وہیکل اسکریپج پالیسی کا آغاز
ہمارا مقصد ایک قابل عمل سرکلر اکنامی بنانا اور ماحولیات کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کے لیےاعلی اقدار مرتب کرنا ہے: وزیراعظم
گاڑیوں کی اسکریپج پالیسی ملک میں گاڑیوں کی آبادی کی تجدید میں اہم کردار ادا کرے گی ، سائنسی انداز میں سڑکوں سے ان فِٹ گاڑیوں کو ہٹائے گی: وزیراعظم
صاف ستھرا ، بھیڑ بھاڑ سے آزاد اور آسان نقل و حمل کا مقصد21 ویں صدی کے ہندوستان کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے: وزیر اعظم
یہ پالیسی 10 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی نئی سرمایہ کاری لائے گی اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کرے گی: وزیر اعظم
نئی اسکریپنگ پالیسی فضلے سے دولت بنانے کی سرکلر اکنامی میں ایک اہم کڑی ہے: وزیر اعظم
پرانی گاڑی کے اسکریپنگ سرٹیفکیٹ رکھنےوالے لوگوں کو نئی گاڑیوں کی خریداری پر رجسٹریشن کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی ، روڈ ٹیکس میں بھی کچھ چھوٹ ملےگی: وزیراعظم
ہماری کوشش ہے کہ آٹو مینوفیکچرنگ کی ویلیو چین کے حوالے سے درآمدات پر انحصار کم کیا جائے: وزیراعظم

نمسکار!

مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب نتن گڈکری جی، گجرات کے وزیراعلیٰ جناب وجے روپانی جی، آٹو انڈسٹری سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرز، سبھی او ای ایم ایسوسی ایشنز، میٹل اور اسکریپنگ انڈسٹری کے سبھی ممبرز،  خواتین اور حضرات !

75 ویں یوم آزادی سے پہلے آج کا یہ پروگرام ، آتم نربھربھارت کے بڑے اہداف کو کو ثابت کرنے کی سمت میں ایک اور اہم قدم ہے۔ آج ملک نیشنل آٹوموبائل اسکریپج پالیسی لانچ کررہا ہے۔ یہ پالیسی نئے بھارت کی موبیلٹی کو ، آٹو سیکٹر کو نئی شناخت دینے والی ہے۔ ملک میں وھیکل پاپولیشن کے ماڈرنائزیشن کو ،  ان فٹ وھیکل کو ایک سائنٹفک مینر میں سڑکوں سے ہٹانے میں یہ پالیسی بہت بڑا رول ادا کرے گی۔ ملک کے قریب قریب ہر شہری ، ہرانڈسٹری ، ہر شعبے میں اس سے مثبت تبدیلی آئے گی۔

ساتھیو ،

آپ سبھی جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت کے لئے موبلیٹی کتنا بڑا فیکٹر ہے۔ موبلیٹی میں آئی تجدید ، ٹریول اور ٹرانسپورٹیشن کا بوجھ تو کم کرتی ہی ہے ، معاشی ترقی کے لئے بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔21 ویں صدی کا بھارت کلین، کنجیشن فری اور کنوینئنٹ موبیلیٹی کا ہدف لے کر چلے ، یہ آج وقت کا تقاضہ ہے۔ اور اس لئے حکومت کے ذریعہ آج کا یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اور اس میں انڈسٹری کے آپ سبھی عظیم لیڈروں ، آ پ سبھی اسٹیک ہولڈرز کا بہت بڑا رول ہے۔

ساتھیو،

نئی اسکریپنگ پالیسی ، ویسٹ ٹو ویلتھ -کچرے سے کنچن کے مہم کی ،سرکولر اکانومی کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ پالیسی ، ملک کے شہروں سے آلودگی کم کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ تیز رفتار ترقی کے ہمارے کمٹمینٹ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ری یوز، ری سائکل اور ری کووری کے اصولوں پر چلتے ہوئے یہ پالیسی آٹوسیکٹر میں، میٹل سیکٹر میں ملک کی آتم نربھرتا کو بھی نئی توانائی دے گی۔ اتنا ہی نہیں ، یہ پالیسی ملک میں 10 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کی نئی سرمایہ کاری لائے گی اور ہزاروں روزگار پیدا کرے گی۔

