کووڈ-19 وبائی مرض پالیسی بنانے کے معاملے میں پوری دنیا کی حکومتوں کے لیے نئے چیلنجز لیکر آیا ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ پائیداری کو یقینی بناتے ہوئے، عوامی فلاح و بہبود کے لیے مناسب وسائل کا انتظام کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
پوری دنیا میں مالی بحران کے اس تناظر میں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستانی ریاستیں 21-2020 میں زیادہ قرض لینے میں کامیاب رہیں؟ شاید یہ جان کر آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ ریاستیں 21-2020 میں اضافی 1.06 لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب رہیں۔ وسائل کی دستیابی میں یہ قابل قدر اضافہ مرکز اور ریاست کے درمیان ’بھاگیداری‘ کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔
ہم نے جب کووڈ-19 وبائی مرض کے جواب میں اپنی اقتصادی پالیسی بنائی، تو ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہمارا یہ حل ’ایک ہی سائز سب کے لیے فٹ آتا ہے‘ والے ماڈل کی پیروی نہ کرے۔ بر اعظم کے طول و عرض کے حامل ایک وفاقی ملک کے لیے، ریاستی حکومتوں کے ذریعے اصلاحات کے فروغ کے لیے قومی سطح پر ایسی کوئی پالیسی تیار کرنا واقعی میں چیلنج بھرا ہے۔ لیکن، ہمیں اپنی وفاقی جمہوریہ کی مضبوطی پر اعتماد تھا اور ہم مرکز اور ریاست کے درمیان بھاگیداری کے جذبہ سے اس راستے پر آگے بڑھے۔
مئی 2020 میں، آتم نربھر بھارت پیکیج کے حصہ کے طور پر، حکومت ہند نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومتوں کو 21-2020 کے لیے اضافی قرض لینے کی اجازت دی جائے گی۔ جی ایس ڈی پی سے 2 فیصد زیادہ کی اجازت دی گئی، جس میں سے ایک فیصد کو مخصوص اقتصادی اصلاحات کے نفاذ سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ ہندوستانی عوامی معیشت میں اصلاح کی یہ پہل نایاب ہے۔ اس کے تحت ریاستوں کو اس بات کے لیے آمادہ کیا گیا کہ وہ اضافی رقم حاصل کرنے کے لیے ترقی پسند پالیسیاں اختیار کریں۔ اس مشق کے نتائج نہ صرف حوصلہ افزا ہیں، بلکہ اس خیال آرائی کے برعکس بھی ہیں کہ ٹھوس اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرنے والے محدود ہیں۔
چار اصلاحات جن سے اضافی قرض لینے کو جوڑا گیا (جس میں سے ہر ایک کے ساتھ جی ڈی پی کا 0.25 فیصد جوڑا گیا تھا) اس کی دو خصوصیات تھیں۔ پہلی، اصلاحات میں سے ہر ایک کو عوام، خاص طور سے غریبوں، کمزوروں، اور متوسط طبقہ کی زندگی کو بہتر بنانے سے جوڑا گیا تھا۔ دوسری، انہوں نے مالی استحکام کو بھی فروغ دیا۔
’ایک ملک ایک راشن کارڈ‘ کی پالیسی کے تحت پہلی اصلاح میں ریاستی حکومتوں کو یہ یقینی بنانا تھا کہ قومی غذائی تحفظ قانون (این ایف ایس اے) کے ےتحت ریاست کے تمام راشن کارڈوں کو فیملی کے تمام ممبران کے آدھار نمبر سے جوڑا جائے اور مناسب قیمت والی تمام دکانوں پر الیکٹرانک پوائنٹ آف سیل ڈیوائسز ہوں۔ اس کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ مہاجر کارکن اپنا غذائی راشن ملک میں کہیں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ شہریوں کو ملنے والے ان فوائد کے علاوہ، فرضی کارڈ اور ڈوپلیکیٹ ممبران کے ختم ہونے سے بھی مالی فائدہ ہوا۔ 17 ریاستوں نے اس اصلاح کو مکمل کر لیا اور انہیں 37600 کروڑ روپے کا اضافی قرض فراہم کیا گیا۔
دوسری اصلاح، جس کا مقصد کاروبار میں آسانی کو بہتر کرنا تھا، کے تحت ریاستوں کو یہ یقینی بنانا تھا کہ 7 قوانین کے تحت کاروبار سے متعلق لائسنس کی تجدید خود کار، آن لائن اور معمولی فیس کی ادائیگی پر کی جائے۔ دوسری شرط تھی کمپیوٹر کے ذریعے اچانک جانچ کا نظام نافذ کیا جائے اور جانچ سے قبل نوٹس دیا جائے تاکہ مزید 12 قوانین کے تحت ہراسانی اور بدعنوانی کو کم کیا جا سکے۔ اس اصلاح سے (19 قوانین کا احاطہ کرتے ہوئے) انتہائی چھوٹی اور چھوٹی انٹرپرائزز کو خاص طور سے مدد ملی، جنہیں ’انسپکٹر راج‘ کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہتر سرمایہ کاری کے ماحول، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور تیزی سے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ 20 ریاستوں نے اس اصلاح کو مکمل کیا اور انہیں 39521 کروڑ روپے کے اضافی قرض کی اجازت دی گئی۔
