بہت دلچسپ  چیزین سامنے آئی ہیں ۔ محکمہ ڈاک میں ، جب یہ صفائی مہم شروع کی گئی تو وہاں کا کباڑ خانہ بالکل خالی ہوگیا۔ اب یہ کباڑ خانہ صحن اور کیفے ٹیریا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک اور کباڑ خانے کو دو پہیہ گاڑیوں کے لئے پارکنگ کی جگہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، وزارت ماحولیات نے اپنے خالی کباڑ خانے کو فلاحی مرکز میں تبدیل کر دیا۔ شہری امور کی وزارت نے صاف ستھرا اے ٹی ایم بھی لگایا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کچرا دیں اور نقد رقم لے کر جائیں ۔ شہری ہوا بازی کی وزارت کے محکموں نے خشک پتوں اور درختوں سے گرنے والے فضلے سے نامیاتی کھاد بنانا شروع کیا ہے۔ یہ محکمہ بیکار کاغذ سے اسٹیشنری بنانے کا کام بھی کر رہا ہے۔ ہمارے سرکاری محکمے بھی صفائی جیسے موضوع پر اتنے جدت پسند ہو سکتے ہیں، چند سال پہلے تک کوئی اس پر یقین بھی نہیں کرتا تھا لیکن آج یہ نظام کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ملک کی نئی سوچ ہے ، جس کی قیادت تمام اہل وطن مل کر کر رہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس بار بھی ’من کی بات‘ میں ، ہم نے بہت سے موضوعات پر بات کی۔ ہر بار کی طرح ایک ماہ بعد پھر ملیں گے لیکن 2022 ء میں۔ ہر نئی شروعات آپ کی صلاحیت کو پہچاننے کا موقع بھی لاتی ہے۔ اہداف ، جن کا ہم نے پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ آج ملک ان کے لئے کوشش کر رہا ہے۔  ہمارے  یہاں کہاوت ہے  -

क्षणशकणशश्चैवविद्याम् अर्थं  साधयेत्।

क्षणे नष्टे कुतो विद्याकणे नष्टे कुतो धनम्।|

یعنی جب ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک لمحے سے استفادہ کرنا چاہیئے اور جب ہمیں پیسہ کمانا ہے یعنی ترقی کرنی ہے تو پھر ہر ذرہ یعنی ہر وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ لمحہ بہ لمحہ فنا ہوجانے کے ساتھ علم  اور معلومات ختم ہوجاتی  ہے اور ذرہ ذرہ فنا ہونے سے دولت اور ترقی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز ہم تمام ہم وطنوں کے لئے ایک ترغیب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے، نئی ایجادات کرنی ہیں، نئے اہداف حاصل کرنے ہیں، اس لئے ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اس لئے ہمیں اپنے ہر وسائل کا بھرپور استعمال کرنا  ہو گا ۔ ایک طرح سے یہ آتم نربھر بھارت کا منتر بھی ہے کیونکہ جب ہم اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں گے، ہم انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے، تبھی تو ہم لوکل کی طاقت  پہچانیں گے، تبھی ملک  خود کفیل ہوگا۔  اس لئے ، آئیے ہم اپنا عہد دوہرائیں   کہ بڑا سوچیں گے ، بڑے خواب دیکھیں گے  اور انہیں پورا کرنے کے لئے جی جان لگا دیں گے  اور ہمارے خواب صرف ہم تک ہی محدود نہیں ہوں گے ۔  ہمارے خواب ایسے ہوں گے  ، جن سے ہمارے معاشرے اور ملک کی ترقی جڑی ہو ، ہماری ترقی سے ملک کی ترقی کے راستے کھلیں اور اس کے لئے ہمیں آج ہی سے کام کرنا ہو گا ۔ بغیر ایک لمحہ گنوائیں ، بغیر ایک ذرہ گنوائیں ۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ اسی عہد کے ساتھ آنے والے سال میں ملک آگے بڑھے گا اور 2022 ء ایک نئے بھارت کی تعمیر کا سنہرا باب بنے گا ۔ اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو 2022 ء کی ڈھیر ساری مبارکباد ۔ بہت بہت شکریہ ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address to the Indian Community in Guyana
November 22, 2024
The Indian diaspora in Guyana has made an impact across many sectors and contributed to Guyana’s development: PM
You can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian: PM
Three things, in particular, connect India and Guyana deeply,Culture, cuisine and cricket: PM
India's journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability: PM
India’s growth has not only been inspirational but also inclusive: PM
I always call our diaspora the Rashtradoots,They are Ambassadors of Indian culture and values: PM

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.