ساتھیو،

آج جو پروگرام ہم نے لانچ کیا ہے، اس کی ٹائمننگ اپنے آپ میں بہت خاص ہے۔ ہم آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہونے والے ہیں۔یہاں سے ملک کے لئے آئندہ 25 سال کافی اہم ہیں۔ ان آنے والے 25 سال میں ہمارے کام کاج کے طریقہ ، ہماری روزمرہ کی زندگی ، ہماری تجارت و کاروبار میں کئی طرح کی تبدیلی آنے والی ہے۔ جس طرح ٹکنالوجی بدل رہی ہے ، ہماری لائف اسٹائل ہو یا پھر ہماری اکونمی،  دونوں میں کافی تبدیلی ہوگی۔ اس تبدیلی کے بیچ ہمارے ماحولیات ، ہماری زمین ، ہمارے وسائل، ہمارے رو مٹیریل ، ان سبھی کا تحفظ بھی انتا ہی ضروری ہے۔ ٹکنالوجی کو ڈرائیو کرنے والے ریئر ارتھ میٹلس جو آج ہی ریئر ہیں، لیکن جو میٹل آج دستیاب ہیں، وہ بھی کب ریئر ہو جائیں گے ، یہ کہنا مشکل ہے۔ مسقتبل میں ہم ٹکنالوجی اور انوویشن پر تو کام کرسکتے ہیں ، لیکن جو دھرتی ماتا سے ہمیں وسائل ملتے ہیں ، وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اس لئے ، آج ایک طرف بھارت ڈیپ اوسین مشن کے توسط سے نئے امکانات تلاش کررہا ہے، تو وہیں سرکولر اکانمی  کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ترقی کا ہم سسٹین یبل بنائیں، انوائرنمنٹ فرینڈلی بنائیں۔ کلائمٹ چینج کے چیلنجز، ہم آئے دن محسوس کررہے ہیں ۔ اس لئے بھارت کو اپنے مفاد میں، اپنے شہریوں کے مفاد میں بڑے قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ گزشتہ برسوں میں توانائی کے سیکٹر میں غیر معمولی کا م ہوا ہے۔ سولر اور ونڈ پاور ہو  یا پھر بایوفیول، آج بھارت دنیا میں اگلی صف کے ملکوں میں شامل ہورہا ہے۔ ویسٹ ٹو ویلتھ کی ایک بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس کو سوچھتا سے بھی جوڑا گیا ہے اور آتم نربھرتا سے بھی جوڑا گیا ہے ۔بلکہ آج کل تو ہم سڑکوں کی تعمیر میں ویسٹ کا بڑی مقدار میں استعمال کررہے ہیں۔سرکاری بلڈنگ ، غریبوں کے لئے گھر کی تعمیر میں بھی ری سائکلنگ کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