پندرہویں مالیاتی کمیشن اور متعدد ماہرین تعلیم نے ٹھوس پراپرٹی ٹیکس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ تیسری اصلاح کے تحت ریاستوں کو شہری علاقوں میں بالترتیب جائیداد کے لین دین اور موجودہ اخراجات کے لیے اسٹامپ ڈیوٹی گائیڈ لائن کی قدروں کے مطابق، پراپرٹی ٹیکس اور پانی اور سیوریج چارجز کی بنیادی شرحوں کے بارے میں نوٹیفائی کرنا تھا۔ یہ شہری غریبوں اور متوسط طبقہ کو بہترین معیار کی خدمات مہیا کرائے گا اور بہتر بنیادی ڈھانچہ کی معاونت کے ساتھ ہی ترقی کو آگے بڑھائے گا۔ پراپرٹی ٹیکس بھی اس معاملے میں ترقی پسند ہے اور اس سے شہری علاقوں کے غریبوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ یہ اصلاح میونسپل اسٹاف کے لیے بھی فائدہ مند ہے جنہیں اکثر ان کی اجرت دیر سے ملتی ہے۔ 11 ریاستوں نے ان اصلاحات کو مکمل کیا اور انہیں 15957 کروڑ روپے کے اضافی قرض کو منظوری دی گئی۔
چوتھی اصلاح کاشتکاروں کو بجلی کی مفت سپلائی کے سلسلے میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کو متعارف کرانا تھی۔ اس کے لیے یہ شرط تھی کہ ریاست گیر اسکیم تیار کی جائے اور سال کے آخر تک پائلٹ بنیاد پر کسی ایک ضلع میں اسے حقیقی طور پر نافذ کیا جائے۔ اس کے ساتھ جی ایس ڈی پی کے 0.15 فیصد کے اضافی قرض کو جوڑا گیا تھا۔ تکنیکی اور کاروباری نقصانات میں کمی کے لیے ایک جزو بھی فراہم کیا گیا تھا اور دوسرا محصول اور اخراجات (ہر ایک کے لیے جی ایس ڈی پی کا 0.05 فیصد) کے درمیان کے فرق کو کم کرنے کے لیے تھا۔اس سے تقسیم کار کمپنیوں کے مالی معاملات میں بہتری آتی ہے، پانی اور بجلی کی بچت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور بہتر مالیاتی اور تکنیکی کارکردگی کے ذریعے سروس کے معیار میں بہتری آتی ہے۔ 13 ریاستوں نے کم از کم ایک جزو کو نافذ کیا، جب کہ 6 ریاستوں نے ڈی بی ٹی جزو کو نافذ کیا۔ اس کے نتیجہ میں، 13201 کروڑ روپے کے اضافی قرض کی اجازت دی گئی۔
مجموعی طور پر، 23 ریاستوں نے امکانی 2.14 لاکھ کروڑ روپے میں سے 1.06 لاکھ کروڑ روپے کے اضافی قرض لیے۔ اس کے نتیجہ میں ریاستوں کو 21-2021 کے لیے (مشروط اور غیر مشروط) ابتدائی تخمینی جی ایس ڈی پی کے 4.5 فیصد کے مجموعی قرض کی اجازت دی گئی۔
ہمارے جیسے پیچیدہ چیلنجز والے ایک بڑے ملک کے لیے، یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ متعدد اسباب کی بناپر، اسکیمیں اور اصلاحات سالوں تک غیر فعال رہتی ہیں۔ یہ ماضی کی خوشگوار روانگی تھی، جہاں مرکز اور ریاستیں وبائی مرض کے دوران بہت ہی مختصر وقت میں عوام دوست ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے ایک ساتھ آئیں۔ یہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس والے ہمارے نقطہ نظر کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔ان اصلاحات پر کام کرنے والے افسران کی رائے ہے کہ اضافی رقم کی اس ترغیب کے بغیر، ان پالیسیوں کو نافذ کرنے میں برسوں لگ جاتے۔ بھارت نے ’چوری چھپے اور زبردستی اصلاحات‘ کا ماڈل دیکھا ہے۔ یہ ’پختہ عزم اور ترغیبات سے اصلاحات‘ کا نیا ماڈل ہے۔ میں ان تمام ریاستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنے شہریوں کی بہتری کے لیے اس مشکل وقت میں ان پالیسیوں کو سب سے آگے بڑھ کر شروع کیا۔ ہم 130 کروڑ ہندوستانیوں کی تیزی سے ترقی کے لیے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھیں گے۔