ساتھیو،

ایسی ہی کئی طرح کی کوششوں میں آج آٹوموبائل سیکٹر کا نام بھی جڑگیا ہے۔ اس پالیسی سے عام خاندانوں کو ہر طرح سے کافی فائدہ ہوگا۔ سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ پرانی گاڑی کو اسکریپ کرنے پر ایک سرٹیفکیٹ ملے گا ۔ یہ سرٹیفکیٹ جس کے پاس ہوگا اسے نئی گاڑی خریدنے پر رجسٹریشن کے لئے کوئی پیسہ نہیں دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اسے روڈ ٹیکس میں بھی کچھ رعایت دی جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پرانی گاڑی کی میننے نینس کاسٹ ، ری پیئر کاسٹ ، فیول ایفی شیئنسی ، اس میں بھی بچت ہوگی۔ تیسرا فائدہ براہ راست زندگی سے جڑا ہے۔ پرانی گاڑیوں ، پرانی ٹکنالوجی کی وجہ سے سڑک حادثہ کا خطرہ کافی زیادہ رہتا ہے، اس سے نجات ملے گی۔چوتھا ، اس سے ہماری صحت پر آلودگی کی وجہ سے جو اثرپڑتا ہے ، اس میں بھی کمی آئے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت گاڑی صرف اس کی ایج دیکھ کر ہی اسکریپ نہیں کی جائے گی۔ گاڑیوں کا سائنٹفک طریقہ سے اتھارائزڈ اوٹومیٹیڈ ٹسٹنگ سنٹر پر فٹ نیس ٹسٹ ہوگا۔ اگر گاڑی ان فٹ ہوگی تو سائنٹفک طریقہ سے اسکریپ کیا جائے گا۔ اس کے لئے ملک بھر میں جو رجسٹرڈ وھیکل اسکریپنگ فیسلٹیز بنائی جائیں گی وہ ٹکنالوجی ڈرائون ہوں ، ٹرانسپیرنٹ ہوں، یہ بھی یقینی بنایا جائے گا۔

ساتھیو،

فارمل اسکریپنگ پر کیا فائدہ ہوتا ہے ، گجرات نے تو اسے براہ راست محسوس کیا ہے، اور ابھی نتن جی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ گجرات کے النگ کو شپ ری سائکلنگ ہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ النگ، دنیا کی شپ ری سائکلنگ انڈسٹری میں اپنی حصہ داری تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ شپ ری سائکلنگ ہب کے اس انفراسٹکچر نے  یہاں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا کئے ہیں۔ اس پورے علاقے میں انفرااسٹرکچر بھی ہے اور ہنرمند افرادی قوت بھی ہے۔ ایسے میں جہازوں کے بعد گاڑیوں کی اسکریپنگ کا بھی یہ بہت بڑا ہب بن سکتا ہے۔

ساتھیو،

اسکریپنگ پالیسی سے پورے ملک میں اسکریپ سے جڑے سیکٹر کو نئی توانائی ملے گی، نیا تحفظ ملے گا خاص طور پر اسکریپنگ سے جڑے جو ہمارے مزدور ہیں  جو چھوٹے کاروباری ہیں ، ان کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ اس سے مزدوروں کو محفوظ ماحول ملے گا ، منظم سیکٹر کے دوسرے  ملازمین جیسے فوائد بھی ان کو مل پائیں گے۔ اتنا ہی نہیں ، اسکریپ کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری ، اتھارائزڈ اسکریپنگ سنٹرز کے لئے  کلکشن ایجنٹ کا کام بھی کرسکتے ہیں۔

ساتھیو،

اس پروگرام  سے آٹو اور میٹل انڈسٹری کو کافی تقویت ملے گی۔ گزشتہ سال ہی ہمیں تقریباً 23 ہزار کروڑ روپئے کا اسکریپ  اسٹیل امپورٹ کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ بھارت میں جو ابھی تک اسکریپنگ ہوتی ہے ، وہ پروڈکٹیو نہیں ہے۔ انرجی ری کووری نہ کے برابر ہے۔ ہائی-اسٹرینتھ  اسٹیل الائیز کی پوری ویلیو نہیں نکل پاتی اور جو قیمتی میٹل ہیں ،ان کی ری کووری بھی نہیں ہوپاتی۔ اب جب ایک ایک سائنٹفک ، ٹکنالوجی پر مبنی اسکریپنگ ہوگی تو ہم ریئر ارتھ میٹل کو بھی ری کوور کرپائیں گے۔

ساتھیو،

آتم نربھربھارت کو رفتار دینے کے لئے ، بھارت میں انڈسٹری کو سسٹینبل اور پروڈکٹیو بنانے کے لئے مسلسل قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ ہماری یہ پوری کوشش ہے کہ آٹو مینوفیکچرنگ سے جڑی ویلیو چین کے لئے جتنا ممکن ہو ، اتنا کم ہمیں ایمپورٹ پر انحصار کرنا پڑے۔ لیکن اس میں انڈسٹری کو بھی  تھوڑی ایکسٹرا ایفورٹس کی ضرورت ہے۔ آنے والے 25 اسل کے لئے آپ کے پاس بھی آتم نربھر بھارت کا ایک واضح روڈ میپ ہونا چاہئے۔ ملک اب کلین ، کنجیشن فری اور کنوینئنٹ موبیلٹی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لئے پرانی اپروچ  اور پرانی پریکٹسز کو بدلنا ہی ہوگا۔ آج بھارت ،سیفٹی اور کوالٹی کے حساب سے گلوبل اسٹینڈرڈز اپنے شہریوں کو دینے کے لئے عہدبند ہے۔ بی ایس-4 سے بی ایس-6 کی طرف  سیدھے ٹرانزیشن کے پیچھے یہی سوچ ہے۔

ساتھیو،

مک میں گرین اور کلین موبیلٹی کے لئے سرکار  ری سرچ سے لے کر انفرااسٹرکچر تک، ہر سطح پر وسیع پیمانے پر کام کررہی ہے۔ ایتھنول  ہو، ہائیڈروجن فیول ہو یا پھر الیکٹرک موبیلٹی، سرکار کی ان ترجیحات کے ساتھ انڈسٹری کی سرگرم حصہ داری بہت ضروری ہے۔ آر& ڈی  سے لے کر انفرااسٹرکچرتک، انڈسٹری کو اپنی حصہ داری بڑھانی ہوگی۔ اس کے لئے جو بھی مدد آپ کو چاہئے ، وہ سرکار دینے کے لئے تیار ہے۔ یہاں سے ہمیں اپنی پارٹنر شپ کو نئے لیول پر لے جانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نیا پروگرام ،  ملک کے باشندوں میں بھی  اور آٹوسیکٹر میں بھی ایک توانائی پیدا کرے گا، نئی رفتار دے گا، اور نیا اعتماد بھی پیدا کرے گا۔ آج کے اس اہم موقعے کو ، میں نہیں مانتا ہوں کہ صنعتی حلقے کے لوگ جانے دیں گے۔  میں نہیں مانتا ہوں کہ پرانی گاڑیوں کو ڈھونے والے لوگ اس موقع کو جانے دیں گے۔ یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا اعتماد لے کر آیا ہوا ایک نظام ہے۔ آج گجرات میں اس پروگرام کو لانچ کیا گیا ہے، پالیسی کو لانچ کیا گیا ہے، اور گجرات کا تو ویسے بھی ، اور ہمارے ملک میں بھی سرکیولر اکونمی کا لفظ اب نیا آیا ہوگا۔ لیکن ہم لوگ تو جانتے ہیں۔ کہ اگر کپڑے پرانے ہوتے ہیں تو ہمارے گھروں میں دادی ماں اس میں سے اوڑھنے کے لئے رضائی بنادیتی ہیں۔ پھر رضائی بھی پرانی ہوجاتی ہے۔ تو اس کو بھی پھاڑ-پھوڑ کر کے کچرا-پوتا کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ری سائکلنگ کیا کہتے ہیں، سرکیولر اکنومی کیا کہتے ہیں۔ وہ بھارت کی زندگی میں نئی -نئی ہے۔ ہمیں بس سائنٹفک طریقہ سے اس کو آگے بڑھانا ہے، اور سائنٹفک طریقہ سے آگے بڑھائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ کچرے میں سے کنچن بنانے کی اس  مہم میں ہر کوئی شریک ہوگا اور ہم بھی اور نئی -نئی  چیزوں  کی ایجاد کرنے کی سمت میں کامیاب ہوں گے۔ میں پھر ایک بار سبھی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت-بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!